مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۱۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

زرداری حکومت نے امریکی اور ناٹو افواج کے لیے افغانستان میں اپنی جارحانہ جنگی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے سپلائی لائن بحال کردی ہے۔ یہ ایک نہایت عاقبت نااندیشانہ، بزدلانہ اور محکومی پر مبنی فیصلہ تھا جس کے نتائج اور تباہ کن اثرات رُونما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈرون حملے حسب سابق جاری ہیں اور اب مشترک فوجی آپریشن اور شمالی وزیرستان میں زمینی اور فضائی حملوں کی منصوبہ بندی آخری مراحل میں ہے۔

واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے خاموشی سے نیا جنگی منصوبہ تیار کرلیا ہے اور کور کمانڈروں کے اجلاس نے بھی اخباری اطلاعات کے مطابق، امریکی مطالبات پر کچھ پاکستانی شکرچڑھا کر ایک بظاہر تدریجی عمل کے ذریعے فوجی اقدامات کا نقشہ بنا لیا ہے۔ ایک طرف حکومت کے طے شدہ منصوبے کے مطابق قوم کی توجہ کو پارلیمنٹ اور عدالت میں محاذ آرائی کی دھند (smoke-screen) میں اُلجھا دیا ہے تو دوسری طرف الزام تراشیوں کی  گرم گفتاری توجہ کا دوسرا مرکز بنی ہوئی ہے، نیز توانائی کا بحران اور معاشی مصائب قوم کی کمر توڑ رہے ہیں اور اسے فکرِمعاش کی دلدل سے نکلنے کی مہلت نہیں دے رہے۔ مبادلہ خارجہ کے بیرونی ذخائر کی کمی اور حکومت کی فوری مالیاتی سیّال اثاثے (liquidity )حاصل کرنے کی ضرورت اور امریکا سے اپنی ہی جیب سے خرچ کیے ہوئے ۳؍ارب ڈالروں میں سے ۱ئ۱؍ارب روپے کی وصولی کا ڈراما بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سیاسی اور معاشی دُھندکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، پارلیمنٹ کے واضح فیصلوں اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کے فوجی اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جس تباہی اور بربادی سے ملک کو بچانے کے لیے سیاسی اور دینی قوتیں احتجاج کر رہی تھیں اور جس کے لیے پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپنے طور پر ایک بظاہر متفقہ لائحہ عمل دیا تھا ،اسے دربا بُرد کر کے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ایک نئی جنگ اور تصادم کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔

امریکا نے ۴جولائی ۲۰۱۲ء کو اپنی آزادی کے دن پاکستان کے نامۂ شکست پر جشن فتح منانے کے لیے ۲۴گھنٹے کے اندر اندر پاکستانی سرزمین پر تین ڈرون حملے کر کے نومبر ۲۰۱۱ء میں شہید ہونے والے ۲۴جوانوں کی فہرست میں ۳۴ نئے شہیدوں کا اضافہ کردیا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت ڈرون حملوں کو تو کیا رکواتی، وہ خود اس جنگ کے سب سے خطرناک مرحلے میں امریکا کی شریکِ کار بننے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس طرح جو اصل امریکی مطالبہ تھا، یعنی پاکستانی فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن، اس کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آرہا ہے اور امریکا کا  جنگی جنون آخری فیصلہ کن دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس کی پوری ذمہ داری امریکا کی قیادت اور اس کی سامراجی سیاست کے ساتھ خود پاکستان کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت پر آتی ہے۔ قوم کو جان لینا چاہیے کہ اگرماضی میں کچھ پردہ تھا بھی تو وہ اب اُٹھ گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو جوہری تبدیلی اب سر پر منڈلا رہی ہے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور قوم کو اس سے پوری طرح باخبر کیا جائے تاکہ اسے احساس ہوسکے کہ اس کی آزادی، عزت و وقار، قومی مفادات اور علاقے میں امن و آشتی کی خواہش، سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم اس خطرناک کھیل کو سمجھے اور اس کے اہم کرداروں کو پہچان لے ، اور اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی بنائے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر جدوجہد کا نقشہ بنا کر ضروری اقدام کرے۔ اس کام کو سلیقے اور حقیقت پسندی سے انجام دینے کے لیے ضروی ہے کہ اس سلسلے کے بنیادی حقائق کو ذہن میں ایک بار پھر تازہ کرلیا جائے تاکہ ان زمینی حقائق کی روشنی میں نیا نقشۂ کار تیار کیا جاسکے۔

پاکستانی عوام امریکا کی اس جنگ کو پاکستان، افغانستان اور پورے علاقے کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی حکومت اور اس کی افواج کی شرکت کو ایک قومی جرم    تصور کرتے ہیں۔ راے عامہ کے تمام سروے اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت اس جنگ کو ننگی جارحیت سمجھتی ہے، اور خصوصیت سے ڈرون حملوں کو جو اَب امریکی جارحیت کی مضبوط ترین علامت ہیں، ملک کی آزادی، سالمیت اور حاکمیت پر بلاواسطہ حملہ قرار دیتی ہے۔ انگلستان کے ہفت روزہ نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ:

ایک حالیہ پیو (Pew) جائزے سے معلوم ہوا کہ ۹۷ فی صد لوگ ان حملوں کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ طے ہے کہ یہ انتخابات میں ایک کلیدی مسئلہ ہوگا۔ پاکستان کی خودمختاری پر ایک اور حملہ سمجھتے ہوئے اس نے ملک میں امریکا دشمن شدید جذبات کو مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔(http://www. newstatesmen.com )

بات صرف پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے اس دوٹوک اعلان تک محدود نہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے ہوں، یا امریکی افواج یا نیم فوجی عناصر کی ہماری سرزمین پر موجودگی اور خفیہ کارروائیاں، انھیں ختم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ان کی حقیقی نوعیت دراصل یہ ہے:

ا : یہ پاکستان (یا جس ملک میں بھی یہ کارروائیاں ہوں، اس ملک) کی حاکمیت اور آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ب: انھیں عملاً اس ملک اور قوم کے خلاف ’اقدامِ جنگ‘ شمار کیا جائے گا جو عالمی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی تعلقات کی روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ج: ان کے نتیجے میں غیرمتحارب عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوتی ہیں جو  نشانہ لے کر قتل کرنے (targettted assasination) کی تعریف میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ نیز عام انسانوں کی بڑی تعداد زخمی اور بے گھر ہوتی ہے جو خود عالمی قانون اور روایات کی رُو سے جرم ہے اور اس کی قرارواقعی تلافی (compensation) کو قانون کا کم سے کم تقاضا شمار کیا جاتا ہے۔

د: تمام شواہد گواہ ہیں کہ یہ پالیسی اپنے اعلان کردہ مقصد، یعنی دہشت گردی کو ختم کرنے اور خون خرابے کو قابو کرنے یا کم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام نقصانات کے ساتھ خود دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور متعلقہ اقوام اور ممالک کے خلاف نفرت اور شدید ردعمل کے جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

’دھشت گردی‘ کی جنگ کے خلاف عالمی ردعمل

یہ وہ حقائق ہیں جن کو اب عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جا رہا ہے جس کے صرف چند شواہد ہم پیش کرتے ہیں: (بلامبالغہ گذشتہ چند برسوں میں میرے علم میں ایک درجن سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مضامین آئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس ردعمل کا اعتراف کیا جارہاہے)۔

لندن کے اخبار دی گارڈین میں سیماس ملر اپنے مضمون America's Murderous Drone Campaign is Fuelling Terror (امریکا کی قاتلانہ ڈرون مہم دہشت گردی کو ایندھن فراہم کر رہی ہے) کے عنوان کے تحت رقم طراز ہے:

جارج بش کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو شروع کرنے کے ۱۰سال بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ کم ہورہی ہے۔ امریکا کا عراق پر فوجی قبضہ ختم ہوچکا ہے اور ناٹو افغانستان سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھ رہی ہے، گو کہ قتل و غارت جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب غیرعلانیہ ڈرون جنگ، جو ہزاروں انسانوں کو ہلاک کرچکی ہے، اب نہایت تیزی سے بغیر کسی روک کے بڑھائی جارہی ہے۔ پاکستان سے صومالیہ تک سی آئی اے کے بغیر پائلٹ کے جہاز مشتبہ دہشت گردوں کی ہمیشہ بڑھتی رہنے والی ہٹ لسٹ پر ہیل فائر میزائلوں کی بارش برساد یتے ہیں۔ ابھی بھی وہ سیکڑوں شاید ہزاروں شہریوں کو اس عمل میں ہلاک کرچکے ہیں۔ اس ماہ یمن میں کم از کم ۱۵ ڈرون حملے ہوئے ہیں اور اتنے ہی گذشتہ پورے عشرے میں ہوئے ہیں اور درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کا ایک سلسلہ مفروضہ شدت پسند اہداف کو نشانہ بناکر شروع کیا گیا ہے۔ ۳۵؍افراد جل گئے اور ایک مسجد اور بیکری بھی زد میں آئی۔

درحقیقت یہ ہلاکتیں فوری قتل (summary executions) ہیں جنھیں عام طور پر بین الاقوامی قانون دان بشمول اقوام متحدہ کے ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اسپیشل رپورٹر فلپ آلسٹون، امکانی جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے ریٹائرڈ کونسل نے جو ڈرون حملے کی منظوری دیتے تھے خود اپنے بارے میں کہا کہ وہ قتل میںملوث رہے ہیں۔

تمام ناٹو ریاستوں میں افغانستان کی جنگ کی حمایت نچلی ترین سطح پر آچکی ہے۔ امریکا میں ڈرون جنگ مقبول ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لیے کہ اس سے امریکی افواج کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کوئی برابری کا مقابلہ تو ہے نہیں، جب کہ  دہشت گرد مارے جارہے ہیں۔لیکن یہ ہائی ٹیک موت کے دستے ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرر ہے ہیں جس سے امریکا کی سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ایک عشرہ پہلے ناقدوں نے متنبہ کیاتھا کہ یہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجاے اس میں اضافہ کرے گی۔ بالکل یہی ہوا۔ اوباما نے ان مہموں کا نام بیرون ملک حسب ضرورت آپریشن رکھ دیا ہے، اور اب اس کا زور زمین پر بوٹوں کے بجاے روبوٹس پر ہے۔

 لیکن جیساکہ پاکستان کے غیرمستحکم ہونے اور یمن میں القاعدہ کی طاقت میں اضافہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اثر ایک جیسا ہی ہے۔ ڈرون جنگ مسلم دنیا پر مسلط ایک سفاک جنگ ہے جس سے امریکاسے نفرت کو غذا مل رہی ہے اور دہشت گردی کو ایندھن فراہم ہو رہا ہے، اس سے لڑا نہیں جا رہا۔(دی گارڈین، ۲۹مئی ۲۰۱۲ئ)

بین الاقوامی قانون کا ماہر اور برطانیہ کا چوٹی کا قانون دان اور کئی کتابوں کا مصنف  کوئیس کونسل جیفرے رابرٹسن نیو اسٹیٹس مین میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے:

ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ۵۱ کا صرف اُن حملوں پر اطلاق ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کریں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی ابھی تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گرد اور قانون نافذ کرنے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور حماس کے کمانڈروں کو ہلاک کرنا قانوناً جائز ہے، تو ان کے لیے بارک اوباما، بن یامین نیتن یاہو، ان کے جرنیلوں اور حلیفوں کو قتل کرنا بھی جائزہے، حتیٰ کہ ملکہ بھی سربراہِ ریاست ہونے کے ناتے اس فہرست میں آسکتی ہے۔

جو لوگ دہشت گردی پھیلانے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک ملزموں کا برتائو کیا جانا چاہیے اور جب ضرورت ہو، انھیں قتل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کو وہ مقام دیا جائے جو ان جنگ جوئوں کا ہوتا ہے جو ریاستوں سے برسرِجنگ ہوں۔

انسانی حقوق کے قانون کے تحت کیا صورت حال ہوگی؟ اگر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو دوسروں کی حوصلہ شکنی کے لیے نشانہ بنایا جائے، جب کہ گرفتاری ممکن ہو، تو یہ انسان کے حقِ زندگی کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ جو دہشت گرد شہریوں کو مارنے کے مشن پر مامور ہوں یا ان سازشوں میں شریک ہوں جو انھیں مارنے کے لیے کی جائیں، انھیں ہلاک کرنا معقول بات ہوگی۔لیکن ڈرون حملوں کا ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ افراد کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی طرف سے کوئی واضح یا فوری خطرہ نہ ہو۔

یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں ان افراد کو ہدف بنایا گیا جو مسلح تھے یا سازشی اجتماعات میں تھے لیکن دوسروں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ کسی شادی یا جنازے میں شریک ہیں، یا کسی مسجد یا ہسپتال سے باہر آرہے تھے۔ پاکستان میں یہ واقعات بھی ہوئے کہ پاکستان کے حامی لیڈروں ، ان کے اہل و عیال، حتیٰ کہ فوجی جوانوں کو بھی غلطی سے قتل کیا گیا ہے۔ ان حملوں نے امریکا کے ایک ایسی قوم سے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو سیاسی طور پر دبائو کا شکار ہے، ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے اور اس کے ساتھ برسرِجنگ نہیں ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سی آئی اے کو اہداف کے انتخاب کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے اور اسے قانون کے پروفیسر Koh کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جو اَب ایک جلاد ہے۔ جو لوگ نیو ادا میں بیٹھ کر ہیل فائر کے بٹن دباتے ہیں، یہ سوچنے کے لیے لمحہ بھر نہیں رُکتے کہ ان کا ہدف واقعی برسرِجنگ ہے۔ فہرست میں شامل کرنے یا قتل کرنے کے معیارات کے بارے میں اندازہ لگانے کا کوئی مقصد نہیں، اس لیے کہ عدالت کے دائرۂ کار اور فریڈیم آف انفارمیشن ایکٹ کی دفعات سے ماورا یہ سی آئی اے کا خفیہ استحقاق ہے۔

ایک خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ یو این چارٹر، کنونشنز اور عدالتوں کی معمول کی کارروائیوں میں بے جوڑ لڑائیاں لڑنے کے لیے کوئی اطمینان بخش رہنمائی نہیں دی گئی ہے۔ اسی لیے ریاستوں کی خاموشی ہے اور حال ہی میں یو این کے ہیومن رائٹس کمشنر کی ایک درخواست سامنے آئی ہے کہ قانون کی فوری وضاحت کی جائے۔ آگے جانے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ قابلِ لحاظ فوج اور متناسب طاقت کے لیے پیچھے جانے کا راستہ ڈھونڈنا ہو۔ فی الحال بہت سی ڈرون ہلاکتوں کو فوری قتل کہا جاسکتا ہے۔ جیساکہ سرخ ملکہ کی سزا ظاہر کرتی ہے کہ فیصلہ پہلے، مقدمہ بعد میں، جو حقِ زندگی، معصوم فرض کرنے کے حق اور مقدمے کی منصفانہ سماعت کے حق سے انکار کرتا ہے۔ (’’ڈرون حملے کتاب میں درج انسانی حقوق کے ہراصول کے خلاف ہیں‘‘، جیفرے رابرٹسن، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)

ظلم یہ ہے کہ ان حملوں میں جو افراد بھی مارے جاتے ہیں، انھیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی میجر جنرل محمود غیور صاحب تک نے مارچ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۰ تک شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کی توجیہ کرتے ہوئے بلاکسی ثبوت کے یہ تک فرما دیا کہ a majority of those eliminated are terrorists, including foreign terrorist elements. (مارے جانے والوں کی اکثریت دہشت گرد ہوتی ہے اور ان میں غیرملکی دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں) حالانکہ تمام وہ ادارے جو کسی درجے میں بھی ان اُمور پر تحقیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں شہریوں کی اموات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے  بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے:

درست اعدادو شمار جمع کرنا مشکل ہے مگر مقامی افراد کہتے ہیں کہ وزیرستان میں ۳ہزار ہلاکتوں میں صرف ۱۸۵ القاعدہ کے نشان زد سرگرم افراد تھے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ ہرجنگ جُو کے ساتھ ۱۰ شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (نیو اسٹیٹس مین، ۱۳جون ۲۰۱۲ئ)

پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کے سلسلے میں تازہ ترین معلومات سٹیٹ آف پاکستان کی کمیٹی براے دفاع و دفاعی پیداوار کی جولائی ۲۰۱۲ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک چارٹ کی شکل میں دی گئی ہے جو گھر کی گواہی (شَھِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا)   کے مصداق ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں:عسکریت پسند :۶۴۶، عام شہری: ۱۵۷۶، خواتین و بچے: ۵۶۵ کُل: ۲۷۸۷۔

یہ اعدادو شمار ۲۰۱۲-۲۰۰۴ء تک کے ڈرون حملوں کے سلسلے میں دیے گئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈیفنس کمیٹی کے سامنے پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲ہزار ۷سو ۸۷ میں سے صرف ۶۴۶؍افراد پر عسکریت پسندی کا شبہہ تھا، باقی ۲ہزار ایک سو۴۱ عام شہری تھے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد ۵۶۵ تھی۔

خود امریکا کا ایک اور ادارے American Civil Liberties Union  اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں امریکی ڈرون حملوںکے نتیجے میں ۴ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی تھی۔

اس رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ پہلے افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور اب ہدف علاقوں اور اجتماعات کو بنایا جارہا ہے جن کے بارے میں محض فضائی نگرنی کی بنیاد پر میزائل داغ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح اجتماعی اموات واقع ہورہی ہیں۔ اس کے لیے امریکی سیکورٹی کے اداروں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے، یعنی "signature strikes" اور خود اوباما صاحب نے اس کی اجازت بلکہ ہدایت دی ہے۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ڈائرکٹر ایان سیڈرمن نے اس لاقانونیت کے بارے میں کہا ہے کہ: بین الاقوامی قانون کے ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا تھا۔ (Drone strikes threaten 50 years of International Law by Owen Bowcott، دی گارڈین، ۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)

محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور ڈاڑھی کے ’جرم‘ میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مرد یا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جاسکتا ہے جو ۱۵ سے ۶۰ سال کی عمر کا ہو اور ان علاقوں میں پایا جائے۔ دہشت گرد کی یہ وہ نئی تعریف ہے جو امریکا نے وضع کی ہے اور جس کے مطابق وہ اب پاکستانی فوج سے ،اقدام کرانے پر تُلا ہوا ہے۔

اس سے زیادہ ظلم اور انسانی جانوں کے ساتھ خطرناک اور خونیں کھیل کی کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے ایک پروفیسر اور ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کرسٹاف ہینز نے ان تمام اقدامات کو ’جنگی جرائم‘ (war crimes) قرار دیا۔ اس نے اس امر پر شدید اضطراب کا اظہار کیا کہ نہ صرف ایک خاص شخص یا جگہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ ان افراد اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں لوگ ہلاک ہونے والوں کی تجہیزو تکفین میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس سار خونیں کھیل پر اس نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ بھی کہا ہے کہ:

اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ۲۰۱۲ء میں ہونے والی کتنی ہلاکتوں کا جواز ۲۰۰۱ء میں ہونے والے واقعے کے ردعمل سے فراہم ہوتا ہے۔

اس میں یہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۱ء میں نیویارک میں ہونے والے واقعے کے بدلے میں پاکستان اور افغانستان میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جب کہ نیویارک میں مبینہ دہشت گردوں میں کسی کا بھی تعلق پاکستان یا افغانستان سے نہیں تھا۔

تقریباً تمام ہی سنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور خاص طور پر ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ان اسباب کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے جو دہشت گردی کو  جنم دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب رابرٹ پیپ اور جیمز فولڈمین کی ہے جو ۲۰۱۰ء  تک سے دہشت گردی کے تمام واقعات کے بے لاگ علمی جائزے پر مبنی ہے اور جس میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کی مکمل ناکامی کو علمی دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔(دیکھیے: Cutting the Fuse، عالمی خودکش دہشت گردی کا دھماکا اور کیسے اس کو روکا جائے، رابرٹ اے پیپ، جیمز کے فلڈمین، یونی ورسٹی آف شکاگو پریس، شکاگو ، ۲۰۱۰ئ)

خاص طور پر ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا اور جرمنی کے دو پروفیسروں کی تحقیق بھی اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے ہم بھی بہ چشم سر دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اگر کسی کو یہ نظر نہیں آتی  تو وہ امریکی اور پاکستانی قیادت ہے!

امریکی رسالہ فارن پالیسی کے مئی اور جون کے شمارے میں ان کی تحقیق کا ماحصل  خود ان دونوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی دہشت گردی پر ڈرون حملوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان کا بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مختصر وقت میں بڑھا دیتے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء سے ستمبر ۲۰۱۱ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو ہم نے پایا کہ القاعدہ اور طالبان کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں پر ڈرون حملے غیر مؤثر ہیں۔ دوسری طرف ڈرون حملوں کے بعد ہفتوں تک پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے حملوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے جب ڈرون حملے اپنے ٹارگٹ کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ بعض ڈرون حملے مختلف نوعیت کے مقاصد پورے کرتے ہیں لیکن ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کی افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان میں ایک مختصر مدت کے لیے دہشت گردی بڑھا دیتے ہیں۔ اگر اوباما کی حکمت عملی کے مقاصد میں ایک محفوظ پاکستان ہے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ ڈرون حملے اپنے مقاصد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ (فارن پالیسی، مئی جون ۲۰۱۲ئ، ص ۱۱۰)

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس حوالوں کی بھرمار ہے لیکن جگہ کی قلت کے باعث صرف ان چند حوالوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد توجہ کو اصل ایشوز پر مرکوز کرنا ہے۔

لبرل دانش وروں کی دیدہ دلیری

یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس میں امریکا کا کردار، وہ عالم گیر تباہی جو اس جنگ کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے اور پاکستان کی وہ درگت جو اس جنگ میں امریکا کے آلۂ کار بننے کی وجہ سے ہمارا مقدر بن گئی ہے(اس سلسلے میں ترجمان کے جولائی اور اگست ۲۰۱۲ء کے شماروں میں شائع ہونے والے ’اشارات ‘ کو ذہن میں تازہ کرنا مفید ہوگا)،لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ اور بھی ہولناک، شرم ناک اور خون کھولا دینے والا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر بھی کھل کر بات ہو اور قوم کو تمام حقائق سے بے کم و کاست روشناس کرایا جائے۔ ہماری تاریخ میں جو کردار عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن سبا سے لے کر میرجعفر اور میرصادق تک انجام دیتے رہے ہیں، آج بھی ایسے ہی کرداروں سے ہمارا سابقہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ آج انھیں دانش وروں، صحافیوں اور میڈیا کے گوئبلز ٭کی اعانت بھی حاصل ہوگئی ہے۔یہ کردار امریکا سے پاکستان تک ان اداکاروں کی ایک فوج ظفرموج کا ہے جو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ ضمناً لبرل لابی کے ایک اہم اخبار ایکسپریس ٹربیون ( ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں لبرل صحافیوں کے سرخیل خالد احمد کے ایک تازہ ترین مضمون میں ایک اعتراف سے ناظرین کو روشناس کرانادل چسپی کا باعث ہوگا کہ ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔ ان کا اشارہ ملک کی سپریم کورٹ کے موقف اور لبرل حلقوں کی سوچ کے درمیان پائے جانے والے بُعد کی طرف ہے لیکن یہ بات صرف سپریم کورٹ کے آزاد اور عوام دوست رویے تک محدود نہیں۔ امریکا کے کردار، ڈرون حملوں کی توجیہ اور اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے زمین ہموار کرنے سے متعلق تمام ہی امور پر صادق آتی ہے:

ایک حالیہ ٹی وی مباحثے میں میرے پسندیدہ وکیل سلمان اکرم راجا نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ان آرا کا ۸۰ فی صد جو پاکستان میں انگلش میڈیم پریس میں چھپتا ہے، ہماری فعال عدلیہ کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف اُردو میڈیا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے۔

پاکستانی قوم پرستی کی زبان اُردو ہے۔ اُردو میڈیم تعلیم کی مارکیٹ پر ریاست کو غلبہ حاصل ہے۔ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کی شاعری اور جذباتی اظہار میں مضبوط بنیادیں ہیں۔ جدید زبان میں معاشیات اور اس کا بتدریج اثرانداز ہونے والا نظریے کے بجاے موقع پرستی کا پیغام ابھی تک اُردو میں داخل نہیں ہوا۔ انگلش میڈیم تعلیم کی مارکیٹ میں کرسچین مشنری اسکولوں نے جگہ بنائی جن کا امتحان بیرونی ادارے سے ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بنیاد پرستانہ نظریے کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ اُردو  کالم نگار نے کچھ حقائق کو یکساں طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ جب وہ قومی معیشت کی بات کرتا ہے تو آئی ایم ایف اور مغرب مخالف ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے خلاف خصوصاً پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا بھارت کے ہندووں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کی قیادت کر رہا ہے۔

 جب بھارت سے تعلقات پر بات ہو رہی ہو، تو وہ ایک لڑاکا ہے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان کی لبرل سوسائٹی غدار ہے، اور یہ کہ پورے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز ایجنٹ ہیں اور غداری کی مرتکب ہورہی ہیں۔

پاکستان میں قوم پرستی کا اظہار انگریزی کے مقابلے میں اُردو میں زیادہ ہوتا ہے۔ حالانکہ قوم پرستی قومی معیشت کو تباہ کردیتی ہے۔(دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ)

بات زبان کی نہیں ذہن کی ہے۔ تعلیمی پس منظر کی نہیں، فکری اور سیاسی وفاداری کی ہے۔ قومی مفاد اور مفاد پرستی کی ہے۔ البتہ اس تحریر کے آئینے میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے اور پاکستان کو ان مشکل حالات میں دلدل سے نکالنے والے کرداروں کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے، جو غالباً صاحب ِ مضمون کا تو اصل مقصد نہ تھا مگر اس تحریر سے وہ ذہن پوری طرح سامنے آجاتا ہے جس کی نگاہ میں نہ قومی حاکمیت، آزادی اور عزت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ حقیقی قوم پرستی کوئی مقدس شے ہے ۔ اس اخبار نے چند دن پہلے ادارتی کالم میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور جو لوگ حاکمیت (sovereignity) اور قومی مفاد کی بات کرکے امریکا سے تعلقات کے اس نام نہاد نئے باب اور ناٹو سپلائی کی بحالی پر گرفت کر رہے ہیں، وہ زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اقتدار کے دور میں بھی ہمیں یہی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ   ع

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

لیکن بالآخر تاریخ کا دھارا ان لوگوں نے موڑا جو محض طاقت اور غلبے کی چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے اور اپنے عقائد، نظریات اور حقیقی قومی مفادات کے لیے زمانے کو بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یعنی زمانہ با تو نہ سازد تو بازمانہ ستیز۔

جملۂ معترضہ ذرا طویل ہوگیا لیکن جن حقائق کو ہم اب قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ان کو سمجھنے میں اس ذہن کو سامنے رکھنے اور معاشرے کے اس نظریاتی اور اخلاقی تقسیم کو سمجھنا ضروری ہے جو ہمارے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ ہے۔

ڈرون حملے اور سیاسی و عسکری قیادت کا اصل چھرہ

ناٹو سپلائی کی بحالی اور امریکا سے تعلقات کو امریکی احکام اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کا جو کام موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت انجام دے رہی ہے، وہ ڈھکے چھپے انداز میں تو ایک مدت سے جاری ہے مگر ۲۰۰۱ء کے بعد اس کا رنگ اور بھی زیادہ چوکھا ہوگیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ، ۱۴؍مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی قراردادیں ایک بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہ قراردادیں عوامی جذبات اور عزائم سے ہم آہنگ تھیں اور ۲۷؍نومبر ۲۰۱۱ء کی کھلی امریکی جارحیت اور اس کے بعد اس کی رعونت نے اس کے لیے پالیسی میں تبدیلی کا ایک تاریخی موقع بھی فراہم کیا تھا لیکن جس نوعیت کی قیادت بدقسمتی سے ملک پر مسلط ہے اس نے اس موقعے کو ضائع کرتے ہوئے اب زیادہ کھلے انداز میں امریکی غلامی اور کاسہ لیسی کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔ یہی وہ تاریخی لمحہ ہے جب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب اسے پاکستان کی تقدیر کن لوگوں کے ہاتھوں میں دینی ہے ___ وہی قیادت جو قومی مفادات اور قومی آزادی اور وقار کا سودا کرتی رہی ہے یا  ایسی نئی قیادت جو ایمان، آزادی، عزت اور قومی مفادات کی حفاظت کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دَور سے اب تک کی قیادت کی جو اصل تصویر امریکا اور مغرب کے پالیسی ساز اور راے عامہ کو بنانے والے ادارے اور افراد کی پسندیدہ تصویر ہے، وہ اب قوم کے سامنے بھی بے حجاب آجائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔

ڈیوڈ سانگر کی کتاب Confront and Conceal اس وقت امریکا اور پاکستان میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہم نے اگست کے ’اشارات‘ میں اس سے کچھ اہم اقتباسات پیش کیے تھے۔ New York Review of Books نے اپنی تازہ ترین اشاعت (۱۶؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں اس پر مفصل تبصرہ کیا ہے اور اسے امریکا کی پالیسی کے لیے ایک آئینے کی حیثیت دی ہے۔ اس میں ہماری قیادت کی کیا تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، کہ امریکا کو ایسی ہی قیادت مطلوب ہے۔

جہاں تک پاکستانی عوام کے جذبات اور ترجیحات کا تعلق ہے ڈیوڈ سانگر بالکل اچھی طرح جانتا اور اعتراف کرتا ہے کہ:

پاکستانیوں سے اوباما کے دورِ صدارت کے کارناموں کے بارے میں پوچھیے تو ڈرون حملوں سے شہریوں کی ہلاکت کے موضوع پر شروع ہوجائیں گے۔ (ص xviii)

وہ پاکستانی عوام کے اصل اضطراب کا بھی شعور رکھتے ہیں!

 پاکستانیوں نے جو سوال مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں اور کتنے ریمنڈ ڈیوس گھوم رہے ہیں اور ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے۔

یہ تو عوام کے جذبات ہیں لیکن جو برسرِاقتدار ہیں، ان کی کہانی کیا ہے؟ یہ بھی سن لیجیے:

لوگر اعتراف کرتا ہے کہ ’’ڈرون حملے اہلِ پاکستان کی نگاہ میں بجا طور پر پاکستان کی حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں‘‘ (ص ۱۳۵)۔ نیز یہ حملے ’ایک جنگی عمل‘ (an act of war) شمار کیے جائیں گے (ص ۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ یہ اقدام ناجائز ہیں جو قتل عمد کے مترادف ہیں (ص ۲۵۳)۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ چشم کشا اوردل خراش انکشاف محض سیاسی قیادت کے بارے میں ہی نہیں، فوجی قیادت کے بارے میں بھی کرتا ہے، یعنی خود آئی ایس آئی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف نے ان کی اجازت دی تھی:

آئی ایس آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک میں جو کوئی بھی امریکی خفیہ اہل کار ہے،   اس کے بارے میں بتایا جائے اور ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جب مشرف مُلک چلا رہا تھا تو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حملوں کی اجازت کا ایک خفیہ معاہدہ تھا لیکن یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ڈرونز کی تعداد بڑھائی گئی اور ڈرون حشرات الارض کی طرح نکل آئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا غم و غصہ بھی۔ اب دُور سے، بہت دُور سے ایک ڈرون حملہ پاکستان پر لانچ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی یہ ظاہر کرتے تھے کہ انھوں نے اس مطالبے کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ اوباما کے لیے ڈرونز ہی وہ واحد چیزتھے جو پاکستان میں نتائج دے رہے تھے۔(Confront and Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power, by David E. Sanger, Crown Publisher, New York, 2012, p. 87-88)

یہ بات ۲۵ نومبر کے واقعے کے بعد ہوئی ہے۔ ۴جولائی نے پھر ہمیں وہیں پہنچا دیا ہے جہاں یہ بدقسمت ملک مشرف کے دور میں تھا  ع

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سیاسی اور عسکری قیادت کا چہرہ ایک بار پھر اس آئینے میں یوں دکھایا جاتا ہے۔ گو، اب چہرے کچھ نئے ہیں:

اپریل ۲۰۱۲ء میں پاکستانیوں نے اوباما ڈاکٹرائن کے لیے بہت بڑا چیلنج پیش کیا۔ اس وقت تک امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ۲۵۰ امریکی ڈرون حملوں کا یہ کہہ کردفاع کیا تھا کہ ان حملوں کو کرنے کے لیے انھیں حکومت کی منظوری حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منظوری کو کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ منظوری جنرل کیانی اور    اس کے فوجی ساتھیوں سے حاصل کی گئی تھی نہ کہ منتخب قیادت سے۔ یہ بڑی حد تک   لفظی منظوری تھی۔ پھر جب پاکستانی پارلیمنٹ نے امریکا کے ساتھ تعلقات کا ایک مکمل جائزہ لیا تو اس نے بہت بڑی اکثریت کے ساتھ پاکستانی علاقے پر ڈرون حملوں سے منع کیا۔ یہ مطالبہ اوباما کے اس موقف کے لیے ایک چیلنج تھا کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کی حفاظت افواج کے باقاعدہ استعمال کے بغیر کرسکیں گے، جب کہ اس طرح ہم جمہوری حکومت کی خودمختاری کا احترام بھی کریں گے۔(ص ۱۳۶)

داد دیجیے کہ ایک جمہوری ملک کی حاکمیت کا ڈرون حملوں کی بارش کے ساتھ کس عیاری سے ’احترام‘ کیا جا رہا ہے اور ملک کی فوجی قیادت کس طرح وہی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے جو سیاسی قیادت نے انجام دیا تھا۔ لیکن دل تھام کر بیٹھیے۔ اس کتاب کے صفحہ ۲۵۸ پر یہ چشم کشا انکشاف بھی موجود ہے کہ ہماری قیادت نے ان حملوں کی افادیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ میجر جنرل محمود غیور٭ کے بیان سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے:

ایک سینیرخفیہ اہل کار کا (جو پروگرام کی نگرانی کا ذمہ دار ہے) اصرار ہے کہ امریکا ان قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اگر ایک ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت ہو تو ہم اسے میزبان حکومت کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں نے اس سے چاہا کہ وہ تفصیل بتائے کہ روزمرہ ’حملہ کریں یا نہ کریں‘ کے فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ تو اس نے کہا: اگر وہ نہ چاہیں تو ہم عام طور پر حملے نہیں کرتے، الا یہ کہ ہماری افواج کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہو۔

بلاشبہہ عملاً واشنگٹن اور دنیا کے لیڈروں کے درمیان ڈرون کے استعمال کے بارے میں نازک توازن کبھی اس طرح واضح ہوتا اور نہ اجازتیں اس طرح واضح ہوتی ہیں جیسے  اگر کوئی امریکی اہل کاروں کی باتوں کو سنے تو سوچ سکتا ہے۔ وکی لیکس کے ذریعے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو پیغامات شائع ہوئے ہیں، ان سے ڈرون کے استعمال کی  عجیب و غریب صورت حال زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دورے پر آئے ہوئے امریکی ایڈمرل ولیم جے فالن کو القاعدہ کے گڑھ وزیرستان پر مسلسل اور مستقل ڈرون کوریج کے لیے کہا۔

چھے ماہ بعد یہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھا جو قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں خود اپنے وزیرداخلہ کے اعتراضات کو مسترد کر رہا تھا اور امریکی سفیر اینی پیٹرسن کو یہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں، یہ اسے اس وقت تک کرتے رہیں جب تک مطلوب آدمی نہیں ملتے‘‘۔ جیسے ہی یہ باتیں عوام میں آئیں، اوریقینا بن لادن آپریشن کے بعدانھی پاکستانی افسروں نے ملک کے اندر ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روکنے کا مطالبہ کیا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)

۴جولائی کے بعد ڈرون حملوں کا جاری رہنا اور شمالی وزیرستان میں مشترک یا امریکی معلومات کی فراہمی پر پاکستانی فوجیوں کی کارروائی کے عندیے نے نہ صرف مشرف، زرداری، گیلانی، کیانی کی سابقہ حکمت عملی کی بحالی کا منظرنامہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے، بلکہ اب عملاً کھلی اجازت  کا سماں ہے اور کوئی پردہ باقی نہیں نظر آرہا۔ صرف ریکارڈ کے لیے یہ بات بھی اس سلسلے میں بیان کرنا ضروری ہے کہ زرداری صاحب نے بنفس نفیس نومبر ۲۰۰۸ء میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں مشرف کی پالیسی کو جاری رکھنے کی اشیرباددی تھی جس کا واضح بیان باب ووڈورڈ کی کتاب Obama's Warsمیں ان الفاظ میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے:

۱۲ نومبر (بدھ) کو امریکا کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیک ہیڈن نیویارک گئے تاکہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے صدر سے بات چیت کرسکیں۔ ۶۳سالہ ہیڈن ایئرفورس کا چار ستاروں والا جنرل ہے جو ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک این ایس اے کا ڈائرکٹر رہا۔ پاکستانی صدر اور ہیڈن کی ایک گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ زرداری چاہتا تھا کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت سے ہونے والی کشیدہ فضا کو دُور کیا جائے۔

وہ ستمبر میں صدر بنا تھا اور اپنی پسندیدگی کی شرح میں کمی برداشت کرسکتا تھا۔ معصوم لوگوں کی ہلاکت القاعدہ سے معاملات کرنے کی قیمت تھی۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کردیں۔ امریکیو! تمھیں ضمنی نقصان پریشان کرتا ہے، یہ مجھے پریشان نہیں کرتا۔ زرداری نے سی آئی اے کو سبز جھنڈی دکھا دی۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی لیکن اسے معلوم تھا کہ القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد اس سے حاصل نہیں ہوسکے گا۔      (ص ۲۵۸-۲۵۹)۔ (Obama's Wars The Inside Story by Bob Woodwork, Simon and Schuster, 2010, pp. 25-26)

رہا معاملہ ہمارے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا، تو کچھ ذکر تو ان کا اُوپر آگیا ہے لیکن پوری بات ذرا زیادہ صاف الفاظ میں اناطول لیون نے اپنی کتاب میں جو  حیرت انگیز طور پر پاکستان کے خلاف آنے والی کتابوں کی یلغار میں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ علمی پیش کش ہے اور پاکستان میں طویل قیام کے بعد لکھی گئی ہے، بیان کی ہے اور سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی ہے۔ یہ بات لیون نے اپنے گہرے غوروخوض اور تجزیے کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی پالیسی سازوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ کاش! پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت بھی اس کو قابلِ توجہ سمجھے:

اس بات پر باوجود حکومتی تردید کے عام طور پر یقین کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ہائی کمانڈ اور حکومت نے امریکا کو معلومات فراہم کی ہیں تاکہ پاکستانی طالبان لیڈروں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کی تصدیق وکی لیکس نے بھی کی ہے۔ جیساکہ ۲۰۰۸ء میں امریکی حکام کو بتایا کہ مجھے پروا نہیں کتنی مدت تک یہ کام کریں گے۔ ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر نظرانداز کردیں گے۔

ڈرون حملے کے مقابلوں میں پاکستان کے جھک جانے سے معاشرے میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا اورعام سپاہی کے اس احساس میں اضافہ ہوا کہ فوج کرایے کے لیے حاضر ہے۔ اس لیے یہ کوئی سوال طلب بات نہیں ہے کہ ان حملوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک وسعت دینا مقامی لوگوں کو مزید غضب ناک کردے گا۔ پاکستانی طالبان کو نئے علاقوں میں پہنچائے گا، اور پاکستان کا امریکا سے تعاون کو کم کردے گا۔

اس سے بھی زیادہ خطرناک بات پاکستانی سرزمین پر امریکا کی اسپیشل فورسز کی موجودگی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی رپورٹوں کو مبالغے سے پیش کیا جاتا ہے۔

اس کتاب نے استدلال کیا ہے کہ فاٹا میں امریکی زمینی افواج کی کھلی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستانی فوج میں کھلی بغاوت کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کو لازماً ملحوظ رکھا جائے۔ امریکا پر نیا دہشت گردی کا حملہ ہو تو اس مداخلت کو روکنے کے لیے برطانیہ کو واشنگٹن میں جو بھی اثرورسوخ حاصل ہے اسے استعمال کرنا چاہیے۔اس سے دہشت گردی اور برطانیہ میں ثقافتی اور نسلی تعلقات پر ہولناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان سے پاکستان کے روابط مغرب میں عام طور پر ایک مسئلے کے طور پردیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں افغانستان سے نکلنے کے لیے ایک اہم اثاثہ بھی سمجھنا چاہیے۔ (Anatal Lievein Pakistan: A Hard Country, by Anatal Lievein, Allen Lane, London 2011, p. 479)

۲۰۱۲ء میں اہم عالمی تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ ماضی میں ڈرون حملے جن مقامات سے کیے جارہے ہیں ان میں پاکستان میں امریکی ہوائی بیس شامل تھے اور غالباً یہ صرف شمسی ایئربیس ہی نہیں تھا۔ دوسرے مقامات بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں شبہہ ہے کہ وہ اب بھی امریکی افواج کے تصرف میں ہیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے جاسوسی کے وسیع جال کے بغیر یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کا اس کارروائی میں بڑی حد تک ایک مشترک کردار بھی رہا ہے جس پر پردہ ڈالے رکھا گیا مگر اب یہ سب راز طشت از بام ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو اور پارلیمنٹ کو سیاسی اور عسکری قیادت نے غلط بیانی اور کتمانِ شہادت کا پوری بے دردی سے نشانہ بنایا ہے۔ کیا اب بھی منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کا وقت نہیں آیا؟

ہمارے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کی صرف چند جھلکیاں دل پر جبر کرکے پیش کی جارہی ہیں۔ پہلے باب ووڈورڈ کی شہادت ملاحظہ ہو۔ اوبامااور اس کے سکیورٹی ایڈوائزر ہیڈن کا مکالمہ سننے کے لائق ہے:

اوباما نے پوچھا: تم پاکستان میں کتنا کچھ کر رہے ہو؟ ہیڈن نے بتایا کہ امریکا کے دنیا بھر میں کیے جانے والے حملوں کا ۸۰ فی صد وہاں ہوتے ہیں۔ ہم آسمان کے مالک ہیں۔ ڈرون پاکستان میں خفیہ ٹھکانوں سے اُڑتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو تربیت دے ر ہی ہے جن کو اگر تم ڈلس میں ویزہ لینے والوں کی قطار میں دیکھو تو خطرہ نہیں سمجھو گے۔ (Obama's Wars، ص ۵۲)

لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ میں ۱۰ جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیٹرک کاک برن کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں یہ چشم کشا حقیقت بیان کی گئی ہے:

شمال مغربی سرحدی اضلاع میں ڈرون حملوں کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا لیکن  کم بتایا جانے والا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج اور اس کی طاقت ور خفیہ شاخ     آئی ایس آئی کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ یمن میں بھی کچھ سرکاری حمایت ضروری ہوتی ہے لیکن یمنی ریاست کی کمزوری کی وجہ سے پاکستان سے کم۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک نشانے پر حملہ کرنے والے اسلحے کو بھی ہدف کی شناخت کے لیے زمین پر کی جانے والی خفیہ کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں، آئی ایس آئی نجی طور پر یہ بتاتی ہے کہ اس کے ایجنٹ تفصیلات مہیا کرتے ہیں کہ ڈرون کس کا تعاقب کریں۔ دُور بیٹھ کر کمانڈ پوسٹ سے ڈرون کی رہنمائی کرنا، دوسری جنگ ِ عظیم میں نشانہ پر لگنے والی بم باری یا عراق میں ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۳ء میں ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائل حملے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس بارے میں لمحے لمحے کی خفیہ اطلاع کہ کون کس گھر میں ہے اور جب وہ وہاں ہو، اس کی اطلاع کے لیے مقامی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جو ان معلومات کو فوراً پہنچا سکے۔

یہ بہت ناپسندیدہ ہوگا کہ آئی ایس آئی، سی آئی اے کو اس طرح کا نیٹ ورک بنانے  کی اجازت دے۔ وہ فیصلہ کن اطلاع جس کی وجہ سے امریکا نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کیا، خود آئی ایس آئی نے دی تھی۔ بلاشبہہ جو قتل کا ہدف ہو شاید ہی اتنا بے وقوف ہو کہ وہ اپنی پوزیشن موبائل یا سیٹلائٹ فون یا برقی اطلاع کا ذریعہ استعمال کرکے دے۔ لیکن بعض باغی گروپ آج بھی ایسے ہیں جو اپنی پوزیشن آسانی سے بتادیتے ہیں۔ آئی ایس آئی پر اعتبار کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج کے افسران ہیں نہ کہ صدراوباما یا ان کا سلامتی اور عسکری سٹاف جو درحقیقت فیصلہ کرتے ہیں کہ ڈرون کس قسم کے مشکوک شخص کو ہلاک کرے گا۔ یہ پاکستان کی نائن الیون سے امریکا سے معاملہ کرنے کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں بہترین ساتھی بھی ہے اور بدترین دشمن بھی۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)

مضمون نگار نے صدر اوباما کو ڈرون حملوں کے شدید ردعمل  سے بچانے کے لیے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ بجا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور نیویارک ٹائمز کی مفصل رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد تو اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ڈرون حملوں کاآخری فیصلہ صدراوباما خود کرتے ہیں اور وہ بلاواسطہ اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں Counter Punch پر بھی Bill Quigby کا بڑا چشم کشا مضمون Five Reasons Drone Assassination is Illegal (ڈرون قتل غیرقانونی ہونے کی پانچ وجوہات) (دی انڈی پنڈنٹ،۱۶ مئی ۲۰۱۲ئ) بڑا مدلل اور ناقابلِ انکار شواہد کا حامل ہے۔

نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون کی اشاعت میں کرس ووڈز کا مضمون Drones: Barack Obama's Secret War (ڈرونز: باراک اوباما کی خفیہ جنگ)شائع ہوا ہے جس میں عام شہریوں کی ہلاکت پر بڑے لائق اعتماد اور ہولناک شواہد دیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کی ٹھیک ٹھیک نشانہ بازی اور صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے دعوے مضمون نگار کے الفاظ میں جھوٹے (bogus) ہیں، نیز اس کے ساتھ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ:

القاعدہ کو اس مہم میں یقینا کافی نقصان پہنچاہے۔ ۴جون کو اس کے ڈپٹی لیڈر یحییٰ اللّیبی کی ہلاکت کے بعد یہ دہشت گرد گروپ نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، امریکی فضائی حملوں نے اس کو قیادت سے محروم کیا اور اس سے قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے برسوں تک اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کو خاموشی سے برداشت کیا ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینوں میں یہ تعاون آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان ہرحملے کی مذمت کرتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ اس دوران امریکا اپنے حلیف کو سادگی سے نظرانداز کردیتا ہے۔(Chriswoods Drones: Barack Obama's Secret War.، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)

بات اب نظرانداز کرنے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب تو کھیل شراکت داری کا ہے جو نئی آگ بھڑکانے کا نسخہ ہے جس خطرے کی طرف اناطول لیون نے بھی اُوپر واضح اشارہ کیا ہے۔

اس خطرناک کھیل کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف ۸جون ۲۰۱۲ء کی ایک on line (۲۸ جون ۲۰۱۲ئ) رپورٹ میں کہا گیا ہے (شائع شدہ دی نیشن، ۱۰جون ۲۰۱۲ئ) ۔ یہ خبر جولائی کے ایم او یو سے تین ہفتے پہلے کی ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا سے پاکستان کے تعلق کو ’کُٹّی‘ کا دور کہا جاسکتا ہے لیکن اس دور کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی سرزمین کے دوسرے مقامات سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری تھا، اور یہ اس پر مستزاد ہے جس کا دعویٰ اس وقت کے وزیردفاع نے کیا تھا کہ ’’راستہ صرف زمین کا بند ہے، فضائی حدود کی پامالی تو ہماری اجازت سے جاری ہے‘‘۔ اس اطلاع سے مزیدتصدیق ہوئی ہے کہ امریکی بوٹوں کی موجودگی کا معاملہ صرف شمسی ایئربیس تک محدود نہیں تھااور (جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کی روشنی میں) ۴جولائی کے رسد کی بحالی کے انتظامات سے پہلے کے دور میں بھی سی آئی اے کے دوسرے اڈے موجود تھے اور ان کو یہ خطرہ بھی تھا کہ ان کے دوسرے غیرعلانیہ یا خفیہ (undeclared) اڈوں سے بھی انخلا کی بات ہوسکتی ہے:

نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی اہل کاروں نے خفیہ معلومات کے بارے میں بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سی آئی اے کو باقی رہنے والا ہوائی اڈا بھی خالی کرنے کا کہے گا جس سے افغانستان کی سرحد پر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کو وہ اپنا ہدف بناتے ہیں۔ امریکا ۲۰۰۴ء سے اسلام آباد کی انتظامیہ کی خفیہ منظوری سے ڈرون حملے کر رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اس کے لیڈر ان حملوں کے خاتمے   کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انھیں ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔    (دی نیشن، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)

امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی میں پیٹربرگن اور کیتھرین ٹائیڈمین کا مقالہ The Effects of the Drone Programme in Pakistan (پاکستان میں ڈرون پروگرام کے اثرات) شائع ہوا ہے جس میں امریکا کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے کہ  کیا فی الحقیقت ان ڈرون حملوں سے القاعدہ کی قیادت کا صفایا ہوگیا ہے؟ ان کی تحقیق کی روشنی میں اوسطاً سات میں سے صرف ایک میزائل کسی عسکریت پسند لیڈر کو ہلاک کر پاتا ہے اور یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ بالعموم بہت معمولی درجے کے عسکریت پسندہوتے ہیں۔

قابلِ ذکر قیادت کے صرف دو فی صد لوگ حملوں کی زد میں آنے کی مصدقہ اطلاعات ہیں، البتہ عام شہریوں کی ہلاکت بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے ۔ گو، تفصیلی معلومات ہر دو کے بارے میں عنقا ہیں، یعنی عسکریت پسند اور عام شہری۔ زیادہ تر اعتماد اندازوں اور سنی سنائی پر ہے۔ البتہ نصف سے زیادہ مقامی آبادی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید ردعمل ہے۔ ان حقائق کا اعادہ اور اعتراف کرنے کے بعد جو اہم بات اس مقالے سے بھی کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستانی قیادت کا دوغلا کردار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

جس آپریشن میں بن لادن کو قتل کیا گیا، پاکستانی اہل کاروں نے شور مچایا کہ ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پس پردہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی کبھار دیے جانے والے احتجاجی بیانات کے ساتھ ڈرون حملوں کی حمایت کی۔ اسلام آباد کے تعاون کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے۔ اس لیے کہ اس پروگرام میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا تعاون چاہیے، جیساکہ ایک امریکی اہل کار نے تبصرہ کیا کہ تمھیں زمین پر لوگ چاہییں جو تم کو بتائیں کہ ہدف کہاں ہے اور یہ اطلاع فاٹا کے آس پاس بھاگ دوڑ کرنے والا کوئی سفیدفام نہیں دے سکتا۔(پاکستان ٹریبون، ۱۴ جولائی ۲۰۱۲ئ)

فیصلے کی گہڑی

ان تمام اطلاعات اور حقائق پر غور کرنے سے جو باتیں واضح ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- امریکا کی عسکری حکمت عملی میں ڈرون حملوں کو اب ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ اسے اپنے اقتدار اوراثرورسوخ کو مستحکم کرنے کا مؤثر ترین حربہ سمجھتا ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے، اور آزاد اور خودمختار مملکتوں کے درمیانی تعلقات کے اصول و ضوابط سے متصادم ہے، نیز جنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے متفق علیہ آداب کی بھی ضد ہیں، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خود امریکا کے دستور اور قوانین میں جو اختیارات اور تحدیدات موجود ہیں، ان سے بھی ہولناک حد تک متصادم ہیں۔ اس لیے اب عالمی امن کے علَم بردار اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک تعداد امریکی صدر کو ’قاتل صدر‘ (Killer President) اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے رہی ہے۔

۲- اس نئی جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی کی کوئی صورت رُونما نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔ نیز ان حملوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں،  اس سے امریکا کے خلاف نفرت کے طوفان میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر امریکی قیادت اس سب سے بے نیاز ہوکر بدستور اپنے ایجنڈے پر عمل پیراہے۔

۳- اس مکروہ عمل میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت برابر کی شریک رہی ہے جو خود اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو دھوکا دیتی رہی ہے، غلط بیانیوں کا کاروبار کرتی رہی ہے، اور اب اگر ڈھکے چھپے تعاون اور شراکت داری کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے تب بھی کہہ مکرنیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ عالمی میڈیا اور خود امریکا کے سرکاری اور نیم سرکاری بیانات نے ان کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔پاکستانی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کا بے لاگ احتساب ہو اور اس گندے کھیل کو جتنی جلد ختم کیا جاسکتا ہو اس کا اہتمام کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا دستور اور قانون سیاسی اورعسکری قیادت کو ملک کے مفادات کی حفاظت، اس کی آزادی اور سلامتی کو اوّلین ترجیح دینے اور دستور اور قانون کی مکمل اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ان سب نے اپنے اپنے مناصب کی مناسبت سے دستور سے وفاداری اور اس کی مکمل پاس داری کا حلف لیا ہوا ہے۔ دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو مکمل قانونی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو دفعہ۵ کی رُو سے ’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔اور دفعہ ۲۴۵ کی رُو سے افواجِ پاکستان کی اولیں ذمہ داری پاکستان کا دفاع ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت یہ حلف لیتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک ’’خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار ہوگا‘‘ اور ’’پاکستان کے دستور کے اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، یک جہتی اور خوش حالی‘‘ کے لیے خدمات انجام دے گا۔

اس عہد اور دستور کے ان واضح مطالبات کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کا جو کردار امریکا کی اس ناجائز اور ظالمانہ جنگ میں رہا ہے وہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے ذیل میں آتا ہے اور دفعہ۶ کے تحت احتساب اور کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا قوم، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دستور کے ان تقاضوں کوپورا کرانے کی ہمت ہے؟ بلاشبہہ اس ظلم و ستم کی اولیں ذمہ داری امریکا اور اس کی خارجہ سیاست پر ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ان ممالک کے حکمران اور ذمہ دار جہاں امریکا کا یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں وہاں اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں ،بلکہ شاید ان کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی ہے کہ ان حالات میں ان کا فرض تھا کہ سامراجی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتے، نہ کہ ان کے معاون اور مددگار کا کردار ادا کریں۔

موجودہ قیادت اور پوری انتظامیہ (establishment) قوم کی مجرم ہے اور احتساب کا عمل جتنا جلد شروع ہو وہ وقت کی ضرورت ہے، ورنہ اس نئے ایم او یو (Mou )کے بعد تو نظر آرہا ہے کہ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے اور ان میں اضافے کے دبائو اور معاشی اور فوجی امداد کی ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کے ماہرانہ استعمال سے فوج کو شمالی وزیرستان کے جہنم میں بھی دھکیل دیا جائے گا اور امن اور علاقے کی سلامتی کے اصل اہداف کو پسِ پشت ڈال کر اس آگ کو مزید پھیلایا جائے گا۔ کیا کوئی یہ تضاد نہیں دیکھ سکتا کہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور فوجی انخلا کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف جنگ کو وسعت دینے اور جو حکومت اور جس ملک کی فوجی قیادت مذاکرات کے راستے کسی مثبت تبدیلی کے امکانات روشن کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے، اسے دشمن بنا کر اس کردار ہی سے محروم نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے افغان قوم کے درمیان نہ ختم ہونے والی دشمنی اور تصادم کا نقشہ استوار کیا جارہا ہے۔

یہی وہ نازک لمحہ ہے جب پاکستانی قوم کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ دوٹوک الفاظ میں یہ ہے کہ:

۱- امریکا کی اس جنگ میںکسی نوعیت کی بھی شرکت پاکستان اور علاقے کے مفاد کے خلاف ہے اور ہمارے لیے واحد راستہ اس سے نکلنے اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنے کا ہے___ اس دلدل میں مزید دھنسنا صرف اور صرف تباہی کا راستہ ہے۔

۲- امریکا اور ناٹو کے لیے بھی صحیح راہِ عمل مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہے۔ جنگی حل ناکام رہا ہے اور اس کی کامیابی کے دُور دُور بھی امکانات نظر نہیں آرہے۔ اپنے وسائل اور افواج کو دوسرے ممالک اور ان کے فوجی یا سیاسی عناصر کو اس جنگ کو تیز تر کرنے کی پالیسی سب کے لیے خطرناک ہے اور ضرورت اسے بدلنے کی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دوسروں کو آگ میں دھکیلنے سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی۔

۳- بیرونی دبائو کی جو شکل بھی ہو، پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مفادات، علاقے کے مفادات اور سب سے بڑھ کر اپنی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس جنگ سے نکلے اور اپنا الگ راستہ بنائے، افغان عوام سے اپنے تاریخی رشتے کو   خلوص کے ساتھ بحال کرے، تعلقات میں جو بگاڑ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے آچکا ہے، اس کی اصلاح کرے اور ملک کی اپنی معیشت جس طرح تباہ ہوئی ہے، اسے ازسرِنو بحال کرنے پر  توجہ صرف کرے۔ نیز علاقے کی دوسری تمام قوتوں خصوصیت سے چین، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور عرب دنیا سے مل کر علاقے میں امن کی بحالی اور اسے بیرونی مداخلت سے پاک کرنے میں ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرے۔

یہ سب ایک بنیادی تبدیلی (paradigm shift) کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو تمام حقائق سے پوری طرح باخبر کیا جائے۔ تمام محب وطن قوتیں مل کر حالات کامقابلے کا نقشۂ کار تیار کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کو متحرک کیا جائے اور ان کی تائید سے ایک نئے مینڈیٹ کی بنیاد پر نئی قیادت ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور موجودہ خلفشار اور تباہ کن صورت حال سے ملک کو نکالے۔ ملک کی محب وطن سیاسی اور دینی قوتوں نے دفاعِ پاکستان کونسل کے پرچم تلے جو اہم خدمات انجام دی ہیں، اب ان کو مربوط کرنے اور ملک کو نئی سمت دینے کے لیے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اس حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور کے ابتدائی پُرآشوب زمانے میں اختیار فرمائی اور جس کے نمایاں پہلوئوں کو سورئہ انفال میں اُمت کی ابدی ہدایت کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ہم قوم اور ملک کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ غلامانہ ذہن سے نکل کر قرآن اور سیرت نبویؐ کی روشنی میں اپنے حالات کے بے لاگ جائزے اور ان حالات کے لیے قرآن کریم کے راہ نما اصولوں کے مطابق اپنی منزل اور اہداف کا تعین کرے اور ان کو حاصل کرنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی تیار کرے۔ اس لیے کہ یہ اُمت اپنے بعد کے اَدوار میں بھی اسی راستے کو اختیار کر کے ترقی کرسکتی ہے جو اس نے اولیں دور میں اختیار کیے تھے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ آج  سورئہ انفال میں بیان کردہ ان رہنما اصولوں کے سوا ہمارے لیے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں:

اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ھُمْ لَا یَتَّقُوْنَo فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَo وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ م  اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ o وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا یُعْجِزُوْنَo وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo  وَ اِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ         وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۵۶-۶۲) پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ، یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔

اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔

آیئے! اپنے حالات پر ان آیات کی روشنی میں غور کریں، اللہ سے مدد و استعانت اور رہنمائی طلب کریں اور اس ملک کی شکل میں جو امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ زندگی اور عزت کا یہی راستہ ہے اور جس قوم نے بھی یہ راستہ خلوص، دیانت اور بھرپور تیاری سے اختیار کیا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوئی:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹)، جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

طلاق اور رضاعت

اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وَّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ط وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ج فَاِِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ج وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوفٍ ج وَاِِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰیط (الطلاق ۶۵:۶) اُن کو (زمانۂ عدّت میں) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستائو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک اُن کا وضعِ حمل نہ ہوجائے۔ پھر اگر وہ تمھارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو اُن کی اُجرت انھیں دو، اور بھلے طریقے سے (اُجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کرلو لیکن اگر تم نے (اُجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی۔

گذشتہ ساری ہدایات دینے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وَّجْدِکُمْ،’’ان کو اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، نہ ان کو نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، جو غذا تم کو میسر ہو وہی اُن کو بھی کھلائو‘‘۔ مزید فرمایا: وَلاَ تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ،’’اور ان کو تنگ کرنے کے لیے اُن کو نہ ستائو‘‘۔ مراد یہ ہے کہ یہ ساتھ رکھنا شریف آدمیوں کی طرح ہو۔    اگر طلاق کسی جھگڑے کی وجہ سے ہوئی ہے تو مطلقہ بیوی کو ساتھ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ اگر کوئی موافقت کی صورت نکل سکتی ہو تو نکل آئے۔ اس غرض کے لیے ساتھ رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب تک عدّت کی مدت ختم نہیں ہوتی تب تک روز دنگافساد ہو، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ ہو۔

اسی طرح اس حکم کا ایک اور مطلب بھی ہے کہ مثلاً اگر ایک آدمی یہ حرکت کرتا ہے کہ ایک طلاق دی اور جب عدّت کی مدت گزرنے پر آئی تب رُجوع کرلیا تاکہ اُس کو ایک اور طلاق دی جائے جس سے ایک اور عدّت اس پر واجب آجائے۔ پھر عدّت کے خاتمے کے قریب رُجوع کرنے اور پھر اُسی طرح طلاق دے تاکہ اس کی عدّت کی مدت پھیل کر نومہینے تک ہوجائے۔ ایسا کرنا کسی بھلے آدمی کا کام نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مطلقہ عورت کو ساتھ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ موافقت کی کوئی صورت نکل سکتی ہو تو نکل آئے۔ اس سے لڑائی جھگڑا کرنے اور اس کو تنگ کرنے کے لیے نہیں دیا گیا ہے۔

وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ،’’اگر (مطلقہ) عورتیں حاملہ ہوں تو اُن کے اُوپر خرچ کرو جب تک کہ وضعِ حمل نہ ہوجائے، یعنی عدّت کی مدت خواہ کتنی طویل ہو (یعنی نو مہینے بھی ہو) وضع حمل تک اس کے مصارف اور اس کی کفالت تمھارے ذمے ہے۔

فَاِِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوفٍ، پھر اگر  وضعِ حمل کے بعد عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے پر راضی ہو اور تم بھی یہ چاہو کہ وہ اسے دودھ پلائے تو اِس صورت میں آپس میں مشورہ کر کے طے کرلو کہ اُس کی اُجرت کیا ہوگی۔ یعنی جب تک وہ عورت بچے کو دودھ پلا رہی ہے، اس وقت تک اس کا خرچ اس شخص کے ذمے ہے جس کا بچہ ہو۔ اور اس خرچ یا اُجرت کا تعین باہمی مشورے سے کیا جائے۔ وَاِِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَـہٗٓ اُخْرٰی، یعنی اگر تم اُجرت طے کرنے میں باہمی تنگی محسوس کرو، یعنی عورت زیادہ رقم کا تقاضا کرے اور مرد کم دینا چاہتا ہو، اور باہم اتفاق نہ ہوسکے تو اس صورت میں بہتر ہے کہ بچے کو کسی اور عورت سے دودھ پلوایا جائے۔

لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ط وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰہُ اللّٰہُ ط لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِِلَّا مَآ اٰتٰھَا ط سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (۶۵:۷)  خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اُس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔

اس آیت کا مفہوم واضح ہے کہ جو خوش حال آدمی ہے وہ اپنی مقدرت کے مطابق بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو نفقہ دے، اور جس کا رزق تنگ ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس پر خرچ کرے___ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص معاوضہ مقرر نہیں کردیا گیا کہ کتنا دینا لازم ہوگا، بلکہ یہ بات آپس میں مشورہ کر کے طے کی جائے کہ بچے کے باپ کی مقدرت کیا ہے۔ وہ جتنا بار اُٹھا سکتا ہے اسی پر فیصلہ ہوگا۔

مزید فرمایا: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِِلَّا مَآ اٰتٰھَا ط ، ’’یعنی اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا‘‘۔ گویا ایک اصول طے کردیا گیا کہ ہر آدمی کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا کہ: سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا، یہ اطمینان دلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ عُسر (تنگ دستی) کے بعد یُسر (فراخ دستی) عطا کرنے والا ہے۔ اس لیے تنگ دلی سے کام نہ لو۔ ایک چیز تنگ دستی ہوتی ہے اور ایک چیز تنگ دلی ہوتی ہے۔ بسااوقات ایک آدمی اپنی تنگ دستی سے بڑھ کر بخیل بن جاتا ہے۔ وہ اپنی تنگ دستی سے بڑھ کر اپنا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا اور بتایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ آج تم تنگ دست ہو تو کل اللہ تعالیٰ تمھیں فراخ دست کردے۔

قوم کی تباھی کا راستہ

وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰھَا حِسَابًا شَدِیْدًا وَّعَذَّبْنٰھَا عَذَابًا نُّکْرًا o فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِھَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِھَا خُسْرًا o (۶۵:۸-۹)کتنی ہی بستیاں ہیںجنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور اُن کو بُری طرح سزا دی۔ انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور اُن کا انجامِ کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔

قرآن مجید میں اکثر احکام دینے کے بعد اور خاص طور پر عورتوں اور مردوں کے تعلقات کے بارے میں احکام دینے کے بعد ساتھ ہی لوگوں کو بہت شدید الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان احکام کی خلاف ورزی سے بچیں۔ اس لیے کہ اگر انسان اپنی خانگی اور معاشرتی زندگی میں ظالم اور ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہو تو اس سے انسانیت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ سامنے کی حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب ساری کی ساری گھر سے شروع ہوتی ہے۔ یہیں سے پوری تہذیب اور تمدن کی عمارت اُٹھتی ہے۔ اگر انسان کے گھر میں خرابی ہو، لوگ اپنے گھر کے اندر ظالم اور بے انصاف ہوں، بے رحم اور ایک دوسرے کے حقوق مارنے والے ہوں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی پوری تہذیب اور پورے تمدن کی عمارت انسانیت، شرافت اور اخلاق سے خالی ہوجائے گی، کیونکہ جڑ اور بنیاد خراب ہوگئی۔

اس بنا پر آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں جہاں نکاح، طلاق اور معاشرت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں وہاں احکام دینے کے بعد شدید الفاظ میں اس طرح کی وعیدیں آئی ہیں۔  لہٰذا فرمایا کہ جن بستیوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے رُوگردانی کی، احکام کی خلاف ورزی کی،  اللہ کے رسولوں کی بتائی ہوئی حدود کو توڑا، ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو بدترین سزا دی۔  سخت محاسبہ ایک وہ ہے جو آخرت میں ہونا ہے لیکن یہاں اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ذکر اس عذاب کا ہو رہا ہے جو ان کے اُوپر دنیا میں آیا۔ جس قوم کے گھروں میں بھی عورت اور مرد کے تعلقات بگڑے ہیں اور غلط بنیادوں پر قائم ہوئے ہیں وہ ساری قوم تباہی سے دوچار ہوئی۔

اس وقت مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ یورپ اور امریکا میں سارا معاشرتی نظام اس بُری طرح بگڑا ہے کہ ان میں طلاق کی انتہائی کثرت ہوگئی ہے۔ بالکل ایسا ہوگیا ہے کہ نکاح نامہ گویا کوئی ردّی کا ٹکڑا ہے جس کو جس وقت چاہیں پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ یہ نکاح کی دستاویز کا مقام بن گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہرپانچ نکاحوں میں سے چار کا انجام طلاق پر  ہوتا ہے۔۱؎ اس کے نتیجے میں امریکا میں جس طرح teen agers (نوعمرلڑکے لڑکیوں) کے جرائم  بڑھ رہے ہیں، ان کا حال آپ جب چاہیں وہاں کے اخبارات اُٹھا کر پڑھ سکتے ہیں۔ یہی حال

۱-            یاد رہے کہ یہ ۱۹۶۷ء کا ذکر ہے۔ اب صورتِ حال اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ (مرتب)                             

یورپ کا ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے غول کے غول جرائم کرتے پھرتے ہیں اور یہ مرض روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ خاندانی نظام کے عدم استحکام اور ابتری کی وجہ سے یہ ایک نیا مسئلہ ان کے لیے پیدا ہوگیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ جب گھروں کے اندر آپس میں ناچاقی اور نااتفاقی اور ایک دوسرے پر  ظلم کرنے اور عدم برداشت کی وجہ سے نباہ نہ کرنے کے امراض پیدا ہوجائیں، اور اس کے نتیجے میں بچوں کے والدین ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اس کے بعد ان کے بچے جرائم پیشہ نہ بنیں گے تو کیا بنیں گے؟ اس طرح یہ ایک بڑی تباہی کا راستہ ہے جس کی طرف وہ لوگ جارہے ہیں۔ اگر کوئی قوم ابھی آپ کو اپنی صنعت و حرفت اور تجارت وغیرہ کی وجہ سے کھڑی نظر آرہی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ترقی کر رہی ہے اور اس کو استحکام حاصل ہے، بلکہ اس کے اعصاب درحقیقت مفلوج ہوچکے ہیں۔ بظاہر ابھی جڑ اس کی کھڑی ہے لیکن اس کی زندگی کی اصل طاقت ختم ہوچکی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ہم ایسی قوموں کا سخت محاسبہ کرتے ہیں اور اس کو بدترین سزا دیتے ہیں۔

اسی لیے فرمایا: فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِھَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِھَا خُسْرًا o (۶۵:۹)، ’’انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے‘‘۔ گویا جس طرزِعمل پر وہ قوم چل رہی تھی اس کا انجام بالآخر تباہی ہی ہونا تھا۔

آخرت میں شدید عذاب

اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا لا فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ج  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا o رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزْقًا o (۶۵:۱۱) اللہ نے (آخرت میں) ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اللہ سے ڈرو ، اے صاحب ِ عقل لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ نے تمھاری طرف ایک نصیحت نازل کر دی ہے، ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ جو  کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے۔

پہلے فرمایا گیا کہ وہ قومیں جو اپنا بُرا انجام اس دنیا میں دیکھ چکی ہیں، اپنی شامت ِاعمال کا مزا چکھ چکی ہیں۔ اب اس کے بعد فرمایا کہ : اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا،’’اللہ نے ان کے لیے عذابِ شدید مہیا کر رکھا ہے‘‘۔

اس دنیا کے عذاب ہی سے ان کا پیچھا نہیں چھوٹ جائے گا کیونکہ دنیا کا عذاب ان کے کرتوتوں کی سزا نہیں ہے بلکہ اس دنیا کا عذاب تو ان کے کرتوتوں پر ان کی گرفتاری کے مترادف ہے۔ اصل سزا تو ان کو آخرت میں ملنی ہے۔ اگر ایک آدمی جرم کرے تو حکومت کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اسے لے جاکر حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ پھر وہ عدالت کے آخری فیصلے تک بھی ایک عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ اگر اس کا جرم ثابت ہوجائے تو عدالت کے فیصلے کے بعد اس کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی پوزیشن یہاں ہے کہ اگر کوئی قوم جرائم پیشہ بن جائے اور اس کی پوری معاشرتی زندگی کے تانے بانے کے اندر ظلم و ستم سرایت کرجائے تو اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر آتا ہے تواس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جیسے کوئی مجرم چھوٹا پھر رہا تھا اور یکایک اس کے وارنٹ جاری کرکے اس کو گرفتار کرلیا گیا۔ گویا دنیا میں عذاب آنا صرف اس مجرم قوم کی گرفتاری ہے۔ آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ دنیا کا عذاب اس کے جرائم کی اصل سزا نہیں، کیوں کہ جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو اس میں گرفتار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے جو لوگ جرائم کرتے ہوئے گزر گئے اور جن لوگوں نے خرابی کی بنیاد ڈالی تھی جن کی سزا میں یہ نسل پکڑی گئی، تو اصل مجرموں کو کیا سزا ملی۔ مزید غور کیجیے کہ جن لوگوں نے مثلاً ایک معاشرے کے اندر شراب نوشی کو عام کیا وہ تو زندگی گزار کر چلے گئے وہ کہاں پکڑے گئے، پکڑے تو وہ لوگ جائیں گے جو شراب نوشی کا ارتکاب کرتے ہوئے آخرکار گرفتار ہوگئے۔ اس لیے دنیا میں کسی قوم پر جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت اصل سزا کی نہیں ہوتی۔ یہ محض ایک گرفتاری ہے اور اس کے بعد اصل سزا اس کو آخرت میں ملتی ہے۔ اس کے متعلق فرمایا کہ: اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا___’’اللہ نے ان کے لیے عذابِ شدید مہیا کر رکھا ہے‘‘۔

عقل و دانش کا معیار

فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ: ’’پس اے عقل رکھنے والو! اللہ سے ڈرو‘‘۔یہاں عقل رکھنے والوں سے مراد کون ہیں؟ فرمایا: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،’’وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں‘‘۔دوسرے الفاظ میں یہ سمجھیے کہ جو ایمان نہیں لا رہا ہے اس کی عقل ماری گئی ہے اور وہ احمق ہے۔ عقل رکھنے والا دراصل وہی ہے جو ایمان لے آیا۔ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ کہنے کے بعد الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہنے سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں۔ ان الفاظ کے مطابق خواہ کوئی کتنا ہی بڑا سائنس دان ہو، کتنا ہی بڑا عالم فاضل ہو، اگر وہ ایمان نہیں لایا تو وہ احمق ہے۔ اس کی عقل ماری گئی ہے۔ ایک آدمی بعض چیزوں کے معاملے میں بڑا دانش مند ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسری چیزوں کے بارے میں بالکل نادان اور احمق ہوتا ہے۔ اگر ایک آدمی بہت بڑا قانون دان بھی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ عقل مند بھی ہے۔ صحیح معنوں میں عقل مند ہونا اور چیز ہے اور آدمی کا چالاک، زیرک اور ہوشیار ہونا ایک اور چیز ہے۔

اس مفہوم میں دیکھا جائے تو دنیا میں جو لوگ بظاہر چالاک اور زیرک ہیں وہ زیادہ تر   بے وقوف ہیں۔کیونکہ حقیقی دانش مند جو بھی ہوگا وہ لازماً صاحب ِ ایمان ہوگا۔ اس بات کو اگر آپ مزید سمجھناچاہیں تو مثال کے طور پر دیکھیے کہ ہندوئوں میں کیسے کیسے ماہرینِ علوم پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ کس جاہلیت میں مبتلا ہیں، اس بات کا آپ تھوڑا سا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ ہندستان کا ایک بہت بڑا لیڈر تھا مدن موہن مالویہ۔ وہ ایک بڑا قانون دان اور اعلیٰ درجے کا مقرر تھا اور مانا ہوا زیرک آدمی تھا لیکن اس کی جاہلیت کا حال یہ تھا کہ وہ اس عقیدے پر ایمان رکھتا تھا کہ اگر آدمی بحری سفر کرے تو اس کا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ لندن میں گول میز کانفرنس میں اُس کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہندو قوم کے مفاد کا تقاضا تھا کہ پنڈت جی اس کانفرنس میں جائیں۔ چنانچہ پنڈت جی کو جانا پڑا لیکن واپس آئے تو برہمنوں نے کہا کہ آپ کا دھرم سمندری سفر کی وجہ سے بھرشٹ ہوچکا ہے۔ اس لیے آپ کو اس کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اس کے پرائس چتھ [کفارہ]کی ضرورت ہے۔ اس کفارے میں یہ چیزیں شامل تھیں: گائے کا گوبر جسم پر مَلنا، اس کا پیشاب پینا، اس کی دم پکڑ کر بنارس کا ایک کُنڈ پار کرنا۔ اپنے عقیدے کے مطابق پنڈت جی نے یہ سب کچھ کیا تب کہیں جاکر اُن کا دھرم پاک ہوا اور وہ بھرشٹ ہونے سے بچ گیا۔ اس مثال سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک آدمی کا کفر ایک بنیادی بیوقوفی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہیں رکھتا تو وہ بیوقوف ہے، چاہے دنیا کی نظر میں وہ کتنا ہی بڑا عالم فاضل ہو۔

اس لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اے عقل مندو! یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ یہاں مخاطب مسلمان ہیں اور اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ قومیں جنھوں نے اللہ کی نافرمانی کی وہ دنیا میں بُرے انجام سے دوچار ہوئیں اور آخرت میں بدترین انجام دیکھنے والی ہیں۔ ان کے طریقے پر نہ چلو بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارو۔

ایمان کا اھم تقاضا

قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا o رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ (۶۵:۱۰-۱۱)اللہ نے تم پر نازل کیا ایک ذکر، ایک رسول جو تم کو اللہ کی روشن آیات سناتا ہے۔

یہاں ذکر سے مراد اللہ کا رسولؐ ہے۔ نازل کرنے کا لفظ قرآن کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے لیکن ذکر کے ساتھ فوراً رَسُولًا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ دراصل قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تعلیم دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک طرف قرآن ہے اور دوسری طرف رسولؐ کی تعلیم، اس کی سنت اور سیرت و اخلاق و اعمال ہیں۔ بظاہر یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن درحقیقت دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں اللہ ہی کی طرف لوٹتی ہیں۔ گویا اللہ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ تمھارے اُوپر ذکر نازل کیا اور رسول بھیجا جو اللہ کی آیات تم کو سناتا ہے۔ کھلی کھلی آیات کے لیے اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات واضح طور پر  یہ بتا رہی ہیں کہ تم کو دنیا میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ کیا اختیار کرنا چاہیے اور کیا چھوڑنا چاہیے۔ کوئی چیز اس طرح مبہم نہیں چھوڑی گئی ہے کہ اس سے واضح ہدایت معلوم نہ ہوتی ہو۔

لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِط (۶۵:۱۱) تاکہ وہ نکالے ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف۔

دوسرے الفاظ میں یہاں تاریکی سے مراد ہے جہالت، اور نور سے مراد ہے علم۔ گویا   اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ ایک کتاب بھیجی اور ایک رسول بھیجا، اور اس کتاب اور رسول کے ذریعے سے تم کو ہر طرح کی ہدایات دیں۔ یہ سب کچھ اس غرض کے لیے تھا کہ تم کو جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے سے بچایا جائے اور تم کو سیدھا راستہ دکھایا جائے، تاکہ تم روشنی میں آجائو۔ جیسے دن کی روشنی میں آدمی صاف صاف دیکھتا ہے کہ کہاں گزرگاہ میں گڑھے یا کانٹے ہیں اور کس جگہ راستہ صاف اور ہموار ہے۔ تم پر یہ احسان کیا تاکہ تم تاریکیوں سے نکل آئو، لیکن تاریکیوں سے نکلیں گے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور عملِ صالح اختیار کریں۔ رسول کے ذمے یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہرآدمی کو تاریکی سے روشنی میں نکال لائے،بلکہ رسول تاریکی سے نکال کر روشنی میں لائے گا اس شخص کو جو اوّلاً ایمان لائے اور اس کے بعد عملِ صالح اختیار کرے۔ معلوم ہوا کہ محض ایمان لانے ہی کا نتیجہ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجانا نہیں ہے، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ قبولِ ایمان کا اظہار کرنے کے بعد آپ کا ارادہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور پیروی کا ہے یا نہیں۔اگر آپ احکامِ الٰہی کے مطابق عملی زندگی بسر نہیں کرتے، صالح اخلاق اختیار نہیں کرتے، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ محض ایمان کا اعلان کرنے سے آپ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجائیں۔ اس کی شرط یہی ہے کہ آپ ایمان لائیں اور عملِ صالح کریں۔

پھر فرمایا: وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ o (۶۵:۱۱)’’جو لوگ ایمان لائیں گے اور عملِ صالح اختیار کریں گے اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ ، ’’وہ ہمیشہ ہمیشہ   اُن میں رہیں گے‘‘۔کبھی ان کے وہاں سے نکلنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزْقًا ، ’’اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق مہیا کیا ہے‘‘۔

اللّٰہ کی قدرت کا مظھر

سورہ کے آخر میں فرمایا:

اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لا وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا o (۶۵:۱۲) اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔

اُوپر اللہ پر ایمان لانے کے اچھے نتائج بتانے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے بعد یہ فرمانا کہ اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے ہیں، اور وہی ہے جس نے اتنی زمینیں پیدا کی ہیں، اور وہی ہے کہ جس کا حکم تمام آسمانوں اور زمینوں میں نازل اور جاری ہوتا ہے، وہ ہرچیز پر قادر ہے اور اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے___ یہ اس غرض کے لیے ہے کہ انسان کو احساس ہو کہ میرا سابقہ کس خدا سے ہے، اُس خدا سے ہے جو علیم و قدیر ہے تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ یہ احکام کوئی انسان تمھیں نہیں بتا رہا ہے کہ جس کی طاقتوں کی ایک حد ہوتی ہے، بلکہ یہ احکام وہ سنا رہا ہے جو کائنات کا خالق و مالک اور فرماں روا ہے۔

یہ جو فرمایا کہ :’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین کی قِسم سے اس کے مثل‘‘ (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ)، تو دوسرے الفاظ میں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے یہ زمین ہمارے لیے گہوارہ ہے جس پر بے حد و حساب مخلوق جی رہی ہے، اسی طرح سے کچھ اور زمینیں بھی ہیں جو اپنی اپنی آبادی کے لیے گہوارہ ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ   اسی زمین کے اندر اُوپر تلے مختلف تہیں ہیں جن میں آبادی پائی جاتی ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے۔  مراد یہ ہے کہ جیسی یہ زمین ایک سیارہ (planet) ہے جس کے اندر بستیاں اور آبادیاں ہیں اُسی طرح عالمِ بالا میں کچھ دوسرے سیارے بھی ہیں جن کے اندر ایسی ہی بستیاں آباد ہیں۔

قرآن مجید میں اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ عالمِ بالا میں اسی طرح سے دوسری مخلوقات پائی جاتی ہیں جس طرح اس زمین پر پائی جاتی ہیں۔ سورۂ شوریٰ میں آسمان و زمین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے: وَمَا بَثَّ فِیْھِمَا مِنْ دَآبَّۃٍ ط(الشورٰی ۴۲:۲۹)، ’’اور زمین اور آسمانوں میں، دونوں کے اندر جو مخلوق اُس نے پھیلا رکھی ہے‘‘۔ دَآبَّۃٍ زندہ مخلوق کو کہتے ہیں، جمادات اور نباتات کو دَآبَّۃٍ  نہیں کہتے۔ معلوم ہوا کہ زندہ مخلوقات صرف اسی زمین پر نہیں ہیں بلکہ دوسرے سیارے بھی ایسے ہیں جن میں زندہ مخلوقات موجود ہیں اور انھی کے لیے اَرْض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

مِثْلَہُنَّ کا مطلب لازماً یہی نہیں ہے کہ وہ سات ہی ہیں۔ یہ مثلیت [یکسانی] تعدُّد کے لحاظ سے ہے، تعداد کے لحاظ سے نہیں۔ یعنی جس طرح کہ آسمان متعدد ہیں، ایسے ہی زمینیں بھی متعدد ہیں لیکن اس سے مراد سات زمینیں نہیں۔ اس کائنات کے اندر جس کی کوئی حد نہیں ہے،   بے حساب سیارے ہیں اور اتنے بڑے بڑے سیارے ہیں کہ ہماری یہ زمین اگر اُن کے اندر ڈال دی جائے تو ایسا ہوگا جیسے کہ ایک بڑے مٹکے کے اندر چنے کا ایک دانہ ڈال دیا جائے___ تو اس کائنات کے اندر پائے جانے والے سارے سیّارے اور ستارے ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پوری کائنات میں آباد بس یہی ایک زمین ہو اور باقی پوری کائنات بے آباد پڑی ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ ، ’’ان کے درمیان امر نازل ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کا حکم اس زمین پر چل رہا ہے، اسی طرح دوسری زمینوں اور آسمانوں میں بھی چل رہا ہے۔ کائنات میں ہرجگہ اس کا حکم نافذ ہو رہا ہے۔ زمین کی طرح وہاں بھی اس کے احکام آتے ہیں اور نافذ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ پوری کائنات کا مالک اور فرماں روا ہے، فقط اس زمین کا مالک اور فرماں روا نہیں ہے۔

لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ،’’ یہ تم کو اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ کوئی چیز اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم کی مزاحمت کرنے والی نہیں ہے۔ اگر وہ کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے اور صرف اپنی ہَوا کو اشارہ کردے تو وہی اس کو ہلاک کرکے رکھ دے گی اور اس کے سارے آلات اور مشینیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ گویا اللہ کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے، وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا: وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا ،’’اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔ یعنی تم کوئی کام ایسا نہیں کرسکتے جو اللہ کے علم سے خارج ہو اور اس کو یہ علم نہ ہو کہ تم نے کیا کام کیا ہے۔ جو کچھ بھی تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور اس کے مطابق وہ تمھاری جزا اور سزا کا فیصلہ کرے گا___ صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ!(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

رمضان کا مبارک مہینہ ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آیا، غفرانِ عام کا مینہ برسا، اور ہم ابھی رحمتوں کی اس بہار سے بہرہ مند ہو ہی رہے تھے کہ یہ ہم سے رخصت بھی ہوگیا۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ وقت ہے کہ تھمتا نہیں۔ نعمتوں کی بارش ہورہی ہو، خوشیوں کا دل کش موسم ہو، راحتوں و فرحتوں سے ہمارا آنگن بھر رہا ہو، یا پھر مصائب و مشکلات آن گھیریں اور دکھ درد، رنج و اندوہ کے اَبر چھا جائیں، حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ گزرتا ہرلمحہ، قرآن کی اس پکار کا امین ہے کہ والعصر، یعنی غور کرو وقت اور زمانے کے تیزی سے گزرنے اور بدلنے پر، تم خسارے میں ہو!

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کوئی اور سچ ہو نہ ہو، اُس کی موت اُس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہوتا ہے۔ یہ بات کہ دنیا فانی ہے، میں فانی ہوں،اس کو پہچاننا، اس کو مان جانا، اور واقعی مان جانا، ایمان کے لیے شرطِ لازم تو ضرور ہے، البتہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اظہار ہی کافی ہے نہ صرف ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے بلکہ اپنے آپ کو دھوکا و فریب دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو فلاح کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے۔گویا پیدایش سے ہی خسارے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o    اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ  o مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍط وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (۲۹:۲-۵)  کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

 یہ دنیا کا قانون تو ہوسکتا ہے کہ اقرار باللسان سے جان خلاصی ہوجائے لیکن بارگاہِ ایزدی میں عدل کا تقاضا یہی ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز اعمال کی بنیاد پر ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہی مقصد تو بیان فرمایا کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)، یعنی اُس نے موت پیدا کی تاکہ اُس کے آنے تک جو مہلتِ حیات ہمیں عطا کی گئی ہے وہ اس میں آزمائے کہ ہم میں سے کون کون بہترین اعمال کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس امتحان میں اللہ رب العالمین ہمیں طرح طرح سے آزمائے گا۔ وہ فرماتا ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط (البقرہ ۲:۱۵۵) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔

اس سے کوئی مفر نہیں۔ موت کو تو ہم دُور گردانتے ہیں اور اُس کو واقعی سمجھنا بھی شاید مشکل محسوس ہوتا ہے، مگر ان کیفیات و واقعات سے تو ہر وقت دوچار رہتے ہیں۔ تاہم، اس بات میں ہمارے لیے بڑی ڈھارس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔    لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)۔ ہم پر اس دنیا کی  بڑی سے بڑی آزمایش آئے، کٹھن سے کٹھن ابتلا ہو، ہمارے اندر وہ قوت پنہاں ہے جس سے ہم اس کا مقابلہ پامردی سے کرسکتے ہیں۔ ہم غور کریں تو رمضان کے روزے اسی احساس کو پروان چڑھانے کے لیے فرض کیے گئے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o  (البقرہ ۲:۱۸۳)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ   تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔

 یہ تقویٰ کیا ہے، اسی احساس کا نام ہے۔

ہم رمضان میں اپنے کھانے پینے کی بالکل جائز اور فطری ضروریات سے رُک گئے صرف اس لیے کہ اللہ نے ہم سے اس کا تقاضا کیا۔ خواہش کے باوجود، نہ کھلے نہ چھپے، نہ کھایا نہ پیا۔ وسائل موجود تھے،اُن پر اختیار بھی تھا، لیکن صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی رضا و خوشنودی کی خاطر   ہم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے اندر وہ قوتِ ارادی اور قوتِ برداشت  بدرجہ اتم موجود ہے جس سے ہم اُن کاموں سے رُک جائیں جو اللہ کو ناپسند ہیں اور اُن اعمال کی طرف دوڑیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہی احساس، کہ اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، جب پروان چڑھتا ہے تب ہی ہم قرآن کی ہدایت کے جس کا نزول رمضان المبارک میں ہوا، مستحق قرار پاتے ہیں۔

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔

آج ہرمحلے میں تراویح کی نماز ہوتی ہے، قریہ قریہ، نگر نگر فہم قرآن کلاسیں منعقد ہورہی ہیں، دروسِ قرآن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن معاشرے میں اس کے اثرات مفقود نہ سہی تو محدود ضرور ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن انسان اور معاشرے میں حُریت فکر کا جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، اُس کے بنیادی تقاضوں اور منازل سے قرآن کے سننے اور سنانے والے، پڑھنے اور پڑھانے والے، سبھی غافل ہیں، کجا کہ وہ جو قرآن کی دعوت کو لے کر اُٹھنے کے دعوے دار ہوں۔ وہ لوگ اگر آج مرجع خلائق نہیں تو اس کی بھی شاید یہی وجہ ہے۔ حاملِ قرآن ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (الحشر ۵۹:۲۱)، اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔

پس اگر ہم قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، اُس کی دعوت کو لے کر اُٹھنا چاہتے ہیں، اپنے  آپ کو اور اپنے معاشرے کو اُس کی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو پھر اپنے اندر تقویٰ   اور وہ احساس و سوز پیدا کرنا، اور پروان چڑھانا ہوگا جو اس کے لیے شرطِ اوّل و لازم ہے، جس کی تعلیم و تربیت کے لیے رمضان آیا۔

یہ رمضان ہمیں کچھ زادِ راہ دے گیا ہے، تو اس پونجی کو روز بروز بڑھانے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھنے کے اہل ہوں گے اور تب ہی پوری دنیا پر اپنے اسلاف کی طرح چھا جائیں گے۔یہی مقصدِ حیات اور راہِ نجات ہے۔

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ میرے محسن اور قائد ہی نہ تھے بلکہ استاد اور مربی بھی تھے۔ان کا یہ تاریخی خط چراغ راہ کے ’سوشلزم نمبر‘ کی اشاعت  کے معاً بعد موصول ہوا اور مجھے ورطۂ حیرت میں    ڈال دیا۔ اپنی تمام مصروفیات ، تنظیمی خدمات اور علمی کاوشوں کے ساتھ قائد تحریک نے جس گہرائی میں جا کر ۷۰۰ صفحات کی اس اشاعت خاص کا مطالعہ کیا اور جس مشفقانہ انداز میں اس کی خامیوں کی طرف متوجہ کیا  اور آیندہ تحقیق و جستجو کے لیے مشورے دیے ،وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس خط میں مولانا کی تحریر کی شوخی (wit)کی ایک جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے، خصوصیت سے پہلا جملہ اپنی معنویت اور ادبیت ہر دو اعتبار سے زندہ رہنے والا تبصرہ  ہے۔ میری بدخطی پر اس میں جس خوب صورتی سے تبصرہ کیا ہے وہ مولانا ہی کا حصہ ہے ۔

 بظاہر تو سوشلزم ایک داستان پارینہ معلوم ہوتا ہے لیکن تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ وہ      افکار و نظریات جوایک دور میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں وہ مستقبل کے لیے کبھی بھی  غیرمتعلق (irrelevant) نہیں ہوتے۔ یونان کے اہلِ فکر و دانش کی باتیں اور کنفیوشس کے خیالات امتدادِ زمانہ  کے باوجود اپنا اثر دکھاتے رہتے ہیں۔ سرمایہ داری کے موجود ہ بحران کے نتیجے میں ایک بار پھر اشتراکیت کے بنیادی تصورات پر بحث و گفتگو کا آغاز ہو چکا ہے۔ چراغ راہ کا ’سوشلزم نمبر‘ اور سوشلزم کے تاریخی تجربے کے سلسلے کے جن پہلوئوں کی طرف مولانا محترم نے اشارہ فرمایا،    آج نہیں تو مستقبل کے اہل تحقیق کے لیے سوچ بچار کا سامان فراہم کرتے رہیں گے۔ یہی وہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے مولانا محترم کے اس خط کو ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔(مدیر)

آپ کا ’سوشلزم نمبر‘ میں نے بغور پڑھا۔ آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملہ میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ اس نمبر کے چند مضامین ایسے ہیں جن کو ازسرِنو درست کر کے الگ الگ مستقل کتابوں میں آفسٹ پر شائع ہونا چاہیے۔

آپ کا مضمون ’سوشلزم یا اسلام‘ بہت اچھا ہے مگر بعض جگہ نسبتاً زیادہ تفصیل کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسے مقامات پر جہاں آپ نے ایک جامع حکم تو لگادیا ہے مگر اس کو substantiate کرنے کے لیے کم از کم ضروری ثبوت بھی نہیں دیے ہیں۔ یہ آپ نے بغرض اختصار کیا ہے۔ اب کتابی صورت میں آپ اس کو مرتب کریں اور اس تشنگی کو دُور کریں۔ اشاعت کے لیے دیتے وقت پورے مضمون کی تصحیح کردیجیے، مگر تصحیح اپنے قلمِ خاص سے کرنے کے بجاے کسی صاف نویس سے کرایئے تاکہ کاتب غریب فتنے میں نہ پڑے۔

حسین خاں کا مضمون بہت مفید ہے۔ اس پر نظرثانی کرا لیجیے اور اسے بھی الگ کتابی صورت میں شائع کیجیے۔ آبادشاہ پوری کے دونوں مضامین یک جا کتابی صورت میں شائع ہونے چاہییں۔

ایک کتاب مسلمان ملکوں میں اشتراکیت کے تجربات پر مرتب ہونی چاہیے جس میں خلیل  [احمدحامدی] صاحب کے وہ مضامین جو ترجمان القرآن اور ’سوشلزم نمبر‘ میں شائع ہوئے ہیں اور حسان کلیمی صاحب، ظفراسحاق انصاری صاحب اور ممتاز احمد صاحب کے مضامین یک جا کردیے جائیں۔ ان مضامین کے علاوہ دو تین موضوعات ایسے ہیں جن پر مزید کچھ چیزیں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

  • روس میں اشتراکی انقلاب اور اشتراکی تجربے کی تاریخ:اس میں یہ بتایا جائے کہ وہاں اشتراکی انقلاب کس طرح برپا ہوا۔ بالشویکوں نے زمامِ کار پر کیسے قبضہ کیا اور قبضہ کرنے کے بعد کس سنگ دلی و بے دردی کے ساتھ روس کی آبادی کو اپنے اناڑی پن کے اشتراکی تجربوں کا تختۂ مشق بنایا، اور ان تجربوں میں انسانی جان و مال اور اخلاق کا کتنے بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ اسی سلسلے میں اس جابرانہ نظام کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں جو پہلے لینن کے تحت اور پھر اسٹالن کے تحت قائم ہوا۔
  • مارکسزم کو عملی جامہ پھنانے کے لیے لینن کے انقلابی ھتکہنڈے: یہ ایک بڑا دل چسپ موضوع ہے جس کا تفصیلی مطالعہ کرکے یہ بتایا جائے کہ مارکسزم کے نظریات کو لینن نے عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے اس میں کیا کیا ترمیمات کیں اور پھر انقلاب برپا کرنے کے لیے کیسی شدید شیطانی اسکیم بنائی۔ اس اسکیم کا ہرجزو شیطنت کا ایسا نمونہ ہے جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ابھی تک کسی نے اس کوکھل کر بیان نہیں کیا ہے۔ کوئی صاحب اگر اس پر کام کرنے کو تیار ہوں تو میرے پاس بھی اس سلسلے میں کچھ مواد موجود ہے۔
  • چین کا کمیون سسٹم:اس کا بھی تفصیلی مطالعہ کر کے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام کس طرح انسان کو اجتماعی مشین کا ایک پُرزہ بنا کر اس کی انسانیت کو فنا کردیتا ہے۔ لوگ صرف مجموعی نتائج کو دیکھ کر ان پر فریفتہ ہوتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ نتائج جن طریقوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ان میں انسان کا کیا حشر ہوتا ہے۔
  •  سوویت امپریلزم:ایک مستقل مضمون سوویت امپریلزم (Soviet Imperialism) پر بھی ہونا چاہیے جس میں یہ بتایا جائے کہ دنیا میں اس وقت صرف سفید سامراج ہی نہیں ہے بلکہ ایک سرخ سامراج بھی موجود ہے جو قوموں اور ملکوں پر اس طرح ہاتھ صاف کر رہا ہے جس طرح سفیدسامراجیوں نے ہاتھ صاف کیا ہے۔ مذہب کے بارے میں اشتراکی نقطۂ نظر اور اسلام پر روسی مستشرقین کی تنقیدات کو آپ کے ’سوشلزم نمبر‘ میں موضوعِ بحث تو بنایا گیا ہے مگر دونوں مضمون سرسری ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد ان دونوں موضوعات پر مختصر کتابیں طبع کی جائیں۔

جب ہمارا مشرقی بازو (مشرقی پاکستان) ہمارے ملک کا حصہ تھا، اس وقت وہاں ایک شخصیت ایسی تھی جو عدل و انصاف اور نظم و ضبط کی پابند ہوا کرتی تھی۔ وہ شخصیت جسٹس شہاب الدین کی تھی۔انھیں کچھ وقت کے لیے گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا تھا۔ ان کے ای ڈی سی نے لکھا ہے کہ موصوف ایمان داری، اصول پسندی، حق گوئی اور بے باکی میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ دن بھر گورنرہائوس میں سرکاری کام نمٹاتے اور فارغ ہونے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر اپنے معمولی سے مکان میں چلے جاتے اور صبح اپنے کام پر موجود ہوتے۔ گورنر ہوتے ہوئے خود کو غلامِ اوّل سمجھتے۔

ان کی اصول پسندی اور ایمان داری سے جہاں کچھ لوگ خوش تھے وہاں بہت سے ناخوش بھی تھے اور ان کی شخصیت کو پُراسرار بناتے اور شعوری طور پر بھی ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ ایک دن جب وہ گورنر کے منصب سے فارغ کردیے گئے تو انھوں نے نہایت سادگی سے اپنی میز پر سے عینک اُٹھائی، بریف کیس ہاتھ میں لیا اور اپنے اے ڈی سی سے کہا: ’’لو میاں! سنبھالو اپنا گورنرہائوس، ہم تو چلتے ہیں‘‘۔

اے ڈی سی نے کہا: ’’جناب! مجھے حفاظتی نقطۂ نظر سے آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑنا ہے، اس لیے میں آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔

وہ مسکرائے اور پھر ان کا اے ڈی سی، ڈرائیور کی برابر والی نشست پر بیٹھ گیا اور گاڑی   ان کی قیام گاہ کی طرف چل پڑی۔

ابھی وہ راستے میں تھے کہ جسٹس شہاب الدین کو کوئی چیز یاد آگئی۔ انھوں نے پریشان ہوکر ڈرائیور سے کہا: ’’میاں! واپس چلو، ہم گورنر ہائوس چلیں گے۔ ایک چیز ہم بھول گئے ہیں‘‘۔

گاڑی واپس ہوئی۔ جسٹس صاحب گاڑی سے اُترے اور تیزی سے چلتے ہوئے گورنر ہائوس میں اپنے کام کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ ان کا اے ڈی سی سمجھا کہ موصوف کوئی قیمتی شے یا دستاویز بھول گئے ہیں۔ چنانچہ وہ دبے پائوں ان کے پیچھے پیچھے گیا اور پردے کی اُوٹ سے یہ دیکھنے لگا کہ صاحب کیا چیز نکال کر باہر لاتے ہیں، لیکن اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ جسٹس صاحب نے میز کی دراز کھول کر روشنائی کی دوات نکالی، جیب سے قلم نکالا اور اپنے قلم کی ساری روشنائی دوات میں انڈیل دی۔ پھر وہ تیزی سے چلتے ہوئے واپس ہوئے۔ اے ڈی سی نے بھی پھرتی کے ساتھ ان سے پہلے اپنی نشست سنبھال لی۔

جب گاڑی روانہ ہوئی تو اس نے کہا: ’’جناب! میں اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور ٹوہ لگانے کے جرم پر معافی چاہتا ہوں، مگر آپ نے یہ کیا کیا؟ چند قطرے روشنائی کے بھی اپنے قلم میں گوارا نہ کیے‘‘۔

جسٹس صاحب نے اپنے اے ڈی سی کی جرأت پر حیرت کا اظہار کیا، مگر ناراض نہ ہوئے اور بولے: ’’میاں! ہمارے قلم میں گورنر ہائوس کی روشنائی کے چند قطرے کیوں رہتے، اس لیے  ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے لوٹا کر اپنے گھر لوٹیں‘‘۔

اے ڈی سی نے یہ سن کر اعتراض کیا: ’’مگر روشنائی کے چند قطروں کے بدلے جو اتنا سرکاری پٹرول واپسی کے لیے جلا وہ کس حساب میں شمار ہوگا؟‘‘

یہ سن کر جسٹس صاحب چونکے اور پھر مسکرا کر ڈرائیور سے مخاطب ہوئے: ’’میاں! ہم نے جو بات بتانے سے صبح تمھیں روکا تھا، اب وہ بات اے ڈی سی صاحب کو بتا دینا۔ وہ بھی اس وقت جب ہم گاڑی سے اُتر جائیں‘‘۔

تھوڑی دیر بعد جسٹس صاحب کا گھر آیا تو وہ اُتر گئے، مگر اے ڈی سی کو چین نہ آیا۔    اس نے فوراً ڈرائیور سے بات پوچھنا چاہی تو وہ افسوس کے ساتھ بولا: ’’آپ کو یہ بات ان سے نہیں پوچھنا چاہیے تھی، اس لیے کہ آج صبح سرکاری گاڑی میں جو پٹرول ڈلوایا گیا تھا وہ جسٹس صاحب نے خود ڈلوایا تھا، اپنی جیب سے‘‘۔ (ہمدرد نونہال، خاص نمبر، جون ۲۰۰۴ئ)

ایک اسلامی دستور کی ضروری خصوصیت یہ ہے کہ، اس کے اندر ایگزیکٹو (executive)  [انتظامیہ] کی ساری مطلق العنانیوں کا پوری طرح سدباب کردیا جائے۔ عام رعایا جس قانون کی تابع ہو، ایگزیکٹو کے ارکان بھی اُسی قانون کے تابع ہوں۔ جس طرح عام رعایا کو اُن کی بدکرداریوں پر عدالتوں میں مقدمہ چلاکر سزا دلائی جاسکتی ہے، اُسی طرح ایگزیکٹو کے بڑے سے بڑے ارکان کو بھی اُن کی بدکرداریوں پر عام عدالتوں میں، عام قانون کے ماتحت مقدمہ چلا کر سزا دلائی جاسکتی ہو۔ اسلامی شریعت میں ایگزیکٹو کا منصب صرف خدا کی شریعت کی تنفیذ اور اس کا اجرا ہے۔ اُن کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا کی شریعت میں کوئی تغیر کرسکیں، یا اس کے کسی جزو کو منسوخ کرسکیں، یا اُس کے کسی حصے کو من مانے قوانین سے بدل سکیں۔

اسلامی شریعت کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُسی طرح اللہ کے قوانین کے تابع ہیں، جس طرح ایک عام مسلمان اِن قوانین کے تابع ہے۔ اِس وجہ سے اسلامی نظام کے اندر ایگزیکٹو کا کوئی اُونچا سے اُونچا فرد بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے لیے قانون سے بالاتر کوئی مقام مخصوص کرانے کی کوشش کرے، یا قانون کو معطل یا ملتوی کرنے کی جرأت کرے۔ اسلامی قانون خدا اور اس کے رسولؐ کا بنایا ہوا ہے۔ اور خدا اور خدا کے رسولؐ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اُس کے اندر ترمیم یا تغیر کرسکیں۔ کسی دوسرے کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اس کے اندر سرِمُو تغیر کرسکے۔

اگر آپ نے اپنے دستور کے اندر کوئی ایسا خلا چھوڑا، جو آپ کے ایگزیکٹو کے ارکان کو اس بات کا موقع دیتا ہو، کہ وہ کسی پہلو سے اپنے آپ کو عام قانون سے بالاتر بنا سکیں، تو آپ  اس ملک میں قیصروکسریٰ کا نظام ہی لائیں گے، وہ نظام نہیں لائیں گے جو حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے قائم کیا تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے جو نظام قائم کیا تھا، اُس کی سب سے بڑی خصوصیت کا اظہار خود حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس طرح فرما دیا تھا کہ: ’’میں تمھارے اندر خدا کی شریعت کو جاری کرنے والا ہوں، اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں۔ اور اگر مَیں اس شریعت سے سرِمُو انحراف کروں تو تم مجھے ٹھیک کردینا‘‘۔

اسی طرح عدلیہ سے متعلق بھی دستور میں چند باتوں کی تصریح نہایت ضروری ہے، جو عدلیہ کے مزاج کو اسلامی بنانے کے لیے ضروری ہیں:

  • آزاد ہو: پہلی چیز یہ ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کی ہرقسم کی مداخلت کے امکانات سے بالکل محفوظ کیا جائے، تاکہ بے لاگ انصاف، جو ہر عدلیہ کے قیام کا اصلی مقصد ہے، ہرشخص کو حاصل ہوسکے۔
  •  مفت انصاف مھیا ہو: دوسری چیز یہ ہے کہ ہر باشندۂ ملک کے لیے مفت عدل و انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری لی جائے، تاکہ ہرمظلوم بغیر کوئی قیمت ادا کیے انصاف حاصل کرسکے۔ اسلامی نظام میں ہرمظلوم کا حکومت پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ اُس کی داد رسی ہو، اُس کو اُس کا چِھنا ہوا حق ملے، اور اُس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یہ بات نہایت ہی شرمناک ہے کہ ایک شخص کو اپنا واجبی حق حاصل کرنے کے لیے قیمت ادا کرنی پڑے۔ جس نظام میں لوگوں کو اپنے واجبی حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہو، وہ نظام ہرگز اسلامی نظام نہیں ہوسکتا۔ خلافت ِ راشدہ میں کسی شخص کو بھی اپنی مظلومیت کی داد حاصل کرنے کے لیے کوئی قیمت نہیں اداکرنی پڑتی تھی۔ جو شخص مظلوم ہوتا حکومت پر اُس کا یہ ناقابلِ انکار حق قائم ہوجاتا کہ وہ اُس کے لیے انصاف مہیا کرے۔
  •  یکساں قانون و نظامِ عدالت:تیسری چیز یہ ہے کہ ہمارے دستور میں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ راعی اور رعایا، حاکم اور محکوم، امیر اور مامور، ہر ایک کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہوگا۔

اسلامی شریعت میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ قانون اور نظامِ عدالت میں کسی قسم کی تفریق کی جاسکے۔ جاہلی نظاموں میں قانونی مساوات کا دعویٰ تو بڑی بلند آہنگی سے کیا جاتا ہے اور ہرملک کے دستور میں قولاً اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوں گے، لیکن عملاً نہ صرف ایگزیکٹو کے ارکان، نہ صرف جمہوریتوں کے صدر، نہ صرف ملک کے بادشاہ، بلکہ بعض حالات میں پارلیمنٹوں کے ارکان اور ملک کے دوسرے شرفا و اعیان کو بھی عام قانون اور عدالتوں کی داروگیر سے بالکل بالاتر کردیا جاتا ہے۔

یہ صورت حال ایک خالص جاہلی صورتِ حال ہے، جس کواسلام سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اسلام میں غریب اور امیر، امیر اور مامور، سب کے لیے ہرحالت میں ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ اور اسلام نے اِس بات کو کسی حال میں رَوا نہیں رکھا ہے کہ قانون اور عدالت کے نظام میں سرِمُو کوئی تفریق کی جائے۔

یہ مسئلہ کوئی استنباطی اور اجتہادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے بارے میں قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تصریحات بھی موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین  کے عہد کی متعدد عملی اور واقعاتی شہادتیں بھی موجود ہیں۔ حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں بعض   ترفع پسند سرکاری حکام نے حضرت عمرؓ کے سامنے حکومت کی ساکھ قائم رکھنے کے لیے یہ خیال پیش کیا تھا کہ ایگزیکٹو کے ارکان کو عام قانون اور عام عدالتوں کی داروگیر سے ایک حد تک بالاتر کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اُن کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور صاف صاف یہ فرمایا کہ: اسلامی شریعت میں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قانون سے بالاتر کوئی جگہ حاصل نہیں تھی تو میں کسی دوسرے کو قانون اور عدالت کی داروگیر سے، کسی درجے میں بھی سہی، کس طرح بالاتر قرار دے سکتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے اس اعلان نے اس حقیقت کو بالکل غیرمشتبہ طور پر واضح کردیا کہ اسلام نے ہرشخص کے لیے قانونی مساوات کا جو حق تسلیم کیا ہے، وہ حق ایسا نہیں ہے جو ایک طرف قانونی مساوات کے بلندبانگ دعوے کے ساتھ لوگوں کو دیا جائے اور دوسری طرف انتظامی قوانین (Administrative Laws) کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اِس حق کو بالکل سلب کرلیا جائے اور معاشرے کے اکابر مجرمین کو قانون اور عدالت سب کی گرفت سے بالکل آزاد کردیا جائے، تاکہ  وہ خدا کی زمین کو ظلم اور فساد سے بے روک ٹوک بھرتے رہیں۔

اسلام نے جس قانونی مساوات سے دنیا کو آشنا کیا ہے اُس کی میزان میں فاطمہؓ بنت محمدؐ اور ایک معمولی بدوی عورت بالکل مساوی درجے پر ہیں۔ حضرت عمرؓ ایک معمولی بدوی کی پشت پر جس طرح کوڑے لگوا دیتے تھے اُسی طرح ایک بڑے سے بڑے گورنر اور بڑے سے بڑے فاتح کو بھی، اگر کسی جرم کا مرتکب پاتے تو بے تکلف عام قانون کے تحت اُس کو سزا دلوا دیتے۔ وہ جس قانون کو دوسروں پر جاری کرتے تھے اپنے آپ کو بھی اسی قانون کے ماتحت سمجھتے تھے، اور برابر یہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح میں دوسروں کو انصاف کے آگے جھکائوں گا اسی طرح خود اپنے آپ کو بھی انصاف کے آگے جھکائوں گا۔

  • کتاب و سنت - ماخذِ قانون سازی: مقننہ سے متعلق ہمارے دستور کو اس بات کی تصریح کرنی چاہیے کہ وہ قانون سازی کے معاملے میں اوّل تو کتاب و سنت کو اصل ماخذتسلیم کرے گی۔ ثانیاً، وہ کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہؓ کے حدود کے خلاف کبھی کوئی قدم نہ اُٹھائے گی۔ عام تدابیر اور مصالح کے لیے اُس کو قانون سازی کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی قانونِ خدا اور رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ جو قانون خدا، اس کے رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہو، وہ اسلام میں باطل ہے۔

اسی طرح ہمارے ائمہ اور فقہا نے جو اجتہادات فرمائے ہیں، وہ بڑی قدروقیمت رکھتے ہیں۔ ہمارے ائمہ اجتہاد کی تمام شرائط کے حامل تھے اس لیے، اگرچہ ان کے اجتہادات اور استنباطات کو غلطی سے مبرا نہ قرار دیا جاسکے، تاہم یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی حق و صواب سے جس قدر اقرب ان کا اجتہاد ہے دوسروں کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کوئی ایسا اجتہاد جو تمام ائمہ کے اجتہاد سے مختلف ہو، نہ عامۃ المسلمین کو مطمئن کرسکے گا، نہ اہلِ علم کو۔ پس، حق سے قریب تر راہ اس معاملے میں یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے جو تمام اہلِ سنت کے اجتہاد کے خلاف ہو۔(روداد جماعت اسلامی ، ششم، ص ۳۳۲-۳۳۷)

ترجمہ: سید قاسم محمود

(آخری قسط)

پس چہ باید کرد

یہ سوچ ہماری روحانی ژولیدگی [الجھائو] کی علامت ہے، اور اس کی بڑی وجہ صدیوں سے چلے آنے والا ہمارا زوال ہے کہ کوئی سیاسی تحریک جو بیک وقت اسلامی تجدید و احیا کا بھی دعویٰ کرے، وہ اپنے اصل مقصد سے منحرف ہونے کے باعث ضرور ناکام ہوجاتی ہے اور گھٹ گھٹا کر مصر، ترکی، اور شام جیسے ملکوں کی ’قومی تحریک‘ بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثرو بیش تر لیڈروں کا غالب رجحانِ طبع یہ ہے کہ وہ ہماری جدوجہد کے روحانی اسلامی پس منظر کو تو (غالباً دانستہ) نظراندازکردیتے ہیں، اور مسلمانوں کے مطالبۂ آزادی کے جواز میں ہندو اکثریت کے ساتھ ان کے تلخ تجربات پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو ہندوئوں کے سماجی رسوم و روایات اور ثقافتی مظاہر سے مسلمانوں کے اختلافات بیان کر کے ایک ’جداگانہ قوم‘ ثابت کرنے پر زورِ بیان صرف کردیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جداگانہ مسلم قومیت کی حقیقت پر (اور بلاشبہہ یہ حقیقت ہی ہے) لفظ ’قومیت‘ کے مغربی مفہوم میں باتیں کرنے کا رجحان بڑھتا چلاجارہا ہے، بجاے اس کے کہ لفظ اُمت یا ملت کے اسلامی مفہوم میں ’جداگانہ مسلم قومیت‘ کے مفہوم کی تشریح کی جائے۔ ہمیں بلاخوف و خطر،ببانگ دہل، ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے کہ لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہاں، ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں، بلکہ ہم اس مفہوم میں ایک قوم ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں۔ ہم لسانی وحدت بھی نہیں ہیں، حالانکہ اُردو مسلمانانِ ہند کی زبان کی حیثیت سے بڑی ترقی یافتہ زبان ہے۔ ہم انگریزوں یا عربوں یا چینیوں کی طرح ’قوم‘ نہیں ہیں، اور نہ کبھی اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں اور یہی ایک حقیقت کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی و رواجی مفہوم میں نہ تو قوم ہیں اور نہ قوم بن سکتے ہیں ، ہماری اندرونی قوت کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ کیونکہ اس حقیقت کی بنیاد پر ہمیں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ پورے کرئہ ارض پر، پوری دنیا میں، ہم، فقط ہم، بشرطیکہ ہم ایسا چاہیں، اُس شان دار منظر میں حیاتِ نو پیدا کرسکتے ہیں جو چودہ سوسال پہلے عرب کے صحرائوں سے اُٹھا تھا۔ ایسے آزاد مردوں اور عورتوں کی ایک اُمت کا شان دار منظر جو نسل، زبان اور وطن کے اتفاقی و حادثاتی بندھنوں کے باعث متحد و یک جان نہیں ہوئے تھے، بلکہ ایک مشترکہ نصب العین سے اپنی باشعور اور آزادانہ وفاشعاری کے باعث متحد و متفق ہوئے تھے۔

بدقسمتی سے ہمارے صفِ اوّل کے اکثر رہنما مسلمانوں کے اس گم کردہ راہ اور تشکیک پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نزدیک اسلام ’ثقافتی روایت‘ کے سوا کچھ نہیں اور یوں پاکستان بھی ان کے خیال میں محض اس راہ کا ایک نشان ہے۔ پہلا قدم سہی، جس پر نام نہاد ’ترقی یافتہ‘ مسلم اقوام دیر سے چلتی آرہی ہیں، یعنی بہ تمام و کمال قومیت کی راہ۔ ہماری جدوجہد کے اسلامی پہلو پر یہ رہنما کبھی کبھار، زبانی کلامی کچھ کہہ بھی لیتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت اسلام کے مذہبی اصولوں کے مطابق مسلمانوں کی ذاتی و اجتماعی زندگی ڈھالنے کی طرف اشارے کنایے میں بھی بات نہ کرنے کو ’جدیدیت‘خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے مطالبے کو بھی اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں انھیں عار محسوس ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نیم دلانہ رویہ تحریکِ پاکستان کے بدن سے، سب سے متحرک اور فعال عنصر، یعنی روحانی عنصر کو نکال لیتا ہے۔ اور یہ چیز پاکستان کے مستقبل کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ باہر کی کوئی مخالفت اس خطرے کی پاسنگ بھی نہیں ہے۔

عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی پڑوسی اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں۔ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت (یا کمزوری) پر ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے لیے ہماری آرزو نتیجہ ہے ہماری تخلیقی قوت اور ہمارے قلبی خلوص کا، اگر منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے منظر کے بارے میں ہماری بصارت واضح اور ہماری بصیرت پاکیزہ ہے، اگر مقصد کو مقصد بالذات جان کر اس سے محبت کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں، اس عقیدے کے ساتھ کہ اپنے مطلقہ مفہوم میں یہ خیراعلیٰ ہے (یا یوں کہیے کہ   اللہ تعالیٰ کی نظر میں خیراعلیٰ ہے) اور محض اس لیے خیر نہیں ہے کہ بہ نظر ظاہر ہمارے لیے اور ہماری قوم کے لیے معاشی طور پر فائدہ رساں ہے۔ تب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکتی جو دنیا بھر میں تجدید و احیاے اسلام کا دروازہ کھول دے گا۔

اس کے برعکس اگر خوداختیاری کے لیے ہمارا مطالبہ نتیجہ ہے غیرمسلم اکثریت کے تسلط کے خوف کا، اگر ہمارے ذہن پر مستقبل کی تصویر کا محض نیگیٹو ثبت ہے، اگر یہ کسی بلندوبالا چیز کی خاطر آزاد ہونے کی آزادانہ آرزو نہیں ہے، اگر یہ صرف کسی چیز سے آزاد ہوجانے کی گداگرانہ خواہش ہے، اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے، اگر اسلام ہمارے لیے محض ایک عادت ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپا بن کر رہ گیا ہے، تب ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی طاقت کے بل پر پاکستان کی قسم کی کوئی چیز حاصل کرلیں، لیکن ایسا پاکستان اُس پاکستان کے برابر نہ ہوگا، جسے حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے حد و شمار امکانات سے نوازا ہے۔ ایسا پاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ’قومی ریاست‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھا، بہت سی ریاستوں سے بُرا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بساہوا خواب، اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہوا خواب جنھوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں، جب یہ نام بھی پردئہ شہود میں نہ آیا تھا۔ وہ خواب کیا تھا؟ ایک ایسی ہیئت حاکمہ کا قیام جس میں رسول کریمؐ کے اسوئہ حسنہ اورسنت کو ہرقدم پر، ہرپہلو سے عملی حقیقت کا جامہ پہنایا جاسکے۔

فیصلے کی گہڑی آن پھنچی ھے

اگر ہمارے موجودہ رہنما ہمارے عوام کی دل کی دھڑکنیں سن سکیں، تو انھیں یقینا احساس ہوجائے گا کہ عام مسلمان محض ایک ایسی نئی ریاست کا خواب نہیں دیکھتا، جس میں مسلمانوں کو موجودہ معاشی مراعات سے کچھ زیادہ حاصل ہوسکیں۔ وہ تو ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں احکامِ الٰہی کی فرماں روائی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی معاشی مراعات و سہولیات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ یقینا پروا کرتا ہے، بہت زیادہ کرتا ہے۔ معاش ہرشخص کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتا ہے، اور بجا طور پر محسوس کرتا ہے کہ ایک سچی اسلامی ریاست میں اسے نہ صرف معاشی انصاف اور مادی ترقی کا مساوی موقع ملے گا، جو فی الوقت اسے حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کے انسانی وقار اوراس کے روحانی استحکام میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہوگا۔

ہمارے عام آدمی کا یہ احساس، یہ اُمید، یہ آرزو، یہ خواب، جیساکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں، منتشر ہے، بکھرا ہوا ہے، اُلجھا ہوا ہے۔ یہ عقلی نہیں، جبلی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہن صاف نہیں ہیں کہ نئی اسلامی ریاست، جس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے قیام کے بعد کیسی اورکس شکل و صورت کی ہوگی۔ وہ پوری طرح نہیں جانتے کہ اس ریاست کے قیام کے لیے انھیں کیا ایثار کرنا ہوگا، اور کیا قیمت ادا کرنی ہوگی اور کیا قربانیاں کس کس شکل میں دینی پڑیں گی۔ وہ صاف دل اور صاف ذہن ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلامی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے۔ صدیوں سے وہ جہالت، ضعیف الاعتقادی اور سیاسی تذلیل کے ڈونگے کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ وہ صرف نعروں اور زبانی کلامی وعدوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ وہ اپنے باطن میں چھپی ہوئی خواہشوں، اپنے دل میں پوشیدہ ارمانوں اور اپنے ذہن کے لاشعوری خوابوں کے درمیان کوئی ربط پیدا نہیں کرسکتے اور انھیں ان کے اظہار پر قدرت حاصل نہیں ہے۔ وہ محسوس تو کرتے ہیں، لیکن انھیں اپنے محسوسات کے اظہار کا سلیقہ نہیں آتا۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ انھیں ان کی خواہشات، محسوسات اور خواب سمیت آتش فشانی جہنم میں جلنے کو ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس جہنم سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ یہ راستہ جاننے کے لیے روحانی قیادت کی ضرورت ہے، جس کی اہمیت سیاسی قیادت سے کم نہیں۔

ہمارے رہنمائوں کے سامنے اصل کرنے کا کام کیا ہے؟ ہمارے عوام کے خوابوں اور خواہشوں کو ایک تخلیقی اور مثبت رُخ پر منظم کرنا، ان میں اسلام کی روح سمونا۔ ان کی تنظیم صرف سیاسی طور پر نہیں، بلکہ پاکستان کے عظیم تر مقصد کی خاطر روحانی اور نظریاتی طور پر بھی کی جائے۔ انھیں صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ انھیں ایک جماعت میں منظم کردیا جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کو زبان دے دی جائے۔ ملت ان سے کچھ اور بھی تقاضا کرتی ہے۔ بلاشبہہ تنظیم کی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی احتجاج بھی ایک ضرورت ہے۔ لیکن یہ تمام ضرورتیں ہمارے نظریاتی مقصد کے حصول کی خاطر ہونی چاہییں، نہ کہ جیساکہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے، یہ دوسرے تیسرے درجے کی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سندِجواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، وہ یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا، تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔

ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں تو گنتی کے چند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریکِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے، لہٰذا ہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پر وضاحت و تشریح کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے جو اُن اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔

چند سال پہلے تک اس کام کی ضرورت اتنی شدید نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری منزلِ مقصود بھی واضح نہ تھی، لیکن جیساکہ آج کل کے حالات کا تقاضا ہے، ملک میں ایسی زبردست تبدیلیاں پے بہ پے آرہی ہیں جن کے سبب مستقبل قریب میں پاکستان کا حصول و قیام ایک ممکن العمل چیز نظرآرہا ہے۔ اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جون ۱۹۴۸ء سے پہلے پہلے پاکستان نام کی ایک نئی آزاد اور خودمختار ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آجائے گی۔ یہی ہے وہ نکتہ جو میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ہے: ’کسی نہ کسی شکل میں‘‘ ___ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ پاکستان کی شکل کیسی ہو۔ اسی لیے مَیں کہا کرتا ہوں کہ یہ سوال کہ ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ اب محض نرے غوروفکر کے صاف ستھرے شعبے سے نکل کر فوری نوعیت کی عملی سیاست میں داخل ہوگیا ہے اور پوری شدت سے پوچھ رہا ہے: ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘

یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔ لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے۔ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: ’’کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثر اور عمل دخل نہیں ہے، نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں، نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اُس شاہراہ پر پہلا قدم جو انسانِ کاملؐ نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟

اگر کبھی کسی قوم کے سامنے فیصلے کی گھڑی آیا کرتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں شعوری فیصلہ کرے، تو مسلمانانِ ہند کے لیے فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے رہنمائوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور صحیح فیصلہ کریں۔

اس سے پہلے کبھی مسلم رہنمائوں کو ایسا اختیار تفویض نہیں ہوا کہ وہ ملت کی تقدیر کا فیصلہ  صحیح (یا غلط) سمت میں کریں۔ یہ ان کے اختیار و طاقت میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنا فیصلہ سنائیں کہ ہندی مسلمان صحیح معنی میں مسلمان اور حیاتِ نو پانے والے اسلام کے پشت پناہ بن جائیں گے، یا پھر نام نہاد مسلمان گروپوں اور ریاستوں کے ہجوم میں ایک اور مسلمان گروپ اور ریاست کا اضافہ ہوجائے گا، جہاں اسلام کی حیثیت ایک ثقافتی ٹھپے سے زیادہ نہیں، جہاں اسلام اور اس کے  اصول و احکام اُمت المسلمین کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود کے لیے ناگزیر خیال نہیں کیے جاتے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت، مَیں پھر دہراتا ہوں، مسلم لیگ کی موجودہ قیادت کے ہاتھ میں ہے فیصلہ کرنا، صحیح فیصلہ کرنا، کیونکہ حصولِ پاکستان کے لیے جوش و خروش کی جو زبردست لہر اُٹھی ہے وہ مسلم لیگ نے اُٹھائی ہے، اور اس نے اس ملک کے تمام مسلم عوام کو اُٹھا دیا ہے، انھیں متحد کردیا ہے، اور ایسا متحد کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ماضی کی تاریخ میں اتحاد کا ایسا شان دار مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اور جوش و خروش کی اس لاثانی لہر نے ہمارے رہنمائوں کو مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسی باوقار طاقت تفویض کی ہے ، جو گذشتہ کئی صدیوں کے دوران میں کسی قوم نے اپنے رہنمائوں کو کبھی تفویض نہ کی تھی۔ گو، اسی بااختیار وقار و طاقت کی بنا پر ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے۔ انھیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی ذمہ داری ’سیاسی تدبر‘ سے شروع اور ’سیاسی تدبیر‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی تدبیریں خواہ کتنی بھی ضروری اور ناگزیر ہوں، یہ محض ثانوی نوعیت کی ہوتی ہیں اور لیڈروں کے فرائض میں ایک عبوری اور عارضی مرحلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیڈروں کا اصل منصب و فریضہ ’قوم سازی‘ ہے۔ چونکہ ہماری قومیت کی بنیاد اسلام ہے،اس لیے ہمارے لیڈروں کو فوراً اسلام کی اصطلاحوں میں سوچنا شروع کردینا چاہیے، کیونکہ مستقبل کے لیے افکار تازہ کی نمود کو ملتوی کیے جانا اب کسی اعتبار سے مناسب نہیں (یہ سوچنا اور کہنا اب غلط اندیشی ہے کہ ’’ایسے امور و معاملات پر اُس وقت غور کیا جائے گا جب پاکستان قائم ہوجائے گا‘‘)۔ ہمارے لیڈروں کو اسلام کے تقاضوں اور مسلم قوم کے عارضی مفادات کے درمیان خیالی خط نہیں کھینچنا چاہیے کیونکہ اسلام کے تقاضے جامع اور ہمہ گیر ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے روحانی معاملات بھی شامل ہیں اور معاشی مفادات بھی۔اسلام کے تقاضوں کے آگے مکمل ، رضاکارانہ اور باشعور دست برداری واحد حل ہے۔

مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے،اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریکِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہر گھنٹے اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔

ھمارا اخلاقی قدوقامت

یہ بات جہاں عامۃ المسلمین پر صادق آتی ہے، وہاں ہمارے لیڈروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ قرار دیتے ہیں اور اسے محض ایک نعرہ نہیں سمجھتے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ اسلام کے عین تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا ہمارے لیڈروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام ایک زندہ محرک ہے،اور ان کے لیے اظہار خلوص و عقیدت ہم پر واجب ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی صرف زبان پر اسلام کا نام آتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب وہ کسی عوامی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا کوئی اخباری بیان ان کی طرف سے جاری ہوتا ہو۔ حالانکہ ان کا شخصی و ظاہری رویہ اسلام سے اسی طرح خارج ہوتا ہے جس طرح یورپ اور امریکا کے کسی عام سیاسی لیڈر کا شخصی و ظاہری رویہ عیسائیت سے خارج ہوتا ہے۔ اگر حصولِ پاکستان کی خاطر ہماری جدوجہد کو اس مرض ’قومیت‘ کی قابلِ رحم حالت میں ضائع نہیں ہونا ہے، جس میں پوری دنیاے اسلام مبتلا ہے، تو ہمارے لیڈروں کا رویہ فوراً بدل جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ ہمارا کام نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخص کے ذاتی عقائد کے نگران و منصف بن جائیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، تاہم ملت کو اپنے رہنمائوں سے یہ توقع کرنے کا حق حاصل ہے کہ ان کا طرزِ زندگی اس نظریے کے عین مطابق ہو، جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔

آخر میں ایک اور بات___ اگر ہمارے لیڈر اسلامی شعورو آگہی کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر پہنچ جائیں، تب بھی صرف ان کی مثال ہمارے روحانی مقصد کے حصول و تحفظ کے لیے ناکافی ہوگی۔ ہماری قوم کو اخلاقی و معاشرتی زوال کے اس گڑھے سے نکل کر اُٹھنا ہوگا، جس میں وہ گری پڑی ہے۔ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت نیچے ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ آرام طلبی اور تن آسانی سے ہمیں محبت ہے۔ جب ذاتی مفاد کی کوئی بات سامنے آئے تو ہمیں جھوٹ بولنے سے عار نہیں۔ ہمیں اپنے وعدے وعید توڑنے میں مزا آتاہے۔ جب بدعنوانی، خودغرضی، چال بازی، فریب کاری کے واقعات ہماری  روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے میں آتے ہیں، ہم بڑی معنویت سے مسکراتے یا بڑی ڈھٹائی سے ہنستے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بیش تر افراد کو کسی چیز سے کوئی سچی لگن ہے، تو وہ چیز وہ ہے جسے عرفِ عام میں ’کیریئر‘کہتے ہیں۔ اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے چھوٹے سے چھوٹے  فائدے کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں، جو ان سے ہوسکتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے پیٹھ پیچھے غیبت کرنا اور بہتان لگانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم نے اپنے وجود کے اصل سرچشمے، یعنی اسلامی تعلیمات سے فیض یاب نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔

ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایک سچے اسلامی ملک پاکستان کے شایانِ شان سچے شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایسا سچا اسلامی ملک پاکستان حاصل کرسکتے ہیں، جس کے حصول کی خاطر ہم اپنی موجودہ اخلاقی پستی سے اُوپر اُٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں؟ جب ہمارے دل میں حُب ِ الٰہی اور خوفِ خدا ہی موجود نہ ہو، تو ہم کیوں کر حکمِ الٰہی کو اپنے معاشرتی نظام کا مقتدر بنا سکتے ہیں؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان سوالوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر مسلمان اپنے طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہرقدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے ، تو یقین جانیے کہ نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد پوزیشن حاصل ہونے والی ہے،و ہ حاصل نہ ہوسکے گی۔

جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ عامۃ المسلمین جبلی طور پر پاکستان کی اسلامی روح کا احساس رکھتے ہیں، اور دل و جان سے چاہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ پاکستانی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز بن جائے، لیکن ان کے خیالات میں ابہام اور ژولیدگی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جانا کدھر کو ہے۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ رہنمائی رہنما کا منصب ہے۔ سوال گھوم پھر کر پھر قیادت کے سامنے آگیا ہے۔

مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ عصرحاضر کی مسلم قیادت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی صرف سیاست و معیشت کے میدان میں نہ کریں، بلکہ روحانی اور اخلاقی میدان میں بھی کریں اور مسلمانوںکو باور کرائیں کہ:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد ۱۳:۱۱)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی سیاسی و معاشی حالت بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس کی مجموعی اخلاقی حالت بھی بلند نہ ہو۔

مغربی اور بھارتی کلچر کے فروغ پر کالموں کی اشاعت کے بعد، انصارعباسی کے اپنے اخبارنے، ان کی تحریر شائع نہ کی اور میڈیا کے بڑوں نے کچھ اور ہی فیصلے کیے۔ اس پر ان کا اپنا تبصرہ پڑھیے۔ ادارہ

ہمارا دین ہمیں محض اسباب پر بھروسا کرنے کے بجاے ایمان اور اصول کی بنیاد پر لڑنے اور جدوجہد کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ذاتی عناد اور دوسروں سے بلاوجہ کی دشمنی پالنا مسلمانوں کا وطیرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی دشمنی اور دوستی صرف اپنے اللہ کی خاطر ہونی چاہیے اور دشمنی بھی برائی سے نہ کہ برائی میں ملوث فرد سے۔ لیکن ہم انسان غلطی کرتے ہیں۔ اختلاف راے کو دشمنی میں بدل دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف فتنے میں پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بھی نجانے ایسا کتنی بار کیا ہوگا جس پر میں اپنے اللہ سے اور اُن لوگوں سے جن کا دل دکھایا معافی کا طلب گار ہوں۔

یہاں میں واضح کردوں کہ میری کیبل آپریٹروں سے کوئی دشمنی ہے نہ ٹی وی مالکان سے کوئی عناد۔ میری جنگ تو بے حیائی اور انڈین اور مغربی کلچر کے خلاف ہے مگر کیبل آپریٹر اور میڈیا مالکان مجھے اپنا دشمن سمجھ بیٹھے۔ اپنی خفگی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ فیصلہ کردیا کہ میں تو کیا، کسی اینکرپرسن کو اس مسئلے پر بات نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اخباری اطلاعات کے مطابق فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینلوں سے متعلق محترم قاضی حسین احمد اور محترم جسٹس وجیہہ الدین کی درخواستوں پر سنے جانے والے کیس کا بھی مکمل بلیک آئوٹ کیا جائے گا۔ گویا میڈیا نے خود ہی میڈیا اور آزادیِ راے پر حملہ کر دیا۔ دنیاوی اسباب، اپنی برادری کی جمعیت اور طاقت کے بل بوتے پر صحافیوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانے کی ایک نئی مگر بڑی سازش ہے جس کو پیمرا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے بس میں ہے کہ وہ میڈیا کو بلیک میل کرکے صحافیوں کو کسی ایسے ایشو پر بات کرنے سے روک سکتے ہیں جو غیرقانونی اور غیراخلاقی ہو۔ بظاہر وہ یہ بھی طاقت رکھتے ہیں کہ میرے لکھے ہوئے کو ناقابلِ اشاعت قرار دلوا دیں۔ ابھی تک وہ اس بات پر کامیاب ہوئے ہیں کہ کوئی ٹی وی چینل یا کوئی اینکرپرسن فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینل کے موضوع پر بات نہ کرے۔ کئی اینکرپرسنز کو یہ بتادیا گیا ہے کہ وہ فحاشی اور غیرقانونی انڈین چینلوں کے مسئلے کو اپنے شوز کا موضوع نہ بنائیں۔

مالکان تو ڈر گئے، بلیک میل ہوگئے، ان کو اپنے اپنے کاروبار کو بچانے کی فکر پڑ گئی مگر اب اصل امتحان ہے ہم صحافیوں کا۔ اب امتحان ہے بڑے بڑے اینکرپرسنز کا، کیونکہ یہ کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ آزادی صحافت پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اب یہ امتحان ہے پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کہ وہ کس طرح اس حملے کا جواب دیتی ہیں۔ ابھی تو ہر طرف ہُو کا عالم ہے۔ سب خاموش ہیں ماسواے سید طلعت حسین کی ویب سائٹ،سچ ٹی وی اور کراچی سے اُمت اور جسارت اخبار کے کسی نمایاں اخبار یا ٹی وی چینل نے صحافت کی آزادی پر مارے جانے والے اس شب خون پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیبل آپریٹروں اور میڈیا مالکان کے بجاے اگر یہ حملہ کسی اور جانب سے ہوتا تو پاکستان کا میڈیا، صحافی، اینکر پرسنز، انسانی حقوق کے علَم دار، سیاست دان سب نے آسمان سر پہ اُٹھا لینا تھا۔

اس وقت تک mainstream میڈیا میں اس موضوع پر موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کیبل آپریٹروں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کسی صورت غیرقانونی انڈین چینلوں کو   بند نہیں کریں گے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے اپنی غلط کاریوں کو چھپانے کے لیے کیبل آپریٹروں کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔ کون نہیں جانتاکہ میڈیا مالکان کے اہم رہنمائوں کے اپنے چینل انڈین گانوں اور فلموں سے چلتے ہیں۔ پی ایف یوجے، اے پی این ایس، سی پی این ای سب بے خبر بنے بیٹھے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود میں نااُمید نہیں۔

مجھے امید ہے کہ سب میڈیا مالکان اس ڈکیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز میں سے وہ باضمیر اور جرأت مند صحافی جنھوں نے ہرکڑے وقت میں اپنی آواز بلند کی، اس موضوع پر بھی اپنی آواز ضرور اُٹھائیں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کا پہرہ دینے والے اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس ذات باری تعالیٰ کے غضب اور قہر سے غافل ہیں اس لیے اپنے غیرقانونی انڈین چینلوں کے علَم برداروں نے میڈیا کو خاموش کرنے کا خوب بندوبست کیا مگر اس سب کے باوجود نسبتاً چھوٹے اخباروں اور بالخصوص سوشل میڈیا نے ساری سازش عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ سوشل میڈیا میں اس مسئلے پر خوب بحث ہورہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا میں سرگرم لبرل اور سیکولر طبقہ اس بحث میں داخل ہونے سے اس لیے گریزاں ہے کیونکہ ان کے لیے فحاشی و عریانیت اور انڈین کلچر کا پاکستان میں پھیلائو کوئی مسئلہ نہیں۔

انصار عباسی دی نیوز اور روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار

انٹر نیشنل مسلم ویمن یو نین کواقوامِ متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسلوں اور کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے اجلا س میں ممبر کی حیثیت سے شر کت کی دعوت ملی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، ۶۰ممالک کی نما یندہ خوا تین پر مشتمل تنظیم ہے جو اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اسی طرح یہ تنظیم دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم خواتین کا باہم را بطہ و مشا ورت اور ایک مشترکہ پلیٹ فا رم مہیا کر تی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں مسلم ویمن یونین کی سربراہ کی حیثیت سے میرے علاوہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مطا ہر عثمان ،اپنے ملک سوڈان کی چار خواتین کے سا تھ شا مل ہوئیں ۔ اس وفد میں انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے شگفتہ عمر نے بھی شرکت کی۔

یو این کمیشن آن سٹیٹس ویمن( CSW) کا اجلاس ،۲۷ فروری تا ۹مارچ ۲۰۱۲ء ہو نا قرار پا یا۔اس اجلاس میں گورنمنٹ مشن، ممبر ممالک کی حکو متوں کے اقوام متحدہ میں متعین نمایند وں اور ان حکو متوں کے نما یندوں کے علا وہ این جی اووز کے ایک ایک نما ئندے کو اجلاس میں شر کت کی اجا زت تھی۔یہ این جی اووز یو این کی اکنامک اور سو شل کو نسل میں رجسٹرڈ ہیں۔ سی ایس ڈبلیو کے اجلاس میں شر کت کے لیے،ہر این جی اوو کو ایک اور حکو متی نما ئندگان کو دو خصوصی اجا زت نامے یا پاس مل سکتے تھے۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں افتتاحی پروگرام ہوا۔ خصوصی سیشن کا مرکزی عنوان ’دیہی علا قے کی عورت کی ترقی‘ تھا۔ چار یا پانچ مقررین کے اظہار خیال کے بعد،شر کا میں سے  تبصرے یا سوال کا موقع بالعموم حکو مت کے مشن اور کسی این جی او کے نمایندوں کو دیا جاتا۔      اس اجلاس سے شہناز وزیر علی صاحبہ (پا کستان) نے خطاب کیا۔ یو سف رضا گیلانی (سابق وزیراعظم پاکستان) کی بیٹی فضہ گیلا نی صاحبہ نے اپنا بیان پڑھا۔پا کستان مشن کے نمایندے نے متعدد مواقع پر پا کستان کے حالات کی عکاسی کر تے ہوئے درست مداخلت کی۔ اس فورم کے شرکا کی اکثریتی راے یہ تھی کہ:’’دیہی عورت کی تر قی کے لیے بنیا دی ضرورت اس عورت کی تعلیم ہے۔اس کو دیہی علاقے میں کیے جا نے وا لے کام کے لیے ہنر مند بنا نا ہے،اس کو چھوٹے قرضہ جات کا اجرا کر نا ہے،اس کے لیے آگا ہی دینی ہے،اس کے لیے زمین کے ما لکا نہ حقوق کا حصول یقینی بنا ناضروری ہے۔دیہی علا قے کی عورت کی صحت کی حفاظت بھی یو این کے طے شدہ ایجنڈے کے مطا بق کی جانی چا ہیے۔اور اس کو فیصلہ سا زی کے اختیا رات میں حصہ ملنا چا ہیے۔یوں وہ مرد کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شا مل ہو سکتی ہے اور اس طرح صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔اس مر کزی موضوع سے کشید ہونے والا خیال یہ تھا کہ صنفی امتیاز ختم کر نے کے عمل میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے، اور اس کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں اور عورت کو حیثیت دینے کے لیے  بجٹ کی تقسیم میں صنف کا لحاظ رکھے جا نے، یعنی Gender sensitive budget allocation کا جا ئزہ اور اقدامات طے کیے جانے چاہییں۔

چرچ بلڈنگ میںہونے والے ایک پروگرام کا عنوان ’اسلام اور تشدد‘ تھا۔یہ امر یکا میں مقیم ایرانی مسلمانوں کی ایک این جی او نے تر تیب دیا تھا۔ ایران سے آنے وا لے وفد کو ویزا نہ ملنے کی بنا پر وہاں سے نما یندگی نہ ہوسکی تھی۔ پروگرام میں ایک دستاویزی فلم دکھا ئی گئی۔ یہ مسلمان عورت کا حجاب،اسلام میں قانون وراثت کی تفصیلات پر مبنی ایک مؤثر فلم تھی، جس میں موقف پیش کرنے کے لیے آیات اور تصاویر سے مدد لی گئی تھی۔کمرے میں موجود ۶۰؍ افراد میں سے نصف مسلمان اور نصف غیر مسلم تھے۔ آخر میں سوال و جواب کا وقفہ ہوا تو ایک غیر مسلم نے کہا کہ: ’’کو ئی مسلم عورت پا رلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ حجاب کی بنا پر ہے اور حجاب دوسروں کو مرعوب کر نے کے لیے ایک طرح کا دبا ئو ہے‘‘۔میں نے اس مرد کے سوال کے جواب میں کہا:’’ میں میڈیکل ڈاکٹر، سا بقہ ممبر پارلیمنٹ، صدر انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، یو این اکنا مکس و سوشل کونسل ہوں۔ انٹرنیشنل پا رلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ ترتیب کے مطابق عورتوں کی سب سے زیا دہ نمایندگی کے ساتھ روانڈا پہلے نمبر پر ہے، جب کہ پا کستان ۲۷ویں نمبر پر ہے۔ امریکا و برطا نیہ ۵۰کے لگ بھگ نمبر پر ہیں۔جس یونی ورسٹی کے ساتھ مَیں منسلک ہوں وہاں میڈیکل، ڈینٹل ، فزیوتھراپی اور فارمیسی میں ۸۰ فی صد لڑکیاں اور۲۰ فی صد لڑکے زیرتعلیم و تربیت ہیں۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ آج     مسلم معاشروں میں عورت کو کو ئی مقام حاصل نہیں‘‘۔

ایک پروگرام فیملی واچ انٹرنیشنل کی طرف سے اس نصب العین کے تحت کہ: ’’دنیا کے مسائل خا ندان کے تحفظ کے سا تھ حل کرو‘‘ اورجس کا نعرہ یہ تھا: ’’بچہ نعمت ہے انتخاب نہیں‘‘۔ اس طرح بچے کی مو ت ،ما ں کی نفسیات و صحت کے لیے سانحہ ہے۔ اس کی وضاحت میں دوخوا تین نے رو تے ہو ئے آپ بیتی سنا ئی کہ ہم اب تک اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکتے۔ اس پروگرام میں دو پیپرز پڑھے گئے جن میں یہ بتا یا گیا کہ اسقاطِ حمل کرانے سے چھا تی کا سرطان بڑھتا ہے۔اس پروگرام میں اظہار خیال کر تے ہو ئے مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والی اس خاتون کا واقعہ سنا یا جو بد کرداری کے نتیجے میں حاملہ ہو چکی تھی اور رضاکارانہ طور پر سزا پانے کے لیے پیش ہوئی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضع حمل کے بعد آنا،وہ آئی تو آپؐ نے اس کو دوبارہ بھیجا کہ: اس بچے کا دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔وہ بچے کا دودھ چھڑوا کر آئی تو اس کو سزا دی گئی۔ عورت کی ممتا کی تسکین کے اس اقدام کی سمجھ مجھے آج آپ خوا تین کی کیفیت دیکھ کر آئی ہے کہ جرم کا کفا رہ اس بچے کی موت نہیں ہے،اس کو تو زندہ رہنا ہے۔اس پر بند با ندھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری راے میں اختلاط مردوزن،تعلیمی اداروں میں، اور جاے ملاز مت میں ہے، جو اس راہ پر چلانے میں محرک ہے۔اس کو بھی نا گزیر حد تک محدود کر نا ہو گا اور شا دی میں تا خیر کے بجاے جلد شا دی کو رواج دینا ہو گا،جیسے اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد مکمل ہو تی ہے،ایسے ہی ہر تعلیم کا حصول شا دی کے بعد آسان اور ممکن بنا نا ہو گا‘‘۔

یو این لان بلڈنگ کے کانفرنس ہال سی میں ’بین المذاہب مکالمہ‘کے عنوان سے ایک سیشن یو ایس فیڈریشن برا ے مڈل ایسٹ پیس کے زیراہتمام ہوا۔ اس میں ایک یہو دی،ایک عیسا ئی اور ایک مسلمان خاتون مقرررین تھے۔ہال میں بیٹھتے ہی انتظا میہ نے شگفتہ عمر سے را بطہ کیا کہ آپ تیسری مقررہ بن سکتی ہیں کہ ہما ری مہمان مقررہ کو کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔انھوں نے ہامی بھر لی۔ اشتراکِ عمل کے نکات پر توجہ دلوا نے کے بعد،تینوں مقررین نے سا معین کے سوالات کے جوابات دیے۔

ایک پروگرام کا مرکزی خیال ـبچوں کی صنفی تعلیم کی روک تھام کی تحریک تھا۔ ان کا نعرہ تھا: ’’دنیا بھر میں صنفی جذبا تیت اُبھا رنے وا لی صنفی تعلیم کو بند کیا جا ئے‘‘۔ اس تعلیم میں صنف کی صحت کے بجاے،صنفی حقوق کی بات کی جا تی ہے ،جو صنفی رویوں کو اُبھا رنے کے طریقوں کی طرف رہنمائی دیتے ہیں، اوربچوں کو صنف کی پو جا پر لگا دیا جاتاہے۔اس گروپ نے ایک آن لائن رٹ کا بتا یا اوروہ شرکا کو دستخط کے لیے بھی تقسیم کی گئی۔ دیگر پروگرام عورتوں کے زمین میں مالکانہ حقوق، لڑکیوں کا موقف، دیہی عورتوں کا اغوا اور فروخت کرنے وغیرہ کے بارے میں تھے، جو دو ہفتوں کے لیے مختلف ہالوں میں جا ری رہے۔

 انٹر نیشنل ویمن ڈے کی تقریب۷ما رچ کے بجاے ۸ما رچ۲۰۱۲ء کو منائی گئی۔ یونائیڈنیشن ہیڈ کوا رٹر،جو کہ نا رتھ لان بلڈنگ کے طور پر معروف ہے، کے کا نفرنس روم نمبر چار میں یہ خصوصی تقریب ہو ئی۔ پروگرام کا آغاز ۱۰بجے ہو نا تھا مگر پو نے۱۰بجے ہال پوارا کھچا کھچ بھر چکا تھا۔اور پروگرام کے آغاز کے بعد،آنے وا لوں کو جگہ نہ ہو نے کا کہہ کر دربان معذرت کررہے تھے۔سیکرٹری جنرل یو این مسٹر با نکی مو ن،چیئر پر سن سیشن کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن مارجان کا مرا اورجنرل اسمبلی اقوامِ متحدہ کے نما یندے مسٹر مطلق الکہتا نی نے خطاب کیا۔جس کے بعد واک ہوئی۔ خوا تین کو مخصوص پیلے رنگ کی پٹیاں دی گئیں، جو وہ لباس پر پہن کر اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے ایک کو نے سے چل کر دوسرے کو نے تک آئیں۔

عورت کے عنوان سے دنیا میں آنے والی اور لا ئی جا نے والی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا گویا معا شر تی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا ہے۔ حقوق اور مسا وات کے سا یے تلے، دیگر بہت سارے نعرے ہیں، جو بظاہر بے ضرر ہیں مگر فی نفسہٖ گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ عورت کے حقوق و فرائض پر اعتدال اور توا زن نہ ہو نا،اور انسانیت کا ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا نا حقیقت ہے۔ اس کشاکش کے زیا دہ اثرات خاندان کے نظام پر آنے کا احتمال ہے، اعدادو شماراور سروے یہ تبدیلیاں دکھلا رہے ہیں۔

یہ دراصل ایک میلہ تھا،جو عورتوں نے اپنے اپنے مئوقف کی معلومات دو سروں تک پہنچانے کے لیے لگا یا تھا۔دوسروں کی را ے سا زی کی بالواسطہ کو ششیں تھیں،اپنے ہاں کے مسا ئل کو اُجاگر کر نے اور بعض اوقات اپنے مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا موقع پیدا کیا گیا تھا۔ گروہ بندیاں تھیں،موقف تسلیم کرا نے اور ہم نوائی حاصل کر نے کی کو ششیں تھیں۔ پھر یہ  آرا و سفارشات یو این کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے مر کزی اجلاس کا مشترکہ اعلا میے اور قرارداد شامل کر نے کی خاموش سعی تھی۔

معاہدے اور قانون کے نام پر افراد اور قوموں پر حکمرا نی کر نا، آج کا ایک اہم طرزِ حکمرانی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ: پہلے افرادو اقوام کو جمع کرو۔پھر ان کے مشا ورتی فورم بنا ئو۔ وہاں فیصلے ہوں۔پھر ان فیصلوں کا نفاذ ہو اوران کی عمل داری کا جائزہ ہو۔اس عمل کے لیے کچھ دبا ئو اور کچھ مالی ترغیبات ہوں۔ پھر عمل نہ کر نے پر کچھ پا بندیاں لگ جا ئیں،کچھ حما یت و امداد وغیرہ سے ہا تھ اٹھا لیے جائیں، قوموں کو اجتما عیت کے نام سے مات دی جا ئے،تنہا کر دیا جا ئے وغیرہ وغیرہ۔اگر یہ سب کچھ طاقتوں کے منفی جذبہ حکمرا نی کی تسکین کے لیے ہو، تو نظم اور مشا ورت ہو نے کے باوجود،بدنیتی کی بنا پر خیر برآمد نہیں ہو تا۔ نظام موجود ہو،اس کے اندر کچھ مشاورت اور جمہوریت بھی ہو،تو اصلاح کے لیے شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر نے اور مثبت نتا ئج سے کلی طور پر نا امیدنہ ہونا چاہیے ۔ ایک سخت فکری دفاعی نظام کے باوجود اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی کے نظام میں،داخل ہونے کے کئی را ستے ہیں۔اپنی تر جیحات کے سا تھ،ان پر کام اور مؤثر کردار ادا کر نے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک اور دوگیا رہ بن کر،منصوبہ بندی، یکسوئی کے سا تھ جان گھلانے کی ضرورت ہے اور یہ میدان بھی بہت اہم اور مؤثر ہے۔

معا شرے کی فکری اصلاح،خدمت کے ذریعے ان کے غموں کے مداوے کی کوشش کے ساتھ،ملکی سیاست میں تبدیلی قیادت کا فلسفہ رکھنے والے گروہوں کے لیے یہ بھی سو چنے کا نکتہ ہے کہ ملک میں قانون سا زی،ملکی با شندوں کے لیے خیر کا با عث ہوگی تو دنیا میں،عالمی معاہدات،پوری انسا نیت کے لیے نفع بخش ہوں گے۔ افراد کو مختص اور میدا ن کا انتخاب کرکے،کام کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کر نا ناگزیر ہے۔

صحت مند تنقید دین کے فرائض میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ الدین نصیحۃ،      یہ حدیث مبارکہ اپنی جامعیت کی بنا پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں اور حکمرانوں اور دیگر معاصرین کے طرزِفکر اور طرزِعمل کا جائزہ لینے اور جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہو متوجہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ عالمی ترجمان القرآن کے ایک فاضل قاری نے الدین نصیحۃ کی پیروی کرتے ہوئے میرے مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ئ) پر چند سوالات اُٹھائے اور اس موضوع پر مزید چند سطور تحریر کرنے کی تحریک دی۔

محترم قاری کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ بہت ہی اچھا لگا، مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں: قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبَلَاہُ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ   الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟‘‘

عصرجدید میں ’جنسی تعلیم‘ کی اصطلاح جس تناظر میں استعمال کی جاتی ہے، اس کا مقصد عالم گیریت کے زیرعنوان مغربی اخلاقی اقدار کو تعلیمی نصاب اور کمرئہ درس میں وضاحت کے ذریعے نئی نسل کو جنسی اباحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مشرقی تہذیب دونوں میں جنسی موضوعات پر جو رویہ صدیوں سے اختیار کیا گیا ہے وہ اسلامی اقدارِ حیات اور قرآنی اخلاق کی ضد نظر آتا ہے۔ ہندوازم جو خالصتاً ایک مشرقی خطے کا مذہب ہے اپنے فن تعمیر کے ذریعے جنسی تعلقات کو سرعام مذہبی عقیدت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مغربی تہذیب میں لذت پرستی (hedonism) میں جنسی لذت کا اپنا مقام ہے اور جدیدیت (Modernism ) اور مابعد جدیدیت (Post-Modernism) اور ریخ تیگیت (Destructivism) جیسے فلسفوں نے آج کے مغرب کو جو راستہ دکھایا ہے وہ زندگی کو ایک جنسی لذتیت کے زاویے سے دیکھتا اور    جنسی لذت کے ذرائع کو وہ مقام دے دیتا ہے جو زندگی کے عام معمولات، مثلاً صبح کا ناشتہ، رات کا کھانا، بازار سے پھل خرید کر لانے سے یا چائے کی ایک پیالی پینے سے زیادہ مختلف نہیں سمجھتا۔ اسی بنا پر جنسی تعلیم کے ذریعے عالمی پالیسی پر زور دیا جاتا ہے کہ اگر اسکول کے بچوں کو یہ سکھا دیا جائے کہ وہ کس طرح محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں، تو دنیا ایڈز جیسے مہلک مرض سے محفوظ ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ جنسی تعلیم کا محرک بڑی حد تک مغرب و مشرق کے ممالک کا یہ تصور ہے کہ وہ ہندستان ہو یا امریکا، جہاں کثرت سے ایڈز کے مثبت کیس پائے جاتے ہیں، اگر انھیں کم کرنا ہے تو آنے والی نسلوں کو ان ذرائع کی تعلیم دی جائے جن کے بعد اسکول کے بچے آپس میں محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکیں۔ گویا جنسی تعلق قائم کرنا صبح کے ناشتے کی طرح کی ایک معصوم سرگرمی ہے، اور جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ناشتے میں کوئی جراثیم آلودہ غذا نہ ہو، اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے وقت کیا احتیاط کی جائے کہ اس عمل میں ملوث افراد کسی جسمانی بیماری کا شکار نہ ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس تعلیم کو دیتے وقت استاد یا معلمہ کمرۂ درس میں نہ صرف تصاویر کے ذریعے بلکہ زبانی وضاحت سے بھی اُن معاملات کو بیان کرے گی جو آج تک کمرئہ استراحت تک رہے ہیں، اور اس کے باوجود ہزارہا سال سے انسانی آبادی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔

  • جنسی مضامین کا ضابطۂ اخلاق میں لانا:قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس نازک تعلق کے بارے میں جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ حصولِ لذت کو اخلاقی ضابطے کے تناظر میں بطور اللہ تعالیٰ کی ایک آیت کی تعلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورئہ روم اور سورئہ نساء میں قرآن کریم شوہر اور بیوی کے تعلق کو جس اخلاقی اسلوب میں بیان کرتا ہے، وہ انسانی فکر کی پرواز سے بلند اور انسانی فکر کی رہنمائی کے لیے ہدایت و رہنمائی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کا اخلاقی اسلوب زندگی کے ہرعمل کے لیے اخلاقی ضابطے اور اصول فراہم کرتا ہے۔ اخلاقی اصول علومِ اسلامی کے تناظر میں اصول کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تطبیقی میدان میں احکام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی اخلاقی ضابطہ ہے کہ مثالی اسلامی معاشرے میں رشتۂ ازدواج اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم اس اخلاقی اصول کو کائنات اور مخلوقات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح  نظامِ کائنات کو اخلاقی ضابطے پر چلانے کے لیے جوڑے پیدا کیے گئے۔ اسی تسلسل میں انسان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی نفس سے اس کا زوج (جوڑا) بنایا۔

گویا عالمِ انسانی ہو یا عالمِ حیوانی ، دونوں میں زواج کا قائم کیا جانا ایک فطری، اخلاقی اور شرعی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت چونکہ انسانوں سے وابستہ ہے، اس لیے اس میں زمان و مکان کا تعین بھی کیا جانا ضروری ہے۔ سنت مطہرہ اس پہلو کی وضاحت و تشریح کرتی ہے کیونکہ سنت کو دو امتیاز حاصل ہیں۔ اوّلاً یہ کہ سنت تشریعی ہے، اور ثانیاً یہ کہ سنت تشریحی ہے۔ چنانچہ یوم الحساب جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں یہ بات شامل ہے کہ جوانی کس طرح گزاری؟ کیا عفت و عصمت کو برقرار رکھا؟ کیا جوانی کی تعمیری قوت کو معروف کی اشاعت کے لیے استعمال کیا؟ کیا جوانی میں مادی وسائل اور وقت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استعمال کیا، یا بے راہ روی اور عبث میں گزاری؟

جوانی، بلوغ اور عقل، ان سب کا قریبی تعلق ایک مومن کے جنسی معاملات کے ساتھ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عقلی رویے کا مطالبہ ہے کہ ایک شخص جو ان ہو تو یا روزے رکھے یا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔ یہ بلوغ کا تقاضا ہے کہ اس سن کو پہنچے تو اس فکر میں نہ رہے کہ جب تک کثیرمالی وسائل کا مالک نہ ہو، نکاح سے دُور رہے۔ قرآن نے اس معاشی پہلو کا دوٹوک جواب دیا ہے کہ: وَانْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۳۲) ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ مالی وسائل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کے لیے، اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے اگر یہ کام کیا جائے گا تو وہ اپنی رحمت سے مالی ضروریات پورا کرنے کا راستہ نکال دے گا۔گویا اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں اس لیے منسلک نہ کرنا کہ ابھی تنخواہ کم ہے، کاروبار سے منافع کم آرہا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے، یہ اور اس قسم کے وہ تمام تصورات جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اسلام ان کو رد کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی آیت ان رواجی تصورات کی تردید کرتی ہے۔

جنس کے حوالے سے قرآن و سنت کے اخلاقی اسلوب کے الہامی اور اعلیٰ ترین ہونے کا احساس اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک محقق کلامِ الٰہی اور دیگر مذاہب کے اساطیر کا ایک تقابلی مطالعہ کرے۔ اساطیر نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت کی کتب مقدس میں جہاں ان مسائل کا ذکر ہے صرف انھیں ایک نظر دیکھ لیں تو زمین و آسمان کا فرق کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

اس بنا پر ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام جنسی مسائل پر ایک اعلیٰ الہامی اخلاقی اسلوب اختیار کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس اسلوب کی بنیاد پر تدریس و تعلیم میں مواد اور طریق تدریس ایجاد کیے جائیں۔ فقہ ان میں سے ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس کی تعلیم بہت سے جنسی مسائل سے، بغیر کسی لذتیت کے، زمینی حقائق سے ایک غیربالغ اہلِ ایمان مرد اور عورت کو ان مسائل سے آگاہ کرتا ہے جن کو آج کل اسکولوں میں جنسی تعلیم کے زیرعنوان سکھانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جو فی الواقع طلبہ و طالبات کو بجاے اخلاقی طرزِعمل اختیار کرنے کے فحاشی و عریانی اور بے شرمی کی طرف لے جانے کا ذریعے ہوگی۔ مغرب و مشرق میں جہاں کہیں بھی عمر کے اس مرحلے میں جب ایک بچہ اور بچی تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو نتائج تباہ کن ہی رہے ہیں۔ امریکی نصابِ تعلیم میں جنسی تعلیم کی شمولیت کے بعد جس تیزی سے غیراخلاقی جنسی تعلق، قبل از وقت ناجائز ولادت اور حمل کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہرصاحب ِ علم کے سامنے ہیں۔

اس لیے جنسی تعلیم کی اہمیت کو مانتے ہوئے اصل مسئلہ اسلوب کا ہے۔ اصل مسئلہ اسے اخلاقی ذمہ داری سے منسلک کرنے کا ہے۔ اصل مسئلہ ایک پاکیزہ خاندان کے قیام کاہے، جب کہ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ مستعار اور استعمال شدہ فکر کو اختیار کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر وہ موضوع جو مغرب و مشرق کے دانش ور اُٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کو ’ترقی پسندی‘، ’روشن خیالی‘ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ایک قومی فریضہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اور غیرحکومتی مدارس میں اسلامیات کے نصاب کو، نظرثانی کے بعد بطور لازمی اور قابلِ امتحان مضمون کے جس کا اثر نتائج میں ظاہر ہو، اسلام کے جامع تصور کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس جامع نصاب میں جنسی اخلاقیات بھی بطور ایک باب کے ہو اور وہ بغیر کسی مانع حمل ذرائع کی تعلیم کے جنسی ذمہ دارانہ رویے پر روشنی ڈالے۔

یہ خبر کہ ایک الیٹ اسکول ہم جنس پرستی کے موضوع پر ۱۶جولائی کو ’میونخ ڈیبٹس‘پروگرام کے تحت مباحثہ منعقد کرنے جارہا ہے (جنگ، ۱۰جولائی ۲۰۱۲ئ)، اس خبر پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کے زیرعنوان آخر وہ کون سی منزل ہے جس کی طرف قوم کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا ہر وہ اخلاق باختہ کام جو مغرب نے ’ترقی‘، ’روشن خیالی‘، اور ’جدیدیت‘ کے عنوان سے کیا ہے، کرنا ہمارے لیے فرض سمجھ لیا گیا ہے؟

ہم شکرگزار ہیں کہ محترم قاری نے سوالات اُٹھا کر اس موضوع پر چند مزید نکات تحریر کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ جہاں تک سوال ’شانِ اجتہادی‘ کا ہے، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی جو جو بات خوش کرتی ہے اس کو اختیار نہ کرنا ہمارے خیال میں کوئی مناسب رویہ   نہیں ہے۔ حدیث معاذ بن جبل میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہی اُمت مسلمہ کے لیے ذریعۂ نجات ہے۔ اس کوشش میں خلوصِ نیت کے ساتھ جو کام بھی کیا جائے گا اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں سے مطابقت رکھے تو اس کے لیے دو اجر کا وعدہ ہے، اور اگر پورے خلوص اور کوشش کے باوجود انسانی فکر سہو کا شکار ہو، جب بھی الرحم الراحمین کی طرف سے ایک اجر کا وعدہ ہے۔    اگر دین اسی کا نام ہے تو پھر طنزاً ’شانِ اجتہادی‘ تلاش کرنا یا نہ کرنا غیرمتعلق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کے فتنوں، گمراہی، غلو اور اباحیت سے محفوظ رکھے، قرآن و سنت پر غور کرنے اور نئے مسائل و معاملات کے حل تلاش کرنے کی توفیق دے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

عائشہ نصرت کا تعلق دہلی سے ہے۔ وہ ۲۳ سال کی ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق میں ایم اے اور نفسیات میں گریجویشن کیا ہے۔ عائشہ نے اپنی آزاد مرضی سے پردہ کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ مضمون ۱۳ جولائی ۲۰۱۲ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ ۴ستمبر ’عالمی یومِ حجاب‘ کے موقع پر پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں کہ میں نے پردہ کرنے اور مناسب لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر جلدی سے دنیا بھر کی مظلوم خواتین کی نمایندہ اشتہاری خاتون کا لیبل لگا دیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ پردہ میرے لیے سب سے زیادہ  آزادی دلانے کا تجربہ ثابت ہوا ہے۔

پردہ شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے کبھی یہ توقع نہ کی تھی کہ میں یہ راستہ اختیار کروں گی۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ میرے ایمان اور تہذیب میں حیا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ اس کے اسباب معلوم کرنے کا موقع ملا۔

ٹونی بلیئر فیتھ فائونڈیشن میں بطور فیتھزایکٹ فیلو کام کرنے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے مختلف مذاہب کے افراد سے معاملہ کرنے سے مختلف مذاہب کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہوا۔ مختلف بین المذاہب سرگرمیوں میں حصہ لینے سے میرے اپنے مذہب کے ذاتی فہم میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جو سوال اور چیلنج میرے سامنے آئے اس سے میرے اندر اسلام کے مختلف بنیادی پہلوئوں کے بارے میں تجسس اور کوشش میں اضافہ ہوا۔ اس طرح میں ’سلطنتِ حجاب‘ میں داخل ہوئی۔

میں بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ عورت کے سر کو ڈھانکنے والے چند گز کپڑے، یعنی حجاب کو ہم کس طرح تشویش اور تنازعات کا موضوع بنا کر اُسے عورتوں کی تعلیم، تحفظ، انسانی حقوق،  حتیٰ کہ ان کے مذہب کو عالمی خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا بھر میں میڈیا      پردہ کرنے والی خواتین کو مظلوم اور مجبور بناکر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ   پردہ ان خواتین پرزن بیزار مُلّائوں اور رشتہ دار مردوں کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے جو انھیں گرمی سے بے حال کرنے والے کپڑوں میں زبردستی قید کردیتے ہیں۔

 بہرحال میں سمجھتی ہوں کہ میرے حجاب نے مجھے آزادی (liberate) دی ہے۔ میں ایسے بہت سوں کو جانتی ہوں جو حجاب کو زبردستی کی خاموشی یا بنیاد پرست حکومتوں کا اشتہار سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے ان میں سے کوئی بات بھی نہ پائی۔ ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے جس نے انسانی حقوق کا بہت شوق سے مطالعہ کیا ہو اور ان کے لیے خصوصاً خواتین کے اختیارات (empowerment) کے لیے کام کر رہی ہو، میں نے محسوس کیا کہ ان مقاصد کے لیے حجاب کرتے ہوئے کام کرنے سے یہ غلط تاثر ختم ہوگا کہ مسلم خواتین خود اپنی اصلاح اور اپنے حقوق کے حصول اور ان کے لیے کام کا جذبہ، حوصلہ اور احساس نہیں رکھتی ہیں۔ یہ احساس وہ آخری دھکا تھا جس کی مجھے ضرورت تھی، تاکہ میں دنیا کے سامنے اس سال اپنی سالگرہ پر اعلان کردوں کہ آج کے بعد میں ’پردہ دار خاتون‘ یا ’حجابی‘ ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے پردہ رہنا پسند کیا جاتا ہو، وہاں اگر میں حجاب اختیار کرتی ہوں تو اسے کیوں ظالمانہ و جابرانہ قرار دیا جاتا ہے؟ میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں اور ایک ایسی دنیا میں جہاں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسے اپنی ذاتی آزادی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔

میں کسی عورت کی اہمیت کو اس کے ظاہری حُسن اور پہنے جانے والے کپڑوں سے ناپے جانے کو مسترد کرتی ہوں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ عورت کی مساوات کا بگڑا ہوا تصور کہ اسے مجمعِ عام میں چھاتیاں عریاں کرنے کا حق حاصل ہے، خود آپ ہمیں ایک شے تصور کرنے میں حصہ ادا کرتا ہے۔ میں ایک ایسے نئے دن کے انتظار میں ہوں جب عورتوں کو حقیقی مساوات حاصل ہوگی، اور انھیں اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نمایش کریں، نہ اس کی ضرورت ہوگی کہ اپنے جسم کو اپنے جسم تک رکھنے کے فیصلے کا دفاع کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں عورت کی آزادی، جسم کی نمایش اور اس کی جنس نے ہوش اُڑا رکھے ہوں، عورت کا حجاب اختیار کرنا عورت کی جانب سے اس کی منفرد نسائیت اور حقوق کا جارحانہ اظہار ہے۔ میرا حجاب دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’تم کیا دیکھو گے، اس پر میرا کنٹرول ہے، کیا یہ عورت کو اختیار دینا نہیں؟‘‘ یہ اظہار بہت زیادہ اتھارٹی کے ساتھ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ یہ دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میرا مسئلہ ہے‘‘۔

میں یقین رکھتی ہوں کہ میرا حجاب مجھ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے جسم، اپنی نسائیت، اور روحانیت پر جو صرف میری ہے اور میری اتھارٹی میں ہے اس پر زور دوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے مجھ سے اتفاق کریں گے جب میں یہ کہتی ہوں کہ حجاب بنیادی طور پر روحانیت کا اظہار ہے اور اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق ہے ، ایک ایسی محسوس کی جانے والی مذہبی علامت جو روزمرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔

حجاب میری ذاتی و اجتماعی زندگی میں دکھائی دینے والی واضح علامت ہے جس سے کسی بھی اجتماع اور ہجوم میں کوئی بھی ایک الگ وجود کی حیثیت سے مجھے پہچان سکتا ہے، ایک خاص مذہب سے وابستگی اور نمایندگی کے ساتھ۔ یہ اصل وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ’حجابی‘ بن جانا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ان کاموں میں مجھے آگے بڑھاتا ہے جن کے ذریعے میں ان تعصبات اور رکاوٹوں کو دُور کرسکوں جن سے میرے مذہب اسلام کو مسلسل لیکن غیرمعقول انداز سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ حجاب دراصل میری شخصیت کی توسیع اور شناخت ہے، اور یہ مجھے اُبھارتا ہے کہ اس     غلط تصور کو چیلنج کروں کہ مسلمان عورت میں اُس بہادری، دانش اور استقامت کی کمی ہے جو اتھارٹی کو چیلنج کرے اور اپنے حقوق کے لیے لڑے۔

میں جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو ایک ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جس نے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا انتخاب کیا، جو اتفاقاً مسلمان ہے اور ضمناً اپنے سر کو ڈھانکتی ہے۔ میرا عکس مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں نے کیا عہد کیے تھے جن کی وجہ سے حجاب اختیار کرنے کا سوچا؟ ایک ایسی دنیا کے لیے کام کروں جہاں عورت کے بارے میں فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ وہ کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پہنتی ہے؟ایک ایسی دنیا جس میں اُسے اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی، جس میں وہ کچھ ہوسکے جو وہ چاہتی ہے، جہاں اُسے اپنے مذہب اور حقوق کے درمیان انتخاب نہ کرنا پڑے۔ (ترجمہ: عمران ظہور غازی)

اِنقلابِ مصر کا سفر ابھی جاری ہے۔ سیاسی استبداد اور جمہوری قوت کے درمیان برپا معرکہ نئی سے نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ صاف بتاتا ہے کہ انھیں یہ عوامی انقلاب کسی صورت برداشت نہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہرحربہ آزما دیکھیں۔

 صدارتی انتخاب کے دوران میڈیا کا اسلامی قوتوں کے خلاف زہر اُگلنا اور اُن کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے شرم ناک ہتھکنڈے استعمال کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ فوج عدلیہ کی اور عدلیہ فوج کی معاون و مددگار ہے اور دونوں مل کر حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دورِاستبداد کو واپس لوٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مبارک کے کارندے اور ایجنٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہرجگہ اور ہرفورم پر جھوٹے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان جھوٹے نعروں میں ایک نعرہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ اور عدلیہ کے احکام کا نفاذ ہے۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا ہدف محض پارلیمنٹ کی تحلیل اور صدر کا محاصرہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس انقلاب کو مکمل طور پر ناکام کرکے حسنی مبارک کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں نظام وہی ہو، مگر چہروں کی تبدیلی کے ذریعے فریب اور مکاری کو حق ثابت کیا جاسکے۔ ان عناصر کی کوششوں سے یوں لگتا ہے کہ انھیں اسلام پسندوں کی ’جنت‘ سے زیادہ مبارک کی ’جہنم ‘پسند ہے۔ انھیں عدلیہ کے احکام کے احترام کی آڑ میں پوری قوم کو مسل کر رکھ دینا، قطعاً  بُرا محسوس نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے انھی احکام نے تو کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کا خون     کیا ہے۔ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کے منتخب صدر کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ   آزادیِ راے کی آڑ میں ہرنقص اور کمزوری صدر کے سر تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔

اس انقلاب نے تمام فرقوں اور مستقبل کے دشمنوں کو ایک کیمپ میں یک جا کردیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ مفاد اسلامی قوت کا راستہ روکنا اور اسے منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ اس پارلیمنٹ اور صدر کو بھرپور عوامی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ انھیں تو صرف اسلامی قوت کی لہر کو روکنا ہے اور اس قوت میں بھی سب سے زیادہ انھیں اخوان المسلمون سے خطرہ ہے۔

اس صورت حال میں ماضی کے حکمران ٹولے میں شامل بعض اہم شخصیات کا باہم متحد ہوجانا اُن کی ’مبارک دوستی‘ کی مثال ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک ’تیسری قوت‘ کے نام سے میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اس تیسری قوت کی رہنمائی کل تک منتشر رہنے والے لبرل افراد، نجیب ساویرس، سیکولر شناخت رکھنے والا رفعت سعید، اسامہ غزالی حرب، محمدابوحامد جو لبنان میں صہیونیت کے ایجنٹ سمیرجعجع کا شاگرد ہے، کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں لبرل امریکی سعدالدین ابراہیم اور حمدین صباحی بھی شامل ہیں جنھوں نے ناصر کے استبداد کو عوام پر مسلط کیے رکھا۔ حمدین صباحی کے علاوہ یہ سب لوگ صدارتی انتخاب میں احمد شفیق کے حمایتی تھے جو حسنی مبارک کا نمایندہ تھا۔

حسنی مبارک کے دو بیٹوں علا اور جمال کے خلاف قومی خزانے کی لُوٹ مار کے جرم میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت میں ماہرقانون دان ڈاکٹر یحیٰ الجمل کا موجود ہونا معنی خیز تھا۔ یہ یحیٰ الجمل جمال عبدالناصر کے روحانی فرزندوں میں شامل ہوتا ہے۔ باقیاتِ ناصر کی صورت میں اسی گروہ نے عسکری مجلس کے لیے دستوری مسوّدہ تیار کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مرسی کے اختیارات سے اُن کو محروم کرنے کا حکم ہے۔ یحییٰ الجمل کا اس مقدمے میں کویل فریدالدیب کے پہلو میں بیٹھنا حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں معروف مصنف حسنین ہیکل کے صاحب زادے حسن محمد بھی مبارک کے بیٹوں کے ساتھ مقدمے میں ملوث کیے گئے ہیں۔

یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں معاملات ایسے ہیں جن میں وہ تمام قوتیں   یک جا اور متحد دکھائی دیتی ہیں جو کل تک حسنی مبارک کا نمک کھایا کرتی تھیں۔ آج انھیں اسلام سے اس قدر خوف محسوس ہورہا ہے کہ یہ اسلام پسندوں کو ہرقیمت پر منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام ذرائع، وسائل، مہارتیں اور دبائو میڈیا، عدلیہ، سیاست اور معیشت میں دستوری عدالت کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جب کہ یہ فیصلہ بذاتِ خود ایک مختلف فیہ فیصلہ ہے۔ آج یہ لوگ خود کو مہذب اور جمہوری باور کرا رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں، جب کہ قانون ان سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ حسنی مبارک کی ۳۰سالہ ظالمانہ حکمرانی میں کہاں تھے؟ اُس دوران میں بے شمار عدالتی فیصلے ایسے تھے جو بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر رہے تھے مگر حکومت نے اُن کو پائوں تلے روند کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت تو اِن لوگوں کی کوئی آواز قانون اور دستور کی حکمرانی کے سلسلے میں سنائی نہ دی۔ لیکن آج اُن کا یہ ’حق‘ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کریں جو کل نہیں تھا، لہٰذا وہ کیوں خاموش رہیں۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ حسنی مبارک آج بھی اس معرکے کی قیادت کر رہا ہے اور اس میں شامل ہر فرد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ یہ جنگ موت و حیات کی جنگ ہے۔ نوشتۂ دیوار یہ بتاتا ہے کہ باطل کے یہ حواری اور حمایتی بالآخر موت کے گھاٹ اُتر کررہیں گے کیوں کہ مصری قوم کو اپنی شناخت، اپنے حقِ انتخاب و اختیار کے حصول سے پیچھے ہٹنا ہرگز قبول نہیں ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی بھی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے کہ مصر اپنی شناخت کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس کی قوم اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار سکے۔

صدر جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مُرسی کے انتخاب پر اسرائیل کے صدر بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل مصر میں جاری جمہوری سفر کو اہم سمجھتا ہے اور اس کے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کا یہ بیان ڈپلومیٹک تھا۔ وہ اسرائیل کو پہنچنے والے اس زخم اور ڈاکٹر مُرسی کے انتخاب کے خلاف دیے گئے منفی بیانات سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ صدرِ مصر کے انتخاب سے دو روز قبل اسرائیل کے ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ اسرائیل امن و آزادی کو جمہوریت پر ترجیح دیتا ہے۔

اسرائیل اور حسنی مبارک حکومت کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی نہ تھے، بلکہ حسنی مبارک اسرائیل کا وفادار دوست تھا۔ اس نے اسرائیل کے لیے اپنی وفاداری کا امریکا کو مکمل طور پر یقین دلارکھا تھا لیکن انقلاب کے دوران اس وقت مبارک کو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا  جب اُس نے اپنے اسرائیلی دوست اور اسرائیل کے سابق وزیردفاع بنیامین الیعازر سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ وہ وہائٹ ہائوس کو میرے دفاع اور بقا کے لیے آمادہ کرے، مگر انقلاب نے اس بات کے تمام دروازے بند کردیے تھے اور ہرامکان کا خاتمہ کردیا تھا، لہٰذا مبارک کو بوجھل دل کے ساتھ قصرِصدارت چھوڑنا پڑا۔

احمدشفیق جو صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر مُرسی کے مدمقابل مبارک کا نمایندہ تھا، نیتن یاہو نے اس کے خلاف بیان بازی سے اپنی کابینہ کو منع کر رکھا تھا، مگر اسرائیل ڈاکٹر مُرسی کی صورت میں صدرِ مصر کی موجودگی سے بننے والی اسٹرے ٹیجک حکمت عملی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ایک کے بعد دوسرا بیان اسرائیل کی طرف سے داغا جاتا رہا اور بالآخر نیتن یاہو نے خود ہی کہہ ڈالا کہ وہ احمد شفیق کو ترجیح دیتے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کے اعلان کا مرحلہ کچھ طویل ہوگیا لیکن حتمی خبر یہی آئی کہ ڈاکٹر محمد مُرسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت کے لیے لازمی ہوگیا کہ وہ جنوبی سرحدوں کے حوالے سے نئی حکمت عملی کی روشنی میں معاملے کو دیکھے اور اس حکمت عملی کے منطقی نکات یہ تھے:

۱- مصر کو علاقے میں قائدانہ کردار کی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ عرب دنیا میں سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے سب سے زیادہ سیاسی اثرات کا حامل ہے۔

۲- ڈاکٹر مُرسی کا ایوانِ صدر میں پہنچنا اسلامی تحریک کے سیاست میں داخلے اور مصری عربی رُخ متعین کرنے کی صورت ِ حال کو بدل دے گا۔

۳- اخوان المسلمون اور فلسطین کی بہت بڑی تحریکِ مزاحمت’حماس‘ کے درمیان تال میل کا موجود ہونا۔

۴- ڈاکٹر مُرسی کا صدرِ مصر منتخب ہونے کا مطلب مصر کا اپنے تاریخی وجود کی طرف واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔

۵- مصری قوم کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو برابری کی سطح پر نہ ماننا اور مسئلۂ فلسطین کی          حمایت و پشت پناہی مستقلاً جاری رکھنا۔

۶- مصری قوم اسرائیل سے اپنا ایک تاریخی حساب بھی چکانا چاہتی ہے جس کی وہ منتظر ہے۔

۷- بغاوت کا انقلاب میں بدل کر کامیاب ہو جانا اور انتخابات کے مرحلے تک پہنچ جانا مصر کو عالمِ عرب کے بعض ممالک کی سیاسی و داخلی معاملات میں پہلے سے زیادہ نمایاں حیثیت عطا کردے گا۔

یہ وہ نکات تھے جو صدر مُرسی کی کامیابی نے اسرائیل کی صہیونی سلطنت کے سامنے لارکھے اور اس نے اِن کے اُوپر عملاً سوچنا شروع کردیا۔اسرائیل کے ادارہ براے مطالعات قومی سلامتی نے ’محمدمُرسی کے انتخاب کی اسٹرے ٹیجک جہات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں جو اہم نکتہ بیان کیا ہے وہ صدر مُرسی کا اسرائیل کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کو بدل دینے کا خدشہ ہے۔  اس معاہدے کی رُو سے مصری فوج سینا کی حدود میں داخل اور فوجی کارروائی نہیںکرسکتی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گا۔ خاص طور پر اس اعتبار سے    کہ وہ مصر و اسرائیل کے درمیان ’امن معاہدے‘ کا نگران ہے، اور وہ تیسرا فریق ہے جس نے اس  ’امن معاہدے‘ پر دستخط کے وقت انورالسادات کے دور میں معاہدے کی پابندی کرانے کا تہیہ کیا تھا۔ یہ جائزہ رپورٹ اسرائیلی حکومت کے اس مطالبے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اُن سیاسی امور سے دُور رہا جائے جن کو صدر مُرسی اُٹھائیں۔ اسرائیل کے خارجی امور کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کی طرف سے اس امن معاہدے کو کسی بھی طرح سے چھیڑے جانے کے ہرعمل کی عالمی سطح پر مخالفت کریں۔

مصر میں ایک کش مکش جاری ہے۔ ایک طرف انقلاب مخالف قوتیں یک جا ہوکر سابقہ نظام کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف عالمی قوتیں اور اسرائیل اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں عالمِ عرب میں اس انقلابی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے خائف ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کا سامنا کس طرح کرتی ہے!

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا

سوال:فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا رواج ہوگیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ عہد نبویؐ میں اس کا رواج نہیں تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ شریعت کی رُوسے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:فرض نمازوں کے بعد دعا کے معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ بعض حضرات ہیں جو اسے غیر مسنون اور غیر شرعی قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ نماز باجماعت سے فارغ ہوتے ہی اس طرح اُٹھ جاتے ہیں، گویا تپتی ہوئی زمین پر بیٹھے ہوں۔ دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو اس کا اتنی پابندی سے التزام کرتے ہیں گویا دعا نماز کا جز ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دعا میں شریک نہیں ہوتا اور پہلے ہی اٹھ جاتا ہے تو اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہیں ملتا۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ  نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے: صحاح، سنن اور مسانید میں درج معروف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دعا مانگا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کرامؓ کو بھی اسی کی ہدایت اور تعلیم دیتے تھے ۔ کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی ہے کہ آپؐ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐاور سارے مقتدی مل کر اجتماعی دعا مانگتے تھے۔ نہ فجر میں یہ معمول تھا، نہ عصر میں، نہ دیگر نمازوں میں، بلکہ آپؐ کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ آپؐ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ  کی طرف رخ کرلیتے اور اللہ کا ذکر کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین کرتے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع سعودی عرب، ۲۲/۴۹۲)

جہاں تک انفرادی دعا کا معاملہ ہے، اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا: کس موقع کی دعا بارگاہِ الٰہی میں زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپؐنے جواب دیا:

جَوْفُ اللَّیْلِ الآخِرِ وَدُبُرَالصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ (ترمذی:۳۴۹۹)

رات کے آخر ی پہر اور پنج وقتہ نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعا۔

خود آپؐکے جو معمولات منقول ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐفرض نمازوں کے بعد کبھی جلد اُٹھ جاتے تھے اور کبھی کچھ دیر بیٹھ کر ذکر ودعا میں مشغول رہتے تھے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر فرض نمازوں کے بعد کی دعا کو نماز کا جز نہ سمجھا جائے اور امام کی دعا میں مقتدی بھی شریک ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسے بدعت قرار دینا اور ترک کردینے پر زور دینا درست نہیں معلوم ہوتا۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  نے لکھا ہے: اس میں شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھیرایا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیا جائے اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کردیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بہ جائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔(رسائل ومسائل، جلد اوّل، ص ۱۳۹)

ایک صاحب نے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا، جس میں اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے بحث کرنے کے بعد اجتماعی دعا بعد نماز کو بدعت قرار دیا۔ مولانا سید احمد عروج قادریؒ  نے اس مقالے کو ماہ نامہ زندگی رام پور میں شائع تو کردیا ، مگر ساتھ ہی اس پر یہ نوٹ بھی لگایا: میں اپنے مطالعے کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اگراس اجتماعی دعا کو فرض نمازوں کا جز نہ سمجھا جائے تو اس کے بدعت ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل فرض نمازوں کے بعد مختلف اوقات اور مختلف حالات میں مختلف رہا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذکار، استغفار اور دعاؤں کے جو کلمات ارشاد فرمائے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک مقالہ تیار ہوجائے۔ کبھی آپؐفرض نمازوں کے بعد اپنی جگہ سے فوراً ہٹ جاتے، کبھی اذکار اور دعاؤں کے اچھے خاصے طویل کلمات ارشاد فرماتے، اس کے بعد اپنی جگہ سے ہٹتے۔ کبھی نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کرامؓ  کی طرف رخ کرکے بیٹھ جاتے۔ بیٹھ کر آپؐ کیا کچھ کرتے یا کہتے تھے، اس کی تمام تفصیلات احادیث میں نہیں ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کو ایک اصل مان کر  امام اور مقتدی دونوں مل کر اجتماعی دعا کرلیں تو اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔   (ماہ نامہ زندگی ، رام پور، جلد۶۰، شمارہ ۶، رجب ۱۳۹۸ھ،جون ۱۹۷۸ئ، ص۴۹)

صاحب ِمقالہ نے اس موضوع پر بھی تفصیل سے بحث کی تھی کہ جن احادیث میں فی دبر کل صلوٰۃ دعا کا ذکر آیا ہے اس سے مراد نماز کا آخری حصہ (سلام پھیرنے سے پہلے)ہے ،نہ کہ نماز کے بعد۔ اس کا رد کرتے ہوئے مولانا عروج قادریؒ  نے لکھا ہے: قُبل اور دُبر ایک دوسرے کی ضد اور نقیض ہیں۔ جس طرح قبل کے اصل معنی مقدم (آگے)کے ہیں، اسی طرح دُبر کے اصل معنی موخر(پیچھے)کے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے جسم کے آگے کے حصے کو قُبل اور پیچھے کے حصے کو دُبر کہتے ہیں اور اسی لحاظ سے اس لفظ کے معنی آخر اور بعد دونوں صحیح ہیں۔ مُدَبَّر اس غلام کو کہتے ہیں جس کو اس کے آقا نے اپنی موت کے بعد آزاد کردیا ہو۔ قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی اس لفظ کو بعد کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے۔

سورۂ ق میں ہے: وَاَدْبَارَالسُّجُوْدِ(۵۰:۴۰)۔ اس کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ  نے یہ کیا ہے:’’اور فرض نمازوں کے بعد بھی‘‘۔ دُبرالصلوٰۃ کے الفاظ بہت سی حدیثوں میں آئے ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث میں وضاحت اور صراحت کے ساتھ دبر کے معنی بعد کے ہیں۔ مثلاً بعض احادیث میں فی دبرالصلوٰۃ مخصوص تعداد میں تسبیحات پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ، فرض نمازوں کے سجدے میں یا تشہد ودرود کے بعد نماز کے اندر ان تسبیحات کو گن کر پڑھنے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ تمام محدثین ان کو فرض نمازوں کے بعد ہی کا ذکر قرار دیتے ہیں۔ بعض محدثین نے اس طرح کی احادیث پر تراجم یا عنوانات مقرر کرکے واضح کردیا ہے کہ دبرالصلٰوۃ  کے معنی بعدنماز کے ہیں، نہ کہ نماز کے آخر میں۔ امام نسائی نے اس طرح کے متعدد عنوانات قائم کیے ہیں، مثلاً ان کا ایک عنوان ہے: التہلیل والذکر بعد التسلیم۔ اس کے تحت جو حدیث انھوں نے نقل کی ہے اس میں دبرالصلٰوۃ کا استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری نے بھی کتاب الدعوات میں الدعاء بعد الصلٰوۃ کا باب باندھا ہے اور اس میں دبر کل صلٰوۃ والی حدیث نقل کی ہے۔ (ایضاً، ص ۴۹-۵۰)

مولانا سید احمد عروج قادریؒ  نے مزید لکھا ہے:اس سے آگے کی ایک اور بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ احادیث نبویؐ میں نماز کے اندر کی دعاؤں اور اذکار کے لیے فی صلوٰتہ ، فی سجودہ، فی السجود، فی صلوٰتی یا بعد التشہدکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور  نماز کے بعد کی دعاؤں اور اذکار کے لیے دبرالصلوٰۃ ، فی دبرالصلوٰۃ، حین ینصرف، اذاسلّم، حین فرغ من الصلوٰۃ یا اثرالصلوٰۃ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دبرالصلٰوۃ یا فی دبرالصلٰوۃ کاترجمہ نماز کے بعد ہی صحیح ہے۔(ایضاً، ص۵۲)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

سیدابوالاعلیٰ مودودی: سوانح، افکار، تحریک، عبدالرحمن عبد۔ ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۶۶۶۵-صفحات: ۴۴۶، مع اشاریہ۔ قیمت:۳۵۰ روپے

گذشتہ ایک صدی سے کاروانِ شہادتِ حق کے قائدین میں ایک نمایاں ترین ہستی   مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ ہرعہد کے طالبانِ حق اس امر کے متلاشی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قائدین کے کارنامۂ حیات کو جانیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کن حالات میں ان رجالِ کار نے علمِ حق تھاما، بلند کیا اور ایک عہد کے دل و دماغ میں اس پرچم کا پیغام اُتارا۔

اب سے تقریباً ۴۰ برس پہلے پروفیسر عبدالرحمن عبد مرحوم نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ابتدائی زندگی، جدوجہد، آزمایش دارورسن اور تحقیق و تالیف کے تادیر زندہ رہنے والے اُمور پر معلومات جمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ اس طرح انھوں نے زیرنظر کتاب جولائی ۱۹۷۱ء میں کاروانِ حق کی خدمت میں پیش کردی۔

اس کتاب میں بھی دیگر کتب کی طرح کئی کمیاں تھیں اور معلومات کی پیش کاری میں بھی کچھ مسائل تھے، تاہم اس حوالے سے کتاب اور کتاب کے مصنف خوش قسمت ہیں کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے کتاب کی اشاعت کے بعد، اس میں اپنی ذات کے حوالے سے بعض تسامحات کو دُور کرنے کے لیے مصنف کو خط لکھا۔ یہ خط موجودہ ایڈیشن میں نہ صرف شامل ہے بلکہ اس کی روشنی میں مصنف نے پورے مسودئہ کتاب پر نظرثانی بھی کی۔

اس کتاب کا یہ تیسرا یڈیشن ۳۴ برس بعد شائع ہوا ہے۔ جو پہلی دو اشاعتوں سے کئی اعتبار سے بہتر ہے۔ کتاب رواں دواں، دل چسپ اور عام فہم انداز میں، مولانا کی زندگی کے مختلف اَدوار کو پیش کرتی ہے۔ مطالعے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے مدارج  بیک نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


ترجمان القرآن الکریم و تفہیم القرآن العظیم،ترجمہ و تفسیر: مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، مرتب: احمد ابوسعید۔ ناشر: اسلامک بک سروس، دریا گنج، نئی دہلی۔فون: ۹۹۴۹۰۳۵۳۵۶-۰۰۹۱۔  صفحات: ۷۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ بھارتی روپے۔

احمد ابوسعید صاحب نے اس سے پہلے ذلک الکتاب اور ترجمان القرآن الکریم دوکتابیں پیش کی ہیں۔ اب یہ تیسری ہے۔ اس کا نام اتنا طویل ہے، اور اس کے ساتھ مزید تشریح طویل تر ہے کہ میرا جیسا آدمی تو گھبرا کر کتاب کو چھوڑ دے۔ دراصل یہ کتاب الفاتحہ اور پارہ عم کی   تفہیم القرآن کی تفسیر ہے، جس میں مرتب نے جہاں مولانا مودودی نے پہلی سے چھٹی جلد تک کے حاشیوں کے حوالے ملاحظہ کرنے کے لیے کہا ہے، وہ انھوں نے حوالے پورے پورے نقل کردیے ہیں۔ یہ حصہ صفحہ ۴۰ سے ۶۷۳ تک ہے۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ النصر کے ۱۰ مقبول تراجم کا، اور ۱۰مقبول تفاسیر کا تقابلی مطالعہ دیا گیا ہے۔ آغاز میں مقدمہ تفہیم القرآن اور مقدمہ ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی دیا ہے۔ قرآن کے ۲۰۰ ایسے الفاظ کے معنی دیے ہیں جو ان کے مطابق قرآن کریم کے ۶۰فی صد الفاظ پر محیط ہیں۔ اس کے مطالعے سے تیسویں پارے کے مضامین اچھی طرح ذہن نشین اور دل نشین ہوجاتے ہیں۔

توحید، رسالت اور بالخصوص آخرت کا بیان، جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ایسا تذکرہ کہ جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے۔ الم نجعل الارض مِھٰدا میں چھے جلدوں سے ۹ حواشی ایک ساتھ پڑھنے سے مطالب و معانی کی دنیا کھل جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر موضوعات بھی۔ اس کتاب کا ہدیہ اصل لاگت سے بھی کم رکھا گیا ہے اور اس پر بھی تاجرانہ کمیشن دیا جاتا ہے۔ اگر مرتب کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ مفت چیز کی ناقدری ہوگی تو وہ شاید اتنا ہدیہ بھی نہ لیتے۔  اللہ سے دعا ہے کہ ان کی کوششیں جاری رکھے۔ پاکستان کے شائقین کو حیدرآباد (دکن) سے شائع شدہ کتاب کو دہلی سے حاصل کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔(مسلم سجاد)


فقہ اسلامی: تعارف و تاریخ، پروفیسر اختر الواسع، محمد فہیم اختر ندوی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۱۹۔ قیمت: درج نہیں۔

کتاب و سنت سے تمام علما و فقہا کا احکام اخذ کرنے کا معیار ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا کی آرا میں اختلاف موجود ہے اور رفتہ رفتہ یہ اختلاف فقہی مسلکوں کی صورت اختیار کرگیا اور ہردور میں متعدد فقہی مسلک موجود رہے۔ کچھ آج تک قائم ہیں، کچھ اپنے دور ہی میں ختم ہوگئے، اور کچھ ایک عرصہ قائم رہنے کے بعد ناپید ہوگئے۔ فقہ اسلامی کی اس تاریخ کے آغاز سے حال تک کا بیان مدارس اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ایک ضرورت تھی جس کو بھارت کے دو اہلِ علم نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ہندستان کے تعلیمی تناظر کو پیش نظر رکھ کر مرتب کی گئی ہے اور کچھ عرصہ قبل دہلی سے شائع ہوئی۔ اب پاکستانی ناشر نے اسے ٹائپ کاری کے اپنے قالب میں ڈھال کر شائع کیا ہے۔ کتاب کے مندرجات میں فقہ اسلامی کے آغاز، مصادر، تاریخ، مسالک، علوم، اجتہاد و تقلید، فقہی اختلاف اور فقہی کتابوں کے عنوانات پر مختصر مواد پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسلامی فقہ کے اجمالی تعارف و تاریخ پر مشتمل کتاب ہے۔ اُمید ہے کہ مصنفین کی یہ کاوش طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (ارشاد الرحمٰن)


جانبِ حلال، خلیل الرحمن جاوید۔ ناشر: فضلی بک، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۵۷۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

اسلامی(حلال) کاروبار اور خصوصاً اسلامی بنکاری کے موضوع پر جتنی کتابیں آج کل لکھی جارہی ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ لکھی گئی ہوں گی۔ آئے دن نئی سے نئی کتاب کا منظرعام پر آنا اِس موضوع سے عوام الناس کے شوق میں اضافے کا باعث بن رہا ہے بلکہ ہرنئی تصنیف اِس میدان میں نئی راہیں کھولنے کا موجب بھی بن رہی ہے۔

اسلامی بنکاری و کاروبار کی مشہور تصانیف میں ایک حالیہ قابلِ قدر اضافہ قاری خلیل الرحمن کی جارحانہ اور بے باک تصنیف جانبِ حلال ہے۔کتاب کا نام بہت ہی نفیس و پُرکشش ہے جو اپنے قاری کو کتاب کے بغور مطالعہ کی طرف اُکساتا ہے۔ جس قدر اِس کتاب کا نام خوب صورت ہے اِسی قدر خوب صورتی سے اِس کے اندر مختلف ابواب کی تقسیم کی گئی ہے۔ ہرباب میں موجود ہرموضوع اپنے اندر نہ صرف جامعیت کا حامل ہے بلکہ اپنے اگلے موضوع کی مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

کتاب کے شروع میں ’تقدیم‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالرشید صاحب (صدر مجلس اسلامی، پاکستان) کی ایک خوب صورت تحریر کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے۔ ’عرضِ مؤلف‘ و ’ماخذِ شریعت‘ جیسے بنیادی عنوانات کے بعد مؤلف نے کتاب کو چھے ابواب میں بالترتیب ۱-معیشت اور اسلام، ۲- حرام کی جدید شکلیں ۳- حرام کی قدیم مگر مروج شکلیں، ۴-چند حرام اور معیوب پیشے، ۵- اسلامی بنکاری نظام، اور ۶- انشورنس و تکافل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا باب ’کسب حلال‘ کی ضرورت و اہمیت اِس کے حصول مناسب ذرائع اور اِس میں برکت کی طرف توجہ کی طرف زور دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مؤلف نے حلال و حرام کی تمیز اور اس سے متعلق اِسلام میں انسانی مجبوریوں کا لحاظ بیان فرمایا ہے۔ باب کے آخر میں ’حُرمتِ سود‘ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلاً تحریر کیا گیا ہے۔

دوسرا باب حرام کی جدید اشکال کو واضح کرتا ہے۔ یہ باب بھی انھی جامعیت کے اعتبار سے ایک بھرپور تحریر ہے جس میں مؤلف نے جدید دور کے تمام لین دین سے منسلک اشکال و شکوک و شبہات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے اِس حصے میں مختلف قسم کی انعامی اسکیموں، کاروباری حصص کے لین دین، سٹہ بازی، کریڈٹ و کریڈٹ کارڈوں کی موجودہ شکل و ابہام، بی پی فنڈ، پگڑی سسٹم اور دیگر ممالک کی کرنسی کا لین دین کو واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے۔

تیسرے باب میں حرام کی قدیم مگر مروج اشکال پر موضوع کو زیربحث لایا گیا ہے۔ خاص موضوعات میں بیع کی شرائط کا مختلف پہلوئوں سے قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی جائزہ، دورِ نبویؐ میں تجارت کی چند مثالیں شامل ہیں۔ باب کا اختتام مولانا تقی عثمانی مدظلہ و دیگر علماے کرام کے موضوع سے متعلق اِشکالات اور مؤلف کی جانب سے اُن کے جوابات پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

چوتھا باب ’چند حرام اور معیوب پیشے‘کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے قابلِ ذکر حرام و معیوب پیشوں میں گلوکاری، رقاصی، مجسمہ سازی، بیوٹی پارلر، ٹی وی، گداگری، ہیئر ڈریسنگ، قوالی وغیرہ جیسے موجودہ زمانے میں عام پائے جانے والے پیشوں کا عقلی و عملی جائزہ لیا گیا ہے۔

آخری پانچواں اور چھٹا ابواب اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام ممکنہ موضوعات کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں جس میں اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام اداروں کی تقریباً تمام پروڈکٹس جو شراکتی، تجارتی، سہولیائی اور کرایہ کی بنیاد فراہم کی جاسکتی ہیں، کا مفصل جائزہ مع دیگر علماے کرام کے اِشکالات اور اُن کا مؤلف کی جانب سے قرآن و سنت کی روشنی میں جوابات تحریر کیے گئے ہیں۔

یہ کتاب مکمل طور پر اپنے موضوع پر لکھی گئی ایک جامع کتاب ہے۔ اس میں اپنے موضوع کا تفصیلی احاطہ، قرآن و حدیث کے مناسب و بروقت حوالہ جات، عام فہم شرح و دلیل، منقولات کے معقولات وامثلہ کی بخوبی پیش کش کی بخوبی پیش کش اور دیگر علماے کرام کے اِشکالات کا تفصیلی بیان اور اُن کے جوابات، اس کتاب کی نمایاںخصوصیات میں شامل ہیں۔

کتاب کے ہر موضوع کے آخر میں موضوع سے متعلق معروضی سوالات اور ہرباب کے اختتام پر مختلف موضوعات پر کیس اسٹڈی بشمول سوالات کتاب کی افادیت میں مزید افادیت کا باعث بن سکتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(محمود شاہ)


مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات، مرتبہ: صہیب حسن۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۹۷۔ قیمت:درج نہیں۔

مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ (۲۰ جولائی ۱۹۱۳ئ، رہتک۔ ۲۲مارچ ۲۰۰۷ئ، اسلام آباد) استاد حدیث اور داعی دین تھے، ایک محقق اور شفیق انسان تھے۔ جنھوں نے ہندستان، پاکستان اور سعودی عرب میں تعلیم و تدریس کے کارہاے نمایاں انجام دیے اور دعوتِ حق کے نقوش ثبت کیے۔ ان کا تحریری اثاثہ تادیر خدمت ِ دین کا حوالہ بنا رہے گا۔

زیرنظر کتاب کے مرتب لکھتے ہیں: ’’میں نے والد مکرم کی زبان سے واقعات و ارشادات کو معمولی تغیر و تبدل کے ساتھ صفحۂ قرطاس کی ترتیب بنانے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص۱۴)۔ کتاب کا موضوع مولانا مرحوم کے کارنامۂ حیات کو پیش کرنا ہے۔ تاہم فاضل مرتب نے اسے حسنِ ترتیب سے پیش کرنے کے بجاے متفرق واقعات اور تحریروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ تکرار کی کثرت اور متعلقہ اُمور پر قرار واقعی تحریر و ترتیب کی کمی کا عنصر نمایاں ہوگیا ہے۔

پھر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے متعدد مقامات پر ظن و تخمین اور  لب و لہجے میں ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالغفار حسن مرحوم سے ملنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس طرزِ تکلم کو روا نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے ’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔مولانا عبدالغفار حسن، مسلم اُمت کے ایک قیمتی انسان اور استادالکل تھے، لیکن کتاب میں انھیں محافظِ مسلک اہلِ حدیث کے طور پر پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔مرتب کی اس کاوش کا استقبال کرنے کے باوجود، مذکورہ موضوع پر سوانحی کتاب کی تشنگی موجود ہے۔ (س-م- خ)


صرف ۵ منٹ، ہبہ الدباغ، ترجمہ: میمونہ حمزہ۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۱۔ قیمت: ۲۷۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ملک شام کی طالبہ ہبہ الدباغ کے زمانۂ شباب کے نو برسوں کی خودنوشت ہے۔ یہ ۸۰ کا عشرہ تھا۔ مصنفہ شریعہ کالج میں آخری سال کی طالبہ تھی۔ حکومت پر حافظ الاسد نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس نے اسلامی تحریکات بالخصوص اخوان المسلمون سے تعلق کو گناہِ کبیرہ قرار دے رکھا تھا۔ وہ ظلم و ستم، انتقام و تعذیب اور دہشت گردی میں ہر حد سے آگے نکل گیا تھا۔ ایک تاریک شب ہبہ الدباغ کو خفیہ پولیس کے ایک اہل کار نے رات کے اندھیرے میں آجگایا اور کہا: صرف پانچ منٹ آپ سے گفتگو کرنی ہے، پھر وہ پانچ منٹ نو برسوں پر پھیل گئے۔ ہبہ کبھی اِس جیل میں رہی تو کبھی اس جیل میں۔ یہ جیلیں، بدترین عقوبت خانے تھے۔ ایمان و استقامت کی دولت سے سرشار یہ نوجوان لڑکی درندوں سے اپنی عصمت بچاتی اور مسلسل گوناگوں تکلیفیں اُٹھاتی رہی۔ اسے سونے نہ دیا جاتا، بھوکا رکھا جاتا۔ اگرچہ کبھی کوئی نرم دل ہمدردی کا بول بھی بول دیتا۔ ہبہ کے ساتھ اور بھی خواتین تھیں اور سب وحشیوں کے ظلم و جبر کا نشانہ بنیں مگر اللہ نے ان کو استقامت ، ہمت اور حوصلہ عطا کیا اور ان نو برسوں میں وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں۔

ان کا قصور؟ ظالم حکومت کو شک تھاکہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ محض شک کی بنا پر یہ سب جورو استبداد کی چکّی میں پستی رہیں۔ ہبہ الدباغ سے پہلے جمال عبدالناصر کی جیل میں زینب الغزالی بھی ایسی ہی تعذیب کا شکار رہیں۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنی زینبیں اور ہبائیں مصری اور شامی حکمرانوں کے ظلم و جبر کا شکار ہوئی ہوں گی۔ خاندانوں کے خاندان اُجاڑ دیے، بچے ذبح کردیے گئے۔ ابوبکر، عمروعثمان اور عائشہ و حفصہ نام کے نوجوان اور بچے بالخصوص قتلِ عام کا نشانہ بنے۔ ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف نے بھی لال مسجد میں یہی کچھ کیا تھا۔

مقدمہ زینب الغزالی نے لکھا ہے اور تقریظ قاضی حسین احمد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہماری خواتین کے عزم و ہمت اور ایمان میں اضافہ ہوگا، وہاں ہمارے مردوں میں بہادری، غیرت اور حمیت بڑھے گی۔ عربی سے اُردو ترجمہ رواں، کتاب خوب صورت اور قیمت مناسب ہے۔(قاسم محمود احمد)


باتیں ___ کچھ اور بھی ہیں، منظوراحمد۔ناشر: لائٹ ہائوس ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز، سٹی ٹاور، ایبٹ روڈ، لاہور۔ رابطہ: ۶۳۱۴۲۲۹-۰۴۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

مصنف سال ہا سال بیرونِ ملک مقیم رہے۔ لکھتے ہیں: ’’یورپ، مڈل ایسٹ اور پاکستان میں ہمیں قوموں کے رہنمائوں، صحافیوں، فوجیوں، جہادیوں، تاجروں، لٹیروں، شیشہ گروں کی حرکات و سکنات کو قریب اور ایسے زاویے سے دیکھنے کاموقع ملا، جو شاید کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہ ہوا ہو‘‘ (ص ۱۲)۔ چنانچہ منظوراحمد صاحب نے اپنی زندگی کے ’’غیرمعمولی واقعات کی تصویروں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ انداز و اسلوب دل چسپ، رواں اور کہیں کہیں شوخ و شگفتہ اور پُرلطف ہے، مزاح سے قریب۔ انگریزی ناموں اور مقامات وغیرہ کو لاطینی حروف میں لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح سے مصنف کی آپ بیتی ہے اور سفرنامہ بھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان سے ہجرت کر کے یہ خاندان لاہور پہنچا۔پہلے ماڈل ٹائون رہے، پھر مال روڈ پر واقع ایک کوٹھی میں طویل عرصے تک قیام رہا۔ والد اعلیٰ سرکاری افسر (ڈپٹی کمشنر، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو وغیرہ) ہونے کے باوجود سادہ مزاج، بدعنوانی سے دُور اور اپنے وسائل میں زندگی بسر کرنے کے قائل تھے اور اس پر عامل رہنے کے سبب گھر میں رزق کی بے حد برکت رہی۔ مصنف پڑھ پڑھا کر (گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کرکے بنک کاری کی تربیت کے لیے) لندن سدھارے۔ بنک کی تربیت چھوڑ کر لندن سے سی اے کیا اور وہیں ٹک گئے۔ حساب کتاب (اکائونٹنسی) کے وکیل رہے۔ درجنوں کمپنیوں کے مشیر اور ڈائرکٹر رہے۔ وائس آف اسلام کے بانی مدیر اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

اس آپ بیتی میں مصنف کے دوستوں، کرم فرمائوں، علاقوں، مقامات کا ذکر بکثرت آتا ہے مگر اس انداز میں کہ اُکتاہٹ نہیں ہوتی۔ مصنف نے تاریخ، جغرافیہ اور سیاست، سب پر بات کی ہے۔ ایک دنیا دیکھ چکے ، مگر کہنے کو اب بھی بہت کچھ ہے، اسی لیے کہتے ہیں: ’’باتیں___ کچھ اور بھی ہیں‘‘ ___  میرے خیال میں منظوراحمد صاحب کو وہ ’اور باتیں‘ بھی لکھ دینی چاہییں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تفسیر سورئہ فاتحہ، تحفۃ الاسلام، مولوی حافظ محمد اکرام الدین۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔صفحات: ۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردِ رشید حافظ محمد اکرام الدین کی اس کتاب کا مسودہ مولانا عبدالقیوم حقانی کے ہاتھ آگیا۔ ’’اس کتاب نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ قدیم طرزِتحریر اور پرانا ادب ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ درجے کی تحریر ہے جس کی ایک ایک سطر مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تحریری بانکپن، بیان میں خوب صورتی، علمی نکات میں دل کشی، مسائل میں عمق اور انداز داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ اور شاعری ہو یا نثر، حدیث کی توضیح ہو، یا قرآن کی تفسیر، تاریخ کا تذکرہ ہو یا فقہ کا مسئلہ، حُسن اس کی بے ساختگی میں ہے‘‘(ص ۹۰)۔ اب میں اور کیا کہوں، کتاب حاصل کیجیے۔ بچوں کو، طالب علموں کو بھی پڑھوایئے، اس سب سے زیادہ پڑھی جانے والی سورہ کے مطالب ان پر آشکار ہو جائیں گے۔(مسلم سجاد)


قرآنِ حکیم اور ہم، ڈاکٹر اسرار احمد۔ ناشر: مکتبہ خدام القرآن، ۳۶-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۴۹۵۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ کتاب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی آٹھ کتابوں کو یک جا کر کے تیار کی گئی ہے جن میں آپ نے قرآن کاتعارف پیش کیا ہے، اور مسلمانوں سے قرآن کے مطالبات و تقاضے بیان کیے ہیں۔ ۵۰۰صفحے کی اس کتاب میں آٹھ موضوعات پر تقاریر جمع ہیں: ۱-دنیا کی عظیم ترین نعمت قرآنِ حکیم، ۲- عظمت قرآن، بزبانِ قرآن و مصاحب ِقرآن، ۳- قرآنِ حکیم کی قوتِ تسخیر، ۴-تعارفِ قرآن مع عظمتِ قرآن،۵- قرآن اور امنِ عالم، ۶- مسلمانوں پر قرآنِ مجید کے حقوق، ۷- انفرادی نجات اور اجتماعی فلاح کے لیے قرآن کا لائحہ عمل، ۸- جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ۔ ہرخطبہ اپنی جگہ جامع اور راستہ دکھانے والا ہے، بس مسئلہ رستے پر چلنا ہے۔(م- س)


مولانا محمد منظور نعمانی کی سرگزشت اور مولانا مودودی، مرتب: شفیق الرحمن عباسی،   ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، ۳-کورٹ سٹریٹ، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۳۰۳۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

یہ کتاب اُن مطبوعہ تحریروں کا مجموعہ ہے، جو مولانا مودودی کے ابتدائی ساتھی مولانا محمد منظورنعمانی مرحوم کی جماعت اسلامی سے علیحدگی سے متعلق داستان پر مشتمل ہیں۔  فاضل مرتب نے مولانا نعمانی کی الزامی تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے، معاصر حضرات کی جانب سے ان کے جوابات کو اس انداز سے مربوط کرنے کی کوشش ہے کہ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ کا منظر بنتا دکھائی دیتا ہے۔اگر اختصار سے کام لیتے ہوئے اس فردِ قرارداد کو متعین الفاظ میں پیش کرکے تجزیہ کیا جاتا تو یہ اور زیادہ مؤثر پیش کش ہوتی۔ تاہم، موجودہ شکل میں بھی یہ صداے بازگشت ایک معنویت رکھتی ہے۔ (س-م-خ)


اُمت کا ایک ہی انتخاب: اسلام اور صرف اسلام، ڈاکٹر ابراہیم عبید۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ناشر: ادارہ معارف اسلامی ، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

ڈاکٹر ابراہیم عبید کی پونے چھے سو صفحات کی اس کتاب میں پانچ ابواب قائم کر کے سیکولر عناصر کو منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ الاسلام ھو الحل اس انتخاب میں اخوان کا نعرہ تھا۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا پہلے باب کا ترجمہ شائع کردیا ہے۔۵۶ صفحے کے اس کتابچے میں جو موضوعات زیربحث آتے ہیں وہ اس طرح ہیں: ۱-اسلامی ریاست کا عروج و زوال، ۲- یورپی انقلاب اور سیکولرزم، ۳- سیکولرزم اور اسلام، ۴-شریعت اسلامی کی بالادستی، ۵-آخری باب صفحہ ۲۵ سے ۵۳ تک ہے، اور اس میں شاید سب ہی متعلقہ اُمور کاذکر ہوگیا ہے، حتیٰ کہ تغیر ِحالات سے   تغیر ِفتویٰ بھی۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ بقیہ ۵۰۰ صفحے کے ترجمے کا انتظار ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے فی الحال تو جیسے ٹریلر چلا دیا ہے۔ (م- س)


احکامِ سُترہ، غلام مصطفی، حافظ شاہد محمود۔ کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: درج نہیں۔

سُترہ کے حوالے سے ہم صرف یہ حدیث جانتے ہیں کہ سامنے سے گزرنے کے بجاے ۴۰سال بھی کھڑا رہنا پڑے تو کھڑے رہو۔ اب اچھی مسجدوں میں اس کا انتظام ہے کہ بڑے ہال میں کچھ ایسے پارٹیشن لگا دیتے ہیں جس کے پیچھے لوگ سنتیں پڑھتے ہیں۔ کل ہی ایک مسجد میں چھوٹے سائز کے بھی دیکھے کہ نمازی اپنے آگے رکھ لے۔ ایک صاحب ِ علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ایک دو صف آگے تک نہ گزرا جائے لیکن اس کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے (اگر مَیں غلط نہیں سمجھا ہوں) سترہ کی حد وہاں تک ہے جہاں آپ سجدہ کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ مسئلہ جو ہرمسجد میں ہرنمازی کا مسئلہ ہے، اس کے تمام پہلو جاننے کے لیے مختصر کتابچہ یقینا مفید ہے۔(م- س)

عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ

’برما کے مظلوم مسلمان‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر دلی صدمہ ہوا اور مظالم کی تفصیل جان کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میانمار میں مسجدوں کو نذرِ آتش کرنا، کتب خانوں کو جلانا، اور خاص کر قرآن پاک کا جلانا اور عورتوں کی بے حُرمتی کرنا برمی حکومت اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کی انتہائی ناپاک جسارت ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا غیرمسلم حکومتوں کا ایک شرم ناک فعل ہے۔ مغربی میڈیا کا خاموش رہنا فطری امر ہے، تاہم  اسلامی میڈیا نے بھی اس سلسلے میں بھرپور آواز نہیں اُٹھائی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کامل یک جہتی سے بھرپور انداز میں اس کے خلاف آواز بلند کریں۔مغربی میڈیا امن کا زیادہ پرستار بنتا ہے، اس کو کھوکھلے نعرے نہیں لگانے چاہییں بلکہ عملی قدم اُٹھانا چاہیے۔


بیگم طاہرہ عقیل ، اسلام آباد

’مصر: اخوان ایوانِ صدارت میں‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) جہاں اخوان کی سیاسی پیش رفت، بیرونی چیلنج اور کامیابیوں کا احاطہ کرتا ہے، وہاں پالیسی امور پر اندرونی کش مکش اور غلطیوں سے صرفِ نظر بھی کرتا ہے۔ ترجمان جیسے مؤقر جریدے میں ایسے مضمون کا مقصد اخوان کی حکمت عملی اور کامیابیوں کو اُجاگر اور غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہونا چاہیے، جس سے ہمارے اپنے ملک کی اسلامی تحریک اور دینی قوتوں کو رہنمائی مل سکے۔

اخوان نے اپنے صدارتی اُمیدوار نہ لانے اور کسی مناسب اُمیدوار کی حمایت کرنے کا فیصلہ     جن حالات میں اور جن وجوہ کی بنا پر بھی کیا، ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح کے صدارتی امیدوار ہونے کے اعلان سے سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ ڈاکٹر ابوالفتوح اخوان کے مقبول اور محترم مرکزی رہنما رہے تھے اور انھوں نے کئی عشروں تک عالمی پالیسی اداروں میں اخوان کا نقطۂ نظر پیش کیا تھا۔ اخوان کو ان سے بہتر اُمیدوار نہیں مل سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر محمدمرسی کو صدارتی اُمیدوار نامزد کیا گیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ابوالفتوح اُمیدوار ہوتے تو اخوان انتخابات بھاری اکثریت سے جیت جاتے اور دوسرے رائونڈ کی نوبت ہی نہ آتی (کیونکہ ابوالفتوح کو    اخوان کے علاوہ سلفی جماعت النور، لبرل عناصر اور نوجوانوں سب ہی کی حمایت حاصل تھی)۔ اب صورت حال یہ رہی کہ ڈاکٹر مرسی پہلے رائونڈ میں اوّل تو آئے مگر صرف ایک فی صد ووٹ کے فرق سے ۔ دوسرے رائونڈ کا نتیجہ بھی منقسم انتخابی نتیجہ (split mandate) تھا جس کی وجہ سے عسکری و سیاسی بزرجمہروں کو اپنے مقاصد کے لیے کھل کھیلنے، اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے اور اخوان سے سودے بازی کی ہمت ہوئی۔


محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔


تنویر قمر دانش ، کراچی

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر ’فروعی مسائل اور علما کی ذمہ داری‘ (مئی۲۰۱۲ئ) میں اختلافی مسائل کا حل عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت چند سطحی فقہی اختلافات میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں، شلوار ٹخنے سے اُوپر ہو، آمین بلند ہو یا آہستہ، داڑھی کی مقدار اور لمبائی کتنی ہو؟ ان سے بڑھ کر دوسرے اہم مسائل کہ دیانت دار اور ایمان دار لیڈرشپ کیسے آئے، نااہل لوگوں سے چھٹکارا کیسے پائیں، قرآن و سنت کی تفہیم اور پوری زندگی کو اسلامی نظام کے تابع کرنا، اسلام کا غلبہ، جہاد اور کافروں کی سازشوں کا جواب___ ملک و ملّت کے ان ناگزیر تقاضوں کی طرف ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔


آئی اے فاروق، لاہور

’آیاتِ سجدہ‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) کے مطالعے سے ان آیات کا پس منظر اور اہمیت اُجاگر ہوئی۔ سجدہ سے متعلق مسائل سے بھی آگاہی ہوئی بالخصوص مولانا مودودی کی راے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں، جس حال میں ہو، جھک جائے سے روایتی نقطۂ نظر سے ہٹ کر پہلو سامنے آیا۔ ’کلامِ نبویؐ کی کرنیں‘ میں مولانا عبدالمالک نے عمدہ انتخاب احادیث کیا۔تذکیر کے ساتھ ساتھ دین کے عملی تقاضوں کی طرف رہنمائی بھی دی۔


دانش یار ، لاہور

علامہ محمد اسد کے مضمون ’ہم پاکستان کیوں بناناچاہتے ہیں؟‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) کی اشاعت سے آپ نے ایک ایسے نومسلم مجاہد اسلام کی یاد تازہ کی کہ جس نے اپنے عالمِ شباب کے اوائل میں دین حق قبول کر کے عالمِ کفر میں مقیم رہنے کو ہجرت پر ترجیح دی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ۱۹۳۶ء میں چودھری نیاز علی صاحب کے نام اپنے ایک خط میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے     غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔ ( محمد اسد: ایک یورپین بدوی، ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی)

پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے ماہ نامہ ترجمان القرآن اگست ۲۰۰۶ء میں اسی عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا۔ جناب صادق قریشی ’سیلانی کی ڈائری‘ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت میں لکھا کرتے تھے۔ محمد اسد نے ۲۳ستمبر ۱۹۸۲ء کو ایک خط موصوف کو لکھا کیونکہ ایک وقت تھا جب ۱۹۵۲ء میں محمداسد کے بارے میں ترکِ اسلام کی تہمت کو اُچھالا گیاتھا: ’’میں اس وقت نیویارک میںبیٹھا اپنی کتاب روڈ ٹو مکہ   لکھ رہا تھا اور اتنی دُور سے اپنے خلاف کسی الزام کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ میرے حامیوں میں سرفہرست سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے میری اور میری شہرت کو ان الزامات سے بچانے میں بہت مثبت کردار ادا کیا۔ میں نہ کبھی جماعت اسلامی سے وابستہ رہا ہوں اور نہ کبھی حضرت مولانا کو میرے تمام خیالات سے اتفاق ہوا تھا۔ ان فکری اختلافات سے قطع نظر مجھے بصد مسرت اعتراف ہے کہ وہ ایک نہایت قابلِ احترام اور بے حد انصاف پسند شخصیت کے مالک ہیں‘‘۔ (محمد اسد- بندہ صحرائی، محمد اکرام چغتائی)

عالمی ترجمان القرآن کے باذوق قارئین کے لیے محمد اسد کو جاننے کے لیے ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی کی تالیف: Muhammad Asad - Europe's Grift to Islam جو دو جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، کا مطالعہ دل و دماغ کی مسرت کا باعث ہوگا۔ میرے جو احباب آج تک روڈ ٹو مکہ نہیں  پڑھ سکے وہ ایک لطیف حسرت لے کر دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔

الاخوان المسلمون اور ان کی دعوت

(تقریر حسن البنا شہیدؒ، ترجمہ: از طٰہٰ یٰسین، مکتبہ چراغِ راہ، ۹-لوٹیابلڈنگ، آرام باغ روڈ، کراچی۔ قیمت: ایک روپیہ چارآنے)

تجدید و احیاے اسلام کی جو روح مسلمانانِ عالم کی نئی نسل میں تقلیدِ مغرب کے تلخ تجربات کے بعد اُبھر رہی ہے، عربی ممالک میں اس کی مظہر مشہور دینی تنظیم ’الاخوان المسلمون‘ ہے۔ اس تنظیم کے داعی حسن البنا شہیدؒ نے یہ تقریر اس کی تاسیس کے ۱۰ سال بعد ۱۹۳۸ء میں اس کے پانچویں کھلے اجلاس کے موقع پر کی تھی۔ جماعت ’الاخوان المسلمون‘ اگرچہ آج اس مرحلے سے بہت آگے نکل گئی ہے جس میں وہ اس تقریر کے زمانے میں تھی لیکن یہ تقریر اپنی اُصولیت، اپنی جامعیت اور اپنی روحانیت کی وجہ سے آج بھی اس کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس میں اُس تحریک کے اصول و منہاج کو داعی شہیدؒ نے کھول کر پیش کردیا ہے جس کے لیے اخوان کو جمع کیا گیا تھا۔ اس میں وقت کے بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اخوان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام دراصل وہی اسلام ہے جو زندگی کے سارے شعبوں اور اس کے تمام مسائل کو محیط ہو‘‘ (ص ۳۲).....تحریکِ اخوان کی جامعیت یوں واضح کی ہے کہ: ’’الاخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے‘‘۔ ’’الاخوان المسلمون ایک طریقۂ سنیت ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک حقیقتِ تصوف ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک سیاسی جماعت ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک عسکری تنظیم ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک علمی و ثقافتی انجمن ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک معاشی ادارہ ہے‘‘ اور ’’الاخوان المسلمون ایک اجتماعی فکر ہے‘‘۔ (ص۲۸ تا ۳۰)۔ پھر اس تقریر میں بتایا گیا ہے کہ اخوان کی دعوت فقہی اختلافات سے دُوری، اکابر اور اربابِ جاہ سے بے نیازی، سیاسی جماعتوں اور انجمنوں سے اجتناب، ٹھوس تعمیری اور تدریجی طریق عمل، اشتہار و اعلان کے بجاے خاموش عملی کام جیسے امتیازات کی حامل ہے (ص ۳۲)۔ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اگرچہ اخوان خدمتِ دین کے لیے قوت کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ’’جہاں تک متشددانہ انقلاب کا تعلق ہے، الاخوان اس کے بارے میں کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے‘‘ (ص ۶۴).....

تقریر سادہ اور روحانی جذبات سے لبریز ہے۔ ترجمہ خاصا ہے، صرف ایک مقام پر ایک چیز کھٹکی کہ الاخوان کی دعوت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ’’ایمان والوں کے دلوں میں پہلے ایک حقیر تخم بن کر داخل ہوئی…‘‘ (ص ۵۲)۔ اس جگہ تخم کی چھوٹائی کو حقیر کے لفظ سے بیان کرنا نامناسب ہے کیونکہ تخم تو آخر اسلامی دعوت ہی کا ہے، وہ حقیر کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کے بجاے ’ذرا سا‘ کہنا چاہیے تھے ۔ (’مطبوعات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۶، ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ستمبر ۱۹۵۲ء ، ص۶۳-۶۴)