پاکستان کے مستقبل کا منظر اس وقت دھندلا گیا جب ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک رات جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر بش کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان‘ انٹیلی جنس‘ لاجسٹک سپورٹ اور فضائی حدود کے آزادانہ استعمال کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس طرح امریکا کا فرنٹ لائن حلیف بننے کا اعلان کر دیا اور اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح انھوں نے پاکستان کو بچالیا اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر کل کشمیر کے مجاہدین کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسی طرح کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ہمارا خون ہے۔ ہم کسی طرح بھی کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے‘‘۔ لیکن جو یوٹرن (u-turn) افغانستان پر امریکی حملے کے وقت لیا گیا تھا‘ اس کے نتیجے کے طور پر حکومت پاکستان کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بھی بالآخر’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اب عملاً حکومت کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس یوٹرن یا قلابازی کے نتیجے ہی میں اب حکومت پاکستان نے اپنے سائنس دانوں کی تذلیل کی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
۱- پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مزاحمت کرنے والوں یا القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے۔
۲- پاکستان ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے۔
۳- پاکستان‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی کا مرتکب ہے۔
۴- پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند مذہبی معاشرہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف اپنی پالیسیوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی فوجوں کا حلیف اور پشتی بان ہے‘ اور یہ باور کرانے کے لیے وہ ان تمام عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے جن پر افغانستان میں مزاحمت کی حمایت کا الزام ہے۔ ان میں وزیرستان اور مہمند کے قبائل اور پاکستان میں واقع دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف صاحب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے محض ایک مبہم الزام کو رفع کرنے کی خاطر پاکستان کی فوج کو مغربی سرحد پر آباد قبائل اور پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام سے لڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکا کا الزام تو رفع نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے اندر انتشار پھیل جائے گا اور فوج اپنے فطری حلیفوں کی حریف بن جائے گی۔ یہ دشمن کا کھیل ہے جو پاکستان کی فوج کو عوام‘ قبائل اور دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کر کے اس کے عزم و حوصلے اور مورال کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو امریکی‘ برطانوی جاسوسی اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی (IAEA) نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ لیبیا‘ ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی امریکا نے الزام لگایا تھا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگان کے حملوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ لیکن عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود آج تک عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں یا ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت اس وقت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے ‘اور برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں تو وہ عراق پر حملے کی حمایت نہ کرتے۔ خود صدر بش کو اس سلسلے میں غلط بیانی کرنے اور قوم اور کانگریس کو گمراہ کرنے کے الزام سے سابقہ درپیش ہے۔
جارحانہ عزائم رکھنے والی استعماری طاقتیں کمزور اقوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہمیشہ اُلٹے سیدھے بہانے تراشتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران‘ بالخصوص پرویزمشرف صاحب‘ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کو حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی بجاے چند سائنس دانوں کی ذاتی حرص کا نتیجہ قرار دے کر بین الاقوامی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسی کے نتیجے میں خود پاکستان کے انگریزی پریس میں افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ سائنس دانوں کے لیے تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں تھا‘ اور اگر محض سائنس دانوں نے یہ کام کیا ہے تو یہ پاکستان اور اس کے سلامتی کے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس بنیاد پر خود پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹمی ٹکنالوجی جیسے حساس اداروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا نے اسے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے نیوکلیئر کلب کا ممبرنہیں بنائے گا۔ اسرائیل اور بھارت کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کو امریکا نے اپنی حکمت عملیوں کا حلیف (strategic partner)قرار دیا ہے اور وہ اسے چین کی طاقت کو روکنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی ہتھیار خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اور بھارت کے مقابلے کے لیے اگر اس کے پاس یہ دفاعی ہتھیار موجود نہ ہو تو طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور جنوبی ایشیا کا امن برقرار نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ یہ اسرائیل کے سر پر منڈلانے والا ایک مستقل خطرہ ہے۔ کولن پاول نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کے خطرات سے آزاد اور بے فکر کرنے کا پابند ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوری دنیا کے سامنے ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے ’’جرم‘‘ کا ’’اعتراف‘‘ کروا کر خود پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ امریکا کو جب بھی افغانستان سے فراغت ملے گی اور اسے پاکستان کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی‘ تو وہ اسی شہادت کو بنیاد بنائے گا اورپاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں فریق ٹھیرا کر اسی بنیاد پر پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہم امریکا کے حلیف رہیںگے؟ کیا ہم امریکا کے اس طرح کے مطالبے کے سامنے بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا جواز پیش کر کے سرتسلیم خم کر دیں گے؟ اس وقت حکمرانوں سے فوری طور پر اس بنیادی سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ سوال کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سوال ایک عملی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کیا ہم امریکا‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے واقعی بے بس ہیں؟ یا ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی متبادل راستہ سوچ رکھا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کشمیر اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر طاقت کے طور پر پاکستان کو اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ سائنس دانوں کی تذلیل کرکے ہم نے اختیار کیا ہے‘ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا راستہ نہیں ہے بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا راستہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی نکتے کے طور پر لیا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہونے میں یہی سدراہ ہے۔ دوسرے نکات میں سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک‘ تجارتی تعلقات کی بحالی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ شامل ہے۔ سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک ’دریائوں کا مسئلہ‘ سب مسئلۂ کشمیر کے شاخسانے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا قومی موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے‘ جب کہ بھارت مصر ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اب تک کا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارتی وفود آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ پاکستانی وفد نے تو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پوری تیاری کر کے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کی ہیں‘ لیکن بھارتی وفود نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف ہی کو دہرایا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس‘ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ اور حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر ’’جمود ٹوٹنے‘‘ کی جو فضا پیدا کی ہے‘ بظاہر اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آئے۔ حکومت پاکستان نے اپوزیشن کو اپنی خوش فہمی کی وجوہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کا انکار ہے۔ اگر بین الاقوامی دبائو کے تحت اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کر کے باہمی اعتماد بحال کرنے کے بہانے دوسرے امور کو اولیت دی جائے گی تو اسے قومی مفادات اور مصلحتوں کے خلاف اور کشمیریوںسے بے وفائی قرار دیا جائے گا۔ جب تک کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک مظفرآباد‘ سری نگر روڈ کھولنا اور اس پر بس چلانا کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنا ہے‘ اور کشمیر کے مستقل تقسیم اور مسلم اکثریت کے ایک بڑے اور خوب صورت علاقے اور پورے پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا یہ ’’حل‘‘ نہ کشمیریوں کو قبول ہے‘ نہ پاکستانیوں کو‘ اور نہ اس طرح مسئلہ حل ہی ہوسکے گا۔ نہ امن قائم ہوگا‘ نہ تعلقات بحال ہوں گے‘ البتہ حکومت پاکستان ایک بار پھر اپنی کوتاہ اندیشی‘ بے ہمتی اور بودے پن کا ثبوت فراہم کرے گی۔ یہ امریکا کے اور بھارت کے سامنے بھی اپنی بے بسی کا مظاہرہ ہوگا اور اس کے بعد پاکستانی فوج اپنے موجودہ حجم کا جواز ہی کھو دے گی۔
ہمیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ’’پاکستان انتہاپسند مذہبی معاشرہ نہیں ہے‘‘ پرویز مشرف حکومت کہیں پاکستان کے بنیادی نظریہ اسلام ہی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ حال ہی میں انھوں نے حدود قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پر اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے مقام کے حوالے سے جو کمیشن بنا ہے ‘اس میں ایسے لوگوںکو شامل کیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی ترقی پسندی اور ماڈرن ازم کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ میں ۲۰ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی ہیں اور ہماری دیہی کونسلوں میں بھی خواتین کی نمایندگی کو لازمی قرار دیا ہے۔
اسی طرح اقلیتوں کو نہ صرف مخلوط انتخاب کے ذریعے عمومی نمایندوں کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ ساتھ ہی دہری نمایندگی کے طور پر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ یہ عمل خود مغرب کے مسلمہ معروف جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک (امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ) میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ امریکا میں تقریباً ۷۰لاکھ مسلمان بستے ہیں لیکن ان کی کانگریس میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۶ فی صد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان موجود نہیں ہے‘ جب کہ پاکستان میں ۳فی صد اقلیتوں میں سے ہر ایک اقلیت کو قومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جداگانہ طرزانتخاب کو منسوخ کرکے مخلوط طرزانتخاب بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی طور پر مغرب میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا واویلا کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے لیے قرآنی حدود کے قوانین اور توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا جھوٹا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔
پرویز مشرف صاحب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اعتدال پسند ہے۔ دراصل مغربی میڈیا نے بدنیتی کی بنا پرحقائق کو نظرانداز کرکے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم انتہاپسند ہیں (اسلام کا تو بنیادی مزاج ہی اعتدال و توازن کا ہے)۔
ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں نے غلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ بات شاید اس لیے کہی تھی کہ غلام خود تو فکروعمل کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ اس لیے اب یہ آزاد لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلاموں کے لیے سوچیںاور منصوبہ بندی کریں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ‘ آزاد لوگوں کی یہ ذمہ داری‘ سفیدفام لوگوں کی ذمہ دار بن گئی اور اب نئے عالمی نظام کے تحت یہ ’’ذمہ داری‘‘ امریکا کو منتقل ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے مسلمان ممالک کے حکمران امریکی آقائوں کے اشاروں پر چلتے ہیں کہ اس طرح انھیں مزید برسرِاقتدار رہنے اور اپنی قوموں کا استحصال کرنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے گی۔
امریکا کی علانیہ پالیسی ہے کہ اسے کسی ملک میں مداخلت کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ وہ کسی ملک سے بزعم خویش کوئی خطرہ محسوس کرے تواس خطرے سے محفوظ ہونے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ (pre-emptive strike) کرسکتا ہے‘ اور اس طرح کرنے کے لیے اسے اقوامِ متحدہ یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سرکش ریاست (rougue state)کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ ہرطرح کے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق آج صرف امریکا ہی ایک حقیقی سرکش ریاست ہے۔ افغانستان اور عراق پر جارحانہ قبضہ کرنے کے بعد اب اس نے ایران کو بھی مارچ کے آخر تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کلیتاً ختم کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس ایٹمی ایندھن بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ نہ صرف اس صلاحیت کو برقرار رکھے گا بلکہ بین الاقوامی منڈی میں ایٹمی ایندھن کو فروخت بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران کے لیے ایک اعزاز اور باعث افتخار ہے اور کوئی بھی ملک اپنے اعزاز اور اپنے مفاد اور مصلحت سے دستبردار نہیں ہوتا۔
ایرانی وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد ہمارے سامنے مستقبل کا خطرناک نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے قبل ایران میں مداخلت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان کی طرح اپنے اس مسلمان پڑوسی کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ (اور پھر اپنی باری کا انتظار کرے گا) ‘یا آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر باہمی دفاع کا کوئی اہتمام کرے گا؟ امریکا نے چین پر بھی ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا الزام عائد کرکے پاکستان‘ ایران اور چین میں تعاون کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔
بڑھتے ہوئے امریکی استعمار سے انسانیت کو بچانے کے لیے تیاری کرنے اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نئے راستوں کی تلاش‘ ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مفاہمت کی دعوت دے اور انتقامی رویے چھوڑ کر (تمام سیاسی رہنمائوں سمیت) وسیع ترمشاورت کا اہتمام کرے‘ تاکہ باہمی اعتماد و مفاہمت کے ذریعے بڑے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر سوچی جا سکیں۔
سترھویں ترمیمی بل کے پاس ہونے پر یہ پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا ہوگیا ہے اور مجلس عمل نے وردی میں صدر کو قبول کرکے فوجی مداخلت کو آئینی جواز فراہم کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجلس عمل نے سترھواں ترمیمی بل پاس کیا ہے‘ ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کا ابتدا سے یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے‘ اس لیے انھوں نے ایل ایف او کی صورت میں آئین میں جو ترامیم کی ہیں‘ وہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے انھیں منظور کرانا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ان کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ صرف وہی ترامیم آئین کا حصہ متصور ہوں گی جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائیں گی۔ وزیراعظم ہائوس میں تمام پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں (جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بشمول اے آرڈی بھی شریک تھے) ایل ایف او کے سات متنازعہ نکات کی نشان دہی کی گئی:
۱- ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔
۲- ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا انتخاب آئینی نہیں ہے۔
۳- آئینی دفعات کو معطل کرکے ایل ایف او کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے عہدے کو یکجا کرنے کی گنجایش نکالی گئی ہے۔ یہ غیر آئینی بات ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات کا بحال ہونا آئین کی بحالی کا لازمی تقاضا ہے۔
۴- ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع ناقابلِ قبول ہے۔
۵- بلدیاتی انتخاب اور پولیس آرڈر ۲۰۰۲ء صوبائی دائرہ کار ہے‘ اسے واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔
۶- قومی سلامتی کونسل کے ادارے کو آئین سے نکال دیا جائے۔
۷- ۵۸-۲‘بی کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیرمشروط اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
تقریباً چار ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ ان مذاکرات میں آخری دو تین نشستوں کے علاوہ اے آر ڈی کی جماعتوں نے بھی پوری دل چسپی سے حصہ لیا اور جو سمجھوتہ ہوا ہے‘ بڑی حد تک ان کے مندوبین کو بھی اس سے اتفاق تھا۔ ہم نے اپنے سمجھوتے کے نکات کسی مرحلے پر بھی چھپاکر نہیں رکھے اور مذاکرات کی نشستوں کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے تمام ممبران کو باقاعدہ باخبر کرتے رہے اور پریس کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کرتے رہے۔
چنانچہ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہم نے بڑی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوالیا ہے اور اس سال کے آخر تک جب جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف نہیںرہیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں باقی نہیں رہا۔ کچھ لوگ یہ شبہہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف آئینی تقاضے کو پورا نہیں کریں گے اور آئین کو نظرانداز کرکے دونوں عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے‘ لیکن اگر پرویز مشرف یہ کرنے کی کوشش کریں گے‘ تو یہ ایک نیا مارشل لا ہوگا اور نئے مارشل لا کی صورت میں پرویز مشرف کو خود دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ فوج پہلے ہی کافی بدنام ہوچکی ہے‘ اور ماضی میں فوج کی مداخلت اس مرحلے پر ہوئی ہے جب سیاست دان اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور لوگ خود فوج کی مداخلت کا مطالبہ کرنے لگے۔
اس وقت صورت حال برعکس ہے۔ فوج کی مداخلت سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور ان کی واپسی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ یہ بات لوگوں کے سامنے کھل کر آرہی ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی پر رائے کے لحاظ سے ملک میں اصل حزبِ اختلاف متحدہ مجلس عمل ہی ہے جس کا اختلاف‘ نہ ذاتیات پر مبنی ہے‘ نہ اقتدار کے حصول تک محدود ہے ‘اور نہ کسی کی جلاوطنی یا عدالتی مقدمات کی بناپر ہی ہے بلکہ اصولی طور پر حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوںسے بنیادی اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ اختلاف رفتہ رفتہ لوگوں پر واضح ہو رہا ہے اور مخالفانہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔
فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِق وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَق وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّـتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ (محمد۴۷:۳۵)
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو‘ تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
سَلْمٌ کے معنی صلح اور سمجھوتے کے ہیں۔ اوپر آیات ۲۲‘ ۲۳کے تحت ہم ذکر کر آئے ہیں کہ منافقین چونکہ جنگ کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اس وجہ سے صلح اور سمجھوتے کی باتیں بہت کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو بھی مشورہ دیتے کہ جنگ کے بجاے صلح سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی دعوت وہ قریش کو بھی دیتے۔ وہ اپنے آپ کو ایک صلح پسند پارٹی کی حیثیت سے پیش کرتے اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے کہ یہی پالیسی اختیار کرنے میں اس ملک کی خیر ہے ورنہ یہاں بھائیوں کا خون بھائیوں کے ہاتھوں بہے گا اور پوری قوم کا شیرازہ ابتر ہوجائے گا۔ ان کی یہ پالیسی مبنی تو تھی تمام تر ان کی بزدلی اور مفادپرستی پر‘ لیکن وہ اس کی دعوت صلح پسندی اور امن دوستی کے روپ میں دیتے اور ان لوگوں کو متاثر کر لیتے جن کے اندر نفاق کے جراثیم ہوتے۔ اس آیت میں ان کی اسی کمزوری سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ تم بزدل ہوکر صلح اور سمجھوتے کے داعی نہ بنو بلکہ عزم و ایمان کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھو۔ اگر تم سچے ایمان کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھو گے تو تمھی سربلند رہو گے اور تمھارے دشمن ذلیل و خوار ہوں گے۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور جب اللہ تمھارے ساتھ ہے تو اس کی مدد و نصرت ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہوگی اور یہ اطمینان رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال کے صلے کے معاملے میں کوئی خلاف وعدگی و بے وفائی ہرگز نہیں کرے گا‘ بلکہ تمھارے ہرعمل کا‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ بھرپور صلہ دے گا۔
فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ،میں عربیت کا وہی اسلوب ہے جو البقرہ کی آیت ۴۲‘ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ،کے تحت زیربحث آچکا ہے۔ جہاں معطوف اور معطوف علیہ دونوں میں ایک ہی حقیقت ظاہر کی گئی ہو وہاں لاے نھی کے اعادے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی صورت‘ آیت زیربحث میں بھی ہے۔ ان منافقین کی یہ دعوتِ صلح چونکہ ان کی بزدلی ہی کا نتیجہ تھی‘ اس وجہ سے تَدْعُوْا کو فَلَا تَھِنُوْا پر عطف کر دیا اور لَا کو حذف کر دیا تاکہ اسلوبِ کلام ہی سے یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ دعوتِ صلح اس لیے نہیں دے رہے ہو کہ تم بڑے صلح پسند ہو بلکہ یہ محض اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام سعی ہے۔
وَتَرَہٗ حَقَّہٗ کے معنی ہوں گے اس نے اس کے حق میں خیانت یا کمی کی۔ لَنْ یَّـتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ کے معنی ہوں گے کہ اللہ سے یہ اندیشہ نہ رکھو کہ وہ تمھارے اعمال کے صلے کے باب میں تمھارے ساتھ کوئی بے وفائی یا خیانت کرے گا بلکہ وہ بھرپور صلہ دے گا۔ جب ہرعمل کا بھرپور صلہ ملنے والا ہے تو اس کی راہ میںقربانی سے جی چرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۲۴-۴۲۵)
اُس وقت مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو جہاد کی مسلسل مشقتوں کو ایک بھاری حکم سمجھتے تھے اور ان کے عزم میں کمزوری تھی۔ یہ لوگ امن و عافیت چاہتے تھے تاکہ جنگ کی مشقتوں سے بچے رہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں میں سے بعض کی مشرکین کے ساتھ رشتہ داریاں بھی ہوں‘یا ان کے ساتھ مالی معاملات میں شراکت ہو‘ اس زاویے سے یہ لوگ امن اور صلح کو پسند کرتے ہوں‘ کیونکہ انسان ہمیشہ انسان رہا ہے اور قرآن کریم ان بشری اور فطری کمزوریوں کا علاج اپنے انداز سے کر رہا ہے۔ قرآن مجید نے اس طرح جو تربیت جاری رکھی تو اس کے نتیجے میں دورِاول میں ایک مخلص گروہ تیار ہوگیا۔ لیکن ان ثمربار کوششوں اور کامیابیوں کے باوجود اس بات کی نفی نہیں کی جا سکتی کہ جماعت مسلمہ کی صفوں میں کمزور لوگ موجود ہوں‘ خصوصاً ابتدائی مدنی دور میں۔ چنانچہ اس آیت میں بعض ایسی ہی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ قرآن کریم کس طرح لوگوں کی تربیت کرتا تھا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قرآنی انداز کے مطابق دور جدید کے لوگوں کی تربیت کریں۔
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو‘ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے‘ اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
تم چونکہ غالب ہو اس لیے صلح کی درخواست نہ کرو۔ تم اعتقاد اور تصورِ حیات کے اعتبار سے بلند ہو۔ تم خدا سے تعلق کے زاویے سے بھی بلند ہو۔ تمھارا آقا بلند ہے‘ نظامِ زندگی‘ مقاصدزندگی اور مقصودِ زندگی کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ شعور ‘ اخلاق اور طرزِعمل کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ قوت‘ مرتبے اور ذریعۂ نصرت کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ تمھاری پشت پر بہت بڑی قوت ہے۔ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ‘ تمھارے ساتھ تو اللہ ہے۔ تم اکیلے تو نہیں ہو‘ تم ایک نہایت ہی بلند اور جبار ہستی‘ خداے برحق کے زیرتربیت ہو جو قادرِ مطلق ہے۔ وہ تمھارا مددگار ہے اور ہروقت حاضروناظر ہے اور تمھارے ساتھ ہے۔ وہ تمھاری مدافعت کرتا ہے۔ تمھارے دشمنوں کی حیثیت ہی کیا ہے‘ جب کہ تمھارے ساتھ اللہ ہے۔ تم جو کچھ خرچ کرتے ہو‘ اور جو جدوجہد کرتے ہو‘ اور تمھیں جو مشقتیں پہنچتی ہیں‘ ان کا حساب رکھا جا رہا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں ہوگی… نیز کمزوری دکھانے اور صلح چاہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اعلیٰ ہو‘ وہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارا معمولی سے معمولی عمل بھی ضائع نہ ہوگا۔ لہٰذا تم مکرم‘ ماجور اور منصورہو۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی‘ ج ۵‘ ص ۱۱۶۶)
فَلَا تَھِنُوْا سے مراد یہ ہے کہ پست ہمتی کے مقتضٰی پر عمل نہ کرو‘ اور مایوسی کے خیال کو اپنے عمل پر غالب نہ آنے دو۔ ورنہ اعدا کی کثرتِ تعداد اور سازوسامان اور اپنی قلتِ تعداد اور بے سروسامانی دیکھ کر طبیعت میں کمزوری اور پستی پیدا ہوجانا تو ایک امرطبیعی ہے۔ ممانعت صرف اس کے مقتضا پر عمل کی ہے۔ وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ،یعنی تمھیں کافروں کے مقابلے میں ہمت ہار کے اور اُن سے دب کر خواہشِ صلح کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ تم اللہ کے محبوب ہو۔ کفار اس کے مبغوض ہیں۔ فقہاء مفسرین نے تصریح کر دی ہے کہ جس دعوتِ صلح کی یہاں ممانعت ہے وہ وہی ہے جو ضعف ہمت کی بنا پر کی جائے ورنہ نفس دعوتِ صلح‘ جب کہ وہ کسی مصلحت اُمت پر مبنی ہو‘ ہرگز ممنوع نہیں۔(تفسیرماجدی‘ ص ۱۰۱۹)
فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ ، اس آیت میں کفار کو صلح کی دعوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے: وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال ۸:۶۱)یعنی اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجایئے جس سے صلح کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ اجازت والی آیت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی طرف سے صلح جوئی کی ابتدا ہو‘ اور اس آیت میں جس کو منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کی جائے۔ اس لیے دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں مگر صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے ابتداً صلح کرلینا بھی جائز ہے‘ جب کہ مصلحت مسلمانوں کی اس میں دیکھی جائے۔ محض بزدلی اور عیش کوشی اس کا سبب نہ ہو اور اس آیت نے شروع میں فَلَا تَھِنُوْا کہہ کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ ممنوع وہ صلح ہے جس کا منشا بزدلی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار ہو۔ اس لیے اس میں بھی کوئی تعارض نہیں کہ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ کی آیت کے حکم کو اُس صورت کے ساتھ مقید کیا جائے جس میں صلح جوئی کا سبب وَہن اور سستی وبزدلی نہ ہو بلکہ خود مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو۔ واللّٰہ اعلم۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۹)
یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اُس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمعیت اسلام کی علم برداری کررہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقت ور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورُے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر اِن دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو‘ بلکہ سردھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جائو۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلۂ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اُس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اُس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہوجائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے‘ اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۳۰-۳۱)
جنابِ باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں‘ زور و غلبے میں‘ تعداد و اسباب میں تم قوی ہو۔ ہاں‘ جب کہ کافر قوت میں‘ تعداد میں‘ اسباب میں تم سب سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بے شک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے‘ جیسے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا‘ جب کہ مشرکین مکہ نے آپؐ کو مکہ جانے سے روکا تو آپ نے ۱۰ سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر مسالمت کرلی۔ پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمھارے ساتھ ہے‘ اس وجہ سے نصرت و فتح تمھاری ہی ہے‘ تم یقین مانو کہ تمھاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجروثواب تمھیں عنایت فرمائے گا۔ واللّٰہ اعلم۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ج۵‘ ص ۱۰۱)۔ (اخذ و ترتیب: امجد عباسی)
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۰)
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔
یٰٓاَ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات ۴۹:۱۱)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔
یٰٓاَ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا (الحجرات ۴۹:۱۲)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔
۱- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کو (بلاوجہ) بُرا بھلا کہنا بڑا گناہ ہے اور اس سے (بلاوجہ) لڑنا (قریبِ) کفر ہے۔ (بخاری و مسلم)
۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص (لوگوں کے عیوب پر نظر کر کے اور اپنے آپ کو عیوب سے بری سمجھ کر بطور شکایت کے) یوں کہے کہ لوگ برباد ہوگئے تو یہ شخص سب سے زیادہ برباد ہونے والا ہے (کہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے)۔ (مسلم)
۳- حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: چغل خور (قانوناً سزا بھگتنے بغیر) جنت میں نہ جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
۴- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز سب سے بدتر (حالت میں) اس شخص کو پائو گے جو دو رُخا ہو‘ یعنی جو ایسا ہو کہ اِن کے منہ پر ان جیسا‘ اُن کے منہ پر اُن جیسا ۔ (بخاری و مسلم)
۵- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو غیبت کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا (غیبت یہ ہے کہ) اپنے بھائی (مسلمان) کا ایسے طور پر ذکر کرنا کہ (اگر اس کو خبر ہو تو) اُسے ناگوار ہو۔ عرض کیا گیا کہ یہ بتلایے کہ اگر میرے (اس) بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہتا ہوں (یعنی اگر میں سچی برائی کرتا ہوں)‘ آپؐ نے فرمایا: اگر اس میں وہ بات ہے جو تو کہتا ہے تب تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات نہیں ہے جو تو کہتا ہے تو تو نے اس پر بہتان باندھا۔ (مسلم)
۶- سفیان بن اسد حضرمیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ بہت بڑی خیانت کی بات ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی سے کوئی ایسی بات کہے کہ وہ اس میں تجھ کو سچا سمجھ رہا ہے اور تو اس میں جھوٹ کہہ رہا ہے۔(ابوداؤد)
۷- حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی گناہ سے عار دلا دے تو اس کو موت نہ آوے گی جب تک کہ خود اس گناہ کو نہ کرے گا (یعنی عار دلانے کا یہ وبال ہے۔ اگر کسی خاص وجہ سے وہ گناہ سرزد نہ ہو تو اور بات ہے۔ اور خیرخواہی سے نصیحت کرنے کا کچھ ڈر نہیں)۔ (ترمذی)
۸- حضرت واثلہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کی (کسی دنیوی یا دینی بری) حالت پر خوشی مت ظاہر کر ‘ہوسکتا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرما دے اور تجھ کو اُس حالت میں مبتلا کر دے۔ (ترمذی)
۹- عبدالرحمن بن غنمؓ اور اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندگان خدا میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو چغلیاں پہنچاتے ہیں اور دوستوں میں جدائی ڈلواتے ہیں۔ (احمد و بیہقی )
۱۰- حضرت ابن عباسؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنے بھائی (مسلمان) سے (خواہ مخواہ) بحث نہ کیاکرو اور نہ اس سے (ایسی) دل لگی کرو (جو اس کو ناگوار ہو) اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کوتم پورا نہ کرو۔ (ترمذی)
۱۱- البتہ اگر کسی عذر کے سبب پورا نہ کر سکے تو معذور ہے]یعنی ناقابلِ مواخذہ[۔ چنانچہ زید بن ارقمؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس وقت پورا کرنے کی نیت تھی مگر پورا نہیں کر سکا اور اگر آنے کا وعدہ تھا اور وقت پر نہ آسکا (اس کا یہی) مطلب ہے کہ کسی عذر کے سبب ایسا ہوگیا) تو اس پر گناہ نہ ہوگا۔ (ابوداؤد و ترمذی)
۱۲- عیاض مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی فرمائی ہے کہ سب آدمی تواضع اختیار کریں یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے‘ اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے (کیونکہ فخر اور ظلم تکبر ہی سے ہوتا ہے) ۔ (مسلم)
۱۳- حضرت جریرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم)
۱۴- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بیوہ اور غریبوں کے کاموں میں سعی ]دوڑ دھوپ[کرے وہ (ثواب میں) اس شخص کے مثل ہے جو جہاد میں سعی کرے۔ (بخاری و مسلم)
۱۵- حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور وہ شخص جو کسی یتیم کو اپنے ذمے رکھ لے خواہ وہ یتیم اس کا (کچھ لگتا) ہو اور خواہ غیر کا ہو۔ ہم دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپؐ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں میں تھوڑا سا فرق بھی رکھا (کیونکہ نبی اور غیرنبی) میں فرق تو ضروری ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں رہنا کیا معمولی بات ہے۔ (بخاری)
۱۶- نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مسلمانوں کو باہمی ہمدردی اور باہمی محبت اور باہمی شفقت میں ایسا دیکھو گے جیسے (جاندار) بدن ہوتا ہے کہ جب اس کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو تمام بدن بدخوابی اور بیماری میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
۱۷- حضرت ابوموسٰی ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپؐ کے پاس کوئی سائل یا کوئی صاحب حاجت آتا تو آپؐ (صحابہؓ سے) فرماتے کہ تم سفارش کر دیا کرو‘ تم کو ثواب ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کی زبان کے ذریعے جو چاہے حکم دے (یعنی میری زبان سے وہی نکلے گا جو اللہ تعالیٰ کو دلوانا ہوگا۔ مگر تم کو مفت کا ثواب مل جائے گا اور یہ اس وقت ہے جب جس سے سفارش کی جائے اس کو گرانی ]ناگوار[ نہ ہو جیسا کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا)۔ (بخاری و مسلم)
۱۸- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو‘ خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! مظلوم ہونے کی صورت میں تو مدد کروں مگر ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کروں؟ آپ نے فرمایا: اس کو ظلم سے روک دو۔ تمھارا یہ عمل ہی اس ظالم کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری و مسلم)
۱۹- حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ کسی مصیبت میں اس کا ساتھ چھوڑے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجتیں پوری کرتا رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سختی دُور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس کی سختی دُور کرے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری و مسلم)
۲۰- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ فرمایا: آدمی کے لیے یہ شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے (یعنی اگر کسی میں یہ عیب ہو اور شر کی کوئی اور بات نہ ہو تب بھی اس میں شر کی کمی نہیں) مسلمان کی ساری چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ اس کی جان اور اس کا مال اور اس کی آبرو (یعنی نہ اس کی جان کو تکلیف دینا جائز نہ اس کے مال کا نقصان کرنا اور نہ اس کی آبرو کو کوئی صدمہ پہنچانا مثلاً اس کا عیب کھولنا‘ اس کی غیبت وغیرہ کرنا)۔ (مسلم)
۲۱- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی بندہ اُس وقت تک(پورا) ایمان دار نہیں بنتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری)
۲۲- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کے خطرات سے محفوظ نہ ہو(یعنی اس سے ضرر کا اندیشہ لگا رہے)۔ (مسلم)
۲۳- حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہماری جماعت سے خارج ہے جو ہمارے کم عمر پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑی عمر والے کی عزت نہ کرے اور نیک کام کی نصیحت نہ کرے اور برے کام سے منع نہ کرے (کیونکہ یہ بھی مسلمان کا حق ہے کہ مناسب موقع پر اس کو دین کی باتیں بتلا دیا کرے مگر نرمی اور تہذیب سے)۔ (ترمذی)
۲۴- حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائے گا۔ اور اگر اس کی حمایت نہ کی حالانکہ اس کی حمایت پر قادر تھا تو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اس پر گرفت فرمائے گا۔ (شرح السنۃ)
۲۵- حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کا) کوئی عیب دیکھے پھر اس کو چھپا لے (یعنی دوسروں پر ظاہر نہ کرے) تو وہ (ثواب میں) ایسا ہوگا جیسا کہ کسی نے زندہ درگور لڑکی کی جان بچا لی (کہ قبر سے اس کو زندہ نکال لیا)۔ (احمد و ترمذی)
۲۶- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ پس اگر اس (اپنے بھائی میں) کوئی گندی بات دیکھے تو اس سے (اس طرح) صاف کر دیتا ہے کہ صرف عیب والے پر تو ظاہر کر دیتا ہے لیکن کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرتا۔ اس طرح اس شخص کو چاہیے کہ اس کے عیب کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے‘ فضیحت نہ کرے۔ (ترمذی)
۲۷- حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھو (یعنی ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق برتائو کرو سب کو ایک لکڑی سے مت ہانکو۔ (اوداؤد)
۲۸- حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپؐ فرماتے تھے: وہ شخص (پورا) ایمان دار نہیں جو خود اپنا پیٹ بھرلے اور اس کا پڑوسی اس کے برابر میں بھوکا رہے۔ (بیہقی)
۲۹- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن الفت (اور لگائو) کا محل (اور خانہ) ہے اور اس شخص میں خیر نہیں جو کسی سے نہ خود الفت رکھے اور نہ اس سے کوئی الفت رکھے (یعنی سب سے روکھا اور الگ رہے۔ کسی سے میل جول ہی نہ ہو۔ باقی دین کی حفاظت کے لیے کسی سے تعلق نہ رکھنا یا کم رکھنا وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ (احمد)
۳۰- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری اُمت میں سے کسی کی حاجت پوری کرے صرف اس نیت سے کہ اس کو مسرور (اور خوش) کرے ‘سو اس شخص نے مجھ کو مسرور کیا اور جس نے مجھ کو مسرور کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو مسرور کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو مسرور کیا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ (بیہقی)
۳۱- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی پریشان حال آدمی کی مدد کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ۷۳ مغفرتیںلکھے گا جن میں ایک مغفرت تو اس کے تمام کاموں کی اصلاح کے لیے (کافی) ہے اور ۷۲ مغفرتیں قیامت کے دن اس کے لیے رفع درجات کا ذریعہ بنیں گی۔ (بیہقی)
۳۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت کوئی مسلمان اپنے بھائی کی بیمار پرسی کرتا ہے یا ویسے ہی ملاقات کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو بھی پاکیزہ ہے‘ تیرا چلنا بھی پاکیزہ ہے ‘تو نے جنت میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔(ترمذی)
(بہ شکریہ ‘ تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ جولائی ۲۰۰۲ئ)
احتساب (accountability)کا تصور نہ صرف مذہبی لحاظ سے بلکہ دنیاوی امور میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم میں بارہا احتساب کے تصور کو دہرایا گیا ہے‘ اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے‘ یعنی نیکی کی تلقین کی جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ صرف احتساب کا جامع تصور پیش کیا بلکہ اپنی ۲۳سالہ مسلسل جدوجہد میں احتساب‘ محاسبہ اور اصلاح و تطہیرکا عمل جاری رکھا جس کے نتیجے میں ایک مختصر سی مدت میں وہ مثالی معاشرہ وجود میں آگیا جس کی نظیر دنیا آج تک نہ پیش کر سکی۔
احتساب کا یہ تصور زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی‘ سیاسی‘ اخلاقی‘ غرض کوئی شعبہ حیات ایسا نہیں جو احتساب کے دائرہ کار سے باہر ہو۔ اسی لیے نظمِ مملکت اور تاسیسِ حکومت ِ الٰہی کے حوالے سے اسلامی ریاست کے انتظامی اداروں مثلاً امورِداخلہ‘ تعلقاتِ خارجہ‘ مالیات‘ عسکری امور‘ عدلیہ اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ایک اہم ادارہ ’احتساب‘ ہے جو معاشرتی اصلاح کے حوالے سے بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کے تحت لوگوں کے عام اخلاق کی نگرانی و اصلاح‘ عمّال ]ملازمین[ کی تربیت اور ان کا محاسبہ‘ نیز تجارتی بدعنوانیوں کا انسداد اور حرام اور ناجائز ذرائع آمدن کی بیخ کنی شامل ہے۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَـوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج ۲۲:۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنھیںاگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر لوگوں کے اخلاق اور مذہبی فرائض کے متعلق وقتاً فوقتاً داروگیر فرماتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اُنھیں اس بات پر توجہ دلاتے تھے کہ وہ احکام خداوندی کی پوری طرح پابندی کریں۔ چنانچہ اسلام کی بنیادی اور اصولی چیزوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حضوؐر نے تمام قبائل سے کہا کہ ہر ایک قبیلہ اپنے کچھ لوگوں کو منتخب کر کے مدینہ بھیجے۔ آپ ؐ کا یہ طرزعمل بھی اس آیت کی تفسیر تھا:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَـآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ o (التوبہ ۹:۱۲۲)
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے‘ مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔
اصلاح معاشرہ کی تڑپ اور لگن‘ دنیا کے ہر طبقے اور ہر سوسائٹی میں اپنے اپنے افکار ونظریات کے مطابق موجود رہی ہے۔ بدھ مت کے پیروکار تمام مصائب کا سبب‘ نفسانی خواہشات کو قرار دیتے رہے لہٰذا وہ ان خواہشات پر قابو پانے ہی کو اصل سمجھنے لگے۔ زرتشت کے نزدیک‘ بدی کا سدباب صرف برے لوگوں سے نبردآزما ہونے ہی سے ممکن ہے‘ جب کہ کنفیوشس کا طریقہ کار اور اندازِ فکر اس سے بالکل مختلف رہا۔
اسی طرح عصرِجدید میں سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک برائیوں اور جرائم کے سدِّباب کے لیے ذاتی ملکیت کا حق بلاکسی قیدوشرط لازم ہے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز‘ جب کہ اشتراکیت کے نزدیک معاشرتی اصلاح اور برائیوں کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ تمام چیزوں پر ملکیت کااختیار لوگوں کے قبضے سے نکال حکومت کے سپرد کر دیا جائے۔ اس کے برعکس معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام کا طریقہ کار بڑا منفرد اور جامع ہے۔ وہ صالح معاشرے کے قیام کے لیے فرد کی ہمہ جہت اصلاح اور تربیت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اس کے دل کی دنیا بدلتا ہے‘ شعور کو بیدار کرتا ہے اور روحانی بالیدگی کو فوقیت دیتا ہے۔ اس لیے کہ اگر انسان کی اندرونی حالت اور باطنی کیفیت بہتر ہوجائے اور مکمل روحانی طہارت میسرآجائے تو بیرونی دنیا خود بخود سنور اور نکھر جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرمؐ کا فرمان ہے:
الا وان فی الانسان مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب (مسندامام احمد حنبل‘ ج ۴‘ ص ۲۷۰)
سنو! جسم میں (گوشت کا) ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک۔ اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ لوتھڑا دل ہے۔
انفرادی اصلاح اور فکرِ اسلامی کو راسخ کرنے کے بعد ایک دوسرے کی اصلاح کے فریضے کو لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ پورا معاشرہ من حیث المجموع جنت نظیر بن جائے۔ حکمِ خداوندی ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو۔
اصلاحِ معاشرہ سے مراد تمام شعبہ ہاے زندگی کی درستی اور ہر قسم کی حق تلفی‘ بددیانتی‘ ظلم و تشدد اور بدعنوانی سے پاک‘ پاکیزہ ماحول اور صالح نظام کا قیام ہے۔ معاشرے کے کسی خاص شعبے پر خصوصی توجہ سے درستی اور باقی کو نظرانداز کرنے سے لوگوں کو امن وسلامتی اور اطمینان نصیب نہ ہو سکے گا اور نہ وہ مثالی معاشرہ ہی قائم ہو سکے گا جو مطلوب و مقصود ہے۔ دینی امور اور شرعی دستور میں معاشرت و معاملات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بقول مولانا منظورنعمانی: معاشرت و معاملات اس لحاظ سے شریعت کے نہایت اہم ابواب ہیں کہ ان میںہدایتِ ربانی‘ خواہشاتِ نفسانی‘ احکامِ شریعت اور دنیوی مصلحت و منفعت کی کش مکش ‘عبادات وغیرہ دوسرے تمام ابواب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے اللہ کی بندگی و فرمانبرداری‘ اس کی اور اس کے رسولؐ کی شریعت کی تابع داری کا جیسا امتحان ان میدانوں میں ہوتا ہے دوسرے کسی میدان میں نہیں ہوتا۔ (معارف الحدیث‘ مولانا منظورنعمانی‘ ج ۶‘ ص ۱۸)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک معاشرت اور معاملات کی اصلاح کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہا ہے۔
حضرت ابوالدردائؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتائوں جس کے ثواب کا درجہ نماز‘ روزے اور صدقے کے ثواب سے زیادہ ہے۔ ہم نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ (ضرور بتایے)۔ آپؐ نے فرمایا: (وہ عمل) آپس کے معاملات اور معاشرتی تعلقات کی اصلاح ہے۔ اور جو شخص باہمی معاملات اور معاشرتی تعلقات میں فتنہ و فساد پیدا کرے وہ مونڈنے (یعنی دین میں خلل ڈالنے) والا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ حدیث ۵۰۳۸‘ ج ۲‘ص ۶۲۲)
معاشرتی اصلاح کے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلامی معاشرے میں ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘انفرادی اور اجتماعی فرائض میں شامل ہے۔ اسلامی اخلاقیات کی ترویج اور مذہبی اقدار کا فروغ دینی فرائض کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے انفرادی سطح پر تو انسان اپنی بساط کے مطابق اس سے عہدہ برا ہو سکتا ہے مگر اجتماعی اور معاشرتی سطح پر کسی مستقل ادارے کے بغیر ان تقاضوں سے عہدہ برا ہونا بڑا مشکل ہے۔ ’احتساب‘ یا ’حسبہ‘ نے اسی ضرورت کے پیشِ نظر مکمل ادارے کی صورت اختیار کی۔
احتساب سے مراد اچھائی کا حکم دینا جب کھلم کھلا اس کو ]ترک[ چھوڑ دیا جائے اور برائی سے روکنا جب اس کو کھلم کھلا کیا جانے لگے۔ (احکام السلطانیہ‘ علی بن محمدالحسن الماوردی‘ مترجم: سیدمحمد ابراہیم‘ص ۲۴۰۔ احکام السلطانیہ‘ ابویعلٰی‘ مترجم: مصطفی البابی الحلبی‘ ص ۲۸۴)
یہ ایک دینی منصب ہے جس کا تعلق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون‘ ابن خلدون‘ مترجم: مولانا سعدحسن یوسفی‘ ص ۲۲۰)
احتساب کے لازم ہونے سے‘ افرادِ اُمت اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ نظمِ ملت کو برقرار رکھیں‘ امن و سلامتی کا تحفظ کریں۔ جرائم کو پنپنے نہ دیں اور جرائم و معاصی کے وجود کے خلاف برسرِپیکار اور اخلاق کے فروغ پانے میں معاون بنے رہیں اور اس طرح معاشرے کو جرائم سے تحفظ کی معقول ضمانت اور سماجی بے راہ روی سے بچائو کی کافی ضمانت میسرآجاتی ہے۔ معاشرے کی وحدت کو پراگندگی کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اور اجتماعی نظام‘ نت نئے افکار اور مہلک تحریکات سے محفوظ رہتا ہے بلکہ مفاسد اور برائیاں بڑھنے اور پھیلنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔
مندرجہ بالا احکام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جہاں اور جس وقت کسی دوسرے شخص کو برائی یا خلافِ شریعت کوئی کام کرتے ہوئے دیکھا جائے تو حسبِ استطاعت فوراً ہی اُسے روکیں اور جہاں بھی فساد اور شرکے آثار نظر آئیں تو ان کا قلع قمع کریں‘ نیکی اور بھلائی کا حکم دیں۔ چونکہ معاشرہ مختلف شعبہ ہاے حیات سے مل کر معرضِ وجود میں آتا ہے‘ لہٰذا کسی بھی فرض کی انجام دہی اور دیگر امور میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایک ہی طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ انھی امکانات کے پیشِ نظر اسلام میں احتساب کا ایک ایسا جامع نظام وضع کیا گیا ہے جو نتیجہ خیزی کے اعتبار سے انتہائی ارفع ہے۔ جس میں ہرشخص اپنے مقام پر رہ کر اس اہم ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کر سکتا ہے۔ احتساب کے بارے میں اسلام کے متعین کردہ اصولوں کو پانچ دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱- احتسابِ نفس:حضرت عمربن خطاب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روزِ قیامت) حساب کتاب سے پہلے خود اپنے نفس کا محاسبہ کرو اور (روزِ قیامت) بڑی پیشی کے لیے (اعمالِ صالحہ سے) اپنے آپ کو مزین کرو۔ روزِ قیامت حساب صرف اس شخص کے لیے سہل ہوگا جس نے دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا ہوگا۔ (سنن ترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ‘ باب ۲۵‘ ج ۴‘ ص ۶۳۸)
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ o وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِ یْـرَہٗ o (القیامۃ ۷۵: ۱۴-۱۵)
بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔
معاشرہ فرد سے بنتا ہے اور فرد کی اصلاح میں خود احتسابی یا احتسابِ نفس بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن نفس کی شاطرانہ چالوں سے بھی کوئی مردِ خود آگاہ اور خودبیں ہی بچ سکتا ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کے بقول: ’’یہ نہ بھولنا چاہیے کہ نفس اپنا احتساب کرنے میں سخت حیلہ گر اور فریب کار ثابت ہوا ہے… اور جو ہمیشہ سے دعوتِ حق کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ثابت ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اگر راہِ حق کی سچی طلب ہو تو ضروری ہے کہ نفس کی اس مہلک کمزوری اور شعبدہ بازی سے انسان پوری طرح چوکنا رہے اور اپنے فکروعمل کا احتساب کرتا رہے۔ (فریضہ اقامت دین‘ ص ۱۶۴)
نفس کی اصلاح اور خوداحتسابی اس قدر موثر اور نتیجہ خیز چیز ہے کہ اس سے انسان کا ضمیر بیدار اور دل پاکیزہ ہوجاتا ہے‘ اور اگر اس سے کوئی غلط کام ہو بھی جائے تو ضمیر کی ملامت اس کو فوراً اصلاح کی طرف راغب کر دیتی ہے اور ندامت سے اُس کا سر جھک جاتا ہے‘ اور اپنی جبینِ نیاز کو اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا دیتا ہے۔ اسی احساس‘ خشیتِ الٰہی اور خوفِ خداوندی کا نام تقویٰ ہے اور شاید اسی کے انعام کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی o (النٰزعٰت ۷۹:۴۰-۴۱)
اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا تھا‘ جنت اُس کا ٹھکانا ہوگی۔
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ o (البینۃ ۹۸:۸)
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔
یہ احتسابِ نفس ہی تھا کہ کبارِ صحابہ اور اولیاء اُمت کھانے پینے کی معمولی چیزوں کی بھی پوری چھان بین کرتے تھے تاکہ کوئی لقمۂ حرام یا مشکوک کھانا پیٹ میں نہ چلا جائے۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کا معروف واقعہ ہے کہ بھوک کی شدت سے خادم کا لایا ہوا کھانا بغیرتحقیق کے کھا لیا اور معلوم ہونے پر کہ کھانا مشکوک ہے تو آپ نے اس لقمے کو قے کر کے نکال دیا۔ آپ سے پوچھا گیا: ’’خدا آپ پر رحمت کرے‘ اتنا کچھ آپ نے صرف ایک لقمے کی وجہ سے کیا۔ آپ نے فرمایا: اگر یہ میرے دمِ واپسیں کے ساتھ نکلتاجب بھی میں اس کو نکال کررہتا‘‘۔(صدیق کامل‘ عباس محمودالعقاد‘ مترجم: منہاج الدین اصلاحی‘ ص ۷۶)
خوداحتسابی کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا مزاج سب سے نرالا تھا۔ آپؓ کے احتسابِ نفس کا یہ عالم تھا کہ ایک بار مشک کاندھے پر اٹھا کر چل دیے۔ لوگوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ فرمایا: میرے نفس میں عجب (تکبر) پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے اس کو ذلیل کر دیا۔ اسی طرح ایک بار خطبے کے لیے منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا۔ میں ایک زمانے میں اس قدرنادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لاکر دیا کرتا تھا۔ وہ اس کے بدلے مجھے چھوہارے دیا کرتے تھے۔ میں وہی کھاکر زندگی بسر کرتا تھا۔ یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا: بھلا یہ منبرپر کہنے کی بات تھی؟ فرمایا: میری طبیعت میں ذرا غرور آگیا تھا۔ یہ اس کی دوا تھی۔ (الفاروق‘ شبلی نعمانی‘ ص۳۹۱)
خلافت کے متعلق حضرت عمرؓ کے ذاتی احتساب کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو برحق رسول بنا کر بھیجا‘ اگر کوئی اونٹ فرات کے کنارے مر کر ضائع ہو جائے تو مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق اللہ مجھ سے بازپرس کرے گا۔ (تاریخ طبری‘ مترجم: سیدمحمد ابراہیم‘ ج۲‘ ص ۲۵۳)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (التحریم۶۶:۶)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ جس پر نہایت تُندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو‘ آج معذرتیں پیش نہ کرو‘ تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
سورہ لقمان میں حضرت لقمان ؑ کی زبان سے توحید‘ مکارم اخلاق اور حسن معاشرت کا جو درس قریب قریب پورے ایک رکوع میں دیا گیا ہے‘ اس میں خصوصی خطاب اپنے بیٹے کی طرف ہے اور نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فرض کو انجام دینے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بھی برداشت کرنے کے متعلق نصیحت فرمائی گئی ہے:
یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ (لقمٰن ۳۱:۱۷)
بیٹا‘ نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر۔
وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَاط (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)
اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔
اور پھر اہلِ خانہ کے علاوہ خاص طور پر یہ حکم ہوا کہ اپنے نزدیکی کنبے والوں کو ڈرائو۔
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۱۴)
اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو۔
۳- احتساب افرادِ عامہ: احتساب کی یہ وہ سطح ہے جس کا تعلق معاشرے کے عام مسلمانوں کی خیرخواہی سے ہے‘ اس کے ذریعے کتابِ ہدایت پر تمام ایمان لانے والوں کے نفس کو ایمانی ہمدردی اور دوستی کے لوازم میں داخل کر دیا گیا ہے کہ بلاتخصیص مرد و عورت سارے افرادِ اُمت آپس میں ایک دوسرے کو معروف کی تاکید کریں اور منکر سے منع کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ ۹:۷۱)
مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کا حاکم ہے وہ ان کا نگران اور ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ تم سے ان کے امورومعاملات کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔ اسی طرح ایک عام شخص بھی اپنے گھروالوں کا محافظ و نگران ہے اور اسے بھی ان کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران اور ان کی بہتری کی محافظ و ذمہ دار ہے۔ اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ اور نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ لہٰذا یاد رکھو تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہرشخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا‘‘۔ (بخاری‘ ج ۹‘ ص ۷۷)
اسی سلسلے میں ایک اور حدیث ملاحظہ ہو: حضرت معقلؓ بن یسار روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس بندے کو اللہ نے رعیت کا حاکم و محافظ بنایا اور اس نے بھلائی اور خیرخواہی کے تقاضوں کے مطابق رعیت کی حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کی تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا‘‘۔(بخاری‘ ج ۹‘ ص ۸۰)
قرآن و سنت کی رُو سییہ امر واضح ہوا کہ اسلام کا تصورِ احتساب زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ چاہے کوئی کسی ادارے کا سربراہ ہے یا چند افراد پر مشتمل گھر کا سربراہ۔ حکمران رعایا کے بارے میں‘ والد اولاد کے بارے میں‘ شوہربیوی کے بارے میں‘ بیوی گھر اور اولاد کی حفاظت و تربیت کے بارے میں۔ گویا کہ ہرصاحب منصب ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیا گیا۔ احتسابِ عامہ کا یہ فرض صرف وعظ و تقریر یا خطاب عام تک ہی محدود نہیں بلکہ یہاں مراد خصوصیت سے انفرادی امرونہی ہے اور یہ کہ دوسرے کی بھلائی‘ برائی‘ نیکی و بدی کی ہرچھوٹی بڑی بات کو حسب موقع صرف بتلا ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کو نیکی کی راہ پر لگانے اور برائی کی راہ سے ہٹانے کی پوری کوشش کی جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں استطاعت کے تین درجے وضع کیے گئے ہیں: ’’جب کوئی کسی برائی کو دیکھے تو پہلے تو ہاتھ سے روکے۔ عدمِ استطاعت کی صورت میں زبان سے اور یہ بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے‘‘۔ آنحضورؐ نے خود اپنی سنت سے تینوں طریقوں سے تغیّرِمنکر کی بہترین مثال قائم فرمائی۔ اپنی سنت سے تینوں صورتوں ہاتھ‘ زبان اور دل سے منکر کو مٹانے کی صاف اور واضح رہنمائی و نشاندہی فرمائی۔
۴- اجتماعی احتساب: اجتماعی احتساب سے مراد وہ احتساب ہے جس کے بارے میں خود قرآن پاک نے فرمایا کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)
ڈاکٹر محمد ضیاء الدین الرئیس اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ کہ اُمت پر یہ فرض ہے کہ وہ یہ فریضہ انجام دے اور ایک ایسی جماعت مقرر کرے جس کے ذمے حاکموں کے اعمال کی نگرانی کرنا ہو اور وہ یہ دیکھے کہ قوانین کی پیروی ہو رہی ہے یا نہیں۔ منکر اور مظالم سے روکے اور خیروبھلائی اور اصلاح کی طرف رہنمائی کرے‘‘۔ (النظریات السیاسیۃ الاسلامیہ‘ ص ۳۱۵)
اسلامی معاشرے میں ہمیشہ ایک ایسی مستقل جماعت یا اُمت در اُمت کا رہنا ایک لازمی اور اہم ترین عنصرہے۔ جس کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن ہی یہ ہو کہ وہ سب کام چھوڑ کر لوگوں کو خیر کی طرف بلائے۔ یہی جماعت صحیح معنوں میں علما کی جماعت ہے۔ جو دنیوی علم کے ساتھ ساتھ اپنی عمر کا اصلی و منصبی فریضہ یعنی احکامِ الٰہی کی تعلیم و تبلیغ اشاعت و دعوت اور امرونہی وغیرہ میں لگے رہتے ہیں کیونکہ ان پر یہ فرض کر دیا گیا ہے۔
۵- احتسابِ حکومت: احتساب کی پانچویں قسم حکومت کی طرف سے اس فرض کا انجام پانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہی اسلامی ریاست کی اصل بنیاد اور مقصداعلیٰ ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ: اگر ہم اُنھیں زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے(الحج ۲۲:۴۱)۔ ابن عربی مالکی اس کی توضیح یوں فرماتے ہیں: ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر دین کی بنیاد اور مسلمانوں کی خلافت کی اساس ہے‘‘۔ (احکام القرآن‘ ج ۱‘ ص ۳۹۳)
ابن تیمیہ کے بقول: ’’سارے اسلامی مناصبِ حکومت کا مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے‘‘۔ (الحسبہ فی الاسلام‘ ص ۳۷)
حکومتی سطح پر احتساب ‘مذکورہ چاروں اجزا کا لازمہ اور خاصّہ اور نظامِ صلاح و فلاح کا اہم ترین جزو ہے۔ اس کی اہمیت پہلی تمام اقسام سے اس لیے بھی زیادہ ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو سرکشی اور ارتکابِ معصیت میں اس حد تک بڑھ چکے ہوتے ہیں اور شروفساد کا ان پر اس حد تک غلبہ ہوچکا ہوتا ہے کہ پھر ان کو بداخلاقی اور معصیت سے روکنے کے لیے انفرادی سطح پر لوگ بے بس ہو جائیں۔ اس وقت برائیوں کو روکنے کے لیے مکمل طاقت اور حکومتی قوت درکار ہوگی۔ اس صورت میں ادارۂ احتساب کا باقاعدہ اور مستقل قیام ہی ان جرائم کی روک تھام اور امن و امان قائم کرنے کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ اللہ کی زمین کو ہر قسم کے شرپسندوں سے پاک کر دیا جائے اور دین کا بول بالا ہو۔
احتسابِ حکومت سے یہاں مراد یہ بھی ہے کہ حکومتی ادارے ازخود بھی کسی طرح کے احتساب سے ماورا نہیں ہیں۔ اسلامی معاشرے میں احتساب کو یک رخا نہیں بنایا گیا بلکہ معاشرے میں ایک دوسرے کے معاملات کو متوازن اور معتدل بنانے کے لیے بیدارمغز رویے موجود رہنے چاہییں۔ جیسے حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں منبر سے جب یہ صدا بلند کی: ’’اے لوگو! سنو اور مانو‘‘۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور بآواز بلند کہنے لگا کہ ہم تمھاری بات نہ سنیں گے اور نہ مانیں گے۔ جب تک تم یہ نہ بتائو کہ دوسرے لوگوں کو ایک ایک چادر ملی مگر تمھارے جسم پر یہ دو چادریں کہاں سے آئیں‘‘۔(عمر فاروق اعظم‘ محمدحسین ہیکل‘ ص ۵۹۰)
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۵۸)
مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
جہاں تک عمال کے محاسبے اور ان کی تربیت کا تعلق ہے تو اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ دورِ نبوت میں جن لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جاتی مثلاً صدقہ یا زکوٰۃ وغیرہ کی وصول یابی کے لیے بھیجا جاتا‘ ان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی پوچھ گچھ کرتے تھے کہ کہیں وصولی میں انھوں نے بے جا ظلم یا زیادتی یا ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کیا۔ چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے بنواسد کے ایک شخص ابن اللتبیہ کو صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب وہ وصول کرکے واپس آئے تو انھوں نے دو قسم کا مال رسولؐ اللہ کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا کہ یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مال مجھ کو تحفتاً ملا ہے۔ آپؐ نے یہ ملاحظہ فرمایا تو کہا کہ ’’گھر بیٹھے بیٹھے تم کو یہ ہدیہ کیوں نہ ملا؟‘‘ اس کے بعد خطبہ میں اس قسم کے لین دین کی سختی سے ممانعت فرما دی اور فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! ان محاصل میں جو شخص خیانت کرے گا قیامت کے دن وہ چوری کیا ہوا مال اپنی گردن پر لادے چلاآرہا ہوگا‘‘(بخاری)۔ حضرت ابوحمیدساعدی کی روایت کے ساتھ یہ حدیث صحیحین ]بخاری و مسلم[ میں بیان ہوئی ہے۔
دوسرا پہلو یہ کہ: رسولؐ اللہ ایک عظیم مصلح اور بیدارمغز حکمران تھے۔ آپؐ کو جہاں یہ خیال تھا کہ عہدیدار اپنے فرائض و واجبات کی بجاآوری صحیح طور پر کریں وہاں اس بات کا بھی خاص اہتمام تھا کہ عمّال و حکام اسلامی نظریۂ حیات پر کامل یقین‘ دینی تعلیمات سے گہری واقفیت اور زیورِاخلاق سے پوری طرح آراستہ ہوں تاکہ جہاں بھی ان کا تقرر کیا جائے وہ کامیاب ثابت ہوں‘ اور کم ازکم وہاں کے باشندے ان کے اخلاق سے شاکی نہ ہوں اور وہ شرع کے مطابق فیصلے کریں۔
حکومت کی ذمہ داریوں میں سے یہ ذمہ داری انتہائی اہم ہے کہ وہ عامۃ الناس کو حرام تجارتی طریقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کاروباری معاملات کی نگرانی کریں۔ نبی اقدسؐ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ان امور کی ازخود نگرانی فرمائی۔ بدعنوان تاجروں کو دین و دنیا کی وعید سنانے کے علاوہ آپؐ نے اچھے اور ایماندار تاجروں کو اخروی اجر کی بشارت بھی سنائی۔ نیز چیزوں کی خرید و فروخت کے سلسلے میں آپؐ نے بات بات پر حلف اٹھانے‘ جھوٹی قسمیں کھانے‘ ناپ تول میں کمی کرنے اوراسی قسم کی دوسری نازیبا حرکات کی سخت ممانعت کر دی‘ اور پھر اس ترغیب و ترہیب کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی فرمائے۔ آپؐ بعض اوقات بازاروں اور منڈیوں کا دورہ کرتے اور موقع پر ہی تحقیق و تفتیش فرما کر ضروری تنبیہ یا کارروائی عمل میں لے آتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ بازار تشریف لے گئے اور غلے کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو غلّہ اندر سے گیلاتھا۔آپؐ نے دکاندار سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ’’پھر اس کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ ہر شخص کو نظرآئے(پھر فرمایا)۔ جو لوگ فریب دیتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں‘‘۔(صحیح مسلم)
وزن اور ناپ تول کو ٹھیک رکھنا قرآن کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے‘ جب کہ رسولؐ اللہ نے بھی اشیا کو محض اندازے کے بجاے تول سے دینے اور وزن کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مزیدبرآں آپؐ نے منڈیوں اور بازاروں کی مجموعی نگہداشت اور تاجروں کے بے جا تصرف سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بازاروں کے لیے باقاعدہ محتسب (مارکیٹ انسپکٹرز) کا تقرر بھی کیا تھا۔
الغرض معاشرتی اصلاح میں ’احتساب‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اصلاح و تبلیغ‘وعظ و نصیحت‘ عمدہ افکار وعقائد کی ترویج‘ اخلاقی اصلاح‘ روحانی بالیدگی اور ذہنی پاکیزگی کے لیے دیگر جملہ ذرائع بھی بروے کار لانے ضروری ہیں تاکہ لوگ محض سزا یا سزا کے خوف سے نہیں بلکہ فِی السِّلْمِ کَافَّۃً کا خوب صورت پیکربن کر ایک ایسے خوب صورت اسلامی اور فلاحی معاشرے کی تفسیر پیش کریں جہاں افراط و تفریط اور ظلم و تعدی کا کوئی نشان نظر نہ آئے ؎
مزدکی ہو کہ فرنگی ہوس خام میں ہے
امنِ عالم تو فقط دامنِ اسلام میں ہے
گھر زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ گھر مقامِ رہایش ہی نہیں ایک جاے پناہ بھی ہے جو موسم کی سختیوں اور دیگر خطرات سے حفاظت کرتا ہے۔ تمام جاندار بشمول حشرات الارض‘ جنگلی درندے‘ چرندپرند اپنے لیے گھرتعمیر کرتے ہیں جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں اور آرام و سکون حاصل کرسکیں۔
ہر جانور اپنے خالق رب کریم کی عطا کردہ دانش اور رہنمائی کے مطابق اپنے لیے گھر تعمیر کرتا ہے جو اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ ’بیا‘ کا گھونسلا‘ مکڑی کا جالا‘ شہد کی مکھیوں کا چھتہ‘ چیونٹیوں کے زیرزمین بِل‘ سب اپنی نوعیت کے لحاظ سے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ مکڑی خود کو اپنے گھر میں محفوظ اور مطمئن خیال کرتی ہے اگرچہ اس کے گھر کی کمزوری کی گواہی اس کے مالک و خالق رب نے خود دی ہے: وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِم (العنکبوت۲۹:۴۱) ’’اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھرمکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے‘‘۔
رب کریم نے ہر جانور کی فطرت میں گھر بنانے کا داعیہ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی درخت کی ٹہنیوں پر اپنا گھر تعمیر کرتا ہے‘ کوئی اس کی کھوہ میں۔ کوئی پہاڑوں کے غاروں میں بسیرا کرتا ہے تو کوئی ان کی بلندیوں پر۔ پالتو جانور اپنے گھر خود نہیں بناتے۔ انسان ان کے لیے جو قیام گاہیں بنا دیں وہیں قیام کرلیتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا گھر تمام گھروں سے نرالا ہے۔ یہ ایک گھر ہی نہیں ایک فوڈ فیکٹری ہے‘ سٹورہائوس ہے۔ ہزاروں مکھیوں کو رہایش اور جاے کار مہیا کرنے والی ایک کالونی ہے جس کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھی نے کسی ماہرتعمیرات سے رہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عظیم المرتبت خالق کی براہِ راست نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
اور دیکھو‘ تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں‘ اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں‘ اپنے چھتّے بنا‘ اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس‘ اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ (النحل ۱۶:۶۸-۶۹)
۱- وہ اپنے گھر راستوں سے ہٹ کر اس طرح بناتے ہیں کہ راستوں میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
۲- وہ ناجائز تجاوزات نہیں کرتے۔
۳- وہ اپنی کم سے کم ضرورت پر بڑا گھر نہیں بناتے۔
۴- وہ ایک دوسرے کی ملکیت کا احترام کرتے ہیں۔ کسی دوسرے کے گھر پر ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔
۵- گھر کی ملکیت یا قبضے پر بالعموم ان کے مابین جنگ نہیں ہوتی۔
۶- وہ اپنا گھر خود بناتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے معاملے میں کسی دوسرے کی مدد حاصل نہیں کرتے۔
۷- وہ اپنے گھر صاف ستھرے رکھتے ہیں۔
ان خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری اور فطری خصوصیات ہیں۔
جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لیے موزوں رہایش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات‘ باغات‘ اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول‘ موسم‘ فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہایشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرایش میں مسابقت شروع ہو گئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ‘ شان دار گھر کے لیے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو‘ جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش‘ اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!
گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے‘ اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھونپڑا اس کی تمام ضروریات کے لیے کافی نظرآتا ہے اور کہیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرایش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں ڈالر ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے اور حفاظت و انتظام کے لیے مزید لاکھوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گردونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے‘ دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیرسے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحول‘ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں۔ گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے مقتدرانتظامیہ کی جانب سے تعمیراتی ضوابط (building rules) مقرر ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ان ضوابط کے اجرا اور عمل درآمد کی نگرانی پر مامور ہیں۔ قصبوں میں یونین کونسل یا ضلعی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
۱- عمارت صحت و صفائی کے اصولوں کے مطابق تعمیرہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام ہو۔
۲- عمارت کی تعمیر پڑوس کے لیے باعث آزار نہ ہو۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ہی شہروں اور بستیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پورا قصبہ یا شہر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بستیاں اور شہر کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انسان شہر تعمیر کرتے ہیں اور شہر انسان بناتے ہیں‘‘۔
شہر بسانا ایک سائنس ہے اور آرٹ بھی۔ شہر کچھ متعین حقائق مدنظر رکھ کر ہی تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بستیوں کو حسن‘ ترتیب اور توازن عطا کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ کسی شہر کی تعمیرکی منصوبہ بندی میں جمالیاتی ذوق کی تسکین ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ شہریوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔
گھر کے لیے مناسب اور باوقار جگہ کی فراہمی۔
بستی میں گھروں کی ایک ترتیب اور منظم تعمیر۔
تجارتی علاقوں کی تخصیص۔
صفائی اور پاکیزگی کا مناسب اہتمام اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام۔
ناجائز تجاوزات اور تعمیرات کی روک تھام‘ خطرناک صنعتوں کے بارے میں ضوابط۔
رہایشی علاقوں میں آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی۔
بستیوں میں حفاظت اور تفریح کا معقول انتظام۔
تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی۔
بستی کے مکینوں کی فلاح و بہبود کا انتظام۔
۱- سہولتوں کی فراہمی ۲- خدمات کی فراہمی ۳- صحت مند ماحول
اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض میں ایک خوب صورت توازن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے انفرادی تشخص اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایسے ضوابط اور حدود کا پابند بناتا ہے کہ اس کی یہ خودمختاری کسی دوسرے فرد کے لیے باعث رنج نہ ہو۔ وہ انسان کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے اپنے اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہے۔ جواب دہی کا یہ احساس معاشرتی زندگی میں انسانی عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔ اسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے جو صرف اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ پورے معاشرے کے لیے خدمت گزار اور راحت رساں ہوتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو معاشرتی قواعد و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے جب تک کہ ان کی جانب سے اپنے رب کی معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء ۴:۵۹) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اولی الامر ہیں۔
حکام بالا کی اطاعت سے گریز صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ان کے حکم پر عمل درآمد سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کے لیے باعث آزار نہ ہوں۔
جو کچھ اپنے لیے پسند کریں‘ وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کریں۔
ہمسایگی کا حق ادا کریں۔
حسن سلوک اور مہربانی اخلاق و کردار کی بنیاد ہیں۔
معاشرتی ضابطوں کی حفاظت ایک عہد ہے۔ جب تک وہ اللہ کے احکام سے نہ ٹکراتے ہوں ان کی ادایگی لازم ہے۔
ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ اسے پُرامن اور آرام دہ زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے امن و اطمینان فراہم کرنے والا اور راحت رساں ہو۔ یہ طرزِعمل بستیوں کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے ع
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
اسلام کے ان بنیادی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے گھروں اور بستیوں کی تعمیر کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان کا تفصیلی تذکرہ کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی یاددہانی کرلی جائے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ارادے کی جو قوت نصیب کی ہے اس کو بروے کار لاتے ہوئے جب وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ ہر لمحے اپنے ہاتھ اور زبان کی نگرانی کرنے والا انسان کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی تو کجا معمولی تکلیف کا بھی احتمال ہو۔
کشادگی: راستوں کی کشادگی اسلامی فنِ تعمیرکی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس کا اصل مقصد راستہ چلنے والوں کی سہولت ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بستیوں کے راستے ہر طرح کی رکاوٹ اور تکلیف دہ امور سے پاک ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک مرتبہ ایک معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ راستے کی کم سے کم چوڑائی سات ذرع (تقریباً ۱۰فٹ) رکھی جائے۔ (بخاری)
اس دور کی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۰ فٹ چوڑا راستہ کافی کشادہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی بستی میں ٹریفک کے متوقع دبائو کے پیش نظر گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹریفک کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔
رکاوٹوں کو دُور کرنا: اسلام اس بات کو قطعاًناقابلِ قبول خیال کرتا ہے کہ راستوں میںکسی طرح کی رکاوٹ پیدا کی جائے۔ اسے تو راستے میں بیٹھنا یا کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس سے راہ گیروں کے لیے رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمھیں ایسا کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت فرمایا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ۱- اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو ‘۲- دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنو‘ ۳- سلام کا جواب دو‘ ۴-راہ گیر کی رہنمائی کرو‘ ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرو۔
راستوں کو تکلیف دہ امر سے محفوظ رکھنا اس قدر اہم خیال کیا گیا کہ راستے سے پتھر کے ایک چھوٹے ٹکڑے کو ہٹانا بھی صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا۔ انسانوں کو خوش کرنا اتنا پسندیدہ ٹھیرا کہ مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی قرار پایا۔
۱- گھروں کے باہر ایسے تھڑے تعمیر نہ کیے جائیں جو راستے کی رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گیٹ کے راستے پر بھی ہوتا ہے۔
۲- راستے میں اس طرح درخت نہ لگائے جائیں جو رکاوٹ اور تنگی کا سبب بن جائیں۔
۳- گھر سے باہر نکلی ہوئی بالکونیاں ‘ چھجے اور برآمدے تعمیر نہ کیے جائیں۔
۴- کھونٹے اور لکڑیاں گاڑ کر راستے میں تجاوزات کی کوشش نہ کی جائے۔
۵- راستے میں جانوروں کو نہ باندھا جائے جو راہ گیروں کے لیے اذیت‘ رکاوٹ اور پریشانی کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گاڑیوں کی پارکنگ پر ہوتا ہے۔
۶- راستے میں چھلکے اور کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے۔
۷- راستے میں پانی نہ چھڑکا جائے جو کیچڑ اور پھسلن کا باعث ہو۔ گھروں کا استعمال شدہ پانی راستوں میں بہانے سے احتراز کیا جائے۔
۸- کوئی ایسی تجاوزات نہ کی جائیں جو پانی کے بہائو میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں۔
ایک شخص کا یہ عمل اسے جنت میں لے جانے کا باعث بن گیا کہ اس نے راستے میں درخت کی ایک شاخ دیکھی جو لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بن رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ شاخ کاٹ ڈالے گا تاکہ یہ راہ گیروں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۶‘ ص ۱۸۰۷)
راستے سے پتھر ‘ کانٹا یا ہڈی کا ہٹانا صدقہ ہے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۲۳‘ ص ۱۸۱۴)
اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو نفع دینے والا ہو؟آپؐ نے فرمایا: راستے کو اذیت دینے والی اشیا سے صاف کرو۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۸‘ ص ۱۸۰۹)
اگر کوئی مسلمان ایک درخت لگاتا ہے تو وہ اس کا اجر پائے گا‘ اس لیے کہ اس سے دوسرے انسان اور جانور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ (بخاری)
درخت جان داروں کے لیے غذا کی فراہمی میں معاون ہوسکتے ہیں۔ راہ چلنے والوں کے لیے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ آلودہ فضا کو صاف کرتے ہیں‘ راستوں کو خوب صورت اور خوش نما بناتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کو آرام دہ اور خوب صورت بنانے کا یہ عمل صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
اسی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓنئے شہروں کی تعمیرمیں یہ ہدایت فرماتے کہ مختلف محلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑی جائے جس میں درخت لگائے جائیں‘ حتیٰ کہ بستیوں کے چاروں طرف درخت ہوں۔
اسلام جسم اور روح کی پاکیزگی اور طہارت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ روح کی پاکیزگی کے بغیر تو کوئی شخص مسلم ہو ہی نہیں سکتا۔ جسم کی طہارت اور صفائی ایک صحت مند ماحول اور معاشرے کی تشکیل کے لیے حددرجہ لازم ہیں۔ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو خالق کائنات کی محبت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْن(التوبۃ ۹:۱۰۸) ’’اور اللہ پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے‘‘
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o (المدثر ۷۴:۴-۵)
اور اپنے کپڑے پاک کرو اور گندگی سے دُور رہو۔
صفائی اور نظافت کی اس درجہ اہمیت کے تحت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امورفطرت کا ذکر کیا جن پر عمل ہرپاکیزہ فطرت والا شخص پسند کرتا ہے اور جنھیں تمام انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان امور میں سے ۹۰ فی صد طہارت اور پاکیزگی سے متعلق ہیں۔ مناسک عبودیت کی ادایگی میں طہارت بنیادی شرط ہے۔ جب تک جسم‘ لباس اور جگہ پاک صاف نہ ہو‘ نماز ادا نہیں ہوتی۔ حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتے۔
نماز کی ادایگی پر عمل کرنے والا شخص ناپاک نہیں رہ سکتا‘ گھر اور ماحول کو غلیظ نہیں رکھ سکتا۔ مدینہ کی ریاست اپنے ابتدائی دور میں مالی تنگی اور عسرت کا شکار تھی۔ جہاں کم ہی گھرانے ایسے تھے جنھیں دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب ہوتی لیکن صفائی اور پاکیزگی کے اعلیٰ معیار کے باعث وہاں بیماری شاذ تھی۔ ایک ایسی سرزمین جہاں پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا وہاں اس امر پر زور دیا گیا کہ اجتماعی اجلاس اور باجماعت نماز میں اپنے جسم کی بو سے بھی دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔ جہاں ہر وقت باوضو رہنے کا اہتمام ہو‘ جہاں گلی اور راستے میں کوڑا کرکٹ تو کجا استعمال شدہ پانی تک پھینکنے کو روا نہ خیال کیا جائے‘ جہاں راستوں میں تھوکنے اور غلاظت ڈالنے کا تصور تک نہ ہو‘ ایسا معاشرہ کیوں صحت مند معاشرہ نہ ہوگا۔ پاک روح‘ پاکیزہ جسم ہی میں قیام کرتی ہے‘ اور پاکیزہ ماحول ہی میں پنپتی ہے۔
عمدہ معاشرت کی بنیاد ادایگی حقوق پر ہے۔ جس معاشرے کا ہر فرد دوسروں کے حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پہچانتا اور ان کو ادا کرتا ہے‘ وہ مطمئن اور پرسکون معاشرہ ہے۔ پڑوسی سب سے زیادہ ایک دوسرے کے اچھے یا برے طرزِعمل اور اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک ادایگی حقوق کی فہرست میں ’’پہلوکے ساتھی‘‘ کا خاص طور سے ذکر کرتا ہے‘ حتیٰ کہ دورانِ سفر عارضی قائم ہونے والے پڑوسی کے ساتھ بھی احسان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۳۶)
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا رویہ ماحول کو خوش گوار رکھنے میں نہایت اہم ہے۔ ایک دوسرے کے لیے احترام اور لحاظ کا جذبہ بہت سی بدمزگیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: ’’کوئی شخص اس وقت تک سچا مسلم نہیں ہو سکتا‘ جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں جس کی شرارت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔
وفات پا جائے تو اس کے جنازے پر جائو۔
قرض مانگے تو اس کو قرض دو۔
اگر اس کے پاس لباس نہ ہو تو اسے لباس پہنائو۔
اسے کوئی نعمت ملے تو اسے مبارک (برکت کی دعا) دو۔
اسے رنج پہنچے تو اس سے ہمدردی کرو۔
اپنا گھر اس کے گھر سے بلند نہ کرو کہ اس کی روشنی اور ہوا میں رکاوٹ ہو۔
اپنے چولہے کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو۔
اسلام کو یہ ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی شخص خود توپیٹ بھرکر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ وہ تواس لیے شوربا پتلا کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ پڑوسی کو اس سالن میں شریک کیا جاسکے۔ وہ تو پھلوں کے چھلکے بھی پڑوسی کے سامنے پھینکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مبادا اس کے بچوں کو پھل دستیاب نہ ہونے کے باعث چھلکے دیکھ کر احساسِ محرومی ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کو ایذا پہنچانے کے کچھ کام گنواتے ہوئے ان سے واضح الفاظ میں منع فرمایا:
اپنے گھر کی دیوار اور کھڑکی سے پڑوسی کے گھر نہ جھانکو۔
اس کی دیوار پر اپنی تعمیر نہ اٹھائو۔
اپنے گھرکا پرنالہ اس کے گھرکی سمت مت لگائو۔
اس کے گھر کے سامنے کوڑا نہ پھینکو۔
اس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرو۔
’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے باعث ایذا نہیں ہو سکتا‘‘۔ (بخاری‘ کتاب الادب)
اسلام اس لحاظ سے بالکل منفرد نظامِ حیات ہے کہ وہ انسان کی نجی زندگی کے اخفا کو برقرار رکھنے کا حددرجہ اہتمام کرتا ہے۔ وہ تو گھر کے افراد کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بغیر اطلاع اپنے گھر میں داخل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں کو ہدایت تھی کہ اپنے گھروں میں داخلے سے پہلے کوئی ایسی آواز ضرور پیدا کرلو تاکہ گھر والوں کو تمھارے آنے کی اطلاع ہوجائے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ (الاحزاب۳۳:۵۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو‘ یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے۔ (النور۲۴:۲۷-۲۸)
جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا؟ (ابوداؤد)
اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ (ابوداؤد)
اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور توایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں۔
اسلام کی اسی حساسیت کی بنا پر ہر دور میں مسلم گھروں کی تعمیرمیں پردے کا خصوصی اہتمام رہا۔ گھر اس انداز میں تعمیر کیے جاتے کہ گھروں کے اندر کمروں‘ صحن اور چھت پر بھی کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ صحن اور چھت کی چار دیواری اتنی بلند رکھی جاتی کہ اہل خانہ وہاں بیٹھے ہوں تو کسی کی نظر پڑنے کا احتمال نہ ہو‘ اور اہل خانہ اطمینان سے کھلی ہوا اور روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ حفظانِ صحت کے لحاظ سے یہ بات اہم ہے کہ روشنی اور تازہ ہوا کا حاصل ہو۔ ان کی موجودگی بذاتِ خود کئی بیماریوں اور معذوریوں سے بچائو کا سامان فراہم کرتی ہے۔ کھلی فضا میں بیٹھنے یا رات کو سونے سے توانائی کی بچت بھی ممکن ہے جو آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
انسانی زندگی کا سکون اور توازن برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ موجود وسائل پر انسانوں کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جائے۔ حق ملکیت قائم کرنے کے لیے تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ضابطے رواج پاتے گئے تاکہ باہم نزاع نہ پیدا ہو۔ اسلام انسان کے اس حق کے احترام اور تحفظ کا پورا اہتمام کرتا ہے۔
گھر کے حق ملکیت کا احترام فطری تقاضا ہے۔ جانور تک اپنے اس حق کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اور بالعموم وہ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنا گھونسلا خود تعمیر کرتا ہے۔ کسی دوسرے کے گھونسلے میں قیام پسند نہیں کرتا۔ جنگلی جانور دوسرے جانوروں کے بھٹ میں داخل نہیں ہوتے۔ پالتو جانور تک اپنی کھرلی کو بڑی اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ پر قبضے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی دوسرا کرنے کی کوشش کرے تو اس پر زبردست جنگ کا امکان رہتا ہے۔
انسانوں کے مابین پیدا ہونے والے جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ’زمین‘ ہے۔ انسانوں کے قیمتی وسائل اور صلاحیتیں ان جھگڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ قومیں باہم برسرِپیکار ہوتی ہیں تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
اسلام مسائل کو ان کی جڑ سے اکھاڑ دینے کا قائل ہے۔ ان تنازعات کی اصل اُس زمین کی محبت ہے جہاں انسان کا قیام بڑی مختصرمدت کے لیے ہے۔ اسلام انسانوں کو اس حقیقت کی جانب مسلسل متوجہ کرتا ہے کہ یہاں کیا جانے والا ہر عمل آخرت میں پیش ہوگا اور انھی اعمال کی بنیاد پر آخرت کے انجام کا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس پر اس روز ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔
زمین کی ملکیت کے بارے میں ایک تنازع پیش ہونے پر فیصلے سے قبل آپ ؑ نے ان الفاظ میں فریقین کو متنبہ فرمایا:
ممکن ہے تم میں سے کوئی ایک اپنی قوتِ گفتار کی بنا پر فیصلہ پر اثرانداز ہوجائے لیکن اس طرح اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز حاصل کر لیتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ہے تو اسے زمین کا وہ ٹکڑا قیامت کے روز اپنے سر پر اٹھانا پڑے گا۔
یہ تنبیہہ ان سچے متبعین کے لیے کافی تھی۔ متنازعہ زمین لینا ایک کٹھن کام خیال کیا جاتا۔ ہر ایک اس طوق کو اپنی گردن سے اسی زندگی میں اتاردینا چاہتا۔
ملکیت کے اس حق کا احترام افراد کے لیے بھی ہے اور اداروں اور حکومتوں کے لیے بھی۔ جس طرح انفرادی ملکیت پرناجائز قبضہ ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح اجتماعی ملکیت پر بھی ناحق قبضہ حرام ہے۔ اجتماعی جگہ پر ناجائز تجاوزات نہ صرف دوسروں کے حق ملکیت میں دخل اندازی ہے بلکہ راستے کے حق کا اتلاف بھی ہے۔ ایک انچ جگہ بھی غلط طور پر اپنے گھر میں شامل کرنا یا عام افراد کے لیے ناقابلِ استعمال بنانا‘ ایک ایسا غلط کام ہے جس پر مواخذہ ہوگا۔
جائز ذرائع سے مکان کی تعمیر اور اس کے رنگ روغن میں کوئی قباحت نہیں۔ بالخصوص جب اس کا مقصد موسم کی سختیوں سے بچائو اور گھرکی حفاظت ہو لیکن اسلام اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مسرفین وہ لوگ ہیں جن سے ان کا رب کوئی محبت نہیں کرتا۔ گھروں کی ایسی تزئین و آرایش جس میں نمایش کا جذبہ ہو‘ ہرگز پسندیدہ نہیں۔ گھروں کو عیاشی کا مرکزو مظہربنا دینا قطعاً مطلوب نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھروں کے معاملے میں ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادگی کی تلقین فرماتے۔
غیرضروری تزئین و آرایش سے اگلا قدم لاحاصل تعمیرات کا ہے۔ قرآن ایسی اقوام کا ذکر نہایت ناپسندیدگی سے کرتا ہے جن کا شیوہ یہ تھا کہ ہر اُونچے مقام پر ایک لاحاصل تعمیر بناڈالتے۔ سورۃ الشعرا میں ایسی اقوام کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
یہ تمھارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو‘ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو‘ گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔ (الشعرا ۲۶:۱۲۸-۱۲۹)
کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان ’جو یہاں ہیں‘ بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جائو گے؟ ان باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء ۲۶: ۱۴۶-۱۵۰)
عاد اور ثمود دونوں عمارتوں کی تعمیر میں نام آور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اقوام کے جرائم کی فہرست میں ان کے اس انہماک کا خاص طورسے تذکرہ فرماتے ہیں۔ ان دونوں اقوام کو ان کے ایسے ہی جرائم کی پاداش میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
قرآنِ پاک میں جن امور کی محبت کو رب کریم کے ساتھ تعلق میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ان میں بھی گھر شامل ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر …وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے‘ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ ۹:۲۴)
گھر اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن اگر یہ نعمت بندے کو اپنے رب کا شکرگزار بنانے کے بجاے غفلت میں ڈالنے کا سبب بن جائے تو یہ اس کی انتہائی بدقسمتی ہوگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع گھر کی دعا بھی مانگتے تھے اور گھروں میں انہماک اور تفاخر کا اظہار کرنے والی تعمیرات سے اظہارناپسندیدگی بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
بغیر ضرورت کے تعمیر کی گئی عمارت میں کوئی بھلائی نہیں۔
ہر عمارت اپنے مالک کے لیے مصیبت ہے سواے اس کے جو کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے تعمیر کی جائے۔
جو شخص بغیر ضرورت کے تعمیر کرتا ہے قیامت کے روز اسے کہا جائے گا کہ وہ اس عمارت کو اپنے سر پر اٹھائے۔
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ لوگ عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
لاحاصل تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی برکت نہیں۔
ضروریات پر خرچ کی جانے والی رقم صدقہ ہے‘ جب کہ نمایش کی غرض سے خرچ کی جانے والی رقم میں کوئی بھلائی نہیں۔ (ترمذی‘تعلیمات اسلامی)
بے مقصد تعمیرات اسراف ہیں‘ وقت اور وسائل کا ضیاع۔ دنیا کی رہنمائی کے منصب پر فائز اُمت مسلمہ کس طرح اپنے وسائل لاحاصل مشاغل کی نذر کر سکتی ہے؟
بستیوں کی صورت حال
اسلام کے احکام اور رہنما ہدایات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہماری بستیوں کی وہ صورت حال ہو جس میں وہ اس وقت ہیں‘ مثلاً:
سڑکیں اور گلیاں تنگ ہیں جنھیں باڑھ یا جنگلے لگا کر ناجائز تجاوزات کے ذریعے مزید تنگ کیا جا تا ہے۔
پانی کے بہائو اور نکاسی کا نظام درست نہ ہونے کے باعث بارش وغیرہ کے نتیجے میں پانی سڑکوں پر کھڑا رہتا ہے۔
گھروں کی تعمیرمیں سڑک کے لیول کا خیال نہ رکھنے سے بھی پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
گٹرکھلے ہوتے ہیں۔ ان سے غلیظ پانی رِس رہا ہوتا ہے۔
دیہاتوں میں نالیاں کھلی ہیں‘ ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔
خالی جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جس سے بستیاں آلودہ ہوتی ہیں۔ مکھی‘ مچھر اور دیگر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور صحتیں برباد ہوتی ہیں۔
ناجائز تجاوزات کی تو اس قدر بھرمار ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور کی جدید بستیوں میں ۹۰ فی صد کے قریب گھر اس مرض کا شکار ہیں۔
گھروں کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
گھروں کی تعمیر میں پردے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ صحن یا چھتوں پر بیٹھنا کم ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ہوا اور روشنی جیسی عظیم الشان نعمتوں سے محرومی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
گھر ہمارے رب کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ جسے سرچھپانے کو گھر ملا‘ سفر کے لیے سواری ملی‘ اور صبح شام پیٹ بھر کر کھانا مل گیا‘اس پر نعمتیں مکمل ہوگئیں۔ اللہ کی اس نعمت پر شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ یہ گھر:
اللہ کے دین کی خدمت میں مددگار ہوں۔
ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے راستے میں جہاد سے روکنے والے نہ ہوں۔
یہ تکبر اور فخر کی علامت نہ بن جائیں۔
یہ اللہ کے بندوں کے لیے کسی اذیت کا باعث نہ ہوں۔
پڑوسیوں کے لیے باعث آزار نہ ہوں کہ ان کی ہوا اور روشنی میں رکاوٹ ڈالیں۔ ان کے لیے بے پردگی کا باعث ہوں اور ہمارے گھروں کا شوروغل ان کے آرام میں خلل انداز ہو۔
ان گھروں کی تعمیر کے لیے حاصل کردہ زمین میں ایک انچ بھی ناجائز طور پر حاصل کردہ نہ ہو۔ ان کی تعمیر میں مال حرام نہ استعمال ہو۔
یہ گھر راستوں کی تنگی کا باعث نہ ہوں۔ بستیوں کے راستے کشادہ ہوں۔
ہمارے گھر اور راستے صفائی‘ پاکیزگی اور نظافت کا عمدہ معیار رکھتے ہوں۔ یہ سادگی اور اسلامی شعار کے عکاس ہوں‘ نیز ہمیں اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنانے والے ہوں۔
ان امور کا اگر خیال رکھا جائے تو پھرہی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ انسان اس روز کی جواب دہی سے بچ جائے جب نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا---!
استعماری دنیا کے اپنے اسالیب ہیں۔ طاقت کے بل پر اپنی پسند سے جسے چاہیں وہ ظالم قرار دے ڈالیں اور جسے چاہیں مظلوم کہہ گزریں۔ دنیا بہرحال اہل دانش اوراہل عدل سے خالی نہیں‘ لیکن حیرت اُن لوگوں پر ہوتی ہے جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری بن کر حقائق کو جھٹلاتے ہیں‘ اپنے اور اپنی قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر‘ دانستہ اور نادانستہ طور پر دشمن ہی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ گذشتہ ڈھائی سو سال کی مسلم تاریخ ہرآنے والا ظالم اور وعدہ معاف گواہ یہی کہتا ہے:’’میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بچا رہا ہوں‘‘۔
امریکی استعمار کا مسلط کردہ نام نہاد ’’مسلم ہّوا‘‘ غیرحقیقی ہونے کے باوجود‘ آج کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر پوری طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب پروپیگنڈے کی کرشمہ سازی ہے کہ رائی کا پہاڑ بلکہ ہمالہ بناکر دکھایا جاتا ہے۔ پھر افغانستان اور عراق پر قیامت مسلط کی جاتی ہے اور اب پاکستان افغان سرحد پر ایک نیا میدانِ جنگ منتخب کرنا پیشِ نظر ہے۔
مغربی اقوام نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے کھلے اورچھپے ‘ بڑے نپے تلے اقدامات کیے اور آیندہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک امریکی رپورٹ ہے جو یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ایوانِ نمایندگان میں پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ کسی فردِ واحد کی بڑ یا کسی امریکیت زدہ دانش ور کا ذہنی بخار بھی نہیں ہے‘ بلکہ اسے ۱۵ رکنی ایڈوائزری (مشاورتی) گروپ نے مرتب کیا ہے‘ جس میں ۴ سابق امریکی سفیر‘ ۷ امریکی دانش ور اور ۴ مسلم نژاد امریکی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:
Changing Minds Winning Peace: a new strategic direction for US Public. Diplomacy in the Arab and Muslim World.
رپورٹ کے دیباچے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تشکیل ایوانِ نمایندگان کے ایما پر ہوئی۔ ایڈوائزری گروپ چیئرمین ایڈورڈ پی ڈجرجین (Edward P. Djerejian)کے بقول: میں وزیرخارجہ کولن پاول کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے گروپ کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بھرپور اعانت فراہم کی۔ مزیدبرآں حکومت امریکا کے اعلیٰ سرکاری حکام نے نہ صرف واشنگٹن میں‘ بلکہ میدانِ عمل میں بھی ہماری مدد کی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رپورٹ ] امریکا کی[ اسٹرے ٹیجک سمت کے تعین کے لیے نہایت بنیادی اور نازک خطوط متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ (ص ۵-۷)
۸۰ صفحات کی یہ رپورٹ سات حصوں پر مشتمل ہے جس کا مطالعہ مسلم دنیا کے حکمرانوں‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ دانش وروں اور اساتذہ کرام کو ضرور کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مرتب کنندگان نے مصر‘ شام‘ ترکی‘ سینی گال‘ مراکش‘ برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا‘ جب کہ پاکستان اور انڈونیشیا میں ویڈیو کانفرنسوں اور سفارتی اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔
m ’’۱۹۴۰ء میں راک فیلر نے لاطینی امریکا کے صحافیوں کو دعوت دی‘ اس کے بعد سے اب تک امریکی سرکاری پالیسی‘ فل برایٹ پروگرام اور ہمفرے پروگرام کے تحت تقریباً ۷لاکھ افراد کو تبادلہ دانش کے پروگرام میں امریکا آنے میں مدد ملی ہے۔ اس وقت بقول کولن پاول: انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام (IVP) سے استفادہ کرنے والوں میں ۳۹سربراہان ریاست شامل ہیں (ص ۴۶)۔ اسی طرح انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (IMET) نے عرب‘ مسلم دنیا کے ایک ہزار سے زاید فوجی افسروں کو تربیت دی۔ آئی ایم ای ٹی ایک طاقت ور پروگرام ہے جو دنیا میں مستقبل کے لیڈروں کی تربیت کرتا ہے‘‘۔ (ص ۴۷)
__اگر ہم بالترتیب ان نکات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ‘ امریکی پالیسی سازوں کا پورا زور میڈیا‘ تعلیم‘ این جی اوز اور انگریزی زبان پر ہے:
__ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اربوں ڈالر کی یلغار اور خود مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں مقبوضہ قومی وسائل ہیں اور دوسری جانب ’’نادیدہ دشمن‘‘ اور بڑی حد تک ’’تخیلاتی مخالف‘‘ کے وسائل کا حال کسی موازنے کی بنیاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر ان کے مالی وسائل کو سلب کرنے کا جنون عروج پر ہے۔
__ پروپیگنڈا میں بے بسی کی بات وہ کہہ رہے ہیں جنھوں نے زمین و آسمان سے یک طرفہ اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ افغانستان اور عراق کے حوالے سے خود ان کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بے بنیاد افسانے کے بل بوتے پر کیا گیا۔ انسان سوچتا ہے کہ مادی ذرائع کی فراوانی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور کنٹرول کے باوجود‘ یہ کیسی عالمی طاقت ہے جو راے عامہ سے خائف ہے۔
__ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ اقتدار انھیں ’’اللہ کی طرف سے انعام‘‘ کے طور پر نہیں‘ بلکہ امریکی و استعماری طاقتوں کی نیازمندانہ رفاقت کے عوض ملا ہے۔
__ مخصوص پروپیگنڈا اور میوزک کے بخار سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا امریکی منصوبہ اپنے اندر عبرت کے بڑے سبق رکھتا ہے۔ خود ہمارے ہاں کیبل سروس‘ نجی ٹی وی نیٹ ورک‘ ایف ایم سروس بھی کسی نہ کسی درجے میں اسی ایجنڈے پر عمل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کی گرفت‘ ابلاغیات کی دیگر تمام اقسام سے زیادہ پراثر اور گمراہ کن ہے۔
__ تعلیم کے میدان میں امریکی منصوبہ سازوں کی حریصانہ بے چینی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں جیکب آباد ’’شہباز بیس‘‘ سے بھی زیادہ ضرورت تعلیم کے نام پر سامراجی عزائم کے حلیف ان فکری امریکی اڈوں کی ہے۔ یہ ایک درست قول ہے کہ: امریکی یونی ورسٹی بیروت نے عرب دنیا کے فکری‘ دینی اورسماجی مستقبل کو متاثر کرنے کے لیے وہ کام کیا ہے جو بہت سی مغربی حکومتیں بھی نہ کرسکتی تھیں‘‘۔ آج پاکستان میں ایف سی کالج پر امریکی کنٹرول کی بحالی ‘ نجی شعبے میں نام نہاد انگریزی میڈیم کی گرفت اور پھر آیندہ پاکستان بھر کے ثانوی و اعلیٰ تعلیمی بورڈوں کو آغا خان فائونڈیشن کے قبضے میں دینے کی تجاویز‘انھی سامراجی اور مسلم کش منصوبوں کا حصہ ہیں‘ جن کے بارے میں اہل دانش ہوشیار رہنے کی دہائی دے رہے ہیں‘ مگر مغرب سے زیادہ مغرب کے وفاداروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر ’’تعلیمی آزادی‘‘ کا مطلب اگر سمجھنا ہو تو لاہور سے شائع ہونے والے Journal South Asia کے شمارہ۲ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘ جس میں اے ایچ نیر نے ’’پاکستان میں نصاب کی اسلامائزیشن‘‘ (ص۷۱-۸۷) میں دین‘ اخلاق‘ پاکستانیت‘ دو قومی نظریہ ہر ایک چیز کو نصاب سے کھرچ ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ رسالہ سفما (سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن) کی پیش کش ہے۔ مستقبل میں شارجہ اور دوبئی کو امریکی یونی ورسٹی کی شاخوں کے ذریعے آباد کرنے اور ’’دانش کے شہر‘‘ آباد کرنے کے منصوبوں پر بڑی برق رفتاری سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
__ مسلم دنیا کی عورتوں‘ تعلیم اور اقلیتوں کا مسئلہ امریکی استعمار کے لیے کسی انسانی مسئلے سے زیادہ‘ خود امریکی ’’اقدار و تصورات ‘‘کے پھیلائو اور مذموم سامراجی مقاصد کے حصول کا ایجنڈا ہے۔ دیکھا جائے تو حقوق اور عورتوں وغیرہ کے نام پر قائم شدہ مغربی مفادات کی محافظ نظریاتی این جی اوز کا بنیادی ہدف کسی فرد کی دست گیری سے زیادہ مسلم تہذیبی اقدار کو ہدف بنانا‘ اسلامی نظریاتی اصولوں پر تنقید کرنا‘ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ اور آخرکار اباحیت پسندی اور تشکیک کے کانٹے بونا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد مخصوص این جی اوز کو واقعی امریکی مفادات کے مضبوط قلعے (سٹرانگ ہولڈز) کے طور پر کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں انھی این جی اوز کو پاکستان کی وفاقی وزارت میں نمایندگی اور قومی وزارتوں میں منصوبہ سازی کے لیے کلیدی رول مل چکا ہے۔ علما‘ اہل دانش اور محب وطن ارکان اسمبلی غالباً ان گہری جڑوں سے نموپانے والے کانٹوں سے پوری طرح باخبر نہیںہیں‘ اور جو اس کے ہولناک نتائج کا شعور رکھتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر گوناگوں مفادات کے قفل لگے ہوئے ہیں۔
__ ایک جانب تو اپنی قومی زبان سے پہلوتہی اور ترقی کے نام پر انگریزی کی جانب پیروجواں اور مرد و زن کی لپک ہے اور دوسری طرف صیاد‘ دانہ ودام لیے انھیں اور ان کے مستقبل کو شکار کرنے کے درپے ہیں۔
امریکی ایوان نمایندگان کی اس رپورٹ میں مسلم دنیا کی مسندِاقتدار اور مسندِدانش پر بیٹھے افراد کے لیے غوروفکر اور اُمت کے مفاد میں حکمت عملی تجویز کرنے کا بھرپور چیلنج موجود ہے۔ اہل دانش اور عوام کے لیے اس میں سوچ وبچار کے بڑے نکات ہیں۔
افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ تقریباً ۲ہزار میل تک ہماری مغربی سرحد اس کے ساتھ ملتی ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک جیسے قبائل آباد ہیں‘ جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیںاور جوبلاروک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی‘ نسلی اور مذہبی روابط بھی ہیں۔ افغانستان میں حالات خراب ہوں گے تو لازماً اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ وہاںاقتصادی اور معاشی خوش حالی ہوگی تو اس کے اچھے اثرات سے بھی پاکستان فیض یاب ہوگا۔ افغانستان کی بیشتر تجارت پاکستان کے راستے سے ہوتی ہے۔
پاکستان نے روسی حملہ آوروں کے خلاف افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ روسی جارحیت کے نتیجے میں ۳۰ لاکھ سے زائدافغان باشندے ملک بدرہوئے تو پاکستان نے اسلامی اخوت کے جذبے اور کھلے دل کے ساتھ اپنے افغان بھائیوں کو خوش آمدید کہا‘ اور ان کے لیے ہر قسم کے وسائل مہیا کیے۔ ان میںسے ۱۰ لاکھ سے زائد افراد اب بھی پاکستان میں رہایش پذیر ہیں۔ اگر پاکستان انھیں بوجھ یا کسی غیرقوم کے افراد سمجھتا تو کب کا انھیں پاکستان سے نکال چکا ہوتا۔ روسی افواج کی شکست کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان کی سیاسی صورت گری میں مددکی۔ مہاجرین کے مختلف دھڑوں میں صلح وصفائی اور مجاہدین کی حکومت کی تشکیل میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیاہے۔ طالبان حکومت کو بھی پاکستان کا تعاون حاصل رہا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہماری شمال مغربی سرحدات ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ امن وامان کا یہ دور امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں نے تہس نہس کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے آباداور پرُرونق شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔
اس وقت افغانستان امریکی افواج کے شکنجے میں ہے۔ امن وامان کی صورتِ حال‘ سرحدی تنازعات‘ بھارتی سفارت کاروں کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیاں ‘ معیشت کی مکمل تباہی‘ پوست کی کاشت اور بڑے پیمانے پر افیون کی تجارت‘امریکی اور اتحادی افواج کے آپریشن‘ وہ تشویشناک عوامل ہیں جن کے اثرات سے کوئی پڑوسی ملک بالخصوص پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
طالبان حکومت کوئی مثالی اسلامی حکومت نہیں تھی۔ امور مملکت کے بہت سارے شعبوںمیں ناواقفیت اورناتجربہ کاری کی وجہ سے ان سے بہت سی غلطیاں سرزدہوئیں ۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ان کے دور حکومت میں ملک میں مکمل امن وامان تھا‘ ۹۰فی صد علاقہ ان کے زیر اثر تھا ۔ سڑکیں اور شاہراہیںکھلی ہوئی تھیں۔ دِن رات مسافر گاڑیاں اور ٹرک‘ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر کسی مزاحمت یا رکاوٹ کے آجا سکتے تھے۔ مقامی سرداروں کے ٹول ٹیکس اور پرمٹ کا نظام ختم ہو چکا تھا۔ عوام نے ہر قسم کااسلحہ رضا کارانہ طور پر حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ امن عامہ کو تباہ کرنے والے مجرموں کوعبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ وار لارڈز کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی تھی۔لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰۃ اور عشر ادا کرتے تھے۔ قحط سالی کی وجہ سے ملک میں غلے کی کمی تھی لیکن اس کے باوجودبدنظمی یا لوٹ مارکے واقعات نہیں ہوتے تھے۔ بیرونی امدادی اداروں کو تحفظ حاصل تھا۔ دور دراز علاقوں میںبھی لوگوں کی جان‘ مال اورعزت وآبرو محفوظ تھی۔ ہر طبقے کو عدالت تک رسائی حاصل تھی اورانصاف ملتا تھا۔یہ سب ثمرات اور بھائی چارے کا عظیم الشان ماحول اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی برکت سے تھا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورا ملک لسانی‘ نسلی ‘ قبائلی‘ شہری ‘ دیہاتی ‘ امیر وغریب جیسے تعصبات میں مبتلا ہے۔ پشتون قبائل جو شمالی صوبوں میں عرصہ درازسے آباد تھے‘ اُنھیں ملک بدر کیا گیاہے۔ ان کی کل تعداد ۶۰ہزاربتائی جاتی ہے اور وہ اس وقت کابل کے مضافات میں عارضی کیمپوں میں قیام پذیر ہیں۔ اسی طرح کابل ‘ مزارشریف اور ہرات کے شہری علاقوں میں مکانات کے جائز مالکان کوزبردستی بے دخل کیا گیاہے۔طالبان سے پہلے مختلف ادوار میں قتل و غارت گری‘ لوٹ مار اور جھگڑا وفساد کابازار گرم رہا مگر طالبان کے دور میں عدل وانصاف کی وجہ سے یہ تمام تنازعات اور قبائلی دشمنیاںخوش اسلوبی سے طے ہونے لگیں۔اس وقت متحارب خاندانوں اورقبیلوں کو انصاف دِلوانا‘ اور ان کے درمیان صلح صفائی کروا کر اسلامی بھائی چارے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کے بغیر افغانستان میں امن وامان قائم ہوسکتاہے نہ ترقیاتی کام شروع کیے جاسکتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں بیوہ خواتین ‘ یتیم بچے‘معذوراور بے سہارا افراد لاکھوںکی تعداد میں ہیں ۔اِن کی گزربسرامدادی اداروں کی مدد اور تعاون پرمنحصر ہے۔
افغانستان میں امن وامان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ افغانستان کے چار صوبوں‘ یعنی نیمروز‘ اروزگان ‘ ہلمند اور زابل میں عالمی ادارے اور تمام این جی اوز کے دفاتر بندکر دیے گئے ہیں اوران کی ساری امداد ی سرگرمیاں معطل ہیں۔اقوام متحدہ کے سکیورٹی کوارڈینیٹر نے اس علاقے کو ہائی رسک زون قرار دِیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں کے جنگی سردار ہیں۔ کابل شہر سے دورکے علاقوں میں ان کا راج ہے۔ ان کی اپنی فوج ہے۔جس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ ہے۔ان کی اپنی جیلیں ہیںجن میں سیکڑوں پاکستانی عرصہ دو سال سے سڑ رہے ہیں اور انھیں حامدکرزئی کے اعلانات کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔مرکز کا کنٹرول براے نام ہے حتیٰ کہ ٹیکس وصولی مقامی جنگی سردار اپنی قوت بازو سے خود کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں سکول ہیں نہ ہسپتال‘ سڑکیں ہیںنہ بجلی کا انتظام۔
یہی جنگی سردار امریکی افواج کی پشت پناہی اورسرپرستی میں منشیات کا کھلم کھلا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کو بھارت ‘ایران اورروس کے زیراثر وسطی ایشیائی ممالک کی آشیر بادبھی حاصل ہے۔ اِن جنگی سرداروں ہی کی مدد سے امریکا نے طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے اور اب انھی کے تعاون سے مجاہدین کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ اِن کے زیر اثر علاقے ایران‘ ترکمانستان ‘ تاجکستان اور ازبکستان سے ملے ہوئے ہیں۔ اس لیے اپنے معاملات براہ راست امریکا اور وسط ایشیا کے ممالک سے طے کرتے ہیںاور دوسرے ممالک سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان بھی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں حکومت کے واضح احکامات کے باوجود وسیع پیمانے پرپوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ۲۰۰۲ء میں ۳۴۲۲ ٹن افیون پیدا ہوئی جو دنیا کی کل افیون پیداوار کا۷۵ فی صدہے۔یہ سردار اپنے اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے باہم برسرپیکار رہتے ہیں۔ عرصہ دو سال سے شمالی اتحاد کے جمعیت اسلامی کے جنرل عطا اور جنبش ملی کے جنرل عبدالرشید دوستم وقفے وقفے سے لڑ تے رہے ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
بے اطمینانی کی بڑی وجہ افغانستان میں طالبان اور ان کے حامی عناصر کے خلاف امریکی اور افغان فوج کا ظالمانہ اور سفاکانہ آپریشن ہے۔ڈیڑھ سال قبل امریکی بی-۵۲ طیاروں نے ایک قافلے پر بمباری کی جو کرزئی کو مبارکباد دینے کے لیے کابل جا رہا تھا۔گذشتہ سال ایک بارات پر فائرنگ کے نتیجے میں۴۸ بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ نومبر میں صوبہ کنٹر کے سابق گورنر غلام ربانی کے گھر پر امریکی طیاروں نے بمباری کی جس کے نتیجہ میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے سے معاشرے کا بڑا طبقہ امریکی اور اتحادی افواج کا مخالف ہو گیاہے اور عام لوگ بھی امریکا سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
طالبان حکومت کو ختم ہوئے دو سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی افغانستان کے طول وعرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ طالبان ایک غیر ملکی ٹولے کی حکومت نہیں تھی بلکہ عوام میں اُن کی جڑیںتھیں۔ اس کواب بھی افغانستان کی کثیر آبادی کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ اس وقت امریکی افواج کی مزاحمت صرف طالبان نہیں کر رہے ہیںبلکہ اس میں بہت ساری جہادی تنظیمیں شامل ہیں۔ گلبدین حکمت یار اور مولوی محمد یونس خالص نے کھلم کھلا امریکا کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ہے۔ اب امریکا کے خلاف ایک متحدہ محاذ ــ’’مجاہدین اسلام‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آیا ہے جو امریکی اور اتحادی افواج کو’’صلیبی افواج‘‘اور موجودہ جنگ کو’’صلیبی جنگ ‘‘کا نام دیتا ہے۔ مجاہدین نہ صرف پاکستان کے ملحق سرحدی علاقے میں بلکہ پورے افغانستان میں گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیاںصرف کابل تک محدود ہیں۔اُن کے نامہ نگار عدمِ تحفظ کی وجہ سے کابل شہرمیں بھی آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتے۔ اس لیے دور دراز صوبوں میں مجاہدین کی مزاحمتی کاروائیاںمنظر عام پر نہیںآتیں۔ رمز فیلڈکے دور ہ کابل کے دوران باگرام ائیر بیس راکٹوں کا نشانہ بنا۔ اسی طرح کابل میں لویہ جرگہ اجلاس کے قریب راکٹ گرے۔ کرزئی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ افغانستان میںطالبان کا کوئی وجود نہیں ہے‘یہ ملک کے سرحدی علاقے میں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پکتیکا اور قندھار پر مجاہدین کا عملاً قبضہ ہے۔ افغان اور امریکی افواج ان علاقوں میں زمینی آپریشن سے گریز کر رہی ہیںجو اس بات کی دلیل ہے کہ افغان مجاہدین جوعرصہ ۲۰سال سے گوریلا جنگ کا تجربہ رکھتے ہیںان کے مقابلے میں امریکی فوج کے کمانڈو بالکل نوآزمو اور ناتجربہ کارکھلاڑی ہیں۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغان عوام بلکہ سارے عالم اسلام کی ہمدردیاںطالبان کے ساتھ ہیں۔ ان علاقوں میں مجاہدین کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سال مسلسل تلاش‘گولہ باری اور بمباری کے باوجود اسامہ بن لادن یا ملا عمر کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بش حکومت نے اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے ۵۰ لاکھ ڈالر انعام مقرر کر رکھا ہے۔
اسامہ بن لادن یا ملا عمرکے نام سے جتنے اعلانات کیے جا رہے ہیں وہ سارے کے سارے فرضی ہیںاور حقائق کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ طالبان کی تلاش کے بہانے امریکی اور اتحادی افواج کو افغانستان میں رہنے کا بہانہ ہاتھ آ سکے اور امریکی عوام کے لیے افغانستان پر حملے اور مظالم کاکوئی اخلاقی جوازپیش کیا جاسکے۔ برطانیہ اور امریکا میں عراق کے مہلک اور تباہی والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹ کا پول کھل گیاہے۔نہ صرف ان ممالک کے عوام بلکہ باقی دنیا بھی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ عراق پر مہلک ہتھیاروں کا بے بنیاد الزام‘ حملے کے لیے صرف ایک بہانہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کی حقیقت بھی سامنے آئے گی اورمعلوم ہو جائے گا کہ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے اور اس میں ملوث افراد کون تھے۔
یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو حامد کرزئی نے الزام لگایا کہ پاکستان کے ۱۰ ہزار دینی مدارس کے طلبہ‘ مجاہدین کی مدد کر رہے ہیں۔ ۶اکتوبر کو انھوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کے سیاسی پاورسٹرکچر کے۴۰‘۵۰ افراد افغان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مطالبہ کیاکہ دینی مدارس پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔ اس لیے کہ ’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘کی لہر پاکستان کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو رہی ہے۔ اس طرح حامد کرزئی اندرون ملک بدامنی اور بے چینی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی افواج کا افغانیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کایہ پہلا تجربہ ہے۔ ان کو قائل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے مجاہدین دراندازی کرتے ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکی احکامات پر پاکستانی فوج کے ۷۰ ہزار جوان پاک افغان سرحد پر مامور ہیںاور مختلف دروںاور راستوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کام بظاہر یہ ہے کہ سرحد پر مجاہدین کی آمدروفت پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان کی فوج نے مہمند ایجنسی کے برادرہ‘ انارگئی اور یعقوبی کنڈائو کے علاقوں میں فوجی چوکیاں تعمیرکیں۔ ننگرہار کے کمانڈر حضرت علی کے حامی ملیشیا کے اہل کاروں نے ان چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کی‘ راکٹ لانچر اور مارٹر گنیں بھی استعمال کیں۔چونکہ سرحد کی نشان دہی زمین پر boundary pillars سے نہیںکی گئی ہے لہٰذا سرحد کی اصلی حدودمتعین کر نا مشکل کام ہے۔
اس وقت بھارت نے افغانستان میںآٹھ قونصل خانے کھولے ہیں۔ان میں قندھار اور جلال آباد کے قونصل خانے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے اور تخریب کاری کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔جلال آباد کے بھارتی قونصل خانے میں را کے جو ایجنٹ متعین کیے گئے ہیں ان کی اطلاع پر کابل میں خبر پھیلائی گئی کہ پاکستانی فوج مہمند ایجنسی میں درہ یعقوبی کے قریب کئی میل تک افغانستان کے اندر گھس آئی ہے۔ اس کے خلاف کابل اورمزار شریف میں احتجاجی جلوس نکالے گئے ۔ صدر پرویز مشرف کے ایک بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو انھوں نے کرزئی حکومت کے متعلق پیرس میں دیا تھا۔ ۶جولائی کو کابل میں بین الاقوامی اطلاعتی مرکز کے افتتاح کے موقع پر حامد کرزئی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے پائوں چادر سے باہر نہ نکالے اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پڑوسی ممالک کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کے فیصلوں کا سلسلہ بند کر دیں۔
اس کے دو دن بعد کابل شہر میں پاکستان کے خلاف ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کی تعداد ۵ہزار کے قریب تھی جس کی قیادت افغانستان سٹیٹ بنک کے گورنر انوارالحق احد کر رہے تھے جو نیشنل اسلامک فرنٹ کے سربراہ پیر سیدعلی گیلانی کے داماد ہیں۔ وہ عرصۂ دراز تک امریکا میںمقیم رہے ہیں۔ کرزئی حکومت قائم ہونے کے بعد واپس کابل آئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر حکومتی نمایندوں اور سرکاری اہل کاروں نے بھی اس مظاہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین نے جو ڈنڈوںسے لیس تھے‘ پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا ۔تمام گاڑیوں‘ کمپیوٹروں ‘ فرنیچر اور ریکارڈ کو تباہ کیا اور عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔امریکی اور انٹرنیشنل سیکورٹی ایڈمنسٹریٹو فورس (ISAF)اور سرکاری انتظامیہ اس پوری کارروائی کو تماشائی نگاہوں سے دیکھتی رہی ۔ افغان پہرہ داروں نے بھی جن کی ذمہ داری سفارت خانے کی حفاظت تھی‘ حملہ آور جلوس کے ساتھ مل کر سفارت خانے کو نقصان پہنچایا۔ کابل کے علاوہ مزار شریف‘ پغمان اور قندھار میں بھی احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہوئے جن میں انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ صدر کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی نے بھی شرکت کی۔
اگست کے آخری ہفتے میں ۲۰ سال کے بعدپہلی مرتبہ سرکاری طور پر یوم پختونستان منایا گیا۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں کرزئی کے وزرا نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں پاکستانی سرحدی علاقے پرظاہر شاہ کے دور کے افغانی دعوئوں کا اعادہ کیا گیا۔یہ بھی کہا گیاکہ جو معاہدہ ۱۸۹۳ء میں برطانوی حکومت کے نمایندے مارٹیمرڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمن کے درمیان طے ہوا تھا اس کی مدت ۱۰۰سال کی تھی اس لیے اس کی میعاد ۱۹۹۳ء میں ختم ہو چکی ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ علاقے جو افغانستان کا حصہ تھے اور طاقت کے بل پر انگریزوں نے چھینے تھے وہ واپس کیے جائیں۔ اس قِسم کی بلیک میل سے ماضی میں بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متاثرہوئے ہیںاس میں بھارت کی شہ پر ظاہر شاہ نے منافقانہ کردار ادا کیا جس کے عوض اُس کو بھارت کی طرف سے ہر سال بھاری رقوم ملتی رہیں۔
اس وقت پشتون آبادی افغانستان کا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے۔ افغانستان کے پشتون قبائل پاکستان کے احسانات کے معترف ہیں۔ ان میں سے لاکھوں افراد پاکستان میں پیدا ہوئے ہیںجوافغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ دونوںممالک کے درمیان کوئی سرحد نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صدر پرویز مشرف کی افغان پالیسی سے شدیداختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو اگر پرویز مشرف کی مددحاصل نہ ہوتی توآج افغانستان تباہی اور بربادی کے کھنڈرات کا ڈھیر نہ ہوتا۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان‘ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ خوراک ‘ روزمرہ استعمال کی اشیا ‘ترقیاتی منصوبوں کے لیے سیمنٹ اور سریا یہا ں سے جاتا ہے۔ پاکستان کے پیشہ ور ماہرین‘ مواصلات‘ تعلیم اور صحت کے میدان میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن کابل میں امریکی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ شمالی اتحادکو ناراض کر کے پاکستان کو ملک کی تعمیر نو میں کوئی اہم اور قابل ذکر کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان کی افغان پالیسی خود بھی تذبذب کا شکار ہے ۔ بھارت نے شروع میں موقع ملتے ہی ۲۰۰ بسوںکا بیڑا اورآریانہ ائیرلائینز کے لیے ہوائی جہازبھیج دیے جس سے بیرونی ممالک کے ساتھ اُن کے ہوائی رابطے استوارہوئے ۔ بسوں کی وجہ سے اندرون ملک روڈ ٹریفک بحال ہوئی۔ ۲سال کی سوچ بچارکے بعد پاکستان نے بسوں ‘ اور ٹرکوںکی امداد کا جواعلان کیا ہے وہ بھارتی اثرورسوخ کو زائل کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ امداد پہلے سال ہی فوراًدی جاتی تو اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے۔
بون معاہدے کے تحت دسمبر کے مہینے میں لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوا‘جو صرف ۱۰ دِن کے لیے بلایا گیا تھا‘ لیکن اس کی کارروائی ۲۲ دِن تک جاری رہی۔ لویہ جرگہ کے ۵۰۲ممبران میں سے ۵۰حامد کرزئی کے نامزد کردہ تھے۔ ان میں صبغت اللہ مجددی بھی شامل تھے جو لویہ جرگہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ۱۶۰شقوں پر مشتمل آئین کا مسودہ صدر کرزئی کے نامزہ کردہ ۳۵ ارکان کے کمیشن نے تیار کیا تھا لیکن پس پردہ اس کی تیاری میں امریکی سفیر زلمے خلیل زادہ اور اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کے خصوصی نمایندہ براے افغانستان لخدار ابراہیمی نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ بون معاہدے کے مطابق کوئی بھی جنگی سردار جرگہ کارکن بننے کااہل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس میں جنرل عطا‘ عبدالرشید دوستم‘ کمانڈر اسماعیل سمیت سب جنگی سرداروں نے شرکت کی۔ مسودے میں صدارتی نظام کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ امریکا کی خواہش پر شامل کیا گیا تھا اس لیے کہ ا س میں صدر کو کابینہ کے وزرا‘ صوبوں کے گورنروں‘ عدلیہ کے ججوں ‘ فوج میں اہم عہدوں کی تعیناتی کا اختیار دیا گیاتھا۔مزید یہ کہ صدر افواج کا سربراہ بھی ہوگا۔ لویہ جرگہ کا زیادہ تر وقت اس بات پر صرف ہوا کہ ملک کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی۔ شمالی اتحاد کے ۲۰۰ارکان پارلیمانی نظام کے حامی تھے اور اس کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے اور ایک موقع پر انھوں نے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ لیکن بالآخر وہی ہوا جو امریکا کی مرضی تھی۔ لویہ جرگہ نے بالاتفاق صدارتی نظام کی منظوری دے دی۔ یہ آئین چند نمایشی شقوں کو چھوڑ کر ایک مکمل سیکولر آئین ہے۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ حکمرانی کا حق صرف عوام کوہے۔ اس میں کہیں بھی شرعی قوانین کے نفاذ کا ذکر نہیں ہے۔البتہ پاکستان کے طرز پر ملک کا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہوگا۔یہ پہلا آئین ہے جس میں شاہ کا ذکر نہیں ہے البتہ صدر کو وہ سارے اختیارات دیے گئے ہیں جو ۱۹۶۴ء کے آئین میں ظاہر شاہ کو حاصل تھے ۔
حامد کرزئی نے اجلاس کے شروع میں اس بات کا ذکر کیاکہ اگر ملک میں صدارتی نظام رائج نہ کیا گیا تو وہ جون کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس کے لیے انھوں نے ہرطریقے سے جوڑ توڑ کی کوشش کی۔ سرکاری فنڈاوربیرونی امداد کے ایک بڑے حصے کو بے دردی سے اس مقصدکے لیے استعمال کیا گیا۔اور بالآخر ارکان کی اکثریت کو ہمنوا بنا نے اور خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ افغانستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت اس خطے میں امریکی عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہے اسی لیے امریکی انتظامیہ فردِ واحد کی وساطت سے افغانستان کے اُمور کو چلانا چاہتی ہے جس کے لیے کرزئی پہلے سے اُن کے اُمید وار ہیں۔ ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے دستور میں مناسب دفعات رکھی گئی ہیں۔امریکا نے اپنے حلقہ اثر والے ممالک میں بھی فردواحد کی حکومتوں کو رواج دے رکھا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کا تحفظ آسانی سے کرسکتاہے۔ عام طور پر فردِ واحد سے لین دین یااس کو اقتدار سے ہٹاناآسا ن کام ہوتا ہے۔ افغانستان میں مضبوط صدارتی طرز حکومت اس مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے تاکہ افغان اُمور کو واشنگٹن کی مرضی اور پسند کے مطابق چلانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
صدیوں سے افغانستان کا نظم ونسق شہنشاہیت‘ قبائلی نظام اور شرعی نظام کے تین ستون پر قائم رہا ہے۔ آئین میں ان تینوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور باہر سے ایک نیا نظام مسلط کیا جا رہا ہے جس کو افغان عوام پوری طرح سے سمجھتے ہیں نہ موجودہ حالات میں اس پر عمل درآمد کی کوئی توقع اوراُمید ہے۔نئے آئین کے مطابق مسلح گروپوں ‘ قومیتوں ‘ فرقوں اور لسانی بنیادوں پر قائم جماعتوں کے ملکی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی ۔ اہم سوال یہ ہے کہ محمد فہیم ‘ عبداللہ عبد اللہ‘ عبدالرشید دوستم ‘ کمانڈر عطا ‘ حضرت علی اور اسماعیل خان جو اس قانون کی زد میں آتے ہیں کیا واقعی ملکی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیںگے؟ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خارجی لوگوں کو جایداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پاکستان کے پشتون قبائل جوسرحد کے دونوں طرف آباد ہیں اور تجارتی اغراض کے لیے ان کا افغانستان آنا جانا روز کا معمول ہے‘ قندھار وجلال آباد میں ان کی جایدادیں ہیں۔ اُن پر یہ دفعہ کس طرح لاگو کی جا سکے گی؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت جب کہ کابل میونسپلٹی کی حدود سے باہر جنگی سرداروں کا راج ہے‘ ان حالات میں دُور دراز علاقوں میںآزادانہ انتخابات کیسے منعقد کیے جاسکیں گے اور جو پارلیمان معرض وجود میں آئے گی وہ کس حد تک عوام کی حقیقی نمایندہ ہوگی۔ یہ اہم سوالات ہیں جن پر افغان دانش وربہت زیادہ فکر مندہیں۔
افغانستان کی تعمیر نو کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی ایک وجہ بون معاہدے کے دستخط کنندگان کی افغانستان کی ترقیاتی کاموں میں عدم دل چسپی ہے۔ جاپان کے شہرکیا ٹومیں اربوں ڈالر کی امدادی رقوم کے اعلانات کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کے لیے مطلوبہ فنڈ فراہم نہیں کیا جارہا ۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی افواج پر ۱۱ارب ڈالر خرچ کیے‘ جب کہ تعمیر نو کے کاموں پر صرف۹۰کروڑ صرف ہوئے ہیں۔ امریکی اوراتحادی افواج کی سرگرمیاںاس وقت اسامہ کو پکڑو(Catch Osama) مہم پر مرکوزہیں۔ پاک افغان سرحد پرمتعین ۷۰ہزار پاکستان افواج کو بھی مبینہ طورپر اسی مقصدکے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے صدر بش کے ہاتھ کوئی ٹرافی آ جائے۔ دوسری وجہ امن وامان کی خراب صورت حال ہے جس کی ساری ذمہ داری امریکا پر عاید ہوتی ہے۔
امن وامان بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن فوراً بند کیا جائے ۔ غیر ملکی افواج سے ملک کو نجات دلائی جائے۔ ان کے ہوتے ہوئے امن وامان کی بحالی ہو سکتی ہے نہ ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اسلامی ممالک پر مشتمل فوج ملک میں تعینات کی جائے اور اس کے زیراہتمام ملک کی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیںاور اس کو آئین مرتب کرنے کا کام سونپا جائے۔ ملک میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔افغان جنگی سرداروں اور امریکا کے زیر حراست افراد کو رِہا کیا جائے‘ جنگی سرداروں کی بیخ کنی کی جائے۔ پوست کی کاشت اور افیون کی تجارت اورہر قسم کے اسلحے پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔جن علاقوں سے مختلف نسلی گروہوں کو بے دخل کیا گیا ہے اُن کی اپنے علاقے میں آباد کاری کا بندوبست کیا جائے اور ان سے چھینے ہوئے مکانات اور جایداد واپس دلائی جائے۔
امید کی جاتی ہے کہ ان اقدامات کے بعد افغانستان میں قیامِ امن میں پیش رفت ہوگی اور پہاڑوں جیسی سربلند اور سخت جان قوم ٹھوس منصوبہ بندی کر کے اپنے بہتر مستقبل کے لیے پیش قدمی کر سکے گی۔
جنابِ صدر! دہشت گردی کے بارے میں عوام سے سچ بولیے۔ اگر دہشت گردی کے بارے میں جھوٹی باتوں کو چیلنج نہ کیا گیا‘ تو خطرہ جوں کا توںرہے گا یہاں تک کہ یہ ہم کو تباہ کردے۔
سچ یہ ہے کہ ہمارے ہزاروں نیوکلیائی ہتھیاروں میں سے کوئی ہم کو ان خطرات سے تحفظ نہیں دے سکتا۔ کوئی اسٹاروار نظام تکنیکی طور پر کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو‘ کتنے ہی ٹریلین ڈالر اس کی نذر کیوں نہ کر دیے گئے ہوں‘ ہمیں کسی کشتی‘ کسی سیسناجہاز‘ کسی سوٹ کیس یا کسی ٹرک میں ارسال کردہ جوہری ہتھیار سے نہیں بچا سکتا ۔ہمارے وسیع اسلحہ خانے کا کوئی ہتھیار‘ اپنے دفاع پر خرچ کیے جانے والے ۲۷ ارب ڈالروں میں سے کوئی پائی‘ دہشت گرد بم سے دفاع مہیا نہیں کرتا۔ یہ ایک فوجی حقیقت ہے۔
ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اور قومی سلامتی کے موضوع کے مقرر کی حیثیت سے میں اکثر بائیبل سے یہ اقتباس سناتا ہوں: بادشاہ کو اس کی طاقت ور فوج نہیں بچاتی۔ ایک لڑنے والے سپاہی کو اس کی طاقت نہیں بچاتی۔ فوراً ذہن میں یہ سوال آتا ہے: پھر ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنے عوام کو تحفظ و سلامتی فراہم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔
کرسکتے ہیں--- مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خطرے کے بارے میں سچائی اور حقیقت کو جانیں۔ جناب صدر! جب ہم نے سوڈان اور افغانستان پر بمباری کی وجہ بیان کی تو آپ نے امریکی عوام کو یہ سچ نہ بتایا کہ ہم دہشت گردی کا ہدف کیوں ہیں؟ آپ نے کہا کہ ہم اس لیے ہدف ہیں کہ ہم دنیا میں جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق کے علَم بردار ہیں! کتنی واہیات ہے یہ بات!
ہم دہشت گردوں کا ہدف ہیں کیوں کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں ہماری حکومت آمریت‘ غلامی اور انسانی استحصال کی علَم بردار ہے۔ ہم اس لیے ہدف ہیں کہ ہم سے نفرت کی جاتی ہے۔ اور ہم سے نفرت اس لیے کی جاتی ہے کہ ہماری حکومت نے قابلِ نفرت کام کیے ہیں۔کتنے ہی ملکوں میں ہماری حکومت کے ایجنٹوں نے عوام کے کتنے لیڈروں کو برطرف کیا اور ان کی جگہ فوجی آمر لا بٹھائے‘ جو اپنے عوام کو امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ہاتھ فروخت کرنے پر راضی ہیں۔
ہم نے یہ ایران میں اس وقت کیا جب امریکی میرین اور سی آئی اے نے مصّدق کو اس لیے برطرف کیا کہ وہ ایران کی تیل کی صنعت کو قومیانا چاہتا تھا۔ ہم نے اس کے بجاے شاہ ایران کو لابٹھایا اور اس کے قابلِ نفریں ساواک گارڈزکو مسلح کیا‘ تربیت دی اور رقوم دیں جس نے ایرانی عوام کو غلام بنایا‘ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا گیا کہ ہماری تیل کی کمپنیوں کے مالی مفادات محفوظ رہیں۔ اب اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ ایران میں ایسے لوگ ہیں جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔
ہم نے یہی چلّی میں کیا‘ یہی ہم نے ویت نام میں کیا‘ حال ہی میں ہم نے یہی کچھ عراق میں کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہہ نکاراگوا اور لاطینی امریکا کی دوسری ریاستوں میں ہم نے ایسا کئی بار کیا بار بار ہم نے ایسے مقبول لیڈروں کو برطرف کیا جو اپنے ملک کے وسائل اپنے ان عوام پر خرچ کرنا چاہتے تھے جو اس کے لیے کام کرتے تھے۔ ہم نے ان کی جگہ ایسے خونی قاتل اور ظالم حکمرانوں کو لائے جو اپنے ملک کے عوام کو فروخت کر دیں تاکہ ملک کی دولت امریکی کمپنیوں کو پہنچائی جا سکے۔
ملک کے بعد ملک میں ہماری حکومت نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی‘ آزادیوں پر پابندی لگائی اور انسانی حقوق کو پامال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کا ہدف ہیں۔
کینیڈا کے عوام جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ اسی طرح ناروے اور سویڈن کے عوام۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ کینیڈا کے‘ ناروے کے یا ‘سویڈن کے سفارت خانوں پر حملے ہوئے؟
ہم سے اس لیے نفرت نہیں کی جاتی کہ ہم جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق پر عمل کرتے ہیں‘ بلکہ ہم سے اس لیے نفرت کی جاتی ہے کہ ہماری حکومت تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے ان چیزوں کے دروازے بند کرتی ہے۔ تیسری دنیا‘ جس کے وسائل پر ہماری ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی نظر ہے۔نفرت کے جو بیج ہم نے بوئے ہیں ‘ وہ ہم کو ابھی دہشت گردی کی شکل میں برگ و بار لاکر اور مستقبل میں جوہری دہشت گردی کے اندیشوں سے پریشان کر رہے ہیں۔
ایک دفعہ یہ حقیقت جان لی جائے کہ خطرہ کیوں ہے تو حل واضح ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنے طریقے بدلنا چاہییں۔ ہم‘ ضروری ہو تویک طرفہ طور پر ہی سہی‘ اپنے جوہری ہتھیار تلف کر دیں تو ہماری سلامتی میں اضافہ ہو جائے گا۔ خارجہ پالیسی میں مکمل تبدیلی سے اسے یقینی بنایا جاسکے گا۔
اپنے بیٹوں بیٹیوں کو عربوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجنے کے بجاے‘ تاکہ ان کی ریت میں دفن تیل ہمیں ملے‘ ہمیں انھیں ان کی ترقی کے لیے ڈھانچاتعمیر کرنے کے لیے‘ صاف پانی مہیا کرنے کے لیے‘ اور فاقہ زدہ بچوں کو خوراک پہنچانے کے لیے بھیجنا چاہیے۔ پابندیوں کے ذریعے عراق کے ہزاروں بچوں کو روز قتل کرنے کے بجاے ہمیں عراقیوں کے بجلی اور پانی کے منصوبے اور ہسپتال تعمیر کرنے کے لیے مدد دینی چاہیے۔ یہ سب ہم نے ہی تباہ کیے اور پابندیوں کے ذریعے ان کی تعمیرنو ممکن نہ رہنے دی۔ ہمیں اپنا دہشت گرد اور ڈیتھ سکواڈ تیار کرنے کا اسکول ختم کردینا چاہیے۔ ساری دنیا میں بغاوت‘ عدمِ استحکام‘ قتل اور دہشت کی حمایت کے بجاے ہم کو سی آئی اے کو لپیٹ دینا چاہیے اور یہ رقم ریلیف ایجنسیوں کو دینا چاہیے۔
مختصراً یہ کہ ہم کو بدی کے بجاے نیکی کرنا چاہیے۔ پھر ہمیں کون روکے گا؟ پھر ہم سے کون نفرت کرے گا؟ کون ہم پر بم پھینکے گا؟ یہ سچ ہے جناب صدر! امریکی عوام کو بھی سچ بتانے کی ضرورت ہے۔ (دی ملّی گزٹ ‘دہلی‘ ۱-۱۵ جنوری ۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ نیشنل کیتھولک رپورٹر)
موت‘ توسب ہی کا مقدر ہے لیکن مرنے کے بعد بھی زندہ وہ رہتے ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور خیروفلاح کے فروغ کے لیے شب و روز صعوبتیں جھیلتے‘دشمنوں کے وار سہتے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے تاریکیاں چھٹیں‘ ماحول روشن ہو اور انسانوں کی زندگی اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے لیے دنیوی اور اخروی فلاح کے حصول کی جدوجہد کی تابناکی سے معمور ہوسکے۔ یہ نفوس قدسیہ زمین کے نمک‘ اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کے کارنامے مشعل راہ اور ان کی زندگی روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ راہ آنے والوں کے لیے سنگ میل ہوتے ہیں‘ اور اس طرح وہ مرکر بھی شہیدوں کی طرح زندہ ہی رہتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک گوشے میں جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو ایسے ہی ایک ۸۳سالہ مرد مجاہد نے عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرح سفر کیا اور اس شان سے کیا کہ اپنے اور غیر‘ سب پکار اٹھے کہ اس نے اپنے رب سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۱؎ یہ مرد مجاہد عالمِ عرب کی سب سے اہم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام محمد مامون الہضیبی تھا--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
بیسویں صدی میں اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے نمایاں انعام عالمِ عرب میں حسن البنا شہیدؒ اور ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی تحریک اخوان المسلمون‘ اور برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی تحریک جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ ان تحریکوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کو غلبۂ حق کی جاں گسل جدوجہد میں زندگی کا لطف پانے کا سلیقہ سکھا دیا۔
محمدمامون الہضیبیؒ نے ایک ایسے گوشے میں آنکھ کھولی جو علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کا گہوارا تھا۔ ان کے والد حسن الہضیبیؒ ایک نامور قانون دان اور اخوان المسلمون کے دوسرے مرشدعام ]۷۳-۱۹۵۱ئ[ تھے‘ جن کو حسن البنا شہیدؒکی جا نشینی کا شرف حاصل ہوا اور جنھوں نے تحریک کے مشکل ترین دور میں اس کی قیادت کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس خاندان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حسن الہضیبیؒ کی گود میں پلنے والا مامون‘ اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام منتخب ہوا‘ گو اسے یہ خدمت انجام دینے کے لیے مہلت صرف ۱۴ مہینے کی مل سکی۔
محمد مامون الہضیبیؒ ۲۸ مئی ۱۹۲۱ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے مصر کی عدالت استغاثہ (appellate court)میں بحیثیت جج تقرر حاصل کیا۔ وہ یہ خدمت ۱۹۶۵ء تک انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۵ء میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن نہ ہوتے ہوئے بھی ان کو پوری بے دردی سے جیل میں پھینک دیا گیا اور وہ چھے سال قیدوبند اور ظلم وتشدد کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے‘ اور اس دور میں تزکیہ نفس‘ روحانی ارتقا اور تحریکی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں رِہا ہوئے اور جلد ہی باقاعدہ رکنیت اختیار کرکے تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ الاستاذ عمرتلمسانیؒ (تیسرے مرشدعام: ۸۶-۱۹۷۳ئ) الاستاذ حامدابونصرؒ (چوتھے مرشدعام: ۹۶-۱۹۸۶ئ) اور مجاہد کبیرمصطفی مشہورؒ (پانچویں مرشدعام: ۱۹۸۶ئ-۲۰۰۲ئ) کے زمانے میں اخوان کے ترجمان (spokesman) اور پھر نائب مرشدعام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور نومبر ۲۰۰۲ء میں مصطفی مشہور کی وفات کے بعد چھٹے مرشدعام منتخب ہوئے۔ مامون الہضیبیؒ کو ۱۹۷۱ء میں رہائی کے بعد ان کے عہدہ قضا پر بحال نہیں کیا گیا۔ تقریباً ۱۰سال انھوں نے سعودی عرب میں بحیثیت قانونی مشیر صرف کیے اور ۱۹۸۷ء میں مصر کی پارلیمنٹ میں سرکاری مخالفت کے باوجود آزاد امیدوار مگر عملاً اخوان کے نمایندے کے طور پر منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پھر منتخب ہوئے اور وفات کے وقت تک حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔
مجھے محترم مامون الہضیبیؒ سے پہلی بار ملنے کا موقع ۱۹۷۴ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایک اہم تحریکی سلسلے میں برادرم خلیل احمد حامدیؒ کے ہمراہ پہلی بار قاہرہ گیا۔ شیخ عمر تلمسانیؒ (مرشدعام) سے بھی اس موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس وقت مامون الہضیبیؒ صرف ایک پختہ کار قانون دان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تحریک میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس سیف الاسلام (حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے) اپنی نوجوانی کے باوجود اس وقت بھی توجہ کامرکز تھے۔ پھر ۱۹۸۵ء میں اور اس کے بعد دسیوں بار قاہرہ‘ استنبول‘ انگلستان اور نہ معلوم کہاں کہاں ان سے ملنے اور گھنٹوں مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔
مامون الہضیبیؒ بڑے دھیمے مگر موثرانداز میں اپنی بات پیش کرتے تھے۔ انگریزی میں بھی اپنا مافی الضمیرخوش اسلوبی سے ادا کر لیتے تھے۔ دینی امور پر مجھے اُن سے زیادہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن سیاسی اور تحریکی معاملات پر میں نے ان کی فکر کو بہت واضح‘ پختہ اور سلجھا ہوا پایا۔ وہ جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے سختی سے حامی تھے اور سیاسی نظام اور عمل (process)کو تحریک اسلامی کے ایک اہم موثر میدانِ کار کے طور پر استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تقریر میں منطقی ربط اور ٹھوس مواد ہوتا تھا اور وہ دلیل سے قائل کرنے اور دلیل سے قائل ہونے کی روایت کو مستحکم کرنے پر ہمیشہ کاربند رہے۔ مجھے ان کے ساتھ مصرکی پیشہ ورانہ تنظیموں کے اجتماعات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپوں (مخیّم) میں بھی۔ میں نے ہرموقع پر ان کو صاحب الرائے اور توازن و اعتدال پر قائم پایا۔ وہ شوریٰ کے آدمی تھے اور ان کے ساتھ بحث و گفتگو ہمیشہ فکرکشا ہوتی تھی۔
اخوان کا ابتدائی دور برطانوی استعمار سے کش مکش کا دور ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کش مکش اور جہاد (خصوصیت سے فلسطین کے محاذ پر) کا بھی بڑا نمایاں دخل ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا اور آزمایش کا دور ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک چل رہا ہے۔ لیکن شیخ عمرتلمسانی ؒکے دور سے سیاسی نظام کے اندر دستوری اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کا منہج آہستہ آہستہ نمایاں ہوتا گیا اور تقویت پاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر تقویت اور رواج دینے میں محمدمامون الہضیبیؒ کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ مرشدعام منتخب ہونے کے بعد مامون الہضیبیؒ ہرہفتہ اخوان کے ہفت روزہ بلیٹن میں مضمون لکھتے تھے اور ان کی ان تحریروں کا نمایاں پہلو ان کا دین کے گہرے نہج کے ساتھ مصر اور دنیا کے حالات اور تحریک اسلامی کو درپیش مسائل اور معاملات کا حقیقت پسندانہ ادراک تھا۔
اگرچہ ان کی شخصیت کے اور بھی ایمان افروز پہلو ہیں‘ لیکن اب سے چند ماہ پہلے جب میں نے اسلامی تحریکوں سے وابستہ بزرگوں اور دوستوں کو خط لکھا کہ‘ مولانا مودودی مرحوم کی یاد میں ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کے لیے مضمون لکھیں‘ تو دنیا بھر میں جس فرد نے سب سے پہلے‘ اور میرا خط ملنے کے آٹھویں روز مضمون عطا فرمایا‘ وہ محمد مامون ہی تھے۔ ’’اشاعت خاص‘‘ میں قارئین نے وہ مضمون ملاحظہ کیا ہوگا۔ عمر‘صحت‘ مصروفیات اور عرب مسلم دنیا پر امریکی یلغار کی اس فضا میں ایسا تجزیاتی اور محبت بھرا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودیؒ سے کتنی عقیدت اور ان کے بارے میں کتنی گہرائی سے معلومات رکھتے تھے۔
اخوان کی تحریک کا ایک بڑا نمایاں پہلو قرآن سے شغف‘ باہمی محبت و الفت اور انسانی تعلقات میں گرمی اور مٹھاس کا عنصر ہے۔ مامون الہضیبیؒ کے ۳۰ سالہ دور میں جو نقش سب سے نمایاں ہے‘ وہ ان کا ذاتی تعلق اور اپنائیت کا رویہ ہے‘ جو دل کو موہ لینے کا باعث ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے لیکن ان کا مقام میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے دل میں ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل اور ان کے نہ ختم ہونے والے فیضان کی نشانی ہے ؎
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو
درسینہ ہاے مردمِ عارف مزارِ ماست
جب ہمارا انتقال ہو جائے تو ہماری قبر زمین میں تلاش نہ کرو‘ ہمارا مزار اہل معرفت کے دلوں میں ہے۔
بلاشبہہ خالد اسحاق نے قانون کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور دستوری اور قانونی امور پر ان کی نگارشات‘ مقدمات اور بیانات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ان کی رہنمائی میں اچھے قانون دانوں اور ججوں کی ایک ٹیم بھی ہماری عدالتوں کی زینت ہے۔ لیکن میری نگاہ میں ان کی اصل شناخت اسلام سے ان کی گہری وابستگی اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش اور کاوش ہے۔ وہ بڑے پائے کے قانون دان تھے۔ اللہ بخش بروہی اور خالد اسحاق اپنے اپنے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں اور برسوں یاد کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں آیندہ بھی اچھے وکیل اور کشادہ ذہن مفکرین کی کھیپ تیار ہوتی رہے گی‘ لیکن جو چیز خالد اسحاق کو سب سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری اور فکر کے عمق اور وسعتوں کے ساتھ اسلام سے گہری وابستگی‘ اس کے پیغام کا فہم اور انسانی فکر میں اسلام کی مرکزیت کا شعور ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اس مشن کے لیے خلوص‘ دیانت اور محنت سے جدوجہد کی ایک تابناک مثال قائم کی۔
خالد اسحاق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ ان کے والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے‘ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اُردو‘ پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی‘ بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم اے عربی زبان میں تھا۔
۱۹۲۶ء میں پیدا ہونے والے اس ہونہار بچے نے ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مغربی پاکستان کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ۱۹۶۳ء میں ہمار ی تاریخ کا سب سے نوعمر ایڈووکیٹ جنرل بنا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے شعبہ قانون سے کئی برس وابستہ رہے اور قانون کی اسلامی تشکیلِ نو کے سلسلے میں تحقیق اور نگران کی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی دو بار رکن بنے اور سیکڑوں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ ان کا رویہ خود اعتمادی اور ان کے فکر کا منہج قرآن سے وفاداری کے ساتھ دورِ جدید کے مسائل اور افکار کی روشنی میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا تھا۔ دینی امور کی تعبیر میں ان کی آرا سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا‘ لیکن ان کو کبھی اسلا م کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اللہ‘ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ہے۔
مجھے خالد اسحاق سے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں ملنے کا موقع ملا اور یہ بھی ہمارے مشترک دوست اور اس وقت کے (یعنی ایوبی دور کے) قومی تعمیرنو بیورو کے نائب ڈائرکٹر مجیب انصاری مرحوم کے توسط سے ہوا۔ ماہ نامہ چراغِ راہ ہمارے اس ابتدائی تعارف کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ تعلق دوستی اور اخوت کی سمت بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں آگئے اور ان کے ساتھ خالداسحاق سے روز و شب ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں گرما گرم بحثیں ہوتیں اور یوں اتفاق اور اختلاف کے ساتھ یہ تعلقات بتدریج گہرے ہوتے گئے۔
خالد اسحاق کے کردار کا سب سے متاثر کن پہلوان کی سادگی اور صاف گوئی تھی اور اختلاف کے باوجود ان کے ہاں برداشت کا وصف تھا۔ اس زمانے میں ان پر غلام احمد پرویز کے بھی اثرات تھے اور ان سے ذاتی تعلقات بھی تھے لیکن وہ پرویزکے ہم قافلہ کبھی نہ تھے۔چند موضوعات کو چھوڑ کر ان کی اسلامی فکر ‘توازن کا بہترین امتزاج تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور خدمات کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے دل سے قائل تھے‘ اگرچہ چند امور پر ان کے اپنے تحفظات تھے۔ جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں پیش ہوا۔ خالداسحاق نے ایڈووکیٹ جنرل ہوتے ہوئے بھی اس کیس میں حکومت کے موقف کی تائید سے اجتناب کیا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ سرکار کے وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں یا استغاثہ کا ‘ تو انھوں نے جرأت ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف مظلوم کو ظالم ثابت کرنے سے انکار کردیا۔
انگلستان کے قیام کے دوران بھی میرا ان سے گہرا ربط رہا۔ اسلامک کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم سے ہم نے جن دسیوں بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا‘ وہ شریک ہوئے۔ انٹرنیشنل ڈیکلرنس آف اسلامک ہیومن رائٹس جس کا اعلان یونیسکو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا‘ اس کے مرتب کرنے میں انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اسلامی معاشیات پر ہمارے پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ مگر مجھے یہ قلق ہے کہ آخرِ عمر میں ربا کے مسئلے پر وہ کچھ اشکالات کا شکار ہوگئے‘ ورنہ ہم نے بڑی ہم آہنگی سے اسلام کی معاشی حکمت عملی اور خصوصیت سے عدل اجتماعی کے قیام کے لیے اسلام کے کردار پر مل کر کام کیا۔
خالد اسحاق اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں کو بالکل شروع ہی سے میں نے نماز کے معاملے میں بڑا ہی باقاعدہ اور مضبوط پایا۔ بیرونی کانفرنسوں میں‘ حتیٰ کہ ان کانفرنسوں میں بھی‘ جن کا اہتمام مغربی ادارے کرتے تھے‘ انھوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور ہر محفل میں اسے وقت پر ادا کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ اپنے دین پر اعتماد اور اپنے طریقے کے بارے میں معذرت خواہانہ رویوں سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔
خالد اسحاق صاحب کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا‘ اور شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثرکن تھی‘ وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بہت سے غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین!
خالد اسحاق کی لائبریری بھی ایک افسانوی اور مثالی (legendary) حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے اس لائبریری کو ایک کمرے سے بڑھ کر کئی کوٹھیوں اور فلیٹوں تک پھیلتے ہوئے بچشم سر دیکھا ہے۔ کتاب خالد اسحاق کی بہترین رفیق اور اصل جذبہ یا خبط (passion)تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ۲لاکھ سے زاید کتب ان کے کتب خانے میں تھیں اور بلاشبہہ یہ پاکستان میں سب سے بڑی نجی لائبریری تھی۔ اے کے بروہی صاحب کے پاس بھی بڑی اچھی لائبریری تھی مگر کتب کی تعداد۴۰ یا۵۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ میری اپنی لائبریری میں بھی پاکستان اور لسٹرمیں ملا کر۲۵ ہزار تک کتابیں ہیں‘ لیکن خالد اسحاق اس معاملے میں ہم سب سے آگے تھے بلکہ شاید پوری مسلم دنیا میں سرفہرست تھے۔
خالد اسحاق کے گھر منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشست بھی کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ تھی۔ فضل احمد کریم فضلی نے ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی تھی اور خالداسحاق نے ہفتہ وار علمی نشست کی۔ یہ وہ ثقافتی روایت تھی جو کبھی برعظیم کی مسلم ثقافت کی پہچان تھی۔ کاش! دلی کے آخری مشاعرے کی طرح خالد اسحاق کی علمی محفل خواب و خیال نہ ہو جائے۔
خالد اسحاق نے جو خدمات ۱۹۷۳ء کے دستورسازی کے دور میں اور پھر ۱۹۷۶ء میں پاکستان قومی اتحاد (PNA)کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں ادا کیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ وہ اور جناب عامر رضا ایڈووکیٹ اصل قانونی دماغ تھے‘ جس کا توڑ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ کر سکی۔
خالداسحاق نے بڑے قیمتی مضامین لکھے ہیں۔ غالباً کتابیں تو ان کی دو تین ہی شائع ہوئی ہیں۔ Constitutional Limitation اور Islamic Principles of Economic Management ان میں نمایاں ہیں لیکن ان کے مضامین بلاشبہہ کئی سو ہونے چاہییں۔ ان کے احباب کا فرض ہے کہ ان کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ ان کی لائبریری کی حفاظت کے لیے قومی سطح پر اقدام کیا جائے تاکہ یہ صدقہ جاریہ ضوفشاں رہے۔ ان کی زندگی اور کارناموں کو نئی نسل سے روشناس کرایا جائے ‘ اس لیے کہ وہ بلاشبہہ ایک نمونے کی حیثیت (role-model) کا درجہ رکھتے ہیں۔
خالداسحاق ۹ فروری ۲۰۰۴ء کو ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن وہ اپنے افکار‘ اپنی خدمات اور اپنی یادوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے کہ بقول میرؔ ؎
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سوال: میںیہ جاننا چاہتا ہوں کہ نکاح سے قبل اگر حق مہر کا تعین نہ کیا جائے اور نکاح کے وقت عین آخری لمحے پر دلہن کے گھر والے ایک نامناسب مطالبہ کر دیں اور دولہا کے لیے قبول کرنے یا رد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو‘ جب کہ بھاری حق مہر کی ادایگی اس کی استطاعت سے باہر ہو‘ تو وہ کیا کرے؟ اگر شادی سے چند روز قبل اس طرح کا مطالبہ کیا جاتا اور لڑکے والوں کی طرف سے انکار کر دیا جاتا تودلہن کے گھر والے قدموں میں گر جاتے اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتے۔ لیکن عین نکاح کے موقع پر جب بھاری حق مہر کا مطالبہ کیا جائے اور انکار کی صورت میں بدمزگی ہو‘ نکاح نہ ہونے کا خدشہ ہو‘ جب کہ اس کی ادایگی دولہا کی استطاعت سے باہر ہو لیکن وہ وقتی طور پر جھوٹ بولے اور مہر کی ادایگی کا اقرار کرلے تو کیا اس مجبوری کی حالت میں ایسا کرنا مناسب ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہوگا‘ نیز اگر وہ حق مہر ادا کیے بغیر مر جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
جواب: آپ کے سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر دلہن کے گھر والے عین آخری لمحے پر نکاح کے وقت نامناسب مطالبہ کریں تو اسے رد کر دینا چاہیے۔ اگر رد نہ کیا جائے تو پھر انسان اس بات کا پابند ہو جائے گا۔ محض یہ کہ عین نکاح کے وقت مطالبہ کیا گیا‘ ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے مجبوری قرار دیا جائے۔ اسلام میں مجبوری اور زبردستی یہ ہے کہ چھری‘ چاقو یا گولی سے ڈرا کر بات منوائی جائے۔ ظاہر ہے کہ ایساتو نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں جو مہر طے ہوا ہو‘ وہ دینا پڑے گا۔ بعد میں بیوی سے پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرا لیا جائے۔اسے کہہ دیا جائے کہ موقع پر تو میں نے اتنا مہر دینا قبول کر لیا تھا تاکہ تقریب نکاح میں بدمزگی پیدانہ ہو لیکن اس قدر مہر دینا میری استطاعت سے باہر ہے۔ اس لیے آپ پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دیں۔ شادی سے قبل یا شادی کے بعددونوں صورتوں میں آپ لڑکی سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ نکاح کے وقت مہر مقرر کر دینے کے بعد مہر کی معافی یا کمی کا اختیار لڑکی کا ہوتا ہے۔ اس سے لڑکی کے والدین یا خاندان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ اس لیے آپ یہ مطالبہ لڑکی سے کریں کسی اور سے نہیں۔
اگر مہر ادا کیے یا معاف کرائے بغیر آدمی فوت ہو جائے تو بیوی آخرت میں اپنے حق کا مطالبہ کرے گی اور اس کا یہ حق دینا پڑے گا۔ آخرت میں ادایگی بہت مشکل اور انتہائی کٹھن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہر جو مقرر کیا گیا ہو‘ ادا کیا جائے‘ یا پھر اسے اپنی زندگی میں بیوی سے معاف کرا لیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)
س : میں میڈیکل کی طالبہ ہوں۔ ہم سفید کوٹ کے اوپر سے اسکارف سے نقاب کرلیتی ہیں اور گائون کے طور پر علیحدہ سے لباس کے اوپر کچھ نہیں پہنا جاتا۔ سفیدکوٹ کی لمبائی تقریباً قمیص یا اس سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ اس طرح سے سارے کپڑے نہیں چھپتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ حال ہی میں میرے علم میں یہ اعتراض آیا ہے کہ چونکہ کپڑے زینت ہیں‘ اس لیے ان کا پورا چھپانا ضروری ہے۔ سفیدکوٹ تو ہمیں ہر صورت میں پہننا ہوتا ہے‘ چاہے اسے کپڑوں کے اوپر پہنا جائے یا گائون کے اوپرسے۔ دوسرے طریقے میں خاص طور پر گرمی میں بہت مشکل ہے لیکن اگر صرف سفیدکوٹ پہن لینا کافی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس طریقے کو چھوڑنا ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے درکار ہے کیونکہ میں الجھن میں مبتلا ہوں۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ ہم لوگ عام برقع کا ہی پورا استعمال کرتے ہیں۔
ج : دورِ جدید کی باشعور نوجوان نسل نے جس طرح اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ قابلِ قدر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین سے وابستہ رہ کر دورِحاضر کی وسعتوں سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں آپ کا سوال اسلام کے تصورِ لباس و زینت سے تعلق رکھتا ہے۔
لباس زینت کو چھپاتا بھی ہے اور زینت دیتا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے سورۂ نور کی آیت ۳۱ میں یوں فرمایا ہے: ’’اور اے نبیؐ،مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور اپنی زینت (بنائوسنگھار) نہ دکھائیں بجزاُس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائوسنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر‘ باپ‘ شوہروں کے باپ‘ اپنے بیٹے‘ شوہروں کے بیٹے‘ بھائی‘ بھائیوں کے بیٹے‘ بہنوں کے بیٹے‘ اپنے میل جول کی عورتیں‘ اپنے لونڈی غلام‘ وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں…(۲۴:۳۱)
یہاں زینت جس کا ترجمہ صاحب ِتفہیم القرآن نے بنائوسنگھارکیا ہے‘ اگر غور کیا جائے تو جہاں زینت کا مفہوم وہ زینت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں رکھ دی ہے ‘یعنی جسم کے خدوخال وغیرہ‘ وہاں اس سے مراد وہ زینت بھی ہے جو زیور یا غازہ وغیرہ کی شکل میں اختیار کی جاتی ہے۔ چنانچہ سینوں پر اوڑھنیوںکے آنچل ڈالنے کا تعلق اللہ کی بنائی ہوئی اور زیورات والی زینت سے نظرآتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر لباس شوخ اور چمکدار یا متوجہ کرنے والا ہو‘ یا گلے کانوں میں زیور پہنا ہو تو اوپر سے چادر کو یوں گرا لیا جائے کہ خوب صورتی چھپ جائے۔ قرآن کریم نے زینت کے حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں وہ نہ صرف متوازن ہیں بلکہ انسان کی ان خواہشات کے پیشِ نظر دی گئی ہیں جو وہ عام حالات میں پوری کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایک خاتون زیورات کا استعمال کرنا چاہتی ہے تو وہ انھیں استعمال کرے لیکن نمودونمایش اور دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ نہ بننے دے۔ اسی لیے آیت کے آخری حصے میں یہ نہیں کہا گیا کہ پائوں میں پازیب کا استعمال منع ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ پائوں کو اس طرح مار کر چلنا کہ وہ اس پازیب کو ظاہر کر دے‘ ممنوع ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے پائوں کو اس طرح جنبش دینا کہ گویا پازیب تو نہ پہنی ہو لیکن فیشن پریڈ میں چلنے کا تاثر بن جائے تویہ بھی غلط قرار پائے گا۔
بعض زینتوں کو اسلام نے جائز بلکہ مستحسن قرار دیا ہے‘ جیسے شوہر کے لیے زینت کا اختیار کرنا‘ یا مسجد جاتے ہوئے مردوں کا اچھا لباس اور وضع قطع اختیار کرنا (الاعراف ۷:۳۱)۔ پھر یہ بات بھی اسی سیاق میں فرما دی گئی کہ ’’اے نبیؐ، ان سے کہو ‘ کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے اللہ کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟‘‘(۷:۳۲)
جہاں تک سوال لباس کے اوپر گائون کے استعمال کا ہے اگر آپ غور کریں توسادہ لباس خود جسم کی زینت کو چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر اس پر گائون استعمال کرلیا جائے تو پھر زینت کے چھپانے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ چاہے گائون کی پیمایش قمیص کے لگ بھگ ہی ہو۔ لباس اگر ساتر ہے‘ یعنی شلوار قمیص جسم پر چست نہیں ہے‘ کپڑا اتنا باریک نہیں ہے کہ جسم نظر آئے تو صرف ایسی چادر جو جسم کے اوپر کے حصے کو پوری طرح ڈھانپ لے اور جس سے سر کے بال اور گردن یا سینہ نظر نہ آئے ‘جلباب کی تعریف میں آتی ہے جسے خود قرآن کریم نے متعین کردیا ہے۔ آپ کے حوالے سے گائون اور اسکارف وہی کام کرتا ہے جو جلباب کا ہے۔ اس سے برقع کا مقصد بڑی حد تک حاصل ہو جاتا ہے۔ گائون سفید ہو یا برائون یا گرے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ بھی اسکارف کے ساتھ گائون نما کوٹ کا استعمال پردے میں شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ گائون بڑی حد تک برقع کا قائم مقام ہے اور خود زینت نہیں بلکہ زینت کو چھپانے کا ذریعہ ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور مالی وسائل کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر اسٹیٹ بنک کے توسط سے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ خاص ڈیپازٹ اسکیم‘ نیشنل پرائز بانڈ وغیرہ‘ اور دیگر مالیاتی اسکیموں کا اجرا کیا جاتا ہے۔ میرا سوال انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کے بارے میں ہے۔
انعامی بانڈ منسٹری آف فنانس کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے جاری ہوتے ہیں جو مختلف مالیت کے ہوتے ہیں۔ یہ بانڈ خریدنے کے بعد کسی بھی وقت دوبارہ بھنائے جاسکتے ہیں اور بغیر کسی کٹوتی کے پوری رقم واپس مل جاتی ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے انعام دیا جاتا ہے اور حکومتی سرپرستی کی وجہ سے دھوکا دہی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انعام نہ نکلنے کی صورت میں اصل زر بھی محفوظ رہتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ انعامی بانڈوں کے بارے میں ہمارے علما میں ذہنی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ کچھ اسے سود اور قماربازی اور جوا کہتے ہیں۔ کچھ اس اسکیم کو جائز کہتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ لاٹری اور جوے کی مانند ہے‘ اور انعامی رقم جائز نہیں ہے۔ آپ وضاحت فرما دیجیے کہ انعامی بانڈ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
ج: کسبِ مال کے ضمن میں قرآن پاک یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے۔ اکتسابِ مال کے ضمن میں سود کو حرام کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۷۵-۲۷۹)‘ خواہ اس کی شرح کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ شخصی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی وصنعتی اور زراعتی ضروریات کے قرضوں پر۔ اسی طرح جوا (قمار) اور تمام وہ طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا‘ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو‘ بھی حرام ہے۔ (المائدہ ۵:۹۰)
انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کی صورت کچھ یوں ہے کہ حکومتِ پاکستان مختلف حوالوں سے قرض لیتی ہے۔ اس قرض کی مختلف صورتیں ہیں جن میں بیرونی ادارے اور ممالک‘ مثلاً آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک وغیرہ شامل ہیں‘ اور ملکی سطح پر حکومت کمرشل بنکوں کے علاوہ عوام سے بالواسطہ طور پر قرض حاصل کرتی ہے۔ یہ قرض ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ اسپیشل سیونگ سرٹیفیکیٹ اور انعامی بانڈ کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ حکومت اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے لیے گئے ان قرضوں پر سود ادا کرتی ہے اور پاکستان کے بجٹ کی سب سے بڑی مد یہی سود اور قرضوں کی ادایگی (debt servicing)ہی ہوتی ہے۔
انعامی بانڈ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈ بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہروثیقہ دار (انعامی بانڈ خریدنے والے) کو اس کی دی ہوئی رقم پرفرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کر کے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے انعامات کی شکل میں دیا جاتا ہے اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ انعامات کن کو دیے جائیں گے‘ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا ہے… یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روحِ قمار بھی۔ جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بہ صورتِ انعام دی جاتی ہے اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس طرح لاٹری میں لوگوں کے نام انعامات نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے‘ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقمِ قرض نہیں ماری جاتی۔ (ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۶۳ئ‘ بہ حوالہ رسائل و مسائل، حصہ سوم‘ ص ۲۳۹)
مولانا سیدابوالاعلیٰ موودیؒ نے یہ جواب ۱۹۶۳ء میں دیا‘ اس کے بعد ۱۹۶۹ء میںربا کے مسئلے پر غورکے دوران پاکستان کی اسلامی مشاورتی کونسل نے انعامی بانڈ پر ملنے والی رقم کے بارے میں یہ رائے دی: ’’انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے وہ ربا (سود) میں شامل ہے‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے جو کہ حکومت ِ پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے انعامی بانڈ کے ضمن میں اپنی سفارش بذریعہ مراسلہ نمبر۷ (۴۴) ۸۳-آر سی آئی آئی‘ ۲۲ فروری ۱۹۸۴ء کو وزارتِ مذہبی امور کو اور وزارتِ خزانہ کو بتاریخ ۶مارچ ۱۹۸۴ء ارسال کی جس میں حکومت سے کہا گیا: ’’لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل وجوہاتِ مندرجہ ذیل کی بنا پر حکومت سے پرزور سفارش کرتی ہے کہ حکومت سابقہ کونسل کی سفارش کو فوری طور پر نافذ کر کے اس پر سختی سے عمل کرائے۔ چونکہ انعامی بانڈاسکیم کی لعنت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ انعامی رقم سود ہے جوازروے شریعت ممنوع و حرام ہے۔ چونکہ انعامی بانڈ کی رقم پر ٹیکس نہیں ہوتا اس لیے لوگ اپنے کالے دھن کو چھپانے کے لیے انعامی بانڈ اسکیم کا سہارا لے رہے ہیں۔ سرمایہ کاروبار سے نکال کر اس اسکیم میں لگایا جا رہا ہے جس سے کاروبار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ انعامی رقم بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے جو کہ میسر ہے جو ازروے قرآن حرام ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پر زور دیتی ہے کہ انعامی بانڈ اسکیم اور دیگر اسی قسم کے کاروبار کا جو میسر کے زمرے میں آتے ہیں‘ مکمل طور پر قلع قمع کیا جائے۔ (اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ‘ براے سال ۸۴-۱۹۸۳ئ)
لہٰذا انعامی بانڈ کی نوعیت ِ معاملہ‘ مولانا مودودیؒ کی تفصیلی رائے‘ اسلامی مشاورتی کونسل (۱۹۶۹ئ) اور اسلامی نظریاتی کونسل (۱۹۸۴ئ) کی دو ٹوک رائے کی روشنی میں‘ انعامی بانڈ پر ملنے والی انعامی رقم سود ہے اور جس انداز اور قرعہ اندازی کے ذریعے انعام کا تعین کیا جاتا ہے وہ قمار کی صورت ہے۔ مزیدبرآں انعام پانے والوں کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے کہ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے اور اس پر ’’اللہ کا خاص فضل و کرم‘‘ ہے، جب کہ انعام سے رہ جانے والے لوگ کبھی تو اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں اور اپنے مقدر کو کوستے ہیں‘ اور کبھی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سننے میں آتی ہیں جو منافی اسلام ہیں۔
مندرجہ بالا آرا اور دلائل کی بنا پر اور اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انعامی بانڈ اور اسی طرح کے دوسرے سودی اور قمار پر مبنی کاروبار یا لین دین سے پرہیز کیا جائے اور اپنے دین کی حفاظت کی جائے اور دنیا کے فوری اور قلیل فائدے کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمداکرم)
ڈاکٹر سید عبدالباری ]شبنم سبحانی[ بھارت کے معروف اُردو ادیب‘ نقاد اور شاعر ہیں۔ ان کی مرتبہ یہ کتاب بیسویں صدی کی حسب ذیل ممتاز شخصیات سے مصاحبوں کا مجموعہ ہے:
بقول مولف: ’’یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے گذشتہ صدی میں ملک و ملت کی تعمیروترقی اور اسے تباہی و انتشار سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس صدی کی برصغیر کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی‘‘۔
ڈاکٹر سید عبدالباری کا انداز‘ روایتی انٹرویو نگاروں سے قدرے مختلف ہے۔ مصاحبے کا آغاز وہ براہِ راست سوال جواب سے نہیں کرتے‘ بلکہ انٹرویو سے پہلے باقاعدہ ایک تمہید باندھتے ہیں اور اس تمہید میں‘ وہ ماحول کا پورا نقشہ کھینچتے اور گردوپیش پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ کس شخصیت تک وہ کب اور کیسے پہنچے؟ اس سفر کی مختصر روداد بھی بیان کردیتے ہیں۔ اُن کے دل کش اور افسانوی اسلوب کی وجہ سے‘ اس طرح کی تمہیدات کہیں کہیں تو ایک شگفتہ سفرنامے کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہیں۔ پھر متعلقہ شخصیت سے قاری کو متعارف کروانے کے لیے اُس کا سراپا بیان کرتے ہیں اور اس کی سیرت و کردار کے تابناک گوشوں کو نمایاں کرتے ہوئے‘ پوری ایک فضا بناتے ہیں۔ سوال و جواب شروع ہوتے ہیں تو ان کے درمیان وہ اپنی سوچ اور اپنے تبصروں کے ذریعے اور ماحول کی نقشہ کشی کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔بسااوقات وہ اپنی سوچ یا محسوسات کو کسی شعر (زیادہ تر علامہ اقبال اور اکبرکے اشعار) کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اشعار کے نقل میں کئی جگہ انھوں نے (نادانستہ) تصرف کر دیا ہے (یہ حافظے کی کارفرمائی ہے) مثلا: ص ۷۰‘ ۱۱۷‘ ۱۲۹‘ ۱۷۴‘ ۲۳۰ وغیرہ۔
ان مصاحبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مسلم رہنما‘ مسلمانوں کے زوال و انحطاط‘ ان کی پس ماندگی خصوصاً ان میں تعلیم کی کمی پر پریشان اور فکرمند ہیں۔ یہ سب حضرات اپنی اپنی سمجھ‘ فہم و بصیرت اور صلاحیتوں کے مطابق تعلیمی‘ علمی‘ سماجی اور سیاسی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی ترقی اور ان کے مستقبل کے لیے اپنی سی کاوش اور جدوجہد کرتے رہے۔ مایوس کن حالات میں بھی وہ کبھی بددل نہیں ہوئے۔ ان سب حضرات کے نزدیک اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے۔
ان مصاحبوں سے بعض اہم اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں‘ مثلاً ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے والد یوپی میں جج (منصف) تھے۔ گورنر میلکم ہیلے چاہتے تھے کہ وہ ایک مقدمے میں فیصلہ‘ حکومت کی حمایت میں کریں‘ مگر فریدی صاحب نہیں مانے۔ گویا بڑے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز نام ور۔ انگریز بھی بددیانتی اور سازش کیا کرتے تھے--- مفتی فخرالاسلام عثمانی اس بات کو یوپی کے مسلمانوں پر ایک ’’بہت بڑا سنگین الزام‘‘ قرار دیتے ہیں کہ یوپی کے مسلمان‘ قیامِ پاکستان کی تائید میں تھے۔
دارالعلوم دیوبندبھارت میں مسلمانوں کا بہت بڑا تعلیمی مرکز ہے۔ سید عبدالباری صاحب نے بتایا ہے کہ وہاں ہر سال صرف ایک طالب علم کو ریسرچ پر لگایا جاتا تھا اور اسے ۵۰ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ وہاں انگریزی زبان کی تدریس کا انتظام تو تھا مگر اسے تعلیم کا لازمی جزو نہیں بنایا گیا اور نہ انگریزی کو باقاعدہ ایک مضمون ہی قرار دیا گیا (ص ۱۵۸)۔ قاری محمد طیب صاحب نے اس بدقسمتی کا بھی اعتراف کیا کہ ’’ذہنی اعتبار سے پست اور فروترطبقہ ہمارے یہاں آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۶۳)
مجموعی طور پر ملاقاتیں ایک دل چسپ‘ معلومات افزا اور ذہن و فکر کو روشن کرنے والی کتاب اور برعظیم کے مسلمانوں کی سبق آموز داستان ہے۔ قاری محمد طیب صاحب نے پتے کی بات کہی ہے کہ قوم وہی زندہ رہ سکتی ہے جو اقدام کرے۔ اگر وہ دفاعی صورت اختیار کرے گی تو ختم ہو جائے گی۔ اسلام جب بھی بڑھا ہے اعلاے کلمۃ الحق اور شہادتِ حق کے راستے سے آگے بڑھا ہے۔ اُسے تو اِس بات پر جم جانا چاہیے کہ چاہے ہم فنا ہو جائیں لیکن خدا کے کلمے کو نیچا نہ ہونے دیں گے۔ (ص ۱۷۱)
کتاب میں شیخ الہند کا نام ہر جگہ ’’محمودالحسن‘‘ لکھا گیا ہے (ص ۶۲‘ ۱۴۴‘ ۱۵۴‘ ۱۷۹ وغیرہ) ’’محمود حسن‘‘صحیح ہے۔ اسی طرح لاپرواہی (ص ۲۰۵) نہیں ’’لاپروائی‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ برعظیم کی سیاست و تاریخ اور بھارتی مسلمانوں کے مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے ملاقاتیں میں قیمتی لوازمہ موجود ہے۔ کتاب کی طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
فاضل مصنف نے پہلے باب بہ عنوان: ’’پاکستان میں عربی زبان ورسم الخط‘‘ میں بتایا ہے کہ ۶۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک برعظیم کے مختلف علاقوں میں سرکاری‘ دفتری اور عمومی زبان کی حیثیت سے عربی کی صورتِ حال کیا رہی ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ غزنوی خاندان کے زمانۂ آغاز تک علمی اور دینی زبان تو عربی تھی ہی‘ مختلف حکومتوں کی دفتری زبان بھی بالعموم عربی رہی۔ عربوں کی دو ریاستیں‘ منصورہ اور ملتان میں قائم تھیں۔ ان کے چارسو سالہ دورِ حکمرانی میں یہاں عربی کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ فاضل مصنف نے ان دونوں ریاستوں کے تذکرے کے بجاے سندھ پر اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے صرف سندھی زبان پر عربی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں چند الفاظ کی فہرست بھی دی ہے۔ عرب دور میں سندھ نے کئی مقامی عرب شعرا پیدا کیے اور بہت سے سندھی علما نے سیرت‘ حدیث‘ فقہ اور علم کلام پر متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں ابوحشرسندھی اور ابوالعطا ملتانی کے نام معروف ہیں‘ مگر دونوں اصحاب کا نام کتاب میں نہیں ملتا۔
درحقیقت بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کی زبانوں (بلوچی‘ سندھی اور سرائیکی) پر بھی عربی کے گہرے اثرات ہیں۔ یہاں بعض الفاظ (مثلاً ق اور ض) کا لہجہ خالص عربی کا ہے۔ ان زبانوں میں آج بھی کثیرتعداد میں عربی الفاظ ملتے ہیں جنھیں صرف ایک عربی دان ہی چھانٹ کر سمجھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان زبانوں میں فارسی الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں۔
دوسرے باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم (قدیم طرز کے دینی مدرسوں اور جدید تعلیم کے اداروں) میں عربی زبان کے نصاب اور تدریس وغیرہ کی کیا صورت ہے۔ باب ۳ میں پاکستان میں عربی زبان کی ترویج اور توسیع و ترقی کے لیے کی گئی کاوشوں کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں ضروری دستاویزات اور عربی مجلات کی فہرست بھی شاملِ کتاب ہے۔
پروفیسر مظہرمعین جامعہ پنجاب میں شعبہ عربی کے صدر اور اورینٹل کالج کے پرنسپل ہیں۔جسٹس محبوب احمد کے بقول انھوں نے پاکستان میں عربی زبان کی تنفیذ کا مربوط مقدمہ‘ اہلِ علم اور اربابِ بست و کشاد کی دہلیز انصاف تک پہنچانے کی دل سوز کوشش کی ہے۔ (ص ۱۴)۔
اگرچہ کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں نظرآتی ہیں تاہم کتاب کی طباعت و اشاعت کا معیار اطمینان بخش ہے۔ (فیض احمد شھابی)
وطن عزیز کے پائوں میں مارشل لاوں اور فوجی حکومتوں کی زنجیروں کا بدنما داغ نہ ہوتا تو نجانے یہ تعمیروترقی کی کتنی منزلیں طے کرچکا ہوتا۔ دنیا بھر کی عدالتیں فراہمیِ انصاف کا فریضہ انجام دیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں عدالتوں نے بعض اوقات (مجبوراً ہی سہی) فوجی آمریت کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ تاریخ میں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
عتیق الرحمن ایڈووکیٹ نے ایک دوسرے انداز سے‘ موجودہ عسکری حکومت اور اس کے احتساب کے وعدوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے دلائل فراہم کیے ہیں کہ عدلیہ نے ملک‘ قوم اور آنے والی نسلوں کے مفاد کو نظریۂ ضرورت پر قربان کر دیا۔ بے نظیربھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں (دو دو بار) عدلیہ کوجس طرح استعمال کیا۔ اس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت احتساب پر مکمل طور پر عمل درآمد کیوں نہ کرسکی؟ کروڑوں روپے لوٹنے والوں کو کیفرکردار تک کیوں نہ پہنچا سکی اور عدلیہ کی مجموعی کارکردگی کیوں نہ بہتر بن سکی؟ یہ تمام مباحث کتاب کے پچیس ابواب میں سمیٹ دیے گئے ہیں بقول مصنف:’’یہ کتاب مشرف دورِ حکومت کے عدالتی فیصلوں کی تاریخ ہے‘‘ (ص ۵)۔
پاکستان‘ قانون اور حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
خوش کن پیش کاری کے ساتھ اس کتاب میں وحی‘ تعبیر‘فقہ‘ تصوف اور خود اہلِ فقہ و تصوف کے مابین پیداکردہ مناقشوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ تاہم اس مجموعے کو ایک ایسی سوچ کی صداے بازگشت قراردینا غلط نہ ہوگا جو فی الحقیقت مرعوبیت اور تجدد پسندی ہی کا تسلسل ہے۔ مصنف کی فکرمندی سے انکار نہیں‘ اور محنت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ مگر صحت پانے کی خواہش میں اگر کوئی خودکشی کے راستے پر چل نکلے تو اسے ’روشن خیالی‘ اور ’خردمندی‘ کے برعکس کسی لفظ ہی سے منسوب کیا جائے گا۔
مصنف نے لکھا ہے: ’’اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کس طرح رفتہ رفتہ وحی کے بجاے متعلقاتِ وحی کو اس قدر اہمیت ملتی گئی کہ مُسلم حنیف ہونا بڑی حد تک ایک تہذیبی شناخت بن کر رہ گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ کتاب کی بنیادیں اس ’معصومانہ جملے‘ میں پنہاں ہیں۔ اگر صرف حروفِ الٰہی سے ہدایت کا دائرہ مکمل ہونا مطلوب ہوتا تو انبیا و رسل ؑ کے ادارے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آگے چل کر کتاب میں جس طرح حدیث‘ فقہ اور تعامل کو یک رخے پن سے نشانۂ تنقیص و استہزا بنایا گیا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے دفاع سے زیادہ انہدام سرمایۂ حدیث و فقہ پیش نظر ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سنت کے حوالے سے اسوۂ رسولؐ کا ایک ماوراے قرآن ماخذ وجود میں آجانے سے‘ عملاً ہوا یہ کہ مسلمانوں کے یہاں بھی تاریخ‘ اسی تقدیس کی حامل ہوگئی جس کا شکار پچھلی قومیں ہوچکی تھیں‘‘ (ص ۲۱۷)۔ ’’ائمہ اربعہ ایک ایسی جبری تاریخ ]ہے[ جو بجا طور پر مسلمانوں کے عہدِ زوال سے عبارت ہے‘‘(ص ۳۰۵)۔ اسی نوعیت کے ’’استدلال‘‘ سے یہ کتاب عبارت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
اسلامی جمعیت طالبات پاکستان‘ معاصر مسلم دنیا میں طالبات کا ایک قابلِ قدر قافلۂ دعوتِ حق ہے جس نے مغرب اور خود مسلم دنیا کی سیکولر یلغارسے مسلم طالبات کو بچانے کے لیے عظیم جدوجہد کی ہے۔ ستمبر ۱۹۶۹ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے مسلم خواتین کے مستقبل کو ایسی سعید روحوں سے مربوط کیا ہے کہ آج ہر میدان میں جدید پڑھی لکھی خواتین‘ اسلام کی حقیقی رضا و منشا کے مطابق دعوت‘ تربیت اور تعمیر کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
یہ کتاب دراصل‘ اسلامی جمعیت طالبات کی تاریخ پیش کرتی ہے‘ جسے تنظیم کی سابق پانچ ناظماتِ اعلیٰ (ڈاکٹر اخترحیات‘ ڈاکٹر کوثر فردوس‘ ڈاکٹر فوزیہ ناہید‘ نگہت ودود‘ عابدہ فرحین) کے مصاحبوں (انٹرویوز) کی مدد سے ترتیب دیا گیاہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اُن کے زمانۂ نظامت (۱۹۸۰ئ-۱۹۸۷ئ) میں مختلف النوع تجربات‘ مشکلات‘ واقعات اور اہم معلومات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ قافلۂ راہِ حق میں شامل ہونے والی نئی طالبات اس حقیقت کو جان سکیں کہ یہ قافلۂ عزیمت کن راہوں سے گزر کر آج ہمیں سعادت و عزیمت کی شمعیں عطا کر رہا ہے۔ (س- م- خ )
مستقبل میں قسمت کا حال جاننے کی آرزو اور تجسس ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ انسان بہتر زندگی کے لیے منصوبہ بندی اور تگ و دو کرتا ہے لیکن خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہوئے‘ غیبی اور تخمینی علوم کا سہارا لیتا ہے اور اکثروبیشتر صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اسی لیے اہلِ علم ایسے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ ہر دور میں انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ زیرنظرکتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں نام نہاد عاملوں‘ کاہنوں‘ جادوگروں اور ایذا دینے والے جنات کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔
علمِ وحی نے صحیح سمت میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ علم وحی سے ہٹ کر دیگر علوم کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے اور وہ سبھی باطل بھی نہیں‘ لیکن ان علوم کی حقیقت کیا ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ علمِ ہیئت اور علمِ نجوم کی حقیقت‘ علمِ کہانت و عرافت کی مختلف صورتوں ‘قیافہ شناسی اور دست شناسی کی شرعی حیثیت‘ فال‘ استخارہ‘ جفر‘ علم الاعداد‘رمل اور جادو ٹونے کی مختلف نوعیتوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے لیکن کتاب کا سب سے دل چسپ حصہ جنوں کے بارے میں ہے۔ جنات کی اقسام‘ خوراک و رہایش‘ شادی بیاہ‘ انسانوں سے ان کا تعلق‘ ایذا رسانی اور جن نکالنے کے عام اور ائمہ سلف کے طریقوں کی تفصیل اور لائقِ مطالعہ ہے۔
کتاب میں‘ دم‘ تعویذ اور شیطانی وساوس دُور کرنے کے طریقے اور اس ضمن میں متفرق مباحث شامل ہیں۔ مصنف نے ان امور پر بحث کرتے ہوئے اعتدال سے کام لیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے تجسس کے لیے باعث تشفی ہوگی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اگر بچوں کو کوئی بہت اہم مسئلہ سمجھانا ہو لیکن سمجھانے والا سمجھانے کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو تو نتیجہ خاطرخواہ نہیں نکلے گا۔ پھٹا ہوا دودھ کے مصنف کو‘ خدا نے اس صلاحیت سے بخوبی نوازا ہے۔ یہ پرتاثیر‘ دل گداز اور ایک خاص کیفیت والی کہانیاں ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم بچوں کو کھانے پینے ‘اوڑھنے اور تعلیم وغیرہ جیسی تمام ضروریات تو مہیا کر دیتے ہیں‘ مگر ان کی جذباتی دنیا کی دیکھ بھال کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے شدت سے اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم بچوں کے جذبات و احساسات کی پروا اور قدر کریں اور ان کے مثبت جذبات کو نشوونما دیں تو معاشرہ بہت خوب صورت دکھائی دے گا۔ ’’آلنے سے گری‘‘ کہانی اسی نکتے کو اجاگر کرتی ہے۔
ان کہانیوں میں افسانہ نگار‘ باتوں ہی باتوں میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ وہ سیدھی دل میں جا اترتی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔دراصل یہ ہمارے ہی معاشرے کے جیتے جاگتے انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ مصنف نے ان کا اصل کردار دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ مثلاً ہم اپنے اردگرد لاکھوں بچوں کو کام کرتا دیکھتے ہیں‘ ’’پھرکی‘‘ اسی طرح کے ایک بچے کی کہانی ہے۔
اختر عباس کو ’’ایڈیٹربھیا‘‘ کے طور پر کہانی لکھنے اور اُسے پُراثر بنانے کا فن آتا ہے۔ چنانچہ ان کے مخصوص اسلوب میں لکھی گئی یہ کہانیاں ایسی ہیں کہ بقول طارق اسماعیل ساگر: ’’آپ ایک بار انھیں پڑھنے بیٹھ گئے تو پھر اُن کے سحر سے بچ نہیں پائیں گے‘‘۔ (قدسیہ بتول)
تبصرے کے لیے دو کتابوں کا آنا ضروری ہے۔ (ادارہ)
’’قائدانہ کردار‘‘ (فروری ۲۰۰۴ئ) بہت موثر اور مفید مضمون ہے۔ پڑھ کر جذبات کو مہمیز ملی‘ اپنے کو مزید منظم کرنے کی طرف توجہ ہوئی ‘ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کی سوچ پیدا ہوئی۔اس میں تجاویز پر عمل کرکے انفرادی اور اجتماعی اصلاح میں مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
’’بوسنیا: چند مشاہدات‘‘ (فروری ۲۰۰۴ئ) بصیرت افروز مضمون ہے۔ بوسنیا کے مسلمان اس وقت جن مشکلات کا شکار ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان اور عالم اسلام بوسنیا کی بحالی اور تعمیرنو میں بھرپور طریقے سے تعاون کرکے ملّی یک جہتی کا ثبوت دیں۔
’’انسان مشقت میں پیدا کیا گیا ہے‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) ایک اچھی کاوش ہے۔ پڑھ کر لطف آیا‘ تقابلی مطالعے کے شوق کو کچھ غذا ملی۔ یہ سلسلہ اگر مستقل ہو تو کتنا اچھا ہے!
فہم حدیث کے تحت ’’کلام نبویؐ کی کرنیں ‘‘ ترجمان کے اہم سلسلوں میں سے ایک ہے۔ مولانا عبدالمالک کا شرحِ حدیث کا اسلوب بہت عمدہ ہے‘ ماشا ء اللہ! اس کے صفحات بڑھانے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
’’تصوف: اسلامی نقطۂ نظر‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) نظر سے گزرا۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ قرآن مجید اور احادیث کے مطالعے سے ہم جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جہاد سب سے زیادہ پسند ہے‘ جب کہ تصوف کی اصطلاح میں جہاد خارج از بحث ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ: اعمال کی چوٹی جہاد ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔جہاد ایک مسلمان کو خانقاہ سے نکال کر میدانِ عمل میں لاکر کھڑا کر دیتا ہے‘ طاغوت سے ٹکرانے اور غلبۂ دین کے لیے انتہائی جدوجہد کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ تصوف صرف پوجاپاٹ کی حدتک عبادت کا تصور دیتا ہے۔ تصوف تو جوگیوں‘ بھکشووں‘ درویشوں‘ سنیاسیوں‘ پادریوں‘ برہمنوں اورپجاریوں کی سی ایک قسم ہے جو صرف پوجاپاٹ کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ذکر بھی تصوف میں ایک محدود عمل ہے‘ لہٰذا اسلام کا مطلوب تصوف نہیں جہاد ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد ’’رسائل و مسائل‘‘ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) میں لکھتے ہیں: ’’اسلام نے لباس کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول ہمیں دیے ہیں‘ ان میں جسم کا تحفظ‘ زینت اور سادگی کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو اس سے تکبر کا اظہار ہو اور نہ جان بوجھ کر لاپروائی اور غربت کا اظہار کیا جائے‘‘۔ اسلام کا انتہائی اہم اصول یہ ہے کہ ایسا لباس نہ پہنا جائے جس سے جسم کے اعضا نظرآئیں اور نمایاں ہوں۔اگر یہ اصول بھی بیان کر دیا جاتا تو اسلام کی مکمل ترجمانی ہوتی۔
جزئیات سے میری مراد آمین بالجہر اور رفع یدین وغیرہ کی قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ ان مسائلِ اجتہادیہ میں تو ہمیشہ ہمیں رواداری ہی کا مسلک اختیار کرنا پڑے گا‘ اس لیے کہ ان کے دونوں پہلوئوں کے لیے دین میں گنجایش ہے۔ میں یہاں ان جزئیاتِ امور سے غض بصر کا مشورہ دے رہا ہوں جن کے لیے دین میں کوئی گنجایش نہیں ہے لیکن خدمت دین کی مصلحت مقتضی ہے کہ اپنی دعوت کے اس مرحلے میں ہم ان سے بھی چشم پوشی کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم شاخوں کے تراشنے میں اپنا سارا وقت برباد کردیں گے اور فتنوں کی جڑوں کی طرف توجہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ ہمارا کام صحیح طور پر جب ہی ہو سکتا ہے کہ توحید اور رسالت اور معاد ] آخرت[ کے پورے پورے متعلقات اچھی طرح عوام کو سمجھا دیے جائیں۔ یہ لمبا راستہ طے کرلینے کے بعد لوگ جزیِ امورمیں راہِ حق کو پاسکتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ خود محسوس کرنے لگیں گے کہ فلاں کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدئہ توحید کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا‘ فلاں رسم جو رائج ہے ہمارے تصورِ رسالت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی‘ اور فلاں عادت جو فروغ پائے ہوئے ہے ہمارے تصورِمعاد کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال ان جزیِ امور میں کسی گروہ کو سخت سست کہنا یا کسی سے مقاطعہ کرنا ہمارے کام کے لیے قطعاً مضرہے۔ حتی الوسع ان معاملات میں چشم پوشی کیجیے...
اصلاح کے کام میں ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ پہلے کسی اصل کے قریب ترین مقتضیات پیش کیے جائیں‘ پھراس سے بعید‘ پھر اس سے بعید تر۔ مثلاً توحید کے متعلقات میں سے سب سے پہلے وہ چیزیں لینی چاہییں جن پر عموماً سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ پھر آگے چل کر ان خفی ] پیچیدہ[ امور کی وضاحت کیجیے جو اوّلیاتِ توحید سے مستنبط ہوتی ہیں۔ پھر اور آگے چلیے اور ان آخری مقتضیاتِ توحید کی طرف رہبری کیجیے جن سے عوام کی توجہ تو بالکل ہی ہٹ چکی ہے اور علما بھی کسی نہ کسی حد تک ان کے عملی مقتضیات سے غافل ہیں۔ (’’روداد‘ اجتماع دارالاسلام‘‘، امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۳-۴‘ ربیع الاول و ربیع الآخر ۱۳۶۳ھ‘ مارچ‘اپریل ۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۰-۴۱)