مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۰۳

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانا اور اختلافی امور کو حل کرنا حکمت و دانائی کا شیوہ ہے مگر اسے کیا کہا جائے کہ اب اقتدار پر قابض جرنیل اور ان کے ہم نوا دانش ور طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی مشق بڑی بے دردی سے کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اندرونی مسائل اور مشکلات کی دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا ہو رہی ہے‘ اور نہ خارجہ سیاست میں کہیں روشنی کی کوئی کرن ہی نظر آرہی ہے--- ژولیدہ فکری‘ تضادات اور کہہ مکرنیوں کے سیلاب کے ساتھ اب اصولی موقف اور قومی زندگی کے ثابت اور مستحکم امور بھی مشتبہ اور غیرمعتبر ہوتے جا رہے ہیں اور مفاد کے نام پر ہر اصول‘ ہر حقیقت اور ہر مسلّمہ کلیے سے انحراف کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ چنانچہ  صرف کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے‘ پالیسی کے روشن خطوط دھندلا گئے ہیں اور دلیل کی جگہ ایک ایسے شوروغوغا نے لے لی ہے کہ  ع  کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

مصائب تو بہت تھے مگر ذہنی افلاس اور بے اصولی کا جو منظر خارجہ سیاست کے میدان میں نظر آ رہا ہے‘ اس نے ملک و ملّت کو ایسے خطرات سے دوچار کر دیا ہے جن کا اگر بروقت مقابلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کے نظریاتی وجود اور تاریخی کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان تمام معاملات کا تعلق محض وقتی مصلحتوں سے نہیں بلکہ معاملہ اصول اور ملک و ملّت کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ہے جنھیں محض کسی کی خوشنودی یا کچھ مراعات کی توقع کی خاطر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بڑے شدومد سے اٹھایا گیا ہے۔باہر کے دشمن اور اندر کے سازشی کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فضا ہموار ہو۔

یہ ایک بڑا چونکا دینے والا سوال ہے کہ آخر اس وقت یہ شوشہ کیوں چھوڑا گیا ہے؟ فلسطین میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کو تیسرا سال ہے۔ ڈھائی تین ہزار مسلمان مرد‘ عورت اور بچے اس عرصے میں شہیدہو چکے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے ’’لائ‘‘(law) کی رپورٹ کے مطابق صہیونیوں نے ۱۹۴۸ء سے لے کر اب تک ۱۵لاکھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کو ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے اور طویل عرصے تک بلامقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا ہے۔ ۳ لاکھ فلسطینیوں کو زخمی کیا اور ان میں سے ۴۰ ہزار سے زیادہ کو مستقلاً معذور کر دیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل عرب باشندوں میں سے اتنی بڑی تعداد کو ملک بدر کیا ہے کہ اب فلسطین سے باہر فلسطینی مہاجرین کی تعداد۴۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو اسرائیل کی پوری یہودی آبادی کے برابر ہے۔ آج بھی مہاجر کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۷۰ ہسپتالوں ‘ ۳۱۵ اسکولوں اور سات یونی ورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ عرب علاقے کے ۶۰ فی صد کھیت کھلیان جلا کر خاکستر کر دیے گئے ہیں‘ ۳۷۰فیکٹریاں تباہ کی ہیں‘ ۶ لاکھ سے زائد جانوروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اب عرب علاقوں میں ۲۱۰میل لمبی آہنی فصیل بنائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں عربوں کی لٹی پھٹی زمین کا مزید ۱۰‘۱۵فی صد پر اسرائیلی قبضہ ہوگا۔ جس علاقے کو مستقبل کی عرب ریاست کا محل سمجھا جا رہا ہے وہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور اسرائیل کی فوج اور آبادکار ان پر بدستور قابض رہیں گے۔

ظلم و ستم کی اس نہ ختم ہونے والی سوچی سمجھی اسٹرے ٹیجی کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیل امن کی کسی بھی تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیںہے۔ نام نہاد روڈمیپ اور اپنی پسند کے فلسطینی وزیراعظم اور پولیس سربراہ کے تقرر کے باوجود نہتے عوام پر ٹینکوں اور ایف-۱۶ سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہدف بنا کر سیاسی قائدین اور علما کو قتل کیا جا رہا ہے۔پوری عرب آبادی کو فصیلوں کے ذریعے محصور کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ یاسرعرفات کو بھی کونے سے لگا دیا گیا ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے ’’روڈمیپ‘‘ کہا جا رہا ہے وہ ایک سراب سے زیادہ نہیں کہ فلسطینیوں کے قدموں تلے کوئی روڈ ہی نہیں ،’’میپ‘‘ کی تو بات ہی کیا!

ایک طرف حالات کی یہ ہولناک صورت ہے اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ کے دورے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے سوال پر اچانک خود کلامی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سیکرٹری وزارتِ خارجہ اور سیکرٹری اطلاعات نے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے حق میں وعظ شروع کر دیا۔ جنرل صاحب کے علاوہ وزیر داخلہ اور سردار عبدالقیوم بھی میدان میں کود پڑے اور جولائی ۲۰۰۳ء کے Jan's Intelligence Digestنے تو اعلان ہی کردیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس کے الفاظ میں:

پاکستان کے حکام خصوصیت سے مشرف سے قریب فوجی قیادت اسرائیل کے ساتھ براہ راست روابط قائم کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ مشرف اپنے ایجنڈے کے ساتھ مستقبل قریب میں آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

دفاعی امور کے اس مجلے کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان اور اس کی فوج کو بھارت اور امریکہ سے تعلقات کے باب میں اور اسلحے کی خریداری کے لیے کچھ سہولتیں حاصل ہو جائیں گی :

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان کو مستحکم کرنے کی جنرل پرویز مشرف کی کوششوں‘ نیز ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر لازماً اہم اثرات مرتب کرے گا۔

دفاعی امور کے بارے میں سراغ رسانی کی اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے البتہ ’’جنرل مشرف اندرونِ ملک اور بیرون ملک اس کے ممکنہ اثرات کو ضرور جانچنا چاہتے ہیں‘‘۔

ہم اپنی رائے تو دلائل کے ساتھ پیش کریں گے لیکن اپنی بحث کا نتیجہ بالکل واضح الفاظ میں پہلے ہی بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی جو قوم کے احتجاج اور نفرت ہی نہیں‘ خدانخواستہ اللہ کے غیض و غضب کو بھی دعوت دینے کا ذریعہ بنے گی۔ یہ پاکستان اور جنرل مشرف کے سیاسی مستقبل کو استحکام بخشنے کا نہیں‘ فوری طور پر عدمِ استحکام کی نذر کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ اس شوشے کے چھوڑے جانے کے بعد سے آج تک جو کچھ اس کے بارے میں لکھا گیا ہے یا تقاریر اور تبصروں میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے سوا پوری قوم‘ تمام اہم کالم نگاروں اور تمام قابلِ ذکر سیاسی حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اسے قومی مفاد اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کی ضد اور ایک بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے اور اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ پاکستان کے اندر سے اُبھرنے والا ایک رجحان نہیں بلکہ باہر سے ہم پر مسلط کیا جانے والا ایک فتنہ ہے--- کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!

کسی ملک کے جائز ہونے کی بنیادیں

کسی ملک کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال بین الاقوامی قانون‘ سفارت کاری اور تجارت سے متعلق ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے لیے ضروری نہیں کہ ہر دوسرے ملک کو لازماً تسلیم کرے‘ یا اس سے سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق دو ہی پہلوئوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کیا وہ ریاست یا ملک جس سے معاملہ کیا جا رہا ہے ایک  مبنی برحق اور صاحب ِ اقتدار ملک ہے یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ اس سے سفارتی یا تجارتی رشتہ استوار کرنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں؟ پہلا سوال اپنے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا خالص مفادات سے متعلق ہے۔ بین الاقوامی قانون اور روایات کی روشنی میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ ملک جس سے آپ حالت جنگ (state of war) میں نہ ہوں‘ آپ لازماً اسے تسلیم کریں یا اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کا رشتہ استوار کریں۔ نیز مختلف وجوہ سے دنیا کے دسیوں ممالک نے برسہا برس تک دوسرے ممالک کو تسلیم نہیں کیا اور کوئی آسمان نہیں گر پڑا۔

خالص قانونی نقطۂ نظر سے کسی ملک کو تسلیم کرنے کے معنی اسے ایک جائز وجود (legitimate entity) تسلیم کرنا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے اس کے لیے اس ملک کے بارے میں چار امور یقینی ہونا چاہییں: ۱- متعین جغرافیائی حدود (defined geographical borders) ۲-آبادی ۳- اپنے حدود میں مکمل آزادی اور ۴- قبضہ۔

یہ حاکمیت (sovereignty) کے لازمی اجزا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی ملک ان میں سے کسی پہلو سے بھی متنازع ہو تو اسے تسلیم کرنے میں تردد کیا جاتاہے۔ وہ ملک یا علاقہ جو کسی دوسری قوت کے تابع (کنٹرول میں) ہو اسے آزاد تسلیم نہیں کیا جاتا‘ یا اگر کسی اور وجہ سے اسے جواز (legitimacy) سے محروم تصور کیا جاتا ہو تب بھی اسے تسلیم نہیں جاتا اور یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ فاک لینڈ پر انگلستان کے قبضے کو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہونے کے باوجود‘ ارجنٹائن نے اسے آج تک قبول نہیں کیا۔ روس‘چین‘ تائیوان سب ان مراحل سے گزرے ہیں۔ جموںو کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارت کا قبضہ ہے مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے صرف قبضے کی بنیاد پر اسے قانونی جواز حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے سلسلے میں بھی سب سے پہلا اصولی‘ قانونی‘اخلاقی اور سیاسی سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ایک مبنی برحق ’’جائز‘‘ (legitimate) ریاست ہے؟اس کے عملی وجود (de facto existence) سے توکوئی انکار نہیں کرتا۔ جس طرح صدیوں پر محیط برطانوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی‘ ہسپانوی‘ ولندیزی اور دوسرے استعماری طاقتوں کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا جس طرح جنوبی افریقہ میں سفیدفام پورپیوں کی نسلی ریاست (apartheid state) کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان ریاستوں کو محض قبضے اور اقتدار کی وجہ سے جائز تسلیم نہیں کیا گیا اور بالآخر حالات کی تبدیلی سے آزاد قومی ریاستیں وجود میں آئیں جن کو یواین چارٹر کے تحت سندِجواز حاصل ہوئی۔

اسرائیل کی حیثیت

اسرائیل کا معاملہ دنیا کے باقی تمام ممالک سے بالکل مختلف ہے۔

ارضِ فلسطین بنی اسرائیل کا اصل مسکن نہ تھا۔ یہ اس سرزمین پر ۱۳ سو برس قبل مسیح میں داخل ہوئے اور ۲۰۰ سال کی کش مکش کے بعد اس پرقابض ہوگئے۔ دو بار یہ اس سرزمین سے   بے دخل کیے گئے۔ ۱۳۵ء میں رومیوں نے بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین سے مکمل طور پر نکال باہر کیا۔ گذشتہ ۶ ہزار سال کی تاریخ میں شمالی فلسطین میں بنی اسرائیل کا قیام چار پانچ سو برس اور جنوبی فلسطین میں کل آٹھ نو سو برس رہا جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً ۲ ہزار سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔

ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی بنیاد بائبل میں درج نام نہاد الٰہی وعدے پر ہے جسے زیادہ سے زیادہ ایک  خیالی مفروضہ (myth) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تصوراتی استحقاق کی بنیاد پر انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے دولت مند اور سیاسی طور پر طالع آزما یہودی قیادت نے فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کے لیے ایک سیاسی تحریک صہیونیت (Zionism) کا آغاز کیا۔ انھوں نے دولت‘ ظلم و تشدد‘ سیاسی جوڑ توڑ اور سامراجی سازشوں کے ذریعے بالآخر عربوں اور ترکوں کو لڑا کر‘ برطانوی انتداب (mandate) کے دور میں اس سرزمین پر اپنے قدم جمائے۔ یوں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت‘ لیکن دراصل فوجی قوت اور اہل فلسطین کے جبری انخلا اور نسل کشی (genocide) کے ذریعے‘ اسرائیل کے قیام کا ہدف حاصل کیا گیا۔ ایک یہودی دانش ور اور ادیب آرتھر کویئسلر(Arther Koestler)  اپنی جوانی میں صہیونیت کے طلسم کا شکار تھا اور جرمنی میں اپنا گھربار چھوڑ کر فلسطین کی صہیونی بستیوں (kibbutz) میں نقل مکانی کرنے والوں میں شامل تھا۔ مگر جب اس نے بچشم سر اس ظلم کو دیکھا جس کا نشانہ اہلِ فلسطین کو بنایا گیا تو اس نے ایک مختصر جملے میں اس تاریخی ظلم کو یوں بیان کیا:

کیا ستم ہے کہ ایک قوم نے ایک دوسری قوم کو ایک تیسری قوم کا ملک (بڑی فیاضی سے) تحفتاًدینے کا حلفیہ وعدہ کیا۔ (آرتھر کویئسلر‘ Promise and Fulfilment لندن‘ ۱۹۴۹ئ‘ص ۴)

۱۹۱۴ء میں فلسطین میں صرف ۳ ہزار یہودی گھرانے آباد تھے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد وسیع پیمانے پر یہودیوں کو غیر قانونی طور پر ارضِ فلسطین منتقل کرنے کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی صرف ۵۶ ہزار تھی‘ جب کہ اس وقت فلسطینی عربوں کی تعداد ۶ لاکھ ۴۴ ہزار تھی۔ ساری قتل و غارت گری اور تشدد کے باوجود ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو جبراً ریاستی حیثیت دی گئی‘ یہودی ارضِ فلسطین میں صرف ۶.۵ فی صد زمین کے مالک تھے اور فلسطین کی آبادی میں ان کا حصہ بمشکل ۳۳ فی صد تھا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے ۸۰ ممالک سے    چن چن کر یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے اور خود فلسطینیوں کو ان کے گھربار سے نکالنے اور ان کی بستیوں کی بستیوں کو تاراج کرنے کے ذریعے یہودی آبادی ۱۰ گنا سے زیادہ بڑھا لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے یہودیوں کو ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد سونے کی طشتری میں  رکھ کر دے دیا گیا اور باقی ۴۴فی صد فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو دیا گیا لیکن اسرائیل کے جنگجو گروپوں نے عملاً ۱۹۴۸ء ہی میں ارضِ فلسطین کے ۷۸ فی صد پر بزور قبضہ کرلیا اور پھر ۱۹۶۷ء میں باقی تمام فلسطین بشمول مشرقی بیت المقدس اپنے قبضہ میں لے لیا۔

مقصد یہاں ظلم کی یہ پوری دل خراش داستان بیان کرنا نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کرنا ہے کہ اسرائیل ایک حقیقی اور فطری ریاست نہیں جو ایک علاقے میں اس کے رہنے والوں کے حق خود ارادی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو بلکہ ایک چرائی ہوئی (stolen) ریاست ہے جو ایک سرزمین کے اپنے باسیوں کو بے دخل کر کے‘ باہر سے لائے ہوئے افراد (colonisers) کے تسلط کو قائم کرنے سے وجود میں آئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کے   اس عمل (genesis) کو سمجھے بغیر علاقے میں اس کی نوعیت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے قلب--- فلسطین میں ایک یورپی استحصالی قوم کے   تسلط اور غلبے سے عبارت ہے جو بین الاقوامی قانون میں ہر جواز (legitimacy) سے محروم ہے اور رہے گی--- اس کے جواز کی صرف ایک بنیاد ہے اور وہ ہے: جبرکے ذریعے قبضہ (occupation by force) ۔ اور محض قبضے کو کسی بھی ملک کے لیے جوازتسلیم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں بین الاقوامی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بھی ہے۔

امریکی اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)میں ایک مضمون نگار John V. Whitbeek جو بین الاقوامی قانون کا ماہر ہے موجودہ نام نہاد روڈمیپ کو ایک مغالطہ (illusion) قرار دے رہا ہے۔ اس نے مسئلے کی صحیح تنقیح کی ہے:

"The roadmap builds on a false premise, that the real problem is Palestinian resistance to the 36 years occuption and not THE OCCUPATION ITSELF.

موصوف نے صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ مسئلہ فلسطینیوں کی طرف سے تشدد نہیں بلکہ ان کی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوگا امن کا قیام ممکن نہیں۔

اس ریاست کی نوعیت اور اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق نگاہ میں رکھنا ضروری ہیں:

جبری تسلط: اسرائیلی یہودی اس علاقے کے اصل باسی نہیں تھے‘ اور آج تک نہیں ہیں۔ انھیں ساری دنیا سے لاکر‘ ملک کے اصل باشندوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر کے ناجائز طور پر‘ محض قوت کے بل بوتے‘ اور استعماری تحفظ کی چھتری تلے دوسروں کے ملک پر غلبہ دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ کوئی قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے اپنے کلچر اور زندگی کو اس علاقے پر مسلط کر رہے ہیں اور صرف قوت کے بل بوتے پر موجود ہیں۔

استصواب کے بغیر: اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جس کی رو سے صرف کسی علاقے کے لوگ اپنی آزاد مرضی اور استصواب رائے کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان عرب فلسطین کی آبادی کا ۶۶ فی صد تھے اس لیے اقوام متحدہ نے امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی ملی بھگت سے استصواب کے طریقے کو ماننے سے انکار کر دیا اور محض اقوام متحدہ کی قرارداد سے فلسطین کو تقسیم کر کے دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ یہ بھی اس طرح کیا گیا کہ جنرل اسمبلی میں ووٹ کو دو بار موخر کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت کے ۵۶ ممالک میں سے صرف ۳۰ اس قرارداد کے حق میں تھے‘ ۱۳ خلاف تھے اور ۱۳ غیر جانب دار تھے اور اس طرح دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی۔ دو بار ووٹ موخر کر کے امریکہ اور عالمی صہیونی ایجنسی نے اپنا اثر اور سرمایہ استعمال کر کے تین غیر جانب دار ممالک (ہیٹی‘ فلپائن اور لائبریا--- جو سب امریکہ کے زیراثر تھے) کو تقسیم کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ گویا اقوام متحدہ کے چارٹر کی تین کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر یہ قرارداد منظور ہوئی۔ (الف) استصواب کے بغیر ایک ملک کے مستقبل کا فیصلہ (ب) دو بار ووٹ موخر کرنا (ج) تین ملکوںسے زبردستی (under duress) تائید حاصل کرنا (یہ تمام حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور امریکی کانگریس میں اہم ارکان کی تقریروں میں اعتراف کی شکل میں موجود ہیں)۔

قانون اور عالمی آداب کی خلاف ورزیاں یہاں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ قرارداد منظور ہونے سے پہلے اسرائیل کا اپنی قوت سے حاصل کردہ غیر متعین علاقے پر اپنی حکومت کا اعلان اور اس کا امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے تسلیم کیا جانا (recognition) بھی قانون اور عالمی آداب کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ یہ ہیں تاریخی حقائق--- اور اسرائیل کو تسلیم کرنا اس پورے تاریخی ظلم اور دھاندلی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

غیر متعین سرحدیں: اسرائیل وہ واحدملک ہے جس کا قیام‘ وجود اور انحصار آبادی کے مسلسل غیر فطری انتقال‘ تشدد اور قوت کے ذریعے علاقے پر قبضے اور جنگ اور قوت کے ذریعے مسلسل اپنی سرحدوں میں اضافے پر ہے۔ آج بھی اس کی حدود متعین نہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد میں ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد اسے حاصل ہوا‘ جسے فوج کشی کے ذریعے ۱۹۶۷ء تک ۷۸ فی صد کر لیا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴۲ اور ۳۸۳ کے ذریعے جنگ سے قبل کی حدود پر واپسی کے احکام جاری کیے گئے اور ۲۰ سے زیادہ قراردادوں میں اس کا اعادہ کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اب جس روڈمیپ کی بات ہو رہی ہے اس میں عملاً فلسطینیوں کے باقی ماندہ ۲۲ فی صد میں سے بھی تقریباً ۴۰ فی صد عملاً اسرائیل کے قبضے میں ہوگا اور باقی علاقہ جسے ابھی فلسطین اتھارٹی اور ۲۰۰۵ء کے بعد فلسطینی ریاست کہا جائے گا کس مپرسی اور بے چارگی کے عالم میں ہوگا ۔ وہ سارا علاقہ نہ آپس میں مربوط ہوگا اور نہ ایک حصے سے دوسرے حصے میں اسرائیلی چوکیوں سے گزرے بغیر آمدورفت ممکن ہوگی۔ نیز یہ نام نہاد ریاست ہمیشہ فوج سے بھی محروم رہے گی اور اس کی امن عامہ کی دیکھ بھال (policing) اسرائیل کی ذمہ داری ہوگی جس کا اقتدار شاہراہوں اور پانی کے تمام ذخائر پر ہوگا۔

جو لوگ آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ کس چیز کو تسلیم کرنے کے مدعی ہیں--- ہماری نگاہ میں تو اسرائیلی ریاست کا وجود ہی ہرجواز سے محروم ہے لیکن جو    اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر دو ریاستوںکی بات کرتے ہیں ان کو اتنا تو صبر کرنا چاہیے کہ  نام نہاد ریاستوں کے حدود تو واضح ہو جائیں۔ لچک دار‘ غیر متعین تبدیل ہونے والی سرحدات (flexible, undefined changing boundries) کی حالت کو تسلیم کرنے کے کیا    معنی ہیں؟

توسیع پسندی:

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اسرائیل ریاست کی نظریاتی اساس ہی وسعت پذیر حدود (expanding boundries) پر ہے جو امپریلزم کا دوسرا نام اور پورے علاقے کے لیے مسلسل خطرے کا پیغام ہے۔ اسرائیل اور اس کی قیادت نے اس معاملے کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ ہمارا ہدف عظیم تر اسرائیل (greater Israel) ہے۔ بن گورین ۱۹۴۸ء میں اس کا اظہار اس طرح کرتا ہے:

عرب اتحاد کا زد پذیر پہلو لبنان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی برتری مصنوعی ہے‘ اور اسے بآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہاں ایک عیسائی ریاست بننی چاہیے۔ جس کی جنوبی سرحد Litani ہو۔ ہم اس ریاست کے ساتھ اتحاد کا ایک معاہدہ کریں گے۔ اس طرح سے جب ہم عرب لیجن کی طاقت کو توڑ دیں گے ‘ اور عمان پربم باری کرچکے ہوں گے تو اس کے بعد شام کا سقوط ہوگا۔ اور اگر مصر نے ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم پورٹ سعید‘ اسکندریہ اور قاہرہ کو بم باری کا نشانہ بنائیں گے۔اس طرح سے ہمیں اس جنگ کا خاتمہ کرنا ہے اور یوں ہم اپنے آباواجداد کی طرف سے مصر‘ اسیریہ اور چالڈیہ کا بدلا اتاردیں گے۔ (بن گورین کی ڈائری‘ ۲۱ مئی ۱۹۴۸ئ)

اس سے پہلے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) نے ۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس (Versailles Peace Conference) کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا: اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H Miller: My Diary at the Conference of Paris with Documents, Vol v, p 17)

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے یکم جنوری ۱۹۸۲ء کو  کیمپ ڈیوڈ کے تین سال بعد اسرائیلی پارلیمنٹ (Knesset) میں تقریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا:

اصولی طور پر مملکت اسرائیل کی شمالی سرحد میں گولان ہائٹس کو شامل ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۸ء میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے‘ اور فلسطین پر برطانیہ کے انتداب کے قیام کے بعد استعماری حکمرانوں کے ایسے عہد میں یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے یہ شامل نہ ہوسکا جو گزر چکا ہے اور اب کبھی نہیں لوٹے گا۔ ہم ان یک طرفہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں…

عالمی صہیونی تحریک اور اسرائیلی قیادت نے علاقے کی تمام وسعتوں پر اپنا حق جتایا اور قوت سے انھیںحاصل کرنے کے بارے میں کبھی کسی تحفظ کا لحاظ نہیں رکھا:

فلسطین ایک علاقہ ہے جس کا نمایاں جغرافیائی فیچر یہ ہے کہ دریاے اُردن اس کی حدود متعین نہیں کرتا بلکہ اس کے بیچ میں بہتا ہے۔ (ولادیمیر جیبوٹس‘ سولھویں صہیونی کانگرس ۱۹۲۹ء کے موقع پر)

مثال کے طور پر امریکہ کے اعلان آزادی کو لیجیے۔ اس میں علاقائی حدود کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ہمارے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔(بن گورین کی ڈائری‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ئ)

صورت حال کو علیٰ حالہ ہی باقی رکھنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمیں ایک ایسی حرکی ریاست قائم کرنا ہے جو توسیع پسند ہو۔ (Ben Gurion in Rebirth and Destiny of Israel, دی فلاسوفیکل پریس‘ نیویارک‘ ۱۹۵۴ئ)

گذشتہ ۱۶ سو برسوں میں ہمارے لوگ ایک ملک اور قوم کی تعمیر اور اس کی توسیع‘ مزید یہودی جمع کرنے اور اضافی آبادیاں قائم کرنے میں مصروف رہے ہیں تاکہ اپنی حدود کو وسیع کریں۔ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ یہ عمل ختم ہوگیا ہے‘ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔ (موشے دیان‘ MAARIV ‘۷ جولائی ۱۹۶۸ئ)

اسرائیل کے وزیردفاع موشے دیان نے دی ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:

ہمارے آباواجداد ان حدود تک پہنچ گئے جو تقسیم کے منصوبے میں تسلیم کیے گئے تھے۔ ہماری نسل ۱۹۴۹ء کی حدو دتک پہنچ گئی۔ اب شش ایام کی نسل سویز‘ اُردن اور گولان ہائٹس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ منزل نہیں ہے۔ موجودہ جنگ بندی لائن کے بعد نئی جنگ بندی لائنیںہوں گے۔ یہ اُردن سے شام تک جائیں گے شاید لبنان تک اور شاید وسط شام تک۔ (دی ٹائمز‘ لندن‘ ۲۵ جون ۱۹۶۹ئ)

یہ ہے اسرائیل کا اپنے عزائم اور اہداف کا کھلا کھلا اظہار۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسرائیل ایک امن پسند ریاست نہیں ایک سامراجی قوت ہے جس کو تسلیم کرنے کے معنی سامراج کو سندجواز دینا ہے۔ ذرا یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سامراجیت کی تعریف کیا ہے۔ مشہور ویبسٹر ڈکشنری اس کی تعریف یوں کرتی ہے:

امپریلزم: کسی قوم کا اپنے اختیار اور حدود کو توسیع دینے کی پالیسی‘ عمل یا وکالت‘ خصوصاً براہِ راست علاقے حاصل کر کے یا دوسرے علاقوں کی سیاسی اور معاشی زندگی کے اوپر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرکے۔ (ویبسٹر‘ نئی کالج ڈکشنری‘ ۱۹۸۱ئ)

مناسب ہوگا کہ اس موقع پر ایسی اسرائیلی ریاست کے بارے میں مغرب کے چند اہم افراد کی آرا اور خیالات کو بھی پیش کر دیا جائے:

اگر ایک ایسی یہودی ریاست کی تشکیلِ نو مناسب ہے جس کا وجود ۲ ہزار سال سے نہ تھا‘ تو ایک ہزار سال مزید پیچھے کیوں نہ جائیں اور کین اینائٹ (cannanite) ریاست کو کیوں نہ دوبارہ قائم کریں۔ یہودیوں کے برخلاف کین اینائٹس اب بھی وہاں ہیں (ایچ جی ویلز)

فلسطین میں بدامنی کا سبب اور واحد سبب صہیونی تحریک اور اس کے ساتھ ہمارے وعدے ہیں۔ (ونسٹن چرچل‘ تقریر دارالعوام‘ ۱۴ جون ۱۹۲۱ئ)

فلسطین میں صہیونی ریاست صرف جبر کے ذریعے قائم کی جا سکتی ہے اور قائم رکھی جاسکتی ہے اور ہمیں اس میں فریق نہ ہونا چاہیے۔ (صدر روزولٹ‘ ۵ مارچ ۱۹۴۵ئ)

یہودی ریاست کے تخیل کی میرے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ اس کا تعلق تنگ نظری اور معاشی رکاوٹوں سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بدی ہے۔ میں ہمیشہ اس کا مخالف رہا ہوں۔ (البرٹ آئن سٹائن‘ ۱۹۴۶ئ)

یہ تمام حوالے امریکی پروفیسر ولیم بیکر کی چشم کشا کتاب Theft of a Nation سے لیے گئے ہیں۔ ولیم بیکر خود بشریات (Anthropology) اور تاریخ کا پروفیسر ہے اور وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

آیئے غور کریں ۱۹۱۷ء سے اب تک کیا ہوا ہے۔ سیاسی صہیونیوں نے فلسطین کا پورا ملک لے لیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک قوم سے ایک ملک کی چوری میں شرکت کی ہے‘ حمایت کی ہے اور اس پر یقین رکھا ہے۔ زمینیں‘ مکانات‘ رسوم و رواج‘ معیشت‘ غرض جو چیز بھی عربوں کی تھی‘ اس کی جگہ اسرائیلی کنٹرول اور اثر نے لے لی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا نام بھی۔ یہ مفروضہ کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے اور انھیں ‘ جو ان کا حق ہے‘ اس کو واپس لینے میں ان کی مدد چاہیے‘ اس کا اتنا زوردار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ جو کوئی فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کی حمایت نہ کرے تو اس پر امتیاز کرنے (discrimination) اور یہودیت دشمنی (anti semitism) کا الزام لگ جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کے جذباتی ردعمل کو نظرانداز کر کے حقائق کو پیش کرنے پر اصرار کریں--- اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اس المناک ناانصافی کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل کبھی نہیں ہوگا۔ (جورے پبلی کیشنز‘ لاس اینجلس‘ ۱۹۸۹ئ)

نسل پرست ریاست :بات یہیں تک نہیں۔ اسرائیل صرف ایک سامراجی اور اپنی سرحدوں کو مسلسل بڑھانے والی ریاست ہی نہیں وہ ایک نسل پرست (racist) ریاست بھی ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں یہودیوں کی اکثریت ہو اور وہ وہاں ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہیں تو جس طرح دنیا میں ہندو ریاستیں (نیپال)ہیں‘ یا بدھ مت ریاستیں ہیں (تھائی لینڈ‘سری لنکا) یا عیسائی ریاستیں ہیں (بشمول Vatican)‘ اسی طرح اگر ایک یہودی ریاست بھی ہو تو کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بنیاد یہ نہیں ہے۔ دوسروں کی زمین پر‘ ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کر کے‘جبر اور ظلم کے ذریعے ریاست قائم کرنے کے ساتھ دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہودی قوم نسلی بنیادوں پر دوسری اقوام سے مختلف اور بالاتر ہے اور دوسرے کم تر ہیں     اس لیے یہ ایک بالاتر ریاست کی حیثیت سے ان پر حکمران ہونے کا حق رکھتی ہے۔ یہ بالکل جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ ذہنیت ہے۔ یہ وہ چیزہے جواسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل چارٹر آف ہیومن رائٹس کے برعکس ایک نسل پرست ریاست بناتی ہے اور علاقے کے تمام ممالک اور اقوام کے لیے خطرہ بناتی ہے‘ جب کہ عسکری اعتبار سے اور ایٹمی صلاحیت سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اسے علاقے کے سارے ممالک پر ویسے بھی بالادستی حاصل ہے۔

صہیونی عالمی تحریک کے صدر ڈاکٹر ویزمین نے جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا‘ ۱۹۱۸ء میں بالفور اعلان کے ضمن میں جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت اور اقلیت کا مذاق اڑاتے ہوئے عربوں کو حقارت سے مقامی (native) اور یہودیوں کو ان سے صلاحیت (qualititavely) کے اعتبار سے مختلف قرار دیا تھا۔

جمہوری اصول تعداد کو اہمیت دیتا ہے اور خوف ناک تعداد ہمارے خلاف پڑتی ہے‘ اس لیے کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب ہیں۔ یہ نظام اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھتا کہ ایک یہودی اور ایک عرب میں ایک بنیادی فرق ہے جو یہودی کی صلاحیت میں فوقیت پر مبنی ہے۔ موجودہ نظام یہودی کو اسی سطح پر لے آتا ہے جس پر ایک مقامی ہے۔

جب آئن سٹائن نے ڈاکٹر ویزمین سے پوچھا کہ اگر فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے تو پھر عربوں کا کیا ہوگا تو ویزمین نے کہا: کون سے عرب؟ ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟

پروفیسر بین زیون دی نور (Prof. Ben Zion Dinur)  اسرائیل کا پہلا وزیراعظم تھا۔ اس نے History of the Haganah کے پیش لفظ میں صاف لکھا ہے:

ہمارے ملک میں صرف یہودیوں کے لیے جگہ ہے۔ ہم عربوں سے کہیں گے: باہر نکل جائو۔ اگر وہ یہ نہ مانیں اور مزاحمت کریں تو پھر ہم ان کو طاقت کے زور سے نکال باہر کریں گے۔ (راجر گارودی (The Case of Israel: A Study of Political Zionism, London, 1983)

یہی وہ تصور ہے جس کے تحفظ کے لیے عربوں کو اسرائیل میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں اور دوسری طرف قانون مراجعت  (Law of Return) کے تحت دنیا کے ہر یہودی کو اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے کا نسلی اختیار حاصل ہے۔ ابھی ۳۱جولائی ۲۰۰۳ء کو اسرائیل کی پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا ہے اور جس کی تنسیخ کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر ایک عرب فلسطین کے مغربی کنارے کا رہنے والا اسرائیل میں کسی عرب خاتون سے جو اسرائیل کی شہری ہے شادی کرتا ہے تو انھیں اسرائیل میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ یا دونوں الگ الگ رہیں‘ یا اسرائیل کو چھوڑ دیں۔ اس سے زیادہ اس کا کیا ثبوت درکار ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری نہیں‘ ایک نسل پرست ریاست ہے اور اس کو تسلیم کرنا انسانیت کے آج تک کے حاصل شدہ اکرام کی نفی ہوگا۔ فرانس کا مشہور مفکر راجر گارودی اسرائیل کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں صاف الفاظ میں لکھتا ہے:

۱-  اسرائیلی ریاست جہاں قائم کی گئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا ریکارڈ اسے ان بدترین ریاستوں میں شمار کراتا ہے جن سے اس کے قریبی روابط ہیں: ۱-امریکہ ۲- جنوبی افریقہ ۳- ایل سیلوے ڈور ‘گوئٹے مالا‘ پیراگوئے۔

۲-  اسرائیلی ریاست کا بنیادی عقیدہ (سیاسی صہیونیت) یہودی روایت سے پیدا نہیں ہوا۔ وہ صرف مغربی قوم پرستی بلکہ۱۹ویں صدی کی استعماریت سے وجود میں آیا ہے۔ یہ نسل پرستی‘ قوم پرستی اور استعماریت کی ایک شکل ہے۔

۳-  یہ ریاست اقوام متحدہ کے ایک غلط فیصلے‘ دبائو اور بدعنوانی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ اور مغرب سے ملنے والے اسلحے اور مال کے زور پر قائم ہے اور ان سب سے بڑھ کر امریکہ کی غیر مشروط اور غیرمحدود مدد پر۔

۴-  یہ کوئی مقدس ریاست نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۵۷-۱۵۸)

فلسطینی ریاست کی کس مپرسی :  اسرائیل کا جو کردار گذشتہ ۵۵ سالوں میں رہا ہے اور جو مظالم وہ اس وقت بھی فلسطینیوںپر ڈھا رہا ہے‘ ان کو نظرانداز کر کے اور فلسطین اتھارٹی کی بے بسی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نام دینا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی شخص بہ قائمی ہوش و حواس نہیں کر سکتا۔ ۲۲ عرب ملکوں میں سے صرف دو (یعنی مصر اور اُردن) نے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے مگر شدید مجبوری کے تحت۔ ان دونوں نے بھی ایک عرصے سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا ہوا ہے۔ رہا معاملہ یاسر عرفات اور فلسطین اتھارٹی کا‘ تو وہ تو ابھی ریاست کے مراحل کے دور دور بھی نہیں اور محض اسرائیل کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم نے برطانوی سامراج کو تسلیم کرلیا تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے مراحل میں وہ انڈین قانون ساز اسمبلی میں شریک ہوگئے تھے۔ فلسطینی آج اپنے حالات کے مطابق سیاسی اور جہادی ہر راستے سے اپنی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسے ’تسلیم کرنا‘ قرار دینا حقائق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور دوسرے ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسرائیل پر جو بھی تھوڑا بہت عالمی دبائو ہو سکتا ہے اسے بھی کسی فیصلہ کن مرحلے سے گزرے بغیر ختم کر دیا جائے۔ یہ اہلِ فلسطین کی جدوجہد آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ محض ایک ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ نہیں۔ ارضِ فلسطین صرف فلسطینیوں اور عربوں کے لیے اہم نہیں‘ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی اہم ہے۔ القدس ہمارے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ واقع ہیں اور جو حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بعد قبلہ اول کی حیثیت سے دنیا کی تمام مساجد کے مقابلے میں سب سے محترم عبادت گاہ ہے‘ جس کی تقدیس پر قرآن گواہ ہے:  سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَاط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِحرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ‘‘۔

الاقصیٰ پر یہودیوں کا قبضہ اور پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا--- محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

پاکستان سے دشمنی:  پاکستان پہلے دن سے اور خصوصیت سے نیوکلیر صلاحیت کے حصول کے بعد‘ اسرائیل کا ایک واضح ہدف ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر اسرائیل اس پورے علاقے اور خصوصیت سے پاکستان کو غیر مستحکم (de-stabilize) کرنے میں عملاً سرگرم ہے۔ بن گورین نے صاف لفظوں میں اسرائیل کے عزائم کو بیان کر دیا تھا‘ کیا ہماری قیادت ان حقائق سے ناآشنا ہے۔ جیوئش کرانیکل کے ۱۹ اگست ۱۹۶۷ء کے شمارے میں بن گورین کا اعلان ان الفاظ میں موجود ہے:

ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پر ان خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدف اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس (پاکستان) کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے اور یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہ (پاکستان) عرب کا شیدائی ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوںکے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے۔

اس کے بعد گورین نے بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہرقسم کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔

ایک دوسرے اسرائیلی وزیراعظم شیمون پیریز نے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد نیوزویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور جنرل مشرف اب ایک ہی کشتی کے سوارہیں لیکن ذرا انداز بیان کا تیکھا پن ملاحظہ ہو۔ صدربش کی دہشت پسندی کے خلاف اسٹرے ٹیجی اور اس کے ذیل میں اسرائیل کے گرم جوشی سے حصہ نہ لینے (low profile) کے ضمن میں فرماتے ہیں:

میں نے اسے بتایا ہم تمھاری حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایک اچھے یہودی لڑکے کی طرح میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ میں پاکستان کے صدر مشرف کی حفاظت کے لیے دعا کروں گا۔ یہ ایک بہت ہی زیادہ غیرمتوقع تجربہ ہے۔ لیکن ہم آپ کی  حکمت عملی کو سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ خود اپنا کوئی ایجنڈا وضع کریں۔ (نیوزویک‘ ۵ نومبر ۲۰۰۱ئ‘ ص ۳۳)

اس انٹرویو میں طالبان کے بعد عراق پر حملے کا مشورہ بھی موجود ہے اور واضح رہے کہ پس منظر میں کہوٹہ پر بھارت یا اسرائیل کے پیشگی حملے (pre-emptive strike) کے خدشات بھی موجود ہیں۔

عین اس وقت جب جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قومی بحث کی بات کر رہے تھے اسرائیل کے سرکاری نمایندے نے اعلان کیا ہے کہ ایریل شیرون ستمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے اور یہ کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے (اوصاف‘ لندن‘ ۱۲ جولائی ۲۰۳)۔ اس سے پہلے ۹ جنوری کے دی نیشن میں پیریز کا بیان بھی قابلِ توجہ ہے جو عین بھارت کی لام بندی کے وقت دیا گیا تھا کہ ’’اگر ہندستان کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو ہندستان جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل ہندستان کا ساتھ دے گا‘‘۔ کیا یہی وہ اسرائیل ہے جس سے دوستی اور خیر کی توقعات باندھی جا رہی ہیں  ع

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

اقبال اور قائداعظم کا واضح موقف

علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کی باتیں ہماری قیادتیں بہت کرتی ہیں۔ لیکن کیا ان کو اسرائیل اور صہیونی عزائم اورایجنڈے کے بارے میں اقبال اورقائداعظم کے خیالات اور احساسات کا کوئی پاس ہے۔ علامہ اقبال کو یورپ کے پنجۂ یہود میں ہونے کا مکمل ادراک تھا اور صہیونی دعوے کے بارے میں بڑے واضح الفاظ سے انھوں نے کہا تھا کہ    ؎

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

اور قائداعظم نے ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء رائٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ:

فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمایندے نے اقوام متحدہ میںکر دی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک کش مکش اور تصادم ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ کش مکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے اور (عربوں کے خلاف) اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی اس کے بس میں ہو‘ پورے جوش اور جذبے اور طاقت سے بروے کار لائے۔

۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۸ء تک قائداعظم کے کم از کم ایک درجن بیان اور خود امریکی صدر ٹرومین کے نام ان کا خط اسرائیل کے خلاف ان کے موقف کا منہ بولتا اعلان ہے۔ لیکن ہماری قیادت کا حال یہ ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں‘ اور دل ہیں کہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

اسلام نے خارجہ سیاست کے جو اصول دیے ہیں ان کی روشنی میں بھی ہمارے لیے اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ اسرائیل جو ایک کھلی کھلی جارح قوت ہے اور ہمارے کلمہ گو بھائیوں اور مظلوم انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہم کسی موہوم مفاد کی خاطر اس ہمہ گیر خون خرابے کے لمحے اسے سندجواز فراہم کریں اور فلسطین‘ عرب اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوم عوام سے اپنے کو کاٹ لیں۔ عرب عوام ہمارے اصل شریک کاررواں ہیں‘ ہمارے ہم راہی وہ حکمران اور مفادپرست عناصر نہیں جن کو اُمت کا مفاد عزیز نہیں اور جو مغرب کے آقائوں کی خوشنودی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔

حال ہی میں فلسطین میں جو سروے ہوا ہے اس کی رو سے آبادی کا ۹.۸۷ فی صد الاقصیٰ انتفاضہ کے حق میں ہیں۔ ۳.۶۵ فی صد اسرائیل کے علاقوںمیں اور ۵.۶۰ فی صد مقبوضہ غربی حصوں میں عسکری اورجہادی اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ۹.۵۹ فی صد خودکش حملوں کے حق میں ہیں۔ ابومازن کو جن کا اعتماد حاصل ہے وہ آبادی کا صرف ۸.۱ فی صد ہیں اور ۸.۶۷ فی صد کا خیال ہے کہ موصوف کو وزیراعظم صرف بیرونی دبائو میں بنایا گیا ہے البتہ ۹.۵۱ فی صد کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مسئلے کا حل دو آزاد ریاستوں کے قیام کی شکل میں ممکن ہے بشرطیکہ فلسطین کی ریاست بھی حاکمیت کے معیار پر پوری اترے اور اپنے معاملات کی خودمختار ہو (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مئی ۲۰۰۳ئ‘ ص ۱۳)۔ لیکن ظاہر ہے کہ فی الحال ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ ایسے حالات میں اپنے اصولی موقف سے ذرا سا بھی ہٹنا حد درجہ تباہ کن ہوگا۔ ان حالات میں ہمارا کام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں‘ --- اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی ہر ممکن مدد اور ان کی حوصلہ افزائی ہے۔ قرآن تو صاف کہتا ہے:

لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (الممتحنہ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ: ’’دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی روشن چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اصولی طور پر ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ: ’’پاکستان کو ایک ماڈرن ترقی پسند معتدل اسلامی ریاست بنانا چاہیے‘‘۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ اسلام کے جدید تصور اور ماڈرن اسلامی ریاست کے نام پر کمال اتاترک اور متعدد حکمرانوں نے جو گل کھلائے ہیں اور پرویز مشرف نے جس طرح انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے‘ اس سے یہ سوال ایک گہری تشویش میں بدل جاتا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام دورئہ امریکہ سے واپسی کے فوراً بعد ان کے دورئہ تیونس نے کیا ہے جہاں انھوں نے تیونس کے ساتھ یہ انوکھا معاہدہ کیا کہ ’’دونوں مسلم ممالک مل کر اسلام کا جدید ماڈل پیش کریں گے‘‘۔ اس سے پہلے اس نوعیت کا معاہدہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا ہوگا۔

تیونس کے حالات سے بے خبر پاکستانیوں کے لیے یہ شاید کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو‘ لیکن جو شخص تیونس اور اس کے ماڈرن اسلام کا حال جانتا ہے‘ اس کے لیے یہ معاہدہ کسی خوف ناک المیے سے کم نہیں کیونکہ سابق صدر بورقیبہ اور حالیہ صدر بن علی نے جدید اسلام کے نام پر تمام دینی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ روزہ تک ساقط کر دیا‘ نماز پڑھنا دہشت گردوں کی علامت قرار دے دیا گیا‘ عریانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئی‘ ساحل سمندر پر مغربی ممالک جیسے نظارے عام ہوگئے۔ خواتین کے مساویانہ حقوق کے نام پر قرآن کریم کے وراثتی احکام کو منسوخ کرتے ہوئے ہر خاتون کو وراثت میں مرد کے مساوی حصہ دینے کا اعلان کیا‘ شراب جیسی اُم الخبائث کی ہر ممکنہ حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک طویل فہرست ہے جو ماڈرن اسلام کے نام پر مسلط کی گئی۔

’’جدید اسلام‘‘ پیش کرنے کی یہ کوئی پہلی یا آخری کوشش نہیں ہے۔ گذشتہ صدی میں ترکی اور مصر سمیت مسلم ممالک کے کئی حکمران یہ جنون پال چکے ہیں۔ اب بھی امریکی سائے تلے پلنے کی خواہش رکھنے والے حکمران اسی کینسرکا شکار ہیں۔ فلسطین میں تحریک مزاحمت ختم کرنے اور صہیونی ریاست سے دوستی کروانے کے لیے گذشتہ پوری دہائی ان کوششوں میں صرف ہوگئی کہ جہاد سے متعلقہ تمام قرآنی آیات‘ احادیث رسولؐ اور مضامین و تحریروں کو تمام تعلیمی نصابوں سے خارج کر دیا جائے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اب اسی راستے پر مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایک تیونسی ’’اسکالر‘‘ العفیف الاخضرنے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے ذرا دل تھام کر اس کا حال بھی سن لیں۔

۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اس نے کہا کہ ’’عالم اسلام میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا اصل سبب یہ ہے کہ مسلمان اب بھی زمانہ قدیم کی اسی فقہ کو درست سمجھتے ہیں جو غیرمسلموں کی تقلید کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔ ہماری دینی نرگسیت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اسلام آنے کے بعد تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فقہ اسلامی کی ڈکشنری سے لفظ ’’کفار‘‘ خارج کر دیا جائے‘‘۔الاخضر نے اس بات پر فخر کرتے ہوئے کہ ۱۹۵۶ء میں اسی کی تحریک پر جامعہ الزیتونہ بند کی گئی تھی۔ تجویز دی کہ ’’تمام مسلم دارالحکومت اپنے ہاں تیونس کے تجربات پر عمل کریں‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’تمام عرب ممالک کو زندگی کے ہر شعبے میں انسانی حقوق کی تعلیم دینا چاہیے جیسا کہ تیونس میں ہو رہا ہے تاکہ اس اسلامی شعور سے چھٹکارا پایا جا سکے جو حلال اور حرام کے چکروں میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔ اس نے مغربی دنیا کو عالمِ اسلام میں براہِ راست مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ’’دینی دہشت گردی کا خطرہ مغرب تک جاپہنچنے کے بعد اب یہ آپ کی اپنی ضرورت بھی ہے کہ آپ دینی تعلیم میں اصلاحات کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں‘‘۔

ایک اور نام نہاد مسلم دانش ور ڈاکٹر حیدر ابراہیم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مسلمانوں کی پستی کی وجہ ان کا اس اختلاف میں پڑے رہنا ہے کہ کیا نص ناقابلِ تبدیلی ہے یا اسے زندگی کے معاملات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے… مسلمان زندگی کے متعلق سوچنے سے زیادہ آخرت کے متعلق سوچتے ہیں‘‘۔ پھر مزید کھل کر کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس طرح کی آیاتِ قرآنی کے سحر سے نکل آنا چاہیے کہ ’’کنتم خیر اُمۃ اخرجت للناس… تم بہترین اُمت ہو‘ لوگوں کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘ کیونکہ اس آیت سے (نعوذباللہ) تکبر اور تعلّی پیدا ہوتی ہے۔

اسی کانفرنس میں ایک اور عرب دانش ور اڈوینس نے ان دونوں کی باتوں کو اپنی مسیحیت کے لبادے میں زیادہ وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس نے کہا: ’’معلوم نہیں ہم یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ کیا واقعی ثقافتی تجدید اور صراحت سے بات کرنے کے لیے یا اب بھی ممنوعات (taboos) پر سکوت اختیار کرنے کے لیے؟ تم لوگ بصراحت کیوں نہیں کہتے کہ ترقی کی راہ میں سب سے پہلی رکاوٹ وحیِ الٰہی اور اسلام ہے۔ اس بات کو پوری جرأت اور صراحت سے بیان کرنا ہوگا ورنہ ترقی نام کی کوئی چیز وجود میں نہیں آسکے گی‘‘۔

بدقسمتی سے اڈوینس نے یہ خرافات سرزمین ازھر پر مصری وزیرثقافت کی طرف سے بلائی گئی ایک کانفرنس میں کی۔ اس کے تمام شرکا اسی قبیل کے تھے‘ اور یہ سب کچھ تجدید کے نام پر ہو رہا تھا اور امریکی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہو رہا تھا۔ امریکی پیمانے کے مطابق یہ سب اقدامات ماڈرن اسلام کی ضروری بنیادیں ہیں۔ ان اقدامات اور دردیدہ دہنی کے بعد ہی کوئی شخص معتدل اور جدت پسند ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے سرگرم متحرک یہودی ڈینئل پائپس سے پوچھا گیا کہ ’’کیا عربوں اور مسلمانوں میں بھی کوئی معتدل افراد پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے شدت سے نفی کرتے ہوئے کہا: ہرگز نہیں۔ پھر کہا: ہاں البتہ سلمان رشدی اور تیونسی صدر زین العابدین  بن علی اعتدال پسند شخصیات ہیں‘‘۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۸۶‘ جنوری ۲۶- ۲۰۰۲ئ)

گذشتہ ۳۰ سال میں جنرل پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران ہیں جو تیونس کے دورے پر گئے اور وہاں تاریخ کا یہ منفرد معاہدہ کر آئے۔اس معاہدے کے بعد خود تیونس کے عوام نے پاکستان اور اس کے حکمران کے بارے میں کیا تصور قائم کیا ہوگا‘ جنرل صاحب اور ان کے کسی ساتھی کو اس کی کوئی پرواہ نہ ہو۔ لیکن جنرل صاحب کے سامنے یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ تیونسی صدر حبیب بورقیبہ کی سالہا سال کی کوششوں اور بن علی کے سولہ سالہ اقتدار میں دین کے تمام سوتے خشک کر دینے کے منصوبوں کے باوجود ان دنوں تیونسی حکمران پریشان ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے خواتین میں حجاب کا اور مساجد میں نمازیوں کا تناسب اچانک کیوں بڑھ گیا ہے۔ ’’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ کے مصداق ماڈرن تیونس کے حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُور رکھنے کے لیے کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہوا میں مچھلیاں پالنا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب حقائق جنرل پرویز مشرف سے مخفی تھے یا یہ کہ انھی حقائق کی وجہ سے انھیں تیونس کے ساتھ جدید اسلا م متعارف کروانے کے لیے معاہدوں کے سفرپر بھیجا گیا اور کیا واقعی جنرل مشرف رشدی‘ بن علی کے ساتھ ایک تیسرے مسلمان کا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وقت بہت جلد ان سوالات کا جواب دینے والا ہے۔ لیکن خود جنرل صاحب خالق کائنات اور پاکستانی قوم کو کیا جواب دیں گے؟ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کی امین پاکستانی قوم کو؟

تحقیقی کاوشیں کسی قوم کی زندگی کی علامت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ملک میں نصف صدی گزارنے کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی قابلِ فخر روایت قائم نہیں کر سکے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پرنت نئے حالات اور مہمات مسائل سے سابقہ پڑ رہا ہے۔ لیکن ہم سنجیدہ تحقیقی رویے اختیار کرنے کے بجاے‘ موقع بہ موقع کسی ایک رجحان کے مطابق صحیح یا غلط حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ایک بدقسمتی تو یہ ہے کہ سائنس کی غیرمعمولی اہمیت نے تحقیق کا مطلب سائنسی موضوعات پر تحقیق کرنے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے تک محدود کر دیا ہے۔ ملکی سطح پر سارا بجٹ اور توجہ اسی دائرے پر مرکوز ہے۔ بیرونِ ملک جو طالب علم وظائف پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں‘ ان کا بہ ظاہر ۹۰ فی صد حصہ سائنس کے طلبہ کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ بیرونی ممالک سے ملنے والے وظائف انھی موضوعات کے لیے ہوتے ہیں(وہ ہم سے ریسرچ کروا کے خود فائدے اُٹھاتے ہیں)‘ اور ملک میں بھی اسی دائرے پر اسے کسی منفعت کا سبب  سمجھ کر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سوشل سائنسز کا اہم تر میدان بے توجہی اور بے نیازی کا شکار    رہ جاتا ہے (یہ بجاے خود تحقیق کا ایک موضوع ہے)۔

اسلام‘ مسلمان اور مغرب سے اس کا تعامل‘ ایک زندہ اور گرم موضوع ہے۔ مسلمان ممالک کی گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ سال کی تاریخ کا تحقیقی تجزیاتی مطالعہ مستقبل کے لیے روشن راہیں کھول سکتا ہے۔ قومی سطح پر تعلیم‘ معیشت‘ معاشرت‘ خارجہ تعلقات اور نفسیاتی رجحانات کے کتنے ہی پہلو تحقیق کے منتظرہیں۔ پاکستان میں (اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی) احیاے اسلام کی جو جدوجہد ہو رہی ہے‘ اس کے معروضی مطالعے بھی وقت کا تقاضا ہیں۔

ہم اپنی بات کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں۔ہم اس تاثر کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں جن کا ایک زندہ قوم میں تحقیق میں نمایاں اور قائدانہ کردار ہونا چاہیے۔  نجی تحقیقی ادارے اس وقت پیش نظر نہیں۔ جن کا المیہ عموماًیہ ہے کہ تحقیق کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیتے ہیں اور محض ایک پبلشنگ ہائوس بن کر رہ جاتے ہیں۔

تحقیق کا ذکر اذکار تو بہت ہوتا ہے اور جب سے حکومت نے تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے پی ایچ ڈی پر الائونس شروع کیا ہے تو پی ایچ ڈی کرنے کے‘ یعنی تحقیق کرنے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے جو یقینا ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن بجٹ کا سارا بہائو سائنس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی طرف ہے۔ جن میدانوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے‘ اور جن کی اہمیت و ضرورت ہر دانش مند کے نزدیک فائق تر ہے‘ وہ اس بہائو سے محروم سوکھے ہی پڑے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے بیان کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن بیرونِ ملک سائنسی موضوعات پر ۴۰‘ ۵۰ لاکھ روپے فی پی ایچ ڈی خرچ کرنے کو تیار ہے‘ جب کہ ملکی جامعات میں اہم سوشل اہمیت کے موضوعات پر پی ایچ ڈی کے لیے دو ڈھائی لاکھ روپے دینے کو بھی تیار نہیں۔ (روزنامہ جسارت‘ ۱۶ جولائی ۲۰۰۳ئ)

اگر ہم ان موضوعات کے حوالے سے مغربی جامعات کے تحقیقی منظر پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہار آئی ہوئی ہے۔ دنیا کا موضوع ہم ہی ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد سے اسلام پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور انھوں نے زندہ لوگوں کی طرح‘ ہماری ہر چیز کے‘ ملک ملک کے مختلف واقعات اور رجحانات کے مطالعوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ اتنے کہ ہم خود اپنے بارے میں شائع ہونے والے مطالعے حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے (یا ضرورت نہیں سمجھتے‘ مطالعہ تو ذرا دُور کی بات ہے)۔ اسلامک فائونڈیشن کا مجلہ مسلم ورلڈ بک ریویو ہر سہ ماہی پر اتنی کتابوں اور مقالوں کی نوید لاتا ہے کہ اپنے سے مقابلہ کیا جائے تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ہماری جامعات جن کے اتنے متعلقہ شعبے قائم ہیں‘ نامی گرامی افراد مامور ہیں‘ آخر کیا کر رہی ہیں؟ صلاحیت و جذبے سے بھرپور سیکڑوں طلبہ ان کے پاس آتے ہیں۔ وہ چند ہی میں کوئی چراغ جلا کر کوئی روشنی فراہم کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ ۲۰‘ ۲۲ جامعات کے کتنے تحقیقی رسالے نکلتے ہیں اور ان میں کس معیار کے مقالات شائع ہو رہے ہیں‘اس کے جائزے ہیسے تصویر سامنے آجائے گی۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ہماری کئی جامعات کسی مقالے پر ڈگری تو دے دیتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ موضوع حساس اور نازک ہے بلکہ جامعہ اس کی اشاعت سے شرمسار نہیں ہونا چاہتی۔

اسلام کو جدید معاشرے میں جو چیلنج درپیش ہیں‘ کیا ان پر کسی جامعہ میں ریسرچ ہو رہی ہے؟ بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمان ہمارے بالکل پڑوس میں ہیں‘ کیا ان کے مسائل ہماری کسی جامعہ کی توجہ کے مستحق بنے؟ مشرق وسطیٰ میں کیا کچھ نہیں ہوگیا‘ کسی جامعہ سے اس کے بارے میں کوئی کتاب شائع ہوئی؟ امریکہ پاکستان کے ساتھ جو تعاون کر رہا ہے‘ (یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) ‘ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ کسی جامعہ نے اس کو موضوع بنایا؟ کتنے طلبہ کو جامعات نے اسکالرشپ دے کر افریقہ کے مغربی ممالک یا سوڈان یا وسطی افریقہ کے مسلم ممالک میں تحقیق کے لیے بھیجا؟

یہ ایک بہت بڑے منظر سے متعلق محض چند سوالات ہیں۔ یقینا اس کے جواب میں کسی جامعہ کی کوئی کاوش پیش کی جاسکتی ہوگی‘ لیکن ہماری مراد تحقیق کی ایک مسلسل ‘زندہ اور توانا روایت سے ہے۔ جامعہ کے ذمہ داروں کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتیں اور اپنے بجٹ کو--- وہ اتنی بھی بے وسیلہ نہیں--- ملّت کی دل چسپی کے ان مسائل کی طرف بھی موڑنا چاہیے۔ کوئی نیچرل اور سوشل سائنسز پر تحقیق کے لیے صرف کیے جانے والے بجٹ کا تقابلی مطالعہ ہی کرے۔ اور پھر سوشل سائنسز میں جو کچھ تحقیق ہوئی ہے‘ اس کا تجزیہ کرے کہ کتنے موضوعات کسی شخصیت کے حالاتِ زندگی ‘ قدیم تاریخ یا مخطوطات سے متعلق رہے ہیں اور کتنے آج کے زندہ مسائل سے‘ جن پر تحقیق‘ محنت اور وسائل اور ذہن مانگتی ہے۔

جامعات کے مقتدر اداروںکو صورتِ حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے--- یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

بہتر ہے کہ ہم پہلے یہ واضح کر دیں کہ اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ سے جس ’’ولایت‘‘ کی، اللہ نے ممانعت کی ہے‘ اس کا مفہوم کیا ہے۔ ] وَلِیٌّ ،جس کی جمع اولیاء ہے‘ ولایہٗ سے بناہے۔ ولی کے معنی ہیں‘ دوست‘ محبت کرنے والا‘ مددگار‘ رفیق‘ حلیف‘ سرپرست‘ مطیع‘ذمہ دار‘ صاحب ِ امر۔ اور ولایت کے معنی ہیں‘ دوستی‘ محبت‘ رفاقت‘ سرپرستی‘ مدد‘ تحالف‘ اطاعت۔ مترجم[

اس آیت میں ’’ولایت‘‘سے مراد یہود و نصاریٰ کی مدد‘ اُن کے ساتھ عہدوپیمان اور تحالف ہے۔ اِس لفظ کا یہاں یہ مفہوم نہیں ہے کہ اُن کے دین کے سلسلے میں اُن کی پیروی نہ کی جائے‘ کیونکہ یہ بات بالکل بعید از قیاس ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں‘ جو دین کے معاملے میں یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوں۔ یہ صرف تحالف اور تعاون اور نصرت کی دوستی ہے‘ جس کا معاملہ مسلمانوں پر مشتبہ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ جائز ہے کیونکہ مفادات اور تعلقات کے یہ رشتے عملاً پہلے سے موجود تھے۔ اسلام سے قبل عربوں اوریہود کے مابین تحالف و تعاون کے روابط قائم تھے اور مدینہ میں اسلامی نظام کے قائم ہونے کے ابتدائی دور میں بھی اِس طرح کے معاہدے موجود تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ممنوع قرار دیا اور انھیں توڑنے کا حکم دیا--- یہ اُس وقت‘ جب کہ یہ واضح ہوگیا کہ مدینہ کے مسلمانوں اور یہود کے مابین اِس طرح کے روابط کا برقرار رہنا عملاً ناممکن ہے۔ ]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ آتے ہی اسلامی ریاست قائم کی اور یہود کے مختلف قبیلوں کو‘ جو مدینہ میں پہلے سے رہ رہے تھے ‘ مسلمانوں کا حلیف بنایا۔ یہ اس لیے کہ صلح و جنگ اور امنِ عامہ جیسے امور میں اُن کے اور مسلمانوں کے مابین تعاون ہو اور وہ اسلام کے قریب آسکیں‘ لیکن یہود ان معاہدوں کو مسلسل توڑتے رہے اور مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر مسلمانوں کو جنگ کی آگ میں جھونکتے رہے‘ یہاں تک کہ جب اُن کی اسلام دشمنی حد سے بڑھ گئی اور وہ مسلمانوں کے لیے شدید ترین خطرہ بن گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحالف کے یہ رشتے --- جن کا برقرار رکھنا یہود نے ناممکن بنا دیا تھا--- توڑ  دیے اور انھیں مدینہ سے نکال دیا۔مترجم[

ولایت کا یہ مفہوم قرآنی تعبیرات میں معروف و متعین ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں اور اُن مسلمانوں کے مابین جو ہجرت کر کے دارالاسلام نہیں آئے تھے‘ تعلقات کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَالَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْ ئٍ (الانفال ۸:۷۲) ’’تمھارا اُن سے ولایت کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

اسلامی نظام کا قیام ‘ اسلام کا مقصود

اہل کتاب کے ساتھ اسلام کی نرمی و فراخ دلی ایک شے ہے اور انھیں ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) بنانا بالکل دوسری شے‘ لیکن یہ دونوں باتیں بعض مسلمانوں کے ذہن میں گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں‘ جن کے نفوس پر اس دین کی حقیقت اور دنیا میں اس کا کردار پوری طرح واضح نہیں ہو سکا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اسلام ایک عملی نظام کو برپا کرنے کی تحریک ہے‘ تاکہ اسلامی فکر کے مطابق ایک نظام عملاً وجود میں آکر قائم و غالب ہوسکے۔ یہ اسلامی فکر اپنی فطرت و طبیعت کی رو سے اُن تمام افکار و تصورات سے مختلف ہے‘ جن سے نوعِ انسانی واقف ہے‘ اور اسی لیے مخالف افکار اور طریقہ ہاے زندگی سے اُس کا تصادم ہوتا ہے ‘ جس طرح کہ اس کا تصادم لوگوں کی خواہشاتِ نفس اور خدائی نظامِ زندگی سے انحراف و بغاوت اور فسق و فجور سے ہوتا ہے۔ وہ ان سب سے ایک ایسی جنگ میں مصروف ہوجاتا ہے‘ جس سے بچنے کی کوئی تدبیر اور جس سے کوئی مفرنہیں--- یہ تصادم اور یہ جنگ اس لیے ہے کہ (غلط افکار اور نظام ہاے زندگی کی جگہ) وہ جدید عملی نظام وجود میں آجائے‘ جسے اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مؤثر ایجابی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے۔

جن مسلمانوں کے فکرونظر میں یہ دونوں باتیں گڈمڈ ہوگئی ہیں‘ وہ درحقیقت اسلام اور اسلامی عقیدے کا واضح اور نکھرا ہوا تصور نہیں رکھتے۔ انھیں حق و باطل کی فطرت اور اِس جنگ میں اہل کتاب کے موقف کی فطرت کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ قرآن کی اُن واضح و صریح نصوص سے بھی غافل ہیں‘ جو اس سلسلے میں وارد ہیں--- اہل کتاب کے معاملے میں نرمی و فراخ دلی برتی جائے اور جس مسلم معاشرے میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے حقوق کی ضمانت اور تحفظ ہو‘ اسلام کی اِس دعوت و تعلیم کو وہ اہل کتاب سے دوستی و رفاقت رکھنے کے ساتھ گڈمڈ کرتے ہیں‘ حالانکہ مومن کی دوستی اللہ کے لیے‘ اُس کے رسولؐ کے لیے اور مسلم جماعت کے لیے مخصوص ہے۔وہ قرآن کریم کے اس بیان کو بھی بھولے ہوئے ہیں کہ مسلم جماعت سے جنگ کرنے کے معاملے میں اہل کتاب ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہوتے ہیں۔ یہ اُن کی مستقل اور دائمی صفت ہے۔ وہ مسلمان سے اس کے اسلام کی بنا پر بُغض و عناد رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے صرف اُس وقت راضی ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے دین کو چھوڑ کر اُن کے دین کے پیروہوجائیں۔ ] وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتیّٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (البقرہ ۲:۱۲۰) ’’یہودی اور عیسائی تم سے راضی نہیں ہو سکتے‘ جب تک کہ تم اُن کے دین کے پیرو نہ بن جائو‘‘[۔ وہ اسلام اور مسلم جماعت سے جنگ کرنے پر تلے رہتے ہیں:  قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ج وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُط (اٰل عمران۳:۱۱۸) ’’بُغض اُن کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ شدید تر ہے‘‘۔

بلاشبہہ مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ نرمی و فراخ دلی سے پیش آئیں لیکن اِس کے ساتھ مسلمانوں کو اِس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ تحالف اور دوستی کا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے منفرد و یکتا نظام کو قائم کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کریں گے‘ وہ اہلِ کتاب کے راستے کے ساتھ کبھی یکجا نہ ہوگا۔ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کتنی ہی فراخ دلی اور دوستی کا مظاہرہ کریں‘ اس کا یہ نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ وہ اِس بات کو راضی و خوشی برداشت کرلیں کہ مسلمان اپنے دین پر برقرار رہیں اور اپنے نظام کو دنیا میں غالب کریں۔ ان کے ساتھ فیاضانہ رویے کا یہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں سے جنگ کرنے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار نہ ہوں۔

مسلمانوں کی سادہ لوحی

کتنی بڑی سادہ لوحی اور کتنی بڑی غفلت کی ہے یہ بات کہ ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ کفار و ملحدین کے مقابلے میں دین کو غالب کرنے میں ہمارا اور اہلِ کتاب کا راستہ ایک ہوسکتا ہے ‘ جس پر دونوں گامزن ہوں‘ حالانکہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا معاملہ ہوتا ہے‘ وہ ہمیشہ کفار و ملحدین کے ساتھ ہوتے ہیں۔

ان صاف اور واضح حقائق کو ہم میں سے کچھ سادہ لوح اِس زمانے اور ہرزمانے میں نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ مادّیت و الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم زمین میں اہل کتاب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہم سب مذہب کے ماننے والے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں قرآن کی تصریحات اور تاریخ کے سبق‘ سب کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ آخر وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف مشرکینِ عرب کو اُبھارا اور متحد کیا تھا اور اُن کے معاون و ناصر بنے تھے‘ وہ اہلِ کتاب ہی تو تھے جنھوں نے ۲۰۰ سال تک مسلمانوں کے خلاف شدید صلیبی جنگیںکی تھیں‘ وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے اُندلس میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھا کر بیخ و بُن سے اُن کا صفایا کر دیا تھا‘ وہ اہل کتاب ہی تھے جنھوں نے فلسطین سے مسلمان عربوں کو مار مار کر نکالا تھا اور اُن کی جگہ یہود کو لابسایا تھا اور اس معاملے میں انھوں نے الحاد اور مادیت کے ساتھ پورا تعاون کیا تھا‘ یہ اہلِ کتاب ہی ہیں‘ جو حبشہ‘ صومالیہ‘ اریٹیریا اورالجزائر‘ ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیںاور اُن کی جمعیت کو منتشرکر رہے ہیں۔ اور ہاں‘ یہ اہل کتاب ہی تو ہیں جو یوگوسلاویہ‘ چین‘ ترکستان‘ ہندستان اور ہر جگہ مسلمانوں کی جمعیت کو منتشر کرنے اور اُن پر مظالم ڈھانے میں الحاد‘ مادّیت اور بت پرستی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ]اور اب یہ فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے[ ۔

اِس سب کے باوجود ہم میں ایسے لوگ اُبھر کر سامنے آتے ہیں‘ جو قرآن کی قطعی تصریحات و تعلیمات سے مکمل ناواقفیت و دُوری کے باعث یہ خیال کرتے ہیں کہ اِلحادی مادّیت کے خلاف جنگ کرنے میں ہمارے اور اہلِ کتاب کے مابین دوستی اور نصرت و تعاون کے روابط قائم ہوسکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں‘ جو قرآن کو نہیں پڑھتے‘ اور پڑھتے ہیں تو اسلام کی‘ فراخ دلی اور نرمی کی تعلیم--- جو اسلام کی خصوصیت و فطرت ہے--- اُن کے ذہن میں اہل کتاب سے دوستی کی بات کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہے‘ جب کہ اہلِ کتاب کی دوستی سے اسلام نے مسلمانوں کو روکا ہے۔

اسلام اُن کے احساسات وجذبات میں پیوست نہیں ہے‘ نہ اس پہلو سے کہ وہ واحد عقیدہ اور دین ہے‘ جو اللہ کے یہاں مقبول ہے اور جس کے سوا کوئی دین اللہ کے یہاں مقبول نہیں‘ اور نہ اِس پہلو سے کہ وہ ایک ایجابی تحریک ہے‘ جس کا ہدف زمین میں ایک نیا عملی نظام--- اسلامی نظام--- قائم کرنا ہے۔ یہ مقصدآج بھی اہلِ کتاب کی عداوتوں اور مخالفتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے‘ جس طرح کہ کل بنا تھا۔ یہ ایک ایسا موقف ہے‘ جس میں تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی اس سلسلے میں ان کا واحد فطری و طبیعی موقف ہے۔

ہم اِن لوگوں کو قرآنی ہدایت سے اِس غفلت یا اُسے نظرانداز کرنے کی حالت میں رہنے دیتے ہیں اور آگے بڑھ کر خود قرآن کی اِس صریح ہدایت پر غوروخوض کرتے ہیں:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ م بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) نہ بنائو۔ وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

آیت میں ندا کا رخ ابتداً مدینہ کی اولین مسلم جماعت کی طرف ہے لیکن اسی کے ساتھ اُسی دم اُس کا رخ ہر مسلم جماعت کی طرف ہے‘ جو تاقیامت زمین کے کسی بھی حصے میں رہتی ہو۔      فی الحقیقت اِس ندا کا رخ ہر اُس شخص کی طرف ہے‘ جس پر الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی صفت منطبق ہوتی ہو۔

اہلِ ایمان کو اِس بات کی ندا اور دعوت دینے کی اُس وقت ضرورت یہ تھی کہ مدینہ کے کچھ مسلمانوں اور کچھ اہل کتاب --- خصوصاً یہود--- کے مابین قطعِ تعلق پوری طرح اور قطعی طور پر نہ تھا‘ ان کے مابین دوستی‘ تحالف اور معاش اور معاملات کے ‘ نیز پڑوس اور صحبت و رفاقت کے تعلقات پہلے سے موجود تھے۔

اسلام سے قبل عربوں میں سے اہلِ مدینہ اور اہلِ یہود کے مابین خصوصیت سے جو تاریخی‘اقتصادی اور اجتماعی صورتِ حال تھی‘ اس میں یہ سب کچھ ہونا ایک فطری بات تھی۔ اس صورتِ حال کی موجودگی میں یہود کو اِس دین اور اِس دین کے ماننے والوں کے خلاف ہر طرح کی سازشوں کے سلسلے میں اپنا ناپاک رول ادا کرنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل تھے۔یہود کی اِن سازشوں کو قرآن کی بہت سی آیات میں گنایا اور بے نقاب کیاگیا ہے۔

قرآن اس لیے آیا کہ وہ مسلمان کو اُس جنگ کے سلسلے میں‘ جو اُسے اپنے عقیدے اور دین کے تحت لازماً لڑنی ہے‘ ضروری معرفت اور فہم بخشے تاکہ عملی و واقعاتی زندگی میں اُس کا جدید نظام ظہور پذیر ہو سکے‘ اور اس لیے بھی کہ مسلمان کے قلب وضمیر میں اُن لوگوں سے‘ جن کا تعلق مسلم جماعت سے نہیں اور جو اُس کے مخصوص پرچم کے تحت نہیں‘ قطع تعلق اور کامل جدائی کے جذبات پروان چڑھیں۔ اس قطعِ تعلق کے نتیجے میں وہ اخلاقی فیاضی و بردباری‘ جو مسلمان کی دائمی صفت ہے‘ ممنوع قرار نہیں پاتی‘ البتہ وہ دوستی و رفاقت ممنوع ہوجاتی ہے جو مسلمان کے دل میں صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے لیے ہونی چاہیے۔ جنگ کی حقیقت کا یہ ضروری فہم اور (اہل کتاب سے) یہ قطعِ تعلق‘ دونوں‘ ہر ملک اور ہر دور میں مسلمان کے لیے لازمی و ناگزیر ہیں۔

ایک دوسرے کے مددگار

بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے‘ جس کا وقت اور زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اہلِ کتاب کسی بھی ملک اور کسی بھی تاریخ میں اُمت مسلمہ کے رفیق اور دوست نہیں تھے۔ صدیوں پر صدیاں گزر کر اِس قولِ صادق کی سچائی کو ثابت کرتی رہیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی رفاقت و نصرت اختیار کی‘ انھوں نے پوری تاریخ میں‘ زمین کے ہرگوشے میں‘ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہ قاعدہ ایک بار بھی نہیں ٹوٹا‘ زمین پر وہی کچھ واقع ہوتا رہا‘ جسے قرآن نے منفرد واقعے کے طور پر نہیں‘ دائمی صفت کے طور پر بیان کیا تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:  بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ جملہ اسمیہ ہے‘یہ محض ایک اندازِ بیان نہیں ہے۔ یہ پیرایۂ بیان اِس لیے اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ یہ اہلِ کتاب کا دائمی اور بنیادی وصف ہے۔

اِس کے بعد اِس بنیادی حقیقت پر قرآن اُس کے لازمی نتیجے کو مرتب کرتا ہے۔ یہود و نصاریٰ جب (مسلمانوں کے خلاف) ایک دوسرے کے دوست ہیں تو جو شخص اُن سے رفاقت و نصرت کا تعلق رکھتا ہے‘ وہ انھی میں کا ایک فرد ہے۔ مسلم صف کا جو فرد اُن سے دوستی و رفاقت اختیار کرتا ہے‘ وہ فی الحقیقت اپنے آپ کو مسلم صف سے سے منقطع کر لیتا ہے اوراِس صف کا‘ جو بنیادی وصف ہے‘ یعنی اسلام‘ اس کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکتا ہے اور دوسری صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہی اِس بنیادی حقیقت کاطبیعی و واقعاتی نتیجہ ہے: وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ،(۵:۵۱) ’’تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘ وہ انھی میں سے ہے‘‘۔

وہ اپنے اوپر‘ اللہ کے دین پر‘ اور مسلم جماعت پر ظلم کرنے والا ہے۔ اُس کے اِس ظلم کے باعث اللہ تعالیٰ اُسے یہود و نصاریٰ کے--- جنھیں اُس نے اپنی دوستی و رفاقت سے نوازا--- زمرے میں داخل فرمائے گا۔ اُس کی راہ نمائی حق کی طرف نہ فرمائے گا اور اُسے مسلمان صف میں واپس نہ لائے گا:  اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵:۵۱) ’’یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

مدینہ کی مسلم جماعت کے لیے یقینا یہ شدید تحذیروتنبیہہ تھی‘ لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں‘ بلاشبہہ یہ شدید تحذیر و تنبیہہ ہے‘ مگر واقعاتی حقیقت کی مکمل آئینہ دار ہے۔ ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان یہود و نصاریٰ سے دوستی اور نصرت و تعاون کی پینگیں بڑھائے--- جب کہ یہود و نصاریٰ (مسلمانوں کے خلاف) باہم رفیق اور ایک دوسرے کے حامی و ناصر ہیں--- اور اس کا ایمان و اسلام برقرار ہے‘ اور وہ اُس مسلم صف کا ایک فرد بنا رہے جس کی دوستی صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہلِ ایمان سے ہوتی ہے۔ یہ متضاد سمتوں میں جانے والے دو راستے ہیں۔

مسلمان کا فیصلہ کُن موقف کامل یقین کے ساتھ یہ ہے کہ اُس کے ‘اور اُن لوگوں کے مابین‘ جو اسلام کے ماسوا دوسرے نظام ہاے زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اسلامی پرچم کے ماسوا دوسرے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں‘ کامل دُوری ہونی چاہیے۔ اگر اِس موقف میں کمزوری رونما ہوتی ہے تو پھر مسلمان کی وسعت و طاقت میں یہ بات نہیں رہے گی کہ وہ اُس عظیم اسلامی تحریک کا کوئی بیش قیمت کام انجام دے سکے‘ جس کا اولین ہدف یہ ہے کہ زمین پر ایک منفرد و یکتا نظام قائم ہو‘ جو دوسرے تمام نظاموں سے یکسرمختلف ہے اور ایسے تصورات پر مبنی ہے جو دوسرے افکار و تصورات سے یکسر مختلف ہیں۔

اسلامی نظام کا قیام ناگزیر ہے

مسلمان کا پختہ یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کُن موقف ہی اسے اِس امر کے لیے آمادہ و مجبور کرتا ہے کہ وہ پُرمشقت گھاٹیوں‘ کمرتوڑ تکالیف‘ شدید مخالفتوں‘ پریشان کُن سازشوں اور بدترین شدائد و آلام کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانوںکے لیے اللہ کے پسند کردہ نظامِ زندگی کو قائم و غالب کرنے کا بارِگراں اٹھائے۔ ان مصائب و شدائد کے ساتھ اِس بارگراں کو اٹھانا اتنا دشوار ہوتا ہے کہ بسااوقات انسان کی وسعت و طاقت اور اُس کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے۔ اگر اِس نظام کو قائم کیے بغیر دوسرے جاہلی نظاموں سے ‘ جو زمین میں قائم ہیں--- خواہ وہ شرک و بت پرستی کے نمایندے ہوں یا اہلِ کتاب کی کج روی و انحراف کے کھلے کھلے الحاد کے--- کام چل سکتا ہو تو اسلامی نظام کے سلسلے میں اتنی مشقتیں جھیلنے سے کیا فائدہ؟ بلکہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی کیا ضرورت؟ جب کہ اہلِ کتاب اور دوسرے کفار و مشرکین کے نظام ہاے حیات اور اسلامی نظام کے مابین تھوڑا سا فرق ہو‘ جس پر مصالحت اور صلح و آشتی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہو۔

جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان قرب پیدا کرنے اور اُن کے ساتھ فراخ دلی و رواداری اختیار کرنے کے نام پر اِن مذاہب کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے قطعِ موالات و نصرت کے رویے‘ اور دونوں کے درمیان قطعی جدائی کی روش کو ختم یا کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ وہ رواداری کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین بس یہی آخری دین ہے۔ رواداری ذاتی و شخصی امور و معاملات میں ہوتی ہے‘ اعتقادی تصورات اور اجتماعی نظام میں نہیں۔ یہ لوگ مسلمان کے قلب و ضمیر میں پیوست اس یقین کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام کے سوا کوئی دین مقبول نہیں۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی شکل میں موجود خدائی نظامِ حیات کو دنیا میں قائم و غالب کرے‘ اِس نظام کے بدل کے طور پر کسی نظام کو قبول نہ کرے‘ اور نہ اس میں کسی ترمیم کا--- خواہ وہ معمولی سی کیوں نہ ہو--- روادار ہو۔ مسلمان کا یہ یقین خود قرآن کا پیدا کردہ ہے‘ قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُقف(اٰل عمران۳:۱۹) دین اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے!

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنہُ ج (اٰل عمران۳:۸۵) اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین اختیار کرنا چاہے‘ اس کا یہ دین ہرگز قبول نہیں ہوگا۔

وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَط (المائدہ ۵:۴۹) اور اُن سے ہوشیار رہو‘ مبادا وہ تمھیں کسی حکم سے‘ جو اللہ نے نازل کیا ہے‘ پھسلا دیں۔

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱)  اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے۔

قرآن کی بات فیصلہ کُن ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُسی کو اپنائے‘ اُسے ڈھلمل یقین رکھنے والوں کی بے یقینی اور یقین و ایمان کو کمزور کرنے کی اُن کی روش سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ: سید حامد علیؒ، ج ۴‘ ص ۴۵۵-۴۶۲)

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دَور میں احیاے نظامِ اسلامی کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کا جائزہ لینے سے پہلے مناسب ہوگا کہ ایک مختصر سی طائرانہ نظر اُن سے ماقبل کے دَور پر ڈال لی جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخر ان کے دَور میں نظامِ اسلامی کے احیا کا سوال ہی کیوں پیدا ہوا اور مؤرخین نے ان کے دور کو تجدید و اصلاح کے دَور کی حیثیت سے کیوں دیکھا اور خود ان کو ایک مجدّد اورمصلح کا مقام و مرتبہ کیوں دیا---؟

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے اختتام نے جو حالات پیدا کر دیے تھے ان کے نتیجے میں وہ قدیم جاہلی رجحانات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور خلافت ِ راشدہ کے اثر سے دب گئے تھے‘ نیم تربیت یافتہ مسلمانوں اور نوخیز عربی نسل میں پوری طرح اُبھر آئے۔ حکومت کا محور جس پر اُس کا نظام گردش کرتا تھا‘ کتاب و سنت نہ رہا بلکہ عربی سیاست اور مصالح ملکی بن گیا۔ تفاخر اور عربی عصبیت کی روح جس کو اسلام نے بالکل مضمحل کر دیا تھا‘ دوبارہ تندرست و توانا ہوکر مسلم معاشرے میں در آئی۔ قبائلی غرور اور خاندانی عصبیت جو خلفاے راشدین کے زمانے میں سخت عیب اور معصیت سمجھی جاتی تھی‘ ایک خوبی کے طور پر معاشرے میں پوری طرح رچ بس گئی۔ بیت المال ذاتی ملکیت اور خاندانی جاگیر بن گیا۔ عدالتوں میں امیر اور غریب اور صاحب ِاقتدار اور بے کس میں امتیاز برتا جانے لگا۔ خلافت کا مزاج اس لحاظ سے تو بدلا ہی تھا کہ وہ جمہور کی آزاد مرضی سے منعقد ہونے کے بجاے خاندانی میراث کے طور پر باپ سے بیٹے کو منتقل ہونے لگی‘ لیکن اس کے ساتھ ہی بلکہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر حکمران عوام سے دُور ہوتے چلے گئے۔ عوام کے لیے آزادی کے ساتھ اپنے حکمرانوں کی خدمت میں پہنچ کر اپنی شکایات پیش کرنا ناممکن ہوگیا۔ ظلم اور جبر کا چلن عام ہو گیا‘ بات بات پر واں زبان کٹنے لگی۔ پیشہ ور شعرا‘ خوشامدی درباریوں اور آبروباختہ مصاحبین کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا جس پر مسلمانوں کی دولت بے دریغ صرف ہوتی تھی اور ان کی بدعنوانیوں سے چشم پوشی کی جاتی تھی۔ گانا سننے کا ذوق اور موسیقی میں انہماک حد کو پہنچ گیا تھا۔ الغرض ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے زخم خوردہ جاہلیت اپنے فاتح حریف سے انتقام لینے پر تلی ہوئی ہے اور ۴۰ برس کا حساب چند روز میں چکانا چاہتی ہے۔

بطورخلیفہ تقرری

ان حالات میں صَفر ۹۹ھ میں سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوتا ہے اور اس کی وصیت کے نتیجے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز سریر آراے خلافت ہوتے ہیں۔ آپ مصر کے گورنر عبدالعزیز بن مروان کے بیٹے اور مروانی خاندان کی سلطنت کے معمار اول عبدالملک بن مروان کے بھتیجے اورداماد تھے اور خود ایک عرصے تک مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کے گورنر رہ چکے تھے۔ آپ کی زندگی بڑے ٹھاٹ باٹ اور آن بان کی زندگی تھی۔ اچھا کھاتے تھے‘ اچھا پہنتے تھے اور نازونعمت میں رہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ عمر بن خطابؓ کے نواسے بھی تھے۔ بچپن میں آپ نے مدینہ منورہ کی پاک فضا میں حضرت عبداللہ بن عمرؓکے دامنِ فیض میں تربیت پائی تھی اور اپنے وقت کے امام صالح بن کیسان سے حدیث اور تفسیر کا علم حاصل کیا تھا۔ یہ چیزیں اثر کیے بغیر نہ رہ سکیں اور خلافت ملتے ہی آپ کی زندگی میں عظیم الشان تغیر واقع ہوا۔

سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کے بعد جب آپ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ’’میرے لیے میرا خچر کافی ہے‘‘۔ اس کے بعد شہر کا کوتوال نیزہ لے کر آپ کے آگے آگے چلنے لگا‘ تو آپ نے اسے بھی روک دیا اور کہا: ’’میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘۔

گھر پہنچے تو فکر اور تردّد سے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ اہلیہ محترمہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا: ’’اس سے بڑھ کر فکروتشویش کی بات کیا ہوگی کہ مشرق و مغرب میں اُمت محمدیہؐ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبے اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو‘‘۔

آپ کی خلافت چونکہ وصیت کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی اور مرضی جمہور کا اس میں دخل نہ تھا اس لیے آپ غوروفکر کے بعد خلافت سے دست برداری پر آمادہ ہوگئے۔ مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا:

لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کیا گیا ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے‘ میں خود اُسے اُتارے دیتا ہوں۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرو۔

لوگ جانتے تھے کہ تمام بنی اُمیہ میں آپ سب سے بہتر آدمی ہیں۔ اس لیے وہ بہ یک آواز بول اُٹھے: ’’ہم سب آپ کی خلافت سے راضی ہیں۔ آپ اللہ کا نام لے کر کام شروع کردیجیے‘‘۔

اصلاحِ حکومت

اس طرح جب آپ کو یہ یقین ہوگیا کہ کسی کو آپ کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو آپ نے اس بارِعظیم کو قبول فرمایا اور خلیفہ کی حیثیت سے عوام کے سامنے پہلی تقریر کی۔ آپ نے فرمایا:

امابعد۔ تمھارے نبیؐ کے بعددوسرا نبی آنے والا نہیں ہے‘ اور اللہ نے اس پر جو کتاب اُتاری ہے اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ نے جو چیز حلال کر دی وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو حرام کر دی وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں کا کوئی ممتاز آدمی بھی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں۔ البتہ تمھارے مقابلے میں اللہ نے مجھے زیادہ گراں بار کیا ہے۔

غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒنے اپنے اس خطاب میں دستوری نوعیت کے نکات بھی پیش کیے ہیں‘ حکومت کی حدود بھی قائم کی ہیں اور حکمران کی حیثیت کا تعین بھی کیا ہے اور یہ فرما کر کہ ’’میں فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ فیصلوں کو نافذ کرنے والا ہوں اور میں اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں‘‘--- حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان مختصر سے فقروں میں خلیفہ کی آئینی حیثیت کی وضاحت کر دی‘ یعنی خلیفہ ایک انتظامی سربراہ ہے‘ مطلق العنان حکمران نہیں۔ فیصلے کرنا شوریٰ کا کام ہے۔ خلیفہ کا کام شوریٰ کے فیصلوں کا نفاذ ہے اور وہ شریعت میں کسی کمی بیشی یا کتربیونت کا حق نہیں رکھتا۔ اس کا کام یہ ہے کہ جو قانون اسے جس حال میں ملا ہے وہ اس کی سیدھی سیدھی پیروی کرتا رہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ تذکرہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تقسیم اختیارت کا جو اصول بیان فرمایا ہے اس کو آپ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عملاً جاری بھی کیا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہر صوبے میں مستقلاً اپنی طرف سے تین نمایندے بھیجتے تھے۔ ایک والی‘ دوسرا قاضی اور تیسرا افسرخزانہ۔ حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ تینوں عہدے کسی ایک کے ماتحت نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر ایک براہِ راست خلیفہ کے سامنے جواب دہ تھا۔

جاگیروں کی واپسی

اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے سلطنت کے ہر شعبے میں کانٹ چھانٹ اور تراش خراش کا عمل شروع کر دیا۔ سب سے مقدم فرض رعایا کے کمزور اور زیردستوں کے اس مال و جایداد کی واپسی تھی جسے شاہی خاندان کے ارکان‘ اموی گورنروں‘ امرا اور وزرا نے طاقت کا سہارا لے کر غصب کر لیا تھا۔ یہ ایسا نازک کام تھا جس کو ہاتھ لگانا سارے شاہی خاندان کی دشمنی مول لینا تھا۔ لیکن آپ نے پوری بے خوفی کے ساتھ اہل خاندان کو جمع کر کے فرمایا:

بنی مروان! تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اُمت کا نصف یا دو تہائی مال تمھارے قبضے میں ہے۔

ان لوگوں نے جواب دیا کہ ’’اللہ کی قسم! جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں اس وقت تک یہ جایدادیں واپس نہیں ہو سکتیں‘ نہ ہم اپنے آباواجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے‘‘۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:

اللہ کی قسم! اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم کو ذلیل اور رسوا کر کے چھوڑوں گا۔

اس کے بعد آپ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کر کے فرمایا:

ان لوگوں (یعنی اموی خلفا) نے ہم ارکانِ خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطیے دیے جن کے دینے کا ان کو کوئی حق نہ تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا کوئی حق تھا۔ اب میں ان سب کو ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اور اس کی ابتدا اپنی ذات اور اپنے خاندان سے کرتا ہوں۔

اس تقریر کے بعد آپ نے جاگیروں کی اسناد کا رجسٹر منگوایا۔ آپ کا سیکرٹری اسناد پڑھتا جاتا تھا اور آپ انھیں قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی تمام ناجائز منقولہ اور غیر منقولہ املاک واپس کر دی۔ حتیٰ کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہ رہنے دیا۔ آپ کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک قیمتی ہیرا دیا تھا۔ آپ نے ان سے کہا کہ یا تو اسے بیت المال میں داخل کر دو یا مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائو۔ چنانچہ وہ ہیرا اسی وقت بیت المال میں داخل کر دیا گیا۔ انھی جاگیروں میں فدک کا علاقہ بھی تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال کی مِلک قرار دے دیا تھا اور حضرت فاطمہؓ کو بھی نہیں دیا تھا۔ اس فدک کے علاقے کو مروان نے اپنی جاگیر بنا لیا تھا۔ مروان کی موت کے بعد وہ وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکے حصے میں آیا۔ لیکن جب آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیریں واپس کیں تو اسے بھی واپس کر دیا اور بنی مروان سے فرمایا کہ ’’فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھاجس کی آمدنی آپؐ اپنی اور بنی ہاشم کی ضروریات پرصرف فرماتے تھے۔ فاطمہؓ نے اسے آپؐ سے مانگا تھا لیکن انھوں نے نہیں دیا۔ پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا اور اس طرح وہ وراثتاً میرے قبضے میں آیا۔ لیکن جو چیز رسولؐ اللہ نے فاطمہؓ کو نہیں دی اس پر میرا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو صورت رسولؐ اللہ کے زمانے میں تھی‘ میں اس کو اسی حالت پر لوٹاتا ہوں‘‘۔

اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیروں کو واپس کرنے کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ عام غصب شدہ اموال کی واپسی کی طرف متوجہ ہوئے اور گورنروں کے پاس تاکیدی احکام بھیج کر تمام ممالک محروسہ (وہ ممالک جو کسی بادشاہ کے تابع ہوں) کے غصب شدہ مال و املاک کو واپس کرایا۔ عراق میں اس کثرت سے مال  حق داروں کو واپس کیا گیا کہ وہاںکا خزانہ خالی ہوگیا اور آپ کو عراق کی حکومت کے اخراجات کے لیے مرکز سے روپیہ بھیجنا پڑا۔ ملکیت کے ثبوت کے لیے بھی آپ نے بڑی سہولت رکھی تھی۔ معمولی شہادت پر مال واپس مل جاتا تھا‘اور جولوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو ملتا تھا۔ یہ سلسلہ آپ کی وفات تک برابر جاری رہا۔

ناجائز آمدنی اور رشوت ستانی کا انسداد

اموی حکمرانوں نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنا لیا تھا۔ اس کی آمدوخرچ میں جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ بیت المال کا بڑا حصہ ان کے ذاتی تعیشات پر صرف ہوتا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے تمام ناجائز مصارف یک قلم بند کردیے۔ اموی امیرزادوں اورشہزادوں کو جو وظائف ملتے تھے‘ سب روک دیے۔ ایک ایسے ہی وظیفہ خوار عینیہ ابن سعد نے آپ سے شکایت کی کہ امیرالمومنین آپ پر ہم لوگوں کا بھی حق ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ’’میرے ذاتی مال میں تمھارا حق ہو سکتا ہے مگر اس میں اتنی گنجایش نہیں اور بیت المال میں تمھارا حق اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا برک غماد کے آخری حدود میں رہنے والے کا۔ بخدا اگر ساری دنیا تم لوگوں کی ہم رائے ہو جائے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو‘‘۔

غرض آپ نے خاندان کے سارے وظائف بند کر دیے۔ شاہی شان و شوکت کے تمام سامان ختم کر دیے۔ جب شاہی اصطبل کے داروغہ نے آپ سے اصطبل کے اخراجات مانگے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام سواریوں کو بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے۔ میرے لیے میرا خچر کافی ہے۔ آپ نے خود اپنا تمام ذاتی سامان بیچ کر قیمت بیت المال میں داخل کر دی۔

ناروا ٹیکسوں کا خاتمہ

عبدالملک اور ولید کے زمانے میں حجاج بن یوسف بیت المال کی آمدنی بڑھانے کے لیے نومسلموں سے بھی جزیہ وصول کرتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سلسلہ بالکل بند کر دیا اور ایک عام حکم جاری کر دیا کہ جو لوگ مسلمان ہو جائیں ان کا جزیہ چھوڑ دیا جائے۔ اس پر صرف مصر میں اتنے آدمی مسلمان ہوئے کہ مصر کے گورنر نے آپ کو لکھا کہ آپ کے اس حکم کی وجہ سے اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں کہ آمدنی گھٹ گئی ہے اور مجھے قرض لے کر تنخواہیں اداکرنی پڑی ہیں۔ آپ نے اسے لکھا کہ (مسلمان ہونے والوں پر سے) جزیہ بہرحال موقوف کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی بناکر بھیجے گئے تھے نہ کہ تحصیل دار۔

اس کے ساتھ ہی آپ نے تمام ناجائز ٹیکس‘ خراج اور چنگیاں بند کر دیں۔ آپ نے دفتری اخراجات میں بھی تخفیف کر دی۔ تمام عمال کو ہدایت بھیجی کہ ’’قلم باریک کر دو اور گٹھا ہوا لکھو اور ایک ہی پرچے پر بہت سی ضرورتیں لکھ دیا کرو‘ اس لیے کہ مسلمانوں کو ایسی لمبی چوڑی بات کی ضرورت نہیں جس سے خواہ مخواہ بیت المال پر بار پڑے‘‘۔

آپ نے عوام کی دیکھ بھال کی طرف توجہ کی۔ ملک میں جتنے مجبور اور معذور اشخاص تھے ان سب کے نام رجسٹروں میں درج کر کے ان کے وظیفے مقرر کر دیے۔ اس سلسلے میں کسی عامل سے اگر ذرا سی غفلت بھی ہوتی تھی تو سخت تنبیہ فرماتے تھے۔ ان کے قرضوں کی ادایگی کے لیے ایک مستقل مد قائم کی۔ شیرخوار بچوں کے لیے وظائف مقرر کیے۔ ایک عام لنگرخانہ قائم کیا جس سے فقرا اور مساکین کوپکا پکایا کھانا مل جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ نے غربا میں صدقات تقسیم کرنے کے لیے کچھ بھیجنا چاہا۔ اس نے عذر کیا کہ میں ناواقفیت کی وجہ سے وہاں کے امیر و غریب میں تمیز نہیں کر سکتا۔ فرمایا: ’’جو تمھارے سامنے ہاتھ پھیلائے اسے دینا‘‘۔

ناجائزآمدنیوں کے سدِّباب‘ لوٹ مار اور رشوت کے انسداد اور صدقات و خیرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام آسودہ حال ہوگئے۔ افلاس اور غربت کا خاتمہ ہوگیا۔ حتیٰ کہ صدقہ قبول کرنے والے نہ ملتے تھے۔

بیورو کریسی کی تطہیر

اس کے ساتھ ہی آپ نے ظالم‘ راشی اور بدعنوان عہدہ داروں کی طرف توجہ فرمائی۔ حجاج بن یوسف کے پورے خاندان کو جو سب سے زیادہ ظالم تھا‘ یمن میں بھیج دیا اور وہاں کے گورنر کو لکھا کہ میں تمھارے پاس آلِ عقیل کو بھیج رہا ہوں جو عرب میں بدترین خاندان ہے۔ ان کو اپنے حدودِ حکومت میں منتشر کر دو۔ ایک گورنر عبدالحمید کو لکھا کہ وسوسۂ شیطانی اور حکومت کے ظلم و ستم کے بعد انسان کی بقا نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میرا خط ملتے ہی ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔

اموی خلفا کے زمانے میں ذرا ذرا سی بدگمانی پر سنگین سزائیں دے ڈالنا ایک معمولی بات تھی۔ آپ نے یہ طریقہ بالکل بند کر دیا۔ موصل میں چوری وغیرہ کی وارداتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ وہاں کے گورنر نے لکھا کہ ’’جب تک لوگوں کو شبہے میں نہ پکڑا جائے اورسزا نہ دی جائے‘ اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہیں ہو سکتیں‘‘۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ ’’صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کرو۔ اگر حق ان کی اصلاح نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح نہ کرے‘‘۔

خراسان کے گورنر نے لکھا کہ اہل خراسان کی روش نہایت خراب ہے۔ ان کو کوڑے اور تلوار کے سوا کوئی چیز درست نہیں کر سکتی۔ اگرامیرالمومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ آپ نے گورنر کو جواب میں لکھا کہ ’’تمھارا یہ کہنا کہ اہل خراسان کوکوڑے اور تلوار کے سوا کوئی اور چیز درست نہیں کر سکتی‘ بالکل غلط ہے۔ ان کو عدل اور حق درست کر سکتے ہیں۔ انھی کو جہاں تک ہوسکے عام کرو‘‘۔

ظلم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ عمال اشیا کے نرخ گھٹا کر کم قیمت پر خرید لیا کرتے تھے۔ آپ نے قانون بنا دیا کہ کوئی عامل کسی شخص کا مال کم قیمت پر نہیں خرید سکتا۔

کسی حکمران کے عدل و انصاف اور ظلم و جور کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ وہ اپنی ماتحت اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دَور بہترین دَور تھا۔ آپ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ’’ذمیوں کے ساتھ نرمی برتو اور ان میں جو بوڑھا اور نادار ہو جائے اس کی کفالت کا انتظام کرو۔ اگر اس کا کوئی صاحب ِ حیثیت  رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو--- ورنہ بیت المال سے انتظام کرو‘‘۔

دین و سیاست کی دُوئی کا خاتمہ

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جس طرح حکومت کا سیاسی ڈھانچہ بدلا اور اس کے ہر شعبے میں اصلاحات کیں‘ اسی طرح خالص دینی امور کی طرف بھی توجہ کی۔

اموی دَور میں اس وقت تک خلیفہ صرف حاکم و بادشاہ ہوتا تھا۔ اس کو لوگوں کے اعمال و اخلاق کی طرف توجہ کرنے کی نہ فرصت ہوتی تھی نہ اہلیت۔ نہ اس کا یہ منصب سمجھا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کو دینی مشورے دے‘ ان کے اخلاق و رجحانات کی نگرانی کرے اور وعظ و نصیحت کا منصب اختیار کرے۔ یہ کام علما اور محدثین کا سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس دُوئی کو مٹایا اور انھوں نے زمامِ خلافت ہاتھ میں لیتے ہی سول حکام اور فوجی افسروں کو مفصل خطوط اور فرمان لکھے جو انتظامی سے زیادہ دینی اور اخلاقی نوعیت کے ہوتے تھے اور ان میں حکومت کی روح سے زیادہ مشورہ اور نصیحت کی روح ہوتی تھی۔ اس باب میں ان کے شغف کا یہ حال تھا کہ عاملوں اور گورنروں کے نام جو فرامین خلافت سے ان کے زمانے میں جاری ہوتے تھے‘ ان کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اُن میں یا توکسی ظلم کا ازالہ ہوتا یا کسی سنت کے زندہ کرنے کا حکم‘ یا کسی بدعت کے مٹانے کا فرمان‘ یا کسی کا وظیفہ مقرر کرنے کی ہدایت ہوتی‘ یا کوئی نیکی کی بات‘ اور یہ اس وقت تک ہوتا رہا جب تک وہ زندہ رہے۔

اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں انھوں نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں فرماتے ہیں:

اسلام کے کچھ حدود و قوانین و سنن ہیں ‘ جو اُن پر عمل کرے گا اس کے ایمان کی تکمیل ہوگی اور جو عمل نہیں کرے گا‘ اس کا ایمان نامکمل رہ جائے گا۔ اگر زندگی نے وفا کی تو میں تمھیں اس کی تعلیم دوں گا اور تمھیں ان پر چلائوں گا۔ اگر اس سے پہلے میرا وقت آگیا تو میں تمھارے درمیان رہنے پر کچھ ایسا حریص بھی نہیں ہوں‘‘۔

جزیرہ کے گورنر کو نماز کی تاکید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

نماز کے وقت تمام کام چھوڑ دو کیونکہ جس شخص نے نماز کو ضائع کر دیا‘ وہ دیگر فرائض اسلام کا سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔

عام بگاڑ کے سبب سے دوسرے تعیشات کے ساتھ شراب نوشی کا رواج بھی معاشرے میں ہو چلا تھا۔ آپ نے تمام عمال کے نام حکم جاری کر دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے اورشراب کی دکانوں کو حکماً بند کر دیا جائے۔

آپ ہر وقت عوام پر نظر رکھتے تھے اور جہاں کوئی خرابی پیدا ہوتی تھی‘ اس کا تدارک کرتے تھے۔ آپ نے تمام عمال کو ایک فرمان بھیجا‘ جس کا خلاصہ یہ ہے:

مجھے معلوم ہوا ہے کہ بیوقوفوں کی عورتیں زمانۂ جاہلیت کی طرح موت کے وقت بال کھولے نوحہ کرتی ہوئی نکلتی ہیں۔ اس نوحہ و ماتم پر قدغن لگائو۔ اہل عجم چند چیزوں سے جنھیں شیطان نے ان کی نگاہ میں محبوب کر دیا تھا‘ دل بہلاتے تھے۔ مسلمانوں کو اس لہولعب اور راگ باجے سے روکو اور جو نہ مانے اسے اعتدال کے ساتھ سزا دو۔

اشاعتِ اسلام

لوگوں کے اعمال کے ساتھ ساتھ آپ کو ان کے عقائد کی بھی فکر رہتی تھی۔ آپ کے زمانے میں معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے قضا و قدر کا مسئلہ چھیڑ رکھا تھا اور عوام کو لایعنی بحثوں میں اُلجھا رہے تھے۔ آپ نے انھیں بلا کر غلط عقائد سے توبہ کرائی اور علما کو لکھا کہ وہ ان خیالات کو قبول نہ کریں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسلامی حکومت کے رقبے میں توسیع کے بجاے خود اسلام کی توسیع واشاعت کو مقصود قرار دیا اور اپنی ساری توجہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کر دی اور اس سلسلے میں ہر طرح کے مادی و اخلاقی ذرائع استعمال کیے۔ فوجی افسروں کو ہدایت کی کہ وہ رومیوں کی کسی جماعت سے اس وقت تک جنگ نہ کریں جب تک کہ انھیں اسلام کی دعوت نہ دے لیں۔ تمام عمال کو حکم تھا کہ وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ جو ذمی اسلام قبول کر لے‘ اس کا جزیہ معاف کر دیں۔ آپ کی اس پالیسی کا نتیجہ تھاکہ صرف ایک صوبے خراسان میں ۴ ہزار ذمی مسلمان ہو گئے۔ افریقہ اور اندلس کے تازہ مفتوحہ علاقوں میں اشاعت ِ اسلام کی طرف آپ نے خاص طور پر توجہ فرمائی اور اپنے دست ِ مبارک سے دعوتی خطوط لکھ لکھ کر روانہ کیے۔ علامہ بلاذری فتوح البلدان میں لکھتے ہیں: ’’پھر جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو انھوں نے اسماعیل بن عبداللہ بن ابی المہاجر کو مغرب کا گورنر مقرر کیا۔ انھوں نے نہایت عمدہ روش اختیار کی اور بربروں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس کے بعد خود حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان کے نام دعوتی خطوط لکھے۔ اسماعیل نے جب یہ خطوط ان کو پڑھ کر سنائے تو مغرب پر اسلام غالب آگیا‘‘۔

اس طرح آپ نے سندھ کے حکمرانوں اور زمین داروں کو بھی دعوتی خطوط لکھے۔ چنانچہ ان میں سے بیشتر نے اسلام قبول کر لیا۔

اشاعت اسلام کے لیے ضروری تھا کہ خود علم دین کی طرف توجہ کی جاتی۔ اس سلسلے میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ حدیث کی تدوین تھا۔ اپنے زمانے کے ایک بڑے عالم ابوبکر بن حزم  کو تدوین حدیث کی طرف متوجہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی جو کچھ حدیثیں تم کو ملیں ان کو تحریری شکل میں لے آئو۔ اس لیے کہ مجھے خطرہ ہے کہ علما رخصت ہو جائیں گے اور علم مٹ جائے گا‘‘۔

اس پر بھی آپ کو اطمینان نہیں ہوا تو اپنی سلطنت کے تمام عہدے داروں کے نام فرمان جاری کیا کہ ’’رسولؐ اللہ کی احادیث کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو‘‘۔

پھر اس پر اکتفا نہیں کیا۔ علما کو اشاعت علوم کی طرف متوجہ کیا۔ ایک فرمان میں آپ لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو چاہیے کہ عام طور پر علم کی اشاعت کریں اور تعلیم دینے کے لیے حلقۂ درس قائم کریں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ بھی جان لیں کیونکہ علم اس وقت تک برباد نہیں ہوتا جب تک کہ اسے مخفی نہ رکھا جائے‘‘۔

حمص کے گورنر کو لکھا: ’’جن لوگوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے آپ کو فقہ کی تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک کو جس وقت میراخط پہنچے‘ بیت المال سے ۱۰۰ دینار دو تاکہ وہ لوگ اس حالت کو قائم رکھ سکیں‘‘۔

حضرت نافع کو جو حضرت عبداللہ بن عمرؒ کے غلام اور مدینہ منورہ کے محدث اورفقیہہ تھے‘ خاص طور پر مصر بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو فقہ اور حدیث کی تعلیم دیں۔

ایک اور تبدیلی جو آپ کے عہد میں آئی وہ یہ تھی کہ آپ کے پیش رو اموی خلفا کے گرد شاعروں‘ خوشامدیوں‘سازندوں اور گویوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ آپ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے اپنے زمانے کے مشہور تابعین اور علما کو اپنے ارد گرد جمع کیا۔ یہی لوگ درحقیقت آپ کی شوریٰ تھے جن سے آپ روز مرہ کے معاملات میں مشورہ لیتے تھے۔ رفقاے کار اور اربابِ صحبت میں جن اوصاف کا ہونا آپ کے نزدیک ضروری تھا اُن کی آپ نے خود تصریح فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پہلی صفت یہ ہے کہ:

۱-  اگر میں انصاف کی راہ نہ پائوں تو وہ میری رہنمائی کرے۔

۲- نیکی کے کاموں میں میرا مددگار ہو۔

۳- جو لوگ مجھ تک اپنی حاجت نہیں پہنچا سکتے وہ مجھ تک ان کی حاجت پہنچائے۔

۴- میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے۔

۵- امانت دار ہو۔

الناس علٰی دین ملوکھم

حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے امورِ خلافت کے انتظام و انصرام میں حضرت فاروق اعظمؓ کو اپنے لیے نمونہ بنایا تھا۔ چنانچہ آپ حضرت فاروق اعظمؓ کے پوتے حضرت سالمؒ بن عبداللہ بن عمر کو جو خود ایک ممتاز تابعی تھے‘ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ: ’’اگر اللہ مجھ کو استطاعت دے تو میں رعایا کے معاملات میں عمرؓ بن خطاب کی روش اختیار کروں۔ اس لیے تم میرے پاس اُن کی وہ تحریریں اور فیصلے بھیج دو جو انھوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے بارے میں کیے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو میںان کے نقشِ قدم پر چلوں گا‘‘۔

حضرت عمرؓ بن خطاب کی پیروی کی یہی رُوح ہے جو اُن کے ہر کام میں جاری و ساری تھی ۔جس بے خوفی اور جانفشانی سے انھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں‘ احیاے نظامِ اسلامی کا کٹھن فریضہ ادا کیا وہ سب ان کی اسی نیت کا فیض تھا۔ دو سال کی مختصر سی مدتِ خلافت میںکتنا عظیم الشان تغیر واقع ہو گیا تھا ‘ اس کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ مشہور مدنی امام اور حضرت ابوبکرؓکے پوتے حضرت قاسمؒ بن محمد بن ابی بکر نے آپ کی خلافت کا رنگ دیکھ کر فرمایا تھا:  الیوم ینطق من کان لا ینطق، اب وہ بھی بولیںگے جو پہلے نہیں بولتے تھے۔

ایک مورخ آپ کے پیش رو خلفا ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ آپ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ولید عمارات کا بانی تھا‘ اس لیے اس کے زمانے میں عام مذاق یہی ہو گیا تھا۔ لوگ آپس میں جب ملتے تھے تو تعمیر اور عمارتوں پر گفتگو کرتے تھے۔ سلیمان کو عورتوں اورنکاح سے دل چسپی تھی‘ اس لیے اس کے زمانے میں اس کا چرچا تھا اور لوگوں کا موضوعِ گفتگو شادی اور لونڈیاں ہوتی تھیں۔ لیکن جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے تخت ِ خلافت پرقدم رکھا تو مذہب‘ عبادت اور اس کی تفصیلات موضوع بن گئیں۔ جہاں چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دُوسرے سے پوچھتے کہ رات کو تم کون سے اوراد وظائف پڑھتے ہو۔ تم نے کتنا قرآن یاد کیا ہے۔ تم قرآن کب ختم کرو گے۔ مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہو۔

احیاے نظام اسلامی کے لیے جو کوششیں آپ نے کیں اور جس حد تک آپ کو ان میں کامیابی ہوئی ‘اس کا ایک سرٹیفکیٹ تو یہ تھا جس کا ذکر ابھی آپ نے سن لیا۔ اور دوسرا سرٹیفکیٹ وہ تھا جو آپ کے خاندان والوں نے آپ کو دیا‘ یعنی ایک ہزار اشرفیاں رشوت دے کر ایک غلام کے ذریعے آپ کو زہر دلوا دیا اور اس طرح آپ سے ’’نجات‘‘ حاصل کی اور آپ دو سال کی   مدت ِ خلافت کے بعد ۳۹ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے! (آئین‘ ۹ جولائی ۱۹۷۲ئ)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی سب سے مقدس ہستی اور سب سے بڑی انقلابی شخصیت ہیں۔ آپؐ نے ملکوں‘ انسانوں اور تاریخ کو شناخت عطا فرمائی اور دنیا کے ہر پہلو کو اپنے روحانی اور علمی انقلاب سے متاثر کیا۔ دل بھی بدلے اور ذہن کی سمت بھی بدلی‘ اخلاق بھی بدلا اور زاویۂ نظر کو بھی تبدیل کیا‘ ظاہری اطوار بھی تبدیل کیے اور باطنی واردات میں بھی انقلاب برپا کر ڈالا۔ یہی آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ اس سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ براعظموں‘ رنگوں‘ نسلوں‘ خطوں‘ قوموں‘ پہاڑوں‘صحرائوں‘ دریائوں اور میدانوں کے ہزاروں میل کے فاصلے سمیٹ کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ایک اُمت میں سمو دیا‘ اور ایسا عالمی نظام عطا فرمایا کہ جس کی نظیر پوری تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔

کتاب الٰہی میں عالمی نظام کے جو بنیادی اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں:  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَا ٓیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۰)، یعنی اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘ اور بدی اور نامعقول کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے سے خطبۂ جمعہ میں اس آیت کریمہ کی تلاوت کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اسلام کی ساری تعلیمات اور اصلاح عالم کے لیے قرآن کے پروگرام کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے ۰ ۱ ہجری میں آخری حج ادا فرمایا جسے حجۃ الوداع کے نام سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا جو عالم انسانیت کے لیے پہلا باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوامِ عالم کے لیے نیا عالمی نظام تھا۔اس عالمی اسلامی نظام کا سب سے اہم پہلو عالمی سطح پر قیامِ امن ہے۔ آج دنیا کو امنِ عالم کا ہی مسئلہ درپیش ہے‘ اور مسلمان ہی وہ اُمت ہیں جنھیں یہ مشن فرضِ منصبی کے طور پر سونپا گیا تھا۔

عالم اسلام

اس وقت پورا عالمِ اسلام نہایت خوفناک سیاسی ‘ اقتصادی اور دفاعی آشوب کا شکار ہے‘ اور اس کا منظرنامہ اتنا بھیانک اور خطرناک ہے کہ ہر انصاف پسند اس سے خوفزدہ ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے ارزاں شے مسلمانوں کا خون ہے۔ آئے دن ہر جگہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ بوسنیا‘ افغانستان‘ فلسطین‘ کشمیر اور عراق وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کی شہادت اس کا واضح ثبوت ہے۔ غرضیکہ ہر جگہ غیر قومیں مسلمانوں کو  علی الاعلان تختۂ مشق بنا رہی ہیں۔ لیکن تعداد میں ایک ارب سے بھی زیادہ اُمت مسلمہ ان مظلوموں کی مدد تو کیا کرے گی‘ ہر مسلمان ملک اپنی اپنی جگہ نیو ورلڈ آرڈر کے خوف سے لرزاں ہے۔

گذشتہ ۵۰ برس کے اندر اندر تمام مسلمان ملک پنجۂ غیرسے گلوخلاصی کرانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر آزادی کے دن سے آج تک جو مسائل پیدا ہوئے وہ جوں کے توں ہیں‘ خواہ ان کا تعلق اندرونی سیاست‘ معیشت اور دیگر پالیسیوں سے ہو یا خارجی طور پر درپیش مسائل سے۔ اگر کسی ملک کے باشندوں میں زبان کا مسئلہ ہے تو وہ جوں کا توں ہے۔ کسی ملک سے سرحدی تنازعہ تھا تو وہ اب تک حل ہوئے بغیر ہی چلا آ رہا ہے۔ اگر داخلی خودمختاری کا سوال تھا تو ہنوز لاینحل ہے۔ مسئلہ فلسطین تاحال ناکامی کا شکار ہے۔ برعظیم کا مسئلہ کشمیرہنوز حل طلب ہے۔ بیت المقدس کی آزادی تشنۂ تعبیر خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تو وہ اُبھرے ہوئے اور چیدہ مسائل ہیں جو زیادہ تر اندرونی اور داخلی نوعیت کے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر وقار اور عزت کا مسئلہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ۱۹۱ ارکان ممالک میں ۵۰ سے زائد مسلمان ممالک ہیں‘ ان ممالک کے مسلمان باشندوں کی کل آبادی سوا ارب سے متجاوز ہے‘ لیکن بایں ہمہ مسلمان کسی گنتی اور شمار میں نہیں‘ اور یہ نتیجہ ہے اُمت مسلمہ کے فرد فرد اور لخت لخت ہونے کا۔ اس افتراق و انتشار کا نتیجہ ہے کہ ہم افرادی قوت‘ مالی وسائل اور مملکتی طاقت رکھنے کے باوجود کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔

تیل ہمارا مگر زندگی یورپ و امریکہ کی روشن اور رواں دواں‘ خام مال ہمارا مگر کام امریکہ اور یورپ کی فیکٹریوں کے آ رہا ہے۔ افراد کار ہمارے مگر ان کے دماغ‘ صلاحیتیں اور قوت کارکردگی امریکہ و یورپ کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔ سرمایہ ہمارا مگر تجوریاں یورپ اور امریکہ کی بھری ہوئی اور بنک ان کے چل رہے ہیں۔ ان سارے کچوکوں‘ دھکوں اور محرومیوں کے باوجود اُمت مسلمہ خوابِ غفلت میں محو ہے۔

قصۂ کوتاہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام سیاسی بحران‘ معاشی بحران‘ قیادت کا فقدان‘ مالی بحران اور امن و امان کی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے‘ اور مسلمان من حیث القوم ساری دنیا میں اس قدرپسماندہ ہیں کہ دوسری اقوام انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھتیں   ع

تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کجا کجا نہم

زبوں حالی کے بنیادی اسباب

مسلمانوں کی اس نکبت و ادبار کا اگر ہم واقعاتی تجزیہ کریں تو درج ذیل اسباب و علل سامنے آتے ہیں:

۱-  قرآن حکیم اور صاحب ِقرآن کی تعلیمات سے روگردانی‘ علم و تحقیق سے بے اعتنائی۔

۲- سیاسی سطح پر عالم اسلام کا غیرمنظم ہونا اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کے باہمی اختلافات۔

۳- یہود بالخصوص اور ہنود کا مسلمانوں کو گروہوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں خصوصی کردار۔

۴- مسلمانوںمیں مغربی تہذیب کی نقالی کا رجحان۔ سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشرتی اور عدالتی قوانین کی بھیک مانگ کر اپنے قوانین کو مغربی قانون کے مطابق ڈھالنے کی کوشش۔

۵-  سب سے اہم‘ عالم گیر اور بنیادی وجہ وھن ہے۔

حضرت ثوبانؓ کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مختلف قومیں مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے کے حریص دیگوں پر آگرتے ہیں۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا اس وقت ہم بہت قلیل تعداد میں ہوںگے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تم لوگ تعداد میں کثیر ہوگے‘ لیکن اس جھاگ کی طرح کمزور اور بے بساط جو سیلاب میں اوپر آجاتا ہے‘ اور پھر اسے پانی بہا لے جاتا ہے۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت اور رعب نکال دے گا اور خود تمھارے دلوں میں وھن ڈال دے گا۔ پوچھنے والے نے عرض کیا: وھن کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: دنیا سے محبت اور موت کا خوف۔ (کنزالاعمال‘ ج ۵‘ ص ۴۳۰)

قدرت نے عالم اسلام کو جن نوازشات اور امکانات سے مالا مال کر رکھا ہے اگر ان پر نظرڈالی جائے تو اس سے بڑھ کر خلافت و وراثت ارضی کا مستحق کوئی دوسرا نظرنہیں آتا لیکن گردوپیش اور اعداد و شمار اور حقائق کو دیکھا جائے تو بہت تلخ اور عبرت آموز صورت حال ہے۔

دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ عالم اسلام ہے اور یہ بہت بڑی افرادی قوت ہے۔ اس کے جغرافیائی حدود سوا تین کروڑ مربع میل ہے۔ اسے دریائوں‘ نہروں‘ سمندروں‘ پہاڑوں‘ صحرائوں‘ میدانوں‘ جنگلوں اور زرخیز زمینوں کا سب سے بڑا ذخیرہ میسر ہے۔ معدنیات اور  خام قدرتی وسائل کا خزانہ سب سے زیادہ عالم اسلام کے پاس ہے۔ تیل کے مجموعی عالمی ذخائر کا چوتھائی حصہ عالمِ اسلام کی ملکیت ہے۔ زرعی پیداوار کی بے پناہ استعداد کا حامل بھی عالم اسلام ہے۔ اسے ایک گونہ جغرافیائی وحدت اور قرب باہمی بھی حاصل ہے۔

نیو ورلڈ آرڈر میں طاقت اور بے محابا قوت معبود اعلیٰ کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ ہمیں اسلام کو اپنا محورو مرکز ‘ اپنا تشخص و تعارف اور اپنا نام و نسب اور اعزاز بنانے میں کیوں جھجک محسوس ہوتی ہے جو بحمدللہ دنیا کا بہترین فلسفہ اور نظام ہے‘ جس میں رنگ و نسل کی بے رحمانہ تقسیم نہیں‘ علاقے اور زبان کو بت کا درجہ حاصل نہیں‘ اس کا عنوان جلی اور طرئہ امتیاز ’’شوریٰ‘‘ ہے۔ دنیا کی مادیات اور لذات جس کا اول و آخر ہدف نہیں۔ جو ہر نوع کی ذہنی و جسمانی غلامی کا دشمن ہے۔ جس کے ہاں شرف انسانی بیت اللہ سے بڑھ کر مقام رکھتا ہے۔ جو اپنے پیروکاروں کو ’’اُمت وسط‘‘ (البقرہ ۲:۱۳۳)کہتا ہے‘ یعنی دائیں اور بائیں اور افراط و تفریط کے مرض سے پاک اُمت۔ جو اُمت کی تشکیل نسلی و لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر نہیں‘ انسانی اور روحانی بنیادوں پر کرتا ہے‘ اور جو دنیا بھر کو اپنا مدعو قرار دیتا ہے‘ کسی کو حریف نہیں کہتا۔ اس کے ہاں کالے اور گورے‘ یورپی اور ایشیائی اور عربی وعجمی کی تفریق نہیں۔ وہ صرف حق اور باطل‘ اور عدل و ظلم کے درمیان میزانِ امتیاز کھڑی کرتاہے۔

کش مکش ایک حقیقت ہے مگر عالم اسلام چاہے تو یہ سمجھ کر اپنی جدوجہد کو تیزکرسکتا ہے کہ اس نے مورچہ چھوڑا ہے‘ جنگ نہیں ہاری۔ مورچہ چھوڑنا ایک جنگی حکمت عملی یا وقتی پسپائی ہوتی ہے‘ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جنگ جاری ہے ازل سے تا امروز۔ اس کے لیے تیاری کر کے میدان میں اُترنا چاہیے۔

متبادل عالمی نظام: بنیادی خدوخال

ان حالات میں ’’اسلامک ورلڈ آرڈر‘‘یا متبادل اسلامی عالمی نظام کے بنیادی خدوخال کچھ یوں بنتے ہیں:

۱-  اسلام اور اہل اسلام کے نزدیک یورپ اور ایشیا‘ عرب اور افریقہ‘ مشرق وسطیٰ  اور مشرق بعید کا کوئی تصور نہیں بلکہ اسلام ابتدا ہی سے ایک عالمی ریاست کا نظریہ رکھتا ہے۔ اسلام نسلوں‘ قوموں اور خطوں کے مقابلے میں عقیدۂ توحید کو عالمی ریاست کا سنگِ بنیاد قرار دیتا ہے‘ اور وہ بنی نوع انسان کو صرف اور صرف  تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ      (اٰل عمران۳:۶۴) کی دعوت دیتا ہے‘ یعنی آئو ہم اور آپ اس کلمے پر متحد ہوجائیں جو ہمارے اور آپ کے درمیان قدرِ مشترک کا درجہ رکھتا ہے‘ اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامک ورلڈ آرڈر کسی سے دشمنی اور مخاصمت پراپنی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ وہ سب کا حلیف ہے‘ حریف نہیں‘ اور وہ پوری انسانیت کے ساتھ عقیدئہ توحید کی بنا پر دوستی اور بھائی چارے کا حامی ہے۔

۲-  اسلام‘ حق اور ناحق کا واضح اور متعین معیار رکھتا ہے۔دوغلاپن‘ دوہرا معیار‘ منافقت‘ سازش اور فریب کا اسلامی اقدار و ضوابط میں کوئی گزر نہیں۔ اسلام میںظالم اور مظلوم کی واضح تقسیم ہے۔ ظلم و زیادتی جہاں ہو‘ اسلام اس کا مخالف ہے‘ اور اس ضمن میں کسی مذہب‘ نسل‘ رنگ اور علاقے کا امتیاز نہیں رکھتا۔ اس کی پالیسیاں انسانی مفاد پر استوار ہیں‘ نہ کی نسلی‘ لسانی اور علاقائی مفاد پر۔ لہٰذا فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں ایک اصول کو قائم کیا جائے‘ جہاں ظلم ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے‘خواہ وہ سیاسی ہو یا عسکری۔ ان کے لیے الگ الگ اصول اور معیار نہ بنائے جائیں۔

۳-  تمام مسلم ممالک اگر باغیرت قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے وسائل کو یک جا کر کے تعلیم‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ دفاع اور بین الاقوامی تجارت کو مضبوط کرنے پر صرف کریں کیونکہ ان پانچ امور کو مضبوط کیے بغیر اُمت مسلمہ کا مستقبل محفوظ اور باعزت نہیں ہو سکتا۔

۴-  مسلم ممالک میں سائنس کی تعلیم اور تحقیق پرسب سے زیادہ توجہ دی جائے اور ایسے مسلمان سائنس دان تیار کیے جائیں جو اپنے کارناموں سے مسلم قوم کو اقتصادی اور سیاسی طور پر ایک قوت بنا دیں۔ اسلامی ممالک میں شرح خواندگی دنیا کے باقی ممالک کی نسبت سب سے کم ہے‘ اور جہالت کا تناسب سب سے زیادہ۔ سامراجی دور میں ہر سامراجی طاقت کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے زیراثر ممالک میں تعلیمی اور تہذیبی انحطاط رہے‘ اس سے سامراجی طاقتوں کے مفادات کو کم خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ امریکہ کے نئے سامراجی نظام میں یہی تصور پیش کیا گیا ہے کہ ان ممالک کی تہذیب و ثقافت کو اپنے زیراثر رکھا جائے گا۔ لہٰذا اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ تعلیم وثقافت کے میدان میں اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ مختص کریں تاکہ مسلمان قوم اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اورسپر ٹکنالوجی استعمال کرنے کے قابل ہو سکے‘ جس کے بغیر اقتصادی اور سیاسی برتری کا حصول ناممکن ہے۔

۵-  اسلام کے کلچر اور اسلام کے وجود کو عالمی سطح پر اُبھارنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اس کا آغاز اسلامی تعلیم‘ اسلامی تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹکنالوجی کے فروغ سے کریں۔

۶-  اسلامی دنیا جو خام مال کے اعتبار سے کافی دولت مند اور باوسائل ہے‘ اسے اس کا احساس کرنا چاہیے۔ اسے ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہییں کہ مسلم ممالک خام مال اپنی طرف سے طے شدہ قیمت پر غیرمسلم دنیا کو فروخت کریں اور ان سے تیار ہونے والا مال اپنی مرضی کے مطابق لیں‘ نہ یہ کہ یورپ اور امریکہ ہم سے خام مواد بھی اپنی مرضی کی قیمت سے لیںاور تیار مال بھی اپنی مرضی کی قیمت سے بیچیں۔

۷-  مختلف مسلم ممالک اپنی جغرافیائی حدبندیوں میں نرمی پیدا کریں۔ مناسب تحفظات اور احتیاط کے ساتھ یہ نرمی برادر مسلم عوام کے درمیان اخوت اور قربت کی راہ کھولے گی۔ امریکہ کی طرف سے نیوورلڈ آرڈر میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ عرب ممالک میں مسلمان لیبر کے بجاے غیرمسلم ممالک سے افرادی قوت کھپائی جائے۔ اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ وہاں فحاشی پھیلے‘ غیرمسلم افراد وہاں کی کمزوریوں سے آگاہ ہو سکیں‘ وقت آنے پر ان کو واپس بلایا جاسکے اور افرادی قوت کی کمی کا بحران پیدا کیا جا سکے‘ یا پھر مسلم اور غیرمسلم افراد کے آزادانہ اختلاط سے مسلم تشخص مدہم ہو۔ لہٰذا اس سلسلے میںضروری ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربت‘نرمی اور تعاون کا معاملہ کریں اور سرحدوں پر عائد ناروا پابندیاںاور سفارتی رکاوٹیں موزوں حد تک نرم کر دیں تاکہ مسلمان ایک دوسرے کا دست و بازو بن سکیں اور مسلم ممالک کے راز بھی محفوظ رہیں۔

۸-  اسلامی ممالک امریکہ کی نئی سامراجیت کی یلغار سے بچنے کے لیے ’’مشترکہ دفاعی قوت‘‘ تشکیل دیں‘ جو ’’مشترکہ علاقائی دفاع‘‘ کی صورت میں ہو۔ جن مسلمان ممالک کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوں انھیں اپنے دفاعی معاہدے تشکیل دینے چاہییں۔ اعلیٰ سطح پر معلومات کے تبادلے کا نظام موثر ہونا چاہیے۔ دفاعی اور فوجی سطح پرریسرچ اور انٹیلی جنس کے منصوبوں میں تعاون ہونا چاہیے۔

۹-  بین الاقوامی سطح پر عالم اسلام کے مسائل اور اختلافات کو نبٹانے کے لیے   ’’ورلڈ اسلامک کورٹ آف جسٹس‘‘قائم کی جائے جس میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور    بین الاقوامی قوانین کے ضابطوں پر عمل درآمد کا انتظار کرنے کے بجاے اسلامی بین الاقوامی قانون کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں داخلی اور خارجی قوانین پرمشتمل دفعات ترتیب دی جائیں تاکہ عدالتی نظاموں میں یکسانیت پیدا ہو۔

۱۰-  مسلم ممالک اپنی کامن ویلتھ قائم کریں اور زیادہ سے زیادہ رقوم و وسائل اس کے حوالے سے زیرگردش رہیں۔ اس سے غریب یا ترقی پذیر مسلم ممالک کو اپنی مشکلات پر قابو پانے اور اپنے ترقیاتی منصوبے کامیاب کرنے میں حددرجہ مدد ملے گی۔

۱۱-  مسلم ممالک اپنے سیاسی نظاموں کے اندر عدل و استحکام پیدا کریں۔ آمریت‘ جبر اور بددیانتی کے راستوں کو ترک کر دیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عادلانہ جمہوری نظام کو قرآن و سنت کے تحت فروغ دیں۔

۱۲-  یہودی محض اسلام کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے لگائے گئے زخموں اور بچھائی ہوئی سازش کی بساط سے ہر ملک کا انسان کراہ رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی بناتے وقت اس تجزیے کو پیشِ نظر رکھ کر یہود اور یہود نواز طاقتوں کے بارے میں لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔

۱۳- اسلام کے تشخص کو نمایاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم دنیا میں ’’اُمہ‘‘ کا تصور اجاگر کیا جائے اور ان تمام تحریکوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے جو مسلم دنیا کے کسی بھی خطے میں رنگ‘ نسل‘ وطن اور کسی بھی جاہلی عصبیت کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع میں ان تمام جاہلی تعصبات کی یکسرنفی کی گئی ہے۔

نتائج و اثرات

یہ تھے نئے اسلامی عالمی نظام کے بنیادی خدوخال۔ اب اُمت مسلمہ کے دانش وروں‘ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ خلوصِ نیت سے اسلامی عالمی نظام کی مفصل تشکیل اور اس کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کریں اور عملی اقدام اٹھائیں‘ تاکہ بنی نوع انسان سکھ کا سانس لے سکے۔ ان شاء اللہ اس متبادل عالمی نظام کے اختیار کرنے سے حسب ذیل مثبت نتائج برآمد ہوں گے:

۱-  کوئی کسی کا غلام نہیں ہوگا۔ سبھی اللہ کے بندے ہوں گے‘ جب کہ آج ہر شخص اپنی جگہ فرعون ہے اور دوسروں کو غلام بنانے کی فکر میں ہے۔

۲-  کسی انسان کو کسی پر فوقیت نہیں ہوگی‘ سبھی اولادِ آدم ہیں‘ جب کہ آج ہر شخص اپنے مال اور دولت کی فوقیت ثابت کرنے میں تمام حدود کو پامال کر رہا ہے۔

۳-  کوئی پیدایشی طور پر سونے یا مٹی کا نہیں ہوگا‘ سب کا باوا آدم ہے‘ جب کہ آج امریکی اور انگریز خود کو کسی طور پر مٹی کا بنا ہوا ماننے پر تیار نہیں۔

۴-  مخلوق خدا کا کنبہ ہوگی‘ کوئی کسی کے رزق پر قدغن عائد نہیں کرسکے گا‘ جب کہ آج اقتصادی امداد کی بندش الخلق عیال اللّٰہ کے تصور کی صریحاً نفی ہے۔

۵-  الٰہی قانون سب کے لیے یکساں ہوگا‘ جب کہ آج آئین کچھ عہدیداروں کو ہرقانون اور گرفت سے مبرا قرار دیتا ہے۔

۶-  ہر نوع کا تعصب اور امتیاز ’’نخوت جاہلیہ‘‘ قرار پائے گا‘ جب کہ رنگ‘ نسل‘ قومیت اور صوبائیت کے تعصبات آج کا فیشن ہیں۔

۷-  ہر ایک خود اپنا محتسب ہوگا‘ جب کہ آج کوئی کسی کے سامنے جواب دہ نہیں رہا‘ ہرفردِ بشر خودمختاری کے چکر میں ہے۔

۸-  ہر شخص آخرت میں جواب دہی کا مکلف ہوگا‘ جب کہ آج آخرت کا لفظ ’’دقیانوسی‘‘ قرار پا گیا ہے۔

۹-  زندگی امانت الٰہی ہے۔ اس میں خیانت سب سے بڑا جرم ہے‘ جب کہ آج زندگی ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘کا منظرپیش کر رہی ہے۔

۱۰-  دنیوی عزت کے مقابلے میں اخروی عزت زیادہ وقیع اور قابلِ لحاظ ہوگی‘    جب کہ آج دنیوی عزت ہی حرف آخر ہے۔ آخرت کے وعدے پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

قرآن و حدیث کی پیش گوئی کے مطابق اسلام کو بہرحال دنیا پر حاوی اور غالب ہونا ہے۔ پیرس‘ لندن اور واشنگٹن جیسے جگمگاتے شہروں سے لے کر چراغ کی لو سے ٹمٹماتے خیموں تک اسلام بہرحال پہنچے گا۔ آٹھ آٹھ رویہ شاہراہوں سے لے کر لق و دق صحرائوں تک اسلام سفر کرے گا۔ بلند و بالا پلازوں اور شاہی ایوانوں سے لے کر ساحلوں اور کوہستانوں تک اسلام کی آواز جائے گی۔ یہ بہرحال طے ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اسلام کے غلبے کے لیے کیا جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک ارب مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں‘ ان کی سوچ یکساں ہو‘ ان کی آواز       ہم آہنگ ہو‘ ان کا لائحہ عمل متفقہ ہو تو پوری دنیا کی طاقت کا توازن بدل کر اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ اور یہی خدائی وعدہ ہے:

وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کر دو کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا‘ بے شک باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں مختلف ناموں سے بعض ایسی اسکیمیں مقبول ہو رہی ہیں جن میں کچھ رقم جمع کرنے والے یا اشیا فروخت کرنے والے اس سلسلے کو پھیلا کربڑھتا ہوا منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں مدیر ترجمان القرآن سے بھی سوالات کیے گئے جن کا ایک مختصر جواب بھی دیا گیا (مارچ ۲۰۰۳ئ)۔ حسنِ اتفاق سے  زندگی نو ، دہلی میں اس کا مبسوط جواب دیا گیا ہے۔ ہم اسے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ ملٹی لیول مارکیٹنگ کے خوش نما ناموں سے ہندستان میں (اور متعدد دوسرے ملکوں میں) بعض تجارتی اسکیمیں چل رہی ہیں۔ یہ اتنی پُرکشش ہیں کہ نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ان کی طرف لپک رہی ہے۔ ان اسکیموں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت کم سرمایے سے نہایت قلیل مدت میں ناقابلِ تصور منافع کمانے کا لالچ دلاتی ہیں‘ اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان سے وابستہ ہونے کے لیے بجز ہوشیاری اور تجارتی مہارت (skill) کے کسی خاص استعداد (expertise)کی ضرورت نہیں ہے۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا طریقہ اختیار کرنے والی مختلف کمپنیاں کچھ دنوں سے ہندستان میں بھی سرگرم کار ہیں۔ ان کے متعلق مدیر  زندگی نوکے پاس بہت سے سوالات گذشتہ ۱۰‘۱۱ مہینوں سے آرہے ہیں۔ ان سوالات میں صرف استفسار ہی نہیں بلکہ متضاد فتاویٰ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض فتاویٰ ان کے شرعی جواز کے حق میں دیے گئے ہیں اور بعض ان کی قباحت پر استدلال کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے فتاویٰ کا سرسری جائزہ بھی بتاتا ہے کہ ان اسکیموںکی بعض فروعات کو سامنے رکھ کر ان پر شرعی حکم لگایا جا رہا ہے‘ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے بعض علما کا معمول ہے۔ فروعات کے پیش نظر رائے قائم کرنے کے بہت سے فوائد ہیں‘ بالخصوص ایسے معاملات میں جن کا روز مرہ کی زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر کبھی فرع کے بارے میں غلط یا صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے تو صرف وہ جزو متاثر ہوتا ہے۔ عام سماجی نظام پر کوئی ایسا اثر نہیں پڑتا جس سے اس کے مقصد‘ کردار اور منہج میں غیرمعمولی تغیرہوجائے۔ عبادات کے تفصیلی احکام اس ضمن میں آتے ہیں لیکن اسلامی اقدار اور احکام اور اس کی اجتماعی اخلاقیات ایک ایسے معاشرے کی تعمیروتشکیل کے لیے عطا کی گئی ہیں جو فرد کی ضرورت‘ اس کی آرزوئوں اور تمنائوں کی تشفی کا سامان بہم پہنچاتی ہیں۔ ان کی تکمیل کے لیے دیانت اور امانت پر مبنی طریق کار متعین کرتی ہیں۔ مادی مقاصد کے حصول میں اعتدال کی روش اختیار کرنے کی تاکید کرتی ہیں اور ظلم و استحصال‘ خیانت‘ فریب اور دھوکا دہی کا حتی الوسع ازالہ کرتی ہیں۔ اس غرض کے لیے اسلام نے خالص فطری طریقۂ کار اختیار کیا ہے۔ دولت اور آمدنی کے اسباب اور وسائل پر عمومی قدغن کے بجاے اس نے صرف چند مخصوص مسائل پر قید لگائی ہے جو عام انسانی معاشرے کی صحت‘ اور اس کی اخلاقی زندگی کے لیے مضرہوں۔ اس نے کسب ِرزق کے غیر اخلاقی ذرائع پر پابندی عائد کی ہے‘ اجتماعی زندگی کے لیے صحت مند اور انسانیت دوست ذرائع اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ دولت اور اقتدار کے حصول کے لیے جبر‘ ظلم ‘ استحصال اور خیانت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ دولت اور آمدنی کی مقدار پر عمومی قید لگا کر اسلام نے فرد کے فطری داعیے پر بند نہیں باندھا ہے بلکہ مطلوبہ جدوجہد میں اعتدال اور توازن کی تعلیم دی ہے ‘ تاکہ زندگی کے دوسرے اعلیٰ مقاصد مجروح نہ ہوں۔

اجتماعی زندگی ایک مربوط حقیقت ہے۔ اسی طرح اجتماعی اخلاقیات کا ہر پہلو دوسرے پہلو سے متعلق ہے۔ ان کے ذیلی مقاصد‘ اس کے جامع مقصد کے تابع ہیں۔ ان کا استحکام اور ان کی نشوونما کے لیے ہر جزو اہم ہے‘ چنانچہ اگر اجتماعی زندگی کا ایک شعبہ متاثر ہو جائے تو دوسرا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ معاشی زندگی کا گہرا تعلق اخلاقی مقاصد سے ہے۔ سیاسی اقتدار اگر دینی اخلاقیات سے منقطع ہو جائے تومحض چنگیزی بن جاتا ہے۔ اسی طرح حرص‘ طمع اور بددیانتی‘ دھوکا دہی اگر جائز مقاصد (یعنی حصولِ دولت) کے لیے بھی استعمال کیے جائیں تو کسب ِرزق کی پوری جدوجہد فساد سے عبارت ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا تعلق صرف زندگی کے مختلف پہلوئوں کے درمیان نہیں قائم ہوتا‘ بلکہ ہر ایک شعبے کے تمام داخلی عناصر ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ انھیں اجزاے ترکیبی کہا جا سکتا ہے۔اس لیے اجتماعی زندگی کے کسی ایک جزو کے بارے میں جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کرتے وقت اس امر کا لحاظ کرنا چاہیے کہ اس کے اثرات دوسرے اجزا پر اس طرح مرتب ہو سکتے ہیں کہ پوری جدوجہد صالح بن جائے یا موجب فساد بن جائے۔

معاشی زندگی سے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ لین دین اور بیع شرا کا کوئی معاملہ یا ان جیسے معاملات کا مماثل مجموعہ جزوی طور پر جائز ہونے کے باوجود معاشی زندگی کی عام غایت کو نقصان پہنچائے اور ایسی فضا تشکیل دے جس سے اسلامی معاشرے کا کردار بدل جائے اور اس کے نتیجے میں زندگی کے تمام پہلو غیراسلامی اور غیر اخلاقی نہج پر چل پڑیں۔ دولت کمانا اور اسبابِ رزق کی فراہمی فی نفسہٖ ایک مستحسن عمل ہے‘ لیکن اس جدوجہد کے دوران اگر تاجر اپنی اشیا کی مبالغہ آمیز تعریف کرے تاکہ اس کا مال جلد از جلد فروخت ہو جائے تو نہ صرف مال کی تجارت غیراخلاقی ہوگی بلکہ جھوٹ اور دروغ گوئی کا چلن دوسرے معاشی معاملات تک پھیل جائے گا۔ مرابحہ (Markup Pricing) اگرچہ دو افراد کے درمیان جائز ہے‘ لیکن اگر مرابحہ کا بے دریغ استعمال کر کے اسے اداروں اور افراد تک وسیع کر دیا جائے تو وہ بالفعل   سودی عمل بن جاتا ہے۔ اسی طرح کاروبار میں سرمایہ کاری ایک مفید اور جائز کام ہے لیکن کسی کاروبار میں سرمایہ لگانے کو سنہری امیدوں کا مرجع قرار دے کر اس کی اس طرح اشاعت کی جائے کہ لوگ ناقابل یقین منافع کی توقعات باندھنے لگیں تویہی جائز کام تحریص کا موثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ معقول آمدنی اور بہتر معیارِ زندگی کے لیے جدوجہد پسندیدہ فعل ہے‘ لیکن اگر کسی ذریعہء تجارت سے غیرمتوقع طور پر کثیر آمدنی حاصل ہونے لگے تو یہی فعل صارف پسندمعاشرہ (Consumerist Society) کو فروغ دے کر معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔

اسلام کا معاشی نقطۂ نظر

ان مقاصد کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے ‘ اپنے فضل و کرم سے بعض نہایت اہم تعلیمات نازل فرمائیں تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات اعتدال و توازن کے ساتھ پوری ہوں۔ ذرائع بھی پاکیزہ ہوں اور ان سے حاصل کردہ دولت کا استعمال فرد و معاشرے کے لیے منفعت بخش بھی ہو۔ اگر کسی فی نفسہٖ جائز ذریعے سے دولت سمٹ کر ایک مخصوص طبقے میں محدود ہو جائے‘ یا غیرفطری رفتار سے ترقی پانے کی بنا پر عیش و عشرت اور اسراف پسندی کے رجحانات کو تقویت پہنچائے تو اس ذریعے سے احتراز کرنا شرعاً اور اخلاقاً واجب ہوگا۔ معاشی جدوجہد بالعموم افراد اور معاشرے یا افراد کے درمیان معاملات پر مبنی ہوتی ہے‘ اس لیے معاملات کو شک و شبہے سے بالاتر اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ معاملات میں کذب اور دروغ گوئی ہمیشہ راست اور کھلم کھلا نہیں ہوتی بلکہ بالواسطہ اور خفیہ بھی ہوتی ہے‘ مثلاً سرمایہ کاری کے کسی معاملے میں ۱۰۰ روپے پر ایک مختصر مدت میں ۱۲۰۰ روپے منافع ملنے کا وعدہ کیا جائے تواس معاملے کی تہ میں فریب کی تلاش ضرور کرنا چاہیے۔ ہمارے اطراف میں اس طرح کے بہت سے معاملات میں دھوکے کا انکشاف ہوا اور کتنے لوگ عمربھر کی کمائی کھو بیٹھے۔ علی گڑھ میں پھولوں کی کاشت کا ایک وسیع اسیکنڈل اس نوعیت کا تھا۔ اسی طرح بدنام زمانہ المیزان کا کاروبار بھی تھا جس میں حصے دار کو پہلے ماہ سے ایک معقول رقم بطور منافع دی جاتی تھی‘ حالاں کہ کسی پیداواری معاملے میں پہلے ماہ سے منافع دینا ناممکن ہے۔

قرآن کریم نے کسب ِمعاش اور اس سے حاصل ہونے والے سامان راحت و آسایش کو زینت قرار دیا ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط (الاعراف۷:۳۲)

اے نبی! ان سے کہو‘ کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا۔

اس نے حلال اور طیب رزق کو استعمال کرنے کی تلقین فرمائی ہے:

یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ ۲:۱۶۸)

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیںہیں‘ انھیں کھائو اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔

وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًا ص (المائدہ ۵ : ۸۸)

جو کچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے‘اسے کھائو پیو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت اور کسب ِرزق کے طریقوں کے متعلق بعض کلیدی ہدایات دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

اپنے مال کو بیچنے میں کثرت سے قسمیں کھانے سے بچو‘یہ چیز وقتی طور پر تو تجارت کوفروغ دیتی ہے لیکن آخرکار برکت کو ختم کردیتی ہے۔ (مسلم)

ایک دوسری روایت میںاسی بات کو دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے:

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ یومِ قیامت میں کلام نہیں فرمائے گا اور نہ اُن کی طرف دیکھے گا‘ نہ ان کو پاکیزہ کرے گا اور ان کے لیے عذابِ الیم ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: ناکام و نامراد ہوئے۔ یارسولؐ اللہ!وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ جو اپنی تہبند کو ٹخنوں کے نیچے لٹکاتا ہے‘ اور وہ جو احسان جتاتا ہے‘ اور وہ جو جھوٹی قسم کھاکر اپنے مالِ تجارت کو فروغ دیتا ہے۔

تاجر کی اخروی کامیابی کے متعلق ارشاد نبویؐ ہے:

سچا اور ایمان دار تاجر (یومِ قیامت) انبیا‘ صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)

اسلام نے معاشی جدوجہد کے لیے غیر اخلاقی ذرائع ممنوع قرار دیے ہیں۔ معاملات میں شفافیت اور صداقت و دیانت کی تلقین فرمائی ہے۔ لیکن یہ بھی تاکید فرمائی ہے کہ دولت کمانے کے لیے محنت اور عمل کے ذرائع اختیار کرنا چاہییں۔ محنت اور عمل میں جسمانی اور دماغی دونوں طرح کی جدوجہد شامل ہے بشرطیکہ ان کے نتیجے کے طور پر یا تو پیداوار میں اضافہ ہو‘ یا اس کی افادیت میں۔ سود کو حرام قرار دے کر اس نے زر سے زر کمانا حرام قرار دیا ہے۔ سرمایہ فی نفسہٖ ایک غیرپیداواری شے ہے‘ جب تک اس کو محنت کے ساتھ جمع نہ کیا جائے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیم کی نوعیت

اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ملٹی لیول مارکیٹنگ کا تجزیہ کیجیے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیم اپنی تاریخ کے اعتبار سے چارلس پونزی  (Charles Ponzi) کے نام سے موسوم ایک Pyramid (مخروطی‘ مثلث نما ) اسکیم سے وابستہ ہے۔ چارلس پونزی نام کے ایک شخص نے ۱۹۲۰ء میں انگلینڈ کے ہزاروں باشندوں کو بے وقوف بنایا تھا اور سرمایہ لگانے والوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں بنک کے ۵ فی صد نفع کے مقابلے میں ۹۰ دنوں میں ۴۰ فی صد منافع دے گا۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی اسکیم مختلف شکلوں میں اس بنیاد پر کام کررہی ہے کہ ’’زید کو لوٹ کر حامد کو منافع دو‘‘۔

اس ابتدائی اسکیم کی ترقی یافتہ شکل ’’ملٹی لیول مارکیٹنگ‘‘ (MLM) ہے۔ اس اسکیم کی متعدد شکلیں ہیں‘ لیکن ان کی مشترک خصوصیات درج ذیل ہیں:

(۱)  یہ اسکیمیں عام تجارتی خرید وفروخت کی جگہ پر تقسیم کار (distributors)کو بھرتی کرنے (recruit) کا طریقہ ء کار اختیار کرتی ہیں۔ تقسیم کار کو اسی بنیاد پر منافع حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

(۲)  اس طریق کار کو اختیار کرنے کی وجہ سے وہ تقسیم کاروں کو ایک حسین اور پُرکشش فریب میں مبتلا کرتی ہیں اور یہ لالچ دلاتی ہیں کہ وہ کم وقت میں ناقابلِ تصور منافع حاصل کرسکتے ہیں کہ تم جتنے جتنے ڈسٹری بیوٹرز بھرتی کرو گے اسی تناسب سے تمھیں نفع حاصل ہوگا۔

اس کے لیے انھیں پُرکشش مجلسوں میں مدعو کیا جاتا ہے‘ جاذب توجہ لٹریچر فراہم کیا جاتا ہے‘ تحریک اور داعیہ پیدا کرنے والے تمام طریقے (motivational discourses) اختیار کیے جاتے ہیں‘ اور انھیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اس کے لیے انھیں اپنی عقل‘ تجارتی فرزانگی اور محنت درکار ہے۔

(۳)  اس تمام جدوجہدمیں ایک کلیدی عنصر عمداً چھپایا جاتا ہے‘وہ یہ ہے کہ ہر تجارت کی کامیابی کا انحصار اس کی مصنوعات کی طلب (demand) اور رسد (supply) پر ہے‘ اور طلب کا جائزہ لینا اور اس کے مطابق قیمت کا تعین اور اس کے پیش نظر رسد کی مقدار کا تعین ضروری ہے۔

MLM میں طلب سے توجہ ہٹا کر ڈسٹری بیوٹرز کی ایک مخروطی شکل‘ یعنی Pyramid ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ترتیب دیا جاتا ہے کہ بھولے بھالے تقسیم کار اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ نفع کے امکانات لامحدود ہیں۔ اس لیے کہ تقسیم کاروں کو بھرتی کرنا ایک لامتناہی سلسلہ ہے‘ حالاں کہ معمول کے مطابق ہرپیدا کنندہ (producer) یابائع (seller) اپنی مصنوعات کی مارکیٹ ڈیمانڈ کا صحیح اندازہ لگانے کا پورا اہتمام کرتا ہے۔ اسے تجربے سے یہ معلوم ہے کہ ہر خریدار اس کی مصنوعات میں دل چسپی نہیں رکھتا اور ہزار ترغیب کے باوجود اس کی ترجیحات نہیں بدل سکتیں۔ اس لیے کہ مصنوعات کی فروخت کا انحصار‘ خریدار کی ضرورت ‘ اور اس کی مالی استطاعت پر ہے۔ بنابریں تقسیم کاروں کو یہ یقین دلانا کہ تم اگر تقسیم کار بھرتی کرتے رہے تو تمھارا نفع بڑھتا جائے گا‘محض فریب ہے۔

اس فریب کا اندازہ لگانے کے لیے اس امر کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہر اسکیم میں متوقع حصہ داروں کی تعداد لازماً محدود ہوگی۔ اس لیے کہ آبادی بھی محدود ہے اور ضرورت اور استعداد بھی محدود ‘ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ہر مرحلے (level) میں حصے دار ملتے چلے جائیں۔ ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیجیے:

فرض کیجیے کہ ہر مرحلے پر ایک نیا تقسیم کار ۱۰ نئے تقسیم کار بھرتی کرتا ہے‘ اب یہ تعداد کتنی تیزی سے ترقی کرے گی۔ دوسرے مرحلے میں تقسیم کار ۱۰ ‘ تیسرے میں ۱۰۰‘ چوتھے میں ۱۰۰۰‘ پانچویں میں ۱۰ ہزار‘ اسی طرح بڑھتے بڑھتے نویں میں ۱۰ کروڑ اور دسویں مرحلے میں ایک ارب تقسیم کار بھرتی کرنا ہوں گے۔

اگر ایک شہر کی آبادی ۲ ملین(یعنی ۲۰ لاکھ) ہے تو اس اسکیم کے تحت ساتویں لیول تک پہنچتے پہنچتے کم از کم ایک ملین (۱۰ لاکھ) نئے تقسیم کار کی بھرتی ہونی چاہیے۔ جو نہ صرف یہ کہ صریحاً ناممکن ہے بلکہ فریب ہے اور اس اسکیم کے انہدام (collapse) کی قطعی دلیل ہے۔

اس کی وجہ آسان سا ریاضی فارمولا ہے۔ Pyramid اسکیم کا مفروضہ یہ ہے کہ نئے تقسیم کاروں کی تعداد نہایت تیزرفتاری سے بڑھتی جائے گی۔ اگر ’n‘ پہلا نمبر ہے جو ’n‘ نئے تقسیم کاروں کو بھرتی کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک ’n‘ نئے تقسیم کار بھرتی کرتا ہے تو مجموعی تقسیم کاروں کی تعداد nn (raised to power of n) بڑھے گی‘ چاہے n بہت چھوٹا نمبر ہی کیوں نہ ہو۔ نئے حصہ داروں کی مجموعی تعداد بہت زیادہ مراحل سے گزرے بغیر حیرت ناک رفتار سے بڑھ جائے گی۔ یہی وہ تیز رفتار اور حیرت ناک سرعت ہے جس کی بنا پر ایسی اسکیم میں شرکت کرنے والوں کو یہ فریب دیا جاتا ہے کہ تمھارا منافع غیرمعمولی رفتار سے بڑھے گا۔ حالاں کہ کسی بھی شہر میں نہ اتنے لامحدود خریدار مہیا ہوسکتے ہیں اور نہ پوری دنیا کی آبادی ہی اتنی ہے۔

مندرجہ بالا نقشے کے مطابق ساتویں مرحلے کے بعد نہ خریدار مل سکتے ہیں اور نہ اس لیول کے بعد منافع ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس مرحلے کے شریک تمام لوگ اپنی رقم بھی کھودیں گے۔   دل چسپ بات یہ ہے کہ گیارھویں لیول تک پہنچنے تک پوری دنیا کی آبادی کی حد سے بھی گزر جائیں گے‘ اور دست حسرت ملتے تقسیم کار اپنی قسمت کو کوسیں گے۔

(۴)  Pyramid اسکیم کا انہدام اور اس سے متوقع خسارہ خارجی حالات‘ مثلاً طلب کی کمی یا کمپٹیشن کی زیادتی اور ترجیحات کی غیر متوقع تبدیلی کے سبب بطور حادثہ نہیں ہوتا بلکہ یہ فریب عمداً کیا جاتا ہے (by design)۔ یہ حقیقت اسکیم کے چلانے والوں (promoters) کو اچھی طرح معلوم ہے کہ Pyramid منہدم ہوگا۔ لیکن وہ اس حقیقت کو اپنے تقسیم کاروں سے چھپاتے ہیں تاکہ ان کی دولت حاصل کر کے اپنی جیب بھرلیں۔

(۵) اس اسکیم سے نہ حقیقی دولت میں اضافہ ہوتا ہے‘ نہ پیداوار بڑھتی ہے‘ بلکہ یہ صرف ایک گھنائونا کھیل ہے جس میں ایسی اسکیموں کے چلانے والے‘ عام خریداروں کو ترغیب اور تحریص کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔

مثال سے وضاحت

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ‘ مثلاً AMWAY اسکیم کے تحت پہلے خریدار کو ایک کِٹ(kit) سپلائی کی جاتی ہے جس کی قیمت لگ بھگ ۵ ہزار روپے ہوتی ہے‘ جس میں صرف آدھی رقم کے بقدر بعض مصنوعات ہوتی ہیں۔ بقیہ رقم میں ایک معتدبہ رقم بطور رجسٹریشن فیس اور دوسرے مصارف کے لیے طلب کی جاتی ہے۔ اس طرح پہلے خریدارکے ذریعے ہر دوسرے خریدار (تقسیم کار) اور اس کے ذریعے دوسرے تقسیم کاروں کو یہ کِٹ بھیجی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رجسٹریشن فیس براہِ راست اسکیم کے چلانے والے کی جیب میں جاتی ہے۔ اس طرح promoters کی جیب میں لاکھوں کی رقم بطور رجسٹریشن فیس اور دوسرے اخراجات کی مد میں جاتی ہے‘ جس کا نہ حساب کتاب ہے اور نہ جواز۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کٹ میں جو مصنوعات ارسال کی جاتی ہیں‘ ان میںاکثر ایسی ہیں جو عام خریدار استعمال نہیں کرتے‘ مثلاً  car wash وغیرہ‘ اور ان کے مماثل مصنوعات آدھی سے کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ اس طرح اس اسکیم کو چلانے والی کمپنیاں اپنے خریداروں کا دوہرا استحصال کرتی ہیں۔ مصنوعات دوگنی اور سہ گنی قیمت پر سپلائی کرتی ہیں اور ان مصنوعات کو خریدنے کے لیے تقسیم کار کو مجبور کرتی ہیں کہ اگر تمھیں غیرمعمولی منافع حاصل کرنا ہے تو ضروری اور غیرضروری مصنوعات خریدو۔ دوسرے‘ ہر ایک بلاجواز کِٹ کی قیمت میں تقریباً۳۰‘ ۴۰ فی صد بطور رجسٹریشن اور دوسرے مصارف کے لیے حاصل کرتی ہیں۔

(۶)  ایسی اسکیموں میں ہر لیول کے تقسیم کار کو منافع دوسرے مراحل کے تقسیم کار کی رقم سے منہا کر کے بطور کمیشن دیا جاتا ہے جو AMWAY کی اسکیم میں دو فی صد سے شروع ہوتا ہے ‘ اور تدریجاً ۲۱ فی صد تک بڑھتا ہے۔ اس طرح بعد میں شامل ہونے والے تقسیم کار کی رقم سے پہلے لیول کے خریدار کو منافع دیا جاتا ہے‘ جس کا بازار میں مصنوعات کی پیداوار یا خرید و فروخت سے کوئی تعلق نہیںہے۔یہ ایک سے لوٹ کر دوسری جگہ پہنچانے کا عمل ہے۔

اس طرح چند مراحل کے تقسیم کار نفع کماتے ہیں اور بعد میں آنے والے اس سے بتدریج محروم کر دیے جاتے ہیں جیسا کہ AMWAY جیسی تمام MLM اسکیموں کا حال ہے۔

اسکیم کے چلانے والے تمام تقسیم کاروں کو غیرمعمولی منافع کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر بعد میں آنے والے  (Down Liners) نہایت ہوشیاری سے نہ صرف یہ کہ نفع سے محروم    کر دیے جاتے ہیں بلکہ پہلے چند مرحلوں میں شامل ہونے والوں (Top Levels) کو بعد میں آنے والوں کی ادا کردہ رقم سے ایک خاص تناسب سے رقم کاٹ کر بطور منافع ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اس طرح بعد میں آنے والوں کے لیے کشش پیدا کی جائے کہ جب Top Levels کے لوگوں کو اتنی سرعت سے منافع ملے گا تو ہم کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہیے۔ یہ حقیقت کمپنی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نفع سب کو نہیں مل سکتا بلکہ بعد میں آنے والے بیشتر لوگ اپنی رقم بھی کھو دیں گے۔ مگر یہ بات عمداً تقسیم کاروں سے چھپائی جاتی ہے۔

صریحاً فریب دہی اور دھوکا

غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ فریب کا یہ کاروبار عمداً اور ارادے سے (by design) کیا جاتا ہے۔ یہ بات کمپنی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر پیداوار کی طلب کی ایک انتہا ہوتی ہے‘ جو مارکیٹ کا لازمہ ہے۔ مگر جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا ہے کہ تقسیم کاروں کو منافع کمانے کے بخار میں مبتلا کر کے ان کو اندھا کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے تقسیم کار (Down Liners) ایک حد کے بعد نہیں مل سکتے۔ اس لیے منافع پہلے مرحلوں کے بعد ملنا ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ Pyramid اسکیم کا لازمی مقدر انہدام (collapse) ہے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں یہ اسکیم نہایت کامیابی سے چل رہی ہے اور ہندستان میں بھی چل سکتی ہے‘ مگر یہ غلط ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اس طرح کی اسکیموں کے فریب پر مبنی ہونے کے سلسلے میں تنبیہہ کی گئی ہے‘ مثلاً امریکہ کی بہت سی ریاستوں کے ریاستی قوانین Pyramiding کو یا تو ممنوع قرار دیتے ہیں‘ یا ان کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ بعض ریاستوں کے قوانین میں یہ‘ یا اس طرح کی مماثل عبارتیں ملتی ہیں: MLM پلان عموماً یہ وعدہ کرتے ہیں کہ نئے تقسیم کاروں کی بھرتی کے لیے دو یا اس سے زیادہ مرحلوں کے لیے جنھیں وہ تقسیم کار کے Down Liner کے نام سے موسوم کرتے ہیں‘ نفع ملتا ہے۔ اگر کسی اسکیم میں اس طرح کے کام پر کمیشن ملتا ہے تو خبردار ہوجانا چاہیے۔ اس عمل کو Pyramiding کہتے ہیں جس کو بہت سی ریاستوں میں قانوناً ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے منصوبے جن میں نئے تقسیم کار بھرتی کرنے پر کمیشن دیا جاتا ہے لازماً منہدم ہوجاتے ہیں‘ جب کہ نئے  تقسیم کار نہیں ملتے‘ اور جب کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے تو اکثر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں بجز ان لوگوں کے جو اُوپر ہوتے ہیں (Upliners)۔ ریاست ہاے متحدہ کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے اس سلسلے میں صرف چند ہدایات دی ہیں جو اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ نہایت ہوشیاری سے اس طرح کی اسکیم میں فریب اور دھوکا عمل پیرا ہے۔ اگرچہ وہاں کے قوانین نے اسے ممنوع نہیں قرار دیا ہے لیکن اس امر کے واضح اشارے دیے ہیں کہ یہ سحر اور فریب کاری ایک نہایت شاطرانہ کاروبار ہے۔

ان سب کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مصنوعات کی تھوک یا خوردہ فروخت ایک چیز ہے‘ اور تقسیم کاروں کو ترغیب دے کر کسی کمپنی کی ایک اسکیم کا ممبربنانا دوسری بات۔ اگر AMWAY یا کسی دوسری کمپنی کو اپنی مصنوعات فروخت کرنا ہیں‘ اور وہ واقعی اتنی معیاری ہیں اور ضرورت کو پورا کرتی ہیں تو وہ انھیں براہِ راست مارکیٹ میں کیوں نہیں لاتی۔ اور دوسری معروف کمپنیوں کی طرح اپنے سیل ایجنٹ سے کیوں نہیں کہتی کہ وہ اس کی مصنوعات کو بازار میں فروخت کریں اور اس طرح کمیشن حاصل کریں۔ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ اس طرح وہ مصنوعات پر معقول منافع حاصل کرنے کے بجاے تقسیم کاروں سے رجسٹریشن فیس کے ذریعے غیرمعقول منافع حاصل کرتی ہیں‘ اور اپنی ایسی مصنوعات پر فائدہ حاصل کرتی ہیں جس میں بیشتر ایسی ہیں جو کمپٹیشن کے بازار میں فروخت نہیں ہوسکتیں۔ جیساکہ آپ AMWAY کی کسی کِٹ کو کھول کر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہر مسلمان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اسکیم زر کے ذریعے زر (Money For Money) کا کاروبار ہے‘ جو اسلام کے نزدیک حرام ہے۔ سود کے حرام کرنے کے بنیادی دلائل میں سے یہ دلیل ہے کہ سود فی الواقع زر سے زر کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس میں نہ پیداواری عمل شامل ہے اور نہ سچی محنتہی۔ جس کو اسکیم کے لوگ محنت اور جدوجہد کہتے ہیں وہ محض ترغیب‘ تسحیر‘ اور طلاقت لسانی (چرب زبانی) کا عمل ہے جس کے ذریعے منافع کے خواہاں افراد اور روزی کے متلاشی لوگ بلاسوچے سمجھے اس میں پھنس جاتے ہیں۔

اسلامی لٹریچر کی چوٹی کی کتب کا انگریزی ترجمہ اس دور کا ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے‘ ہالینڈ کے علومِ اسلامی کے مرکز لائڈن سے ۱۹۹۶ء میں شائع شدہ مارسیہ کے ہرمینسن کا حجۃ اللّٰہ البالغہ کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کے تعارف کے موقع پر اصل کتاب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں کچھ گزارشات بے محل نہ ہوں گی۔

شاہ ولی ؒاللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) اٹھارھویں صدی میں نہ صرف برعظیم بلکہ عالم اسلام کے ایک ممتاز عالم دین‘ محدث‘مفکر اور فقیہہ ہیں‘ جنھیں بعض حضرات نے بجاطور پر مجدّدین اُمت میں شمار کیا ہے۔ ابن خلدون کے بعد آپ سب سے بڑے عمرانی مفکر (social scientist) ہیں۔مختلف علوم و فنون پر ان کی ۴۰ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی زبان میں مطبوعہ ملتی ہیں۔ سات کتابوں کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتاہے مگر ان کے مسودات ابھی تک معدوم ہیں۔ آپ کی یہ جملہ کتب قرآن‘ تفسیر‘ حدیث‘ اصول فقہ‘ عقائد و کلام‘ تصوف‘ تاریخ اور سیرت جیسے اہم موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ ہرچند یہ تمام کتب اپنے اپنے دائرہ علمی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں مگر ان سب میں گل سرسبد کی حیثیت ان کی تصنیف  حجۃ اللّٰہ البالغہ کو حاصل ہے۔ برعظیم میں علم حدیث کے مطالعہ و تحقیق کی سب سے محکم روایت کے بانی خود شاہ ولی ؒ اللہ ہیں‘ جن سے برعظیم کے تمام مکاتب فکر اور مسالک نے خوشہ چینی کی ہے اور فیض حاصل کیا ہے۔ آپ کے نامور فرزندوں نے اس علمی اور عملی سلسلے کو مزید کمالات عطا کیے ہیں۔ برعظیم کے اسلامیان بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے بالعموم ‘ اس خاندان کی خدمات سے کبھی صرفِ نظر نہ کرسکیں گے۔

حجۃ اللّٰہ البالغہ ‘ شاہ ولی  ؒاللہ نے حرمین سے واپسی (دسمبر ۱۷۳۲ئ) کے بعد لکھنا شروع کی اور قیاساً انھوں نے اسے ۱۷۴۲ء تک ختم کرلیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعے سے ان کی محدثانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے عہد کی سب سے ممتاز تصنیف ہے جس نے برعظیم کی فرقہ وارانہ فضا میں اسلام کے مسلکِ اعتدال کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی بلکہ مابعد کی صدیوں میں سیکڑوں علماے عرب وعجم کو بھی متاثر کیا جن میں علامہ رشید رضا ؒ، علامہ محمداقبال ؒاورسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔

شاہ ولی ؒاللہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات (۱۷۰۷ئ) کے بعد مغل خاندان کے تیز رفتار انحطاط کا دور تھا۔ ۶۰ برسوں میں دہلی کے تخت پر ۱۰حکمران براجمان ہوئے مگر استحکامِ سلطنت نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ اس دور میں مسلمان فقہی طبقات میں منقسم اور تقلیدِ جامد کی گرفت میں تھے‘ تصوف کے مختلف سلاسل میں بٹے ہوئے تھے‘ یا برعظیم کی مخصوص فضا میں شیعہ سُنّی تعصبات کے باعث اُمت واحدہ کا تصور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس اختلاف زدہ ماحول میں اور فقہی نزاعات کی دلدل میں اترے ہوئے علما و صوفیا کو ایک مسلکِ اعتدال  پر لانے کی کامیاب علمی کوشش کی۔ اس لحاظ سے حرمین سے واپسی کے بعد ان کی بیشتر تحریروں بالخصوص حجۃ اللّٰہ البالغہ کا موضوع مختلف فقہی طبقات کے عقائد و افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان میں اعتدال کی روش اور اُمت واحدہ کے احسا س کو بیداراور تازہ کرنا ہے۔ اس علمی منہج اور مقصود کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ استفادہ احادیث صحیحہ سے کیا۔ شاہ صاحب کے اس عظیم کام کو اسلوبِ تطبیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تطبیق کا یہ اسلوب اورفن   شاہ صاحب کی تحریروں کا امتیاز اور کمال ہے اور اس کے اثرات نے اُمت کے جمود کو توڑ کر جہادی اور اجتہادی فکر کی لہریں پیدا کیں۔

آج اُمت مسلمہ میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو اتحادِ اُمت کی ایک خواہش  اور شریعت ِاسلامی کے احیا کی جو ایک تڑپ پائی جاتی ہے‘ اس میں شاہ صاحب کی تصنیف   حجۃ اللّٰہ البالغہ کا بہت نمایاں کردار ہے۔ شاہ صاحب نے ایک طرف حنفی‘ شافعی‘ حنبلی‘ مالکی اور اہلحدیث کے درمیان مشترکہ فکر کی اساس کو واضح کیا‘ تو دوسری طرف صوفی اور غیرصوفی علما کے درمیان موافقت تلاش کی۔ تیسری طرف معتزلہ‘ اشاعرہ‘ ماتریدیہ اور اہل حدیث کے درمیان فلسفہ و شریعت کی مغائرت کو دُور کر کے قربت کی راہیں کھولیں‘ اور چوتھی طرف تسنن اور تشیع کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو اعتدال اور ادب کی حدود سے شناسا کیا۔ اس تمام ترعلمی کاوش اور عملی جدوجہد میں ان کا اصل ہتھیار اصولِ مطابقت ہے‘ جس کا چشمہء صافی کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں‘ مگر انھی منابع علم اور مصادر تحقیق سے انھوں نے استخراج نتائج کا ایک ایسا جہان آباد کیا جسے ہم ملت اسلامی کے فکر وعمل میں الہیات کی تشکیلِ جدید کا نام دے سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر بعد کی صدیوں میں تاریخ دعوت و عزیمت کے قافلے فکر ولی اللہٰی سے استفادہ کرتے رہے اور ہنوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اٹھارھویں صدی عیسوی میں فلسفۂ اسلام کی تدوین کا یہ عظیم شاہکار‘ یعنی حجۃ اللّٰہ البالغہ جو عربی زبان کی دو جلدوں پرمشتمل ہے ‘سامنے آیا ہے۔ اس کا آغاز مابعدالطبیعیاتی افکار و مسائل سے ہوتا ہے اور پھر عبادات اور احکامِ شریعت کے عظیم تر مصالح کی وضاحت پر ختم ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے جس نوعیت کی شخصیت کا ہونا ضروری تھا ‘ اس کے متعلق خود شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’صرف وہی شخص اس میدان کا شہسوار بن سکتا ہے‘ جس کو تمام علومِ دینیہ پرکامل عبور ہو‘ نیز اس علم کے متعلق‘ اسی کو وہبی شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی سے بہرۂ وافی عطا کیا ہو اور اس کے سینے کو تعلیمات الٰہیہ کے اسرار سمجھنے سے بھردیا ہو۔ یہ بھی شرط ہے کہ اس کا ذہن غیرمعمولی طور پر زود رس ہو اور وہ نگاہ ژرف بیں رکھتا ہو‘ ساتھ ہی اس میں یہ قابلیت ہو کہ دقیق سے دقیق مضمون کو وہ عام فہم پیرایے میں بیان کر سکے۔ نئے اصول قائم کر کے‘ ان سے نتائج اخذ کرنے کی وہ کامل استعداد رکھتا ہو اور منقول کو معقول کے ساتھ تطبیق دینے اور قابلِ قبول صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں اس کو پوری دسترس حاصل ہو‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب اسی حجۃ اللّٰہ البالغہ کا انگریزی ترجمہ ہے جسے پاکستانی نژاد محقق اور اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ایما پر امریکی خاتون اور الٰہیات کی محققہ مارسیہ کے ہرمینسن نے کیا ہے‘ جسے اس مترجم نے عربی کے دو اور ایک اُردو ترجمے کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ عربی زبان میں اس کا ایک محقق نسخہ ایک مصری اسکالر السیدسابق نے ۱۹۵۳ء میں مرتب کیاتھا۔ فاضل مترجمہ نے اس اہم کتاب کے کامل ترجمے کی بجاے اس کے سات اہم ابواب میں شامل ۸۵ مباحث کے ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ اصل کتاب کی فہرست اور اس ترجمے کے مندرجات کے تقابل سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کن کن ابواب کے کن کن مباحث کونظرانداز کیا گیا ہے۔ کاش! فاضل مترجمہ نظرانداز کردہ حصوں کو شامل نہ کرنے کی وجوہ بھی لکھ دیتیں‘ تو مناسب ہوتا۔

شاہ ولی ؒاللہ کی اس شاہکار تصنیف پر فاضل مترجمہ نے اپنا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ ان کی اس کتاب کا لوازمہ ان کی بہت سی دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ ترجمے کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کتاب کے مقصدِ تحریر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مغرب کی علمی تحقیق کے طرز کے مطابق متن کے فٹ نوٹس میں کچھ حوالوں کی تخریج اور چند مقامات پر مختصر حواشی کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ انتہاے آخر میں کتابیات کے علاوہ قرآنی آیات‘ احادیث‘ اسما اور مضامین و اصطلاحات کے اشاریے بھی ترتیب دیے گئے ہیں‘ جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ترجمہ حسنِ طباعت کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور ارزاں قیمت پر دستیاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے سے مسلم اور غیرمسلم دنیا کے انگریزی خواں حضرات اسلام کے عقائد‘ عبادات‘معاملات‘ امورمملکت‘ اخلاق و معاشرت کے علاوہ اس کی عمرانی‘ تمدنی‘ ثقافتی اور معاشی تعلیمات کے بارے میں  واضح علم حاصل کرسکیں گے۔ موجودہ عہد کے وہ تمام اہل فکرونظر جو الٰہیات کی اسلامی تشکیلِ جدید کے موضوع سے دل چسپی رکھتے ہیں‘ اس ترجمے کے مطالعے سے ایک جدید زبان اور ایک جدید تر اسلوب میں برعظیم کے سب سے بڑے مفکر‘ محدث‘ فقیہہ اور مجتہد کے روشن خیالات سے مستفید ہوسکیں گے۔ امید ہے کہ ہماری جامعات کے اساتذہ اور طلبہ اور ہمارے قانونی‘ عدالتی‘ معاشی   اور معاشرتی اداروں سے متعلق اربابِ اختیار اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے۔ ( The Conclusive Argument From God ‘ ] حجۃ اللّٰہ البالغہ[ شاہ ولی اللہ دہلویؒ،مترجم: مارسیہ کے‘ ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) ‘ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۶۔ قیمت: ۵۵۰ روپے‘۲۰۰۳ئ)

جنوب مشرقی ایشیا کی نامور مسلم شخصیت الاستاذ سلامات ہاشم ۱۳ جولائی ۲۰۰۳ء کو انتقال فرما گئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات نہ صرف بنگسامورو مجاہدین اور مورو قومی محاذِ آزادی کے لیے ایک جانکاہ صدمہ ہے بلکہ عالمی اسلامی تحریکات بھی ایک عظیم قائد سے محروم ہوگئیں۔ مورو مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں الاستاذ سلاماتؒ نے جو تابناک تاریخ رقم کی ہے اُس کا ہمیشہ روشن حروف میں تذکرہ ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازے۔ آمین!

سلامات ہاشم مرحوم ۷ جولائی ۱۹۴۲ء کو پگالونگان‘ مگندانو میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک دینی خانوادے سے تھا‘ تاہم ابتدائی تعلیم و تربیت میںاُن کی والدہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اُنھوں نے سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبروں کے ساتھ سند حاصل کی‘ اس کے فوراً بعد ۱۹۵۸ء میں حج کی ادایگی کے لیے گئے تو مکّہ میں شیخ زواوی کی زیرِنگرانی تعلیمی مدارج طے کیے۔ مسجدالحرام میں قائم تدریسی حلقوں سے استفادہ کیا اور مدرسۃ الصولتیہ الدینیہ میں باضابطہ زیرِتعلیم رہے۔ دینی اُٹھان کی خشتِ اول والدہ کی تربیت تھی لیکن اقامت ِ دین کی جدوجہد کا عزم کعبۃ اللہ الحرام کے سائے تلے پختگی اختیار کرتا رہا۔


  •  لیکچرار ‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ لاہور کینٹ

  • عموماً سلامت لکھا جاتا ہے۔ صاحب ِ مضمون کی ۱۹۸۵ء میں ذاتی ملاقات ہوئی ہے۔ اس موقع پر سلامات نام لیا گیا۔

ایک برس بعد وہ قاہرہ پہنچ گئے جو اُس زمانے میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا سرگرم مرکز تھا۔ اُنھوں نے جامعۃ الازہر میں داخلہ لیا اور معھد البحوث الاسلامیہ سے ۱۹۶۳ء میں سندِفراغت حاصل کی۔ بعدازاں دینیات کالج سے عقیدہ اور فلسفہ کے مضامین کے ساتھ ۱۹۶۷ء میں گریجوایشن کیا اور ۱۹۶۹ء میں ایم اے پاس کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے اُن کا باضابطہ طالب علم کے طور پر اندراج ہو گیا۔ ابھی تحقیقی مقالے کی تسوید کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اُنھیں وطن واپس لوٹنا پڑا۔ دورانِ قیامِ قاہرہ اُنھوں نے طلبہ کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کی اور جب وہ وطن واپس لوٹ رہے تھے اُس وقت اُن کی حیثیت ایک پُرجوش مقرر اور ہردل عزیز قائد ِطلبہ کی تھی۔ قاہرہ میں انھوں نے مختلف خطوں اور علاقوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور قومی خصائص سے براہِ راست شناسائی حاصل کی۔ اُمت کے مسائل سے آشنائی نے اُنھیں مسلم عالم دین سے انقلاب پسند قائد میں تبدیل کر دیا۔ جامعۃ الازہر میں وہ فلپائن مسلم طلبہ انجمن کے صدر اور ایشیائی طلبہ کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔

سلامات ہاشمؒ نے فلپائن کے مقبوضہ جزائر کے مسلم طلبہ کے‘ جو عرفِ عام میں بنگسا مورو کہلاتے ہیں‘ قاہرہ میں اجتماعات منعقد کیے اور وطن کی آزادی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ ان کے اجلاسوں میں شریک ہونے والوں کے لیے ضروری تھا کہ اپنے جیب خرچ کا نصف حصہ آزادی وطن کی جدوجہد کے لیے وقف کریں۔ اُنھوں نے پاکستان‘ سعودی عرب‘ لیبیا اور کئی دیگر ممالک کے دورے بھی کیے۔

انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے ملحقہ فلپائن کے جزائر کی مسلم آبادی عرصۂ دراز سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد ۶۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔    سقوطِ غرناطہ کے ۲۹ سال بعد ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے ان جزائر کو اپنی کالونی بنالیا اور یہاں کے مسلمان ہسپانوی اقتدار کے خلاف ۳۷۷ برس جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ۴۰برس تک امریکی استعمار سے برسرِپیکار رہے۔فلپائن کی آزادی کے بعد یہ مسلم جزائر منیلا حکومت کے زیرِانتداب آگئے۔ ظالم فلپائنی حکومتوں نے تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہرممکن فوجی کارروائیاں کی ہیں اور ارویو کی موجودہ حکومت بھی تشدد سے تحریک کو کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ بنگسامورو مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹتی رہی ہیں‘ افسوس اُمت مسلمہ اس سے بہت زیادہ آگاہ نہیں ہے!

مورو اسلامی محاذِ آزادی کی بنیاد سلامات ہاشمؒ نے ۱۹۶۲ء میں رکھی‘ نورمحمد میسواری کی مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF) کی طرح یہ خِطّۂ وطن کی آزادی کی قوم پرستانہ تحریک نہیں ہے بلکہ اسلامی مملکت کے قیام کی ایک مبارک جدوجہد ہے اور اس کے وابستگان اسلامی حقوق و فرائض پر عمل کرتے ہیں۔ محاذِ آزادی‘ شریعت اسلامیہ کے حکمِ جہاد کی عملی تعبیر کا نام ہے۔ اگرچہ نورمحمد میسواری نے منیلا حکومت کے زیرِانتظام جزوی خودمختاری کے معاہدے پر دستخط کر کے ۱۴صوبوں پر حکومت بنا لی ہے ‘ تاہم سلامات ہاشم نے تمام جزائر کی مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ظالم و غاصب فلپینی حکمرانوںکے خلاف عملی جدوجہد میں مصروف رہے۔

سلامات ہاشمؒ کی زیرِقیادت بنگسامورو عوام انھیں امیرالمجاہدین کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے ۲۰ سالہ پروگرام (۱۹۸۰ئ-۲۰۰۰ئ) ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے میں طے کیا گیا کہ آیندہ عرصے میں بنگسامورو عوام کی عمومی زندگی میں اسلامی طرزِ زندگی کو رواج دیا جائے گا۔ عسکری طور پر عوام الناس کو فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کے بنیادی اصول سکھائے جائیں گے۔ انتظامی‘ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں کو مضبوط تر بنایا جائے گا۔ مذکورہ مدت کے بعد ۵۰ سالہ منصوبہ عمل تیار کیا گیا جس کے اہم نکات میں انصاف کا قیام‘ مکمل آزادی‘ غربت‘ جہالت اور ناخواندگی سے نجات‘ باعزت حصولِ روزگار‘ مساوی حقوق کی فراہمی‘ اور بدعنوانی کا خاتمہ شامل ہے۔ ۲۹ ہزار تربیت یافتہ مجاہد اور مراوی‘ منڈانائو‘ سولوجزائر کی ۸۵ فی صد آبادی‘ آزادی کی جدوجہد میں سلامات ہاشم کے دیے ہوئے نقشے پر عمل پیرا ہے۔ سلامات نے جونسل تیار کی ہے وہ آخرکار اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی۔

بنگسامورو عوامی مشاورتی اسمبلی کے چیئرمین سید ایم لینگا نے مرحوم کے بارے میں لکھا ہے: ’’الاستاذسلامات ہاشم‘ بنگسامورو قوم کے امام اور امیرالمجاہدین تھے۔ اُن کی وفات سے ہم ایک قائد‘ ایک دوست بلکہ مورو تاریخ کے سب سے بڑے محسن سے محروم ہوگئے ہیں۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بے انتہا محبت تھی۔ آپ ایک عام کسان کی سی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز تقویٰ تھی۔ عالمی اسلامی تحریکات سے اُنھیں غایت درجہ محبت تھی‘‘۔

الاستاذ سلامات ہاشمؒ کو علم سے محبت تھی اور گھنے جنگل میں قائم ابوبکر کیمپ میں بھی اُنھوں نے وسیع لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ اُن کی ذات میں عالمِ دین کی شان بھی تھی اور پُرعزم قائد کی سوچ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اُن کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کرتے تھے۔ راقم کو الاستاذ سے ملاقات کا شرف ۱۹۸۵ء میں حاصل ہوا جب مولانا خلیل احمد الحامدی مرحوم و مغفور نے سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ایک سال کے موقع پر ۱۰ روزہ تقریبات کا انعقاد کیا اور الاستاذ کو مدعو کیا۔ اس موقع پر ایک نشست میں سلامات ہاشمؒ نے مورو جدوجہد پر شرح و بسط سے عربی زبان میں روشنی ڈالی۔

وہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آزادی سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور اُنھوں نے اپنی زندگی جنگلوں‘ پہاڑوں اور دلدلوں میں اپنے مجاہدین کے ساتھ گزاری۔ مجاہدین اُن سے محبت کرتے تھے کیونکہ وہ اُن کے درمیان گھومتے پھرتے تھے‘ اُن کی تربیت کرتے تھے اور اُن جیسی مصائب بھری زندگی اُنھوں نے اختیار کیے رکھی تھی۔ مذاکرات‘ سرکاری مراعات اور آزادی کے بدلے شاہانہ زندگی کی بیسیوں پیش کشوں کا اُنھوں نے جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا۔

مجاہدین کی ایک تربیتی نشست میں امیرالمجاہدین نے کہا تھا: ’’میں نے بنگسا مورو لوگوں کے دلوں میں جہاد کا بیج ڈال دیا ہے۔ میں زندہ نہ بھی رہا تب بھی جہاد جاری رہے گا اور آزادی کی منزل مل کررہے گی‘‘۔ آج یہ جہاد جاری ہے اور یقینا منزل مل کر رہے گی!

عراق میں امریکی اور اتحادی افواج (بلکہ اقوامِ متحدہ کے مرکزی دفتر تک پربھی) حملوں کے ساتھ ساتھ‘ افغانستان سے بھی مختلف علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور بعض علاقوں پر قبضے کی اطلاعات مسلسل آرہی ہیں۔ عراق کے حوالے سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے دستوں اور خصوصاً ان کے سربراہ کو اپنی حرام موت کا منظر پہلے سے ہی دیکھ لینا چاہیے لیکن افغانستان کے حوالے سے‘ خود گھرکے ایک بھیدی کے معروضانہ تجزیے سے اخذ کردہ مشاہدات پر ایک نظر شاید بند آنکھوں والوں کی آنکھیں بھی کھول دے۔ ان مشاہدات کی سند کے لیے برطانوی جریدے اکانومسٹ کا نام کافی ہے۔ شمارہ ۱۶ اگست ۲۰۰۳ء کے اس تجزیے کا آغاز عراق سے ہوتا ہے۔ ’’افغانستان‘ عراق پر حملے کی ریہرسل نہیں تھا… یہ غریب ہے‘ اس کے پاس تیل نہیں‘‘ (اس لیے اس تحریر کا آغاز بھی عراق سے کیا گیا ہے!)۔

افغانستان کو تباہ کرنے اور فتح کرنے کے بعد اصل کام تعمیرنو کا تھا۔ لیکن تعمیرنو تو دُور کی بات ہے‘ اصل مسئلہ تو امن و امان برقرار رکھنا اور کرزئی حکومت کے لیے اپنا حکم نافذ کرنا ہوگیا ہے (طالبان کے دور میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن دنیا کو کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔اب کس حال کو پہنچا دیا گیا ہے؟)۔

امریکہ کی قیادت میں ۱۲ ہزار اتحادی افواج کے ساتھ نیٹو کے زیراہتمام ترکی‘ جرمنی‘ برطانیہ اور ہالینڈ کی ۵ ہزار امن فوج (ISAF) اپنے فرائض ادا کر رہی ہے لیکن قیمت بھی ادا کررہی ہے۔ جون میں چار جرمن فوجی ایک حملے میں ہلاک ہوگئے‘ اسپین کا امن دستہ گھر واپس لے جانے والا جہاز گرگیا اور ۷۵ ہلاک ہوگئے (قیمت غالباً اس سے بہت زیادہ ادا کی جا رہی ہے)۔ لیکن جہاں امن کی اصل ضرورت ہے‘ یعنی کابل سے باہر‘ وہاں جانے میں امن دستوں نے ابھی کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ تعمیرنو کی چند صوبائی ٹیمیں (PRTS) بنائی گئی ہیں لیکن مزارشریف میں ۷۲ افراد کی ایک ٹیم کے سپرد اسکاٹ لینڈ کے برابر علاقہ ہے۔ اس سے ان کی ممکنہ کارکردگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

امریکی افواج جنوبی افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمرکا کوئی پتا نہیں‘ لیکن جنوب کا علاقہ کم نہیں‘ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی کارروائیوں کے نتیجے میں چند افراد ہاتھ آتے ہیں جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ عام دیہاتی بھی ہو سکتے ہیں (یہ ا کانومسٹ کے الفاظ ہیں)۔ انھیں تفتیش کے لیے بگرام کے ہوائی اڈے لے جایا جاتا ہے۔ وہاں کئی افراد مرچکے ہیں۔ اس سب پر امریکہ ۱۰ ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان بچے گا یا نہیں‘ یا کولمبیا کی طرح کا ملک ہو جائے گا؟

پُرامید لوگ کہتے ہیں: افغانستان گذشتہ ۲۴ سال میں اتنا مستحکم کبھی نہ تھا۔ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں۔ قومی حکومت کی بنیاد پڑ چکی ہے‘ دستور مرتب کیا جا رہا ہے‘ آیندہ سال خواتین کے ووٹ کے ساتھ انتخابات متوقع ہیں۔ معاشی ترقی ۲۸ فی صد رہی۔ ۲۰لاکھ مہاجرین جرمن واپس آئے ہیں۔

ناامید لوگ --- جو اپنے کو حقیقت پسند تصور کرتے ہیں --- کہتے ہیں: ایک تہائی ملک خطرناک علاقہ ہے جہاں امدادی کارکنان تک نہیں جاتے۔ کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں طالبان لیڈر کھلے عام اسلحہ تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان خود اپنے پڑوسی کو غیرمستحکم کر رہا ہے۔ کئی دفعہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ تعمیرنو کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے‘ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑی سڑکوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ کابل قندھار شاہراہ جس کے لیے صدربش نے ذاتی طور پر‘ اختتامِ سال کا ہدف دیا ہے‘ انجینیرسرگوشی کرتے ہیں کہ پپڑی جما کر بنائی جا رہی ہے جو دو تین سردیاں بھی برداشت نہ کر سکے گی۔

امریکہ کا آدمی ("boy") کرزئی تنہا اور بے اثر ہے۔ اصل طاقت صوبوں کے وارلارڈز کے پاس ہے۔ دستور میں الٹ پھیر ہو جائے گا۔ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ عورتیں بے اثر رہیں گی۔ معیشت میں ضرور بہتری ہوئی ہے لیکن صفر سے آغاز ہو تو ذرا سی بھی نظرآتی ہے۔اس وقت یہ ۱۹۷۸ء سے نصف ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی انسانی المیہ نہیں ہے‘ حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے۔ اکثریت کو طبی سہولت میسر نہیں۔ زچہ و بچہ کی ہلاکت کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ یہاں ہے۔ ہیضہ اور وبائی امراض بڑھ رہے ہیں۔ جس ساڑھے ۴ ارب ڈالر امداد کا وعدہ تھا‘ اس میں سے صرف ایک ارب ڈالر ملی ہے۔ اس کا بھی بیش تر حصہ تنخواہوں اور غیرملکیوں کی چمکتی دمکتی کاروں میں چلا جاتا ہے۔

ان نکات پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری رکھی جا سکتی ہے اور کابل میں بیش تر لوگ یہی کرتے ہیں۔ لیکن دستور اور معیشت کیسے بھی ہوں‘ دو عناصر ایسے ہیں جو سب کچھ تباہ کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے پانی کا مسئلہ ہے۔ ۸۰ فی صد افغان کاشت کاری پر زندگی گزارتے ہیں لیکن افغانستان میں پانی اور قابلِ کاشت زمین نہیں ہے۔ ۷۰ کے عشرے میں صرف ۵ فی صد زمین کو پانی نصیب تھا۔ جنگ نے اسے نصف کر دیا۔ پھر سات سال کا خشک سالی کا دور آیا۔ پانی کی سطح بے حد نیچی ہوچکی ہے۔ مویشی مرگئے ہیں۔ فصل ہے ہی نہیں۔ پہاڑوں میں پانی کے ذخائر بنانا اورآب پاشی کا نظام تعمیر کرنا بہت مہنگے منصوبے ہیں۔

دوسرا مسئلہ منشیات کا ہے۔ دنیا کی تین چوتھائی اور یورپ کی ساری افیون افغانستان سے آتی ہے۔ پشتون گلہ بان اب اس تجارت میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ منشیات‘ خشک سالی اور عدمِ استحکام ایک دوسرے کو پروش کرتے ہیں۔ افیون پیدا کرنے والے پانچ میں سے تین بڑے صوبے--- ہلمند‘ ارزگان‘ قندھار‘ زیادہ غیرمستحکم اور خشک سالی کا شکار ہیں۔

صرف ایک صوبے غور کی مثال لیں۔ یہ کابل سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔ غور کے ۳ ہزار ملائوں میں سے بیش تر اَن پڑھ ہیں۔ یہاں صرف پانچ ڈاکٹر ہیں۔ ساڑھے ۷لاکھ آبادی ‘ بیش تر نئے واپس آنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مویشی مرچکے ہیں یا بیچے جا چکے ہیں۔ ہر شخص مقروض ہے۔ لوگوں نے اپنی بیٹیاں تک فروخت کی ہیں۔ کچھ نے افیون کاشت کی ہے لیکن برف باری نے فصل تباہ کر دی۔ اب اگلی فصل کا انتظار ہے اور قرض بڑھ رہا ہے۔

پورے صوبے میں صرف ۵۰ عورتیں لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں اب بھی مشکلات ہیں۔ قرض کی ادایگی‘ منافع یا قتل کے جھگڑوں کے تصفیے میں لڑکیوں کا مالِ منقولہ کی طرح لین دین کیا جاتا ہے۔

اس وقت افغانستان کی ایک تہائی معیشت افیون پر منحصرہے۔ گذشتہ سال ایک ارب ۲۰کروڑ ڈالر اس سے ملے۔ جب یہ ایڈنبرا اور پراگ میں گلوکوز اور اینٹ کے برادے سے مل کر رگوں میں داخل کی جاتی ہے‘ اس کی قیمت ۲۵ ارب ڈالر ہوچکی ہوتی ہے۔ افیون کی کاشت کو اب باقاعدہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے (کون یاد دلائے کہ ملاعمر نے طالبان کے دور میں اسے ختم کر دیا تھا)۔ جمہوریت بھی انھی نودولتیے کمانڈروں کا ہتھیار ہے جن کے پاس افیون کی رقم ہے۔ وہ ابھی سے اگلے سال کے انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ہم اس نقد رقم کا مقابلہ کس طرح کریں جو ان لوگوں کے پاس ہے۔

اکانومسٹ آخر میں لکھتا ہے کہ ’’جنھوں نے افغانستان کی تباہی میں حصہ لیا‘ ان کی کچھ ذمہ داری ہے کہ اسے واپس ٹھیک کر دیں‘‘۔

کاش! ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔

شادی پر ویڈیو بنوانے سے انکار

سوال: میں الحمدللہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوں اور شرعی پردہ بھی کرتی ہوں۔ میری شادی عنقریب ہونے والی ہے۔ میرے گھر کا ماحول اسلامی ضرور ہے لیکن پھر بھی میرے گھر والے تصاویر اتروانا اور ویڈیو فلم بنوانا پسند کرتے ہیں۔ میری شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے۔ میرے چچا کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ میرے لیے یہ بات باعث ِپریشانی ہے کہ اب میں کیا کروں‘ جب کہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر کوئی کسی سے زیادتی کرے تو گناہ زیادتی کرنے والے کے سرجاتا ہے۔ میرے چچا بھی یہی کہتے ہیں کہ گناہ تو ہمارے ہی سرہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ میں کوئی کوشش ہی نہ کروں۔ پریشانی صرف میری شادی تک ہے۔ بعد میں وہ مجھے پردے کے حوالے سے کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن میرے لیے تو شادی پر بے پردہ ہونا بھی بہت بڑی بات اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے‘   جب کہ شادی کے معاملے میں میرے گھر والے اور چچابات ماننے کو تیار نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ نہ میری مووی بنے اور نہ میری تصویریں ہی اتاری جائیں۔ میرے تمام خاندان والے ایک طرف ہیں اور میں توکل علی اللہ ایک طرف ہوں۔ براہ مہربانی رہنمائی  فرما دیجیے کہ اس سلسلے میں مجھے کیا انتہائی اقدام کرنا چاہیے اور شادی کے وقت اپنا چہرہ کتنا اور کس حد تک کھول سکتی ہوں؟

جواب: شادی کے موقع پر ویڈیو فلم (مووی) بنوانا غیرضروری شغل ہونے کے علاوہ فحاشی اور عریانی کی اشاعت کا ذریعہ بھی ہے۔ شادی کے موقع پر دلہن بنی سنوری ہوئی ہوتی ہے اور جو خواتین شادی میں شرکت کرتی ہیں وہ بھی بن سنور کر آتی ہیں۔ ایسی صورت میں جو مووی بنے گی‘ اور دکھلائی جائے گی‘ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ ایسی مووی جب بنائی جاتی ہے تو اس وقت بھی منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس موقع پر صرف دلہن ہی نہیں دوسری   خواتین جو شادی میں شریک ہوتی ہیں‘ ان سب کی بھی مووی بنتی ہے‘ جو بے نقاب اور زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں‘ بعض نیم عریاں لباس میں بھی ہوسکتی ہیں‘ سب کی تصویر اس میں آئے گی۔ مرد و زن مخلوط ہوں‘ تو بیک وقت دونوں کی‘ اور الگ الگ ہوں تب بھی دونوں فلم میں یک جا ہوجائیں گے۔ مووی بنانے والا اور اس کے رفقا خواتین کی مجلس میں جائیں گے‘ ان کے مختلف پوز دیکھیں گے اور ان کا عکس لیں گے۔ گویا فلم کی تیاری میں بھی فحاشی اور عریانی ہے اور بعد میں جب اسے دکھایا جائے گا تب بھی محرم اور غیرمحرم‘ تمام اسے دیکھیں گے اور ان میں جنسی جذبات اُبھریں گے اور اس کے نتیجے میں برائی کے میلانات پروان چڑھیں گے۔ یہ تو پہلی خرابی ہے۔

دوسری خرابی اس میں بے غیرتی اور بے حمیتی کو فروغ دینا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی‘ اور ماں باپ اپنی بیٹی کو حسن و جمال کے مظاہرے کے لیے پیش کریں تو اس میں غیرت و حمیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

تیسری خرابی یہ ہے کہ ایک خاتون شادی کے موقع پر شرم و حیا کا پیکر ہوتی ہے۔ باکرہ خاتون کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے ’’اس کا اِذن خاموشی ہے‘‘۔ اس لیے کہ اس موقع پر اس کی زبان گنگ ہوتی ہے۔ وہ یہ لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتی کہ میری طرف سے نکاح کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں اس کی مووی بنانا اس کے شرم و حیا کے جذبات پر ظلمِ عظیم ہے۔

ایسے میں کسی خاتون کا یہ کہنا ہے کہ میں اپنی مووی نہیں بنوائوں گی‘ قابل قدر و تحسین ہے۔ اس کی یہ خواہش ایسی ہے کہ پورے خاندان اور ہونے والے شوہر کو اس کا پورا احترام کرنا چاہیے۔ معاشرے کو ایسی خواتین کی خواہش کی تکمیل کے لیے فضا پیدا کرنا چاہیے اور مووی بنانے کے رجحان کو روکنا چاہیے اور روکنے میں مدد دینا چاہیے۔ خود بچی کے والدین اور اقربا کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نکاح جیسی پاکیزہ اور بابرکت محفل کو فحاشی و عریانی اور غلط رجحانات کے فروغ اور دین کے واضح احکام کی نافرمانی کر کے منکرات کے مرتکب ہونے کی جرأت‘ خدا کے مقابلے میں کس حوصلے پر کر رہے ہیں! کیا ان میں خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کی جرأت ہے؟ انھیں تو اپنی بچی کی اس خواہش پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور خدا کا شکرادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انھیں ایسی شرم و حیا اور سچے ایمان والی بچی سے نوازا ہے‘ چہ جائیکہ والدین اور بزرگ ایسی قبیح رسوم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر دین دار گھرانے بھی ایسا کریں اور یہ روش عام ہو جائے تو ہماری اخلاقی اقدار کا کیا بنے گا اور معاشرتی انحطاط کس تیزی سے وقوع پذیر ہوگا-- - یہ بات بھی سوچنے کی ہے!

ایسی صورت میں اگر کوئی بچی اپنی اس شرعی خواہش کو کہ اس کی شادی کی مووی نہ بنائی جائے‘ اپنے والدین تک پہنچاتی ہے‘ انھیں قائل کرنے کی اور ہم نوا بنانے کی پوری کوشش کرتی ہے‘ سسرال والوں تک بھی اپنے جذبات اور آواز پہنچاتی ہے اور اس کے بعد بھی اگر وہ نہ مانیں‘ تو وہ حکمت و تدبیر اور ماں باپ کے آداب کو ملحوظ رکھ کر دھمکی بھی دے سکتی ہے کہ اگر مووی بنائی گئی تو وہ نکاح کی اجازت نہ دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ دھمکی کارگر ہو جائے۔ البتہ ان ساری کوششوں کے باوجود اگر موقع پر مووی بنانے والے آجائیں تو ایسی صورت میں ایک حد تک رکاوٹ ڈالنے کی تدبیر کرے لیکن اگر شرم و حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو پھر نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالے کیونکہ نکاح ایک ایسی سنت ہے جس پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔

موجودہ حالات میں اگر کسی بچی کو ٹھیک شریعت کے مطابق رخصت نہیں کیا جاتا اور  اس میں مووی وغیرہ منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے تو وہ رخصت ہوتے وقت انکار کر کے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا نہ کرے۔ ایسی صورت میں اگر منکرات کا ارتکاب یا ان میں اضافہ ہوگا تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنھوں نے اس کی اجازت دی‘ اور پورے معاشرے پر ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ وہ اسے روکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کی سفارش کی ہے۔ اگر کھانوں کے رواج کو حکومت روک سکتی ہے تو مووی جیسی ناروا سرگرمی کو کیوں نہیں روک سکتی۔ اگر حکومت اس کے لیے تیار نہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔ نیک لوگوں کو ایسی شادیوں میں شامل ہونے اور علما کو نکاح پڑھانے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو اس برائی کا انسدادہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم!

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے عزم اور جذبے کی جزا دے‘ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے اور آپ کے اہلِ خاندان کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر دے۔ (مولانا عبدالمالک)


اذان کے بعد کی دعا ___ ایک شبہہ

س:  پاکستان ٹیلی ویژن پر نمازِ عشاء کی اذان کے بعد دعا پڑھی جاتی ہے: ’’اے اللہ! اس اذان کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب‘ تو محمد(ﷺ)کو وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقامِ محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘۔ ہم جو مقامِ رسالتؐ کی معرفت رکھتے ہیں تو کیا ہم گنہگاروں کو زیب دیتا ہے کہ ہم اللہ سے آپؐ کے لیے وسیلہ‘ فضیلت اور بلند درجے کی دعا کریں؟ کیا آج ۱۴۲۰ سال کے بعد حضوؐر کو مقامِ محمود نصیب نہیں ہوا؟ اور پھر ان سفارشات کے بعد ہم اللہ کو یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا توہینِ رسالتؐ ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس پر بصیرت افروز روشنی ڈال کر مجھے ممنون فرمایئے۔

ج :  دراصل دعا کی حیثیت نہ صرف ایک درخواست کی ہے جو عموماً کسی ایسی چیز کی بابت کی جاتی ہے جس سے ہم محروم ہوں بلکہ دعا شکر اور احساسِ ممنونیت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا‘ ہم جب پیاس بجھانے کے لیے پانی پیتے ہیں تو شکر کے جذبات کے ساتھ بے ساختہ دعا زبان پہ آتی ہے کہ اس رب کی تعریف و حمد جس نے پینے اور کھانے کو دیا اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔

اذان کے بعد دعا کے حوالے سے آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس طرح       ہم  توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ یہ ایک دل چسپ الٹی منطق معلوم ہوتی ہے۔ دراصل اس دعا کو بخاری میں باب بعدالاذان میں حضرت جابربن عبداللہؓ سے روایت کیا گیا ہے جس میں حضور نبی کریمؐ یہ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ دعا اذان سننے کے بعد پڑھی تو قیامت کے روز اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔

اگر اس دعا کی تعلیم خود شارع اعظمؐ نے اپنے ماننے والوں کو اس وعدے کے ساتھ دی ہے کہ وہ خود اس دعا کے کرنے والے کی شفاعت فرمائیں گے تو اس سے توہین کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس لیے میں نے اسے الٹی منطق سے تعبیر کیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ بخاری اور مسلم میںحضورؐ     کے بار بار استغفار کرنے کا بیان آتا ہے اور بعض احادیثِ صحیحہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپؐ ۷۰ مرتبہ یا زائد مرتبہ استغفار صرف ایک دن میں فرماتے تھے۔ اگر آپؐ کی بیان کردہ الٹی منطق استعمال کی جائے تو کیا نعوذباللہ اس کا سببؐ آپ کی طرف سے کسی بھول چوک کا ہونا تھا‘ جب کہ آپؐ معصوم تھے۔ اس لیے بجاے الٹی منطق کے‘ ہمیں دین کو جو سیدھا ہے ‘آسان ہے اور قابلِ عمل ہے‘ اس کے مصادر ‘یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست اخذ کرنا چاہیے اور ذہن کو گم راہ ہونے سے بچانا چاہیے۔

احادیث یہ وضاحت بھی کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے اپنے اصحاب سے ذکر فرمایا کہ جنت میں ایک مقامِ محمود ہے‘ جو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایت سے کسی ایک نبی کو دے گا اور یہ فرمایا کہ آپؐ کی خواہش ہے کہ وہ نبی آپؐ ہوں۔

اذان سننے کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے جو احسانِ عظیم کیا ہے‘ یعنی تعلیمات اور اس کی عملی شکل کو ہمارے لیے آسان بناکر پیش کیا ہے‘ اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہم یہ اذان سننے کے بعد رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی کریمؐ کو مقامِ محمود عطا کرے۔ یہ کم سے کم شکریہ ہے جو نبی کریمؐ کے اُمت پر احسانات کا ہم ادا کرسکتے ہیں۔

اذان میں وسیلے کا ذکر اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہم اُردو میں اسے استعمال کرتے ہیں کہ فلاں صاحب کے وسیلے سے کوئی کام کروا لیا جائے۔ یہ بھی مقامِ محمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر‘ قرآن کریم کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)


جلدبازی شیطان کا کام

س:  دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘‘ اور دوسرا یہ کہ ’’سب سے بھلی نیکی وہ ہے جو جلد کر لی جائے‘‘۔ کیا یہ دونوں مقولے احادیث نبویؐ ہیں؟ اگر ہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط؟

ج:  پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبوی کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:

الأناۃ  من  اللّٰہ  والعجلۃ  من الشیطان (ترمذی)‘ ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہر قوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیرٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہرزمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:  فی التأنی السلامۃ وفی العجلۃ الندامۃ‘ سوچ بچار کر ٹھیرٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے‘ اور جلدبازی میں ندامت ہے۔

ابن قیم فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن‘ غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار‘ بردباری اور ثبات سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج ہمیشہ برے ہوتے ہیں۔ حدیث نبویؐ ہے: یستجاب للعبد مالم یستعجل(بخاری)‘ بندے کی دعا قبول ہوتی ہے اگر وہ جلدی نہ مچائے۔

رہا دوسرا مقولہ تووہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا ایک قول مروی ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ: لا یتم المعروف الا بتعجیلہ، بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے۔ اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا‘ ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف     فرمائی ہے:  اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱) ’’یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری آیت ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) ’’بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو‘‘۔ چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے گرچہ یہ حدیث نہیں ہے۔ اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔

علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابل تعریف اور جلدبازی کو قابل مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایاہے:

۱-  پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو اگر اطاعت الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتاہے تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا‘   نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبیؐ نے حضرت علی ؓ کو ہدایت کی تھی کہ اے علی ؓ!تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا: نماز جب اس کا وقت ہوجائے‘ جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے‘ اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے۔ (ترمذی)

مشہور عالم دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو موسٰی ؑکبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ: وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o  (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہو جائے‘‘۔

۲-  وہ جلدبازی قابل مذمت ہے‘ جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کر لینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

۳-  ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کر دے کہ مقصد ہی فوت ہو جائے‘ یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کف ِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی‘ ترجمہ:  سید زاہد اصغر فلاحی‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ ص ۵۵-۵۷)

کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے‘ خرم مراد۔ شائع کردہ: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات:  ۲۶۶۔ قیمت: ۶۰ روپے

ہر دفعہ جب خرم مراد مرحوم کی کوئی نئی کتاب‘ کوئی نئی تحریر سامنے آتی ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں‘ ہم سے جدا نہیں ہوئے ہیں‘ اور تحریک ہی نہیں بلکہ اسلام سے وابستہ نوجوانوں کے تزکیے‘ ہدایت اور راہ نمائی کے کاموں میں بدستور مصروف و منہمک ہیں۔

ان کی زیرنظر تصنیف (اشاعت: جولائی ۲۰۰۳ئ) ان کی فکری اور تحریکی کاوشوں کی ایک نہایت قیمتی دستاویز ہے‘ جسے ان کے مختلف خطبات سے ان کے ایک رفیقِ کار امجد عباسی نے نہایت محنت اور خوب صورتی سے مدون کیا ہے۔

اگرچہ ’’تحریک‘‘اور ’’اسلامی تحریک‘‘ کے الفاظ عام طور پر ’’جماعت اسلامی‘‘ کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ جس کے بانی اور اولین قائد سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے‘ لیکن خرم مراد مرحوم اس اصطلاح کو وسیع‘ بنیادی اور ہمہ گیر معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کی اصطلاح تو نئی ہے‘ لیکن یہ اتنی ہی قدیم ہے‘ جتنا خود اسلام۔ حضرت ابراہیم ؑ اس کے پہلے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نمونہ ہیں۔ جہاد (اپنے بنیادی مفہوم میں) تحریک کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور اللہ کی رضا کا حصول اس کا ہدف اور جنت اس کی منزل اور انعام ہے۔ لیکن تنظیم یا جماعت کو مقصود قرار نہیں دے دینا چاہیے۔ منصوبہ بندی اگرچہ ناگزیر ہے‘ تاہم تنظیم ہلکی پھلکی ہو‘ وقت کی قدر کی جائے اور اجتہاد سے اغماض نہ کیا جائے۔ وہ موثر قیادت کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں‘ جس میں احساسِ ذمہ داری ہو‘ جواب دہی کا تصور راسخ ہو‘ اللہ کی تائید اور نصرت پر ایمان ہو اور خود اپنے آپ پر بھی بھروسا ہو‘ اہم اورغیر اہم باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہو اور ترجیحات کا درست تعین کر سکے۔ تربیت سے وابستہ قائدین اور کارکن‘ سبھی کی اوّلین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود اپنی تربیت کی طرف پہلے توجہ دیں ۔ مگر تربیت محض کسی    کتابِ ہدایت کو پڑھ کر نہیں حاصل ہوتی‘ یہ عملی زندگی میں کود پڑنے اور مسلسل جدوجہد ہی سے حاصل ہوتی ہے‘ اور اہم بات یہ ہے کہ درسِ تربیت‘ تربیتی پروگرام اور کارکنوں اور قائدین کی زندگیوں‘ نیز تحریک کے راستے اور سمت میں مطابقت ہونی چاہیے ۔اگر ان میں ہم آہنگی نہ ہو تو ساری تربیت غیرموثر ہوجائے گی۔ خوداحتسابی‘ رحمت و شفقت‘ دعوت و اخوت‘ گہرے اور موثر رابطے‘ تحریک اور دعوت کو پھیلانے اور اُسے مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لیکن کوئی بھی اسلامی تحریک‘ افراد کے انفرادی تزکیۂ نفس کے بغیر موثر نہیں ہوسکتی۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ تزکیے کا مرکز ’’قلب‘‘ہے۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر کامیابی اور نجات کا وعدہ فرمایا ہے‘ وہ اعمال سے پہلے ’’قلب‘‘ ہے۔ ’’قلب ِ سلیم‘‘ لیے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے ہی پر مدارِ نجات ہے‘ اور اس کے لیے صفت ’’احسان‘‘ (جس نے مسلمانوں کے سوادِاعظم میں ’’تصوف‘‘ کی صورت اختیار کرلی) ناگزیر ہے۔ اللہ کی بندگی اس طرح کیجیے‘ گویا آپ اُسے دیکھ رہے ہیں‘ورنہ کم از کم یہ تو ضرور ہو‘ گویا اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔

نصف کے قریب کتاب ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے طریقوں‘ ذکر‘نماز‘ تلاوت‘ تعلق باللہ‘ شکر‘استغفار‘ دُعا اور آخرت کے یقینی اجر پر بھروسے اور ایمان اور ان کے تقاضوں پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے یہی وہ اہم چیز ہے‘ جس سے بہت سی اسلامی تحریکیں اور جماعتیں نابلد ہوتی جا رہی ہیں۔ خرم مرحوم کو اس بات کا احساس تھا ‘ اس لیے انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں‘ تقریروں اور تحریروں میں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا‘ اور ان کی یہ (اب تک کی) آخری کتاب ان کی اس کوشش کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔

منشورات نے اس کتاب کو بھی اپنی روایتی نفاست اور خوب صورتی کے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


Quranic Topics ] قرآنی موضوعات[ ‘ محمد شریف بقا۔ علم و عرفان پبلشرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے یا ۱۰ پونڈ یا ۵ ڈالر۔

قرآنی موضوعات کو انگریزی زبان میں انگریزی حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے‘ مثلاً حرف A کے سلسلے میں جتنی آیاتِ قرآنی موجود ہیںان کو فاضل مولف نے مع انگریزی ترجمہ بڑی کاوش سے یکجا کر دیا ہے۔ انگریزی ترجمے کے ساتھ متعلقہ آیت کا مکمل متن (مع سورہ اور آیت کا حوالہ) بھی دیا گیا ہے۔ ایک کمی محسوس ہوتی ہے: یہ نہیں بتایا گیا کہ  انگریزی ترجمے کا ماخذ کیا ہے؟

میں اسے قرآن کا اعجاز سمجھتا ہوں کہ انگریزی حرف A سے پہلا لفظ (Ablution)‘ یعنی وضو بنتا ہے جو اسلامی طہارت اور پاکیزگی کا نقطۂ آغاز ہے اورجس کے بغیر اولین عبادت نماز ادا نہیں ہوسکتی۔

قرآنی موضوعات میں اتنی وسعت‘ ہمہ گیری اور جامعیت ہے کہ وہ خدا‘ انسان‘ حیات و کائنات اور حیات بعدالممات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ انسان کی پیدایش سے لے کر سفرِآخرت تک اعلیٰ اقدارِ حیات کے لیے زندگی کو امن و آشتی کے ساتھ بسر کرنے کے تمام معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تمدنی اوراخلاقی احکام موجود ہیں جن سے انحراف خود ہماری فطرت اور قوانینِ قدرت سے کھلی بغاوت ہے اور جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم و جبر‘     خوں ریزی اور فساد برپا ہوتا ہے۔ جس دردناک ابتلا اور عذاب سے موجودہ صدی گزر رہی ہے‘ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان نے قرآن کے اس مکمل اور آخری پیغام کو فراموش کر دیا ہے جو ذات ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیش رو برگزیدہ پیغمبرتسلسل کے ساتھ اپنی اپنی قوموں کے لیے لے کر آئے تھے۔ اب یہ انسانیت کی اپنی بقا کے لیے ضرور ہوگیاہے کہ اس گلوبل پیغام کو جو تمام انسانوں کے لیے نسل‘ رنگ‘ زبان‘ قومیت اور جغرافیائی حدود سے بلند ہوکر وحدت آدمیت کے لیے پکار رہا ہے‘ عام کیا جائے۔ قرآنی موضوعات اسی سلسلے کی ایک مربوط کڑی ہے۔ انگریزی میں ایسی تالیف کی اس لیے ضرورت تھی کہ اب یہ دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بن گئی ہے۔ ایک پڑھے لکھے عام آدمی اور ریسرچ کرنے والے طالب علم کے لیے اس کتاب میں وہ قرآنی موضوع بآسانی مل جائے گا جس کی اسے کسی بھی مسئلہ حیات میں    راہ نمائی کے لیے ضرورت ہو جس کو پڑھنا‘ سمجھنا اور سمجھانا بھی بذاتِ خود ایک عبادت ہے۔

فاضل مولف ماہر اقبالیات اور معروف اسکالر ہیں۔ وہ لندن میں اسلامی تعلیمات کی روشنی سے جاہلیت ِجدید کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ خدا انھیں اپنے اس مشن میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین (محمد اسماعیل قریشی)


ماہنامہ تعمیرافکار‘ کراچی۔ اشاعت خاص: بیادپروفیسر سید محمد سلیمؒ۔زیراہتمام: پروفیسر سید محمد سلیم اکیڈمی‘ کراچی۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ شمارہ ایک ایسی ہستی کے تذکرے پر مشتمل ہے جس کی پوری زندگی تعلیم و تعلم میں گزری۔ آغازِ حیات میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوئے اور دمِ آخر جماعت اسلامی کے اجتماع عام (قرطبہ‘۲۰۰۰ئ) میں گزرا۔ تحریکی زعما کے حالات کے بارے میں زیرنظر جیسے مجموعوں کی اچھی روایت قائم ہو رہی ہے۔ ماضی کی بلند قامت شخصیات کے ایسے تذکرے موجود نہیں‘مثلاً: تاج الملوک‘ مولانا عبدالعزیزؒ (مولانا خلیل حامدیؒ کے بارے میں اب اعلان آیا ہے)۔

پروفیسر سید محمدسلیمؒ نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کا عرصہ تنظیم اساتذہ کے ادارہ  تعلیمی تحقیق سے وابستہ رہ کر گزارا اور اسلامی نظام تعلیم کے نظری و عملی پہلوئوں پر بیش قیمت تالیفات پیش کیں۔ مگر ان کا اصل میدان تاریخ تھا۔ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ بہت زیادہ پڑھنے والے تھے۔

یہ فرض تو تنظیم اساتذہ کا تھا کہ ان کی حیات و خدمات پر ایک اشاعت خاص مرتب کرتی لیکن یہ سعادت سید سلیم مرحوم کے نواسے عزیزالرحمن (مدیر) اور ان کے ایک دیرینہ رفیق ملک نواز اعوان(مدیراعلیٰ) کے حصے میں آئی‘ جنھوںنے اس طرح کے کام میں درپیش مسائل و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ قابلِ قدر مجموعہ مرتب کیا ہے۔ اس میں مرحوم کے متعلق بہت کچھ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کی حیات و شخصیت‘ زندگی کے مختلف پہلو (خاندان‘ سوانح‘ بطور مورخ‘ بطور شاعر‘بطور معلم‘ بطور ماہر تعلیم وغیرہ)‘ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا ذکر‘ اعزہ‘ احباب اور شاگردوں کے تاثرات‘ ان کے لیے منظوم خراج تحسین‘ ان کے نام خطوطِ مشاہیر (سید مودودی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ مسعود عالم ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ غلام رسول مہر‘ عبداللہ چغتائی‘ مختارالدین احمد وغیرہ) اور ان کے خطوط بنام مشاہیر وغیرہ۔ ان کی شخصیت کیسی پُرکشش اور علمی اعتبار سے کیسی بلندپایہ تھی کہ ان کے رفقا اور شاگردوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ میاں طفیل محمد‘حکیم سید محموداحمد برکاتی‘ نعیم صدیقی اور پروفیسر خورشیداحمد ایسے اصحاب نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مرتبین مبارک باد کے مستحق ہیں۔

سچ یہ ہے کہ اتنی ہمہ پہلو تحریروں کے باوجود سید سلیم کی شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکا ہے۔ غالباًاسی لیے اکیڈمی نے مزید خاص اشاعتوں کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔(مسلم سجاد)


بیدار دل لوگ‘ شاہ محی الحق فاروقی۔ ناشر: اکادمی بازیافت‘ اُردو سنٹر‘کمرہ نمبر۴‘ پہلی منزل‘اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اکیسویں صدی نے آغاز ہی میں‘ بہت سے ناخوش گوار واقعات کے ذریعے‘ بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو حزن و یاس کے تحفے دیے ہیں۔ ایسے میں شاہ محی الحق فاروقی کی یہ تالیف‘ لطافت و انبساط کا ایک گل دستہ نورستہ بن کر سامنے آئی ہے کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ ملول انسانوں کی روح کے لیے اُمید اور آس اور بھلائی کی ایک کرن بن کر سامنے آتا ہے۔

چند شخصیات پر زیرنظر مضامین یا خاکے تاثر کے اعتبار سے بھرپور ہیں۔ مصنف نے جن افراد کو اپنا موضوع بنایا ہے‘ وہ ان کے بنیادی مزاج‘ افتادِ طبع‘ انداز فکروعمل اور طور واطوار کی بوقلمونی کو بڑی سادگی لیکن پرکاری سے زینت ِ قرطاس بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کراچی میں تو پرنسپل بشیراحمد صدیقی مرحوم کو جاننے والے کتنے ہی لوگ ہوں گے مگر مجھے اس مطالعے سے وہ اپنے ساتھ ٹہلتے‘ چائے پیتے اور دفتری ذمہ داریاں نبھاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ‘ معاملاتِ زیست میںکافی حد تک احساس یگانگت بھی ہے۔ مصنف نے خوردبین سے عیوب کی تلاش سے گریز کیا ہے۔ پروفیسر مشیرالحق شہید کی زندگی پر مشتمل خاکہ دیانت تحریر اور اصابت ِ فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اندازِ تحریر بے تکلفانہ ہے۔ شاہ محی الحق کی بے ساختگی‘ ندرتِ خیال‘ بیان کی شگفتگی اور کہیں کہیں گدگدی کرنے کی جسارت ان کے اسلوب کو نہایت دل چسپ بنا دیتی ہے۔

مصنف‘ ماہرالقادری (یادِرفتگاں) سے متاثر معلوم ہوتے ہیں مگر ماہرصاحب کے ہاں اختصار ہے اورفاروقی نہایت (کہیں غیرمتعلق اور غیرضروری) طوالت سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ ۴۰‘ ۵۰ صفحات کا مضمون پڑھتے ہوئے‘ لگتا ہے فاروقی صاحب نے پوری سوانح عمری  لکھ ڈالی ہے۔ ہر مضمون کی تمہید بہت طولانی ہے۔ بایں ہمہ مصنف نے واقعات کے چمن کو  حسنِ ترتیب‘ مہارتِ فن اور سلیقہ شعاری سے اہل فکرونظرکی ضیافت کے لیے پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے انسانوں کو دیوتا بنایا ہے‘ نہ ہیرو‘ بس روز مرہ زندگی میں حالات کی افت و خیزمیں مصروف تگ و تاز دیکھ کر ان کی شرافت و سعادت سے متاثر ہوئے اور مادہ پرستی کی ظلمت آسا فضا میں ان کو مانند جگنو نور افشاں پایا ہے۔ پروفیسر سید محمد جعفر‘ مولانا ابوالجلال ندوی‘ مولانا ابوالقاسم‘ قمراحمد‘اکبر علی وغیرہ ہر شخص کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔

جن پر خاکے لکھے گئے‘ ان میں سے متعدد افراد مصنف کے اعزہ ہیں۔ اس لیے مصنف کے اپنے بہت کچھ حالات بھی ان مضامین میں آگئے ہیں چنانچہ کتاب میں مصنف کی آپ بیتی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ مؤلف نے بتایا کہ وہ اپنی خود نوشت بھی لکھنا چاہتے ہیں‘ تاثر ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس کا ٹریلر ہے۔ (دانش یار)


جوہری توانائی ‘ ایم ایچ مسعود بٹ ۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۵۔ قیمت: ۱۲۵روپے۔

سائنسی موضوعات پر عام فہم لٹریچر کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صاحب ِ قلم حضرات بالعموم سائنس داں نہیں ہوتے اور سائنس دانوں کو عموماً لکھنے لکھانے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ دوسرا سبب سائنس سے ہماری اپنی عدم دل چسپی ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ کے لیے آج تمام اسلامی دنیا میں جدوجہد جاری ہے مگر اس سلسلے میں کوئی تبدیلی اس وقت تک رونما نہیں ہوسکتی جب تک مسلمان‘ دنیاوی علوم پر دسترس حاصل کر کے‘ ان میں اپنی فوقیت ثابت نہیں کردیتے۔ ان میں سائنس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ سائنسی علوم میں دسترس اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا انھی لوگوں کا کام ہے جو سائنس دان کہلاتے ہیں لیکن کسی قوم میں بھی اعلیٰ درجے کے سائنس دان اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے جب تک اس قوم میں عمومی طور پر سائنس سے دل چسپی اور سائنسی معلومات کا شوق پیدا نہ ہو جائے۔

زیرنظر کتاب کے فاضل مصنف الیکٹریکل انجینیرہیں اور عرصۂ دراز سے عام لوگوں کے لیے سائنسی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں کو  اظہار خیال کا ذریعہ اُردوزبان ہی کو بنانا چاہیے کیوں کہ وہ تہذیب گونگی ہے جو اپنی زبان کے بجاے کسی اجنبی زبان کو ذریعۂ اظہار بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر سائنسی شعور کو اجاگر کرنے کا بیڑا سائنس دانوں ہی کو اٹھانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے سائنس کو نہ صرف سلیس اور عام فہم زبان میں پیش کرنا ہوگا‘ بلکہ ایسا دل چسپ انداز اختیار کرنا ہوگا کہ قاری سائنس کو ایک اجنبی اور مشکل چیز سمجھنے کے بجاے اس کے مطالعے میں محوہوجائے اور اس کے اندر مزید سائنسی مواد کو پڑھنے کی طلب اور لگن پیدا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں پاپولر سائنس کے نام سے اس شعبے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکہ میں آئزک ایزیموف اور کارل ساگان نے اس باب میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔

جوہری توانائی کا پہلا ایڈیشن ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا تھا اور اس میں ایٹم اور ایٹمی توانائی کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں۔ ان میں ایٹم کے متعلق قدیم و جدید نظریات‘ ایٹم کی ساخت اور جسامت کے متعلق جدید معلومات‘ جوہرشکنی‘ جوہرِانشقاق‘ زنجیری تعامل‘ جوہری تابکاری اور جوہری توانائی کا پُرامن استعمال شامل ہیں۔ موجودہ ایڈیشن کے آخر میں ’’پاکستان ایٹمی طاقت کیسے بنا‘‘کے عنوان سے ایک طویل باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ایٹمی طاقت بننے کے بھارتی عزائم اور تیاریوں کا ۱۹۶۰ء سے اب تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۹۸ء کے بھارتی ایٹمی دھماکوں اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے متعلق تفصیلی معلومات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام کسی قدر اہم‘ بروقت اور ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھارت پر کیسی سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔ اس باب میں بھارت کی مختلف قسم کی ایٹمی تنصیبات اور تحقیقی مراکز وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔

ایٹم بم اور ایٹمی توانائی میں دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس کتاب میں وسیع معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ (فیضان اللّٰہ خان)


جنات اور جادو کے سربستہ راز‘ عبیداللہ ڈار۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

جنات اور جادو دو ایسے موضوعات ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے میں اور کسی نہ کسی حوالے سے گھر گھر موضوع سخن بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے جہالت اور توہم پرستی کے سبب کئی گھرانے جعلی عاملوں اور نام نہاد پیروں کے ہاتھوں مدتوں استحصال کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے مصائب کے تدارک کے لیے عبیداللہ ڈار نے زیرنظرکتاب پیش کی ہے۔

عرصہ ہوا‘ مصنف نے عملیات کے موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھیں بے شمار خواتین و حضرات نے دردناک اور رقت انگیزخطوط لکھے جن میں اپنے مصائب کا ذکر تھا۔ یہی خطوط اس کتاب کا محرک بنے۔ کتاب بنیادی طور پر بعض روحانی عاملین کے مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہے۔ انھوں نے جنات‘ کالے علوم‘ روحانی عملیات‘ جعلی عاملین‘ خواتین کے توہمات جیسے موضوعات کے بہت سے پہلوئوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور نہایت خوب صورت پیراے میں قارئین کی راہ نمائی بھی کی ہے۔

کتاب میں عمومی دل چسپی کے کئی پہلوئوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ جنات کو قابو میں لانا‘ جنات اور عامل کے رابطے کے طریقے‘ جادوئی علوم کی حقیقت‘ کاروبار پر جادو کے اثرات‘ آگ باندھنا‘ جنات کہاں رہتے ہیں؟ کیا کھاتے ہیں اور ان کا حلیہ کیا ہوتا ہے؟ تعویزات کے اثرات کیوں کر زائل کیے جاسکتے ہیں؟ دعائوں کی قبولیت کیسے ممکن ہے؟ وغیرہ--- کتاب میں ایسی دعائوں اور قرآنی آیات کے وظائف بھی بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ‘مصنف کا خیال ہے کہ‘ خواتین و حضرات اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب شکوک و شبہات اور توہم پرستی کے زہرکا تریاق بھی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)

جمشید نواز ‘ دوحہ‘ قطر

’’خارجہ پالیسی کی حالیہ ناکامیاں اور قلابازیاں‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) عوام و ارکانِ حکومت کے لیے چشم کشا ہیں۔ مشرف صاحب کی قیادت میں پالیسیوں میں یوٹرن اور میڈیا کے زور سے عوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کرنا‘ اسلام سے بے وفائی‘ جمہوری اقدار کی پامالی اور قومی اور بین الاقوامی تناظر میں اُمت مسلمہ کے مفادات سے بے بہرہ ہونے کی علامت ہے۔ ترجمان القرآن کا ان حقائق سے آگاہ کرنا ’’امامِ برحق‘‘ ہونے کی علامت ہے۔


چودھری محمد جمیل ‘ لاہور

’’خارجہ پالیسی کا جائزہ ‘‘(اگست ۲۰۰۳ئ) تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ۹ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے پاکستان ہر طرح کی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اب آہستہ آہستہ یہ پابندیاں ختم ہو رہی ہیں۔ اسلحے کے فالتو پرزہ جات جن کی پاکستان کو اشد ضرورت تھی‘ اب ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ کیا یورپی یونین نے ٹیکسٹائل کوٹہ نہیں بڑھایا؟ امریکہ نے بھی برآمدات کے سلسلے میں رعائتیں دی ہیں۔ کیایہ خارجہ پالیسی کے نتیجے میں مراعات نہیں ہیں؟


صابر نظامی‘ الٰہ آباد ‘ قصور

’’اُردن کے انتخابات میں اسلامک فرنٹ کی کامیابی‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) بلاشبہہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قبل مراکش‘یمن‘ مصر‘ لبنان‘ بنگلہ دیش‘ کویت‘ انڈونیشیا‘ملائیشیا میںجزوی کامیابیاں حاصل ہوچکی ہیں۔ تحریکِ اسلامی ایران اور ترکی میں اپنی حکومتیں بنا چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں شریکِ اقتدار ہے۔ ملائیشیا کے دو صوبوں اور پاکستان کے دو صوبوں میں ان کی حکومتیں ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ تحریکِ اسلامی جمہوری راستے سے اقتدار میں نہیں آسکتی۔ اب یہ طعنہ کھوکھلا اور بودا ہو چکا ہے۔ اگر تحریکِ اسلامی اسی طرح جمہوری راستے پر کام کرتی رہی تو ایک دن آئے گا کہ عالمی اسلامی انقلاب کی منزل بھی سر ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ!


ڈاکٹر شہزاد اکبر ‘ چیچہ وطنی

’’نسوانیت زدہ مغرب‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) نظر سے گزرا۔ مغرب کے معاشرتی انحطاط اور    فکری انتشار کا بہت عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ گھرکی گواہی ہے۔ مغرب کا بے خدا معاشرہ توازن سے محروم ہے۔ عورت کے بارے میں نقطۂ نظر کبھی ایک انتہا پر ہے اور کبھی دوسری انتہا پر۔ اسلام کی معتدل فکر اور اسلام میں عورت کا جو مقام ہے‘ غالباً مغرب اس سے تعصب برت رہا ہے یا پھر اس پر غور ہی نہیں کیا گیا۔مغرب کے  دل دادہ لوگوں کے لیے یہ تحریر آئینہ ہے۔


ڈاکٹر خرم رفیق ‘ چونیاں

’’قازقستان کی صورت حال‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) میں ظالم حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی اور مسلمانوں پر روا رکھا جانے والا ظلم و جبر رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ مسلم ہونے اور اسلام قبول کرنے کی اس قدر سزا کہ گردن زدنی کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ یہ حال صرف قازق حکمرانوں کا ہی نہیں‘ اس میں غیرمسلم حکمران اورمسلمان بادشاہ اور برسرِاقتدار طبقہ‘ سب یکساں ہیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔اس سے قبل بھی ہر رسول اور نبی اور ان پر ایمان لانے والوں کے ساتھ ایسا بلکہ اس سے بڑھ کر بُرا سلوک کیا گیا ہے۔ مگر یہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں اور حکمرانوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ حق کی قوتوں کو ختم کر دیں گے۔ ظلم سے کبھی بھی حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ ظلم کی نائو ڈوب کر رہتی ہے۔ ظالم حکمرانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کہیں وہ خود ہی مقامِ عبرت نہ بن جائیں!


محمد آصف اسماعیل ‘ دوحہ‘ قطر

’’زکوٰۃ کا نفاذ: چند قابل غور پہلو‘‘ (اگست ۲۰۰۳ئ) میں مشینوں‘ آلات اور اس طرح کی دوسری اشیا پر زکوٰۃ کے حوالے سے نقطۂ نظر قابلِ توجہ ہے۔ پاکستان میںعام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان اشیا پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے‘ اس لیے اگر کسی اہل علم کے اس رائے کے حق میں دلائل ترجمان میں شائع ہوں توشاید قارئین کے لیے مفید ہو۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اہم موضوع ہے۔


راشد الیاس مہر ‘ لاہور

دل چاہتا ہے کہ ترجمان القرآن میں پروف کی ایک بھی غلطی نہ ہو۔ اس ماہ (اگست ۲۰۳ئ)    دو تین نظر آئیں‘ مثلاً: ’نورخدا ‘کے بجاے، ’نورحق‘ (ص ۱۷)۔ شعر کی غلطی خصوصی تکلیف دیتی ہے۔

اسلام سے محبت

آج جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری نمازیں اور دعائیں‘ ہمارے اوراد و وظائف‘ اور ہماری پرستشیں اور ریاضتیں‘ اخروی نجات و فلاح کے لیے کافی ہیں‘ انھیں غور کرنا چاہیے کہ جب صحابہ کرامؓ کو ان کی نمازوں اور عبادتوں اور اعمال صالحہ کے باوجود انجام سے اس لیے ڈرایا جا رہا ہے کہ مبادا اسلام کی سربلندی اوردین حق کے غلبے کی کوشش میں ان کے قدم سُست پڑجائیں‘ تو ہم لوگوں کی عبادتیں کس شمار و قطار میں ہیں‘ جب کہ ہم خدا کے دین کو سربلند کرنے اور اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لیے ادنیٰ ترین قربانی دینے پر بھی تیار نہیں ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے قلوب بھی اب اس آرزو اور تمنا سے خالی ہوچکے ہیں کہ خدائی زمین پر اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے عطا کیے ہوئے قانونِ سعادت اور ضابطہ ء حیات کابول بالا ہو۔ کیا آج اسلامی نظام عملاً اسی طرح کفر کے غلبے سے گھرا ہوا نہیں ہے جس طرح وہ مدنی زندگی میں کفر کی طاقتوں سے محصور تھا؟ اور کیا آج دین حق کے قیام اور اسلامی طرزِ زندگی کو ایک عملی حقیقت بنانے میں جاںفروشی اور ایثار و قربانی کی کچھ کم ضرورت ہے؟

…… نماز‘ روزہ اور عبادات اور اعمال صالحہ‘ سب درحقیقت اس لیے ہیں کہ کائنات عالم میں صرف خداے واحد کی بندگی ہو‘اسی کا قانون بالاتر ہو اور اسی کی مرضی حکمران ہو۔ اگر دنیا معبودانِ باطل کی بندگی میں لگی ہو‘غیرالٰہی نظامات غالب ہوں اور اسلامی اقدار آپ کی آنکھوں کے سامنے مٹ رہی ہوں‘ لیکن آپ مسجدوں میں نمازیں پڑھتے رہیں یا لمبی لمبی تسبیحیں لے کر شب بیداری اور تہجدگزاری کرتے رہیں تو حقیقتاً آپ کو نہ اسلام سے محبت ہے اور نہ کفر سے نفرت۔ اس لیے کلام مجید نے صاف کہہ دیا ہے کہ بڑی سے بڑی نیکی ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے۔ (’’مذہب کا انقلابی تصور‘‘، محمد مظہرالدین صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۳‘ عدد ۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۲ھ‘ ستمبر-اکتوبر ۱۹۴۳ئ‘ ص ۵۱-۵۲)