مضامین کی فہرست


اپریل۲۰۰۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صدربش کے دورے کے تناظر میںبنیادی تبدیلی کی ضرورت

صدر جارج بش کا افغانستان‘ بھارت اور پاکستان کا دورہ (۲۸ فروری تا ۴ مارچ ۲۰۰۶ئ) بھارت کے لیے تو بجاطور پر تاریخ ساز اور کامیاب ترین قرار دیا جا رہا ہے‘ مگر پاکستان کے لیے‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے علاوہ‘ سب ہی اسے ناکام اور ذلت اور پشیمانی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود جنرل صاحب صدربش کے ساتھ ۴مارچ کی   مشترکہ پریس کانفرنس میں زبانِ حال (body language)سے وہی بات کہہ رہے تھے جو اندرونِ ملک اور بیرون ملک تمام اصحابِ نظر کی زبان پر ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ایک ہی جملے میں پورے مضمون کا مفہوم سمو دیا ہے:

Bush gives Indians a hug and Pakistan a friendly pat.

بش نے بھارت کو تو کو گلے لگا لیا اور پاکستان کو فقط ایک دوستانہ تھپکی پر ٹرخا دیا۔

نیویارک ٹائمز نے کوئی پردہ نہ رکھا اور بڑے طنز سے لکھا:

یہ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کیا مسٹربش نے آدھی دنیا کے گرد سفر صرف اس لیے کیا کہ اپنے سب سے اہم حلیفوں میں سے ایک کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو شرمندہ کریں۔

صدربش نے جنرل صاحب کے منہ پر کہا کہ میں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم کتنے پانی میں ہو___ دہشت گردی کے خلاف میرے ساتھ تعاون کے بارے میں جو کہہ رہے ہو‘ عملاً کچھ کر بھی رہے ہو؟ اس سے پہلے کابل میں حامدکرزئی کی ہم زبانی میں فرمایا کہ میں جنرل پرویزمشرف سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بارے میں پوچھوں گا۔ پھر دہلی میں کشمیر کے پس منظر میں یہی بات کہی۔ اور بالآخر ۴مارچ کو اسلام آباد میں جنرل صاحب کو مخاطب کرکے‘ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے‘ خسروانہ شان سے فرمایا: میرے مشن کا ایک حصہ یہ طے کرنا تھا کہ آیا صدر (پرویز مشرف) ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتناکہ وہ پہلے تھے؟

اسرائیلی ویب سائٹ Debka File نے A chill has crept over US-Pakistan relations(پاک امریکا تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں) کے عنوان سے بش اور مشرف کی مذکورہ بات چیت کی یوں منظرکشی کی ہے:

تعلقات کو متلاطم لہروں کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اپنی گفتگو کے اصل موضوعات پر مختلف راے رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مشرف کے مرکزی مقام کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے‘ جب کہ جوہری پھیلائو ہمیشہ سے زیادہ دکھتی رگ ہے… پاکستان‘ دہلی اور واشنگٹن دونوں جگہ ہار رہا ہے۔ اس لیے بش کا  دورئہ اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا شراکت کے لیے ایک اہم لمحہ تھا‘ اور اسی طرح یہ مشرف کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم تھا۔ بش انتظامیہ کی نظروں میں اس کے آہنی ہاتھ کی بڑی قدروقیمت تھی‘ مگر اب تو اس کے اُلٹے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ طالبان کی باقیات افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسامہ بن لادن اور اس کے صف اوّل کے رہنما ئوں نے اپنی گرفتاری کو مسلسل ناممکن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک کھلا زخم ہے۔ اسلام آباد کے بعض باخبرسفارتی ذرائع کو اندیشہ ہے کہ بش انتظامیہ اس یقین تک پہنچ رہی ہے کہ اب ایک کمزور پاکستانی فوج اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک طاقت ور فوج ناین الیون کے بعد اس وقت ضروری تھی‘ جب امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت تھی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کی ایک منافع بخش اسٹرے ٹیجک شراکت قائم رہے مگرفی الحقیقت مشرف کا پاکستان‘ بھارت کے مقابلے میں تیزی سے بازی ہاررہا ہے۔ بش کے دورے نے پانچ سالہ پرانی شراکت میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب جنرل کے اس موقف کوتسلیم نہیں کرتا کہ وہی ملک کا واحد سیکولر لیڈر ہے جو ملاؤں اور جہادیوں سے جو پاکستان کے لیے طاعون ہیں‘ نمٹ سکتا ہے۔ (Debka File، ۵مارچ ۲۰۰۶ئ)

اس کی بازگشت واشنگٹن پوسٹ کے ۳مارچ کے اداریے (بہ عنوان: جنرل مشرف کے لیے ایک پیغام) میں سنی جاسکتی ہے:

صدربش نے کل افغانستان کا اچانک دورہ کیا تاکہ اس کی نئی جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ ساری دنیا کی نظریں اس جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر وہ بھارت گئے جہاں ان کے دورے کا مرکزی نکتہ امریکا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت [بھارت] کے تیزی سے بڑھتے ہوئے   مشترک مفادات تھے۔ دورے کے تیسرے مرحلے میں وہ پاکستان پہنچے۔ بھارت  [کی جمہوریت] اور پاکستان کے فرق کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جہاں پرویز مشرف نے ۱۹۹۹ء میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اور اِس وقت بھی وہ اقتدار کے واحد مالک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسٹربش نے اپنے پاکستانی دوست کے بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر مسٹر بش واقعی یہ یقین رکھتے ہیں تو وہ بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ سادہ لوح ہیں جنھوں نے بہت عرصہ قبل ایک ایسے لیڈر کے برسرِعام کیے گئے  وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے‘ کیوں کہ اس نے اپنے وعدوں کو ایک سے زیادہ دفعہ توڑا ہے۔ جنرل مشرف اقتدار پر اپنے قبضے کے بعد جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کرتے آرہے ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی سیکولرجمہوری پارٹیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی مدت کو ۲۰۰۷ء تک بڑھانے اور صدر اور فوج کے لیے نئے دستوری اختیارات کے بدلے میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک آرمی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس سے منحرف ہوگئے۔

اب جنرل مشرف کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آیندہ سال جن انتخابات کا وعدہ ہے‘   وہ ان کو ملتوی کردیں گے اور پارلیمنٹ جو ۲۰۰۲ء کے انتہائی بے قاعدہ انتخابات میں منتخب ہوئی تھی‘ ان کو ازسرنو منتخب کرلے گی۔ مختصر یہ کہ جنرل مشرف کو واضح طور پر امید ہے کہ وہ اپنی فوجی حکومت کو غیرمعینہ مدت تک طول دے لیں گے‘ جب کہ امریکی صدر کی سیاسی و معاشی حمایت انھیں حاصل رہے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے اپنی انتظامیہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے وقف کردیا ہے۔مسٹربش کو داددینی چاہیے کہ وہ جنرل کے کھیل کو سمجھتے ہیں اور اسے روکنے کی کم سے کم ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔

اس میں پاکستان کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے حقیقی طور پر تیار کرنے کے لیے کوششیںشامل ہونی چاہییں۔ مشرف کے بہت سے وعدوں کے باوجود‘ پاکستان ایک انتہائی غیرمستحکم ملک ہے جہاں اسلامی انتہاپسندی کا خطرہ بہت بڑا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اس خطرے کے خلاف امریکا کا تدبیراتی (tactical) اتحادی ہے‘ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے ان کے انکار نے صورت حال کو محض خراب تر کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اس ناقابلِ اعتبار جنرل پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اس کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کرے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کا نمایندہ چارلس دھاراپِک اپنے ۱۱مارچ ۲۰۰۶ء کے مکتوب میں پاکستان کی زبوں حالی کا نقشہ Pakistan Feels Jilted and Sulks  (پاکستان محسوس کرتا ہے کہ اسے جھانسہ دیا گیا ہے اور برہم ہے)کے عنوان سے کچھ اس طرح کھینچتا ہے:

جارج بش کے بھارت کے ’تاریخی‘ دورے کے بعد ۳‘۴ مارچ کو پاکستان میں ان کے قیام کو لازماً ایک ضدِّعروج (anti climax) ہونا تھا۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ خراب ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کی امریکا مخالف بڑی لابی کو تضاد‘ تلون اور    بے وفائی کے الزامات کے لیے بہت زیادہ لوازمہ فراہم کیا۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے جو امریکا کے ساتھ اتحاد کے چیمپین ہیں اور جنھیں صدربش ’اپنا یار‘ کہتے ہیں‘ خود کو ہمیشہ سے زیادہ مشکلات میں گھِرا ہوا پایا۔

بش نے بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے نیوکلیر طاقت اور اسلحے کے بارے میں عالمی قواعد میں استثنا مہیا کرکے تاریخی اقدام کیا۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے بھارت کی طرح ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی عدم پھیلائو کے معاہدے میں شریک نہیں ہوا‘ اسے اس طرح نہیں نوازا گیا۔

امریکا نے بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت اور اسے ۲۱ویں صدی کے لیے ایک   عالمی طاقت (global force)اور عالمی شریک کار (global partner) قرار دیا اور دفاع‘ تعلیم وتحقیق‘ تجارت و معیشت‘ مشترک سرمایہ کاری‘ فوجی مشقوں میں شراکت‘ اور چین کا راستہ روکنے والی مزاحمتی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے امریکا نے بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور مشترک دفاعی پیداوار کے میدانوں میں بھرپور بلکہ بے قید تعاون کے جو معاہدے کیے‘ انھوں نے عالمی سیاسی نقشے میں بھارت‘ امریکی‘ اسرائیلی گٹھ جوڑ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے بھارتی قیادت کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ کلدیپ نائر کے   تازہ ترین مضمون سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں پاکستان اور جنرل مشرف کو‘ جو خود کو امریکا کا بہترین حلیف اور ناٹو کا غیررکن شریک کار سمجھتے ہیں (بش اور مشرف ایک دوسرے کو اپنا یار ’buddy‘کہتے ہیں)‘ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ جس طرح کبھی چین سے تعلق استوار کرنے کے لیے اسلام آباد کا راستہ اختیار کیا گیا تھا‘ اب امریکا سے دوستی کے لیے دہلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کا مشورہ یہ ہے:

پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک پہنچنے کے لیے دہلی کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن بھارت یہ چاہے گا کہ پہلے جہادیوں کے تربیتی کیمپ ختم کردیے جائیں‘ اور آئی ایس آئی دراندازی کے منصوبے کو ایک آپشن کے طور پر استعمال کرنا ترک کردے۔ دہلی میں بش اس کے قائل ہوگئے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسی کا ایک اہم جز سرحدپار دہشت گردی ہے۔

پاکستان کی اصل پریشانی کشمیر ہونی چاہیے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے  مشترکہ بیان میں امریکا نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں بش نے یہ کہتے ہوئے اپنے پہلے موقف کو دہرایا: یہ ان دو ممالک کا معاملہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ کریں‘ اگر مطلوب ہو تو امریکا کی مدد سے۔

صدربش کے دورے کا اگر کوئی ناقابلِ تردید پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی    عالمی سیاست میں پورے سوچ بچار اور ۱۵ سال پر پھیلی ہوئی تیاری کے ساتھ بھارت سے   اسٹرے ٹیجک شراکت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور اسرائیل کے بعد اب بھارت اس کا سب سے معتمدعلیہ حلیف ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری اپنی    خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں تعاون کے تنکوں کا سہارا لینے پر تلے ہوئے ہیںتو اس کے علاوہ کیا کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ ان کا شمار ایسے لوگوں میں کرے گی جن کے بارے میں کتاب الٰہی کا فیصلہ ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں اور قلب ہیں جو تفکر سے محروم ہیں۔

بش کے اس دورے کے حوالے سے بھارت اور امریکا کے نیوکلیر معاہدے کو مرکزی اہمیت دی جارہی ہے اور وہ اس کا مستحق ہے۔ لیکن یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکا‘ بھارت سے اپنے تعلقات اسٹرے ٹیجک بنیادوں پر استوار کرنے کا مدت سے خواہاں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین تصادم کے موقع پر امریکا نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھارت کو اپنے نیوکلیر اداروں کے تشکیلی دور میں امریکاسے مدد ملی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ دوطرفہ افادیت کی حامل‘ تجارت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا حصول راجیوگاندھی کے ۱۹۹۵ء کے دورے سے شروع ہوا تھا جو پچھلے ۱۰ برسوں میں مستحکم سے مستحکم تر ہوتا گیا۔ اسرائیل نے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ کلنٹن کے دورحکومت میں اسٹرے ٹیجک شراکت استوار کرنے کی ابتدا ہوئی (تفصیل کے لیے دیکھیے: کلنٹن کے مشیر ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India)‘ ناین الیون کے بعد یہ تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک اہم مطالعے میں جو امریکی فضائیہ کے لیے کیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے بارے میں ’ردِّدہشت گردی‘(counter terrorism) کے سلسلے کی تفصیل موجود ہے اور پاکستان کی ساری خدمات کے مقابلے میں بھارت کے تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا نہایت اہم مطالعہ عالمی امن کے لیے کارنیگی وقف کے زیراہتمام ایک اہم امریکی مفکر ایشلے جے ٹیلیز نے کیا ۔ اس کا عنوان ہی اس کے مقصد کا عکاس ہے: India: As a New Golbal Power - An Action Agenda for the United States. [بھارت‘ ایک نئی گلوبل قوت: امریکا کے لیے منصوبۂ عمل]۔

جو کچھ ۱۸جولائی ۲۰۰۵ء کے بش ‘من موہن سنگھ اعلامیے میں کہا گیا اور جسے ۲مارچ ۲۰۰۶ء کے دہلی معاہدے میں آخری شکل دی گئی‘ وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو ۱۰ سال سے خاموشی سے کی جارہی تھیں اور جس کے لیے بھارتی سفارت کار‘ بھارت کے لیے مہم چلانے والے پیشہ ور افراد اور ادارے اور سیاسی قیادت سرگرم عمل تھی۔

اس معاہدے نے این پی ٹی کو عملاً غیرموثر کر دیا ہے اور اب امریکا کھلے بندوں بھارت کو نیوکلیر میدان میں ہرمدد دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ نام پُرامن استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں وہ وہ تمام ری ایکٹر جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اپنے تصرف میں رکھنے اور انھیں عالمی معائنے سے باہر رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ گویا اس کو عملاً ایک نیوکلیر اسلحہ رکھنے والا ملک تسلیم کرلیاہے اور اس کے اپنے افزود کردہ پلوٹونیم کو مزیداسلحہ سازی کے لیے کھلاچھوڑ دیا گیا۔ اس کارنیگی سنٹر کی ایک محقق اور سائنس دان جوزفن سِرِن کیون (Josphen Cirincion) نے کہا ہے:

اس کے ایک تہائی ری ایکٹروں کا کسی قسم کا کوئی معائنہ نہیں کیا جاسکے گا‘ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ درحقیقت اس سودے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہرسال جتنی مقدار میں ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے‘ وہ اسے دگنا یا تین گنا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس وقت وہ ۶سے ۱۰ تک بنا سکتا ہے۔ غیرعسکری ری ایکٹروں کو امریکی ایندھن کی فراہمی سے اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملٹری ری ایکٹروں کی پیداوار کو تین گنا کردے۔  اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہوجائے گی‘ اس لیے کہ پاکستان یہ سب کچھ ہوتے دیکھ کر‘ خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا‘ نہ چین یہ دیکھ سکتا ہے‘ اور جاپان کیا کرے گا؟ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور حکومت کے لیے بھی۔

امریکا کو خود اپنے چھے سے زیادہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کو نیوکلیر ری ایکٹر اور دوسرا مواد فراہم کرسکے۔

بھارت اور امریکا کا یہ گٹھ جوڑ فقط نیوکلیر میدان ہی میں نہیں بلکہ دفاع‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی منتقلی‘ غرض ہرمیدان میں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسے اسٹرے ٹیجک شراکت کہا گیا ہے اور کُھل کر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بھارت کو اکیسویں صدی کی ایک عالمی قوت بنانے اور امریکا اور بھارت کے مل کر عالمی سیاسی بساط کا نقشہ بنانے کے لیے ہے۔ وہ نقشہ کیا ہے؟ اس کے چار بڑے بڑے اہداف ہیں:

۱- پہلا ہدف یہ ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں سب سے بالاتر عالمی قوت رہے اور کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے والا نہ اُبھر سکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا نے دو حلیف منتخب کیے ہیں: ایک اسرائیل جو شرق اوسط میں اس کا نقیب ہوگا‘ اور دوسرا بھارت جسے ایشیا کی چودھراہٹ سونپی جارہی ہے۔

۲- دوسرا بنیادی ہدف چین کا محاصرہ ہے‘ اس لیے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ یورپ کو ناٹو کی وجہ سے اپنے دائرے میں رکھ سکتا ہے‘ البتہ چین اس کے لیے اصل مدِّمقابل (challenger) بن سکتا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ایشیا ہی سے ایک طاقت کو میدان میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے چین سے اسٹرے ٹیجک تعلقات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کو الگ الگ سلوک کا سزاوار سمجھا جائے۔

۳- تیسرا ہدف یہ ہے کہ اسلام اور عالمِ اسلام کو ایک منظم قوت بن کر اُبھرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بھی اسلامی احیا کا راستہ روکنا‘ مسلم ممالک کو    فوج کشی اور معاشی مقاطعے کے ذریعے کمزور کرنا‘ اور اسلامی اتحاد کی جگہ مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار کرنا ہے۔

۴- چوتھا ہدف گلوبلائی زیشن‘ کھلی منڈی اور آزاد تجارت اور آزاد سرمایہ کاری کے ذریعے‘ نیز کثیرقومی کارپوریشنوں اور این جی اوز کے توسط سے معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینا اور ٹکنالوجی اور فوجی قوت کے میدانوں میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی ایسی بالادستی کو  دوام بخشنا ہے کہ مقابلے کی قوتیں اور تہذیبیں اُبھر نہ سکیں اور اس طرح امریکا کی قیادت میں ایک نئے سامراجی دور کو مستحکم کیا جا سکے۔

اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے معاشی اور سیاسی حربوں کے ساتھ فوجی قوت کا استعمال اور اس کے لیے ایک نئے فلسفے اور خارجہ پالیسی کے ایک نئے آہنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ جس کے ذریعے عالمی ادارے اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کی جاسکے۔ یک طرفہ کارروائی‘ پیش بندی کی بنیاد پرحملے‘ حکومت کی تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر صدمے اور رعب کی حکمت عملی (shock and awe strategy) اس کا اہم حصہ ہے۔ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ اگر آج کسی سے ہے تو اسی ذہن اور اسی منصوبۂ کار سے ہے۔

امریکا اور بھارت کے معاشی اور توانائی کے میدان میں بظاہر تعاون کے پیچھے بھی یہی نقشۂ جنگ ہے۔ ٹائمنے اپنی ۶مارچ ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں اس منصوبے پر یوں روشنی ڈالی ہے:

نیوکلیر پیش رفت سے آگے بڑھ کر‘ امریکا اور بھارت کچھ اور حوالوں سے بھی‘ ایک دوسرے کو ہم خیال سمجھ رہے ہیں۔ دونوں جمہوریتیں ہیں‘ دونوں کے پھلتے پھولتے اور اضافہ پذیر باہم مربوط ٹکنالوجی کے سیکٹر ہیں۔ دونوں انگریزی بولتے ہیں‘ ایک ہی جیسے یوگا کے گروؤں کو مانتے ہیں‘ نیز فلموں میں ایک جیسی فراریت‘حتیٰ کہ ایک جیسی غذا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بش نے ایشیا سوسائٹی کو بتایا کہ بھارتی نوجوان ڈومینو اور پیزاہٹ کے پیزا کے ذائقے کو پسند کرتے ہیں۔ واشنگٹن اور بھارت دونوں اسلامی عسکریت سے برسرِجنگ ہیں اورچین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یکساں طور پر پریشان ہیں۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے ٹائم کو بتایا کہ اس کے امریکی ہم منصب بہت واضح طور پر ایک ایسے مضبوط اور دیرپا اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں جو شرق اوسط سے ایشیا تک اسلامی عدمِ استحکام کی قوس کے خلاف کام کرے‘ اور ایشیا میں بہت زیادہ توازن پیدا کرے‘ یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت چین کا ہم پلّہ(counterweight) ہو۔

ہنری کسنجر نے بش کے دورے کے مقاصد کو بالکل صاف لفظوں میں یوں بیان کیا ہے: جارج بش کا بھارت کادورہ‘ امریکا بھارت تعلقات کو تعاون اور باہم انحصار کی اس سطح تک لے آیا جس کی مثال نہیں ہے۔بھارت اس میں کیا کردار ادا کرے گا‘ اس کی تفصیل کے چند پہلو ہنری کسنجر نے یوں واضح کیے ہیں:

اپنے قریبی پڑوسیوں اور بھوٹان‘ سِکم‘ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش تک جیسی چھوٹی ریاستوں کے لیے بھارت کی پالیسی کا موازنہ مغربی نصف کرّے میں امریکی مونرو ڈوکٹرائن سے کیاجاسکتا ہے‘ یعنی بھارتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں‘ اگر ضرورت پڑے توطاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شمال میں بھارت کا مقابلہ ہمالیہ اور تبت کے پار چینی دیو سے ہے۔ یہاں بھارت اپنے حریف سے مقابلے کے لیے کلکتہ اور سنگاپور کے درمیان علاقے میں اپنی معاشی‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مطابق کردار چاہتا ہے۔

ممبئی اور یمن کے درمیانی علاقے میں بھارت اور امریکا کے مفادات انقلابی اسلام کو شکست دینے کے لیے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ناین الیون تک اسلامی دنیا میں حکومت عام طور پر مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔ بھارتی قیادت مسلم مطلق العنان حکمرانوں سے تعاون کر کے غیرجانب داری کو اپنی مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ صورت حال اب باقی نہیں رہی ہے۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ بنیاد پرست جہاد‘ دہشت گردی کے اقدامات کے ذریعے سیکولر معاشروں کی بنیادیں ڈھاکر مسلم اقلیتوں کو انقلابی بنارہا ہے۔

موجودہ بھارتی قیادت یہ بات سمجھ چکی ہے کہ عالمی بے چینی کا یہ مظاہرہ اگر پھیل گیا تو بھارت جلد یا بدیر ایسے ہی حملوں کا شکار ہوگا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوشش کا نتیجہ بھارت کی طویل المدت سلامتی سے بنیادی طور پر متعلق ہے۔ امریکا بھارت کی کچھ جنگیں لڑ رہا ہے۔ جہاں تدابیر میں فرق ہے‘ وہاں بھی دونوں ملکوں کے مقاصد متوازی ہیں۔

آزادی کے وقت برطانوی ہندستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کردیا گیا۔ چونکہ تقسیم سے ہندومسلم آبادیاں مکمل طور پر الگ نہ ہوسکیں‘ اس لیے آج بھی بھارت میں ۱۵کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان ان کے تاریخی ورثے سے علیحدہ کیا ہوا حصہ ہے۔ یہ بھارتی ریاست کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے‘ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہندو بالادستی کے تحت اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت میں توازن رکھنے کے لیے غیرمعمولی حساسیت اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔

چین کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالم اسلام کو حصار میں رکھنا اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے جسے خود صدربش کی تقاریر میں دیکھا جاسکتا ہے اور امریکا کے درجنوں مفکر اور میڈیا کے    مبصر اس لَے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناین الیون کمیشن کی رپورٹ سے لے کر فرانسس فوکویاما کی   حالیہ تحریروں تک میں اسے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور انقلابی اسلام کی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو دستاویز شائع کی ہے‘ اس میں دہشت گردی کے ساتھ اس کا رشتہ an aggressive ideology of hatred and murder (نفرت اور قتل کا ایک جارحانہ نظریۂ حیات) کے عنوان سے مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے البتہ ذرا پردہ رکھ کر بات کو یوں کہاگیا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ نظریات کی جنگ ہے‘ مذاہب کی جنگ نہیں۔ ہمارے مقابلے پر آئے ہوئے مختلف اقوام کے دہشت گرد اسلام جیسے قابلِ فخر مذہب کا استحصال کرتے ہیں کہ وہ ایک پُرتشدد سیاسی وژن کے طور پر کام کرے۔ وہ     دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ایک ایسی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو ہرطرح کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا انکار کرے۔ یہ دہشت گرد جہاد کے تصور کو مسخ کرکے اسے ان لوگوں کے خلاف قتل کی دعوت میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو وہ کافر سمجھتے ہیں‘ بشمول عیسائی‘ یہودی‘ ہندو‘ دیگر مذہبی روایات کے حامل‘ اور وہ سب مسلمان جو ان سے متفق نہیں۔ بلاشبہہ ۱۱ستمبر کے بعد بیش تر دہشت گرد حملے مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں اور زیادہ تر ہلاک ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔

بھارت اور امریکا کے حالیہ معاہدات اور صدربش کے دورے کے مقاصد اور چیلنجوں کو اس پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔


عالمی تناظر میں امریکا اور بھارت کی مشترکہ حکمت عملی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ صدربش کے حالیہ دورے کے ان مضمرات کو بھی سمجھا جائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۴ء میں جب سے پاکستان کھلے طور پر امریکا کے حلقۂ اثر میں آیا اور دفاع اور سیاست دونوں میدانوں میں اشتراکی اور روس کی تحدید کے فلسفے کے تحت ان معاہدوں اور اداروں کا رکن بنا جو اس سلسلے میں امریکا نے قائم کیے تھے۔ امریکا کی طرف سے باربار کی بے وفائیوں کے باوجود چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ایک حد تک امریکا کی حکومتوں نے‘ خواہ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹس سے‘ احترام کیا۔

اوّل: پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک توازن اور برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سے معاملہ کرتے وقت دوسرے پر اس کے اثرات اور ردّعمل کو ملحوظ رکھا گیا۔ سیاسی معاملات‘ معاشی تعلقات اور فوجی ضرورت کے لیے اسلحے کی ترسیل میں ایک درجے کا توازن قائم رکھنے اور اس میں اس پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ گویا پاکستان اور بھارت سے پالیسی کے امور کی ایک جڑواں حیثیت ہے۔

دوم: پاکستان سے دوستی اور بنیادی امور پر ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ تاہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تصور کا خمار (hang over) باقی رہا اور افغانستان پر روس کی فوج کشی اور اس کی مزاحمت کی تحریک میں پاکستان کے کردار نے اسے مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ اس خودفریبی (make believe)کی چھتری میں پاکستان ساری پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دے سکا۔ یہ ایک پردہ سا تھا جو ہمیشہ رہا اور اس کا سہارا لے کر ناین الیون کے بعد دوستی کے نام پر زیردستی کا دور شروع ہوگیا۔

سوم: پاکستان کے دفاع اور سلامتی میں خصوصی دل چسپی اور اس سلسلے میں فوجی اور معاشی امداد اور تعاون کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک قرار دیتا رہا اور برابر احتجاج کرتا رہا لیکن ساری اُونچ نیچ کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا‘ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا دفاعی نظام امریکی سسٹم کا حصہ بن گیا جس کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں ___حقیقت میں منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ اس سے ہم خطرناک حد تک امریکا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ منفی پہلو کا اندازہ ایف-۱۶ کے سلسلے میں امریکا کی بدعہدی سے کیا جاسکتا ہے۔

چہارم: کشمیر کے معاملے میں امریکا کی دل چسپی اور اصولی طور پر پاکستان کے اس موقف کی تائید کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ (flash point)    بن سکتا ہے۔ شروع میں تو امریکا بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی بات کرتا تھا‘ جب کہ روس کُھلے طور پر بھارت کے موقف کی تائید کر رہا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں روس کے ویٹو کے مقابلے میں امریکا پاکستان کی حمایت کرتا رہا اور کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت کو (پچھلے دو تین سالوں میں رونما ہونے والے انحرافی رویے کے برعکس) تحریکِ آزادی ہی    تصور کرتا رہا۔ جہادی تحریک ۱۹۸۹ء سے جاری ہے اور ناین الیون کے بعد بھی امریکا نے اس کے خلاف کبھی بیان نہیں دیا۔ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی کی پارلیمنٹ پرہونے والے حملے یا ڈرامے سے ہوا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتی گئی۔

صدربش کے حالیہ دورے نے ان چار بنیادی مقدمات (premises) میں تبدیلی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اب پاکستان سے دوستی اور تعلق صرف ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک پہلو ہے‘ جب کہ بھارت سے دوستی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور مشترکہ عالمی حکمت عملی کا حصہ۔

پہلی بنیاد کی جگہ اب دونوں کے بارے میں الگ پالیسی بنانے کے اصول کو مسلمہ بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور پر عرصہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے کام ہو رہا تھا۔ صدربش نے صاف لفظوں میں واشنگٹن‘دہلی اور پھر اسلام آباد میں یہ اعلان کرکے کہ بھارت‘ بھارت ہے اور پاکستان‘ پاکستان اور دونوں کی ضروریات اور دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے‘ اس نقطۂ اتصال کو بھی پارہ پارہ کردیا جو ۵۰سال سے پاکستان کی قیادتوں کی نگاہ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف ایک ٹوٹی پھوٹی ڈھال بنا ہوا تھا اور اب اسے پے درپے ضربوں سے اڑادینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ نہایت عیاری مگر ایک گونہ شایستگی کے ساتھ کچھ اسی قسم کا یوٹرن ہے جو ناین الیون کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت نے افغانستان کی حکومت کے بارے میں بڑے بھونڈے اور بے دردانہ انداز میں لیا تھا۔ انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہیں۔ رہی پاکستانی قوم‘ تو وہ نہ پہلے مطمئن تھی اور نہ اب خائف اور دل گرفتہ۔

یہ اس جوہری تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ اب قوم کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھارت کے محور کے گرد (India Centric) نہیں گھومنی چاہیے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف    نہ معلوم‘ کب کے اپنی پالیسی کا محور بدل چکے ہیں۔ ان کے دور میں ہماری پالیسی خاص طور پر صرف ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے امریکا کا حکم اور امریکا کا مفاد۔ اب امریکا کا فلسفہ یہ ہے کہ پاکستان عملاًغیرمتعلق (irrelevent) ہے‘ اسے بھارت کے حلقۂ اثر میں رہ کر ہی اپنا مستقبل سوچنا چاہیے اور بھارت کو ایک عالمی قوت بنانا ہے تاکہ وہ چین کے دائرۂ اثر کو روک سکے۔

امریکا اور بھارت کا ایٹمی معاہدہ اسی مقصد کے حصول اور کامیابی کی منزل کے لیے ایک زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کو امریکی سفارت کار کہہ رہے ہیں کہ: It is no more a zero sum game (اس میں کسی کے لیے تخت یا تختے والی بات نہیں ہے)۔ اس لیے کہ   اب بھارت امریکا کے لیے امریکی نائب وزیرخارجہ نکسن برن کے الفاظ میں singularly important (واحد اہم) ملک ہے اور بین الاقوامی امور کے بھارتی ماہرین بھی صاف سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: اس ہفتے سب سے بڑا جیتنے والا بھارت ہی نظر آرہا تھا۔ پاکستان کے حصے میں پشت پر ایک ہلکی سی تھپکی سے زیادہ کچھ نہیں آیا۔ (سومینی سین گپتا‘ نیویارک ٹائمز)

بھارت اور امریکا کے لیے بلاشبہہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے___ لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ ایک انداز میں ایک حقیقی کامیابی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس آئینے میں پاکستان کی موجودہ قیادت اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی زحمت کرے اور سمجھ جائے کہ نئے زمینی حقائق کیا ہیں اور کس نوعیت کی متبادل حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم حالات کا معروضی جائزہ لے کر اپنا راستہ خود متعین کریں تو پھراس ناکامی سے حقیقی کامیابیوں اور سرفرازیوں کے کئی دَر وَا ہو سکتے ہیں۔ شکست کو فتح بناکر پیش کرنے والے تباہی کے غار میں جاگرتے ہیں اور شکست کو شکست سمجھ کر نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے والے تاریخ کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن لمحے (moment of truth) سے گزر رہا ہے۔

امریکا ایک سوپر پاور ضرور ہے لیکن کوئی سوپر پاور ہمیشہ سوپر پاور نہیں رہی۔ تاریخ بیسیوں سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور امریکا تو اپنی قوت کے نقطۂ فراز سے نشیب کے سفر پر چل پڑا ہے۔ صدربش دنیا کی نگاہ میں اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے ناکام اور ناپسندیدہ حکمران ہیں۔ خود امریکا میں ان کی شرح مقبولیت زمین کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ۶۸ فی صد سے زیادہ امریکی ان کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہیں۔ ادھر امریکا کا پبلک قرض مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ۴ ہزار بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ صرف بجٹ کا سالانہ خسارا ۲۲۰ بلین ڈالر اور   تجارتی خسارا ۷۰۰ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ افغانستان اور عراق میں وہ بری طرح پھنس گیا ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جسے حقیقی معنی میں عالمی برادری کہاجاسکتا ہے وہ اس سے متنفر ہے اور   ابھی ۱۸مارچ کو عراق پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر دنیاکے کونے کونے میں بشمول امریکا   بش انتظامیہ کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے ہیں۔

امریکا اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں‘ لیکن پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے اس کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک خارجہ پالیسی اور ریاستی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی طاقت کی تابع فرمان بنے رہنے کے بجاے آزادی کے تصور پر مبنی ہو۔ اس میں یورپ‘      چین‘ لاطینی امریکا اور عالمِ اسلام کا بڑا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ جاپان اور روس بھی اس میں اہم  کارفرما قوتیں ہوں گی۔ محض ردّعمل (reactive)کی نہیں‘ پیش قدمی (pro-active) پر مبنی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور ناکام خارجہ پالیسی وہ ہے جو ذہنی مرعوبیت‘ مجبوری اور خوف کی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ چھوٹا یا بڑا ملک ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ شمالی کوریا اور لبنان کوئی بڑے ملک نہیں۔ شام‘ ایران اور بیلاروس ہم سے بڑے ملک نہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ بلجیم‘ ہالینڈ‘سویڈن اور ناروے کوئی سوپر پاور نہیں لیکن اپنے اپنے قومی مفاد اور عزائم کی روشنی میں خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں خوف اور مجبوری کے تحت اپنی پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو درحقیقت اس کی داخلہ پالیسیوں اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔

ہماری خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ ملک کے دستور کے تحت اداروں کے ذریعے پالیسی سازی کے بجاے‘ فردِواحد کی پریشان فکری اور کھلنڈرانہ افتادِ طبع کے تابع ہیں۔ فوج جس کا کام سول نظام کے تحت خدمت انجام دینے کا ہے‘ اس کی قیادت سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی‘ ہر ایک میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے۔یہ بھی ایک تلخ اور     الم ناک حقیقت ہے کہ امریکا کا بلاواسطہ ربط فوج کی قیادت سے ۱۹۵۴ء سے کسی نہ کسی شکل میں ہے۔ امریکا کے جو پانچ صدر پاکستان آئے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں آئے ہیں۔  وائٹ ہائوس اور شعبہ دفاع (پینٹاگون) کو جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ جی ایچ کیو کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ جنرل زینی اور جنرل فرینک کی خودنوشت پڑھ لیجیے۔ جس دور میں بھی جو کام امریکا کو کروانا ہوتا ہے وہ چیف آف اسٹاف کے توسط سے کراتا ہے‘ حتیٰ کہ ایمل کاسی کے بطور مجرم حوالگی (extradition ) کو بھی اسی راستے سے حاصل کیا گیا تھا۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں نہ دفترخارجہ کا کلیدی کردار ہے‘ نہ کابینہ کا‘ اور نہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا___ ڈورصرف ایک مقام سے  ہل رہی ہے جسے MWA (ملٹری وہایٹ ہائوس الاینس)ہی کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے نمایندے‘ قومی مشاورت اور گہرے سوچ بچار کے بعد‘    محض سلامتی کے نام پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مقاصد‘ عزائم‘ مفادات اور دیرپا ضروریات اور تقاضوں کی روشنی میں پالیسی سازی کرسکیں۔

پالیسی سازی کے طریق کار کی اصلاح کے ساتھ پالیسی کے خدوخال کو بھی ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی اور ربط و تعلق ایک حقیقی ضرورت ہے اور اس سے      نہ صرف کسی کو انکار نہیں بلکہ اسے خارجہ سیاست میں ایک مقام حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ البتہ صرف امریکا کو محور مان کر بنانے والی پالیسی تباہی کا راستہ ہے جس سے جلدازجلد نجات ضروری ہے۔

ہم اُلٹے پائوں بھاگنے کے بجاے صرف سمت کی ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جس میںبجاطور پر پالیسی کا محور پاکستان ہو۔ ہماری پہلی ضرورت ہے: ذہن‘ سمت اور پالیسی کے پورے پس منظر کی تبدیلی۔ خارجہ پالیسی کے جن بنیادی پالیسی امور پر گہرے غوروخوض‘ کھلے مباحثے اور تمام متاثر ہونے والے عناصر (stake holders) بشمول فوجی قیادت کی سرگرم شرکت سے‘ نئے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:

۱- دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا کردار۔ آج تک پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی اسی ایک محور پر گھوم رہی ہے جس چکر میں امریکا نے ہمیں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنا ضروری ہے۔ حقیقی دہشت گردی کے ہم خلاف ہیں لیکن کیا چیز دہشت گردی ہے اور کیا نہیں ہے اور جن اسباب‘ عوامل اور حالات کی اصلاح کے بغیر سیاست میں قوت کے استعمال کو قابو نہیں کیاجاسکتا ‘ان کے بارے میں موثر حکمت عملی کا بنایا جانا اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ پوری دنیا تباہی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور عام انسانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے اشارے پر رقصِ بسمل کرنے کے بجاے سوچ سمجھ کر قومی و ملّی مفادات کے حصول کے لیے نئی پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔

۲- پاکستان کی افغان پالیسی آج تارتار ہے۔ مقتدر طبقے نے دوستوں کو دشمن بنالیا ہے اور جو محاذ محفوظ تھے ان کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔ جو قربانیاں پاکستان نے گذشتہ ۲۵سال میں دیں‘ وہ  رایگاں جارہی ہیں اور ہاتھ میں ہزیمت اور اتہامات کے سواکچھ نہیں۔ افغان پالیسی پر مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر عدم مداخلت کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔ آج بھارت‘ افغانستان میں ایک ’سخت پاکستان دشمن‘ کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا بھارت کے اس کردار کی تحسین کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور کابل الزامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانی سرحد کے اِس پار اور اُس پار مارے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ناکام اور نامراد پالیسی کو ختم کیا جائے اور حالات کے مطابق نئی پالیسی بنائی جائے ۔

۳- بھارت کے بارے میں بھی پالیسی کی تشکیلِ نو ضروری ہے۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ اور اس علاقے میں اسرائیل کے ایک کارفرما قوت بن جانے کے بعد ہماری پالیسی کے پرانے خطوط  بے کار ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں جو قلابازیاں فوجی حکمرانوں نے کھائی ہیں‘ اس نے کشمیر کے عوام اور مزاحمتی تحریک کو مایوس کیا ہے۔ تاہم ابھی وقت ہے کہ سنبھل کر بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور فوری نتائج سے زیادہ اصل مقاصد اور اہداف کی روشنی میں وسطی مدت اور طویل مدت کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری قوم اس کی پشت پر ہو۔

۴- ایران کے بارے میں بھی پالیسی کو واضح کرنے اور پاک ایران اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پر امریکی حملہ پاکستان پر حملے کا پیش خیمہ ہی نہیں‘ پاکستان پر ایک بھرپور وار ہوگا۔ اس وقت اس کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر بھی پیش اِقدامی (pro-active) پالیسی کی ضرورت ہے۔

۵- چین سے ہمارے تعلقات استوار رہے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہے تو وہ چین ہی ہے۔ اس کے ساتھ پالیسی کو زیادہ موثرانداز میں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یورپ‘ روس‘ جاپان اور جنوبی امریکا کے ممالک سے روابط اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔

۶- سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کو متحرک و منظم کرنا اور اسے موثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین حکمت عملی وہ ہے جسے ۱۰سال پہلے ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ڈی-۸ کے منصوبے کے تحت پیش کیا تھا۔ آٹھ مسلمان ملک عالمِ اسلام کی طاقت کے مراکز ہیں۔ ان کا منظم ہونا‘ مل کر سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور دفاعی حکمت عملی تیار کرنا سب کی قوت کا ذریعہ ہوگا اور وسیع تر اسلامی اتحاد اور دنیا میں امن کا ذریعہ بنے گا۔

۷- توانائی اور پانی دو بڑے مسئلے ہیں جن پر مستقبل کی ترقی اور ملک کی آزادی کا انحصار ہے۔ ان کے بارے میں دُور رس پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُمت مسلمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کا ۸۰ فی صد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ صحیح توانائی پالیسی سے ہم عالمی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب پاکستان کا اندرونی نظام حکمرانی درست ہو۔ اپنے گھر کی اصلاح اور تنظیم نو کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ ملک میں دستور کے تحت حقیقی جمہوری نظام کا قیام ازبس ضروری ہے۔ فوج کی بالادستی کے ذریعے جو نظام‘ پاکستان میں مسلط کیا گیا ہے‘ وہ ملک کے استحکام‘ فوج کی قوت اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج وزیرستان اور بلوچستان جس آگ میں جل رہے ہیں‘ اسے بجھائے بغیر اور سیاسی مسائل کو سیاسی حکمتِ عملی سے حل کیے بغیر‘ کوئی خیرحاصل نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ملکی نظام کی اصلاح خود خارجہ سیاست کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اسی طرح معیشت کا استحکام اور ترقی‘ تعلیم و تحقیق کا فروغ‘ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور اسے مزید ترقی دینے کی مساعی اندرونی اصلاح کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مخصوص ٹولے کی بالادستی کو ختم کرکے ملک کے تمام دستوری اداروں کو متحرک کرنے‘ استحکام بخشنے اور ان کے ذریعے ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں۔

آج اگر پاکستانی قوم اور اس کی موجودہ قیادت صدر جارج بش کے دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھ لے اور اپنا قبلہ درست کرلے‘ تو پھر یہ چرکا کوئی زخم نہیں چھوڑے گا بلکہ اصلاح اور بلندی کی طرف سفر کے لیے تازیانہ بن جائے گا۔ ایسے تازیانے قوموں کی زندگی میں بڑا تاریخی کردار ادا کرتے اور شکست کے مقابلے میں فتح کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

کیا پاکستانی قوم اور قیادت اس شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے؟

ماہنامہ ہیرالڈ کراچی (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں سید شعیب حسن کی رپورٹ کے مطابق ایئرچیف مارشل (اب سبک دوش) کلیم سعادت کے ذاتی حکم پر اسکواڈرن لیڈر محسن حیات رانجھا کو ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا ہے۔ وہ فضائیہ کے نہایت قیمتی اور باصلاحیت پائلٹ تھے اور حال ہی میں امریکا سے تربیت مکمل کرکے واپس آئے تھے۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے داڑھی منڈوانے سے انکار کردیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق چار دیگر آفیسر بھی زیرعتاب ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں: اسکواڈرن لیڈر نویدریاض‘ فلائٹ لیفٹیننٹ ثاقب‘ فلائٹ لیفٹیننٹ اجمل اور فلائٹ لیفٹیننٹ فضل ربی۔ انھیں بھی گرائونڈ کردیا گیاہے‘ یعنی کام کرنے سے روک دیا گیا ہے ‘اور اُن کے خلاف بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ اُن کا قصور بھی یہی ہے کہ وہ داڑھی رکھتے ہیں اور منڈوانے سے انکاری ہیں۔ فلائٹ لیفٹیننٹ عاطف کو بھی جبری ریٹائر کردیا گیا ہے محض اس لیے کہ انھوں نے دیگر افسران میں آیاتِ قرآنی اور احادیث تقسیم کی تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کا پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کا شوق دیوانگی کی جن حدود کو چھو رہا ہے‘ اُس کا مظہر یہ کارروائی ہے۔

ہمارے معاشرے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی یہ نسل اپنی حرکتوں سے باز آنے پر تیار نہیں۔ ہمارے حکمران اعلیٰ کے ہیرو کمال اتاترک کے ملک میں اسکارف لینے والی خواتین کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ میں اسکارف لے کر آنے والی ممبر کو رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔ جب امریکا میں کسی کانگریس کمیٹی میں یہ معاملہ پیش ہوا اور وہاں ترکی کے کمانڈر انچیف بھی موجود تھے‘ تو امریکی ارکان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ذاتی آزادی کے اتنے رائی جیسے معاملے کو پہاڑ کیوں بنادیا گیا ہے۔

ان دنوں ڈنمارک کے اخبار کے خاکوں نے جو شعلہ انگیز فضا بنائی ہے ان میں فضائیہ کا یہ ’کارنامہ‘ جلتی پر تیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ توہینِ رسالتؐ کے لیے کارٹون بناکر چھاپنا ضروری نہیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ توہینِ رسالتؐ ہوسکتی ہے کہ داڑھی کو جو سنتِ رسولؐ اور شعارِ اسلام ہے‘ منڈوانے پر مجبور کیا جائے ورنہ ملازمت سے برطرف کردیا جائے۔ اگر یہ کارروائی امریکا یا انگلینڈ میں ہو تو ہم احتجاجی مظاہرہ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے مکلف ہیں لیکن اپنے ملک میں اگر یہ ’کارنامہ‘ کیا جائے تو اس ملک کے شہریوں کا اور ہر باغیرت مسلمان کا کیافرض ہے؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟

جیساکچھ بھی دستور نافذ ہے اُس میں قرارداد مقاصد موجود ہے۔ حکومت کی یہ دستوری   ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو کتاب وسنت کی ہدایات کی روشنی میں چلائے۔ ہر طرح کی    خلاف ورزیاں برداشت کی جارہی ہیں‘ لیکن کیا پاکستانی قوم ان پانچ پائلٹوں کے حق میں کھڑے ہوکر ایک ہی دفعہ فیصلہ نہیں کراسکتی کہ اس ملک میں سنت رسولؐکے ساتھ یہ رویہ نہ صرف فضائیہ میں بلکہ کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ہم عدلیہ سے کوئی توقع نہیں رکھتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ کچھ خبروں کا اور تبصروں کا موضوع بنتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ فرض شناس وکلا کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس اقدام کے خلاف توہینِ رسالتؐ کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے؟ اس ایکٹ کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر یہ ایکٹ نہ ہو یا موثر نہ ہو تو پھر ایک عام مسلمان کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی مجرموں کو سزا دے۔

قومی اسمبلی میں اس پر تحریکِ التوا پیش کر دی گئی ہے۔ اگر اجازت دی گئی تو ممبران اس پر مشقِ سخن کرلیں گے لیکن بعض معاملات اس سے زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ ذمہ داروں کے لیے سزایقینی بنائے‘ سبک دوش افسر کو بحال کروائے اور جن کے خلاف داڑھی رکھنے کے ’جرم‘ پر کارروائی کی جارہی ہے وہ رکوائے۔ سدِّباب کے لیے یہ ضروری ہے۔

جس ملک کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا نہ ہوں‘ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے خواتین میلوں چلتی ہوں‘ خواندگی کی شرح آس پاس کے تمام ممالک کے مقابلے میں شرمناک ہو‘ علاج کی سہولت چند بڑے شہروں سے باہر دستیاب نہ ہو‘ ایک بڑی آبادی ناقابلِ رہایش مکانات میں رہتی ہو‘وہاں کی حکومت اپنے عوام کو تفریح فراہم کرنے میں اتنی پُرخلوص و پُرجوش ہو جس کا مظاہرہ لاہور میں رہتے ہوئے جشنِ بہاراں اور بسنت کے موقع پر نظر آتا ہے تو ضرور یہ سوچنا پڑتا ہے کیا حکومت کو واقعی اپنے عوام کی خوشی کی فکر ہے یا دال میں کچھ کالا ہے۔

مسائل تو اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ نابالغ بچیاں اغوا ہوتی ہیں‘ زیادتی کا شکار ہوتی ہیں‘ قتل کردی جاتی ہیں‘ مجرم پکڑنے کے اعلان ہوتے ہیں‘ لیکن بے قصوروں کو پکڑنے میں ماہر پولیس کے ہاتھ مجرم نہیں آتا۔ کتنے ہی فراڈ اخباری اشتہارات اور ٹی وی چینل کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور عوام لٹتے رہتے ہیں لیکن کوئی حکومت کا محکمہ یا پولیس ان فراڈیوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ چینی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھاکر عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ کھسوٹنے والے سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں‘ لیکن نیب بھی اُن کا بال بیکا نہ کرسکی۔ معاشرے میں ظلم کا دور دورہ ہے۔ زبردست زیردستوں کے مال و منال ہی نہیں‘ عزت و آبرو پر دُرّانہ ہاتھ ڈالتے ہیں لیکن مظلوموں کی دادرسی کہیں نہیں ہوتی۔

یوں شمار کیا جائے تو مسائل کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عوام کی خیرخواہ اور فرض شناس حکومت ہو‘ تو وہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل سے نبٹے گی یا عوام کو تفریح فراہم کرنے کے معصوم عنوان سے پتنگ بازوں کی سرپرستی کرے گی؟

فیلڈمارشل ایوب خاں (غالباً اب جنرل فیلڈمارشل کے لقب سے اس لیے متوحّش ہیں کہ ایوب خاں والا انجام نہ ہو) کے زمانے میں بھی حکومت کو تفریحات میں بھی بہت دل چسپی ہوگئی تھی۔ اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل نہ کررہی ہو‘ صرف تقاریر‘ اعلانات اور ٹی وی اشتہارات سے کام چلا رہی ہو تو وہ عوام کو لہوولعب‘ کھیل کود اور لایعنی تفریحات میں مصروف کرنا چاہتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام نے ملکی مسائل پر اور اپنی پریشانیوں پر سنجیدگی سے سوچا تو حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ حکمران جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح حکومت پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح انتخابات جیتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ وہ حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے بجاے اپنے مفادات پورے کرنے‘ دوستوں کو ٹھیکے دلوانے‘ کرپشن کرکے کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس بنانے میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اپنے جھوٹ کو عوام سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے ضمیر مجرم ہیں۔ اسی لیے یہ اپنے مجرم ضمیر کو تسکین دینے کے لیے عوام کو تفریح کے بہلاوے دیتے ہیں۔

بسنت آنے سے پہلے ہی بسنت کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ پچھلے تین چار سالوں میں سرکاری سرپرستی میں ہندوئوں کا یہ تہوار ہماری حکومت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پتنگ بازی ایک عام سی تفریح تھی‘ جسے شرفا کے بچوں کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا‘ لیکن عوام کو اُن کے مسائل بھلانے کے لیے اسے ایک قومی جشن کی صورت دے دی گئی۔ اس کے دیگر نقصانات سے تو آنکھیں بند کرلی گئیں (واپڈا کے کروڑوں کے بل‘ جو بالآخر عوام کی جیب سے ہی جاتے ہیں)‘ لیکن جب قاتل ڈور سے سکوٹرسوار قتل ہونے لگے اور ہسپتال کے وارڈ زخمیوں سے بھر گئے تو اس طرف توجہ دی گئی اور سپریم کورٹ نے اپنے روایتی دائرے سے باہر آکر پتنگ بازی پر پابندی لگا دی۔ اس آڑ میں اور جو کچھ ہوتا ہے عدالت عظمیٰ کو اس سے سروکار نہ تھا۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اور معاشرے کے سنجیدہ عناصر کے مطالبوں پر کان دھرتے ہوئے حکومت پنجاب اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیتی تو کم سے کم وہ جانی نقصان تو نہ ہوا ہوتا اور گھروں کے وہ چراغ نہ گل ہوتے جو پابندی ہٹانے سے ہوئے۔ پولیس کو صرف اتنا کرنا تھا کہ قاتل ڈور بنانے کے مراکز ختم کروا دیتی لیکن القاعدہ کی بو سونگھنے والی بے چاری پولیس یہ کام تونہ کرسکی لیکن چھوٹے چھوٹے بچوںکو ہتھکڑیاں ڈالنے میں شیرثابت ہوئی۔ اس سے ان معصوموں کی شخصیت پر جو گھائو لگے ہیں اس پر کسی ماہرنفسیات کو لکھنا چاہیے۔ اُن کے والدین سے جو رقومات لی گئی ہوں گی اُن کا اندازہ ہماری پولیس کی درخشندہ روایات کے تحت ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ کوئی اخبار ہی عدالت لگالیتا کہ لوگوں نے پولیس کو جو ادایگیاں کی ہیں اُس کی تفصیل فراہم کردیتا۔ کیا پتا ہماری سپریم کورٹ حکومت پنجاب سے یہ رقم واپس کروادیتی۔

بسنت کا سب سے کریہہ پہلو اُس کی تاریخی روایت اور اب اُس کی آڑ میں فحاشی کے رواج کے علاوہ وہ قتل ہیں جو قاتل ڈور کے ذریعے ہوگئے۔ معصوم بچوں کے قتل نے معاشرے کو ہلادیا۔ اخباری سرخیوں اور کالم نگاروں نے شہریوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ پہلے ہی قتل پر  سپریم کورٹ کو دوبارہ پابندی لگا دینا چاہیے تھی‘ اس صراحت کے ساتھ کہ پولیس قاتل ڈور بنانے والوں کو پکڑے اور عدالتوں میں لائے اور اس پابندی کو اپنی رشوت ستانی کا ذریعہ نہ بنائے۔ پنجاب حکومت تو غالباً جناب صدر کی تشریف آوری کی منتظر تھی لیکن سپریم کورٹ نے درجن بھر سے زیادہ قتل کیوں ہونے دیے اور اپنا فرض صرف یہی کیوں سمجھا کہ دیت یا معاوضہ دلوا دے۔

سپریم کورٹ میں ابھی مقدمہ جاری ہے۔ آیندہ فروری تک سوچ بچار کا موقع ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اُس کے تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن کانٹے کی بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں معاشرے کو اپنا فرض سرگرم طور پر ادا کرنا چاہیے۔ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ لوگ خود تماشا دیکھتے ہیں اور سب کچھ کرنے کی توقع حکومت سے کرتے ہیں۔ اگر سب باشعور عناصر فعّال ہوکر آگے بڑھ آئیں تو بہت سے غلط کام اپنی موت آپ مرجائیں‘ لیکن عوام تماشائی ہوجائیں اور حکومت اُلٹا سرپرستی کرے تو پھر وہی کچھ ہونا ہے جو ہوا۔

بنیادی بات یہ ہے کہ معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ پتنگ بازی فی نفسہ کوئی ایسی برائی نہیں کہ اُس پر پابندی لگائی جائے لیکن ایک فرض شناس حکومت کو اُس کی خرابیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اُلٹا اُن خرابیوں کو بڑھائے‘ پھیلائے اور اُن کی سرپرستی کرنے میں لگ جائے‘ اور لوگ جائز طور پر یہ سمجھیں کہ جو ڈور قتل کر رہی ہے‘ اس کو ہلانے والے ہاتھ حکومت کے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنا ’سودا‘ بیچنے کے لیے سرعام رکھا ہوا تھا۔ ایک آدمی نے اس کی قیمت لگائی اور اس کو خریدنا چاہا۔ یہودی نے اس قیمت پر خریداری پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے میں اس قیمت پر نہیں دوں گا۔ ایک انصاری نے اس کی یہ قَسم سنی تو کھڑا ہوا اور اس یہودی کے چہرے پر زوردار طمانچہ رسید کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے درمیان موجود ہوتے ہوئے تم اس طرح کے الفاظ: ’’اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے‘‘ زبان سے ادا کرتے ہو؟

یہودی تھپڑ کھاکررسولؐ اللہ کی خدمت میں چلا گیا اور کہنے لگا: ابوالقاسمؐ! آپؐ کی حکومت نے میری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور میرے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایسی حالت میں فلاں آدمی نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپؐ نے مسلمان سے پوچھا: تم نے کیوں تھپڑ مارا ہے؟ اس نے وجہ بیان کردی۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے‘ غصے کے آثار آپؐ کے چہرے پر دیکھے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلتوں میں اس طرح کا مقابلہ نہ کرو (کہ دوسروں کے فضائل کی نفی کا کوئی پہلو نکلتا ہو)۔ جب صور پھونکا جائے گا‘ آسمانوں اور زمینوں والے تمام بے ہوش ہوجائیں گے (مگر وہ جن کو اللہ تعالیٰ بے ہوشی سے محفوظ رکھنا چاہیں وہ محفوظ رہیںگے)۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرشِ الٰہی کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ ان پر کوہ طُور پر بے ہوشی کے بدلے میں بے ہوشی طاری نہیں ہوئی یا ہوئی لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی یونس علیہ السلام پر (ایسی) فضیلت رکھتا ہے (کہ یونس علیہ السلام کے فضائل کی نفی ہوجائے)۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الانبیا)

مسلمان نے یہودی کی قسم والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کو اس قدر عام سمجھا کہ یہ جناب رسولؐ اللہ کی ذات اقدس کو بھی شامل ہے۔ اس لیے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ مسلمان نے اس کے جواب میں کہا: والذی اصطفٰی محمداً علی العٰلمین ، جواب میں یہودی نے کہا: والذی اصطفٰی موسٰی علی العٰلمین ، اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو جہانوں پر فضیلت دی ہے تو مسلمان نے کہا: اے خبیث! کیا محمدؐ پر بھی اور ساتھ ہی تھپڑ رسید کردیا۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الخصومات)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں معمولی کوتاہی پر سخت غصے ہوئے۔ اس سے نبی اکرمؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ نبی اکرمؐ یا کسی بھی نبی کی تعظیم میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ جب نبی اکرمؐ کے پاس مقدمہ آیا تو آپؐ نے یہودی کے دعوے کے جواب میں مسلمان سے جوابِ دعویٰ لیا۔ آپؐ مسلمان پر دو وجہ سے غصے ہوئے۔ ایک اس وجہ سے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں مقابلے کی صورت پیدا کردی۔ وہ بھی اس شکل میں کہ ایک طرف یہودی ہے اور دوسری طرف مسلمان۔ ایسے مقابلے کی صورت میں کسی بھی نبی کی توہین کا پہلو نکل سکتا ہے۔ دوسرا اس لیے کہ یہودی نے اگر والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کہہ دیا تھا تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے انسانوں تک محدود سمجھ کر برداشت کرنا چاہیے تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل تھے جیساکہ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے: وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ۲:۴۷)’’ میں نے تمھیں جہانوں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ لہٰذا    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو اس طرح بیان کرنا کہ دوسرے انبیا کے فضائل کی نفی ہو‘ درست نہیں ہے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت انسانوں پر ثابت کرے تو اس پر طیش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت بیان کرے تو اس پر بھی ناراض  ہونے کے بجاے خوش ہونا چاہیے بلکہ مسلمانوں کو تمام انبیا علیہم السلام کے فضائل کو بیان کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصی فضیلت کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرما دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کی خصوصی فضیلت یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا۔ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح بیان کی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق اور تمام انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں۔ نبی اکرمؐ نے خود فرمایا: انا سیدالبشر یوم القیامۃ (بخاری) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ اس کے باوجود آنحضوؐر نے تواضع اختیار کی اور انبیا علیہم السلام کے ناموس کا پورا پورا خیال کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں انبیا علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کا تحفظ کیا جس کی وجہ سے مسلمان کسی نبی کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ’خلق عظیم‘ کی حامل شخصیت کے کارٹون بنانا کس قدر درندگی کا مظاہرہ ہے۔

کوئی بتلائے تو سہی کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی کبھی کی تھی‘ جس کی بناپر آنحضوؐر کی ذاتِ اقدس کو خبثِ باطنی کا نشانہ بنایا گیا ہے (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ ناموس رسالتؐ کا تحفظ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے‘ اسی لیے مسلمان اس کے تحفظ میں ہمیشہ سربکف رہتے ہیں۔

o

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال‘ مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپؐ سرمبارک پر خود پہنے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نے خود اتارا تو ایک آدمی آپؐ کے پاس آیا اور رپورٹ دی کہ ابن خطل کعبے کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الحج باب دخول الحرم بغیراحرام)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کے لقب سے نوازا‘ فتح مکہ کے موقع پر تمام مخالفین کو معاف فرما دیا تھا۔ ابوسفیان جنھوں نے ۲۱سال تک جنگ کی قیادت کی ان کو اعزاز و اکرام کے ساتھ اسلام میں داخل فرمایا اور اعلان فرمایا: من دخل دارابی سفیان فھو امن(جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے بھی امان ہے)۔ اس دن کو آپؐ نے یوم الملحمۃ (کشت و خون کے دن) کے بجاے یوم المرحمۃ (رحم و کرم کا دن) قرار دیا۔ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کردے‘ اسے بھی امان ہے اور جو مسجدحرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ صحابہ کرامؓ کو خصوصی ہدایات دیں کہ کسی بھی راہ چلتے مرد‘ عورت‘ جوان‘ بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنانا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے جوش و جذبے میں آکر چند جذباتی مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو قتل کردیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاندانوں کو دیت ادا فرمائی‘ لیکن کچھ بدبخت وہ بھی تھے کہ رحمت کے اس سمندر سے بھی انھیں کوئی حصہ نہ ملا۔ ان میں ابن خطل بھی شامل تھا‘ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انسانیت سے عاری تھا‘ وہ درندہ صفت تھا‘ اس کی درندگی اور زبان درازی سے وہ ہستی بھی محفوظ نہ رہ سکی جو تمام انسانی عیوب سے پاک اور تمام محاسن کا مرقع تھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے کیا خوب فرمایا:

واحسن منک لم ترقط عینی

واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبرا من کل عیب

کأنک قد خلقت کماتشاء

میری آنکھ نے کبھی بھی آپؐ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا‘ اور آپؐ سے زیادہ خوب صورت کسی عورت نے بیٹا نہیں جنا‘ آپؐ ہر انسانی عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ گویا آپؐ اسی طرح پیدا کیے گئے جیسے آپؐ چاہتے تھے۔

علامہ اقبال ؒ کی زبان فیض سے پھول جھڑتے اور خوشبو مہکتی ہے‘ فرماتے ہیں:    ؎

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؓ وبایزیدؓ اینجا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضۂ اطہر آسمان کے نیچے عرش سے بھی زیادہ نازک ادب گاہ ہے‘ یہاں جنید اور بایزید عشق و مستی میں ڈوب کر حاضر ہوتے ہیں۔

ابن خطل مسلمان ہوا‘ پھر مرتد ہوگیا اور اپنے اشعار میں رسولؐ اللہ کی ہجو کرتا تھا (فتح الباری)۔ جو اس ہستی کی شان میں زبان درازی کرتا ہے تو وہ درندگی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ اس کی زبان سے آپؐ محفوظ نہیں تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں‘ وہ انسانوں کا دشمن اور تمام انسانوں کی توہین و تذلیل اور قتل سے بڑھ کر ’فتنہ‘ برپا کرنے کا مجرم ہے۔ ایسے دہشت گرد اور بدبخت کا علاج یہی ہے کہ زمین کو اس کے بوجھ سے آزاد کر دیا جائے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اسی لیے نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ اسے کعبے کے پردے بھی نہیں بچاسکتے‘ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے‘ چنانچہ حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعید بن حریثؓ نے اس کا ناپاک سر اس کے ناپاک تن سے جدا کردیا۔ اگر ایسے مجرم کو بھی قتل کی سزا نہ دی جائے تو پھر کسی بھی مجرم کو قتل کرنا نامعقول ہوجاتا ہے کہ بڑے مجرم کو چھوڑ دیا جائے اور چھوٹوں کو قتل کیا جائے‘ یہ کون سا عدل و انصاف ہے؟

ترجمہ: پروفیسر عبدالقدیرسلیمo

اگر سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو التوحید کا مطلب ہے اس بات پر ایمان اور اس کی شہادت کہ ’’اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے‘‘۔ بظاہر یہ منفی بیان‘ جو حددرجے مختصر اور سادہ ہے‘ سارے اسلام میں انتہائی درجے کے عظیم ترین اور مضمرات سے بھرپور مفاہیم کا حامل ہے۔ بسااوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک پوری ثقافت‘ ایک پوری تہذیب یا ایک پوری تاریخ ایک ہی جملے میں سموئی ہوئی ہوتی ہے۔ کلمہ‘ جسے ہم اسلام کا کلمۂ شہادت کہتے ہیں‘ اس کی صورت یہی ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ کا تمام تر تنوع‘ سرمایہ‘ ثقافت‘ علم وحکمت اور دانائی‘ اس مختصر ترین بیانیہ جملے میں سماگئی ہے: لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ___ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔

التوحید‘ دراصل حقیقت کا‘ صداقت کا‘ دنیا کا‘ زمان و مکاں کا‘ انسانی تاریخ اور تقدیرکا ایک عمومی جائزہ ہے‘ یہ ایک نظریہ ہے۔ اس کے مرکزے میں حسبِ ذیل اصول مندرج ہیں:

ثنویت (Duality)

حقیقت‘ دو عمومی اقسام پر مشتمل ہوتی ہے: اللہ اور غیراللہ‘ خالق اور مخلوق۔ نوعِ اوّل کا رُکن صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ۔ وہی تنہا معبود ہے‘ ہمیشہ سے ہے‘ اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ خالق ہے اور منزہ ہے۔ ’’اس جیسی کوئی شے نہیں‘‘۔۱؎ وہ ہمیشہ ہی منفرد رہے گا۔ اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں۔ ۲؎نوعِ ثانی میں زمان و مکان‘ عالَم مشاہدات اور تمام خلق شامل ہیں۔ اس کے دائرے میں تمام مخلوقات‘ عالمِ اشیا‘ درخت‘ پودے‘ حیوانات‘ انسان‘ جن اور فرشتے‘ زمین اور آسمان‘ جنت اور جہنم اور جب سے یہ وجود میں آئے ہیں‘ ان کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ خالق اور مخلوق کی یہ   دو انواع‘ اپنی ہستی‘ وجودیات‘ اپنے تجربے اور حیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر ناممکن ہے کہ ان میں سے کوئی دوسرے کے ساتھ متحد ہوجائے‘ سرایت کرجائے‘ کسی کے ساتھ متمثّل ہو یا ایک دوسرے میں جاری و ساری ہو۔ نہ تو خالق‘ وجودیاتی طور پر ایک مخلوق میں تبدیل ہوسکتا ہے‘ اور نہ مخلوق کے لیے یہ کسی طرح ممکن ہے کہ وہ کسی طور یا کسی صورت میں خود کوخالق کے قالب میں ڈھال لے‘ یا تنزیہاً اس کے مقام پر پہنچ جائے۔۳؎

تمثّلیت یا تصور سازی (Ideationality)

حقیقت کی اِن دو انواع کے درمیان رشتے اور تعلق کی ماہیت تصوری یا تمثّلی ہے۔ انسان میں اس کا مرکز ِحوالہ اس کی فہم کی صلاحیت ہے۔ علم و فہم کے آلۂ کار اور مخزن کی حیثیت میں     فہم‘ متعدد صلاحیتوں کی حامل ہے‘ جیسے یادداشت‘ متخیلہ‘ تعقّل اور تفکّر‘ مشاہدہ‘ وجدان اور اندیشہ۔ علم و فہم تو سبھی انسانوں کو عطا ہوا ہے۔ یہ فہم اس لائق ہے کہ اس کے ذریعے مشیّت الٰہی کا اِن میں سے کسی ایک‘ یا دونوں صورتوں میں ادراک کیا جاسکتا ہے: مشیّت الٰہی کے ادراک کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ نے اپنے کلام کے ذریعے انسان کو مخاطب کیا ہے‘ اور یہ کلام بصورتِ الفاظ موجود ہے‘ اس سے آگاہی۔ دوسری صورت ان قوانین کا علم‘ جو اللہ کی مخلوق میں جاری و ساری ہیں‘ اور جن کے ذریعے مشیّت ِالٰہی کا فہم حاصل ہوسکتا ہے۔

غایتیّت (Teleology)

کائنات کی فطرت میں غایتیّت کارفرما ہے‘ یعنی یہ نظامِ کائنات مقصدی ہے۔ کائنات اپنے خالق کے مقصد کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘ اور اس کے نقشۂ کار کی تکمیل میں کوشاں نظرآتی ہے۔۴؎ یہ عالم‘ عبث اور بے مقصد نہیں تخلیق کیا گیا اور نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے۔۵؎ پھر یہ کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ بھی نہیں۔ اِسے ایک کامل صورت میں تخلیق کیا گیا ہے۔ ہر وہ شے جو موجود ہے‘ ٹھیک ٹھیک اُن خصوصیات اور حُدود کے مطابق ہے‘ جو اس کے لائق ہیں‘ اور ایک عالم گیر مقصد کی تکمیل کرتی نظرآتی ہے۔۶؎ دنیا حقیقتاً ایک ’کائنات‘ ہے۔ ایک ایسی تخلیق‘ جس میں نظم و ضبط نظرآتا ہے‘ نہ کہ انتشار۔ یہاں خالق کی مشیّت ہرجگہ کارفرما نظر آتی ہے۔ اُس کے بنائے ہوئے ضابطے‘ قانونِ فطرت کے وجوب کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں‘ کیوں کہ اُن کے خالق نے جس طرح سے اُنھیں ترکیب کیا ہے‘ وہ اُسی صورت میں کارفرما رہتے ہیں۔۷؎ مگر یہ بات تمام مخلوق کے لیے تو درست ہے‘ تاہم انسان ایک استثنا ہے۔ فعلِ انسانی ہی وہ صورت ہے‘ جہاں مشیّت الٰہی ایک لزوم کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتی‘ بلکہ بالارادہ‘ انسان کے اختیار اور اس کی آزادیِ عمل کے نتیجے ہی میں ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک انسان کے جسمانی اور نفسی وظائف کا تعلق ہے‘وہ فطرت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہیں‘ اور وہ اُسی طرح قوانینِ فطرت کے پابند ہیں‘ جس طرح دوسری مخلوقات کے افعال قوانینِ فطرت کے ساتھ ایک جبر اور لزوم کا رشتہ رکھتے ہیں۔ لیکن روحانی وظائف___ یعنی فہم اور فعلِ اخلاقی‘ جبر فطرت کے دائرے سے باہر ہیں۔ ان کا انحصار خود فاعل کی ذات پر ہے‘ اور اُن کے تعینات کا ذمہ دار وہ خود ہے۔

مشیّت الٰہی کی تکمیل‘ جس طرح دوسری مخلوقات میں ہوتی ہے‘ اس طرح انسان میں نہیں ہوتی‘ اور یوں اس کے افعال میں کیفیت کے اعتبار سے ایک مختلف قدر کا ظہور ہوتا ہے۔ مشیّت وجوبی یا جبری کا تعلق صرف جسمانی مادّی یا افادیتی اقدار سے ہوتا ہے‘ جب کہ اس کی اختیاری تکمیل کا تعلق اخلاقی اقدار سے ہے۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقاصد اخلاقی‘ انسان کے لیے اس کے احکام‘ اس مادی عالم میں بھی اساس رکھتے ہیں‘ اور اسی لیے اُن کا ایک افادیتی پہلو بھی ہے۔ مگر یہ اُن کا یہ پہلو کہ اُن کے ساتھ اختیار وابستہ ہے۔ [نہ کہ جبر]‘ یعنی یہ کہ وہ انھیں اختیار بھی کرسکتا ہے‘ اور رد بھی‘ اُن پر عامل بھی ہوسکتا ہے‘ اور اُن سے منحرف بھی‘ اور یہ اختیار ہمیشہ انسان کا اپنا ہوتا ہے___ یہی خصوصیت اُن افعال کو ایک خاص درجہ عطا کرتی ہے___ اسی وجہ سے یہ افعال ، ’فعلِ اخلاقی‘ شمار ہوتے ہیں۔۸؎

استعداد انسانی اور فطرت کی تشکیل پذیری (Capicity of Man and Malleability of Nature)

اللہ تعالیٰ نے ہر شے ایک مقصد کے تحت تخلیق فرمائی ہے۔ وجودِ کُل کا بھی ایک مقصد ہے‘ اور زمان و مکاں میں اس مقصد کی تکمیل کا امکان لازمی قرار پاتا ہے۔ ۹؎ اگر یوں نہ سمجھیں تو کلبیّت سے چھٹکارا بھی نہیں مل سکتا۔ اس صورت میں زمان و مکاں‘ بلکہ ساری تخلیق ہی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ اس امکان کے بغیر تکلیف (تفویض‘ اخلاقی فریضہ‘ ذمہ داری) کا تصور ہی منہدم ہوجاتا ہے‘ اور اس کے انہدام کے ساتھ یا تو یہ تصور باقی نہیں رہتا کہ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مقصد یا حکمت تھی‘ یا اس کی قدرت پر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے۔ اس کی مشیّت مطلق کے ذریعے تخلیق کے مقصدِ وجود کی تکمیل کو تاریخ میں لازمی طور پر ظہور کرنا ہوگا اور تاریخ نام ہے اس عمل کا جو تخلیق کے لمحۂ اوّل سے قیامت کے دن تک محیط ہے۔ عملِ اخلاق کے فاعل کی حیثیت میں انسان کے لیے لازمی ہے کہ اس میں خود کو‘ اپنے ابناے جنس کو یا معاشرے کو‘ فطرت یا اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہو‘ تاکہ وہ اُلوہی نقشۂ کار یا حکمِ الٰہی کو اپنی ذات میں اور اُن میں پورا کرسکے۔۱۰؎ فعلِ اخلاقی کے عامل کی حیثیت سے انسان اور اس کے ابناے جنس‘ نیز ماحول میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ انسانِ فاعل کے عملِ موثر کو قبول اور انگیز کرسکیں۔

یہ صلاحیت‘ انسانِ فاعل کی صلاحیت کے تناظر میں ایک بالکل معکوس شے ہے۔ اس کے بغیر فعلِ اخلاقی کے لیے انسان کی صلاحیت یا کارکردگی ناممکن ہوگی‘ اور کائنات کی مقصدی ماہیت منہدم ہوجائے گی۔ پھر ایسی صورت میں کلبیّت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اگر تخلیق کا کوئی مقصد ہے تو کائنات کو تشکیل پذیر‘ تغیر کے قابل ضرور ہونا چاہیے۔ اُسے ایسا ہونا چاہیے کہ اس کا مادّہ‘ ہیئت‘ کیفیت اور علائق‘ تبدیلی اور تغیرپذیری کے اہل ہوں‘ تاکہ وہ انسانی نمونوں یا مقصد کی تجسیم کرسکے‘ اور اس کی مطلوبہ صورت میں ڈھل سکے۔ اگر خدا واقعی خدا ہے‘ اور اس کا فعل کارِعبث نہیں ہے‘ تو یہ مفروضہ ایک لازمی شرط کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ یہ بات ہر طرح کی تخلیق کے لیے صادق آتی ہے۔ اس میں انسان کی جسمانی‘ نفسی اور روحانی فطرتیں شامل ہیں۔ تمام مخلوق اسی زمان اور اسی مکان میں ’بایستن‘ (ہونا چاہیے) یا مشیّت یا اللہ کی بنائی ہوئی ساخت یا مطلق کی تکمیل یا اُسے حقیقت کا رُوپ دینے والی ہے۔۱۱؎

ذمہ داری اور فیصلہ (Responsibility and Judgement)

ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں‘ معاشرے میں‘ اور ماحول میں اس طرح کی تبدیلیاں لائے کہ وہ اللہ کے نمونے اور نقشۂ کار سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ انسان میں ایسا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے‘ کیوں کہ مخلوق‘ تشکیل پذیر ہے [جامد نہیں]‘ اور یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ انسان کے عمل سے اثر قبول کرے‘ اوراس کے مقصد کے مطابق ڈھل سکے۔ ان حقائق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان‘ مسئول اور  جواب دہ ہستی ہے۔۱۲؎ ذمہ داری اور محاسبے کے تصور کے بغیر اخلاقی فریضے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اگر یہ نہ تصور کیا جائے کہ انسان ایک ذمہ دار اور مُکلف ہستی ہے‘ اور کسی نہ کسی طرح‘اور کہیں نہ کہیں اُسے اپنے افعال کے محاسبے سے دوچار ضرور ہونا ہوگا‘ تو کلبیّت ایک دفعہ پھر لازم آئے گی۔ فیصلہ‘ حکم لگانا‘ یا ذمہ داری کو پورا کرنا‘ فریضۂ اخلاقی یا اخلاقی تحکیم کی لازمی شرط ہے۔ اس کا صدور ’معیار سے مطابقت‘ یا معیاربندی کی اپنی ماہیئت سے ہوتا ہے۔۱۳؎ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ محاسبہ موجودہ زمان و مکاں کی حدود میںہوتا ہے‘ یا اس کے اختتام پر‘ یا دونوں صورتوں میں‘ لیکن اُسے واقع ضرور ہونا ہے۔ اللہ کی اطاعت‘ یعنی اُس کے احکام کی بجاآوری‘ اور اس کے دیے ہوئے نمونوں کو وجود میں لاکر‘ اُن کی صورت گری کر کے ہی حقیقی فلاح کا حصول ممکن ہے۔ ایسا نہ کرنا‘ یعنی اُس کی نافرمانی‘ سزا کی مستوجب ہوگی‘ جو دکھ‘ اَلم اور ناکامی کے عذاب پر مستوئی ہوگی۔۱۴؎

متذکرہ بالا پانچ اصول بدیہی صداقتوں پر مشتمل ہیں۔ یہ التوحید کے مغز اور اسلام کے لُب لباب کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ حنیفیت کا بھی مغز ہیں۔یہ تمام الہاماتِ سماوی کا خلاصہ ہیں۔ تمام انبیا نے اِن اصولوں کی تعلیم دی ہے اور انھی پر اپنی تحریکات کو استوار کیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی اصول‘ فطرتِ انسانی کے تانے بانے میں [اس کی سرشت میں] پیوست کردیے ہیں۔۱۵؎ یہ اُس بے خطا دین فطرت یا فطری ضمیر کوتشکیل دیتے ہیں‘ جن پر انسان کے سارے اکتسابی علم کی بنیاد ہے۔ یہ بات بالکل فطری ہے کہ ساری اسلامی ثقافت کا ڈھانچا انھی پر استوار ہے‘ اور یہ سب مل کر توحید کے اصل مغز کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہماری پوری تاریخ میں علم‘ ذاتی اور سماجی اخلاقیات‘ جمالیات‘ اسلامی زندگی اور عمل انھی پر اساس رکھتے ہیں۔

نتیجہ

اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حیات کا منصہ شہود پر آنا‘ ایک فعلِ عبث نہیں ہے۔ اُسے ایک مقصد کو پورا کرنا چاہیے اور یہ مقصد‘ محض ایک خواہش اور اس کی تکمیل‘ پھر ایک نئی خواہش اور اس کی تکمیل کا ایک غیرمختتم سلسلہ نہیں ہوسکتا۔ ایک مسلمان کے لیے غایت دو بالکل مختلف نظاموں پر مشتمل ہوتی ہے: نظامِ فطری اور نظامِ اعلیٰ‘ اوروہ اسی مؤخرالذکر میں اُن اقدار اوراُن اصولوں کو تلاش کرتا ہے‘ جن کے ذریعے اوّل الذکر کا انتظام کرسکے۔ اب چوں کہ اس نے دائرۂ اعلیٰ کو اللہ کے طور پر شناخت کرلیا ہے‘ اس لیے وہ ہر اُس نظامِ رہنمائی کو رد کر دے گا‘ جس کا مصدر ذاتِ الٰہی نہیں ہے۔ اس کی مضبوط اور مستحکم توحید دراصل ایک انکار ہے‘ اس بات کا انکار کہ انسانی زندگی کو اخلاق کے علاوہ کسی بھی دوسرے نظامِ رہنمائی کے تابع کیا جائے۔ مسرتیت‘ لذتیت اور وہ دوسرے تمام نظریات‘ جو اخلاقی قدروں کو فطری زندگی میں تلاش کرتے ہیں‘ اس کے نزدیک قابلِ رد ہوں گے۔ اس کے نزدیک ان میں سے کسی کو بھی قبول کرلینا ایسا ہی ہوگا‘ گویا اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کو بطور رہنما اور انسانی زندگی کے لیے معیارساز تسلیم کرلیا گیا ہو۔ شرک (اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرلینا‘ توحید کی خلاف ورزی) دراصل اخلاقی اقدار کو مادّی اور افادیتی قدروں کے ساتھ گڈمڈ کردینے کا نام ہے۔ یہ اقدار‘ آلاتیت کا رنگ لی ہوئی ہوتی ہیں‘ انھیں غائی نہیں کہاجاسکتا۔ 

مسلم ہونے کا مطلب یہی تو ہے کہ فقط اللہ کو (یعنی خالق کو‘ نہ کہ مخلوق یا فطرت کو) معیارِمطلق کے طور پر قبول کیا جائے‘ اس کی مشیّت کو حکم تسلیم کیا جائے‘ صرف اُسی کے منہاج کو مخلوق کے لیے اخلاقِ مطلوب تصور کیا جائے۔ ایک مُسلم کی بصارت کے مشمولات میں صداقت‘ حُسن اور خیرشامل ہوتے ہیں۔ مگر یہ اس کے لیے دائرۂ عقل سے خارج کوئی چیز نہیں ہیں۔ اس طرح وہ علومِ مذہبی کی تفسیر و تشریح میں قدریاتی اصولوں کا حامل ہوتا ہے؟ لیکن اس کی غایت بس یہی ہوتی ہے کہ بحیثیت ایک فقیہہ کے وہ ایک دُرست اور صحت مند مجموعۂ فرائض تک رسائی حاصل کرسکے۔ اس کے نزدیک عقیدے کے ذریعے حاصل ہونے والا جواز کوئی معنی نہیں رکھتا؟تاآنکہ اُسے عمل کی رزم گاہ میں داخل نہ کرلیا جائے۔ اسی مقام پر اس کے بہترین اور بدترین اوصاف کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت میں وہ آسمان اور زمین کے درمیان تنہا کھڑا ہے‘ اُسے راہ دکھانے کے لیے اس کے پاس اپنی معیارِ قدر کی بصارت کے سوا کوئی رہنما نہیں‘ اس کارِعظیم پر اپنی قوتوں کو مرتکز کرنے کے لیے اس کے اپنے ارادے کے علاوہ کوئی مہمیز نہیں‘ اور لغزشوں اور ٹھوکروں سے بچانے کے لیے اس کے اپنے ضمیر کے سوا کوئی اور قوت اس کے پاس نہیں ہے۔

یہ اس کا استحقاقِ خصوصی ہے کہ وہ کائناتی جوکھم کی زندگی گزارے‘ کیوں کہ یہاں کوئی دیوتا نہیں ہے‘ جو اس کے لیے اِن خطرات سے نبردآزما ہونے کا بیڑہ اُٹھا لے۔ بات صرف یہی نہیں کہ یہ مہم اُسی وقت سَرہوگی‘ جب وہ خود اس کی تکمیل کرلے گا۔ بات یہ ہے کہ یہاں اس کے لیے پس و پیش کی کوئی گنجایش ہی نہیں۔ اگر اس کی فطرت اُسے کسی ناخوش گوار اُلجھن سے دوچار کرتی ہے تو وہ بس یہ ہے کہ اُسے اُس اُلوہی بارِ امانت کو اٹھانا ہے‘ اس مقدس فریضے کو بحیثیت ایک مسلم پورا کرنا ہے‘ یا اس عمل میں خود کو مٹا دینا ہے۔۱۶؎ اس میں شک نہیں کہ اس راہ میں ایک امکانی المیہ اپنا منہ کھولے گھات میں بیٹھا ہے مگر یہی ایک مسلم کے لیے وجہِ افتخار بھی ہے۔ جیساکہ افلاطون کہہ گیا ہے: ’’خیر سے محبت کرنا اس کا مقسوم ہوچکا ہے‘‘۔


حواشی

۱-            وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے… اُس جیسی کوئی شے نہیں؟ اور وہ بہت سننے اور دیکھنے والا ہے (الشورٰی ۴۲:۱۱)۔ اُس کے بارے میں یہ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہیں‘ وہ اس سے بہت برتروبلند ہے (الانعام۶:۱۰۰)۔ آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی‘ اور وہ سب کی نگاہوں کا ادراک کرلیتا ہے۔ (۶:۱۰۳)

۲-            کہہ دو کہ اللہ ایک ہے‘ اللہ بے نیاز ہے‘ نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ‘ اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔ کوئی بھی اس کا ہم سر نہیں (الاخلاص ۱۱۲:۱-۴)۔ اُن لوگوں [کافروں] نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرایا ہے‘ حالاںکہ اُسی نے اُنھیں پیدا کیا ہے‘ اور اُنھوں نے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیے ہیں‘ جب کہ اُنھیں اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں۔ (الانعام۶:۱۰۰)

۳-            کیا انھوں نے زمین میں سے جو معبود بنا رکھے ہیں‘ وہ مُردوں کو زندہ کردیتے ہیں؟ اگر اِن دونوں [زمین و آسمان] میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ پس اللہ تعالیٰ عرش کا مالک ہر اُس وصف سے پاک ہے‘ جو یہ بیان کرتے ہیں۔ اپنے کاموں کے لیے وہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں‘ اور سب اس کے آگے جواب دہ ہیں۔ کیا اُن لوگوں نے اللہ کی سوا اور معبود بنا رکھے ہیں؟ کہہ دیجیے [کہ اگر یوں ہے تو] اس کی دلیل پیش کرو (الانبیاء ۲۱:۲۱-۲۴)

۴-            جہاں تک اللہ کی تخلیق کے نمونے کا تعلق ہے؟ تم اللہ کے دستور میں کبھی ردّ و بدل نہ دیکھو گے‘ اور تم ہرگز اللہ کے طریقے میں انحراف نہ پائو گے (۲۵:۴۳)

۵-            [اہل ایمان] آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘ [اور پکار اُٹھتے ہیں] ’’اے ہمارے پروردگار‘ تو نے یہ سب کچھ ناحق اور غلط نہیں پیدا کیا‘ تو پاک ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۹۱)۔ ہم نے آسمان اور زمین‘ اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے‘ ایک کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیے۔ (الانبیائ۲۱:۱۹)

۶-            [اللہ] وہی ہے ‘ جس نے ہرچیز کی بناوٹ بہترین طریقے پر کی ہے (السجدہ۳۲:۷)۔ وہ جس نے تخلیق کی اور اُسے ٹھیک ٹھیک بنایا (الاعلٰی۸۷:۲)…اللہ وہ ہے‘ جس نے زمین کو تمھارے لیے ٹھیرنے کی جگہ بنایا‘ اور آسمان کو [حفاظتی] چھت کے طور پر بنایا‘ اور تمھاری صورت گری کی[تو دیکھو کہ] کیسی اچھی صورت گری کی…(۴۰:۶۴)۔ ہم نے ہرچیز کو ایک متعین ضابطے کے مطابق باندھ رکھا ہے۔ (۳۶:۱۲)

۷-            [اللہ ہی ہے] جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے… اُسی نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے‘ اور ہرچیز کو ایک اندازے کے مطابق اس کی تقدیر (بناوٹ‘ انجام) عطا کی ہے (الفرقان۲۵:۲)۔ کہہ دیجیے‘ ہمیں وہی کچھ پہنچ کر رہے گا‘ جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کر رکھا ہے…(التوبہ۹:۵۱)

۸-            قرآن مجید‘ حوالۂ سابق‘ الاحزاب۳۳:۷۲۔ یہ ’امانت‘ کا وہ ڈرامائی بیان ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فطرت کے حوالے سے دیا ہے۔ وہ امانت‘ جسے فطرت (کائنات) اُٹھا نہ سکی‘ مگر انسان اُس بارِامانت کو اٹھانے پر راضی ہوگیا [آسمان بارِ امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند]۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ’تکلیف‘ [مُکلف ہونے] کا اخلاقی اصول ہے‘ اور تکلیف یا ذمہ داری کے لیے ’قدرت‘ [قوت‘ صلاحیت] شرط ہے‘ ساتھ ہی اختیار [ارادے کی آزادی] بھی اس کے لیے لازمی ہے۔

۹-            میں [اللہ] نے جِنوں اور انسانوں کو اسی لیے تو پیدا کیا ہے کہ وہ میرا حکم بجالائیں (الذّٰریٰت۵۱:۵۶)۔   وہی [اللہ] ہے‘ جس نے موت اور حیات کو تخلیق کیا‘ تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے بہترعمل کرنے والا کون ہے (الملک۶۷:۲)

۱۰-         ایضاً

۱۱-         ساتوں آسمان اور زمین‘ اور جو کچھ اُن میں ہے‘سب اُسی کی تسبیح کرتے [اس کا حکم مانتے] ہیں۔ [دراصل] کوئی بھی شے ایسی نہیں‘ جو اس کی تسبیح [فرماں برداری] نہ کر رہی ہو۔ (بنی اسرائیل۱۷:۴۴)

۱۲۔          اور اُن [یعنی سب انسانوں] سے جواب طلبی ہوگی (الانبیائ۲۱:۲۳)۔ (قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں‘ جن سے واضح ہوتا ہے کہ انسان ایک ذمہ دار اور آزاد ہستی ہے اور اُس سے بازپرس اور جواب طلبی ضرور ہوگی)

۱۳-         ہروہ چیز جسے اسلام میں ’حساب‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ’یوم الحساب‘ فیصلے کا دن ہے۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے ان کے اعمال کی جواب دہی کرے گا‘ اور اُن سے حساب لے گا‘ قرآن مجید میں مرکزی خیال کے طور پر ہرجگہ نظرآتی ہے۔ حقیقتاً یہ تصور اسلام کے اخلاقی /مذہبی نظام کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔

۱۴-         مکہ میں نازل شدہ سورتوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ بتا دے گا کہ اللہ تعالیٰ کا انسان سے تعلق ایک عہد پر استوار ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ تمام سابق انبیا اور اُن کے ماننے والوں کا بھی یہی تصور تھا۔ تمام قُدما کی مذہبی اور اخلاقی اساس کی رُوح بھی یہی سوچ تھی۔ یہ بات میسوپوٹیمیا [قدیم عراق] کی ’اینموما ایلش‘ اور لپت اشتر اور حورابی کے ضابطہ ٔ قانون میں بھی عیاں ہے۔ دیکھیے جیمز بی پریچارڈ کی Ancient Near Eastern Texts ، ناشر: پرنسٹن یونی ورسٹی پریس‘ پرنسٹن‘ ۱۹۵۵ئ۔

۱۵-         پس آپؐ یک سُو ہوکر اپنا رخ دین خالص کی طرف کرلیں۔ [یہ دین] اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق [پیدا کرنے کے طریق] میں کوئی تبدیلی نہیں‘ یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے۔ (الروم ۳۰:۳۰)

۱۶-         اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب پیش نظر رہے‘ جو آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب کو دیا تھا‘ جب انھوں نے کہا تھا کہ آپؐ دعوتِ اسلام سے کنارہ کشی کرلیں‘ اور اس طرح بنوہاشم پر اہلِ مکّہ کے ظلم وستم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ آپؐ نے فرمایا تھا:چچاجان‘ اگر وہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر بھی رکھ دیں‘ تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آئوں گا‘ چاہے اس عمل میں میری جان ہی چلی جائے۔ محمدحسین ہیکل: The Life of Muhammad ترجمہ: اسماعیل راجی الفاروقی (ناشر:امریکن ٹرسٹ   پبلی کیشنز‘ انڈیانا پریس‘ ۱۹۷۶ئ)‘ص ۸۹۔

دعوت کے اس سال اور تذکار سیرتؐ کے اس مہینے میں ہم قرآن کی روشنی میں حیاتِ طیبہؐ میں دعوت کے مقام کی اہمیت پر محترم خرم مراد کا ایک منفرد مطالعہ پیش کر رہے ہیں۔ دعوتِ دین کا کام کرنے والے ہر فرد کے لیے اس میں عملی رہنمائی ہے۔ (ادارہ)

مقام دعوت سے آپؐ کے قلب و ذہن کا تعلق‘ اس کی عظمت اور ذمہ داری کا احساس‘ اس کے لیے آپؐ کی لگن‘ اس کے لیے اپنی علمی‘ روحانی‘ اخلاقی اور عملی تیاری اور اس راہ میں آپؐ کی نفسیاتی کیفیات کا ایک وسیع اور اہم موضوع ہے‘ جس پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے۔ ہم صرف چند موتی ہی چن سکتے ہیں۔

احساس عظمت اور دل کی لگن

دعوت الی اللہ‘ شہادت حق اور اقامت دین کا مقام اور کام‘ جو وحیِ الٰہی کی امانت کا لازمی نتیجہ ہے‘ بڑا نازک اور گراں بار کام ہے۔ ہر اس شخص کے لیے ہے‘ جس پر یہ ذمہ داری آتی ہو۔ لیکن جو سالار قافلہ ہو اس کے لیے اس عظیم ذمہ داری کے بوجھ کا کیا ٹھکانا۔

کوئی بھی اگر اس کو ایک مشغلے اور ایک پیشے کی طرح یا ماحول کے دبائو یا صرف اپنی اندرونی کیفیات کی تسکین کی خاطر اٹھائے تو اس کا صحیح حق ادا نہیں کر سکتا‘ جب تک وہ اس کو اپنے رب کی طرف سے عائد کردہ فرض نہ سمجھے۔ اس لیے کہ یہ راہ کٹھن ہے اور اس کے مطالبات نازک‘ اور سب سے زیادہ قائد کے لیے۔ اس کو‘ سب سے بڑھ کر‘ اس راہ میں مکمل بے نفسی‘ بے غرضی‘ خلوص اور للّٰہیت درکار ہے۔ اس کو انتہائی اعلٰی اخلاق کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ وہ مخالفتوں کے طوفان میں صبر و ثبات پر قائم رہے۔ کامیابی کے مادی امکانات معدوم ہونے کے باوجود اپنے کام میں لگا رہے۔ برائی کا جواب بھلائی سے دے۔ گالیوں اور کانٹوں کے درمیان مسکراہٹ کے ساتھ گزر جائے‘ پتھر کھا کر ہدایت کی دعا دے۔ مخالفین تک کے ساتھ طنز و استہزا اور تذلیل و تحقیر کی روش اختیار نہ کرے۔ کمزور اور ناتواں ساتھیوں کو لے کر دشوار گزار مراحل سے گزرنے کا حوصلہ و ہمت رکھے۔ اپنوں کے ستم بھی خاموشی کے ساتھ سہہ لے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ذمہ داری پر فائز ہونے کے احساسات کے ساتھ کبر اور پندارِ نفس اور تنگ نظری کے فتنوں سے بھی خود کو محفوظ رکھے۔ گویا اس کے اخلاق‘ مجسم قرآن ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی معراج پر پہنچے ہوئے تھے۔ طائف کی کٹھن وادی سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کے بعد ہی آپ کو آسمان کی بلندیوں پر لے جایا گیا۔ عرب و عجم آپؐ کے قدموں پر ڈال دیئے گئے۔

حضوؐر کو اس بات میں کیا شبہہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ کو یہ کام اللہ کی طرف سے سپرد ہوا ہے اور جو کچھ آپؐ کر رہے ہیں وہ اللہ کا کام ہے۔ ایسا کوئی شبہہ آپؐ کو لاحق نہیں ہوا۔ اس معاملے میں آپؐ کے یقین کی کیفیت بالکل منفرد تھی‘ اور اس کا کوئی حصہ بھی‘ میرے خیال میں‘ کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کلام کرتا تھا۔ جبریل ؑ آپؐ کے پاس تشریف لاتے تھے اور وحی آپؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ ہم امتیوں کا حصہ تو بس اتنا ہی ہے جو ہم قرآن کے ان الفاظ پر یقین کی کیفیت سے حاصل کریں اور یہ ہمارے لیے کافی ہے‘ اگر کماحقہ ہمیں حاصل ہو:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف۶۱: ۱۴) اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کے مددگار بنو۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَـہٗٓ (البقرہ ۲: ۲۴۵) تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسن دے‘ تا کہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے۔

قرآن میں جہاں حضوؐر کو مخاطب کر کے فَلَا تَکُن مِنَ الْمُمْتَرِیْن(شک کرنے والے نہ ہو جائو) کہا گیا‘ تو اوّل تو خطاب کے پردے میں عتاب کا رخ مخالفین کی طرف ہے۔ دوم یہ‘ کہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو اس وقت طاری ہوتی ہے‘ جب کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آ رہا ہو کہ سورج نکلا ہوا ہے اور سارے دیدئہ بینا رکھنے والے اس کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے میں مصروف ہوں اور‘ وہ سوچے کہ آخر ان کو کیا ہو گیا ہے!

اللّٰہ کا کام سمجہنے کی کیفیت

آپؐ نے سارا کام اسی احساس و یقین کے ساتھ سرانجام دیا کہ یہ اللہ کا کام ہے۔ قرآن جب اترتا تو اکثر اس یقین کو گہرا کرنے کے لیے وضاحت و صراحت سے کام لیتا: یہ رب العالمین کی طرف سے اتر رہا ہے‘ آپؐ حق پر ہیں‘ آپؐ صراط مستقیم پر ہیں‘ آپؐ مرسلین میں سے ہیں۔ اس طرح آپؐ کے ساتھ ساتھ‘ صحابہ کرامؓ کی کیفیت ِیقین میں بھی اضافہ ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس چیز کی یاد دہانی سے کسی لمحہ بھی نہ غفلت برتی جا سکتی ہے نہ فارغ ہوا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ احساس کمزور ہوتا تو خرابیاں سر اٹھاتیں۔ اور جب ایمان و احساس کمزور ہوتا ہے تو پھر خرابیاں ضرور سر اٹھاتی ہیں۔ اگر آپؐ کے کردار کو کسی ایک لفظ سے ظاہر کرنا مقصود ہو تو وہ ’صبر‘ کا لفظ ہو سکتا ہے‘ محدود معنوں میں نہیں بلکہ اپنے گوناگوں جامع معانی میں۔ اور آپؐ کا یہ سارا صبر اپنے رب کی خاطر تھا۔ اس لیے کہ کام بھی اسی کی خاطر تھا:

وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

مالک کی نگاھـوں میں

اس ضمن میں ایک اور اہم کیفیت تھی جو آپؐ پر طاری رہتی تھی۔ وہ یہ کہ آپؐ یہ سارا کام اس مالک کی نگاہوں کے سامنے کر رہے ہیں جس نے اس کام پر مامور کیا ہے۔ وہ ساتھ ہے سب کچھ سُن رہا ہے‘ دیکھ رہا ہے‘ وہ بھی جو مخالفین کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں‘ اور وہ بھی جو ساتھیوں کی طرف سے ہے‘ اور وہ بھی جو میں کہہ رہا ہوں اور کر رہا ہوں:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُـنِنَا (الطور۵۲: ۴۸) اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔

اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۴۶) میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط (الحدید۵۷: ۴) تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے۔

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْـدِo (ق ۵۰: ۱۶) اور ہم شاہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔

غرض‘ دو ہوں تو تیسرا وہ ہے (التوبہ ۹:۴۰)۔ تین ہوں تو چوتھا وہ ہے۔ کم ہوں یا زیادہ‘ تو بھی وہ ساتھ ہے (المجادلہ۵۸: ۷)۔ اس کیفیت میں دو خزانے مستور ہیں: ایک خزانہ توسکون‘ طمانیت‘ اعتماد‘ توکّل‘ جرأت‘ بے خوفی‘ ولولہ‘ جوش اور ہر لمحہ تازگی اور شادابی کا خزانہ ہے۔ غارِ ثور اس کی ایک مثال ہے۔ پوری سیرت طیبہ ان واقعات سے بھری ہوئی ہے جو ان کیفیات پر گواہ ہیں۔ ۲۳ سال میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب آپؐ پر تھکن‘ یعنی ذہنی و نفسیاتی تھکن طاری ہوئی ہو‘ جب اکتاہٹ طاری ہوئی ہو‘ جب جوش و ولولے میں کمی آئی ہو‘ یا جب حوصلے پست ہوئے ہوں۔

اور دوسرا خزانہ‘ ذمہ داری کی عظمت و نزاکت کے احساس کا خزانہ ہے۔ جس کا کام کررہے ہیں اور جس کو اپنا کام دکھانا ہے‘ جب وہ کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو تو قلب و ذہن احساس ذمہ داری سے کس طرح خالی ہو سکتے ہیں۔ اور جتنا زیادہ اس کی عظمت و کبریائی کا احساس ہو گا‘ اتنا ہی زیادہ اس کے کام کی عظمت کا احساس ہو گا۔

عظمت اور ذمہ داری کا احساس

کام کی عظمت‘ منصب کی نزاکت اور ذمہ داری کی گراں باری سے آپؐ ہمیشہ معمور رہے۔ وحی آئی تو لرز گئے‘ کانپ گئے۔ یہ کپکپاہٹ اور لرزش دل پر بھی تھی اور جسم بھی اس میں شریک تھا۔ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے تو زَمِّلُوْنِیْ(مجھے چادر اوڑھا دو) کہتے ہوئے آئے۔ قرآن نے شروع میں ہی یاایھا المزمل اور یاایھا المدثر کہہ کر خطاب کیا تو اور دوسری کیفیات کے ساتھ اس کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک عظیم الشان کام درپیش ہے۔ اس کی ہیبت طاری ہے۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں نور کی ایک کرن ہے جس سے روشنی کا سامان کرنا ہے۔ ایک پکار ہے‘ الفاظ پر مشتمل‘ جس سے سارے سوتوں کو جگانا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج ہے جس کی آبیاری کر کے ایسے درخت میں تبدیل کرنا ہے جس کی جڑیں ثابت ہوں اور شاخیں آسمان کو چھورہی ہوں جو سدابہار ہو اور جس کے پھلوں اور سایے سے قافلے کے قافلے نفع اندوز ہوں۔ چنانچہ بے چینی کی جو کیفیت تھی‘ اضطراب کا جو عالم تھا‘ ذمہ داری کا جو پہاڑ نظر آ رہا تھا‘ اپنی چادر میں لپٹ جانے کی کیفیت سے قرآن نے ان سب کی عکاسی کر دی۔

ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی سمجھ لیا کہ دعوت حق کے معنی اور اس کی قیادت کی ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ پائوں پھیلا کر سونے کا زمانہ گزر گیا۔ اپنی ذات تک سمٹ جانے کا دور گیا۔ اب تو کمربستہ ہو کر خود کو تیار کرنا ہے اور مسلسل کرتے رہنا ہے۔ اور کھڑے ہو کر‘ میدان کارزار میں کود کر‘ ساری دنیا کو آگاہ اور خبردار کر دینے اور رب کی کبریائی قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جانا ہے اور لگا رہنا ہے۔

قولِ ثقیل

اقراء کا پیغام آپؐ کے لیے علم کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا پیغام نہ تھا‘ بلکہ ایک قولِ ثقیل تھا جو اپنے دامن میں سنانے‘ دعوت دینے‘ ہجرت و جہاد کے مراحل طے کرنے کی ساری کٹھن وادیاں سمیٹے ہوئے تھا۔ وحی صرف اس لیے نہ تھی کہ پڑھیں اور ثواب حاصل کریں‘ بلکہ ذمہ داری کا ایک بوجھ تھا‘ ایسا بوجھ جو صرف معنوی ہی نہ تھا‘ بلکہ جسمانی بھی تھا۔ جب وحی آتی تو پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے اور اگر آپؐ سوار ہوتے تو اونٹنی بیٹھ جاتی:

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاo (المزمّل ۷۳: ۵) ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

آپؐ کے لیے یہ کام ایک مشغلہ نہ تھا‘ بلکہ ایک ایسا مشن تھا‘ ساری زندگی کا‘ جو ایسا لگتا تھا کہ آپؐ کی کمر توڑ ڈالے گا۔ جس کا بار صرف رحمت الٰہی کی دست گیری سے ہی کم ہوتا رہا:

وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ o (الم نشرح۹۴: ۲-۳) اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔

شہادت حق کی ذمہ داری سے آپؐ کا قلب مبارک اتنا گراں بار تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق: ایک مرتبہ حضورؐ نے ان سے تلاوت قرآن کی فرمایش کی۔ پہلے تو وہ ہچکچائے کہ میں اور مہبط وحی کو قرآن سنائوں۔ جب آپؐ نے اصرار کیا‘ تو انھوں نے سورۃ النساء کی چند آیات تلاوت کیں۔ جب وہ ان آیات پر پہنچے: فکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَابِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء ۴: ۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے  جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ تو آواز آئی: ’’عبداللہ بس کرو!‘‘ کہتے ہیں کہ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

دل کی لگن

کام کی عظمت اور ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ یہ تھا کہ دعوت و تحریک کی حیثیت آپؐ کے لیے ایک لبادے کی نہ تھی جو اوپر سے اوڑھ لیا ہو بلکہ یہ دل کی لگن بن گئی تھی۔ اس نے نہاں خانہ روح میں جگہ بنا لی تھی۔ یہ گہرائیوں میں اتر گئی تھی۔ اس کی دُھن آپؐ پر ہر وقت سوار تھی۔ صبح شام یہی ذکر تھا‘ یہی فکر تھی‘ یہی مشغلہ تھا اور یہ کیفیت ہر اس چیز کے لیے تھی جو اس مقصد کا تقاضا ہو۔ لیکن سب سے بڑھ کر دعوت کے لیے تھی۔ دل میں ایک سوز تھا۔ ایک خیر خواہی کا چشمہ ابل رہا تھا کہ لوگ ہدایت پائیں‘ حق تک پہنچ جائیں‘ صحیح راہ سے لگ جائیں۔ آپؐ کی اس کیفیت‘ لگن اور اضطراب کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی ہے:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o (الشعرا ۲۶: ۳) اے نبیؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اس دُھن اور سوز میں آپؐ اپنے آپ کو ہلاک کیے دے رہے تھے۔ ہدایت کے لیے اس نوعیت کی تڑپ کے بغیر کوئی دوسری اجتماعی تحریک چل سکتی ہو گی‘ مگر اسلامی تحریک کا چلنا بڑا مشکل ہے۔

آپؐ کی اسی حالت کے پیشِ نظر قرآن کو بار بار آپؐ کا دامن تھامنا پڑا۔ سمجھانا پڑا کہ آپؐ کے بس میں ہر ایک کو نعمتِ ایمان سے فیض یاب کرنا نہیں۔ آپؐ کو داروغہ‘ وکیل‘ فیلڈ مارشل بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آپؐ کی بنیادی ذمہ داری‘ پہنچانا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ہر انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس کو راہِ زندگی منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

قرآن کی ہر اس نوعیت کی آیت دراصل آپؐ کی لگن کو بھی ظاہر کرتی ہے اور داعیِ حق کے مقام کو بھی واضح کرتی ہے اور معلم کو اس کی حدود بھی بتاتی ہے:

اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَھْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الزخرف ۴۳: ۴۰ ) اب کیا اے نبیؐ‘ تم بہروں کو سنائو گے؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھائو گے؟

اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَـآئُ ج (القصص ۲۸: ۵۶) اے نبیؐ ،تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اِن تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ (النحل۱۶: ۳۷) اے نبیؐ، تم چاہے ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو‘ مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا۔

وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوْ الْحَقُّ ط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍo (الانعام۶: ۶۶)

تمھاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں۔

اپنی تیاری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں پہلے دن سے قرآن مجید کی تبلیغ اور دعوت و تحریک کا کام شروع کیا‘ اسی لمحے سے اپنی تیاری کا کام بھی شروع کیا۔ دل و نگاہ اور دامن کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں--- طلب‘ محنت اور ریاضت کا تقاضا کرتی ہیں۔

قرآن سے تعلّق

قرآن اس ساری تیاری کا سرچشمہ تھا۔ وہ آپؐ ہی پر نازل ہو رہا تھا۔ آپؐ اس کو حاصل کرتے‘ اس پر تدبر کرتے‘ اس کا علم حاصل کرتے‘ اس کو نوکِ زبان کرتے اور حرزِ جاں بناتے‘ اس کو جذب کرتے اور اس کے سانچے میں ڈھل جاتے۔ ایک طرف تو آپؐ کی اپنی علمی‘ روحانی اور اخلاقی تیاری کے لیے یہ ناگزیر تھا‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ دوسرے‘ آپؐ کی رسالت اور دعوت و تحریک کے فرائض کا مرکز و محور بھی یہی قرآن تھا: تلاوتِ آیات‘ تعلیمِ کتاب و حکمت‘ تزکیۂ نفس:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۱) ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا‘ جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے‘ تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے‘ تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

قرآن مجید کے ساتھ آپؐ کا تعلق مارے باندھے کا نہ تھا بلکہ شوق اور محبت کا تھا‘ اس لیے کہ اسی سے آپؐ کو اپنے لیے ساری غذا ملتی تھی۔ اس شوق کا عکس آپؐ کے انتظار اور عجلت میں دیکھا جا سکتا ہے:

لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ o (القیامۃ۷۵: ۱۶) اے نبیؐ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ شوق و محبت کا مضمون ادب کے پامال مضامین میں سے ہے لیکن اس محبت و بے قراری کی تعبیر کون کر سکتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت طاری ہوتی ہو گی جب ایک طویل وقفے کے انتظار کے بعد اور مخالفین کی ژاژخائیوں کے طوفان کے اندر حضرت جبریل امین اللہ تعالیٰ کے نامہ و پیام کے ساتھ نمودار ہوتے ہوں گے۔ ایک بچہ بھوکا ہو اور ماں اس کو چھاتی سے لگائے تو وہ چاہتا ہے کہ ماں کی چھاتی کا سارا دودھ ایک ہی سانس میں سڑپ لے۔ صحرا کا مسافر پیاس میں تڑپ رہا ہو اور طویل انتظار کے بعد اس کو پانی کا ڈول ہی مل جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ پورا ڈول ایک ہی دفعہ پیٹ میں انڈیل لینا چاہتا ہے۔ ایک فراق زدہ کو جدائی کی کٹھن گھڑیاں گزارنے کے بعد نامۂ محبوب مل جائے تو وہ چاہے گا کہ ایک ہی نظر میں اس کا ایک ایک حرف پڑھ ڈالے‘‘۔ (تدبر قرآن ‘ جلد ۸‘ ص ۵۸)

حصولِ علم کا شوق

زبان کی عجلت تو ہدایت الٰہی کے بعد ضبط کے پیرایے میں ڈھل گئی۔ لیکن دل کا شوق و اضطراب کہاں ختم ہوا۔ اس کے اظہار اور تکمیل کے لیے زبان پر علم میں افزایش کی التجا نمودار ہوئی:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ۲۰: ۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار‘ مجھے مزید علم عطاکر۔

دعوتِ اسلامی کے سامنے جو منزل ہے‘ وہ مکتب ِوحی میں تحصیل علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ کام خالی کھڑکھڑانے والے برتن سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ذہن و فکر کی بے پناہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ حکمت کا خزانہ درکار ہے۔ حضورؐ نے قرآن مجید سے ہی اس علم و حکمت کا حصول کیا‘ جس کی بنیاد پر آپؐ نے انسان کے لیے پورا نظامِ حیات مدوّن کر دیا۔ پھر نہ صرف آپؐ کے اندر علم کے لیے وہ شوق اور اضطراب تھا جو قائد کے لیے ضروری ہے‘ بلکہ اس معاملے میں رجوع‘ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا‘ دعا اس سے تھی‘ بھروسا اور اعتماد صرف اسی پر تھا۔ اس لیے کہ علم کا سرچشمہ وہی ہے۔ پھر جیسے جیسے قرآن آپؐ کو ملتا گیا‘ آپؐ اس کو اپنے قلب و روح کی غذا بناتے گئے۔ اور قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہی حکمتِ الٰہی تھی۔ یہ زندگی میں ایک دفعہ کا تعلق نہ تھا۔ نہ یہ کہ جب موقع ملا تو ڈول اندر اتار لیا‘ خواہ جذب و ہضم کا کام ہو یا نہ ہو۔ غافل ہوئے تو مدتیں بیت گئیں۔

قیام لیل اور ترتیل قرآن

اس کا طریقہ کیا تھا؟

شروع میں حضوؐر بستر کا آرام چھوڑ کر رات کے بیش تر لمحات ہاتھ باندھ کر منزل قرآن کے سامنے کھڑے ہو جاتے‘ کبھی آدھی رات‘ کبھی اس سے زیادہ‘ کبھی اس سے کم‘ کبھی ایک تہائی‘ کبھی دو تہائی۔ اور قرآن کو آہستہ آہستہ‘ سوچ سمجھ کر‘ قلب و زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ تلاوت فرماتے۔ قرآن کو جذب کرنے کا اس سے زیادہ موثر اور کوئی نسخہ نہیں ہے:

قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o  ....اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ (المزمل۷۳: ۲-۴‘ ۲۰) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ اے نبیؐ ،تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات‘ اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔

اس طریقے کو آپؐ نے آخری عمر تک ترک نہیں کیا‘ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آپؐ کے پائوں پر ورم آ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپؐ قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے۔ رمضان المبارک میں پورا قرآن دہراتے اور عمومًا نماز فجر میں طویل قرأت فرماتے:

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط (العنکبوت۲۹: ۴۵) اے نبیؐ ،تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو۔

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o (الاسراء ۱۷: ۷۸-۷۹) نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے۔ اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے۔ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

ذکر الٰھی کا نظام

قرآن کے ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان دونوں کا رشتہ لاینفک ہے۔ اسی لیے میں یہیں یہ بھی کہہ دوں کہ نماز ہی آپؐ کا سب سے بڑا سہارا تھی۔ آپؐ اس کے ذریعے ہی مدد حاصل کرتے تھے اور جب کوئی امر آپؐ کو پریشان کرتا تو آپؐ نماز پڑھا کرتے تھے۔

قرآن اور نماز کے علاوہ آپؐ نے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر‘ اس کی وحدانیت کا اقرار‘ اس کی تکبیر‘ اس کی تسبیح‘ اس کی حمد‘ اس کے شکر کو اختیار کیا۔ صبح شام‘ رات دن‘ ہر لمحہ اور ہر کام کے موقعے پر‘ نہ صرف دل کو مشغول کیا‘ بلکہ چھوٹے چھوٹے کلمات کے ذریعے ان احساسات و کیفیات کو الفاظ کا جامہ پہنایا‘ تعداد مقرر کی‘ اوقات کا تعین کیا‘ خود اس نظام کا اہتمام کیا۔ اپنے رفقا کو   اس کی تاکید کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا اظہار جماعت کی زندگی میں سمو دیا گیا۔

اسی طرح آپؐ نے ہر موقع اور ہر حالت اور ہر ضرورت کے لیے بڑی جامع‘ قلب و روح کے لیے نشاط انگیز‘ جذبات کے لیے پُرکشش دعائیں تجویز کیں اور ان کی تعلیم دی۔ خاص طور پر آپؐ نے استغفار کا اہتمام کیا‘ کہ اللہ کی عبادت اور اس سے دعا کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعوت کا بنیادی جزو ہے۔ آپؐ خود کثرت سے استغفار کرتے تھے اور اس طرح کرتے تھے کہ ساتھی جانتے تھے کہ آپؐ استغفار کر رہے ہیں۔ ہر نشست کے خاتمے پر‘ ہر مجلس کے دوران اس کا اہتمام تھا۔ بعض اصحاب نے آپؐ کو ۷۰ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے دیکھا۔ آپؐ کے طریقے کی پیروی آپؐ کی جماعت نے بھی کی۔

صبر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے ساتھ عبدیت‘ اخلاص‘ محبت‘ شکر اور توکل جیسی صفات کا کامل ترین نمونہ تھے۔ اسی طرح آپؐ اس کی اطاعت میں بھی سب سے آگے تھے اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دینے میں پیش پیش۔ یہاں ان سارے پہلوئوں کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اخلاق کا ایک عظیم خزانہ آپؐ کے پاس صبر کی صورت میں تھا۔ آپؐ کے سارے اخلاق تو ایک ایسا اتھاہ سمندر ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ صرف صبر کے ہی اتنے پہلو ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ (مصنف کی کتاب: اسلامی قیادت: قرآن پاک کی روشنی میں سیرت پاک کا ایک منفرد مطالعہ کا ایک باب)

تربیت: معنی و مفھوم

تربیت کے معنی پرورش کرنا‘پالنا اور مہذب بنانا ہے۔ والدین کے لیے قرآنی دعا کے الفاظ بھی تربیت کا یہی مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں:

وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا o (بنیٓ اسرآء یل ۱۷:۲۴) اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔

والدین کی طرف سے اولاد کی تربیت کے مفہوم سے آگے تحریک اسلامی کا اپنے وابستگان کی تربیت کا مفہوم قدرے ہمہ گیر ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم کے الفاظ میں:’’اس سے مراد اصلاحِ افکار و اعمال کی وہ ہمہ گیر کوششیں ہیں جن کے نتیجے میں لوگوں کا اپنے خدا سے تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتا جائے۔ ان کے ذہنوں پر آخرت کی فکر چھاتی چلی جائے‘ ان کے ایمان میں جلا آتی رہے‘ ان کا دینی شغف برابر ترقی کرتا اور اسلام سے ان کی واقفیت برابر بڑھتی رہے‘ ان کے اخلاق کی بلندی‘ عمل کی صالحیت اور سیرت کی پاکیزگی امتیاز کا درجہ حاصل کرتی جائے۔ دین کی بصیرت اور اقامت کا جذبہ‘ ان کا ذوق اور وجدان بنتا جائے۔ تحریک کے نصب العین پر اور اس کی حقانیت پر ان کا یقین‘ حق الیقین سے بدلتا جائے۔ ان کے تحریکی افکار میں‘ برابر گہرائی اور یک سوئی آتی جائے اور حق کی خاطر اپنی خواہش‘ اپنی دل چسپیوں‘ اپنے مفادات اور اپنے جذبات قربان کرنے کا عزم قوی سے قوی تر ہوتا جائے‘‘۔(تحریک اسلامی ہند‘ ص ۱۱۹‘ ۱۹۷۰ئ)

تحریکی تربیت کا خاکہ

تحریک اسلامی اپنے وابستگان کی تربیت ایک منصوبے کے تحت کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس نے ان کے لیے ان کی ہمہ جہت تربیت کا جو خاکہ تیار کیا ہے اس کے بموجب     انھیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ درج ذیل امور کا اہتمام کریں: m فرض و واجب عبادات کی‘ ان کی ظاہری و باطنی محاسن کے ساتھ ادایگی

  • کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کا فہم
  • حدیث پاک‘  سیرت طیبہؐ، سیرت صحابہؓ و صحابیاتؓ اور دینی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ
  • اذکار مسنونہ کا التزام
  • نفل نمازوں بالخصوص تہجداور نفل روزوں کا حسب استطاعت اہتمام
  •   انفاق فی سبیل اللہ
  • اوامر کی پوری پابندی اور نواہی سے کلّی اجتناب
  • روزمرہ کے کاموں اور مصروفیات کا احتساب اور     توبہ واستغفار
  • خدا سے اپنے تعلق کا خاص اس پہلو سے جائزہ کہ اخلاص و رضاطلبی‘ خوف و خشیت‘ صبروشکر‘ مجاہدہ و استقامت‘ محبت و توکّل اور توبہ وانابت کی کیا کیفیت ہے
  • اپنے اخلاق و معاملات کی اصلاح و درستی
  • دعوت و تحریک کے کاموں میں سرگرمی
  • دین کی راہ میں ایثار و قربانی اور نظمِ جماعت کی پابندی
  • نصب العین کے حق ہونے پرکامل یقین‘ اس کے ساتھ گہری وابستگی‘ حکمت و دانائی اور لگن کے ساتھ تحریک کے لیے عملی جدوجہد
  • اجتماعیت کی اہمیت کا شعور‘ مل جل کر جدوجہد کرنے کا ملکہ‘ اجتماعی فیصلوں کا احترام و تعمیل‘ سمع و طاعت اور اطاعت فی المعروف کا التزام‘ فکری ہم آہنگی‘ نصح و خیرخواہی‘ اخوت و محبت‘ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ‘ مامورین کے ساتھ ذمہ داروں کا مشفقانہ رویہ اور اجتماعی امور میں ان سے صلاح و مشورہ
  • تنقید میں احتیاط   اور حدود کا پاس و لحاظ‘ زبان پر قابو‘ دل سوزی و شفقت کے ساتھ موعظت و نصیحت‘ تواصی بالحق‘ تواصی بالصبر اور تواصی بالمرحمہ
  • انفرادی و اجتماعی تمام حالات و معاملات میں تقویٰ و احسان کی روش‘ ریا و نمود اور کبر نفس سے اجتناب اور اخلاص و للہیت۔(میقاتی پروگرام جماعت اسلامی ہند‘ ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۷ئ)

تحریکی تربیت کا نظام

یہ خاکہ انفرادی تربیت کا ایک بہترین بیان ہے جس پر عمل درآمد کے مطلوبہ معیار کے حصول کے لیے ابتدائی سطح سے لے کر حلقہ و مرکز کے ذمہ دار کوشاں رہتے ہیں کہ فرد اپنی توجہات‘ استعداد و صلاحیت‘اوقات‘ سرمایہ و قوت ان امور پر عمل درآمد میں صرف کرتا رہے۔اس کے لیے مطالعہ و عبادات کا اہتمام‘اجتماعات‘ مطبوعات‘ دینی و رفاہی سرگرمیوں اور مہمات‘ جائزہ و احتساب کی نشستوں اور اجتماعی اصلاح و تربیت کے مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ایک ذمہ دار و باشعور فرد اپنی اصلاح و تربیت پر متوجہ رہ کر بھی اجتماعی ماحول ومساعی کا ضرورت مند رہتا ہے۔ دین میں فرض عبادت کا جو نظم ہے اور طرزِمعاشرت کے ضمن میں       فرد‘ خاندان اور معاشرے کو جو ہدایات دی گئی ہیں اور مجموعی طور پر ملک کے سماج و ریاست کے احوال و کوائف کا جو اثر ہماری روزہ مرہ زندگی پر پڑتا رہتا ہے‘ اس کو کسی خودکار نظام (automatic system) کے ذریعے اپنی اصلاح و تربیت کرتے رہنے پر کاربند نہیں رکھا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے ایک سرگرم و جان دار تحریک برپا نہ کی جائے‘ ہرسطح پر ایک باشعور و باحکمت قیادت اس کی پشت پر نہ ہو اور ایک ہمہ گیر اصلاح و تربیت کا باقاعدہ پروگرام جاری و ساری نہ ہو۔

تحریکی تربیت کے تین بنیادی عناصر ہیں: ۱- باشعور و ذمہ دار افراد ۲-حکیمانہ قیادت  بطور مربی ۳-سرگرم و جان دار تحریک۔

باشعور و ذمہ دار افراد

جہاں تک وابستگانِ تحریک کا معاملہ ہے وہ باشعور و ذمہ دار گروہ کے طور پر اسی وقت اُبھرسکتے ہیں جب وہ ایمانی عزیمت‘ اخلاقی طاقت‘ فکری اصابت‘ ذہنی یک سوئی‘ عملی حُسن‘ دینی شغف اور تحریکی جوش و جذبے کا پیکر ہوں‘ اور ان کی اجتماعی قوت تحریک کے لیے‘ وہ حقیقی سرمایہ فراہم کرے جس کے بل بوتے پر وہ اپنی مشکل اور صبرآزما جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔ اس تحریکی قوت کے عناصر ترکیبی کا احاطہ درج ذیل سات عنوانات کے تحت کیا جاسکتا ہے:

۱- ایمانی عزیمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وابستگانِ تحریک ’’اپنے اندر شیر جیسادل پیدا کریں‘ طوفانی دھاروں کے رخ پر تیرنا سیکھیں‘ ہرطرح کی چوٹ کھانے اور ہرمفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں‘ ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیے جانے کے متوقع رہیں۔ صرف ’غیروں‘ ہی کی نہیں خود ’اپنوں‘ کی شدید ترین مخالفتوں سے سابقہ پیش آنے کو یقینی سمجھیں اور ان سے کامیاب پنجہ آزمائی کا اپنے اندر عزم و حوصلہ رکھیں‘‘۔

۲- اخلاقی طاقت کا یہ مطالبہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک کی سیرت بے داغ ہو‘ ان کے اخلاق میں دلوں کو جیت لینے والی کشش موجود ہو‘ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرنا جانتے ہوں اور اپنے قول ہی سے نہیں بلکہ عمل سے بھی دین کی سچی شہادت دے رہے ہوں‘‘۔

۳- فکری اصابت کا مطلب یہ ہے کہ ’’عصرحاضر میں اسلام کے عقیدے اور اُمت مسلمہ کے نصب العین کی جو تشریح تحریکی لٹریچر میں کی گئی ہے اور حصولِ نصب العین کے لیے جو اصولی ہدایات تحریک اسلامی نے اپنے وابستگان کو دی ہیں‘ ان کے سلسلے میں ان کی صفوں میں کامل فکری پختگی پائی جاتی ہو‘‘۔

۴- ذھنی یک سوئی کا مطلب یہ ہے کہ ’’دعوت اسلامی کے برحق ہونے اور اسلام کے کامل نظامِ زندگی ہونے پر وابستگانِ تحریک نہ صرف پوری طرح مطمئن ہوں بلکہ اس کی صداقت و حقانیت کا بھرپور مظاہرہ ان کی زندگیوں سے مل رہا ہو اور بندگانِ خدا کو بھی وہ اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق مطمئن کرنے کے قابل ہوں۔ طریق کار کے پُرامن‘ دستوری و قانونی پہلوئوں پر وہ اس قدر یقین و اذعان کے حامل ہوں کہ زمانے کا فساد اور فتنہ پروری ان کو اپنی راہِ اعتدال سے سرموانحراف کرنے پر قائل نہ کرسکے‘‘۔

۵- عملی حسن کا تقاضا یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک سراپا موعظت و نصیحت اور پیکر رحمت بن جائیں۔ اسلامی احکام و ہدایات اور شرعی اصولوں وضابطوں پرنہ صرف وہ کاربند ہوں بلکہ ان کی حقانیت کو وہ زمانے سے منوانے پر قادر بھی ہوں‘‘۔

۶- دینی شغف کا مطلب یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک اپنے قول و عمل میں دینی حکمت و دانائی اور راہِ اعتدال کا عملی نمونہ پیش کریں۔ ان کے رہن سہن‘ چلن‘ برتائو‘ وضع و قطع اور اشغال و مصروفیات سے اعمالِ حسنہ و اذکارِ مسنونہ کا مظاہرہ ہو۔ ان کی سماجی مصروفیات اور مذہبی سرگرمیوں میں کامل ہم آہنگی ہو اور موجودہ خدافراموش ماحول میں نفس کے دبائو‘ شیطان کی وسوسہ اندازی اور سماجی ناسازگاریوں کے درمیان وہ مومنِ صالح کا کردار ادا کرسکیں‘‘۔

۷- تحریکی جوش و جذبہ کا مطلب یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک اس کے رنگ میں پوری طرح رنگ جائیں اور ان کا ایمان اخلاق‘ طرزِعمل‘ طرزِفکر‘ ہرشے ایسی بن جائے جیسی ایک سچے مومن اور مخلص داعیِ حق کی ہونی چاہیے اور تحریکی جدوجہد میں وہ شب و روز مشغول رہیں۔ ان کا اُوڑھنا بچھونا‘ گھریلوو خاندانی زندگی‘ ان کی معاشی سرگرمیاں اور ان کی شہری ذمہ داریاں سب کچھ تحریکی اہداف کے تابع ہوکر رہ جائیں‘‘۔ (’ارکان کی تربیت‘ تحریک اسلامی ہندکا خلاصہ‘ مولانا صدرالدین اصلاحی ‘ ص ۱۲۰-۱۲۴)

قیادت بطور مربّی

تحریک کا یہ ذمہ دار اور باشعور فرد کسی گوشۂ تنہائی (isolation) میں تیار نہیں ہوسکتا‘ نہ ازخود اپنے کردار کے ارتقائی منازل طے کرسکتا ہے‘ بلکہ تحریک کے تربیتی نظام میں ایک فعّال و کارآمد عنصر اور آمادۂ عمل کارکن بننے کے لیے چند دیگر عوامل کی معاونت‘ شراکت اور حصہ داری  بھی ضروری ہے۔ ایک طرف اس کا شعور بیدار اور کاموں میں اس کا عملی حصہ و سرگرمی شاملِ حال رہتی ہے تو دوسری طرف اس نظام کے کارپردازوں اور مربّیوں کا بھی اہم رول ہے۔ یہیں سے تحریکی تربیت کے دوسرے حصے‘ یعنی حکیمانہ قیادت بطور مربی کا بیان شروع ہوتا ہے۔

تحریکی قیادت کا مقام رہنما اور مربی کا ہے۔ وہ منصوبہ بندی ‘افراد و وسائل کی تنظیم و تربیت اور انھیں مقاصد کے حصول میں باوقار طریقوں سے زیراستعمال لانے‘ مہمات میں رہنمائی و سبقت کا فرض نبھانے‘ کارکنوں کو مہمیزدینے‘ عواقبِ عمل کو سہنے کی استطاعت پیدا کرنے‘ صلاحیت و استعداد کی نشوونما کرنے‘ اعمال کا تزکیہ اور احتساب کرنے کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اُمت مسلمہ میں دینی قیادت اور رہنمائی اور مسلمانوں کی اجتماعی تربیت کے لیے موزوں مربیوں کی تیاری و فراہمی کے لیے ایک جدید خانقاہ (تربیت گاہ) کا خاکہ‘ جماعت اسلامی کے قیام سے قبل ۱۳۵۴ھ (مطابق ۳۵-۱۹۳۴ئ) میںپیش فرمایا تھا۔   انھوں نے لکھا ہے: ’’صوفیاے اسلام نے قدیم زمانے میں ایک خاص قسم کا ادارہ قائم کیا تھا جو اصحاب الصفّہ کے نمونے پر تھا۔ اس کا اصطلاحی نام خانقاہ مشہور ہے۔ آج یہ چیز بعض لوگوں کی  بے اعتدالیوں کی بدولت بگڑ کر اتنی بدنما ہوگئی ہے کہ خانقاہ کا نام سنتے ہی طبیعت اس سے منحرف ہونے لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بہترین انسٹی ٹیوشن تھا جس سے اسلام میں بڑے بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس قدیم انسٹی ٹیوشن میں وقت اور زمانے کے لحاظ سے ترمیم کرکے ازسرنو جان ڈالی جائے اور ہندستان میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خانقاہیں ایسی قائم کی جائیں جن میں فارغ التحصیل لوگوں کو کچھ عرصے تک اسلام کے متعلق نہایت صالح لٹریچر کا مطالعہ کرایا جائے اور اس کے ساتھ وہاں ایسا ماحول ہو جس میں زندگی بسر کرنے سے ان کی سیرت‘ خالص اسلامی رنگ میں رنگ جائے۔ اس انسٹی ٹیوشن میں کلب‘ لائبریری‘ اکیڈمی اور آشرم کی تمام خصوصیات جمع ہونی چاہییں اور اس کا صدر ایسا شخص ہونا چاہیے جو نہ صرف ایک وسیع النظر اور روشن خیال عالم ہو بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک سچا اور مکمل عملی مسلمان بھی ہو‘ تاکہ اس کی صحبت سے خانقاہ کے ارکان کی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھل جائیں‘‘۔(خطوط مودودی، دوم‘ ص ۴۲)

’’سب سے بڑی چیز جس کی اس وقت کمی نظرآرہی ہے وہ صحیح اسلامی تربیت ہے۔ جدید مدارس تو خیرانگریزی اغراض کے لیے قائم ہوئے ہیں مگر ہمارے قدیم عربی مدرسے اور قومی ادارے بھی اس باب میں ناقص ہیں۔ خانقاہ میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں ’شیخ‘ اور ’مرید‘ (یہ لفظ میں مجبوراً استعمال کر رہا ہوں‘ اصطلاحی مفہوم مراد نہیں ہے) دونوں اپنی اصلاح کریں اور ایک دوسرے کی تربیت کریں اور باہر کا جتنا رنگ ہر ایک پر کم یا زیادہ چڑھ گیا ہے اس کو سب مل کر ایک دوسرے پر سے کھرچیں اور آپس کی معاونت سے ایک دوسرے میں خالص اسلامی سیرت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ وہاں احتساب نفس پہلے ہو‘ پھر النصح لِلّٰہ کے اصول پر عمل کیا جائے اور مداہنت سے سخت پرہیز کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ اور اکابر اسلام کی زندگیاں پیش نظر رکھی جائیں اور خصوصیت کے ساتھ ان طریقوں کی پیروی کی جائے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت فرمائی تھی‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۵۷)

توقع ہے کہ ان اصولوں پر اسلامی تربیت یافتہ افراد کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوجائے گی جو وابستگانِ تحریک کی ہر سطح پر تربیت و رہنمائی (صحیح معنوں میںمربی) کا فریضہ ادا کرسکے گی۔

بہرپور تحریک اور سازگار تحریکی ماحول

تحریکی تربیت کا تیسرا عنصر ایک بامقصد‘ سرگرم و جان دار تحریک کا برپا کرنا ہے۔’تحریک‘ اصلاً سرگرمی‘ روشنی و حرارت سے ہی عبارت ہے اور تحریکی ماحول ہی دراصل وابستگانِ تحریک کی جولاں گاہِ فکروعمل‘ جدوجہد و کاوش کا میدان اور سرگرمی و جاں فشانی کی کارگاہ ہے۔ تحریک جو  میدانِ عمل دعوتی جدوجہد اور اجتماعی سرگرمی کے عنوان سے فراہم کرتی ہے وہ وابستگان کی تربیت کا بہترین وسیلہ ہے۔ ’میدان عمل کی تربیت‘ سے آج ایک طرح کی عدمِ یگانگت کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ اور روحانیت کے خیالی پیکروں میں فکروعمل کی طمانیت تلاش کی جارہی ہے‘ وہ دراصل نام نہاد‘ نظری و عملی تیاری‘ مراقبہ اور دیگر صوفیانہ مشاغل کے مغالطوں کے سبب اور عملی تحریکی سرگرمیوں سے دُوری کا نتیجہ ہے۔

تحریکِ اسلامی نے اپنے وابستگان کی تیاری کے لیے جو ’میدانِ عمل‘ فراہم کیا ہے‘     بانیِ تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول: ’’ہمارے نصب العین‘ مقصد اور مسلک سے جو لوگ متفق ہوجاتے ہیں ان کی تربیت کے لیے ہمیں کوئی خانقاہ یا تربیت گاہ قائم کرنے کی ضرورت پیش   نہیں آتی۔ اوّل روز سے ہمارا اعتماد تربیت کے اس فطری طریقے پر رہا ہے جس سے مکے کے ابتدائی مسلمان تیار کیے گئے تھے۔ ان مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان کی اپنی بستی کے کوچہ و بازار ہی تربیت گاہ تھے۔ زندگی کی آزمایشیں ہی ان کو بنانے اور نکھارنے کے لیے کافی تھیں۔ دعوتِ حق کو قبول کرکے جب انھوں نے ایک اصول کی پابندی کا فیصلہ کرلیا تو انھیں تربیت دینے کے لیے کسی جنگل یا کھوہ میں لے جانے کی ضرورت پیش نہ آئی‘ نہ ان کی سیرتوں کی تیاری کے لیے کوئی الگ ادارہ قائم کرنا پڑا۔ وہی معاشرہ جس کے اندر وہ رہتے تھے ان کی زبان سے اُصولِ حق کی پابندی کا اعلان سنتے ہی اور ان کی زندگی میں اس اعلان کا اثر محسوس کرتے ہی ان کو رگڑنے‘ مانجھنے اور تپاتپا کر پختہ کرنے میں لگ گیا اور اسی تربیت گاہ سے وہ لوگ تیار ہوکر نکلے جو اگرچہ مٹھی بھر تھے مگر انھوں نے چندسال کے اندر عرب کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔

ٹھیک یہی طریقہ تھا جس کی ہم نے تقلید کی۔ اسی فطری طریق تربیت کی جماعت نے اقتدا کی۔ چنانچہ جو شخص بھی جماعت اسلامی میں داخل ہوا اس سے بس یہ عہد لے کر چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ اللہ رب العالمین کامطیعِ فرمان اور محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پیرو بن کر رہے گا اور اس مقصد کے لیے کام کرے گا کہ اللہ اور رسولؐ کا دین‘ دنیا میں غالب ہوکر رہے۔ اس کے بعد جو جس ماحول میں تھا وہیں اس کے لیے ایک ہمہ گیر اور ہمہ وقت تربیت گاہ کھل گئی۔ یہ روش اختیار کرتے ہی ہرشخص کو ہرجگہ ایک کش مکش سے سابقہ پیش آیا جس کی ابتدا اس کے اپنے نفس سے ہوئی اور پھر اس کا دائرہ ان تمام گوشوں تک پھیلتا چلا گیا جہاں اس کی اس نئی روش کا اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کے طور طریقوں سے تصادم ہوتا تھا۔ جو لوگ اپنی سیرت کے جس گوشے میں بھی      خامی رکھتے تھے وہ اسی گوشے میں شکست کھا گئے اور اسی کش مکش نے ان کو آپ ہی آپ چھانٹ کر الگ پھینک دیا‘ مگر جو ربنا اللّٰہ کہہ کر اپنے اس قول پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے ان کے لیے یہی کش مکش ایک بہترین مربی اور مزکی ثابت ہوئی۔

اس نے ان کو صبرکی‘ تحمل کی‘ ایثاروقربانی کی مشق کرائی۔ اس نے ان کو دُھن کا پکا اور ارادے میں پختہ بنایا۔ اس نے ان میں اپنے نصب العین سے عشق اور اس کے لیے جدوجہد کا ولولہ پیدا کیا۔ اس نے ان کو جذبات اور خواہشات پر قابو پانا سکھایا۔ اس نے ان کو اس قابل بنایا کہ جس چیز کو حق سمجھیں‘ اس کے لیے کسی خارجی دبائو یا لالچ کے بغیر اپنے ایمان کے تقاضے سے اپنا وقت‘ اپنی محنتیں اور اپنے اوقات صرف کریں اوراسی نے ان میں یہ طاقت پیدا کی کہ اپنے مقصد کی راہ میں نقصانات اٹھائیں‘ خطرات سہیں‘ مشکلات کا مقابلہ کریں اور بعد کے مراحل کی شدید تر آزمایشوں کا سامنا کرسکیں۔

تربیت کے اس فطری کورس کی مدد پر تین چیزیں اور تھیں جو ان کی کسر پوری کرنے والی تھیں: ایک‘ دعوت و تبلیغ۔ دوسرے‘ نظامِ جماعت اور تیسرے‘ روحِ تنقید۔

  • دعوت و تبلیغ: دعوت و تبلیغ کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے جو اس کی عاقبت کے لیے مفید ہے‘ بلکہ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی کی اپنی اصلاح بھی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی ہے۔… تبلیغِ حق کی یہ خاصیت ہے کہ جو شخص اس میں مشغول ہو اس کی اپنی ذات پر وہ حق خودبخود طاری ہوتا چلا جاتا ہے جس کی تبلیغ میں وہ سرگرم ہوتا ہے۔ اس کا چرچا کرنے‘ اس کی اشاعت کی راہیں تلاش کرنے‘ اس کی تائید میں دلائل ڈھونڈنے اور اس کی راہ کی رکاوٹیں دُور کرنے کی فکر جتنی زیادہ اس کو لاحق ہوتی ہے اسی قدر زیادہ وہ اس میں مستغرق ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی خاطر جب وہ طرح طرح کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرتا ہے‘ گالیاں سنتا ہے‘ طعنے سہتا ہے‘ الزامات اور اعتراضات برداشت کرتا ہے اور بسااوقات چوٹیں کھاتاہے اور ستایا جاتا ہے تو یہ ساری تکلیفیں حق کے ساتھ اس کے عشق کو اور زیادہ بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔…
  • نظم جماعت: نظمِ جماعت کے لیے ہم نے اوّل روز سے جو بات لوگوں کے ذہن نشین کی وہ یہ تھی کہ اس جماعت میں وہی شخص داخل ہو جو اس کو جانچ پرکھ کر پہلے اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلے کہ یہ جماعت فی الواقع اقامتِ دین کے لیے قائم ہوئی ہے اور اس کی دعوت‘ طریق کار اور اصولِ تنظیم وہی ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق اقامتِ دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت کے ہونے چاہییں۔…

جماعت اسلامی نے اس قاعدے کی پابندی سے پہلا فائدہ تو یہ اٹھایا کہ اس میں ایسے لوگ بہت کم داخل ہوسکے جو اس کے برحق ہونے پر مطمئن نہ ہوں اور محض کسی دماغی لہر کی وجہ سے یا عارضی کشش کے باعث جماعت کی طرف مائل ہوگئے ہوں‘ اور دوسرا فائدہ یہ اٹھایا کہ جو لوگ بھی جماعت میں آئے وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کے محتاج نہ تھے۔ انھوں نے   زیادہ تر خوداپنے ایمان کے تقاضے سے ڈسپلن کو قبول کیا اور انھیں باقاعدگی‘ نظم اور ضبط کے ساتھ کام کرنے کا عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔…

  •  روحِ تنقید:جماعت کی اندرونی خرابیوں کی اصلاح اور اس کے کارکنوں کی تربیت اور تکمیل کے لیے تیسری اہم چیز جس سے ہم نے مدد لی وہ یہ تھی کہ اوّل روز سے ہم نے جماعت کے اندر روحِ تنقید کو بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہرخرابی کی بروقت نشان دہی کرتی اور اس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے…جماعت کے ہر شخص کو محض تنقید کا حق ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فرض ہے کہ کسی خرابی کو محسوس کر کے خاموش نہ رہ جائے۔ یہ بات ہررکن جماعت کے اجتماعی فرائض میں داخل ہے کہ اپنے ساتھی ارکان کی ذات میں یا ان کے جماعتی کردار میں‘ یا اپنی جماعت کے نظم میں‘ یا جماعت کے لیڈروں میں اگر وہ کوئی نقص پائے تو اسے بلاتکلّف بیان کرے اور اصلاح کی دعوت دے… اسی کا یہ فائدہ ہے کہ جماعت کا ہرفرد پوری جماعت کی تربیت اور تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور اپنی تکمیل و تربیت میں اس سے مدد پارہا ہے‘‘۔ (تحریک اور کارکن، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ،ص ۱۰۱-۱۰۷)

مولانا صدر الدین اصلاحی اس حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’(اس سے مراد) وہ عملی تربیت ہے جو انھیں دعوتی جدوجہد کے میدان میں آپ سے آپ حاصل ہوتی رہتی ہے۔ کیونکہ جب وہ حق  کی شہادت دینے اور اللہ کے دین کی تبلیغ و اقامت کا فریضہ انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو قدرتی طور پر خود ان کی اصلاح و تربیت کے بھی کتنے ہی قوی اسباب آپ سے آپ حرکت میں آجاتے ہیں۔ مثلاً جس وقت کوئی شخص دوسروں کو خداپرستی کی دعوت دے رہا ہو اور ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی تلقین کر رہا ہوتا ہے اس وقت اندر سے اس کا ضمیر بھی اسے آواز دیتا ہے اور باہر کی دنیا بھی اس پر تیزنگاہیں ڈال کر پوچھنے لگتی ہے کہ اس بارے میں خود تمھارا اپنا کیا حال ہے؟ جس حق کی دعوت تم دوسروں کو دے رہے ہو اس کے لذت شناس تم خود بھی ہو یا نہیں؟ اگر انسان بالکل ہی بے حس نہ ہو تو ہر طرف سے آنے والی ان تنقیدی آوازوں پر لازماً وہ چونک اُٹھتا ہے اور اپنی طرف متوجہ ہوکر اپنے ایمان و عمل کے کھوٹ کو ایک زبردست احساسِ ندامت کے ساتھ صاف کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اس دعوت کے سلسلے میں چوطرفی مخالفتوں‘ عداوتوں اور مصیبتوں سے مسلسل دوچار ہوتا ہے تو اس بھٹی میں تپ کر اس کا ایمان اور کھرا بن جاتا ہے اور محض اللہ کے دین کی خاطر کام کرنے کے جرم میں جب دنیا اس کو اپنے تمام سہاروں سے     محروم کردیتی ہے تو وہ فطری طور پر اپنے پروردگار کی طرف بھاگتا اور اس کے دامن میں پناہ لیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے خدا سے تعلق اور اس پر توکّل اور بڑھ جاتا ہے۔ نیز جب وہ دیکھتا ہے کہ لوگ اس کے پیغامِ حیات کوبہرے کانوں سے سن رہے ہیں اور ہلاکت کی راہوں سے پلٹنے کا نام تک نہیں لیتے تو اس کا داعیانہ جوش سرد پڑنے کے بجاے اور زیادہ بھڑک اُٹھتا ہے‘ اور فلاح و نجات کی شاہراہ کی طرف ان کا رخ موڑدینے کے لیے وہ اورزیادہ سرگرم ہورہتا ہے۔ غرض ایک داعیِ حق کی دعوتی جدوجہد اس کی مختلف پہلوئوں سے بہترین مربی ثابت ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اخلاص وصداقت ہی سے بے بہرہ اور صرف نام کا داعی ہو۔ ایسا شخص تو نہ صرف یہ کہ اپنی دعوتی جدوجہد سے کوئی ایمانی یا عملی قوت نہ حاصل کرسکے گا بلکہ اپنے کو بے نقاب کرکے میدانِ عمل سے بھاگ بھی کھڑا ہوگا لیکن ظاہر ہے کہ یہاں گفتگو مخلص اور راست باز انسانوں کی ہورہی ہے‘ نمایشی لوگوں کی نہیں ہورہی ہے‘‘۔(تحریک اسلامی ہند‘ مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ص ۱۲۷-۱۲۹)

’میدانِ عمل‘ سے تربیتی فوائدحاصل کرنے کے لیے فرد کا اپنے مقصدِحیات میں مخلص اور دعوتی جدوجہد میں مصروف ہونا لازمی ہے اور اس پہلو سے فرد کے ساتھ اجتماعیت اور قیادت کے مفوّضہ فرائض سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی۔ جس سماج میں مخلص‘ باشعور اور سرگرم عمل افراد ہوں‘ اس میں فرد کو معیارِمطلوب تک لے جانے کی مسلسل سعی کرنے والی قیادت اور تحریکی سرگرمیوں کا ماحول ملے‘ اس سماج میں تحریکِ اسلامی کا مردمومن‘ اپنی پوری شان سے جلوہ نما نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا!

اسلام میں تربیت کی اھمیت اور انتظام

شریعتِ اسلامیہ میں تربیت کو ایک بہت ہی اہم مقام حاصل ہے اور اس نے قرآن وسنت کے مطابق اس تربیت کی ذمہ داری فرد‘ خاندان‘ جماعت و معاشرہ اور حکومت پر ہر ایک کی استطاعت اور حیثیت و مقام کے اعتبار سے ڈالی ہے۔

فرد پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود پابندِ شریعت ہو اور اپنے افرادِ خاندان کو بھی پابندِ شریعت بنانے کی کوشش کرے۔ وہ خود پنج گانہ نماز کا پابند ہو اور اپنے افرادِ خاندان کو بھی پابند بنائے۔ وہ اپنی ملاقاتوں میں لوگوں کو نماز و دیگر عبادات کی پابندی اور ان کی صحیح روح کے ساتھ ادایگی کی طرف متوجہ کرے وہ مسلمانوں کو اپنے اپنے محلوں میں یا قریبی مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز کی ادایگی پر راغب کرے وہ مسلمانوں کے باہمی رویے و تعلقات‘ شادی بیاہ کے معاملات‘ مالی لین دین اور دیگر معاشرتی روابط میں غیراسلامی طریقوں کو ترک کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائے۔ وہ اسلامی عقائد و تعلیمات سے خود بھی واقف ہونے کی کوشش کرے‘ قرآن وسنت کے علم کے حصول کے لیے خود بھی کوشاں ہو اور اپنی صحیح معلومات سے دوسرے برادرانِ ملک کو بھی آگاہ کرے۔

خاندان اپنے لیے اسلامی ماحول کو پسند کرنے والا ہو جہاں ہر فرد روزانہ پابندی کے ساتھ تلاوتِ کلامِ پاک اور نمازوں کی ادایگی پر کمربستہ رہتا ہو۔ باہمی حقوق وفرائض کو حسن و خوبی سے ادا کرنے اور نیکیوں کی تلقین وبرائیوں سے پرہیز کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جاتا ہو جہاں لہوولعب و لغویات کا گزر نہ ہو‘ جہاں مشورہ اور نصیحت کو معمولاتِ زندگی کا مقام حاصل ہو اور جہاں مصیبتوں پر صبر اور نعمتوں پر شکر کرنے کا رواج ہو۔

جماعت و معاشرے کی ذمہ داری یہ ہے کہ جو امور فرد اور خاندان اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق شریعت کی روشنی میں محدود پیمانے پر ادا کرتے یا انجام دیتے ہیں‘ جماعت و معاشرہ ان کے لیے مناسب ماحول‘ اخلاقی و اجتماعی اثرودبائو‘ سہولتیں‘وسائل و ذرائع‘ تعلیم و تربیت کے مواقع اور تعلقات کی اصلاح و تنظیم‘ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین‘ بازپُرس اور احتساب کا نظام اور تذکیر و یاددہانی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

حکومت اپنے وسائل و ذرائع‘ حقوق و اختیارات اور قوتِ نفاذ و اطاعت کے قانونی و دستوری جواز کے لحاظ سے افراد و معاشرہ اور جماعت پر سبقت رکھتی ہے۔ عصرِحاضر کی جمہوری حکومت چونکہ افراد کے اجتماعی ارادے کا ہی مظہرہوتی ہے اس لیے فی الوقت صرف اس قدر     یہ ہمارے موضوع سے متعلق ہے کہ اپنے اجتماعی ارادے کے ذریعے ہم اس سے استفادے کی کیا مناسب صورتیں تجویز کرتے ہیں اور کیا مطالبات منوانے کی کوشش کریں جس سے فرد اور معاشرے کو شریعتِ اسلامیہ کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملے۔

تحریک اسلامی جو فرد کے ارتقا‘ معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کے اسلامی پروگرام پر عمل پیرا ہے‘ وہ اپنے کارکنوں کی ذہنی و فکری‘ علمی و عملی اور دینی و اخلاقی ہمہ جہتی تربیت اور اپنے داخلی استحکام کی طرف متوجہ رہتی ہے اور اپنے مختلف تربیتی پروگراموں کے ذریعے اس بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو اور وہ اپنی پوری زندگی میں اسلام کے سچے پیرو‘ اقامت دین کے لیے سرگرم عمل‘ راہِ حق میں ایثار و قربانی اور صبرواستقامت کا مظہر اور نظم واجتماعیت کے پہلو سے بنیان مرصوص بن جائیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ قابلِ غور ہے کہ تحریکِ اسلامی اپنے اہداف کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی‘ اور معیارِمطلوب کے حصول کے لیے مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے!

اطلاعات اور ٹکنالوجی کی روز افزوں بدلتی ہوئی صورت حال دنیا بھر کے انسانی معاشروں کے لیے نت نئے دبائو اور تبدیلیاں‘ اتنی تیزی سے لارہی ہے کہ عقل و حواس ورطۂ حیرت میں    مبتلا ہوکر رہ گئے ہیں۔ مشرق اور مغرب‘ دونوں ہی اس عفریت سے نبٹنے اور اپنے اپنے مخصوص  تصورِ جہاں (world view) اور ثقافتی تناظر میں‘ اقدار‘ شناخت‘ تجارت و ترقی‘ ماحولیات اور  کرئہ ارض کی بقا کی تدابیر اور حکمت عملی تلاش کر رہے ہیں۔ اس منظرنامے میں یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہرلحظہ بدلتی صورتِ حال سے کس طرح نبٹا جائے؟ انسانی تہذیبوں کی کلُی (macro) اور جزئی (micro) حالتیں اور اُن کے باہم تبادلے کا کیا باہمی تعلق ہے‘ جس سے آنے والی صدی کی دنیا تشکیل پذیر ہو رہی ہے اور شاید آنے والے کئی برسوں تک ہوتی رہے گی۔

انسانی تمدن و ثقافت کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ’تبدیلی‘کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور دوسری اس کی باطنی حقیقت اور منبع۔ عمومی طور پر‘ عوام اور خواص کا ایک اچھا خاصا حصہ‘ ظاہری صورتوں میں تبدیلی کو بڑی اہمیت دیتا ہے‘ اور انسانی شناخت‘ اخلاقی اقدار اور باہمی ربط وضبط کے نفسیاتی رویوں کو‘ مادی‘ معاشی‘ آلاتی اور مالیاتی نظام کے اُتارچڑھائو کی روشنی میں پرکھتا اور قائم کرتا ہے۔ حق و باطل‘ نیک و بد اور فلاح و سلامتی کے سارے راستے اس کی منطقِ منفعت سے ہوکر گزرتے ہیں۔ انسانی معاشروں میں آنے والی تبدیلیوں کی ظاہری صورتوں میں اہمیت دینے والے‘ اُصول مادی کو معیارِ نقدوقدر قرار دیتے ہیں۔ آویزش‘ مقابلہ‘ تفاوت‘ تقسیم‘ تفریق وہ اخلاقی‘ ثقافتی ‘ نفسیاتی اور معاشی تصورات ہیں‘ جن کی بنا پر انسانی معاشروں اور تہذیبوں کی ترقی و تنزلی کے معیار قائم کیے جاتے ہیں۔ کیا اُصول مادی ‘کسی مخصوص انسانی ثقافت و تہذیب کا نمایندہ ہے‘ یا یہ ایک بین التہذیبی‘ انسانی فطرت کا رویّہ ہے‘ جوکلچر‘ نسل‘ زبان‘ علاقے‘ رنگ اور خطے سے ماورا‘ بذاتہٖ ایک تصورِ جہاں ہے‘ جس کی حقیقت اور سچائی اور بالادستی کے ماننے والے ہرجگہ پائے جاتے ہیں؟

گذشتہ تین صدیوں کی عالمی انسانی تاریخ اور سماجی‘ ثقافتی‘ معاشی اور اخلاقی وروحانی سطح پر‘ اس کے مدّوجزر اُصول مادی کی بھرپور اور مکمل غمازی کرتے ہیں۔ مغربی ریاستوں اور اُن کے  بین الاقوامی تاریخی پھیلائو میں یہی اصول پوری طرح محرک اور فعّال نظر آتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں مغربی سلطنتوں کا سیاسی نوآبادیات کا نظام‘ پھر دو عالمی جنگوں میں بھرپور عالمی استعماریت و سامراجیت کا طاقت ور اظہار‘ جو مقابلے کی معاشی نفسیات سے اخلاقی جوازپاکر‘ مغربی ریاستوں کے عالمی اقتدار اور فنیاتی [ٹکنالوجیکل] غلبے پر منتج ہوا ہے‘ اسی محولہ بالا اُصولِ مادی کا مظہر ہے۔ اس نئی صدی کی ابتدا میں‘ عالم گیریت بھی اسی اُصول کا سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی تقاضا بن کر اُبھری ہے۔

دنیا کی معلوم تاریخ میں‘ انسانی تہذیبوں کے مابین تجارت ومعیشت کے مادی رشتوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح عالم گیریت کوئی انوکھی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ بہت سارے فلسفے‘ نظامِ اقدار اور طرز ہاے زندگی‘ تجارت کے راستے ایک تمدن سے دوسرے تمدن تک جاتے رہے ہیں۔ ثقافتی اثرونفوذ کا یہ بین الاقوامی اور بین التہذیبی عمل‘ بالکل فطری اور لابُدی ہے۔ اگرچہ اس کے جواز اور عدمِ جواز پر مختلف اور متضاد آرا ہوسکتی ہیں‘ مگر یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے سے انسانی تہذیبوں کے مابین باہمی معاشی تبادلے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں کی اجتماعی علمی‘ فنی اور اخلاقی نشوونما ہوتی ہے۔ باہمی ثقافتی اثرونفوذ تک تو معاملہ ٹھیک ہے‘ مگر جب اسی باہمی معاشی و تجارتی تبادلے کے بین السطور‘ ایک ریاست یا ریاستوں کا کوئی گروہ‘ اپنے سے کمزور مادی اور معاشی مراکز کو اپنے اقتدار اور غلبے کا نشانہ بنالیتا ہے اور اُن کے وسائلِ معاش و حیات پر ’جبری‘ حق قائم کرلیتا ہے‘ تو چاہے وہ اسے عالم گیریت کا خوش نما عنوان دے دے‘ ہماری راے میں    یہ دراصل اسی ’جبری حق‘ کا زوردار سیاسی و ثقافتی اظہار ہے۔

کیا بین التہذیبی اور بین الانسانی معاشی و معاشرتی تبادلے کا ’عالم گیریت‘ہی ایک واحد منطقی اور حتمی راستہ ہے‘ یا پھر اس کا کوئی بہتر اور پُرامن معاشرتی متبادل ہے؟ ہمارے نزدیک  ’عالم گیریت‘ کا متبادل‘ اسلامی آفاقیت ہے۔

اسلامی آفاقیت (Islamic Universalism) دراصل ہے کیا؟ اور اطلاعات و ٹکنالوجی کے اس عہد اور مسابقت و مقابلے کی موجودہ عالمی معاشیات میں‘ جو کہ اُصولِ مادی پر استوار ہے‘ اس کی منظم صورت کیا ہے؟ یہ ایک روحانی و اخلاقی اُصول ہے جس کا عالم گیر تاریخی جواز‘ انسانی معاشروں کی لابدی تاریخی تگ و تاز کے باطن سے پھوٹتا ہے۔ پیغمبرانہ ثقافت کا تصورِجہاں اس کا محرک اور مرجع و مقصد ہے۔ یہ انسان کو ایک عظیم تر آفاق کا حصہ گردانتے ہوئے‘ اُس کو اُس کے ہرعمل‘ ہر سوچ اور ہر تخلیق کے لیے جواب دہ قرار دیتاہے۔ یہ انسانی حیات‘ تمدن‘ تاریخ‘ ایجادات اور وسیع کائنات کو ایک اخلاقی ضابطے کے طور پر دیکھتا اور بیان کرتا ہے۔ جس طرح ہرانسانی عمل کا ایک مادی سبب‘ جواز اور نتیجہ ہے‘ بالکل اُسی طرح اُس کے ہرعمل کا ایک  اخلاقی وروحانی عکس‘ دنیا میں بھی تشکیل پذیر ہورہا ہے۔ ہردنیاوی عمل ایک کائناتی آئینہ خانہ (cosmic mirror)‘ یعنی آخرت میں منقّش اور مرتسم ہوتا چلا جارہا ہے‘ اور اس دنیا کے افعال و اعمال کا حتمی نتیجہ اور پھل اس کی منقش دنیا میں بالحقیقت دیکھ لے گا۔

اس اخلاقی وروحانی اُصول کی بنا پر تشکیل کردہ دُنیا میں تمام انسان‘ امین‘ جواب دہ اور بالفعل برابر اور مساوی ہیں۔ تمام ارضی وسائل‘ جن میں زمین‘ پانی‘ جنگلات‘ نقل و حمل کے ذرائع‘ آلات و ایجادات‘ معیشت و تجارت‘ زر و دولت‘ معاشرتی و نفسیاتی نظام ہاے کار‘ غرض ہر وسیلہ جو انسانی تمدن اور بقاے نوع انسانی کے لیے ناگزیر ہے‘ ایک ذمہ داری اور امانت کے طور پر تمام انسانوں کے زیرِتصرف اور زیرِاستعمال ہے۔ چنانچہ یہاں معاشی و معاشرتی تبادلے کی بنیاد مسابقت کی نفسیات کے بجاے‘ توازن کی نفسیات ہے۔ وسائل میں شراکت‘ برابری‘ مساوات‘ حریت اور عقیدے کی آزادی‘ راہنما اصول ہیں۔ کوئی نسلی‘ لسانی‘ ثقافتی‘ معاشرتی‘ معاشی اور نفسیاتی تفوق‘ کوئی فضیلت معیارِ قدر نہیں ہے‘ بلکہ انسانی روحانیت کی فطری اور ناقابلِ تقسیم جوہریت‘ ایک قدرِ غالب کا درجہ رکھتی ہے۔

انسانی معاشروں کی تاریخی حرکیات کا بنظرغائر مطالعہ‘ یہ امر بیّن طور پرہمارے سامنے لاتا ہے کہ جب انسانی تمدنوں کی وحدت کو کسی معاشی اور قومی فلسفے کے طور پر پیش کیا گیا‘ اور انسانوں کی فطری اور لابدی روحانی وحدت کو نظرانداز کیا گیا‘ تو اس کے منطقی نتیجے کے طور پر انسانی معاشروں میں‘ ظلم‘ ناانصافی‘ تضادات اور توڑپھوڑ‘ بڑی قوت سے اُبھرے۔ نتیجتاً‘ انسانی معاشرے‘ حقیقی معاشرتی و معاشی آزادی اور عدل و مساوات کے علی الرغم استحصال اور ظلم و تشدد کا شکار ہوتے چلے گئے۔ سابقہ صدی کے اواخر میں اشتراکیت اس کی ایک واضح مثال ہے اور لمحۂ موجود میں کچھ اسی طرح کا تاریخی کردار ’عالم گیریت‘ ادا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سارے تاریخی تضادات کا شکار بھی ہوتی چلی جارہی ہے۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایشیا‘افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ‘ غرض ہر گوشۂ ارضی سے‘ حسّاس‘ دُوراندیش اور انسانی حریت پر گہرا یقین رکھنے والے شہری‘ گروہ‘ تنظیمیں اور مفکرین ’انسانی وحدت‘ کے اس عالمی معاشی اور سیاسی نظام یعنی عالم گیریت کے بڑے ناقد کے طور پر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ اور آزاد معاشی نظام اور ان کے طاقت ور ترین مظہر‘ یعنی کثیرالاقوامی کارپوریشن (MNC) کے لیے‘ دنیا کے مختلف معاشرتی‘ ثقافتی اور اخلاقی و معاشی نظاموں کو کسی صورت سبز چارہ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ عناصر انفرادی ثقافتی و معاشی اکائیوں اور اُن کے مخصوص اخلاقی و روحانی مزاج کی بقا کے داعی ہیں‘اور ساتھ ہی طاقت ور ٹکنالوجیکل اقوام کو معیشت‘ تجارت‘ ماحولیات اور ثقافت کے بارے میں اُن کی مسابقانہ اور غلبے پر مبنی نفسیات بدلنے پر بھی مجبور کر رہے ہیں۔

عالم گیریت ایک معاشی تبادلے اور انحصار (economic interdependence & exchange) کے زاویۂ نگاہ کے طور پر اور وہ بھی شدید تحفظات کے ساتھ تو شاید انفرادی قومی معیشتوں کو کسی قدر قابلِ قبول ہو‘ لیکن اسے ایک کلُی سماجی‘ ثقافتی اور اخلاقی نظام کے طور پر تمام انسانی معاشروں کے لیے ایک علاج قرار دینا‘ انتہائی خطرناک اثرات کا حامل تاریخی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ جس سے نہ صرف نسلِ انسانی کی بقا‘ بلکہ کرۂ ارض کی بقا اور امن بھی معرضِ خطر میں پڑسکتا ہے۔

کرئہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانی معاشروں کو عالم گیریت کے باطن میں چھپے ہوئے مسابقانہ معاشی وحدت کے فلسفے کی بنیاد پر زیادہ محفوظ اور عادلانہ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ‘ اس سے استحصال‘ ظلم اور طاقت کے بے محابا استعمال کا اور بے جاجواز ضرور فراہم کیاجاسکتا ہے۔ عالم گیریت کی سیاسی‘ ثقافتی اور اخلاقی اقدار کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی موجودہ منطقی صورت میں‘ انفرادی انسانی ثقافتوں اور اُن کے اخلاقی و روحانی نظاموں کے لیے ایک کھلا اور برملا چیلنج ہیں۔

انسانی ثقافتوں کی تاریخ کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ اُصول مادی کی بنا پر ، ’انسانی وحدت‘ کا تصور کبھی بھی قابلِ عمل نہیں رہا ہے۔ یہ صرف اور صرف اُصولِ روحانی (دین) ہی ہے‘ جس نے ’انسانی وحدت‘ کو عملی صورت میں ہمارے سامنے جاگزیں کیا ہے اور انسانی فضیلت اور قدر کو منفعت کی منطق کے بجاے توازن‘ مساوات اور ہم آہنگی کے عالم گیر روحانی و اخلاقی اصولوں پر استوار کیا ہے۔ ان راہنما اصولوں کا سب سے طاقت ور تاریخی اظہار ’اسلامی آفاقیت‘ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے‘ جو انسانی معاشرتی‘ لسانی اور ثقافتی اکائیوں کو سچی کھری اور بے لاگ انسانی وحدت میں ضم کردیتی ہے اور باہمی انسانی تبادلوں‘ رشتوں اور تخلیق و ایجادات کے نظاموں کو مساوات اور انسانی برابری کے زرّیں اُصولوں پر استوار کرتی ہے۔

ہمیں تاریخ کی ظاہری صورتوں کے تضادات اور مدوجزر میں ’انسانی وحدت‘ کی تلاش نہیں کرنا چاہیے‘ جو زیادہ سے زیادہ ’معاشی وحدت‘ اور اس سے وابستہ مسابقانہ نفسیات پر منتج ہوتا ہے‘ بلکہ ہمیں تاریخ کے باطن میں جھانکنے کی ضرورت ہے‘ جہاں ہمیں سچ اور جھوٹ‘ نیکی وبدی اور روحانی و مادی کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد نظرآتی ہے۔ اور جب دنیا کے راہنما‘ مفکرین اور گروہ انسانی باطن اور اس کے تاریخی مدوجزر پر نظر ڈالیں گے تو صحیح معنوں میں تعصب‘ نفرت اور بدظنی سے نجات پاسکیں گے اور انسانی معاشروں کو اُن کی کثرتوں میں برداشت کرتے ہوئے ایک    ذمہ دار آفاقی روحانیت کی بنیاد پر انسانی تہذیب و تمدن کی قدر مقرر کرسکیں گے۔ یہ بیّن اور ظاہر ہے کہ یہ عظیم مقصد‘ اُصولِ روحانی کی درست تفہیم اور تشریح پر مبنی ہے۔ اور اس سلسلے میں اُصولِ مادی اور اس کے مظاہرِتاریخ کچھ خاص مددگار ثابت نہیں ہوسکتے۔

’اسلامی آفاقیت‘ ایک اُصولِ روحانی کی عالم گیر علامت ہے‘ اور تمام داناوبینا انسانوں کو‘ چاہے وہ کسی ثقافت‘ علاقے اور زبان سے تعلق رکھتے ہوں‘ مہمیز کرنے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ انسانی روح کی زبان ہے‘ جو لامحالہ انسانی روح تک ہی جاتی ہے۔ جو نہ صرف اس دنیا کے افعال و اعمال کو ذمہ داری و امانت سے ادا کرنے کی طرف انسانی معاشروں کی توجہ منعطف کرتی ہے‘ بلکہ ان افعال و اعمال کا حتمی اور لابدی نتیجہ اس سے بظاہر نظر نہ آنے والی دنیا: ایک منقش دنیا [آخرت] سے جوڑ کر اس کو صحیح آفاقیت اور سچی معنویت عطا کرتی ہے۔

یہ سچی حیات انسانی معاشرے‘ اُن کے راہنما ادارے اور اُن کے مفکرمسابقت اور شک  کی نفسیات سے حاصل نہیں کرسکتے بلکہ‘ یہ حیات یقین اور توازن کے آفاقی تصورِجہاں     ’اسلامی آفاقیت‘ سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ’انسانی وحدت‘ اور کرۂ ارض کی پُرامن بقا اور نشوونما کا اجتماعی انسانی خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ شاعرمشرق علامہ اقبال نے اس سلسلے میں کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے :

دم عارف نسیمِ صبح دم ہے

اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے

اگر کوئی شعیبؑ آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

جناب جگر مرادآبادی سے جب پہلی اور آخری بار مجھے شرف نیاز حاصل ہوا تو انھوں نے حیاتِ انسانی کے ایک بڑے ہی نازک اور پیچیدہ مسئلے کی گرہ کشائی کی تھی جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود میرے سینے میں ایک سربستہ راز کی طرح محفوظ ہے۔ اس اہم ملاقات میں جو میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے جناب جگر نے علامہ اقبال اور سید مودودی کے بارے میں جو اظہارِخیال کیا وہ بڑا ہی حیرت انگیز تھا جس سے ان کی پہلودار شخصیت مجھ پر منکشف ہوئی۔

سقوط حیدرآباد کے بعد ۱۹۴۸ء میں‘ کراچی پہنچنے کے بعد میں نے اُردو کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں باباے اُردو مولوی عبدالحق صاحب کے ایما پر اقبال کے اہم موضوع ’مقامات عقل وعشق‘ پر تحقیق شروع کی۔ اُن دنوں روزنامہ ڈان انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں نکلتا تھا۔ جناب الطاف حسین چیف ایڈیٹر تھے مگر دونوں اخبارات کی ادارت کی ذمہ داری عملاً ایم اے زبیری صاحب نے سنبھالی ہوئی تھی۔ آج کل بزنس ریکارڈرکے ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے اُردو اور انگریزی ڈان میں کچھ کام مجھے تفویض کردیا۔ ڈان کے مشہور مشاعرے ان کے اہتمام میں ہوتے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں انھوں نے ایک عظیم الشان پاک و ہند مشاعرہ منعقد کروایا۔ اس مشاعرے میں جناب جگرمرادآبادی بھی تشریف لائے۔

مشاعرے سے قبل ہی زبیری صاحب سے میں نے جناب جگر سے علیحدگی میں ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ انھوں نے دوسرے دن صبح ۹بجے اپنے گھرآنے کے لیے کہا۔ ان دنوں ان کی رہایش کیماڑی کے میولزمنشن میں تھی جہاں جناب جگر بطور مہمان ٹھیرے ہوئے تھے۔ چنانچہ میں دوسرے دن شوقِ فراواں لیے ہوئے زبیری صاحب کی رہایش گاہ پر پہنچ گیا۔ میری آمد کی اطلاع پر جگرصاحب ڈرائنگ روم میں تشریف لائے۔ میں نے تعظیماً اُٹھ کر استقبال کیا اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا کہ سب سے پہلے تو شرفِ ملاقات کی آرزو تھی سو پوری ہوئی۔ دوسرے‘ طلب علم کی پیاس بجھانے کے لیے حاضرخدمت ہوا ہوں۔ باباے اُردو کے ایما پر ’عقل و عشق‘ کے موضوع پر مقالہ تیار کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں موضوع سے متعلق انسانی جبلّت‘ شعور‘ لاشعور اور تحت الشعور کی جذباتی وارداتوں اور حسیّاتی تجربوں کی کیفیات کا جو علم و ادراک آپ کو حاصل ہے اس کا پرتو ہمیں آپ کی شاعری میں نظرآتا ہے۔ اس بارے میں براہِ راست رہنمائی حاصل کرنے کی شدید خواہش لے کر آپ تک پہنچا ہوں۔ کچھ پس و پیش کے ساتھ میں نے عرض کیا کہ علامہ اقبال کی شاعری میں یہ حقائق آپ سے ذرا کچھ مختلف رنگ میں نظرآتے ہیں۔ مبہم سا خوف تھا کہ اپنے عہد کے     امامِ غزل کے سامنے اسی دور کے بڑے شاعر کے متعلق تبصرے کی دعوت کہیں ناگوار نہ گزرے۔ مگر جگرصاحب کے چہرے پر میری اس بات سے ایک ہلکا سا تبسم آگیا۔ میری ساری باتوں کو وہ بڑے غور سے سنتے رہے۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو فرمانے لگے کہ موضوع قدیم بھی ہے اور وسیع بھی‘ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں اور کائنات کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔

جنسی جبلّت اور عشق کی ماہیت کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ عشق کی نازک جڑیں جنسی جذبے کے اندر پیوست ہیں لیکن ان کے مظاہر مختلف ہیں۔ ان کے باہمی ربط و تعلق کے بارے میں انھوں نے چراغ کو زندہ مثال کی صورت میں پیش کیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چراغ کی بتی تیل‘ یعنی جنسی جذبے کی تہہ میں موجود ہے۔ جہاں سے وہ بتی کے اُوپر والے حصے کی خارجی دنیا میں پہنچ کر شعلے کی طرف لپکتا ہے۔ شعلے سے اتصال کے ساتھ ہی بتی روشن ہوجاتی ہے۔ یہ روشنی اسی تیل کی وجہ سے ہے جو بتی کے ذریعے اس کے سرے تک پہنچ رہا ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تیل بذات خود ایک اندھا سیال مادہ ہے جس میں کوئی روشنی نہیں لیکن ایک اعلیٰ اور برتر شے‘ یعنی شعلے تک پہنچ کر جو اُوپر کی طرف اُٹھتا ہے اس کی ماہیت بدل جاتی ہے اور وہ روشنی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ روشنی اگرچہ تیل ہی کے مواد سے چراغ کو روشن کیے ہوئے ہے لیکن اس میں تیل (جذبۂ جنسی) کے خواص اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو جذبۂ جنسی شدید قوی اور آلایشوں میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ محبت کے بجاے ہوس ناکی ہے۔ اس کا واسطہ ارضی علائق سے ہو تو اسے عشقِ مجازی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی جذبہ آدمی کو انسانیت کے اعلیٰ نصب العین کی بلندیوں تک لے جائے تو یہ آفاقی ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی بلندتر مقام وجدان کے ذریعے الوہیت تک رسائی کا ہے جسے عشق حقیقی سے تعبیر کرتے ہیں۔

یہ سارے مدارجِ عشق ہیں۔ جب ان میں خیال کارفرما ہو تو وہ الفاظ میں منتقل ہوکر شعر یا ادبِ عالیہ کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ موجودہ نفسیات نے ’لاشعور‘ اور ’تحت الشعور‘ کی محرکات کو ناآسودہ جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے لگام چھوڑ دیا ہے جو مذہب کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے۔ اصل علمِ نفسیات اسلامی تعلیمات میں پہلے سے موجود ہے جو انسانی جبلت کو صحیح استعمال کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ صاحب ِطریقت ایک نظر میں قلب وذہن کی اندرونی کیفیات اور واردات کو دیکھ لیتا ہے اور ان پر اپنی توجہ مرکوز کردیتا ہے تاکہ وہ بہک نہ جائیں۔ محبت اور نفرت انسانی فطرت کے دو متضاد محرکات ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے ہیں۔ طریقت نفرت کے جذبے کو ختم نہیں کرتی۔ ختم کرنے کے بجاے اس کے ذریعے برائی کے خلاف نفرت کے جذبے کو بروے کار لاتی ہے۔ اس طرح محبت‘ نفرت پر غالب آجاتی ہے جو انسانی کیمیاگری کا کامیاب تجربہ ہے۔

علامہ اقبال کے متعلق میری بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کی شاعری میں عشق و زندگی اور کائناتی حقائق کی گیرائیاں جو مختلف نظر آتی ہیں اس کی وجہ اصل اندازِبیان کا فرق ہے ورنہ شاعرانہ صداقت ہمیشہ یکساں رہی ہے۔

وہ فرما رہے تھے: اقبال فلسفی‘ مفکر‘ حکیم اور بہت بڑے شاعر ہیں۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیاجب انھوں نے کہا: ’’میں انھیں شاعراعظم سمجھتا ہوں‘‘۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ایک بڑا شاعر ہی اپنے عہد کے شاعر کی بڑائی اور عظمت کا حقیقی اندازہ کرسکتا ہے۔ اور اقبال کو اپنے آپ سے جو خود خاص و عام کی نظروں میں بادشاہِ تغزل ہے برتر کہنا بڑی وسعتِ ظرفی ہے۔ فرمانے لگے اقبال نے ایسی قوم میں جو نزع کے عالم میں گرفتار تھی اپنے کلام کی تاثیر سے زندگی کی روح پھونک دی۔ آزادی اور تسخیرکائنات کے لیے اپنی درماندہ ملّت کو عشق و یقین کا عزم اور حوصلہ دیا۔ کیونکہ ایسی فاتحانہ مہم کے لیے عشق ہی کی جرأتِ رندانہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے زورِبازو سے موت کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتا ہے۔

میرے متعلق فرمایا کہ آپ جس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہیں میں اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے لیے اقبال کی ہمہ گیر شخصیت‘ مغرب کے فلسفے اور افکار کی یلغار کے خلاف ان کا جہادِ پیہم‘ اسلامی اقدار سے ان کا والہانہ عشق اور ان سے متعلقہ موضوعات کا مطالعہ ضروری ہے۔ آپ کے علمی پس منظر‘ سوالات کی اہمیت اور مولوی صاحب (باباے اُردو) کی رہنمائی سے توقع ہے کہ آپ اس بارِگراں کو اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ سے امید ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو عشق و محبت کی ان اقدار سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے جو انسان میں صفاتِ الٰہی کی تخلیق کا باعث ہیں اور یہی مقصود ہے اقبال کی شاعری کا۔

اس کے بعد انھوں نے جو بات مجھ سے کہی وہ میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔ اقبال ہی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے: اقبال نے خودی اور خودشعوری کا جو فکروفلسفہ شعر کی زبان میں قوم کے سامنے پیش کیا اور اس بارے میں انھوں نے لیکچر بھی دیے وہ ان کے خلوص اور مقاصدِ عالیہ کے مظہرہیں۔ لیکن ان کے ہم عصروں میں بھی کوئی ان بلندیوں تک پوری طرح پہنچ  نہ سکا۔ اس لیے وہ ان سے مایوس تھے۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اسلام کے پیغام کو عوام اور خواص کے لیے ایسے طرزِاستدلال سے عام فہم انداز میں پیش کیا جائے جسے پڑھ کر اس کی اثرپذیری سے وہ علمی جدوجہد کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں۔ کیونکہ غیرملکی حکمرانوں کے ملک چھوڑنے کے  باوجود ان کی لادینی تعلیم کے مُضراثرات نے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت کو ان کے اپنے دین و مذہب سے بے گانہ کردیا تھا۔ اس کے زیراثر وہ سمجھنے لگے کہ اسلام موجودہ زمانے کی ترقی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے وہ تغیرپذیر زمانے کو اس کی خامیوں اور خرابیوں کے ساتھ قبول کرتے جا رہے تھے۔

ان حالات میں سید مودودی نے گمراہ کن نظریات اور خطرناک رویے کے خلاف    اعلانِ جنگ کردیا۔ مغربی علوم اور افکار ہی کے ہتھیاروں سے ہر محاذ پر ان کے مقابلے میں پیش قدمی کرکے یورپ کی مرعوبیت کو ان کے دل و دماغ سے نکال دیا۔ اس لیے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ مخلص کارکن ان کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ کالج اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے قلب و ذہن اس تحریک سے متاثر ہورہے ہیں۔ کیونکہ مودودی صاحب کی تحریریں نہ صرف عام فہم ہیں بلکہ ان میں سلاست‘ تجزیہ اور روانی کے ساتھ انقلاب کا داعیہ بھی موجود ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ سید مودودی کی اسلامی تحریک کے مقاصد کو سمجھنے کے بعد‘ پوری قوت سے اس کا ساتھ دیں جو حقیقت میں دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

اختتام پر میں نے خلوصِ دل سے عرض کیا کہ جناب آپ نے اپنے ایک عقیدت مند کو اپنے علم و تجربے سے اس طرح سیراب کیا ہے کہ میرے دل ودماغ کی یہ کھیتی ہمیشہ سرسبز وشاداب رہے گی ‘اور علم کی ایسی دولت سے سرفراز کیا ہے جو لازوال ہے۔فرمانے لگے کہ میں ناصح نہیں ہوں لیکن ایک مشورہ آپ کو دینا چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ کے نوجوان ساتھی الحادی ادب اور شاعری سے احتراز کریں۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ خدا حافظ کہہ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور اندر چلے گئے۔

ایک عرصۂ دراز تک بوجوہ اس واقعے کا ذکر میں مولانا سے نہ کرسکا۔ جب یہ واقعہ میں نے انھیں سنایا اس وقت درویش مہر عاربی مرحوم اور ہمدمِ دیرینہ میاں شیرعالم سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار جو آج کل بطور سینیر سٹیزن کینیڈا میں مقیم ہیں‘ میرے ہمراہ تھے۔ یہ باتیں سن کر مولانا نے فرمایا: جگرصاحب کی رندی اور سرمستی کا زمانہ بھی میں نے دیکھا ہے اور بعد میں ان کی پاک بازی کا زمانہ بھی۔ لیکن توفیق الٰہی سے ان کا دل ہمیشہ نیکی کی طرف مائل رہا ہے۔ انھوں نے میرے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ پاکستان میں مشاعروں میں شرکت کے لیے وہ آتے رہے ہیں۔ اگر کبھی موقع ملتا تو آکر مل جاتے‘ بڑی خوشی ہوتی۔ ان کی گفتگو سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کی خدمت کرنے والوں سے انھیں محبت ہے۔ ان کی شاعری میں پاکیزگی کے علاوہ ان کی باتوں میں بھی اخلاص ہے۔ اس لیے وہ حق بات کے اظہار میں جہاں کہیں ہوں اور جس کسی کے بارے میں ہو‘ بے باک رہے ہیں۔

علامہ اقبال کے بارے میں انھوں نے جو اظہارخیال کیا ہے اس کی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اقبال ہی کا مشن تھا جس کی رہنمائی میں ہم اور ہمارے رفقا اور نوجوان ساتھی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اس کے اجروثواب میں ان سب نیک دل احباب کا بھی حصہ ہے جن کی دعائیں اور نیک تمنائیں ہمارے شاملِ حال رہی ہیں۔

آخر میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا کے جوش صاحب سے حیدرآباد اور دہلی سے دیرینہ تعلقات اور پاکستان میں ملاقاتوں کا سب کو علم ہے‘ لیکن مولانا کے بارے میں جگرصاحب کے خیالات اور ان سے ملاقات کا بہت کم حضرات کو علم ہے۔ اس کا ذکر میں نے ضروری سمجھا۔ یہ جگرصاحب کا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

کابل میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جناب صبغت اللہ مجددی نے فرمایا: مجھ پر یہ حملہ پاکستان نے کروایا تھا۔ ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔ ہم اسے دشمنی کا مزا چکھائیں گے۔ یہ وہی صبغت اللہ مجددی ہیں جنھیں سب سے کمزور تنظیم کا سربراہ ہونے کے باوجود ۱۹۹۴ء میں معاہدۂ پشاور کے تحت پاکستان نے امریکا کے اشارے پر عبوری صدر مقرر کروایا تھا۔ یوں گلبدین حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کو اقتدار سے محروم اور باہم متصادم کرکے‘ غیرمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کو بھی جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا گیا۔

مجددی صاحب کی پارٹی کے ایک کارکن حامدکرزئی‘ جنھیں امریکا نے افغان صدارت سونپ رکھی ہے‘ انکشاف کرتے ہیں: ہمیں تین ماہ پہلے اطلاعات ملی تھیں کہ پاکستان نے مجھے اور دیگر افغان لیڈروں کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے ہیں۔ پاکستان طالبان کو منظم کررہا ہے اور طالبان القاعدہ سے مل کر افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا…

پاکستان نے سوویت جارحیت کے بعد مسلسل قربانیاں دیں۔ اب بھی اس نے لاکھوں افغان بھائیوں کے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا ہے۔ آج بھی افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو     اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تمام سابق مجاہدین لیڈر جو پاکستان کو اپنا بڑا بھائی اور سرپرست سمجھتے تھے ایک ایک کر کے پاکستانی حکمرانوں سے شدید ناراض ہوچکے ہیں۔ ان کا کمزور ترین فرد بھی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ان رہنمائوں کو ناراض‘ کمزور‘ بلکہ ختم کرنے کے لیے جن طالبان پہ تکیہ کیا گیا تھا‘ انھیں بھی بالآخر امریکا کی غلامی کی نذر کردیا گیا۔

اس صورت حال سے امریکا اور حلیف قوتیں جو فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن خود بھارت بھی تیزی سے وہاں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی دبائو بڑھانا بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ سوویت قبضے کے دوران اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے۔ اس سے پہلے سردار دائود کے ساتھ اس نے معاہدہ کیا کہ وہ افغان خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے افسران کو بھارت لے جاکر تربیت دے گا۔ جہاد اور پھرخانہ جنگی کے طویل ادوار کے بعد اب فوجی و جاسوسی تربیت کا یہ ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑچکا ہے۔ خود افغانستان کے تقریباً ہر صوبے میں بھارت اپنا وجود یقینی بنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جلال آباد اور قندھار میں قونصل خانے کھولنا تو معمول کا سفارتی عمل دکھائی دیتا ہے‘ ایسے دسیوں دفاتر ‘ مشاورتی ادارے‘ تجارتی و تعمیراتی کمپنیوں کے نمایندے بٹھا دیے گئے ہیں جو اعلان شدہ سرگرمیوں سے زیادہ غیرعلانیہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں ثقافتی یلغار پہلے سے کئی گنا زیادہ سفاک ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارائوں کے جہازی پوسٹر‘ فلموں کے اشتہارات اور گانوں کے بول‘ آنکھیں اور کان بند کر کے بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اصل محاذ میدان جنگ کو نہیں‘ ثقافت اور تعلیم کوقرار دیتا ہے۔ بھارت اس ’روشن خیالی‘ میں اسے تمام مطلوبہ ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کابل سے آنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ کسی کو لقمہ ملے یا نہ ملے‘ ٹی وی سے دسیوں عالمی چینل مفت دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں سے کئی مجرد فحاشی پر مبنی ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ صرف سال ۲۰۰۶ء میں افغان عوام کو موسیقی اور ثقافتی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر (۳کروڑ ۶۰ لاکھ روپے) صرف کرے گی۔ فلمی دنیا اور ’ثقافتی تجارت‘ کرنے والے سرمایہ کاروں کا پیسہ اس کے علاوہ ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس سال افغانستان سے ۵۰۰ اساتذہ اور ۵۰۰ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ہاں لے کر جائے گی تاکہ انھیں تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت اور ترجیحات کا سبق بھی دے سکے۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانا دونوں ممالک کا باہمی معاملہ قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس پورے عمل سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کرنا گذشتہ قومی جرائم سے کہیں بڑا جرم اور سانحہ ہوگا۔

امریکی ذمہ داران نے بارہا بیان دیا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے‘ وہ افغانوں کو نظام و تربیت دے کر چلے جائیں گے۔ لیکن اب دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ ان اڈوں کے لیے چنے گئے علاقوں پر ذرا غور فرمایئے: کابل‘ بلخ‘ ہرات‘پکتیکا‘ خوست‘ قندھار۔ ان میں سے ہرات کا امریکی فوجی اڈا ایرانی سرحد سے تقریباً ۳۰کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ جب کہ آخری تینوں اڈے پاکستانی سرحدوں پر واقع ہیں۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً ۲۰ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان میں اور دیگر اتحادی افواج میں کتنے اسرائیلی ‘ یہودی یا اسرائیل نواز ہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ امریکا نے ۱۳فروری ۲۰۰۵ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانوں کی مدد کے لیے ۱۴ اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹر خریدے گا‘ یعنی کہ ہیلی کاپٹر تو آنا ہی ہیں ان کی قیمت افغانوں کے نام پر لی جانے والی امداد سے چکائی جائے گی۔ یہ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات لانے اور ان کی تربیت دینے کے لیے اسرائیلی ماہرین درکار ہوں گے۔ ان کھلے اور چھپے اسرائیلی عناصر کا بھارت کے ساتھ کیا اور کیسا تعلق و تعاون رہے گا‘ یہ جاننے کے لیے غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ دونوں فطری حلیف پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی نہیں پاکستان کے وجود سے ناخوش ہیں۔ یہاں افغان وزیرخزانہ انور الحق کا یہ بیان بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کے قریب رقم امداد نہیں‘ قرضوں پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے بھی اسی طرح کے اسلحے کے سودوں اور باہر سے آنے والے مشیروں کی تنخواہوں پر اڑائے جارہے ہیں اور افغانستان جو تاریخ میں کبھی مقروض نہیں ہوا‘ اب قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا جاچکا ہے۔

امریکا کے فوجی قبضے میں تڑپتاافغانستان ہر روز نئے سے نئے بحران کا شکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج نے بگرام اور دیگر کئی مقامات پر اپنے غیرعلانیہ قیدخانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں صرف افغانستان ہی سے نہیں ‘پرویز مشرف کے ہاتھوں پکڑے گئے قیدیوں کوبھی ہربنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹم گولڈ (Tim Gold)کی رپورٹ کے مطابق کابل کے شمال میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام کے امریکی اڈے کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ گوانتانامو سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ گوانتانامو کا کچھ ذکر امریکی عدالتوں میں آجانے کے بعد اب بش انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ زیادہ قیدی بگرام ہی میں رکھے جائیں۔ یہاں ۶۰۰ کے قریب قیدیوں پر توڑی جانے والی قیامت سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک مصری نژاد شریف بسیونی کو افغانستان میں اپنا نمایندہ بناکر بھیجا ہوا تھا۔ ۴فروری ۲۰۰۶ء کو امریکا نے بسیونی کو واپس بھجوا دیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ واپسی کا سبب صرف یہ ہے کہ امریکا اپنے قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا شاہد کسی کو نہیں بننے دینا چاہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانِ خنجر چپ کروا دیے جانے کے باوجود‘ آستیں کا لہو پکارپکار کر امریکی و عالمی اقوام کو اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں ہمہ پہلوتباہی کا ایک اور سنگین پہلو وہاں افیون اور منشیات کے جِنّ کا دوبارہ بوتل سے نکل آنا ہے۔ اس وقت افیون و منشیات کی عالمی پیداوار کا ۹۰فی صد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ بلخ کے ایک کسان نے بی بی سی کے نمایندے سے کہا کہ: ’’مقامی پولیس کا سربراہ ان کی منشیات کی پیداوار سے اپنا حصہ زبردستی لے لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی کاشت جاری رکھنا چاہتے ہو تو ہر گھر مجھے جمع شدہ افیون میں سے ایک کلو بھتہ دیا کرے‘‘۔

قتل وغارت کا بازار الگ گرم ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق   گذشتہ برس مارے جانے والوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ افغان پولیس اگر افیون کے بھتے پر لگی ہو‘ افغان فوج تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد اور تربیت حاصل نہ کرسکی ہو‘ اور امریکی افواج‘ افغانستان کے امن و استحکام سے زیادہ اپنے طے شدہ اہداف اور دُور رس مقاصد کے لیے وقف ہوں‘ اور صدربش حامدکرزئی کے لرزتے ہونٹوں سے ادا ہوتے مطالبات کو یکسر مسترد کردے اور کہے کہ افغانستان کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک نقطۂ نظر اور اسٹرے ٹیجی ہے اور امریکی افواج صرف امریکی قیادت ہی میں کام کریں گی‘ حتیٰ کہ وہ افواج بھی جو خود کرزئی انتظامیہ کی حفاظت پر معمور ہیں‘ تو ایسے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے کون دستیاب ہوگا؟ بدامنی اور لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ملک اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار صبغت اللہ مجددی پر قاتلانہ حملے کو یونس قانونی کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں جو ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں اور بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر مجددی صاحب کو کچھ ہوجاتا‘ تو جناب قانونی جو اپنی پارٹی میں بھی برہان الدین ربانی کے ساتھ مختلف مواقع پر متضاد موقف رکھتے تھے‘ سینٹ کے چیئرمین قرار پاتے۔

اس منتشر و زخمی افغانستان میں بھی امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت پر تقریباً پوری قوم کا اجماع ہے۔ کرزئی سمیت جو سیاسی و عسکری عناصر کابل میں امریکا سے ہم آغوش ہیں‘ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں‘ افغان قوم کسی کا قبضہ تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن ابھی امریکا سے مسلح جنگ کا وقت نہیں آیا‘ جب کہ کئی عناصر جن میں طالبان کے بچ رہنے والے مجاہدین‘ حکمت یار کے مجاہدین اور متعدد جنگی سردار شامل ہیں‘ اوّل روز سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں کامیاب کارروائیاں کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارروائیوں میں نہ تو کمی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔ ان روزافزوں کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان پر بھی امریکی اور افغان دبائو میں مزیداضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے ہی بھائی بندوں پر جنگ مسلط کرکے اس بیرونی دبائو میں اضافے کے نئے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ بھارتی رہنمائوں کا بلوچستان اور کراچی کے قوم پرست عناصر سے روابط بڑھانا‘ ان عناصر کی مانگ میں سیندھور بھرنے کے لیے نہیں ہے‘ اور نہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا جانا ہی صرف بے وقت کی راگنی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

اس گمبھیر صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ‘ پاک فوج اور اس کے اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور ہرذی شعور شہری کا فرض ہے کہ‘ ملک میں عسکری تسلط کے بجاے حقیقی جمہوریت کے قیام‘ ایک فرد کے بجاے ملک کے استحکام‘ ذاتی مفاد کے بجاے ملّی مفادات کی آبیاری‘ اور سب سے اہم یہ کہ لالچ یا خوف کے بجاے صرف اللہ کی نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت و ہمت سے اپنا گھر بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جارہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اب بھی ملک کے بجاے اقتدار بچانے پر ہی توجہ رہی تو آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

اتحاد بین المذاہب کی شرعی حیثیت

سوال: اتحاد بین المذاہب کی تحریک متحدہ ہندستان کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو مذاہب باطلہ کی تردید سے روکنا ہے اور اسلام کے ناجی ہونے میں شک ڈالنا ہے کہ سب مذاہب اپنی اپنی جگہ سچے ہیں ‘ نہ معلوم کس نے نجات پانی ہے۔

اس تحریک کو مسلمانوں نے نہیں اپنایا اور اس کے اثرات مسلمانوں میں نہیں پھیلے۔ پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ کے سلسلے میں جب تنظیمات مدارس دینیہ کو سربراہی حیثیت حاصل ہوگئی تو ناروے جو اس تحریک کا بانی مبانی ہے‘ اس نے اس موقعے کو غنیمت سمجھا کہ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے سربراہ امن پسند ہیں ان کی قیادت سے اتحاد بین المذاہب کی تحریک کو موثر بنانا چاہیے۔ چنانچہ ناروے حکومت نے ان کو دعوت دی اور ایک معاہدہ کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ:

۱- ہم جنگ جوئی اور دہشت گردی دونوں پر نفرین کرتے ہیں اور تشدد کے اسباب کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

۲- قومی سطح پر اپنا فرض جانتے ہیں کہ مختلف مذہبی طبقات کے درمیان امن و سکون کا ماحول سب کے لیے پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہرفرد کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پوری آزادی سے اپنے عقیدے‘ اپنے مذہب اور اپنے مذہبی احکامات کے مطابق عمل کرسکے اور دوسرے عقائد اور مذاہب کی دل شکنی نہ ہو۔

۳- باہمی معاشرتی تعلقاتِ کار کے پروگرام بنائیں گے جن میں تمام مذہبی طبقات کو کام کرنے کا موقع ملے تاکہ برداشت اور باہمی پیار کا کلچر پیدا ہو۔

۴- ہم تمام مذاہب اور عقائد سے پرُزور اپیل کرتے ہیں کہ آیئے ہم سب  مل کر مذہبی برداشت‘ باہمی عزت اور امن وسکون کی فضا پیدا کریں۔

اس معاہدے کے بعد حکومت پاکستان نے اتحاد بین المذاہب کانفرنس کا انتظام کیا جس میں کہا گیا کہ یہودیت‘ عیسائیت اسلام ایک مجموعے کے تین اجزا ہیں: جس پر دنیاے اسلام خاموش رہی۔ اقوام متحدہ کی سطح پر اسلام اور مغرب کے درمیان فاصلے کم کرنے کے عنوان سے کوشش کی گئی اور اس کے لیے رجالِ کار متعین کیے گئے لیکن اُمت مسلمہ میں شاید ہی کسی نے اس کو غلط قرار دیا ہو۔ اس تسلسل سے ناروے حکومت نے اندازہ لگایا کہ اب مسلمان اسلامی پختگی چھوڑ چکے ہیں وہ عیسائیت سے اتحاد کرلیں گے۔ اس اتحاد کو بروے کار لانے کی خاطر سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے گئے۔ ناروے حکومت نے معاہدہ توڑ کر مسلمانوں کے عقائد اور مذہب کی دل شکنی کی ہے اس لیے تنظیمات مدارس کے اکابر کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کا کسی باطل مذہب سے اتحاد نہیں ہوسکتا‘اور اعلان کریں کہ ناروے حکومت معاہدہ توڑچکی ہے اس لیے آیندہ اس عنوان سے بلائی گئی کسی دعوت میں شریک نہ ہوں گے‘ نیز توہینِ رسالتؐ کے مرتکبین کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔

جواب: اسلام اور اُمت مسلمہ کے لیے فکرمندی قابلِ قدر ہے اور علما کا فریضہ ہے۔ آپ کو اس فرض کی ادایگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جہاں تک اس معاہدے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خلافِ شرع ہو۔ جب جنگ برپا نہ ہو تو اس وقت کفار کے جان و مال پر ان کی آبادیوں میں پہنچ کر حملہ کرنا جائز نہیں ہے‘ بلکہ جنگ کے دوران میں بھی بلااضطرار ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس وقت ہندستان‘ یورپ اور امریکا کے ساتھ ہم برسرجنگ نہیں ہیں‘ اس لیے ان ممالک کے باشندوں اور ان کی املاک پر حملے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان اور عراق اسلامی ممالک ہیں جن پر کفار نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔ ان ممالک کی آزادی کے لیے کفار کی فوجوں پر حملے کرنا جائز ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر استشہادی حملے بھی جائز ہیں‘ جیساکہ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس شرعی مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے۔ ان کے ارشاد کے مطابق: ’’جب لوگ ایک ملک میں رہتے ہوں اور اس ملک کو اپنے طرزعمل سے اطمینان دلاتے ہوں کہ ہم یہاں کے شہری ہیں اور امن وامان کے ملکی قوانین کو مانتے ہیں‘ اور لوگوں میں معروف ہو کہ ان کی جان و مال مسلمانوں سے محفوظ ہے اور مسلم اورغیرمسلم دونوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تو اس عرف کی حیثیت باہمی معاہدے کی ہوتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا ہے‘‘۔ اس لیے تحریکِ آزادی میں انگریزوں کے گھروں‘ دفاتر اور ہندوئوں کے مکانات اور دکانات پر حملے روا نہیں سمجھے گئے۔ اب بھی یورپ‘ امریکا اور بھارت میں مسلمانوں‘ علما اور عوام کا اتفاق اسی پر ہے۔ حتیٰ کہ قادیانیوں کے خلاف ۹۰سالہ تحریک کے دوران میں قادیانیوں پر حملوں کا فتویٰ کسی عالم نے نہیں دیا۔ زیرگفتگو معاہدہ اسی قسم کے عرفی معاہدے کا اعلان ہے۔ آپ کو اس کی بعض شقوں سے عیسائیت اور یہودیت کی تعظیم کا جو خدشہ پیدا ہوا ہے وہ درست نہیں ہے۔ معاہدے میں عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کی دل شکنی نہ کرنے کی شق قرآن پاک کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط (الانعام ۶:۱۰۸) اور (اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیںگالیاں نہ دو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناپر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

اس سارے معاہدے کی روح یہی آیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ صحابہ کرامؓ کی سیرت اور سلف صالحین کے اخلاقِ حسنہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ کفار اور مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کے ساتھ رواداری اور مدارات پر تعامل رہا ہے۔ البتہ موالات جائز نہیں ہے۔ اوسلو معاہدہ مدارات اور رواداری پر مشتمل معاہدہ ہے‘ موالات پر مشتمل نہیں ہے۔ غیرمحارب کفار کو سبّ و شتم کرنا‘ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال سمجھنا کسی بھی دور میں صحیح نہیں سمجھا گیا۔

آپ کا یہ خیال کہ اس معاہدے کی وجہ سے ناروے حکومت کو توہین رسالتؐ کی جرأت ہوئی‘ درست نہیں ہے۔ ’توہین رسالتؐ، تو بش کے اسلام اور مسلمانوں پر کروسیڈ حملے کی ایک کڑی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے۔ ناروے کی حکومت نے تو اس توہین کی مذمت کی ہے اور اس کے صحافی اور حکومت نے معافی بھی مانگی ہے لیکن ہم نے کہا ہے کہ اس صحافی کی یہ معافی اس کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تعزیری سزا دینا بھی ضروری ہے‘ نیز ناروے کا صحافی اصل مجرم نہیںہے۔ اصل مجرم ڈنمارک کا صحافی ہے‘ باقی تمام یورپین اس کے نقال ہیں۔ البتہ ناروے حکومت پر اس شق کی بنیاد پر جس کو آپ نے نشان زد کیا ہے‘ دبائو بڑھایا جاسکتا ہے اور کہاجاسکتا ہے کہ اس کے صحافی نے   مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے‘ دیگر بین الاقوامی قوانین اور ناروے کے ملکی قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی ہے‘ لہٰذا اسے ان سب کی خلاف ورزی کی بنیاد پر تعزیری سزا دی جائے۔(مولاناعبدالمالک)


گھریلو رویے اور تربیت

س:میرے سسرال والوں کا تعلق تحریک اسلامی سے ہے۔ میں خود بھی تحریک سے وابستہ ہوں مگر ناروا گھریلو رویوں کی بنا پر میں ذہنی اذیت سے دوچار ہوں۔

میری ساس سخت مزاج ہیں۔ وہ مجھے طنز کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انھوں نے میری بیٹی کو مجھ سے بعض غلط فہمیاں پیدا کر کے دُور کردیا ہے‘ جو مزید باعثِ اذیت ہے۔ کیا ایک ساس کا ایسا رویہ درست ہے؟

کچھ عرصہ پہلے ایک معمولی واقعے سے میری ساس بری طرح ناراض ہوگئیں‘ جب کہ زیادتی بھی ان کی تھی۔ میں نے ان کی غلط روش پر توجہ دلائی تھی کہ آپ کا رویہ درست نہیں‘ کچھ تلخی بھی ہوگئی۔ مگر میرے خاوند نے مجھے ہی مجبور کیا کہ تم معذرت کرو۔ میرے پس و پیش پر انھوں نے مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ۔ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہے؟ کیا اسلام اسے کوئی حق نہیں دیتا؟ کیا تحریک کے ذمے داران کا فریضہ نہیں کہ اپنے رفقا کے رویے کی اصلاح کریں اور ان کو توجہ دلائیں؟

ج: آپ کی ذہنی پریشانی اور تکلیف کے احساس سے بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبرواستقامت کی توفیق دے اور آپ کے شوہر اور سسرال والوں کو ہدایت سے نوازے۔

تحریکِ اسلامی جو ذہن بنانا چاہتی ہے‘ سادہ لوحی میں ہم اسے رکنیت‘ نظامت‘ امارت وغیرہ سے منسلک کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ تحریک اسلامی کی رکنیت ایک اعزاز ہے لیکن اس سے زیادہ‘ ایک امتحان بھی ہے کہ جس ربّ کریم کی اطاعت اور حق کی پیروی اور حق کی اشاعت و اظہار کا عہد کیا گیا ہے اسے کہاں تک اپنی ذاتی زندگی خصوصاً اہلِ خانہ کے ساتھ تعلقات میں اختیار کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض اوقات یہ شکایات بھی سننے میں آتی ہیں کہ تحریک سے وابستہ فلاں صاحب نے تجارتی شریک کے ساتھ وہ رویہ نہیں رکھا جو متوقع تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں معیارِ مطلوب اور حقیقت واقعہ میں فرق ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ حقیقتِ واقعہ کم سے کم عرصے میں معیارمطلوب کے مطابق ہوجائے۔ مذکورہ سوال کے ضمن میں چند باتیں عرض ہیں:

پہلی بات یہ کہ کیا ایک دادی یا نانی کو اپنے بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں یا باپ سے متنفر کرنے کا حق ہے؟ قرآن کریم کا اور سنت کا واضح حکم ہے کہ صلہ رحمی کی جائے اور قطع رحمی نہ کی جائے‘ حسنِ ظن کو اختیار کیا جائے اور سوئِ ظن سے اجتناب کیا جائے۔ ایک فرد کو کم ترکرکے نہ دکھایا جائے کہ یہ غیبت کی تعریف میں آتاہے۔ اس غلطی کا ارتکاب ایک دادی یا نانی کرے‘ یا ایک بہو یا داماد کرے‘ فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس میں نہ جنس کی قید ہے نہ عمر کی نہ رشتے کی۔ اس لیے اگر ایک دادی صاحبہ اپنے بیٹے کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں سے متنفر کرتی ہیں تو وہ قرآن و حدیث کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتی ہیں‘ چاہے وہ اور ان کا پورا خاندان تحریکِ اسلامی کے کیسے ہی منصب پر کیوں نہ فائز ہو۔ یہ اپنی جگہ پر غلطی ہے اور اس کی اصلاح کرنا ان کا تحریکی فریضہ ہے۔ لیکن وہ ا یسا کیوں کرتی ہیں؟ کیا اس کا سبب ان کا احساسِ عدمِ تحفظ ہے کہ ان کی لائی ہوئی بہو ان کے بیٹے پر ’قابض‘ ہوجائے گی یا گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایسا کرتی ہیں‘ یا بہو کی کسی بات کو دل میں رکھ کر اس کے ردّعمل کے طور پر ایسا کرتی ہیں؟ ان سوالات کا جواب میرے پاس تو نہیں ہے‘ شاید آپ کے پاس بھی نہ ہو‘ لہٰذا اس حوالے سے ظن و گمان سے بچنا ہی بہتر ہوگا۔

دوسری بات آپ نے یہ دریافت کی ہے کہ کیا شوہر اپنی والدہ کے کہنے میں آکر بیوی کو  گھر سے نکال سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی تعلیمات تحریکِ اسلامی کے لٹریچر میں وضاحت سے ملتی ہیں‘ کہ ایک شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو اپنا لباس سمجھے اور لباس کو جسم سے الگ کر کے نہ خود عریاں ہو نہ بیوی کو اس آزمایش سے گزارے۔ قرآن متوجہ کرتا ہے کہ اگر بعض فطری رجحانات کی بناپر بیوی کی کوئی ایک بات ناپسند بھی ہو تو یہ سوچے کہ اس کی دوسری خوبیاں کتنی قیمتی ہیں اور ان کی بناپر اس سے علیحدگی یا اسے دُور کرنے کا قصد نہ کرے۔ اسلام کی نگاہ میں یہ رشتہ اتنا اہم ہے کہ اسے برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اور غلط فہمی دُور کرنے کے لیے ایک دوست غلط بیانی بھی کرسکتا ہے‘ جو عام حالات میں شدّت سے منع ہے۔ اس رشتے کو کمزور کرنے اور بگاڑنے کے لیے شیطان اپنی ذرّیت کو ’نشانِ امتیاز‘ دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

عام طور پر ساس بننے کے بعد ایک خاتون کا طرزِعمل کچھ نہ کچھ بدلتا ہے۔ اس کی اصلاح صرف دعا‘ اپنی جانب سے بھلائی‘ احسان کے رویے اور اللہ سے صبرواستقامت کی مسلسل دعا کے ذریعے سے ہی کی جاسکتی ہے۔

ایسے افراد کے لیے جو تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوںاصلاح و احتساب کا نظام تحریک کے اندر بھی اور خاندانوں کے معاملات کے حوالے سے بھی باقاعدہ ہونا چاہیے۔ ایک تحریکی کارکن کا اپنی رپورٹ میں یہ بیان کر دینا کہ اس نے کتنے افراد تک دعوت پہنچائی‘ کتنے اجتماعات میں شرکت کی‘ کیا مالی اعانت کی‘ کافی نہیں ہے۔ وہ کہاں تک اپنے خاندان میں محبت‘ عدل‘ نرمی اور بھلائی سے پیش آرہا ہے اور کہاں تک ماں باپ کی حمایت یا بیوی کی حمایت کی جگہ حق کی بات پر عمل کررہا ہے‘ رپورٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔

ہم جس معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی و انقلاب کا علَم لے کر نکلے ہیں اس میں گھر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک گھر کے محاذ پر ایک مجاہد اپنی سیرت کے کھرے ہونے کا مظاہرہ نہیں کرتا وہ بڑے محاذوں پر بحسن وخوبی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔

ایسے مواقع پر بھی جب آپ کو اپنی ساس کے غلط ہونے کا یقین ہو‘ اگر آپ براہِ راست انھیں جواب نہ دیں تو آپ کے اجر میں زیادہ اضافہ ہوگا کہ آپ نے رشتے کے احترام میں ایسا کیا۔ ہاں‘ اپنے شوہر کو ضرور مطلع رکھیے کہ آپ کو کیا کچھ کہا گیا لیکن آپ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ شوہر کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ معاملات کو احسن انداز سے لے کر چلے کہ والدین کو ان کا مقام ملے اور اہلِ خانہ کے حقوق بھی مجروح نہ ہوں‘ بالخصوص اہلیہ تنہائی کے احساس کا شکار نہ ہوں۔

جہاں تک ماں کو ناراض کرنے کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن و حدیث میں ماں کی اطاعت و فرماں برداری اور خوشنودی کا بار بار ذکر ہے لیکن وہی قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اگر والدین شرک کا حکم دیں تو کوئی اطاعت نہیں۔ حدیث بھی یہی بات کہتی ہے کہ’ ’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔ اس لیے اگر ماں یا باپ ایک ایسی بات کا حکم دیتے ہیں جو حق کے منافی ہے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کے اصول واضح ہیں‘ ان میں کوئی ایچ پیچ اور مصلحتیں نہیں ہیں۔ تاہم معاملات کو حکمت‘ معاملہ فہمی‘ وضع داری‘ حسنِ سلوک‘ غیرجذباتیت اور صبروتحمل کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ آخرت پر نظر رہنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ سے آسانی اور اس کی راہ میں استقامت کے لیے خصوصی دعا بھی کرنا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)

علامہ شبلی نعمانی کی قرآن فہمی ‘ ڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی۔ ناشر: کتاب سراے ‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۳۵۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

برعظیم کی علمی و ادبی تاریخ میں علامہ شبلی نعمانی ؒکو اہم مقام حاصل ہے۔ علوم القرآن پر اگرچہ انھوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن سیرت النبیؐ سے لے کر علمِ کلام تک‘ ہر بحث میں انھوںنے اپنے مؤقف کو قرآنی استدلال سے مزین کیا۔ علامہ شبلی کی قرآنی خدمات کے جائزے کی جو کمی پائی جاتی تھی‘ ڈاکٹر سعودعالم قاسمی نے نہایت خوب صورتی سے اس کا ازالہ کیا ہے۔ چار ابواب پر مشتمل اس کتاب میں علامہ شبلی کی تدریس قرآن‘ علوم القرآن پر ان کی تحریروں کا تجزیہ‘ اسباب نزول سے متعلق ان کی تحقیقات پر تبصرہ اور قرآنی آیات سے ان کے استدلال پر بحث کی گئی ہے۔

مصنف کے مطابق علامہ شبلی اگرچہ ماثور تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے لیکن ان کی نظر میں زیادہ اہمیت ان تفاسیر کو حاصل تھی جن میں قرآن کی تفسیر عقلی اور منطقی طریقے پر کی گئی ہو۔ شاید اسی وجہ سے ان پر اعتزال کا الزام بھی لگایا گیا‘ اگرچہ وہ عقیدے اور مسلک دونوں اعتبار سے حنفی تھے (ص۱۸)۔ ان کے نزدیک قرآن کا اصلی اعجاز فصاحت و بلاغت نہیں بلکہ اس کی ہدایت و حکمت ہے (ص ۲۹)۔ علامہ شبلی نظمِ قرآن کے قائل نہ تھے البتہ قرآن کے کسی واقعے کی تشریح و تفسیر میں آیات کے سیاق و سباق کا لحاظ رکھنے کو وہ ضروری سمجھتے تھے (ص ۱۲۲)۔ انھوں نے آیات و احادیث اور تاریخی شہادتوں سے ثابت کیا کہ آیات و سورہ کی ترتیب و تدوین عہدنبویؐ میں ہوچکی تھی۔ (ص ۳۸)

علوم القرآن پر لکھی گئی مختلف مصنفین کی کتابوں کی افادیت ان کی نظر میں تفسیر سے بھی زیادہ ہے۔ انھوں نے ان تصانیف کو چھے قسموں: فقہی‘ ادبی‘ تاریخی‘ نحوی‘ لغوی اور کلامی میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں سب سے زیادہ قرآن کے فقہی احکام اور ادبی فصاحت و بلاغت پر لکھی گئی کتابوں کی تحسین کی‘ اور سب سے زیادہ ناقص ‘قرآنی قصص پر لکھی گئیں چیزوں کو قرار دیا۔

علامہ شبلی نے علم کلام کو یونانی فلسفے سے آزادی کا ذریعہ اور مسلمانوں کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ البتہ ان کے نزدیک متکلمین نے قرآن کے منفرد استدلال اور اسلوب سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے بجاے علمِ کلام کی عمارت منطق و فلسفے پر اٹھائی۔ (ص ۴۷-۴۸)

مولانا شبلی نے غزوئہ بدر کے اسباب‘ اسیرانِ بدر سے فدیہ لینے پر عتاب‘ ماہِ حرام میں  دفاعی جنگ‘ حرمتِ شراب کے زمانۂ نزول‘ ایلاء تخییر‘ مظاہرازدواج سے متعلق اسباب و زمانۂ نزول کی روشنی میں جو بحث کی گئی ہے‘ اسے خوب صورت تحقیقی اسلوب میں پیش کیا ہے۔  نیز سنت اللہ کی تفسیر‘ عالم کے قدیم ہونے‘ چہرے کے پردے‘ حضرت ابراہیم کے خواب کے عینی یا تمثیلی ہونے‘ جہاد و نماز میں مشابہت‘ تعدد ازدواج اور غرانیق العلٰی سے متعلق علامہ شبلی نے جو قرآنی استدلال کیا ہے‘ اسے بھی اختصار کے ساتھ کتاب میں سمو دیا گیا ہے۔

آخری حصے میں دارالمصنفین کے ایک رفیق کلیم صفات اصلاحی کے ایک تحقیقی مقالے اور اشاریۂ شخصیات کے اضافے نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اپنے تحقیقی انداز‘ زبان و بیان کے خوب صورت اسلوب اور مضامین کی منطقی ترتیب کے باعث یہ مختصر کتاب    علامہ شبلی نعمانی کی فکرقرآنی کی تفہیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ڈاکٹر اخترحسین عزمی)


ناموس رسولؐ اور قانونِ توہینِ رسالتؐ، محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ۔ ناشر: الفیصل‘ اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۲۱۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بدباطن افراد کے لیے سزاے موت کے قانون کو نصوص قرآن و سنت‘ اجماع اُمت‘ تعامل صحابہ کرامؓ اور اقوال و آرا فقہا و ائمہ مجتہدین کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب جمالِ رسولؐ کا دل کش تذکرہ بھی ہے اور قانونِ توہینِ رسالتؐ کا دائرۃ المعارف بھی۔ اس کا اندازہ کتاب کے ابواب سے بخوبی ہوتا ہے: ۱-نام و ناموس    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ ۲-قانونِ توہینِ رسالتؐ، ۳-توہین رسالت:جرم وسزا‘ ۴-قانونِ توہینِ رسالتؐ عالمی اور ملکی تناظر میں‘ ۵-مسلم اسپین میں قانونِ توہینِ رسالتؐ اور حقوقِ انسانی‘ ۷-پاک و ہند کے چند شیدایانِ ناموس رسالتؐ،۸- قانون‘ مقدمات اور نظائر(عدالتی فیصلے)۔

قانونِ توہینِ رسالتؐ پر ائمۂ متقدمین میں سے ابوالفضل قاضی عیاض اندلسی کی کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے اہم مباحث کا خلاصہ پیش کرنے کے علاوہ عصرِجدید کے ممتاز      علما و مفکرین و محققین مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی اعظم سعودی عرب عبدالعزیز عبداللہ بن باز‘ آیت اللہ خمینی‘ علامہ محمد اقبال‘ سیدابوالحسن علی ندوی اور دیگر بہت سے علما کی       آرا و فتاویٰ کے علاوہ معروف سیرت نگار ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی اس موضوع پر تحقیقات کا خلاصہ بھی پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بھارت کے ایک نام نہاد‘ روشن خیال عالم دین مولانا وحیدالدین خان کی تصنیف شتم رسولؐ کا مسئلہ کا بھرپور تنقیدی محاکمہ بھی کیا گیا ہے اور ان کی فکر کی غلطی کو واضح کیا گیا ہے۔

بقول نعیم صدیقی: پاکستان میں ناموس رسولؐ کے تحفظ اور توہینِ رسالتؐ کے لیے  سزاے موت کا قانون پاس کرانے میں [آپ نے ] جو کاوش اور تگ و تاز کی ہے ‘ آپ کا اسم گرامی قلمِ مشیت نے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ دیا ہے… توقع ہے عدالتِ محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی (ص ۱۷)۔بلاشبہہ کتاب اپنے موضوع پر قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت اہم اور بہت نازک مسئلے پر قرآن و سنت‘ تاریخِ قانون‘ عدالتی فیصلوں کے آئینے میں موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اہل علم کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ ایمان کی روحوں میں سوزعشقِ مصطفیؐ کی تپش تیزکرنے کا ذریعہ بھی بنے گی۔ موضوعاتی اشاریہ کتاب کی جامعیت و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (محمد ارشد)


مدنی معاشرہ (عہد رسالتؐ میں) ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری۔ ترجمہ: عذرا نسیم فاروقی۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۶۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

سیرت نگاروں کی طویل فہرست میں ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کا نام ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر العمری ۱۹۴۲ء میں موصل (عراق) میں پیدا ہوئے۔ جامعہ بغداد سے تاریخِ اسلام میں ایم اے (۱۹۶۶ئ) اور جامعہ عین الشمس قاہرہ سے ڈاکٹریٹ (۱۹۷۴ئ) کی اسناد حاصل کرنے کے بعد جامعہ بغداد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تاریخ اسلام اور سیرت کے استادرہے۔ اس دوران میں انھوں نے اپنے طلبہ کو حدیث اور تاریخ کے واقعات میں تطبیق کا ایک ایسا اسلوب سکھایا جس کے باعث سیرت نگاری کے فن کو مغرب کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں کے ہم پلّہ کردیا۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مدینۃ النبی میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل سے بحث ہے اور اس سلسلے میں یہود کے قبائل کی ریشہ دوانیوں اور ان کے فتنے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں اس اسلامی معاشرے کو درپیش بیرونی اور خارجی خطرات سے نبٹنے کی تفصیلات ہیں۔ اس ضمن میں تمام اہم جہادی معرکوں کی مستند تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ مدنی معاشرے اور ریاست کے بہت سے اہم سیاسی اور دستوری مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ آخری پانچ ابواب میں عام الوفود‘ صدیق اکبرؓ کی قیادت میں حج کی ادایگی‘ حجۃ الوداع‘ لشکرِاسامہؓ کی تیاری اور آپؐ کی وفات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ ان تمام واقعات کی پیش کش میں مصنف نے سیرت نگاری کا ایک ایسا منہج وضع کیا ہے جو محدثین کے کڑے اصولوں کے قریب تر ہے اور جدید مغربی مؤرخین کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہے۔

ہمیں مصنف کی اس راے سے کامل اتفاق ہے کہ مغربی دنیا کے مستشرقین اور عالمِ اسلام میں ان کے ہم نوا مصنفین نے جو تاریخی معیار متعین کیا ہے‘ وہ اسلامی تاریخ کے اس اوّلین دور کو  صحیح تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ مغربی مؤرخین کا یہ تحقیقی کام مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے متعارض اور علمی معیار کے لحاظ سے غیرمستند ہے۔ ان کے نزدیک غزوات نبویؐ کا محرک تجارتی اور اقتصادی مفادات ہیں‘ جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جہادی کوششیں اسلامی معاشرے کی تقویت اور اسلامی ریاست میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کے لیے تھیں۔ اس کے مابعد زمانوں میں بھی اسلامی سپاہ کے پیش نظر یہی مقاصد رہے ہیں۔

ڈاکٹر عمری کا یہ مطالعہ سیرت نگاری کے ایک سائنٹی فک اسلوب کو پیش کرتا ہے جس کی روشنی میں ہم سیرت کے واقعات کی تکمیل میں احادیث سے کماحقہٗ استفادہ کرسکتے ہیں۔ مصنف تاریخ کے وقائع کو بھی محدثانہ جرح و تعدیل کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے صحیح اور حسن احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث سے بھی استفادے کی راہ نکالی ہے۔ اس حصے کے دوسرے ابواب میں مواخات‘ مسجد نبویؐ کے انتظام‘ اصحابِ صفہ اور میثاقِ مدینہ کی مفید معلومات ہیں۔ یہود کے تینوں معروف قبائل کی پے درپے عہدشکنی کے ضمن میں بہت سی مفید معلومات سامنے آئی ہیں۔ یہود اور غیریہود کے ساتھ طے پانے والے معاہدات کی تفصیل بھی لائق داد ہے۔

سیرت اور اصولِ سیرت پر اس اہم کتاب کے اُردو ترجمے میں جس مہارت‘ ادبیت اور علمیت کو برقرار رکھا گیا ہے وہ مترجمہ عذرا نسیم فاروقی مرحومہ کی بلندپایہ علمی استعداد‘ اخذِمطالب کی اعلیٰ استعداد اور ابلاغ کے وسائل سے بھرپور استفادے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ادارے نے کتاب کی فنی تدوین کے ضمن میں جس شعور‘ سلیقے اور اہتمام کا اظہار کیا ہے‘ وہ لائق تحسین ہے۔(عبدالجبار شاکر)


متاثرین زلزلہ کی نفسیاتی بحالی: مسائل اور حل‘ پروفیسر ارشد جاوید/ ڈاکٹر محمدصدیق۔ ناشر: کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی پبلی کیشنز‘ ۶۸۱-شادمان I‘ لاہور۔صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: بلامعاوضہ۔

اکتوبر ۲۰۰۵ء میں کشمیر و دیگر علاقوں میں ہولناک زلزلے نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاکر‘ عبرت کا ساماں پیدا کیا وہاں غوروفکر کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ متاثرین زلزلہ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوئے اس کا مطالعہ و رہنمائی بھی ایک اہم موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب اس موضوع پر منفرد کاوش ہے۔ مصنفین خود متاثرہ علاقوں میں گئے۔    صورت حال کا جائزہ لیا۔ عملی مسائل کا اندازہ کیا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی بحالی کی ضرورت تھی‘ اس کے ازالے اور نفسیاتی رہنمائی کے لیے لٹریچر بھی تیار کیا اور پھیلایا۔ یہ کتاب اسی کا تسلسل ہے۔

زلزلے سے سب سے زیادہ خواتین‘ بچے اور بزرگ متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ شدید خوف‘ اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں‘ زلزلے کو دوبارہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ متاثرہ جگہوں پر واپس جانے سے خائف ہیں‘ شہدا کی چیخ و پکار ابھی تک ان کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ مالی نقصانات اور مستقبل کے مسائل سے پریشانی نے اُن کو بے چینی‘ اضطراب اور شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ نیند نہ آنا‘ بھوک نہ لگنا اور مختلف ذہنی و جسمانی عوارض عام ہیں۔ ’’اگر ان لاکھوں ذہنی دبائو کے شکار لوگوں کی ضروری مدد نہ کی گئی تو ان میں اکثر دیوانگی اور دوسرے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجائیں گے‘‘ (ص ۳۴)۔ ایسی صورت میں عوام کی اکثریت خدا پر ایمان کی وجہ سے اس کی رضا پر راضی اور صبروشکر پر قانع ہے۔ اگر یہ حادثہ کسی غیرمسلم آبادی میں رونما ہوتا تو نفسیاتی امراض بہت بڑے پیمانے پر ہوتے۔

زیرتبصرہ کتاب کے مطالعے سے اتنی نفسیاتی مہارت حاصل ہوجاتی ہے کہ ہنگامی سطح پر نفسیاتی مسائل کو حل کیا جا سکے‘ نیز بنیادی تربیت ایک ہفتے میں دی جاسکتی ہے۔ مصنفین نے توجہ دلائی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر‘ سرحدحکومت‘ ماہرین نفسیات کی تنظیم (PPA) اور دیگر سماجی و سیاسی تنظیمیں اس پہلو پر توجہ دیں اور تربیت کا اہتمام کریں۔کتاب سے قدرتی آفات کے متاثرین کے علاوہ کسی بھی حادثے یا صدمے (trauma) اور ڈپریشن وغیرہ کے متاثرین کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ ابتدائی طبی امداد (first aid) اور عمومی نفسیاتی امراض سے متعلق بنیادی معلومات اور علاج کے اضافے سے کتاب کی جامعیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ سرورق بامعنی اور جاذب نظر۔(امجد عباسی)


رشوت (ایک معاشرتی ناسور)، عبداللہ بن عبدالمحسن‘ ترجمہ: مولانا نصیراحمد ملّی۔ ناشر: محمد سرور عاصم۔ مکتبہ اسلامیہ لاہور ‘رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرتبصرہ کتاب سعودی عرب کے لاکالج کا ایم اے کی ڈگری کا تحقیقی مقالہ ہے۔ رشوت معاشرے کی بنیادی خرابیوں میں سے ایک ہے لیکن فقہ اسلامی کی کتابوں میں جرم’’رشوت‘‘ پر مستقل عنوان کے تحت بحث نہیں کی گئی۔ مؤلف نے پہلی دفعہ اس موضوع پر فقہ اسلامی میں بکھرے ہوئے مواد کو یک جا کیا ہے اور بڑی خوبی سے پراگندا مسائل کی شیرازہ بندی کی ہے۔

فاضل مؤلف نے مقدمے میں دینی تربیت کے ذریعے جرائم کو روکنے اور اُمت کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ جرم کی تعریف‘ سزا اور شریعتِ اسلامیہ میں سزائوں کی اقسام (تعزیر اور اس کی مقدار) کے تحت تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

باب اول میں رشوت کی تعریف‘ رشوت کی اقسام اور جرمِ رشوت سے متعلقہ امور‘     باب دوم میں رشوت کی حرمت‘ اس جرم کو ثابت کرنے کے طریقے‘ راشی اور مرتشی اور درمیانی شخص کے لیے تعزیریں‘ اور باب سوم میں جرم رشوت کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔   باب چہارم میںمؤلف نے حکومتِ سعودیہ عربیہ میں نظامِ انسداد رشوت ستانی کا محاکمہ کیا ہے اور اس نظام کو قرآن و سنت کے مطابق مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دی ہیں۔

زیرنظر کتاب میں رشوت بصورتِ ہدیہ و تحفہ پر طویل بحث کی گئی ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سعودی سرزمین پر رشوت کے انداز مختلف ہیں اور ہمارے ہاں کی طرح کی اوپن مارکیٹ نہیں ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مؤلف نے رشوت کے متعلق قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ تمام مذاہبِ فقہ کے وسیع علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے اور گروہی عصبیت سے بالاتر ہو کر راجح فیصلے کو دلیل کے ساتھ درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں مشکل اور پیچیدہ فقہی مباحث کو آسان اور عام فہم بنانے کی اپنی حد تک کوشش کی ہے۔

کتاب میں عنوانات کے تعین اور ضمنی‘ ذیلی سرخیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر کاوش ہے۔ قانون کے طلبہ‘ وکلا‘ علما اور نظامِ حِسبہ کے ذمہ داران اور اہل کاروں کے لیے چراغِ راہ ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


تعارف کتب

  • احکامِ دعا اور زادِمسلم،ترجمہ و تفہیم: پروفیسر محمد یوسف ضیائ۔ ناشر: الفلاح قرآن اکیڈمی‘ عزیزآباد‘    صادق آباد۔ صفحات:۳۱۱۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔[دعا کی ضرورت و اہمیت اور دعا سے متعلق تمام امور پر ایک اہم اور جامع کتاب۔ چند موضوعات: لفظ دعا کے معانی‘ دعا کی شرائط‘ آدابِ دعا‘ فضیلت کے اوقات‘ دعا میں ناپسندیدہ کام‘ وسیلہ پکڑنا‘ دعا کی بدعات۔ جہاں ضروری ہوا اختلافی نقطۂ نظر بھی دیا گیا ہے۔ آخر میں زادمسلم (دعائوں کا مجموعہ) شاملِ اشاعت ہے۔نیز ’مناجاتِ مکّہ‘ اور ’مناجاتِ مدینہ‘ کے تحت تراویح میں اختتام کے موقع پر عبدالرحمن السدیس اور امام مسجد نبویؐ احمد بن علی العجمی کی دعائیں بھی شامل ہیں۔]
  • آج نہیں‘ تو کبھی نہیں، محمدبشیر جمعہ۔ملنے کا پتا: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردوبازار‘ کراچی۔ صفحات ۷۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[’اگر آپ منصوبہ سازی نہیں کرسکتے، تو آپ ناکامی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘___ تعمیرشخصیت‘ اعلیٰ کارکردگی اور وقت کے بہترین استعمال پر ایک مختصر اور اہم کتاب۔ بالخصوص سستی و کاہلی اور تن آسانی (procrastination)کی وجوہات اور اس کے سدباب کا جائزہ۔ جدید معلومات‘ قرآن و حدیث اور اسلام کے قدیم علمی ورثے کا خوب صورت امتزاج۔ سائنٹی فک انداز میں چارٹ‘ گراف اور گوشواروں کے ذریعے عملی مشقیں۔ ہر فرد کی ضرورت بالخصوص تحریک اسلامی کے کارکنوں اور قائدین کے لیے مفید۔ عمدہ طباعت۔]
  • SALAH ‘ انعام اللہ خواجہ۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ گلی ۱۵‘ گولڑہ‘ ۴/۱۱-ای‘ اسلام آباد۔ صفحات:۱۵۵۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔[انگریزی زبان میں نماز پر ایک جامع‘ عام فہم مگر مختصر کتاب۔ انگریزی داں طبقے بالخصوص یورپی ممالک کے مسلمانوں کی تربیت اور دینی شعور کی آبیاری کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش۔ نماز کی دیگر شرائط و فقہی پہلو‘ جب کہ اختلافی نقطۂ نظر کو اعتدال سے پیش کیا گیا ہے۔ نماز میں عام طور پر تلاوت کی جانے والی سورتوں کا ترجمہ اور مختصر تشریح۔ فرض نمازوں کے علاوہ نفل نمازیں اور نماز جنازہ کاتذکرہ۔ آخر میں کتابیات (اُردو‘ انگریزی) رہنمائی کا اہم ذریعہ اور کتاب کی جامعیت و افادیت میں اضافے کا باعث۔]
  • خوش گوار گھریلو زندگی‘ مؤلف: حافظ مبشرحسین۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۸۳۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[خوش گوار ازدواجی اور گھریلو زندگی کے لیے قرآن و سنت‘ واقعاتی حقائق‘ روزمرہ تجربات اور جدید نفسیاتی اصولوں کی روشنی میں عملی رہنمائی اور اہم تدابیر۔ چند نکتے: m زندگی ایک امتحان ہے mپُرسکون ازدواجی زندگی کا راز ایڈجسٹمنٹ ہے جو کہ خدا کے حق میں سے ایک حق ہے mمثبت سوچ اپنایئے‘ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں mگھریلو مسائل ۹۹ فی صد محض نفسیاتی ہوتے ہیں۔ mآپ دانش مندی سے مشکلات گھٹا سکتے ہیں۔ جذبات کے مقابلے میں وضع داری اور انصاف سے کام لیجیے mوالدین کو اپنا ازدواجی مشیر بنالیں۔
  • محمد علی کلے کا قبولِ اسلام، مولف: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۔ قیمت: ۱۵ روپے۔[باکسنگ کی دنیا کے ناقابلِ تسخیر کردار محمدعلی کلے (سابق کاسیس مارسیلس کلے) کے قبولِ اسلام کی ایمان پرور داستان۔ فروری ۱۹۶۴ء میں عالمی ہیوی ویٹ چیمپین بننے کے بعد قبولِ اسلام کا اعلان کرتے ہی امریکی قوم کے ہیرو کو تعصب‘ تنگ نظری‘ بے اصولی اور بے انصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ محمدعلی نے ویت نام کی جنگ میں معصوم انسانوں کے قتل اور سفیدفام آقائوں کے غلبے کے لیے شرکت سے انکار کردیا اور قید قبول کرلی‘ آج بھی امریکی قوم اور فوجیوں کو اپنے ضمیر کی آواز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔]

احمد علی محمودی ‘ حاصل پور

’شیطانی کارٹون‘ ___تہذیبی کروسیڈ کا زہریلا ہتھیار‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں جہاں عیسائیوں اور یہود کے عزائم کھل کر سامنے آئے‘ وہاں اس تحریک کے اوّلین اور فکری رہنما قادیانیوں کو بھی بے نقاب کیا جاتا تو تشنگی رفع ہوجاتی۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں انگریز کا خودکاشتہ یہ پودا پیش پیش ہے۔ ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنا تحریک اسلامی‘ وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے۔


حمیداللّٰہ ‘پشاور

’حماس کی کامیابی ‘(مارچ ۲۰۰۶ئ) کے مطالعے سے حماس کی دو ٹوک پالیسی سامنے آئی: جب تک اسرائیل القدس خالی نہیں کرے گا‘ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس نہیں چلا جائے گا‘ فلسطینیوںکا قتلِ عام بند نہیں کرے گا‘ اور تمام قیدیوں کو آزاد نہیں کرے گا‘ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حماس کے اس ایمان افروز اعلان میں ’روشن خیالوں‘، ’اعتدال پسندوں‘ اور ’جمہوریت پسندوں‘ کے لیے  بڑی نشانیاں ہیں۔ مشروط امریکی امداد کو لات مار کر جس بے نیازی کا مظاہرہ کیا گیا اس نے تو گویا علامہ اقبالؒ کے اس شعر کا مفہوم سمجھا دیا     ؎

مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِتربیت ہیں

وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی


نورالہدیٰ نور ‘چترال

اشارات ’کشمیر خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں نہایت عرق ریزی سے کشمیرکاز کے خلاف عالمی سازش سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ کاش! ہمارے حکمرانوں میں بصیرت اور بصارت ہوتی۔


کرم اللّٰہ منگریہ ‘ ڈیرہ مراد جمالی

’عصرحاضر میں اسلامی معاشرے کی تشکیل‘(جنوری ۲۰۰۶ئ) اچھی کاوش ہے اور عصرحاضر میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مضمون میں جن نکات کی طرف اختصار کے پیش نظر محض اشارہ کیا گیا ہے‘ ان پر الگ مضامین بھی شائع کیے جائیں۔


محمد اقبال ہاشمی ‘ڈیرہ غازی خان

’اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) پڑھا۔ اس فکرانگیز مضمون میں یہ نکتہ        بڑا غورطلب ہے کہ مغربی دنیا کی کوشش ہوگی کہ اسلامی تحریکوں کو سسٹم میں جذب کرکے اُن کی نظریاتی جہت کو دھندلا دیا جائے اور انھیں اسلامی تحریکوں کے عظیم مقام سے ہٹاکر صرف سیاسی جماعت بناکر کھڑا کردے۔ جو کام اسلامی تحریکیں کرسکتی ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں نظام میں اصلاح کرسکتی ہیں مگر اُسے بدل نہیں سکتیں۔ مسلم دنیا کو انقلاب کی ضرورت ہے اور انقلاب صرف تحریکیں لاسکتی ہیں۔


امریکی جیل سے ایک خط

آج کل تو بش صاحب ایسے ایسے احکام جاری کر رہے ہیں کہ امریکی بھی حیران ہوکر سوچتے ہیں کہ یہ شخص امریکا کا ہی صدر ہے یا کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہے! ایک خبر کے مطابق ورمائونٹ کے سینیٹر نے ٹی وی پر آکر احتجاج کیا ہے کہ پچھلے سال ورمائونٹ کے ۲۰ بوڑھے لوگوں نے عراق جنگ کے خلاف مظاہرہ کیا تھا‘ پینٹاگون اور سی آئی اے نے اُن ۲۰ امریکی بوڑھوں کے خلاف تفتیش کی تھی اوراُن کی فائلیں بنائی گئی تھیں۔ اُن میں سے ۱۲بوڑھے افراد ایسے ہیں جو ویت نام کی جنگ لڑچکے ہیں اور اُن کی پانچویں اور چھٹی نسل امریکا میں پیدا ہوئی ہے۔ بش صاحب تو اب امریکیوں پر بھی اعتبار نہیں کر رہے۔ یہ مت ماری جانے کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے۔

پستی کی حد

بجاے اس کے کہ آپ کی بستی کے لوگ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے کہ ان کے درمیان ایک نیک بندہ ایسا ہے جو خود حلال کی کمائی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا ہے اور اگر دوسرے لوگ حرام رزق یا مشتبہ رزق کھانے والے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس ناپاکی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے‘ نیز بجاے اس کے کہ لوگ اس کی زندگی سے سبق لیتے اور خود اس کے ماں باپ اور رشتہ دار شکر بجا لاتے کہ ان کے گھر میں ایسا ایک پرہیزگار مردِخدا پیدا ہوا ہے‘ بستی کے لوگ اور ماں باپ اور اقربا اُلٹے اس سے بگڑتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھ رہے ہیں کہ اس کی یہ پرہیزگاری کیسی ہے۔ وہ اگر اعتدال سے زیادہ سختی بھی کر رہا ہے تو اس کی زیادتی نیکی کی طرف ہے نہ کہ برائی کی طرف۔ آپ لوگوں کو اس کی پرہیزگاری کے متعلق پوچھنے کے بجاے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ جو لوگ تجارت جیسے پاک ذریعۂ رزق کوبھی جھوٹ سے ناپاک کرلیتے ہیںاور جو لوگ رشوت اور ظلم اور ایسے ہی دوسرے حرام ذرائع سے روزی حاصل کرتے ہیں ان کی یہ ناپرہیزگاری کیسی ہے! قصوروار کون زیادہ ہے؟ وہ جو ان گندگیوں سے خود بچتا ہے اور دوسروں کو بچانا چاہتا ہے یا وہ جو ان گندگیوں میں خود مبتلا ہوتے ہیں اور بچنے والے کواُلٹی ملامت کرتے ہیں۔

مجھے یہ دیکھ کر بڑا رنج ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کی اخلاقی پستی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کی بستیوں میں خدا کا قانون توڑنے والے مزے سے دندناتے پھرتے ہیں‘ اور رب العالمین کے قانون کی پابندی کرنے والے اور اس کی اطاعت کی تلقین کرنے والے اُلٹے نکو بن جاتے ہیں۔

متعفن فضا میں اگر کہیںسے خوشبو کی ایک ذرا سی لپٹ آرہی ہو تو تندرست دماغ اس کی طرف لپکتے ہیں اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ساری فضا ہی ایسی ہوجائے۔ لیکن ماتم کے قابل ہے ان بیمار دماغوں کا حال جو خوشبو کی اس لپٹ پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فضا میں اتنی سی خوشبو بھی باقی نہ رہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ فضا کی عفونت نے ان دماغوں کو اندر تک سڑادیا ہے‘ حتیٰ کہ اب ان کے لیے بدبو گوارا ہوگئی ہے اور خوشبو ناگوار۔ (’رسائل و مسائل‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۸‘ عدد ۵‘ جمادی الاول‘ ۱۳۶۵ھ‘ اپریل ۱۹۴۶ئ‘ ص ۶۲)