عالمِ اسلام میں یہودیوں کو زندگی کی ہرآسایش اور ترقی کا ہر موقع تاریخ کے ہر دور میں حاصل رہا اور جب عیسائی دنیا میں ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کا ہر موقع معدوم کردیا گیا اور ظلم اور تعصب نے نسل کشی کی شکل اختیار کرلی تو مسلم ممالک اور خصوصیت سے عرب دنیا نے ان ستم زدہ یہودیوں کے لیے اپنے دروازے ہی نہیں‘ اپنے سینے بھی کھول دیے۔ لیکن خالص سیکولر اور استعماری مقاصد کے لیے قائم ہونے والی صہیونی (Zionist) تحریک نے اس تاریخی احسان کا بدلہ اس طرح دیا کہ سرزمینِ فلسطین پر جبر اور تشدد‘ دھوکا اور دغا‘ استعماری طاقتوں سے سازباز اور بالآخر ننگی دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کر کے قبضہ جمانا شروع کر دیا اور خصوصیت سے پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد‘ اعلان بالفور کے سایے تلے ۳۰ سالہ عملی جنگ کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرلیا جسے اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ء کی ایک غیرقانونی قرارداد کے ذریعے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
اسرائیل نے اس پر بھی قناعت نہ کی اور بار بار کی فوج کشی کے ذریعے اپنے تسلط کے دائرے کو برابر وسیع کیا اور بالآخر ۱۹۶۷ء میں پوری ارض فلسطین اور شام کی گولان پہاڑیوں‘ لبنان کے چند جنوبی سرحدی علاقوں اور مصر کے وسیع و عریض صحراے سینا پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۷۳ء کی جنگِ رمضان کے بعد عرب ریاستوں نے مسئلہ فلسطین سے جان چھڑانے کی روش تیز کردی اور کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جدوجہد میں لگ گئے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر فلسطین کے عوام نے اسرائیلی سامراجی قبضے کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور الفتح کے جھنڈے تلے اسرائیل کے قبضے کو چیلنج کیا لیکن جب الفتح نے جنگِ آزادی کو مذاکرات کی میز پر تحلیل کرنے کا عمل شروع کردیا‘ نیز اپنے سیاسی رخ کو سیکولرزم اور امریکا سے مفاہمت کے سانچوں میں ڈھال لیا توالقدس کے غیور مسلمانوں نے حماس اور اسلامی جہاد کی شکل میں اسلام کے پرچم تلے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ عرب حکومتیں اپنی تمام مادی دولت اور عسکری وسائل کے باوجود جدوجہد میں شرکت ہی سے نہیں‘ اس کی تائید سے بھی عملاً دست کش ہوتی گئیں اور اسرائیل سے الگ الگ کھلے یا خفیہ معاہدات کرکے راہ و رسم استوار کرنے میں مشغول ہوگئیں لیکن حماس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر یہ ثابت کردیا کہ وسائل اور قوت کے شدید ترین عدمِ توازن کے باوجود اسرائیل اور اس کے پشتی بانوں کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ پسپائی پر بھی مجبور کیاجاسکتا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں عسکری میدان میں اپنا لوہا منوانے کے بعد حماس نے سیاسی جمہوری عمل میں شرکت کر کے اپنی عوامی تائید اور اس تائید کی بنیاد پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ غزہ اور غرب اُردن کی ٹوٹی پھوٹی فلسطین اتھارٹی کے جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی نے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا اور اسرائیل اور مغربی دنیا سے ان کی کش مکش ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ امریکا اور یورپی اقوام نے جمہوریت کے احترام اور فروغ کے بارے میں اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود فلسطینی عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی ہر حربہ استعمال کرڈالا کہ حماس مسندِاقتدار پر متمکن نہ ہوسکے اور جب اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر اس کی حکومت کو آغازِ کار (take off) کے ہرامکان سے محروم کرنے میں لگ گئے۔
اس پورے عرصے میں اسرائیل حماس‘ اسلامی جہاد‘ اور فلسطین کی ہر قابلِ ذکر قوت اور عام آبادی کو مسلسل فوج کشی‘ قتل و غارت گری‘ target killing ‘ اغوا‘ غیرقانونی اور غیرعدالتی گرفتاریوںکا نشانہ بناتا رہا۔ جو ٹیکس فلسطین کے باشندوں سے وصول کیا جاتا ہے‘ اس تک کی ادایگی کو روک دیا گیا۔ تمام بین الاقوامی امداد کو بند کردیا اور دنیابھر کے بنکوں حتیٰ کہ مسلمان اور عرب ممالک کے بنکوں تک پر پابندی لگادی کہ حماس اوراس کی حکومت کو کوئی مالی منتقلی (financial remittance) نہیں کرسکتے۔ اس طرح ایک پوری قوم کو صرف زیرحراست (under siege) ہی نہیں لایا گیا بلکہ عملاً اس کی نسل کشی (genocide) کا آغاز کردیا۔
حماس نے ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا‘ طیش میں آکر جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ تمام اسرائیلی دراندازیوں‘ حملوں‘ گرفتاریوں‘ میزائل کی بارشوں کے باوجود عملاً جنگ بندی کے ذریعے بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کی اور دوسری جہادی قوتوں کو بھی صبر اور تحمل کی تلقین کی لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں (provocations) میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور معصوم فلسطینیوں پر حملوں اور متعین افراد کے قتل ناحق کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں ایک جہادی گروہ نے اسرائیلی فوج سے ایک جھڑپ میں دو اسرائیلیوں کو ہلاک اور ایک کو جنگی قیدی بنالیا۔ اس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فوج کشی اور تباہی پھیلانے کی کارروائیوں کا آغاز کردیا اور ۲۵ جون ۲۰۰۶ء سے ۲۰جولائی تک ۱۳۰ فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں عورتوں‘ بچوں کی تعداد ۷۰/۸۰ فی صد ہے۔ بجلی کے نظام‘ سڑکوں‘ پُلوں‘ اسکولوں‘ ہسپتالوں‘ اشیاے ضرورت کے ذخیروں‘ شہری علاقوں اور بازاروں کو تباہ کر کے غزہ کے پورے علاقے کے معاشی اور اجتماعی بنیادی ڈھانچے (infrastructure) کو تباہ کردیا۔
اہلِ فلسطین پر دبائو کو کم کرنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ نے‘ جو ۱۹۸۲ء سے مختلف شکلوں میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے معاہدے کے باوجود مسلسل اشتعال انگیزی کا ہدف تھی‘ ایک فوجی کارروائی کے ذریعے چنداسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ دو کو جنگی قیدی بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ معرکہ ۱۲جولائی ۲۰۰۶ء کو پیش آیا اور اس کے بعد سے تادمِ تحریر ۹دن میں لبنان پر کھلی فوج کشی کے ذریعے ۳۰۰ سے زیادہ لبنانی سول شہریوں کو شہید کیاجاچکا ہے جن میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے اور غزہ کی طرح لبنان کے بھی پورے سول ڈھانچے کو تاراج کردیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہواہے اور ۲۰سال میں لبنان نے جوکچھ بنایا تھا اسے خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
اسرائیل حماس کی جنوری ۲۰۰۶ء کی کامیابی سے اب تک چھے ماہ میں جن جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرچکا ہے اور کررہاہے اس پر پوری مغربی دنیا بشمول اقوام متحدہ خاموش ہے‘ جب کہ امریکا اور برطانیہ کھلے طور پر اور جرمنی ذرا ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کی تائید اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک معاملہ عرب دنیا اور مسلمان ممالک کا ہے کہ وہ ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ مصر‘ سعودی عرب اور اُردن کی قیادتوں نے تو زخموں پر نمک پاشی سے بھی گریز نہیں کیا ہے اور مظلوم فلسطینی مجاہدین اور حزب اللہ کے جاں بازوں ہی کو مورد الزام ٹھیرانے سے بھی باز نہیں رہے ہیں۔ مسلمان عوام دل گرفتہ ہیں اور ان کے دل میں خوف نہیں وہ عملاً احتجاج کے لیے اُٹھ رہے ہیں لیکن حکمران بے حس اور امریکا اور اسرائیل سے اتنے خائف ہیں کہ اس ننگی جارحیت اور معصوم انسانوں کے خلاف ان کھلے کھلے جرائم پر زبان سے تنقیدکرنے کی بھی جرأت نہیں کر رہے اور اگر کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو بھی بہت ہی دبے لفظوں میں اور ’اگر‘ اور ’مگر‘ کے ساتھ۔
وہ مغربی اقوام جو بالکل امریکا کی گود میں نہیں بیٹھی ہوئی ہیں یا جن کے مفادات مشرق وسطیٰ سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان ملکوں کے عوامی ردعمل کو خطرناک سمجھتی ہیں‘ وہ بھی بڑے معذرت خواہانہ انداز میں اسرائیل کو بڑے ادب کے ساتھ تحمل کا مشورہ دے رہی ہیں اور تنقید کا ہدف حماس اور حزب اللہ ہی کو بنا رہی ہیں۔ مغربی میڈیا پہلے ہی سے اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور ان کا رویہ بھی الا ماشا اللہ معاندانہ اور جارحانہ ہی ہے۔ طوطے کی طرح رٹ لگائی ہوئی ہے کہ تصادم کا آغاز حماس اور حزب اللہ کی طرف سے ہوا ہے اور اسرائیل اپنے دفاع میں ساری کارروائی کر رہا ہے گو یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل متناسب (proportionality) کی حدود سے بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل کے ساتھ مسئلے کی تنقیح کی جائے اور ان خطوط کی نشان دہی کی جائے جن پر اُمت مسلمہ اور دنیا کے حق پسند اور امن دوست انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ فلسطین کے عوام اور کم از کم شام اور لبنان کے عوام (اور حکومتیں بھی اگر وہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں) اسرائیل کے ساتھ اصلاً جنگ کے عمل میں ہیں۔ گو یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء اور اس سے پہلے سے شروع ہوگیا تھا لیکن ۱۹۹۷ء کے بعد سے تو حالتِ جنگ کی اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے جسے عملاً جنگ بندی کہا جاتاہے‘ وہ بھی واجبی سی ہے اور قانونی اور اخلاقی ہر دواعتبار سے خاصی مشتبہ ہے۔ نیز اسرائیل خود اس پورے عرصے میں یک طرفہ طور پر فوجی دراندازیاں‘ گرفتاریاں اور سول تنصیبات کی تباہیاں پورے تسلسل اور تحدی کے ساتھ کرتا رہا ہے اس لیے فریق ثانی کو بھی ردعمل کا مساوی حق حاصل ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کو یاسرعرفات کے دور سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے حماس کی کامیابی کے بعد‘ جس رعونت اور ڈھٹائی سے تباہ کیا گیا ہے‘ وہ مسلسل اشتعال انگیزی اور یک طرفہ اعلان شدہ جنگ (declared war) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں اور حماس کی قیادت کو تو نشانہ بنا کر مارا گیا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کے مطابق ۱۹۶۷ء سے اب تک ۶ لاکھ ۵۰ ہزار بار ارض فلسطین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور اس وقت بھی اسرائیل کے عقوبت خانوں اور جیلوں میں ۹ہزار فلسطینی حراست میں ہیں‘ حتیٰ کہ حماس کی کابینہ کے ارکان اور پارلیمنٹ کے نومنتخب ارکان کی ایک بڑی تعداد تک اغوا اور حراست کا شکار ہے۔ اگر یہ سب اشتعال انگیزی نہیں تو کیا ہے؟ حالتِ جنگ میں کسی بھی جنگی آپریشن میں جنیوا کنونشن میں جنگی قیدیوں کی ایک پوری category ہے اور مشہور تیسری اور چوتھی کنونشنز کا تعلق ان ہی سے ہے۔ پھر اسرائیل کے ساتھ اس سے پہلے بھی فلسطین اور لبنان دونوں کے ساتھ جنگی قیدیوں اور زیرحراست افراد کے تبادلے کا عمل ہوچکا ہے۔ ان سب کی موجودگی میں محض تین سپاہیوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کو ارضِ فلسطین اور لبنان کو اس طرح تباہ و برباد کرکے اور سیکڑوں سول شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کو فضائی‘ زمینی اور بحری فوج کشی کے ذریعے قتل کرنے کے لیے وجہ جواز کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
لبنان کے ساتھ بھی ۲۰۰۰ء کے معاہدہ انخلا کے باوجود لبنان کے متعدد سرحدی علاقے اور کھیت اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور حزب اللہ کے متعدد رکن اور جنوبی لبنان کے شہری اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ حزب اللہ فلسطین کے زیرحراست افراد کو بھی اپنی عرب برادری کا حصہ قرار دیتی ہے۔ جنگی فضا کے ان حالات میں جہاں روزانہ اسرائیل کی طرف کوئی نہ کوئی کارروائی ہو رہی ہو‘ فلسطین کے کسی جہادی گروپ یا حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعین کارروائی کو اس طرح اور اس پیمانے پرفلسطین اور لبنان کو تباہ کرنے کے لیے بہانہ بنانا ایک صریح دھوکا اور مغالطہ دینے کی کوشش ہے اور اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام سعی ہے۔
بات صرف اتنی نہیں‘ اصل مسئلہ ارض فلسطین اور دوسری عرب اراضی پر اسرائیلی قبضہ ہے جو علاقے کی خودمختار ریاستوں (sovereign states) کا حصہ ہیں۔ مرکزی ایشو اسرائیلی قبضہ ہے اور جہاں قبضہ ہوگا وہاں مزاحمت (resistance) فطری ردعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کا چارٹر اور غیر جانب دار تحریک کا چارٹر سب محکوم قوم کے جدوجہد آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور اس نوعیت کی مسلح مزاحمت کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کرتے۔
اسرائیل اور امریکا کا سارا کھیل ہی یہ ہے کہ وہ قبضے کو اصل ایشو کے طور پر سامنے نہیں آنے دیتے اور مزاحمت کو مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم اسرائیل ہے اور جب تک ارضِ فلسطین پر اس کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا اور علاقے کے اصل باشندوں کو اپنی زمین پر حقِ حکمرانی حاصل نہیں ہوتا کش مکش‘تصادم اور خون خرابہ ختم نہیں ہوسکتا۔
اس مرکزی نکتے کی روشنی میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا استعماری قبضے کے سلسلے میں محکوم انسانوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور اس جدوجہد میں جس قربانی کی ضرورت ہو‘ وہ پیش کریں یا سامراجی اقتدار کے آگے سپرڈال دیں اور محکومی‘ غلامی اور استبداد کے سامنے سپردگی (surrender) کا راستہ اختیار کرلیں۔ ہر حق پرست انسان یہ گواہی دے گا اور تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ استبدادی اقتدار کچھ عرصے تو ضرور چل جاتا ہے لیکن بالآخر اس کے خلاف مزاحمت اُبھرتی ہے اور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ خود مغربی استعمار کی ۴۰۰ سالہ تاریخ اسی نشیب و فراز کی تاریخ ہے اور استعماری قوتوں کی بالآخر پسپائی کی تاریخ ہے۔ حال اور مستقبل کا نقشہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ ہر استعماری قوت نے اپنے کو ناقابلِ تسخیر سمجھا ہے اور اپنی سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت کے بل پر دوسروں کو محکوم رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بالآخر اسے اپنے سامراج کو پسپا ہونا پڑا ہے اور سامراج کی یہ پسپائی صرف مزاحمت کے راستے ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے‘ سپردگی کی حکمت عملی اختیار کرنے والے کبھی بھی آزادی اور عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔
فلسطین اور لبنان میں جو جدوجہد آج حماس اور حزب اللہ کر رہے ہیں‘ اسے تاریخ کے اس منظر ہی میں سمجھاجا سکتاہے اور اس پہلو سے حماس کی گذشتہ ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی جدوجہد اور خصوصیت سے جنوری کی انتخابی فتح کے بعد اس کی استقامت اور حکمت عملی اور حزب اللہ کی ۱۹۸۲ء سے اب تک کی جدوجہد اور خصوصیت سے ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی میں ان کاکردار اس بات پر شاہد ہے کہ اسرائیل کے غرور اور اس کی عسکری بالادستی کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ قوت کی مساوات کا نہیں‘ موقف کی حقانیت اور صداقت اور ظلم اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کے لیے عزم‘ ہمت‘ استقامت اور ناقابلِ تسخیر ارادے کا ہے۔ وسائل بلاشبہہ ضروری ہیں لیکن ارادہ ہو تو وسائل بھی حاصل کیے جاتے ہیں لیکن ارادہ ہی کمزور ہو یا موجود نہ ہو تو پھر دولت کے انبار اور اسلحے کی بھرمار بھی کسی کام نہیں آتے۔ جیساکہ شرق اوسط کی عرب حکومتوں کی بے بضاعتی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی فوجی قوت اور امریکا کی سیاسی‘ مالی‘ فنی اور اسلحے کی بے دریغ فراہمی کا عالم ہے اور دوسری طرف حماس کے مفلوک الحال اور حزب اللہ کے چند ہزار جاں بازوں کی وسائل سے محرومی۔ لیکن ۲۵جون اور ۱۲ جولائی کے واقعات اور ان کے جِلو میں ہونے والے سارے معرکے اور تباہ کاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کوئی ناقابلِ تسخیر قوت نہیں‘ بے یارومددگار مجاہد بھی اس کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں۔
الحمدللہ حزب اللہ نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ حیفہ پر میزائل داغ کر انھوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ لڑائی اسرائیل کے گھر تک لے جائی جا سکتی ہے اور امریکا کے دیے ہوئے پیٹریٹ (patriot) جو اعلیٰ ترین میزائل شکن (anti-missile) اسلحہ سمجھے جاتے ہیں‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر اسرائیل کے ان ہوائی اور بحری جنگی جہازوں کی تباہی جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس تھے اور جن پر امریکا اور اسرائیل دونوں کو فخر تھا اس بات کا ثبوت ہیں کہ دستی میزائل سے بھی ان اعلیٰ درجے کی جنگی مشینوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی لبنان میں تین دن سے زمینی جنگ جاری ہے مگر ۲۴گھنٹے میں علاقے کو فتح کرکے‘ تاراج کرکے‘ واپس آجانے کا دعویٰ کرنے والی فوج چند کلومیٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور اسرائیلی فوجی ہلاک اور ٹینک تباہ ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اسرائیل کی عسکری قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ یہ حماس اور حزب اللہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس نے مجبور اور محکوم عوام کو مقابلے کا نیا جذبہ دیا ہے۔ لبنان کو تباہ کردیا گیا لیکن لبنان سے عام مسلمان ہی نہیں‘ عیسائی بھی حزب اللہ کی مزاحمت پر فخر کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک عرب خاتون جس کا گھراسرائیل کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور جسے گولوں کی بارش اور آگ کے شعلوں کی یورش میں درد زہ میں ہسپتال لایا گیا‘ اس نے ایک نئی جان کی ولادت کے بعد عرب قوم اور ملت اسلامیہ ہی کو نہیں اسرائیل کو بھی بڑا مؤثر پیغام دیا جب اس نے اپنے نومولود لڑکے کا نام حاتف رکھا جو اس میزائل کا نام ہے جس سے حزب اللہ نے حیفا کو نشانہ بنایا تھا۔ جس قوم میں یہ جذبہ اور عزم ہو‘ اسے صرف برتر ٹکنالوجی کی قوت سے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی حماس کا پیغام ہے‘ اور یہی پیغام عراق‘ افغانستان‘ کشمیر‘ شیشان کی تحریکاتِ مزاحمت کا بھی ہے۔
اسرائیل اور امریکا کا اصل کھیل یہ تھا کہ اسرائیل تیزرفتار اقدام (sharp action) کے ذریعے لبنان کو اتنا تباہ کردے کہ اہلِ لبنان تنگ آکر حزب اللہ سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ حکومت کی تبدیلی اصل ہدف تھا۔ اس کے ساتھ یہ مقصد تھا کہ اس طرح اسرائیل کا شمالی محاذ خاموش کردیا جائے‘ جنوبی لبنان کو حزب اللہ سے پاک کرلیا جائے اور وہاں اقوام متحدہ کے مبصرین کو لاکھڑا کیا جائے اور پھر اسرائیل غزہ اور غرب اُردن کا جو تیاپانچا کرنا چاہتا ہے‘ وہ کسی بڑی مزاحمت کے خطرے کے بغیر کرڈالے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ امریکا نے اسرائیل کو ایک سے دو ہفتے دیے تھے کہ جتنی تباہی چاہتے ہو مچا ڈالو‘ پھر ہم سفارتی عمل کے ذریعے تمھاری عسکری فتوحات کو مستقل سیاسی نقشہ کا حصہ بنا دیں گے لیکن ان شاء اللہ یہ مقاصد خاک میں مل کر رہیں گے۔
اب اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ عرب اور مسلم دنیا کے عوام اُٹھ رہے ہیں اور خود اپنے حکمرانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔ ترکی میں‘ استنبول میں لاکھوں افراد کا احتجاجی جلوس نکلا ہے اور ایک ہزار ایک سو ۳۴ کلومیٹر کا جلوس ایک امریکی فوجی چھائونی سے لے کر استنبول تک زنجیر (chain rally) کی شکل میں ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ء کو ہواہے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قاہرہ میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ایک قائد حسن نصراللہ ہے جس نے ۱۹۹۳ء میں اپنے بیٹے کی اسرائیل کے خلاف جہاد میں شہادت کا تمغا سینے پر آویزاں کیا ہے اور آج بھی اسرائیل کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک حکمران مصر کا ہے جواپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کی قاہرہ کی رپورٹ On the Streets, Prayer for Hezbullah)
اسرائیل کے مشہور اخبار Haaretz نے اپنے اداریے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس طرح خون خرابا کر کے ہم کب تک اس علاقے میں رہ سکتے ہیں۔ آخر تو ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرکے طویل عرصے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ قیدیوں کے تبادلے کے مطالبے کو حقارت سے رد کرکے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم مخالف قوت کو نیست و نابود کردیں گے۔ اس کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے اور یروشلم سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے نمایندہ Steven Eslanger نے The Use of Force: Ruthless or Requiredکے عنوان سے اپنی رپورٹ کا خاتمہ اس جملے پر کیا ہے کہ:
Wars end with diplomacy, You can't win a war with F-16's alone. (July 19, 2006)
جنگوں کا اختتام سفارت کاری پر ہوتا ہے۔ آپ محض ایف-۱۶ سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔
ابھی اس جنگ کو اپنی موجودہ شکل میں ۹ دن ہی ہوئے ہیں اور اسرائیل کے ۳۰ افراد ہلاک اور ۱۵۰ زخمی ہوگئے ہیں۔ اگر عزم و ایمان ہو تو نامساوی قوت سے بھی بڑے بڑے معرکے سرکیے جاسکتے ہیں۔
اس معرکے کا ایک اور بڑا اہم اور غورطلب پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب امریکا کی ساری عالمی سیاسی حکمت عملی اسلام کے خلاف جنگ میں سنی اور شیعہ فرقوں کو باہم دست و گریبان کرنا‘ تقسیم در تقسیم کرنا‘ ان کے درمیان سول وار کی کیفیت پیدا کرنا اور عالمِ اسلام میں شیعہ سنی محاذآرائی کو فروغ دے کر مبنی بر مسلک ریاستوں کو جنم دینا ہے‘ حماس کی سنی قوت اور حزب اللہ کی شیعہ جماعت القدس کی عصمت کی حفاظت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ اور مشترک دشمن پر ضرب کاری لگانے میں تعاون کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہی نمونہ ہے جو متحدہ مجلس عمل اور اس سے پہلے ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں پاکستان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطین اور لبنان میں حماس اور حزب اللہ کا تعاون اور کامیابی ملت اسلامیہ کے اتحاد کا پیش خیمہ اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ذریعہ بن کر ایک نئے دور کے آغاز کے امکان کو روشن کرسکتا ہے۔
ایک اور پیغام اس معرکے کا یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں ہراعتبار سے اُمت کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہیں اور اُمت مسلمہ کے سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی احیا کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مسئلہ ان کی بے بسی کا نہیں‘ بے حسی کا اور اللہ اور اُمت دونوں سے وفاداری کے رشتے کو منقطع کرلینے کا ہے۔ اگر یہ قیادتیں اب بھی اپنے کو نہیں بدل سکتیں تو پھر ان کو بدلنے کے سوا زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اُمت کے سواداعظم کو اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے خود اپنے گھر کی اصلاح اور قیادت اور قوم کے درمیان بُعد بلکہ تضاد پیدا ہوگیا ہے‘ اسے جلد از جلد دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری صلاحیتیں قوم اور قیادت میں تصادم میں ضائع ہو رہی ہیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی اُمنگوں کی ترجمان ہو۔ عام مسلمان کے دل میں اب بھی ملّی جذبات موج زن ہیں‘ لیکن قوم کے دل اور قیادتوں کے دل ایک ساتھ حرکت نہیں کر رہے۔ اب ایک ایسی قیادت ہی حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو قوم کے دل کی ترجمان ہو اور اس رکاوٹ کو دُور کیے بغیر قومی اور عالمی سطح پر مسلم اُمت اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی۔ فلسطین اور لبنان آج آگ کے شعلوں کی گرفت میں ہیں لیکن یہ آگ گلزار بن سکتی ہے اگر اسوۂ ابراہیمی ؑکو اختیار کیا جائے۔ القدس آج پوری اُمت مسلمہ کو اس جدوجہد کی طرف دعوت دے رہا ہے۔
وہ آزادی جو اس خطے کے مسلمانوں نے اللہ سے یہ عہد کر کے حاصل کی تھی کہ ہم اس سرزمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں گے‘ اسے آج ۵۹ برس ہو رہے ہیں۔ اگر یہ عہد پورا کیا جاتا تو آج یہاں کے عوام سکون اور چین کی زندگی گزارتے اور ایک باعزت اورباوقار قوم ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سے اسی عہدشکنی کا انجام ہے کہ آج ملک بھر میں سکون میسر نہیں ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ جرائم کی خبروں سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے عذاب نے ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ اگست میں ہم قوم کو حدود قوانین کے خاتمے کی خوش خبری دیں گے (اور پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟)۔
حدود قوانین ۱۹۷۹ء میں نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگر انتظامی مشینری نے اسے نیک نیتی سے نافذ کیا ہوتا اور حکومت کی دوسری تمام پالیسیوں میں اس کے تقاضوں کا لحاظ رکھا جاتا تو آج اس کی برکات ہم بچشم سر دیکھتے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس کے نفاذ میں ایک طرف بدعنوان پولیس نے اور معاشرے کے بدکردار عناصر نے اپنا کھیل کھیلا اور دوسری طرف ملک کے ان سیکولر عناصر نے جو روزِ اوّل سے اس کے نفاذ سے خوش نہ تھے‘ اس کے خلاف مستقل مہم جاری رکھی۔ بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی غلام حکمرانوں پر بھی یہ بہت گراں تھا کہ ہم اپنے ملک میں شریعت کے مطابق قوانین بنائیں اور انھیں نافذ کریں۔ چنانچہ اسی تذبذب کے نتیجے میں حدود قوانین کے ثمرات نہ ملے اور وہ الٹا موضوع بحث بنا دیے گئے۔
یہ بھی عجب منطق ہے کہ کسی قانون سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہ ہو تو اسے سرے سے منسوخ کرنے کا اقدام کیا جائے۔ اگر اس منطق کو دانش مندی کہا جائے تو پھر مطالبہ کرنا چاہیے‘ چونکہ عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں‘ اس لیے پورے عدالتی نظام کوختم کیا جائے‘ تعلیمی ادارے مطلوبہ معیار پر تعلیم فراہم نہیں کر رہے‘ اس لیے انھیں لپیٹ دیا جائے‘ یا چونکہ حکومت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ میں ناکام ہے‘ اس لیے حکومت کا ادارہ ہی توڑ دیا جائے۔
حدود قوانین کسی کا ذاتی قانون نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قرآن و سنت سے ثابت شدہ حدود کو نافذ کرنے کے لیے اختیار کردہ قانون ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے اس کے بارے میں نہ صرف پاکستان‘ بلکہ دوسرے مسلم ممالک کے علما و فقہا سے اور ماہرین قانون سے مشورے کیے گئے۔ حدود قوانین پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں خواتین سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ اس کے جائزے کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا اور اس میں سے اکثر افراد نے اس کی منسوخی کی سفارش کی ہے‘ اس کے اعتراض مضحکہ خیز ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۵ (۱) (ا) میں جہاں زنا کے جرم کا ذکر کیا گیا ہے وہاں مرد کے ساتھ بالغ کا لفظ لکھا گیا ہے‘ عورت کے ساتھ نہیں۔ کمیشن کا موقف ہے کہ یہ امتیازی سلوک ہے‘ حالانکہ عورت کے ساتھ بالغ کا ذکر کیا جائے تو نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کا مداوا کیسے ہو۔ ایک اور اعتراض یہ کیا گیا کہ قذف کے سلسلے میں مقدمہ دائر کرنے کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ چنانچہ کمیشن کا اعتراض یہ ہے: ’’اس دفعہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس قانون کے بنانے والوں نے عورت کو نظرانداز کیا ہے۔ اس دفعہ سے مونث کے صیغے her کو نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف مرد ہی ہے جو اپنے خلاف جھوٹی تہمت کی سزا دلوانے کے لیے درخواست دائر کرسکتا ہے‘‘۔ اس اعتراض کو ایک لطیفے کے علاوہ کیا کہاجا سکتا ہے۔ یہ قانون کا اصول ہے کہ صیغہ مذکر میں صیغہ مونث شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا دفعہ کے مفہوم میں مرد و عورت دونوں داخل ہیں اوردونوں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ ایک مبتدی وکیل بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۸ میں یہ صراحت موجود ہے کہ مذکر کے صیغے اور اس کے تمام مشتقات ہرشخص کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ خواہ وہ مذکر ہوں یا مونث‘ اور اس قانون کی دفعہ ۲(بی) کی رو سے اس پر تعزیرات پاکستان کی تمام تعریفات کا اطلاق ہوتا ہے۔
اسی طرح پروپیگنڈے کے ذریعے مشہور کردیا گیا ہے کہ جیلوں میں مقید ۸۰ سے ۹۰ فی صد خواتین حدود قوانین میں گرفتار ہیں‘ جب کہ مصدقہ جائزوں کے مطابق یہ تعداد ۳۰‘ ۳۲ فی صد سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ ان خواتین کے تحت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سزائیں
مل رہی ہیں۔ جسٹس محمد تقی عثمانی نے‘ جنھوں نے خود اس طرح کے مقدمات کی ۱۷‘ ۱۸ سال سماعت کی ہے‘ مصدقہ طور پر بتایا کہ زیرجائزہ پانچ برسوں میں نیچے کی عدالتوں میں ۱۴۵ مردوں کو سزا ہوئی اور ۱۴۴ عورتوں کولیکن جب ان کی اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں پہنچیں تو ۱۴۵ مردوں میں سے صرف ۷۱ مردوں کی سزا بحال رہی‘ اور عورتوں میں سے صرف ۳۰ خواتین کی پانچ سال میں صرف ۳۰خواتین کی سزا پر کہا جا رہا ہے کہ اس دفعہ کے تحت جیلیں عورتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
مسئلہ حدود قوانین کے حدود اللہ کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا نہیں‘ صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کے وہ عناصر جنھیں ملک میں اختیار و اقتدارحاصل ہے‘ اسلامی تہذیب اور اقدار کے بارے میں شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں‘ اور مغربی اقدار کے بارے میں مرعوبانہ نقطۂ نظرکے حامل ہیں۔ وہ اس ملک کو ایک اسلامی معاشرے کے بجاے ایک مغربی انداز کا سیکولر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ اس ملک کا اجتماعی ضمیر اور یہاں کے عوام یہ نہیں چاہتے‘ اس لیے مستقل کش مکش جاری ہے۔
بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں سے ہمارا ملک بیرونی ملکوں کی توجہات کا مرکز بن گیا ہے اور وہ یہاں سے اسلامی اثرات کو کھرچ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔ موجودہ صاحبِ اقتدار گروہ کے مکمل تعاون سے وہ ایک ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہیں کہ یہاں کی تہذیب و معاشرت سے اسلامی اثرات مٹ جائیں اور آیندہ آنے والی نسلیں مغربی اقدار کی حامل ہوں۔
حدود قوانین کو منسوخ کرنے کا ایجنڈا کوئی علیحدہ مسئلہ نہیں‘ مغرب کی سیاسی اور تہذیبی یلغار کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے حکمران ملّی اور قومی مفادات کو نظرانداز کر کے ہر بات مانتے اور نافذ کرتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے یہ ایک آزمایش کا مرحلہ ہے۔ حدود قوانین کی منسوخی کے لیے کیا جانے والا ہراقدام‘ محض قوانین کے رد و بدل کا عمل نہیں ہوگا بلکہ دراصل یہ قدم علامتی سطح پر بڑے دُور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ اس ملک کے عوام کو‘ ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کو‘ خصوصاً دین کا درد رکھنے والے ہرمرد اور عورت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی منسوخی یا تبدیلی کے نام پر منسوخی کی جانب پیش قدمی ایک علیحدہ اقدام نہیں رہے گا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی ہماری معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنے کا عمل بھی مزید زور شور سے آگے بڑھایا جائے گا۔ اس لیے ملک کی تمام خیرخواہ قوتوں کو یک جا ہونا چاہیے۔ ہر ممبر اسمبلی پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس کی منسوخی کے حق میں ووٹ دے کر وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہے گا اور اللہ کو ناراض کرے گا۔ قوم کو چاہیے کہ آزمایش کے اس مرحلے پر‘ ماضی کی طرح ایک بار پھر سچے ایمان اور تحریکِ پاکستان کے سے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کے ہاں سرخ رو ٹھیرے اور حدود قوانین کی منسوخی کی جسارت کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دے۔
بیسویں صدی عیسوی کے دوران‘ بھارت اور پاکستان میں اُردو زبان میں قرآن کی تفہیم و ترجمانی اورتفسیر میں غالباً دیگر مسلمان ممالک کی زبانوں کے مقابلے میں بہت ہی نمایاں کام ہوا ہے۔ اس کام کا تفصیلی جائزہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ یہاں صرف نمایاں اور مؤثر کوششوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
تمام تفاسیر کا تعارف بہت طوالت کا باعث ہے۔ مکمل تفاسیر میں مولوی وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی (م: ۱۹۲۰ئ)کی تفسیر وحیدی (سلفی مسلک) کی عکاس ہے۔ مولوی حافظ سید احمد حسن کی تفسیر احسن التفاسیر (اشاعت اول ۱۹۱۵ئ) میں حدیثی پہلو غالب ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی عام فہم تفسیر تفسیر حسن کا پہلا اڈیشن ۱۹۲۴ء میں عمل آیا۔ یہ مختصر اورآسان تفسیر ہے۔ قاری محمدعلی کی خلاصۂ تفسیر (اشاعت اول ۱۹۲۹ئ) شیعہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن ‘ تفسیر انوار القرآن ‘ تفسیر مفتاح القرآن بالترتیب مولانا محمد کرم شاہ ازہری ‘ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اورمولانا شبیر احمد میرٹھی کی تفاسیر ہیں۔ ان تفاسیر نے فہم قرآن کے لیے قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔
بیسویں صدی میں فہم قرآن کا ہر اجتماعی اور انفرادی کام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اورمسلمانوں کو دین سے جوڑے رکھنے اور حتی المقدورروحِ قرآنی اور تعلیماتِ اسلامی کا پھیلائو رہاہے۔ اسلام کو بحیثیت مذہب پیش کرنے کی عمومی کوششیں بہت رہی ہیں جو نہایت قابلِ قدر ہیں مگربحیثیت نظامِ حیات اورقرآن کو بحیثیت دستور حیات پیش کرنے میں نمایاں خدمات بیسویں صدی میں دو جماعتوں نے انجام دی ہیں: جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون۔ جو کام مولانا سید ابولاعلیٰ موددی کی تفہیم القرآن نے اُردو داں طبقے میں انجام دیاہے‘ وہی کام محمدقطب شہید کی فی ظلال القرآن نے عرب ممالک میں انجام دیاہے۔
فہم قرآن کی تحریکات کو جوکم و بیش مکمل تفاسیر کے روپ میں ۲۶ تفسیریں اور جزوی تفاسیر ۴۰ اورتفسیر ی حواشی کے روپ میں مکمل قرآن پر پانچ معروف ومشہور کام ہوئے ہیں۔ اس طرح بیسویں صدی عیسوی میں کم و بیش قرآن کے ۷۵ تفہیمی تفسیری کام فقط اُردو میں ہوئے ہیں۔ ان میں متعدد کا م قرآن کی تفہیمی خدمت کے لیے شروع ہوئے مگر مفسر ومترجم کے مخصوص مکتبہ فکر کی بدولت مسلکی روپ اختیار کرگئے۔
دیوبندی مکتبۂ فکر
بریلوی مکتبۂ فکر
اہلِ حدیث مکتبۂ فکر
منکرین حدیث مکتبۂ فکر
فراہی مکتبۂ فکر۔
دیـوبندی مکـتبہ فکر: ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانانِ ہند کی ناکامی کے بعد مولانا محمدقاسم نانوتوی (م: ۱۸۸۰ئ) نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی‘ تاکہ کم از کم دینی محاذ پر دفاعی کام کیاجائے ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے سفراورحضر میں مولانا محمود حسن کو بھرپور تربیت سے سرفراز کیا‘ جو نہایت پاک باز‘ مصلحانہ صفات کی حامل ہجرت اورجہاد کے جذبے سے لبریز نہایت محرک شخصیت کے حامل تھے ۔برطانوی دور حکومت میں مسلمانوں کی ہر اجتماعی سعی وجہد پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔جیسے آج کل فلسطینی مسلمان اسرائیل حکومت کے تحت عالمی سازشوں کا شکار ہیں۔
۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمی جنگ چھڑی تومولانا محمود حسن کو انگریزوں نے جنوری ۱۹۱۷ء میں مکہ مکرمہ میں گرفتار کرلیا‘ جہاں سے انھیں جزیرہ مالٹا بھیج دیا گیا۔ بعدازاں تین سال سات ماہ بعد ممبئی پہنچا کر رہا کیا گیا۔ تحریک فہم قرآن سے ان کی نسبت کا اندازہ آخری زمانے میں ان کی ایک تقریر سے کیا جاسکتاہے: ’’میں جیل کی تنہائیوں میں مسلمانوں کی دینی اوردنیوی تباہی کے اسباب پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کے دو سبب ہیں: ۱-مسلمانوں کا قرآن کو چھوڑ دینا ۲-ان کے آپسی اختلافات۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی قرآن کو لفظاً اورمعناً عام کروں‘ بچوں کے لیے تعلیم کے مکاتب ہر ہر بستی میں قائم کرواؤں ۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کے ذریعے قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کروں۔ علما کے باہمی اختلاف کو سلجھاوں اور اتحاد کی سعی کروں۔ علمی اختلاف کو آپسی جدال اورتعصب میں تبدیل کرنے میں انگریز بہادر کی چالوں اورمکاریوں کا پردہ فاش کروں‘‘۔
مولانا محمود حسن کی غیر مکمل تفسیر کو ان کے شاگردِ رشید شبیراحمد عثمانی نے مکمل کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی بیان القرآن اور مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمایندہ تفاسیر ہیں۔ خود تبلیغی جماعت فی الحقیقت دیوبندی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتی ہے۔
بریلوی مکتبۂ فکر: مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م: ۱۹۲۱ئ) نے فہم قرآن کی تحریک ہی سے کام کا آغاز کیا۔ کنزالایمان فی ترجمہ القرآن آپ کی سعی کا نتیجہ ہے۔ تفسیری مباحث میں مقام محمدؐ اورمحبت رسول کو مرکزی مقام دیاگیا ہے۔ مولانا محمدنعیم الدین مرادآبادی نے اس کام کو آگے بڑھایا اورتفسیری حواشی کی خدمت انجام دی۔ مولانا ابوالحسنات سید احمد قادری کی تفسیر الحسنات بآیات بینات دو جلدوں میں شائع (۱۳۷۶ھ) ہوئی۔
شیعہ مکتبۂ فکر :گذشتہ صدی کے دوران جن شیعہ علماے کرام نے اُردو ترجمۂ قرآن کیا ان میں جناب علی نقی نقوی‘ سید فرمان علی‘ شیخ محسن علی نجفی‘ مولانا امداد حسین اور مولانا مقبول حسین کے نام معروف ہیں‘ جب کہ علامہ طالب جوہری نے ترجمہ و تفسیر کی۔
اھل حدیث مکتبۂ فکر: مولانا وحیدالزماں حیدر آباد (م:۱۹۲۰ئ) کی تفسیر وحیدی مسلکِ اہل حدیث کی ترجمان ہے۔ تفسیری مباحث میںتوحید کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اسی سلسلے کی دوسری تفسیر مولانا ثناء اللہ امرت سری(۱۸۶۸ئ-۱۹۴۸ئ) کی تفسیر ثنائی ہے۔ مولانا ثناء اللہ کاآبائی وطن کشمیر تھا۔ میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ کی تحصیل کی۔ بہت جید ماہر مناظرہ عالم دین تھے۔ آریہ سماجیوں ‘ قادیانیوںسے معرکہ آرا رہے۔ دین اسلام اور ختم نبوت کی حقانیت ثابت کرتے رہے۔ تفسیر ثنائی میں اکثر بحثیں دراصل تفسیرکے نام پر سرسید احمد خاں کی تفسیر اور گمراہ کن فکر کے توڑ اورجواب میں ہیں۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے احباب کی مشترکہ کوشش سے ایک عام فہم ترجمہ مختصر و مفید تشریح اور تفسیر احسن البیان کے نام سے اُردو میں مرتب ہوئی جس میں ترجمہ مولانا محمد جوناگڑھی کے قلم سے ہے‘ جب کہ تفسیر میں حواشی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ کام فہم قرآن کی تحریک میں بہت زیادہ مفید اور مؤثر ہے۔
فراھی مکتبۂ فکر : تحریک فہم قرآن میں مولانا حمید الدین فراہی کا محققانہ کارنامہ ان کی عمر کے بیش تر حصے کا نچوڑ ہے۔ یہ کام عربی زبان میں ہے‘ جب کہ اردو میں ترجمہ اورتشریح کا کام شاگردوں میں بالخصوص امین احسن اصلاحی اور دائرہ حمیدیہ اورمدرسۃ الاصلاح کے محقق طلبہ واساتذہ نے انجام دیاہے۔
بیسویں صدی کے منکرین حدیث کا طبقہ بہت بڑی گمراہی کا باعث بنا۔ غلام احمدپر ویز نے نظام ربوبیت کے نام سے ایک فتنہ کھڑا کیا۔ مولانا مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت میںاسلم جیراج پوری اوران کی پوری جمعیت کی اصلیت کی مکمل ومدلل وضاحت موجود ہے جس میں انھوں نے حدیث کے مقام ومرتبہ اوراساسِ دین کی تعمیر میں حدیث کے مرکزی رول کو نہایت مہارت سے ثابت کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں اشتراکیت‘ سرمایہ دارانہ نظام اور استعماریت پر مناسب مقامات پر بھرپور تنقید کی گئی ہے اورقرآن کی تعلیمات کی آفاقیت وفوقیت کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے دوسری طرف غلام احمد قادیانی کے فتنے کی بھرپور اورمدلل ضلالت کو ثابت کیاہے۔
مولانا مودودی تمام علوم کو علوم القرآن میں رنگ دینا چاہتے تھے‘ چاہے وہ اقتصادی علوم ہوں کہ سائنسی علوم‘ جغرافیائی علوم ہوں کہ تاریخی علوم ‘ نفسیاتی علوم ہوں کہ طبی علوم‘ فلکیاتی علوم ہوں کہ طبقات الارضی علوم‘ معاشرتی علوم ہوں کہ سیاسی علوم‘ تعمیراتی علوم ہوں کہ تعلیماتی علوم‘ اخلاقی علوم ہوں کہ قانونی علوم‘انفرادی ‘ اجتماعی ‘ ملکی اور بین الاقوامی تمام معاملات اورمسائل کے حل کے لیے علوم القرآن سے رجوع ہونے کی پرزور اورمدلل دعوت دیتے ہیں۔ اس طرح تفہیم القرآن بیسویں صدی عیسوی میں تحریک فہم قرآن کی سرخیل ہے۔
تحقیقی مطالعہ قرآن کے جذبے سے علما حضرات وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے اگر اس تفسیر کو اپنے مدارس میں بطور درسی کتاب شامل کریں تو فہم قرآن کے میدان میں یہ ایک عظیم خدمت ہوگی اور دنیا میں قرآنی انقلاب برپا ہونے کی نئی راہیں پیدا ہوںگی۔ ان شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر‘ سنتیں جاری اور حدود متعین اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام اور دین کو قانون بنا دیا۔ اس کو آسان اور خوش گوار اور کشادہ بنادیا‘ اسے تنگ نہیں بنایا۔ سنو! جس آدمی میں امانت کاپاس نہیں‘ اس میں ایمان نہیں۔ جس میں وفاے عہد کی صفت نہیں‘ اس کا کوئی دین نہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ذمے کو توڑا اس شخص کو نقصان پہنچایا جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھایا تھا‘ اللہ تعالیٰ اسے پکڑے گا‘ اور جو میرے ذمے کو توڑے گا میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گا اور جس کے خلاف میں مقدمہ دائر کروں گا میں اس مقدمے کو جیت لوںگا۔ وہ میری شفاعت سے محروم ہوگا اور میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں آسکے گا۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے تین آدمیوں (۱) ایمان کے بعد مرتد ہونے والے (توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بھی اس میں شامل ہیں)‘ (۲) اسلام اور شادی شدہ ہونے کی حالت میں زنا کرنے والا‘ (۳) معصوم انسان کے قصداً و عمداً قاتل کے سوا‘ کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سنو! میں نے بات پوری طرح پہنچا دی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۱۷۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں رہتی دنیا تک اُمتِ مسلمہ کے لیے جامع رہنمائی دی ہے۔ ہر زمانے کے مسائل کا حل دے دیا ہے۔ دین اسلام کے مختلف اجزا کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ فرما دیا۔ فرائض میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ جاری کردہ سنتوں کوجاری رکھا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھا جائے گا۔ دین محض چند مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نظامِ قانون بھی ہے۔ اس کے مطابق گھریلو‘ شہری‘ معاشرتی‘ معاشی‘ عدالتی اور حکومتی زندگی گزارنا ہوگی۔ امانت اور ذمہ داریوں‘ وفاے عہد‘ ذمیوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور اس کی اہمیت کو کماحقہ اُجاگر فرما دیا‘ اور ذمیوں کے ساتھ بدسلوکی سے یہ کہہ کر ڈراوا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑیں گے اور سزا دیں گے‘ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو توڑا گیا تو آپؐ خود مقدمہ لڑیں گے۔
آج ہمارے معاشرے میں قتل کی وارداتیں عام ہیں‘ جب کہ مسلمان کے لیے مسلمان کا خون ماسواے مذکورہ تین حالتوں کے حرام ہے۔ دینی تعلیمات کا احترام ہو تو گیا گزرا مسلمان بھی قتل سے بچے گا۔
حضرت عبید اللہ بن عمیر لیثیؓ اپنے والد عمیرلیثیؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے اولیا نمازی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ان پانچ نمازوں کو‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے‘ قائم کرتے ہیں۔ رمضان کے روزے رکھتے اور اسے ثواب سمجھتے ہیں۔ زکوٰۃخوش دلی سے ثواب سمجھ کر دیتے ہیں اور کبائر سے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے‘ اجتناب کرتے ہیں۔ صحابہؓ میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کبائر کتنے ہیں؟آپؐ نے فرمایا: نو ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ (پھر فرمایا) مومن کا ناحق قتل‘ میدانِ جنگ سے بھاگ جانا ‘بے گناہ پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا‘ جادو کرنا‘ یتیم کا مال کھانا‘ سود کھانا‘ مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا‘ مسلمانوں کے قبلہ بیت اللہ شریف‘ جو تمھاری زندگی اور موت دونوں حالتوں میں قبلہ ہے‘ کی حرمت کو پامال کرنا۔ اور جو آدمی اس حالت میں مرگیا کہ ان کبائر کا ارتکاب نہ کیا ہو اور نماز قائم کی ہو اور زکوٰۃ دی‘ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے جنت کے وسط میں سرفراز ہوگا۔ اس کے دروازوں کے کواڑ سونے کے ہوں گے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۴۸)
اللہ تعالیٰ کی ولایت اور جنت میں نبی کریمؐ کی رفاقت کا بہترین اور آسان نسخہ‘ فرائض کی ادایگی اور محرمات سے اجتناب ہے۔ نماز‘ زکوٰۃ اور روزہ پورے دین کا عنوان ہیں۔ اس میں امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور جہادو قتال فی سبیل اللہ شامل ہیں۔ ’ولایتِ الٰہی‘ مخصوص لباس‘ اور مخصوص رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے کا نام ہے۔ ولایتِ الٰہی کے چند نمایاں اعمال وہ ہیں جن کا اس حدیث شریف میں ذکر ہے۔ ان اعمال سے عاری آدمی اگر ولایت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ شیطان کا پجاری اور دھوکے باز ہے۔ آج کے دور میں افراد اور معاشرے کو اس حدیث کی روشنی میں جانچ پرکھ کر کے فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ کون سا شخص اور کون سا معاشرہ ولایتِ الٰہی کا معاشرہ ہے۔ وہ معاشرہ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کی جارہی ہو‘ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کرنے والے لوگ محبوب اور اُونچے ہوں‘ وہ معاشرہ ولایتِ الٰہی کے بجاے اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: مومن کا تحفہ موت ہے۔ (مجمع الزوائد‘ بحوالہ طبرانی‘ص ۳۲۰ )
مومن اس دنیا میں تکلیفوں‘ آزمایشوں اور قرآن وسنت کے مقرر کردہ دائرے میں مقید ہوتا ہے۔ حیوانات اور کفار کی طرح آزادانہ چرتا چگتا اور عیاشیوں کی لذتوں کا اسیر نہیں ہوتا۔ موت اس کے لیے قیدخانے سے آزادی اور جنت کی وسعتوں‘ خوشیوں‘ راحتوں اور حقیقی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے مومن کے لیے اس سے بڑا تحفہ کوئی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مومن موت کو سینے سے لگاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ موت سے ڈرتا نہیں بلکہ اس کا استقبال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کو وفات کے بعد جلد غسل دے کر کفن پہنایا جاتا ہے اور جلدی نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے لحد میں اُتارا جاتا ہے۔ صحیح بخاریمیں ہے: ’’جب مومن کی میت کو جنازے کے بعد قبر کی طرف لے جایا جاتا ہے تو میت پکار پکار کر کہتی ہے: قَدِّمُوْنِیْ قَدِّمُوْنِیْ ،مجھے آگے لے جائو‘ مجھے آگے لے جائو۔ اور کافر پکار پکار کر کہتا ہے: ہاہا! مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تب موت مومن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی اُمت پر رحمت فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نبی کی جان‘ اُمت کی موجودگی میں قبض کرلیتے ہیں اور نبی کو اُمت کے لیے پیش رو اور منتظم کے طور پر آگے بھیجتے ہیں۔ اور جب کسی اُمت کو‘ جس نے نبی کی تکذیب اوراس کے حکم کی نافرمانی کی ہو‘ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اسے نبی کی زندگی میں عذاب دیتے ہیں کہ نبی ان کی ہلاکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلے۔ (مسلم، کتاب الایمان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ آپؐ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو اُمت سے پہلے اس دنیا سے اٹھا لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ہلاکت سے محفوظ ہوگئی ہے۔ دنیا کے انسان جو آپؐ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں۔ ایمان والے اُمت اجابت کہلاتے ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ اُمت دعوت کہلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت سب پر رحمت ہوگئی ہے۔ ساری دنیا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرنی چاہیے۔ آج پانچوں براعظموں میں کفارو مشرکین‘ یہود و ہنود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپؐ کی نافرمانی کرنے والے‘ دنیا میں تباہ کن عذاب سے اس طرح تباہ نہیں ہوئے جس طرح قومِ نوح، قومِ عاد، قوم ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون تباہ ہوگئے بلکہ آپؐ کی بدولت محفوظ ہیں۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان اور آپؐ کی بدولت رب العالمین کے اس احسان سے دنیا کو روشناس کرکے انھیں شکرگزاری پر آمادہ کریں۔ وہ شکرگزاری یہ ہے کہ لوگ آپؐ اور آپؐ کے دیے ہوئے اسلام کے نظامِ حیات پرایمان لے آئیں۔
جو اِس حال میں صبح کرے کہ دنیا اس کا مقصدِ حیات ہو‘ اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘ اور جو شخص بلاجبرواکراہ خوشی سے ذلت کو قبول کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (طبرانی)
جس کا اللہ سے تعلق ہو‘ اس کی نظر اللہ کی رضا اور جنت پر ہوتی ہے۔ دنیا اس کا مقصدِ حیات نہیں‘ رضاے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جو مسلمان ہوتا ہے وہ معزز ہوتا ہے‘ کبھی خوشی سے ذلت قبول نہیں کرتا۔ جبرواکراہ کی بات دوسری ہے۔ جس کا مقصدِحیات دنیا ہو وہ پھر خوشی سے ذلت بھی قبول کرلیتا ہے‘ نہ اس کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے‘ اور نہ وہ مسلمانوں میں سے ہوتا ہے۔
میزان یا ترازو سے ہم سب آشنا ہیں۔ ہر روز اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے مگر اسلام نے میزان کو ایک نیا مفہوم دیا ہے جو اس کے عقیدہ و ایمان اور تصورِ آخرت کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
میزان کا لفظ قرآن اور حدیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو ہلاکت سے دوچار کیا جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور اس میں ڈنڈی مارتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ المطفّفین کے نام سے نازل فرمائی (جس کے معنی ہیں: کمی کرنے والے) اور اس سورہ کا آغاز ان کمی کرنے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت کے بیان کے ساتھ کیا(۸۳:۱)۔ اسی وجہ سے لفظ میزان میں انصاف کرنے والوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ اُن کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور وہ آخرت میں آرام و راحت کے ساتھ ہوں گے اور ظالموں کے لیے یہ وعید ہے کہ وہ آخرت میں ہلاک اور تباہ و برباد ہوں گے۔
اس لفظ پر آدمی کو خوب غوروفکر کرنا چاہیے‘ اور اس پر غافلوں کی طرح خاموشی سے نہیں گزرنا چاہیے۔
وَاَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۹) انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔
جب ہم میزان پر غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ: اِنَّہٗ لَیَأتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ والسَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، لَا یَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ (بخاری)‘ قیامت کے دن ایک بڑا موٹا آدمی آئے گا لیکن اللہ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو: فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا (الکہف ۱۸:۱۰۵) ’’قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے‘‘۔
قیامت کے دن آدمی کے اعمال تولے جائیں گے۔ اس دن خوش قسمت وہ ہوگا جس کی میزان حسنات سے بھاری ہوجائے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا و آخرت کی میزان ایک جیسی ہوگی؟ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو مال و دولت‘ جاہ و جلال اور شان و شوکت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں لیکن آخرت کی میزان اس سے مختلف ہوگی۔ اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یوں فرمائی ہے کہ لوگ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی پتلی پتلی ٹانگیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، لَھُمَا اَثْقَلُ فِی الْمِیْزَانِ مِنْ جَبَل اُحُدٍ، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ یہ دونوں قیامت کے دن میزان میں اُحد کے پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی‘‘۔ گویا میزانِ اعمال کے بھی اسی طرح دو پلڑے ہوں گے جس طرح رائج الوقت ترازو کے ہوتے ہیں‘ جسے محسوس بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہ‘ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فِیْ جَھَنَّمَ خٰلِدِوُنْ o (المومنون ۲۳:۱۰۲-۱۰۳)اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں: علماے کرام کا کہنا ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب ختم ہوجائے گا تو اس کے بعد اعمال کا وزن ہوگا‘ کیونکہ وزن بدلہ دینے کے لیے ہوتا ہے‘ اس لیے مناسب یہی تھا کہ وزن حساب کتاب کے بعد ہو۔ حساب کتاب‘ اعمال کا کھرا کھوٹا جاننے کے لیے ہوتا ہے اور ناپنا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے مطابق بدلہ دیا جائے۔
جس کی میزان بھاری ہوجائے خواہ ایک ہی نیکی کے ساتھ کیوں نہ ہو تو وہ کامیاب و کامران ٹھیرا ‘اور جس کی میزان ہلکی نکلی تو وہ خائب و خاسر ہوا‘ خواہ اس کا صرف ایک گناہ زیادہ ہو‘ اور جن کے گناہ اور نیکیاں برابر برابر نکلیں وہ اعراف والے ہوں گے۔ وہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک پہاڑ پر قیام کریں گے اور پھر اللہ اُن کو اپنی رحمت سے نوازے گا۔
میزان اُن اعمال سے بھاری ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہوں۔ ان میں سب سے پہلا عمل لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے کوئی چیز بھی زیادہ بھاری نہیں ہے۔(ترمذی)
حمد: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم)
تسبیح: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے آسان‘ میزان میں بہت بھاری اور رحمن کو بہت زیادہ محبوب ہیں اور وہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ(بخاری)
بچے کی وفات پر صبر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت کا ایک آدمی دیکھا کہ اس کی میزان ہلکی ہوگئی تھی۔ پھراس کے وہ بچے آئے جو بچپن میں وفات پاگئے تھے‘ اس سے اس کی میزان بھاری ہوگئی۔(حافظ ہیثمی)
اچہے اخلاق: قیامت کے دن بندئہ مومن کی میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی۔(ترمذی)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان: ۳۱:۱۵) ’’اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔
بچوں میں عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور بچوں کے درمیان عدل قائم کرو۔ (بخاری ‘ مسلم)
بیویوں میں عدل: ارشاد نبویؐ ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے ایک کی طرف جھک گیا تو وہ روزِ قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوجھکا ہوا ہوگا۔ (ابوداؤد)
لوگوں کے درمیان عدل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۸۹) ’’اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔
دشمن سے انصاف: ارشاد ربانی ہے: وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا (المائدہ ۵:۸)’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو‘‘۔
وارثوں کے ساتھ عدل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بالشت برابر زمین میں کسی پر ظلم کیا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں لٹکا دے گا۔ (بخاری ، مسلم)
کمزوروں کے ساتھ عدل: فرمان نبویؐ ہے کہ اپنی اضافی قوت کے ساتھ کمزور کی مدد کرنا تیرے لیے صدقہ ہے۔(مسنداحمد)
یتیموں کے ساتھ انصاف: قرآن متنبہ کرتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا َیاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا o (النساء ۴:۱۰) ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔
خرید و فروخت میں انصاف: اللہ کا حکم ہے: فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَائَ ھُمْ (اعراف ۷:۸۵) ’’وزن اور پیمانے پورے کرو‘ لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو‘‘۔
وصیت میں عدل: نبی کریمؐ کے ایک فرمان کے مطابق کہ ایک مرد اور (بعض اوقات) ایک عورت ۶۰ سال تک اطاعتِ الٰہی پر عمل کرتے رہیں‘ پھر جب انھیں موت آجائے اوروہ وصیت میں کسی رشتہ دار کو نقصان پہنچائیں‘ تو ان کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے۔(ترمذی)
حیوانوں کے ساتھ عدل: ایک عورت اس وجہ سے آگ میں ڈال دی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا‘ وہ نہ تو اُسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اُسے آزاد ہی کرتی تھی کہ وہ زمین میں اپنا رزق تلاش کر کے کھاتی۔ (بخاری ، مسلم)
حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْا اَعْمَالَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُوْزَنُوْا ، وَتَھَیَّئُوْا لِلْعَرْضِ الْاَکْبَرِ، اپنا احتساب کرو‘ قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘ اپنے اعمال کا وزن کرو قبل اس کے کہ تمھارے اعمال کا وزن کیا جائے اور بڑی پیشی (یعنی قیامت کے دن) کے لیے تیاری کرو۔
(المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۵۵‘ ۱۱ جون ۲۰۰۵ئ)
پاکستان میں جماعت اسلامی کا پہلا اجتماعِ کارکنان ۱۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو سوہن لعل کالج لاہور (موجودہ مدرسۃ البنات) میں منعقد ہوا۔ حاضرین کی تعداد ۱۵۰ کے قریب تھی۔ اِس اجتماع میں تقسیمِ ملک کے وقت سفّاکانہ طرزِعمل اور انسانیت کی تذلیل و تحقیر کے شرم ناک اور افسوس ناک اقدامات پر شدید اضطراب کا اظہار کیا گیا اور طے ہوا کہ اس عظیم مصیبت میں جس میں ہم سب مبتلا ہیں‘ انسانی خدمت کو اوّلین اہمیت دی جائے۔ چنانچہ محترم امیرجماعت اور قیم جماعت نے اوّلین اہمیت کے کاموں میں مہاجر کیمپ میں کام‘ لاہور شہر کی صفائی اور اصلاحی و طبی خدمات کو شامل کیا۔
لاہور شہر میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی‘ لیکن اس آبادی کا ۸۰ فی صد حصہ مزدور پیشہ تھا۔ تمام تجارتی مراکز ہندوئوں کے ہاتھ میں تھے۔ اکبری منڈی‘ چوک رنگ محل‘ سوہا بازار‘ صرافہ بازار اور اندرون شاہ عالمی دروازہ جلا دیے گئے تھے یا مسمار ہوگئے تھے۔ اس لیے ان مقامات پر بہت زیادہ کام کرنا پڑا۔ باقی شہر میں اہم مقامات پر خدمات سرانجام دی گئیں۔
مہاجر کیمپوں میں جماعت اسلامی کی طرف سے یہ کام کن جذبات کے ساتھ کیا جا رہا تھا اور اپنی ساری تنظیمی طاقت کے ساتھ یہ کام کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی قیادت اوراس کے کارکنوں کے پیش نظر کیا تھا‘ اسے سمجھنے کے لیے آج بھی اس اپیل کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو محترم امیرجماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس موقع پر جاری کی۔
’’مشرقی پنجاب اور دہلی سے لاکھوں مسلمان اس وقت جس حالت میں پاکستان پہنچ رہے ہیں اور یہاں پہنچ کر جن مصائب سے دوچار ہو رہے ہیں ان کا نظارہ اس قدر دردناک ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی___ بشرطیکہ سنگ دل کے باوجود وہ انسان ہو___ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس سرزمین پر یہ لوگ صدیوں سے آباد تھے‘ وہاں سے ان کے ہمسایوں نے انھیں حکومت کی طاقت اور فوج اور پولیس کی کھلی امداد سے نکالا ہے اور اس طرح نکالا ہے کہ یہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ کچھ روپیہ پیسہ‘ زیور اور کپڑے لے کر چلے ان کی تلاشیاں لی گئیں اور ہر چیز سے انھیں محروم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ بعض قافلے اس حالت میں بھی پاکستان پہنچے کہ ان کے کسی مرد اور عورت کے جسم پر کپڑے نام کا ایک تار بھی نہ تھا۔ جن کیمپوں میں ان غریبوں نے پناہ لی وہاں یہ خوراک‘ پانی اور سایے سے محروم رکھے گئے اور ان کے زخمیوں اور بیماروں کو اکثر حالات میں کوئی طبی امداد میسر نہ ہوئی۔ پاکستان کی طرف ہجرت کے دوران میں صرف یہی نہیں کہ جگہ جگہ ان پر حملے کیے گئے بلکہ پوری کوشش کی گئی کہ راستہ بھر انھیں نہ پانی مل سکے اور نہ کھانا۔
ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قافلے اس حالت میں پاکستان پہنچ رہے ہیں کہ تکان سے چور‘ کئی کئی دن کے فاقوں سے نڈھال‘ پیاس سے بدحال اور زخموں اور بیماریوں سے جاں بلب ہیں۔ بہت سے بوڑھے‘ بچے اور مریض یہاں پہنچتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ بھوک پیاس اور تکان کی شدت سے جگہ جگہ گرے پڑے ہوتے ہیں اور انھیں اگر فوراً مدد نہیں پہنچتی تو ان کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ بکثرت بیمار اور زخمی کراہ رہے ہیں اور انھیں فوراً طبی امداد بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے شمار لاشیں راستوں پر اور میدانوں میں پڑی ہوتی ہیں جنھیں دفن کرنے کا اگر جلدی انتظام نہ کیا جائے تو انھیں کتے کھانے لگتے ہیں اور ان کے سڑنے سے بیماریوں کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ دردناک حالت پناہ گزینوں کے ان کیمپوں میں دیکھی جارہی ہے جو والٹن ٹریننگ اسکول اور ہوائی اڈے پر بنائے گئے ہیں۔ وہاں روزانہ بکثرت آدمی مر رہے ہیں اور ان کی لاشیں کئی کئی دن پڑی رہتی ہیں‘ صرف اس وجہ سے کہ اتنے مرنے والوں کو روز دفن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سیکڑوں‘ ہزاروں مریض طبی امداد کے محتاج ہیں اوران کے لیے نہ دوائیں کافی بہم پہنچ رہی ہیں اور نہ معالج۔ بکثرت بوڑھے اور بیمار لاوارث بچے ایسے ہیں جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے اور اس کے سخت حاجت مند ہیں کہ کوئی ان کی خبرگیری کرے اور ایسے لوگوں کی تعداد تو بہت ہی زیادہ ہے جن کے پاس کپڑے‘ بستر‘ برتن کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ ایک بہت ہی زیادہ مختصر روداد ہے ان لاکھوں مظلوموں کی جو انڈین یونین کے مختلف علاقوں سے پاکستان آرہے ہیں۔ انسانی مصائب کا ایسا دردناک منظر اتنے وسیع پیمانے پر شاید تاتاری وحشت کے طوفان کے بعدکبھی نہ دیکھا گیا ہوگا۔ میں اس وقت اس سوال سے بحث نہیں کرنا چاہتا کہ اس مصیبت کے اسباب کیا ہیں۔ میں پاکستان کے لوگوں سے صرف یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ان بھائیوں پر رحم کھائیں اور اجتماعی طور پر ان کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ یہ لوگ انسان ہیں اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ آپ ان کی مدد کریں۔ یہ اس لیے بھی آپ کی امداد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے پاکستان کا مطالبہ خود آپ سے پہلے اور آپ سے بڑھ کر زور شور سے کیا تھا۔ انھی کی مدد سے آپ اپنی الگ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور یہ اسی جرم کی سزاہے‘ جو وہ آج ان ہولناک مصائب کی صورت میںبھگت رہے ہیں۔
مغربی پنجاب کی حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت اس عظیم الشان آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ بالکل ناکافی ہے۔ شاید کوئی بڑی سے بڑی منظم حکومت بھی محض سرکاری ذرائع سے ان آفات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی جو اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہوئے ہیں۔ یہ دراصل ایک قومی مصیبت ہے اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جب تک پوری قوم بحیثیت مجموعی اپنے تمام ذرائع سے اس کاسامنا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوجائے۔ اس لیے میں پاکستان کے لوگوں سے عام اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی مدد کے لیے اجتماعی کوشش پر آمادہ ہوں۔
اس وقت ہزاروں ایسے رضاکار خادموں کی ضرورت ہے جو اپنا پورا یا تھوڑا وقت اس کام کے لیے وقف کریں۔ ایسے ڈاکٹروں اور حکیموں کی ضرورت ہے جو کیمپوں میں رہ کر یا جاکر زخمیوں اور بیماروں کا علاج کریں۔ دوائوں‘ کپڑوں اور بستروں کی ضرورت ہے جن سے ان لوگوں کو موت‘ بیماری اور تکالیف کے چنگل سے بچایا جائے۔ روپے کی ضرورت ہے جس سے مہاجرین کی مدد کے مختلف کاموں کا سروسامان کیا جائے اور سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی راے عام اُن بے درد اور شقی القلب پاکستانیوں کے خلاف بھڑک اُٹھے جو اپنے لاکھوں مسلمان بھائیوں کی اس مصیبت سے طرح طرح کے ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندستان کے مسلمانوں کی بربادی پر پاکستان کے لوگوں کی سردمہری ہی کچھ کم افسوس ناک نہیںہے کجا کہ نوبت اب یہاں تک پہنچ جائے کہ ان کی خانہ بربادی کو یہ اپنی خانہ آبادی کا ذریعہ بنائیں۔ پاکستان میں ایک ایسی عام راے تیار ہونی چاہیے جو اس قسم کی بدترین خود غرضیوں کو جہاں بھی دیکھے‘ اس پر برسرِعام لعنت کرے۔
اعانتِ مہاجرین کے سلسلے میں جو اصحاب رضاکارانہ خدمات انجام دینا چاہیں یا روپے اور سامان سے مدد کرنا چاہیں وہ ان پبلک جماعتوں کی طرف جلدی سے جلدی رجوع فرمائیں جن پر انھیں اعتماد ہو۔ پبلک جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں سے بھی میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس نازک موقع پر کام کے لیے اُٹھیں اور اپنی قوتوں کومجتمع کرکے جلدی سے جلدی مہاجرین کی مدد کو پہنچیں۔ ہر لمحہ جو گزر رہا ہے ان کے مصائب اور مشکلات کو بڑھاتا جا رہا ہے۔
’جماعت اسلامی‘ بھی اس سلسلے میں کچھ خدمت کر رہی ہے۔ جن لوگوں کو ہمارے اوپر اعتماد ہو وہ ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں۔ ہمیں اس کام کے لیے ایسے رضاکاروں کی ضرورت ہے جو دل سوزی‘ جاں فشانی اور اخلاص و دیانت کے ساتھ مظلوموں کی خدمت میں وقت صرف کرنے پر آمادہ ہوں۔ جن کے پیشِ نظر خدا کی خوشنودی کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہو‘ اور جو کم از کم خدمت کے اوقات میں جماعت اسلامی کے ڈسپلن کی پابندی کریں۔ ایسے حضرات اگر ہمارے ساتھ کام کرنا چاہیں تو براہِ کرم جماعت اسلامی کے کیمپ واقع اسلامیہ پارک‘ پونچھ روڈ پر مجھ سے ملیں یا مراسلت فرمائیں۔ نیز جولوگ ہم پر اعتماد رکھتے ہوں وہ روپے‘ کپڑے اور دوائوں سے بھی ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ اس مدد کے لیے اللہ ان کو اجر عطا فرمائے گا اور اسی کا اجر کافی ہے۔
ڈاک کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے غالباً جماعت اسلامی کی ان شاخوں تک میری ہدایات نہیں پہنچ سکی ہیں جن کو اس خدمت کے لیے لاہور طلب کیا گیا تھا۔ لہٰذا میں اخبار کے ذریعے سے جماعت کی ان تمام شاخوں کوجو پاکستان میں واقع ہیں‘ یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اپنے ارکان اور حلقۂ ہمدرد ان کی نصف تعداد جلدی سے لاہور بھیجیں اور ایسا انتظام کریں کہ ایک پارٹی کے واپس جانے سے پہلے دوسری پارٹی اس کی جگہ کام کرنے کے لیے پہنچتی رہے‘‘۔
اس مرحلے پر محترم میاں طفیل محمد صاحب قیم جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ایک تفصیلی خط جماعت اسلامی کے ارکان اور ہمدردوں کے نام جاری کیا گیا۔ ۲۵اکتوبر ۱۹۴۷ء کو امیرجماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کیمپ جماعت اسلامی مبارک پارک‘ پونچھ روڈ لاہور سے ایک اپیل شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی نے ہوائی اڈے (والٹن کیمپ) میں اپنا ایک ہسپتال قائم کیا ہے جس میں یونانی‘ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک علاج کا انتظام ہے۔ لیکن مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہماری طرف سے جو حکیم اور ڈاکٹر مقرر ہیں‘ وہ شب و روز کی محنت کے باوجود سب کی خدمت نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایسے طبیبوں اور ڈاکٹروں کی سخت ضرورت ہے جو اس کام میں فی سبیل اللہ ہمارا ہاتھ بٹانے پر تیار ہوں۔ خصوصیت کے ساتھ میں جماعت اسلامی کے جملہ ہمدردوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان میں جو حکیم‘ ڈاکٹر یا ہومیوپیتھ موجود ہوں۔ وہ اس خدمت کے لیے آگے بڑھیں۔
کارکنان کی آمد کے ساتھ ہی جماعت اسلامی نے پہلا کیمپ والٹن (ہوائی اڈا) میں وسط ستمبر میں قائم کر دیا۔ اگرچہ پہلے کیمپ کا نظام سرکاری طور پر ایک فوجی میجر کی کمان میں تھا اور کچھ انتظامیہ کے لوگ بھی وہاں مقرر تھے اور رضاکار کے طور پر بھی وہاں کچھ رنگارنگ قسم کے نوجوان کام کر رہے تھے۔ لیکن ہزارہا مہاجرین وہاں روزانہ آرہے تھے جن میں شدید مریض‘ ضعیف‘ بچے‘ زخمی اور معذور کیے گئے افراد کی بہت بڑی تعداد ہوتی تھی۔ اکثر لوگ بھوک اور فاقوں سے نڈھال تھے۔ بے سہارا افراد تو شمار نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے اکثر اعزہ یا شہید کردیے گئے تھے یا راستوں کے حملوں میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ ان محروم اور مصیبتوں میں مبتلا حضرات کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ پھر بدانتظامی کے باعث سخت افراتفری کی فضا تھی۔
محترم امیر جماعت نے خود ان سب حالات کا جائزہ لیا۔ کیمپ کے کمانڈر سے رابطہ قائم کرکے انھیں جماعت کی خدمات پیش کی گئیں۔ رانا اللہ داد خان صاحب نے کافی محنت اور توجہ سے کام سنبھالا۔ کیمپ کمانڈر نے جماعت کے کارکنان کی دیانت‘ امانت‘ محنت اور لگن سے متاثر ہوکر جلد ہی مکمل نظام جماعت کے حوالے کر دیا اور سرکاری کارکنان کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ جماعت کے زیرہدایت کام کریں۔ اب والٹن کیمپ کی مکمل ذمہ داری چودھری علی احمد خاں صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ چودھری علی احمد خاں صاحب بطور سب انسپکٹر پولیس قلعہ پھلور ضلع جالندھر میں ملازم تھے لیکن جماعت کے اصول اور ہدایت کے مطابق انھوں نے انگریز کے کافرانہ نظام سے قطع تعلقی کرتے ہوئے اس ملازمت سے استعفا دے دیا اور جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ انھوں نے پھلور ہی میں عین پولیس قلعہ کے سامنے جہاں وہ بطور انسٹرکٹر آفیسر تھے معمولی درجے کا ہوٹل کھول کر دعوتِ اسلامی کا کام شروع کردیا۔ بے حد محنتی تھے۔ پھر جماعت نے انھیں کمشنری جالندھر کا قیم مقرر کیا‘ نظم و ضبط اور محنت ان کی گھٹی میں رچی بسی تھی۔
والٹن کیمپ کا نظم سنبھالتے ہی انھوں نے کیمپ کے کارکنان اور نظام کو اس طرح منضبط کیا کہ لاپروا اور خودغرض سرکاری عملہ اور نام نہاد مسلم لیگی رضاکاروں کو یا تو سیدھا ہونا پڑا یا پھر وہ کیمپ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چودھری صاحب کے ہمراہ اس دور کے سیکڑوں جماعتی کارکن‘ جو کہ اکثر بالکل نوعمر تھے‘ مہاجرین کی خدمات میں ہمہ تن مصروف تھے۔ لاہور کے مکتبہ تعمیرانسانیت کے مالک شیخ قمرالدین صاحب‘ چودھری صاحب کی نیابت کر رہے تھے۔ سرگودھا‘ راول پنڈی‘ سیال کوٹ‘ ملتان اور گوجرانوالہ کے اکثر حضرات اسی کیمپ میں کام کرتے رہے۔ جناب مولانا محمد علی مظفری صاحب‘ جناب شیخ عبدالمالک صاحب ملتان‘ ان کے بھائی شیخ عبدالواحد صاحب اور بھتیجے شیخ محمد ایوب صاحب‘ صوبہ سرحد کے رفقا اور دیگر اضلاع کے حضرات غذا اور اشیاے ضرورت بھی مہیا کرتے رہے اور خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔ مرکز کے تمام رفقا بھی جن میں شیخ فقیرحسین صاحب مرحوم‘ جناب چودھری رحمت الٰہی صاحب اور دیگر حضرات شامل تھے‘ باہر سے آنے والے رفقا کے انتظام اور اشیاے ضروریہ پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف تھے۔ وہ ہرآنے والے رفیق سے پوچھتے تھے کہ کیا کام کرسکتے ہو؟ اور ہر رفیق کا یہی جواب ہوتا تھا کہ جو کام بھی سپرد کردیا جائے۔
والٹن کیمپ میں کھانے کی تقسیم‘ بچوں کے لیے دودھ کی تقسیم‘ لوگوں کو ایسی ترکیب اور ترتیب کے ساتھ ٹھیرانا کہ ’مخلوط سوسائٹی‘ کا منظر دیکھنے میں نہ آئے‘ مختلف صورتوں میں کیمپوں میں آنے والے بدقماش اور بدنیت لوگوں کو روکنے کی کوشش‘ لوگوں کے اندر دین اور اخلاق کی رغبت پیدا کرنے کی سعی‘ صبر کی تلقین‘ مریضوں کا علاج اور ان کی ہر تکلیف اور ضرورت کے وقت تعاون‘ رات کے وقت حفاظت اور پہرے کا نظام جیسے امور پر خصوصی توجہ دی جا رہی تھی۔ اس میں نوجوان مہاجرین کی ایک معقول تعداد کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اگرچہ مہاجرین کی آمدورفت کا سلسلہ رکنے میںنہیں آرہا تھا لیکن تنظیم اس طرح قائم کر دی گئی تھی کہ کسی کام میں رکاوٹ بہت کم پیش آتی تھی۔
جماعت کے ہسپتال کا قیام اور معذور افراد کے پاس موقع پر جاکر طبی تعاون کا بھی بہت بڑا اثر تھا۔ اس دور کے اساتذہ‘ محکمہ زراعت کے افسران اور بعض دوسرے سرکاری ملازمین‘ جو کہ مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر تھے‘ اس خدمت کے لیے لمبی چھٹیاں لے کر آئے۔ چودھری محمد ابراہیم صاحب ایم اے‘ چودھری محمد اکبر صاحب بی اے‘ بی ایڈ‘ چودھری محمد اشرف صاحب ایم اے‘ چودھری عزت علی خاں صاحب‘ ڈپٹی ڈائرکٹر زراعت‘ محمد باقر خان صاحب کے حلقہ اثر کے کئی ملتان کے حضرات اور دوسرے کئی حضرات نے مہینوں خدمات سرانجام دیں۔ خان لیاقت علی خاں صاحب وزیراعظم پاکستان والٹن کیمپ میں آئے تو وہاں کے نظم و نسق سے بے حد متاثر ہوئے اور جماعت کے ناظمین سے مل کر ان کے کام کی تعریف کی۔
والٹن کیمپ میں عیدالاضحی کی نماز محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پڑھائی۔ حاضری کم از کم ۵۰ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے خطاب کو جو کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صبر اور توکل علی اللہ کی تلقین پرمشتمل تھا‘ بہت توجہ سے سنا گیا۔ اپنے اس خطبے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے فرمایا: ’’جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اس حالت میں کہ وہ نعمتوں میں گھرا ہوا ہو‘ اس بات کو نہیں بھولتا کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور اس کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ پروردگار کی امانت ہے۔ وہ نہ بپھرتا ہے‘ نہ اکڑتا ہے‘ نہ اپنے آپ کو اور اپنے پروردگار کو بھول جاتا ہے بلکہ شکرگزار رہتاہے۔ انسانوں کی دوسری قسم جو خدا پر سچا ایمان نہیں رکھتی ہے‘ نعمتیں پاکر آپے سے باہر ہوجاتی ہے۔ انھیں دولت ملتی ہے تو ان کی خود غرضی بڑھ جاتی ہے۔ اقتدار میں حصہ ملتا ہے تو مقامِ بندگی کو بھول جاتے ہیں۔
ایمان رکھنے والوں کی نعمتوں میں کمی آجاتی ہے تو وہ ایک ایک لقمے کے لیے اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتے‘ نہ اپنی تنگ حالی کا رونا روتے ہیں اور خدا کے سامنے شکوہ و شکایت کے دفتر کھول دیتے ہیں‘ جب کہ اس دوسری مخلوق کو ایسی صورت سے سابقہ پیش آتا ہے تو اپنی خودداری کو بیچ دیتے ہیں۔ اور ان کی حرکتوں سے ایسا معلوم ہونے لگتا ہے جیسے انھیں اللہ نے کبھی کوئی نعمت دی ہی نہیں تھی۔
میرے بھائیو اور بہنو! خدا پر ایمان رکھنے والوں کی طرح‘ مصیبت زدہ ہونے کے باوجود آپ کا مقام یہ ہے کہ اپنی سیرت کو نہ گرنے دیں‘ اپنے مالک‘ خالق اور رازق کو نہ بھولیں اور بھروسا رکھیں کہ اگر اس نے پہلے نعمتوں سے نوازا تھا تو آیندہ بھی انعامات عطافرما سکتا ہے۔
آزمایش کا دوسرا پہلو اہلِ پاکستان کو درپیش ہے۔ ان پر اللہ کا فضل ہوا کہ وہ ان آفات سے محفوظ رہے جن کا نشانہ مشرقی پنجاب میں ان کے بھائی اوران کی بہنیں بنیں۔ لیکن محفوظ رہنے کی یہ حالت بجاے خود ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ آپ اس کا شکر کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کے کام آکر‘ یا خود غرضیوں‘ پستیوں اور بدعنوانیوں کا مظاہرہ کرکے‘‘۔
والٹن میں جماعت اسلامی کے رفقا کی خدمات میری آنکھوں دیکھی ہیں۔ جماعت اسلامی کے چند سو افراد کا ادل بدل ہوکر اتنا عظیم کام کرنا‘ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف آباد کاری (عملاً برباد کاری) کے کام کا نظام‘ حکومت نے اس طرح تشکیل دیا کہ لوگوں کے ایمان و یقین کے دھجیاں بکھر گئیں۔ میرے خیال میں سرکاری اور بااثر ملازمین اور بڑے جاگیرداروں کے سوا کوئی شخص رشوت کے بغیر کچھ حاصل نہ کرسکا۔ بعض لوگ درختوں کے پتوں پر گزارہ کر رہے تھے لیکن سرکاری ملازمین ان پر بھی رحم نہیں کرتے تھے۔ اس ہجرت کا سارا دینی اور اخلاقی پھل سرکاری حکام اور اہل کاران کی بدعملی نے جھلسا کر رکھ دیا اور بدنصیبی یہ بھی رہی کہ خود مہاجرین میں سے بھی جو لوگ یہاں سرکاری ملازمتوں میں آئے‘ ان کی ایک بڑی تعداد بھی سمیٹنے سمٹانے میں لگ گئی اور ایمان دار لوگوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔
بہرحال والٹن کیمپ میں جماعت اسلامی کی خدمات رفقاے جماعت کو کندن بنا گئیں۔ خدمتِ خلق اور رضاے الٰہی کے لیے اپنی ہر چیز کو قربان کرنے اور اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں کھپادینے کا ایک عظیم تجربہ تھا۔ لیکن ہمیں اور ہمارے کام کو دسمبر کے آخری ایام تک بمشکل برداشت کیا گیا۔ رشوت خور سرکاری ملازمین نے اور ان کی زیرسرپرستی خیانت کار کارندوں اور ان کے سرپرست اعلیٰ حکام نے ہر بھلائی کا کام ناممکن بنا دیا۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں مہاجرین کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ اس لیے جماعت نے بھی دوسرے کاموں کی طرف توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ء سے ہی پناہ گزین کیمپوں میں کام شروع کردیا تھا۔ کیمپ کی خدمات کے علاوہ لاوارث بچوں اور لاوارث عورتوں کی کفالت و حفاظت کی ذمہ داری بھی کارکنانِ جماعت کے سپرد کی گئی جو بہت ہی اہم ذمہ داری تھی۔ الحمدللہ اس بارے میں بھی جماعت کے کسی کارکن کے متعلق کسی ادنیٰ شکایت کا موقع پیدا نہیں ہوا۔ جماعت کے کارکنوں کی محنت اور اخلاص کی یہ ساکھ تھی کہ ۱۵دسمبر ۱۹۴۷ء کو ایک نئے سرکاری کیمپ کمانڈر کی بدمعاملگی اور بددیانتی سے تنگ آکر مولانا محترم کے ارشاد کے مطابق والٹن کیمپ میں کام بند کردیا گیا تو واہگہ کیمپ‘ شاہدرہ کیمپ اور دوسرے کیمپوں کے افسران کی درخواست پر والٹن کیمپ سے فارغ ہونے والے کارکنان کو ان کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
یہ خدمات جماعت اسلامی کی للہیت‘ انسان دوستی اور خداترسی کا وہ لازوال کارنامہ ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ اِن خدمات میں حصہ لینے والے سب حضرات کو اجرِعظیم عطا فرمائے‘ خواہ وہ زندہ ہیں یا اپنے مالک کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔
قادیانیوں کی طرح ’بہائی‘ بھی استعمار کے کاشتہ پودے اور انھی کے گماشتے ہیں۔ وہ اپنے آقائوں کے استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہائی خوب فعال ہیں اور اپنا مطبوعہ لٹریچر پھیلا رہے ہیں۔ کئی سادہ لوح مسلمان انھیں ’مسلمان‘ سمجھ کر ان کے دامِ تزویر میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی تراکیب کے استعمال کے باوجود وہ بھی قادیانیوں ہی کی طرح کافر ہیں۔ اس مضمونِ کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ’بہائی‘ مسلمانوں کا فرقہ نہیں بلکہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ خود بھی مسلمانوں کو ’کافر‘سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ بہائی اپنے بہت سے عقائد و نظریات کو لوگوں سے عمداًمخفی رکھتے ہیں۔
حسین علی نے بابیت قبول کرلی تھی مگر باب شیرازی نے اسے ’زندہ حروف‘ میں شمار نہیں کیا تھا جس کا حسین علی کو قلق تھا۔ ’زندہ حروف‘ بابیت کے قائدین شمار کیے جاتے ہیں۔ حسین علی حسدو انتقام کی آگ میں جل کر ’باب‘ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگیا اور مناسب موقعے کی تلاش میں رہنے لگا۔ علی شیرازی‘ یعنی باب جب قیدخانے میں بند تھا توا س کے پیروکاروں میں ’اُم سلمیٰ زرین تاج‘ نامی عورت شامل تھی۔ اس نے ۱۸۴۸ء میں ایران کے ’صحراے دشت‘ میں بابیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ باب شیرازی نے اس عورت کو ’قرۃ العین‘ کا لقب دیا۔ یہ عورت اپنے حسن و جمال‘ شاعری‘ خطابت اور شیریں زباں ہونے کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہوگئی۔ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ نہ رہی تو خاوند نے اسے طلاق دے دی۔ اُس کی اولاد نے بھی اپنے آپ کو اپنی ماں کی طرف منسوب کرنے میں عار محسوس کی۔
مذکورہ کانفرنس کے صحراے دشت میں آغاز سے کچھ ہی دیر پہلے قرۃ العین نے حسین علی المازندرانی سے ملاقات کی۔ کانفرنس میں شراب کا دور چلا‘ اور بے حیائی کا ارتکاب بھی ہوا۔ اسی کانفرنس میں قرۃ العین نے اسلامی شریعت منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ چندایک حاضرین نے جب اس پر احتجاج کیا تو حسین علی نے کھڑے ہو کر سورۃ الواقعہ پڑھی اور اس کی باطنی تشریح کی۔ اس نے قرۃ العین کے اعلان کی تائید و توثیق کی۔ بعد میں ایرانی حکام نے قرۃ العین کو سزاے موت دے دی۔ قرۃ العین ہی نے حسین علی کو ’بہاء اللہ‘ کا لقب دیا تھا۔ ایک راے کے مطابق حسین علی نے خود ہی ’بہاء اللہ‘ کا لقب اختیار کیا‘ وہ ’البہا‘ یا ’البہا حسین‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔
اس حسین علی کا ایک بھائی جو مرزا یحییٰ کہلاتا تھا۔ شیرازی (باب) نے اُسے ’صبحِ ازل‘ کا لقب دیا تھا اور اُسے ’زندہ حروف‘ میں شامل کر رکھا تھا۔ باب نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد ’صبحِ ازل‘ میرا جانشین ہوگا اور وہی بابیوں کا سربراہ ہوگا۔ حکومتِ ایران نے ان دونوں بھائیوں (بہاء اللہ اور صبحِ ازل) پر الزام لگایا کہ وہ شاہ ناصرالدین قاچاری کو قتل کرنے کی کوشش میں ملوث ہیں‘ چنانچہ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ بہاء اللہ نے روسی سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی اور روس کی کوشش تھی کہ وہ حکومتِ ایران سے اس بات کی یقین دہانی لے لے کہ بہاء اللہ کو سزاے موت نہیں دی جائے گی۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ مرزا یحییٰ (بابیت کے نئے سربراہ) اور حسین علی کو ایران سے ملک بدر کر کے بغداد بھیج دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں بھائیوں کو ۱۸۶۳ء میں استنبول بھیج دیا گیا۔ یہاں ان لوگوں نے یہودیوں سے راہ و رسم خوب بڑھائے۔ مختصر مدت کے بعد دونوں بھائی ادرنہ (ترکی) منتقل ہوگئے۔ حسین علی کی کوشش تھی کہ اُسے موقع ملے تووہ وہ اپنا خصوصی جتھا تشکیل دے۔
ادرنہ پہنچتے ہی ’البہا حسین‘ نے اپنے مخصوص عقائد کی تشکیل و تبلیغ کا آغاز کر دیا۔ اس کے پیروکاروں کا مذہب ’بہائیت کہلایا۔ اب دونوں بھائیوں کے مابین کش مکش اور مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں سے ہر ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ کتاب الایقان اس کی تصنیف ہے جو ’بہائیت‘ کی گمراہیوں سے لبریز ہے۔ ازلیوں اور بہائیوں کی یہ کش مکش جاری تھی حتیٰ کہ حسین علی (بہاء اللہ) نے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کو زہر کھلا کر ہلاک کرنے کا جتن کیا۔ ۱۸۶۸ء میں بہاء اللہ کو فلسطین کے ساحلی شہر عکا میں جلاوطن کردیا گیا۔ وہاں کے یہودیوں نے بہاء اللہ اور اس کے پیروکاروں کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور اپنے مال و دولت سے بہائیوں کی خوب مدد کی۔ انھوں نے خلیفہ عثمانی کے واضح احکام کی مخالفت کی جس کے حکم پر اُسے جبراً وہاں بھیجا گیا تھا۔ یہودیوں نے بہاء کو وہاں محل میں ٹھیرایا جو اب بھی ’البہجۃ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ عکا میں حسین علی نے اپنے جھوٹے نظریات کا پرچار جاری رکھا۔ بالآخر اس نے اپنی الوہیت کا دعویٰ کر دیا۔ اپنے خدا ہونے کا اعلان کرنے کے بعد وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالنے لگا کیوں کہ اس کے فاسد عقیدے کی رُو سے کسی انسان کے لیے روا نہیں کہ وہ اللہ کی بہاء (رونق وجمال) کو دیکھ سکے۔ اپنی زندگی کے اواخر میں وہ پاگل ہوگیا تھا‘ چنانچہ اس کے بیٹے نے اُسے ایک کمرے میں بند کر دیا تاکہ لوگ اُسے نہ دیکھ سکیں۔ یہی بیٹا بعد میں ’عبدالبہا‘ کے لقب سے مشہور ہوا‘ وہ اپنے والد کا نمایندہ اور ترجمان بن کر لوگوں سے مخاطب ہوتا تھا۔ بہاء اللہ ۲ذی قعدہ ۱۳۰۹ھ (۱۸۹۲ئ) میں مرا۔ ایک خیال کے مطابق اُسے کسی بابی نے قتل کر ڈالا تھا۔ اس کی موت کے بعد بہائیوں کی قیادت اس کے بیٹے عباس افندی نے کی۔ اپنے والد کی موت کے بعد ’عباس افندی عبدالبہا‘ حیفا چلا گیا‘ وہاں اس نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کی خوشامد شروع کردی۔ وہ مسجدوں میں جاکر نمازپڑھتا‘ گرجائوں کی عبادت میں عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوتا اور ساتھ ہی اس نے صہیونیت ویہودیت کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے شروع کر دیے۔
بہاء حسین کی تصنیف کتاب الاقدس تمام کتب ِسماویہ کی ناسخ ہے۔ بہائی فرد کی الوہیت‘ وحدت الوجود اور حلول کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بہاء اللہ کے لیے لاہوت اور ناسوت میں جدائی نہیں۔ اسی لیے وہ اپنے چہرے پر نقاب پہنے رکھتا تھا۔ کتاب الاقدس میں مرقوم ہے: جس نے مجھے پہچان لیا اس نے مقصود کو پہچان لیا‘ جس نے میری طرف توجہ کی‘ وہ معبود کی جانب متوجہ ہوا۔
بہائی عقائد کے مطابق وحی کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ’خاتم النبیین‘ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نبیوں کے لیے زینت ہیں جس طرح خاتم (یعنی انگوٹھی) انگلی کے لیے زینت ہوتی ہے۔ بہائی‘ مسلمانوں سے شدید نفرت و بغض رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں انتہائی گھٹیا باتیں کرتے ہیں۔ بہائیوں کی کتاب الایقان کے ایک اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ‘ مسلمانوں کے متعلق کیسا نفرت آلود عقیدہ رکھتے ہیں‘ کتاب میں لکھا ہے کہ: ’یہ جاہل و گنوار ہر روز صبح سویرے فرقان (قرآنِ کریم) پڑھتے ہیں مگر اب تک حرفِ مقصود پانے سے قاصر ہیں‘۔ اس کے علاوہ بہائی‘ پبلک مقامات پر اللہ کے ذکر کو حرام سمجھتے ہیں خواہ یہ ذکر خفیہ ہی کیوں نہ ہو۔ کتاب الاقدس میں ہے: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے اللہ کا ذکر کرے اور اس کے لیے اپنی زبان کھولے جب وہ سڑکوں اورراستوں پر چل رہا ہو‘۔ بہائی ۱۹ کے عدد کو مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کا سال ۱۹ مہینوں کا ہوتا ہے‘ ہر مہینے میں ۱۹ دن ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک قیامت‘ بہاء کی اللہ کے رُوپ میں آمد ہے۔ یہ لوگ جنت‘ دوزخ‘ فرشتوں اور جنوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ موت کے بعد برزخی زندگی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور باب شیرازی کے مابین مدت ہی برزخ ہے۔
یہ لوگ جہاد اور جنگ کو قطعی حرام سمجھتے ہیں (استعماری قوتوں کے ساتھ ان کے روابط کا اصل راز یہی ہے)۔ یہ لوگ سیاست میں حصہ لینے کو بھی حرام سمجھتے ہیں البتہ ان کے نزدیک استعماری قوتوں کا آلہ کار بننے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ بہائی متعہ کے جواز کے قائل ہیں اور زنا بالجبر کی سزا ان کے نزدیک مالی جرمانہ ہے۔ وہ وحدتِ اوطان کے مدعی ہیں اس لیے کسی وطن کی طرف نسبت کرنے کو روانہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ زبانوں (لغات) کو معطل کر دیا جائے‘ یہ صرف اس زبان کو اختیار کرتے ہیں جسے ان کا سربراہ مقرر کر دیتا ہے۔
بہائی مذہب میں قرآنی آیات کی باطل تاویل کی جاتی ہے‘ مثلاً سورۃ التکویر کی فاسد تاویل یوں کرتے ہیں: اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ o (۸۱:۱) (شریعتِ محمدیؐ ختم ہو جائے گی اور شریعت بہائی آجائے گی)۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ o (۸۱:۴) (شہروں کے چڑیا گھروں میں وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے)۔ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ o (۸۱:۷) (یہودی اور عیسائی بہائی مذہب اختیار کرلیں گے)۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (ابراھیم۱۴:۲۷) کی فاسد تاویل بہائی یوں کرتے ہیں:’دنیا کی زندگی محمدؐ پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے، جب کہ آخرت کی زندگی بہاء پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے‘۔
نماز: نماز جنازہ کے سوا وہ باجماعت نماز کے قائل نہیں۔ تین نمازیں پڑھتے ہیں: صبح‘ ظہر اور شام۔ ہر نماز میں تین رکعتیں ہیں مگر ان نمازوں کی کیفیت متعین نہیں۔ ان کا قبلہ عکا (اسرائیل) میں قصر بہجہ ہے۔ وضو میں وہ صرف منہ اور ہاتھ دھوتے ہیں۔ عرقِ گلاب سے وضو کرتے ہیں۔ اگر عراق گلاب نہ ملے تو پانچ مرتبہ ’بسم اللہ الاطہر‘ پڑھ لیتے ہیں۔
صہیونیوں کے ساتھ بہائیوں کے تعلقات کو ظاہر کرنے میں مصری مصنفہ عائشہ عبدالرحمن کا بڑا دخل ہے۔ وہ ’بنت الشاطیٔ ، کے نام سے لکھتی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ استعماری قوتیں ہمیشہ ایسی تحریکوں کی سرپرستی کرتی ہیں جو جہاد کو حرام قرار دیتی ہوں اور حبِ وطن کے جذبے سے سرشار نہ ہوں‘ جیسے بہائیت اور قادیا نیت وغیرہ۔ استعماری طاقتیں اُن مسلم تنظیموں اورجماعتوں کو بھی اپنے لیے مفید اور بے ضرر سمجھتی ہیں جو اگرچہ حرمتِ جہاد کا فتویٰ نہ دیں نہ ترکِ جہاد ہی کا اعلان کریں لیکن عملاً اپنی تقاریر‘ مواعظ‘ بیانات‘ خطبات اور لٹریچر میں جہاد کا نام نہ لیں بلکہ مجاہدین اسلام کے لیے دعا تک کرنا غیر مناسب سمجھیں۔ ایسی مسلم جماعتوں کو استعماری قوتوں اور سیکولر مسلم حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے بلکہ سیکولر ’روشن خیال اور معتدل‘ حکمران ایسی جماعتوں کے اجتماعات میں براے حصولِ اجروثواب‘ یا براے حصولِ ہمدردی شریک ہوتے ہیں اور ان اجتماعات کے انعقاد میں حکومت ہر طرح کی سہولیات بھی بہم پہنچاتی ہے۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہودیوں نے ترکی میں بہاء اللہ کا والہانہ استقبال کیا‘ پھر فلسطین میں اس کا خیرمقدم کیا اور اس کے لیے قصر البہجۃ تیار کیا۔ استعماری قوتوں اور صہیونیوں کے ساتھ بہاء اللہ کے بیٹے عبدالبہاء عباس افندی کے محبت و تعاون کے تعلقات تھے۔ عبدالبہاء نے سقوطِ فلسطین کے فوراً بعد جنرل لانبے کا پرجوش خیرمقدم کیا اور ’سر‘ کا خطاب حاصل کیا۔ برطانوی سرکار نے اُسے بہت سے اعلیٰ تمغوں سے بھی نوازا۔ عبدالبہاء نے متعدد صہیونی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اس نے اپنی تحریروں اور بیانات میں‘ فلسطین میں یہودیوں کے یک جا ہونے کی ہمیشہ تائید وحمایت کی۔ اس کا ایک قول ہے: ’اس ممتاز و منفرد زمانے اور اس دور میں بنی اسرائیل ارضِ مقدس میں اکٹھے ہوں گے اور یوں یہودی قوم جو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بکھری ہوئی ہے، یک جا ہو جائے گی‘۔
عجیب بات یہ ہے کہ عباس افندی کے بعد بہائیوں کا سربراہ ایک امریکی صہیونی بنا جس کا نام ’میسون‘ تھا۔ یہودیوں نے ۱۹۶۸ء میں مقبوضہ فلسطین میں بہائیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں منظور کردہ قراردادیں صہیونی افکار و آرا سے ہم آہنگ تھیں۔
دنیا میں بہائیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ شکاگو میں ہے۔ اس کا نام ’مشرق الاذکار‘ ہے۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی بہائی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ مگر چوں کہ وہ صہیونیوں اور استعماری قوتوں کے گماشتے ہیں اس لیے ان کا نمایندہ اقوامِ متحدہ میں موجود رہتا ہے۔ اسی طرح مختلف بین الاقوامی اداروں میں بھی ان کے نمایندے موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے مفادات کا عالمی سطح پر تحفظ کرتے ہیں‘ جیسے یونی سیف اور یونیسکو وغیرہ۔
شیعہ علما کی راے بھی علما ے اہلِ سنت سے الگ نہیں۔ یہاں بہائیوں کے بارے میں صرف ایک شیعہ عالم دین کی راے لکھی جاتی ہے۔ الشیخ محمد السند کہتے ہیں: ’بہائیوں کے بارے میں شرعی موقف یہ ہے کہ وہ کفار میں شمار ہوتے ہیں‘ کیوں کہ انھوں نے دین اسلام اختیار کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان میں سے جو پہلے مسلمان تھا‘ پھر اس نے بہائیت قبول کرلی تو وہ مرتد ہوگیا۔ اسی طرح اگر یہ شخص شہادتین اشہد ان لا الٰـہ الا اللّٰہ واشـھد ان مـحمد رسـول اللّٰہ ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہائیت اختیار کرلیتا ہے تو وہ بھی مرتد ہے‘۔
اس مفصل جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بہائیوں کا اپنے آپ کو مسلمان فرقہ ظاہر کرنا یا شیعہ مذہب کا ایک فرقہ ہونے کا تاثر دینا‘ انتہائی گمراہ کن ہے۔ اس بے بنیاد دعوے کا مقصد سادہ لوح اور نیم تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا‘ اپنے گمراہ کن عقائد کو خوش نما بناکر پیش کرکے اسلام کو زک پہنچانا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہے۔
بیسویں صدی میں اُمتِ اسلامیہ کے علمی اُفق کو جن روشن ستاروں نے تابناک کیا‘ ان میں جرمن نومسلم محمد اسد (لیوپولڈ ویز) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدایش ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں ایک نوعمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑانام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر۱۹۲۶ء میں جرمنی میں مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دستِ شفقت پر قبولِ اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں ۶۶سال صرف کر کے بالآخر ۱۹۹۳ء میں رب حقیقی سے جاملے۔
محمداسد کی داستان محض ایک انسان کی داستان نہیں‘ ایک تاریخ ساز دور کی علامت اور عنوان ہے۔ ایک بے تاب روح‘ خطروں کو انگیز کرنے والا ایک نوجوان‘ ایک تہذیب سے ایک دوسری تہذیب کا مسافر‘ ایک محقق اور مفکر‘ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار‘ اور سب سے بڑھ کر قرآن کا ایک مخلص خادم___ اسد کی چند آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فکری اور تہذیبی میدانوں میں ان کے مجتہدانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسد نے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے افکار کو متاثر کیا اور اسلامی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیسویں صدی میں‘ مغربی دنیا سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے اشخاص میں سب سے نمایاں مقام محمداسد ہی کو حاصل ہے اور بجاطور پر زیرنظر کتاب میں اسے ’اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ ایک دوسرے جرمن نومسلم ولفریڈ ہوف مین (Wilfred Hoffman)نے استعمال کیے ہیں‘اور یہ بھی بڑا نادر توارد ہے کہ خود مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام اپنے ایک خط میں غالباً ۱۹۳۶ء میں محمداسد کے بارے میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال یہ ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں‘ ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔
یہ تحقیقی کتاب اس ہیرے کی زندگی‘ خدمات اور نگارشات پرمشتمل ہے جسے محمد اکرام چغتائی صاحب نے بڑی محنت‘ محبت اور قابلیت سے مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں اُمتِ مسلمہ پر بالعموم اور ملتِ اسلامیہ پاکستان پر بالخصوص جو قرض تھا‘ اسے فراخ دلی سے اداکردیا ہے۔ یہ ایک فرضِ کفایہ تھا جو انھوں نے اور ٹروتھ سوسائٹی نے ادا کیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتے ہیں۔
محمد اسد سے میرا بھی اولین تعارف‘ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور طالبینِ حق کی طرح ان کی پہلی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔ میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا___ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی چمک دمک تھی‘ اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا معمّا کہ ع
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے
اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا‘ وہ اسد کی یہی کتاب تھی۔ اس وقت سے اسد سے ایک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہوا اور پھر اس وارفتگی کے عالم میںتلاشِ بسیار کے بعد عرفات کے شمارے اور صحیح بخاری کے ترجمے کے پانچ ابواب حاصل کیے اور وردِجان کرلیے۔ اسٹوڈنٹس وائس (اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا انگریزی ترجمان) کے دورِادارت میں محمد اسد سے بھرپور استفادہ کیا اور ان سے ملنے کے لیے بے چین رہا۔ یہ خواہش ۱۹۵۴ء میں پوری ہوئی جب محمد اسد چند دن کے لیے پاکستان آئے۔ کراچی میں سندھ کلب میں میری اور ظفراسحاق انصاری اور خرم مراد کی ان سے ملاقات ہوئی اور جو تصویر ذہن میں بنائی تھی‘ اس کے مطابق پایا۔
اس زمانے میں اسد پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن سے فارغ ہوچکے تھے اور وزارتِ خارجہ کے افسران سے خاصے بددل تھے۔ انھوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ Road to Mecca (شاہ راہِ مکہ)شائع ہو رہی ہے (بلکہ مجھے فخرہے کہ اس کا ایک نسخہ انھوں نے مجھے بھیجا جس پر اسٹوڈنٹس وائس میں تبصرہ میں نے ہی لکھا تھا)۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی دوسری جِلد لکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان کی اس وقت کی قیادت پر تنقید بھی ہوگی۔ افسوس یہ جلد شائع نہ ہوسکی اور پتا نہیں اس کے نوٹس یا نامکمل مسودہ کہاں ہے۔ اس مجموعے میں بھی اس کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ محمداسد نے میرے نام ایک خط میں بھی دو سال بعد اس کا ذکر کیا تھا۔
محمد اسد کی گم شدہ پونجی میں اس مذکورہ دوسری جِلدکا نامکمل مسودہ یا نوٹس‘ صحیح بخاری کے کچھ دوسرے ابواب کے بارے میں ان کے نوٹس‘ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی تقاریر میری نگاہ میں قابلِ ذکر ہیں اور اب بھی ان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر کی نقول حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح جو خطوط اور رپورٹیں انھوںنے وزارتِ خارجہ کو اس زمانے میں لکھی تھیں‘ انھیں بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
محمد اسد سے میرے تعلق کی نوعیت ایک استاد اور شاگرد اور ایک ہیرو اور اس کے مشتاق (fan) کی ہے ‘اور جو تعلق ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک قائم رہا۔ پھران سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شفقت میں اضافہ ہی ہوا۔ ۱۹۷۶ء کی لندن کانفرنس میں برادرم سالم عزام کے ساتھ مجھے کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہے اور اس زمانے میں محمد اسد سے ہمہ وقت استفادے کا موقع ملا۔ فکری اعتبارسے میں نے ان کی اپروچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی‘ البتہ اُمت کے حالات سے دل گرفتگی اور مسلمانوں کی قیادتوں سے مایوسی آخری ۳۰سال میں کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔
پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابلِ قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے‘ اس کا نہایت واضح ادراک اور دوٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ زندگی کی روحانی اور مادی خانوں میں تقسیم برائی کی اصل جڑ ہے اور اس سلسلے میں عیسائی روایت اور مغربی تہذیب کا اسے اس کی انتہا تک پہنچا دینے کا انھیں مکمل ادراک تھا۔ اس حوالے سے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں وہ کسی شش و پنج یا الجھائو (confusion)کا شکار نہیں ہوئے۔ مغرب کے تصورِ کائنات‘ انسان‘ تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انھیں پورا پورا شعور و ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دورِحاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں‘ بلکہ اجتماعی نظام کی تشکیلِ نو کے وہ داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلوہے۔
ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُمت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوںکی نشان دہی کی‘ ان میں تصورِدین کے غبارآلود ہوجانے کے ساتھ‘ سیرت و کردار کے فقدان‘ دین و دنیا کی عملی تقسیم‘ اجتہاد سے غفلت اور رسم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآ خذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید شامل ہیں۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن ظاہری مکتب ِفکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے رجوع اور ان کی بنیاد پرمستقبل کی تعمیروتشکیل تھا۔ قرآن ان کی فکر کا محور رہا اورحدیث اور سنت کو وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف جن کا موضوع اسلامی قانون‘ اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اصل ثقافتی شناخت تھا‘ ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ اور تشریح ہے جن کی حیثیت میری نگاہ میں اس دور میں کلاسک کی ہے۔ پھر روڈ ٹو مکہ ان کی وہ کتاب ہے جو علمی‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔
محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو‘ دورِ جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی‘ اور اسی سلسلے میں تحریکِ پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وِژن اور وہ عملی کوششیں ہیں جو عرفات‘ قومی تعمیرنو کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‘ ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتابیں: Islam at The Crossroadsاور The Principles of State and Government in Islamہیں۔ عرفات کے زمانے کے یہ مضامین دورِحاضر میں نفاذِ اسلام کا وژن اور اس کے لیے واضح حکمت عملی پیش کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود اس باب میں محمد اسد کے وژن اور فکر اور دورِجدید کی اسلامی تحریکات کے وِژن میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی ان تحریکوں سے عملاً وابستہ نہیں رہے۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مبصر کارل گنٹرسائمن (Karl Gunter Simon) کے مضمون سے ایک اقتباس دل چسپی کا باعث ہوگا جو محمد اسد سے ایک اہم انٹرویو پر مبنی ہے اور جرمن پرچے‘ Frankfurter Allgemine Zeiting میں ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء کو ان کے انتقال سے چار سال قبل شائع ہواتھا:
’’احیاے اسلام کے لیے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمیں بس پرانے بھولے ہوئے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی تہذیبیں ہمیں نیا تحرک دے سکتی ہیں لیکن کوئی غیراسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی‘ خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق۔ اسلام کے روحانی اور اجتماعی ادارے (خود مکمل ہیں ان کو کسی بیرونی مدد سے) بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام کا زوال درحقیقت ہمارے قلوب کی موت یا دلوں کا خالی ہوجانا ہے…‘‘
کیا یہ اخوان المسلمون کا کوئی مناظرانہ موقف ہے؟ یا بنیاد پرستوں کا اعلان‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں؟ نہیں‘ قطعی نہیں۔ یہ جدید بیانات ایک پرانی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی‘ یعنی Islam at The Crossroads۔ یہ محمد اسد کی پہلی کتاب تھی (حوالہ مذکورہ کتاب‘ ص ۲۴)
اقبال اس فکر کو ۱۱-۱۹۱۰ء سے پیش کر رہے تھے۔ حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں تحریک اخوان المسلمون کا آغاز اسی پیغام کے ساتھ کیا۔ سید مودودی نے ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن اسی کلمے کی بنیاد پر اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نکالا‘ اور محمداسد نے ۱۹۳۳ء میں یہی بات اپنے دل نشین انداز میں کہی۔ دو کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے تھا‘ ایک مصر کے گلزار کا پھول تھا اور ایک یورپ کے روحانی قبرستان کی زندہ آواز___ لیکن سب ایک ہی بات کہہ رہے تھے‘ اس لیے کہ ان سب کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ محمداسد بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کے معماروں میں سے ایک تھے اور انھوں نے مغرب اور مشرق کے فرق کو ختم کر کے اسلام کے عالمی پیغام کی صداقت کو الم نشرح کیا۔
محمد اسد کے یہاں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح اِدراک ہے اور آج کی پاکستان کی نام نہاد قیادتوں کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق ہے اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام بھی۔ دیکھیے محمد اسد فروری ۱۹۴۷ء میں اپنے پرچے عرفات میں کس وضاحت‘ فکری سلاست اور علمی دیانت کے ساتھ پاکستان کے تصور کو بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اُبھرنے والی بہت سی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
تحریکِ پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‘ بلکہ اس کا یہ ادراک___ جو بیش تر معاملات میں ہدایت دیتا ہے‘ اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے___ کہ اسلام (پورے نظامِ زندگی کی تعمیرنو کی)ایک معقول تدبیر ہے‘ اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے‘ اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اوّلین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‘ دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔
تحریکِ پاکستان‘ جس کی کوئی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‘ ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے‘ اگر مسلمان یہ محسوس کریں‘ اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس‘ گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‘ یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں‘ اس میں‘ یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتاً اپنے کو مسلمان کہتے ہیں‘ زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‘ بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا۔ (ص ۸۶۳- ۸۶۵)
جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے‘ تحریکِ پاکستان ان کے اس وجدان کا حصہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی برادری ہیں‘ اس لیے ایک خودمختار سیاسی وجود کا حق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ محسوس کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کی برادری کا وجود دوسری برادریوں کی طرح کسی نسلی وابستگی یا کچھ ثقافتی روایات کے اشتراک پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ صرف اور صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے نظریۂ حیات سے مشترک وابستگی رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اپنی برادری کے وجود کے لیے جوازایک سماجی و سیاسی نظام قائم کرکے فراہم کرنا چاہیے جس میں اس نظریۂ حیات‘ یعنی شریعت کا عملی نمونہ دیکھا جاسکے گا۔ (ص ۹۱۲)
پھر دیکھیے کہ کس فکری دیانت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دل کو چیر کر ملّتِ اسلامیہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے ان کو مغرب کے تجربات سے متنبہ کرتے ہیں کہ تمھیں آزادی ملنے والی ہے‘ مگر دیکھو محض غیرمسلموں کے اعتراضات اور نفع عاجلہ کے چکر میں نہ پڑجانا بلکہ اپنے اصل مقصد پر قائم رہنا۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا کہ اسلام تو طویل عرصے کا ہدف ہے اور فوری طور پر وہ کرنے کے چکر میں پڑ جائو جو وقتی مصلحت کا تقاضا ہو۔ کہتے ہیں:
ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع ترین مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے‘ جب تک کہ پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ (ص ۹۱۸)
مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطۂ آغاز لا الٰہ الا اللہ ہو۔ (ص ۹۲۵)
افسوس کہ پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے اس اصل منزل کو مفاد پرستی اور وقتی مصلحتوں کی تلاش میں گم کردیا۔ محمداسد کو اس کا بے پناہ قلق تھا۔
محمد اسد کی زندگی کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بڑا ظلم ہوگا اور ان میں سے کم از کم ایک میں‘ مجھے وہ دورِحاضر میں منفرد نظرآتے ہیں۔ میں نے سیکڑوں نومسلموں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور ایک بڑی تعداد سے ذاتی طور پر تعلقات رکھنے کی سعادت پائی ہے۔
نوجوانی میں ایک کتاب ابراہیم باوانی مرحوم کی دعوت پر Islam Our Choice کے عنوان سے مرتب بھی کی تھی اور اس کے لیے بھی بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کی سچی داستانوں کو پڑھا تھا۔ ستاروں کی اس کہکشاں میں ایک سے ایک دل نواز شخصیت کی تصویرِ حیات دیکھی جاسکتی ہے اور ہرہرفرد اسلام کی کسی نہ کسی خوبی کافریفتہ ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ زیادہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے دل فریب پیغام سے ہے۔ لیکن محمد اسد کی ایک ذات ایسی ہے جو مسلمانوں سے مسحور ہوکر اسلام کی متلاشی اور پھر اس کی گرویدہ ہوئی۔
دل پر پہلی ہی چوٹ اس وقت لگی جب ۲۳سالہ جرمن نوجوان عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کرتا ہے اور کھانے کے وقت اس کا عرب ہم سفر اس اجنبی کو جانے بغیر اسے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ خودپسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر جس سے بھی وہ ملتا ہے‘ جس بستی میں جاتا ہے‘ جس جگہ قیام کرتا ہے‘ اسے ایک دوسری ہی قسم کی مخلوق ملتی ہے جن کے باہمی تعلقات‘ بھائی چارے‘ محبت اور دکھ درد میں شرکت پر مبنی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے جو مسافر کی قدر کرتا ہے اور مہمان داری کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو کھانا کھلا کر بل پیش نہیں کرتا۔
لیوپولڈ ویز کو یہ تجربہ بڑا عجیب لگتا ہے مگر اس کی روح اس دنیا میں بڑا سکون اور بڑی اپنائیت پاتی ہے۔ روح کی پیاس کے لیے یہاں سیرابی کا بڑا سامان ہے۔ یہ کلچر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ اس جستجو میں لگ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اس ماڈل کو بنانے والے عناصر کیا ہیں___ یہ اسے اسلام اور اس کے حیات بخش پیغام تک لے آتے ہیں۔ تین سال کی صحرانوردی میں وہ اس تہذیب سے دُور ہوتا جاتا ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ اور اب اس کی آنکھوں کو وہ دنیا بھا جاتی ہے جس میں اب وہ زندگی گزار رہا ہے۔ پھر اسلام‘ جیساکہ اس نے ایک جگہ لکھا ہے‘ اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو اپنا گھر بنالیتاہے۔ چورکی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتاہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں‘ کچھ دینے کے لیے اورپھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔
لیوپولڈ ویز ایک طلسمی عمل کے ذریعے اسی دنیا کا ہوجاتا ہے جس کی خبر دوسروں کو دینے کے لیے صحافی کے لباس میں وہ ان کے درمیان آیا تھا۔ اب یہاں اس نے نہ ختم ہونے والی دوستیاں استوار کرلی ہیں۔ اب یہاں اس نے اس معاشرے کی ان اقدار کو جو اس کے لیے پہلے بالکل نئی تھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا ہے۔ اب اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ہے اور بالآخر وہ چیز جو غیرشعوری طور پر اس کے روح و بدن میں داخل ہوگئی تھی‘ وہ اسے شعوری طور پر قبول کرلیتا ہے اور کلمۂ شہادت ادا کرکے اس کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر ڈالتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسان اسلام کے راستے مسلمانوں میں داخل ہوئے۔محمد اسد مسلم دنیا کے بیسویں صدی کے گئے گزرے حال میں بھی مسلمانوں کے ذریعے اسلام تک پہنچا اور پھر اسلام کو اس نے اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ مسلمانوں ہی کی حالت کی اصلاح کے لیے دل گرفتہ اور سرگرم عمل ہوگیا۔ تبدیلی (conversion )یا رجوع (reversion) کی تاریخ کا یہ بڑا دل چسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔
محمد اسد کی زندگی کا دوسرا پہلو جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہ یہ ہے کہ اسد نے صرف اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عملاً اس نے اسلامی دنیا ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس نے مغرب سے دین کاناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کر کے وہ پھر اس دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ وہ امریکا اور یورپ میں بھی رہا لیکن اس کی روح کو سکون بدوؤں (bedoein) کی دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اس کی آخری شریکِ حیات پولااسد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسد کی روح بدوی (bedoein) تھی اور صحرا کی دنیا میں وہ سب سے زیادہ اپنے گھر کی طرح ہوتا تھا۔ اس نے صحیح معنوں میں ہجرت کی اور اپنی اسلامی زندگی کے ۶۶سال عرب دنیا‘ ہندستان‘ پاکستان اور تیونس میں گزارے‘ اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس علاقے میں رہا جواندلس اور عرب دنیا کا روحانی اور ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔
محمد اسد: یورپ کا اسلام کے لیے تحفہ‘ محمد اسد کی زندگی‘ اس کے افکار و نظریات‘ اس کے اثرات اور تاریخی خدمات کا ایک جامع مرقع ہے۔ پہلی جِلد میں اسد کی شخصیت‘ افکار اور علمی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں ۲۸مضامین ہیں جن میں علمی اور تحقیقی مقالات کے ساتھ شخصی تاثرات‘ اور اسد کی کتابوں پر تنقیدی نگارشات شامل ہیں جو ان کی زندگی اور ان کے افکار کے ہرہرپہلو کے بارے میں سیرحاصل معلومات فراہم کرتے ہیںاور ان ایشوز کو زیربحث لاتے ہیں جن پر اسد نے کلام کیا ہے۔ دوسری جِلد کا بیش تر حصہ محمد اسد کے قیمتی مضامین اور رشحاتِ قلم کا مجموعہ ہے اور اس سارے علمی خزانے کو ایک جگہ جمع کرکے مرتب محترم نے بڑی قیمتی خدمت انجام دی ہے۔ اس طرح ان دو جلدوں میں محمداسد کی شخصیت اور ان کے افکار اور علمی خدمات کا بھرپور احاطہ کرلیا گیا ہے۔ محترم اکرام چغتائی صاحب نے یہ خدمت بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے انجام دی ہے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تسوید کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ طباعت کامعیار بھی نہایت نفیس ہے اور سارا کام بڑی خوش ذوقی سے انجام دیا گیا ہے۔ جیساکہ میں نے عرض کیا پوری اُمت کی طرف سے دی ٹروتھ سوسائٹی اور صاحبِ کتاب نے یہ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے ‘اور اسی کتاب کے ایک مقالہ نگار مظفراقبال کا یہ گلہ کہ اسد ایک فراموش شدہ (forgotten)پاکستانی ہے‘ اب کسی نہ کسی حد تک دُور ہوگیا ہے۔ اس خدمت کے لیے چغتائی صاحب اور ان کے رفقاے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر سباعی شام میں اخوان المسلمون کے بے مثل قائد تھے۔ کئی برس تک دمشق یونی ورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے سربراہ اور علمی مجلہ حضارۃ الاسلام کے مدیر بھی رہے۔ انتقال سے ایک سال قبل (۱۹۶۳ئ) علاج کی غرض سے مغربی جرمنی گئے‘ تو واپسی پر ایک جرمن صحافی نے آپ سے یہ انٹرویو کیا جس کا حضارۃ الاسلام سے ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔چار عشروں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اہلِ مغرب کے لہجے میں آج بھی وہی طنطنہ ہے۔ دراصل تہذیبوں کا تصادم کوئی جدید نظریہ نہیں‘ اسلامی تحریکات کے قائدین پہلے بھی آج کی طرح اس کا سامناکر رہے تھے۔ (مدیر)
اگر آپ اسلام سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی لچک دار ہوجائے اور لوگوں کو ہوا و ہوس میں کھل کھیلنے کی چھٹی دے دے تو میں آپ پر واضح کردیتاہوں کہ اس قسم کی لچک تو اسلام میں موجود نہیں ہے‘البتہ جو لچک اسلام میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہراچھی چیز سے استفادہ کیا جائے۔ علم اور فکری ارتقا کے وسائل اختیار کیے جائیں۔ اس لچک کا اظہار خود آپ کے ہاں اور یورپ اور امریکا میں ہمارے وہ سیکڑوں اسلام پسند نوجوان کرتے ہیں جو آپ کی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور آپ کی تہذیب کے عین قلب میں رہتے ہوئے بھی اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کرتے ہیں‘ جیساکہ اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے۔ وہ نہ شراب پیتے ہیں‘ نہ بے راہ روی اختیار کرتے ہیں‘ نہ ان کے طرزِعمل میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے ان کے اساتذہ اور ان کے ہمسایوں کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوجاتا ہے۔ میں خود سن چکا ہوں کہ جرمن اور دوسرے یوروپین ان کے شریفانہ کردار پر کس قدر حیرت زدہ ہوتے ہیں۔ مجھ سے ایک جرمن نے جو ایسے ہی ایک نوجوان اور اس کی استقامت سے واقف تھا کہا کہ یہ نوجوان تو راہب معلوم ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج ساری دنیا میں ان کے سے اخلاق اور استقامت کا اور بھی کوئی ہوگا۔ اسلام میں اگر کوئی لچک ہے تو بس یہی اس کی مثال ہے۔ اسلام علم کا خیرمقدم کرتا ہے‘ تہذیب و تمدن سے استفادہ کرتا ہے‘ لیکن ان کے معائب اور نقائص سے دامن بچاتا ہے۔ اور یہی دلیل ہے اس بات کی کہ ہم آپ کی تہذیب اور علمی ترقی سے استفادہ کرسکتے ہیں بغیر اس کے کہ آپ کی تہذیب کے کانٹوں سے دامن دریدہ ہوں۔
عرب ممالک میں ایک نعرہ بہت مقبول ہو رہا ہے: یانصراللّٰہ یاحبیب ، اضرب اضرب تل ابیب، اے پیارے نصراللہ! تل ابیب پر ضرب لگائو۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ عرب عوام میں وہ مقبولیت پا رہے ہیں کہ موریتانیا کے بعض مظاہرین ان کی تصویر تلے سورئہ نصر کی آیت اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ… لکھے انھیں اُمت مسلمہ کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ حسن نصراللہ نے بھی اسرائیلی حملہ شروع ہونے کے بعد اپنی ریکارڈ شدہ تقریر میں اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ کسی فرقے‘ مذہب‘ ملک یا علاقے کا نہیں‘ اُمت مسلمہ کا معرکہ لڑ رہے ہیں۔
سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس میں صرف ایک فریق کو نہیں اسرائیل کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صہیونی ذمہ داروں کا اعتراف ہے کہ گذشتہ ۱۰ روز کی لڑائی میں اسرائیلی شہروں پر حزب اللہ کی طرف سے ایک ہزار سے زائد میزائلوں کی بارش ہوچکی ہے۔ اسرائیل اپنے تمام تر اسلحے اور دنیا کی سب سے خطرناک عسکری اور جاسوسی صلاحیتوں کے باوجود‘ حزب اللہ کے مجاہدین کو یہ جدید ترین میزائل فائر کرنے سے نہیں روک سکا۔ اس نے دعوے تو کیے کہ ہم نے حزب اللہ کے کئی ٹھکانے اور میزائل لانچنگ پیڈ تباہ کردیے ہیں لیکن حزب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دے سکا کہ اگر دعوے میں واقعی سچے ہو تو لائو کوئی ثبوت۔ یہ درست ہے کہ دونوں طرف ہونے والے نقصانات میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ لبنان کے بیروت‘ صیدا اور صور سمیت کئی شہروں میں بہت مہیب و خوف ناک تباہی ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں‘ ہزاروں زخمی و شہید ہوچکے ہیں اور ادھر مرنے والے یہودیوں کی تعداددسیوں میں ہے۔ تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے لیکن یہودی قوم کی ’بہادری‘ کا یہ عالم ہے کہ حیفا اور نہاریا سمیت ان کے متعدد شہر اس وقت بھوتوں کے شہر قرار دیے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سناٹا‘ چہارسو خوف‘ دن رات سائرنوں کی آوازیں اور زیرزمین پناہ گاہوں میں چھپ جانے کی صدائیں‘ ان شہری آبادیوں کا عنوان بن چکی ہیں۔ یہ موسم مقبوضہ فلسطین میں سیاحت کے عروج کا موسم ہوتا تھا۔ جنگ سے ایک روز پہلے تمام شہروں کے تمام ہوٹل بھرے ہوئے تھے۔ اب ان میں ایک بھی مسافر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔
اپنی حکومت سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرنے والے اور اپنے تعلیمی اداروں میں ہر بچے کے ذہن میں یہ زہر گھولنے والے کہ ’’عرب اور مسلمان کیڑے مکوڑے ہیں‘ ان کے ناپاک وجود سے روے زمین کو پاک کرنا انسانیت کی اعلیٰ معراج ہے‘‘، جنگ کے ایک ہفتے کے بعد ہی دہائی دینا شروع ہوگئے کہ اس آگ میں کود تو گئے ہیں اب نکلیں گے کیسے؟
۱۹ جولائی کے عبرانی روزنامے ہآرٹس میں اخبارکے بڑے کالم نگار عوزی بن زیمان کے کالم کا عنوان ہے ’’اولمرٹ اور بیرٹس نے جنگ تو چھیڑ دی لیکن کیا انھیں معلوم ہے کہ اس میں سے نکلنا کیسے ہے؟‘‘ وہ مزید لکھتا ہے: ’’جنگ ختم کرنے کے کئی راستے ہیں‘ جیسے حزب اللہ کی قیادت خاص طور پر حسن نصراللہ کو قتل کردیا جائے‘ یا حزب کی سیاسی قوت کا خاتمہ کردیا جائے‘ یا اس کی عسکری صلاحیت سلب کرلی جائے اور اس طرح لبنانی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کردیا جائے لیکن یہ سب نظری باتیں ہیں۔ یہ کسی صورت حقیقت میں نہیں بدلی جاسکتیں‘‘۔
اسی بات کا ذکر حسن نصراللہ نے ۲۱ جولائی کو الجزیرہ کو دیے گئے اپنے تفصیلی انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ’’گذشتہ ۲۳ سال سے اپنی قوم کو صہیونیوں سے جہاد کے لیے تیار کر رہے ہیں تو کیا اب ہم موت یا شہادت سے ڈر جائیں گے؟ نہیں ، ہم ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں۔ اس جنگ میں وقت اصل اہمیت کا حامل ہے۔ دشمن نے اب تک صرف شہری آبادی کا قتلِ عام کرنے‘ پُلوں‘ کارخانوں‘ سڑکوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنے پورے جبروت اور سفاکی کے باوجود وہ اپنے کسی عسکری ہدف کو حاصل نہیں کرسکا۔ ہم اپنی لڑائی مکمل بصیرت‘ صبر‘ حوصلے اور سوچ بچار کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ہم کسی جلدبازی کا شکار نہیں ہوں گے‘‘۔
واضح رہے کہ ڈیڑھ گھنٹے کے اس انٹرویو میں وہ بھرپور تحمل‘ کامل صبراور وقار کے ساتھ‘ گویا ایک ایک لفظ تول کر بول رہے تھے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دشمن اپنے بے پناہ ہتھیاروں اور دنیا کی جدید ترین عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں یہ دعویٰ بھی نہیں کرتا کہ وہ لبنان کی سرزمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں کرسکے گا‘ ہوسکتاہے کہ وہ کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوجائے لیکن ایک منظم اور جدید فوج کو ایک عوامی اسلامی تحریک مزاحمت کے ہاتھوں جو خسارہ برداشت کرنا پڑے گا اسے بھی پوری دنیا دیکھے گی‘‘۔ حسن نصراللہ اس انٹرویو میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے بھی مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ تمھاری تلواریں ہمارے ساتھ ہوں بلکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ تمھارے دل ہمارے ساتھ ہوں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں چھوڑ دو‘ ہمارا راستہ نہ روکو‘ ہمارے دشمن کا ساتھ نہ دو‘‘۔ وہ اس تجزیے یا الزام پر بھی بے حد کبیدہ خاطر تھے کہ حزب اللہ کی کارروائی ایران یا شام کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ انھوں نے تلخی سے کہا کہ ’’یہ نری بکواس اور اپنی جانوں پر کھیلنے والے مجاہدین کی توہین ہے۔ ہم ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے بچوں اور اہلِ خانہ سمیت یہودیوں سے قتال کر رہے ہیں۔ اسے کسی ایک یا دوسرے ملک سے مربوط کر دینا ذلت کی انتہا ہے‘‘۔
جس روز حسن نصراللہ کا یہ انٹرویو بیروت سے آرہا تھا‘ اسی روز فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہّ غزہ کی جامع مسجد میں خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اسرائیل کی اس جنگ اور ریاستی دہشت گردی کا ہدف تحریکِ مزاحمت کا خاتمہ ہے۔ وہ فلسطین میں بھی مزاحمت کی کمر توڑنا چاہتا ہے اور لبنان میں بھی عوام کی ہمت اور ارادے کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ پورے خطے میں ہنگامہ برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں ایسا سیاسی نقشہ تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں اسرائیل پورے خطے پر حاوی اور مسلط ہو‘‘۔ اسماعیل ھنیہّ نے مشرق وسطیٰ کی پوری جنگ کو تین اسرائیلی قیدیوں کی گرفتاری سے منسلک کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صہیونی جارحیت اس واقعے سے پہلے بھی جاری تھی اور وسیع تر صہیونی جارحیت کا منصوبہ بھی پہلے سے تیار تھا‘ اور اس پورے منصوبے کو امریکی انتظامیہ کی براہ راست سرپرستی اور مدد حاصل ہے‘‘۔
اسرائیلی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اپنے قیدیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناتے ہوئے وہ فلسطین اور لبنان ہی نہیں شام میں بھی اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے‘ اور اگر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں وہ آج سے کم ہتھیار رکھتے ہوئے بھی چھے دنوں میں فتح یاب ہوگئے تھے اور عربوں کی منظم افواج کی قوت خاک میں ملا دی تھی تو لبنان جیسے کمزور ملک اور وہاں بھی صرف ایک عوامی تحریک مزاحمت کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ اس نے تباہی کی آگ بھڑکا دی‘ لیکن ان ۱۰ دنوں کے ایک ایک دن میں سات سات دفعہ زمینی پیش قدمی کی کوششیں کرنے کے باوجود وہ ابھی تک نہ صرف ناکامی کے زخم چاٹ رہا ہے بلکہ اس کے سنسان اور مسلسل میزائلوں کی زد میں آئے ہوئے شہر ماضی سے بہت مختلف مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔
فی الحال یہ کہنا کہ اس جنگ سے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست نیست و نابود ہوجائے گی‘ شاید ایک جذباتی بات ہوگی۔ لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ اپنی تمام تر سطوت کے باوجود اسرائیل اس وقت ایک کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کی سب سے واضح دلیل اسرائیلی عوام کی طرف سے بڑھتے ہوئے یہ مطالبات ہیں کہ غزہ اور دیگر گنجان فلسطینی آبادیوں سے صہیونی فوجیں نکال لی جائیں۔ ہمیں یک طرفہ طور پر ہی فلسطینیوں سے حتمی معاہدہ کرتے ہوئے اور ان کے کچھ علاقے خالی کرتے ہوئے اپنی اُونچی اُونچی فصیلوں میں گھرے علاقوں میں محصور ہوجانا چاہیے۔ اگرچہ یہ صہیونی عفریت پر مبنی فصیل بذاتِ خود ان کی کمزوری‘ خوف اور ناکامی کی علامت ہے‘ لیکن شامت کے ماروں کو یہی آخری پناہ نظر آرہی ہے۔ چند روز کے فرق سے ایک نہیں تین فوجیوں کی گرفتاری بھی یقینا ممکن نہ ہوتی اگر صہیونی فوجوں کی ذلت کے دنوں کا آغاز نہ ہوتا۔
صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کا عسکری تجزیہ نگار الیکس فیشمان ۲۱جولائی ۲۰۰۶ء کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے سامنے صرف دو سے تین ہفتے ہیں کہ وہ کوئی سیاسی مقاصد حاصل کرسکے۔ اس کے بعد عسکری حقائق سیاسی مقاصد کی تکمیل نہیں کرنے دیں گے… ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ لبنانی ہمارے حملے کا اوّلین صدمہ برداشت کرچکے ہیں… اب ایک ہفتہ باقی ہے اگر ہم اس میں کاری ضربیں لگانے اور زمینی پیش قدمی میں کامیاب ہوگئے تو پھر دشمن سے مفید سودے بازی ہوسکے گی‘‘۔
صہیونی حکومت جن نکات پر بات چیت اور مذاکرات کرنے کے لیے تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۱۹ جولائی کے اخبار الشرق الاوسط کے نمایندے نظیر مجلی نے تل ابیب سے اپنی رپورٹ میں ان کی تفصیل بتائی ہے۔ مجلی کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کے پیش نظر‘ چھے مطالبات ہیں: ۱- تین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی‘ ۲- حزب اللہ کی طرف سے میزائل حملوں کی بندش‘ ۳- لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں کا اختتام‘ ۴- گرفتار شدہ فلسطینی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی رہائی (ان میں وہ ارکان پارلیمنٹ شامل نہیں جو ان واقعات سے پہلے گرفتار ہوئے تھے)‘ ۵-جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے دستوں کا مکمل انخلا اور ان کی جگہ لبنانی فوج کی تعیناتی‘ ۶-اسرائیل اور لبنان میں سیاسی مذاکرات۔ اس پورے عمل میں اس بات کا التزام کیا جائے گا کہ حسن نصراللہ یا حزب اللہ فاتح کی حیثیت سے سامنے نہ آسکیں۔
اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سابق سربراہ گیورایلانڈ نے ایک بڑے عبرانی اخبار یدیعوت احرونوتکو ۱۸ مئی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ لبنانی حکومت کے ساتھ ایسی سختی نہ دکھائے کہ وہ کسی ذلت آمیز معاہدے پر مجبور ہوجائے کیونکہ اس صورت میں پھر ساری عوامی حمایت و تائید حزب اللہ جیسے مسلح دھڑوں کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔ انھوں نے مذاکرات و معاہدے کی جو شرائط تجویز کی ہیں ان میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۵۵۹ کے تحت حزب اللہ اور دیگر مسلح تنظیموں کو غیرمسلح کرنا‘ انھیں جنوبی لبنان سے بے دخل کرنا‘ لبنان اور اسرائیل کے درمیان تمام تر سرحدی تنازعوں کا خاتمہ کرنا اور لبنان و اسرائیل کے قیدیوں کا تبادلہ کرنا جیسے نکات شامل ہیں۔ گویا صہیونی ریاست میں عوام سے لے کر خواص تک ۱۰ روزہ لڑائی کے بعد‘ ایک ہی بات پر سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جان چھڑائی جائے‘ مذاکرات کیے جائیں۔
المیہ یہ ہے کہ ان مجوزہ شرائط اور مذاکراتی نکات میں وہ کہیں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کرتے۔ لبنان پر تباہ کن بم باری کے دوران نابلس‘ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں میں جس وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا ہے دنیا کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے دی گئی۔ تین صہیونی قیدیوں کی بات کو جنگ کابہانہ ثابت کرتے ہوئے صہیونی وزیرخارجہ لیفنی کہتی ہیں: ’’حزب اللہ کو مارنے کے لیے اسرائیلی فوج ہر طرح کی کارروائی کے لیے آزاد ہے‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں اب بھی ۹۸۵۰ فلسطینی قید ہیں جن میں ۳۵۹ بچے اور ۱۰۵ خواتین ہیں۔ خواتین قیدیوں میں سے تین کو حمل کی حالت میں گرفتار کیا گیا اور وہ قید ہی میں بچے جنم دینے پر مجبور ہوئیں۔ صہیونی وزیرخارجہ نہیں بتاتیں کہ ان میں سات قیدی ایسے ہیں جو جیل میں ۲۵برس سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں‘ جب کہ ایک قیدی سعید العتبہ ۲۹ سال سے جیل میں سڑ رہا ہے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں ۱۸۳ فلسطینی قیدی موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں‘ ۷۲ کو بغیر سزا سنائے‘ ۶۹ کو تشدد کرکر کے اور ۴۲ کو بیماری کے بعد کوئی طبی امداد فراہم نہ کرکے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ گرفتار شدگان میں ۴۰ ارکانِ پارلیمنٹ ہیں جن میں سے ۲۷ کو ایک اسرائیلی فوجی کی گرفتاری کے بعد گرفتار کیا گیا‘ جب کہ ۱۳ نے جیل ہی سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صرف تحریکِ انتفاضہ کے دوران فلسطینیوں میں سے ۵۰ہزار افراد کو مختلف اوقات میں جیلوں کی یاترا کروائی گئی لیکن شاید یہ ۵۰ہزار انسان نہیں‘ اسرائیلی نصابی کتابوں کے مطابق کیڑے مکوڑے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی جنگ کیا نتائج دکھائے گی؟ یہ غیب پر مشتمل مستقبل ہے۔ لیکن جو نتائج اب تک سامنے آچکے ہیں‘ امریکا اسرائیل اور ان کے مسلم حکمران حواریوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ وہ مسلم اُمت کو شیعہ سنی‘ عربی عجمی‘ یا کسی بھی علاقائی و لسانی عصبیت کی بھینٹ چڑھانے کی لاکھ کوشش کرلیں‘ وقت اسے ہر بار یک جا و متحد کردیتا ہے۔ اب موریتانیا سے ملائیشیا تک ایک عرب شیعہ لیڈر سید حسن نصراللہ مسلم عوام کے ہیرو کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ جس لیڈر نے بھی جہاد کا علَم تھاما‘ جہاد کے خلاف تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اُمت مسلمہ نے اس رہنما کو محبت اور احترام سے دیکھا‘ خواہ وہ اس کے طریق عمل سے ناواقف یا متفق نہ بھی ہوں۔ انھوں نے دیکھا کہ دنیا میں دولت‘ دھونس‘ دھمکیوں اور دہشت گردی ہی سے معرکے جیتے نہیں جاتے‘ جذبۂ ایمانی‘ اخلاص اور قربانی بعض اوقات خود سے کئی گنا بڑے اژدہے کوبے بس و ہلاک کردیتی ہے۔ حسن نصراللہ انٹرویو میں کہہ رہے تھے: ’’ہمارے ساتھی اس معرکے کو یہودیوں کے ساتھ اُمت کا آخری معرکہ سمجھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی لوگ اس پر ملول ہیں کہ انھیں ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ فیصلہ کن معرکہ ختم ہوجائے اور پھر ہم کبھی بھی شہادت کی منزل نہ پاسکیں‘‘۔ کیا یہ عزم و احساس امریکا‘ اسرائیل اور ان کے حواری حکمرانوں کو آج سے مختلف مستقبل کی خبر دیتا ہے!
خلیجی ریاستوں میں صرف کویت اور بحرین ہی دو ریاستیں ایسی ہیں جہاں پارلیمنٹ قائم ہے اور باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں بھی کویتی پارلیمنٹ زیادہ مستحکم‘ جان دار‘ قدیم اور خودمختار ہے۔ اگرچہ یہاں بھی فیصلہ کن اختیارات امیر اور آلِ صباح خاندان کے پاس ہیں۔ معمول کے مطابق کویت کے عام انتخابات ۲۰۰۷ء کے اوائل میں متوقع تھے لیکن پارلیمنٹ اور کابینہ میں دستوری اصلاحات کے حوالے سے اختلافات اتنے گمبھیر ہوگئے کہ امیر نے اسمبلی توڑ دی اور فوری انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔
ان اختلافات کے دوران ہی اسلامی ذہن رکھنے والے اور اصلاح پسند ارکان کا ۲۹ رکنی گروپ سامنے آیا اور ۵۰ رکنی ایوان میں اپوزیشن کی تعداد حکومتی ارکان سے بڑھ گئی۔ انتخابات میں بھی اس پورے گروپ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی تعداد ۲۹ سے بڑھ کر ۳۵ ہوگئی جن میں سے ۱۸اسلامی ذہن رکھنے والے ہیں۔ ان ۱۸ میں سے نو ‘گویا نصف الحرکۃ الاستوریۃ‘ یعنی اخوان المسلمون سے ہیں‘ دو کا تعلق ایک سلفی تحریک سے‘ دیگر دو کا تعلق ایک دوسرے سلفی گروپ سے‘ چھے شیعہ تحریک سے وابستہ ہیں‘ جب کہ چھے آزاد ہیں (دستوری تحریک کے نام سے چھے ارکان منتخب ہوئے‘ جب کہ ان کے تین ارکان آزاد حیثیت سے جیتے)۔ کل انتخابی حلقے ۲۵ تھے‘ جب کہ ہر حلقے سے دو امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ کل امیدوار ۲۲۵ تھے اور خواتین امیدواران کی تعداد ۲۷تھی۔
انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے خود ارکان اسمبلی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جیت کے پیچھے نصرتِ خداوندی کے بعد سب سے زیادہ عمل دخل باہمی مفاہمت اور تعاون کا ہے۔ سب اسلامی عناصر نے ایک دوسرے کے ووٹ تقسیم کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سب نے اس کے ثمرات سمیٹے۔
کویتی انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج پیسے کا استعمال تھا۔ لوگ کھلم کھلا ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں ووٹ کی قیمت بینروں پر آویزاں کردی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس چھوٹی سی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کم از کم ایک ارب ڈالر لگ جاتے تھے‘ یعنی ۶۰ ارب روپے سے بھی زیادہ‘ جب کہ کویت میں ووٹروں کی کل تعداد ۳ لاکھ ۴۰ ہزار ہے۔ اس بار کویت کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بھی ووٹ کا حق حاصل تھا اور ان کی تعداد ایک لاکھ ۹۵ہزار‘ یعنی نصف سے بھی زائد تھی (کل آبادی کا ۵۷ فی صد)۔ کئی خواتین نے امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخاب میں حصہ لیا لیکن ان میں سے کوئی بھی رکن منتخب نہ ہوسکی۔
انتخابات کے بعد حکومت کو ایک بار پھر انھی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ تحلیل کی گئی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی اصلاحات‘ پارلیمانی اکثریت رکھنے والوں کو تشکیل حکومت کا حق دینے کے علاوہ مختلف حکومتی اداروں میں مالی اور معاشرے میں اخلاقی کرپشن کا علاج جیسے مسائل آیندہ پارلیمنٹ کا اصل امتحان ہوں گے۔
ترکی‘ مراکش‘ الجزائر‘مصر اور فلسطین کے بعد اب کویت میں اسلامی نظام کے علم برداروں کی جیت اُمت کے اصل انتخاب و پسند کا واضح اعلان ہے۔ کویت جہاں عراق کے قبضے کے خاتمے کے بعد امریکی تسلط کا راز اب راز نہیں رہا‘ جہاں دینی مدارس میں پروان چڑھنے والی نسلوں کی کوئی فصل نہیں پائی جاتی‘ جہاں معاشی مسئلہ کوئی بحرانی حیثیت نہیں رکھتا‘ جہاں تعلیم کے تناسب میں مسلسل اور تیز تر اضافہ ہوا ہے__ اسی کویت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ مستقبل یقینا اسلام اور حقیقی اسلام کا ہے!
سوڈان کے مغربی علاقے ’دارفور میں نسل کشی‘ روکنے کے نام پر اچانک امریکا میںباقاعدہ مہم شروع ہوگئی ہے۔ اپریل کے آخر میں واشنگٹن میں ’دارفور بچائو‘ مظاہرہ کیا گیا۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ’کچھ نہ کچھ‘ کیا جانا چاہیے۔ ’انسانیت دوست طاقتوں‘ اور امریکی امن دستوں کو فوری طور پر نسل کشی روکنے کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اقوام متحدہ یا ناٹو کی افواج نسل کشی روکنے کے لیے استعمال کی جانا چاہییں۔ امریکی حکومت کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ دوسرا ہولوکاسٹ نہ ہونے دے۔ ذرائع ابلاغ اجتماعی عصمت دری کی کہانیوں اور پریشان حال مہاجرین کی تصویروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ حکومت سوڈان کی پشت پناہی سے عرب ملیشیا ہزاروں لاکھوں افریقیوں کو قتل کر رہی ہیں۔ جنگ مخالف مظاہروں میں بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ عراق سے نکلو‘ دارفور جائو۔ نیویارک ٹائمز میں پورے پورے صفحے کے اشتہاروں میں یہی کچھ کہا جا رہا ہے۔
اس مہم کے پیچھے کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ عیسائی مذہبی تنظیمیں اور بڑے بڑے صہیونی گروپ اس کے پیچھے ہیں۔ اپریل کے مظاہروں کے لیے جو اشتہار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا وہ ۱۶۴ تنظیموں کا مشترکہ اشتہار تھا جس میں صہیونی تنظیموں کے علاوہ وہ سب تنظیمیں شامل تھیں جو بش انتظامیہ کے عراق پر حملے کی زبردست حامی تھیں۔ سوڈان سن رائز (Sudan Sunrise)نے مقررین کا اور جلسوں کا انتظام کیا‘ فنڈ جمع کیے اور ۶۰۰ افرادکو عشائیہ دیا۔ مظاہرے سے پہلے منتظمین کی صدربش سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ مظاہرے میں ایک لاکھ افراد کی شرکت متوقع تھی‘ صرف ۵/۷ ہزار آئے لیکن ذرائع ابلاغ نے فراخ دلی سے اسے ہزاروں کہا۔ کم تعداد کے باوجود میڈیا میں اس کی بڑی بڑی خبریں دی گئیں۔ ایک دن پہلے کے ۳لاکھ افراد کے جنگ مخالف مظاہرے کے مقابلے میںاس کی خبریں زیادہ نمایاں دی گئیں۔ سارا زور اس پر ہے کہ دارفور بچانے کے لیے مداخلت کی جائے۔
ان مظاہروں سے امریکا کی سامراجی پالیسی کے کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے عرب اور مسلمان مزید بدنام ہوتے ہیں۔ امریکا لاکھوں عراقیوں کو قتل اور معذور کر رہاہے اور فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی جو حمایت کر رہاہے‘ اس سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
سوڈان میں امریکا کی اتنی زیادہ دل چسپی کی وجہ کیا ہے؟ یقین کیا جاتا ہے کہ سوڈان میں سعودی عرب کے برابر تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گیس‘ یورینیم اور تانبے کے ذخائر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔
سعودی عرب کے برعکس سوڈان نے امریکا سے آزاد موقف اختیار کیا۔ چین نے سوڈان سے تیل کی ٹکنالوجی میں تعاون کیا ہے اور اس سے بیش تر تیل خرید رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ سوڈان اپنے قیمتی ذخائر کو ترقی نہ دے سکے۔
امریکا کی کوشش ہے کہ پابندیوں کے ذریعے اور مختلف تنازعات میںالجھا کر سوڈان کو تیل برآمد کرنے سے روکے۔ جنوب میں آزادی کی تحریکوں کی دو عشروں تک حمایت کی۔ ایک معاہدے کے بعد وہاں سکون ہوا‘ تو دارفور کا مسئلہ شروع کردیا گیا۔
امریکی میڈیا دارفور کے مسئلے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیساکہ سوڈانی حکومت کی حمایت سے عرب افریقیوں پر مظالم کر رہے ہیں۔ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ دارفور کے سارے باشندے خواہ انھیں عرب کہا جائے یا افریقی‘ سیاہ فام ہیں‘ مقامی ہیں‘ سب عربی بولتے ہیں‘ سب سنی مسلمان ہیں۔ چراگاہوں اور پانی کے چشموں کی ملکیت پر شروع ہونے والے جھگڑے اس قدر پھیل چکے ہیں کہ ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ قبائلی جھگڑے بڑھانے میں پڑوسی ممالک بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ (سارا فلائونڈرز‘ ریسرچ اسکالر‘ سنٹرفار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کی رپورٹ سے ماخوذ)
سوال: احادیث میں جان دار اشیا کی مصوری کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے‘ مگر تصویر‘ فوٹوگرافی‘ وڈیو کیمرے آج کل کے دور کا لوازمہ بن گئے ہیں۔ بالغ حضرات کی بات تو ایک طرف‘ بچوں کو لغویات اور فضولیات سے بچانے کے لیے اور ان کی شخصیت میں مثبت عادات کو فروغ دینے کے لیے مطالعے کی عادت ڈالنے اور کہانیوں اور واقعات کے ذریعے سے انھیں مختلف باتیں سمجھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رنگ و روشنی سے بھری یہ دنیا‘ جس میں ہم رہتے ہیں‘ بچہ سفید اور کالی کتابوں کو اٹھانا تک نہیں چاہتا۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ سوالات اُبھرتے ہیں۔
۴ - ۱۰ سال کی عمر کے بچوں کے لیے مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کون سی درست ہے: کتاب میں کوئی تصویر نہ ہو‘ بچوں کو باور کرایا جائے کہ مسلمان بچہ بس یہی کتابیں پڑھ سکتا ہے؟ تصویریں تو دی جائیں مگر چہرے کو پوری طرح نہ دکھایا جائے اور حتی المقدور انسانی شکل دینے سے گریز کیا جائے‘ یعنی اطراف سے یا پشت سے تصویر دی جائے یا تصاویر بنانے کی پوری پوری آزادی حاصل ہو؟
سوال یہ ہے کہ اگر کتاب میں کوئی تصویر بھی نہ ہو اور نصیحت بھی ہو‘ ساتھ میں بہت سے دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوئوں کو نظر میں رکھ کر کتاب لکھی جائے‘ توکیا وہ خشک اور سادہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکے گی؟ اگر دوسری شکل کو اختیار کیا جائے تو برابر دل میں کھٹک رہتی ہے کہ مصور کے لیے سخت ترین عذاب والی وعید کو سامنے رکھا جائے یا پھر حضرت عائشہؓ کے گھوڑے کے پروں والی حدیث اور گڑیوں کے ساتھ کھیلنے والی احادیث کو اختیار کیا جائے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کارٹونوں کے کردار جو اب بچوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں‘ وہ کلیتاً غلط ہیں یا پھر ان میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟ غلط کہنے والے اس کی یہ دلیل لاتے ہیں کہ کیا آپ اللہ کی تخلیق کے مقابلے میں اپنی تخلیق پیش کر رہے ہیں؟ درست کہنے والے یہ حجت قائم کرتے ہیں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مماثلت کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ہمارے لیے اس تناظر میں کیاہدایت ہے؟ مثلاً اگر بچوں کو گندی اور غلیظ چیزوں سے بچانے کے لیے جرثومے کی کارٹون شکل بنائی جائے تو کیسا ہے؟ عہدحاضر کے تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی فرمایئے۔
جواب: مصوری‘ فوٹوگرافی‘وڈیو کیمرے سے تصویر محفوظ کرنا یا موبائل فون پر متحرک یا ساکن شبیہہ کا محفوظ کرنا کہاں تک مباح ہے‘ عصری مسائل میں سے یہ ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے جس کا تعلق براہِ راست ان اصلاحات کی عام فہم اور فنی تعریف سے ہے۔ عام فہم انداز میں مندرجہ بالا تمام صورتوں کو فوٹوگرافی کہا جا سکتا ہے لیکن فنی طور پر ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک الگ حیثیت کی حامل ہے۔ سورۂ سبا میں جس مقام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے تماثیل کاذکر آیا ہے اس کی جو تشریح مفسرین اور فقہا نے کی ہے‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جان دار اشیا کی تصویرکشی حرام ہے خواہ مصوری کے ذریعے ہو یا مجسمہ سازی کے ذریعے‘ لیکن غیر جان دار اشیا کی تصویر بنانا حرام نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لیے رنگوں اور خاکوں (sketch یا caricatures) کا استعمال کیا تصویر کی تعریف میں آئے گا‘ یا تدریسی و تعلیمی ذرائع کی حیثیت سے اس پر غور کیا جائے گا؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ نبی کریمؐ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گڑیوں کے استعمال کی اجازت دی‘ اس لیے اسی پر قیاس کرتے ہوئے مسلم سائنس دانوں اور طلبہ نے تشریح الابدان کے زیرعنوان اپنی تحقیقات کو جابجا ایسے خاکوں سے مزین کیا ہے جو اعضاے انسانی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً شمس الدین العناقی اور دیگر اطّباکی تصنیفات۔
تعلیم و تدریس کے حوالے سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شے یا تصور کو متعارف کرانے کے لیے اس کو طلبہ کے سامنے لاکھڑا کرنا ضروری ہوگا‘ یا اس شے کی شبیہہ سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر شعبۂ طب کی تعلیم کے حوالے سے اگر قلب و دماغ کی شناخت اور عمل کو سمجھانے کے لیے یا ہاتھ اور ٹانگ کے جوڑ کے حرکت کرنے کو سمجھانا ہو تو کسی انسان کو طلبہ کے سامنے لاکر اس کے جسم پر نشتر چلا کر جسم کے عضلات اور جوڑوں کو دکھایا جائے‘ یا کمپیوٹر کی مدد سے متحرک تصویر کشی (animation )کرکے نہ صرف ظاہری شکل بلکہ اس کے اندر کے ریشے اور جوڑ دکھا کر اعضا سے آگاہ کیا جائے‘ یا محض نظری طور پر بغیر کسی خاکے اور شبیہہ کے صرف الفاظ کی مدد سے یہ سمجھا دیا جائے کہ قلب اس طرح حرکت کرتا ہے۔ اس میں اتنے خانے ہوتے ہیں‘ اتنے والو (valve) ہوتے ہیں‘ اور پٹھے بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوتے ہیں وغیرہ۔
شریعت اسلامی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد جان کا تحفظ و بقا ہے اور اگر اس مقصد کے لیے قلب ودماغ کی شبیہہ بناکر‘ یا متحرک تصویر کشی کے لیے سہ ابعادہ (three dimensional) شکل دکھا کر تعلیم دینے سے شریعت کا منشا پورا ہوتا ہو اور انسانی جان کے تحفظ میں زیادہ کامیابی کا امکان ہو‘ تو شریعت اس اعلیٰ تر مقصد کے لیے اس عمل کو مباح ہی قرار دے گی۔
اگر ۳-۴ سال کے بچوں کو رنگوں میں فرق کرنا اور اشیا کی ساخت کے بارے میں پہچان پیدا کرنے کے لیے گول اور چوکور کے تصور کو سمجھانا ہو تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ تربوز‘ خربوزہ یا موسمی مالٹے یا فٹ بال کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے‘ اور سرخ‘ عنابی اور گلابی رنگ کی پہچان فلسفیانہ طور پر نظری گفتگو کے بجاے ان رنگوں کی اشیا یا ان کی شبیہہ دکھا کر سمجھا دیا جائے کہ سیب سرخ ہوتا ہے اور گلاب گلابی یا عناب عنابی اور جامن جامنی رنگ کی ہوتی ہے۔
اگر تاریخی حوالے سے یہ بتانا مقصود ہو کہ عاد و ثمود نے کتنی ترقی کی تھی اور ان کے اخلاقی زوال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں کس طرح عذاب دے کر تباہ کر دیا‘ تو قوموں کے عروج وزوال پر ایک فلسفیانہ گفتگو جو کام کرسکتی ہے اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ ان کے محلات کے کھنڈرات کی شبیہہ دکھا کر تحریری یا زبانی طور پر یہ بات کہی جائے کہ وہ پہاڑوں کو کس طرح تراش کر گھر بناتے تھے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے تمام بچوں کو جسمانی طور پر عاد و ثمود کے علاقے میں لے جا کر کھنڈرات دکھائے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاً ایسا کرنا کہاں تک ممکن ہوگا۔
اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی بھی ذی فہم شخص یہ نہیں کہے گا کہ اگر دو کوہان والے اُونٹ کا ذکر کسی قصے میں آ رہا ہو تو قصے کو روک کر بچوں کو چڑیا گھر لے جائیں اور وہاں دو کوہان والے اُونٹ دکھائیں پھر سبق کی تکمیل کریں۔ اس کے مقابلے میں اس کی شبیہہ دکھانا نہ صرف اس کی شکل کی وضاحت کر دے گا بلکہ وقت اور مال کے بے جا استعمال سے بھی بچائے گا۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ محترم مولانا مودودیؒ مرحوم نے تفہیم القرآن میں نہ صرف نقشے بلکہ ان مقامات کی تصاویر بھی تفسیر میں شامل کی ہیں جو عاد و ثمود اور دیگر اقوام کے حوالے سے قرآن کے قانون اور عروج و زوال کے تصورات کی وضاحت اور تفہیم کے لیے ضروری تھے۔
آپ کے سوالات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خاکوں میں کس حد تک وضاحت کی جاسکتی ہے؟ میرے خیال میں اس کا تعلق بھی اس چیزسے ہے کہ خاکوں کے ذریعے کن تصورات کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اگر ایک گول دائرہ بناکر جس پر دو نقطے بطور آنکھوں کے لگے ہوں اور ایک لکیر منہ یا دہانے کی جگہ بنی ہو تو آپ اسے مسکراتا ہواچہرہ قرار دیں‘ اور اسی دائرے میں اگر دو نقطوں کا اضافہ کردیا جائے تو اس طرح آنسوئوں اور رونے کو ظاہر کیا جائے تو مکمل گول چہرے کی مماثلت اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کسی انسانی شکل کے ساتھ نہیں ہوگی۔ میری دانست میں کوئی انسانی چہرہ فٹ بال کی طرح گول یا ایک مربع کی طرح چوکور نہیں ہوتا کہ اسے خالق کی مخلوق سے مماثل کیا جاسکے۔ گویا خاکہ نہ تصویر کی تعریف میں آئے گا اور نہ اسے خالق کی مصوری یا خلاقیت کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا مقابلہ کہا جاسکے گا۔
جہاں تک وڈیو یا مائیکروچپ پرکسی شبیہہ کو محفوظ کرنا ہے وہ دراصل اشاروں (signals) کی شکل میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی تصویر لکیر سے کھینچے ہوئے اپنے خدوخال کی شکل میں وجود میں نہیں آتی‘ اور نہ اس شکل میں محفوظ ہوتی ہے۔ وڈیو میں مقناطیسی طور پر ذرات اور اشاروں میں ترتیب پیدا ہونے سے ناظرین ٹیوب کی مدد سے تین زاویوں سے شبیہہ دیکھتے ہیں جس کا کوئی مستقل وجود نہیںہوتا۔ اس لیے یہ بھی تصویرکشی کی تعریف میں نہیں آتا۔
دوسری جانب میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سے تصورات کوسمجھانے کے لیے خاکوں اور شبیہہ کا استعمال بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے خصوصاً بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس کا استعمال تعلیمی حکمت عملی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے خاکے جوذہن کو عریانیت یا فحاشی کی طرف لے جانے والے ہوں‘ خاکے ہونے کے باوجود حرام قرار پائیں گے۔ اس پوری گفتگو میں ہم نے اس بات سے بحث نہیں کی کہ شبیہہ والے پردے یا پایدان کا استعمال کرنا درست ہے یا غلط‘ بلکہ تعلیمی و تدریسی ضرورت کے حوالے سے اسلام کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
عملی طور پر دیکھا جائے تو بعض معروف اسلامی ادارے اس تصور تدریس پرعمل پیرا ہیں‘ مثلاً اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘ برطانیہ نے بچوں کے لیے جو نصابی اور تدریسی کتب طبع کی ہیں‘ وہ خاکوں سے مزین ہیں۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب تک ایک تدریسی عمل خاکوں کے ذریعے صحت مند ذہن‘ اللہ کا خوف رکھنے والا دل اور نگاہ پیدا کرتا ہے اور بچوں کے ذہن سے شرک و بت پرستی کے تصورات کو رفع کرتا ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں انفرادیت قائم رکھتے ہوئے ایسی کتب طبع کرنا چاہییں جو دوسروں کے لیے مثال بنیں۔ وہ رجحان ساز (trend setter) ہوں اور یہ ثابت کرسکیں کہ بغیر کسی عریانیت یا فحاشی کے خاکوں کا اصلاحی و تعمیری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہم بیٹھک اسکول پروگرام کے تحت غریب بچوں کے لیے پس ماندہ آبادیوں میں اسکول کھول کر ان کی تعلیم و تربیت کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کے حوالے سے ہی صحت و صفائی کا پروگرام بھی ترتیب دیا ہے۔ اس سلسلے کا ایک حصہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں ہیں جو دل چسپ انداز سے صحت و صفائی کی تربیت کرتی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ براہ راست خشک طریقے سے نصیحت کا انداز اختیار کرنے کے بجاے مومو (بھالو) کے دل چسپ کردار کے ذریعے کچھ باتیں بچوں کو سکھا دی جائیں۔ ہمارے ہاں یہ ادبی روایت بھی رہی ہے کہ بزرگوں کے کردار کے ساتھ ساتھ بکری، بلی، ریچھ اور دیگر کرداروں پر کہانیاں لکھی جائیں۔ اب‘ جب کہ ہم ان کہانیوں کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں تو مناسب محسوس ہو اکہ بھالو کے اس کردار پر راے لے لیں کہ اس طرح کے کردار یا تخیلاتی کہانی بنانا دینی نقطئہ نظر سے نامناسب تو نہیں ہے؟
ج: بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا بڑوں کی‘ اس میں اسکیچ یا خاکے کا استعمال میری معلومات کی حد تک طب اور کیمیا کی کتب میں ہمارے علما و فقہا نے کیاہے۔ اگر بچوں کو اسلامی آداب و تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے گھریلو جان داروں یا پرندوں کے خاکے بنا کر کہانیوں کی شکل میں بات ذہن نشین کرنا زیادہ آسان ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔
عام مشاہدہ ہے کہ تعلیمی حکمت عملی میں جدت اور دل چسپی کے لیے جدید ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ان میں عریانی و فحاشی کا کوئی عنصر نہ ہواور وہ خاکے اخلاقی تعلیمات کو بہتر طور پر سمجھانے میں مدد گار ہوں تو ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ گھریلو جان داروں خصوصاً بلی کے حوالے سے انتہائی دل چسپ‘ سبق آموز اور بچوں کی عادتوں کو درست کرنے والی کہانیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ بچے چونکہ بلی یا چڑیا‘ کبوتر‘ طوطے‘ گھوڑے کو زیادہ تواتر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے اس حوالے سے کہانی بھی زیادہ توجہ سے پڑھیں گے۔ مومو اچھا کردار ہے لیکن اس سے واقف ہونے کے لیے یا تو چڑیا گھر جانا ہوگا یا بھالو والے کے گلی میں آکر تماشا کرنے کا انتظار۔
بچوں کے لیے کردار بنانے میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جو کردار بھی پیش کیا جا رہا ہو وہ حقائق سے قریب تر ہو۔ اگر صفائی بنیادی مضمون ہے تو شاید بلی کے حوالے سے یہ بات زیادہ حقیقت سے قریب ہوگی۔ ممکن ہے بعض بھالو بھی ایسی عادت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کہانی میں لڑکی کے لباس اور وضع قطع پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں بچپن ہی سے جو خاکے بچے دیکھتے رہتے ہیں‘ وہ ان کی یادداشت کا حصہ بنتے ہیں۔ دو چوٹیاں بنانا بہت اچھی بات ہے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے‘ لیکن تعلیمی نقطۂ نظر سے بچی کے خاکے میں اسکارف ہونا چاہیے تھا تاکہ اس کے بال چھپے ہوں۔ (۱- ۱)
مسلم علوم و فنون میں علم اسماء الرجال ایک منفرد‘ معتبر اور تاریخِ عالم میں ایک نادر فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ وفیات نگاری‘ ایک اعتبار سے اسماء الرجال ہی کی ایک شاخ ہے۔ عربی‘ فارسی اور اُردو میں وفیات نگاری کی ایک مستحکم روایت ملتی ہے۔ ابن خلکان کی وفیات الاعیان اس سلسلے کی ایک حیرت انگیز اور بے مثال کتاب ہے جو تیرھویں صدی میں تصنیف کی گئی‘ بعدازاں اس کے بیسیوں تکملے اور ترجمے شائع کیے گئے۔ مسلم ذخیرئہ علوم میں‘ اس کے علاوہ بھی فن وفیات نویسی پر بیسیوں کتابیں تالیف اور شائع کی گئیں۔
اُردو میں بھی اس فن پر معدودے چند کتابیں تیار کی گئی ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے اور اس فن پر اُردو میں موجود و مطبوعہ ۱۴ کتابوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی‘ جامع اور مُستند ہے۔ بڑی تقطیع کے تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل زیرنظر وفیات نامہ ۹۸۰۰ نامورانِ پاکستان کے بارے میں حسب ذیل معلومات پر مشتمل ہے: شخصیت کی حیثیت‘ نمایاں عہدہ یامنصب‘ تصانیف‘ ولادت اور وفات کی تاریخیں‘ مقامِ تدفین اور مآخذ۔ نامورانِ پاکستان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ علما‘ ادیب‘ شاعر‘ معلم‘ سیاست دان‘ طبیب‘ کھلاڑی‘ وکیل‘ گویّے‘ پیر‘ صنعت کار‘ کارکنانِ تحریک آزادی‘ صحافی‘ خوش نویس‘ مصور‘ مقرر‘ سماجی کارکن وغیرہ وغیرہ۔
(مصنف نے ’نام ور‘ کے معیار کے لیے مختلف پیمانے استعمال کیے ہیں۔) سیاست دانوں میں سے رکن صوبائی اسمبلی سے کم درجے پر فائز لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ مصنف نے دائرہ کار بھی متعین کر دیا ہے۔ قابلِ ذکر پاکستانی شہری دنیا میں جہاں بھی دفن ہوئے‘ کتاب میں مذکور ہیں۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء تک کی مشرقی پاکستان کی شخصیات بھی شامل ہیں (مگر بھاشانی‘ شیخ مجیب الرحمن‘ قاضی نذرالاسلام کی شمولیت مصنف کے اپنے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی)۔ ہر شخصیت پر ۴ سے ۲۰سطروں تک معلومات دی گئی ہیں۔ مصنف کے بقول بہت سی نام ور مرحوم شخصیات اس لیے شامل ہونے سے رہ گئیں کہ ان کی مستند تاریخ وفات دستیاب نہ ہوسکی۔ ہمارے خیال میں اگر آخر میں ایسی ایک فہرست دے دی جاتی تومطلوبہ معلومات رفتہ رفتہ جمع ہوسکتی تھیں۔
ابتدا میں دو مضامین ’اسلامی ادب میں وفیات نویسی کی روایت‘ (عارف نوشاہی) اور ’اُردو میں وفیات نگاری‘ (مصنف) شامل ہیں۔ مصنف کا مقالہ ۵۶ صفحات پر پھیلا ہوا ہے‘ جس میں انھوں نے اُردو میں ذخیرئہ وفیات نویسی کا نہایت مہارت اور باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور اس موضوع پر شائع شدہ کتابوں کی مختلف النوع کمیوں‘ کوتاہیوں اور غلطیوں کی بجا طور پر نشان دہی کی ہے۔ یہ جائزہ بجاے خود ایک نہایت عمدہ تحقیقی مقالہ ہے۔
مصنف پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے وقت نکال کر اس نوعیت کا کام انجام دینا‘ ایک بہت بڑی مہم سر کرنے کے مترادف ہے۔ اسے دیکھ کر بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کس قدر خونِ جگر صرف کیا ہوگا۔ بلاشبہہ وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں‘ ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ایک پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی تربیت میں بطور رول ماڈل ان کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے اس حوالے سے عربی کتب کے تراجم بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مواد خالد محمد خالد کی عربی کتاب رجال حول الرسول سے ماخوذ ہے لیکن نظرثانی کرتے ہوئے اصلاح و ترمیم اور اضافہ‘ نیز عبدالرحمن رافت پاشا کی کتاب صور من حیات الصحابہ کی آمیزش کے بعد‘ بقول مؤلف: اب یہ کتاب کا ترجمہ نہیں رہا ہے‘ یعنی ایک نئی کتاب بن گئی ہے۔
اس کتاب میں ۵۵ صحابہ کرامؓ کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ تذکرے نہ صرف تزکیۂ نفس اور تربیت قلوب کاباعث ہیں بلکہ عمل کے راستے پر رواں دواں اور تیزگام کرنے کا باعث ہیں۔ ہر انسان کی عملی زندگی میں بے شمار موڑ آتے ہیں جہاں اسے کسی راہبر کی تلاش ہوتی ہے۔ زمانہ کتنا ہی بدل گیا ہو‘ لیکن انسان کے فیصلے جن بنیادوں پر ہوتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ایسے ہی مواقع پر انسان کو رہنمائی دیتی ہیں۔
تحریر کا انداز دل چسپ اور منظرنگاری کا ہے۔ یہ اسلوب قاری کو اپنے میں جذب کرلیتا ہے اور دورانِ مطالعہ آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ کتاب ایک دفعہ ہاتھ میں لی جائے تو آدمی پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پڑھنے والا کچھ دیر کے لیے اپنے کو دورِ صحابہؓ میں محسوس کرتا ہے۔
تذکرہ تابعین کے بعد نقوشِ صحابہؓ ، اب سیرتِ رسولؐ پر کسی ایسے ہی ’ترجمے‘ کا انتظارہے! (عمران ظہور غازی)
اس کتاب میں مختلف جرائد و رسائل سے نومسلم حضرات و خواتین کے قبولِ اسلام اور رجوع الی القرآن کے واقعات جمع کرکے اُردوقارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیا گیا ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے کئی اہم نکات اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اہلِ مغرب کے ہاں بالعموم اسلام کی تصویر نہایت مسخ کر کے پیش کی گئی ہے جو بہت سی غلط فہمیوں کا باعث ہے۔ زیادہ تر نومسلم‘ عیسائیت کی سختی‘ متشددانہ‘ غیرعقلی اور غیرفطری تصورات سے باغی ہوکر‘ اسلام کی طرف راغب ہوئے‘ یا اسلام کی فطری اور عقلی تعلیمات اُن کے لیے باعثِ کشش ثابت ہوئیں۔ قبولِ اسلام کاایک اہم ذریعہ براہِ راست قرآن مجید کا مطالعہ بھی ہے۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کے کردار اور اخلاقی برتری بھی قبولِ اسلام کی ترغیب کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایک اہم ذریعہ انٹرنیٹ بھی ہے جہاں سے لوگ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔
دونوں کتب میں مرد و خواتین کے بہت سے ایمان افروز واقعات‘ نومسلموں کو درپیش مسائل اور اسلام کے لیے صبرواستقامت کے مظاہروں کا تذکرہ تازگیِ ایمان کا باعث ہے۔ اہلِ مغرب معاشی آسودگی اور پُرتعیش زندگی کے باوجود ایک بے سکونی اور عدمِ اطمینان کا شکار ہیں۔ یہ پیاس انھیں اسلام کو جاننے کی ترغیب کا ذریعہ بھی ہے۔ اُمت مسلمہ بالخصوص دعوت دین سے وابستہ جماعتوں‘ اداروں اور مبلغینِ اسلام کا فریضہ ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دعوتی حوالے سے اس پہلو پر خصوصی توجہ دعوت دین کا ایک اہم تقاضا ہے۔
اچھا ہوتا اگر اُن کتب ورسائل کے حوالے بھی دیے جاتے جن سے یہ تاثراتی مضامین لیے گئے ہیں۔ نوجوان طلبا و طالبات‘ اساتذہ کرام اور دعوتی کام کرنے والے حضرات کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (احمد رضا)
اُردو میں قابلِ ذکر اور معیاری خود نوشتوں کو شمار کرنے لگیںتو تعداد شاید درجن سے آگے نہ بڑھے گی۔ ایک مدت کے بعد ایک قابلِ مطالعہ آپ بیتی ذوقِ پرواز کے نام سے منصہ شہود پر آئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ ایوانِ صدر سے نیچے کی سمت مشاہدات پر مشتمل تھی تو محمدصدیق کا سفر نشیب سے فراز کی طرف ہے۔ وہ باقاعدہ ادیب نہیں ہیں‘ لیکن ان کی تحریر میں بے ساختگی کا عنصر بہت سے ادیبوں کے مقابلے میں نمایاں ہے۔ خواندنی (readibility) کے اعتبار سے یہ کتاب اعلیٰ سطح کی حامل ہے۔
مصنف کا سفر ایک کلرک کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور وہ اپنی محنت‘ دیانت اور مستقل مزاجی کے بل بوتے پر زینہ بہ زینہ قدم اٹھاتے ہوئے ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکائونٹس‘ ڈائرکٹر فنانس واپڈا‘ پرنسپل واپڈا اکائونٹس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور یو ایس ایڈ کنسلٹنسی پراجیکٹ کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے بہت سے واقعات بڑی ذمہ داری سے بیان کر دیے ہیں۔ پرائمری اسکول کے اساتذہ کا ذکر حددرجہ محبت اور احترام سے کیا گیا ہے۔ اس سے ماضی کی معاشرتی اقدار اور رہن سہن کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
مصنف کی ساری زندگی اعلیٰ اقدار اور شان دار روایات سے منور ہے۔ ایک دیانت دار اور متقی شخص بھی اولاد کی محبت کے سامنے اکثر اوقات ڈگمگا جاتا ہے۔ مصنف اس آزمایش میں بھی سرخ رُو نکلے ہیں۔ محمد صدیق صاحب حالات کے سامنے سرجھکانے کے بجاے اپنے عزم اور توکل کی قوت سے سربلند رہے ہیں۔ اس کتاب کی دو خصوصیات بے حد متاثر کرتی ہیں: ایک تو والدین کے ادب و احترام کی خوب صورت مثالیں‘ دوسرے: جذباتی زندگی کا احتیاط کے ساتھ بیان‘ ایسا عمدہ اور متوازن بیان شاید ہی کہیں ملے۔
ذوقِ پروازکے مطالعے سے ایک تو ذہنی اُفق وسیع ہوتا ہے دوسرے‘ کردار سازی میں اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ معاشرتی انتشار اور پریشان کن مسائل سے بھرپور زندگی میں یہ اُمید کا پیغام اور عمل کے لیے مہمیز ہے۔ (خالد ندیم)
لوگوں میں رجوع الی اللہ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اسماے حسنیٰ کے ذکر کا اہتمام بڑھ رہا ہے۔ جیبی سائز میں خوب صورت رنگارنگ اور مختصر کتابچے شائع کیے جا رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس ضمن میں منفرد کام ہے۔ یہ اسماے حسنیٰ سے معرفت الٰہی کا شعور عام کرنے کی سعی ہے۔ اسماے حسنیٰ کے لغوی و اصطلاحی معنی‘ اسماے حسنیٰ پر مبنی قرآنی آیات‘ احادیث اور ائمۂ کرام کے اقوال کی روشنی میں تشریح کی گئی ہے۔ نیز حوالوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ استحضار اور یقین کے لیے اسماے حسنیٰ کی تاثیر پر مبنی واقعات و تجربات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ہر اسم کی خصوصیات سے متعلق مفید اذکار اور دعائیں اور تعلق باللہ بڑھانے کی تدابیر بھی درج ہیں۔ اسماے حسنیٰ پر یہ مفصل و جامع مطالعہ خدا کی حقیقی معرفت اور شعوری ذکر کی ترغیب کا باعث ہے۔ مؤلف اور ان کے رفقا نے جس عرق ریزی سے تحقیق و تخریج کا کام انجام دیا‘ وہ قابلِ تحسین ہے۔ (امجد عباسی)
انجینیرعبدالمجید انصاری نے قرآن و حدیث میں مذکور ایسے مضامین اور باتوں کو جو تین کی تعداد رکھتے ہیں‘ اس کتاب میں یک جا کردیاہے۔ محدثین کی اصطلاح میں اگرچہ ’ثلاثیات‘ سے مراد ایسی احادیث ہیں جو صرف تین واسطوں سے مؤلفین کتب حدیث تک پہنچیں‘ تاہم اس کتاب کے مضمون پر بھی یہ نام خوب صورت محسوس ہوتا ہے۔
اس کتاب کو ان آیات و احادیث کا انسائی کلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے جن میں تین امور کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن میں خود حضوؐر نے تین کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ تین باتیں بیان کیں لیکن ایک بڑی تعداد ان آیات و احادیث کی ہے جن میں تین کا عدد تو مذکور نہیں لیکن ان میں تین باتیں مذکور ہیں جیسے بسم اللہ میں تین اسما___ اللہ‘ رحمن اور رحیم اور سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیات میں تین صفات باری کا ذکر۔ اس طرح مضامین کی ثلاثیات کی تلاش میں مؤلف نے اجتہادی کوشش کی ہے اور ان باتوں کو جمع کیا ہے جن پر عمومی نظر نہیں پڑتی۔ اس اجتہادی کوشش میں بعض مقامات پر تکلف بھی محسوس ہوتا ہے۔ تمام آیات و احادیث کے ساتھ اس کے آسان اور سلیس ترجمے نے اسے استفادے کے لیے عام فہم اور عربی متن اور حوالوں سے مزین آیات و احادیث نے اس کی استنادی حیثیت کو معیاری بنا دیا ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
سیرت رسول پاکؐ کے دعوتی پہلوئوں پر ۵۰ مختصر تحریروں کا یہ مجموعہ اتباع رسولؐ کے خواہش مند کسی فرد کو عملی زندگی کے متنوع گوشوں کے لیے قیمتی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ صلۂ رحمی‘ ایثار‘ سادگی‘ نظافت طبع‘ دلوں کی نرمی‘ ملازم سے تعلق‘ عورتوں کی حدودِکار‘ دعوت کااسلوب موضوعات میں سے چند ہیں۔ اسلوب سہل‘ دل چسپ اور اس مقصد کے لیے نہایت مناسب ہے۔ اس کتاب سے رسولؐ اللہ کی زندگی کی ایک چلتی پھرتی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے اور محبت و عقیدت سے بھرپور اطاعت کے لیے مختلف انسانی حیثیتوں میں آپؐ کا اسوئہ مبارک معلوم ہوجاتاہے۔ (مسلم سجاد)
ایک دردمند پاکستانی منصور علی خاں کے مقالات کا مجموعہ جس میں خواندگی‘ معیشت‘ نظامِ عدل اور معاشرتی حالات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر اسلامی نقطۂ نظر سے حل پیش کیا گیا ہے۔ رجوع الی الدین ہی شاہِ کلید ہے جس سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ آخری باب میں انھوں نے ۲۴ تجاویز پر مشتمل ایک لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ کتاب کا اُردو ترجمہ پہلے شائع کیا گیا ہے۔ انگریزی میں کتاب ابھی شائع ہونا ہے۔ (م - س)
’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) میں آپ نے متبادل اسلامی اقتصادی نظام پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ یقینا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اس دور میں پہلی ترجیح اسلامی مالیاتی نظام ہونا چاہیے اور کسی بھی کش مکش میں اسے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا اور جی چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور ہم مفلوک الحال پاکستانی عوام اس میں سما جائیں۔ حکمرانوں کی ان تمام تر شاہ خرچیوں اور اللّوں تللّوں سے یہ بات عیاں ہے کہ اب یہ ملک عوام الناس کے لیے نہیں بلکہ صرف اشرافیہ‘ طبقۂ امرا اور حکمرانوں کے لیے باقی رہ گیا ہے۔ شاید پاکستانی قوم کے اجتماعی و انفرادی گناہوں اور بداعمالیوں کی سزا کے طور پر موجودہ حکمران ایک عذاب کے طور پر مسلط کردیے گئے ہیں۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ نے موجودہ حکمرانوں کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ یاد رہے کہ برا وقت ہمیشہ دبے پائوں آتا ہے اور کھلی آنکھوں کو پتا ہی نہیں چلتا۔ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے ’روشن خیال‘ اور ’اعتدال پسند‘ حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ’مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) اجتہاد کے موضوع پر جامع تحریر ہے۔ آج جس طرح سے مغرب زدہ دانش ور اسلام کی تعبیرجدید کے نام پر اسلام کو مسخ کرنے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں‘ اس پر صحیح گرفت کی گئی ہے۔
’غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں‘ پڑھ کر محسوس ہوا کہ ہمارا مسئلہ اقتصادی ہی نہیں بلکہ ہمیں اخلاقی بحران کا بھی سامنا ہے۔ بحیثیت مجموعی قوم کی اخلاقی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں۔ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے بھی عوام کو بلند اخلاقی کردار سے لیس کرنا ناگزیر ہے۔
’نومسلم کی سرگزشت‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ)‘ محترم حسن علی کی نہایت ایمان افروز داستان ہے اور اس میں ایک موروثی مسلمان کے لیے عبرت کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں۔ ’امریکی معاشرہ: ایک سابق صدر کی گواہی‘ گویا گھرکے فرد کی گواہی ہے۔ اس سے امریکی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ کی کمی محسوس ہوئی۔
’نومسلم کی سرگزشت‘ ایمان افروز بھی ہے اور ایمان پرور بھی۔ یہ روداد راوی کے حق میں یقینا حجت ثابت ہوگی اور عوام الناس کے حق میں اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے‘ ایمان جیسی بیش قیمت متاع کی حقیقی قدر پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
نومسلم کی ایمان افروز سرگزشت پڑھ کر یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرا ہے کہ جب نومسلم خاندان ۱۲برس کی طویل جاںگسل آزمایش سے گزر رہا تھا تو امرت سر کے مسلمانوں کا کیا کردار رہا؟ کیا ان کا کام قبولِ اسلام پر محض پرجوش نعرے بلند کرنا اور تحفظ کے لیے ڈی سی کو درخواست کرنا تھا‘ یا آگے بڑھ کر اپنے نومسلم بھائیوں کی ہرطرح سے مدد کرنا اور ان کے تالیفِ قلب کا سامان کرنا تھا!
’نومسلم کی سرگزشت‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) کی اشاعت کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ خدا تعالیٰ میرے اس جذبے کو شرفِ قبولیت بخشے اور لوگوں کے لیے باعث تحریک ہو۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا مضمون (ملخص) نظر سے گزرا (جولائی ۲۰۰۶ئ)‘ جنھوں نے اپنے معاشرے یا امریکی حکومت کے خلاف گواہی دینے کی بے معنی کوشش کی ہے۔ ان صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں ظلم کی جن راہوں کو کشادہ کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ بظاہر یہ ناصحانہ تحریر عام لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کارٹر بنیادی طور پر ویسا ہی قدامت پرست پادری ہے‘ جیسا تشددپسند پادری جارج بش ہے۔ یہ صاحب گذشتہ ۲۵ برس سے انڈونیشیا کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے وہاں ڈیرا جمائے بیٹھے ہیں۔ مغرب کے قول و فعل کے تضادات اور انسانیت کُش پالیسیاں خود بے حجاب ہیں۔ ایسے ظالموں کی گواہی کچھ وزن نہیں رکھتی بلکہ اس طرح پیش کرنے سے خود ان کا داغ دار چہرہ کچھ صاف ہونے لگتا ہے‘ جس سے بچنا چاہیے۔
ماہ جولائی کا شمارہ اتنا بھرپور اور متاثر کن ہے کہ ع کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا است (ہر خوبی دامن دل کھینچتی ہے کہ یہی مقام بہترین مقام ہے)۔ ملکی احوال‘ عصری مسائل‘ فکری رہنمائی‘ تزکیہ و تربیت اور اُمت کے حالات کے حوالے سے مضامین کا تنوع بھی ہے اور وقیع مواد پر مبنی ہے۔ اللّٰھم زد فزد۔
دل آزار خاکے شائع کرنے والے ڈنمارک کے ناپاک اخبار Posten Jyllands کا ایڈیٹر Elliot Beck اپنے بیڈروم میں جل کر واصل جہنم ہوا۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کا ذکر آیا‘ مگر افسوس کہ یہ خبر عام نہ ہوسکی۔
ماہنامہ ترجمان القرآن میں بڑے اہم مسائل پر مضامین شائع ہوتے ہیں‘ لیکن وہ مسائل جو عوام کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان پر بھی بھرپور تحریریں ہونی چاہییں۔ کم تولنا‘ کم ناپنا اور کم گننا‘ تیل کی قیمت میں بار بار اضافہ‘ کرایوں میںاضافہ اور نہ ہونے کے برابر سہولتیں‘ مہنگائی‘ سفارش اور رشوت کا دور دورہ‘ لاقانونیت اور سرکاری ملازمین کو درپیش مسائل‘ زکوٰۃ کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ صورت حال‘ ڈاکٹروں کی لوٹ مار اور ادویہ ساز کمپنیوں کی اندھیرنگری جیسے موضوعات پر مقالات لکھوانے کی ضرورت ہے۔
تجدّد کا دروازہ
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام دین و اخلاق اور تمدن و تہذیب کے ان اصولوں کی علم برداری کرنا ہے جنھیں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں حق کہا گیا ہے‘ اور دنیا سے ان خیالات اور طریقوں کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے جنھیں قرآن اور سنت نے باطل ٹھیرایا ہے۔ جس سرزمین میں باطل کا غلبہ ہو اور احکامِ کفر جاری ہو رہے ہوں وہاں ہمارا کام باطل کے طریقوں کو اختیار کرلینا نہیں ہے‘ بلکہ ہمارا اصلی منصب یہ ہے کہ ہم وہاں رہ کر قرآن کے قانونِ حیات کی تبلیغ کریں اور نظامِ کفر کی جگہ نظامِ اسلامی قائم کرنے کے لیے ساعی ہوں۔
اب غور کیجیے کہ اگر ہم خود سود کھائیں گے تو کفار کی سود خوری کے خلاف آواز کس منہ سے اُٹھائیں گے؟ اس طرح تو سود خوری کے ساتھ شراب فروشی‘ مزامیر سازی‘ فحش فلم بنانا‘ عصمت فروشی‘ کاروبارِ رقص و سرود‘ بت تراشی‘ فحش نگاری‘سٹہ بازی‘ جوے بازی اور سارے ہی حرام کاموں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر یہ فرمایئے کہ ہم میں اور کفار میں وہ کون سا اخلاقی فرق باقی رہ جاتا ہے جس کے بل پر ہم دارالکفر کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرسکیں؟
اگر آپ شریعتِ اسلام کے پیرو ہیں تو آپ حکومتِ کفر کے آئین کی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اگر آپ ایک طرف دنیا کو شریعتِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فائدوں کے لیے یا کچھ نقصانات سے بچنے کے لیے حرام خوری کی اُن گنجایشوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو آئینِ کفر نے دی ہیں مگر آئینِ اسلام نے جن کی سخت مذمت کی ہے‘ تو چاہے فقیہہ شہر آپ کے اس طرزِعمل کے جواز کا فتویٰ دے دے‘ لیکن عام انسانی راے اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ پھر بھی وہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اخلاقی اثر قبول کرے گی۔
حقیقتاً اس طرزِ فکر کو فقہِ اسلامی میں استعمال کرنا ہی غلط ہے کہ مسلمانوں کو فلاں تکلیف اور فلاں نقصان جو حکومتِ کفر کے تحت رہتے ہوئے پہنچ رہا ہے‘ اسے روکنے کے لیے نظامِ باطل ہی کے اندر کچھ ’’شرعی‘‘ وسائل پیدا کیے جائیں۔ یہ طریق فکر مسلمانوں کو بدلنے کے بجاے اسلام کو بدلتا ہے‘ یعنی تجدیدِ دین کی جگہ تجدد کا دروازہ کھولتا ہے جو نظامِ دینی کے لیے حد درجہ تباہ کن ہے‘ اور افسوس یہ ہے کہ غلبۂ کفر کے زمانے میں فتویٰ نویسی کچھ اسی راہ پر چلتی رہی ہے جس نے مسلمانوں کو نظامِ باطل کے تحت رضا و اطمینان سے زندگی بسر کرنے کا خوگر بنا دیا ہے۔ (رسائل و مسائل، دَارالکفر میں سود خوری، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۳‘ رمضان ۱۳۶۵ھ‘ اگست ۱۹۴۶ئ‘ ص ۵۴-۵۵)