مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۰۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا حقیقی اقتدار موجودہ جمہوری اداروں کی طرف منتقل ہوجائے گا؟ کیا پرویز مشرف صاحب سترھویں ترمیمی بل کی منظوری کے بعد‘ دستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر کی آخری تاریخ سے قبل چھوڑدیں گے یا کلی اقتدار سے چمٹے رہنے پر اصرار کریں گے ؟ کیا پاکستان کو ایک دیانتدار‘اہل اور ملک و ملت کا حقیقی دردرکھنے والی قیادت میسر آسکے گی ؟ کیا امریکا ‘بھارت اور اسرائیل کی ملی بھگت کے مقابلے میں ہم اپنی قومی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ہم امریکا کے ساتھ نتھی ہونے پر مجبور ہیں یا امریکا سے جان چھڑا کر آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنانے کے مواقع موجود ہیں ؟

ہم کوشش کریں گے کہ ان اہم سوالات سے متعلق مسائل کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کریں۔

برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بظاہر تو اقتدار مسلم لیگ کی طرف منتقل ہوا لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوری کی وجہ سے اقتدار کلی طور پر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ (انتظامیہ)کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور بالآخر یہ نوبت آئی کہ جنرل محمد ایوب خاں نے اسکندرمرزا کے ساتھ مل کر فوجی قبضے کے ذریعے سیاسی بساط ہی لپیٹ دی۔ایوب خان کے بعد یحییٰ خان اور یحییٰ خان کے بعد مشرقی پاکستان گنوا کے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی فوج ہی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار پھر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے فوج کی طرف منتقل ہوگیا اور اسی فوجی دورِ حکومت میں نواز شریف کو متعارف کرایا گیا ۔ بے نظیر اور نوازشریف کے تجربات کے بعد فوج نے پرویز مشرف کے ذریعے ایک بارپھر اقتدار براہ راست سنبھال لیا۔

اس طرح پاکستان کی پوری تاریخ پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی حقیقی مالک پاکستان کی فوجی اور سول انتظامیہ (establishment)ہے جو وقتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً سیاستدانوں میں سے پسند کے کچھ لوگوں کو بھی شریکِ اقتدار کرلیتی ہے لیکن اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ حقیقی اقتدار عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل ہو ۔ موجودہ حکمران پارٹی بناتے وقت بھی اس کا انتظام کیا گیا ہے کہ اس کی قیادت میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہ آسکے جو فوجی قیادت سے آزاد ہو کر ملک و قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہو۔ چودھری شجاعت حسین علالت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ ملک و قوم کی قیادت کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ اسی لیے انھوں نے محض چند مہینے کی وزارت عظمیٰ پر بخوشی اکتفا کرلیا ۔ اس سے قبل وہ اپنی علالت ہی کی وجہ سے میر ظفر اللہ خاں جمالی کی وزارت عظمیٰ پر رضا مند ہوگئے تھے۔

شوکت عزیز صاحب بنیادی طور پر ایک ٹیکنوکریٹ ہیں ۔ ساری زندگی ملک سے باہر گزاری ہے ۔ ان کا سیاسی میدان کا تجربہ پرویز مشرف کے دور تک محدود ہے ۔وہ پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور جن حلقوں کو ان کے انتخاب لڑنے کے لیے پسند کیا گیا ہے وہاں ان کی کامیابی کا انحصار جاگیرداروں اور وڈیروں کی حمایت پر ہے ۔ یہ امر محل نظر ہے کہ کیا وہ پرویز مشرف کی سرپرستی کے بغیر بھی سیاسی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں ۔

پرویز مشرف صاحب نے ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ق) کو کسی حقیقی عوامی اور سیاسی قیادت سے محروم رکھا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے اتحادیوں میں اگرایک دوشخصیات ایسی ہیں بھی کہ وہ ذاتی لحاظ سے قیادت کی اہل ہیں تو وہ مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں ہیں ۔البتہ چودھری شجاعت حسین صاحب علالت کے باوجود اپنی برادری کے اثرات‘ وسائل‘ اور اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنا پر اس بات کے اہل ضرور ہیں کہ اپنے کسی سیاسی حریف کو موجودہ اسمبلی میں اقتدار تک پہنچنے سے روک سکیں ۔

ان حالات میں فوجی وردی اتارنے کے باوجود‘ اقتدار پرویز مشرف کے پاس رہے گا۔ شوکت عزیز ان کی وفاداری اورا طاعت پر مجبور ہوںگے اور چودھری برادران دونوںکو سیاسی پشتیبانی مہیاکرتے رہیں گے ۔امریکی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے پرویز مشرف اور شوکت عزیزقومی مصلحتوں اور مفادات پر سودا بازی کرتے رہیں گے ‘جس کے نتیجے میں عوام کی بے چینی بڑھے گی اور عوام کی طرف سے اپوزیشن پر خصوصاً ایم ایم اے پر‘ پرویز مشرف حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے دبائو بڑھے گا ۔

ان حالات میں ملک کو کسی ہیجانی صورت حال سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسائل کا آئینی اور قانونی حل نکالنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی گروہ میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ طرفین ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں جس کے نتیجے میں تصادم ناگزیر ہوجائے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ پرویز مشرف صاحب خوش دلی سے آئین کاتقاضا پورا کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ اس سے فوج میں بھی اطمینان پیدا ہوگا اور پرویز مشرف صاحب کو بھی ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس کی شکایت انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے کہ ان پر حملے میں فوج کے نچلی سطح کے کچھ لوگوں کاہاتھ تھا ۔ اس کے برعکس اگر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ فوجی عہدہ برقرار رکھنے پر اصرار کریں گے تو تشدد کا راستہ اختیارکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ۳۱دسمبرکے بعد فوجی عہدہ برقرار رکھنا آئین کو پس پشت ڈال کر اپنے ہی قائم کردہ جمہوری نظام پر وار کرنے کے مترادف ہوگا جس کے بعد جمہوری قوتوں کے پاس پرویز مشرف کے خلاف  ایجی ٹیشن کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس ایجی ٹیشن کا نتیجہ جو بھی نکلے‘ لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ اس کے بعد پرویز مشرف صاحب کے لیے اقتدار پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا اور   ایوب خان اور یحییٰ خان کی طرح ان کے اپنے ہی ساتھی ان سے معذرت کرسکتے ہیں کہ ان کا   یہ رویہ نہ قوم کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ملک کے دوسرے اداروں کے لیے۔ چنانچہ ملک و قوم اور   خود پرویز مشرف کے لیے عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ وردی اتار کر ایک سویلین صدر بننے پر اکتفا کرلیں ۔ اگر شوکت عزیز وزیراعظم بن جائیں تو دونوں مل کر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ۲۰۰۷ء تک آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حکومتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور اپوزیشن جماعتیں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے تیاری کریں۔

قومی جذبات کا احترام

اس صورت میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت عا فیت کے ساتھ اسی وقت چل سکتی ہے کہ وہ حساس معاملات میں قومی جذبات کا احترام کریں۔ حساس معاملات میں نیوکلئیر پروگرام سب سے اہم ہے اور اس پر ملک و قوم کی سلامتی کا انحصار ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہمارا دار و مدار اسی صلاحیت پر ہے۔یہ ملک و قوم اور ہماری فوج کے لیے بین الاقوامی برادری میں افتخار کا باعث ہے ۔

امریکا نے کھلم کھلا ہمیں ایک ایٹمی طاقت ماننے سے انکار کیا ہے ۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے ۔ ہماری اس صلاحیت کو اسرائیل نے بھی اپنے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور بین الاقوامی صہیونی لابی اس پروگرام کے خلاف سرگرم ہے۔ عبدالقدیر خان سمیت ہمارے بہت سے سائنس دانوں کو اس ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے کے جرم میں  اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا ہے اور ایٹمی پھیلائو (nuclear proliferation)کا الزام لگا کر پاکستان کو بھی غیر ذمہ دار ملک قرار دینے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ایٹمی پروگرام پر دبائو میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ پرویز مشرف کی وفاداری اور دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود‘ اور اس امر کے باوجود کہ پاکستا ن کو نیٹوسے باہر امریکا کا اہم اتحادی قرار دیا گیا ہے‘ اس اتحادی پر اس وقت تک اعتماد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام کو امریکا کے معائنے کے لیے کھول نہ دیں اور اس پر بین الاقوامی کنٹرول کو قبول نہ کرلیں ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام پر ایک حد سے زیادہ مفاہمت نہیں کرسکتے۔ اگر کشمیر یا ایٹمی پروگرام پر قومی پالیسی سے انحراف کیاجائے گا یا اسرائیل کوتسلیم کرنے ‘عراق اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے اپنی فوجوں کو ملوث کرنے‘ یا قبائلی علاقوں میں امریکی دبائو کے تحت عریاں فوجی قوت استعمال کرنے کے قبیل کے اقدامات کیے جائیں گے تو حکومت کو اندرونی سیاسی ایجی ٹیشن اور بڑی عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا خارجہ پالیسی سے آگے بڑھ کر اب تعلیمی اور ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی اپنی مرضی منوانے پر تلا ہوا ہے ۔پرویز مشرف کے مطلق العنان دور حکومت میں جب ابھی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آئی تھی‘ زبیدہ جلال صاحبہ کی معرفت امریکی آشیر باد کے ساتھ اہم تعلیمی شعبوں میں آغاخان فائونڈیشن کو عمل دخل دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۰۰۶ء میں ملک بھر میں ہر تعلیمی ادارے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے ادارے کا آغاخان فائونڈیشن کے قائم کیے ہوئے تعلیمی بورڈ سے الحاق کر لے۔ آغاخان فائونڈیشن کے بورڈ کو یوایس ایڈ (U.S. Aid)کی مالی پشتیبانی حاصل ہوگی جس کی شہ پر وہ خود سے منسلک اداروں کو بظاہربہتر سہولتیں مہیا کرکے انھیں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقدار اپنانے اور بچوں کو اسلامی تہذیب سے نا آشنا کرکے مغربی تہذیب کا خوگر بنانے پر آمادہ کرسکے گا ۔ اس طرح نظام تعلیم کو سیکولر بنانے اور نئی نسل کو اسلامی نظریے کے بجاے سیکولر نظریات کی طرف دھکیلنے کی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا پروگرام ہے ۔

اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ابھی سے پرویز مشرف صاحب اپنی تقریروں اور انٹرویوزمیں اظہار خیال فرمارہے ہیں کہ اسلام سیکولرازم کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔پرویز مشرف صاحب کے اعتدال پسند اسلام (Moderate Islam)کی تو یہ توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ خود قرآن کریم نے امت مسلمہ کو امت وسط (اعتدال والی قوم ) قرار دیا ہے مگر ان کے اس ارشاد کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام میں سیکولرازم کی گنجایش ہے کیونکہ سیکولرازم نام ہی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کے اخراج کا ہے ‘ جب کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے ‘ زندگی  بسر کرنے کا سلیقہ ہے اور بقول اقبال دین دنیا کے دروازے کی کنجی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا ہے:’’از کلیددین دردنیا کشاد‘‘۔

اسلام کا مطالبہ ہے کہ اسے قبول کرنا ہے تو پورے کاپورا قبول کرلو۔اسلام کے بعض حصوں کو قبول اور بعض کو رد کرنے کی کوئی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے ۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج  فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط (البقرہ ۲:۸۵) ’’توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں‘ ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟‘‘

حدود قوانین اور توہین رسالت ؐکے قانون کو مغربی اقوام کے دبائو کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر انھوں نے پسپائی اختیار کی اور اسلام کے راستے کو چھوڑکر اپنے نظام تعلیم اور تہذیب و ثقافت اور قوانین کو مغربی تہذیب کے رنگ میںرنگنے کے راستے پر چل پڑے تو وہ خود اپنے خلاف احتجاج اور ایجی ٹیشن کو دعوت دیں گے ۔

مغربی اقوام اور خصوصاً امریکا کا ایک مطالبہ دینی مدارس کے آزادانہ نظام کو ختم کرکے ان کو حکومتی کنٹرول میں دینا ہے ۔مغربی میڈیا میں دینی مدارس کے خلاف زبردست مہم چلائی جارہی ہے اور دینی مدارس کو دہشت گردی اور تشدد کا منبع قرار دیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی اور جہاد کو ہم معنی قرارد یا جارہا ہے اور اس بہانے قرآنی تعلیمات کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس کے لیے آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو حکومت بھی اس حد تک امریکا کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی اسے اپنی قوم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا کے دبائو کے تحت اس طرح کی پالیسی بنانے والی حکومت ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی خود ذمہ دار ہوگی اور امن و امان کی خرابی کے ساتھ اقتصادی ترقی کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ آج دنیا میں ہزاروں ارب ڈالر اس انتظار میں ہیں کہ انھیں کسی ترقی پذیر ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور سیاسی استحکام ملے تو یہ پورا سرمایہ وہاں منتقل کردیا جائے ۔ خود پاکستانی شہری اپنا سرمایہ اور اپنی مہارت (skill)اپنے ملک کی طرف اس وقت منتقل کریں گے جب ا ن کو یقین ہوگا کہ ملک سیاسی طور پر مستحکم ہے اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہے ۔ یہ حالات   اس وقت پیداہوسکتے ہیں جب حکومت اور عوام میں ہم آہنگی ہو اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو۔جو حکومت اپنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے پرتل جائے‘ وہ امن کی بجاے بد امنی کو دعوت دے گی ۔ چنانچہ وزیر ستان میں طاقت کے استعمال کانتیجہ حکومت نے دیکھ لیا ۔ اب پاکستانی فوج اپنے آپ کو خود اپنی قوم میں اجنبی محسوس کررہی ہے ۔ چھائونیوں کے گرد دیواروں کو اونچا کیا جا رہا ہے اور فوجی افسران حفاظتی دستوں کی نگرانی کے بغیر اپنے گھرسے باہر نہیں نکلتے ۔ پرویز مشرف صاحب جس راستے سے گزرتے ہیں‘ اس پورے راستے پر گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور عملاً کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ یہ سب عوام کی مرضی کے خلاف پالیسیاں بنانے کے شاخسانے ہیں۔ ان حالات میں ملک نہ اقتصادی طور پر ترقی کرسکتا ہے‘ نہ اس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ اس کی امن و امان کی صورت حال کو درست کیا جاسکتا ہے۔

بہتری کے لیے اقدامات

اب ہم اپنے سوالات کے اصل جواب کی طرف آتے ہیں۔ اگرپاکستان کی فوج‘ یہاں کے سیاست دان اور قومی دانش ور خلوصِ نیت کے ساتھ ملک و ملّت کو موجودہ گمبھیر صورت حال سے نکالنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات کے ذریعے قوم کی کشتی بھنور سے نکالی جاسکتی ہے:

۱-            پرویز مشرف صاحب چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑتے ہوئے اسے فوج کے کسی مستحق اور اہل جنرل کے سپردکردیں جو سیاسی عزائم کی بجاے قومی دفاع پر پوری توجہ مرتکز کردے‘ اور فوج کو ملک کی اندرونی صورت حال میں فریق بنانے کی بجاے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کردے ۔

۲-            نیوکلئیرپروگرام کی حفاظت اور اسے ترقی دینے کی پالیسی پر سختی سے پابندی کا اعلان کیاجائے۔

۳-            پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تسلیم کرکے اقتدار اس کی طرف منتقل کردیا جائے اور پارلیمنٹ سے بالا تر اداروں کا خاتمہ کرکے صدر اور سکیورٹی کونسل کے ادارے اور فوج سمیت تمام اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کردیا جائے ۔ اس بنیادی اصول کو قوم ‘ سیاست دان‘    حکومتی پارٹی اور اپوزیشن دل سے تسلیم کرلیں اور اس کا احترام کریں۔

۴-            پرویز مشرف صاحب اور حکمران پارٹی کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں جو ملک کے اسلامی نظریے کے منافی ہو‘ جس کو ملک کے عوام خوش دلی سے قبول کرنے سے انکار ی ہوں اور جو قومی پالیسی اور قومی امنگوں کے منافی ہو ۔

۵-            کشمیر کی قومی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے علاوہ کسی دوسرے حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔

۶-            فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اعلان و اقرارکیا جائے اور بیت المقدس سمیت فلسطین پر اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔

۷-            عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو ختم کرکے عراق اور افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کوبحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ کسی بھی صورت پاکستانی فوج یا نمایندے عراق نہ بھیجے جائیں۔

۸-            دینی مدارس میں ناجائز حکومتی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے اور امریکی دبائو کے تحت تعلیمی منہج کو تبدیل کرنے سے احترازکیاجائے۔

۹-            حدود قوانین اور توہین رسالتؐ کے قوانین کو چھیڑنے سے احترازکیا جائے۔

۱۰-         آیندہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپوزیشن کے مشورے سے عمل میں لائی جائے۔ جس الیکشن کمیشن پر اپوزیشن عدم اعتماد کا اظہار کرے‘ اسے تبدیل کردیا جائے تاکہ انتقال اقتدار عوام کی آزادمرضی سے عمل میں آئے اور عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا جائے ۔

اگر حکومت ان تجاویز پر خوش دلی سے عمل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو قدرتی طور پر اپوزیشن سے بھی مثبت رویے کی توقع کی جاسکتی ہے بلکہ وہ اقتصادی‘ اخلاقی اور سیاسی میدان میں ترقی کے کاموں میں حکومت سے تعاون کرے گی۔ اس صورت میں ملک و قوم کی کشتی نئے آنے والے طوفانی دور میں بحفاظت پار ہوسکتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کے راستے کھل سکتے ہیں ۔ ملک کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عافیت کا یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر قومی مفادپر مبنی اس پالیسی پر اتفاق ہوجائے تو ہم بھارت ‘اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ کے باوجود خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور قومی مصلحتوں کی حفاظت کی خاطر آزادخارجہ اور داخلہ پالیسیاں بناسکتے ہیں اور ملکی دفاع کی خاطر عوام ‘فوج اور حکومت کا مل اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔جمہوری طرز حکومت کا حسن یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قومی مفادکی خاطر اکٹھی ہوجاتی ہیں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا مل کر مقابلہ کرتی ہیں ۔


کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر پارٹی کا اصل ہدف اپنی قوم کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔قومی فلاح و بہبود کے لیے قومی سلامتی اولیں ضرورت ہے اور قومی سلامتی کی خاطر حکومت‘ فوج اور عوام میں ہم آہنگی ضروری ہے ۔ یہ ہم آہنگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ملک کے تمام ادارے صدق دل سے پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم ہمارا اسلامی نظریہ ہے ۔  قومی اسمبلی اور سینیٹ کے غیر مسلم ممبران سمیت ملک کے تمام اہم اداروں کے افراد پاکستان کے اسلامی نظریے کے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے ہیں ۔ دستور کی پابندی اور اس کی حفاظت کرنے کا حلف ہماری افواج کے سربراہان ‘ہمارے صدر‘ وزیراعظم اوراعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دستور کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں ہمارا سیاسی نظام کئی بار تلپٹ ہوچکا ہے ۔

ہماری افواج میں بھی اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے اپنی تاریخ اور اسلامی نظریے سے وابستگی‘ مضبوط اقتصادی ڈھانچا اور مضبوط اداروں کا قیام ضروری ہے ۔    یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم دستور کی پابندی کا عہد کریں جس کی بنیاد نظریہ اسلام ‘ جمہوریت ‘وفاقیت اور عدلیہ کی آزادی پر رکھی گئی ہے ۔

اس وقت پوری قوم میں اپنے مستقبل کے بارے میں جو فکرمندی پائی جاتی ہے‘ اس فکرمندی اور تشویش کو امید کی شمع روشن کرکے یقین محکم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔یاس اور حزن‘ مایوسی اور ناامیدی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ انسان کی قوت عمل کو مفلوج کردیتی ہے‘ جب کہ امیداور یقین مضمحل قوتوں میں بھی جان ڈال دیتی ہے ۔اس لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے: یسرواولا تعسروا بشروا ولاتنفروا’’آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں مت پیدا کرو‘خوشخبریاں سنائو اور لوگوں کو متنفرمت کرو‘‘۔

اللہ رب العالمین کا قرآن کریم میں تاکیداً حکم ہے:

لاتقنطوامن رحمۃ اللّٰہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ‘‘۔لاتیئسوامن روح اللّٰہ،’اللہ کے رحم سے ناامید نہ ہوں‘۔لاتخافواولاتحزنوا ،’نہ خوف کرو اور نہ غم کرو‘۔لاتخف،’ خوف مت کرو‘۔ لاتحزن، ’غم مت کرو‘۔

یہی تعلیم ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے دی ہے ۔ وہ امید کے شاعر تھے ۔ یاس اور حزن کوانھوں نے مثنوی اسرارخودی میں ام الخبائث قرار دیا ہے اور فرمایا ہے     ؎

نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

جناب جسٹس ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی تربیت کی تکمیل پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی تقریب تقسیمِ اسناد میں ملک کے عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کے مسئلے پر بڑے بنیادی اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد مطلوبہ معیار سے کہیں کم ہے‘ انھوں نے صرف نئے ججوں ہی کو نہیں بلکہ عدلیہ کی ہر سطح پر ذمہ دار افراد کو تلقین کی ہے کہ ’’ہمیں (عدلیہ کو) ملک میں انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا‘‘۔ فاضل چیف جسٹس کا ارشاد ہے کہ ’’انصاف کی فراہمی مشکل کام ہے‘ تاہم نئے جج صاحبان اپنی ذہانت اور دل و دماغ کی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاکر عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بناسکتے ہیں۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق انصاف کی فراہمی کو افضل عمل کی حیثیت سے معاشرتی زندگی میں عملی شکل دینی ہوگی اور عوام کا اعتماد نظامِ انصاف پر بحال کرنا ہوگا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے  یہ بھی کہا کہ ’’ڈسٹرکٹ جج نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر   جج صاحبان انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پورا نظام انصاف زمین بوس ہوسکتا ہے‘‘۔

جسٹس ناظم حسین صدیقی صاحب نے ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف عدلیہ اور پوری قوم کو متوجہ کیا ہے اور ہماری اجتماعی زندگی کی ایک نہایت ہی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اس وقت ملک کے سارے ہی ادارے سخت اضمحلال کا شکار ہیں لیکن جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اگر حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ جس حد تک انصاف فراہم کرنے اور اپنے کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس باب میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں اہم ترین یہ ہیں:

اولاً ‘قوانین کی بھرمار ہے‘ مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا عطیہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد ۵۷ سال گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن  نے سفارشات پیش کی ہیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح کا کام دوسال کے اندر اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجاناچاہیے تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ دن رات اس کے لیے کام کرے تو یہ مقصد ایک متعین مدت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے عوام او رعدلیہ دونوں کا کام آسان ہو جائے گا۔

دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا مؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ یعنی قابلیت (merit) اور دیانت(integrity)۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص اور سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہر سطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظام احتساب کی ضرورت ہے وہ نہایت غیر مؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوں کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہیں:

ا-             عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے اور اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے۔ جس میں مرکزی وزارت قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹیری تقرر اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا قائم مقام گورنر مقرر کیا جانا بالکل ختم ہونا چاہیے۔

۲-            ججوں کے تقرر کا نظام بھی اصلاح طلب ہے اور اس کے لیے بھارت کے حالیہ انتخابات کی روشنی میں اس پر غور ہونا چاہیے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ایک بالکل آزاد ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کا پابند ہو۔

۳-            ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات (۵ ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات) زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں زندگی کے دن تمام ہوجاتے ہیں مگر مقدمے سے نجات نہیں ملتی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد کی کمی‘ ججوں کی اسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں‘ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اور ناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابل ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس ‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔

۴-            ججوں کی مدت ملازمت پر بھی معروضی انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔نیز ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم‘ تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے جس کی کوئی تنخواہ نہ ہو بلکہ صرف ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح مدت ملازمت کے بعد کی ترغیبات کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔

۵-            ہر سطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔

۶-            ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔

۷-            عدلیہ کے حضرات کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس ارشاد احمد خان تک جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح سرکاری اثرات کو قبول کیا اور قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر متاثر ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دور کے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ تمام بڑے نازک معاملات ہیں اور ان کے بارے میں آداب اور روایات کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔

ہمارے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی پاسداری کی نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوقِ انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کی حفاظت بھی ہے۔ اب تو عدالتی فعالیت (judicial activism) ایک معروف حقیقت بن گیا ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ پر اعتماد کے مسئلے کو اٹھا کر ان تمام پہلوئوں پر ازسرنو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ہماری رائے میں اس مسئلے پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کو جلد از جلد اس کو زیرغور لاکر ضروری قانون سازی کر کے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔

۱۱ جولائی کو علامہ یوسف قرضاوی کی دعوت پر لندن میں علما کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ۲۰۰ سے زائد علما نے اس میں شرکت کی ۔اکثریت عرب ممالک کی تھی۔ کانفرنس نے علما کے اتحاد کی ایک عالمی تنظیم بنائی ہے ‘ جودینی اور سیاسی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرے گی ۔ علامہ یوسف قرضاوی کو اس کا متفقہ طور پر صدر منتخب کیا گیا ۔ ایران کے آیت اللہ تسخیری‘عمان کے مفتی شیخ احمد الخلیلی اور الجزائر کے شیخ محمد بن بیہ نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔۲۰ افراد پر مشتمل ایک ’مجلس امنا‘ (Trustees Council)تشکیل دی گئی۔ اس میں پاکستان سے جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی صاحب کا نام شامل ہے ۔ ۳۰ افراد کی ایک نگران کونسل بھی تشکیل دی گئی جس میں پاکستان سے راقم الحروف کا نام شامل ہے ۔

علما کی یہ کانفرنس ان کوششوں کا حصہ ہے جو مسلمانوں کے اتحادکے لیے کی جا رہی ہیں ۔ اس وقت امت مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان کی طرف سے بولنے والااور ان کی نمایندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے ‘ جب کہ انھیں دہشت گردی اور تشدد کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ امت کو متحد کرنے کے لیے خلافت کااحیا ہی حقیقی راستہ ہے کیونکہ اسلام دین و دنیا یا دین و سیاست کی تفریق کو قبول نہیں کرتا‘ لیکن جب تک ایک ایسی مضبوط سیاسی اور دینی قوت ظاہر نہیں ہوتی جو مسلمانوں کو سیاسی اور دینی دونوں لحاظ سے متحد کرکے ان کی رہنمائی اور نمایندگی کا حق ادا کرسکے اورپوری امت کو ایک ہی سیاسی اور دینی قیادت کے گرد جمع کرسکے‘ اس وقت تک ترجمانی کے لیے کوئی فورم بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چنانچہ علما نے اپنے دائرہ کار میں متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تنظیم دنیا کو بتاسکتی ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔اس سلسلے میں بلاشبہہ پاکستان سے متحدہ مجلس عمل کو پہل کرنے کی فضیلت حاصل ہے۔

ہمارے ملک کے بعض دانش ور کبھی کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے وہ کچھ دن کے لیے خبروں کا موضوع بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے جو عدلیہ سے وابستہ رہے اور ملک کی ایک نمایاں شخصیت ہیں‘ فرمایا ہے کہ سیکولرازم اسلام کا حصہ ہے‘ شریعت کے مطابق غصب اقتدار جائز ہے اور آخری بات یہ کہ قرآن میں شراب کی حُرمت کا ذکر نہیں آیا۔ (نواے وقت لاہور‘ ۸ جولائی ۲۰۰۴ئ)

ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں کہ نوٹس لیاجائے لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی ایک پہچان ان کے والد گرامی علامہ محمد اقبال ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو مغرب کے لادینی اور سیکولر نظریات سے بچنے کی تلقین کی‘ اور مغرب کے استعمار کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا سبق دیا‘ اس لیے اس طرح کی باتوں سے ہم مسلمانوں کے دل کو کچھ زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔

جب کوئی تہذیب غالب ہوجاتی ہے تو مغلوب تہذیب کے مرعوب ذہنیت کے لوگوں کو اپنی تہذیب میں بڑے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اور اگر وہ لکھے پڑھے بھی ہوں تو اپنی شرمندگی کا علاج یہ کرتے ہیں کہ تحقیق کر کے یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہماری تہذیب میں تو وہ کچھ ہے ہی نہیں جس پر اعتراض اور تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ غالب تہذیب کے نمایاں خصائص کو اپنی تہذیب میں تلاش کرلیتے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن میں خود اس کا نمونہ بن جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

جب سے انگریزبرعظیم میں آئے‘ یہ صورت حال جاری ہے اور ہر دور میں اس کے مظاہر تلاش کیے جاسکتے ہیں لیکن آج کل عالمی منظر پر یہ موضوع اس لیے بہت نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکا اپنی فوجی اور سیاسی برتری کے بل پر مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت کو‘ بلکہ ان کے عقائد کو بھی اپنے سانچوں میں ڈھالنا چاہتا ہے تاکہ کہیں سے کوئی مزاحمت پیش آنے کا دُور دُور تک‘ نہ صرف پوری ۲۱ ویں صدی بلکہ ۲۲ ویں صدی تک میں بھی امکان نہ رہے۔

بدقسمتی سے اس مہم جوئی میں امریکا کو مسلمانوں کی صفوں ہی سے معاون مل رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹرجاوید اقبال کے متذکرہ بالا ارشادات ہیں۔

جاوید اقبال اپنی ذات میں تنہا نہیں۔اس وقت پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی اسلام کے حوالے سے جو کش مکش برپا ہے‘اس میں ایک گروہ اسلام کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ۲۰ویں صدی میں بہت سی شخصیات اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں واضح کر کے پیش کیا ہے۔ ہر ملک میں اس کے     علم بردار موجود ہیں جو اسلام کو اس کے حقیقی مفہوم میں اجتماعی زندگی کا نظام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا اصل مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ان کو سیکولرازم اور اسلا م میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ لیکن ان حضرات کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس دور میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کا قیام اس تصور پر سب سے بڑی چوٹ تھی۔ اگر پاکستان کی قیادت منافقت سے کام نہ لیتی اور   تحریکِ پاکستان میں جو پروگرام پیش کرکے عوام سے حمایت اور قربانیاں لی گئی تھیں اس کے مطابق ملک کا نظام قائم کیا جاتا‘ حقیقی جمہوریت ہوتی‘ عدل و انصاف ہوتا‘ معاشی و سیاسی حقوق محفوظ ہوتے‘ تو یہ بحثیں اپنی موت آپ مر جاتیں لیکن ہماری دوغلی سیاست نے ان بحثوں میں جان ڈال رکھی ہے اور کبھی کبھی کوئی اٹھ کر ایسے نعرے لگا دیتا ہے‘ جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال وقفے وقفے کے بعد لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن انھیں اور ان کے ہمنوائوں کو جان لینا چاہیے کہ اسلام کا کوئی مسخ شدہ یا ادھورا یا مغرب زدہ تصور یہاں پنپ نہیں سکتا۔ پاکستان کی ۵۶ سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔

علاج کی صورت حال

ہمارے ملک میں صحت عامہ کی جو صورت حال ہے ‘ وہ محتاج بیان نہیں۔ آبادی کے بڑھے حصے کو علاج نام کی چیز میسر نہیں‘ لیکن جسے میسر ہے اور جو اس کے لیے اپنی رقم خرچ کرتا ہے‘ اسے کیا ملتا ہے‘ اس حوالے سے مریضوں اور تیمارداروں کے پاس اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔

علاج کروانے والوں کے ۸۰ فی صد نجی شعبے سے رجوع کرتے ہیں۔ یہاں انھیں بہت زیادہ فیس دینا پڑتی ہے‘ ان کے لیے ضرورت سے زیادہ دوائیں تجویز کی جاتی ہیں‘ ضرورت سے زیادہ انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ یہ انجکشن بیماریاں ختم کرنے کے بجاے انھیں منتقل کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ علاج مزید مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عام ڈاکٹروں کے ۸۵ فی صد نسخوں میں تین یا زائد دوائیں اور ۱۷ فی صد میں چھے سے زائد دوائیں ایک نسخے میں لکھ دی جاتی ہیں۔ اوسط تعداد فی نسخہ چار ہے۔

سرکاری شعبہ بھی بہتر حالت میں نہیں ہے۔ ایک جائزے کے مطابق‘ ڈاکٹر سے مشورہ ہونے سے اس کے کمرے سے باہر آنے تک ایک مریض کو اوسطاً دو منٹ دیے جاتے ہیں۔  ۵۰ فی صد مریض اپنے نسخے سے غیرمطمئن ہوتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے کے مطابق فی کس فی سال ۵.۸ انجکشن کے ساتھ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ انجکشن لگانے والے تین ممالک میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے ملک میں ایک ارب انجکشن لگائے جاتے ہیں اور ان میں سے ۸۵ فی صد غیرمحفوظ طریقوں سے لگائے جاتے ہیں۔ (ڈرگ بلٹن‘ مارچ اپریل ۲۰۰۴ئ)

دوا ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے روابط کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا سنا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ صارف کے مفاد دیکھنے والی کوئی انجمن تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرے اور اندر کی کہانیاں سامنے لائے۔ گاڑیوں کی چابیاں‘ عمرہ کے ٹکٹ‘ تفریحی دورے اور ماہانہ مشاہرے غالباً کسی افسانوی دنیا کی باتیں نہیں۔ دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

عام آدمی کی نظروں میں آج بھی ڈاکٹر نہایت مقدس اور دیانت دار ہستی ہے۔ جو کبھی بھی خواہ مخواہ دوا نہیں لکھے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کمپنیوں کے ذمہ داروں کے مطابق جن اضلاع میں تعلیم کم ہے‘ وہیں سے بہت اچھی سیل رپورٹ آتی ہے۔

کیا ہماری اسمبلی یا سیینٹ کی متعلقہ کمیٹی کوئی ایسا کمیشن نہیں بناسکتی یا خود اپنے آپ کو ایسا کمیشن قرار نہیں دے سکتی جس کے سامنے اس مسئلے کے متعلقہ فریق آکر سب سچ بیان کر دیں اور ایک ضخیم رپورٹ تیار ہو‘ جو اس عظیم پیشے کی‘ دواسازی کے صنعت کاروں کی اور مریضوں کی صحیح صورت حال کی عکاسی کرتی ہو اور پھر کوئی ’علاج‘ بھی تجویز کرے۔

مسلم یا غیر مسلم سے قطع نظر محض ایک قوم ہونے کی حیثیت سے کسی قوم کے آزاد ہونے کا مطلب محض غیروں کی غلامی سے آزاد ہونا نہیں ہے‘ بلکہ اس لحاظ سے آزادی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم کو خود اپنے معاملات چلانے کے اختیارات حاصل ہوں۔ ایک قوم خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہو کہ کن کے ہاتھوں میں وہ اپنے معاملات دے اور کن کے ہاتھوں میں نہ دے‘ اور یہ کہ جن کو وہ اس قابل نہ سمجھے انھیں وہ ہٹا سکے اور ان کی جگہ اپنے درمیان سے دوسرے لوگوں کو اُٹھا کر سامنے لاسکے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کو جانے اور سمجھے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں آزادانہ بحث مباحثہ کر کے رائے قائم کرے اور کوئی اس کے اس حق کو سلب نہ کر سکے۔ اس کی رائے ہوا میں      اُڑ جانے والی چیز نہ ہو‘ بلکہ اس کی رائے کا وزن ہو اور وہ ایک فیصلہ کُن چیز ہو۔

اس لحاظ سے آپ دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ۲۱ سال٭ کے دوران میں عملاً ایک دن کے لیے بھی آزادی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ یہ آزادی آپ نے لڑ کر‘ اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے حاصل کی تھی۔ قاعدے کے مطابق یہ آزادی آپ کو انگریز سے منتقل ہوگئی تھی۔ لیکن دستوری طور پر وہ آپ کی مجلس دستورساز کے پاس رہن رہی۔ انگریزی اقتدار کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ مجلسِ دستور ساز کا کام تھا کہ وہ آپ کے ملک کا دستور بناکر اس آزادی کو عملی طور پر آپ کی طرف منتقل کرتی۔ یہ آزادی نو سال تک اس کے پاس رہن رہی۔ نوسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں فکِّ رہن ہوا۔ لیکن عملاً آپ اس وقت تک اس آزادی کو استعمال نہیں کر سکتے تھے جب تک ملک میں عام انتخابات نہ ہوجاتے۔ جب عام انتخاب سے اسمبلی وجود میں آتی تو عملاً آپ کی آزادی آپ کو منتقل ہوجاتی۔ اس کے بعد اگر آپ کے نمایندے آپ کی مرضی کے مطابق کام کرتے تو انھیں آپ کی تائید حاصل رہتی لیکن اگر وہ آپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کرتے تو دوسرے انتخاب میں آپ ان کو ہٹا دیتے اور زیادہ بہتر اور اہل تر آدمیوں کو منتخب کرتے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ اس طریق کار کے آغاز کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ انتخاب کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ فروری ۱۹۵۹ء میں انتخابات ہونے والے تھے لیکن قبل اس کے کہ وہ وقت آتا اور آپ ان کے ذریعے سے بحیثیت ایک قوم کے اپنی آزادی کو استعمال کرتے آپ کی اس آزادی کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں آپ سے چھین لیا گیا‘ اور اس کے بعد پونے چار سال تک ملک پر مارشل لا مسلّط رہا۔

اس طرح وہ آزادی جسے دستورساز اسمبلی سے آپ کی طرف منتقل ہونا تھا‘ مارشل لا کے نفاذ اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی تنسیخ کی بدولت ختم ہوکر رہ گئی۔ ملک کی دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا کے دوران میں ایک اور دستور بنایا گیا‘ پھر مارشل لا کی حالت ہی میں انتخابات کرائے گئے‘ اور مارشل لا ہی کی حالت میں جب اس اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوگیا‘ تب مارشل لا اٹھایا گیا۔ دوسرے الفاظ میں آپ کو اس وقت تک باندھے رکھا گیا جب تک نیا دستور آپ پر پوری طرح مسلّط نہ ہوگیا۔ یہ دستور آپ کے لیے آزادی کا پروانہ نہیں بلکہ مستقل طور پر غلام بنائے رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس میں جیسی کچھ آزادی آپ کو ملی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ مجلسِ قانون ساز میں جو حضرات آپ کے نمایندے قرار دیے جاتے ہیں وہ بجٹ کے ۹۰ فی صد حصے بلکہ اس سے بھی زیادہ حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ جتنا روپیہ آپ سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اس میں سے ۹۰ فی صد یا اس سے زائد پر آپ کے نمایندے کہلانے والے کسی فیصلے کے مجاز نہیں ہیں۔ اگر آپ سے ۱۰۰ روپے وصول کیے جاتے ہیں تو ۹۰ روپے یا اس سے زائد رقم کے متعلق آپ کے ’نمایندوں‘ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اس رقم کا استعمال کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جو ایک قوم کو اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے معاملات چلانے کے لیے حاصل ہوتی ہے۔ پھر اسمبلیوں میں جن لوگوں پر آپ کے نمایندے ہونے کی تہمت رکھی جاتی ہے ‘کیا آپ ان کو براہِ راست یہ دیکھ کر منتخب کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں؟ نہیں‘ بلکہ گلی اور کوچے کے معاملات کے لیے جو آدمی موزوں ہو سکتا ہے آپ صرف اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ملک کے معاملات چلانے والوں کو آپ منتخب نہیں کر سکتے‘ ان کو وہ لوگ منتخب کرتے ہیں جنھیں آپ نے گلی کوچوں کے انتظام کے لیے چُنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ملک کے معاملات پر براہِ راست اثرانداز ہونے کے حق سے آپ محروم کیے جا چکے ہیں۔

اب دیکھیے کہ آپ کی آزادی کو مُقید کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ ہم نے انگریزی دور بھی دیکھا ہے اوربرسوں دیکھا ہے لیکن کبھی دفعہ ۱۴۴ کو اس کثرت سے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ انگریز خود اس دفعہ کا موجد تھا لیکن اس کے خالق نے اپنی اس مخلوق کو کبھی اس طرح بے تحاشا استعمال نہیں کیا جس طرح آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی دور میں پریس پر ایسی پابندیاںنہیں تھیں۔ اگرچہ وہی ان پابندیوں کا ایجاد کرنے والا تھا اور چاہتا تھا کہ پریس کو زیادہ سے زیادہ مقید رکھے۔ لیکن وہ بھی پریس کو اس حد تک مقید نہ کرسکا جس طرح وہ آج مقید ہے۔ اور ’پریس ٹرسٹ‘ کی بات تو انگریز کو بھی نہیں سُوجھی تھی۔

اسی طرح یہ بھی ایک امرواقعہ ہے کہ ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کسی زمانے میں کبھی اتنا فروغ نہیں پا سکا جتنا اس زمانے میں پا رہا ہے۔ ایک خوشامدی اورضمیرفروش نسل تیار کی جا رہی ہے۔ صلاے عام ہے کہ ضمیربیچو اور لائسنس لو‘ رُوٹ پرمٹ لو‘ تمغے لے لو۔ اور اگر تمھارا ضمیر بِک نہیں سکتا تو تم یہاں خیر سے جی بھی نہیں سکتے۔

یہ جتنی چیزیں بھی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملک کے باشندوں کی آزادی کو برقرار رکھنے والی نہیں بلکہ اسے چھیننے والی ہے۔

آج ہمارا ملک ۲۰ ارب روپے کا مقروض ہے۔ ہمارا بال بال بیرونی قرضوں میں  بندھ چکا ہے۔ غیروںسے ہم نے جو آزادی حاصل کی تھی وہ اب پھر ان قرضوں کے ذریعے سے ان کی طرف منتقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی قوم کی آزادی ہرگز باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر ہر وقت اس کے ہاتھ میں بھیک کا ٹھیکرا ہو اور وہ ہرقوم کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتی پھرے--- آپ دیکھیں کہ باہر سے کسی ملک کا وزیراعظم یا کوئی دوسرا سربراہ آتا ہے تو ہم پہلے ہی سے دنیا کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس کے آنے پر ہم اس سے یہ اور یہ مانگیں گے۔ ابھی اس نے ملک کے اندر قدم نہیں رکھا ہوتا اور یہاں پہلے سے یہ اسکیمیں سنا دی جاتی ہیں کہ جب ہمارے گھر میں یہ مہمان آئے گا تو ہم اس سے یہ یہ کچھ مانگیں گے۔ اسی طرح جب کبھی ہم باہر جاتے ہیں تو باہر جانے سے پہلے دنیا کو سنا دیتے ہیں کہ ہم یہ یہ کچھ مانگنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے طرزعمل کے ساتھ کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت کب تک کر سکتی ہے۔ جب عالم یہ ہو کہ ایک ایک چیز کے لیے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہو اور بڑی بڑی اسکیموں کے لیے ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی باہر سے روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ ائرپورٹ بنانا ہو تو اس کے لیے باہر سے روپیہ آئے‘ ہوٹل بنانے ہوں تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ یونی ورسٹی کیمپس بنانا ہو تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ غرض ایک ایک چیز کے لیے الگ الگ روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ تو اس کے بعد آزادی کب تک اور کیونکر باقی رہ سکتی ہے۔

اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتی اگر اس نے اپنے آپ کو معاشی حیثیت سے غلام بنا لیا ہو۔ اور دنیا کی کوئی قوم ایسی آنکھ کی اندھی اور گانٹھ کی پوری نہیں ہے جو آپ کو روپیہ دیتی چلی جائے لیکن روپے کے بدلے میں اپنا کوئی مفاد حاصل نہ کرے۔ وہ مفاد آپ سے سود کی شکل میں بھی حاصل کرتی ہے اور وہ اپنے مفاد کے لیے آپ پر طرح طرح کی قیود بھی عاید کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ماہرین ہمارے ہوں گے اور انھیں تم بھاری سے بھاری تنخواہ دو گے۔ مال ہم سے خریدنا ہوگا اور ہماری طے کی ہوئی قیمت پر خریدنا ہوگا‘ چاہے وہ چار گنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔ اور نہ معلوم اندر ہی اندر کیا کیا پابندیاں عاید کی جاتی ہیں جن کی ہم کو خبر تک نہیں ہوتی‘ کیونکہ ہمیں سرے سے یہ حق ہی حاصل نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھ سکیں کہ جناب‘ آپ دوسروں سے کیا معاملات کر رہے ہیں اور کن شرائط پر کر رہے ہیں۔

پشاور میں امریکا کو جاسوسی کا جو اڈا دیا گیا تھا‘ ایک طویل مدت تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ کب دیا گیا اور کن شرائط پر دیا گیا۔ چند سال قبل جب جاسوسی کے لیے امریکا کا یوٹو جہاز پشاور سے اُڑ کر روس گیا اور روس نے اس پر دھمکی دی کہ ہم پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ تب ہم کو پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ایک غیر ملک کا جاسوسی کا اڈا بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگرہمیں بیچ بھی ڈالا جائے تو ہمیںاس وقت خبر ہوگی جب دوسرا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر ہمیں لیے جا رہا ہوگا۔

یہ ہے اپنے ملک کے معاملات میں قوم کو شامل کرنے کا وہ نقشہ جو ہمارے ہاں بنا ہے‘ اور یہ ہیں وہ حالات جو آج کے دن اگر ایک طرف ہماری اس مسرت کی بنیاد بنتے ہیں کہ ہم نے غیرملکی استعمار سے آزادی پائی ‘ تو دوسری طرف ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے ملک میں اپنے معاملات کو چلانے کی آزادی بھی حاصل کریں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جن کی تاریخ پر نگاہ ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں آزادی کی بیشتر لڑائیاں غیروں کے مقابلے میں آزادی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے لڑی گئی ہیں‘ اور یہ آزادی کی لڑائی اب ہم کو بھی لڑنی پڑے گی۔ اس لڑائی کو    ہم نے شروع کر دیا ہے۔ آپ بھی ہمت کریں‘ آگے بڑھیں اور تحریک جمہوریت کے پلیٹ فارم سے لڑی جانے والی اس لڑائی میں حصہ لیں۔ (آزادی‘ ص ۵-۱۱)

حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے اس حال میں کہ وہ غصے میں ہو۔ اس روایت کے بعض راویوں نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ (ابن ماجہ)

غصے میں ایک فرد‘ ایک جج‘ ایک حاکم‘ ایک پارٹی جو فیصلہ کرے گی وہ عدل و انصاف اور اعتدال و توازن سے خالی ہوگا۔ غصے میں طلاق دے کرشوہر پچھتاتا ہے۔ غصے کے نتیجے میں آدمی کسی کو زد و کوب کرتا ہے تو بعض اوقات وہ قتل کا مرتکب ہوجاتاہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے کے بارے میں غصے اور جذبات میںآکر جو فیصلہ کرتی ہیں‘ اس کے نتیجے میں حالات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ غصے اور جذبات میں آکر جس طرح فیصلہ کرنا درست نہیں ہے‘ اسی طرح کسی کی محبت میں گرفتار ہوکر اور کسی سے خوش ہوکر فیصلہ کرنے میں بھی بے اعتدالی ہوجاتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ ’’رضا اور غضب دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔

فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کی کرسی پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ روزمرہ زندگی میں مختلف مواقع فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے ہر موقع پر ہمیں رسولؐ اللہ کی یہ ہدایت یاد رہنی چاہیے۔

o

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال مجھے عطیہ عنایت فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ میری بجاے مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ، جب تمھیں لالچ اور سوال کے بغیر ملے تو لے لیا کرو‘ اور نہ ملے تو اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگایا کرو۔ (بخاری‘ کتاب الزکوٰۃ)

مال کے بارے میں راہ اعتدال مطلوب ہے۔ نہ اتنا استغنا کہ سوال اور لالچ کے بغیر ملے جب بھی نہ لیا جائے اور نہ اتنی طلب کہ اس کے پیچھے ہی لگا رہا جائے۔ مال کی ایسی طلب کہ جائز و ناجائز کی تمیز اٹھ جائے‘ فساد اور معاشرے کو سکون سے محروم کرنے کا اصل سبب ہے۔ضروریات کے لیے جائز ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ضروریات کو حد میں رکھنے سے ناجائز ذرائع کی طرف قدم نہیں اٹھتے۔ اسراف و تبذیر سے بچنا قومی کلچر ہونا چاہیے۔ سعی و جہد طریق زندگی ہو‘ سوال کرنے اور لالچ کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ زندگی حصولِ مال و دولت سے اہم تر مقاصد کے لیے ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ تم میں سے جب کوئی آدمی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے‘ اس کے بعد بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب جانے کے لیے اٹھے تو سلام کرے۔ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔ اور جس نے جانے کے لیے اٹھتے وقت سلام کیا وہ اس کارخیر میں شریک شمار ہوگا جس میں لوگ اس کے جانے کے بعد مصروف رہے۔ (ابوداؤد‘ ترمذی‘ رزین)

سلام مجلس کا ادب ہے‘ جب کہ اس سے مجلس کے کام میں خلل نہ پیدا ہو۔ کوئی اجتماعی پروگرام ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں بلند آواز سے سلام کر کے اس میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پروگرام کے اختتام کا انتظار کیا جائے۔ مجلس میں آتے وقت یا جاتے وقت سلام کا مقصد اہلِ مجلس کو سلامتی کی دعا دینا اور ان کے کام میں دعائوں کی صورت میں شرکت کرنا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا تعاون ہے۔ اس سے اہلِ مجلس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کی صورت میں کامیابی بھی ہوتی ہے۔ سلام کرنے والا حوصلہ افزائی اور کامیابی میں تعاون پر اجر کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ کسی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں‘ سلام نہیں کرتے اور بعض ایسی صورت میں بھی سلام کرتے ہیں جب کہ مجلس میں اجتماعی پروگرام جاری ہو۔ دونوں صورتیں نامناسب ہیں۔

جاتے وقت سلام کرنے کا یہ مزید فائدہ ہے کہ کسی کارِخیر کے اجر سے حصہ ملتا ہے۔

ابی امیہ مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا‘ جس نے چوری کا اعتراف کیا تھا لیکن اس کے پاس سے چوری کا سامان برآمد نہ ہوا۔رسولؐ اللہ نے اس سے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہو۔ اس نے کہا: نہیں‘ میںنے چوری کی ہے۔ آپؐ نے دو یا تین مرتبہ اپنی بات دہرائی۔ اس نے ہر بار چوری کا اعتراف کیا۔ اس پر آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اسے آپؐ کے پاس لایا گیا۔ آپؐ نے اس سے فرمایا: اللہ سے استغفار اور توبہ کرو۔ پھر آپؐ نے اس کے لیے دعا مانگی۔ ’’اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما(تین مرتبہ)‘‘۔ (ابوداؤد‘ نسائی‘ ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ شریف)

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہے۔ عدالت ملزم کے لیے رحیم و شفیق ہے۔ ملزم عدالت سے محبت کرتا ہے اور فیصلے سے راضی نظر آتا ہے۔ گناہ سے توبہ و استغفار کی تلقین ہوتی ہے‘ ملزم   توبہ و استغفار کرتا ہے۔ عدالت اس کی توبہ کی قبولیت کے لیے دعائیںکرتی ہے۔ ملزم کو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی گئیں۔ وہ اپنے جرم کا خود ہی بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ ایک ہی پیشی میں فیصلہ سنا کر نافذ کردیا جاتا ہے۔ مجرم کو سزا دے دی گئی لیکن اس کی توہین و تذلیل نہیں کی گئی بلکہ عزت اور دعائیں دی گئیں۔

ایک طرف اس منظر کو دیکھیے‘ دوسری طرف آج کی نام نہاد مہذب دنیا کے کربناک نظامِ جبروتشدد اور عرصہ دراز تک عدالتوں کی پیشیوں اور جیلوں کی اذیتیوں کے مناظر کو سامنے رکھیے۔ پھر فیصلہ کیجیے کہ کون سا نظام مہذب ہے اور اس میں رحمت و شفقت اور عدل و انصاف ہے۔ اور کون سا نظام عدالت کے نام پر ظلم و جور اور وحشت اور درندگی ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حاضرین سے کہا: اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ‘ اس کی بخشش فرما ‘ اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ شریف)

مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسنِ اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ اور معاشرے کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے پبلک اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔

o

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بِسْمِ اللّٰہ کہہ کر رکاب میں پائوں رکھا‘ پھرسوار ہونے کے بعد فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا… پھر تین مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا‘ پھر فرمایا: سُبْحٰنَکَ ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ‘ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔ اس کے بعد آپؐ ہنس دیے۔

میں نے پوچھا: یارسول ؐاللہ! آپؐ ہنسے کس بات پر؟ فرمایا: بندہ جب رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بہت پسند آتی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ (احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی )

جب بھی رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہا جائے تو یہ (قلب و ذہن کو حاضر کرکے) کہا جائے کہ اللہ کے علاوہ مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔

خاندان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ترین اور بنیادی ادارہ ہوتا ہے۔ خاندان قوم کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار و روایات کو استحکام اور پایداری اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ خاندان جتنا مضبوط ہوگا‘ قوم متحد ہوگی اور معاشرے کی تہذیب و تمدن‘ امن و سلامتی اور خوش حالی میں پایداری اور استحکام پایا جائے گا۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں مضبوط ہوں گی۔

خاندان کی تعریف

Essential English Dictionary میں خاندان کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

A Family is a set of people related to one another especially a house hold consisting of parents and children.

خاندان لوگوں کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں‘   خاص طور پر والدین اور بچے خاندان کا اہم ترین جز ہوتے ہیں۔

اسلام کا تصورِ خاندان

اسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں صرف میاں بیوی اور بچے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ دادا دادی‘ نانا نانی‘ چچا‘ پھوپھیاں‘ ماموں‘ خالائیں وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام خاندان کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض اور خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس اخلاق کو بناتا ہے۔

اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے جس کی بہتری اور بھلائی یا ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے‘ اور ایک مضبوط‘ صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ خاندان جو کسی معاشرے کی اساس ہے‘ آج کن مسائل سے دوچار ہے‘ اور ان سے نمٹنے کا طریقہ کار یا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے۔

خاندان کو لاحق ممکنہ خطرات

آج کا دور انتہائی پُرفتن دور ہے لیکن ایسا کہنا درست نہ ہوگا کہ ایسا دور انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا‘ اس لیے اس سے نمٹنا ممکن نہیں۔ اس طرح کے حالات سے دنیا ہمیشہ دوچار رہی ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنسی ایجادات کے اس دور نے فتنوں سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔   یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے حالات میں فتنوں سے نمٹنا انتہائی مشکل اور صبرآزما کام ہے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام انبیاے کرام پر فتنوں کا ایسا دور گزر چکا ہے اور پچھلی قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوئیں تو حیوانیت کے درجے کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔ آج کے دور میں معاشرے کا اہم ادارہ خاندان شکست و ریخت کا شکار ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ سے بغاوت کرنے والی اقوام اور مذہب سے بیزار انسان اس شکست و ریخت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

آج کے دور میں نئی تہذیب کے علم بردار جو اپنے آپ کو جدیدیت کا بانی گردانتے ہیں‘ دراصل اشتراکی اور لادینی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ علی عزت بیگووچ صدر جمہوریہ بوسنیا اپنی کتاب اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکی نقطۂ نظر سے خاندان معاشرے کی بنیادی اینٹ نہیں ہے جیسا کہ پرانے دساتیر میں قرار دیا گیا ہے۔ خاندان اور معاشرہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ خاندان میں محبت اور جذبات لوگوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے میں مفاد اور ذہانت یا دونوں ان کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے کے اندر رونما ہونے والا ہر تغیر خاندان کے خاتمے کا متقاضی ہوتا ہے۔ (ص ۸)

مشہور اشتراکی مفکر کارل مارکس کا ساتھی اینجلز اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتا ہے: ’’اولین دور میں خاندان کا آغاز دائروں کے محدود ہونے سے شروع ہوا۔ پہلے آغاز قبیلے کے اندر ہوا جس کے اندر دو متضاد جنسوں کے افراد صنفی تعلق کے ذریعے ایک دوسرے سے متعلق ہوگئے۔ آغاز میں قریب کے رشتے داروں اور بعد میں دُور دراز کے رشتے داروں میں بُعد پیدا ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ شادیوں کے ذریعے جڑے ہوئے افراد خانہ بھی الگ ہونے لگے۔ آخر میں شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے افراد کا جوڑا رہ گیا۔ یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جس کے بکھرنے سے خاندان بذاتِ خود بکھرجاتا ہے۔

اینجلز مزید لکھتا ہے: ’’یہ واضح ہے کہ عورتوں کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو دوبارہ عوامی سرگرمیوں میں شامل کر دیا جائے‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الگ تھلگ خاندان کا وجود بطور معاشرتی یونٹ کے ختم کر دیا ہے۔ نجی ملکیت کو سماجی صنعت میں تبدیل کر دیا جائے۔ بچوں کی داشت پرداخت اور تعلیم سرکاری معاملہ ہو۔ معاشرہ تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے‘ چاہے ان کی پیدایش جائز طریقے سے ہوئی ہو یا ناجائز طریقے پر‘‘۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار فرانسیسی ادیب سائمن باوار جو فرانس میں تحریکِ نسواں کا معروف کارکن رہا ہے ‘کرتا ہے: ’’جب تک خاندان کے تصور کو ختم نہیں کیا جاتا‘ جب تک ’ماں‘ کے ادارے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ اور جب تک مادری جذبے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ عورت ہمیشہ مطیع اور ماتحت رہے گی‘‘۔(نیویارک میگزین‘ سیٹرڈے ریویو‘ستمبر ۱۹۷۵ئ)

پروفیسر خورشید احمد سوشلزم یا اسلام میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکیت نے جو سماجی نظام بنایا ہے اس میں بھی انسان کو نظرانداز کرنے کی وہی پالیسی کارفرما ہے جسے ہم معاشی اور سیاسی دائرے میں دیکھ چکے ہیں۔ خاندان کا نظام جو ہمیشہ تہذیب کا گہوارہ رہا ہے‘ متضاد اور تناقضی پالیسیوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس نظام میں کوئی چیز محترم باقی نہیں رہی ہے‘ نہ فرد کی شخصیت‘ نہ قریب ترین رشتے‘ نہ عائلی ادارے اور تعلقات۔ ہر چیز اضافی ہے اور وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنا مقام بدلتی رہتی ہے۔ اولاد پہ والدین کے حقوق باقی نہیں رہے ہیں۔ ریاست کے مفاد میں بچوں کو جس طرح چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مذہب اور اخلاق نے سماجی زندگی کی حدبندی کی تھی اسے توڑ دیا گیا ہے۔ نکاح اور طلاق کا نظام وقت کی ضرورتوں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جائز اور ناجائز رشتے میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ انقلاب کے فوراً بعد جنسی آزادی دی گئی۔ خاندان کے نظام کا مذاق اڑایا گیا۔ نکاح کی مذہبی تقدیس کو ختم کر دیا گیا اور طلاق کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا‘‘۔

سید قطب جدید جاہلیت میں کہتے ہیں: ’’خاندان سے ماں کا رشتہ ٹوٹا تو گویا وجدان کا رشتہ منقطع ہوگیا‘ اور جب رشتہ منقطع ہوجائے تو گھر ایک ہوٹل ہے جس میں مرد اور عورت ٹھیرے رہتے ہیں اور ظاہری طور پر اپنے ماں باپ ہونے کے فرائض انجام دیتے ہیں‘ جیسے کوئی ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہو۔ اب بچے خواہ ایک پراگندا خاندان میں نوکروں کے ہاتھوں میں پرورش پائیں یا پرورش گاہوں میں اپنے جیسے ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچوں کے ساتھ نشوونما حاصل کریں‘ بہرکیف وہ بگاڑ ہی کا شکار ہوںگے‘‘۔

ڈارون‘ فرائڈ‘ کارل مارکس اور اینجلز جیسے اباحیت پسند فلسفیوں کے گمراہ کن عقائد اور نظریات نے اہلِ یورپ کو مذہب سے تو دُور کیا ہی‘ اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔ ان کے شیطانی نظریات کی گھنائونی تصاویر نے جب معاشرے میں اباحیت‘ ابتری اور طبقاتی کش مکش پیدا کی تو اہلِ مغرب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: ’’دور جدید کے معاشرے نے عورتوں کی تربیت اسکولوں کے سپرد کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پرورش گاہوں میں چھوڑ دیتی ہیں اور خود یا تو کاموں پر نکل جاتی ہیں یامختلف دل چسپیوں میں لگ جاتی ہیں۔ ادبی اور فنی ذوق کی تسکین میں مشغول ہوجاتی ہیں‘ برج کھیلتی ہیں اور سینما گھروں کو جاتی ہیں۔ غرض اس طرح کی تفریحات میں رہتی ہیں۔ یہ خاندان کی وحدت پارہ پارہ کرنے اور مل بیٹھنے کے مواقع کھو دینے کے بارے میں جواب دہ ہیں‘‘۔

امریکی فلسفی ول ڈیورانٹ کی کتاب کا ایک اقتباس سید قطب شہیدؒ اپنی کتاب   جدید جاہلیت میں رقم کرتے ہیں: ’’کیونکہ عورت مرد کی شادی موجودہ دور میں صحیح معنوں میں شادی نہیں ہے اور بجاے ماں باپ کا رشتہ ہونے کے ایک جنسی تعلق ہے۔ اس طرح زندگی کو سہارا دینے والی تمام بنیادیں ڈھے جاتی ہیں اور ازدواجی رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میاں بیوی تنہا رہ جاتے ہیں‘ جیسے ان میں آپس میں کوئی رشتہ نہ ہو‘‘۔

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک ’گلوبل ولیج‘ کی شکل دے دی ہے۔ چنانچہ مغربی افکار و خیالات نے ہمارے دینی عقائد اور خاندان کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادھر ہندوانہ رسم و رواج کے باعث ہم معاشرے کے غلط رسم و رواج اور عقائد سے پہلے ہی نبردآزما تھے۔ نتیجتاً آج ہمارا خاندان ایک چومکھی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے خاندان کو اپنی بقا و سلامتی بھی برقرار رکھنی ہے اوراپنی دینی اقدار و روایات کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

چنانچہ خاندان کو لاحق خطرات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی خطرات ہیں تو کچھ اندرونی خطرات۔

خاندان کے ادارے کو لاحق بیرونی خطرات

خاندان کو لاحق بیرونی خطرات میں جن عوامل کا ہم نے اوپر جائزہ لیا ہے وہ بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل مغربی افکار و نظریات کی دیوانہ وار تقلید کرنے کے لیے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے شیطانی نظریات دو طرح سے ان پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک تو فلم اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ دوسرے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے جن کا مقصد مسلمانوں کو بگاڑنا اور ان کو دین کی تعلیمات سے دُور لے جانا ہے۔

غیر اسلامی نظریات‘ جدید یورپین و امریکن روایات اور خیالات کی تقلید خاندان کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔ نوجوان نسل میں لباس‘ خوراک اور بودوباش کے مغربی طور طریقے رائج ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں فحش ویب سائٹس‘ سیکڑوں    ٹی وی چینلز پر چلنے والی بے ہودہ فلموںاور اشتہارات نے اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوانہ کلچر نے پوری کر دی ہے۔

خاندان کے ادارے کو لاحق اندرونی خطرات

معاشرے کے اہم ترین یونٹ یا ادارے خاندان کی بنیاد رکھنے والے عوامل سے بغاوت یا پہلوتہی نے نکاح کو ایک مشکل ترین کام بنا ڈالا ہے۔ چنانچہ نکاح کے راستے میں آنے والی جن رکاوٹوں کو اسلام نے دُور کیا تھا ہم پاکستانی مسلمانوں نے انھیں پھر سے واپس لاکھڑا کیا ہے۔ ان عوامل کا مختصر جائزہ پیش ہے جو نکاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں:

۱-            مناسب عمر میں نکاح سے گریز: اسلام کے مطابق ایک مسلمان لڑکا اور لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حکم ہے کہ اپنے نوجوانوں کے نکاح جلد از جلد کرو۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے نوجوانو! تم میں جو نکاح کی ذمہ داری اٹھانے کی سکت رکھتا ہو‘ اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی وسعت نہیں رکھتا‘ اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھا کرے‘‘۔(بخاری‘  مسلم)

لڑکیوں سے متعلق ارشاد ہوا: ’’جب تمھارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی پیدا ہوگی‘‘۔(ترمذی)

ہمارے ہاں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی دیر سے کرنے کا رواج خاندان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خود لڑکے اور لڑکیاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے‘ یا ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ‘یا تعلیمی میدان میں مقابلہ بازی کے لیے اس معاشرتی ضرورت اور اسلامی فریضے سے جان چھڑاتے ہیں۔ یہ مغربی اثرات کا شاخسانہ ہے‘ کہ شادی؟ ابھی نہیں‘ ابھی عمر ہی کیا ہے… کہہ کر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے دیگر ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کی تسکین کے غلط طریقے اختیار کر کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب پختہ عمر کو پہنچتے ہیں تو شادی کا خیال آتا ہے۔ اس وقت جب گھر بسانے کی خواہش پوری ہوتی ہے تو بعض عادات عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً شادی کے وہ بہترین نتائج جو سکون واطمینان کی صورت میں سامنے آنے چاہییں‘ نہیں آتے اور ازدواجی زندگی بے سکونی کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہیں سے خاندان میں دراڑ پڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

۲-            مادہ پرستی:جوں جوں مسلمان اسلام سے دُور ہو رہے ہیں‘ مادہ پرستی ان پر غالب آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے جذبات جو ایک خاندان کی بقا و سلامتی اور سکون کے لیے لازمی جز ہیں‘ ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ شوہر بیوی کے لیے قربانی دینا چاہتا ہے‘ نہ بیوی شوہر کے لیے۔ پھر دونوں بچوں کے لیے قربانی دینے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک دوسرے سے قربت کی بجاے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اصل میں نکاح کے لیے نبی اکرمؐ نے جو شرط عائد کی ہے‘ وہ اس حدیث سے واضح ہے۔ فرمایا: ’’عورتوں سے ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے شادی نہ کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا حُسن ان کو تباہ کرے۔ اور نہ ان کے مال دار ہونے کی وجہ سے شادی کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا مال انھیں طغیان اور سرکشی میں مبتلاکردے‘ بلکہ دین کی بنیاد پر شادی کرو‘‘۔(بخاری‘مسلم‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ)

۳- مشترکہ خاندانی نظام: ہمارا المیہ یہ ہے کہ ۵۶ سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارا اپنا ایسا معاشرتی نظام وجود میںنہیں آیا جو اسلامی اقدار و روایات سے آراستہ ہو۔ ہمارے خاندانی رسوم و رواج پر پہلے ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات تھے۔ اس سے بیزاری اور مسائل پیدا ہوئے تو ہم مغرب کی طرف لپکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر اسلامی اصولوں کو برتنے کی جرأت اور خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اسلام ہمیں وہ راستہ دکھاتا ہے جو درمیان کا راستہ ہے۔

اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر زور نہیں دیتا‘ نہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام سے روکتا ہے ‘ نہ اس کی ہدایات کرتا ہے۔ اسلام نے چند اصول پیش کر دیے ہیں۔ اسلام معروف طریقوں پر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ عائلی زندگی میں پرائیویسی کا تحفظ چاہتا ہے جو عائلی زندگی کی جان ہے۔ لہٰذا ایک خاندان کو کم از کم دو کمروں کا مکان میسر ہونا چاہیے کہ ان کی نجی زندگی میں خلوت اور سکون کے لمحات انھیں میسرہوں۔ چنانچہ شادی اور ولیمے کی تقریبات پر لاکھوں روپے رسوم و رواج اور دھوم دھڑکے پر ضائع کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ نئے جوڑے کے لیے ایک علیحدہ گھر کا بندوبست کرنے کی کوشش کی جائے۔

نعیم صدیقی اپنی کتاب عورت معرض کش مکش میں میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’مرد اپنے درجے کی بنیاد پر بعض استحقاقات رکھتے ہیں لیکن اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود اس درجے کی وجوہ سے عائد ہونے والی ذمہ داری کو پورا کریں۔ اس درجے کی وجہ سے مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ کھانے پینے‘ رہنے اور دوا دارو کے انتظامات اپنی آمدنی کے لحاظ سے اور خود اپنے ذوق و مصارف کے لحاظ سے معیاری مہیا کرے۔ بیوی کو رہنے کی ایسی جگہ فراہم کرے خواہ وہ ایک جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو‘ جہاں وہ کسی مداخلت کے بغیر پوری پرائیوسی کے ساتھ رہ سکے‘ ورنہ نہ تو اسے آزادی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ جھگڑوں سے بچ سکتی ہے‘‘۔ (ص ۲۷۹‘ مطبوعہ ۱۹۹۸ئ)

نعیم صدیقی صاحب نے خاندان کے استحکام کے حوالے سے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے خاندانی عزت و وقار‘ استحکام و مضبوطی‘ امن و خوش حالی اور پرائیویٹ زندگی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اچھے اچھے دین دارلوگ نظریں چراتے ہیں اور اسے محض بہو کا عالمی مسئلہ کہہ کر نظرانداز کرتے ہیں‘ جب کہ یہ مسئلہ زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہوتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام کا روایتی تصور ہمیں ہندوانہ ثقافت سے ورثے میں ملا ہے۔ ہندوانہ نظام میں ایک لڑکی جب شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر آتی ہے تو اسے اپنی شخصیت کو فراموش کر کے شوہر کی شخصیت میں ضم کر دینے کا حکم اس حد تک ہوتا ہے کہ اگر شوہر مرجائے تو اسے شوہر کے ساتھ ستی کرنا نیکی اور ثواب میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شوہر کے گھر اس کا ڈولا اترتا ہے تو وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکل سکے گا‘ جب کہ اسلام عورت کی الگ شخصیت‘ اس کی ذاتی و نجی زندگی‘ اس کے حقوق و فرائض کا تعین بڑے عدل و انصاف سے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی ازدواجی زندگی کو مکمل پرائیویسی کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے۔

اسلام نے چند بنیادی اصول‘ محرم نامحرم‘ حقوق الزوجین اور اخلاقیات سے متعلق وضع کر کے باقی انسان کی عقل‘ صوابدید‘ ایثار اور معروف طریقے کے مطابق عمل پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کے کھوکھلے اور فرسودہ اصولوں کے بجاے ضرورت‘ سہولت اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے عائلی زندگی کو گزارنے کا بندوبست کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا خاندان انتشار کا شکار رہیں گے اور پیدا ہونے والے مسائل کاحل ممکن نہیں ہو سکے گا۔

۳-            نکاح کی تقریب پر فضول خرچی: ہمارے معاشرے میں نکاح اور ولیمے کی تقریبات پر اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات کرنے کا رجحان فیشن سے تجاوز کر کے ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق نکاح کے عمل کو سادہ اور سہل ہونا چاہیے۔ نہ تو اسلام بھاری بھرکم جہیز کی اجازت دیتا ہے‘ نہ بھاری بھرکم مہر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور نہ اصراف کو۔

منیراحمد خلیلی اپنی کتاب عورت اور دورجدید میں لکھتے ہیں:’’نکاح نبیوں کی سنت‘ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل‘ بقاے نسلِ انسانی اور استحکام معاشرے کا بڑا ذریعہ ہے۔ خاندانی نظام کے تسلسل کو برقرار اور اخلاقی بگاڑ و فساد سے محفوظ رکھنے کا مؤثر اور آسان راستہ ہے۔ جس قوم یا معاشرے میں نکاح کے عمل کو مشکل بنا دیا جاتا ہے وہاں زنا کو فروغ ہوتا ہے۔ زنا تمدنِ انسانی کے انہدام اور بربادی کا سبب بنتا ہے‘‘۔

۴-            بے جوڑ شادیاں: شریعت اسلامی میں نکاح کے معاملے میں کفو‘ یعنی مرد اور عورت کا چند خاص امور میں ہم پلہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان امور کی تعداد چھے بتائی جاتی ہے: خاندان‘ اسلام‘ پیشہ‘ حریت‘ دین اور مال۔

آج کل بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ پیسہ دیکھ کر لڑکی دیتے ہیں‘ نہ ان کا   حسب نسب دیکھا جاتا ہے‘ نہ خاندان کا پس منظر۔ اسی طرح کردار کی تحقیق بھی نہیں کی جاتی۔ چنانچہ بعض مرتبہ اس قدر سنگین نوعیت کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ سواے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یا تو لڑکی گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہے‘ یا طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرکے اپنے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی مسائل و مصائب کا باعث بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاندان کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ رشتے طے کرتے وقت ان امور کا خیال رکھنا اور ذمہ داری کے ساتھ رشتہ طے کرنا‘ ایک نئے خاندان کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

۵-  نـان و نـفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کرنے اور نکال دینے کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں نفقہ کے معنی اس خرچ کی ذمہ داری ہے جو شوہر پر عائد ہوتی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے ضروریات کا مہیا کرنا ہے۔ اس میں کھانا‘ لباس‘ گھر اور دوسری متعلقہ چیزیں جن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے‘ شامل ہیں۔

اس کی شرعی حیثیت ’امر واجب‘ کی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ عورت کو نفقہ مہیاکرنا خاوند‘ باپ یا آقا کی ذمہ داری ہے۔ اس کے موجبات تین ہیں: شادی‘ قرابت داری اور ملکیت۔ ان تینوں صورتوں میں نفقہ کی ادایگی کا واجب ہونا قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ چنانچہ   اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔ اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس مال کے ذریعے جو مرد عورتوں پر خرچ کرتے ہیں‘‘ (النساء ۴:۳۴)۔ نیز ارشاد فرمایا: ’’صاحبِ اولاد کے ذمے ان کا کھانا اور کپڑا ہے‘‘ (البقرہ۲:۲۲۲)۔  نفقہ زوجیت تین اقسام پر مشتمل ہے: ۱- بیوی کو نان نفقہ اور اس کے لوازمات آٹا‘ چولہا اور پانی وغیرہ مہیا کرنا ۲- بیوی کا لباس ۳- گھر۔(کتاب الفقہ‘ ج ۴‘ علما اکیڈمی پنجاب‘ ص ۶۹)

افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کے مادہ پرستانہ ماحول کے زیراثر اب مرد ایسی بیویاں تلاش کرتے ہیں جو کمانے والی ہوں تاکہ ان کے معاشی معاملات میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ اس کے بھی بداثرات عائلی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔

خاندان کی شکست و ریخت میں این جی اوز کا کردار

معاشرہ تعلقات کے نظام سے تشکیل پاتا ہے جو رضا و رغبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔ مذہبی معاشرے کی بنیاد محبت ہوتی ہے اور اس میں ایک فرد کا دوسرے سے تعلق خود غرضی سے پاک ہوتا ہے‘ جب کہ اس کے برعکس ایک سول سوسائٹی میں جو جدید مغربی و لادینی نظریات نے متعارف کروائی ہے‘ افراد کے مابین تعلقات غرض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔چنانچہ سول سوسائٹی میں جس ادارے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ خاندان ہے۔ نتیجتاً خاندان کی شکست وریخت سے فرد تنہا رہ جاتا ہے۔

این جی اوز کا اصل ہدف خاندانی نظام ہے۔ ان کا مقصد اُن اداروں کی تباہی ہے جو کسی قوم کو متحد و مستحکم رکھتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت بھی یہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے این جی اوز نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا‘ جب کہ اسلام کہتا ہے کہ: ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۷)۔ این جی اوز نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی اور بے غیرتی کو فروغ دیا ہے۔ سوشل اسٹیٹس کو بلند کرنے کے خوب صورت خواب دکھا کر عورت کو معاشی ذمہ داری کا مکلف بنا دیا ہے۔ مرد اور عورت کی مساوات کا نعرہ لگا کر عورتوں کو ان کی اصل ذمہ داری سے بے بہرہ کر دیا ہے۔ مسلم خواتین ان کا خاص نشانہ ہیں۔ کیونکہ خواتین خاندانی زندگی کی بقا و سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ان کو گھروں سے لاتعلق کر دیا جائے تو معاشرے کا توازن بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

دین سے دُوری

خاندان کی شکست و ریخت کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ ان کا زیادہ تر تعلق دین سے دُوری سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت جو کام ہوگا وہ یقینا آسان ہوگا۔

ایک خاندان کے افراد آپس میں اتفاق‘ یگانگت اور میل محبت سے اسی وقت رہ سکتے ہیں جب ان میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال و اہمیت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہو۔ نیز خاندان کی تشکیل اور بقا و سلامتی میں جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان سے یہ افراد اچھی طرح واقف ہوں۔ والدین کے حقوق‘ والدین کی اطاعت اور بزرگوں کا احترام‘ چھوٹوں سے شفقت اور رواداری کا برتائو‘ روپے پیسے اور دیگر اشیا کی منصفانہ تقسیم‘ والدین کا اولاد کے لیے قربانیاں دینا‘ ان کی جائز ضرورتوں کا جائز آمدنی سے پورا کرنا‘انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا‘ ان میں دینی شعور بیدار کرنا‘ ان کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر کرنا‘ انھیں درست سمت میں چلنے کی ہدایت کرتے رہنا اور حقوق العباد ادا کرنے کی تلقین و تربیت کرنا‘ دراصل ایک اچھے مہذب‘ مضبوط اور خوش حال خاندان کی بنیاد رکھنے میں معاون و مددگار عوامل ہیں۔

ہمارے ہاں نوجوان اہلِ مغرب کے انداز اپنانے کی کوشش میں ان تمام ذمہ داریوں سے بچتے ہیں۔ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی ان تمام باتوں کو فضول‘ دقیانوسی اور بے کار سمجھتی ہیں۔ مائیں اپنی بچیوں کی تربیت میں‘ ان تمام عوامل کا خیال نہیں رکھتیں‘ انھیں شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ مستحسن سلوک کے طور طریقے نہیں سکھاتیں۔ لڑکیاں کام کاج سے بھاگتی ہیں۔ ذمہ داریوں سے گھبراتی ہیں۔ انھیں نہیں معلوم ہوتا‘ شوہر کے حقوق کیا ہیں‘ بچوں کی تربیت کیا ہے‘ عورت کی بحیثیت ماں اور بیوی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ شادی سے قبل خوابوں کی زندگی گزارتی ہیں۔ ان کی نظر میں شادی محض قیمتی کپڑے‘ زیور‘ گھومنا پھرنا‘ انجوائے کرنا ہے۔ ٹی وی کے ڈراموں‘ فلموں اور گانوں نے انھیں یہی سکھایا۔ والدین نے صرف ان کی ڈگری کی فکر کی‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب ان کے کاندھوں پر شوہر اس کے گھر بار اور اولاد کی ذمہ داری پڑی تو ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ خوب صورت ہوائی قلعے زمین بوس ہوگئے اور حقیقت بڑی تلخ اور کڑوی محسوس ہوئی۔ اب زندگی بوجھ لگنے لگی اور خاندان میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔

ادھر لڑکے کے ذہن میں خوابوں کی ایک پری تھی جو ہر دم پورے میک اَپ اور   خوب صورت لباس کے ساتھ ناز و ادا سے اٹھلاتی اس کا دل بہلاتی تھی‘ مگر جب دلہن یا محبوب کی اصل صورت نظر آئی تو بوکھلا گئے۔ پھر نہ وہ دلفریب باتیں رہیں‘ نہ وہ ہنسی مذاق‘ نہ وہ رعنائی۔ تیوریوں پر بل پڑ گئے‘ زبانیں زہر اگلنے لگیں اور دن رات عذاب بن گئے۔

اسلام ایک سچا مذہب ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ وہ شان و شوکت اور دکھاوے کی بات نہیں کرتا۔قرآن کہتا ہے: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘،’’عورت پر جیسے فرائض ہیں ویسے ہی ان کے حقوق ہیں‘‘۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے‘ اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘۔

حرفِ آخر

خاندان کو لاحق خطرات کا تجزیہ کیا جائے تواس کا ممکنہ حل تلاش کیاجا سکتا ہے۔ اس ضمن میں یوں تو ایک ہی نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ لوگوں کو دین کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جائے‘ خصوصاً نوجوان نسل میں دینی شعور اور مذہبی جذبات کو بیدار کیا جائے‘ اہلِ مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات کو زائل کیا جائے۔ تاہم‘ یہاں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو مذکورہ بالا مسئلے کے حل کے راستے نکل سکتے ہیں:

                                ائمہ کرام ‘ علما‘ دانش ور حضرات معاشرتی و عائلی زندگی کے مسائل کو اسلامی تناظر میں آسان اور قابلِ عمل طریقوں پر حل کریں۔

                                میڈیا‘ اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلام سے متعلق شبہات اور خدشات کا ازالہ بھی کرے۔

                                اپنے وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے نوجوان نسل کی خصوصی تربیت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے۔

                                اجتہاد اور اجماع کے ذریعے جدید فقہی مسائل کا حل تمام مسالک متفقہ طور پر نکالنے کی کوشش کریں۔

                                اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔

                                اُن این جی اوز کو جو مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں‘ بے نقاب کرکے اسلامی خطوط پر کام کرنے والی تنظیمیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

اُمت مسلمہ اس وقت جس ضعف اور وھن کا سامنا کر رہی ہے اس کو ہم سب دیکھ رہے ہیں اور اس کے بارے میں ایک دوسرے سے سنتے رہتے ہیں۔ پھر کیا ہم اس شرمناک   صورت حال کے آگے سرتسلیم خم کر کے آرام سے بیٹھ جائیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْط(الرعد ۱۳:۱۱)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں: ’’یہ دین انسانی زندگی کے لیے ایک خدائی دستور ہے۔ یہ انسانی زندگی میں مکمل طور پر اس وقت نافذ ہوگا جب انسانیت اس کے نفاذ کے لیے اپنی وسعت اور صلاحیتوں کے مطابق جدوجہد کرے گی‘‘۔ (ھذا الدین‘ سید قطب شہیدؒ)

اس لیے ضروری ہے کہ اپنے طرزِعمل کو درست کیا جائے اور طویل المیعاد حکمت عملی کے ذریعے اس غفلت سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کی جائے۔ چنانچہ داعی کا فرض ہے کہ‘ بقول استاذ مصطفی مشہورؒ: وہ کام‘ کام اور کام ہی کو اپنا نصب العین بنائے اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ (من فقہ الدعوۃ‘ استاد مصطفی مشہورؒ)

داعی کی زندگی میں ذمہ داری کے کئی پہلو ہیں:

تعمیر ذات

داعی جب اچھے اعمال میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے‘ خواہ ان اعمال کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ اخلاق سے ہو یا عام عادات سے‘ یہ جنت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جو اس دوڑ میں اپنی کوششیں صرف نہیں کرتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الحدید۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔

داعی کا درست ہو جانا‘ دعوت کی کامیابی کا سربستہ راز ہے۔ ڈاکٹر فتحی یکن کہتے ہیں: مثالی قائد کی شخصیت میں کسی قسم کا فتور نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تو ضروری ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اور قول و فعل ایک جیسے ہوں۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ آدمی دوسروں کو اچھے اخلاق کی دعوت دے اور خود اس کے اخلاق بُرے ہوں یا لوگوں کو جہاد کی دعوت دے اور خود مجاہد نہ ہو‘‘۔ (الاستعیاب فی حیاۃ الداعیۃ‘ فتحی یکن)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آدمی مومن نہیں ہو سکتا‘ جب تک اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہو‘ اور زبان‘ دل کے موافق نہ ہو۔ اس کا فعل اس کے قول کے خلاف نہ ہو اور اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔ (اصفہانی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰)’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی کہتے ہیں: ’’ہم چاہتے ہیں کہ داعی پہلے جہالت‘ خواہشِ نفسانی اور اس کے غلبے اور فساد پر فتح حاصل کر لے اور اُن ہتھیاروں سے لیس ہو جائے جو اس حملے سے بچائو کے لیے ضروری ہیں‘‘۔

۱-  ایمان: ان ہتھیاروں میں بلاشک و شبہہ‘ سب سے پہلا ہتھیار ایمان ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو باقی سارے اسلحے بے کار ہیں۔ ایمان صرف ایک خواہش کا نام نہیں ہے۔ ایمان وہ ہے جو دل میں جگہ بنا لے اور عمل اس کی تصدیق کرے۔

۲-  اخلاق: ایمان کے لوازمات میں سے ہے‘کامل ترین مسلمان وہ ہے جو اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھا ہو۔

۳-  علم و فہمِ دین: اخلاقی اور روحانی تیاری کے پہلو بہ پہلو یہ داعی کی فکری تیاری ہے۔ دعوت نام ہی عطا اور انفاق کا ہے لیکن اگر کسی کے پاس خود علم اور فہم دین نہ ہو تو وہ کسی اور کو کیا دے گا۔ ’’جس کے پاس کوئی چیز نہ ہو وہ کیا دے سکتا ہے‘‘۔ (ثقافۃ الداعیۃ‘ ڈاکٹر یوسف قرضاوی)

ڈاکٹر سید نوح کہتے ہیں: تبدیلی کے معاون عوامل یہ ہیں:

۱- گناہ سے بچنا اور توبہ ۲- اللہ تعالیٰ سے مدد ۳- دائمی ذکر ۴- نفس کا محاسبہ ۵- اجر کی امید ۶- زندگی کے کم ہونے اور موت کے قریب ہونے کی یاد ۷- جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دینا ۸- اوقات کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے استفادہ ۹- قابلِ عمل منصوبہ بندی۔ (آفات علی الطریق‘ ج ۳‘ ڈاکٹرسید نوح)

تبدیلی میں رکاوٹ بننے والے عوامل یہ ہیں:

۱- جلد بازی ۲- بے فائدہ گپ شپ ۳- سہل پسند لوگوں کا ساتھ دینا ۴- مباحات کی کثرت ۵- دنیا کی طرف مائل ہونا ۶- خواہشات کی تابع داری۔ (ایضاً)

حقیقی داعی اپنے نفس میں تبدیلی لا سکتا ہے‘ اس کو حق کی طرف متوجہ کر سکتا ہے‘ اس کو بھلائی پسند کرنے والا اور برائی سے نفرت کرنے والا بنا سکتا ہے اور اسے اندھیروں سے روشنی کی طرف لا سکتا ہے۔

اُمت مسلمہ کو جس داعی کی ضرورت ہے اس کی تعریف ڈاکٹر احمد حسن زیات کے الفاظ میں یہ ہے کہ: داعی حق جب کسی بستی میں داخل ہوتا ہے تو اس کے آنے سے وہاں کی زمین چمک اٹھتی ہے اور اس کے باشندے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ وہ اس کی طرف لپکتے ہیں اور اس کے قریب رہنے میں ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب نظرآتا ہے۔ اس کے ساتھ مصافحہ ان کے لیے عہدوفا ہے اور اس کے اشارئہ آبرو کو وہ حکم کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ اس کی دعوت کرنا اپنے لیے ایسی برکت سمجھتے ہیں جس کا سلسلہ دیر تک جاری رہے۔ اس کی خاموشی میں بھی سبق ہوتا ہے اور اس کا سکون بھی اثر کرتا ہے۔ لوگ سر جھکا کر اس کے ارد گرد بیٹھے اس کی باتوں میں مستغرق رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دلوں کو دنیا کی خواہشات سے خالی کر لیا ہوتا ہے اور ان کے سینے شیطانی وسوسوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ (مجلۃ الرسالہ‘ شمارہ ۸)

مسلم خاندان کی تعمیر

اصلاح نفس کے بعد داعی کا نصب العین ایک مسلم خاندان کی تعمیر ہوتا ہے۔ گھر معاشرے کی اہم ترین اکائی ہے۔ بچپن کا آغاز اسی کے گود میں ہوتا ہے۔ شفقت و محبت کے رشتے اور امداد باہمی کے سوتے یہاں سے پھوٹتے ہیں۔ آدمی ان رشتوں سے اصول و اقدار اخذ کرتا ہے اور یہاں اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ اسی طرح گھر ہی ہے جو فرد کی فکری و عملی کج روی کو درست کرتا ہے۔ اس لیے گھر کی درستی ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے اور خاندان کا بگاڑ و فساد اسلامی معاشرے کے لیے ہر قسم کی خرابی سے زیادہ خطرناک ہے۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطب شہیدؒ)

چنانچہ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ گھریلو زندگی کا استحکام انتہائی ضروری ہے کیونکہ گھر ہی میں ان افراد کی تیاری و تربیت ہوتی ہے جو متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں‘ اپنی ذمہ داریوں سے اچھے طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ وہ کارزار حیات میں مردانہ وار اترتے ہیں اور دین اسلام کی فتح کا جھنڈا اٹھاتے ہیں۔

امام حسن البنائؒ فرماتے ہیں: ’’اسلام نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ خاندان‘ معاشرے کی بنیاد ہے۔ درست زندگی‘ جو روحانی اور علمی تعاون پر مشتمل ہے‘ کی بنیادی اکائی خاندان ہی ہے۔ اسلام ایسے ہی خاندان کا خوگر ہے اور اس کی تعمیر کی ترغیب دیتا ہے‘‘۔ (حدیث الثلاثائ‘ امام حسن البنائؒ)

خاندان کے بارے میں داعی کا فرض یہ ہے کہ اس کو اسلامی سانچے میں ڈھالے۔ اس طرح گھر کی شکل و صورت اور اس کی ضروریات‘ جیسے گھریلو سامان‘ کھانے پینے کے آداب‘ استیذان‘ باہمی گھریلو تعلقات اور پڑوسیوں اور ارد گرد کے ماحول کے ساتھ تعامل‘ اس سانچے کے مطابق ہوں گے جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔

ایک اسلامی معاشرے کا ایک خاندان پر یہ حق ہے اور اہلِ خاندان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک مسلمان نسل کو وجود میں لائے جو اِن صفات کی حامل ہو:

۱-  اللہ تعالیٰ کے بارے میں‘ کائنات کے بارے میں‘ زندگی کے بارے میں اور خود انسان کے بارے میں درست عقیدہ۔

۲-  اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی عبادت۔

۳- عدل‘ احسان‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد۔

۴-  اُس تنظیم اور اصول و اقدار کے مطابق لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنا‘ جن کو اسلامی شریعت مقرر کرتی ہے۔

۵-  ایک خاندان کے افراد میں‘ مختلف خاندانوں کے درمیان اور پھر مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات میں ’’اپنی ذمہ داری ادا کرو اور حقوق کے لیے کوشش کرو‘‘ کے اصول کو اپنانا۔ (تربیۃ الناشئی المسلم‘ علی عبدالحلیم)

اسلامی معاشرے کا قیام

استاد علی عبدالحلیم فرماتے ہیں: ’’وہ معاشرہ جس کا قیام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدائی طریق کار کے مطابق عمل میں لائے تھے‘تقریباً آدھی صدی کے عرصے میں نصف کرئہ ارض پر اپنے اصول و اقدار کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ان اصولوں کے ضمن میں عقائد‘ عبادات‘ معاملات‘ عدل و احسان‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کے پیغام کو عام کیا گیا۔ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک صحیح معاشرے کے قیام کے لیے اسلامی طریق کار پر عمل کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ممکن ہوا‘‘۔ (ایضاً)

ڈاکٹر محمد امین مصری کہتے ہیں: ’’یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ ہم اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اس کے پیغام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (سبیل الدعوۃ الاسلامیہ‘ ڈاکٹرمحمد امین المصری)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں:’’آیت کا یہ ٹکڑا اُمت مسلمہ کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اس سے اسلامی جماعت کو ایک عظمت اور بلنددرجہ عطا ہوتا ہے لیکن یہ عظمت اُمت کو تب حاصل ہوگی جب وہ سچے ایمان کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گی‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطبؒ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تمھارے ہاتھوں‘ ایک آدمی کو بھی ہدایت سے نوازے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (بخاری)

اس طریق کار پر عمل کرتے ہوئے داعی کو چاہیے کہ وہ چند اسالیب کا خیال رکھے جو ہدف تک پہنچنے میں اس کے معاون بنتے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان کہتے ہیں: ’’داعی کے لیے ضروری ہے کہ:

۱-  ترجیحات قائم کرے‘ دعوت کا آغاز عقیدے سے کرے۔ پھر عبادات کی دعوت دے اور پھر نظامِ زندگی اُن کے سامنے رکھے۔ جزئیات سے پہلے کلیات کی دعوت دے اور سیاست کی گہرائیوں میں اترنے سے پہلے انفرادی اصلاح کی طرف توجہ دلائے۔

۲-  مشکلات پر صبر کرے‘ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ کو دعوت کی راہ میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ نہ اس سے پہلے کسی داعی نے دیکھی تھیں اور نہ بعد میں وہ کسی داعی کو پیش آئیں‘ اس کے باوجود آپؐ نے کوئی پروا نہیں کی۔ آپؐ نے داعیوں کے لیے صبروتحمل اور استقامت میں ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo (العنکبوت۲۹:۲-۳) ’’کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘۔

۳- گردوپیش کا مطالعہ: داعی جس ماحول میں دعوت کا بیڑا اٹھاتا ہے‘ اس کا خوب مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ گمراہی کے مراکز اور کج روی کے اڈوں کو جانتا ہے اور پھر وہ اسلوب اختیار کرتا ہے‘ جو لوگوں کے ذہن اور اُن کی استعداد کے مطابق ہو اور اُن کی عقل و فکر کو اپیل کرے۔ داعی کو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دعوت کا ردعمل کیا ہوگا اور اس کے لیے خود بھی تیار رہتا ہے۔

اسلامی تحریک میں فرد کی ذمہ داری

داعی کی زندگی میں ذمہ داری کے پہلوئوں میں سے چوتھا پہلو یہ ہے کہ اسلامی تحریک میں فرد کی کیا ذمہ داری ہے؟

ڈاکٹر محمد امین مصری کہتے ہیں: ’’اسلام میں تربیت سے مراد ’احساس ذمہ داری‘ پیدا کرنا ہے۔ قائد کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے جس کی وجہ سے اس کے ساتھ محبت کی جاتی ہے‘ اس کا احترام کیا جاتا ہے اور معروف میں اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے امیر کی اطاعت اور اس کے احترام کے ساتھ مثبت تنقید اور نتائج و عواقب میں شراکت کی بھی تلقین کی ہے‘‘۔ (سبیل الدعوۃ الاسلامیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کی اسی طرح تربیت کرتے تھے کہ ایک طرف وہ قیادت کی مکمل طور پر اطاعت کرتے تھے اور دوسری طرف حق بات کہنے اور ہر جگہ اس کا کھلم کھلا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔

اسلامی تحریک ایسے قائدین تیار کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایسے نہیں ہوتے کہ ہر پکارنے والے کے پیچھے چلیں اور ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس حوالے سے بھی نمونہ ہے۔ چنانچہ آپؐ نے غزوئہ بدر میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیا اور اپنی رائے کے بجاے اُن کی رائے پر عمل کیا۔ اسی طرح غزوئہ احد میں آپؐ نوجوانوں کی رائے پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینے سے باہر نکلے اور غزوئہ خندق میں آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کی کھدائی کا حکم دیا۔

اس تربیت سے ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ دعوت اور اس کے مقاصد کے بارے میں جواب دہ ہے‘ اگرچہ وہ اکیلا ہو۔ اور اس ذمہ داری کے ضمن میں دعوت کے اندر ہر فرد پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ حسبِ ذیل امور کی پابندی کرے‘ جن کو مصطفی مشہور نے بیان کیا ہے:

۱-  دعوت ‘ فرد سے جن پابندیوں کا مطالبہ کرتی ہے اور جن چیزوں کو اس کے لیے اہم قرار دیتی ہے‘ ان کے ذریعے اپنی حیثیت کے مطابق دعوت کا احاطہ کرے اور اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں کو دعوت کی بہتری کے تابع بنائے۔

۲-  اپنی دعوت کی روح کا صحیح اور جامع فہم حاصل کرے۔

۳-  اس طریق کار کی پابندی کرے‘ جس کو دعوت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مقرر کرتی ہے۔

۴- اپنی دعوت کے ان اہداف کا محافظ بنے جن کے لیے دعوت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

۵- اپنی دعوت کے لیے اخلاص اور گہرا تعلق اور باقی تمام تعلقات سے دست برداری۔

۶- قیادت کی طرف سے ملنے والے جائز احکام کو عملی جامہ پہنانا‘ تنگ دستی و مال داری اور سختی و آسانی دونوں حالتوں میں اس پر عمل کرنا۔

۷-  کارکن اور قائد کے درمیان مضبوط اعتماد کا تعلق۔

۸-  فرقہ وارانہ طرزِعمل اور شخصی و علاقائی‘ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر رہنا۔

۹-  جماعت کے اندر میدانِ عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب اور اس بات سے گریز کہ اپنے ساتھیوں اور قیادت کو ایسے شخصی اختلافات میں پھنسائے جو دعوت کے کام اور اس کے نتائج پر اثرانداز ہوں۔

اُمت مسلمہ کی تعمیر پر اس دین کی اشاعت کا انحصار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تعمیرو تاسیس میں تدریج سے کام لیا جائے اور اس کی بنیادیں مضبوطی سے گاڑ دی جائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ رکوع اور سجدہ کرو‘ اپنے رب کی بندگی کرو‘ اور نیک کام کرو‘ اِسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں  تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجائو اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملّت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام’مسلم‘ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارایہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اور اللہ سے   وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ‘ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۷- ۷۸)

(ماخوذ:  المجتمع‘ شمارہ ۱۵۹۸‘ ۲۴ اپریل ۲۰۰۴ئ)

ایک اسلامی تناظر

ترجمہ:  قاضی محمد اقبال /مسلم سجاد

خلاصہ: آج کی ’ایک عالم گیردنیا‘ جدید ٹکنالوجی کا ایک ایسا تحفہ ہے جس میں طرح طرح کی سہولتیں تو ہیں‘ لیکن اس نے مل جل کر رہنے کا کام سہل نہیں بنایا۔ گو‘ باہمی رابطہ پہلے کے مقابلے میں تیز تر ہوگیا ہے لیکن خود ہمسایوں کے درمیان میل ملاپ مشکل تر ہوگیا ہے۔ کیا مذہب ایک خدا کے کنبے کو متحد کر سکتا ہے؟ حق یا نجات کی حقیقت کیا ہے؟ اس مقالے میں‘ اسلام کے تصورِ نبوت کی روشنی میں انھی سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اسلام کا استدلال ہے کہ مذاہب کے سرچشمے الوہی ہیں۔ لہٰذا‘ ہدایت من جانب اللہ پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسلام اس کا مدعی نہیں کہ تمام انبیا ؑ، اسلام کی وہی  شکل (version) لائے تھے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کی۔ یہ مقالہ ہدایت  من جانب اللہ اور ایک انسانی وسیلے کی حیثیت سے نبوت کے تصور پر بحث کرتا ہے‘ اور نبوت کی تاریخ اور اس کی عالم گیریت اور تبدیلی مذہب کی ذمہ داری کی وضاحت کرتا ہے۔

تضادات سے بھرپور اس دنیا میں مل جل کر رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تاہم‘ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان نہایت مفید کاموں میں سے ایک ہے‘ جو پیچیدگیوں سے بھرپور اور ہلاکت خیز حد تک خطرناک سہی‘ لیکن اس میں انسان اپنی تخلیق کے روزِ اول ہی سے سرگرم عمل ہے۔     ان کوششوں کا دائرہ طبعی لحاظ سے نہیں ہے کہ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتے‘ اور نہ معاشرتی اعتبار سے ہے‘ کیونکہ معاشرتی روابط کے بغیرانسانی زندگی کا تانا بانا نہیں بُناجاسکتا۔ یہ قلب و ذہن کا دائرہ ہے: میل ملاپ‘ افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون اور اس دنیا میں مل جل کر امن و امان اور محبت کو عام کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اندیشوں اور ناکامیوں کے باوجود اس عظیم کام میں آدم و حوا کے   بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ناقابلِ مزاحمت کشش موجود رہی ہے۔ مل جل کر رہنے کی مشکلات نے انسانی خواہشات اور جدوجہد کو اکثر حیرانی اور مایوسی سے دوچار کیا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوشش کو کبھی ترک نہیں کیا گیا‘ اگرچہ یہ حقیقت سے زیادہ ایک خواب‘ اور کارنامے کے بجاے ایک تمنا   رہی ہے۔

تخلیق کے ہر اظہار میں تنوع لازماً ہوتا ہے لیکن وحدانیت اس کا منبع اور جوہر ہے۔ اگر اسی تنوع سے آدمی یہ سیکھنے کے لیے آمادہ ہو کہ وہ کس راستے پر چل کر اپنے خالق کو تلاش کرے اور اس تک پہنچے‘ تو اس جستجو میں مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں:

اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔ شاید کہ تم اس سے سبق لو (کہ خدا ایک ہے)۔ پس دوڑو‘ اللہ کی طرف۔ (الذاریات ۵۱:۴۹-۵۰)

اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدایش اور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے۔(الروم ۳۰:۲۲)

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں‘ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ (فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)

باہم مل جل کر رہنے میں جو بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں‘ ان میں مذہب‘ خصوصاً زیادہ مانے جانے والے مذاہب اور عقائد کے اختلاف کو عرصۂ دراز سے اہم ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ ان عقائد کو تشدد اور تنازعات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے‘ تاہم مغرب میں ’روشن خیالی‘ کے دور نے اس تصور کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عقلی و ذہنی ارتقا سے قطع نظر بعض تاریخی وجوہ نے بھی مغربی فکر میں مذہب کے اس تصور کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ بھی اس سے مبرا نہیں کہاجاسکتا‘ لیکن یورپ خصوصی طور پر مذہب کے نام پر شدید تشدد کا منظرنامہ پیش کرتا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب مختلف عقائد کی حامل مختلف اقوام مختلف علاقوں میں مل جل کر رہ رہی تھیں‘ یورپ مذہبی بنیادوں پر جنگوں اور مذہبی اقلیتوں پر’ہسپانوی حل‘ ] مذہبی تطہیر[ مسلط کرنے میں مصروف تھا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس کے نزدیک مذہبی اختلافی مسئلے کا حل اقلیتوں کا صفایا یا مکمل جلاوطنی ہی قرار پایا ہے] جیساکہ بوسنیا میں مظاہرہ کیا گیا[۔ یہی سب سے بڑا سبب ہوسکتا ہے کہ مذہبی تکثیریت (pluralism) کی حقیقت اور اس کے مطالبات سے ہم آہنگی کی ضرورت‘ جو صدیوں سے بہت سے لوگوں کے نزدیک زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر چلی آرہی ہے‘ مغرب پر اب اتنی دیر بعد منکشف ہوئی ہے۔

اتحاد انسانی میں مذہب کا کردار

سوال یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو متحد کرنے میں آج مذہب کیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے؟

اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذہبی شخصیتوں کے باہمی مکالمے کی ضرورت ایک بڑا چیلنج ہے‘ خواہ اس مکالمے کی ابتدا مغرب کی طرف سے ہو۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تمام مذاہب کو ایک سائنسی نقطۂ نظر کی سطح پر لانے کا خبط بھی مغرب ہی کی پیداوار ہے‘ بجاے اس کے کہ ایک ایسا خاکہ تیار کیا جائے جو الہامی مذاہب کی حیثیت سے ان کے الگ وجود کو تسلیم کرے۔

اس حقیقت کو واضح طور پر تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی عقائد نے بنی نوع انسان کو تقسیم کرنے میں کوئی بڑا یا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ دراصل دوسرے عقائد (لادینیت‘ قوم پرستی وغیرہ) نسلِ انسانی کی بقا کے لیے بڑے خطرے بن گئے ہیں۔ یہ عقائد کسی آسمانی خدا کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انسان کی خدائی میں روبہ عمل ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ کے جڑواں بچوں‘ یعنی لادینیت اور قوم پرستی کے پیدا کردہ تشدد کے سامنے مذہب کے جرائم ماند پڑ جاتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ دونوں عظیم جنگوں کے دوران‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر‘ اس کے بعد کوریا اور ویت نام‘ ہنگری اور چیکوسلوواکیہ پر اور اب سابق یوگوسلاویہ ]اور افغانستان اور عراق[ پر کیا گزر رہی ہے؟ قوم پرستی یا نسل پرستی کی قربان گاہوں پر‘ ترقی اور توسیع پسندی کی ناقابلِ تسکین پیاس اور نام نہاد انسان پرستی اور سائنسی طریقۂ کار کی کوکھ سے پیدا ہونے والے نظریات کے لیے جو خون بہایا گیا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔

’ایک عالم گیر دنیا‘ کے ظہور نے‘ جو ٹکنالوجی کی متنوع برکات کا تحفہ ہے‘ مل جل کر رہنے کے کام کو آسان نہیں بنایا۔ اس سے قبل مشکلات اور خطرات ایسے مشکل اور گمبھیر نہ تھے جیسے کہ اب ہیں۔ فاصلوں کے سمٹ جانے کے عمل نے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب نہیں کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آواز کی رفتار سے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خیالات‘ تصورات اور اطلاعات کو ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرئہ ارض کے پار پہنچایا جاسکتا ہے۔ پھر بھی صدیاں گزرنے کے باوجود باہمی محبت‘ فہم و ادراک اور خیرخواہی کے جذبات ایک پڑوسی سے دوسرے پڑوسی تک نہیں پہنچے ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ میں‘ ولفریڈ کانٹ ویل سمتھ کی رجائیت پسندی اور خوشی میں شریک ہونا مشکل سمجھتا ہوں۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ   ’فی الحال کم سے کم تشدد‘ باہمی چپقلش اور نفرت سے چھٹکارا پا لیا گیا ہے یا پایا جا سکتا ہے‘ اور تنہاپسندی اور جہالت جلدی ختم ہونے والی ہیں۔ ماضی میں تہذیبیں ایک دوسرے سے بے نیاز رہیں‘ اب ایسا نہیں ہے۔ ہم تفصیلی طور پر ایک دوسرے سے آگاہ ہوچکے ہیں اور مذہبی اور  ثقافتی سطح پر بھی تدریجاً آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔۱؎

آیئے! لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی‘ ثقافتی اور نسلی فاصلوں کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز کر دیں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں پر نگاہ ڈالیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ واقعتاً یا استعارۃً قریب کے پڑوسی ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں مکمل معلومات کتابوں کی الماری میں موجود ہوں‘ لیکن عدمِ واقفیت پہلے ہی کی طرح غیرمعمولی ہے۔ آگاہی پہلے ہی کی طرح بہت کم ہے‘ اور حقیقی علم تاحال ایک دور کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کسی غیرمسلم کی‘ خواہ وہ کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو‘ جو بھی تحریر اٹھاتا ہوں‘ اسے پہلے سے تشکیل شدہ تصورات‘ مضحکہ خیز خاکوں‘ لاعلمی حتیٰ کہ تعصبات سے بھرپور پاتا ہوں۔ غیرمسلم جب کسی مسلمان کی تحریر پڑھتے ہوں گے تو ان کے بھی اسی طرح کے تاثرات ہوتے ہوں گے۔ کیا ہم سب اپنے آپ کو اور دوسروں کو رنگ دار شیشوں سے دیکھتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ اب‘ جب فاصلے سکڑرہے ہیں‘ ذہنوں‘ دلوں اور رویوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تناسب بالمعکوس ہوں۔

یقینا مذہب بنی نوع انسان میں تفرقات پیدا کرنے اور خون بہانے کا اصل ذمہ دار نہیں۔ بلکہ اگر مناسب طریقہ اختیار کیا جائے تو اب بھی یہ واقعی ’ایک عالم گیر دنیا‘ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے‘ یعنی ایک ایسے عالم گیر معاشرے کا قیام جو ایک ’خدا کے کنبے‘ کی طرح زندگی گزارے۔ کیا مذہب اس دعوے کو کچھ قریب لا سکتا ہے؟ بنی نوع انسان کی بقا کو جو چیلنج درپیش ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

بین المذاہب مکالمہ

اس حوالے سے مذہبی شخصیتوں کے لیے اپنے ماضی‘ حال اور مستقبل پر بحث و مباحثے کے لیے ایک اجلاس کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ ایسے اجلاس یا مکالمے کا مفید اور معنی خیز ہونا شرکا پر منحصر ہوگا لیکن اس کی اصل اہمیت یہ ہوگی کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے اکٹھے ہوکر‘ کھل کر اپنے مماثلات اور تضادات‘ اپنے تاریخی اور حالیہ تعلقات کی حرکیات اور ان خاکوں‘ مثالیوں اور مفروضوں پر غور کریں جو ان کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہوں اور جو اُس الہامی دانش کے خزانے سے اخذ کردہ ہوں‘ جو ان سب کے پاس ہے۔

اس کا مقصد ایک عالمی مذہب‘ یا کلی یکسانیت یا ہمہ گیر ہم آہنگی نہیں جیسا کہ اس سے قبل بیشتر لوگوں نے اپنے مکالمات میں بیان کیا ہے۔ میری رائے میں اس کا لازماً یہ مطلب بھی نہیں کہ مذہباً تبدیل ہوا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ایک دوسرے کے ورثے کے بارے میں ایک بہتر نگاہ حاصل کرلی جائے‘ اور باہم اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ بنیادوں کو تلاش کیا جائے‘ نیز یہ معلوم کیا جائے کہ کیا کچھ بجا طور پر خود ہمارے ورثے کا جزو ہے۔

تاہم‘ اگر ہم بہت واضح اور مشترک باتوں کے علاوہ دیگر امور کو اس خوف سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیں کہ اس کا مطلب تبدیلیِ مذہب ہوگا‘ اورہم اپنے اختلافات کی اصل نوعیت کا کھوج لگانے اور اس پر بحث کرنے سے اس خوف سے ہچکچائیں کہ اس سے ہماری دوستیاں اور رفاقتیں متاثر ہوں گی اور اپنی مذہبی صداقتوں کے بارے میں ہمارے بیانات کو وعظ سمجھ لیا جائے گا‘ تو اس طرح ہمارے بین المذاہب مکالمے کا ایک اہم مقصد پسِ پشت چلا جائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اگر ہم مشترکہ مقاصد کے لیے بعض امور پر متفق ہوکر جدوجہد کریں تاکہ باہمی تعلقات اور عام انسانی حالت میں بہتری پیدا ہو‘ تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو سیاسی اور لادینی تنازعات جو آج ہمارے درمیان پُرتشدد تفریق پیدا کر رہے ہیں‘ وہ مذہبی اختلاف سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتے ہیں۔ یہ عموماً مذہبی اجلاسوں کے ایجنڈے میں جگہ نہیں پاتے۔ ایس جے سمارتھا کہتی ہیں: مذہبی شخصیات کے اجلاس کا اہم ترین مقصد یہ ہوگا کہ وہ ہمارے مخصوص ورثوں کے ماخذ کا تعین کرے اور ان کی ایسی تعبیر کرے جو ہمیں ساتھ رہنے میں مدد دے، ۲؎کیونکہ ہم ایک مشترک مستقبل میں حصہ دار ہیں۔ ساتھ رہنے کے لیے اتنا ہی‘ یا اس سے بھی زیادہ اہم‘ ان ماخذ کا تعین ہو سکتا ہے جن میں ہم حصہ دار ہیں‘ جو ہمارے لیے مخصوص نہیں ہیں لیکن یہ ہمارا مشترکہ ورثہ بن گئے ہیں۔ بڑے اور سنگین قسم کے اختلافات اور بے شمار تنازعات کے باوجود ایسے ماخذ قلیل نہ ہوں گے‘ اور آج بین المذاہب تعلقات قائم کرنے کے لیے ان کی تلاش‘ ہو سکتا ہے کہ‘ بہ نسبت کسی اور چیز کے‘ زیادہ ثمرآور ثابت ہو۔

مختلف مذاہب کی مشترک بنیاد

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اور اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں ایسے مزید ماخذ ملیں۔ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں اور رہے ہیں۔ شاید ہم اسی لیے محاذ آرا ہیں کہ ہم میں مشترکات بہت ہیں۔ یہ بذاتِ خود تحقیق کا ایک دل چسپ موضوع ہو سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے بڑے مذاہب کے ساتھ مشترک ماخذ کی تلاش و جستجو کو بھی کچھ کم ثمرآور ثابت نہ ہونا چاہیے‘ اگر ہم صرف یہ کام کریں کہ تاریخ نے ان پر جو تہیں چڑھا دی ہیں ان کو اتار دیں‘ اور ان کی تہ میں پوشیدہ زبان اور علامات کے پس پردہ اصل مطالب نکال لیں۔ ہمیں ان تین مذاہب کے بارے میں بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ان میں کیا چیز مشترک ہے‘ تاکہ ان طریقوں کے بجاے جو خود انسانی ذہن نے اللہ تک رسائی کے لیے اختیار کیے ہیں۔ ان طریقوں کو معلوم کیا جائے جو اللہ نے انسانی ذہن کو اپنے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سکھائے ہیں  (یہ بجاے خود ایک بدیہی مفروضہ ہوگا جو دوسرے کے خلاف ہوگا)۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بڑی دل چسپ مشق ثابت ہو۔

اگر ہم مذہب کے ماخذ کی تعریف اس کے صحیفے‘ اس کی روایات‘ اس کی تاریخ‘ اس کی ثقافت‘ اس کی موروثی دانش‘ اور اس اصول کی روشنی میں کی جائے جو اس نے دوسرے مذاہب کی اقوام سے اپنا رشتہ یا تعلق استوار کرنے کے لیے استعمال کیا ہے‘ تو مجھے یہ بات جرأت سے کہہ ڈالنی چاہیے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام جو مشترکہ سرمایہ رکھتے ہیں‘ اس میں کوئی بات اتنی مشترک اور ان کے لیے ایسی لازمی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتنی کہ نبوت کا ادارہ اور بعض انبیا علیہم السلام کی شخصیات۔ انبیا علیہم السلام بحیثیت ایسے انسان جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور جنھیں اللہ نے انسانوں کو یہ سکھانے کے لیے مبعوث کیا کہ اللہ کی عبادت کیسے کی جائے‘ ہمارے مذاہب میں اتنا اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ شاید ’مشترکہ وسیلے‘ کے طور پر نبوت سے زیادہ کوئی چیز ہماری توجہ کی محتاج نہیں۔

یہ صحیح ہے کہ اس معاملے میں ہمارے درمیان بنیادی اور سنگین قسم کے اختلافات موجود ہیں۔ ایسے اختلافات جو غالباً دوسری چیزوں سے بڑھ کر ہمارے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ ایک طرف ہم نبوت کے استدراک میں اختلاف رکھتے ہیں‘ خصوصاً عیسائی فہم کے مطابق ’’یسوعؑ کی گواہی ہی نبوت کی روح ہے‘‘۔ مسلمان ایک محدود مفہوم اور اپنی تعبیر کے مطابق شاید اس نظریے سے کچھ ہمدردی رکھتے ہیں‘ مگر یہودی ہرگز اس پر راضی نہ ہوں گے۔ دوسری طرف ہم اس ضمن میں شدید اختلاف رکھتے ہیں کہ حقیقی اور سچا نبی کون ہے؟ جب بات حضرت عیسٰی ؑ اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اسلامی نقطۂ نظر تک پہنچتی ہے‘ تو ہم دو مختلف کناروں پر پہنچ جاتے ہیں۔ عیسائی اور یہودی دونوں اسلامی نقطۂ نظر سے ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ یہ اختلافات ہمارے مذاہب میں کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ البتہ اگر ہم اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذہبی شخصیات کی حیثیت سے‘ مفید نتائج کے لیے میل جول جاری رکھنے کے متمنی ہوں تو ان ماخذ کی باہم جستجو کو‘ جن میں ہمارا مشترکہ حصہ ہے‘ خواہ یہ اشتراک اتفاق میں ہو یا اختلاف میں‘ زیادہ عرصے تک معرض التوا میں نہیں ڈالے رکھنا چاہیے۔

پہلے قدم کے طور پر کچھ دیر کے لیے ہمیں فی الحال اس سوال کو ایک طرف اٹھا رکھنا چاہیے کہ کون نبی تھا‘ اور اس ادارے کے بنیادی خدوخال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ہم سب اپنی روایات میں بھرپورطریقے سے موجود پاتے ہیں۔ کیا یہ سودمند نہ ہوگا کہ ایک ایسے موضوع کا مطالعہ کیا جائے جو کسی ایسے نمونے یا خاکے کی بنیاد فراہم کر سکے جس پر ہم ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مذاہب میں رشتوں کی تعمیر کر سکیں۔ اس امید پر کہ یہ ممکن ہے‘ میں اس مقالے کے بیشتر حصے میں ان موضوعات پر گفتگو کروں گا جو اسلام میں نبوت کے تصور کے مطالعے کے دوران واضح ہوتے ہیں۔

ایسا کرتے ہوئے میں خصوصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی تعلیمات پر انحصار کروں گا۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں‘ بلکہ اس لیے بھی کہ میرے خیال میں قرآن اس ادارے کے بنیادی خدوخال سے بہت جامع اور تفصیلی بحث کرتا ہے‘ اور اس طرح ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم ایک مربوط اور مکمل نظریہ تشکیل دے سکیں۔ جو کچھ انبیا علیہم السلام نے کہا یا کیا‘ جس کا انجیل میں بڑی تفصیل سے اور بڑے مؤثرانداز میں تذکرہ موجود ہے‘وہ بھی ایک قیمتی ماخذ ہوگا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اس اہم دائرے میں قرآنی بصیرت کو ایک بین المذہبی گروہ کے سامنے تنقیدی جائزے کے لیے پیش کروں۔

نبوت کے موضوع پر علماے یہود و نصاریٰ کے مطالعوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر وہ زیادہ تر عہدنامہ عتیق تک محدود رہتے ہیں اور یہ قابلِ فہم بھی ہے۔ اپنی محدود تحقیق و جستجو کے دوران  نبوت کے قرآنی نقطۂ نظر کا کسی غیرمسلم کا تفصیلی مطالعہ میری نظروں سے نہیں گزرا‘ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیثیت پیغمبر مطالعے کے‘ جو ہمیشہ ایک ہی حتمی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ زیادہ تر لکھنے والے خدا سے گزر کر اسلام میں نبوتؐ کے موضوع کو چھیڑے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آجاتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اس پر اتنا زیادہ زور دیتا ہے۔ اس صورت حال پر تعجب ہوتا ہے کیونکہ غیرمسلم اہلِ علم نے قرآن کے اٹھائے ہوئے اکثر چھوٹے اور معمولی اہمیت کے حامل معاملات پر بھی تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔

مغربی اہلِ علم کی طرف سے مطالعے کے اس میدان کی طرف اتنی کم توجہ کیوں دی گئی؟ اس سوال کا کوئی مکمل جواب نہیں ہو سکتا۔ شاید قرآنی نظریہ اس لیے مسترد کر دیا گیا کہ عقلی اور مذہبی لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یا اس لیے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا گیا ہے جس سے ان کے دعویٰ (نبوت) کو تائید مل جائے‘ اور ان کی پوزیشن کو اپنے مخالفین کے مقابلے میں سہارا مل جائے‘ یا شاید مغربی اہلِ علم قرآن میں عرب تاریخی تناظر کی کمی کی طرف زیادہ متوجہ رہے ہیں‘ اور اس حیرت میں مبتلا رہے ہیں کہ گذشتہ انبیاؑ کے ناموں کا مختلف جگہوں پر مختلف ترتیب کے ساتھ کیوں تذکرہ کیا گیا ہے‘ اور انھیں ایک صاف اور واضح تاریخی سلسلے کی صورت میں کیوں نہیں بیان کیا گیا‘ جیسا کہ ایک انسان سے بحیثیت مصنف کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریجی اور قدیم تاریخی معلومات کو بائبل سے ماخوذ ثابت کرنا چاہتے تھے۔

قرآن کے ساتھ رویہ

قرآنی بیانات میں نہ صرف ہدایت ربانی اور نبوت کا ایک خاص نقطۂ نظر موجود ہے‘ بلکہ انسان کی ابتدا اور انسانی مذہبی تاریخ کا نظریہ بھی موجود ہے جو مغرب کے بیشتر اہلِ علم کے لیے خوف اور ناراضی کا باعث ہے۔ اپنے روایتی علم وفکر پر مضبوطی سے جمے ہونے کی وجہ سے یہ ان کے نزدیک اس حد تک ناپسندیدہ ہے کہ وہ اس پر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ساتویں صدی کے ایک اَن پڑھ عرب کی طبعی سائنسی علوم‘ تاریخ اور فلسفہ کے میدان میں‘ جو اب اتنی ترقی کرچکے ہیں‘ خلل اندازی ہے اور یہ بھی اس طرح کہ اس کے پیچھے کوئی حتمی یا فیصلہ کن یا غالب تجرباتی شہادت کا وزن نہیں ہے۔

مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کی تائید میں ابھی تک کوئی حتمی یا اغلب تجرباتی شہادت موجود نہیں ہے‘ لیکن کیا اس کے خلاف کوئی حتمی شہادت موجود ہے؟ کم از کم مجھے تو اب تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی اور نہ مجھے انسان کے آغاز کے حوالے سے ارتقا کے نظریے کے حق میں‘ یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے فطری مذہب سے لے کر نبوی مذہب تک‘ یا بہت سے خدائوں پر عقیدے سے لے کر ایک خدا پر ایمان تک کے حق میں‘ کسی قسم کی حتمی شہادت ملی ہے۔ اس امرسے قطع نظر کہ اگر کوئی حتمی شہادت کبھی میسر آ بھی جائے جس سے سائنسی طور پر کسی سچائی کو ثابت کر دیا جائے یا اگر سائنس حتمی صداقت تک پہنچانے کا دعویٰ کرتی ہے‘ پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر کیا دستیاب تاریخی شہادت کو حتمی طور پر قبول کر لیا جائے تاکہ علم کی ہر دوسری شاخ کو اس کے خاکے میں فٹ کر دیا جائے اور اسی کے مطابق اسے قبول یا رد کیا جائے؟ اگر قرآنی نظریے کے چند اہم عناصر کی تائید میں خاطرخواہ تجربی دلائل فراہم ہوجائیں تو میں جو تجویز پیش کرنا چاہوں گا وہ یہ ہوگی کہ یہ نظریہ اگرچہ میرے ایمان کی بنیاد ہے‘ پھر بھی اس کو تین سوالات کی روشنی میں ایک مفروضہ یا اندازہ سمجھا جائے۔ (الف) اسے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (ب) کیا یہ قابلِ عمل ہے اور کسی معلوم شہادت کی توجیہہ کرتا ہے؟ (ج) کیا یہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں بین المذہبی تعلق کے خاکے کو اجاگر کرنے کے لیے کارآمد ہے؟ تحقیق و جستجو کا ایک سائنسی راستہ یہ بھی ہے کہ ایک مفروضہ تیار کر لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا موجودہ صورت حال میں اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

قرآنی نظریے کو اسلام کا اس طرح کا سادہ لیکن شدید موقف قرار دے کر بہ نظر حقارت دیکھا جاتا ہے جو اپنی صداقت کے ثبوت اور آخری مذہب ہونے کی اپنی حیثیت کی بنیاد پر    نوع انسان کی کُل مذہبی تاریخ پر اپنی چھاپ چاہتا ہے۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہوسکتا ہے‘ لیکن ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی ہو سکتاہے۔ قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ پہلا انسان نبی تھا‘ مسلم تھا‘ اس کا مذہب اسلام تھا‘ اور یہ کہ سب نبی مسلم تھے اور وہ اسلام ہی لے کر آئے تھے۔ اس دعوے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بعض ایسے اہم مذہبی مقدمات پیش کر رہا ہے جو نجات‘ انفرادیت اور عروج کی طرف رہنمائی کرنے کے بجاے ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں مختلف مذاہب کے اکٹھے رہنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

اسلامی نظریہ: بنیادی نکات

اسلامی نظریہ جن نکات کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ ہیں:

ا-             تمام مذاہب کا ماخذ الہامی یا آسمانی ہے۔ لہٰذا الہامی رہنمائی پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہبی مسلک کی اجارہ داری نہیں ہے۔

ب-           مختلف ہونے کے باوجود تمام مذاہب کے کچھ عناصر مشترک ہونے چاہییں کیونکہ ان سب کا آغاز ایک ہی منبع سے ہوا ہے۔

اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ تمام انبیاؑ اسلام کی وہی صورت (version) لائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ وہ ایک بہت سادہ پیغام لائے جو اسلام کا اصل جوہر ہے‘ یعنی:

ا-             اللہ ایک ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو اور صرف اسی سے ڈرو۔

ب-           میری پیروی کرتے ہوئے بھلائی کرو اور برائی سے بچو۔

اب ہم نبوت کے اسلامی تناظر پر ایک سرسری نظر ڈال سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد اور حقیقت کیا ہے؟ اسلام اس کو انسان کی زندگی کے سارے منصوبے میں کیا مقام دیتا ہے؟ اس کے بڑے اور اہم خدوخال کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ خداے واحد کی دنیا میں مذہبی تکثیریت کی قبولیت کے کس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ ہم یہاں آزادی فکر کے فلسفیانہ مضمرات پر زیادہ بحث نہیں کریں گے۔ ہم تو ایسی واضح اور قابلِ فہم اصطلاحات میں بات کریں گے جو ایک عام آدمی کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر: ’اللہ کا وجود ہے‘ اس کے مخاطب فلسفی اور اہلِ علم نہیں بلکہ عام انسان ہیں جو مل جل کر رہنے کے مسائل سے نبردآزما ہیں۔ اہلِ علم کی اہمیت سے انکار نہیں‘ لیکن فی الحال وہ انتظارکرسکتے ہیں۔

ربانی رہنمائی

نبوت کے اسلامی نظریے کی ساری بنیاد اس پر ہے کہ خدا صرف ایک ہے۔ صرف وہی ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سوالات کے جوابات کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی زندگی کا مفہوم اور مقصد کیا ہے؟ اس کا آغاز کیسے ہوا؟ اور یہ ہم کو کہاں لے جاتی ہے؟ ان کے جوابات کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کو کیسی شکل دے اور کس طرح گزارے؟ یا مذہبی زبان استعمال کی جائے تو: انسان خدا کی عبادت کس طرح کرے--- صرف خدا ہی خود بتا سکتا ہے۔ صرف اس کی ہدایت ہی علم اور مکمل سچائی ہے۔ باقی سب گمان ہی کیا جا سکتا ہے جو جزوی علم یا جزوی سچائی ہوگی۔

صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۲۰)

اور کہو کیا ان میں کوئی ہے جس کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو‘ جو سچائی کی طرف تمھاری رہنمائی کرے۔ کہو ’’صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسے الٹے اُلٹے فیصلے کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس اور گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا‘‘۔ (یونس۱۰:۳۵-۳۶)

مزیدبرآں:

اس معاملے کا کوئی علم انھیں حاصل نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ یہ گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ (النجم ۵۳:۲۸)

بہت سے لوگ مظاہر قدرت کے بارے میں سائنس‘ ٹکنالوجی اور تاریخ کے ذریعے تجرباتی اعداد و شمار پر مبنی کچھ معلومات ضرور حاصل کر لیتے ہیں‘ لیکن کائنات اور زندگی کے پوشیدہ اسرار کے بارے میں وہ آسمانی رہنمائی یا ہدایت کے بغیر صرف قیاس اور خیال آرائی ہی کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ خدا کی عبادت کرنے کے لیے رہنمائی من جانب اللہ ہے‘ بلکہ یہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک ایسی ذمہ داری اور فرض ہے جو خدا نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہوا ہے‘ تو غلط نہ ہوگا (میں جو زبان استعمال کرتا ہوں‘ ضروری نہیں کہ وہ تینوں مذاہب کی روایت کے حوالے سے موزوں و مناسب ہو۔ میں ایک عالم ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتا لیکن میں ہر صورت قرآنی زبان کے قریب ضرور رہتا ہوں)۔ ’’یقینا ہم پر ہدایت دینے کی ذمہ داری ہے‘‘(اللیل ۹۲:۱۲)۔ یہ وعدہ اس وقت کیا گیا جب انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا گیا۔ ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف یا رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔(البقرہ ۲:۳۸)

انسانی ذریعہ

اللہ تعالیٰ اپنا فرض اور وعدہ پورا کرنے کے لیے انسان کا ذریعہ کام میں لاتا ہے۔     بنی نوع انسان کے لیے ایسے انسانوں کے ذریعے اپنی ہدایت نازل کرتا ہے جنھیں وہ منتخب کرتا ہے‘ جن سے وہ ہمکلام ہوتا ہے اور جنھیں‘ اپنے فرمودات کا اعلان کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتا ہے۔

پیغام کا آغاز‘ اس کے مضامین اور اس کے الفاظ‘ سب مکمل طور پر من جانب اللہ ہوتے ہیں اور یہ انسانوں کے لیے اس کی رحمت و محبت کا بے پایاں اظہار ہے:

ہم نے اسے نازل کیا… تیرے رب کی رحمت کے طور پر۔ (الدخان ۴۴:۳-۶)

اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے۔ (الانعام ۶:۱۲۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (الحج ۲۲:۷۵)

نبوت خدا کا عطیہ ہے‘ اس لیے صلاحیتوں کو نشوونما دے کر‘ یا مراقبہ کر کے‘ غوروفکر کرکے اسے ازخود حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وحی ایک نفسیاتی مغالطہ(جنون) نہیں۔ یہ شاعرانہ تخیل بھی نہیں۔ یہ ایک سیاسی بصیرت یا خواہش بھی نہیں اور نہ یہ ایک صوفیانہ تجربہ ہے۔ یہ کوئی فعل نہیں‘ ذاتی اور انسانی ردعمل نہیں۔ کوئی نبی خدا کی طرف جو الفاظ منسوب کرتا ہے‘ ان میں سے کوئی اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تووہ جھوٹا ہوگا اور سب سے بڑا گنہگار۔ نہ وہ یہ کر سکتا ہے کہ فریب خیال یا جنون کی حالت میں الفاظ کو اللہ کی طرف منسوب کر دے۔ایسی صورت میں وہ بڑی مشکل سے انبیاؑ کی طرح رہنمائی کر سکے گا‘ سختیاں جھیلے گا یا اپنے مخالفین کا سامنا کرے گا۔ پیغامِ الٰہی ہمیشہ صاف‘ واضح‘ روشن اور شکوک و شبہات سے پاک ہوتا ہے۔ ’’پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا‘ اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا‘‘۔ (ھود۱۱:۱۷)

واسطہ انسانی ہے کیونکہ مخاطب انسان ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ بھلا انھی جیسا ایک انسان کیونکر اللہ کا پیغام وصول کر سکتا ہے؟ ایک گوشت پوست کا عام انسان کیونکر اللہ سے ہم کلام ہو سکتا ہے؟ پہلے بھی ایسی ہی مذہبی الجھنیں اور مشکلات پیش آتی رہی ہیں اور آج بھی سائنسی بنیاد پر اعتراضات ہیں (پھر بھی جب کبھی ایسے انسان سامنے آئے تو ان کی دین دارانہ زندگی کا لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ ان کو الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا گیا)۔ مگر   قرآن پاک انبیاؑ کے انسان ہونے پر بہت اصرار کرتا ہے۔ ’’اے محمدؐ ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار۔ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا‘ مگر ان کے اس قول نے کہ: ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ان سے کہو‘ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بناکر بھیجتے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۳-۹۵)۔ یہی وجہ تھی کہ ہدایت انسانوں کی زبان میں آئی۔ بولنا انسانی فعل ہے۔ وہ اس کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کے لیے آزاد اور بااختیار ہے۔

حضرت آدم ؑ کو جو علم دیا گیا تھا وہ اسماء کا علم تھا (البقرہ ۲:۳۱)۔ زبان سے مافی الضمیر کو بیان کرنا‘رحمت الٰہی کا سب سے بڑا تحفہ اور انسانیت کا جوہر ہے۔ لہٰذا یہ وحی کے عطیے کی ظاہری صورت ہے۔ (الرحمٰن ۵۵:۱-۹)

گو کہ انبیاؑ انسان تھے‘ قرآن ان کی پاکیزہ زندگیوں کو‘ ان کے بے داغ کردار کو‘ نیک چلنی کو‘ اللہ اور اس کے مشن پر ان کے غیر متزلزل ایمان اور وفاداری کو‘ راہ حق میں جو تکالیف انھوں نے صبر سے برداشت کیں‘ ان سب کو نہایت نمایاں کرتا ہے۔ بلاشبہہ وہ انسانیت کی معراج تھے۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے دعوئوں اور مثالوں میں سچے ہوں‘ اور ان کی پیروی کی جا سکے۔ ’’پھر ہم نے ہر ایک کو راہ دکھائی۔ اس طرح نیکوکاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں… بہتوں کو ہم نے نوازا۔ اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی‘ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے…‘‘۔ (الانعام ۸۴۶-۹۰)

نبوت اور وحی سے متعلق بیانات کا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ سائنسی چیلنجوں کے باعث جو مشکلات ان کی راہ میں کھڑی کر دی گئی ہیں انھیں نظرانداز کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے لیکن کسی دوسرے موقع پر۔

تاریخ اور عالم گیریت

اگر الہامی ہدایت پانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی سے انسانی زندگی کے مقصد کی تکمیل اور اخروی نجات حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کا ظہور تاریخ کے کسی خاص لمحے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ ’اولین انسان‘ پر اللہ کی طرف سے جو بارگراں ڈالا گیا وہ اتنا ہی بڑا اور عظیم تھا جتنا کہ کسی اور انسان کے لیے زمان و مکان کے کسی مرحلے پر ہوسکتا تھا۔ اس لیے پہلا انسان ہی نبی تھا اور اسے وہ ضروری علم حاصل تھا جو آخری نبیؐ کو اور درمیان میں آنے والے تمام انبیاؑ کو حاصل تھا۔ اللہ کے نبی تمام زمانوں‘ علاقوں میں اور مختلف زبانیں بولنے والوں میں آئے۔

اور اللہ نے آدم ؑاور نوح ؑاور آل ابراہیم ؑاور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا ۔(اٰل عمرٰن۳:۳۳)۔

اے محمدؐ، ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح ؑاور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی… اور ان رسولوں پر بھی جن کا تم سے ذکر نہیں کیا۔ (النساء ۴:۶۴)۔

ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہیں۔ (الرعد ۱۳:۷)

ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا۔(النحل ۱۶:۳۶)

پیــغام

تمام انبیاؑ ایک ہی ضروری پیغام لائے:

اللہ کی عبادت کرو اور میری پیروی کرو۔ اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ (الانبیا ۲۱:۲۵)

اور اگر کوئی اور چیز ان کے پیغام کا مشترک حصہ تھی تو وہ یہ تھی:

نیکی کرو اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔ وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ (الانبیا ۲۱:۷۳)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو ہدایات لائے وہ تمام جزئیات میں ایک سی تھیں۔ رسوم و آداب‘ قواعد و ضوابط‘ معاشرتی اور انفرادی برائیوں پر توجہ کے لحاظ سے‘ ایک نبی کی تعلیمات دوسرے نبی سے مختلف ہوتی تھیں:

ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمدؐ، وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ (الحج ۲۲:۶۷)

تاہم‘ یہ اختلاف ان مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اپنی نجات کا خصوصی دعویٰ کرنے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف تشدد پر آمادہ ہو جانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

ہم اب ان مقدمات سے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ تمام مذاہب میں بہت سی باتیں مشترک ہونی چاہییں۔ اس لیے نہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے سے مستعار لیا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ ایک ہی خدا نے اپنا کلام تمام انبیاؑ تک پہنچایا ہے۔ یہ بات کہ ایک ہی بنیادی پیغام ہر مذہب کا سرچشمہ تھا اور یہ اب بھی ان کی میراث کا حصہ ہے‘ آنے والے تمام زمانوں کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین باہمی تعاون اور امن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اس پیغام کے اجزا ایک سچے نبی کو ایک جھوٹے نبی سے ممیز کرنے کا ایک اہم معیار فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا معیار اس نبی کی راست بازی اور پاکیزہ زندگی ہے جس نے ہمیشہ اپنے زمانے پر اور آیندہ نسلوں پر ایک گہرا نقش چھوڑا۔ (جاری)

(Encounter, Living Together in a World of Diverse Faiths: An Islamic Perspective ‘جلد ۵‘ شمارہ ۱‘ ۱۹۹۹‘ صفحات ۳-۲۹‘ اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘برطانیہ)


حواشی

۱-            ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ: On Understanding Islam (Selected Studies)  (مائونٹین پبلشرز‘ دی میگ‘ ۱۹۸۱ئ)‘ ص ۲۹۳۔

۲-            ایس جے سمارتھا (مدیر) Towards World Community (ورلڈ کونسل آف چرچز جنیوا ۱۹۷۵ئ) ص ۴۰۔

اللہ تعالیٰ ہی اس ساری کائنات کا اور ہم سب انسانوں کا خالق‘ مالک اور رب ہے۔ اسی کی زمین پر ہم بستے ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں۔ کوئی فرد بشر کسی ایک ایسی شے کی بھی نشان دہی نہیں کر سکتا جو خداوند تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عطا کردہ ہو۔ اس لیے خدا کی مخلوق‘ اس کے مملوک اور اس کے رزق پر پلنے والی کسی ہستی کو بھی نہ عقلاً‘ نہ اخلاقاً اور نہ دنیا جہاں کے کسی قاعدے قانون یا رسم و رواج کی رُو سے اس بات کا حق حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کی مقرر کردہ حدود اور طریق زندگی سے بال برابر بھی ادھر سے اُدھر قدم رکھے‘ یا کوئی ایسا کام یا ایسی حرکت کرے جو اس کی منشا کے خلاف ہو اور اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اسی طرزِعمل کو اختیار کرکے زندگی بسر کرنے کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اسی بات کو سمجھانے اور اسی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اللہ نے اپنے رسول ؑبھیجے اور پھر سب رسولوں کے آخر میں‘ اس بات کو قیامت تک پیدا ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سمجھانے اور اس طرزِزندگی کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے  اللہ رب العالمین نے‘ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور یہ نصیحت فرمائی کہ ہمارے اس رسول ؐکے طرزِحیات میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے اس رسولؐ کو اس غرض سے اپنا پسندیدہ دین‘ یعنی انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ طریق زندگی اور ہدایات کا مجموعہ دے کر بھیجا ہے کہ آیندہ خدا کے بندے خدا کی زمین پر اسی طریقے کو نہ صرف خود اختیار کریں‘ بلکہ باقی انسانی گروہوں اور اقوام کے سامنے بھی اسے پیش کریں‘ اور اس انسانی معاشرے کا عملی نمونہ بھی نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے قائم کریں جسے رب کائنات کی مرضی اور منشا کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کر کے اُمت کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ دیکھو‘ میں خدا کا آخری رسول ہوں۔ آیندہ نہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول آئے گا اور نہ تمھارے بعد کوئی اور اُمت اٹھائی جائے گی جو اس کام کو کرے۔ اب قیامت تک میرے جانشین اُمتی ہونے کی حیثیت سے یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ آنے والی تمام انسانی نسلوں کو ان کے خالق و مالک کے مقرر کردہ صحیح انسانی طرزِ زندگی کو اسی طرح سے سکھائو اور اس پر چلائو‘ جس طرح میں نے تمھیں سکھایا اور چلایا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں واضح طور پر اہلِ ایمان کو بتایا کہ اللہ کی بندگی اور اس کے پسندیدہ نظامِ حیات کو اختیار کرنے اور اسے دنیا میں رواج دینے والے تمام انبیا اور ان کے پیروئوں کا نام اس سے پہلے بھی ہر زمانے میں ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے‘ اور اب اپنے اس رسولؐ اور ان کی پیروی میں اس راہ کو اختیار کرنے اور ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے والے لوگوں کا نام بھی ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے۔ اب یہ تمھارا کام ہے کہ زندگی کے جس نمونے اور نظام کی شہادت ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے سامنے پیش کی ہے‘ ان کے بعد اس کی شہادت اور عملی نمونہ دوسرے انسانوں کے سامنے تم پیش کرتے رہو۔یہ فریضہ مردوں اور عورتوں پر یکساں عاید ہوتا ہے۔

اس امرسے انکارممکن نہیں کہ انسانی معاشرے کی گاڑی مرد اور عورت پر مشتمل دو پہیوں سے چلتی ہے اور کوئی گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ گاڑی کے دونوں پہیے ایک دوسرے سے الگ برابر فاصلے پہ رہتے ہوئے چلیں۔ اگر خدانخواستہ گاڑی کے دونوں پہیے مقرر فاصلے پر رہ کر چلنے کے بجاے آپس میں گڈمڈہونے اور ایک دوسرے میں پھنسنے لگ جائیں اور اپنی اپنی لکیر اور سیدھ پر نہ چلیں تو نہ گاڑی کی خیرہے اور نہ ان کی سواریوں کی۔ منزل پر بخیریت پہنچنے کے لیے دونوں پہیوں کو اپنی اپنی جگہ پر ہی ہوگا‘ اور برابر ایک رفتار سے چلنا ہوگا۔ چنانچہ پورے قرآن مجید میں خواہ خطاب اہلِ ایمان و اسلام سے ہے اور خواہ اہلِ کفرونفاق سے‘ مردوزن کے کسی امتیاز کے بغیریاایھا الناس (اے لوگو)‘ یاایھا الذین آمنوا (اے مومنو!)‘ یاایھا الکفرون (اے کافرو)‘ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ(منافق سب کے سب جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ہوں گے۔النسائ۴:۱۴۵) کے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مرد و زن میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صاف صاف فرمایا گیا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ (الزلزال ۹۹:۷-۸)‘ یعنی جو بھی خواہ مرد ہو یا عورت ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کا بدلہ پالے گا‘ اور جو بھی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔

لہٰذا اللہ کے دین کی اشاعت و فروغ اور اس کے غلبے کے لیے کام کرنا مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں لازم ہے۔ البتہ جیسے گاڑی کے دونوں پہیے اپنے اپنے راستے پر الگ الگ چلتے ہیں اسی طرح اسلام نے انسانی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ رکھے ہیں‘ بجز ایک مخصوص دائرے کے جو اور جتنا اُن کے آپس میں مل کر رہنے اور معاشرے کے ارتقا و بقا کے لیے ضروری ہے‘ ورنہ آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوکر باہم ٹکرانے اور گاڑی کو الٹنے ہی کا ذریعہ بنیں گے۔ خالق نے خود ہی انسان کو آزادی بھی دی ہے‘ اور اس کے حدود بھی مقرر فرما دیے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح میں بنیادی کردار عورت ادا کرتی ہے‘ بشرطیکہ اسے اس کا احساس اور شعور ہو۔

اس پس منظر اور ان فرائض کی ادایگی کے سلسلے میں اس وقت خواتین کو جن اہم ترین کاموں کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے وہ درج ذیل ہیں:

۱-  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف ۷:۶)‘ یعنی یہ ضرور ہو کر رہناہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبرؐ بھیجے ہیں اور پیغمبروںؐ سے بھی پوچھیں گے (کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا جواب کیا ملا)۔یہ محاسبہ اس امر کا ہوگا کہ رسولوں نے خدا کا پیغام ٹھیک ٹھیک بندوں تک پہنچایا‘ یا نہیں‘ اور جن لوگوں تک یہ پیغام پہنچا انھوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اسے قبول کر کے اس کے مطابق اپنی زندگی اور اس کے معاملات و تعلقات کو درست کیا‘ یا اسے رد کر دیا‘ یا اس میں سے جوبات اچھی اور مفید معلوم ہوئی اسے مان لیا اور باقی کو بے پروائی سے نظرانداز کردیا۔ حالانکہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) ’’میں نے تمھارے لیے اسلام کو بطور طریق زندگی مقرر اور پسند کیا ہے‘‘۔لہٰذا اس کا فطری تقاضا تھا : اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط(البقرہ ۲:۲۰۸) ‘یعنی پورے کے پورے اسلام کے اندر آجائو اور کسی معاملے میں بھی اسے چھوڑ کر شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ پھر فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف(اٰل عمران۳:۱۹)۔ یعنی اللہ کے نزدیک انسانوں کے لیے زندگی بسر کرنے اور اپنے معاملات کو چلانے کا صحیح طریقہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے۔ مزید فرمایا: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج (اٰل عمران۳:۸۵)۔ یعنی جو بھی (مرد ہو یا عورت) اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اور طریق اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس انحراف کو معاف کیا جائے گا۔

لہٰذا دین کے سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ بالکل یکسو ہوکر اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو‘ اپنے معاملات اور گھربار کو سنوارا اور درست کیا جائے‘ اور سب سے پہلے اپنی ذات کو اسلام کا نمونہ بنایا جائے۔ جانتے بوجھتے اسلام اور ایمان کے خلاف گواہی دینے والا آپ سے کوئی فعل و قول سرزد نہ ہو۔ اقامت دین اور شہادتِ حق کا پہلا تقاضا یہی ہے۔ آپ کا یہ طرزِعمل آپ کو سراپا دعوت بنا دے گا خواہ آپ زبان سے کچھ بھی نہ بولیں۔

۲-  اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں ‘اپنے ہمسایوں اور دوسری ملنے جلنے والی خواتین کے گھروں کو بھی جاہلانہ رسم و رواج‘ شرک و بدعت اور خدا کی نافرمانی   کے طریقوںسے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ بے شمار غیراسلامی باتیں‘ پرانے جاہلانہ و ہندوانہ رسوم و رواج کی شکل میں بھی اور نئی مغربی کافرانہ تہذیب اور نت نئے فیشنوں کی صورت میں بھی‘ ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ ان کو مسلم گھرانوں کی زندگی سے خارج کیے بغیر اسلام کے تصورِ شرم و حیا کے لیے موجودہ معاشرے میں جگہ پیدا کرنا سخت مشکل ہے۔ البتہ سلامتی کا راستہ‘ زندگی بعد موت‘ خطبات‘ پردہ اور سورۂ نور کے مضامین کو بتدریج ان کے ذہنوں میں اتار کر آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔

۳-  اَن پڑھ اور معمولی پڑھی لکھی خواتین کو بڑے پیمانے پر زبانی علمِ دین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دَوراولیٰ کے مرد و خواتین نے سارا کام زبانی تبلیغ کے ذریعے اور بالکل اَن پڑھ قوم میں ہی کیا تھا اور پھر انھی بے پڑھے لکھے لوگوں نے ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا۔ اس غرض کے لیے وسیع پیمانے پر حلقہ ہاے درس قرآن و حدیث قائم کریں۔ دین پھیلانے کا اس سے مؤثر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔

۴-  خوش حال گھرانوں میں خدا سے غفلت اور دین اسلام سے انحراف کی بیماری عام ہے اور یہ لوگ آخرت سے بے فکر اور دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میںمصروف ہیں۔ ان میں آزادانہ اختلاط مرد و زن‘ وباکی شکل اختیار کرگیا ہے۔ تحریک سے متعلق پڑھی لکھی خواتین ان لوگوں کے سدھار کی بھی فکر کریں‘ کیونکہ یہ طبقے معاشرے میں برائی کے جراثیم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے جو لوگ کوشش کے باوجود توجہ نہ دیں‘ ان پر زیادہ وقت ضائع کرنے کے بجاے اپنی ان دوسری بہنوں کی طرف توجہ دیں جن کو آخرت کا کوئی خوف ہو کیونکہ ہمارا کام خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے پھر جس کا جی چاہے خدا کی فرماں برداری کی راہ اختیار کرے اور جس کا جی چاہے کفر میں پڑا رہے۔

۵-  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو‘ اپنے بچوں کی خاص طور پر فکر کریں۔ خدا کی توحید‘محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت‘ قرآن کے خدا کی کتاب ہونے اور آخرت میں اپنے رب کے حضور پیش ہونے اور حساب کتاب کا نقش ان کے ذہنوں پر گہرے سے گہرا بٹھانے کی کوشش کریں‘ اور جیسے ہی ان کا شعور بڑھے اس کے مطابق ایمان کی تفصیل اور تقاضے ان پر واضح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نقش اگر چھوٹی عمر میں صحیح طور پر ذہن پر ثبت ہوجائے تو انسان ہمیشہ کے لیے سدھرجاتا ہے۔

۶-  اپنے گھر کے مردوں کو اگر وہ غلبۂ اسلام کی راہ میں کوئی خدمات انجام دے رہے ہوں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کی معاون و مددگار بنیں‘ اور اگر خدانخواستہ اس بارے میں کمزور‘ غافل یا کسی اور طرح کے غلط مشاغل میں مبتلا ہوں تو انھیں راہِ راست پر لانے کی صبروتحمل اور حکمت کے ساتھ سعی کریں۔ اس کا بھی کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ان کے اندر مرنے کے بعد خدا کے روبرو جواب دہی کا یقین پیدا کیا جائے۔

۷-  خواتین کا یہ بھی فرض ہے اور سب سے اہم فرض ہے کہ اپنے گھروں میں حرام کی کمائی نہ گھسنے دیں۔ کیونکہ حرام کی کمائی کے کپڑے میں ملبوس جسم کی کوئی عبادت خدا کے ہاں قبول نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی جنت میں داخلہ ممکن ہوگا۔

معاشرے کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ بدی اور برائی کا سیلاب مختلف شکلوں اور لبادوں میں نئی مسلمان پود کے ذہنوں کو مسموم کرتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ‘ ثقافت‘ ورائٹی اور فیشن شو‘ فن فیئرکی تقاریب اور مینابازار اور خواتین کے حقوق اور ترقی کے نام پر بے راہ روی‘ بے پردگی اور حیاسوزی کی جو فضا مسلمان بچیوں کے اردگرد پیدا کی جارہی ہے‘ اس کے تباہ کن نتائج سے انھیں بچانے کے لیے خدا کی فرماں بردار خواتین پر لازم ہے کہ بدی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے تمام ممکن تدابیر سوچیں اور اختیار کریں۔ آزادیِ نسواں کی نام نہاد تحریک سے متاثر اور اسلام سے بے بہرہ خواتین کو ازواج مطہرات کے حالاتِ زندگی اور اسلام میں عورت کے لیے اعلیٰ و اشرف مقام سے آپ لوگ روشناس کرائیں‘ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی مثال آج تک کسی معاشرے میں موجود نہیں اور نہ آیندہ ممکن ہے‘ اور عورت کا یہی مقام اسے دنیا میں سرفرازی و احترام اور آخرت میں سرخروئی عطا کرسکتا ہے۔

نفاذ اسلام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وطن عزیز کی عورتیں بھی اپنے ایمان کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو کماحقہ‘ محسوس اور ادا کرنے لگیں۔ خوش قسمت ہیں ہماری وہ بہنیں اوربیٹیاںجن کو اللہ نے اپنے دین کو سربلند کرنے کے کام میں لگا دیا ہے اور وہ اس راہ میں اپنی جان کھپا رہی ہیں۔ خدا نے ایمان‘ عقل ‘ گھرانہ اور مال و دولت کی شکل میں آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خدا کے اس احسانِ عظیم کا شکر آپ اسی طریقے سے ادا کرسکتی ہیں کہ دین کی دعوت کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں۔ نیکی کو جتنا فروغ ہوگا برائی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ اگر آپ نے غلبۂ اسلام کے لیے اپنی جدوجہد کو اخلاص‘ خدا کی رضا اور خوشنودی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا تو ان شاء اللہ اس ملک کو صحیح معنوں میں اللہ کا ملک بنانے کی جو کوششیں تحریکِ اسلامی کر رہی ہے‘ اس کی برکت سے اسلامی انقلاب کی منزل قریب تر آجائے گی اور اس کا جو بے حدوحساب اجر آپ کو ملے گا وہ تصور سے بھی بالاتر ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ازواجِ مطہرات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اور آخرت میں ان کی صف میں شامل فرمائے‘ اور دین حق کی راہ میں آپ کو اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کے مصداق بنائے۔ آمین!

عالمِ اسلام پر امریکی یلغار نے ایک طوفان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یوں تو ہر مسلمان ہی مشکوک اور مشتبہ اور ہر مسلم ملک ’خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے مگر بعض خطے خصوصی توجہ کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ یمن بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی طرح یمنی حکومت امریکا کی حامی‘ اتحادی اور نام نہاد ’خاتمۂ دہشت گردی‘ منصوبے میں فعال کردار ادا کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر امریکی قیادت کو ابھی تک مکمل اطمینان اور یک سوئی نہیں ہے۔       وقتاً فوقتاًذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے یہودی اور امریکی انتظامیہ میں گھسے ہوئے ان کے شاگرد یہ شوشہ بھی چھوڑتے رہتے ہیں کہ عالمِ جدید کے خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ اسامہ بن لادن کا آبائی مسکن یمن ہی میں ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے کہ بن لادن خاندان سعودی عرب کے بہت سے دیگر طاقتور‘ مال دار اور بااثر خاندانوں کی طرح اصلاً حضرموت (یمن) سے تعلق رکھتا ہے مگر یمن کو نشانۂ انتقام بنانے کے لیے یہ دور کی کوڑی ہے۔

سعودی عرب کے جنوب میں واقع ۵ لاکھ ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ اور ایک کروڑ ۷۰لاکھ سے زاید آبادی پر مشتمل جمہوریہ یمن میں اس وقت مختلف علاقوں میں حکومتی فوج اور  مسلح سرکاری اہل کاروں کا مقابلہ سرکاری ذرائع کے مطابق ’القاعدہ‘ کے جنگجوئوں سے جاری ہے اور دونوں جانب کا بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اس شورش کا مرکز یمن کے صدر مقام صنعاء سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب صعدہ کے صوبے میں واقع ہے جو قبائلی مزاج‘ روایات اور پہاڑی جغرافیائی ماحول رکھتا ہے۔ مران کے پہاڑ امریکا مخالف عناصر کی پناہ گاہ ہیں اور ایک مذہبی رہنما حسن بدرالدین الحوثی ان کی قیادت کر رہا ہے۔ وہ زیدی شیعہ مسلک کا نمایندہ ہے اور حکومتی الزامات کے مطابق اس کا رابطہ ایک جانب لبنان کی شیعہ جہادی تنظیم حزب اللہ سے اور دوسری جانب اسامہ بن لادن سے ہے۔ یمن کی حکومت اس خانہ جنگی میں وسائل‘ مالی اور افرادی قوت ضائع کرنے کے ساتھ راے عامہ کی نفرت کا بھی شکار ہو رہی ہے‘ مگر امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ابھی   صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت القاعدہ کو موثرانداز میں کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

الحوثی کا تعلق حزب اللہ سے جوڑنے کا دعویٰ خود صدرِ یمن نے علما سے ملاقات کے دوران کیا تھا مگر حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے کھلے عام اس کی تردید کر دی ہے (بحوالہ انٹرپریس نیوز سروس‘ روزنامہ ڈان‘ ۹ جولائی ۲۰۰۴ئ)۔ جہاں تک القاعدہ سے ان کا ناطہ جوڑنے کا معاملہ ہے وہ بھی محل نظر ہے اور امریکی و برطانوی ایجنسیوں کی عراقی ہتھیاروں کے متعلق رپورٹوں کی طرح نہایت غلط معلومات پر مبنی نظرآتاہے۔ الحوثی اور القاعدہ کا نام جن لوگوں کو دیا گیا ہے‘ ان کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔  الحوثی کے پورے سیٹ اپ کا جو تعارف اسلام آن لائن پر دستیاب ہے وہ ان دعوئوں کا منہ چڑاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ الحوثی کی طرح یمن کے سنی علما بھی امریکیوں سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کرتے رہتے ہیں۔ ان کو القاعدہ اور اسامہ کے ساتھی شمار کر کے پکڑا بھی گیا ہے اور گوانتاناموبے کے علاوہ افغانستان‘ مصر اور خود امریکا میں بھی ان کی نظربندی کی خبریں اب ساری دنیا میں گونج رہی ہیں۔

۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد یمن پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پکڑدھکڑ فوراً شروع ہوگئی۔ ردعمل کے طور پر یمن میں امریکی مشنریوں کو یمنی عوام نے قتل کیا‘ امریکی بحری جہاز کول اور فرنچ ٹینکر لمبرگ پر حملے ہوئے۔ چنانچہ القاعدہ کے شبہے میں کئی لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ان میں سے ۱۵ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں میں مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ عدالت نے سماعت کی اجازت بھی دے دی ہے۔ (ڈان‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۴ء )

یمنی پارلیمنٹ میں اگرچہ صدر کی جماعت حکمران پیپلز کانگریس کو اکثریت حاصل ہے مگر اپوزیشن بھی خاصی مضبوط ہے اور اس کے نمایندگان حکومتی ارکان سے کہیں زیادہ بیدارمغز‘ محنتی اور تعلیم یافتہ ہیں۔ پھر حکومت کی امریکا نواز پالیسی نے اسلامی گروپ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے سیاسی منشور میں کئی امور میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔

قطر کے’اسلام آن لائن‘ نیٹ ڈاٹ‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق: ’’وزیر داخلہ رشاد العلیمی نے بیان دیا کہ حالیہ جھڑپوں میں صعدہ کے علاقے میں ۱۱۸ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ یہ جھڑپیں الحوثی کے مسلح دستوں کے مقابلے پر ۲۰ جون کو شروع ہوئی تھیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ ان جھڑپوں میں ۳۲ جوان اور افسران کام آئے ہیں‘ جب کہ ۸۶ انتہاپسند بھی مارے گئے ہیں‘‘۔

جب وزیرداخلہ یہ بیان دے رہے تھے اس وقت فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اطلاع دی کہ الحوثی کے حامیوں نے جھڑپوں کے دوران سات مزید حکومتی کارندمے قتل کر دیے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ وزیرداخلہ نے اپنے پارلیمانی بیان میں یہ بھی کہا کہ الحوثی کے تمام ساتھیوں کو ماہانہ ۲۰۰ ڈالر معاوضہ ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی خطرناک بیرونی قوت ان کی مالی امداد کر رہی ہے۔ وزیرموصوف اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پارلیمان میں پیش نہ کر سکے۔ حزب مخالف کے رکن پارلیمان سلطان الفنوانی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس نازک اور اہم مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی مقرر کردی ہے جو الحوثی سے مذاکرات کرے گی اور ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دے گی۔

حسن بدر الدین یمن میں تو کافی عرصے سے جانی پہچانی شخصیت تھی مگر اسے زیادہ عالمی شہرت حالیہ واقعات ہی سے ملی ہے۔ یہ سیاسی جماعت حزب الحق میں شامل تھا۔ اس کی عمر اس وقت ۴۵ سال ہے۔ حزب الحق کے ٹکٹ پر وہ ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۷ء تک رکن پارلیمان رہا۔ پھر اس نے سیاسی جماعت چھوڑ کر ’الشباب المومن‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کرلی۔ ان کا نعرہ ’’مرگ بر امریکا‘ مرگ بر اسرائیل‘ لعنت بر یہود‘ فتح اسلام‘‘ تھا۔ پہلے یہ تعلیمی اداروں میں منظم ہوئے۔ پھر صعدہ کے علاقے میں دینی مدارس اور جامعات قائم کیں۔ شروع میں انھیں نہ صرف بے ضرر تنظیم سمجھا گیا بلکہ حکومت نے ان کی تعلیمی ضروریات کے لیے ان سے تعاون بھی کیا‘ خود صدرِمملکت نے حال ہی میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

قدس پریس کے حوالے سے اسلام آن لائن نے بیان کیا ہے کہ اسلامی جماعت’ ’التجمع الیمنی للاصلاح‘‘ کے اثرات زائل کرنے اور شیخ عبدالمجید زندانی کے سیاسی رسوخ کو محدود کرنے کے لیے حکومت کچھ عرصے سے ایسی مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھی۔

عراق میں مقتدیٰ الصدر بھی اچانک جہادی منظر پرنمودار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھاگیا۔ وہ ابھی ۴۰سال سے بھی کم عمرکا نوجوان ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی الحوثی چھا گیا ہے۔ اس کی عمر ۴۵سال ہے۔ دونوں علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی وزیرداخلہ کے بیان مطابق الحوثی کو مہدی المنتظرمانا جاتا ہے اور اس کے پیروکار اس کی مکمل وفاداری و اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۱۹۹۴ء کی یمنی خانہ جنگی اور سیاسی بدامنی کے خاتمے کے لیے جن قوتوں نے حکومت کے ساتھ دیا تھا اور یمن کے اتحاد کے نعرے کو عوامی پذیرائی ملی تھی‘ وہ سب حکومت کی موجودہ پالیسی کے شدید مخالف ہیں۔ الاصلاح کے بانی رہنما اور یمن کی معروف یونی ورسٹی جامعہ الایمان کے روحانی پیشوا شیخ عبدالمجیدزندانی اگرچہ یمن کے اندر مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں مگر وہ سیاسی مظاہروں کے ذریعے امریکا کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی مدد سے عراقی عوام کی حمایت کے فریضے سے کبھی غافل نہیں رہے۔ وہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے صدرِ مملکت کا نسلی تعلق ہے اور تجزیہ نگاروں کی آرا اس بارے میں مختلف ہیںکہ دونوںمیں سے اس بہت بڑے قبیلے کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔ صنعاء اور دیگر شہروں میں الاصلاح کے پلیٹ فارم سے عوامی مظاہرے اور ملین مارچ کی کامیاب حکمت عملی اور قوت کا مظاہرہ الاصلاح کی قوت اور شیخ زندانی کی کرشمہ ساز شخصیت کا تعارف اور اعتراف ہے۔ شیخ زندانی نے عملاً جہادِ افغانستان میں حصہ لیا تھا اور اسامہ بن لادن کے قریب ترین ساتھی بلکہ اکانومسٹکے الفاظ میں روحانی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔

شیخ عبدالمجید زندانی بارہا پاکستان آچکے ہیں۔ ان کا سیاسی منشور بالکل واضح ہے۔ وہ زیرزمین سرگرمیوں یا مسلمان معاشرے میں مسلح جدوجہد کو درست قرار نہیں دیتے۔ یمن میں آبادی کی کل تعداد سے تین گنا بندوقوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور یمنی نظام نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اکانومسٹ کے نمایندے مقیم قاہرہ نے ۴ جنوری ۲۰۰۳ء کی اپنی ایک رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا: ’’دنیا کا سب سے زیادہ بدقسمت شخص وہ ہے جسے شیر پر سواری کرنی پڑے یا پھر اسے یمن کا حکمران بنا دیا جائے۔ یہ ضرب المثل اس وقت کی ہے جب یمن میں اس کے شہریوں کی تعداد سے بندوقوں کی تعداد زیادہ تھی…‘‘

اسلام آن لائن کے مطابق شیخ زندانی بڑے محتاط ہیں مگر حکمت کے ساتھ اپنا جرأت مندانہ موقف اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف احتجاج ہر روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں انتہا پسندی اور مسلح جدوجہد کی اصل وجوہات کو نہ حکومت یمن درخور اعتنا سمجھتی ہے‘ نہ ان کے امریکی سرپرست ہی اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا کی یہ سرشت ہے کہ جو اس کے سامنے بچھتا چلا جائے وہ اسے دباتا چلا جاتا ہے‘ جو ڈٹ جائے‘ اس سے گفت و شنید اور مذاکرات کرتا ہے۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کی صدرِ یمن سے حالیہ ملاقات اور امریکا کی طرف سے اس مطالبے کو کہ حکومت مزید آہنی شکنجہ استعمال کرے‘ علما اور قوم پرست لیڈروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک امریکی افسر کا لب و لہجہ ایک وائسرائے کا سا تھا‘ جب کہ صدرِمملکت سرتسلیم خم کیے چلے جارہے تھے۔ادھر یمن کے علما نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ حکومت ملک میں امن قائم کرنے کے بجاے اسے بدامنی کے حوالے کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ایک جانب پارلیمانی مصالحتی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور دوسری جانب حکومتی اہل کاروں نے حسن الحوثی کے نائب اور سابق رکن پارلیمان عبداللہ عیظہ الرزامی کو قتل کر دیا ہے۔ یہ صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی حکومت پاکستان نے ہمارے قبائلی علاقوں وانا اور جنوبی وزیرستان میں پیدا کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ڈرامے کا ڈائریکٹر ایک ہی ہے‘ ایکٹر مختلف ہیں۔

جنوبی سوڈان کی بغاوت کے بعد اب مغربی سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ صوبہ دارفور میں ہنگاموں کا آغاز فروری ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک نے ان کا ذکر نہیں کیا‘ کیونکہ تب امریکا سوڈانی حکومت کے ساتھ جنوبی علیحدگی پسندوں کا معاہدہ کروانے میں مصروف تھا۔ اس اثنا میں متعدد بار امریکی ذمہ داران نے سوڈانی حکومت کی وسیع النظری اور حقیقت پسندی کی تعریف کی‘ سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بات آگے بڑھائی۔ یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ جنوبی باغیوں سے معاہدہ ہوجائے تو اس پر دستخط کرنے کے لیے فریقین واشنگٹن آجائیں تاکہ خود صدر بش اس معاہدے کو اپنی آشیرباد و ’’برکات‘‘ سے نوازیں۔ اس دوران باغیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ دھمکیاں‘ لالچ‘ تعریفیں سب دائو آزمائے گئے۔ پھر جیسے ہی کینیا میں دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد مئی ۲۰۰۴ء میں طرفین کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ تو دارفور دنیا کا خطرناک ترین مقام بن گیا۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ براے سوڈان موکایش کابیلا کے الفاظ میں: ’’دارفور میں حقوق انسانی کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہے‘‘۔

۲۹ جون کو امریکی وزیرخارجہ ۱۹ سال کے بعد پہلی بار سوڈان گیا تو اس نے بیان دیا: ’’اگر دارفور میں عرب ملیشیا کو نہ کچلا گیا تو سلامتی کونسل کے ذریعے کارروائی کریں گے‘‘۔ یعنی‘ سوڈان پر پابندیاں عائد کر دیں گے‘ فوج کشی کریں گے۔ امریکی مفادات کی محافظ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی اگلے روز خرطوم پہنچا اور اس نے بھی لَے میں لَے ملائی: ’’سوڈانی حکومت متاثرین تک مغربی امدادی ٹیمیں نہیں پہنچنے دے رہی‘‘۔

صوبہ دارفور سوڈان کے کل رقبے (۲۵ لاکھ کلومیٹر مربع) کا پانچواں حصہ ہے یعنی‘ ۵لاکھ ۱۰ہزار کلومیٹر مربع۔ سوڈان کے مغربی کنارے پر واقع ہونے کے باعث اس کی سرحدیں لیبیا‘ چاڈ اور جمہوریہ وسطی افریقا سے ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو افریقی النسل اور وہاں کی اصل آبادی اور کچھ کو عربی النسل اور بعد میں آنے والے کہا جاتا ہے۔ دارفور جنوبی سوڈان سے یوں مختلف ہے کہ صوبے کی ۹۹ فی صد آبادی مسلمان ہے اور ایک سروے کے مطابق آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دنیا میں حفاظ کرام کی سب سے زیادہ تعداد اس صوبے میںہے۔ صوبے کی زبوں حالی‘ فقر اور بھوک کے باعث تقریباً ہر موسم باراں میں قبائل کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ گلہ بانی وہاں کا بنیادی پیشہ ہے۔ سوڈان میں کثیر تعداد میں پائی جانے گائیوں کا ۲۸ فی صد حصہ دارفور میں ہے‘ جن کی تعداد دو کروڑ ۸۰ لاکھ گائیں بنتی ہے۔ بارش کے بعد چراگاہوں پر جھگڑا معمول کی بات ہے۔ دارفور کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک میں پوری کی پوری آبادی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی دارفور کو ہمیشہ مہدی خاندان اور ان کی پارٹی ’حزب الامۃ‘ کا گڑھ سمجھا گیا۔ لیکن صوبے کی کسمپرسی اور قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کے لیے     نہ صادق المہدی حکومت کچھ کر سکی اور نہ ان سے قبل یا ان کے بعد کی حکومتیں۔

اس دوران وہاں مختلف سیاسی قوتیں ظہور پذیر ہوتی گئیں۔ ’تحریک آزادی سوڈان‘ کے نام سے باغیانہ عناصررکھنے والے پارٹی منی ارکون بیناوی کی زیرقیادت وجود میں آئی۔ ’تحریک انصاف و مساوات‘ کے نام سے خلیل ابراہیم کی سربراہی میں ایک پارٹی بنی‘ جس کے بارے میں کہا گیا کہ صدر بشیر سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اس کی حمایت کر رہے ہیں اور خلیل ابراہیم ڈاکٹر ترابی کے شاگرد و معتقد ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروہ عرب قبائل سے متعلق ان لوگوں کا بنا جن کی شہرت ’جنجوید‘ کے نام سے ہوئی۔ یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے‘ جن: شخص‘ جاو: G3 سے مسلح‘وید: گھڑسوار یعنی‘ G3گن سے مسلح گھڑسوارآدمی۔ امریکا سمیت تمام عالمی قوتیں سوڈانی حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ:’ ’حکومت افریقی قبائل کے خاتمے کے لیے عرب جنجوید کو مسلح کر رہی ہے اور جنجوید نے بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے لاکھوں افریقی قبائل کو بے گھر کر دیا ہے‘ اور وہ اب چاڈ اور سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ کہا گیا کہ سوڈانی حکومت نے خود بھی جہازوں اور توپوں کے ذریعے بم باری کی ہے‘قتل عام کی مرتکب ہوئی ہے‘ اور اب عالمی امدادی تنظیموں کو امدادی سامان لے جانے سے روک رہی ہے اور یہ کہ جب تک جنجوید کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ یورپی امدادی تنظیموں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ ’فاشر‘ اور ’نیالا‘ (شمال دارفور اور جنوب دارفور کے دارالحکومت) کی تعمیر و ترقی نہیں کی جاتی۔ سوڈان کے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کی جاسکتی ہیں‘‘۔

سوڈانی صدر عمر حسن البشیر نے انقلاب کی پندرھویں سالگرہ پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’دارفور کا مسئلہ ہماری حکومت وجود میں آنے سے پہلے کا ہے اور ہم (جنوب کی جنگ میں جلتے رہنے اور اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کے باوجود) اس کے حل کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ’جنجوید‘ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک گروہ ہے اور حکومت ان سے بھی اسی طرح جنگ کرے گی جیسے کسی بھی دوسرے باغی سے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ’’لیکن ہمیں یہ نہ سمجھایا جائے کہ ہم صرف عرب قبائل کو تو اسلحے سے پاک کردیں اور دوسروں کو رہنے دیں۔ ہم بلااستثنا ہر قانون شکن سے ہتھیار چھین کر رہیں گے‘‘۔ انھوں نے اس بات کی بھی نفی کی کہ دارفور میں (امریکی دعوے کے مطابق) نسلی تطہیر کی کوئی کارروائی جاری ہے۔ صدربشیر نے نام لیے بغیریہ الزام بھی لگایا کہ ’’بیرونی ہاتھ اب سوڈان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور دارفور کے بہانے سوڈان میں وسیع تر مداخلت چاہتے ہیں‘‘۔

باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں جو اسلحہ برآمد ہوا ہے‘ وہ اسرائیل کا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل اس سے قبل جنوبی باغیوں اور پڑوسی ممالک کو بھی بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرچکا ہے۔ امریکا بھی دارفور کے ذریعے سوڈان میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔ مصری اخبارات نے بعض سوڈانی سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ کولن پاول نے اپنے دورہ خرطوم میں یہ ’’فراخ دلانہ‘ تجویز دی کہ’ ’دارفور میں امن قائم کرنے کے لیے امریکا اپنے ۲۵ ہزار فوجی سوڈان بھیجنا چاہتا ہے‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اس سے ایک طرف تو امریکا سوڈان کے حال ہی میں دریافت ہونے والے پٹرول میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ جس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کے باعث آیندہ پانچ سال میں اس کی روزانہ پیداوار ۲۰لاکھ بیرل ہوجائے گی۔ دوسری طرف عراق و افغانستان میں درپیش نقصانات سے توجہ ہٹانے میں مدد ملے گی اور آیندہ امریکی انتخابات میں بش کاایک یہ کارنامہ بھی بیان کیا جا سکے گا کہ اس نے سوڈان میں افریقی قبائل کو امن لے کر دیا‘ اس لیے اب امریکی سیاہ فام ووٹ کا حق دار ہے۔ کولن پاول کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سوڈانی وزیرخارجہ مصطفی عثمان اسماعیل نے بیان دیا کہ ’’اگر تو پاول کا دورہ دارفور میں ایک انسانی بحران میں قابو پانے میں مدد دینے کے لیے ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دورہ عالمی برادری کو ہمارے خلاف لاکھڑا کرنے یا امریکا کے انتخابی معرکے میں کامیابی کی خاطر ہے تو اس سے نہ تو دارفور کو کوئی فائدہ ہوگا اورنہ دوطرفہ تعلقات کو‘‘۔

امریکی پالیسی کے قطب نما معروف ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ ICG نے ۹مئی کو اپنی ایک رپورٹ میں سوڈانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’دارفور جنگ نہ صرف سوڈان اور چاڈ کی حکومتوں کے لیے بالواسطہ خطرہ ہے بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ      اس سے سوڈان کے باقی علاقوں میں بھی بغاوت بھڑک اٹھے… یہ بھی ممکن ہے کہ سوڈان کے       مشرق و مغرب میں ایسی مزید باغی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس ادارے نے   کچھ تجاویز سوڈان حکومت کو دی ہیں‘ جن میں سرفہرست عالمی نگرانی اور عالمی امدادی تنظیموں کو شورش زدہ علاقوں میں بلاروک ٹوک جانے کی ضمانت دینا اور جنجوید کا خاتمہ ہے۔ پھر سلامتی کونسل کے لیے سفارشات ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرے اور عالمی مذاکرات کا اہتمام کرے اور پھر امریکا ‘برطانیہ‘ اٹلی اور ناروے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مزید عالمی دبائو کے ذریعے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرے جو دارفور میں انسانی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی راہ میں آڑے آتی ہیں‘‘۔ ان ممالک سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ ’’فرانس اور چاڈ کو شامل مشورہ رکھیں‘‘۔

اگرچہ ان سفارشات‘ بیانات اور دھمکیوں کے ساتھ ہی ساتھ امریکا اور حواریوں نے اس وضاحت کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ سوڈان کے خلاف لشکرکشی نہیں چاہتے‘ لیکن یورپی یونین کی عسکری کمیٹی کے سربراہ فن لینڈ کے جنرل گوسٹاف ہاگلان نے یہ بیان دے کر ’غلط فہمی‘ دُور کردی کہ ’’یورپی فوجی قوت صوبہ دارفور میں داخل ہو سکتی ہے‘‘۔

اس طرح سوڈان کے خلاف اب ایک نیا خطرناک اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ’ ’اگر جنوبی حلیف معاہدے سے مطمئن نہ ہو سکے تو  حق خودارادی استعمال کرتے ہوئے چھے سال کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے سوڈان سے علیحدہ ہوسکیں گے‘‘۔ جنوبی سوڈان کا رقبہ سوڈان کا ایک چوتھائی ہے۔ یعنی دارفور اور جنوب مل کر سوڈان کا نصف رقبہ بنتے ہیں اور اس نصف کو  شورش زدہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ICG کے ’خدشات‘ کی روشنی میں مشرقی سوڈان کے ’البجا‘ اور شمالی سوڈان کے ’الکوش‘ قبائل کو بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ تم تو بہت مظلوم و محروم قبائل ہو‘ جب کہ خرطوم میں بیٹھے حکمران پٹرول کی   بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

سوڈان کے خلاف دن بدن تنگ کیا جانے والا گھیرا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن دو متضاد وجوہات نے اس کی سنگینی و اہمیت میں انتہائی اضافہ کر دیا ہے۔ ایک وجہ تو سوڈان کی کمزوری کا ہے کہ بدقسمتی سے انقلاب کی بانی قیادت صدر عمرحسن البشیر اورڈاکٹر حسن ترابی میں اختلافات حتمی قطع تعلقی اور جنگ کی کیفیت تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ اب بھی ڈاکٹر ترابی اپنے کئی ساتھیوں سمیت جیل میں محبوس ہیں اوران پر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔ سب اپنے پرائے اس پر متفق ہیں کہ اس لڑائی سے (اس میں خواہ کتنے ہی اصولی اختلافات ہوں) طرفین ہی نہیں سوڈان کمزور ہوا ہے اور دشمن اس پر جھپٹنا پہلے سے آسان سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان کی قوت کا باعث ہے کہ گذشتہ چند سال میں چین اور سوڈان کے تعاون سے دریافت ہونے والے پٹرول کی مقدار و معیارنے امریکا سمیت سب کی رال ٹپکا دی ہے۔ بھارتی بنیا بھی وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔

دارفور‘ جنوبی سوڈان اور قبائلی اختلافات کی آڑ میں امریکا و یورپ کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ تقسیم سوڈان کا ہوا دکھا کر وہاں زیادہ سے زیادہ رسوخ و مداخلت ممکن بنائی جائے  خواہ اس کے لیے فوج کشی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ انھیں سوڈان کے اندرونی حالات سے زیادہ شہ اس بات سے مل رہی ہے کہ ان حالات سے براہِ راست متاثر ہونے والے ملک مصر سمیت تمام  مسلم ممالک‘ اس ساری صورت حال سے لاتعلق بیٹھے ہیں۔

معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصولِ تعلیم

سوال : ہمارا معاشرہ تیزی سے اخلاقی بگاڑ اور انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ سرعام وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں کیا خواتین کا گھر سے نکل کر بالخصوص دوسرے شہر میں جاکر تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟ پہلی بات تویہ ہے کہ محرم کے بغیر گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں‘ خواتین کالجوں میں بھی اساتذہ مرد ہوتے ہیں۔ گرلز ہوسٹلوں میں مرد ملازموں سے واسطہ پیش آتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں ایسے موضوعات پڑھنے ہوتے ہیں جہاں حیا آڑے آتی ہے۔ اگر یہ مضامین مرد اساتذہ پڑھائیں تو یہ اور بھی اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں کا ماحول تو اور بھی زیادہ غیر مناسب ہے۔ اگر ان حالات میں خواتین تعلیم حاصل کریں تو متعدد واضح اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

خواتین کی تعلیم کے حصول میں والدین کے پیش نظر ملازمت بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اسلام میں خواتین کا اہم ترین دائرہ کار گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا اور آیندہ نسلوں کی تربیت ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں انھیں گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا چاہیے اور اسی ضرورت کے تحت علم حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ خواتین کی ملازمت کے نتیجے میں گھر بھی متاثر ہوتا ہے‘ بچوں کی تربیت بھی صحیح نہیں ہو پاتی اور معاشرتی انحطاط میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل خواتین کی ملازمت کا تناسب بہت کم تھا اور معاشرتی بگاڑ اور جرائم کا تناسب بھی کم تھا۔ موجودہ صورت حال بڑی حد تک اس کے برعکس ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ موجود اخلاقی بگاڑ اور معاشرتی انحطاط میں خواتین کی تعلیم کی کیا حدود ہیں؟ کیا خواتین کو صرف اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر علم حاصل کرنا چاہیے یا ملازمت کے حصول کے لیے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔

جواب :آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور ان کا براہ راست تعلق اسلام کے نظام حیا، نظام معاشرت اور نظام تعلیم کے ساتھ ہے۔ بلاشبہہ اسلام حیا کا دین ہے اور اسے ایمان کا بڑا حصہ قرار دیتا ہے۔ حدیث نبویؐ میں بار ہا یہ ذکر آتا ہے جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ایسے ہی حیا کا ایمان کا لازمی جزو ہونا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے گھروں میں داخلے کے وقت لازمی کر دیا کہ پہلے سلام کر کے اجازت لی جائے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ جن تین اوقات میں ایک شخص استراحت کرتا ہے‘ ان میں بچے اور ملازم بھی بغیر اجازت اندر داخل نہ ہوں۔ قرآن کریم نے گفتگو اور آنکھ کے حوالے سے بھی ہدایت کی کہ اس میں حیا کا خیال رکھا جائے۔

کیا اس کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ ایک طبیب اور ایک سرجن کسی مریض کے جسم کو دیکھے بغیر غض بصر کرتے ہوئے محض قیاس اور زبانی تکلیف سننے کے بعد جراحت کر ڈالے؟ یا اسے جراحت سے قبل پہلے انسانی جسم کے اعضا‘ ظاہر ہوں یا پوشیدہ‘ سب کا جائزہ اور ان کے ایک ایک ریشے کے بارے میں تجرباتی معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ حدیث اور فقہ کی ہر مستند کتاب میں طہارت اور ناپاکی کے بارے میں عمومی اور جزوی تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ کیا ان کا بغور مطالعہ کیے بغیر ایک مسلمان مرد اور عورت دینی فرائض صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے‘ اور کیا ان معلومات کا بغور اور تحقیق کے ساتھ مطالعہ کرنے کے نتیجے میں کسی مسلمان مرد یا عورت میں حیا میں کمی واقع ہوتی ہے؟

جن علوم کا حاصل کرنا دینی فرائض کی ادایگی میں آسانی پیدا کرتا ہے‘ وہ مقاصد شریعت کی تکمیل کرتے ہیں اور ان کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘ نہ ان کی تعلیم سے کسی کو روکا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایک فقیہہ یا تفسیر و حدیث کا استاد بھی اگر ذہن میں کجی اور دل میں فتنہ رکھتا ہے تو وہ ایک سادہ سی بات کو سخت جنسی بنا سکتا ہے‘ اور اگر وہ فتنے سے خالی ذہن رکھتا ہے تو ایک جنسی مسئلے کو بھی بغیر کسی جذباتیت کے بیان کر سکتا ہے۔ اصل مسئلہ نفس مضمون کا نہیں‘ ان افراد کے رویوں (attitudes) اور طرز فکر کا ہے جو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر شعبۂ علم کی تعلیم اس طرح دی جا سکتی ہے کہ حیا اور اسلامی آداب پر پورا عمل بھی ہو اور نازک سے نازک مضامین سمجھائے بھی جا سکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو انسانی جان اور صحت کو خطرہ لاحق ہو گا جو شریعت کے مقاصد کے منافی ہو گا۔

جہاں تک معاشرتی پہلو کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ایک مسلمان خاتون بلکہ عمومی طورپر خواتین کی ذمہ داریوں میں بچوں کی تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے بغیر انسانیت کا ثقافتی سفر اور تہذیبی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ اسی بنا پر ماں کے معاشرتی مقام کو بہت بلند رکھا گیا اور اولاد کو قبل پیدایش اور بعد پیدایش سہولیات فراہم کرنے کے نتیجے میں ماں کو فضلیت سے نوازا گیا۔ اب اگر یہ ماں بچے کی پیدایش کے بعد بچے کی معاشرتی، اخلاقی اور طبعی ضروریات پورا کر رہی ہے، یا بچہ ایسی عمر میں ہے کہ وہ اسکول یا کالج جاتا ہے اور ماں ایسے علم و فن سے آراستہ ہے جس کا فائدہ معاشرے کو ہو سکتا ہے‘ تو کوئی اسلامی اصول اسے اس کام سے نہیں روکتا۔ ہاں‘ اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے وقت اس کا اپنا تحفظ، اس کی صحت اور اوقات کار کا اس کے مناسبِ حال ہونا‘ گھر میں مشاورت کے ساتھ یہ طے کرنا کہ وہ کس نوعیت کے بیرونی کام کرے اور کن سے اپنے آپ کو دُور رکھے‘ یہ سارے معاملات مباح کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں سے کسی کو دلیل شرعی کے بغیر مطلقاً حرام نہیں کیا جا سکتا۔ ذاتی پسندوناپسند کی بنا پر شریعت کی کسی اجازت کو منسوخ کرنے کا حق نہ کسی عالم کو ہے اورنہ کسی مقلد کو۔

گھر کی چار دیواری کا مطلب کبھی یہ نہ تھا کہ ایک خاتون گھر میں قیدرہے ‘نہ تعلیم حاصل کرے اور نہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ کے قرآنی حکم کی کبھی پیروی کرے۔ اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں لیا جاسکتا ہے کہ وہ ۲۴گھنٹے محض بازاروں میں گھومتی رہے کہ مشاہدہ فطرت کررہی ہے! اسلام کی تعلیمات کو توازن اور اعتدال میں رہتے ہوئے اور قرآن وسنت کے مجموعی احکام کی روشنی میں ہی اختیار کیا جائے گا۔ کسی ایک حکم کو الگ کر کے اس کی تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔

خواتین کی تعلیم کو ہمیشہ ملازمت (job) سے وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اگرایک خاتون اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرلے اور اس کی نیت کسی ملازمت کی نہ ہو‘ جب بھی اسے یہ حق قرآن و سنت نے دیا ہے۔

رہا یہ سوال کہ تعلیم کے دوران مخلوط ماحول میں رہنا کہاں تک درست ہے۔ تو اسلام لازمی طور پر یہ چاہتا ہے کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ تعلیمی سہولیات ہوں۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا کیا تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے؟

ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر سے قبل اضطراری کیفیت میں بہت سے ایسے پہلو برداشت کرنے ہوںگے‘ لیکن ایسا کرنے کے دوران ماحول، طریق تعلیم، اور رویے کو اسلامی اصولوں سے قریب ترین لانا ہو گا۔ اگر ایک طالب علم اپنے استاد کے ساتھ گفتگو میں اسلامی آداب کا خیال رکھے تو استاد کبھی اس کے ساتھ ہنسی مذاق اور بے تکلفی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے طبی کالجوں میں پیشہ ورانہ اخلاقیات (professional ethics )کو نافذ کریں اور اس پرسختی سے عمل کیا جائے۔ ایک معروف میڈیکل کالج میں جہاں ابھی تک مخلوط تعلیم ہے‘ یہ کوشش کی گئی ہے کہ طبی اخلاقیات کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور اساتذہ اورطلبا پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے ساتھ اسلامی اخلاق و آداب پر عمل کرسکیں۔

تعلیمی ماحول کو بہتربنانے کے لیے نہ صرف اداروں بلکہ آپ جیسے شہریوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گااور محض سوال کے ذریعے نہیں بلکہ مسلسل خطوط، ملاقاتو ں اور وفود کے ذریعے طبی اداروں کو اس طرف متوجہ کرنا ہو گا۔ یہ کام کسی ایک فقیہہ یا معلم کا نہیں۔ اس میں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ اسی وقت تبدیلی کا آغاز ہو گا اور آخرکار ایسا اخلاقی ماحول پیدا ہوگا جس میں طلبا اور طالبات کو مخلوط اداروں میں بھی اپنے دین و ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ ہدف بہرحال یہی رہے گا کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ اعلیٰ اور بنیادی تدریس کے لیے تعلیم گاہوں کا قیام جلد ازجلد عمل میں آ سکے۔

محرم اور نامحرم کی حدود دین نے متعین کر دی ہیں۔ جس بات کی واضح ممانعت ہے وہ خلوت ہے‘ یعنی تنہائی میں صرف ایک مرد اور عورت کا یکجا ہونا ۔ ایک کلاس میں جہاں ایک طرف لڑکیاں ہوں اور دوسری جانب لڑکے ‘ یکمشت حرام نہیں کہا جاسکتا۔ گو‘ ان کی علیحدہ تعلیم ہمیشہ افضل اور اسلامی اصولوں سے مطابق رہے گی۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے خواتین کی تعلیم کی اہمیت نہیں تھی۔ اسلام روزاول سے تعلیم کی فرضیت کا حکم دیتا ہے جس میں کوئی جنسی تفریق نہیں پائی جاتی۔ اگر کسی دور میں مسلمان اس حکم کی پیروی نہ کریں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹرانیس احمد)

MUHAMMAD, The Prophet of Islam ] محمدؐ، پیغمبراسلام[‘ ڈاکٹر خالد علوی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ بہ اشتراک: انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ دعوہ‘ برمنگھم۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے‘ مجلد: ۲۵۰ روپے۔

ڈاکٹر خالد علوی کی شخصیت علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ علومِ اسلامیہ کی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تحقیق کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اعلیٰ مقام عنایت فرمایا ہے۔ خاص طور پر سیرت و حدیث کے موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف وقیع علمی سرمایہ ہیں۔ قبل ازیں سیرت نبویؐ کے موضوع پر ان کی ایک عمدہ اور منفرد کتاب انسان کامل بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ جس کے لیے‘ ڈاکٹر خالد علوی کے بقول‘ انھوں نے سید سلیمان ندویؒ کی خطبات مدراسسے تحریک حاصل کی تھی۔

زیرنظرکتاب میں انسان کامل کی طرح خیرالبشرؐ کے اوصافِ حمیدہ کو عنوان بنانے کے بجاے‘ روایتی انداز میں سیرت نبویؐ کو تاریخی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے قبل از اسلام حالات سے لے کر نبویؐ مشن کی تکمیل کو نو ابواب میں تقسیم کر کے ترتیب زمانی کے ساتھ تحقیقی انداز میں مرتب کیا ہے۔ تبصرے اور حاشیہ آرائی کے بغیر واقعاتِ سیرت سادہ انداز میں بیان ہوئے ہیں۔ عربی عبارات کے اصل متن کے ساتھ ان کا آسان انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔ تحقیقی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فٹ نوٹ پاورقی حوالوں کے علاوہ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست اور اعلام و اصطلاحات کا اشاریہ بھی بنایا گیا ہے۔

مستند حوالوں سے مزین یہ محققانہ کاوش اگرچہ سیرت نبویؐ کا انگریزی زبان میں ایک سادہ بیان ہے‘لیکن حیات طیبہؐ کے حوالے سے دورِحاضر میں جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے غیر جانب دارانہ تحقیق کی ایک عمدہ مثال ہے۔ خاص طور پر انگریزی دان طبقے کے لیے سیرت جیسے وسیع موضوع پر مناسب سائز میں ایک نامور محقق کے قلم سے مستند کتاب منظرعام پر آنا یقینا ایک اہم بات ہے۔ کتاب کا اندازِ تحریر علما‘ محققین اور عام قارئین‘ حتیٰ کہ انگریزی اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے لیے بھی یکساں مفید ہے۔خاص طورپر مقابلے کے اعلیٰ امتحانوں کے امیدواروں کے لیے یہ کتاب کورس میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر ایس ایم زمان نے کتاب کے علمی و تحقیقی مقام کے پیش نظر اسے دورِحاضرکے لیے اہم اور مفید قرار دیا ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت اور اعلیٰ علمی پاے کی بدولت سال ہذا کی قومی سیرت کانفرنس میں یہ کتاب پاکستان بھر میں اول انعام اور صدارتی ایوارڈ کی مستحق قرار پائی ہے۔

کتاب کے اندازِ تحریر‘ ابواب کی تعداد‘ عنوانات اور بعض الفاظ تک کو پڑھتے ہوئے پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کتاب The Life of Muhammadذہن میں آجاتی ہے کہ دونوں کتابوں کے عنوانات و مشتملات میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔

سیرت طیبہؐ کے موضوع پر وسیع ذخیرئہ کتب میں یہ کتاب ایک عمدہ اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔ راقم الحروف کی رائے میں انسان کاملکے انگریزی ترجمے کی ضرورت باقی ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹرصاحب موصوف اس کام کا آغاز کرچکے ہوں گے۔(محمد حمّاد لکھوی)


خلق خیر الخلائقؐ، طالب الہاشمی۔ ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘لاہور۔صفحات: ۴۷۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

طالب ہاشمی صاحب کی زیرنظر کتاب سیرتؐ طیبہ پر فرامینِ نبویؐ اور اسلامی تاریخ کے برسوں کے گہرے مطالعے اور متعلقہ موضوعات پر اُن کی دسترس کی آئینہ دار ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول (ص ۳۳-۳۳۸) میں چھوٹے بڑے ۶۰عنوانات (صدق‘ دیانت و امانت‘ ایثار‘ عفو و درگزر‘ مساوات‘ طبقۂ اناس کے محسنِ اعظم‘ میانہ روی‘ صبرواستقامت‘ اولاد سے محبت‘ تعزیت‘ چھینک اور جمائی وغیرہ) کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محاسنِ اخلاق کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔’’جھلکیاں‘‘ اس لیے کہ بقول مصنف: ’’حضوؐر کی ذاتِ گرامی تمام کمالات و صفات کی جامع ہے اور ہماری قوتِ تحریر محدود ہے جو آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کے کسی بھی پہلو کو کماحقہٗ احاطۂ تحریر میں لانے سے قاصر ہے‘‘ (ص ۲۹)۔ حصہ دوم میں اچھے اور بُرے اخلاق کے مختلف پہلوئوں (فضائل: سلام کا رواج‘ مہمان نوازی‘ شکرگزاری‘ انکسار و تواضع‘ خوش کلامی‘ عیب پوشی وغیرہ--- اور رذائل: بدزبانی‘ بُغض و کینہ‘ غیبت‘ حسد‘ خیانت‘ بخل‘ چغل خوری وغیرہ) پر رسول اکرمؐ کے ارشادات بصورتِ احادیث نبویؐ جمع کیے گئے ہیں۔ اس حصے میں احادیث کے متن پر اہتمام کے ساتھ اعراب بھی دیے گئے ہیں اور ہر حدیث کا حوالہ بھی درج ہے۔ کہیں کہیں قرآنی احکام سے بھی تائید لی گئی ہے۔

مصنف ایک تجربہ کار اور کُہنہ مشق ادیب بھی ہیں اس لیے اُن کا اسلوب سادہ ہونے کے باوجود‘ رواں اور ادبی خوبیوں کا حامل ہے۔ کہیں کہیں اردو اور فارسی کے اشعار سے بھی استشہاد کیا گیا ہے۔ کتابت میں اسماء و اعلام کی صحت اور اعراب کا اہتمام قابلِ داد ہے۔ کتاب کا تعارف ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کے قلم سے ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


The Secular Threat to Pakistan's Security ] پاکستان کی سالمیت کے خلاف سیکولر خطرہ[ ‘طارق جان۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ تقسیم کنندہ: کتاب سرائے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ مع اشاریہ‘ صفحات: ۲۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کے منظر کو دیکھیں اور خصوصاً جنرل پرویز مشرف کے فوجی عہدِحکمرانی میں مخصوص عناصر کی کھلی اور چھپی یلغار کا تجزیہ کریں تو سیکولر عناصر کے ہاتھوں تیار کردہ اس طرح کی  تصویر ابھرتی ہے: ’’پاکستان کا نام منافرت کا مظہر ہے‘ یہ ایک ناکام ریاست ہے۔ مسلم تشخص‘ ازمنہ وسطیٰ کی باتیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ نئے سرے سے لکھی جانی چاہیے جس کا ہدف یہ ہو کہ ہم ہندستانی ہیں۔ پاکستان سے کشمیر کا الحاق سودمند نہ ہوگا‘‘ (ص ۲۰)۔ اسی طرح وطن عزیز کے وجود پر حملہ کرنے والوں میں حکومت کے بہت سے کارندے اور ریاست کے سیاہ وسفید پر قابض من موجی بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی ذرائع ابلاغ تو پاکستان کے تشخص‘ وجود اور تصور پر حملہ آوروں کی محفوظ ترین کمین گاہیں ہیں۔ یہی عناصر ہماری قومی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خرد افروزی کے نام پر قائم کردہ اڈوں‘ سیاست کی وادیوں اور صحافت کے میدانوں میں سیکولر عنصر اور ذاتی ترقی پسندی کے مرض میں مبتلا یہ گروہ‘ بلاجھجک فکری تخریب کاری میں مصروف ہے۔ اس یک طرفہ یلغار کا جواب دینے کے لیے انگریزی پریس میں شاذونادر ہی کوئی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس صورت حال میں طارق جان کی زیرنظر کتاب ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔

اظہاروبیان کے سلیقے‘ تنقید و تجزیے کی ثقاہت‘ استدلال کی تروتازگی اور جواب دینے میں شایستگی کو طارق جان نے زیرتبصرہ کتاب میں ہم رکاب کر دیا ہے۔ یہ مباحث درحقیقت  سیکولر گروہوں کی ہر للکار کا شافی و کافی جواب اور ۱۴ ابواب میں تمام قابلِ ذکر کٹ حجتیوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے‘ مثلاً: کیا قائداعظم سیکولر قوتوں کے آلہ کار تھے؟ قانونِ توہینِ رسالت ؐاور حدود قوانین‘ این جی اوز کے پس پردہ شرانگیزی‘ خارجہ پالیسی کے اُفق‘ سی ٹی بی ٹی کا مسئلہ‘   پاک بھارت تعلقات یا گھٹنے ٹیکنے کا راستہ‘ کشمیر دوراہے پر‘ اقوام متحدہ کا خونیں کردار وغیرہ--- ان موضوعات پر مضبوط استدلال کے ساتھ عام فہم مگر شُستہ زبان میں اظہار خیال کیا گیا ہے‘ جس میں علم کی وسعت‘ ایمان کی خوشبو اور حب الوطنی کا درد اور تڑپ بڑی آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔

یہ مباحث اہلِ سیاست و صحافت‘ اہل سفارت و حکومت اور معلم و متعلم‘ سبھی کے لیے سُرمۂ بصیرت ہیں۔ پاکستان کے ممتاز دانش ور جناب نسیم انور بیگ کا تجزیاتی تعارف‘ کتاب کے مصنف کے لیے اعزاز کا درجہ رکھتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


شاہکار ، اسلامی انسائیکلوپیڈیا ‘ جلد اول‘ جلد دوم‘ سید قاسم محمود۔ ناشر: الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ بڑے سائز کے کل ۲۴۰۰ صفحات۔ قیمت: ۲۴۰۰ روپے۔

مغرب میں ادارے کام کرتے ہیں‘ اور ہمارے ہاں فرد اداروں کا کام کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال سید قاسم محمود ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا جس میں سیکڑوں لکھنے والے اپنے اپنے میدان کے حوالے سے لکھتے ہیں‘ وہ بھی انھوں نے تن تنہا ہی لکھ ڈالا اور ساتھ ہی سیرت انسائیکلوپیڈیا اور قرآن انسائیکلوپیڈیا کی خوش خبری بھی دی ہے۔

یہ ۱۹۸۳ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔ چھٹا ایڈیشن مشینی کتابت پر کچھ اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا‘ اب یہ آٹھواں ایڈیشن خاصے اضافوں کے ساتھ دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کی خصوصیات میں ۵۰ صفحات کا اسلامی اٹلس ہے جس میں صحاح ستہ کے عظیم محدثین کے اسفار بھی دکھائے گئے ہیں۔ مزید ۱۰۰ صفحات میں مقدس مقامات‘ خطاطی اور پینٹنگز کی تصاویر دی گئی ہیں۔ اشاریہ بھی پہلی دفعہ شامل کیا گیا ہے۔

باوجود اتنا ضخیم ہونے کے‘ اسے مختصرہی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اتنی طویل‘ مالا مال تاریخ کے واقعات‘ شخصیات‘ مقامات اور ایمانیات‘ عبادات‘ سیرت اور فقہ سے متعلق موضوعات اگر سیرحاصل انداز سے لکھے جاتے تو دس بارہ جلدیں تیار ہو جاتیں۔ اعداد و شمار اور حالات حسب حال شامل کر لیے گئے ہیں۔ چار ہزار موضوعات کو ڈھائی ہزار صفحات میں سمو دیا گیا ہے۔ ضروری معلومات اور تعارف فراہم ہو جاتا ہے۔ جمیل احمد رانا صاحب نے ’’انتہائی باریک بینی اور دقّتِ نظر سے پورے انسائیکلوپیڈیا کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کر کے متن اور پروف کی اغلاط کی نشان دہی کی‘‘، اس پر وہ تبریک کے مستحق ہیں۔

یہ کیسے ہو کہ یہ انسائیکلوپیڈیا ملک کے ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری میں اور ہر پڑھنے لکھنے والے فرد کی میز پر پہنچ جائے؟ شاید الفیصل یہ کام کر لے۔(مسلم سجاد)


ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ، مرتب: محمد راشد شیخ۔ ناشر: المیزان پبلشرز‘ ۲۳۴- المعصوم ٹائون‘ گلی نمبر۷‘ ڈاک خانہ فوارہ چوک‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

محمد راشد شیخ نے عقیدت و محبت کے جذبے کے ساتھ زیرنظرکتاب ترتیب دی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے خاندانی حالات‘ علمی پس منظر‘ تعلیمی و تدریسی مراحل‘ تحقیق و تصنیف‘ پیرس میں علمی و دعوتی سرگرمیوں‘ پاکستان و ترکی میں علمی سرگرمیوں‘ اخلاق و کردار‘ علمی انہماک‘ فقرواستغنا‘ غرض موصوف کے مختلف شخصی و علمی پہلوئوں سے اعتنا کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: احوالِ ذاتی‘ آثارِ علمیہ‘ خراجِ عقیدت (درحین حیات)‘ خراج عقیدت (بعد از وفات) اور مکتوبات شامل ہیں۔ ڈاکٹرحمیداللہ کا شجرئہ نسب اور آثارِ علمیہ خود مرتب کے قلم سے ہے‘ دیگر جن اہلِ علم نے خامہ فرسائی کی ہے ان میں ڈاکٹرحمیداللہ کے قریبی عزیز‘ معاصرین‘ شاگردان و فیض یافتگان کے علاوہ بعض قلم کار بھی شامل ہیں۔

مرتب نے اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبان میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کی کتب و مقالات کی تفصیل دی ہے۔ مگر جرمن‘ فرانسیسی اور ترکی زبانوں میں کتب و مقالات کا تذکرہ ناپید ہے۔ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے اپنے ایک مکتوب میں متفرق طور پر ۹۵۰ مقالات اور ۱۷۱ کتب کا تذکرہ کیا ہے (ص ۴۰۷)۔ اس علمی ذخیرے کی تلاش و اشاعت بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ کتاب میں شامل متعدد مضامین مطبوعہ ہیں۔

خراجِ عقیدت (درحین حیات) میں جن معاصرین نے قلم اٹھایا ہے ان میں ڈاکٹر سیدرضوان علی ندوی‘ حکیم محمدسعید‘ شاہ بلیغ الدین کا ہر مضمون ڈاکٹرحمیداللہ کی شخصیت اور علمی پہلو کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ شیخ حیدرایڈووکیٹ نے بطورِ استاد آپ کا رویہ‘ طریقہ تدریس‘ طلبہ سے مشفقانہ سلوک جیسے پہلوئوں پر قلم اٹھا کر بتایا ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں کس طرح علمی لگن اور تحقیق کا ذوق پیدا کرتے تھے۔ آپ کی پوتی محترمہ سدیدہ عطاء اللہ نے ڈاکٹر حمیداللہ کے آخری لمحات کی تصویرکشی کی ہے۔ اسرائیل احمد مینائی نے جامعہ عثمانیہ میں گزرے لمحات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر احمد عبدالقدیر نے پیرس میں آپ کی بودوباش پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی اور مظہرممتاز قریشی نے آپ کے علمی و تصنیفی کارناموں کا جامع تذکرہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی سرگرمیوں اور ان کی وفات پر ترکی پریس نے جو کچھ لکھا‘ ڈاکٹر محمد صابر‘ احسان اوغلو اور ڈاکٹر نثار احمد اسرار نے اپنے مضامین میں اس کا نہایت عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔

زیرنظر کتاب میں مرحوم کے ۱۶۰ خطوط بھی شامل ہیں۔ بیش تر خطوط مطبوعہ ہیں لیکن بعض پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئے ہیں۔ کتاب میں شامل زیادہ تر مضامین ملک کے رسائل و جرائد میں طبع ہوچکے ہیں جن کا حوالہ مرتب نے دیا ہے‘ تاہم بعض مضامین فاضل مرتب نے خصوصی طور پر محنت و کاوش سے تیار کروائے ہیں۔ مضامین زیادہ تر تاثراتی نوعیت کے ہیں جن میں یکسانیت و تکرار فطری بات ہے۔ کہیں کہیں معلومات میں سطحیت بھی دَر آئی ہے۔

بہرحال یہ کتاب ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے مطالعات میں ایک اچھا اضافہ ہے اور فاضل مرتب کی محنت و کاوش لائق تحسین ہے۔ سرورق سادہ مگر پُروقار ہے۔ (ڈاکٹرمحمد عبداللّٰہ)


سفر اندر سفر‘ ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۱۰۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

ہزاروں لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔ سیاحت کے باقاعدہ محکمے وجود میں آچکے ہیں مگر مسافروں میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مشاہدات و تجربات کو ایک نکھری ہوئی صورت میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ع س مسلم کا شمار ایسے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو مشاہدے‘ احساس‘ وجدان اور جذبات کی آمیزش سے اپنے تجربات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

عام طور پر سفر نامہ نگارفرضی قصے کہانیوں اور خودساختہ افسانوں کے ذریعے قاری کو مسحور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ع س مسلم کے سفرنامے حقیقت نگاری کا نمونہ ہیں۔

زیرنظر کتاب ان کا تیسرا سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے مختلف اوقات میںناروے‘ فِن لینڈ‘پیرس‘ ارضِ روما‘ آسٹریا‘ سوئٹزرلینڈ اور سراندیپ کے اسفار کی روداد بیان کی ہے۔ کسی علاقے کا نام سن کر عام طور پر اس کی تاریخ‘ طرز رہن سہن‘ تہذیب و معاشرت اور وہاں کے لوگوں کے مجموعی رویے‘ میلانات یا رجحانات کے متعلق جو سوالات اٹھتے ہیں‘ اس کتاب میں ان کے جوابات ملتے ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے لفظ Bohemianکی تاریخ بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ: یہ شاہ بوہیمیا (جو صلیبی عساکر کا سپہ سالار تھا اورHolly Roman Emperor کے نام سے جانا جاتا تھا) کے نام سے مشتق ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف موصوف لغت و لفظ شناسی کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر جزئیات نگاری اور منظرنگاری سے بھی مزین ہے۔  خوب صورت تشبیہات واستعارات کا برمحل استعمال کرتے ہیں مثلاً لکھتے ہیں: ہر طرف چاندی کا فرش بچھا ہوا تھا جیسے سرما کے ساون میں دھیمی دھیمی برفانی پھوار پڑ رہی ہو۔ آسمان سے رقائق برف دھرتی کے آنچل میں خراماں خراماں یوں اتر رہے تھے جیسے آسمان پر فرشتے نقرئی چادر چھٹک رہے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں ان کا حُسنِ بیان قاری کو مسحور کیے رکھتا ہے۔ یہ سفرنامہ بہت معلومات افزا اور مصنف کی تعمق نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور مذکورہ علاقوں کے متعلق معلومات کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں رہا۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے مفصل دیباچے میں ’سفر اندر سفر‘ کی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے۔ قارئین اس کتاب کو دل چسپ پائیں گے۔ (قاسم محمود وینس)


سجدہ ہر ہر گام کیا‘ حفیظ الرحمن خاں۔ ناشر: بک ہوم‘ مزنگ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔

سجدہ ہر ہرگام کیا حج و زیاراتِ مقدسہ کا ایک خوب صورت اور محبت انگیز سفرنامہ ہے۔ اس موضوع پر اُردو زبان میں بے شمار سفرنامے لکھے گئے ہیں اور اب تک لکھے    جا رہے ہیں۔ ایک جیسے مقامات‘ ایک سا طریقۂ عبادت اور عقیدت و محبت کے اظہار میں یکسانیت کے باوجود‘ قاری کے لیے قندِمکرر کی چاشنی حیرت انگیز ہے۔

حرمین کے سفرنامے عام طور پر معلوماتی ہوتے ہیں یا قلبی واردات اور کیفیات کے تاثرات کے بیان سے مزین‘ کچھ ایسے بھی جن میں داستانِ شوق میں ہر دو پہلو موجود ہیں۔ زیرنظر مختصر سفرنامہ ایسا ہی ہے۔ حفیظ صاحب کا اسلوب جذبے کی بے ساختگی اور شعروادب کی چاشنی کے حسین امتزاج سے عبارت ہے۔ ان کی آنکھ ظاہروباطن دونوں رخوں پر کھلی ہے اور داخلی کیفیات خارجی واقعات کے پہلو بہ پہلو نظرآتی ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی یہ راے    اس خوب صورت اور مختصر سفرنامے پر حرفِ آخر ہے۔

یہ سفرنامہ عمدہ گٹ اَپ کے ساتھ بک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے۔ (عبداللّٰہ ہاشمی)


Tazkiyah, The Islamic Path of Self Development (مجموعہ مضامین) ادارت: عبدالرشید صدیقی۔ناشر: اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر۔ صفحات: ۲۲۰۔ قیمت: درج نہیں۔

تزکیۂ نفس کے اہم موضوع پر یہ حسین کتاب دل کو لبھانے والی ہے۔ ۵ مقالات کا یہ مجموعہ انگریزی میں تزکیۂ نفس جیسے موضوع پر غالباً اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے‘ جس میں قدیم و جدید تصورات اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے حوالوں سے سب ہی نکات زیربحث آگئے ہیں۔ سید مودودی‘ محمد فاروق خان‘ عبدالرشید صدیقی‘ خرم مراد اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے اپنے انداز سے موضوع کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں۔ (م - س)


فقہی مسلک کی حقیقت‘ مولانا ابوزکی۔ ناشر:دارالعلم‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اس کتاب کے اہم مباحث یہ ہیں: تبع تابعین تک فقہ کی تاریخ‘ ائمہ اربع کا تعارف‘ اجتہاد کی اہمیت‘ مجتہد کی شرائط‘ مسئلہ تقلید‘ اندھی تقلید کے نقصانات کا تذکرہ شامل ہے۔ ائمہ اربعہ کے فقہی اختلافات‘ فقہی مسائل کا حل کیسے؟

یہ کتاب مسلمانوں کو فقہی اختلافات کے ضمن میں شدت پسندی سے روکنے کی پُرخلوص کوشش ہے کیونکہ ان اختلافات میں بے اعتدالی نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے الانصاف لکھ کر یہ فریضہ سرانجام دیا تھا۔ پھر سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اس ضمن میں قابلِ قدر کام کیا ہے۔ یہی مشن مولانا ابو زکی کا بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’فقہ حنفی ہی کو دیکھ لیجیے اس میں دو تہائی سے زیادہ فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کی پیروی نہیں  کی جاتی بلکہ ان کے بجاے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے فتاویٰ پر عمل کیا جاتا ہے‘‘ (ص ۲۰۲)۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ’’مجتہدین نے اپنے اپنے امام کی ہر مسئلے میں پیروی اور پابندی کو ضروری نہیں سمجھا… تو کیا دوسروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی ان کے ائمہ سے اختلاف کرسکیں؟‘‘ (ص ۲۰۲)

فقہی مسائل کا حل کے ضمن میں مصنف کی دو تجاویز اہم ہیں‘ اول: مدارس میں صرف ایک ہی مسلک یا فقہ کی تعلیم نہ دی جائے بلکہ دوسرے مسالک اور فقہیں بھی پڑھائی جائیں… اس سے نہ صرف اختلافات کی شدت کم ہوگی بلکہ باہمی تعصب کی جگہ رواداری اور تحمل و برداشت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ (ص ۲۲۱)

دوم: شخصیت پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے‘ ہمارے لیے تمام مسالک کے اکابر یکساں محترم ہیں۔ اپنے مسلک کی بے جا حمایت اور عقیدت میں غلو کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ملکی سطح پر علماے کرام کو مل کر ایک فقہ کونسل بنا لینی چاہیے جیسا کہ بھارت میں بنائی جاچکی ہے اور پھر اس کے اوپر بین الاقوامی فقہ کونسل تشکیل دینی چاہیے جس کا مرکز سعودی عرب کا کوئی شہر ہونا چاہیے(ص ۲۲)۔ ایسی تجاویز سے مذہبی منافرت کم ہو سکتی ہے۔ (ڈاکٹر محمد خلیل)


تعارف کتب

  • علم و ہدایت ‘ ڈاکٹر محمد ایوب خان۔ ناشر: ادارہ اشاعت قرآن‘ ۲۹۴ ایکسٹنشن‘ کیولری گرائونڈ‘ لاہور کینٹ۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۰ روپے۔] ۳۵ موضوعات: کائنات قرآن کی نظر میں‘ محلہ وار تنظیم‘ تکفیرمسلم‘ نپولین کا خط‘ اسلام میں حکومت کا تصور‘ اسلام کا نظریۂ جہاد‘ اسلام اور سیکولرازم‘ ضیاء الحق کی وفات‘ شرعی طلاق‘ نفاذِ شریعت‘ اسلامی نظام وغیرہ پر مصنف کے مختصر مضامین‘ آسان زبان میں مسائل کو سمجھانے کی کامیاب کوشش۔[
  • ماہنامہ بک ڈائجسٹ‘ مدیراعلیٰ: مظہرسلیم مجوکہ۔ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلاگنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔] روح الحدیث کے عنوان سے صحاح ستّہ سے احادیث نبویؐ کا موضوع وار انتخاب‘ مرتب: سید قاسم محمود۔ یہ ایک نیا ماہ نامہ ہے۔ ہر ماہ ایک مکمل کتاب پیش کرنے کا عزم ہے۔[
  • ماہنامہ نونہال‘ مدیر: مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: دفتر ہمدرد نونہال‘ ناظم آباد‘ کراچی-۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت (خاص شمارہ): ۲۵ روپے۔ ] سالانہ روایت کے مطابق‘ خاص شمارہ۔ بچوں کے لیے سبق آموز اور معلومات افزا کہانیاں‘ مضامین‘ نظمیں اور لطائف وغیرہ ۔[
  • اسلام کا سفیر‘ مرتب: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] سرورق: ’’قائداعظم کی اسلامی زندگی کے ایمان افروز حقائق و واقعات پر مبنی مستند دستاویز‘‘(مگر کیا ان کی کوئی ’غیر اسلامی زندگی‘ بھی تھی؟)۔ ۳۹ معروف اصحاب کے نئے پرانے مضامین کا مجموعہ۔ بقول دیباچہ نگار مجید نظامی صاحب: ’ایک منفرد‘ اہم اور قابلِ توجہ کتاب‘ قائدکی ایک عمدہ تصویر۔[
  • مادرِ ملّت مِس فاطمہ جناح‘ شازیہ کنول۔ ناشر: اظہار سنز‘ ۱۹- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۳۔ قیمت: ۴۰ روپے(مجلد: ۸۰ روپے)۔] سوال و جواب کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کی حیات و خدمات کا تذکرہ۔ چند منظومات بھی شامل ہیں۔ ’’سالِ مادرِ ملّت ۲۰۰۳ئ‘‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی کوئز کتابوں میں یہ کتاب بہتر ہے۔[

دانش یار ‘لاہور

’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ یا امریکی ’’دین الٰہی‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) نے تو ’امریکی دین الٰہی‘ کی ساری کاوشِ تلبیس کو عیاں ہی نہیں عریاں کر کے رکھ دیا ہے۔ فہم قرآن کے تحت جو ’قابلِ غور پہلو‘ پیش فرمائے ہیں‘ واقعی قابلِ غور ہیں‘تفہیم القرآن خود اپنی جگہ موضوع مطالعہ بنانے کے لائق ہے۔ اصحاب علم و فکر کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ’’۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسیں، ایک دعوتی تجربہ‘‘ تحریک کا باعث بنا۔ اصل ضرورت دعوت کے اثرات کو سمیٹنے اور نتیجہ خیز کام کی ہی ہے۔


افتخار احمد چودھری‘ لاہور

’’مصر: اخوان المسلمون کا نیا دورِ ابتلا‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) واقعی چشم کشا ہے۔ اس طرح کی تحریریں مستقل کیوں نہیں آتیں؟ آخر میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو کہا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے اس سلسلے میں کیوں آواز نہیں اٹھائی؟مصر کے سفیر متعینہ پاکستان کو یادداشت پیش کی جاسکتی ہے۔ او آئی سی کی حالیہ کانفرنس ترکی میں کوئی اعلامیہ پیش ہوسکتا تھا۔ رابطہ عالمِ اسلامی‘ موتمر اسلامی‘ انسانی حقوق کی انجمنیں‘ کیا ہم ان کو متحرک نہیں کر سکتے؟


خبیب انس ‘کراچی

ریڈلے کے انٹرویو (اسلام: حیرت زدہ کر دینے والا مذہب‘ جولائی ۲۰۰۴ئ) کا اصل پہلو خاتون قیدی کے ساتھ طالبان کا حسن سلوک ہے۔ عراق میں خواتین قیدیوں کے ساتھ امریکی جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کی کچھ تفصیل المجتمع کے حوالے سے ایک رسالے میں شائع ہوئی ہے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ ریڈلے کو چاہیے کہ وہ مغرب کے باضمیر انسانوں کو جگائے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے ہاتھ پکڑیں۔


احمد ہلال خاں‘ اسلام آباد

خرم مراد صاحب نے ’’امت کامستقبل اور ائمہ مساجد‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) میں ائمہ کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف بہت خوب توجہ دلائی ہے۔ شریعت نے مسلمان معاشروں میں پنج وقتہ نماز کے ساتھ مسجدوں کے ذریعے ایک ایسا غیر معمولی اجتماعی نظام قائم کیا ہے‘ جس کی برکات کا کوئی شمار نہیں۔ اس کو مفید سے مفید تر بنانے میں امام کے قائدانہ کردار کا بڑا دخل ہے۔ نمازیوں کو حقیقی مسلمان بنایا جائے اور نئے نمازیوں کو مسجدوں میں لایا جائے۔ یہ سخت جان نظام غلامی کی صدیاں گزار کر بھی قائم ہے۔ اس میں جان ڈال کر اُمت کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔


محمد صہیب عمر‘ کراچی

آج کل اخبار پڑھ کر جو مایوسی کی کیفیت ہوتی ہے کہ مسلمان ہر جگہ پٹ رہے ہیں‘ علامہ یوسف قرضاوی کے مضمون: ’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں اور عملی تقاضے‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) سے یہ کیفیت دُور کرنے میں مدد ملی۔


خورشید عالم ‘ بونیر

گلستان شہادت میں ’’فلسطین کے دو پھول‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ)سے فلسطین کے ان دو نامور مربی اور عالمِ اسلام کے قائدین استاد شیخ احمد یاسین شہیدؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی شہیدؒکے احوال اور گوشہ ہاے حیات کے تذکرے سے بالخصوص نئی نسل کو نیا عزم اور جذبۂ شہادت کو مہمیز ملی۔


ڈاکٹر حفیظ  انور‘ ملتان

ترجمان القرآن (جون ۲۰۰۴ئ) میں یاد رفتگان کا حصہ کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا۔سیدمودودیؒ نمبر میں کچھ تحقیقی مضامین ’اقتصادیات‘، ’غیرمسلموں میں دعوت‘، ’حکمت عملی‘، ’مستقبل کے امکانات‘ پر آنے چاہیے تھے۔ شاید آیندہ یہ کمی پوری ہو سکے۔


دلشاد حسین اصلاحی ‘ مہاراشٹر‘ بھارت

ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کی صورت میں ایسا عمدہ نمبر شائع ہونے سے تحریکی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہوا ہے۔ بانی ٔ تحریک مودودی علیہ الرحمہ کی حیات و کارنامے مختلف انداز میں وا ہوتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ پر بہت سے نمبر شائع ہوئے مگر یہ اپنا الگ رنگ ڈھنگ رکھتا ہے۔ اس کو مولانا علیہ الرحمہ کے خوشہ چینوں کے ہاں دستاویزی حیثیت حاصل رہے گی۔

عزائم اور منصوبے

جماعت کے موجودہ لٹریچر کا صرف ترجمہ کر دینا عربی داں پبلک کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ لٹریچر کے ترجمے میں بھی عرب کے مخصوص حالات و افکار کے اعتبار سے جابجا ضمنی تبدیلیاں اور اضافے کرنا ہوں گے۔ نیز اچھاخاصا صالح لٹریچر براہِ راست عربی زبان میں تیار کرنا پڑے گا جو وقت کے چلنسار اور مقبول عام افکار کے مقابلے میں اسلامی فکر اور اسلامی تحریک کو صحیح اور سائنٹی فک طریقے پر پیش کر سکے۔ یہ صالح لٹریچر اپنی زبان ‘ طریقۂ نظروفکر اور اسلوبِ بحث کے لحاظ سے اتنا ممتاز اور نمایاں ہو کہ دل اس کی طرف خود بخود    کھنچ جائیں اور دماغ اس سے اثرپذیر ہوسکیں۔

یہ کام صرف صالح لٹریچر کی تیاری سے بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ہمیں ایک اعلیٰ درجے کے ماہنامے کی ضرورت ہوگی‘ جو ایک طرف تو اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے عربی کے مشہور رسالوں کے مقابلے پر آسکے‘ دوسری طرف وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے بے لاگ تنقید کر سکتا ہو…

یہ حالات ہیں ‘ جن کے پیش نظر جماعت نے ایک بلند پایہ عربی ماہ نامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی تو جنگ کی فتنہ سامانیوں کے باعث آغاز کار بہت مشکل ہے‘ لیکن یہ رائے طے پاچکی ہے کہ جنگ کے ختم ہوتے ہی عربی بولنے والی قوموں کو اسلامی دعوت اور اقامت دین کی تحریک سے روشناس کرانے کے لیے ایک رسالہ جاری کیا جائے۔ چونکہ کام اہم ہے اور اس کے لیے بڑی تیاریوں کی ضرورت ہے‘ اس لیے راقم الحروف اپنا مستقر چھوڑ کر دارالاسلام آگیا ہے‘ تاکہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی زبان میں ترجمہ اور لٹریچر کی تیاری کا کام باضابطہ اور منظم طور پر شروع کر دیا جائے‘ اوراس دوران میں اتنا کام ہوجائے کہ جنگ کے بعد عربی زبان میں نشرواشاعت کا کام بلا پس وپیش شروع کیا جاسکے…

جو اصحاب اس مہم میں ہمارا ہاتھ بٹانا چاہیں‘ وہ بخوشی ہمیں اطلاع دیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ ہمیں ٹھیکے اور معاوضے پر کام کرنے والے مترجم مطلوب نہیں ہیں۔ ہمیں ایسے رفیقوں کی ضرورت ہے‘ جو اسلامی تحریک کے نصب العین اور طریق کار سے حرف بہ حرف متفق ہوں‘ اور جذبۂ تبلیغ وعمل ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہو۔ وہ اس کام کو ایک دینی خدمت سمجھ کر انجام دیں۔(’’اشارات‘‘، مسعود عالم ندوی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۱ -۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر۱۹۴۴ئ‘ص ۴-۵)