۲ نومبر ۲۰۰۷ء کو جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان شروع ہوا تو ہمیں قطعاً یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگلے ہی روز ہمیں نام نہاد ایمرجنسی، بالفاظِ دیگر مارشل لا کے نفاذ کی مکروہ خبر سننی پڑے گی۔ ہمارا اندازہ تھاکہ فوج ،بحیثیت مجموعی اپنی کمزوریوں کے باوجود، پرویز مشرف کو ملک میں دوبارہ مارشل لا‘ یا ماوراے آئین اقدامات کی اجازت اور مشورہ نہیں دے گی اور انھیں اس طرح کاکوئی اقدام کرنے سے باز رکھے گی لیکن افسوس کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
پرویز مشرف کو چونکہ اصل تشویش آئین کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے ججوں کے آزادانہ فیصلوں کے بارے میں تھی، اس لیے انھوں نے صدر کے بجاے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقدام کرکے آئین کو معطل کردیا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا‘ اور کچھ من پسند ججوں سے عبوری آئینی حکم نامے (PCO)کے تحت حلف اٹھوا کر ایک ایسی سپریم کورٹ بنالی جسے تمام دنیا کے سیاسی اور قانونی تجزیہ کار ایک بوگس اور جعلی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور جس کا قیام دستور اور قانونی حکمرانی کے ہر ضابطے کے خلاف ہے۔ ملک میں اس وقت عملی طور پر عدالت عظمیٰ اور چاروں صوبوں کی عدالت ہاے عالیہ معطل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی وکلا تحریک کی وجہ سے کماحقہ کام نہیں ہورہا۔ اس صورت حال میں یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسا ملک کیسے چل سکتا ہے جہاں عدالتیں کام کرنا چھوڑ دیں،اور تمام قوانین فرد واحد کی خواہشات کے تابع بن کر رہ جائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اصل اقتدار ابتدا ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ دورِ غلامی میں برطانوی حکومت بھی غیرمنقسم ہندستان میں بیوروکریسی پر نظر رکھتی تھی،تاہم وہ غلاموں کے ساتھ سلوک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی تھی لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوگئی‘ اور اس کے رویے کو حدود کا پابند رکھنے کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا جس سے مطلق العنان سول اور ملٹری بیوروکریسی خودسر ہوتی گئی۔
سپریم کورٹ اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوںنے اکڑی ہوئی گردنوں والے ان افسروں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے اور انھیں ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ انھوںنے مفقود الخبرافراد( missing persons)کے بارے میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ انھیں عدالت میں پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں میں اسلام آباد کے پلاٹو ں کی بند ر بانٹ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کس قاعدے اور ضابطے کے مطابق یہ لوگ کروڑو ں روپے کی جایدادیں اونے پونے داموں سے اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں؟
پاکستان میں بار بار کے مارشل لا کے ذریعے جمہوریت کی جو درگت بنی ہے اور آئینی ضابطوں کو جس طرح پامال کیا جاتار ہاہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر کچھ زیادہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوجی جرنیل تو کیا‘ فوج کا کوئی معمولی افسر بھی اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا لگانے کی بڑی وجہ یہی بتائی ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کا رویہ ناقابل قبول تھااور وہ اعلیٰ افسران کی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ بقول ا ن کے انھوں نے ماوراے قانون و دستور ’اختیارات‘ استعمال کیے، اور ان کی نگاہ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے ایمرجنسی لگانا ضروری تھا۔
مگر حقیقی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔آئین میں صدرِ پاکستان کو وزیراعظم کے مشورے پر مشکل صورت حال میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن پرویز مشرف نے یہ قدم چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اٹھایا ہے ،اور ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘کے نام سے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔یاد رہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے دوسری دفعہ دستور کو معطل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ وہ پہلے قابض حکمران ہیں جنھوں نے خود اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خلاف مارشل لا لگایا ہے اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ سے اگرچہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا اختیار پھر بھی نہیں ملتا۔ پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی وہ کون سی دفعہ ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ سپریم کور ٹ کے رویے کو درست کرنے کے لیے مارشل لا لگادے ،اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے تقریباً ۶۰ ججوں کو خودساختہ عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے کے جرم میں عدلیہ سے نکال باہر کرے۔ دستور تو بہ صراحت حکومت کے تمام اداروں اور کارندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلوں کی بے چون و چرا تعمیل کریں۔ پرویز مشرف کا یہ اقدام وہی ماوراے آئین آخر ی مکّا(final punch)ہے جس کی دھمکی وہ سپریم کورٹ کو دے رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا تووہ آخری مکّا رسید کردیں گے۔
حیرت ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ یہ کارروائی انھوںنے آئین اور قانون کے مطابق کی ہے‘ حالانکہ یہ سب کچھ انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کیااور آئین معطل کرکے چیف جسٹس کو ان کے منصب سے ہٹا دیا۔ نیز ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کردیا‘ اور حلف نہ لینے والوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ یہ پوری کارروائی ہرقانون اور آئین سے بالاتر بلکہ ان سے متصادم ہے،اور آئین کی دفعہ ۶کے تحت High Treason ‘یعنی بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں فوج بحیثیت ادارہ شریک کرڈالی گئی ہے۔فوج جیسے اہم ادارے کا آئین کے خلاف کارروائی میں شریک ہونا‘ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غریب قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی دیتی رہی ہے اورجسے عوام کی روٹی ،کپڑے ،مکان اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات پر فوقیت دی گئی ہے، اس ادارے کے نام پر اس کا سربراہ اب اپنی قوم کے حقوق چھیننے پر تل گیا ہے۔ ان حالات میں ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار بھی انگشت نمائی کررہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں نے ایک استحصالی طبقے کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا ہر فرد کروڑوں روپے کی جایداد کا مالک ہے۔ اس طبقے نے پوری قوم کو غربت اور جہالت کے گہرے غار میں دھکیل کر اسے غلامی اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طبقے کا غرور اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کرے تو یہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کچھ دوسرے ججوں پر الزام لگایا ہے کہ مفقود الخبرافراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے بعض اعلیٰ افسروں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے کر ان کی توہین کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سندھ کے چیف سیکرٹری کا ذکر کیا جیسے کسی اعلیٰ افسر کو عدالت میں بلانا ہی کافی جرم ہے جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کو برطرف کیا جاسکتاہے ،اور یہ کام چیف آف آرمی سٹاف کرسکتا ہے حالانکہ آئین کے مطابق اس کا درجہ کسی صورت میںچیف جسٹس کے برابر نہیں ہوسکتا۔
ایک اورخطرناک پہلو یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق کسی سویلین کوبھی آرمی ایکٹ کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کا کورٹ مارشل کرنے کا راستہ کھول دیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھالیکن دہشت گردی کا الزام تو اس ملک میں ہر سیاسی کارکن پر بہت آسانی سے لگادیا جاتاہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی کارکنوں کو دبائو میں رکھنے کے لیے سب سے آسان حربہ یہی ہے۔
اس وقت قومی وبین الاقوامی دبائو بڑھ رہا ہے اور پرویز مشرف سے ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا ایک اور قدم اٹھا کر سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو عبوری وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔ ایک طرف وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں جو صدر کی عارضی یا مستقل غیر حاضری کی صورت میں دستور کے مطابق قائم مقام صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال سکتے ہیں‘ اور دوسری طرف انھی کو عبوری وزیراعظم بنا کر ایک دستوری سوال پیدا کردیاگیا ہے کہ ایک شخص بیک وقت سینیٹ کا چیئرمین اور وزیراعظم کیسے بن سکتاہے۔ حکومت کے نمایندے اٹارنی جنرل ملک قیوم کا کہنا ہے کہ چونکہ دستور معطل ہے اس لیے وہ عبوری وزیراعظم بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کے عہد میں نہ کوئی دستور ہے اور نہ کوئی ضابطہ اور قانون۔
اگر مغربی ممالک کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ایمرجنسی کو ہٹا دیاجائے اور دستور بحال کرکے انتخابات کرادیے جائیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس دوران جو آرڈر اور ضابطے جاری کیے گئے ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت تو قومی اسمبلی بھی نہیں ہے کہ آٹھویں یا سترھویں ترمیم کی طرح کے کسی دستوری حیلے کے ذریعے مارشل لا کے ضابطوں کو سند جواز مل سکے اور غیرآئینی فعل کو جو دستور کے آرٹیکل ۶کے مطابق غداری اور بغاوت ہے‘ تحفظ (indemnity) فراہم کرسکے۔ یہ صورت حال عملاً جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تاکہ جمہوری سویلین حکومت قائم کرنے کے دستوری راستے بند کردیے جائیں اور ایک نئے تازہ دم جرنیل کے لیے راستہ ہموار کیا جائے‘ یا دستور سے بالا تر ایک سویلین حکومت قائم کی جائے جس طرح یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔
پرویز مشرف نے ۱۵نومبر کو قومی اسمبلی اور۲۰نومبر کو صوبائی اسمبلی کو برخاست کرنے اور ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن انھوںنے آئین کی بحالی کی تاریخ نہیں دی اور ججوں کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں مارشل لا ہے، دستور معطل ہے، اعلیٰ عدالتوں کو مفلوج کردیا گیاہے اور ملک میں عدل و انصاف کے ادارے اور انتخابات کا انتظام فوجی آمر کی مرضی کے تابع ہیں ، کیا انتخابات میں حصہ لینا چاہیے؟ اس کا فیصلہ تو سیاسی و دینی جماعتوں کی مجالس مشاورت کو گہرے غور و خوض کے بعدباہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی اور جمعیت علماے اسلام (ف) جعلی الیکشن میں حصہ لینے کے بجاے عدلیہ کی بحالی کے لیے مشترک جدوجہد کے کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے ایک قومی مجلس مشاورت بلانے کا فیصلہ کیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لیڈروں اور وکلا کی تنظیموں کے نمایندوں کو بھی دعوت دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن میاں محمد نواز شریف کی خواہش کے احترام میںکہ یہ کانفرنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی دعوت پر ہو، مولانا فضل الرحمن صاحب اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے مشورے کے بعد اسے ملتوی کردیاگیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی دعوت پر لوگ ان کے گھر پر کراچی میں جمع ہوں تو انھیں بھی ہم نے مل کر یہ مشورہ دیا کہ مناسب ہوگا کہ کسی غیر جانب دار شخصیت کے ہاں غیررسمی طور پر ہم سب مشورے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس کے لیے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا نام بھی ہم نے اور نواز شریف صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
اس پریشان کن منظر میں ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد(۶۰ کے قریب) نے چیف آف آرمی سٹاف کی غیر آئینی مداخلت کو ناجائز قرار دیا ہے اور مارشل لا کے نفاذ کو چیلنج کرکے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے۔اس وقت قوم کا فرض ہے کہ ان بہادر اور زندہ ضمیر رکھنے والے ججوں کی پشت پر کھڑے ہوکر ان کی بحالی کی تحریک چلائیں کہ ان کی بحالی ہی آئین کی بالادستی اور حقیقی عدل و انصاف کو فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ایک آزاد عدلیہ کی بحالی تمام اداروں کی بحالی کا راستہ ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج زندہ ضمیر کے مالک ہوں۔
ہمارے خیال میںوطن عزیز کوان حالات سے نکالنے کے لیے صرف عوامی تحریک ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ایک متفقہ متبادل پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ کیا موجودہ سیاسی اور مذہبی زعما اس غیرمعمولی صورت حال کا ادراک کرکے ایک ہی فارمولے پر جمع ہوسکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت ان تمام ججوں کو جنھوںنے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، بحال کرکے دستوری راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ لیکن اس حل پر متفق ہو کر اس کی خاطر عوام کو ساتھ لے کر پُرامن جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ پُرامن جدوجہد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج اور پولیس سے تصاد م کی نوبت نہ آئے اور پرامن عوامی احتجاج بھی مسلسل جاری رہے۔ جیسے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرانا اور متعین اوقات میں گھروں اور دکانوں سے نکل کر ایک گھنٹے کے لیے سامنے کی گلی اور سڑک پر پُرامن دھرنا دینا‘ یا بینر لے کر خاموش مظاہرے کرنا اور ان سرگرمیوں کے لیے محلے اور بازار میں انفرادی رابطے کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا۔ خطبوں اور تقریروں میں حالات پر تبصرہ کرکے لوگوں کو ملک و قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے انفرادی آرام کو نظرانداز کرکے تھوڑی بہت مشقت اُٹھا کر کام کے لیے تیار کرنا، اور امت کے معاملات میں دل چسپی لینے کی شرعی ضرورت کا احساس دلانا، مساجد کے باہر بینرلے کر خاموش مظاہروں کے لیے کھڑے ہوجانا،وہ چند پُرامن طریقے ہیں جنھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی مرحلے پر گرفتاریاں پیش کرنا اور جیل بھرو تحریک بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کو تیار کرنا اورجیل جانے والے ساتھیوں کے گھر والوں اور ان کے بچوں کی نگہداشت کا مناسب نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے آئین کو اپنی روح اور الفاظ کے ساتھ پوری طرح سے بحال کرنے کے لیے اس کی چار بنیادی خصوصیتوں کو سامنے رکھنا چاہیے :
۱- پاکستان کے آئین کا پہلا اصول اسلامی نظریۂ حیات کی پابندی ہے۔ قرار داد مقاصد میں جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے، اللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اورمقننہ اور عدلیہ اور انتظامیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کاروبار حکومت چلائیں گے اور قانون ساز ی کریں گے۔
۲- پاکستان کا آئین جمہوری اور پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرتا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو ریاستی نظام چلانے کا حق دیا گیا ہے اور تمام معاملات میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔
۳- پاکستان کا آئین وفاقی ہے اور ایوان بالا میں وفاق کی چار اکائیوں کو برابر کی نمایندگی حاصل ہے۔ قانون سازی میں صوبائی اسمبلیاں اپنے دائرۂ کار میں آزاد ہیں۔ دستور وفاق کی چار اکائیوں کو یہ اطمینان دلاتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں خود مختار ہیں، اور ان کے اختیارات کے بارے میں انھیں مطمئن کرنااور حسب ضرورت ان میں اضافہ کرنا وفاق کے لیے ضروری ہے۔
۴- پاکستان کا آئین فلاحی ہے، اور عوام کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا، مکان ، تعلیم اور علاج کی سہولتیں اور مواقع فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ پامال کیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات عرصۂ دراز تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں اور جب ضیاء الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں مطالبہ کیاگیا کہ آئین کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے تو مجبوراً بند الماریوں سے انھیں نکالنا پڑا‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد کی کوئی سبیل نکالنے کے بجاے اسے محض گفتگو کا موضوع بنا کر دوبارہ طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق صاحب نے علماے کرام کا کنونشن منعقد کرکے اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں سفارشات طلب کیں تو جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے ہمت کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۸ جلدوں پر مشتمل سفارشات کا پلنداان کے سامنے رکھ دیا کہ آپ پہلے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنا دیں‘ پھر مزید سفارشات طلب کریں تو ضیاء الحق صاحب بدمزہ ہوگئے۔
صوبائی خود مختاری و اختیارا ت نچلی سطح تک تقسیم کرنے (devolution of power) کے بہانے صوبو ں سے اختیارات واپس لے لیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو براہ راست مرکز سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے صوبائی حکومت سے تین تین نام طلب کرکے ان میں سے ایک کی تقرری مرکزی حکومت کردیتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے تجویز کردہ تینوں ناموں کو چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کی تقرر ی کی گئی اور جب چاہاپرویز مشرف نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو براہ راست بلا کر احکامات صادر کیے اور جسے چاہا بیک بینی و دوگوش تبدیل کردیا۔ سرحداسمبلی کے منظور کیے ہوئے شریعت ایکٹ کو مسترد کروادیا گیا اور انھیں کوئی ضابطہ نافذ کرنے نہیں دیا گیا جس سے صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی نسبت اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی امتیازی علامت ظاہر ہوسکے۔ بجلی کی رائلٹی کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو کھلم کھلا اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ٹربیونل کے فیصلے کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا‘ بلکہ تین سال سے اسے کھلی فوج کشی کی آماج گاہ تک بنا دیا گیا ہے اور بے دردی سے عام انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے حالانکہ صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر فوجی ایکشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح آئین کو نظراندا ز کرکے صوبو ں کی حق تلفی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جار ہی ہے اور لوگ قوت کے استعمال کے ذریعے شریعت کے نفاذ اور ظلم و ناانصافی کا تدارک کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
آئین میں حکومت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست (welfare state)قرار دیا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کو بنیادی ضروریا ت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجو معاشی پالیسیاں آج تک نافذ رہی ہیں ان کے نتیجے میں یہاں ایک بد ترین قسم کا استحصالی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں مسلسل غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آبادی کا ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت پوری آبادی اور خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقات کو مسلسل ڈس رہا ہے اور آٹا، دال، سبزیاں اور گھی جیسی بنیادی اشیا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ ایک اوسط درجے کے خاندان کا صرف آٹے اور دال کا خرچ ماہانہ ایک ہزار روپے سے بڑھ جاتاہے۔ جس نے ہفتے میں ایک دن بھی گوشت کھانا ہو اور اوسطاً دوبچے زیر تعلیم ہوں اور مکان،بجلی، گیس کے بل بھی ادا کرنے ہوں اور کپڑے اورجوتے بھی استعمال کرنے ہو ں تو حساب لگالیجیے کہ کیا ۱۵ہزار روپے میں بھی یہ ضروریات پوری ہوسکتی ہیں، اور کیا اوسط درجے کا خاندان مہینے میں۱۵ ہزار روپیہ کمابھی سکتاہے۔
پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کی توقع موجودہ استحصالی حکمران طبقے سے قطعاً نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل عوامی بیداری کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کرے، اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اختیارات استعمال کرنے کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرے جو اقتدار اور وسائل دونوں کو امانت سمجھ کر حکمرانی کے فرائض انجام دے اور قانون‘ عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔
آئین اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب ججوں کی تقرری میں بنیادی وصف جج کی امانت و دیانت ہو۔ جج کو صاحب ضمیر اور جرأت مند ہونا چاہیے۔ بزدل آدمی کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرأت و بہادری اور امانت و دیانت کے بجاے جج کا معیار یہ قرار پایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ اور حکمرانوں کا وفادار ہو۔ اسی لیے ایک ہردلعزیز اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹاکر ایسے لوگوں کو جج بنا دیا گیا ہے جنھوںنے آئین کی بالا دستی اور حفاظت کے حلف کو توڑ کر ایک غاصب فرد کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پاس ایک ہی سیدھا اور انصاف کا راستہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیاں مل کر پرویز مشرف کے انتخابی ڈھونگ کا پردہ چاک کریں۔ اس جال میں پھنسنے اور جمہوریت کو مزید پانچ سال کے لیے آمرمطلق کی لونڈی بننے سے روکنے کا بروقت اقدام کریں اور انتخابات میں اسی وقت حصہ لیں جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کا وہ نظام بحال ہو جو ۳نومبر سے پہلے موجود تھا۔ منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کے برسرکار آنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے دیانت دار اور باضمیر ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر عوامی مہم چلائی جائے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی شہ کلید ہے۔ وہی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ مارشل لا پی سی او، جس کو ’ایمرجنسی پلس‘ کا نام دیاگیاہے‘ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ پرویز مشرف کیا آرمی چیف آف سٹاف اور صدر بن سکتے ہیں یا نہیں؟ عبوری حکومت کی آئینی شکل کیا بن سکتی ہے‘؟اورآزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہوجائیں تو اس پروگرام کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اور ملک کے اندر لاقانونیت اور آمریت کی لہر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔
(یہ تحریر ۱۸نومبر کو لکھی گئی)
اس لائحہ عمل [تطہیر افکار و تعمیر افکار‘ صالح افراد کی تلاش‘ تنظیم اور تربیت‘ اجتماعی اصلاح کی سعی‘ اور نظامِ حکومت کی اصلاح] کو اگر آپ اس نصب العین [اقامت دین‘ حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام] کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ بیک نظر محسوس کرلیں گے کہ یہ لائحہ عمل اس نصب العین کا فطری تقاضا ہے اور اس کا ایک ایک جز اس کے ایک ایک گوشے پر ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس جماعت کا وہ نصب العین ہو‘ اس کا یہی لائحہ عمل ہونا چاہیے اور یہی ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور لائحہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔
اس کے چاروں اجزا آپس میں ایسا منطقی ربط رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرتا ہے‘ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے‘ اور جس کو بھی ساقط کردیا جائے‘ اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہوجاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اورمتوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کردیںگے‘ باقی اجزا کا کام نہ صرف کمزور اور بے اثر ہوجائے گا‘ بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہوکر رہ جائے گی۔
اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخرکار جس کام کے ذریعے سے حاصل ہونا ہے‘ وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے‘ اور انھیں کر کے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ و تلقین اور اصلاح اخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رُکا تھا‘ نہ اب رُک سکتا ہے۔
اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس نتیجۂ مطلوب کے لیے جماعت اسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی‘ وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آپ کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر‘ یا اس میں کمی و بیشی کر کے‘ یا ان میں سے بعض کو مقدم اور بعض کو مؤخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۴۴-۴۶)
دین داری کے لیے لوگ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃکو کافی سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے طواف‘ خانہ کعبہ میں داخلے‘ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ وہ جو ظلم کریں‘ اس سے ان کی فضیلت اور اچھا مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قتل و غارت گری‘ بے گناہوں پر کوڑے برسانا‘ انھیں جیلوں میں بند کرنا‘ کفار کے حوالے کرنا سب کچھ ان کے لیے روا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے دین داروں اور حاجیوں کو متنبہ فرمایا کہ صرف حج کے مسائل معلوم کر کے مناسکِ حج صحیح طرح سے ادا کر کے ہلاکت سے نہیں بچ سکتے‘ جب تک ظلم اور مسلمانوں کی آبروریزی میں مبتلا رہو گے‘ کوئی حج اور کوئی عمرہ اور کوئی نماز و روزہ ہلاکت سے نہیں بچا سکیں گے۔
اس حدیث سے یہ بنیادی ہدایت ملتی ہے کہ جو لوگ دینی تعلیمات کی جزئیات میں غلو‘ باریک بینی اور اصرار کرتے ہیں‘ اور کسی کا حق غصب کرنے میں‘ لین دین کے معاملات میں‘ آبرو کے تحفظ میں لاپروائی کرتے ہیں (بلکہ اس کا دین سے تعلق نہیں سمجھتے) وہ کتنی غلطی پر ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کے لیے ’ہلاک ہوگیا‘ کہا۔ حج کے موقع پر حدیث کا یہ سبق یاد رکھنے کا ہے۔
پس ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا درست نہیں ہے۔ مسلم دشمنی‘ اسلام دشمنی کے مترادف ہے اور اسلام دشمنی‘ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے تعلق رکھنا‘ ان سے محبت کرنا‘ ان کو ووٹ دینا‘ ان کی پارٹی میں شامل ہونا جائز نہیںہے۔ یہ آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اُمت مسلمہ کو پوری دنیا میں اس سے واسطہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما دی ہے۔
انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کو بنیاد بنانا‘ انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کے تابع بنانا ایسی رہنمائی ہے جس کی ہر دور کی طرح آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت اُمت مسلمہ کو جو بحران درپیش ہے‘ اس کا سبب اس اصول کو نظرانداز کرکے انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو پیش نظر رکھنا ہے۔
انسانوں کے ہاتھوں میں محدود اختیارات ہیں۔ اصل اختیار اور فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘ وہی منعم حقیقی ہے۔ اسی کے فیصلے سے رزق ملتا ہے اور اسی کے حکم سے رزق میں تنگی اور فراخی ہوتی ہے۔ اسی سے لَو لگانا چاہیے‘ اسی کی حمد اور شکربجا لانا چاہیے‘ اسی کے حکم کے مطابق چلنا چاہیے۔ اس کی مرضی کو نظرانداز کرکے دوسروں کی مرضی پورا کرنا‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسی کو منعم اور مربی سمجھ لیا ہے حالانکہ منعم و مربی تو اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسروں کا اسی قدر شکر کرنا چاہیے جس قدر انعام میں ان کا دخل ہے۔ ان کی مرضی کے بجاے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پورا کیا جائے تاکہ اس بات کا اظہارہو کہ اللہ تعالیٰ کو منعم حقیقی سمجھا گیا ہے۔ آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مرضی‘ اس کی پسند و ناپسند کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس کے خوف و محبت کے بجاے انسانوں کے خوف و محبت کے زیراثر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اس حدیث میں اسی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کاش مسلمان اس کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنادیں۔
ظالم حکمرانوں کو سیدھی راہ دکھلانا‘ ان کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھانا علماے حق کا شیوہ رہا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا ہے۔ عائذ بن عمروؓ نے عبیداللہ بن زیاد کو اپنی روش بدلنے کی تلقین کی۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو تاریخ کے بدترین ظالموں سے واسطہ ہے‘ ان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسے ظالموں سے نجات کے لیے کوشش کرنا اُمت مسلمہ اور دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
اہلِ ایمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ ان واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ وصال سے پہلے آپؐ نے شہداے اُحد کے لیے خصوصی اجتماعی دعا کا اہتمام فرمایا (صحیح بخاری)۔ اور جنت البقیع والوں کے لیے جنت البقیع میں جاکر دعاے مغفرت کی۔ تب ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں تمام اہلِ ایمان سے محبت اور ان کے لیے دعائیں اور ہمدردی و غم گساری کی کارروائیاں کرنی چاہییں۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آج کے دور میں اگر یہ دونوں کام سرانجام دے دیے جائیں تو اُمت مسلمہ کے تمام مصائب و مشکلات دُور ہوجائیں۔
اگر لوگ اس حدیث پر عمل کریں تو وہ طرح طرح کی بیماریوں سے نجات پا لیں‘ ڈاکٹروں کی دیکھ بھال سے بے نیاز ہوجائیں‘ اور دوائیوں کی دکانیں ویران ہوجائیں۔
عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جان تک قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس موقعے پر محترم خرم مراد کی ایک انگریزی مطبوعہ تقریر Sacrifice کا ایک حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
قربانی کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں کس چیز کی قربانی دینا چاہیے؟ کون سی قربانیاں دینا زیادہ مشکل ہے؟ کن قربانیوں کو عظیم قرار دیا جانا چاہیے؟
قربانی کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جن چیزوں سے محبت کرتے ہیں‘ جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدر ہے‘ وہ اِس وقت ہماری ہوں‘ یا ہم مستقبل میں انھیں حاصل کرنے کی تمنا اور امید کرتے ہوں‘انھیں چھوڑ دیں۔ یہ چیزیں محسوس اور مادی ہوسکتی ہیں‘ یا غیرمادی اور تصوراتی۔ مادی چیزوں میں وقت‘ مال‘ دنیاوی اشیا‘ جسمانی صلاحیتیں اور زندگی اہم ہیں۔ اہم تصوراتی اشیا میں ہماری محبت‘ خاص طور پر خاندان سے تعلقات‘ پسندوناپسند‘ ترجیحات و تعصبات‘ نقطۂ نظر اور راے‘ خواہشات اور تمنائیں‘آرام و آسایش‘مقام و منصب یا ہماری اَنا شامل ہیں۔
قربانی کا مفہوم صحیح طور پر سمجھنے کے لیے تین اصول پیش نظر رہنے چاہییں:
اوّل: کسی چیز کے چھوڑنے کو اسی وقت قربانی کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ ہم اس سے محبت کرتے ہوں اور اس کے قدرداں ہوں۔ اس لیے مادی اور غیرمادی اشیا کے درمیان امتیاز کی لکیر کھینچنا مشکل ہے۔ آخری تجزیے میں ہر قربانی‘ محبت اور قیمتی چیز کی قربانی ہے۔ جب ہم مال‘ یا زندگی‘ یا کوئی تعلق اللہ کی خاطر قربان کرتے ہیں تو جو شے ہم درحقیقت قربان کرتے ہیں جو اسے ایک قربانی بناتاہے‘ وہ مال‘ زندگی یا رشتے دار کے لیے ہماری محبت ہے‘ نہ کہ اصل شے۔
دوم: مادی کے مقابلے میں غیر مادی اشیا کو قربان کرنا زیادہ مشکل لیکن زیادہ ضروری ہے۔
سوم: ہم کسی ایسی چیز کو جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور جس کی قدر کرتے ہیں‘ کسی ایسی چیز کے لیے ہی قربان کرسکتے ہیں جس سے ہم اس سے زیادہ محبت کرتے ہوں اور اس سے زیادہ قدر کرتے ہوں۔
ٹھوس اشیا کی قربانیوں کی ضرورت اور اہمیت ہم جانتے پہچانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں خواہ بعض وقت یہ قربانیاں نہ دے سکیں‘ یا دینے میں بہت مشکل محسوس کریں۔ لیکن جب ہم ایک دفعہ کسی مقصد سے وابستہ ہوجائیں تو اپنے وقت اور مقام پر ان میں سے ہر ایک کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمیں ذرا ٹھیر کر ان کی اہم خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
وقت ہماری سب سے قیمتی شے ہے۔ ہم زندگی میں جس چیز کی بھی خواہش کریں‘ اسے وقت لگائے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا وقت‘ مسرت حاصل کرنے میں‘پیسہ کمانے میں‘ دنیاوی اشیا حاصل کرنے میں‘ کام کرنے میں‘ مزے اٹھانے میں یا محض کاہلی میں کچھ نہ کر کے بھی گزار سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا سب سے پہلے مطالبہ کرتا ہے‘ وہ وقت ہے۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے میں وقت خرچ ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ مریض کی عیادت کرنے کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا ہرلمحہ اللہ کی رضا کے حصول میں‘ جو اس سے عہد کیا ہے اسے پورا کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔
لیکن اگر آپ ذرا گہرائی میں جاکر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ سے دراصل جس چیز کی قربانی مانگی جارہی ہے‘ وہ وقت نہیں بلکہ وہ اشیا ہیں جن کے حصول میں آپ کا وقت خرچ ہوتا ہے۔ وہ اشیا جو آپ کی زندگی کے مقاصد کے خلاف ہوں‘ بے معنی‘ غیراہم‘ یا اللہ کی خاطر کیے جانے والے کاموں سے کم اہم۔ اس لیے اسلام کے لیے وقت دینے کے لیے‘ آپ کو سب سے پہلے وہ بہت سی اشیا قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جن پر آپ کا وقت لگتا ہے۔
آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی کے لیے اور اپنا وقت اللہ کے لیے دینے پر کس طرح آمادہ کریں؟
یاد رکھیے کہ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ ایک لحظہ بھی نہیں ٹھیرا سکتے۔ جس طرح بھی چاہیں آپ اسے صرف کریں‘ یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے پھسلتا رہے گا۔ آپ کے لیے اس کی قیمت وہی ہے جو آپ اس سے حاصل کریں۔ وقت پگھل جائے گا‘ جو آپ اس سے حاصل کریں گے‘ وہ آپ کے ساتھ رہے گا۔
ہرلمحے اس امر کو پیش نظر رکھیے کہ وقت کا ہرلمحہ ہمیشہ کی مسرت یا نہ ختم ہونے والی تکلیف میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اسے کس طرح صرف کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس امر کا استحضار وقت کی قربانی دینے میں آپ کو سب سے زیادہ طاقت فراہم کرے گا۔ وہ لمحات جن کو آپ آج اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے‘ کل آپ کو اس طرح ملیں گے کہ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ پھر آپ ایسی چیزوں کا حصول کیوں نہ قربان کردیں جو نہ ختم ہونے والی تکلیف اور پچھتاوے میں تبدیل ہوجائیں گی۔
جب وقت گزر رہا ہو تو آپ غور کیجیے: آپ کیا پا رہے ہیں___ کوئی عارضی یا مستقل چیز؟ مسرت یا پچھتاوا؟ آپ کے وقت میں اسلام کو کتنی ترجیح حاصل ہے؟ وقت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں لگتا ہے؟ ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔(الحشر ۵۹:۱۸)
اللہ کی راہ میں وقت کی قربانی اسلام کا جوہر ہے۔ جب بھی طلب کیا جائے‘ آپ کو حاضر ہونا چاہیے۔ اس لیے‘ آپ کو اپنے آپ کو مسلسل تربیت دینا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں وقت دے کر‘ ہر چیز کی قربانی دے سکیں۔ یہ صفت آپ کے کردار پر ‘ دن میں پانچ دفعہ نقش کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن آپ کو اس طرح بیدار کیا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن‘ تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ (الجمعہ ۶۲:۹)
آپ کا بیش تر وقت مال کے یا مال کے ذریعے حاصل ہونے والی دنیاوی اشیا کے حصول کی کوشش میں صرف ہوجاتا ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس : عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔(اٰل عمرٰن۳:۱۴)
یاد رکھیے کہ دنیاوی اشیا کی یہ محبت اور خواہش نہ قابلِ مذمت ہے‘ نہ بری ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی اصل میں شر‘ یا خرابی نہیں ہے۔ دولت اور مال کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسے خیر (اچھا) کہتے ہیں جو ایک بالکل درست بات ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور دوسری دنیا کی نعمتوں اور برکتوں کی طرف جانے والا راستہ اس دنیا سے گزر کر جاتا ہے۔ اگر ہم اس دنیا کو ترک کردیں‘ تو ہمارے پاس ان نعمتوں اور بیش بہا خزانوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ بلاشبہہ اللہ کی رضا اور اس دنیا کے حصول کا واحد ذریعہ اور بنیاد یہی ہے۔
جو چیز اس دنیا کو شر‘ یا برائی بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کے عارضی دورانیے کے لیے یہ سب کچھ ہمیں اُس دنیا کے حقیقی اور مستقل مقاصد لیے دیا گیا ہے‘ جو ہر اس چیز سے بہتر ہے جو یہ دنیا دے سکتی ہے۔ جب ذرائع مقاصد بن جائیں‘ تو حقیقی قدروقیمت کی اشیا کے بجاے ہمارے حصے میں دنیاوی تکالیف آتی ہیں۔ قرآن آگے کہتا ہے:
مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے ، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔کہو : میں تمھیں بتائوں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی ، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سر فراز ہوں گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)
اللہ کی راہ میں دنیاوی اشیا کی قربانی دینا آسان نہیں ہے۔ جب انتخاب کا واقعی موقع آئے تو بہت سے لڑکھڑاجاتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ کچھ باتوں کا یاد رکھنا‘ ان مشکل قربانیوں کو دینے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اوّل: کوئی چیز بھی آپ کی نہیں ہے‘ ہر چیز اللہ کی ہے۔ جب آپ کوئی چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو دراصل اسے اس کے اصل مالک کی طرف لوٹا رہے ہوتے ہیں: ’’آسمانوںاور زمین میں ہر چیز اللہ ہی کی ہے‘‘۔
دوم: دنیاوی چیزوں کو آپ کتنا ہی زیادہ قدروقیمت کا حامل کیوں نہ سمجھیں‘ آخری سانس کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے ، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔(النحل ۱۶:۹۶)
اور اے نبیؐ ! انھیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی ، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش (زینت) ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔(الکہف ۱۸:۴۵-۴۶)
سوم: صرف اللہ کی راہ میں دینے سے آپ اسے کئی گنا زیادہ واپس پاسکتے ہیں۔
اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو ۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے‘ اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔(المزمل ۷۳:۲۰)
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔(البقرہ ۲:۲۶۱)
ایک لمحے کے لیے سوچیے!
اسلام سے وابستگی کے آپ کے دعووں کی کیا وقعت ہے اگر آپ کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر اپنے مقصد سے زیادہ خرچ کریں۔ اللہ کے وعدوں پر آپ کے یقین کی کیا حقیقت ہے اگر دنیا میں نفع کی ذرا سی بھی اُمید آپ کو اپنی کُل رقم کسی بزنس میں لگانے کے لیے آمادہ کرتی ہے‘ جب کہ ۷۰۰ گنا رقم کا وعدہ___ جو کبھی واپس نہ لی جائے گی‘ آپ کا بٹوا نہیں کھلوا سکتا۔ آپ اپنی زندگی میں اسلام کے مقام کا تعین یہ جائزہ لے کر کرسکتے ہیں کہ آپ اپنی دولت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
مال کی قربانی کبھی آسان نہیں رہی۔ لیکن ہمارا دور تو ایسا دور ہے کہ جس میں صرف بہتر معیارِ زندگی‘ مزہ اور مسرت‘ صارفیت اور مادی اشیا ہی زندگی کے مقصد بن چکے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھ بھال کر جائزہ لیں کہ کہیں آپ اس لحاظ سے ناکام نہ ہوجائیں۔
ایک وقت آسکتا ہے جب آپ سے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی طلب کی جائے۔ اس طرح جان دینا‘ شہادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ اس کے بعد آپ شہید کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی‘ آپ کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اس کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی جو کچھ دیتی ہے‘ یا دے سکتی ہے‘ تمام مادی اور غیرمادی اشیا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے‘ آپ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔
جب یہ احساس ہوجائے کہ زندگی آپ کی نہیں‘ اللہ کی ملکیت ہے اور جو اس کا ہے‘ وہ آپ کو اسے دینا چاہیے تو آپ اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ موت سے نہ تو آپ بچ سکتے ہیں‘ نہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مقررہ وقت پر‘ طے شدہ مقام پر‘ طے شدہ طریقے سے آئے گی (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵۔ النساء۴ : ۱۷۸)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ وہ اپنی موت سے ماورا‘ اپنے لیے‘ اپنی برادری کے لیے‘ اپنے مشن کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنھیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۔(البقرہ ۲:۱۵۴)
اس دنیا کی زندگی سے محبت نہ ہونا چاہیے‘ موت کا خوف نہ ہونا چاہیے‘ تب ہی آپ وہ طاقت حاصل کریں گے جو اپنی جان قربان کرنے کے لیے چاہیے۔ یہ صرف موت کے لیے آمادہ ہونا ہے جس سے آپ دشمن طاقتوں پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ تب ہی کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔ آپ مر کر زندگی حاصل کرتے ہیں‘ اپنے لیے‘ اور اپنی برادری کے لیے۔ اگر آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ تو آپ کو زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا‘ کم سے کم ایک برادری کے طور پر۔
ہم میں سے ہر ایک سے جان کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا‘ لیکن اس کی تمنا ہر دل میں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو نہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘ نہ جہاد کے بارے میں سوچتا ہے‘ منافق کی موت مرے گا (مسلم)۔ انھوں نے یہ بھی کہا: اس ہستی کی قسم! جس کے قبضے میں‘ میری جان ہے‘ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں تاکہ ایک دفعہ پھر اللہ کی راہ میں جان دے سکوں(بخاری، مسلم)۔ (ترجمہ: مسلم سجاد)
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب وہ طریقہ ہے جس سے عوام اپنی راے اورمرضی سے اپنے حکمرانوں کو چُن سکتے ہیں اور ملک کی سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشکیل نو کے لیے جس پروگرام کو وہ پسند کرتے ہیں اس کی علَم بردار قیادت کو بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس عمل کو ناکام کرنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو حکمران طبقے اور خصوصیت سے نظامِ حکومت پر قابض سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ اختیار کر رہا ہے جس میں انتخابات کی انجینیری اور قواعد و ضوابط کی دھاندلی کے ذریعے پورے عمل کو سبوتاژ کرنے اور عوام کے حق حکمرانی کو غصب اور ہائی جیک کرنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دین کے نام پر کچھ عناصر ووٹ‘ انتخاب‘ اسمبلیوں کے وجود ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندا کرنے اور ان کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کھیل مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں کھیلا گیا ہے جس کے نتیجے میں عام مسلمان کو الجھائو میں مبتلا کیا گیا ہے مگر اصل فائدہ برسرِاقتدار عناصر کو ہوا ہے جو دینی طبقوں اور اخلاقی حِس رکھنے والے عوام کی الیکشن سے بے تعلقی کے نتیجے میں اپنے اپنے کھیل کھیلنے اور اُمت پر اپنے ظالمانہ تسلط کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دین کے نام پر اس نوعیت کی سرگرمیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے عمل ہی پر لوگوں کا اعتماد اُٹھا ہے اور تبدیلی کے جائز راستوں سے مایوس ہوکر کچھ لوگ خصوصیت سے نوجوانوں نے اپنا رخ غیرآئینی اور تشدد پر مبنی طریقوں کی طرف کردیاہے جس سے مزید بگاڑ پیدا ہورہا ہے‘ اور ملکی اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سامراجی کھیل کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
دین کے نام پر اور شریعت کی اصلاحات کا استعمال کرکے سیاسی عمل کو خراب کرنے کا جو کھیل عالمِ عربی میں کھیلا گیا ہے‘ اب پاکستان میں بھی اس کا آغاز کردیا گیا ہے اور انقلابی نعروں اور گمراہ کن دعوئوں کے ساتھ یہ کام کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک گروہ بڑی چابک دستی سے لٹریچر پھیلا رہا ہے اور اپنے خطبوں میں بھی اس لائن کو آگے بڑھا رہا ہے کہ:0
ان گمراہ کن دعوئوں کی تائید میں قرآن پاک کی آیات اور احادیث کو کھینچ تان کر استعمال کیا جا رہا ہے اور انٹرنیٹ کی جدید سہولتوں کو اس کام کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لٹریچر اور دوسرے لوازمے کو تبصرے کے لیے بھیجا گیا ہے‘ خصوصیت سے بڑے شہروں کے کئی افراد نے اس طرف متوجہ کیا۔ اس فتنے سے قوم کو محفوظ رکھنے اور قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کے نمونے کی روشنی میں ووٹ‘ انتخاب‘ نظام امر کے قیام اور دورِ جدید میں قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مناسب طریقوں کی شرعی حیثیت کوسمجھنے کے لیے ہم نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کو دعوت دی کہ اس لٹریچر کے بارے میں جو احیاے خلافت کے نام پر گمراہ کن خیالات کا پرچار کر رہا ہے صحیح رہنمائی فرمائیں۔ مولانا عبدالمالک نے جزوی بحثوں میں الجھے بغیر اصل مسئلے کے تمام اصولی پہلوئوں پر بڑا محکم کلام کیا ہے جسے ہم قارئین ترجمان القرآن اور پاکستان کے تمام پڑھے لکھے طالبانِ حق کی رہنمائی کے لیے شائع کر رہے ہیں۔ وماعلینا الاالبلاغ۔ (مدیر)
قرآن و سنت اور اجماع اُمت کی رو سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ اللہ رب العالمین بلاشرکت غیرے کائنات کا تکوینی اور تشریعی حاکم مطلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا اللہ تعالیٰ کے نبی ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خلفا‘ یعنی نائب کی حیثیت سے مطاع اور حکمران تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (النساء ۴:۶۴) ’’ہم نے کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے خلیفہ‘ نبی اور رسول حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی‘ رسول اور خلیفہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کے نائب کی حیثیت سے اسی منصب پر فائز ہے۔ کوئی فرد یا افراد یاطبقہ خلافت کے لیے متعین نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لیے انبیا اور ان کی اُمتوں کو نامزد کیا ہے۔ اُمتوں کے افراد منصب خلافت پر اُمت کے انتخاب سے فائز ہوں گے۔ یہ اہل السنت والجماعت کا متفق علیہ فیصلہ ہے اور اہل السنت والجماعت کا تشخص اور امتیاز بھی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: میرا ارادہ تھا کہ میں آپ کے والد اور بھائی کو بلائوں اور آپ کے والد کے بارے میں وصیت کروں لیکن میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان ابوبکرؓ کے علاوہ کسی بھی شخصیت کی خلافت کا انکار کردیں گے‘ اس لیے میں نے وصیت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا‘‘۔ ویابی اللّٰہ والمومنون الا ابابکر، اللہ تعالیٰ کے انکار سے مراد تکوینی اور تقدیری انکار ہے اور اہلِ ایمان کے انکار سے مراد تشریعی اور راے کا انکار ہے‘ یعنی مسلمان ابوبکر صدیق ؓکے علاوہ کسی بھی شخصیت کے حق میں خلافت کی راے نہیں دیں گے‘ چنانچہ آپؐ کے ارشاد کے عین مطابق سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے لیے جو مجلسِ مشاورت منعقد ہوئی‘ اس نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دست مبارک پر بیعت کی جس کی توثیق اگلے دن مسجد نبویؐ میں تمام مہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کے ذریعے کردی۔
حضرت علیؓ کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ راجح یہی ہے کہ انھیں اس بات کا شکوہ تھا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جو مشاورت ہوئی اس میں انھیں شریک نہیں کیا گیا لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ اور عمرفاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں اچانک اطلاع پر آگئے۔ یہ ان کا اپنا پروگرام نہیں تھا‘ بلکہ انصار کا پروگرام تھا جس کی اطلاع ایک بزرگ انصاری صحابیؓ سے انھیں ملی تھی جس پر وہ وہاں پر فوراً پہنچ گئے اور کسی غلط فیصلے میں رکاوٹ بن گئے۔ اس وقت انھیں یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ حضرت علیؓ کو بھی ساتھ لے جاتے۔ جب یہ حقیقت حضرت علیؓ کے سامنے آگئی تو وہ بھی راضی ہوگئے اور انھوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
حضرت ابوبکرؓ نے‘ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کے اگلے روز جب عمومی بیعت کے لیے مسجد نبویؐ میں جلسہ منعقد ہوا‘ اس میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو اختیار دیا کہ چاہو تو میری بیعت کرو اور چاہو تو کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کرلو لیکن مسلمانوں نے اس اختیار کو حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کرنے کی صورت میں استعمال کیا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ مہاجرین و انصار اور اہلِ مدینہ کا انتخاب تھاجو آج کل کے انتخاب اور ووٹنگ سے مختلف شکل ہے۔ ہر شہری کا ووٹ نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ باہر کے لوگوں اور دُوردراز کے مسلمانوں کو راے دینے کا حق تھا‘ انھوں نے یہ حق استعمال کیا کہ جب انھیں علم ہوا تو انھوں نے اس کی تائید کی۔ وہ اپنا حق استعمال کرنے میں مہاجرین و انصار کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے کہ یہ وہ قیادت تھی جو قرآن پاک نے تیار کی تھی اور قرآن پاک میں ان کے فضائل و مناقب بیان کیے گئے تھے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ کو رکھتے اور ان کا تذکرہ فرماتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو نظام جاری تھا‘ اس میں بھی یہی شخصیات آگے آگے ہوتی تھیں اور اسی لیے آپؐ کے بعد مسلمانوں نے انھی کو خلافت کے مناصب دیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ویابی اللّٰہ والمؤمنون میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سے تمام اہلِ ایمان راضی تھے اور اگرچہ انھیں اوّلاً منتخب تو مہاجرین و انصار نے کیا تھا لیکن بعد میں بیعت تمام اہلِ ایمان نے کی اور سب نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا۔
آج اگر کوئی ایسی قیادت پیدا ہوجائے جس کے فیصلے پر تمام لوگ اعتماد کریں تو آج بھی اس قیادت کا انتخاب معتبر ہوسکتا ہے‘ بلکہ آج بھی مہاجرین و انصار کی طرح ملک میں مختلف پارٹیاں ہوتی ہیں‘ وہ اپنے نمایندے انتخاب میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ پھر جس پارٹی پر عوام کو اعتماد ہو‘ اس کے نمایندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ صورت اپنی شکل میں اسی شکل کے ساتھ مشابہ ہے جو خلافت راشدہ کے دور میں رائج تھی کہ مہاجرین و انصار جس کو نمایندہ مقرر کرتے‘ تمام اہلِ اسلام اسی کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے‘ یعنی اسے ووٹ دے کر منتخب کردیتے تھے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ایک ہے بنیادی مسئلہ‘ یعنی قیادت کا معتمدعلیہ ہونا اور اعتماد اور رضامندی کے بغیر حق حکمرانی کا غیرمعتبر رہنا‘ اور دوسرا یہ معلوم کرنے کا طریقہ کہ کون معتمدعلیہ ہے اور اس کا چنائو براہ راست ہو یا بلواسطہ۔ پہلی چیز اصول کا درجہ رکھتی ہے اور دوسری ہر دور کے حالات اور ظروف کے مطابق مناسب طریق کار کو وضع کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے جس میں مقصد‘ روح اور جوہر تو ہر دور میں مشترک ہوگا مگر ظروف اور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔
بات بالکل واضح ہے کہ خلافت انتخابی منصب ہے‘ نبی اور رسول تو اللہ تعالیٰ کے نامزد اور منتخب کردہ ہوتے ہیں لیکن نبی کے بعد خلافت کا فیصلہ اہلِ ایمان نے انتخاب کے ذریعے کرنا ہے۔ آپؐ کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کی نائب ہے اور وہ اپنے اندر سے ایسے شخص کو جو خلافت کے منصب کا اہل ہو‘ حکومت کے لیے منتخب کرے گی کیونکہ کسی فرد کو حکومت کے لیے نامزد نہیں کیا گیا‘ البتہ اُمت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روے زمین پر حکمرانی کے لیے نامزد ہے۔ مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لیے اس کی طرف سے نائب کا مقرر ہونا‘ جو ان آیات سے معلوم ہوا‘ اس سے دستور مملکت کا اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیساکہ قرآن مجید میں بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں: ان الحکم الا للّٰہ (حکمرانی نہیں ہے مگر اللہ کے لیے)اور لہ ملک السموت والارض (اور اسی کے لیے ہے اقتدار آسمانوں اور زمین کا) اور الالہ الخلق والامر (سنو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم دینا)۔ زمین کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں‘ وہ باذن خداوندی زمین پر سیاست و حکومت اور بندگانِ خدا کی تعلیم و تربیت کاکام کرتے اور احکام الٰہیہ نافذ کرتے ہیں۔ اس خلیفہ کا تقرر بلاواسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے‘ اس میں کسی کے کسب و عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ خلیفہ بلاواسطہ حق تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں۔ یہ سلسلۂ خلافت و نیابت الٰہیہ کاآدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم الانبیاؐء تک اسی انداز میں چلتا رہا۔ یہاں تک کہ خاتم الانبیاؐء اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہوکر بہت سی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم اور اس کی دونوںاقوام جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا۔ آپؐ کا اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی ہے۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ خلافت و نیابت تاقیامت ہے۔ اس لیے قیامت تک آپؐ ہی زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ آپؐ کی وفات کے بعد نظامِ عالم کے لیے جو نائب ہوگا‘ وہ خلیفۃ الرسول اور آپؐ کا نائب ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (کتاب الانبیاء) ’’بنی اسرائیل کی سیاست و حکومت ان کے انبیا کرتے تھے۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا تھا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘ ہاں میرے خلیفے ہوں گے اور بہت ہوں گے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ کی اُمت کے مجموعے کو معصوم قرار دیا گیا ہے کہ آپؐ کی پوری اُمت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی (کذانی الموافقات للشاطبی)۔ اور جب اُمت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفۃ الرسول کا انتخاب بھی اس کے سپرد کر دیا اور خاتم الانبیا علیہ السلام کے بعد نیابت زمین اور نظمِ حکومت کے لیے انتخاب کا طریقہ شروع ہوگیا۔ یہ اُمت جسے خلافت کے لیے منتخب کردے‘ وہ خلیفۃ الرسول کی حیثیت سے نظامِ عالم کا ذمہ دار ہوگا۔
اسمبلیاں اس طرزِعمل کا نمونہ ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد اور خودمختار ہیں‘ محض اپنی راے سے جو چاہیں‘ اچھا یا بُرا قانون بنا سکتے ہیں‘ لیکن اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کو ملا ہے۔ اس اسمبلی یا مجلسِ شوریٰ کی ممبری کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں۔ جس شخص کو یہ منتخب کریں‘ ان کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں‘ پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول کے دائرے میں ہوسکتی ہے‘ اس کے خلاف قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں۔ (معارف القرآن‘ ج اوّل‘ ص ۱۸۲-۱۸۶)
اس تفصیل سے ثابت ہوگیا کہ انتخاب ایک شرعی حق اور فریضہ ہے جو اس امت پر عائد ہوتا ہے۔ مفتیان دین متین نے اسے اہم الواجبات میں سے قرار دیا ہے۔ علامہ علائوالدین الحصکفی الحنفی (م: ۱۰۸۸ھ) فرماتے ہیں: ونصبہٗ من اھم الواجبات فلذا قدموہ علی دفن صاحب المعجزات (درمختار بر حاشیہ شامی‘ ص ۵۱۱‘ ج۱‘ بحث امامت)۔ امام مقرر کرنا فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ‘اس لیے صحابہ کرامؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تجہیز و تکفین پر اسے مقدم رکھا۔
امام ابوالحسن ماوردی الشافعی (م: ۴۵۰ھ) اور قاضی ابویعلٰی الحنفی (م: ۴۵۸ھ) فرماتے ہیں: وعقد الامامۃ لمن یقوم بھا فی الامۃ واجب بالاجماع (الاحکام السلطانیہ‘ للماوردی‘ ص ۵‘ طبع مصر‘ ۱۹۷۳ء۔ والاحکام السلطانیہ‘ لابی یعلٰی‘ ص ۱۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۶۶ء)
علامہ عبدالقاہر البغدادی (م: ۴۹۲ھ) فرماتے ہیں: قال جمہور اصحابنا من المتکلمین والفقھاء مع الشیعۃ والخوارج واکثر المعتزلۃ بوجوب الامامۃ وانھا فرض و واجب۔ (اصول الدین‘ طبع جامعہ اشرفیہ‘ لاہور‘ ص ۳۷۱) ہمارے اساتذہ میں سے جمہور علما‘علم العقائد اور فقہا نے اسی طرح شیعہ‘ خوارج اور کثیرمعتزلہ نے بھی کہا ہے کہ اسلامی حکومت قائم کرنا واجب اور فرض ہے۔ اس موضوع پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیث اور دیگر فقہا کے فتاویٰ اختصار کی خاطر چھوڑ دیے ہیں۔
جو لوگ پاکستان میں انتخاب کے مخالف ہیں‘ ان پر اس حکمِ شرعی کی مخالفت لازم آتی ہے۔ وہ مختلف شبہات کا شکار ہوکر اس حکم شرعی کی پورے زوروشور سے مخالفت کر رہے ہیں‘ انھیں احساس نہیں کہ وہ ایک ایسے اسلامی حکم کا انکار کر رہے ہیں جو فرض ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دور میں غیرمنصوص احکام میں صحابہ کرامؓ سے مشاورتیں کیں۔ غزوئہ بدر‘ اُحد‘ احزاب‘ شوراے حدیبیہ اور باجماعت نماز کے بلاوے کے لیے مشاورتیں کیں۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)
موجودہ اسمبلیاں مشاورتی مجالس ہیں اور شریعت کے منشا کے مطابق ہیں۔ قرارداد مقاصد‘ آئین پاکستان کی رو سے‘ اسلامی اسمبلیاں ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس حکومت کی باگ ڈور ہے‘ وہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں غیراسلامی طریقوں پر چلاتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کے خلاف بل پیش کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کو بالادست قانون کا درجہ نہیں دیتے‘ قرارداد مقاصد نے ان پر جو پابندی عائد کی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر قانون سازی کریں گے‘ اسے نظرانداز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو لگام دینے کے لیے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے ۱۹۸۵ء میں ایک شریعت ایکٹ تیار کیا تھا جس کی تائید ملک بھر کے تمام مفتیانِ کرام نے کی۔ اس کی حمایت میں متفقہ فتویٰ جاری کیا۔ جماعت اسلامی نے اس شریعت بل پر دینی جماعتوں کو جمع کر کے‘ ایک متحدہ شریعت محاذ بنایا۔ اس بل کو سینیٹ میں مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف نے اورقومی اسمبلی میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے پیش کیا لیکن جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر اور نواز شریف حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سینیٹ میں ایک شریعت بل پاس ہوا جو اس مقصد کو پورا نہیں کر رہا تھا‘ اور نوازشریف نے‘ جو ’شریعت بل‘ کو پاس کرنے کا انتخابی وعدے کرکے آئے تھے‘ اُس بل کو سبوتاژ کردیا اور ایک ایسا بل پاس کیا جسے جماعت اسلامی کی شوریٰ نے شریعت سے فرار کا بل قرار دیا۔
قرارداد مقاصد کی منظوری دینی سیاست کا اہم موڑ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت کی اسمبلیوں اور عدالتوں میں مقدمات لے کر جانے کی پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ عدالتوں کو طاغوتی عدالتیں قرار دیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صورت حال سے نکلنے کے لیے مولانا نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کی تحریک شروع کی جس کے مرکزی مطالبات کو قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کرلیا گیا۔ یہ قرارداد قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتی ہے۔ اس قرارداد کو منظور کروانے میں مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا‘ اور اس کے منظور ہونے کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستان کے اسلامی ریاست بن جانے کا اعلان کیا‘ اور اسمبلیوں میں عدمِ شرکت اور عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی سابقہ پالیسی کو تبدیل کردیا‘ اور اُمت کو دعوت دی کہ صالح قیادت کو منتخب کر کے قانون کی زبان میں اسلامی ریاست بن جانے والے ملک کو عملاً ایک حقیقی اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد کریں کہ قرارداد مقاصد کے بعد اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی راہیں کھل گئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جس طرح ایک فرد کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے‘ اسی طرح ریاست بھی کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتی ہے۔ قرارداد مقاصد پارلیمنٹ نے پاس کر کے کلمہ پڑھ لیا ہے اور پارلیمنٹ مسلمان ہوگئی ہے۔ اس لیے اب پاکستان اسلامی ریاست بن گیا ہے۔
۱- قرارداد مقاصد: چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے۔ چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیار و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی جس میں جمہوریت‘ آزادی‘ مساوات‘ رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے‘ پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔ جس میں قرارواقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ (ملاحظہ ہو: آئین پاکستان‘ تمہید نمبر۱‘ ضمیمہ دفعہ ۲‘ الف‘ ص ۱۸۳۔ ترمیم شدہ ۲۵مارچ ۱۹۸۷ء)
اس قرارداد مقاصد میں جمہور کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا پابند کیا گیا ہے۔ اس آئین کی رو سے پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں‘ بلکہ اسلامی جمہوریت ہے۔ مزید یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ جمہوریت کی وہ تشریح معتبر ہوگی جو اسلام نے کی۔ ’’جس طرح اسلام نے اس کی تشریح کی ہے‘‘، ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا‘ ترتیب دے سکیں‘‘، اس میں بھی اسلامی تعلیمات کی تشریح کے ضمن میں قرآن و سنت کی قید لگا دی گئی ہے۔ ان وضاحتوں کے بعد کوئی شخص پاکستان اسمبلی کو طاغوت کہے اور اسے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں فرق دکھائی نہ دے تو یہ اندھاپن ہوسکتا ہے۔ پھر ملک بھر کے تمام مفتیان کرام‘ علماے عظام اور مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلی مودودیؒ نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا اور اسمبلیوں میں حصہ لینے کو جائز قرار دیا۔ اب علما اور مفتیانِ کرام کی بات معتبر ہوگی‘ یا چند نامعلوم لوگوں کی جن کے پاس دین کا واجبی علم بھی نہیں۔
دفعہ ۱- (ا) مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ ہوگا۔
دفعہ ۲ - اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا۔
حصہ نہم
اسلامی احکام - ۲۲۷ (۱) تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔
۲۲۷- (۴) اسلامی کونسل اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اور سالانہ عبوری رپورٹ پیش کیا کرے گی۔ یہ رپورٹ‘ خواہ عبوری ہو یا حتمی‘ وصولی سے چھے ماہ کے اندر دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے براے بحث پیش کی جائے گی۔ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) اور اسمبلی رپورٹ پر غوروخوض کرنے کے بعد حتمی رپورٹ کے بعد دو سال کی مدت کے اندر اس کی نسبت قوانین وضع کرے گی۔
باب ۲-مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے ارکان کے بابت احکام۔
دفعہ ۶۲- کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر:
د- وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
ہ - وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند‘ نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
ر- وہ سمجھ دار‘ پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور امین نہ ہو۔
ز- کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے‘ یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔
ج- اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو‘ یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ (ص ۳۶-۳۷)
میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید‘ قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ‘ کتب الٰہیہ جس میں قرآن ختم الکتب ہے‘ نبوت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا‘ روزِ قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں.........
...... میں اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔
کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ و دفاع کروں گا۔ (اللہ تعالیٰ میری مدد و رہنمائی فرمائے) آمین۔
یہی حلف وزیراعظم کا بھی ہے۔
وفاقی وزرا کا بھی یہی حلف ہے۔ اس میں بھی اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے اور دستور کو برقرار رکھنے کا حلف ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کے حلفوں میں بھی مذکورہ دونوں شقیں شامل ہیں۔
غرض یہ کہ ہرعہدے دار پر اسلامی نظریہ اور دستور پاکستان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔
ایسی صورت میں جو کام ہمارے اکابر کرچکے ہیں‘ وہ ا نتہائی قابلِ قدر اور خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔ قرارداد مقاصد سے لے کر مذکورہ تمام اسلامی دفعات جو ہمارا قیمتی اثاثہ ہے‘ دینی قوتوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی۔ اس کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے متصل‘ مفکرِاسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کا آغاز کیا‘ اور پھر علما اور عوام کے تعاون سے قرارداد مقاصد کی شکل میں اس مہم کو سر کرلیا۔ خصوصاً ۱۹۷۳ء کا دستور جو ایک ایسے شخص کے دور میں منظور ہوا جو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور سوشلزم ہماری معیشت‘ کے نام پر طوفان بن کر اُبھرا تھا۔ اس دور میں دینی جماعتیں پارلیمنٹ میں محدود نشستوں کے باوجود ایک ایسے شخص سے اسلامی دفعات خصوصاً قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئیں جو بالکل ایک دوسرے ہی طرزِ حکمرانی اور آدابِ زندگی کا خوگر تھا۔
اس اسمبلی کو خالص اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلانے کا کام ابھی باقی ہے۔ ان شاء اللہ اسے بھی حاصل کرلیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو ممبر منتخب کیا جائے جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طور پر چلانا چاہتے ہوں۔ ایسے ارکان جو دفعہ ۶۲-۶۳ کے معیار پر پورا اُترتے ہوں منتخب ہوجائیں تواسمبلی کے قانون سازی کے دائرہ کار اور طریق کار میں بھی تبدیلی ہوجائے گی۔
اس وقت اسمبلی میں جو خرابی ہے‘ وہ عقیدے کی نہیں عمل کی ہے۔ اسمبلی اگر قرارداد مقاصد اور اسلامی دفعات کے مطابق عمل کرے تو یہ اسمبلی‘ اسلامی اسمبلی ہوسکتی ہے کیونکہ آئین پاکستان حصہ نہم میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا‘ اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکام کے منافی ہو۔ (دیکھیے: آئین کا حصہ نہم‘ اسلامی احکام)
اگر حکومت اور پارلیمانی اکثریت کی حامل پارٹی آئین پر عمل کرتی تو اب تک اسلامی نظریاتی کونسل نے جو عبوری اور حتمی رپورٹیں پیش کی ہیں‘ ان کو اسمبلی میں زیربحث لاتی جس کا باربار مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ پیش کردی ہے۔ جائزے کے مطابق تمام قوانین کو اسلامی بنا دیا گیا ہے۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں کو قانونی شکل دی جاتی تومعاشرہ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے تبدیل ہوجاتا اور مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آجاتا۔
ہمارے اکابر نے قیامِ پاکستان کے بعد مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک چلا کر ریاست اور اسمبلی کو اسلامی بنایا۔ اسلامی دفعات کے ذریعے سوشلسٹ اور سیکولر طبقے کو شکست دی۔ طویل جدوجہد اور دعوت و تعلیم کے ذریعے اس مشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہو جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلائیں۔ اس عمل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے چند اقدامات ضروری معلوم ہوتے ہیں جن کی نشان دہی مفید ہوگی۔
۱- ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قرآن وسنت کو سپریم لا بنا دیں جس میں یہ بات شامل ہو کہ ایسی آئینی شق‘ قانون‘ صدارتی‘ وزارتی اور عدالتی آرڈر ازخود کالعدم ہوجائے گا جو قرآن وسنت کے منافی ہو‘ اور قرآن و سنت کے منافی ہونے کی بنیاد پر کسی بھی آئینی شق اور قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا۔
۲- قانون سازی کا دائرہ غیرمنصوص اور اجتہادی اور اختلافی مسائل تک محدود کردیا جائے۔
۳- اسلام کے ہر مخلص گروہ اور فرد کا فریضہ ہے کہ وہ مذکورہ دو مقاصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنائے اور اس کے لیے عوام کی ذہن سازی میں مصروف ہوجائے۔ گلی گلی‘ محلے محلے‘ قریہ قریہ‘ شہر شہر تبلیغی وفود اور بینرز اور اسٹکرز اور ہینڈبلز اور زبانی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ وہ نیک لوگوں اور دینی جماعتوں کو بھاری اکثریت سے منتخب کریں تاکہ اسمبلیوں کو مکمل اسلامی بنانے کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔
انسانی وسائل کی ترقی(Human Resource Development) آج کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم میںتو یہ موضوع ان کے مضامین کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر ہو یا مشنری ادارے‘ یہ کام وہاں باقاعدہ اور منظم انداز میں ہوتا ہے۔ ادارے کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے انسانی وسائل کو ایک خاص ڈھب میں ڈھالنا اور ترقی دینا اب مستقل نوعیت کا فن بن چکا ہے۔ بڑے اداروں میں اس کے شعبہ جات قائم کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی متعین مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قائم کوئی منظم یا تحریک اپنے کارکنوں اور قائدین کے لیے تربیتی نظام عنوان سے دراصل ایچ آر ڈی کا کام ہی کرتی ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (HRD) کی تعریف و تشریح معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین‘ مثال کے طور پر ماہرین معاشیات‘ماہرین تعلیم‘ ماہرین نفسیات‘ صنعت کار‘ منتظمین وغیرہ اپنے اپنے انداز اور پیرایے میں کرتے ہیں۔ انسانی وسائل کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے:
انسانی وسائل سے مراد کسی تنظیم کے مالی و مادی وسائل کے بالمقابل وہ افراد ہیں جو اس تنظیم کو چلاتے ہیں۔ اس سے مراد تنظیم کی کارکردگی ہے جو افراد اور وسائل سے متعلق ہے جیسے جائزہ‘ تربیت‘ معاوضے‘ بھرتی وغیرہ۔ انسانی وسیلہ تنظیم کا واحد فرد یا ملازم ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعریف یہ کی جاتی ہے:
انسانی وسائل کی ترقی ملازموں کو ان کی ذاتی اور تنظیمی صلاحیتوں‘ قابلیتوں‘ مہارتوں اور معلومات کی ترقی میں مدد دینے کا نظام ہے۔ یہ ملازمین کی تربیت‘ جانشینوں کے لیے منصوبہ بندی‘ کلیدی ملازم کی نشان دہی‘ تعلیم میں مدد وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔
ایچ آر ڈی کا بنیادی ہدف درج ذیل سطور سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا مرکزی نکتہ‘ اعلیٰ درجے کے کارکن تیار کرنا ہے تاکہ تنظیم اور ملازمین گاہکوں کی خدمت کے حوالے سے اپنے کام کے مقاصد کو حاصل کریں۔
جہاں تک ہیومن ڈویلپمنٹ کا موضوع ہے‘ اس ضمن میں اقوام متحدہ کا جاری کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس ایک مستند درجہ رکھتا ہے۔ اس میں تعلیم، معیار زندگی، اوسط عمر اور صحت مند زندگی وغیرہ شامل ہیں۔کئی ادارے ہیومن ڈویلپمنٹ کے عنوان کے تحت ناخواندگی ختم کرنے میں مصروف ہیں اور کچھ آگہی و شعور بیدار کرنے میں۔
اسی طرح ہیومن ریسورس منیجر یا اس شعبے سے متعلق جو ذمہ داریاں اور کام مطلوب ہیں ان میںافراد کی بھرتی، کارکردگی، ترغیب و آمادگی، تعلیم و تربیت، مسائل، صلاحیت کی نشوونما وغیرہ بھی اِس میںشامل ہیں۔
ان تعریفوں سے جو نمایاں نکات سامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
ان تمام اہداف کامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ فرد اپنی ذات کی نشوونما اس لیے اور اس طرح کرے کہ اس سے اداروں کے لیے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکے۔ ان اہداف کا تعلق، مفاد عامہ سے ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ جیسے جیسے مادیّت کے رجحانات بڑھ رہے ہیں اور مسابقت کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے مال و دولت کے حصول میں اخلاقیات کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اسکیم وضع کی جاتی ہے‘ اس میں اصل ہدف ایک ایسے فرد کی تیاری ہے جو ادارے کے لیے اس طرح سودمند ثابت ہوکہ اس کے کاروباری پھیلائو کا ذریعہ بنے۔ چنانچہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل مدعا منافع کی زیادہ سے زیادہ تکثیر (maximization of profit) ہی بن کررہ جاتا ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں،مارکیٹنگ باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اور اخلاقی اقدار سے عاری (بالعموم) یہ سائنس، کاروباری پھیلائو اور مالی منفعت کے لیے ہر قسم کے تشہیری حربے استعمال کرتی ہے۔ ان تشہیری مہمات سے طلب کی ایک نفسیاتی اور مصنوعی فضا پیدا ہوتی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہو کر رہتا ہے۔ اسی طرح ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے تربیتی نصاب میں یافرد کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے عمل میں اگر فرد کی صرف ان کوششوں کو قابل قدر سمجھا جائے جو ادارے کے لیے مالی منفعت کا باعث بنتی ہو، تو یہ اگرچہ موجودہ کاروباری فلسفے کے تناظر میں بالکل درست ہو گا، لیکن ہمارے نقطۂ نظر سے یہ رویہ نادرست اور بعیداز انصاف ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی ایچ آر ڈی کی یہ اصطلاح اپنے اندر ایک خاص معنی رکھتی ہے۔ اصطلاحات میں الفاظ کے چناؤ کی بھی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ جب ہم انسانی وسائل کی ترقی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ تو دراصل ہم ’انسان‘ کو ایک وسیلہ یا ذریعہ (resource) سمجھتے ہیں ،جس کی نشوونما خاص مقاصدکے حصول کے لیے کی جائے گی ۔ گویا اصل چیز وہ مقاصد ہیں جن کے لیے ’انسان‘کو بروے کار لانا ہے۔ بظاہر اس نظریے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن جب یہ اصطلاح کاروباری دنیا میں استعمال ہوتی ہے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہاں پر انسان کی شناخت بحیثیت ’انسان‘ ّ(اور وہ بھی اشرف المخلوقات) نہیں ہوتی بلکہ کاروباری مقاصد کے حصول میں مددگار محض ایک ذریعے اور وسیلے (resource and means) کے ہوتی ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر یہ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے تو انسان کے اشرف مقام کو مدِنظر رکھ کر نشوونما ، ترقی اور بڑھوتری عمل میں لائی جائے ۔ گویا کہ اگر یہ وسیلہ ہے تو لازمی طور پر اس کا مقصد اس وسیلے سے زیادہ اشرف ، افضل اور برتر ہونا چاہیے۔
اس مضمون میں ہم ہیومن ریسورس اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک مختلف حیثیت میں بیان کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک شخص بحیثیت انسان جو کسی بھی مقام پر اور کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہے، اس کی نشوونما، ترقی اور بڑھوتری کے اصول ایک جیسے ہو تے ہیں۔گویا انسانی وسیلے کی تعریف اور وظائف اور کردار کو بحیثیت انسان (ایک مخلوق ) سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ انسان کی استعداد اور کمزوریاں، خواہشات اور جذبات اور فطرت اور جبلتیں ہمارے سامنے آجائیں اور انسان کو کسی مقصد کے لیے تیار کرنا، ترقی دینا، نشو ونما دینا اور بڑھانا آسان اور ممکن ہو سکے۔ اس طرح وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی حیثیت میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرسکے گا۔
آئیے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔یہ زاویہ اسلامی زاویہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح کسی مشین کو اپ گریڈ کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اس مشین کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے لہٰذا انسان کی نشوونما اور ترقی کو سمجھنے کے لیے ہم ’انسان‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ:
مندرجہ بالا تمام حقائق کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی نشوونما، بڑھوتری اور ترقی کے لیے درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھنا لازمی ہوگا۔
۱- انسان کی جسمانی احتیاجات
۲- انسان کی روحانی آسودگی
۳- انسان کی نشوونما ان تمام زاویوں سے کہ وہ اپنے مفوّضہ امور کو احسن طریقے سے انجام دے سکے۔
۴- ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے الہامی ہدایت کی روشنی میں اپنی عقلِ سلیم اور تجربے سے راہوں کو متعین کرسکے۔
دین اسلام نے ترقی و نشو ونما کے لیے اورفرد و معاشرے کی فلاح و کامیابی کے لیے انسان کی شخصیت میںایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسمانی احتیاجات کی تسکین اور مادی حوالوں سے اٹھان کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ارتقا کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔اسی طرح اسلام بنیادی انسانی اخلاقیات، جن کے بغیر شایددنیاوی ترقی ممکن نہیں ہے، کو درجۂ کمال تک دیکھنا چاہتا ہے۔ساتھ ہی وہ ایمانیات وعقائد کی درستی کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔ انسان میں دونوں صلاحیتیں بھی ودیعت کی گئی ہیں،یعنی مثبت اور منفی جو آزادی اور انتخاب کے لیے ضروری ہیں۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی‘‘۔ لہٰذا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں فردکی تیاری، شخصیت سازی اور کردار کی اٹھان میں یہ عوامل بھی مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔
اس مقام پر ہم قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ (ہیومن )کا مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ ۶۴ مرتبہ آیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مقامات میں تواتر کے ساتھ جو مضامین انسان کے حوالے سے ملتے ہیں‘ ان میں انسان کی منفی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔مثلاً یہ کہ انسان:
گویا انسانی شخصیت کے ارتقا کی جب بھی کوئی اسکیم وضع کی جائے گی‘ درج بالا منفی رجحانات کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرمیاں اور فعالیتیں متعین کی جائیں گی۔ چونکہ انسان مخلوق ہے اور اس کا خالق اللہ ہے‘ لہٰذا شخصیت سازی کے لیے وہی(خالق) سب سے بہتر طریقے کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا کوئی بھی نصاب جو ان منفی رجحانات کو بڑھانے کا باعث ہو، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سے اس کا واسطہ نہیں ہو سکتا اور نہ وہ معاشرے میں خوشگوار اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا وضع کردہ خاکہ یک چشمی ہے اور شخصیت کے تمام پہلو ئوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہیومن ڈویلپمنٹ میں انسانی ترقی کا جو اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے‘ ان کے مطابق وہ ممالک جو اس حوالے سے سر فہرست ہیں، مقام حیرت ہے کہ وہاں خودکشی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔OCED ممالک، جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، میں بھی یہ شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہاں بے سکونی کا یہ عالم ہے کہ ماہرین نفسیات کی پریکٹس انتہائی کامیاب اور نہایت مہنگی ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل آیات کا مطالعہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ان آیات میں رب العالمین نے نبی کریمؐ کا مقصدِ بعثت ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ مضمون چار مقامات پر آیا ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے رب! ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے کامیابی کے اصل معیار اورمیزان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل کام اور اس کی درست ترتیب یہی ہے۔ تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا مدعا بھی یہی تزکیہ ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف تزکیے کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی نشوونما دراصل تزکیہ ہی ہے۔ تزکیے کے جو معانی اور مفہوم آئے ہیں وہ یوں ہیں:
ہم اس کی مثال یوں لیتے ہیں کہ ایک پودا جو ایک مالی کی نگرانی میں بڑھ رہا ہو اور ایک خودرو جھاڑی یا درخت جو جنگل میں اُگ جائے، دونوں کی کیفیات میں فرق ہوگا۔ مالی کی زیرنگرانی بڑھنے والے پودے میں تراش خراش، صفائی ستھرائی اور نکھار ہوگا۔ مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی اور مزید پروان چڑھنے کے لیے چھوڑ دی جائیں گی جب کہ نامطلوب ٹہنیاں، شاخیں، پتے، کانٹے، ڈالیاں وغیرہ کاٹ دی جائیں گی۔ بس یہی تزکیہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اس طرح کی جائے کہ اس سے نامطلوب اوصاف کم ہوتے جائیں اور مطلوب پروان چڑھیں، اخلاق رذیلہ کو ختم کیا جائے اور اخلاق حسنہ کو پروان چڑھایا جائے۔یہی انسانی وسائل کی ترقی کی اصل روح ہونی چاہیے۔
انسان کے ارتقائی میدان میں اس کی فکرو تصور، نیت و ارادہ، سوچ و تخلیق، حواس خمسہ کے استعمالات، جسم و روح، لباس و پوشاک، علوم و فنون، جسمانی افعال، حفظ و خیال، تعلقات، معاملات، جذبات اور مہارتیں وغیرہ سب ہی کچھ شامل ہیں۔ چنانچہ ہم ان کو درج ذیل مختلف عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔
انسان کی جسمانی نشو و نما (physical development) ایک ہمہ گیر تصور ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہری خدوخال سے نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کے پاس کسی کام کو احسن انداز میں کرنے کے لیے جسمانی قوت، صلاحیت، توانائی، امنگیں اور نفسیاتی لگن بھی ہو۔ جسمانی نشو و نما میں صحت مند جسم اور ذہن کو فوکس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں عالمی ادارہ صحت کی پیش کردہ تعریف میں بھی یہ وسعت نظر آتی ہے۔
"Health is a state of complete physical, mental and social well-being and not merely the absence of disease or infirimity".
صحت محض بیماری یا معذوری کے عدم وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک مکمل جسمانی ، ذہنی اور سماجی اچھی کیفیت کا نام ہے۔
جسمانی ضعف (معذوری کے علاوہ) کو دین اسلام نا پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ وہ سخت کوشی، جفا کشی اور محنت کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ سستی، کاہلی اور سہل پسندی کو نامطلوب قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول کریمؐ نے اپنے عہد اور ماحول کے مروجہ جسمانی تفریحی اشغال کی طرف توجہ دلائی ، فرمایا: ’’تیر اندازی، گھڑ سواری اور تیراکی سیکھو‘‘۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے ارشادات میں گھوڑے پر چھلانگ لگا کر بیٹھنا، ننگی پیٹھ پر سواری، دھوپ کو برداشت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک فرد کی اس انداز میں نشوونما کہ وہ مطلوبہ کام کو کرنے کی اپنے اندر جسمانی لحاظ سے مکمل اہلیت پائے، انسانی وسائل کی ترقی کا ایک اہم پہلو ہے۔
اخلاقی نشوونما (moral development) کی تشریح سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی نشوونما اور اخلاقی نشوونما میں فرق ہے۔ اخلاقی نشو ونما کا تصور اچھائی اور برائی کے ان آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جس کی تمیز بالعموم ہر انسان کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سچ بولنا یا جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی، ایمان داری، صفائی ستھرائی، قطار بنانا وغیرہ وغیرہ۔ گویا اخلاقی نشوونما میں ان عمومی قواعد و ضوابط اور اوامر و نواہی پر توجہ دی جاتی ہے جن کو ایک سلیم الفطرت شخص سمجھتا ہے۔ اخلاقی نشوونما کسی بھی معاشرے میں‘ خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ بالعموم یکساں ہی ہوگی۔ البتہ دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔
اوّل یہ کہ دین اسلام میں نظامِ اقدار مستقل (permanent) اور مطلق (absolute) ہے‘ جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہے‘ جب کہ بعض دوسرے نقطہ ہاے نظر میں یہ ایک اضافی تصور ہے جو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ بدل سکتا ہے۔ دوم یہ کہ بعض مروجہ اصطلاحات کی فی زمانہ تشریحات اسلام کے مطابق ناقص اور ادھوری ہیں۔ مثال کے طور پر صفائی ستھرائی۔ اسلام اس حوالے سے اس سے بڑھ کر پاکیزگی کا اعلیٰ تصور پیش کرتا ہے جس میں صفائی ستھرائی طہارت و نظافت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے اخلاقی نشوونما پر جتنا زور دیا ہے‘ اس کا اندازہ صرف اس بات پر لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘(انما بعثت لاتم مکارم الاخلاق)۔ آپؐ نے اوامر و نواہی (Do's & Don'ts) کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جو کسی بھی فرد، گھر، ادارے، معاشرے، قوم اور ملکوں کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ یورپی معاشروں میں جو ادارے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں‘ ان میں یہ اخلاقی صفات من حیث القوم یا اداروں کے اجتماعی اخلاق کے طور پر موجود ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں اخلاقِ حسنہ اور اخلاق رذیلہ کی فہرست مرتب کرنی چاہیے تاکہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں ان پہلوئوں پر کما حقہ زور دیا جاسکے۔
انسان کے لیے تنہائی میں زندگی گزارنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ معاشرتی گروہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایک بڑے کُل کا جزو ہے۔ اس کی انفرادیت ہے لیکن اس کی یہ انفرادیت کسی نظام کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا اس کے مزاج میںجُڑکر رہنے کا اندرونی اور پیوستہ داعیہ ہوتا ہے۔ باہمی تعلقات، بات چیت، گھلنا ملنا اور لڑنا جھگڑنا یہ سب اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ چونکہ وہ کسی جنگل میں نہیں بستا لہٰذا ان سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ فرد کی سماجی نشوونما کس نہج پر ہوتی ہے اور اس کی ذات میں دوسروں کے لیے کتنی گنجایش ہے‘ اور وہ دوسروں سے مطابقت کے لیے کس درجہ آمادہ ہے۔ باہمی معاملات میں اس کے مزاج میں بے زاری ہے یا جوش۔ ایک انسان کی سماجی نشوونما درست نہج پر ہو تو وہ ہر قسم کے لوگوں سے مثبت اور متوازن انداز میں معاملات کر سکتا ہے۔ بہت سارے افراد بہت گھلنے ملنے والے ہوتے ہیں اور بہت سارے کم آمیز۔ اہم معاملہ یہ ہے کہ افراد سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ گویا صرف زیادہ افراد سے تعلقات ہی اہم نہیں ہیں‘ بلکہ ان کی کیفیات بھی اہم ہیں۔ یعنی تعلقات کی وسعت اور ان کی بہتر نوعیت دونوں مطلوب ہیں۔
اسلام نے ہر ایک سے اچھے انداز اور حسن خلق سے پیش آنے کی تاکید کی ہے۔ گویا گھر میں باضابطہ، ذمہ دارانہ اورنمایاں کردار ادا کرنا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا، رشتوں کو جوڑنا، آجروں سے خیر خواہانہ تعلقات، راہ چلتے لوگوں کے حقوق، مریضوں سے رابطے، قرض خواہوں کی فکر، معذوروں کی مدد، چھوٹوں پر شفقت، بزرگوں کا احترام یہ سب ہماری بنیادی تعلیمات ہیں جو سماجی نشو ونما کے نصاب کا حصہ ہونا چاہییں۔
روحانی نشو و نما اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مخلوق کواپنے خالق کا شعور اور احساس ہو۔ اللہ کی معرفت کا حصول ہی روحانی نشوونما کا اہم مقصد ہے۔ ایک انسان بعض اخلاقی صفات میں اعلیٰ درجے کے کردار کا مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن اللہ کی معرفت اور اس کا دھیان نہ ہو تو یہ کردار ناپایدار بھی ہو سکتا ہے اور اگر پایدار بھی ہو تو اس کا فائدہ صرف دنیا میں ہوگا۔ اسی لیے فرد میں ہر لمحہ اللہ کا دھیان پیدا کرنا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کااہم کام ہے۔
چونکہ انسان، جسم اور روح کا مرکب ہے لہٰذا جسمانی احتیاجات کی تسکین کے ساتھ ہی اسے روحانی بالیدگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ روحانی نشوونما انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لہٰذا وہ اس کے لیے نت نئے تجربات کرتا ہے۔ چونکہ وہ خود ساختہ اور انسانی ذہن کی تخلیق ہوتے ہیں لہٰذا غیر انسانی ہی کہلاتے ہیں مثلاً یہ نظریہ کہ اپنے آپ کو تکلیف دہ عمل سے گزار کر روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے‘ چنانچہ اپنے اُوپر کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو وغیرہ چھوڑ دینا، ایک ٹانگ پر گھنٹوں کھڑے رہنا، پانی کا استعمال ترک کر دینا، صفائی ستھرائی سے اجتناب برتنا‘ اپنی کھالوں میں آنکڑے لگا کر ہوا میں معلق ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو غیر منطقی انداز میں ذہنی قوت کے عنوان سے سکون کی متلاشی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ اہم معاملہ ہے جس سے انسان کو مفر نہیں ہے۔ چنانچہ صرف وہی طریقہ قابل قبول اور انسانی نفسیات کے مطابق ہے جو الہامی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ روحانی نشوونما کے سارے طریقے ادھورے اور ناقص ہیں اور مزید فکری انتشار کا باعث ہیں۔
فرد کی ایسی ذہنی نشونما کرنا انتہائی اہم ہے،جس سے اس کے حواس خمسہ کارکردگی کے حوالے سے اپنے درجۂ کمال کو پہنچ جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی نشو ونما کی جانچ و پیمایش بھی چند مخصوص عنوانات کے تحت ہوتی ہے جن کا تعلق فرد کے کردار میں مثبت تبدیلی کے واقع ہونے سے بہت کم ہوتا ہے اور دنیاوی منفعت کے حصول سے زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حافظہ (memory) ، مفروضات (data)، فکر (thought)، معلومات (information)، تصور (concept)، خیال (idea)، بصیرت (insight) اورحکمت (wisdom) کے معانی، مفہوم اور اہمیت جدا جدا اور مسلمہ ہیں۔ مگر ان تمام سے جو مطلوب ہے۔ یعنی فرد صالح، وہ ہم تیار نہیں کر پاتے۔ خلافت ارضی کے لیے درکار صالحیت (character) اور صلاحیت (competence) پر ہماری توجہ بالعموم کم رہتی ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں تو اطلاعات و تصورات کا سیلاب اُمڈا چلا آرہا ہے لیکن تبدیلی کا عمل کیوں نہیںہو رہا ہے، سوچنے کا مقام ہے۔ ذہنی نشو ونما کے ذریعے وہ بصیرت مطلوب ہے جو تجزیاتی عمل اور منطقی استدلال میں، مشاہداتی عمل اور ذہانت میں حقیقت کو پا سکے۔ جو دُعا ہمیں سکھلائی گئی ہے وہ یوں ہے: اللھم واکشف لی وجوہ الحقائق (اے اللہ میرے سامنے ہر معاملے میں حقائق کے سارے پہلو کھول دے)۔ یہی حکمۃ ہے‘اور یہی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا جوہر ہے۔ (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا - البقرہ ۲: ۲۶۹)
ابھی ہم نے مختلف پہلوئوں سے انسانی نشو و نما وترقی کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ یہاں پر مہارات، تصورات اور اقدار کے مثلث کی تشریح و تفہیم بھی مناسب رہے گی۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی پیش کردہ تعریفوں اور فی زمانہ ان پر عمل میں سب سے زیادہ زور مہارتوں کی نشوونما پر ہے۔ یہ مہارتیں بھی صرف ایک خاص جہت پر مرکوز رہتی ہیں۔ یعنی دنیاوی منفعت اور منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا۔ گویا ساری مہارات کا حصول صرف اس لیے ہے کہ اس سے مادیت کو ترقی ملے‘ خواہ اس کے نتیجے میں انسانیت سسکتی اور تڑپتی رہے۔ جہاں تک تصورات کا تعلق ہے‘ یہاں پر بھی ہم صرف ادنیٰ درجے کو حاصل کرتے ہیں، جو صرف چند اصطلاحات کے استعمال اور معلومات کی سطحی تفہیم پر مشتمل ہوتا ہے۔یہاں بھی اصل مدعا اور ہدف مادی منفعت کا اضافہ اور کاروباری پھیلائو ہی رہتا ہے۔مثلث کا ایک نہایت اہم عنوان وہ اقدار (values) ہیں جن پر عمارت قائم ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں مہارتوں کواعلیٰ اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو معاشرے میں ایک بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوگا۔ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں اقدار کا جتنا وزن ہونا چاہیے اور یہ جتنابنیادی ، واضح اور نمایاںہونا چاہیے، وہ ہمارے نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔ اگر کسی بنک کا مینیجر خود ہی ڈکیتی میں ملوث ہو‘ تو یہ مہارتوں کا مسئلہ ہے یا کردار کا۔ پاکستانی قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم کسی کام کو ٹھیک طریقے سے کرنے کے لیے اسے کم از کم تین مرتبہ انجام دیتے ہیں۔ آخر ہم پہلی ہی بار سڑک کو صحیح کیوں نہیں بناتے؟ کیا ہمارے ہاں صلاحیت کا فقدان ہے؟ مہارتوں میں کمی ہے؟ یا ہمارا کیرکٹر ہم سے کم تر درجے کا کام کرواتا ہے۔ یاد رکھیے کہ مہارتوں اور صلاحیتوں کے حصول کی خواہش بھی اعلیٰ کردار کی رہین منت ہے۔ گویا ایک بار پھراقدار کی اہمیت معلوم ہوئی۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے دینی فکر کے حامل ادارے یا اسلامی مشنری ادارے فرد کی نشو و نما و ترقی کی کوششیں اس طرح انجام دیتے ہیں کہ اس فرد کو اپنے خالق سے جزوی آگہی تو شایدہو جاتی ہے لیکن وہ دنیا میں اپنا مؤثر کردار کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔اس کی وجہ نشوونما وترقی کے جزوی پہلو پر نظر ہے جس کے ثمرات بھی جزوی نکلتے ہیں اور فرد خلافتِ ارضی کے منصب کے لیے درکار قوت، صلاحیت، ذہانت، استعداد اور مہارتوں سے نابلد رہتا ہے۔ دوسری جانب کاروباری نوعیت کے ادارے صرف اور صرف مالی منفعت اور کاروباری وسعت کو ذہن میں رکھتے ہیں‘ چنانچہ افراد کار کی نشوونما و ترقی اسی کے مطابق کی جاتی ہے جس سے فرد کی دنیا تو شاید سنور جائے لیکن وہ آخرت کی فکر سے بالکل آزاد ہوتا ہے۔ اصل مطلوب متوازن شخصیت کی تیاری ہے جس کے لیے ہمیں شخصیت کی نشوونما و ترقی کے تمام زاویوں پر نگاہ رکھنی ہوگی۔ انسانی نشوونما و ترقی کا یہ تصور عین دین ہے۔
اسلامی تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے اس اہم کام کے ضمن میں آجروں اور متعلقہ ذمہ داروں کے لیے درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں۔ فرد کی ہمہ جہت ترقی و نشو و نما کے لیے یہ نکات پیش نظر رکھے جائیں۔ ہیومن ریسورس منیجر کو چاہیے کہ وہ ان امور پر توجہ دے اور اپنی ٹیم میں ان کو پروان چڑھائے۔ یہ تربیتی نصاب کا حصہ بھی ہوں اور کمپنی پالیسی میں شامل بھی۔نیز ادارے کی اہم اقدار (core values) میں بھی جگہ پائیں۔ یہ نکات فرد کی ترقی و نشو ونما اور بڑھوتری کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں:
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ، یعنی انسانی وسائل کی ترقی کا مطلوب یہ ہے کہ ایک فرد کی تعلیم وتربیت اور ترقی و نشوونما ایسی ہو کہ وہ دنیا میں ایک کامیاب انسان کے طو ر پر ابھرے اور آخرت میں جنت کا حق دار ٹھیرے۔ چونکہ ہر فرد راعی ہے، اور اسے اپنی رعیت کے بارے میں اللہ کے حضور جواب دینا ہے (کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ)، لہٰذامسلمان مینیجر اور اداروں کو اس سے مفر نہیں ہوسکتا کہ وہ یہ کام کریں۔
کلامِ اقبال پر ایک مجموعی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے دیگر تمام طبقوں سے بڑھ کر نوجوان طبقے اور بالخصوص نوجوانانِ ملت کو مخاطب کیا ہے۔
علامہ اقبال نے مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرکے انھیں عرفانِ نفس اور شعورِ ذات کا درس دیا۔ بالفاظِ دیگر ان کے اندر احساسِ خودی پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھیں مسلمانوں کے شان دار ماضی، آبا و اجداد کی شان و شوکت اور تاریخِ اسلامی کی عظمت سے روشناس کرایا، ان کے سامنے دورِ حاضر کے پُر آشوب حالات کی ایک عبرت خیز تصویر پیش کی اور پھر ان کے دل میں احیاے دین و ملت کی تمنا بیدار کر کے انھیں ایک ولولۂ تازہ عطا کیا ؎
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند
(ضربِ کلیم، ص۲۳)
نوجوانانِ ملت سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی شاعری میں علامہ اقبال ان مراحل کا ذکر بڑے حکیمانہ انداز میں کرتے ہیں۔ بعض نظموں میں تو وہ براہِ راست نوجوانوں سے مخاطب ہیں، جیسے ’طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام‘ یا ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ یا ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ وغیرہ۔ ابتدائی دور کی نظم ’عبدالقادر کے نام ‘ (بانگِ درا، ۱۳۲ ) بظاہر فردِ واحد کے نام ہے لیکن فی الحقیقت اس نظم کے حوالے سے، اقبال نے عام نوجوانوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم سب سے پہلے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ زمانی اعتبار سے یہ پہلی نظم ہے، جس میں شاعر کے پُرجوش اور ولولہ انگیز خیالات کا اظہار ملتا ہے۔
شیخ عبدالقادر اقبال کے نہایت قریبی اور گہرے دوست تھے۔ ہندستان کے ادبی حلقوں تک اقبال کا نام اور کلام پہنچانے میں شیخ صاحب کے رسالے مخزن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اقبال کے سفرانگلستان میں شیخ عبدالقادر کی تجاویز و تلقین کا بھی دخل رہا۔(نذر اقبال، ۱۶۴،۱۷۴،۱۷۶)۔ پھر قیام یورپ کے دوران میں جب انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ کیا تو یہ شیخ صاحب ہی تھے جن کے حسنِ تدبیر سے اقبال ترکِ شعر سے باز رہے (دیباچہ : بانگِ درا، ۱۵)۔ اقبال کو شیخ عبدالقادر کے ذوق و ذہن ، ملت اور قوم کے لیے ان کے پُرخلوص جذبات، ان کی درد مندانہ سوچ اور خیر خواہانہ مساعی کا بخوبی احساس تھا، اسی لیے انھوں نے بطورِ خاص شیخ صاحب کو مخاطب کیا ؎
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اُجاَلا کردیں
(بانگِ درا، ۱۳۲)
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوںنے اپنے ہم مزاج اور ہم عمر شیخ عبدالقادر ہی کو خطاب کے لائق سمجھا‘ تاہم اُن کے توسّط سے یہ خطاب، اُس دور کے تمام دردمند اور صاحبِ احساس نوجوانوں سے تھا۔ اقبال جب ’شعلہ نوائی سے اُجالا‘ کرنے ’قیس کو آرزوے نو سے شناسا‘ کرنے یا ’بزم گہِ عالم کو منور‘ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان، جس کا سینہ بلند عزائم سے پُرہے اور پختہ صالح ارادوں، اُمنگوں اور ولولوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ جذبات سے معمور اپنے دل‘ لگن اور حرارت اور اپنے سوزوگداز سے زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے کا خواہاں ہے۔ بقول غلام رسول مہر: ’’قوم کی عملی خدمت کے لیے کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان‘‘ تھا۔ (مطالب بانگِ درا، ۲۰۹)
’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘ (بانگِ درا، ۱۸۰) اس سلسلے کی ایک اور اہم نظم ہے۔ اس کا زمانہ ذرا بعد کا ہے، اسی لیے اس کے لہجے اور آہنگ میں مذکورہ بالا نظم کا سا جوش و خروش نہیں، اس کے بجاے اس میں تفکر اور سوچ بچار کا انداز غالب ہے۔ فرماتے ہیں ؎
کبھی اے نوجواں مسلم، تدبرّ بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
(بانگِ درا، ۱۸۰)
چند اشعار کی اس نظم میں علامہ نے بطور پس منظر، ملتِ اسلامیہ کے شان دار اور سنہرے ماضی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں خاص طور پر قرنِ اوّل کے مسلمانوں کی طرف بعض بلیغ اشارات کے ذریعے، انھوں نے امّتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔قابل غور بات ہے کہ اس میں خطاب، نوجوان مسلم سے ہے۔ علامہ نے کوشش کی کہ نوجوان مسلم کے دل میں اس کے حقیقی مقام و مرتبے کا شعور پیدا کرکے، اسے بتایا جائے کہ اس مقام اور مرتبے کے کھو جانے کی وجوہ کیا ہیں۔ نظم کے ایک مصرعے (کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت ، وہ سیارا) میں نہایت کفایت لفظی سے اس تضاد کی طرف توجہ دلائی ہے جو قرنِ اوّل اور دورِ حاضر کے مسلم نوجوانوں کے کردار میں نظر آتا ہے۔ یہ مصرع ایک آئینہ ہے جس سے آج کے نوجوانوں کے ہاں بے عملی، تساہل، غفلت، لاپروائی، غیر ذمہ داری اور ایک مجموعی جمود کی کیفیت صاف اور صریح طور پر نظر آ رہی ہے۔
اقبال کا زمانہ ، برطانوی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا، چنانچہ وہ غلامی کے اس ماحول میں پلے بڑھے، اس لیے نوجوانوں کی کمزوریوں ( کہ تو گفتار، وہ کردار۔۔۔ ) سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی متعدد نظموں، مثلاً ’جاوید کے نام‘ (بال جبریلِ، ۱۷۴) ’’طلبہ علی گڑھ کالج کے نام‘ (بانگِ درا، ۱۱۴) ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ (ضرب کلیم،ص ۱۸) اور ’سخنے بہ نژادِنو‘ (جاوید نامہ، ۱۹۹) میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ، یہ نظمیں ، نژادِ نو کے بارے میں اقبال کی امیدوں، آرزوؤں اور ولولوں کا خوب صورت اظہار بھی ہیں:
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
(بالِ جبریل، ۱۱۹-۱۲۰)
’سخنے بہ نژادِ نو‘ اس اعتبار سے ایک اہم نظم ہے کہ دور آخرکی اس طویل نظم میں علامہ نے نئی نسل کے بارے میں اپنے احساسات کو بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے۔ نژادِ نو کی چند کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ بڑی افسوس ناک صورت حال ہے کہ:
نوجواناں تشنہ لب، خالی ایاغ
شستہ رو، تاریک جاں، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نااُمید
چشم شاں اندر جہاں چیز ے ندید
(جاوید نامہ، ۲۰۲)
(نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں۔ چہرے چمک دار‘ دماغ روشن مگر اندرون تاریک۔ بے چارے کم نگاہ‘ بے یقین اور مایوس ہیں۔ انھیں دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔)
علامہ اقبال کے ایک مدّاح اور اُن کی صحبت و ملاقات سے فیض یاب ہونے والے عالم جناب ممتاز حسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’ان کے پاس سب سے زیادہ نوجوان طالب علم آتے تھے اور صرف لاہور ہی سے نہیں‘ بلکہ دُور دُور سے۔ اقبال کو نوجوانوں سے مل کر اور ان سے باتیں کرکے بڑی خوشی ہوتی تھی‘ اور ان لوگوں کو بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال ان کے ہم عمر ہیں‘‘۔
ایک ماہر طبیب کی طرح، علامہ کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہے اور وہ نئی نسل کے امراض کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی و بے اعتمادی اور ریب و تشکیک کا شکار ہے۔ خودی سے محروم ہے، اس لیے اپنی ذات پر بھروسا نہیں ہے اور چونکہ خودشناس نہیں، اس لیے خدا شناسی کی نعمت بھی حاصل نہیں۔ وہ اپنے ماضی کا عرفان رکھتا ہے، نہ اسے اپنے حال کی خبر ہے اور نہ مستقبل پر یقین ہے۔ علامہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی نوع انسان کے لیے ایک مہلک مرض ہے اور ’ذوقِ یقین ‘ سے محروم شخص کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوتی ہے (ع :غلامی سے بتر ہے بے یقینی۔ بالِ جبریل‘ ۳۷۳)۔ نژادِ نو کو اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے ، اقبال سب سے پہلے اسے لاالہ کا درس دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ؎
اے پسر! ذوقِ نگہ ازمن بگیر
سوختن در لا اِلَہ از من بگیر
(جاوید نامہ، ۱۹۹)
(اے بیٹے! ذوقِ نگہ [کا شعور و ادراک‘ بصیرت اور معیارِ انتخاب] مجھ سے سیکھو۔ لا الٰہ کا سوز کیا ہے؟ [اور اس میں کیا لذت ہے؟] یہ بھی مجھ سے سیکھو۔)
لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو بنی نوع انسان اور خاص طور پر نژادِ نو کی بے یقینی ، بے اعتمادی، فکر و نظر کی لغزشوں اور کردار کی جملہ کمزوریوں کا تیر بہدف علاج ہے۔ ’بتانِ وہم و گماں‘ اس سے شفا یاب اور سودو زیاں کے مغالطے لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ سے بے نقاب ہوتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں: اے عزیز انِ من، لا الٰہ کو فقط دو حرف نہ سمجھو، یہ ایک ’تیغِ بے زنہار‘ ہے اور یہ دو حرف ’ضربِ کاری‘ کی سی قوت کے حامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، قرآن سے وابستگی کو نئی نسل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ میں وہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ، صاحبِ قرآن ہونے کے باوجود ذوقِ طلب سے محروم ہے۔ نوجوانوں کو ان کی تلقین یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم سے دلی وابستگی پیدا کریں ‘ کیوں کہ یہی ذریعہ ہے استحکامِ خودی ، ذوقِ طلب، یقین و اعتماد اور جذبِ اندروں کے حصول کا۔ اور ہماری فوز و فلاح ، دنیاوی کامرانی اور اُخروی نجات قرآن پر عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔
علامہ کہتے ہیں کہ سو خرابیوں کی ایک خرابی تو یہ ہے کہ مکتب کی تعلیم نے نوجوانوں کی فطرت کو مسخ کردیا ہے ؎
نورِ فطرت را ز جاں ہا پاک شست
یک گلِ رعنا ز شاخِ او نرست
(جاوید نامہ، ۲۰۲)
(اہلِ مکتب نے نوجوانوں کی جانوں سے نورِ فطرت کو دھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتبوں کی شاخ سے ایک گلِ رعنا بھی نہیں پھوٹا۔)
اقبال کہتے ہیں کہ حقیقی علم فقط کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا،اس کے لیے کسی صاحبِ نظر کی طرف رجوع ضروری ہے۔ (ع ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔ بال جبریل، ۴۷) علامہ ، اپنی اس بے مثال نظم میں نئی نسل کو حسب ذیل نصیحتیں بھی کرتے ہیں:
۱- عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔
۲- اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔
۳- احکام ِالٰہی کو اپنی گرہ میں باندھ لو۔
۴- اپنے قلب سے روشنی حاصل کرو۔
۵- ضبط ِنفس سے اپنی جوانی کی حفاظت کرو۔
۶-اور فقر و درویشی کو اپنی زندگی کا عنوان (motto) بناؤ۔
فقر و درویشی کے ضمن میں علامہ اقبال نے شاہین کو ایک مثالی پرندے کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاہین مسلم نوجوان کے لیے ایک استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اقبال نئی نسل میں فقر، درویشی ، قناعت، استغنا، خودداری، اور بلند پروازی کی صفات دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ صفات اس وقت تک نوجوانوں کے اندر پیدا اور راسخ نہیں ہوسکتیں، جب تک وہ سخت کوشی کو اپنی زندگی کا شعار نہ بنائیں۔ (ع سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں۔ بال جبریل، ۱۲۱)
مختصر یہ کہ یہ نظم اقبال کے مثالی نوجوان کا ایک نہایت عمدہ خاکہ پیش کرتی ہے۔ اُوپر ذکر ہوا ہے کہ علامہ اقبال نئی تعلیم کو نوجوانوں کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتے تھے (ع لادیں ہو تو ہے زہرِہلاہل سے بھی بڑھ کر۔ ضرب کلیم ، ۲۹)‘ کیونکہ یہ تعلیم اسے عقل پرستی اور مادّیت و لادینیت کا اسیر بناتی ہے۔
اقبال جدید دور کی مادیت کو نوجوانانِ ملت کے لیے بہت بڑا فتنہ سمجھتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں انگلستان میں نوجوانوں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے محفوظ رہیں۔ اہلِ یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مذہب و حکومت کو علاحدہ علاحدہ کردیا۔ اس طرح ان کی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رُخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا‘‘ (گفتار اقبال، ۲۵۴)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال جوانانِ ملّت کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ جاوید کے نام پند ونصیحت کو، وہ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ قرار دے کر پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل انھیں اپنے دونوں بیٹوں (آفتاب اقبال، جاویداقبال) میں سے عزیز تر جاویداقبال ہی کی طرح عزیز تھی اور وہ اپنی اولاد کی طرح ہی اس کے خیر خواہ تھے، چنانچہ پندو نصائح کے ساتھ ساتھ، اقبال ہمیشہ ان کے لیے دعاگو بھی رہے۔ ۲۹ نومبر ۱۹۲۹ء کو وہ علی گڑھ میں تھے۔ یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے ان کے اعزاز میں جلسہ منعقد کرکے، انھیں یونین کی ’آنریری لائف ممبرشپ‘ دی اور ایک سپاس نامہ پیش کیا تو جوابی تقریر میں فرمایا: ’’گذشتہ چند سال سے میں صرف جسد خاکی کا مالک ہوں۔ میری روح ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک زندہ ہوں، وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی‘‘ (گفتار اقبال، ۱۰۳)۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں، یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خدا داد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں۔‘‘ (اقبال نامہ ، ۳۸۲)
اس اضطراب اور خدمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جوانانِ ملّت کی تنظیم و تربیت کے متمنی تھے۔ ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تنظیماتِ نوجوانان (Young Leagues) قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو ایک مرکزی تنظیم کے تحت سماجی خدمت، نا مطلوب رسوم و رواج کی اصلاح اور معاشرے کی اقتصادی فلاح و بہبود کے کام انجام دے ۔(Speeches، ۴۱) مولانا راغب احسن نے ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا یوتھ لیگ قائم کی (اقبال، جہان دیگر، ۳۰) تو انھیں تلقین کی کہ جمعیت کو زیادہ فعاّل اور منظم بنائیں۔ لکھتے ہیں: ’’مقصد صرف تربیت ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ڈسپلن۔ تربیت سے مراد وہ طریق ہے جس سے مسلمان نوجوانوں میں دینی حرارت پیدا ہو‘‘۔ (اقبال نامہ)
جوانانِ ملّت کے لیے اقبال کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کا تذکرہ ان کی شاعری میں بھی کئی مقامات پر ملتا ہے۔ بال جبریل کی نظم ’ساقی نامہ‘ میں کہتے ہیں:
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے
(بالِ جبریل ۱۲۴-۱۲۵)
سوال یہ ہے کہ یہ اضطراب ، حضرت علامہ نوجوانوں ہی کو کیوں منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ امت مسلمہ کے عمر رسیدہ و آزمودہ کار اور جہاں دیدہ اصحاب کے بجاے انھوں نے نوجوانوں کا انتخاب کیوں کیا؟ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ: ’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘ (بال جبریل، ۱۲۴) ، تو اس کا حقیقی محرک کیا تھا؟
ہمارے خیال میں، پیروں اور بزرگوں کی تمام تر فہم و دانش ، طویل زندگی کے تجربات اور بزرگی کے باوجود، جوانوں کو اُن پر ترجیح کا سبب غالباً یہ تھا کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں دعوتِ حق کی پکار پر لبیک کہنے والوں میں نوجوان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حق و باطل کی پیکار میں انھوں نے ہر طرح کے سود وزیاں سے بے نیاز ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ یہ حقیقت معرکۂ فرعون و کلیم سے آنحضورؐ کے دور تک اسلام اور جاہلیت کی کش مکش میں ہمیشہ بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ :
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ (یونس ۱۰: ۸۳) (پھر دیکھوکہ ) موسیٰ کو اس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔)
گویا اس پر آشوب اور پر خطر زمانے میں جب فرعون اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے درمیان ایک زبردست کش مکش برپا تھی، حق کا ساتھ دینے اور حضرت موسیٰ کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت فقط چند لڑکوں نے کی۔ اُمتِ موسٰی ؑکے عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوشی اور عافیت پرستی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ نہ صرف یہ کہ وہ خود حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے، بلکہ نوجوانوں کو بھی موسیٰ کی پیروی سے روکتے رہے تاکہ وہ فرعون کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ سرزمینِ عرب میں آنحضوؐر نے دعوتِ حق پیش کی تو آپؐ پر ایمان لانے والوں میں بڑے بوڑھوں اور سن رسیدہ لوگوں کے بجاے اولیت کا شرف بھی نوجوانوں ہی کو حاصل ہوا۔ ان باہمت نوجوانوں کی عمریں قبولِ اسلام کے وقت اس طرح تھیں:
۱- ۲۰ سال سے کم عمر: علی ابن ابی طالب، جعفر بن طیار، زبیر ، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔
۲- ۲۰ اور ۳۰ سال کے درمیان: عبدالرحمن بن عوف ، بلال ، صہیب رضی اللہ عنہم۔
۳- ۳۰ اور ۳۵ سال کے درمیان: ابوعبیدہ ابن الجراح، زید بن حارث، عثمان غنی، عمر فاروق رضی اللہ عنہم۔
اس تاریخی حقیقت کی بنا پر جس کی شہادت قرآن حکیم پیش کر رہا ہے، علامہ بجا طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات میں سے صرف نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جو ذوقِ عمل کی دولت سے مالا مال ہے اور انھی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، اس لیے اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کرلی تھیں۔ مزید برآں قریبی زمانے کی مسلم تاریخ اور ہم عصر مسلم معاشرے کے عمیق مطالعے کے بعد‘ حضرت علامہ نوجوانوں کے سوا، ملت کے تمام گروہوں سے تقریباً مایوس ہوگئے تھے۔ مایوسی کا یہ احساس مختلف اصحاب کے نام لکھے گئے خطوط میں خاصا نمایاں ہے۔ آخر زمانے کے ایک خط (بنام چودھری نیاز علی خاں مرحوم) میں ان کی سوچ کا یہ رخ بہت دو ٹوک اور واضح نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں :
علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کے کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خودغرض ہیں۔ ذاتی منفعت اور عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں ۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر ان کا کوئی بے غرض راہ نما نہیں ہے۔ (اقبال نامہ، ۲۲۳)
چنانچہ اقبال اپنے برس ہا برس کے مطالعے، مشاہدے اور ذاتی تجربے کے بعدا پنی تمام تر توقعات صرف اور صرف نوجوانوں سے وابستہ کرلینے میں حق بجانب تھے۔ ان کے ہاں عقل پر عشق کی ترجیح اور شاہین کی ایک مثالی پرندے کی حیثیت سے تعریف و توصیف اسی نکتے کی تفسیریں ہیں۔ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرلینے کے بعد‘ وہ بے چین ہوئے تو انھی کے لیے ، تڑپے اور مضطرب ہوئے تو انھی کے لیے، ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں‘ اُمنگیں اور آرزوئیں انھی کے لیے وقف ہوگئیں :
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
(بالِ جبریل، ۸۶)
کچھ عجب نہیں کہ اس وقت جبکہ دنیا بھر کے مسلمان ابتلا و آزمایش کا شکار ہیں اور عالمِ اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، حضرت علامہ کی روح آج بھی بے تاب و مضطرب ہو اور اس بات کی منتظر کہ نوجوانوں کے عزائم اور ان کے ارادے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔
۲۱ویں صدی کے آغاز میں جب متمدن اور ترقی یافتہ مغرب، اقبال کے الفاظ میں ، ایک بہت بڑے ’قمار خانہ‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے اور وہاں زندگی، علامہ کے اس شعر کی تفسیر بن چکی ہے ؎
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
(بالِ جبریل، ۱۰۸ )
مسلم نوجوان دورِ جدید کا وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسلام کے حیات بخش اور جاں فزا پیغام کی بدولت آج بھی ہر طرح کے ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ ہے ۔ اقبال کی شاعری‘ اس نوجوان کی قوتِ عمل کے لیے ایک مہمیز ہے۔ اقبال دور حاضر کے مسلم نوجوانوں کو تسکینِ قلب کے لیے منفی اور مصنوعی طور طریقوں کے بجاے‘ دین فطرت کا وہ صراط مستقیم دکھاتے ہیں جو اسلامی انقلاب کی شاہراہ ہے۔
مسجد قرطبہ ، یورپ میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی ایک خوب صورت یادگار ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل اس کے پہلو میں بہتے دریا وادی الکبیر کے کنارے حضرت علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا:
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
(بالِ جبریل، ۱۰۱)
مگر یہ سحر عالمِ اسباب میں تاحال بے حجاب نہیں ہوئی۔ اقبال کی چشم ِنگراں آج بھی اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ جب ہم ’’ساقی نامہ‘‘ کے ان اشعار کو دیکھتے ہیں کہ :
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
(بال جبریل، ۱۲۴)
تو غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی نسل ہی اقبال کے خواب شرمندہ ٔ تعبیر کرسکتی ہے۔
۱- ابوالاعلیٰ مودودی، سیدّ : تفہیم القرآن، دوم۔ مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۷۱ء
۲- اقبال، علامہ محمد : اقبال نامہ (مرتب : شیخ عطاء اللہ) اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء
۳- اقبال، علامہ محمد : اقبال ، جہانِ دیگر (مرتب: محمد فرید الحق) گردیزی پبلشرز کراچی ، ۱۹۸۳ء
۴- اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال، اُردو ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء
۵- اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال ، فارسی ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء
۶- اقبال، علامہ محمد : Speeches, Writings and Statements of Iqbalمرتب: لطیف احمد شروانی ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۷ء
۷- اقبال، علامہ محمد : گفتار اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل ) ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۶۹ء
۸- عبدالقادر ، شیخ سر : نذرِ اقبال (مرتب: محمد حنیف شاہد) بزم اقبال لاہور، ۱۹۷۳ء
۹- ممتاز حسن: مقالاتِ ممتاز (مرتب: شان الحق حقی)۔ ادارہ یادگار غالب کراچی‘ ۱۹۹۵ء
۹- مہر ، غلام رسول مہر : مطالبِ بانگِ درا ۔ شیخ غلام علی لاہور۔ ۱۹۷۲ء
مغربی ملکوں میں اسلام پر بحث و گفتگو کا لب و لہجہ تندوتیز ہوچلا ہے۔ اس کا رخ اس خیال کی طرف ہے کہ ’اعتدال پسند اسلام‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘ اور آج دنیا جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ فی الواقع ایک تصادم ہے جو دو متوازی نظام ہاے اقدار کے درمیان برپا ہے‘ جن میں سے ایک برتروبالاتر مگر روحانی حیثیت سے دیوالیہ‘ مغربی نظامِ آزادی اور جمہوریت ہے‘ اور دوسرا ایک پس ماندہ اور غیر جمہوری اسلام ہے‘ جو اپنی روحانی طاقت کے خودساختہ‘ خوش کن عقیدے پر قائم ہے۔ اس صورت حال سے دو مختلف ردعمل پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک طرف عیسائی فتح مندی کا احساس ہے جو بعض مبصرین کی راے کے مطابق پچھلے سال پاپاے روم کے بیان کی صورت میں سامنے آیا‘ اور دوسری طرف یہ عام و عالم گیر خوف واندیشہ ہے کہ مغرب اپنے روحانی ’افلاس‘ کے باعث اسلام کے خلاف جنگ و جدل جاری نہ رکھ سکے گا۔
عام لوگوں بلکہ دانش وروں کا یہ احساسِ شکست انھیں بہت ستا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام پسند فتح مند ہورہے ہیں‘ اور وقت گزرنے کے ساتھ دنیا ایک عظیم خلافت میں بدل جائے گی۔ آزادی اور جمہوریت کی مغربی قدریں اپنی جگہ چھوڑ دیں گی‘ اور یہ موجودہ تاریخ کا خاتمہ ہوگا۔ تاریخ کے خاتمے سے مقصود فرانسس فاکویاما کا وہ نظریہ نہیں جس کی رو سے سوویت روس میں سوشلزم کے زوال کے بعد مغربی طرز جمہوریت کو دوام حاصل رہے گا‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کو اسلام کی صورت میں ایک متبادل نظام ملے گا۔ یہی نظام اب دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ممتاز ناول نویسوں اور مضمون نگاروں کے پیش کیے ہوئے الہامی مناظر کی بنا پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سموئیل ہن ٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم والا نظریہ کسی بھی وقت عملی صورت میں ظاہر ہونے کو ہے۔ ایک اور ناول نگار ڈیوڈ سلبورن نے اپنے ناول The Losing Battle With Islam (اسلام کے مقابلے میں ہاری جانے والی جنگ) میں ۱۰ ایسے معقول اسباب بیان کیے ہیں جن کے ہوتے ہوئے جہاد کے خلاف مغرب کی جنگ میں اسلام کو شکست نہیں دی جاسکے گی۔
ٹائم میں چھپے ایک مضمون میں اس نے تفصیل سے بتایا کہ اسلام کو کس بنا پر بالادستی حاصل ہے‘ اور یہ اسباب گنوائے ہیں:غیرمسلم ملکوں کے اس بارے میں سیاسی اختلافات کہ اسلامی انتہا پسندی سے کس طرح نمٹا جائے‘ عالم اسلام کی قوتوں کا غلط اندازہ لگانا‘ انھیں بے وقعت گرداننا‘ خود اسلام کے مزاج کے متعلق غلط فہمی‘ مغرب خصوصاً امریکا کی قیادت کا گرتا ہوا معیار‘ مغربی پالیسی سازی میں انتشار‘ امریکا کی ناکامیوں پر بہت سے غیرمسلموں کی بے اطمینانی‘ مغرب کا اخلاقی افلاس و دیوالیہ پن‘ جہادیوں کے ہاتھوں میڈیا کاماہرانہ استعمال‘ عرب اور مسلمان ملکوں کے مادی وسائل پر مغرب کا انحصار‘ سائنس اور ٹکنالوجی کے بل بوتے پر قائم عصرِجدید پر اس کا فخرو غرور۔
دی ابزرور نامی اخبار میں برطانیہ کے ایک ناول نویس مارٹن ایمس نے ایک مقالے میں لکھا ہے:’’ابھی کل تک کہا یہ جاتا تھا کہ ہمارا سامنا اسلام کی اندرونی ’خانہ جنگی‘ سے ہے۔ یہ مختلف تہذیبوں کا تصادم نہیں ہے‘ محض خانہ جنگی ہے‘ مگر اب معلوم یہ ہوتا ہے کہ خانہ جنگی ختم ہوچکی‘ عسکریت پسند اسلام نے میدان مارلیا‘‘۔
مارٹن لکھتا ہے کہ اعتدال پسند مسلمان کم ہیں‘ ایسے لوگ کھل کر اپنی راے نہیں دیتے‘ اور یہ بات اسلامی مزاج کے عین مطابق ہے جہاں اُمت کو فرد پر اوّلیت حاصل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں فرد کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ جو کچھ ہے وہ اُمت ہی ہے۔ اسلام کی آمرانہ حیثیت اس کے پیروؤں سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ذہنی آزادی سے پوری طرح دست بردار ہوجائیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مسلمان آزاد خیال ہو‘ یہ ایک متضاد بات ہے۔
واضح رہے کہ اسلام کی حقانیت پر بے چوں و چرا ایمان مغرب کے مقابلے میں ایک زبردست طاقت ہے‘ وہ مغرب جس نے اپنی روحانی قوت کھو دی ہے‘ جو ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہے۔ اسلام کے بارے میں یہ بات آج کل بار بار دہرائی جارہی ہے۔ سلبورن کی طرح مارٹن بھی یہ راے رکھتا ہے کہ ایک بڑا عامل جس نے اسلام پسندوں کی فتح کو ناگزیر بناکر پیش کیا ہے‘ وہ بش حکومت کے خلاف عام نفرت ہے جو زیادہ تر عراق میں اس کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔
مارٹن کہتا ہے: ’’سارے مغربی ملکوں میں ایسے بے حدوحساب لوگ ہیں جو عراق میں امریکا کی ناکامی کے دل سے آرزومند ہیں کیونکہ وہ جارج بش سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔ غالباً وہ نہیں جانتے کہ امریکا کی ناکامی کی آرزو دراصل اسلامیوں کی فتح یابی کی آرزو ہے جو ایک ڈرامائی انداز سے ان کی آیندہ نسلوں کو بدل کر رکھ دے گی‘ یہ بات عین ممکن ہے‘‘۔ اس کے بعد مارٹن ایک ایسی خیالی دنیا کی تصویر پیش کرتا ہے جس کے کرتا دھرتا مُلاقسم کے لوگ ہوں گے۔
اور سنیے امریکی ناول نویس رابرٹ فریگنو (Robert Ferrigno) نے اپنے تازہ ناول Prayers for the Assassin (قاتل کے لیے دعائیں) میں اس سے زیادہ ڈرامائی انداز سے اسلامی فتح مندی کے بعد کانقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلم عسکریت پسند ملک پر چڑھ دوڑیں گے‘ اسے اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کردیں گے‘ ریاست ہاے متحدہ امریکا کا نام مسلم ریاست ہاے امریکا قرار پائے گا‘ سیکولر قانون کی جگہ شریعت کا قانون نافذ ہوگا‘ لاس اینجلس ہوائی اڈا بن لادن ہوائی اڈا ہوگا‘ ایک بڑااسٹیڈیم خمینی سے منسوب ہوگا‘ برقع پوش خواتین سے بھرے ہوئے شہر اذان کی آواز سے گونج اٹھیں گے‘ کالے عبائوں میں ملبوس پولیس گلی گلی گشت کررہی ہوگی کہ کہیں کوئی نامناسب لباس میں تو نہیں ہے‘ اس سے کوئی بدتہذیبی تو سرزد نہیں ہو رہی ہے!
گو‘یہ ناول ایک متبادل اسلامی نظام کا ایک افسانوی تخیل ہے‘ مگر اس کا مصنف اس بات پر پورا یقین رکھتا ہے کہ یہ تصور ایک نہ ایک دن عملی صورت اختیار کرکے رہے گا۔وہ مزید لکھتا ہے کہ مغرب روحانی حیثیت سے عاری ہے‘ اس بنا پر وہ کسی ایسی قوم سے طویل جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو مذہب اور مضبوط روحانی یقین کے بل بوتے پر میدانِ عمل میں اُترے۔ (تلخیص انگریزی مضمون‘ روزنامہ ہندو‘ ۲۰ستمبر ۲۰۰۶ء)
برطانیہ کے ایک معروف اخبار دی گارڈین (۱۱ اکتوبر ۲۰۰۷ء) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یورپ میں جو مسلمان آباد ہیں‘ ان میں اپنے دین سے وابستگی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ان میں دینی شعور بیدار ہو رہاہے اور اپنے دین پر عمل کرنے کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔
دین اسلام کی تعلیم کا نچوڑ یہ ہے کہ وہ یہ بتاتا ہے کہ انسان حادثاتی طور پر اس دنیا میں نہیں آگیا ہے‘ بلکہ وہ یہاںبھیجا گیا ہے۔ اس کی اصل حیثیت بندے کی ہے اور اسے اس دنیا میں اپنے رب کا‘ اپنے پالنہار کا بندہ بن کر رہنا ہے۔ اسے اپنی ساری عمر اس کی بندگی میں گزارنی ہے۔
اسلام کی دوسری تعلیم یہ ہے کہ انسان کو خود ہی رب کا بندہ نہیں بن کر رہنا ہے‘ بلکہ تمام انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانا ہے۔ اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کی دعوت دینی ہے۔ یوں تو اللہ کا بندہ کہیں بھی اپنے رب کے آگے جھک سکتا ہے اور سجدہ ریز ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے بعض مقامات مخصوص کرلیے گئے ہیں جنھیں مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجدیں اس کی مظہر ہیں کہ یہاں رب کے آگے اس کے بندے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت میں مسجد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مسجد اسے بندگیِ رب کی طرف بلاتی ہے۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اسے اپنے رب کا بندہ بن کر رہنا چاہیے۔ اس لیے اس کو ایک محور کی حیثیت حاصل ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یورپ میں مساجد کی تعمیر کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ بھی عالمی خبررساں ایجنسیوں کی دوسری رپورٹوں کی طرح ایک منفی رپورٹ ہے اور اس میں ایک منفی تصویر ہی پیش کی گئی ہے‘ تاہم اس سے یورپ میں آباد مسلمانوں کے رجحان کا پتا چلتا ہے‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے اس میں یہ تو نہیں بتایا گیا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ تاہم اس کو چھپانا بھی مشکل ہے۔
ویسے تو یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں اس کے ایک چھوٹے سے قصبے وانگن کی ایک مخصوص صورت حال اور کیفیت کا تذکرہ ہے‘ تاہم نامہ نگار ایان ٹرینر یہ بھی بتاتا ہے کہ جس مخصوص صورت حال کا اس نے تذکرہ کیا ہے‘ یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ ان میں اٹلی‘ آسٹریا‘ جرمنی اور ہالینڈ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یورپ میں اسلام کو سمجھنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں قسم کے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں توکچھ کو اس کی موافقت کی توفیق بھی مل رہی ہے۔ یہاں تک کہ قبولیتِ اسلام کے واقعات بھی درج کیے جارہے ہیں‘ اور یہ دونوں ردعمل شعوری طور پر ہورہے ہیں۔
نامہ نگار نے سوئٹزرلینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے کی ایک مخصوص صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ۲۱ویں صدی ایک انداز میں یہاں نمودار ہورہی ہے۔ اس نے اس کو خطرے کی علامت قرار دیا ہے۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ یہاں ترک تارکینِ وطن کی ایک چھوٹی سی آبادی کافی عرصے سے مقیم ہے۔ انھوں نے ایک انجمن بھی بنا رکھی ہے۔ یہاں کے مسلمان ایک مکان کے نیچے کے حصے میں پنج وقتہ نماز اور نمازِ جمعہ ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اس کو باقاعدہ مسجد کی شکل دینے کے لیے بھی برسوں سے کوشاں تھے۔ اس کی قانونی جدوجہد بھی کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا مسئلہ سوئٹزرلینڈ کی سب سے اونچی عدالت‘ یعنی سپریم کورٹ تک پہنچا اور بالآخر انھیں کامیابی مل گئی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ انھیں اس عمارت پر ایک مینار بنانے کی اجازت مل جائے۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں اس عمارت پر چھے میٹر اُونچا مینار بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس پر مسلمانوں کو خوشی تو ضرور ہوئی ہے مگر وہ اس کو دوسروں کو چڑانے کا موضوع نہیں بنانا چاہتے۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس فیصلے سے وہاں کی عیسائی آبادی کے ایک حلقے میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔
رپورٹ میں مذکورہ عیسائی حلقے کے احساسات کو عام احساس بنا کر پیش کیا گیا ہے۔اس کا کہنایہ ہے کہ یورپ میں مساجد کی تعداد میں اضافے کو خطرے کی علامت تصور کیا جا رہا ہے۔ اس قصبے کے ایک باشندے رولینڈ کسلنگ کا یہ احساس نامہ نگار نے قلم بند کیا ہے کہ چھوٹے قصبوں کے لیے تو یہ مساجد کوئی مسئلہ نہیں لیکن شہری آبادی میں ان کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے۔ کس طرح کے مسائل پیدا ہوں گے؟ اس کی وضاحت یا تو اس نے نہیں کی‘ یا نامہ نگار نے اس کے حوالے سے یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا‘ تاہم اس نے دائیں بازو کی ایک سیاسی پارٹی سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) کے ایک ممبر پارلیمنٹ الرخ شولر کے اس مسئلے پر احساسات کو اپنی رپورٹ کا نہ صرف حصہ بنایا ہے‘ بلکہ اس کو اس مسئلے پر یورپ کے عام رجحان کے طور پر پیش کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ پارٹی ملک کی سب سے بڑی اور طاقت ور سیاسی پارٹی ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی ایک عیسائی ملک کی حیثیت کو بحال رکھا جائے۔ اس کے خیال میں اس پر عیسائی تہذیب و ثقافت کا ہی غلبہ ہونا چاہیے۔ یورپ کی سرزمین پر وہ کسی دوسری تہذیب و ثقافت کو پھلتا پھولتا ہوا ہرگز نہیں دیکھ سکتی۔
نامہ نگار نے آگے جو بات لکھی ہے‘ وہ یہ بتا رہی ہے کہ الرخ شولر کی مخالفت ایک سوچی سمجھی مخالفت ہے۔ وہ ناواقفیت یا نادانی پر مبنی نہیں ہے کیونکہ شولر کے الفاظ میں اسلام محض ایک مذہب نہیں‘ بلکہ وہ ایک نظریۂ حیات ہے‘ ایک طریقۂ زندگی ہے جس کا اپنا ایک نظامِ قانون ہے جس کو شریعت کہتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کام سیاست دانوں نے نہیں کیا تو عوام کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں مساجد سے کوئی تعرض نہیں ہے لیکن مینار ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک سیاسی قوت کی علامت ہے۔ اور یورپ میں کوئی دوسری سیاسی قوت اُبھرے اور اس کو عروج حاصل ہو‘ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ اس لیے انھوں نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں دستور کی رو سے میناروں کی تعمیر کو ممنوع قرار دیا جائے۔
نامہ نگار یہ بتاتا ہے کہ آسٹریا میں بھی دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت کے لیڈر‘ جوروگ ہیدر نے بھی ریڈیکل اسلام کا راستہ روکنے کے بندوبست شروع کردیے ہیں اور مغربی کلچر کو اس کی زد سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی حال اٹلی کا ہے جہاں دائیں بازو کی ایک انتہاپسند جماعت ناردرن لیگ نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ اس کی اس شدید مخالفت کی وجہ سے بولونا اور جے نوا کے میئروں نے مساجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ جرمنی اور ہالینڈ میں بھی مساجد کو ایک زبردست خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔
یورپ کو دراصل یہ خوف لاحق ہے‘ یا نہایت ہوشیاری سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر اسلام کا راستہ نہیں روکا گیا اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو چیک نہیں کیا گیا تو اس کی بالادستی چھن جائے گی۔ حالانکہ یورپی باشندوں اور دانش وروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نسل پرستی کی دعوت نہیں دیتا‘ نہ یہ قوم پرستی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کی دعوت کسی گروہ کی طرف بھی نہیں ہے‘ بلکہ وہ تو نظریے کی طرف بلاتا ہے۔ ایک اللہ کی طرف اس کی پکار ہے جو تمام انسانوں کا رب ہے۔ اس لحاظ سے یہ انسانیت کی دعوت ہے۔ اس لیے یورپ کو خوف کھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اسے تو معقولیت پسندی سے کام لیتے ہوئے عقل و خرد کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا چاہیے۔(سہ روزہ دعوت‘ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
مخالف میڈیا کے باوجود اسلام کا مغربی مداحوں کا حلقہ وسیع ہو رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب کہ برطانوی اور کیتھولک چرچ کے درمیان خلیج گہری ہورہی ہے‘ اہلِ برطانیہ کی اتنی بڑی تعداد‘ جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں‘ جس میں زیادہ تر خواتین ہیں‘ اسلام قبول کر رہی ہے۔ اس قدر کثیرتعداد میں قبولِ اسلام کی وجہ سے یہ پیشن گوئی ہورہی ہے کہ اسلام بہت جلد اس ملک میں ایک اہم مذہبی قوت بن جائے گا۔۱؎ روز کینڈرک‘ ہَل کمپری ہینسو میں مذہبی تدریس کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کے حوالے سے ایک درسی کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے ۲۰سال کے اندر برطانوی نومسلموں کی تعداد‘ اُن مسلمان تارکینِ وطن کے برابر ہوجائے گی یا اُس سے بڑھ جائے گی جو اس مذہب کو برطانیہ میں لے کر آئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اسلام رومن کیتھولک مذہب کی طرح ایک عالمی مذہب ہے کیونکہ دنیا کی کوئی خاص قوم یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ یہ صرف اسی کا ہے۔ اسلام آج بڑی تیزی سے امریکا اور یورپ میں بھی پھیل رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اسلام کے حوالے سے منفی تاثر کے باوجود اسلام کی قبولیت بڑھی ہے۔ سلمان رشدی‘ خلیجی جنگ اور بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت زار جیسے واقعات کا چرچا ہونے کے بعد اسلام قبول کرنے کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔۲؎
حیران کن بات یہ ہے کہ مغرب کے اندر اس تاثر کے باوجود کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ہے‘ برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ امریکا میں بھی عورتیں اسلام قبول کرنے کے حوالے سے مردوں پر چار‘ایک کی نسبت سے سبقت رکھتی ہیں‘ جب کہ برطانیہ کی ۱۵ لاکھ مسلمانوں کی آبادی میں ۱۰ ہزار سے ۲۰ہزار افراد اسلام قبول کرنے والوں میں بیش تر تعداد خواتین کی ہے۔ برطانیہ کے ان نومسلموں میں زیادہ تر متوسط طبقے کا پس منظر رکھتے ہیں۔ ان میں میتھیوویلکنسن (مشہور تعلیمی ادارے Eton کا نمایاں طالب علم جو کیمبرج تک گیا) اور لارڈ جسٹس اسکاٹ (’عراق کے لیے اسلحہ‘ کمیٹی کے سربراہ) کا بیٹا اور بیٹی بھی شامل ہیں۔
اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے زیراہتمام محدود پیمانے پر کیے گئے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر نومسلموں کی عمریں ۳۰ سال سے ۵۰ سال کے درمیان ہیں۔ نوجوان نومسلموں میں زیادہ تعداد طلبہ کی ہے جو علمی لحاظ سے اسلام کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
امریکی نژاد ماہر نفسیات عالیہ ہیری جو کہ ۱۵سال قبل اسلام لائیں‘ کہتی ہیں: کبھی کہا گیا تھا کہ: ’’اسلام کی روشنی مغرب سے پھیلے گی‘‘۔ اور آج ہمارے دور میں یہ بات سچ بن کر سامنے آرہی ہے۔ عالیہ ہیری برطانیہ کی اسلام پر ایک مشہور مقررہ ہونے کے ساتھ ساتھ زہرہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ جو مذہبی لٹریچر شائع کرتا ہے‘ بطور مشیر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: مغربی نو مسلم مشرق کی تمام عادات کے بغیر اور اُن سب چیزوں سے پرہیز کے ساتھ جو ثقافتی لحاظ سے غلط ہیں‘ صاف ذہن لے کر اسلام میں آرہے ہیں۔ آج حقیقی اسلام کی یہ تحریک مغرب میں اپنے آپ کو سب سے طاقت ور محسوس کر رہی ہے۔۳؎
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تقابل ادیان کی تعلیم میں اضافے کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برطانوی میڈیا جو ہر اسلامی چیز کو بُرا بنا کر پیش کرتا ہے وہ بھی ایک وجہ ہے۔ اہلِ مغرب اپنے معاشرے کے اندر جرائم میں اضافہ‘ خاندان کے ادارے کے توڑپھوڑ‘ منشیات اور کثرت شراب نوشی جیسے مسائل۴؎ سے بددل ہوکر اسلام کے اندر ایک نظام اور تحفظ کی موجودگی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ بہت سارے نومسلم پہلے عیسائی تھے جو چرچ کی غیریقینی کیفیت کی وجہ سے تذبذب کا شکار تھے اور عقیدۂ تثلیث اور حضرت عیسٰی ؑ کی الوہیت کے عقیدے سے بھی ناخوش تھے۔
کچھ نومسلم مذہبی تشخص کی تلاش کو قبولِ اسلام کی وجہ بتاتے ہیں۔ بعض قبولِ اسلام سے قبل مذہب پر عمل کرنے والے عیسائی تھے مگر اُن کی علمی تشنگی صرف اسلام ہی بجھا سکا۔
’’میں مذہبی علوم کی طالبہ تھی‘ تاہم یہ علمی دلیل تھی جس نے مجھے قبولِ اسلام کی راہ دکھائی‘‘۔ روزکینڈرک‘ جو مذہبی تعلیم کی استاد اور مصنفہ ہے‘ کہتی ہیں کہ انھیں دراصل گناہ کے تصور پر اعتراض تھا: اسلام میں باپ کے گناہ کے لیے بیٹے کو قصوروار نہیں ٹھیرایا جاتا۔ یہ تصور کہ اللہ ہروقت معاف نہیں کرتا‘ مسلمانوں کے نزدیک گناہ سمجھا جاتا ہے۔
۳۹ سالہ میمونہ کی پرورش کٹر عیسائی انداز سے ہوئی۔ ۱۵ سال کی عمر میں وہ عیسائی مذہب سے لگائو کی بلندیوں کو چھو چکی تھیں۔ اعلیٰ درجے کے گرجے میں عبادت کرتے ہوئے مجھے اس قدر مزہ آتا تھا کہ میں نے عیسائی راہبائوں کی طرح چہرے کو ڈھانپنے کا سوچ لیا۔ پیچیدگی اس وقت شروع ہوئی جب اس کی ایک دعا قبول نہ ہوئی۔ اس نے آنے والے پادریوں پر تو اپنے دروازے بند کردیے‘ تاہم عیسائی راہبائوں سے بحث و مباحثے کے لیے خانقاہوں میں مسلسل جاتی رہیں۔
وہ کہتی ہیں: میرا عقیدہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر واپس آیا‘تاہم کسی گرجے‘ کسی ادارے یا کسی اندھی تقلید کا اب اس میں عمل دخل ختم ہوچکا تھا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل انھوں نے ہرعیسائی فرقے‘ یہودیت اور کرشنا کے افکار و خیالات پر تحقیق کی۔ بہت سارے نومسلم‘ بندے اور اللہ کے درمیان کسی انسانی واسطے کی موجودگی جیسے عیسائی تصور کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کی اس سوچ کی پُرزور تائید کرتے ہیں کہ انسان اور اللہ کے درمیان براہِ راست تعلق ہونا چاہیے۔
یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ برطانیہ کی کلیسا میں رہنمائی کی صلاحیت موجود نہیں اور بہت سارے معاملات میں اُن کی لچک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
۲۸ سالہ ہُدی خطاب‘ جو مسلمان خواتین کے لیے لکھی گئی ایک رہنما کتاب کی مصنفہ ہے‘ جس کو طٰہٰ نامی ایک اشاعتی ادارے نے اس سال چھاپا ہے‘ کہتی ہیں: ’’مسلمان اپنے اہداف اور مقاصد کو بار بار نہیں بدلتے‘‘۔ ہُدی خطاب ۱۰ برس پہلے یونی ورسٹی میں عربی زبان کی طالبہ تھیں‘ اسی زمانے میں انھوں نے اسلام قبول کیا۔
عیسائیت تبدیل ہوجاتی ہے‘ جیساکہ بعض لوگ یہاںتک بھی کہہ چکے ہیں کہ شادی سے قبل جنسی تعلقات استوار کرنے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ یہ تعلق اُس فرد سے رکھا جائے جس سے آپ کی شادی ہونے والی ہو۔ یہ محض نفسانی خواہشات کی ترجمانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جنسی تعلق ہو یا دن میں پانچ وقت کی نماز ہو‘ اسلام کا موقف اس بارے میں ہمیشہ سے ایک رہا ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نماز ہر وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے اور آپ مستقل طور پر اپنی اساس و بنیاد سے وابستہ رہتے ہیں۔ (لکی برنگٹن، دی ٹائمز، لندن geoislam@yahoogroups.com
ترجمہ: نور اسلم خان)
۱- اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی اس کھلی جنگ کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ جو کوئی بھی اسلام کو توحید کے اس بنیادی عقیدے کے ساتھ (کہ اللہ ایک اور یکتا ہے‘ وہی عبادت اور اطاعت کا حقیقی حق دار ہے اور وہی قوانین و ضابطے دینے کا حقیقی ضامن ہے) مانتا ہو‘ ان سب احکامات کے مجموعے سمیت جو اللہ نے خود متعین کیے ہیں (جو انصاف پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مرد و زن کے حقوق و فرائض کو ٹھیک ٹھیک واضح کرتے ہیں) اور ہرشعبۂ زندگی میں اُس کے متعین کردہ انصاف کے پیمانوں(سماجی‘ معاشی اور سیاسی) انسانوں کے ہردرجے کو چاہے وہ بیویاں ہیں‘ شوہر ہیں‘ بچے ہیں‘ یتیم ہیں‘ خواتین ہیں‘ امیرہیں‘ غریب ہیں‘ محتاج ہیں‘ مسکین ہیں___ کو فوراً یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج اسلام کیوں کر مغربی تہذیب اور اُس کے اُن ممتاز اکابر کے لیے ایک خطرہ بنا ہوا ہے جو بے انصافی اور ظلم پر مبنی نظامِ حکومت کو اپنے لیے زیادہ مفید پاتے ہیں۔ لوگوں کے احساسات اور نظریات کو میڈیا (ٹی وی‘ رسائل‘ فلموں اور تعلیم) کے ذریعے کنٹرول کرنے کا اختیار بھی انھی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اوریہ لوگ برتری کے اس فائدے کو محض اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے بداعتمادی کی فضا اسی طرح قائم رہے۔
مسلمانوں کو انسانوں کے بنائے ہوئے جھوٹے نظریات اور اعتقادات کے ذریعے نہ تو غلام بنایا جاسکتا ہے اور نہ ان پر اس ذریعے سے حکومت کی جاسکتی ہے‘ بلکہ اُن پر حکمرانی اور غلامی کا حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔ یہ اسلام کی روح ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی غلامی نہیں کی جاسکتی اور اللہ کی ذات سے ہٹ کر نہ تو کسی کے سامنے سر جھکایا جاسکتا ہے اور نہ اُس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاسکتی ہے۔
۲- یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دوسری خلیجی جنگ کے دوران یا اس کے فوراً بعد تقریباً ۵ہزار امریکی فوجی‘ جو سعودی عرب میں مقیم رہے‘ اسلام قبول کرچکے ہیں۔
۳- خواتین کے استحصال کے حوالے سے زیادہ تر الزامات کی بنیادی وجہ وہ مقامی ثقافت ہے جس کی بنیاد ہندو مذہب اور اس سے وابستہ توہمات پر ہے۔ تاہم اس کو یوں پیش کیا جاتا ہے گویا اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ اس سے ان افراد کی آزادیِ فکر متاثر ہوتی ہے جو معاملے کو معروضی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بیش تر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
۴- تفریح اور موج مستی‘ مغرب کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ترقی کے جعلی تصور کو برقرار رکھا جائے کہ حالات چاہے جیسے بھی آئیں‘ ہمارے لیے اس میں بہتری ہے اور ہمیں مشکلات کے باوجود اُس کو برداشت کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ اپنی خوشی اور لذت اور دنیاوی لوازمات کی تلاش لوگوں کے اذہان پر حاوی ہوچکی ہے‘ جب کہ دوسری طرف لوگ قتل ہورہے ہیں‘ ذبح ہورہے ہیں‘ عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں‘ معصوم بچوں اور نومولودوں کوچاقوؤں اور کلہاڑیوں سے کاٹا جا رہا ہے۔ سرِراہ ملنے والے معصوم لوگوں کو برسرِعام لوٹ کر قتل کیا جاتا ہے۔ بوڑھوں کو نوعمر لڑکے ضربیں مار مار کر موت کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں‘ ہزاروں لوگ کثرت منشیات سے مر رہے ہیں۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔ بہت سارے شراب کے نشے میں مدہوش اپنی بیویوں اور بچوں پر بے دریغ تشدد کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔
تفریح کی صنعت ان مؤثر ذرائع میں سے ہے جو غوروفکر کو معمول پر رکھتے ہیں‘ انسانی ہمدردی کے احساس کو بے حس کردیتے ہیں اور ’میری خوشی اور مسرت ہی سب سے اہم ہے‘ کی کیفیت کو بڑھاتے ہیں۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔
مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔
۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:
دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔
ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔
ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔
اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔
حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔
اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!
سوال: ۱- کیا میڈیکل دواساز کمپنیوں کی رقم سے کوئی ڈاکٹر انفرادی دائرے میں جہاز کا ٹکٹ‘ گاڑی‘ نقد رقم‘ ہوٹل میں قیام کے اخراجات‘ ان کی گاڑی کا استعمال‘ بال پوائنٹ یا ان کی دعوتوں سے استفادہ کرسکتا ہے ‘ کیا یہ جائز ہے؟
۲- اجتماعی دائرے میں کارخیر کے لیے رقم‘ مریض کے لیے دوا‘ علمی اجتماعات کا انعقاد‘ سیمی نار یا علمی و تحقیقی کاموں کے بین الاقوامی پروگرامات میں اسپانسرشپ لی جاسکتی ہے۔
۳- بازار میں ایک ہی دوا مختلف کمپنیوں کی طرف سے مختلف قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہے۔ کیا مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے‘ جب کہ مؤثر سستی دوا موجود ہو۔ کیا اثرانگیزی کی بنا پر مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے۔ اس میں گناہ کا احتمال ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن کریم کے ہدایت اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے [وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o القلم ۶۸:۴] کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے مختلف دائروں میں جن کا تعلق چاہے معیشت سے ہو یا معاشرت سے‘ سیاست سے ہو یا عبادات سے‘ تعمیراتی منصوبوں سے ہو یا ایک طبیب‘ استاد یا اہلِ فن کے معاملات کے ساتھ‘ ہرہر شعبۂ حیات میں اصولِ اخلاق اور ان کی تطبیق کے لیے رہنمائی پائی جائے۔ اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر مسکراہٹ اور ہرہر عمل کو اسوۂ حسنہ قرار دے کر‘ ہمیں یہ دعوت دی گئی کہ آپ کے اسوہ اور قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔
انسانی جان اور دین کا تحفظ و بقا‘ دو اوّلین مقاصد شریعہ ہیں اور اس لحاظ سے ایک مسلم طبیب کے لیے نہ صرف جان بلکہ دین کے حوالے سے بھی مناسب معلومات رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ویں صدی کی تحریکِ احیاے دین کے زیراثر سیکڑوں‘ ہزاروں مسلم اطبّا دنیا کے ہرگوشے میں جدید طبی مسائل کے حوالے سے مشاورت‘ سیمی نار اور کانفرنسوں کے ذریعے ان مسائل کے حل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری نہ صرف علماے کرام کی ہے‘ بلکہ یکساں طور پر ان مسلم اطبّا کی بھی ہے جو دین کا فہم رکھتے ہوں اور شریعت کے اصولوں سے آگاہی رکھتے ہوں۔ ان مسائل کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب طب کی تعلیم کے دوران ہرمسلم طالب علم کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے اتنا آگاہ کردیا جائے کہ وہ حلال و حرام کے فرق کو خود سمجھ سکے اورقرآن و سنت کے واضح اصولوں کو خود استعمال کرتے ہوئے نئے راستے نکال سکے۔
ان اصولوں میں سے دو بنیادی اصول حفظ نفس اور حفظ دین ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو دین کی بنیاد جن اصولوں پر ہے‘ وہ ہر مسئلے پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں یعنی توحید اور عدل۔
اگر ایک دواساز کمپنی ایک طبیب کو بیرون ملک تفریح کے لیے ٹکٹ‘ رہایش فراہم کرتی ہے تو ظاہر ہے اس کا مقصد کسی مریض کی فلاح یا کسی علمی تحقیق کے ذریعے انسانیت کی جان بچانا نہیں ہوسکتا۔ اس کا واضح مقصد اس طبیب کو ممنون احسان بنا کر اپنی دوا کی زیادہ فروخت اور شہرت ہی ہوسکتا ہے جو بظاہر رشوت اور شہادتِ زُور سے مماثلت کی بنا پر جائز اور حلال قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسلامی شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی شمار ہوگا۔ اس لیے وہ بیرون ملک سفر کی سہولت ہو یا ذاتی استعمال کے لیے کار کی فراہمی‘ نقد رقم یا دیگر سہولیات کی فراہمی‘ ان میں سے کسی بھی سہولت کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔
حد سے حد جس چیز کو گوارا کیا جاسکتا ہے‘ وہ کسی دوازساز کمپنی کی طرف سے تقسیم کیے گئے بال پوائنٹ قلم‘ جس کی بنا پر کوئی طبیب کسی دواسازکمپنی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور جسے اپنی مالیت اور معاوضہ نہ ہونے کی بنا پر رشوت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں بہت سے تجارتی ادارے اوقات سحروافطار طبع کر کے عام فائدے کے لیے تقسیم کرتے ہیں اور گو اس پر ان کے ادارے کا نام چھپا ہوتا ہے لیکن اصل مقصد عوام الناس کو ایک سہولت دینا ہے اور محض اس بنا پر کوئی ان کی دکان سے اشیا نہیں خریدتا۔
سوال کا دوسرا پہلو اجتماعی فوائد یا مصالح عامہ سے ہے‘ یعنی اگر ایک دواساز کمپنی ایک تعلیمی ادارے کو ایک بڑی رقم اس غرض سے دیتی ہے کہ کسی مہلک مرض کے علاج کے لیے تحقیق کروائی جائے اور اس غرض سے محققین کی ایک ٹیم کی تنخواہیں‘ یا لیبارٹری کا قیام‘ یا ایک سائنسی سیمی نار کے انعقاد کے ذریعے اس مرض کے علاج کے راستے دریافت کیے جائیں تو اس صورت میں یہ رقم نہ تو رشوت شمار ہوگی اور نہ اس کی بنا پر محققین شہادتِ زور کے مرتکب ہوں گے۔ ہاں اگر ان محققین کو اس غرض سے رکھا جائے کہ وہ کمپنی کی تیار کردہ کسی دوا کی تعریف و تحسین کریں اور نتائج میں یہ بات دکھائیں کہ یہ دوا دیگر ادویات کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے جب کہ حقیقتِ واقعہ یہ نہ ہو تو اس کا یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی اور رشوت اور شہادتِ زور کی تعریف میں آئے گا۔ یہاں معاملہ محض نیت کا نہیں ہے‘ بلکہ ہردوجانب سے شفاف طور پر تحقیق کی نوعیت اور مقاصد کا ہے۔
اگر ایک دواساز کمپنی اپنے منافع کا ۱۰ فی صد حصہ صرف اس کام کے لیے مخصوص کرتی ہے کہ وہ کسی خاص مرض یا کسی خاص دوا کی اثرانگیزی پر تحقیق کرائے گی اس سے قطع نظر کہ وہ دوا اس کی اپنی ساختہ ہو یا محض کیمیائی طور پر تیار کی گئی ہو تو اس رقم کا استعمال مصلحت عامہ کے اصول کی بنا پر جائز اور حلال ہوگا۔ لیکن اگر وہ مشروط طور پر یہ کام کرائے‘ یا اس کا اصل مقصد یہ ہو کہ اس کی دوا دوسروں کے مقابلے میں برتر ثابت کی جائے جب کہ دیگر ادویات بھی ویسی ہی اثرانگیزی رکھتی ہوں تو یہ ایک ناجائز اور غیراخلاقی کام ہوگا جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔
شریعت ایک عمل کے حرام یا حلال ہونے کے ساتھ اُس عمل کے طریقے کو بھی یکساں اہمیت دیتی ہے اور حصولِ مقصد کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جائیں‘ وہ بھی اخلاقی اور قانونی لحاظ سے معروف اور بھلائی پر مبنی ہونے چاہییں۔ کسی کام کے لیے اچھی نیت کے بعد اگر ذریعہ منکر اختیار کیا جائے توو ہ کام اچھا نہیں بن سکتا‘ اس لیے طبی اخلاقیات میں بھی ہمیں مقصد اور ذرائع دونوں کو اخلاق کا تابع بنانا ہوگا۔
مصلحت عامہ کے لیے کسی ادارے سے غیرمشروط طور پر امداد لے کر علمی اجتماعات کا منعقد کرنا‘ یا مریضوں کے لیے اُس رقم سے ادویات حاصل کر کے نادار افراد کی مدد کرنا‘ یا ان کی طبی سہولت کے لیے اس رقم سے ایمبولینس خریدنا وغیرہ مقصد اور ذریعہ دونوں کے پیش نظر حرام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگر کوئی ادارہ اس قسم کی کسی امداد کے بغیر خود اپنے وسائل سے کام کرسکتا ہے تو لازماً یہ افضل ہے لیکن اگر غیرمشروط طور پر کوئی دواساز کمپنی کسی اجتماعی رفاہی کام کے لیے کوئی رقم مخصوص کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کسی بدلے کی توقع نہیں کرتی تو اس میں اخلاقی طور پر کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔
بازار میں ایک ہی نسخے سے تیار کردہ مختلف ناموں سے پائی جانے والی ادویات میں بعض اوقات تو کسی ایک عنصر کے تناسب یا اضافے کی بنا پر‘ اگر وہ اضافہ کرنا طبی طور پر ضروری ہو‘ دوا کی قیمت میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے اور مصنوعی بھی۔ لیکن اگر اجزا ایک ہیںاور کمپنی کی شہرت کی بنا پر وہ اپنی شہرت کی قیمت وصول کر رہی ہے تو ایک مسلم طبیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے مریض کا مفاد دیکھے یعنی یہ کہ اس کی صحت اور جان کے تحفظ کے لیے کون سی دوا زیادہ بہتر ہے‘ چاہے اس کی قیمت دوسری دوا سے ۵۰فی صد کم ہی کیوں نہ ہو۔
بعض اطبا کا یہ خیال کہ اگر وہ مریض کو ایک مہنگی دوا دیںگے تو نفسیاتی طور پر وہ زیادہ مطمئن ہوگا‘ یہ ایک غیراخلاقی فعل ہے۔ دوا کے اجزا اگر یکساں ہوں تو لازمی طور پر ایک کم قیمت دوا کا لکھنا افضل ہے۔ شریعت کا معروف اصول حفظِ مال کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے مال کو ناجائز طور پر نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ایک طبیب یہ جانتے ہوئے کہ ایک اینٹی بائیوٹک کم قیمت ہے اور ایک محض کسی کمپنی کی شہرت کی بنا پر اس سے ۷۰ فی صد زیادہ مہنگی ہے‘ اگر مہنگی دوا تجویز کرتا ہے تو یہ مریض کے مال کو نقصان پہنچانا ہے اور مقاصدِ شریعت سے ٹکراتا ہے۔ ہاں یہ یقین کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ایک کم قیمت دوا کے اجزاے عنصری وہی ہوں جو مرض کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں۔
اگر تحقیق سے یہ بات معلوم ہو کہ ایک دوا اپنی اثرانگیزی میں دوسری کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہوگی لیکن قیمتاً مہنگی ہے‘ جب کہ دوسری قیمتاً کم ہے اور اثرانگیزی میں بھی کم ہے تو طبیب کو فقہی اجتہاد کرنا ہوگا کہ کیا مرض کی نوعیت سرعت کے ساتھ علاج کی متقاضی ہے‘ یا ایک ہلکا اثر کرنے والی دوا بجاے دو دن میں اثر دکھانے کے تین دن میں اثر دکھا دے گی اور اس سے مریض کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ اس کا اجتہاد محض اپنے طبی تجربے کی بنیاد پر ہوگا اور ایسا کرتے وقت وہ اللہ کو حاضر جان کر یہ طے کرے گا کہ کون سی دوا تجویز کرے۔ دراصل ہرطبی راے ایک ذمہ دار اور اجتہادی راے کا مقام رکھتی ہے اور ایک مسلم طبیب کو شریعت کے بنیادی اصولوں سے اتنا آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر اور علم کی بنیاد پر موقع ہی پر اس طرح کے اجتہادی فیصلے کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: میں ایک مخدوم (پیر) گھرانے میں بیاہی گئی جس کی عزت اور شرافت کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں۔ نیک نامی کا سہرا پشتوں سے سر پر سجا آرہا ہے مگر ان کے مردوں کے طور اطوار اپنی بیویوں کے لیے غیرمہذب اور ظالمانہ ہیں۔ گھر سے باہر اور گھر کے اندر‘ دوسروں کے لیے اور بیوی کے لیے علیحدہ علیحدہ چہرے ہیں۔ انتہائی گھنائونے کردار کے مالک یہ مرد کتنی عورتوں کی عصمتوں پہ ڈاکے ڈالتے ہیں مگر گھر کی عورتیں ایک معمول کا کام سمجھ کر خاموش رہتی ہیں‘ بلکہ خاموش رکھی جاتی ہیں۔ نسل در نسل یہ ظلم کا کھیل جاری ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی عام گھرانوں میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے جہاں جذباتی صدمے عورت کا مقدر ہیں۔ گھر کے کسی فرد سے کچھ دادرسی کی کوشش کرو تو ’مرد ایسے کرتے ہی ہیں‘ کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کیا مادی ضروریات پوری کرکے عورت کے حقوق پورے ہوجاتے ہیں؟ میں اسلامی معاشرے میں مرد کی ذمہ داریاں بحیثیت شوہر اور عورت کے حقوق کے بارے میں جانتی ہوں بلکہ سب جانتے ہیں مگر یہ حقوق و فرائض کیا صرف کتابوں تک محدود ہیں۔
کیا مرد کا یہ فلسفہ قابلِ قبول ہے کہ گھر کے باہر کا وقت اس کا اپنا ہوتا ہے‘ جو چاہے کرے‘ جہاں چاہے جائے؟ کیا یہ نکاح کے معاہدے کی خلاف ورزی اور خیانت نہیں؟ کیا رنگین مزاجی کسی مرد کی ایسی عادت ہے کہ وہ اس سے عمر کے کسی حصے میں بھی چھٹکارا نہ پاسکے؟ اس کو فطرت کا حصہ سمجھ کر خود کو معذور جانے کہ چھٹکارا مشکل ہے؟
اسلام خاندانی نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ مصائب دنیا کے بعد آخرت میں کامیابی ہوجائے تو بُرا سودا نہیں۔ اچھی امید پر میں نے ایک مدت گزاری ہے مگر اب میری ہمت جواب دے گئی ہے۔شادی کے ۳۰ سال بعد بھی ایک باوفا‘ نیک نیت بیوی کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ زبان اور ہاتھ کے رویے‘ جذباتی صدمے‘ کیا کچھ میں نے برداشت نہیں کیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ دوسروں کے استفسار پر پردہ پوشی کی۔ بچوں کے باپ ہونے اور شوہر ہونے کی لاج رکھی۔ ان کی وجہ سے بچوں کے رشتوں میں کتنی مشکل اٹھائی۔ ان کے رویے اور کردار سے معاشرے میں میری بھی رسوائی ہوئی۔ میں نے سب اچھی امید اور بڑھاپے میں تو سکون ہوگا‘ کی توقع کے ساتھ برداشت کیا۔ اب میں کہاں کھڑی ہوں؟ اللہ سے تو ان شاء اللہ اجر کی پوری امید ہے___ کیا اب خلع لوں؟
عورت کی داد رسی کے لیے قرآن و حدیث کے حوالے سے رہنمائی دیجیے۔
ج: ظلم بھری داستان پڑھ کر صدمہ ہوا۔ جس خاندان کو دین کے نام پر عزت ملی ہو‘ اس کی طرف سے دین کی حرمت پامال کی جائے‘ عصمت و عفت کی چادر کو تار تار کردیا جائے‘ اپنے گھروالوں کی عزتِ نفس اور حقوق پامال کیے جائیں‘ یہ تو دوہرا ظلم ہے۔
نکاح کا مقصد نسلِ انسانی کو پھیلانے میں اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے۔ نکاح کے ذریعے عصمت و عفت کا سامان ہوتا ہے اور خاندانی نظام وجود میں آتا ہے جو محبتوں کے حصار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ دادادادی‘ نانا نانی‘ بیٹا بیٹی‘ پوتا پوتی‘ نواسا نواسی‘ بہن بھائی‘ چچا تایا‘ ماموں‘ خالہ‘ پھوپھی وغیرہ خاندانی رشتے‘ سب محبت کے رشتے ہیں۔ ان رشتوں کے ذریعے انسان کو سکون اور راحت ملتی ہے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتا ہے۔ ان سب رشتوں کی اساس میاں بیوی کا رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا o(النساء ۴: ۱) اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
یہ خاندانی نظام اور رشتے اسی وقت قائم رہ سکتے ہیں‘ جب کہ نکاح مرد اور عورت دونوں کو پاک باز بنا دے۔ عفت و عصمت عورت ہی کے لیے نہیں‘ بلکہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے۔ مرد اگر رنگین مزاج ہو‘ آوارہ عورتوں کو کھلاتا پلاتا اور ان کے ذریعے شہوت کی تسکین کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوں گے‘ ان کی ماں تو ہوگی لیکن باپ نہ ہوگا۔
نکاح سے پہلے اگر کوئی بالغ مرد اور بالغ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کی سزا ۱۰۰ کوڑے ہیں‘ اور نکاح اور شادی کے بعد کوئی اس کا ارتکاب کرے تو اس کی سزاسنگساری ہے۔ جو مرد نکاح کے بعد رنگین مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اپنی بیوی کی عزت و حرمت اور جذبات کو بھی پامال کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں اس کے لیے کڑی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر اس کے خلاف زنا کے چار چشم دید گواہ موجود ہوں‘ یا وہ اس کا اقرار کرے تو اس کی سزا رجم ہے‘ اور اگر چار عینی گواہ یا اقرار نہ ہو لیکن ایک دو گواہ موجود ہوں‘ یا قرائن موجود ہوں‘ تو عدالت اسے تعزیری سزا دے گی اور کوڑے لگائے گی۔ اگر یہ قانون نافذ العمل ہو اور حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جو اس قانون کو نافذ کرنے والے ہوں تو پھر خواتین پر نام نہاد شرفا ظلم نہ کرسکیں۔
آپ جیسی مظلوم خواتین کو موجودہ قانون‘ قانون نافذ کرنے والے‘ حکومت اور عدالتیں تو انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ رہی سوسائٹی تو وہ بھی بقول آپ کے ظالم مردوں کے ظلم کے لیے تاویلیں تلاش کرتی ہے‘ لیکن وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ شرفا کو چاہیے کہ اپنے خاندان کے رنگین مزاجوں کو نصیحت اور تنبیہہ کے ذریعے راہِ راست پر لائیں‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں‘ انھیں آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر زناکار مردوں اور عورتوں کے ہولناک مناظر دیکھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ ایک تنور ہے جس میں مرد اور عورتیں ہیں۔ جب آگ کے شعلے اُوپر کو اُٹھتے ہیں تو یہ اوپر آجاتے ہیں‘ اور جب شعلے نیچے چلے جاتے ہیں تو یہ مرد و عورت بھی تنور میں نیچے چلے جاتے ہیں۔ جبرئیل ؑ سے آپؐ نے پوچھا کہ یہ مرد اور عورتیں کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا کہ زناکار مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری)
آخرت کے عذاب سے ڈرانا اور اصلاح کرنا فرض ہے۔ جس معاشرے میں یہ کام نہ ہو‘ لوگ آزادی سے گناہ کے مرتکب ہوں‘ مجرم اور خاموش معاشرہ دونوں پر عذاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مجرم کو قانون کی گرفت میں آنے اور معاشرے میں ذلیل و رسوا ہوجانے کا خدشہ ہو۔اسے احساس ہو کہ اگر قانون کی تلوار سے بچ گیا تو معاشرے ذلت و رسوائی سے نہیں بچ سکے گا۔ اس لیے ایک دو دفعہ جرم کا ارتکاب تو شاید کرے لیکن عادی مجرم بن کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
ہمارا موجودہ معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے۔ اس لیے یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پامال ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جہاں عورت بے حیائی اور خیانت کی مرتکب ہو تو مرد غیرت کھاتا ہے۔ اسی طرح بعینہٖ اگر مرد بے حیائی اور بدکاری کا مرتکب ہو تو عورت غیرت کھاتی ہے۔ آپ یا دوسری خواتین کا اپنے رنگین مزاج شوہروں پر غیرت کھانا بالکل جائز ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا احساس اور تکلیف بجا ہے۔ زندگی بھر تکلیف میں گزار دی‘ شوہر کو نہ قانون نے روکا‘ نہ معاشرے نے۔ دونوں نے اپنا فرض ادا نہ کیا۔ نفسانی خواہشات پوری کرنے کا شوق تو لوگوں کو بہت ہے لیکن جب کل بازپُرس ہوگی اور سزا سنائی جائے گی تو اس وقت ہوش اُڑ جائیں گے۔ لیکن اُس وقت پچھتانے اور واویلا کرنے کا کیا فائدہ؟
آپ کے سامنے کئی راستے ہیں: ایک یہ کہ جوانی میں تکلیف دہ زندگی بسر کرلی تو اب بڑھاپے میں اپنی عزت‘ اولاد کی حفاظت کی خاطر مزید صبر کریں۔ شاید اسی صبر کی بدولت آپ کے شوہر کو ہدایت نصیب ہوجائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کی طرف رجوع کرکے طلاق حاصل کرلیں اور پھر عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرلیں (اگرچہ ہمارے معاشرے میں نکاح جیسے جائز کام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اسے بے عزتی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر مناسب رشتہ ملے تو اسے بے عزتی سمجھنے کے بجاے عزت سمجھنا چاہیے۔ اولاد کو بھی اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجاے حمایت کرنا چاہیے۔ یہ شرم کی بات نہیں ہے)۔ تیسری صورت یہ ہے کہ پنچایت کے ذریعے شوہر کی اصلاح کریں‘ یا طلاق حاصل کرلیں۔
ان تینوں صورتوں میں سے کون سی صورت اختیار کرنا بہتر ہے؟ یہ آپ کے سوچنے کا کام ہے۔ جلدبازی نہ کیجیے۔ خوب سوچ سمجھ کر اور قریبی رشتہ داروں سے مشورہ کرکے کوئی ایک صورت اختیار کرلیں۔ ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہماری ناقص راے میں پہلی صورت بہتر ہے۔ اس میں آپ یہ اضافہ کرسکتی ہیں کہ معاشرے کے اچھے‘ بااثر لوگوں کے ذریعے شوہر پر دبائو ڈال کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کریں۔ واللّٰہ اعلم (مولانا عبدالمالک)
’رسائل و مسائل‘ کے زیر عنوان جو روایت مولانا مودودی مرحوم نے قائم کی‘ اسے ان کے تربیت یافتہ افراد نے اپنے مقدور بھر زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جسٹس ملک غلام علی مرحوم اور خرم مراد مرحوم کے قلم سے نکلے ہوئے جوابات اس سے قبل کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اب اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ادارہ معارف اسلامی لاہور نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کے تحریر کردہ جوابات جو ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران ترجمان القرآن میں طبع ہوئے ہیں‘ ایک جلد میں شائع کردیے ہیں۔ کتاب ۱۱ ابواب اور چار مقالات پر مبنی ہے۔ ابواب کے عنوانات یوں ہیں:
مولانا عبدالمالک کی فقہی آرا ان کی بصیرت کا روشن ثبوت ہیں۔ مولانا عموماً معروف حنفی مصادر کے حوالے سے اپنی راے کا اظہار فرماتے ہیں لیکن اعتدال و توازن کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی بنا پر بعض حساس موضوعات پر بھی ان کی راے کسی فریق کے جذبات کو مجروح نہیں کرتی۔ اس کی عمدہ مثال مشرک کے پیچھے نماز (ص ۸۶-۸۷)‘ بریلوی امام کے پیچھے نماز (ص ۶۱ تا ۸۲) جیسے موضوعات پر تحریر کردہ جوابات ہیں۔ باب ہفتم اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں جدید معاشی مسائل پر مدلل آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ ادارہ معارف اسلامی اس کتاب کو طبع کرنے پر مبارک باد کا مستحق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
اسلام پر پاکستان کی نظریاتی اساس کسی شک و شبہے سے بالا حقیقت ہے۔ تاہم‘ قیامِ پاکستان کے روز ہی سے‘پاکستان میں اسلام اور سیکولرزم کی بحث شروع ہوگئی تھی۔ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس بحث کا مسکت جواب ’قراردادمقاصد‘ کی منظوری کی صورت میں دیا‘ اور پاکستان کی نظریاتی سمت کو قرارداد مقاصد کے آئینی اور قانونی اعتبار سے متعین کردیا۔ بعدازاں ۱۹۵۶‘ ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں اسے محض دیباچے میں جگہ دی گئی ہے اور ریاست و حکومت اس سے بے نیاز رہے۔ البتہ ۱۹۷۲ء میں جسٹس حمودالرحمن نے ’عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء‘ میں اس دستاویز کی اہمیت اور دساتیر میں نظرانداز کرنے کے المیے کی جانب لطیف پیرایے میں توجہ دلائی۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو دستور کے مقدمے کے بجاے دستور کا مؤثر حصہ بنا دیا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ’سکینہ بی بی کیس ۱۹۹۲ء‘ میں فیصلہ دیاکہ دفعہ ۴۵ میں مندرج صدر پاکستان کے اختیارات‘ قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے ’حاکم خاں کیس ۱۹۹۲ء‘ میں اس کے برعکس فیصلہ دیا:
۱-قرارداد مقاصد کی حیثیت کو محدود کر کے ایک رسمی خواہش کے دائرے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ سردار شیرعالم ایڈووکیٹ [م: ۱۰ اپریل ۲۰۰۷ء] نے اس فیصلے کی شدت کو قلب و روح کی گہرائیوں میں محسوس کیا‘ اور اس کا فکری‘ دستوری اور اسلامی بنیادوں پر نہایت فاضلانہ تجزیہ تحریر کیا۔ جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا شدہ صورت حال کو زیرغور لانے کے لیے سنجیدہ بنیاد فراہم کی۔
زیرنظر کتاب کا مرکزی حصہ اسی مقالے کا رواں اُردو ترجمہ (ص ۱۲۵-۱۸۹) چودھری محمد یوسف نے کیا ہے‘ جب کہ اسی مناسبت سے چند تحریریں اور ۱۹۹۲ء کے مذکورہ دونوں فیصلوں کا بھی ترجمہ پیش کردیا گیا ہے۔(سلیم منصور خالد)
اگرچہ آثارِ قدیمہ کو محض عمارات تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ تاہم عرفِ عام میں مذکورہ ترکیب سے ’عمارات‘ ہی مراد لی جاتی ہیں اور زیرنظر کتاب میں بھی اسی حوالے سے مختلف النوع عمارات کے بارے میں تاریخی حقائق اور صورتِ واقعہ پر مبنی‘ مفید معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
فاضل مصنف آثارِقدیمہ کے مختلف اداروں اور شعبوں سے وابستہ رہے‘ باقاعدہ خطاط بھی ہیں۔ اس فن میں انھیں حافظ یوسف سدیدی مرحوم‘ سیدنفیس رقم اور صوفی خورشید رقم کا تلمذ حاصل ہے۔ ان دنوں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج‘ آرٹ اینڈ کلچر (حکومت پنجاب) میں بطور ڈپٹی ڈائرکٹر کام کر رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں آٹھ باغات (ہرن منار‘ شالامار‘ بارہ دری وزیرخاں ‘ چوبرجی وغیرہ) ۱۲مقبروں (نورجہاں‘ آصف خاں‘ انارکلی‘ مہابت خاں‘ علی مردان وغیرہ) دس قلعوں (اٹک‘ روات‘ شاہی قلعہ وغیرہ) اور آٹھ مساجد (وزیرخاں‘ چینیاں والی‘ حمام والی اور بادشاہی مسجد وغیرہ) کے بارے میں خاصی تحقیق اور تجسس کے بعد تاریخی معلومات‘ حوالوں اور اعدادوشمار کے ساتھ فراہم کی گئی ہیں۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔
’پنجاب کے فنِ تعمیر‘ کے تذکرے میں مصنف کا یہ تاثر درست معلوم نہیں ہوتا کہ پنجاب اپنا کوئی منفرد فن تعمیر رکھتا ہے‘ یا یہاں ’ایک خاص فن تعمیر کی بنیاد‘ رکھی گئی۔ دراصل پنجاب کی مساجد‘ مقبروں اور مختلف عمارتوں میں بے حد تنوع ہے اور یہ اس لیے ہے کہ یہ فن تعمیر اسلامی اور ہندی تہذیب و تمدن کی روایات اور افغانی اور وسط ایشیائی حملہ آوروں کے اثرات کے نتیجے میں تشکیل پذیر ہوا۔ اس اعتبار سے پنجاب کا فن تعمیر مختلف تعمیراتی فنون کا جامع ہے اور اسی لیے اس کے مختلف علاقوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکانات اورمقبروں حتیٰ کہ عام قبروں تک کی شکل و صورت بھی بدل جاتی ہے۔
کتاب خاصی محنت و کاوش سے لکھی گئی ہے۔ تعجب ہے کہ ۳۷ مآخذ کی فہرست (کتابیات) میں ان اُردو کتابوں کے نام نہیں دیے گئے جو ’حوالہ جات‘ کے تحت مذکور ہیں۔ کتاب میں فنی تدوین کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اتنی اچھی تحقیقی کتاب میں فنی تدوین کی کمی اور فنِ اِملا و رموزِ اوقاف سے بے توجہی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رشیدحسن خاں کا نام اُردو زبان کے ایک نمایاں محقق اور زبان‘ لغت اور املا کی اصلاح و ترقی کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اپنے موضوع پر ان کی زیرنظر تصنیف ایک اہم تحقیقی کاوش ہے‘ جو بھارت کے سرکاری اشاعتی ادارے سے دو بار شائع ہوئی اور اپنی افادیت کے باعث طلبہ‘ قارئین اور علما و محققین میں مقبول ہوچکی ہے۔
کتاب کا دیباچہ بجاے خود ایک تصنیف کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں محقق نے رسمِ خط اور املا‘ املا میں تغیر اور اصلاح‘ اصلاح اور صحت‘ خطاطی‘ رسمِ خط اور املا اور املا کی معیاربندی کے بعد املا کی ازسرنو تعریف متعین کی ہے۔ انھوں نے مرکبات کی درست املا اور مرکبات کو الگ الگ لفظوں میں لکھنے کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔
کتاب عملاً چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں املا کے مسائل کو الف بائی انداز میں منضبط کیا گیا ہے۔ الف (الف ممدودہ‘ الف اور ہاے مختفی‘ الف تنوین)، ت ۃ، ت ط، ذزژ، س ص ض، ک گ، ن و، ہ (ہاے ملفوظ، ہاے مختفی، ہاے مخلوط)‘ ہمزہ (ہمزہ اور الف، ہمزہ اور واو، ہمزہ اور ہاے مختفی، ہمزہ اور ی) وغیرہ پر مفصل بحث کر کے املا کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے حصے میں گنتیاں‘ لفظوں کو ملا کر لکھنا‘ نقطے‘ شوشے‘حرفوں کے جوڑ‘ نسخ و نستعلیق کی بعض خصوصیات اور اعراب‘ علامات اور رموزِ اوقاف کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ تیسرا حصہ املاے فارسی کی ذیل میں ہندستانی فارسی اور کلاسیکی ایرانی فارسی کے املا اور املاے فارسی جدید کے لیے مختص کیا گیا ہے‘ جب کہ چوتھے حصے میں تدوین اور املا، اور لغت اور املا جیسے اہم موضوعات کو چھیڑا گیاہے۔ آخر میں بعض اہم الفاظ کا اشاریہ دے دیا گیا ہے۔
محقق نے اپنی تصنیف میں ماضی میں املا کے مسائل کے بارے میں لکھی جانے والی مستند اور قابلِ قبول تحریروں کی مدد سے اصول و قواعد مرتب کیے ہیں اور انھی کی روشنی میں دیگر الفاظ کو قیاس کے دائرے میں لایا گیا ہے‘ تاہم اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ مسلمات کی خلاف ورزی ہو اور نہ خواہ مخواہ کی جدت طرازی۔
امید ہے کہ مجلس ترقی ادب‘ شہزاد احمد کی سرپرستی میں علم دوستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اسی معیار کی کتابیں شائع کرتی رہے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)
عصرِحاضر میں‘ اسلام کی تیزرفتار اشاعت اور کثرت سے غیرمسلم افراد کا مشرف بہ اسلام ہونا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ہر دور کی طرح اسلام آج بھی زندہ اور متحرک قوت ہے‘ اور انسانیت کا واحد نجات دہندہ بھی۔ یہ انسان کی مادی اور روحانی ضرورت کو بہ طریق احسن پورا کرتا ہے۔ یہ کائنات کا فطری دین ہے جو بنی آدم کو سکونِ قلب جیسی لازوال نعمت عطا کرتا ہے۔
کتاب کا ابتدائیہ متاثر کن اور اپنے موضوع پر کئی حوالوں سے معلومات افزا ہے۔ طرزِنگارش عمدہ ہے۔ یہ اسلام قبول کرنے والی خواتین کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی ۱۰۰ سے زائد نومسلم خواتین کے قبولِ اسلام کی سچی داستانیں اور ان کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ ایمان افروز‘ روح پرور اور وجدآفرین سوانح عمریاں جو سبق آموز ہونے کے ساتھ دل چسپ خودنوشت کا رنگ لیے ہوئے ہیں‘ بلاشبہہ ایسی قابلِ فخر مثالیں ہیں جنھیں عام کیا جانا چاہیے۔
ان خواتین کے زندہ و بیدار ایمان‘ ان کی طلبِ علم اسلام‘ ان کے اندر کام کرتا ہوا جذبۂ تعمیر اور جس استقامت و عزیمت سے انھوں نے راہِ حق میں پہنچنے والی ایذائوں کو برداشت کیا‘ کو دیکھ کر قاری اپنے ایمان میں تازگی‘ سرور اور مزید پختگی محسوس کرتاہے اور ایک جذبۂ ندامت بھی کہیں جاگتا ہے کہ ہم کیوں شعوری اور عملی مسلمان نہیں بن پارہے؟
امید ہے کہ مرتبین کی یہ کاوش دعوتِ اسلامی کے فروغ میں مفید ثابت ہوگی۔ مسلمانوں اور خصوصاً غیرمسلم اصحاب کو بطورِ تحفہ پیش کرنے کے لیے ایک بہتر چیز ہے۔ کیا خبر کون سی بات کس کے لیے ہدایت کا سبب بن جائے۔ (ربیعہ رحمٰن)
مولانا مودودی علیہ الرحمہ کو زندگی میں ایک جانب ملحدین‘ اباحیت پسندوں‘ کمیونسٹوں‘ قادیانیوں اور منکرین حدیث وغیرہ کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب متعدد علما نے بھی اس تنقیدی یلغار میں حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالا۔ مولانا مودودی مرحوم کے فاضل رفقا میں سے چند احباب نے بروقت اس تنقید کا جائزہ لیا اور علمی پہلوؤں سے بھی تجزیہ پیش کیا۔ زیرنظر کتاب درحقیقت انھی جوابی تحریروں کے چیدہ چیدہ اقتباسات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
جن موضوعات پر اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے‘ فی زمانہ ان حوالوں سے مولانا مودودی پر کم ہی تنقید کی جاتی ہے‘ البتہ ’نائن الیون‘ کے بعد کے حالات میں انھیں دوسرے موضوعات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے اور اس کام میں بھی مقدس اور غیر مقدس دونوں حلقے اپنا کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر: اسلام اور ریاست کا تعلق‘ عورتوں کے حقوق‘ اسلام: جہاد یا دہشت گردی‘ دعوت کی ذمہ داری‘ فریضۂ اقامتِ دین کی حقیقت وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا جائے۔ کتاب کی تدوین میں ضمنی سرخیوں کے اضافے‘ اشاریے کی تدوین اور تمام حوالہ جات کی صحت کے اہتمام سے کام کی اہمیت دوچند ہوجاتی۔ (س-م-خ)
ہر عہد کے اپنے تقاضے اور چیلنج ہوتے ہیں جن سے باخبر رہنا ایک استاد کے لیے ناگزیر ہے‘ اس لیے کہ معمارِ قوم کی حیثیت سے اسے ایک نسل کی تربیت کرنا ہوتی ہے جسے مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ زیرنظر کتاب‘ مصنفہ نے اسی مقصد کے پیش نظر تحریر کی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ نائن الیون کے سانحے کے بعد اُمت مسلمہ کو نئے مسائل کا سامنا تھا۔
تعلیم‘ نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے اصول و مبادی اور اصولی مباحث‘ نیز تعلیم کے نام پر کی جانے والی سازشوں کے علاوہ موجودہ تعلیمی منظرنامہ‘ سیکولرنظامِ تعلیم اور درپیش جدید چیلنج زیربحث آئے ہیں۔ معلم اعظمؐ کا اسوئہ حسنہ‘ مثالی نظامِ تعلیم‘ تعمیر معاشرہ میں استاد کا کردار اور جدید چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اصولی رہنمائی دی گئی ہے‘ جب کہ خواتین اساتذہ کے خصوصی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
دسمبر ۱۹۹۲ء میں ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کیا‘ مگر اس المیے کے دوران کم از کم کوئی مسلمان اس مسجد میں موجود نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۷ء کو لال مسجد اسلام آباد کو وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے منسلک جامعہ حفصہ کی طالبات کو زمینی اور فضائی فائرنگ کے نتیجے میں کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش سے جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جامعہ کے منتظمین کے بقول ایک ہزار سے زائد مسلمان طالبات بھی شہید ہوگئیں۔ صدافسوس کہ یہ حادثہ مملکت خداداد پاکستان میں ہوا۔
اس سانحے کے اسباب‘ کردار اور نتائج پر بحث ہوتی رہے گی‘ اور اس کرب کی ٹیسیں مدتوں تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ زیرنظر کتاب کے فاضل مؤلف نے غیر جذباتی انداز میں مسئلے کے کرداروں کو بے نقاب کرنے اور جامعہ پر حملے کے ’جواز‘ کا مؤثر استدلال سے جواب دینے کی قابلِ ستایش کوشش کی ہے۔ ایک رخ تو وہ تھا جسے حکومتی حلقوں نے اشتہاروں اور کالموں کی صورت میں شائع کیا اور شب و روز ریڈیو‘ ٹی وی سے الاپا۔ اس یک رخی ابلاغی جارحیت کا ایک جگہ پر جواب بڑی حد تک کتاب کے باب ’تصویر کا دوسرا رخ‘ (ص ۱۷-۴۹) میں پیش کیاگیا ہے۔
کتاب میں مرزا محمد اسلم بیگ‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ سمیحہ راحیل قاضی‘ ڈاکٹر شاہد مسعود‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مفتی محمد رفیع عثمانی‘ مولانا فضل الرحمن خلیل‘ مولانا عبدالعزیز‘ غازی عبدالرشید‘ چودھری شجاعت حسین اور جنرل پرویز مشرف کی تحریر و تقریر کے متعلقہ حصوں کو سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایک انفرادیت شہید ہونے والی جامعہ حفصہ کی نایاب تصاویر ہیں۔ (س-م-خ)
’ازواج مطہراتؓ کا اسلوب دعوت‘ (نومبر ۲۰۰۷ء) کے ذریعے اُمہات المومنینؓ کی سیرت کا ایک اہم پہلو نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ موجودہ دور میں اُن مستورات کو جو دعوتِ دین کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ازواجِ مطہراتؓ کی پیروی کرتے ہوئے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بلاخوف ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ موجودہ حالات میں اس کی شدید ضرورت ہے۔
’فوج، وزیرستان اور پروفیشنل ازم‘ (نومبر ۲۰۰۷ء) قابلِ غور ہے۔ اُمت مسلمہ کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کے تمام سیاسی اور انتظامی ادارے فوج کے تسلط میں ہیں۔ اُمت مسلمہ کے مسائل سے دل چسپی رکھنے والے حضرات بالخصوص اسلامی تحریکوں کو‘ فوج اور بیوروکریسی کے نظام کا گہرا مطالعہ اور ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے‘ اور پاکستانی معاشرے اور دیگر مسلم معاشروں کو پیش نظر رکھ کر اثرنفوذ کی راہیں تلاش کرنی چاہییں اور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔
’قصہ کشکول ٹوٹنے اور قرضوں کے انبار بڑھ جانے کا‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) میں آپ نے جس طرح اعداد وشمار کی روشنی میں پاکستان کی اقتصادی حالت اور ہماری ملکی معیشت پہ آئے دن بیرونی قرضوں کے اضافے کا تجزیہ پیش کیا‘ وہ قابلِ تحسین ہے۔امید ہے آیندہ کسی اشاعت میں ’بیرونی قرضوں کی ادایگی اور پرائیویٹائزیشن‘ کے موضوع پر بھی لکھیں گے کیونکہ پرائیویٹائزیشن کے حق میں حکمرانوں کا موقف تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے قرضوں کی ادایگی ہوگی۔ کیا واقعی ایسا ہوا؟
محترمہ شمع سلیم کا مضمون ’مومن کاوصیت نامہ‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) زیرمطالعہ رہا۔ انھوں نے اس مضمون میں بہت خوب صورتی‘ سلیقے سے اور مؤثر انداز میں وصیت کا ایک پیارا سا خاکہ کھینچا ہے۔ اللہ انھیں اجرعظیم سے نوازے۔ آمین! یہ مضمون واقعی اور حقیقی معنوں میں ان کاوصیت نامہ بھی بن گیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہوئیں۔انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
ستمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس کے ترجمے پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا تقی عثمانی کی مندرجہ ذیل عبارت قابلِ توجہ ہے: ’’ہمارے زمانے میں ایک کتاب تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ جسے آج کل عموماً تفسیر ابن عباسؓ کہا جاتا ہے اور اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ لیکن حضرت ابن عباسؓ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں‘ کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے اور اس سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب (جھوٹ کاسلسلہ) قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (علوم القرآن‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ ص ۴۵۸)
آج کل کچھ جدید موبائل آرہے ہیں جن میں میموری کارڈ (memory card) ہوتا ہے۔ میںاس کارڈ میں سمعی تفہیم القرآن کے رکوعات محفوظ کرلیتا ہوں اور سفر کے دوران‘ دفاتر میں‘ انتظار کرتے ہوئے یا دیگر اوقات میں سنتا رہتا ہوں۔ یقینا موبائل کی اِس جدت کا یہ سب سے بہتر استعمال ہے۔ اللہ تعالیٰ تفہیم القرآن کے مصنف‘ اور اُس کو ’سمعی‘ میں منتقل کرنے والی ٹیم کو جزاے خیر سے نوازے۔ ترجمان کی ٹیم کے لیے بھی بہت دعائیں۔ آمین!
اکثر اُردو مترجم قرآن سورئہ اخلاص کی پہلی آیت کے الفاظ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کا ترجمہ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘غلط کرجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بات صحیح ہے اس لیے انھیں خیال نہیں آتا۔ صحیح ترجمہ ہے: ’’وہ اللہ ہے اکیلا‘‘۔ انگریزی مترجم غلطی نہیں کرتے کیونکہ وہ ھُوَ کا ترجمہ جب He کرتے ہیں تو وہ خودبخود He is God, the one کرتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے ’’وہ اللہ ہے یکتا‘‘ لکھا ہے۔
ایک اور بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ عام مشہور کردیا گیا ہے کہ اللہ خدا کا اصلی نام ہے‘ جیسے ہم سب کے نام ہیں۔ اس لیے اس کا ترجمہ خدا‘ یا God نہیں کرنا چاہیے‘ یہ غلط ہے۔ عرب باقی بت پرست قوموں کی طرح بہت سے خدائوں کو مانتے تھے‘ ان کو اِلٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے اوپر ایک بڑے خدا کو مانتے تھے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے اور سب حاجتیں پوری کرسکتا ہے۔ اسے ال الٰہ یا اللہ کہتے تھے۔ یہ بامعنی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’جو ہر حاجت پوری کرسکے‘‘۔ اگر اللہ اس کا اصطلاحی نام ہوتا تو سب زمانوں میں پایا جاتا۔ مگر ہرزبان کا اپنا نام ہے اور ترجمے میں اس زبان کا لفظ لکھنا ضروری ہے‘ ورنہ وہ سمجھے گا کہ ’اللہ‘ مسلمانوں کا بڑا بت ہے۔
سب سے پہلے میں آپ سب حضرات کو خدا سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے اور اسی کی خوشنودی چاہنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ہماری اس دعوت کا سارا انحصار ہی تعلق باللہ اور توجہ الی اللہ پر ہے۔ کوئی شخص خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا‘ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود راہِ راست پر قائم بھی نہیں رہ سکتا‘ اگر خدا کا خوف اس کے دل میں نہ ہو اور تقویٰ کی گرفت اس کی خواہشات پر مضبوط نہ ہو‘ اور اس کی تمام سعی و جہد اور دوڑ دھوپ میں رضاے الٰہی کی طلب کارفرما نہ ہو۔ دنیا میں آدمی کی راست روی کی ضامن صرف ایک ہی چیز ہے‘ اور وہ ہے خدا کا خیال۔ یہ خیال اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی دل سے نکل جائے‘ اگر ذرا سی غفلت بھی طاری ہوجائے‘ تو انسان کا قدم سیدھی راہ سے ہٹنے لگتا ہے۔ پھر جسے محض راہِ راست پر چلنا ہی نہ ہو بلکہ دنیا کو اس پر چلانا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو اس کی طرف کھینچ کر لانا بھی ہو‘ اس کے لیے تو ناگزیر ہے کہ خدا سے اس کا تعلق ہروقت مضبوط اور خدا کی طرف اس کی توجہ ہر آن مرکوز رہے‘ ورنہ اُس سے غافل ہوکر وہ اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہوئے نہ معلوم کس کس قسم کے فسادوں کا مرتکب ہوجائے گا۔ لہٰذا میری پہلی نصیحت آپ کو اور ان سب لوگوں کو جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں‘ یہ ہے کہ اپنے ذہن میں اللہ کی ذات و صفات کا تصور ہر وقت تازہ رکھیں اور اپنے تمام کاموں میں اسی کی خوشنودی پر نظر جمائے رہیں۔ جن تحریکوں کے پیش نظر صرف دنیا اور اس کے معاملات ہی ہیں‘ وہ تو چل سکتی ہیں بغیر اس کے کہ خدا کا خیال کبھی دل میں آئے‘ مگر یہ تحریک ایک قدم بھی ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے خادم پورے شعور کے ساتھ خدا سے خشیت اور تقویٰ اور رضاطلبی کا تعلق نہ جوڑے رکھیں۔ (’جماعت اسلامی کی دعوت، ‘ابوالاعلیٰ مودودیؒ،ترجمان القرآن، جلد ۳۱، عدد ۵، ذی القعدہ ۱۳۶۷ھ، ستمبر ۱۹۴۸ء، ص ۱۳-۱۴)