اکتوبر۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں (دسمبرمیں) جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی‘ اس نے اپنا پہلا سال جوں توں کرکے مکمل کرلیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ظفراللہ جمالی کے نام نہاد اشتراک اقتدار پرمبنی حکومت کے پہلے سال کو جنرل صاحب کے تین سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کی ساری کوشش اور کاوش کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی‘ جمالی حکومت کی کمزوری اور علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث پارلیمنٹ اپنی بالادستی قائم نہ کر سکی۔ اس طرح پورا سال ایک ایسی کش مکش کی نذر ہوگیا جس کے نتیجے میں جمہوری سفر صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
اس صورت حال سے ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی جو تصویر قوم کے سامنے آتی ہے وہ اپنے اندر تشویش کے بے شمار پہلو رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ جو بھی مواقع قوم کو دے رہا ہے‘ اس کی قیادت ان کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں پوری مسلم دنیا پرشدید یورش کر رہی ہیں اور ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ دینی تشخص اور ملّی وقار سب اس کی زد میں ہیں‘ ہماری قیادت خطرناک حد تک عاقبت نااندیشی کی روش پر گامزن ہے بلکہ اس مہلک راستے پر چلنے پر مصر ہے۔
سالِ گذشتہ (۲۰۰۳ئ)کے آخری مہینے کے وسط میں (۱۷ دسمبر کے آس پاس) تین واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بظاہر آزاد اور مستقل بالذات (self-contained) ہونے کے باوجود ان واقعات میں واضح طور پر باہمی ربط و تعلق نظر آتا ہے۔
پہلا واقعہ ۱۸ دسمبر سے شروع ہونے والی مجلسِ عمل کی عوامی تحریک ہے جو اگرچہ ایل ایف او کے بارے میں حکومت کے مسلسل لیت ولعل اور سردمہری کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے لیکن دراصل اب وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اور جن کے بارے میں حکومتِ وقت تجاہل اور تغافل ہی کی مجرم نہیں بلکہ عملاً ان کو اور بھی گمبھیر کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے‘ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو بیدار اور منظم کرنے کا عنوان بن گئی ہے۔ تحریک کے شروع ہوجانے کے بعد حکومت نے ایل ایف او کی حد تک مجلسِ عمل سے طے شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل کی شکل میں لانے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی ہے (ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لاتے وقت تک کچھ پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں گوبعد از خرابیِ بسیار)۔ لیکن ایم ایم اے نے افہام و تفہیم اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کا حل نکالنے کے لیے ایک بار پھر دستِ تعاون بڑھایا ہے مگر اس واضح اعلان کے ساتھ کہ دستوری گتھی کو سلجھانے میں تعاون کو کسی صورت میں بھی اقتدار میں اشتراک یا جنرل پرویز مشرف پر کسی درجے میں بھی اعتماد کے اظہار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیادی وجہ جنرل صاحب کی خارجہ‘ داخلہ‘ ثقافتی اور نظریاتی پالیسیوں سے مجلس کا شدید اختلاف ہے ۔ ملک کی تعمیرِنو کے لیے مجلس اپنے ایجنڈے پر کسی سمجھوتے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔
مجلسِ عمل نے ایک طرف پوری بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کے حل کی ایک اور کوشش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے (اور ہماری دعا ہے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور ماضی کی کوششوں کی طرح درمیان میں تعطل کی نذر نہ ہو جائے) تو دوسری طرف پاکستان اور اُمت مسلمہ کو درپیش معاملات کے سلسلے میں اسے جنرل صاحب کی پالیسیوں سے جو اصولی اور جوہری اختلاف ہے‘ اس پر پوری استقامت دکھا کر تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعانوا علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو مگر گناہ اور زیادتی و بے انصافی کے باب میں ہرگز تعاون نہ کرو) کے قرآنی اصول کے مطابق اپنی پالیسی پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے۔
ہم اس امر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ ایل ایف او کا مسئلہ محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر پورے نظام کے جواز (legitimacy)کا انحصارہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کے جمہوری نظام کے ارتقا کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایل ایف او کے تحت انتخابات میں شرکت ایک ناگزیر برائی اور ایک وقتی ضرورت تھی کہ اس کے بغیر جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن ایک بار جب پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور سول حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا تو اولین اہمیت اس چیز کو حاصل تھی کہ دستوری اور جمہوری مسلمات کے سلسلے میں ایل ایف او کے بنیادی انحرافات‘ کی تصحیح کر دی جائے اور وہ یہ ہیں:
۱- دستوری ترمیم کا حق کسی ایک فرد کو حاصل نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود دستوری ترمیم کرے یا کسی کو کرنے کا اختیار دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام دستوری ترامیم منتخب پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں اور وہ ان میں سے جن کو مناسب سمجھے قبول کرے اور جن کو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف سمجھے انھیں رد کر دے۔
۲- جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول عوامی نمایندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں۔ دستور کے مطابق حکومت سازی کا فریضہ انجام دیں‘ قانون سازی اور پالیسی سازی کا منبع عوام کا منتخب ایوان ہو اور حکومت اور اس کے سارے کارپرداز (سول ہوں یا فوجی) اس کے سامنے جواب دہ ہوں اور اس کی طے کردہ پالیسی پر گامزن!
۳- دستور‘ پارلیمنٹ اور منتخب نمایندوں پر کسی فرد یا گروہ کو بالادستی حاصل نہ ہو اور جس طرح سول انتظامیہ اور باقی تمام ادارے دستور کے مطابق سول حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ اسی طرح فوج بھی سول حکومت کے ماتحت ہو۔
۴- ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کا جو نقشہ قوم کے مکمل اتفاق سے وضع کیا گیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پوری دیانت سے اس پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مقصد ایک جست میںحاصل نہ ہو تب بھی اقساط میں اور تدریج کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔
بنیادی طور پر یہی چار چیزیں ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایل ایف اوکے اوپر سارے مذاکرات ہوئے اور اس کی ۲۹ دفعات میں سے ۲۲ کو مصلحتاً قبول کر کے باقی سات میں ایسی ترامیم کرانے کی کوششیں کی گئیں جو دستور کو ان چاروں اصولوں سے کم سے کم حد تک ہم آہنگ کرسکیں۔ بلاشبہہ جو معاہدہ مجلسِ عمل اور حکومت کے درمیان ہوا ہے وہ معیاری نہیں‘ صرف گوارا حد تک قابلِ قبول ہے لیکن یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنایا جائے اور کم از کم حد تک جمہوری عمل کو شروع کردیا جائے تاکہ رخ تبدیل ہو‘ اور آیندہ زیادہ سیاسی قوت حاصل کر کے دستوری نظام اور سیاسی پالیسیوں کو مزید جمہوری بنایا جائے۔ گاڑی کو پٹڑی پر لانا پہلی ضرورت ہے۔ پھر اس کو اچھی رفتار سے چلانے اور منزل تک پہنچنے کے بہترین طریقوں پر گامزن کرنے کی سعی و جہد ہوسکتی ہے۔
یہی وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر مجلسِ عمل نے کم سے کم قابلِ قبول پیکج کو قبول کرنے اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف اور جمالی حکومت کی بیشترپالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور ہم ان کو اعتمادکا ووٹ کسی قیمت پر نہیں دے سکتے۔ ہم حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یہ حکمت کی شاہراہِ وسط ہے اور ہماری دعا ہے کہ حکومت اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اب کوئی اور چال نہ چلے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کا بل لاکر نئے سال کا آغاز ایک بہتر جمہوری فضا کو ہموار کرنے سے کرے۔ ہم علی وجہ البصیرت اس راستے کو اختیار کررہے ہیں اور ایک خاص لابی کی طرف سے ’’بی ٹیم‘‘ اور ’’ملا-ملٹری اتحاد‘‘ کی سطحی پھبتیوں سے آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹنے کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دو باتیں بہت صاف ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
اولاً :ہم نے یہ دستوری پیکج وقت کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق قبول کیا ہے اور اسے کم سے کم آخری حد(bottom line) کے طور پر اختیارکیا ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی کا پہلا قدم ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید عوامی تائید حاصل ہوگی اور دوسری سیاسی قوتوں کا تعاون ملے گا ہم مزید دستوری ترامیم کے ذریعے اپنے تصور کے مطابق اصلاحات کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے اور دستور کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی دفعات اور روح کے مطابق ایک حقیقی اسلامی پارلیمانی اور وفاقی دستور بنانے اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گے‘ نیز جہاں جہاں اور جس حد تک اس سے انحراف ہوا ہے اس کی تصحیح کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ حالات میں دستوری اصلاح کا عمل ایک ہی ہلّے میں مکمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری چیز یہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ میدانوں میں جو غلط پالیسیاں جنرل صاحب نے اختیار کی ہیں اور جن کی طوعاً وکرہاً جمالی حکومت تائید کر رہی ہے‘ ان پر گرفت کرنے اور انھیں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمانی اور عوامی جدوجہد ہم جاری رکھیں گے اور جہاں جتنی قوت ہمیں حاصل ہے اس کو ہر غلطی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم عوامی قوت کو اس طرح منظم و موثر بناناچاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت مضبوط تر ہو‘ ملک پر امریکی سامراجی اقتدار کی گرفت سے نجات حاصل کی جائے اور اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودانحصاری‘ دفاعی صلاحیت اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی مکمل حفاظت ہو‘ قومی کشمیرپالیسی اور ملت اسلامیہ سے ہماری وفاداری اور اس کے تمام مسائل کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ حق وانصاف کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے‘ بھارت سمیت‘ ہم دوستی کے قائل ہیں مگر یہ دوستی عزت اور حق وا نصاف کی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ قوموں اور گروہوں کے درمیان دوستی اور تعاون اسی وقت پایدار ہوسکتے ہیں‘ جب وہ ہر قسم کے جبر‘ دبائو اور ناانصافی سے پاک ہوں۔ مجلسِ عمل اور تمام دینی اور جمہوری قوتیں ان شاء اللہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ہماری جدوجہدکسی تصادم کے لیے نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے لیے عوام کو بیدار کرنے‘ ان کو منظم کرنے اور تمام دینی اور جمہوری قوتوں کو ملک و قوم کی آزادی اور اس کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رکھنے کے لیے ہے۔ یہ کام ہمیں حکمت اور استقامت کے ساتھ اور پورے تسلسل سے انجام دینا ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں بلکہ ایک مستقل ذمہ داری ہے جو جہدِمسلسل ہی سے پوری کی جا سکتی ہے۔
اس مہینے کا دوسرا اہم واقعہ راولپنڈی کے حساس علاقے میں لئی نالہ پُل کو پانچ بموں سے اڑانے سے متعلق ہے جس کا بظاہر ہدف جنرل پرویز مشرف کا قافلہ تھا۔ اس واقعے کی مذمت ہم نے بروقت کی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں نے اسے ایک مجرمانہ اور ناقابلِ معافی فعل قرار دیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست کے ہمیشہ سے مخالف ہیں اور اسے صحت مند معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہم آج نہیں کہہ رہے بلکہ تحریکِ اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ تبدیلی کا صحیح طریقہ دعوتی‘ جمہوری اور دستوری طریقہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں بڑے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے‘ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور سب کو اس کی دعوت دی ہے:
جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی‘ یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تعمیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔(دفعہ ۵)
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے‘ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے‘ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔ (’’دنیاے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘، تفہیمات‘ جلد سوم‘ ص ۳۶۲-۳۶۳)
مولانا مودودیؒ نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ ’’یاد رکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی ہی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے‘‘۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ غوروفکر قوم کے تمام عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو‘ اور ثانیاً افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ اُمت غم و اندوہ میں نڈھال تھی اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں‘ اس کا سر قلم کر دوں گا‘ لیکن دین حق اور مزاجِ نبوت کے شناسا حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین ‘یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خلفا کی سنت کی پیروی ہے ۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور استحکام اور تسلسل کی ضامن ۔
لہٰذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیانے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہو وہ بہت ہی بودا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان ناگزیر نہیں۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیراعظم! آپ فرانس کے اقبال کے لیے ناگزیر ہیں‘ تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظرانداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ رچایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے‘ میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے بالا ہوں۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کرڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ وہ زندہ ہیں۔ ایوب کا اپنا بنایا ہوا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں (مارچ ۱۹۶۹ئ) کو اقتدار سونپ دیا۔ ایوب ہوں یا یحییٰ‘ ذوالفقارعلی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب اس مغالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری‘ تباہی اور عدمِ استحکام کے مجرم ہیں۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ دستور‘ قانون اور اداروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔
دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ کسی سطح پر بھی سیاست میں قوت اور گولی کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے یہ چیز افراد اور گروہوں کے لیے غلط ہے اسی طرح یہ ان لوگوں کے لیے بھی غلط ہے جن کو قوم اور ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اور قوم کے تمام عناصر کو بشمول فوج اور پولیس اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر ایک اپنے اپنے دستوری دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ ’’قانونِ ضرورت‘‘ کے نام پر جس سیاسی دہشت گردی اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہماری عدالتوں نے کھول دیا ہے‘ اب اسے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے۔ سطحی انداز میں ایک دہشت گردی کی مذمت اور آئینی دہشت گردی کے دوسرے تمام اسالیب سے اغماض حالات کو سدھارنے کا راستہ نہیں۔ ہم پوری دیانت اور دردمندی سے دہشت گردی کے ہر راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس پر قوم کا اجماع ہو۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ خلوصِ دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان حدود کی پاسداری کا عہد کریں جو اداروں کے استحکام‘ دستوری نظام کی پرورش اور ترقی‘ قانون کی بالادستی اور حقوق کی مکمل پاسداری کی راہ ہموار کرسکے۔
اس افسوس ناک واقعے پر جنرل صاحب کے ممدوح ملک امریکہ کے ایک روزنامے واشنگٹن ٹائمز نے جو اداریہ لکھا ہے‘ اس کے کچھ حصے اس لائق ہیں کہ جنرل صاحب خود اور ان کے وہ ساتھی جو ہر روز جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے راگ الاپتے ہیں (اور درحقیقت وہ اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عامل ہیں) ذرا غور سے پڑھیں:
قاتلانہ حملے کے واقعات عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ جس نے بھی بم نصب کیے اس نے بڑے حیرت انگیز طور پر کیا ہوگا اس لیے کہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ پونڈ تک کے بم خفیہ طور پر اتارے اور نصب نہیں کیے جاسکتے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بم فوج کی دسویں کور کے ہیڈکوارٹر سے آدھے میل کے فاصلے پر اور ملک کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پُل پر نصب کیے گئے تھے۔ امکانات یہ ہوسکتے ہیں کہ مشرف کے اندرونی حلقے میں سے کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے‘ یا اس کو ڈرامائی انداز سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ غیر یقینی تفصیلات سے قطع نظر‘ قاتلانہ حملہ اس ضرورت کو واضح کرتاہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ صدر کے بغیر‘مستقبل کے لیے جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے کی تیاری کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کیا ہوتا اگر اس بم نے مشرف کو قتل کر دیا ہوتا؟ اس کے بارے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر اب اس پر سوچنا چاہیے۔ صدارتی قتل کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یوسف اقتدار سنبھالیں گے۔ دونوں سیاسی طور پرکمزور شخصیات ہیں اور ان کی قیادت عدمِ استحکام اور غیریقینی صورت حال ---ایک فوجی انقلاب تک لے جائے گی۔ (اداریہ واشنگٹن ٹائمز‘ مشرف پر حملہ‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
بہت سے غیرملکی سرمایہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اندیشہ ہے کہ اگر جنرل مشرف جانشینی کے کسی واضح نظام کے بغیر مر گئے تو پاکستان عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نظام اور اداروں کو ابھی قائم ہونا ہے۔ جب اصرار کیا گیا کہ جانشینی کا نظام کیسے چلے گا؟ تو جنرل مشرف نے غیریقینی کا اظہار کیا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی دوسرے جنرل کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال سے یہ نظام کی بات ہے۔ ارے! میں نے تو اس پر درحقیقت سوچا ہی نہیں‘‘۔ پوچھا گیا کہ اتوار کے واقعے میں بال بال بچ جانے کے بعد‘ اس ممکنہ واقعے کے بارے میں اب سوچنا چاہیے تو انھوں نے اتفاق کیا: ’’ہاں‘ یہ کرنا چاہیے‘‘۔(رائٹر‘ ڈان‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
ہم جنرل صاحب کے قافلے پر حملے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں اور اس رجحان کو قوم اور ملک کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم اُتنا ہی ضروری اس امر کا اظہاربھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اداروں کا استحکام‘ دستور کا احترام‘ قانون کی بالادستی اور انصاف پر مبنی امن اور احترامِ باہمی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے اور اس سے ملک اور قوم کو بچانا اس کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے۔ واشنگٹن ٹائمز اور خود رائٹر کے نمایندوں نے جو سوال اٹھائے ہیں اور جنرل صاحب نے جو جواب دیے ہیں‘ کیا یہی وہ مستحکم جمہوریت (sustainable democracy) ہے جس کے عطا کرنے کا دعویٰ جنرل صاحب نے کیا ہے؟
اس مہینے کا تیسرا اہم واقعہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کا افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک یوٹرن (U-turn) ہے۔ ۱۸دسمبر کو رائٹر کو دیے جانے والے انٹرویو ہی میں انھوں نے ۵۶سالہ قومی پالیسی کو دریابرد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو ایک طرف رکھ کر استصواب کے متبادل سرابوں کی بات کی ہے اور اسے ’’لچک‘‘ اور ’’میانہ روی‘‘سے تعبیرکیا ہے‘ اور اس خطرے کا بھی اظہار کر دیا ہے کہ اگر بھارت ان کی اس half-way پسپائی کا خیرمقدم نہیں کرتا تو پاکستان میں انتہا پسندوں کو اُبھرنے کا موقع مل جائے گا۔
ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حق میں ہیں لیکن اب ہم نے ان کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہرچیز‘ خود عسکریت پسندی میں کمی بنیادی طور پر مکالمے کے عمل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی مکالمہ واقع نہیں ہوتا‘ تو کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ یہ اعتدال پسند ہیں جو ہاریں گے اور انتہاپسند ہیں جو جیتیں گے اور ٹھیک یہی دراصل واقع ہو رہا ہے۔
جنرل صاحب نے اتنے کھل کر یہ بات پہلی بار کہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی گرفت میں جکڑے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لچک کی بات بار بار کی۔ پھر وہ چار نکاتی فارمولے کا راگ الاپتے رہے جس میں سیاست خارجہ کا ایک مضحکہ خیز اصول انھوں نے وضع کیا کہ ہر وہ حل ترک کر دیا جائے جو کسی بھی فریق کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ اس کا نتیجہ بندگلی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھوں نے جنگِ آزادی اور حق خوداختیاری کے لیے جدوجہد اور دہشت گردی کے فرق کو عملاً نظرانداز کرنا شروع کر دیا‘ حتیٰ کہ بھارت کی نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کے الفاظ تک کی بازگشت خود ان کے بیانوں میں سنائی دینے لگی۔ پھر اعتماد قائم کرنے والے اقدامات (CBMs)کے گن گائے جانے لگے۔
اس کے بعد وہ قلابازی لگائی گئی جو بھارت کی ۵۶سالہ سرحدی خلاف ورزیوں کا خود بھارت کے لیے ایک انعام تھی‘ یعنی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے سیزفائر اور اسے سیاچن تک پھیلا دینا! اس کے بعد ایک ہی اور بم ہو سکتا تھا اور وہ جنرل صاحب نے خود ہی ۱۸دسمبر کو ۱۹۷۱ء کے ۱۶دسمبر کا ماتم کرنے والی قوم پر داغ دیا۔ بھارت برابر اعلان کررہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرردادیں بے کار اور غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔ اس بارے میں جنرل صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتے ہیں ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے قوم سکتے کے عالم میں ہے۔ جمالی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی کشمیر کے مسئلے کا حل ہوسکتی ہیں۔ وزیرخارجہ معذرتیں کر رہیں کہ جنرل صاحب کا مفہوم یہ نہیں‘ وزیراطلاعات اپنے ردے چڑھانے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان سرکھجلا رہا ہے‘ مگر جنرل صاحب نے وہ اعلان کر ڈالا جس سے بھارت کی قیادت کی باچھیں کھل گئیں اور ان کے ایوانوں میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور امریکہ اُچھل پڑا کہ بالآخر پاکستان نے ریفرنڈم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔
بات بہت واضح ہے اور وزیرخارجہ‘ وزیراطلاعات اور دفترخارجہ کی یاوہ گوئیاں اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنا مقصد بظاہر حاصل کرلیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رچرڈ بوشر (Richard Boucher) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:
امریکہ صدر مشرف کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کو ترک کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔
اگر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے یا اس میں کوئی اصلاح اور ترمیم کی گئی ہے تو بھارت اس کا خیرمقدم کرے گا۔ سخت گیر موقف پاکستان نے اختیار کر رکھا تھا اور وہ مذاکرات میں کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر اصرار کرتا تھا ‘ جب کہ ہم نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کی حمایت ترک کر دے کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتے۔
میرا خیال ہے کہ استصواب یا ریفرنڈم ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔
لیکن اپنے ہی جرنیل صاحب نے جو کارگل کے ہیرو بھی سمجھے جاتے ہیں‘ استصواب رائے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اسے لچک‘ آدھا رستہ طے کرنا اور اعتدال کا رویہ قرار دیا ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے --- گویا اب ہر پسپائی بہادری اور جرأت مندی ہے۔ اصولوں سے ہر انحراف کا نام اعتدال اور ماڈریشن ہے‘ حق پر اصرار انتہاپسندی ہے اور آزادی اور خودمختاری کی بات تشدد اور دہشت گردی کے مترادف ہیع
جنرل صاحب کا یہ اعلان درحقیقت اس بگاڑ کا ایک مظہر ہے جو شخصِ واحد کی حکمرانی اور ایل ایف او کے نام پر انھیں مختارِ کل بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص پورے نظام کا کرتا دھرتا بن جائے اور ہر جواب دہی اور احتساب سے بالا ہو‘ نہ اسے کابینہ کی ضرورت کا احساس ہو‘ اور نہ اس کی رائے کا خیال ہو اور نہ پارلیمنٹ کی ہم نوائی اور تائید اس کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہو‘ اور نہ قوم کے احساسات‘ جذبات اور عزائم کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت ہو تو پھر قومیں ایسے ہی انحرافات اور حادثات سے دوچار ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے اس کے نتیجے میں کھو دیا۔ فلسطین کے معاملے میں یاسرعرفات نے یہی کیا۔ عراق میں صدام یہی کھیل کھیلتا رہا اور بالکل اسی طرح اب کرنل قذافی نے بھی ہر احتساب سے بالاہو کر اپنی دفاعی صلاحیت کو خود ہی دریابرد کر دیا ہے اور کوئی نہیں جو تباہی کے اِنھی ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کا نام بھی لے! آمریت اور فردِ واحد کی حکمرانی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ دراصل یہ اس نظام کا بگاڑ ہے جس میں قوم‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ سب غیرمتعلق ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارا سب سے پہلا اعتراض یہی ہے کہ جنرل صاحب کو اس اعلان کا حق اور اختیار کس نے دیا؟ انھوں نے دستور‘ قانون‘ روایات‘ قومی احساسات و عزائم‘ ہر چیزکی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی صدارت آج تک آئینی و اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ چیف آف اسٹاف بھی وہ محض خود اپنے دعوے اور خود اپنی مدت ملازمت کو توسیع دینے سے بنے ہوئے ہیں جس کا کوئی قانونی اور دستوری جواز نہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات‘ دستور کے تحت صدر وزیراعظم کی ہدایت (ایڈوائس) کا پابند ہے‘ بجز ان معاملات کے جہاں دستور نے اس کو اختیار (discretion) دیا ہو۔ لیکن جنرل صاحب خود کو کسی دستور‘ قانون اور ضابطے کے پابند نہیں اور یہ دستوری نظام سے ایسا انحراف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے قیامِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے جیسا کہ بے نظیربھٹو نے بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کے مماثل قرار دے کر کیا ہے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے کو پاکستان ہی نہیں‘ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف سرگرمِ جہاد ہیں اور بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور معاشی وجود ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ موجود ہے جو کشمیر کے مستقبل کو استصواب رائے سے وابستہ کرتی ہے۔ یہ ہمارا قومی موقف ہے اس میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا اور کشمیری عوام کا موقف جس قانونی‘ سیاسی اوراخلاقی بنیاد پراستوار ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈوگرہ مہاراجا نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں (جس کا کوئی ثبوت نہیں)۔ پھر ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے اس الحاق کی توثیق کر دی اور اس طرح وہ بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور بالآخر خود بھارت نے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی کو استصواب کے ذریعے معلوم کر کے کیا جائے گا۔
وقت کے گزرنے سے اس مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی کسی بھی پہلو پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یورپی استعمار کئی صدیوں تک درجنوں ممالک پر قابض رہے مگر اس سے ان کے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوا۔ میکائوکا چینی علاقہ ۵۰۰ سال استعمار کے قبضے میں رہا لیکن اس پر چین کا حق ثابت رہا اور بالآخروہ چین کو حاصل ہوگیا۔ ہانگ کانگ ۱۰۰سال برطانیہ کے قبضے میں رہا لیکن پھر چین کی طرف لوٹا۔ مرورزمانہ کا ان معاملات پر کبھی اثر نہیں پڑتا لیکن ظلم ہے کہ جس طرح برطانوی سامراج نے کشمیری عوام کو نظرانداز کرکے ڈوگروں کے ہاتھوں انھیں فروخت کر دیا تھا اسی طرح ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے دستبردار ہوکر خود اپنے اور کشمیری عوام کے قانونی موقف پر خاک ڈال رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہٹا دیا جائے تو پھر ڈوگرہ مہاراجا کی دستاویز الحاق کے سوا کیا چیز باقی رہ جاتی ہے؟
۱- جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کا مسئلہ متنازع اور غیرتصفیہ شدہ ہے اور اس امر کو ابھی طے ہونا ہے کہ ریاست کے مستقبل کی حیثیت (status) کیا ہوگی؟
۲- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزاد مرضی سے کریں گے۔
۳- یہ فیصلہ بین الاقوامی انتظام میں آزاد استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس میں بھارت یا پاکستان کسی کی مداخلت نہ ہو‘ اور وہاں کے عوام شفاف طریقے سے اپنا مستقبل طے کر لیں۔
یہ کوئی سرحدی تنازع نہیں اور نہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جن قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات جنرل صاحب نے کی ہے وہ کیا اصول طے کر رہی ہیں اور ان کو ایک طرف رکھنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
سب سے اہم مرکزی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ UNCIP کی یہ قرارداد اہم قانونی بنیاد ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدار استصواب کے جمہوری ذریعے سے طے کیا جائے گا۔
حکومتِ ہندستان اور حکومتِ پاکستان اپنی اس خواہش کا ازسرنو اعلان کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کی حیثیت کا تعین عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے اور اس مقصد کے لیے طے شدہ شرائط کے مطابق دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور معتدل حالات پیدا کیے جاسکیں جن میں آزادانہ اظہار یقینی ہو۔
The Security Council,
Having heard statements from representatives of the Governments of India and Pakistan concerning the dispute over the State of Jammu and Kashmir,
Reminding the Government and authorities concerned of the principle embodied in its resolutions of 21 April 1948 (S/726), 3 June 1948, March 1950 (S/1469) and 30 March 1951 (S/2017/Rev,1), and the United Nations Commission for India and Pakistan resolutions of 13 August 1948 (S/1100, Para 75) and 5 January 1949 (S/1196, Para 15),that the final disposition of the State of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations,
1. Reaffirms the affirmation in its resolution of 30 March 1951 and declares that the convening of a Constituent Assembly as recommended by the General Council of the "All Jammu and Kashimr National Conference" and any action that Assembly may have taken or might attempt to take to determine the future shape and affiliation of the entire State or any part thereof, or action by the Assemby, would not constitute a disposition of the State in accordance with the above principle;
2. Decides to continue its consideration of the dispute.
(Resolution Adopted by the Security Council, 24 January 1957 (S/3779).
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے کشمیر کے مسئلے پر ۱۸ قراردادیں منظور کی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
ہم یہ بات بھی بڑے دکھ سے کہنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح جنرل صاحب قِسم قِسم کے بیانات کی چاند ماری کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست خارجہ کے بنیادی اصولوں اور اسالیب تک سے ناواقف ہیں۔ ایسے اعلانات کر کے وہ خود اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی ما رہے ہیں۔
یہ بھی سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کوئی کھلاڑی اپنے بہترین پتے میز پر نہیں ڈالتا لیکن جنرل صاحب کا انداز ایک ماہر سفارت کار کا نہیں ایک اناڑی جواری کا سا ہے جس کے مقدر میں اپنی دولت لٹانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنے کا گر کسی کو سیکھنا ہو تو قائداعظم سے سیکھے جنھوں نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے۔ نہرو اور بھارتی صحافت ان پر پھبتی کستے تھے کہ جناح کے پاس کیا دھرا ہے وہ ایک ٹائپ رائٹر کے سہارے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن قائداعظم نے قوم کو ساتھ لے کر دو دشمنوں کا مقابلہ کیا یعنی انگریز حکمران اور کانگریس قیادت۔
۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے لے کر ۱۹۴۶ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے راہداری کے مطالبے تک وہ کانگریس کی قیادت سے جان دار سفارت کاری کے ذریعے اپنے مطالبات منواتے رہے‘ اور ہر کامیابی کے بعد نئے مطالبات پر بات چیت کے لیے اسے مجبور کرتے رہے‘ جب کہ ہماری قیادت کایہ حال ہے کہ نیوکلیر پاور ہوتے ہوئے بھی صرف رعایتیں دے رہے ہیں‘ بھارتی مطالبات مان رہے ہیں‘ مسلسل پسپائی اختیار کررہے ہیں اور پھر بھی ابھی تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھیک ہی مانگ رہے ہیں۔ سفارت کاری کا یہ اسلوب ذہنی شکست اور سیاسی اور مادی کمزوری کا مظہر ہے۔ جنرل صاحب نے یہ راستہ اختیار کرکے پوری قوم کا منہ کالا کیا ہے اور ہمارے قومی مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے۔ امریکہ کے آگے تو انھوں نے گھٹنے ٹیکے ہی تھے اور اب بھارت کے آگے بھی ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ کیا قوم نے اس ملک کی فوج کو اپنا پیٹ کاٹ کر اسی ذلّت کے لیے منظم اور مضبوط کیا تھا؟
ہم صاف کہنا چاہتے ہیں جنرل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ‘وہ ان کی ذاتی پسپائی تو ہو سکتی ہے پاکستان کی قوم کی پالیسی اور موقف نہیں ہو سکتا اور جموں و کشمیر کے غیور مسلمان بھی اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی‘ ایمان اور تہذیبی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک دن اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج ان کے عزم و ایمان اور جذبۂ جہاد کو مضمحل نہ کرسکی۔ موجودہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی بھی ان شاء اللہ ان کی ہمتوں کو پست نہیں کر سکتی اور ان کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر وہ جن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر پالیسی کا ایک بار پھر صاف الفاظ میں اعلان کرے اور جنرل صاحب کا احتساب کرے تاکہ وہ یا کوئی اور طالع آزما قوم کے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہہ سکے۔
کشمیر کا مسئلہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ امن وہی دیرپا ہو سکتا ہے جو انصاف پر قائم ہو۔ ظلم اور مجبوری کی خاموشی یا محکومی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اور حق بالآخر غالب ہوکر رہتا ہے۔ پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمان ان ۸۰ ہزار شہیدوں کے خون سے کبھی غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے جنھوں نے حق اور اصول کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔ سیاسی جدوجہد ہو یا فوجی مقابلے--- ان میں نشیب و فراز توآسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن جو قوم اپنی آزادی اور ایمان کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم کرلیتی ہے پھر اسے کوئی محکوم نہیں کر سکا۔ عزت اور آزادی وہ چیزیں ہیں جن کا سودا نہیں کیا جاتا اور حق وہ شے ہے جو اپنی ذات میں حق ہے۔ وہ اعتدال‘ سمجھوتے اور انتہاپسندی کی اصطلاحوں سے بالاتر شے ہے۔ نہ وہ کسی تراش خراش کا متحمل ہوتا ہے اور نہ اسے کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بیساکھیوں کا محتاج نہیں‘ بلکہ خود اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور بالآخر باطل پر غالب رہتا ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا۔
آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرکے کیا اور کہاں کہاں لچک دکھائے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اپنی آزادی‘ اپنا ایمان‘ اپنا دین‘ اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح سینہ سپر ہوجائے تاکہ باہرسے دبائو ڈالنے والوں اور اندر سے دبنے والوں دونوں کا مقابلہ کر کے اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ استقامت اور حکمت ہی ہمارا اصل زادِ راہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا اور اس سے مدد اور نصرت کی طلب!
جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟
ہندو ذہن اور سیاست برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ ہمارے تجربات ہزار سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی وہ نئی نسل جسے آزادی کے بعد کی فضا میں پلنے کا موقع ملا ہے بدقسمتی سے اس تاریخ اور تجربے سے نابلد ہے۔ پاکستان کا قیام کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں ہوا بلکہ ساری جدوجہد مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے تھی۔ بھارت کی قیادت ایک بار پھر تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے لیے نئے نقشۂ راہ (road map) پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرگرم ہے۔ واجپائی صاحب یا تو ملاقات سے گریزاں اور سارک کانفرنس میں آنے اور نہ آنے کے باب میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے‘ یا ایک دم ’’نرم سرحدوں‘ اور مشترک کرنسی‘‘ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی وہ ٹریک ٹو اقدامات ہیں جن کی تفصیل ایک سابق سفارت کار نیاز نائیک نے ۱۸دسمبر ۲۰۰۳ء کے ڈان میں بیان کی ہے اور جس کا ہدف ۲۰۱۰ء تک پاکستان کو بھارت کے مشترک کرنسی کے جال میں پھنسانا اور بھارت کی معاشی اور مالیاتی گرفت میں دے دینا ہے۔ اب تک اس منصوبے پرایک طرح سے خاموشی سے کام ہو رہا تھا مگر اب اسے کھل کر بیان کیا جارہا ہے اوراس سلسلے میں بائیسویں میٹنگ ۱۸-۲۲ جنوری ۲۰۰۴ء کو متوقع ہے۔ نائیک صاحب کے الفاظ میں اس نقشۂ راہ کو سمجھ لیجیے:
دونوں فریق جلد ہی تین بڑے مسائل پر گفتگو کریں گے: دفاعی بجٹ میں کمی‘ جوہری پابندی پر دستخط اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ۔ ان بڑے مسائل پر ابتدائی تفہیم کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف لے جائے گی۔ ہم نے ہندستان پاکستان کے لیے ایک نئی مشترک کرنسی جس کا نام ’’روپا‘‘ ہو‘ ۲۰۱۰ء تک رائج کرنے کی تجویز پیش کی ہے‘ اور اس حوالے سے ہمیں دونوں حکومتوں سے حوصلہ افزا ردعمل ملے ہیں۔ یہ آزادانہ منتقل ہونے والی کرنسی ہوگی جس کا ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن کی حمایت سے اجرا کیا جائے گا۔ ہماری غیر رسمی ملاقات کا مقصد اشیا کی آزادانہ نقل و حمل میں سہولت ہے تاکہ یورپی یونین کے طرز پر ایک معاشی یونین بن سکے۔ ہم علاقائی اتحادکے لیے کام کر رہے ہیں اور دونوں فریقوں کو اس معاملے میں اپنی متعلقہ حکومتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔
واجپائی صاحب کے بیان کا پس منظر نیاز نائیک کے تفصیلی نقشۂ کار سے سامنے آجاتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل اہداف کیا ہیں۔ یہ خطرناک کھیل مختلف سطحوں پر کھیلا جا رہا ہے اور اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق سیکڑوں افراد متحرک ہوگئے ہیں اور روزانہ کسی نہ کسی طائفے یا وفد کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اسے بیدار کیا جائے کہ اس کے اپنے ملک کی قیادت کس طرح ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودمختاری اور تہذیبی تشخص کو دائو پر لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ یورپ کی مثالیں بڑی خوش کن ہیں مگر کیا ہمارے تاریخی تجربات اور یورپ کے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات میں کوئی مناسبت ہے؟ اور کیا ہمارے علاقے کے زمینی حقائق جن میں بھارت کا حجم ‘ عزائم اور علاقائی ہی نہیں عالمی طاقت بننے اور بالادستی مسلط کرنے کے اہداف شامل ہیں‘ کسی ایسے وژن کے لیے کوئی جواز فراہم کرسکتے ہیں؟
علاقے کا کون سا ملک ہے جو بھارت سے زخم خوردہ نہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی دن سے خصوصی ہدف ہے لیکن کیا بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء کی ساری لفاظی کے علی الرغم آج بھارت کی چیرہ دستیوں پر چِلّا نہیں رہا؟ سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھارت کا کیا کردار رہا ہے؟مالدیو کو کس طرح قابومیں کیا گیا ہے؟ نیپال اور بھوٹان ہندو اور بدھ ریاستیں ہونے کے باوجود کس طرح بھارت کی سازشوں اور دست درازیوں کا شکار ہیں؟ خود سارک آج تک کیوں پنپ نہیں سکی؟ کیا یورپ میں معاشی یونین جرمنی اور فرانس کے تنازعات کو طے کرنے اور ان دونوں بڑے ملکوں کے مسلسل قربانیاں دینے کے بغیر وجود میں آگئی؟ کیا یورو‘ معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور یورپ کے ایک مرکزی بنک اور مارسٹرک ٹریٹی کے تحت بجٹ سازی کی پالیسی پر ۲۰ سال عمل کرنے سے پہلے وجود میں آگیا تھا‘ اور کیا آج بھی یونین کے سارے ممالک نے یورو کو اختیار کرلیا ہے؟ غرض سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ہر پہلوسے یہ تمام ترک تازیاں نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہیں بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر ضرب کاری ہیں اوربے وقت کی راگنی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ البتہ یہ سب ایک خطرناک کھیل کا ضرور پتا دیتی ہیں جس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا پاکستانی قوم کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے Social Policy and Development Centre نے ۲۰دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی ایک رپورٹ پاکستان کے تعلیمی حالات پر شائع کی ہے جس پر قومی سطح پر غور نہ کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہوگا۔ یہ رپورٹ کسی سیاسی ادارے کی طرف سے نہیں آئی اور اس کا مقصد کسی ایک حکومت کا احتساب نہیں بلکہ اصل میں پوری قوم کا احتساب ہے اور اب تک کی ساری ہی حکومتوں کی ناکامی پر قومی گرفت کی ضرورت کی دعوت ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۲ء میں پاکستان میں ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد ناخواندہ تھے جن کی تعداد اب ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ۵ سے ۹ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول میں داخلے کی صورت حال بھی اندوہناک ہے۔ ایسے ۵ کروڑ بچوں میں سے عملاً صرف ایک کروڑ ۳۰ لاکھ پرائمری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں بھی اسکول چھوڑنے والوں کی شرح جو ۹۶-۱۹۹۵ء میں ۴۰ فی صد تھی وہ ۱۹۹۹ئ-۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۵۴ فی صد ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے مقابلے کا تو کیا سوال اس وقت عالم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان ناخواندگی اور اسکول میں داخلوں کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال بھی ہم سے آگے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے ان ۱۲ ممالک میں شامل ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا ۲ فی صد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ ۵۰ سال کا اوسط ۸.۱ فی صد ہے۔
اس کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے نظام میں یکسانیت کی کمی ہے جس سے قوم طبقوں میں بٹ رہی ہے اور بالکل مختلف ذہنی رویے وجود میں آرہے ہیں۔ اس وقت نظامِ تعلیم‘ اپنے میں مگن تین منطقوںمیںتقسیم ہوگیا ہے۔ ایک طرف انگریزی میڈیم اسکول ہیں جو بالکل دوسرا ذہن پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُردو میڈیم اسکول ہیں جن کی تعلیمی حالت بھی دگرگوں ہے اور ان کا ذہنی اُفق بھی بالکل مختلف ہے۔ تیسرا طبقہ دینی تعلیمی اداروں کا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انگریزی میڈیم کے طلبہ کا دو تہائی بھارت سے دوستی‘ آزاد پریس‘ عورتوں کی مساوات‘جمہوریت اور کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف پرامن ذرائع کا قائل ہے‘ جب کہ ایک تہائی یا اس سے بھی کم جہاد کشمیر اور شریعت کے نفاذ کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میڈیم اور دینی مدارس کے طلبہ کی عظیم اکثریت شریعت کے نفاذ اور جہاد کشمیر کے حق میں ہے۔ رپورٹ کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
ہم ملک میں ایک سے زیادہ پاکستان تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ زندگی کے بارے میں متضاد نظریے رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک غیرمستحکم ہونے سے دوچار ہے۔ (ڈان ‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
یہ رپورٹ ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتی لیکن جس طبقے کی طرف سے یہ آئی ہے‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کی سیکولر لیڈرشپ بھی حالات پر پریشان ہے۔بنیادی مسائل دو ہی ہیں: ایک‘ تعلیم پر توجہ‘ وسائل اور مؤثر قومی جدوجہد کی کمی اور دوسرے‘ نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے تعلیم کا معاشرے اور قومی مقاصد سے متصادم ہونا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایک ہی مثبت بات کہی تھی کہ تعلیم کو ملک کی شناخت سے ہم آہنگ کرنا اور ملک میں ایک نصاب کی ترویج۔ لیکن عملاً ابھی تک اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیںہوسکی کیونکہ استعماریمفادات کی اسیراین جی اوز نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔
آج کمیت (quantity) اور کیفیت (quality) دونوں اعتبار سے تعلیم کی حالت زارو زبوں ہے۔ یہ قوموں کی ترقی نہیں تنزل اور تباہی کا راستہ ہے۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تعلیم کے مسئلے کو اولیت دینی چاہیے اور کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اصلاحِ احوال کی فوری فکر کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ تمام طلبہ تنظیموں اور اساتذہ کے تعاون سے جو کوشش کر رہی ہے وہ بہت لائقِ تحسین اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام تمام دینی اور سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے۔ اور ترجیحی بنیادوں پر کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسلوں کو تباہی سے بچا سکیں اور پاکستان عالمی برادری میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔
ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے حدوحساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن بلاشبہہ اُس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہم کو خالص توحید اور بے آمیز توحید کی تعلیم دی جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اورحقوق میں کسی دوسرے کی ادنیٰ سے ادنیٰ شرکت کے لیے بھی کوئی گنجایش نہیں ہے اور تمام حیثیتوں سے خدائی صرف ایک معبودِ برحق کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کی صحیح قدر آپ صرف اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب توحید اور شرک کے فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔
شِرک کا لازمی خاصّہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دُنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر‘ یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ ساری دنیا تو درکنار‘ زمین کے ایک خطّے میں بسنے والے مشرک بھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔ قبیلوں اور قبیلوں کے معبود الگ الگ رہے ہیں اور یہ جُدا جُدا بھی ہمیشہ معبود نہیں رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے ہیں۔ اس طرح شِرک کبھی کسی دَور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور وہ صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا۔ اُس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اُس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات اُبھار دیتے ہیں۔ پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کے محرک بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار انھی کی بدولت دُنیا میں خونریزیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور شّروفساد سے خدا کی زمین بھرجاتی ہے۔ آج تک جتنی لڑائیاں بھی انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوئی ہیں‘ آپ ان کے اسباب کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب کے پیچھے شرک کسی نہ کسی صورت میں کارفرما رہا ہے یا اُس کی پیدا کردہ خباثتوں میں سے کوئی خباثت اُن کی محرک ہوئی ہے۔
اس کے برعکس توحید اگر شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہو‘ تو اُس کا لازمی خاصّہ انسانیت کو بانٹنے اورانسانوں کو انسانوں سے پھاڑنے کے بجاے ان کو باہم جوڑنا اور ایک رب العالمین کی بندگی و اطاعت پر جمع اور متحد کرنا ہے۔ جتنے لوگ بھی مخلوقات کی خدائی کے ہر تصور سے اپنے ذہن کو پاک کر کے صرف ایک خدا کو معبودِ برحق مان لیں گے اور خداوندعالم کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کی شرکت کے باطل خیال کو اپنے دل و دماغ کے ہر گوشے سے نکال باہر کریں گے‘ وہ لازماً ایک اُمت بنیں گے۔ یقینا ان میں وحدت پیدا ہوگی۔ ضرور وہ ایک دوسرے کے رفیق اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں گے۔ تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک اللہ کی وحدانیت کے سوا کوئی دوسری چیز انسانوں کو جمع کرنے والی پائی گئی ہو۔ اگر انسان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف اُس ایک معبود پر جو حقیقتاً ساری کائنات کا معبود ہے۔ اُسی کوماننے پر اُن کے اندر اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اُسی کی بندگی پر اتفاق اُنھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا سکتا ہے۔ توحیدِالٰہ کا نتیجہ توحیدِ اُمت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے نہ غلط ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجودہے ‘ لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی اُمت میں وحدت موجود نہیں ہے‘ بلکہ اُلٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں‘ تو چشمِ بصیرت سے اُن کا جائزہ لے کر آپ بآسانی معلوم کرلیں گے کہ اُس اُمت میں شرک گھس آیا ہے اور اُس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔ یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کے ماننے والے دس متحارب گروہوں میں بٹ نہیں سکتے۔
اب دیکھیے کہ تمام انسانوں کو ہر زمانے اور ہر دور میں ایک اُمت کے اندر جمع کرنے کے لیے توحید کی بنیاد فراہم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وحدت کو دائم و قائم رکھنے کے لیے مزید کیا اہتمام فرمایا ہے۔
ہدایت کا واحد ماخذ: اس نے ایک رسول بھیج کر اور ایک کتاب نازل کر کے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے لیے ایک ایسی رہنمائی عطا فرما دی جس سے باہر جاکر انسان کو کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک اُمت میں جمع ہوجانے کے بعد انسان اگر متفرق ہوسکتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان کو کسی ایک ماخذ سے پورا نظامِ زندگی نہ ملے اور وہ مختلف حالات‘ مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں دوسرے ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورت میں تو بلاشبہہ انسان ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے لازماً ان کے اندر تفرقہ برپا ہوگا‘ لیکن جب ہرزمان و مکان کے لیے ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ذریعے سے ہدایت مل جائے تو وحدتِ معبود پر جمع ہونے والی اُمت کے لیے تفرقے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اِلا یہ کہ لوگ یا تو جہالت کی بنا پر اس کی ہدایت سے واقف ہی نہ ہوں یا پھر ذہن و فکر کی کجی کے باعث اصل ہدایت میں اپنی طرف سے کچھ گھٹائیں اور کچھ بڑھائیں‘ اور اس طرح کی کمی و بیشی کرنے والا ہرگروہ یہ دعویٰ کرے کہ اُس کا تیار کردہ دین ہی اصل دین ہے جس کی پیروی نہ کرنے والا گمراہ یا فاسق یا کافر ہے۔
صرف خدا کے سامنے جواب دہی: دوسری اہم چیز جو وحدتِ اُمت کے استحکام اور راہِ راست پر اس کے ثابت قدم رہنے کے لیے فراہم کی گئی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ انسان صرف ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہی ایک خدا دنیا میں بھی اُس کی قسمت بنانے اور بگاڑنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے اور وہی ایک خدا روزِ جزا کا بھی مالک ہے۔ اُس کے سوا نہ کوئی انسانوں کے اعمال کی بازپرس کرنے والا ہے نہ کسی کے ہاتھ میں سزا یا جزا دینے کے اختیارات ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ عقیدہ نہ صرف وحدتِ اُمت کا ضامن ہے بلکہ اِسی پر انسانی سیرت و کردار کے راست و درست رہنے کا انحصار ہے۔ اِس عقیدے کے اِن لازمی نتائج کو ضائع کر کے اگر کوئی چیز انسانوں کو پراگندہ اور بے راہ رو بنانے والی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگ دنیا میں خدا کے سوا دوسری مختلف ہستیوں کو حاجت روا قرار دینے لگیں‘ اور آخرت کے بارے میں یہ سمجھنے لگیں کہ وہاں خدا کے انصاف میں مداخلت کرنے کے اختیارات کچھ دوسری ہستیوں کو حاصل ہوں گے۔
پنج وقتہ نماز کا اہتمام: اس کے بعد دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی چیزیںہم پر لازم کی ہیں جو وحدتِ اُمت کو عملاً قائم اور دائماً سرگرم رکھنے والی ہیں۔ اُن میں اوّلین چیز نماز ہے جو روزانہ پانچ وقت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض کر دی گئی ہے۔ اُس کے لیے ایک قبلہ مقرر ہے جس کی طرف ہرنماز کے وقت مشرق اور مغرب‘ شمال اور جنوب اور اِن مختلف سمتوںکے درمیان رہنے والے سب مسلمانوں کو رُخ کرنا ہوتا ہے۔ اِس نقشے کو ذرا چشمِ تصور کے سامنے لاکر تو دیکھیے کہ خانۂ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے والے تمام لوگ ایک ہالہ بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور پھر یہی دائرہ پھیلتے پھیلتے تمام روے زمین پر محیط ہوجاتا ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت کا عمل ہے۔ اس سے بڑھ کر وحدت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے اور اسلام کے سوا یہ مظاہرہ آپ اور کہاں پاتے ہیں؟
اس پنج وقتہ نماز کو فرض کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازم کیا ہے اِلا یہ کہ کوئی مسلمان اپنی جگہ تنہا ہو اور اسے جماعت نہ مل رہی ہو۔ اللہ کی عبادت کا مقصد تو فرداً فرداً نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو سکتا تھا‘ مگر وحدت اُمت کا مقصد نماز باجماعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔اسی لیے لازم کیا گیا کہ جہاں دو مسلمان بھی موجود ہوں وہاں ایک امام اور دوسرا مقتدی بنے اور دونوں مل کر باجماعت نماز ادا کریں۔
نماز کے لیے لوگوں کو بُلانے کا طریقہ بھی اسلام میں ایسا بے نظیر مقرر کیا گیا ہے جو دنیا کے کسی مذہبی یا لامذہب گروہ کو اپنے کسی اجتماع کی دعوتِ عام دینے کے لیے میسرنہیں ہے۔ نماز کا بلاوا دینے کے لیے روے زمین پر ہر جگہ ہر روز پانچوں وقت ایک ہی زبان میں اذان کی آواز بلند کی جاتی ہے‘ قطع نظر اِس سے کہ بلانے والوں اور بلائے جانے والوں کی اپنی زبان خواہ کچھ بھی ہو۔ اِس مشترک زبان کی اذان دُنیا میں جہاں بھی بلند ہوگی اسے سننے والا ہر مسلمان جان لے گا کہ یہ نماز کا بلاوا ہے اور فلاں مقام سے بلند ہو رہا ہے جہاں مجھے اپنے برادرانِ ملت کے ساتھ جمع ہوکر خداے واحد کی عبادت بجا لانی ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ اذان صرف نماز کا بلاوا ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے عقیدے کا اعلان بھی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ اور میری فلاح اُسی ایک خدا کی عبادت سے وابستہ ہے جس کی طرف آنے کے لیے مجھے پکارا جا رہا ہے۔ کیا اِس سے بہترطریق دعوت کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے؟ یہ دعوت دُنیا میں ہر جگہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع بھی کرتی ہے اور ایک ہی عقیدے پر متفق بھی۔
پھر نماز کے اوقات‘ اُس کو ادا کرنے کے طریقے اور اس میں پڑھی جانے والی چیزیں تمام دنیا میں یکساں ہیں۔بعض جزوی چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی افریقہ کا مسلمان شمالی امریکہ میں یا جاپان کا مسلمان مراکو یا فرانس میں جاکر یہ محسوس کرے کہ یہاں نماز کے بجاے کوئی اور عبادت کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ نماز خداپرستی کے جذبے کو تازہ بھی کرتی ہے اور خدا پرستوں میں عالم گیر برادری کا احساس زندہ و متحرک بھی رکھتی ہے۔
روزوں کا اہتمام: ایسا ہی معاملہ روزوں کا بھی ہے۔ اگر صرف روزے کی عبادت ہی مقصود ہوتی تو ہر مسلمان کو بس یہ حکم دے دینا کافی تھا کہ وہ سال میں ۳۰ روزے جب چاہے رکھ لے۔ لیکن خداے واحد کی عبادت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمت ِ واحدہ بھی بنانا مقصود تھا‘ اس لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ ہرسال روزے رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ سب کا روزہ ایک ساتھ شروع اور ایک ہی ساتھ ختم ہو۔ روزے کے احکام بھی یکساں رکھے گئے تاکہ تمام مسلمان عمربھر ہر سال پورے ۳۰ (یا ۲۹) دن کے روزے ایک ہی طریقے سے ایک ہی طرح کی پابندیوں کے ساتھ رکھتے رہیں۔ اس سے لازماً دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور زندہ اور تازہ رہتا ہے کہ وہ ایک ہی شرع کی پابندی کرنے والی اُمت ہیں۔ اس پر مستزاد تراویح کی نماز ہے جو پنج وقتہ فرض نماز کے علاوہ ساری دنیا میں رمضان کی ہر رات کو باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اس میں بالعموم پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہ عبادت بھی ہے‘ خدا کے کلامِ پاک کی تبلیغ اور تذکیر بھی ہے اور وحدتِ اُمت کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے والی چیز بھی۔ قرآن کو ہر سال مہینہ بھر تک روزانہ سننے والے خواہ اُس کی زبان سے واقف ہوں یا نہ ہوں‘ اُس کو سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں‘ بہرصورت اُن سب میں یہ مشترک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور وہ کتاب اُن کے رب کی کتاب ہے۔
فریضۂ حج: اب ذرا حج کو دیکھیے جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے ایک عالم گیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اُس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو‘ یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اِس فریضے کو انجام دے اور یہ فریضہ صرف چند مقررہ تاریخوں ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے جو سال بھر میں صرف ایک بار آتی ہیں۔ اس طرح روے زمین پر جہاں بھی مسلمان آباد ہوں وہاں سے ایک ہی زمانے میں تمام ذی استطاعت مسلمانوں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونا پڑتا ہے۔
آپ غور کیجیے یہ وہ چیز ہے جو ہر سال دُنیا کے ہر گوشے سے عام انسانوں کو کھینچ کر ایک جگہ لاتی ہے۔ صرف سیاسی مدبرین کو نہیں لاتی‘ جیسے اقوامِ متحدہ میں جمع ہوتے ہیں۔ صرف قوموں کے لیڈروں کو نہیں لاتی‘جیسے بین الاقوامی کانفرنسوں میںآیا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک اور ہر قوم کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں کھینچ لاتی ہے اور اس غرض کے لیے لاتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ ایک ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں‘ ایک ساتھ مکہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ کی طرف کوچ کریں۔ ایک ساتھ قربانیاں کریں‘ ایک ساتھ رمی جمار کریں‘ ایک ساتھ عرفات میں وقوف اور منیٰ میں چند روز قیام کریں۔ ایک ہی زبان میں سب لبیک لبیک کی آوازیں بلند کریں۔ ایک ساتھ اُس قبلے کے گرد نمازیں ادا کریں جس کی طرف رُخ کر کے ہر روز پانچ مرتبہ وہ اپنی اپنی جگہ نماز پڑھتے رہے ہیں۔
اُن میں ہر نسل‘ ہر قوم‘ ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ ہر زبان بولنے والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں۔ اُن میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی۔ مگر وہاں یہ سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ حرم کے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی سب کے لباس اُتروا کر ایک ہی طرح کا فقیرانہ لباسِ احرام پہنوا دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ تمیز نہیں کرسکتا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اس کے اُونچے مقام سے اُتار کر عام انسانوں کی سطح پر لے آیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب و تمدن رکھنے والوں کو بھی تمدن کی بالکل نچلی سطح پر رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کے ہجوم میں طواف و سعی کرتے ہوئے ایک رئیس کو بھی اُسی طرح دھکّے کھانے پڑتے ہیں جس طرح کوئی عام آدمی دھکّے کھاتا ہے۔ خداوندعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خنّاس نکال دیا جاتا ہے‘ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے تعصبات ختم کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک اُمت ہونے کا احساس اِس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کا اثر کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ دُنیا کے کسی مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیرووں کو اس قدر عالم گیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کی تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اُس خدا کی حکمت کا کرشمہ ہے جس کی وحدت کو مان کر‘ جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے‘ جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک اُمت بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہے کہ اُس نے حج کی اِن برکات کو بھی صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں رکھا جو اِس عبادت کے مناسک ادا کرنے کے لیے مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں‘ بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع پیدا کر دیا کہ حج ہی کے زمانے میں وہ اپنی اپنی جگہ حاجیوں کے شریکِ حال بن سکیں۔ یہ عیدالاضحی کی نماز اور یہ قربانی جو ان تین دنوں کے اندر زمین کے ہر گوشے میں کی جاتی ہے اِسی غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جس روز (یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو) حج ادا کرنے کے لیے حاجی منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں‘ اُسی روز صبح سے وہ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند اللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ واللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبر وَللّٰہِ الْحَمدکا ورد شروع کر دیں اور ان تکبیرات کا سلسلہ مزید چار روز تک جاری رکھیں تاکہ منیٰ میں حاجیوں کے قیام کا پورا زمانہ دنیا میں اِن تکبیرات کو بلند کرتے ہوئے گزر جائے۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے وہی ۱۰ ذی الحجہ کی تاریخ رکھی گئی ہے جو حاجیوں کے لیے یَومُ النّحْر(قربانی کا دن) ہے۔ حکم ہے کہ اس نماز کے لیے جاتے وقت بھی اور واپس ہوتے وقت بھی یہی تکبیرات بلند کی جائیں۔ اسی دن ساری دنیا میں نمازِعید کے بعد وہی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں جو منیٰ میں حاجی کرتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ میں اُسی اُمت کا ایک فرد ہوں جس اُمت کے لاکھوں آدمی اس وقت حج کر رہے ہیں‘ اور حج کے پورے زمانے میں وہ تکبیرات کہتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے ‘گویاحاجیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی میں اگرچہ حج جیسا عظیم اور عالم گیر اجتماع نہیں ہوتا‘ مگر اپنے اپنے مقام پر مسلمان ہر جگہ بڑے سے بڑا اجتماع کرکے نمازادا کرتے ہیں اور مجموعی طور پر تمام روے زمین پر ایک ہی زمانے میں اس عید کا منایا جانا ایک دوسرے انداز میں اُمت کی عالم گیر وحدت کا مظاہرہ بن جاتا ہے۔
اختصار کے ساتھ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید‘ رسالت‘ کتاب اور آخرت کے عقائد سے وہ بنیاد فراہم کر دی جس پر قوم‘ وطن‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے تمام تعصبات ختم کرکے دنیا کے سارے انسان ایک عالم گیر اُمت بن سکتے ہیں۔ پھر عبادات کے ایسے طریقے مقرر فرما دیے جو اس اُمت میںمحض وحدت ہی نہیں‘ بلکہ پاکیزہ وحدت‘ اور سطحی و ناپایدار وحدت نہیں‘ بلکہ نہایت مضبوط عملی وحدت پیدا کرتے ہیں‘ اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آخری رسولؐ اور اپنی آخری کتاب کے ذریعے سے اُس نے وہ مکمل نظامِ زندگی عطا فرما دیا جو پوری انسانیت کے لیے ہر زمان و مکان میں ایسا جامع قانون ہے کہ اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی کسی جگہ اور کسی دور کے انسانوں کو ہدایت کی طلب میں کسی دوسرے ذریعۂ رہنمائی کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔
اب اس کے بعد اس سے بڑی بدقسمتی اور شرم ناک بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع و مکمل نظامِ حیات دیا‘ جس اُمت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اُس نے اِتنا بڑا انتظام کیا‘ اور جس اُمت کے سپرد اس نے یہ کام کیا کہ وہ دنیا میں اِس دین توحید کو پھیلائے تاکہ پوری انسانیت اِس پر جمع ہو جائے‘ وہ اپنے اصل کام کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اِس وحدت ہی کے ٹکڑے اُڑا دینے پر تل گئی ہے۔ وہ مامور تواِس خدمت پر تھی کہ دُنیا سے اُن اسباب کو ختم کر دے جس کی وجہ سے انسان انسان کو ہیچ سمجھتا ہے‘ اچھوت سمجھتا ہے‘ قابلِ نفرت سمجھتا ہے‘ حقیر و ذلیل سمجھتا ہے‘ اور خدا کی زمین کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے جہنم بنا دیتا ہے۔ اُس کا مشن تو یہ تھا کہ دُنیا کو ایک خدا کی بندگی‘ ایک قانونِ برحق کی پیروی‘ اور ایک عالم گیر برادری میں جمع کرکے ظلم کی جگہ عدل‘ جنگ کی جگہ امن‘ نفرت و عداوت کی جگہ خیراندیشی اور محبت قائم کرے اور نوعِ انسانی کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائے جس طرح اس کے ہادی و رہنما محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے‘ لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی قوتیں آپس کے تفرقے برپا کرنے پر صرف کر رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے دل چسپ مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اس کے افراد اور گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور مخالفت کو بڑھا کر نفرت و عداوت کی حد تک لے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ رائے اور علم و تحقیق کا اختلاف تو رحمت بن سکتا ہے اور سلف صالحین میں وہ رحمت ثابت بھی ہوا ہے‘ لیکن اب اس اُمت میں اختلاف کے معنی مخالفت کے ہوگئے ہیں اور کسی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوجانے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ آدمی پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جائے‘ یہاں تک کہ اُس کی تحقیروتذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اور جو کہیں اختلاف مذہبی نوعیت کا ہوجائے تو پھر اسے جہنم کے دروازے تک پہنچائے بغیر دم لینا حرام ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جن کے لیے وحدت کا اِتنا بڑا سامان کیا تھا اُن کے لیے اب تفرقے کے سارے دروازے کھل گئے ہیں اور وحدت کے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسجدیں الگ ہوگئی ہیں۔ ایک مسجد میں دوسرے مسلک کا آدمی نماز پڑھ لے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو۔ ایک گروہ کا آدمی دوسرے گروہ کے آدمی سے مصافحہ تک کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ گندا نہ ہو جائے۔ اناللّٰہِ وانا الیہ راجعون!
یہ سب کچھ اُسی چیز کا نتیجہ ہے جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں کہ مختلف لوگوں نے توحید اور دین و شرع میں نئی نئی چیزوں کی آمیزش کی ہے‘ اصل دین کے عقائد و احکام میں کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا ہے۔ جو چیزیں اہم نہ تھیں اُنھیں اہم ترین بنایا ہے اور جو اہم تھیں انھیں غیراہم بنا دیا ہے اور پھر انھی آمیزشوںاور اِسی کمی وبیشی کو مدارِ ایمان قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف گروہ آپس ہی میں برسرِپیکار ہوگئے ہیں۔ اس حالت میں ہدایت سے بیگانہ انسانوں کو حق کی دعوت دے کر‘ اِس عالم گیر برادری میں شامل کرنا تو الگ رہا جو اس برادری میں پہلے سے شامل ہیں خود انھیں بھی اس سے خارج کرنے کا کام کارِثواب سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں غیرمسلموں کے لیے ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مستشرقین کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ یہ اُمت سرے سے کوئی اُمت ہی نہیں ہے۔ اِس وقت اشاعت ِ اسلام کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری یہی حالت ہے۔ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں راہِ راست دکھائے۔ آمین! (عیدالاضحی کے موقع پر تقریر‘ ۲ دسمبر ۱۹۷۶ئ‘ منصورہ‘ لاہور)
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ o (البلد ۹۰:۴-۵)
اسلام دین فطرت ہے۔ وہ انسان کے جسمانی اور رُوحانی دونوں فطری تقاضوں کی تکمیل پر یکساں توجہ مبذول کرتا ہے۔ نہ وہ انسان کو مادی لذتوں میں کھو جانے کی اجازت دیتا ہے اور نہ اُن سے کلیتاً قطع تعلق کر کے صرف رُوحانی لطافتوں میں محو ہوجانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس سورہ میں اُن اعضا اور جوارح کا ذکر کرنے کے بعد جو انسان کو اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے مرحمت فرمائے گئے ہیں‘ اُسے تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تجھے عقاب کی قوتِ پرواز دی گئی ہے‘ اس سے کام لیتے ہوئے تمھارا فرض ہے کہ اخلاقِ حسنہ کی بلندیوں کو سر کرنے کے لیے پرکُشار ہو۔ اس مقصد کے لیے جو اعمالِ حسنہ ناگزیر ہیں اُن کا ذکر بھی کر دیا: غلاموں کو آزاد کرنا‘ قحط سالی کے دنوں میں فاقہ زدہ لوگوں کی خوراک کا اہتمام کرنا‘ یتیموں اور مسکینوں پر شفقت کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایمان کے چراغ کو روشن رکھنا ‘ خود صبر کرنا اور دوسروں کو صبر اور ہمدردی کی تلقین کرنا۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی منزل پا لیتا ہے لیکن جو غریبوں کی مادی ضروریات کو استطاعت کے باوجود پورا کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتا‘ وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ (ضیاء القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۶۳)
کَبَدْ کے لفظی معنی محنت و مشقت کے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمرسے آخر تک محنتوں اور مشقتوںمیں رہتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ابتداے حمل سے رحمِ مادر میں محبوس رہا۔ پھر ولادت کے وقت کی محنت و مشقت برداشت کی‘ پھر ماں کا دودھ پینے‘ پھر اُس کے چھوٹنے کی محنت‘ پھر اپنے معاش اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی مشقت‘ پھر بڑھاپے کی تکلیفیں ‘پھر موت‘ پھر قبر‘ پھر حشر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال کی جواب دہی‘ پھر جزا و سزا۔ یہ سب دَور اُس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں‘ اور یہ محنت و مشقت اگرچہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں‘ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لیے بالخصوص اس لیے فرمایا کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور وا دراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدرِ شعور زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے‘ آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہوکر عمربھر کے اعمال کا حساب دینا ہے‘ وہ دوسرے جانوروں میں نہیں…
بعض علما نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے باوجودیکہ وہ جسم اور جثّہ میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف و کمزور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اسی لیے اُس کی تخصیص کی گئی۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۷۵۰)
انسان کے مشقت میںپیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بانسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے‘ بلکہ اُس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اِس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ شہر مکہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا۔ اس شہر مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر اُن کے لیے نہیں ہے۔
ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اِس بات پر گواہ ہے کہ اُس کو قدم قدم پر تکلیف‘ مشقت‘ محنت‘ خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابلِ رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اِس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مر جائے یا اس کا اسقاط ہو جائے۔ زچگی کے وقت اُس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ پیدا ہوا تو اِتنا بے بس تھا کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سسک سسک کر مرجاتا۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گرا پڑتا تھا۔ بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیر بھی اگر غلط سمت میں ہوجاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹربھی ہے تو کسی وقت اِس اندیشے سے اُس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف کوئی سازش نہ ہوجائے۔ وہ اگر فاتح عالم بھی ہے تو کسی وقت اِس خطرے سے امن میں نہیں ہے کہ اس کے اپنے سپہ سالاروں میں سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے۔ غرض کوئی شخص بھی بے غَل و غَش چَین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے‘ کیونکہ انسان پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ج۶‘ ص ۳۳۹)
]اس جدوجہد اور مشقت کی نوعیت کیا ہے؟[ ایک شخص اس لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے کہ اُسے زندہ رہنے کے لیے ایک لقمہ اور پہننے کے لیے کپڑے کا ایک ٹکڑا میسر ہو۔ دوسرا شخص اِس لیے جدوجہد کرتا ہے کہ ایک ہزار کے دو ہزار اور ۱۰ ہزار بنائے! ایک اور شخص اقتدار و فرماں روائی یاجاہ و منصب کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جس کی ساری جدوجہد راہِ خدا میں ہوتی ہے۔ ایک اور شخص ہے جو اپنی خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لیے مشقتیں جھیلتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جو اپنے عقیدے اور اپنی دعوت کے لیے زحمت و مشقت برداشت کرتا ہے۔ ایک شخص دوزخ کی طرف چلتے ہوئے مشقتیں جھیلتا ہے۔ دوسرا جنت کی راہ میں سعی و جہد کرتا ہے۔ ہر کوئی اپنا بوجھ اٹھاتا اور محنت و مشقت کے ساتھ اپنا راستہ طے کرتا ہوا اپنے رب سے جا ملتا ہے۔ وہاں بدبختوں اور نافرمانوں کے لیے شدید ترین مصائب ہیں اور نیک بختوں اور فرماں برداروں کے لیے عظیم ترین راحت!
زحمت و مشقت دنیوی زندگی کی طبیعت و فطرت ہے۔ البتہ اس کی شکلیں اور اس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن انجامِ کار ہے زحمت و مشقت ہی۔ سب سے زیادہ خسارے میں وہ شخص ہے جو حیاتِ دنیا میں زحمتیں اور مشقتیں جھیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں آخرت میں ان سے زیادہ تلخ اور شدید مصائب و شدائد سے دوچار ہوتا ہے‘ اور کامیاب ترین انسان وہ ہے جو اپنے رب کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے تاکہ جب اس کے پاس پہنچے تو وہ زندگی کی مشقتوں سے محفوظ ہو جائے اور اللہ کے سائے میں عظیم ترین راحت سے ہم کنار ہو۔
آخرت کی اِس جزا کے علاوہ مختلف قسم کی کوششوں اور مشقتوں پر دنیا میں بھی کچھ جزا مترتب ہوتی ہے۔ جو شخص کسی عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے اُس کی طرح وہ شخص نہیں ہو سکتا جو کسی پست اور حقیر مقصد کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ دل کی طمانیت اور جان و مال کی قربانی پر راحت و سکون محسوس کرنے میں دونوں شخص برابر نہیں ہوسکتے۔ جو شخص زمین کے بندھنوں سے آزاد ہو کر جدوجہد کرتا ہے یا اِس لیے جدوجہد کرتا ہے کہ زمینی بندھنوں سے آزاد ہو‘ اُس کی طرح وہ شخص کبھی نہیں ہو سکتا جو حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین سے چمٹتا اور زمین کی دلدل میں دھنسنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ جو شخص دعوت کی راہ میں جان دیتا ہے اُس کی مانند وہ شخص نہیں ہو سکتا جو اپنی نفسانی خواہشات کے لیے جان دیتا ہے۔ دونوں اپنی جدوجہد کے شعور اور اِن مشقتوں کے سلسلے میں جو وہ برداشت کرتے ہیں‘ یکساں نہیں ہوسکتے۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سید حامد علی‘ ۳۰ واں پارہ‘ ص ۲۵۴-۲۵۵)
لفظ اِنْسَانٗاگرچہ عام ہے اور اس کے عام ہونے کے کئی فائدے ہیں لیکن یہاں اس عام سے مراد خاص طور پر قرآن کے اولین مخاطب بنی اسماعیل بالخصوص قریش ہیں۔ سرزمین حرم میں ان کے بزرگ اجداد کی آمد اور سکونت اور ان کی ذریت کی ابتدائی تاریخ کا حوالہ دے کر قریش کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ آج اس سرزمین میں تم کو جو فراخی ٔ رزق و رفاہیت حاصل ہے یہ نہ سمجھو کہ یہی حال ہمیشہ سے رہا ہے یا یہ حالت تمھاری ذہانت و قابلیت کی بدولت ہوئی ہے۔ جس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بسایا ہے‘ اس وقت یہ علاقہ ایک بالکل بنجر‘ بے آب و گیاہ اور غیرمامون علاقہ تھا۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی خانہ بدوشانہ اور نہایت مشقت کی زندگی تھی۔ معاش کا انحصار گلہ بانی پر تھا اور ہر شخص اپنی زندگی اور اپنے گلے کی حفاظت کا ذمہ دار خود تھا۔ لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئی نظامِ عدل اور قانون موجود نہیں تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں بسایا تو ان کے اور ان کی اولاد کے لیے یہ دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس وادی غیرذی زرع میں ان کو رزق و فضل سے بھی بہرہ مند فرمائے اور امن سے بھی متمتع رکھے۔ یہ اسی دعا کی برکت ہے کہ رزق کے دروازے بھی کھلے اور بیت اللہ کی تولیت اور اشہرِحرم کی امن بخشی کی بدولت سفر اور تجارت کی راہیں بھی فراخ ہوئیں جس سے ان کی معاشی حالت مشقت کی جگہ رفاہیت و خوش حالی میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں تک کہ آج تم اس کے غرور میں نہ خدا کو خاطر میں لا رہے ہو نہ اس کے رسول کو بلکہ یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ جو کچھ تمھیں حاصل ہے یہ تمھارا پیدایشی حق ہے‘ تم اس میں ہرقسم کے تصرف کے مجاز ہو‘ کسی کی طاقت نہیں ہے کہ تمھارے اس عیش اور اس آزادی میں خلل انداز ہوسکے۔
قریش کی اس غلط فہمی کو دُورکرنے کے لیے قرآن نے جگہ جگہ حرم کی اس تاریخ کی یاددہانی کرکے ان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت پاکر طغیان میں مبتلا ہوگئے تو یاد رکھیں کہ وہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماریں گے…
مقصود اس تفصیل سے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ آج قریش کو جو مال و جاہ اور جو سطوت و اقتدار بھی حاصل ہے ‘اس میں نہ ان کی ذاتی سعی و تدبیر کو کوئی دخل ہے اور نہ ان کے خاندانی استحقاق کو بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور بیت اللہ کی برکت ہے جس سے وہ بہرہ مند ہو رہے ہیں‘ اور یہ برکت ان کے لیے غیرمشروط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی‘ بیت اللہ کے مقصد کی تکمیل اور ان کے اندر مبعوث ہونے والے رسول پر ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر وہ ان شرطوں کے پابند رہیں گے تو ان کو یہ عزت و سرفرازی حاصل رہے گی ورنہ یہ سب چھن جائے گی۔ ]اُمت مسلمہ اُمت وسط ہے‘ اس کی سربلندی کے لیے بھی یہی مطالبہ ہے[۔ (تدبر قرآن‘ ج۸‘ ص ۳۷۰-۳۷۲)
(اس مشقت کا مقتضا یہ تھا کہ اس میں احساس‘ عجز و درماندگی اور زیادہ پیدا ہوتا رہتا) مراد یہ ہے کہ انسان کی ساخت و ترکیب ہی ایسی رکھ دی گئی ہے کہ اسے ساری عمر دقتوں کا‘ اور کسی نہ کسی اعتبار سے مصیبتوں ہی کا سامنا رہے۔ آج دوکان ٹوٹ گئی‘ کل کاروبار بیٹھ گیا۔ آج فلاں دشمن ستا رہا ہے‘ کل فلاں مرض نے آدبایا۔ کبھی خود بیمار‘ کبھی بیوی بچہ بیمار۔ کبھی اس عزیز کی موت کا صدمہ‘ کبھی اس دوست کی بے وفائی کا رنج۔ ساری عمر غم و صدمات ہی کے اُلٹ پھیر میں گزر جاتی ہے اور انسان کو اپنے عجز و بے بسی کا مشاہدہ قدم قدم پر ہوتا رہتا ہے۔ اس سے طبیعت میں قدرتاً شکستگی پیدا ہونی چاہیے‘ اور خودی و خودبینی کو تو پاس بھی نہ پھٹکنا چاہیے۔ لیکن کافر ان سارے واقعات سے مطلق سبق نہیں لیتا۔ مومن کو تو ہر شے میں حکمت الٰہی کی جھلک نظرآجاتی ہے‘ اور وہ ربوبیت مطلقہ پر اعتماد و اطمینان رکھ لیتا ہے۔ لیکن کافر کو دماغی الجھن اور قلبی ادھیڑبُن سے کسی حال میں مفرنہیں‘ اور نہ اُس کی حرص و ہوس کی آگ کبھی بھی بجھتی ہے۔ الاِنْسَانَ‘ انسان سے یہاں بھی مراد کافر‘ ناشکرا انسان ہے جسے زندگی کے کسی پہلو میں بھی چین نہیں۔ (تفسیر مولانا عبدالماجد دریابادی‘ ص ۱۱۹۵)
اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ o (۹۰:۵)
انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے‘ کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے‘ یہ خیال خام ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہرشخص کو دُنیا میں محنت و مشقت اور رنج و مصیبت پیش آئے‘ اور جب مشقت و کلفت پیش آنا ہی ہے تو عقل مند کا کام یہ ہے کہ یہ محنت و مشقت اُس چیز کے لیے کرے جو اس کو ہمیشہ کام آئے اور دائمی راحت کا سامان بنے اور وہ صرف ایمان اور طاعت حق میں منحصرہے۔ آگے غافل اور آخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر کر کے فرمایا: اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ‘ یعنی کیا یہ بیوقوف یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے اعمالِ بد کو کسی نے دیکھا نہیں‘ اس کو جاننا چاہیے کہ اس کا خالق اُس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ (معارفِ القرآن‘ ج ۸‘ ص ۷۵۰)
یعنی کیا یہ انسان جو اِن حالات میں گھرا ہوا ہے ‘ اِس غرّے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے‘ کوئی بالاتر اقتدار اُس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اِس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اُس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا‘ ہوا کا ایک طوفان‘ دریائوں اور سمندروں کی ایک طغیانی اُسے یہ بتادینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے بااقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لاگراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اُسی دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی اُن سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ اِس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا؟ (تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۳۳۹-۳۴۰)۔ (ترتیب: امجد عباسی)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدسالہ تقریبات کے موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت پر ’’احیاے اسلام اور اُمت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ۶-۷ دسمبر ۲۰۰۳ء کولاہور کے ایوانِ اقبال میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں قطر‘اُردن‘ لبنان‘ مصر‘ فلسطین‘ مراکش‘ ایران‘ کویت‘ سوڈان‘ نیپال‘ تیونس‘بنگلہ دیش‘ ملائیشیا اور امریکہ سے اسلامی تحریک کے قائدین‘ مفکرین اور دانش وروں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک ۲۲ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مستقبل کی حکمتِ عملی کے اہم نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہم اس اعلامیے کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
۱- سب سے زیادہ اہم بات اور اُمت کے کرنے کا اولین کام یہ ہے کہ ہر سطح پر مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ ہوں اور اس بات کا عزم صمیم کریں کہ وہ اپنی انفرادی‘ اجتماعی اور قومی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کریں گے۔ اسلامی تعلیمات کو عام کرنا‘ اس پر عمل کرنا اور کرانا ان کی زندگیوں کا اہم ترین مقصد قرار پائے۔
۲- طاغوت اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ مسلمانوں‘ اسلام اور اسلامی تحریکوں بحیثیت مجموعی پوری انسانیت پر حملہ آور ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اسلامی تحریکوں پر بے بنیاد الزامات لگا کر انھیں بالکل ہی ختم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے دینی مدارس اور علما کے خلاف زبردست پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا ہے تاکہ دینی مدارس اور علما دونوں کے خلاف اقدامات کرنے کا جواز پیدا ہو جائے۔ اسی طرح نفاذ شریعت کے لیے سرگرم دینی عناصر زیر عتاب ہیں۔ دوسری جانب یہی قوتیں اخلاقی بے راہ روی‘ عریانی‘ بے حیائی اور اخلاقی فساد پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ طاغوت بدی کو فروغ دینے اور نیکی کو مٹانے پر تلاہوا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ خود کو اور انسانیت کو طاغوت کی تباہ کاریوں سے محفوظ کرنے کے لیے منظم اور متحد ہو کر اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں پرامن اور مؤثر جدوجہد کرنے پر کمر بستہ ہو جائے تاکہ دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ نیز ظلم کے خاتمے‘ انصاف کے قیام اور آزادی کے حصول کے لیے تمام تر جدوجہد اسلامی احکامات کے مطابق اور پرتشدد اور خفیہ سرگرمیوں سے پاک ہو اور اس میں انتقام اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہ پایا جائے۔
۳- اسلام دشمن قوتیں باہم یک جا ہو کر اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں۔ ان حالات میں اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام فروعی اختلافات کو ختم کر کے پوری دنیا کے مسلمان متحد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
۴- درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ مسلم دنیا میں تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے۔ اپنے ایجنڈے میں تعلیم کو اولیت دی جائے۔ اپنی تہذیبی اقدار کا تحفظ کیا جائے اور جہالت اور جاہلانہ رسوم کا خاتمہ کیا جائے۔ علماے حق اور اسلامی مفکرین کے تعاون سے مثالی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور موجودہ تعلیمی اداروں کو بہتر بنایا جائے۔
۵- آزاد مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کو عملاً نافذ کیا جائے تاکہ عدل‘ انصاف‘ مساوات اور امن و امان کا دور دورہ ہو اور مسلم ممالک پوری دنیا کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بن سکیں۔
۶- اسلامی احکام اور شعائر کے مطابق اجتہاد اور جہاد کی ذمہ داریاں پوری احتیاط اور اسلامی آداب کے مطابق ادا کی جائیں۔ اگر اجتہاد فکری زندگی اور تابندگی کے لیے ضروری ہے تو جہاد انسانی زندگی کو عدل اور انصاف کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ ہے۔ جہاد کو طاغوت نے اپنے مذموم پروپیگنڈے سے دہشت گردی کا جو نام دیا ہے‘ کانفرنس اسے مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ جہاد‘ ظلم اور استعماری قبضے کے خاتمے اور عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس پر کوئی پابندی قبول نہیں کی جا سکتی۔
۷- اُمت کے تمام مکاتب فکر میں اتفاق‘ اتحاد‘ یگانگت‘ برداشت‘ تحمل اور وسعت نظر کے اصولوں کو اپنایا جائے۔ اختلاف رائے کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے۔ دشمن کی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے اس کو اس بات کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کو مسلک کے اختلاف کے نام پر باہم لڑا دے۔
۸- اُمت مسلمہ کو ائمہ کفر کے برپا کیے ہوئے فتنوں اور خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ عناصر متحد ہو کر اُمت مسلمہ کو اپنی چیرہ دستیوں کا ہدف بنا رہے ہیں۔ ان کی کھلی اور چھپی سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے۔
۹- ملت کے اجتماعی و سیاسی معاملات اور قومی قیادت کے نصب و عزل کے لیے انتخابات کا منصفانہ جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ اسلام شورائیت کا قائل اور آمریت کا شدید مخالف ہے‘ اس لیے تمام معاملات‘ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں۔ آمریت اور استعمار کی حاشیہ بردار قیادتوں کے طرز عمل سے ملت کو نجات دلائی جائے تاکہ اجتماعی زندگی کا نظام آزادی‘ جمہوری اور شورائی اصولوں کے مطابق پروان چڑھ سکے۔
۱۰- ملت اسلامیہ کو اس کے قومی‘ معدنی‘ زرعی اور خام وسائل پر استعماری قوتوں کی روز افزوں اجارہ داری سے نجات دلانے اور حکمرانوں کو دشمنوں کا آلہ کار بننے سے روکنے کے لیے افہام و تفہیم اور ابلاغ عامہ کے تمام مؤثرذرائع استعمال کیے جائیں۔
۱۱- ملی وسائل کی ظالمانہ تقسیم کے موجودہ نظام کے خاتمے اور چند مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری سے نکال کر امانت و دیانت کے ساتھ اُمت کی بہبود اور اس کے وسیع تر مفاد میں خرچ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے اور ملت اسلامیہ حقیقی اور دیرپا معاشی اور معاشرتی ترقی حاصل کر سکے اور مظلوم انسانوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔
۱۲- اس حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے کہ اسلام کسی تہذیبی تصادم کا نہیں بلکہ تہذیبوں کے درمیان پرامن بقاے باہمی کا علم بردار ہے۔ اسلام انسانی مساوات‘ حقوق کے تحفظ اور احترام آدمیت اور مذہب کی آزادی کا دین ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نعرہ مغربی دنیا نے متعارف کرایا ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ نفرت پر مبنی نعرہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ ہم اس بات کے حامی ہیں کہ مختلف ادیان اور تہذیبوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ مکالمے اور گفت و شنید کے ذریعے طے پائیں تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔
۱۳- عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے پرکشش نام پر استعمار پوری دنیا کو اپنے معاشی اور تہذیبی شکنجے میں جکڑنے کے لیے پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ ملت کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے تاکہ متحد اور منظم ہو کر خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔
۱۴- ملت اسلامیہ اپنی موجودہ سیاسی‘ معاشی‘ اقتصادی اور تعلیمی پستی میں استعماری طاقتوں کے رول اور ریشہ دوانیوں کے پورے شعور اور احساس کے ساتھ اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری صرف استعماری قوتوں پر ڈالنے کے بجاے حقیقت پسندی کے ساتھ خود بھی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے کر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی اصلاح کرے۔ داخلی خرابیوں پر قابو پائے بغیر خارجی دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
۱۵- کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ شیشان‘ مشرقی یورپ‘ اراکان اور مورولینڈ کے مظلوم مسلمانوں اور دیگر مظلوم اور محکوم اقوام کے حق خود مختاری کو تسلیم کرانے اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے اپنا پورا وزن ڈالا جائے۔
۱۶- اعلیٰ تعلیم‘ تحقیق‘ سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کو اولیت دی جائے اور اس بات کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے کہ طلبہ میں جدید علوم میں تحقیق کے ساتھ دینی روح اور جہادی جذبہ پیدا ہو۔
۱۷- مشنری تنظیموں اور بیرونی این جی اوز کے تحت براہِ راست یا بالواسطہ چلنے والے تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہ ہماری نئی نسل کو اپنے رنگ میں رنگ کر اُمت مسلمہ کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ مغربی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مسلمانوں کے قائم کیے ہوئے رفاہی اور خیراتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس سے متاثر ہو کر بہت سے مفید اداروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس طرزِ عمل کی اصلاح کی جائے۔
۱۸- بیرونی امداد پر سرگرم عمل نام نہاد این جی اوز کا احتساب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ان کا اصل ہدف ہمارے خاندانی نظام کی تخریب‘ تہذیبی اقدار سے انحراف اور ایمان کی بنیادوں کو تشکیک کا نشانہ بنانا ہے۔ یہ تنظیمیں استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلم دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے اہل دانش تمام وسائل بروے کار لا کر اپنا مذہبی اور ملّی فرض ادا کریں۔
۱۹- اُمت مسلمہ کے عالمی مسائل پرمضبوط آواز اٹھانے کے لیے او آئی سی کو نہ صرف فعال بنایا جائے بلکہ میڈیا‘ تجارت‘ تعلیم‘ صنعت اور دفاع کے شعبوں میں مشترکہ مؤقف اور پالیسیاں اپنائی جائیں تاکہ اُمت مسلمہ اپنا عالمی کردار ادا کرے اور کشمیر‘ فلسطین‘ شیشان‘ اراکان‘ مورولینڈ وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کو استعمار کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے اُمت ِمسلمہ تعمیری کردار ادا کر سکے۔
۲۰- ابلاغ عامہ کی تمام اصناف ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ انٹرنیٹ‘ اخبارات و جرائد ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ ان کو انسانوں کی اصلاح‘ امن عامہ‘ محبت و اخوت اور اسلام کے پیغام کی تشہیر اور ملت کے مفاد میں استعمال کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ اس وقت یہ قوت بڑ ی حد تک بدامنی کے فروغ‘ بے حیائی اور عریانی عام کرنے اور تشدد کا پرچار کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔
۲۱- اسلام نے خواتین کو جو حقوق‘ احترام کا مقام اور تحفظ عطا کیا ہے اسے اجتماعی زندگی میں پوری دیانت داری کے ساتھ بروے کار لایا جائے۔ عورتوں کی حق تلفی کے رواجی اور جاہلانہ طریقوں اور رسومات کا خاتمہ کیا جائے جن کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ سیکولر عناصر عورتوں کے حقوق کے معاملے کو اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس کا موقع نہ دیا جائے۔
۲۲- ملت اسلامیہ کے وہ لوگ جو معلومات کی کمی یا کسی غلط فہمی کے باعث ایسی راہوں پر چل پڑے ہیں جن کا نقصان اُمت کو اور فائدہ استعماری قوتوں کو پہنچ رہا ہے‘ انھیں چاہیے کہ وہ کھلے دماغ کے ساتھ اپنی روش پر نظرثانی کریں اور دشمن کی تقویت کا ذریعہ بننے کے بجاے اُمت کے ساتھ تعاون اور اس کی تقویت کی راہ اپنائیں۔
یہ کانفرنس اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کرتی ہے کہ طاغوتی قوتیں اپنے وسائل‘ عسکری قوت اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود ناکام اور نامراد ہوں گی اور ان شاء اللہ باطل مغلوب اور حق غالب ہو گا اور اسلام کا آفاقی‘ عادلانہ اور منصفانہ نظام مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے گا اور اللہ کا کلمہ سربلند ہو گا۔ ان شاء اللہ!
یہ کانفرنس جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد اور منتظمین کی شکر گزار ہے کہ ایسے نازک مرحلے اور موڑ پرایک طویل عرصے کے بعد دنیاے اسلام کے چیدہ اور منفرد علما‘ رہنمائوں اور دانش وروں کو مل بیٹھنے‘ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس کو توقع ہے کہ اس کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ متفقہ اعلامیہ دنیاے اسلام کے لیے ایک بروقت پیغام ثابت ہو گا جس کے ان شاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ باہمی ملاقاتوں‘ تبادلہ خیال اور تعاون کا یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا۔
باہم نصیحت(تواصی) دعوت دین کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے اور سب سے زیادہ حساس بھی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اُمت مسلمہ کے مقصد وجود سے مشروط ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَا اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ (اٰل عمران۳:۱۱۰) ’’تم اس دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ، بدی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ چنانچہ اس کے اس مقام و منزلت کی بنا پر اس کو فریضہ اقامت دین میں سنگ ِبنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا جہاںاس سے صحیح کام لیا گیا‘ وہاں دعوت کا عمل مؤثر انداز میں آگے بڑھا اور وہ بارآور بھی ہوا‘ اور جہاں اس سے پہلوتہی کی گئی وہاں معاملہ اس کے برعکس رہا۔
ا س کی اہمیت زندگی کے مختلف دائروں‘ حکومت‘ فوج‘ میدانِ سیاست اور ایسے ہی دیگرمیدانوں سے مربوط ہونے کی بنا پر دوچند ہے۔ لہٰذا نصیحت اور خیرخواہی کے عمل کا صحیح فہم وادراک ہمارے لیے بے حد ضروری ہے تاکہ حق کی نصیحت اور دعوت الی الخیر کا فریضہ بہ طریق احسن انجام دیا جاسکے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دعوت کے منافی ہر موقع سے بچتے ہوئے کیسے ہم ایک دوسرے کو مؤثر نصیحت کریں؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کس موقع پر نصیحت واجب ہے اور کہاں اس کی پذیرائی ہوگی‘ کون سااسلوب سب سے مؤثر ہے‘ اوراس کے لیے کون سا وقت مناسب ہے اور دعوت کے عمل پر اس کے مثبت یا منفی اثرات کس حد تک ہوں گے۔
اسلام میں ایک دوسر ے کونصیحت اور حق کی تلقین کوئی نفلی کام نہیں ہے بلکہ وہ شرعی ، دعوتی اور تحریکی کام کا ایک اہم عنصر ہے۔ ابن ماجہ نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے، آپؐ نے اﷲ کی حمد وثنا کی اور فرمایا: ’’لوگو! اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو ، اس سے قبل کہ تم دعا کرو اور میں قبول نہ کروں‘ تم سوال کرو جسے میں پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد مانگو اور میں تمھاری مدد نہ کروں‘‘۔
دعوت کے لحاظ سے اسلام نے اسے فرد کی ذمہ داری قرار دیا ہے کہ جب بھی اِس کا موقع میسر آئے تواُس پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھے، نصیحت کرے، اور خود بھی نصیحت کو قبول کرے اور بھلائی پر مشتمل اپنی رائے کا اظہار کرے۔ یہ ایک عظیم اصول ہے ۔ نصیحت کو کسی ایک گروہ تک محدود نہ رکھا جائے کیوں کہ نصیحت سے تو کوئی بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔اﷲ کا فرمان ہے: وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے‘ اور نیک اعمال کرتے رہے‘ اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبرکی تلقین کرتے رہے۔
کسی بھی دعوت کی نشوونما اور اس کا موسم بہار بلکہ اس کی بقا کئی ایک عوامل کی مرہونِ منت ہوتی ہے‘اور ان میں سے ایک اہم عمل ایک دوسرے کو نصیحت ہے۔ جب باہمی نصیحت ایک صحت مند دائرے میں دی جائے ، اسے مطعون نہ کیا جائے‘ اور اسے نظامِ غالب سے خروج کی کوئی قسم نہ سمجھا جائے‘ اور وہ جاری رہے تو کام فروغ پائے گا، برگ وبار لائے گا اور اسے اکھاڑ پھینکنا مشکل ہو گا۔
ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب وہ کسی فرد میں‘ جماعت میں، نظام میں یا ریاست میںکوئی عیب یا انحراف دیکھے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں حقِ وصیت ادا کرے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمران۳:۱۰۴) ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔
ایک بیدار مغز قیادت کا فرض ہے کہ دعوت کے کسی بھی عمل میں نصیحت کو قبول کرے۔وہ قرآن سے آئے ، تنقید سے آئے یا ادراک ِزمانہ سے ۔ اس پر لازم ہے کہ مخالف آرا کو مناسب مقام دے ، ان کی قدر کرے اورخواہ وہ کیسی ہی ہوں انھیں احمقانہ قرار نہ دے ۔ اختلاف کے باوجود دوسری رائے کا قبول کرنا‘ اور اس کا احترام، کام کے فروغ اور اس کے استقرار کے عوامل میں سے ایک اہم عمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی غیبی اشارہ اور متعلقہ مسئلے کے لیے کوئی رہنمائی اس ذات کی طرف سیہو‘ جس کے ہاتھ میں عمل کا نتیجہ ہے۔ ہر تنقید نقصان دہ یا معیوب نہیں ہوتی۔دوسری رائے کو سننا ، اسے اپنانا اور اس میں موجود خیر کو اخذ کرنا‘ مسلمان کے لیے اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔
دوسری رائے کو نہ سننا اوراس کے مفید پہلو کو قبول نہ کرنا‘ رائے کو روک دینے کی ایک صورت ہے۔ قساوت قلبی کے یہی معنی ہیں۔ یہ عقل کی گمراہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ جب اصحابِ فہم وفراست میں سے آخری فرد گمراہ ہو جائے تو پھر اﷲ ہی جانتا ہے کہ اس سے کس قدر ناانصافی اور انحراف واقع ہوگا۔ لہٰذا ہر فرد پر باہمی نصیحت کو اپنانا لازم ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں، اپنی شخصیت میںاور اپنی سرگرمی میںاپنا رجوع دعوت و شریعت کی طرف رکھے۔
وہ قیادت جو فکری راہ نمائی کے منصب پر فائز ہو‘ اس پر لازم ہے کہ وہ نصیحت ، تنقید اورادارے کی طرف سے اختلاف ِرائے کی حوصلہ افزائی کرے اور دعوت کے حوالے سے جملہ قوتوں سے استفادہ کرے۔وہ کسی ایک کو بھی اظہار سے نہ روکے، خواہ اس کی کوئی بھی رائے ہو۔اس کا شعار یہ ہوکہ ’’تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں اگرتم یہ بات (بطور نصیحت یا تنقید) نہ کہو‘ اور ہمارے اندر کوئی بھلائی نہیں اگر ہم اسے نہ سنیں‘‘۔(قول حضرت عمرؓ )
پس ہوش مند قیادت پر واجب ہے کہ وہ باہمی نصیحت کو اس کا اصل مقام دے، اسے اپنے افراد کے دلوں میںپختہ کرے‘ اور اس بارے میں ان کی تربیت کرتی رہے۔قیادت اورافراد کو باہم اس طرح مربوط ہونا چاہیے جس طرح کہ اعصاب جسم کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں تو جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔
درست نیت :ہر نصیحت کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ بطریق احسن نصیحت کرے اور جسے نصیحت کی جائے وہ اسے بطریق احسن قبول کرے ۔ نصیحت صرف اور صرف اﷲ وحدہ کے لیے ہو اور اس میں کسی دنیوی غرض کی ملاوٹ نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاo (الکہف۱۸:۱۱۰) ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے‘‘۔ لہٰذا نصیحت کو شرح صدر کے ساتھ قبول کیا جائے اور اچھے پہلو کو ہی پیش نظر رکھا جائے‘ نیت پر شک نہ کیا جائے۔
خلوصِ نیت: جو شخص نصیحت کرے اسے چاہیے کہ وہ خلوصِ نیت کو بدرجہِ اتم ملحوظ رکھے۔ رسولؐ اﷲ کاارشاد گرامی ہے:’’یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی بات کرے جسے وہ سچ سمجھے‘ جب کہ تونے اس کے ساتھ جھوٹ بولا ہو‘‘۔ جب مسلمان کی پوری زندگی سراپا صدق و دیانت ہے تونصیحت کی حالت میںتو سچائی واجب تر ہے۔اس لیے کہ اگر وہ صحیح ہے تواس میں خیر کثیر ہے‘ اور اگر وہ جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے تو یہ باعث ِ فساد بھی ہے اور خیانت کی ایک شکل بھی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔!
مؤثر دعوت : سلف کا قول ہے:’’ کامل ترین اسلوب کے ساتھ نصیحت کرو، اور نصیحت کسی بھی اسلوب میں ہو اسے قبول کرلو‘‘۔ لہٰذا نصیحت کے لیے بڑا مثالی اسلوب اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ وہ علیٰحدگی میں ہو‘ نرمی و خیرخواہی کے ساتھ ہو‘ اوراس میں احساسِ برتری کا کوئی شائبہ تک نہ ہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o (اٰل عمٰرن۳:۱۵۹) ’’پیغمبرؐ! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو،کہ جب تمھاراعزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تواﷲ پر بھروسا کرو‘ اﷲ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔
حقیقت پسندی: یہ ناگزیر ہے کہ ہماری نصیحت مبنی برحقیقت ہو۔ کسی معمولی بات کو نہ تو ہم اہم بنا کر پیش کریں اور نہ کسی اہم بات کو غیراہم۔ معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس کے تناسب سے ہی لگائیں۔ ہمیں اسے پیش کرنے ، یااس کی تردید کرنے میں انتہا پسندی اور مبالغہ آرائی سے اجتناب کرنا چاہیے اور اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہماری نظر میں رہے : وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اﷲِط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُصلے وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ o (الشوریٰ ۴۲:۱۰)’’تمھارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اﷲ کا کام ہے ۔ وہی اﷲ میرا رب ہے ، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اس کی طرف میں رجوع کرتا ہوں‘‘۔
کھلے دل سے قبولیت: جب تک نصیحت کا معاملہ شریعت اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے دائرے میں ہو ، ہمیں چاہیے کہ ہم اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کریں اور سیدنا عمرؓ کا اتباع کریں۔انھوں نے فرمایا: ’’لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرا پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیب مجھے تحفے میں بھیجے‘‘۔
امام شافعیؒ نے فرمایا:’’ میں نے کبھی کسی سے اس خواہش کے ساتھ بحث نہیں کیکہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہو‘اور میں نے کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی مگر یہ چاہتے ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ میری اور اس کی زبان پر حق کو ظاہر فرما دے۔ اور میں نے کبھی کسی پر حق اور حجت وارد نہیں کی اور اس نے مجھ سے اسے قبول کر لیا ہو‘مگر یہ کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ مجھے اور میں اسے محبوب ہوں۔ اور جب بھی کبھی کسی نے حق کے معاملے میں مجھے بڑا سمجھا تو وہ میری نظروں سے گر گیا اور میں نے اسے دھتکار دیا۔ مجھے یہ بات محبوب ہے کہ لوگ میرے علم سے فائدہ اٹھائیں اس کے بغیر کہ اس میں سے کچھ بھی میری طرف منسوب کیا جائے‘‘۔
کام کا فروغ اور اہداف کا حصول: وہ عمل جو نصیحت و خیرخواہی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا وہ بہتر اہداف حاصل کرے گا اور زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ یہ اس لیے کہ تمام کے تمام افراد دعوت کے میدان میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوتے ہیں اور ان کے مابین مادی یا نفسانی پردے حائل نہیں ہوتے۔
بہتر فیصلے تک رسائی: باہمی نصیحت کے نتیجے میں کسی بھی مسئلے کے بارے میں قیادت کے سامنے مختلف آرا کے سامنے آنے سے کسی بھی پالیسی یا نقطۂ نظر کے مختلف پہلو سامنے آجاتے ہیں جس سے کسی بہتر فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ مختلف افراد کی رائے سامنے آنے کا یہ بھی ایک فائدہ ہوتا ہے کہ ہر فرد اپنا کار منصبی اطمینان اور شرح صدر کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے ماہرانہ مشوروں سے اپنی قیادت کے نظم و نسق کے تحت اور اس کی مدد کے ساتھ اپنی ہمہ پہلو صلاحیت کو بروے کار لاتے ہوئے عمل کرتا ہے اور قیادت کی صحیح او ر مناسب فیصلہ کرنے میں معاونت کرتا ہے۔
اگر کسی وجہ سے کسی مسئلے پر اختلاف رائے ہو جائے لیکن اگر افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ حق بات کی نصیحت اور صبرکی تلقین کی روح رائج ہو‘ اور معاملات میں صدق و دیانت اور شفافیت مقصود ہو تو اختلاف رائے کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ مخالفانہ رائے کو نہ دبایا جائے بلکہ نقطۂ نظر کو جانا جائے۔ البتہ اس کا اہتمام ہو کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے اور بڑا چھوٹے سے شفقت کا مظاہرہ کرے‘ اور جب مسئلے کی کوئی راہ نکل آئے تو پھر اس پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ دوبارہ اسے اچھالا نہیں جانا چاہیے ‘ اور اختلاف کو وہیں دفن کر کے متفقہ فیصلے کو لے کر چلنا چاہیے۔ اس طرح سے اختلافی مسائل کا بخوبی احاطہ کیا جاسکتا ہے۔
روح رفاقت کو تقویت: جب ہر فرد کے پیش نظر اﷲ کی رضا کا حصول ہو‘او ر افراد اور قیادت کے مابین خیرخواہی کا جذبہ کارفرما ہو‘ اور ہر فرد اپنے دل کی بات بلاتردد کہہ سکے،جب کہ اس کو خدا کا خوف بھی دامن گیر ہو تو ایسی صورت میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس ہوگا۔ہوش مند قیادت اپنے افراد میں روحِ رفاقت کو فروغ دیتی ہے اور اپنے اور کارکنوں کے درمیان کسی بھی نوعیت کے فاصلے پیدا نہیں ہونے دیتی۔ یہ روحِ رفاقت نصیحت و خیرخواہی سے ہی پروان چڑھتی ہے۔
اخوت و یک جہتی کا فروغ: جب باہم نصیحت کے عمل کے ساتھ حلقہء دعوت، قیادت بھی اور افراد بھی، باہم مربوط ہوجائیں توحقیقی روح اخوت فروغ پاتی ہے۔ وہ سب مل کرکام اور افراد دعوت کے معیار کو بلند کرتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی شخص کا دل بن جاتے ہیں ۔ یک جان یک قالب ہوجاتے ہیں۔ ہر فرد آئینے کی مانند ہو جاتا ہے جس میں دوسروں کو اپنی ذات نظر آتی ہے ‘اور ہرشخص خواہ فرد ہو یا قیادت‘ دوسروں کے ہاںاپنے لیے بڑی محبت کا احساس پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں باہمی اخوت و یک جہتی فروغ پاتی ہے‘ باہمی اعتماد بڑھتا ہے‘ ہر سطح پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر دعوت کا کام تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ یوں نصیحت و خیرخواہی فریضہ اقامت دین کی احسن طور پر ادایگی کے لیے مہمیزکا کردار ادا کرتی ہے اور ہرفرد دل و جان سے اس فرض کی ادایگی میں جُت جاتا ہے۔ (المجتمع ‘ ۲۵ مئی ۲۰۰۲ئ)
تصوف کا اقرار و انکار اور اس کے بارے میں بحث و تمحیص اور اعتراض و جوابِ اعتراض کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ اگر کسی نے اس کا انکار کیا تو اقرار کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ انکار کس تصوف کا کیا جا رہا ہے‘ اور اگر کسی نے اقرار کیا تو انکار کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ کس تصوف کا اقرار کیا جا رہا ہے۔ اقرار کرنے والے منکرین تصوف کے درمیان مطعون ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے حامیانِ تصوف کے درمیان مذموم قرار پاتے ہیں۔ افراط و تفریط کے درمیان توسط و اعتدال کی راہ گُم ہو جاتی ہے اور اس پر چلنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو ’’تصوف‘‘ کے لفظ اور اس اصطلاح پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اصطلاح پر جھگڑنا معقول بات نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ حقیقت سے زیادہ اس اصطلاح کو ماننے اور منوانے پر اصرار شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات بھی قرین عقل نہیں ہے۔
راقم الحروف نے تصوف کی کتابوں کا جو مطالعہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین قسم کے تصوف پائے جاتے ہیں: ۱- مومنانہ تصوف‘ ۲- فلسفیانہ تصوف‘ ۳- ملحدانہ تصوف۔
ملحدانہ تصوف نے اگرچہ مسلم عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن علماے حق اور صوفیہ صافیہ ہمیشہ اس کی تردید کرتے آئے ہیں اور کسی مومن مخلص کو اس کے قابل ترک ہونے میں شبہہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ملحدانہ تصوف اس تصوف کا نام ہے جو بزعمِ خویش اللہ تک پہنچے ہوئے لوگوں کے لیے اسلامی شریعت کو معطل قرار دیتا ہے۔ ملحداور گمراہ صوفیہ جو مسلمان کے بھیس میں دراصل منافق ہوتے ہیں‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان مقامِ یقین پر فائز ہو کر خدا رسیدہ ہو گیا تو اب وہ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور اس طرح کے شرعی احکام کا مکلّف نہیں رہتا۔ اس گروہ کے نزدیک طریقت‘ شریعت سے بالکل علیحدہ چیز ہے‘ اس کے نزدیک شریعت مدرسۂ سلوک کے صرف مبتدی طلبہ کے لیے ہے۔
مومنانہ ‘ یعنی اسلامی تصوف جن حقائق کا نام ہے آج تک کسی مومن مخلص نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت سے بصراحت ثابت اور ایمان و اسلام کے لازمی تقاضے ہیں۔ علماے حق کے درمیان اختلاف و نزاع صرف اس تصوف میں ہے جسے ہم نے فلسفیانہ تصوف کہا ہے۔ اس تصوف کی بنیاد فلسفۂ یونان اور علم الکلام کی دور ازکار بحثوں پر قائم کی گئی ہے۔ اس میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کر لی گئی ہیں جن کی تائید کتاب و سنت سے نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ قرآنی حقیقتوں کی فلسفیانہ تشریح کر کے انھیں کچھ سے کچھ بنا دیا گیا ہے اور ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ بہت سی چیزوں کے لیے انتہائی ضعیف اور موضوع حدیثوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کوئی چیز اس وقت تک قبولِ عام حاصل نہیں کرتی جب تک اس کے لیے کوئی حدیث نہ پیش کی جائے۔
جہاں تک میں نے غور کیا ہے تصوف کے انکار میں شدت اسی فلسفیانہ تصوف پر زور دینے کا نتیجہ ہے۔ صوفیہ میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو زبان سے تویہ کہتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے لیکن ان کی روش یہ ہے کہ جو لوگ فلسفیانہ تصوف کا انکار کرتے ہیں انھیں بھی وہ اس گروہ میں داخل قراردیتے ہیں جو مطلقاً تصوف کا منکر ہے۔ اس کے علاوہ بزرگوں کے بارے میں انھوں نے ایسی غالیانہ عقیدت اختیار کر رکھی ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے اور اسی کو انھوں نے تصوف کے اقرار و انکار کی کسوٹی بنا دیا ہے۔ جو شخص ان کی اس خود ساختہ کسوٹی پر کھرا اُترے‘ یعنی غالیانہ عقیدت میں ان کا ساتھ دے‘ وہ تصوف کا ماننے والا ہے اور جو اس پر کھوٹا ثابت ہو‘ یعنی اس عقیدت میں ان کا ساتھ نہ دے وہ تصوف کا انکار کرنے والا ہے۔ ۹۰ فی صد یہ بات بھی صادق ہے کہ انھوں نے بزرگوں کی غالیانہ عقیدت کو اپنے لیے حصولِ عقیدت کا حربہ اور وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہ اپنے ماسبق بزرگوں کے سامنے اس لیے سر جھکاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے سامنے سر جھکائیں‘ جو لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں انھیں وہ تصوف کا مخالف اور اولیا کا منکر کہہ کر لوگوں میں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی عقیدت ان کے ساتھ وابستہ رہے اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
تصوف کی مشہور و مستند کتابوں میں اسلامی تصوف اور فلسفیانہ تصوف ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہیں اور ان دونوں کے درمیان امتیاز صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہوں اور جن کے دل و دماغ بزرگوں کی اندھی عقیدت سے مائوف نہ ہوں--- ہماری اس تحریر کا موضوع چونکہ اسلامی تصوف ہے اس لیے ہم نے فلسفیانہ تصوف سے صرفِ نظر کیا ہے--- ہم حسب ذیل نکات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں:
۱- اسلامی تصوف کا ماخذ کیا ہے؟
۲- تصوف کیا ہے اور صوفی کون لوگ ہیں؟
۳- کشف و کرامات و الہام کوئی دلیل نہیں بلکہ خود ان کی صحت دلیلِ شرعی کی محتاج ہے۔
تمام صوفیۂ علّیہ بلااستثنا اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جس تصوف کے قائل ہیں اس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور یہی اس کے اصل ماخذ ہیں۔ صرف چند اقوال یہاں نقل کرتے ہیں۔
ابو عبداللہ سہل بن عبداللہ التستری (م: ۲۷۳ھ) کہتے ہیں: ہمارے طریقے کے اصول سات ہیں: کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا‘ سنت کی پیروی‘ حلال کھانا‘ اذیت رسانی سے رُکنا‘ معصیتوں سے اجتناب‘ توبہ اور حقوق کی ادایگی۔ (نتائج الافکار القدسیہ‘ ج ۱‘ ص ۱۱۱)
ابوالحسین احمد بن ابی الحواری (م :۲۴۰ھ) کہتے ہیں: جس کسی نے اتباع سنت کے بغیر کوئی عمل کیا تو اس کا وہ عمل باطل ہوگا۔ (الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۱۲۶)
ابوحفص عمر بن مسلمۃ الحداد (م: ۲۶۵ھ) کہتے ہیں: جو شخص ہر وقت اپنے افعال و اقوال و احوال کو کتاب و سنت پر نہیں تولتا اور جو اپنے وارداتِ قلبی میں شک کر کے اسے نہیں جانچتا اسے ’’مردانِ حق‘‘ کے گروہ میں شمار نہ کرو۔ مردان حق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا‘‘۔ یہ جو بات ابوحفص نے فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص ایسا نہ ہو وہ اپنے دشمن نفس کے فریب سے بے خوف اور اپنے حال میں مگن ہوتا ہے اور جو شخص ایسے دشمن کی عداوت سے اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے جس سے دشمنی کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے بارے میں یہ سمجھ لے کہ کسی کا فریب اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ایسا شخص اللہ کی چال سے اپنے آپ کو بے خوف سمجھ رہا ہے اور قرآن میں ہے کہ: ’’اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔ (الرسالۃ وشرحہا)
سید الطائفہ ابوالقاسم جنید بن محمدؒ (م :۲۹۷ھ) کہتے ہیں: جس شخص نے قرآن و حدیث کے احکام نہیں سمجھے اور ان کا علم حاصل نہیں کیا ‘ تصوف میں اس کی اقتدا نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ ہمارا یہ علم (تصوف) کتاب و سنت سے مقید ہے اور اجماع و قیاس کا مرجع بھی یہی دونوں ہیں۔
ابوعلی روذباری جنیدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مذہب (تصوف) اصول‘ یعنی کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے۔ پہلے قول میں ’’علم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسرے میں ’’مذہب‘‘ کا۔ پہلے لفظ سے اشارہ صحت ِعلم کی طرف ہے اور دوسرے لفظ کا اشارہ صحتِ سلوک کی طرف۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ کسی وقت بھی اپنے علم و عمل میں کتاب و سنت سے مستغنی نہیں ہیں۔ اس قول میں اور اس سے پہلے کے قول میں اس شخص کی تردید ہے جو راہِ سلوک میں اپنے ’’وارداتِ قلبی‘‘ پر اعتمادکرتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سچے ہیں‘ وہ انھیں کتاب و سنت پر تولنے سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے اور یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
السید مصطفی العروسی اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں: حضرت جنیدؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ طالب ِ سلوک کے لیے شرط یہ ہے کہ علما سے شریعت مطہرہ کے احکام کا علم حاصل کرکے اس پر عمل کرے۔ اس کے بعد اس راہ میں اس کی رہبری درست ہو سکتی ہے۔ اور جو شخص اس کے بغیر اللہ تک پہنچ جانے کا مدعی ہو وہ بدعتی ہے‘ نہ اس کی طرف رجوع کیا جائے گا اور نہ اس کی کسی بات پر اعتمادصحیح ہوگا۔
’’علم تصوف دائرہ کتاب و سنت کے اندر ہے‘‘، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ علم تصوف کتاب و سنت سے حاصل کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عمل ہوگا اور جو شخص علماً و عملاً اس سے خارج ہو وہ زندیق (بے دین) ہے۔ (نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوحمزہؒ بغدادی (م: ۲۸۹ھ) کہتے ہیں: جو راہِ خدا کا علم رکھتا ہے اس پر اس راہ کی رہروی آسان ہو جاتی ہے اور اللہ تک پہنچانے والے راستے کا رہنما بجز متابعت ِ رسولؐ کوئی اور نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے احوال‘ افعال اور اقوال سب میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔(الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابواسحاق ابراہیم بن داؤد رقی (م: ۳۲۶ھ) کہتے ہیں: محبت الٰہی کی علامت‘ اس کی اطاعت کو ترجیح دینا اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے اس لیے کہ متابعت ‘ محبت کا ثمرہ ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کادعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی پیروی نہیں کرتا وہ اس کی محبت میں جھوٹا ہے۔ رقی ؒنے یہ بھی کہا ہے کہ ہرانسان کی قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہوتی ہے‘ پس اگر اس کی ہمت دنیا ہے (یعنی اس کا مطمح نظر دنیا کا حصول ہے) تو اس کی کوئی قیمت نہیں اور اگر اس کی ہمت اللہ کی رضا ہے تو پھر اس کی قیمت کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے‘ کوئی اُسے جان نہیں سکتا۔(نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوبکر الطمستانی (م: ۳۴۰ھ) کہتے ہیں: راستہ واضح ہے اور کتاب و سنت ہمارے درمیان موجود ہیں اور صحابہؓ کا فضل و شرف معلوم ہے اس لیے بھی کہ وہ آپؐ کی صحبت میں رہے اور اس لیے بھی کہ انھوں نے آپؐ کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کیا‘ رہے ہم لوگ تو ہم میں سے جس نے کتاب و سنت کی صحبت اختیار کی‘ یعنی کتاب و سنت میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا اور جس نے اپنے نفس اور مخلوق کی اطاعت سے منہ موڑا اور اپنے دل سے اللہ کی طرف ہجرت کی وہی سچا ہے اور اس نے ابدی سعادت کا راستہ پا لیا ہے۔ (الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابوالقاسم ابراہیم بن محمد النصرآباذی (م: ۳۶۷ھ) کہتے ہیں: تصوف کی اصل یہ چیزیں ہیں: کتاب و سنت کی پابندی‘ خواہشات و بدعات کا ترک‘ مشائخ کا احترام‘ مخلوق کی معذرتوں کو قبول کرنا‘ اوراد پر مداومت‘ رخصتوں کے ارتکاب سے پرہیز‘ تاویلات کو ترک کرنا۔ اس قول میں مشائخ سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے کامل ہوں اور جنھوں نے ان مباحات سے بھی اعراض کیا ہو جو ذکر و عبادت میں حارج ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا احترام و اکرام کے مستحق ہیں۔ اوراد‘ وِرد کی جمع ہے‘ ان سے مراد وہ نفل عبادتیں ہیں جو بندہ اپنے رب کی رضا اور تقرب کے لیے روزانہ کرتا ہے۔ یہ عبادتیں اللہ کے لطف و کرم کو جاری رکھتی اور دلوں کو زندہ کرتی ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ ’’رخصتوں‘‘ سے یہاں مراد آرام و راحت‘تنعم اور لذائذ ہیں۔ ’’تاویلات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں بندہ اپنے نفس میں یہ خیال کرے کہ نہ اسے کرنے میں گناہ ہے‘ اور نہ ترک میں گناہ ہے‘ وہ یہ نہ سوچے کہ قرب الٰہی کے حصول میں اس کا فعل یا ترک مفید ہے یا نہیں۔ (الرسالۃ مع شرح ‘ ج۲‘ ص ۱۵)
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ(م :۵۹۱ھ) کہتے ہیں: کتاب و سنت کو اپنے سامنے رکھو‘ تامل و تدبر کے ساتھ ان دونوں کا مطالعہ کرو اور انھی دونوں کو اپنا دستورالعمل بنائو اور قال و قیل اور ہوا و ہوس سے دھوکا نہ کھائو۔ (فتوح الغیب ‘ مقالہ ۳۶)
آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں: سیدنا محمدؐ کے سوا ہمارا کوئی نبی نہیں کہ ہم اس کی پیروی کریں اور قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں کہ ہم اس پر عمل کریں ‘ لہٰذا تم ان دونوں کے دائرے سے باہر نہ نکلو ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔ تمھاری خواہش اور شیطان تمھیں گمراہ کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی خواہش نفس کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ سلامتی کتاب و سنت کے ساتھ ہے اور ہلاکت غیر کتاب و سنت کے ساتھ۔ (ایضاً)
ابوالعباس احمد بن محمد بن سہل بن عطا (م: ۳۰۹ھ) معقول و منقول دلیل کے ساتھ اتباع سنت پر زور دیتے ہیں: جو شخص اپنے آپ کو آدابِ شریعت کا پابند کردیتا ہے‘ اللہ اس کے قلب کو نور معرفت سے روشن کر دیتا ہے اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے اشرف کوئی مقام نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے اوامر‘ افعال اور اخلاق سب میں۔ کیونکہ حضورؐ ہی جانتے ہیں کہ وہ افضل عمل کون سا ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور وہ اس کے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے‘ حضورؐ بہ نفس نفیس اپنی تمام حرکات و سکنات میں اللہ کی مدد سے‘ افضل ترین طاعات پر عامل تھے۔ لہٰذا اس میں جو شخص بھی آپؐ کی پیروی کرے گا اس کا مقام سب سے بلند ہوگا اور اسی بلند مقامی کی ایک بات یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے گا۔ اللہ خود فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ، کہہ دو‘ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمھیں محبوب رکھے گا‘‘۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنت کا اتباع‘ عبادات‘ عادات و اخلاق اور اعتقادات‘ سب میں لازم ہے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ان کی سنت اور طریقے کے خلاف ہے وہ باطل ہے اور جس شخص نے بھی کوئی نئی بات پیدا کی ہے جس سے سنت رسولؐ کی مخالفت ہوتی یا اس میں تغیر پیدا ہوتا ہے خواہ یہ مخالفت اور تبدیلی قول میں ہو یا عمل میں یا اعتقاد میں‘ وہ گمراہی ہے اور مردود ہے۔ (مکاتیب و رسائل‘ مکتوب ۹)
صوفیہ کے اقوال پیش کرنے سے پہلے یہ یاد دہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کی اصطلاحیں بہت مشہور ہیں‘ لیکن صوفیۂ کرام اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے آ رہے ہیں کہ یہ دونوں لفظ قرآن و حدیث میں نہیں آئے ہیں۔ اس لیے نہ ’’تصوف‘‘ کا لفظ مطلوب ہے اور نہ ’’صوفی‘‘ کا لقب مقصود ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ (م: ۶۲۲ھ) عوارف المعارف میں لکھتے ہیں: پورب سے پچھم تک اسلامی ممالک کے دونوں کناروں میں اہل قرب کے لیے ’’صوفی‘‘ کا نام معروف و مشہور نہیں ہے۔ یہ نام انھی لوگوں کے لیے معروف ہے جو خاص قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں۔ بلاد مغرب‘ بلادترکستان اور ماوراء النہر میں بہت سے اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن وہ ’’صوفیہ‘‘ سے موسوم نہیں ہیں کیونکہ وہ صوفیہ کا لباس استعمال نہیں کرتے۔ اور الفاظ و اصطلاحات میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ سے ہماری مراد ’’مقربین‘‘ ہی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ چھٹی‘ ساتویں صدی ہجری تک ’’صوفیہ‘‘ کے نام سے وہی لوگ جانے پہچانے جاتے تھے جو خاص قسم کا لباس پہنتے تھے لیکن بعد کو لباس کی قید اُٹھ گئی اور یہ نام اس طبقے کے لیے مشہور ہو گیا جس میں پیری مریدی کا سلسلہ جاری ہو اور وہ بزرگوں کے بارے میں غالیانہ عقیدت رکھتا ہو--- شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں لکھا ہے: علوم احسان و یقین کہ آج کل تصوف کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں… تصوف کی حقیقت جس کا نام عرف شرع میں ’’احسان‘‘ ہے۔ (ازالۃ الخفائ‘ مقصد دوم‘ ص ۱۴۲)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ ’’تصوف‘‘ کوئی شرعی نام نہیں ہے بلکہ اس کا شرعی نام احسان ہے--- بعض علماے صوفیہ نے تصوف کو طریق تقویٰ کہا ہے اور تصوف کے لیے ’’تزکیہ نفس‘‘ کی اصطلاح تو اتنی ہی مشہور ہے جتنی خود تصوف کی اصطلاح۔ بہرحال‘ علوم احسان و یقین کہیے یا طریق تقویٰ یا تزکیۂ نفس‘ یہ سب اس تصوف کی تعبیریں ہیں جس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور جسے ہم اسلامی تصوف کہتے ہیں۔
تصوف کو ’’احسان‘‘ کہنے کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں حضرت جبریل ؑ نے صحابہ کرامؓ کے مجمع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے بارے میں چند سوالات کیے تھے اور آپؐ نے جوابات دیے تھے۔ احسان کے بارے میں سوال و جواب کے الفاظ یہ ہیں: مجھے احسان کے بارے میں بتایئے۔ حضورؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے۔ (ریاض الصالحین‘ بحوالہ مسلم)
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یہ حدیث تصوف کی بہت بڑی اصل ہے اور تصوف کی تمام مستند کتابوں میں اس سے استدلال کیا گیا ہے۔ تصوف اب ایک مستقل علم کا نام ہے اس لیے اس کی تعریف یہ کی گئی ہے:
تصوف ایک علم ہے جس سے نفوس کی پاکی‘ اخلاق کی صفائی اور ظاہر و باطن کی آبادی و آراستگی کے احوال معلوم ہوتے ہیں اور اس کا مقصد ابدی سعادت کا حصول ہے۔ (شیخ الاسلام زکریا انصاری‘ شرح الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۶۹‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)
اس عبارت میں علم تصوف کی فنی تعریف بھی کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت بھی بتائی گئی ہے۔ ائمۂ صوفیہ اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: العلماء ورثۃ الانبیاء (مشکوٰۃ، کتاب العلم‘ بحوالہ ابودائود)‘علما انبیا کے وارث ہیں۔ اور حضورؐ نے فرمایا ہے: من عمل بما علم ورثۃ اللّٰہ علم مالم یعلم‘آدمی جو کچھ جانتا ہے جب اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ اسے ایسی باتوں کا علم عطا کرتا ہے جنھیں وہ نہیں جانتاتھا۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ علم الوراثۃ دین میں فہم و بصیرت کا نام ہے اور اسی کو قرآن میں ’’حکمت‘ ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیرًاط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹)
وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیرکثیر کا خزانہ مل گیا مگر یاددہانی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
میں نے محمد بن احمد بن یحییٰ صوفی کو کہتے ہوئے سنا‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن تمیمی کو کہتے ہوئے سنا کہ ابومحمد جریری سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ تصوف ہربلند اخلاق میں داخل ہونے اور ہر پست اخلاق سے خارج ہونے کا نام ہے۔ بلند اخلاق جیسے ورع‘ زہد‘ توکل‘ رضا اور تفویض وغیرہ‘ اور پست اخلاق جیسے ریا‘ عجب‘ کبر‘ حسد اور بدگمانی وغیرہ۔ (الرسالۃ القشیریہ مع شرح‘ ج ۴‘ ص ۴)
امام قشیری نے اپنی کتاب کے ’’باب التصوف‘‘ میں خود اپنی سند سے سب سے پہلے یہی قول نقل کیا ہے۔اس قول کا حاصل یہ ہے کہ ہر بلند اخلاق سے آراستگی اور ہر پست اخلاق سے پاکی و صفائی ہی حقیقی تصوف ہے۔
عمرو بن عثمان مکیؒ سے تصوف کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’’تصوف یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اس کام میں مشغول ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت کے لیے بہترین اور مناسب ترین ہو‘‘۔
شارحین نے اس جملے کی تشریح میں لکھا ہے کہ صوفی کی شان یہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اعمال‘ اخلاق ‘ احوال اور ہر عمل خیر میں سے اسی کو اختیار کرتا ہے جو اس وقت کے لحاظ سے افضل ترین و اکمل ترین شے ہو اور جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہو۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ ہر وقت‘ اس کے عمل کی بنیاد کتاب و سنت کے احکام پر ہوتی ہے۔کیونکہ انھی کے ذریعے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ مختلف اوقات میں کون سی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے۔ افسوس کہ اس زمانے کے اکثر صوفیہ نے تصوف کی اس حقیقت کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔
حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا ہے کہ: تصوف یہ ہے کہ آدمی حقائق کو اختیار کرے اور مخلوق کے پاس جو کچھ ہے ا س سے مایوس ہوجائے۔
اس کی تشریح میں شیخ الاسلام زکریا انصاری لکھتے ہیں: جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور وہ یہ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی نافع‘ ضار اور معطی نہیں ہے‘ نفع و ضرر اور عطا و بخشش صرف اس کے دستِ قدرت میں ہے‘ ایسا شخص یقینا انھی اعمال کو اختیارکرے گا جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ اس کی نظر ان چیزوں پر نہ ہوگی جو مخلوق کے قبضہ و تصرف میں ہیں‘ اس کا اعتماد صرف اللہ پر ہوگا اور کسی پر نہیں۔
حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کے وزیر کو اللہ نے توفیق بخشی اور وہ بادشاہ کے دربار سے کنارہ کش ہو گیا۔ بادشاہ نے اُسے پکڑ بلوایا اور دھمکی کے انداز میں کہا‘ کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے؟ وزیر نے کہا‘ ہاں‘ اس لیے کہ میں نے تم سے بہتر بادشاہ کو پا لیا ہے۔ بادشاہ کا غصہ اور بڑھا۔ اس نے پوچھا‘ مجھ سے بہتر بادشاہ کون ہے؟ وزیر نے جواب دیا‘ وہ بادشاہ تم سے بہتر ہے جو مجھے کھلاتا ہے مگر اسے خود کھانے کی ضرورت نہیں‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تمھیں کھلایا نہ جائے تم مجھے کھلا نہیں سکتے۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے جو مجھے سُلاتا ہے لیکن خود اُسے نیند نہیں آتی‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تم سو نہ جائو میں سو نہیں سکتا۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ میری خطائیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں وہ مجھے معاف فرما دیتا ہے‘ لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ معمولی قصور پر بھی مواخذہ کرتے ہو۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ جب میں اس کی خدمت میں لگا تو سارا عالمِ وجود میری خدمت کرنے لگا‘ اور تمھاری خدمت کا حال یہ تھا کہ میں مجبور تھا کہ تمھارے ہر مقرب کی خدمت کروں تاکہ وہ مجھے اذیت نہ پہنچائے۔ یہ سن کر بادشاہ نے جواب دیا‘ تم نے سچ کہا‘ بے شک وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اس کی چوکھٹ سے چمٹ جائو اور اس کی اطاعت کو غنیمت سمجھو۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ایک بار حضرت جنیدؒ بغدادی نے فرمایا: تصوف اجتماع کے ساتھ ذکر‘ استماع کے ساتھ وجد اور اتباع کے ساتھ عمل کا نام ہے۔ شارحین اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’اجتماع‘‘ سے مراد اجتماع ہمت ہے‘ ذکر مع اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ذکر پورے حضور قلب اور حسن نیت کے ساتھ کیا جائے کیونکہ غفلت مذموم ہے اور عمل‘ حسن نیت ہی سے صحیح ہوتا ہے۔ ’’وجد‘‘ تصوف کی اصطلاح میں جذبۂ اشتیاق و محبت کی زیادتی کو کہتے ہیں اور استماع سے مراد کسی ایسی چیز کا سننا ہے جو اس جذبے میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ وجد مع استماع کا مطلب یہ ہوا کہ مؤثر مواعظ یا ایسی باتیں سُن کر جن کی سند کتاب و سنت میں موجود ہو‘ جذبۂ شوق میں زیادتی اور تحریک پیدا کی جائے۔ ’’عمل مع اتباع‘‘ میں اتباع سے مراد اتباع سنت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عمل سنت کے مطابق ہو‘ کیونکہ ہر وہ عمل ‘ یا حال یا مقام جو اتباعِ سنت سے خالی ہو‘ بدعت ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے صحبت یافتہ ابوبکر کتانی نے کہا ہے: تصوف اخلاق جمیلہ سے آراستگی کا نام ہے۔ جو شخص تم سے اخلاق حسنہ میں بڑھا ہوا ہے وہ تم سے صفاے قلب اور تصوف میں بڑھا ہوا ہے۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ذوالنون مصریؒ سے اہل تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب میں کہا: یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ عزوجل کوہر دوسری شے پر ترجیح دی تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر دوسری شے پر ترجیح عطا فرمائی۔
محشیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ کو ہر دوسری شے پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مرضیات اور پسندیدہ چیزوں کو اس کی نامرضیات اور ناپسندیدہ چیزوں پر ترجیح دی جائے‘ اور انھیں دوسری چیزوں پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان کے عمل کے مطابق ان کا درجہ مقرر فرماتا ہے۔
یہ ہے اسلامی تصوف کی حقیقت جسے فلسفیانہ تصوف نے انتہائی پیچیدہ اور ناقابل قبول بنادیاہے۔
اب تک جو تفصیل پیش کی جا چکی‘ اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ سلوکِ باطن کی راہ بھی دین ہی کی روشنی میں طے کی جا سکتی ہے۔ اس روشنی کے بغیر یہ راہ خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ اگر اللہ و رسولؐ کے احکام ‘ دینی حقیقتیں اور اس کے مسلّمات نظر سے اوجھل ہوں یا اوجھل کر دیے جائیں تو اسلامی تصوف‘ ملحدانہ تصوف کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب جاہل اور مکار صوفیوں نے کشف و کرامت‘ ارادتِ قلبی اور الہامات‘ غیر شرعی حقائق اور خدا رسیدگی کے دعوے کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو علماے حق اور صوفیۂ صدق کو پوری قوت سے یہ بتانا پڑا کہ اصل شے شریعت‘ احکامِ الٰہی کی تعمیل اور اس پر استقامت ہے۔ یہ نہ ہو تو تمام دعوے غلط اور گمراہ کن ہیں۔ اصل کسوٹی کتاب و سنت ہے۔ اس پر جانچے اور پرکھے بغیر کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح کی صراحتیں پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ اور ہم یہاں خاص طور سے اس سلسلے کی چند صراحتیں نقل کر رہے ہیں۔
ابویزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی (م: ۲۶۱ھ) کہتے ہیں: اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ اسے کرامتیں دی گئی ہیں یہاں تک کہ وہ ہوا میں اُڑنے لگا ہے ‘اس سے دھوکا نہ کھائو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ امرونہی‘ حدود کے تحفظ اور اداے شریعت کے معاملے میں تم اس کو کیسا پاتے ہو۔ (الرسالۃ القشیریہ)
اس قول کی شرح کرتے ہوئے‘ شیخ الاسلام لکھتے ہیں: بسطامیؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ کرامت تووہ شے ہے جو صاحب ِ کرامت کے ان کاموں میں مددگار ہوتی ہے جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ وہ اس کے یقین کو قوی کرتی اور اللہ کی محبت و رضا پر اسے ثابت قدم رکھتی ہے‘ لہٰذا جب کوئی خارقِ عادت شے کسی بندے سے ظاہر ہو لیکن شریعت اس کی استقامت پر گواہ نہ ہو تو ایسا شخص مکروفریب اور دھوکے میں مبتلا ہے۔ (احکام الدلالۃ ‘شرح الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۹)
ابوسلیمان عبدالرحمن بن عطیۃ الدارانی (م: ۲۱۵ھ) کا ارشاد ہے:میں نے جنید بغدادیؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوسلیمان دارانی فرماتے ہیں: بسااوقات صوفیہ کے لطائف و نکات میں سے کوئی نکتہ کئی دنوں تک میرے دل میں آتا رہتا ہے لیکن میں اس وقت تک اس کو قبول نہیں کرتا جب تک دو شاہد وعادل‘ کتاب و سنت‘ اس کی صحت پر گواہی نہ دیں۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص۱۱۴)
ابوالحسن احمد بن محمد النوری (م: ۲۹۵ھ) کہتے ہیں: جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ اللہ کے ساتھ اپنی کسی ایسی حالت کا دعویٰ کر رہا ہے جو اسے علمِ شرعی کی حد سے باہر نکالنے والی ہے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو کیونکہ وہ بدعتی ہے۔ شریعت جس کے افعال واقوال کی صحت پر گواہ نہ ہو وہ مبتدع ہے اگرچہ اس سے خارق عادت باتیں صادر ہو رہی ہوں۔ کیونکہ یہ اس کے ساتھ ایک طرح کا مکر ہے۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۰)
ابومحمد رویم بن احمد (م :۳۰۲ھ) کہتے ہیں: ’’صوفیہ کا علم روح کو صرف کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ روح کو صرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طاعات کی تعمیل اور شہوات سے اعراض میں اپنی پوری کوشش لگا دی جائے۔ رویم نے کہا: اگر تم اس وصف کے ساتھ اس راہ میں آنا چاہو تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے آپ کو صوفیہ کی یاوہ گوئی میں مشغول نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمل کے بغیر محض صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کرنے اور ان کے باطل طریقوں اور اعمال سے خالی بکواس میں مشغول ہونے سے حقیقی تصوف حاصل نہیں ہوتا۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۳)
حضرت رویم کا یہ قول دیکھیے اور آج کل کے ’’صوفیہ‘‘ کو دیکھیے۔ ۹۰ فی صد ایسے ہی لوگ ہیں جو صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کر کے اور ان کی لایعنی باتوں میں مشغول ہو کر ’’صوفی‘‘ اور ’’صحیح العقیدہ‘‘ مسلمان بنے ہوئے ہیں‘اور ان کے مقابلے میں جو لوگ فرائض و واجبات کے پابند اور معاصی سے پرہیز کرنے والے ہیں انھیں تصوف کا منکر اور بدعقیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخراز (م: ۲۷۷ھ) کہتے ہیں: ’’ہرباطن‘ جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے‘‘۔ باطن سے مراد وہ بات ہے جو دل میں آتی ہے اور ظاہر سے مراد شریعت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دل کی جس بات کو شریعت صحیح قرار نہ دے وہ باطل ہے۔ (ایضًا‘ ص ۶۸)
اس کے قریب سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا یہ قول بہت مشہور ہے: اور ہر حقیقت‘ جسے شریعت رد کر دے وہ بے دینی ہے۔ (فتوح الغیب مع شرح ‘ ص ۷۶)
اس جامع اور بلیغ جملے کی شرح میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے: اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکم شریعت کے خلاف کسی پر کوئی کشف ہو اور وہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کا حکم دیا گیا ہے تو یہ دعویٰ باطل ہے‘ اور اگر وہ اس کے صحیح ہونے کا اعتقاد کرے تو کافر اور بے دین ہو جائے گا۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ (شرح فتوح الغیب‘ ص ۷۶)
شیخ جیلانی ؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اگر دل میں کوئی خیال آئے یا کسی بات کا الہام ہو تو انھیں کتاب و سنت پر پیش کرو۔ (فتوح الغیب‘ ص ۷۲)
یہ قاعدئہ کلّیہ بیان کر کے شیخ جیلانی قدس سرہ نے اس کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں‘ سب کا حاصل یہ ہے کہ غیرنبی کا الہام دلیلِ شرعی نہیں ہے‘ دلیلِ شرعی کتاب و سنت ہی ہیں۔ یہی دونوں فیصلہ کریں گے کہ وہ الہام قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہے یا نہیں۔
ان عبارتوں سے واضح ہوا کہ کرامت ہو یا کشف یا الہام یا کوئی بھی خواب و خیال‘ جب تک کتاب و سنت ان کے صحیح ہونے پر گواہی نہ دیں وہ لائق اعتبار بھی نہیں ہیں‘ ان کا قابلِ عمل ہونا تو دُور کی بات ہے۔
تربیت کے معنی ترقی اور نشوونما کے ہیں۔ ترقی اور نشوونما کسی سمت میں اور کسی منزل کی طرف ہوتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بہت سے سانچوں میں ڈھال سکتا ہے اور جو شخصیت اور صلاحیتیں اللہ نے عطا کی ہوں ان کو بہت سارے پہلوئوں سے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اُس مقصد کے حصول کے لائق بنائیں‘ اُس کا اہل بنائیں جو ہمارے پیشِ نظرہے۔ اس لحاظ سے تربیت کا عمل‘ اس کا نہج‘ اس کا طریقۂ کار اور اس کے اجزا مقصد کے لحاظ سے متعین ہوں گے۔
فوج میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جسمانی طور پر اور لڑنے کی صلاحیت کے لحاظ سے اتنی تربیت ہو کہ جنگ جیتی جا سکے اور دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک مدرسے میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ علمی صلاحیتیں‘ علم کی تطبیق‘ بیان و اظہار اور تجزیے کی صلاحیتیں پروان چڑھائی جائیں۔ اس لحاظ سے جب ہم تربیت کے لیے جمع ہوں تو زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ چیز روزِ روشن کی طرح واضح ہو کہ وہ کیا مقصد ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہم اپنی شخصیت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ جتنا وہ مقصد صاف اور واضح ہوگا‘ اتنی ہی صحیح سمت میں‘ صحیح راستے پر‘ صحیح طریقے سے آگے بڑھنا اور اپنی منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔
ہمیں ایک جماعت کی صورت میں جمع کرنے اور منظم کرنے والی چیز اس دنیا میں غلبۂ اسلام کی جدوجہد ہے۔ اس کے لیے اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ایک اچھا مسلمان ہونے کے لیے ایمان اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں لگائے۔ چونکہ اب عرصے سے ایک اچھے مسلمان کی تعریف سے یہ حصہ خارج ہو چکا ہے‘ اس لیے ہم کو اس کو بھی علیحدہ سے اپنے ذہن میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایسا مسلمان‘ مسلم‘ مطیع‘ متقی اور محسن بندہ دیکھنا چاہتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہو‘ جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ ہماری کوشش ہو کہ ہم ویسا بنیں اور اگر ویسا نہ بن سکیں تو اس کے جتنے قریب پہنچ سکیں اتنا قریب پہنچیں‘ اور ایسا بننے کی کوشش میں لگے رہیں‘ کم از کم اس کوشش سے بے نیاز نہ ہوں۔ لیکن اسی کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد میں ہم اپنی قوتیں‘ صلاحیتیں‘ محنتیں‘ مال و دولت‘ یہ سب لگانے کے قابل ہوں۔
اگر ہم تربیت کے مقصد کو بہت مختصر انداز میں بیان کرنا چاہیں‘ ذہن نشین کرنا چاہیں تو بنیادی طور پر تووہ مقصد اللہ کی جنت کا حصول ہے جس کی طرف اس نے اپنی کتاب ہدایت میں بار بار بلایا اور پکارا ہے اور دعوت دی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِـّکُمْ وَجَـنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تربیت کا وہی عمل مفید ہوگا جس میں تربیت کرنے والے کی نگاہوں میں یہ منزل ہمیشہ واضح رہے اور اسی پر نگاہیں جمی رہیں۔ اسی کے لیے بے چینی اور خلش رہے کہ میں وہ کام کروں کہ میرا قول و فعل اور عمل مجھے جنت کے قریب کر دے‘ اور ان کاموں سے دُور رہوں جو جنت سے دُور کریں اور نارِ جہنم سے قریب کر دیں۔ اگر میں بات یہیں ختم کر دوں تو یہ بھی کافی ہے۔ اس لیے کہ تربیت کے لیے بہت طویل تقریروں کی اور لمبے مباحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آدمی ایک ہی بات پا لے تو یہ اس کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے۔
حدیث میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے عرض کی کہ اُس کو قرآن کی کچھ تعلیم دیں جس کو وہ باقاعدگی سے پڑھا کرے اور اس سے ہدایت حاصل کرتا رہے۔حضورؐ نے حضرت علیؓ کو اس کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا۔ انھوں نے اس کو سورئہ زلزال کی تعلیم دی۔ جب آخری آیت پر پہنچے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)’’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘--- اس نے کہا یہ میرے لیے کافی ہے۔ غور کیجیے کہ اگر اتنی ہی بات کسی آدمی کے ذہن میں رہے کہ اگر وہ ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ سامنے آئے گی اور ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ بھی سامنے آئے گی‘ تو یہ بھی اس کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے اور صحیح راستے پر چلانے کے لیے کافی ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ نے حضورؐ کے سامنے اس بات کو بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو‘ وہ آدمی تو فقیہہ بن گیا۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ دین کا ماحصل کیا ہے۔ دین کا ماحصل تو یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ اس اندیشے اور اس خیال سے اپنے اعمال پر نگاہ رکھے کہ اسے ان کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہے۔
اگر ہم صرف اتنی بات کو بھی پا لیں کہ اس ساری تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی جنت کی منزل سے قریب ہوسکیں‘ اور یہی ایک ترازو اگر ہاتھ میں رہے اور دل میں لٹکی ہوئی ہو اور جو بات بھی منہ سے نکلے اور جو کام بھی کیا جائے ‘ اور جہاں بھی آدمی کا وقت لگے اور مال خرچ ہو‘ وہاں توجہ صرف اسی طرف ہو اور اسی ترازو پر ہم تول کردیکھ لیں کہ آیا یہ مجھے اپنی منزل سے قریب کرنے والی چیز ہے یا دُور کرنے والی‘ تو صرف یہی ایک بات بھی ایک فرد کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے‘ اگر اس کو اختیار کرلیا جائے۔
تربیت کے لیے جس عمل اور محنت کی ضرورت ہے وہ منزل کی مناسبت سے آدمی کو نصیب ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کے سامنے وہ منزل ہو کہ جس کی وسعت میں زمین و آسمان سماجائیں تو اسی کی مناسبت سے وہ اپنی تربیت کریں گے‘اور جتنی وسیع جنت ہے اتنی ہی وسعت اور اتنی ہی بلندی پر اڑان اور پرواز کے لیے‘ ان کے پاس میدان ہوگا اور فضا ہوگی۔ اس کے نتیجے میں انسان کے دل‘ نظر‘ سوچ اور اخلاق و اعمال سب میں یہ وسعت پیدا ہوگی۔اصحاب الجنۃ‘ جو جنت میں جانے والے ہیں‘ ان کا جو سانچہ قرآن مجید نے پیش کیا ہے اس کے مطابق وہ اپنے آپ کو بنائے گا۔ درحقیقت اصل چیز تو منزل کا شعور اور اس کا واضح ہونا اور اس کا مطلوب ومقصود بننا ہے‘ اور اس کی خاطر کوشش کرنا اور محنت کرنا ہے اور اسی پر نگاہیں جمائے رکھنا ہے۔
نصب العین کے معنی نگاہ کو کسی چیز پر جما دینے کے ‘ نظر کو ٹھیرا دینے کے ہیں۔ چنانچہ جہاں نگاہ اٹک جائے وہاں دل بھی اٹک جاتا ہے‘ اور جس کے نگاہ اور دل دونوں اسیر ہو جائیں تو پھر پورا عمل اور زندگی اسی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی نگاہ و دل جہاں ٹھیرنی چاہیے‘ جو اس کا مطمح نظر ہونا چاہیے‘ اور جس کی اسے تلاش اور طلب ہونی چاہیے وہ جنت ہے! لہٰذا نگاہ جس کی تلاش میں رہے وہ جنت ہے اور دل میں جس کی طلب اور آرزو ہو وہ جنت ہے اور جس کے اوپر اپنی کوششوں کو‘ اعمال کو‘ محنتوں کو اور اپنے آپ کو جانچنا چاہیے وہ جنت ہے۔
تربیت کی راہ میں یہ پہلی چیز ہے جو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے۔ جنت کے حصول کے لیے بہت سارے اعمال ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا عمل ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ اسی لیے ایمان کی نشانیوں میں ‘ ایمان کی علامتوں میں ‘ اور ایمان میں سچے اور کھرے ہونے کی کسوٹی میں یہ بھی ہے کہ درحقیقت مومن وہی ہیں جو ایمان لائیں اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو اونٹ کے کوہان سے تشبیہ دی ہے۔ گویا دین میں جو سب سے اعلیٰ اور اونچا مقام ہے وہ جہاد کو حاصل ہے۔ ہماری یہ تحریک قائم ہی اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اسی چیزنے ہم سب کو جمع کیا ہے کہ دین کے مطالبات میں اقامت دین کا مطالبہ‘ اور دین کے فرائض میں سے جہاد کا فرض‘ اور دین میں مطلوب اشیا میں سے دین کے غلبے کا کام‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سرفہرست ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے قرب اور اس کی طرف توجہ‘ اس کی طرف رغبت اور اس کی قربت اور اس کے ساتھ مناجات اور اس کی خاطر بھوکا پیاسا رہنا اور اس کی خاطر اپنی محبوب دنیا کو قربان کرنا‘ یہ چیزیں کوئی کم درجے کی ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیںاور لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قرآن مجید کی مختلف سورتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کا حکم ساتھ ساتھ دیا ہے۔ اگر ایک طرف یہ فرمایا کہ قُمْ فَاَنْذِرْ o (مدثر ۷۴:۲) ’’اٹھ اور (لوگوں کو) ڈرا‘‘ تودوسری طرف فوراً بعد یہ حکم بھی دیا کہ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (مزمل ۷۳: ۱ -۲) ’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘‘۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (’’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘۔(مزمل ۷۳:۸)۔ اگر یہ فرمایا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ o (والضحیٰ ۹۳:۱۱)‘ کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی نعمت دی ہے اس کو دوسروں تک پہنچائو‘ بیان کرو تو اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ o (الم نشرح ۹۴:۷)‘ کہ جب بھی فارغ ہو تو پھر اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ جوڑو‘ اسی کی طرف رغبت اختیار کرو۔ اگر یہ حکم دیا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ یعنی اللہ کے نام سے پڑھو اور سنائو جوہدایت کہ تمھارے پاس آئی ہے تو آخر میں یہ بھی فرمایا کہ سجدہ کرو اور اس سے قریب ہوجائو۔ جہاں یہ فرمایا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ (الحج ۲۲:۷۸)‘ کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘ اور اسی کے لیے اس نے تم کو منتخب کیا ہے ‘ وہاں یہ بھی فرمایا کہ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُo (۲۲:۷۸) ‘اللہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے بہترین دوست اور بہترین مددگار۔ گویا جہاں بھی اقامت دین کا‘ خدا کی طرف بلانے کا حکم دیاہے وہاں خدا سے تعلق مضبوط کرنے کا حکم بھی دیا ہے‘ اس سے بھی ان دونوں پہلوئوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جہاد کا کام اللہ کے ساتھ گہرے تعلق اور للہیت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن جوچیز مقصود ہے‘ وہ یہی ہے کہ انسان اپنے ارادے سے اللہ کی بندگی اختیار کرے اور اس کی راہ میں اپنی جان و مال‘ سب کچھ لگا دے۔جو کچھ اللہ نے دیا ہے وہ بھی لگا دے اور اگر وقت آئے تو اپنا سر بھی اس کے قدموں میں نثار کر دے۔
تربیت کے مقصد کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جو کام ہمیں کرنا ہے‘ اس کام کے جو تقاضے اور مطالبات ہیں‘ ان کی مناسبت سے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمیں اس بات کا پورا ادراک‘ شعور اور فہم ہو کہ ہم دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں۔
ہم نے پہلے دن سے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ہمارے سامنے جو مقصد ہے وہ ایک نئی دنیا کی تعمیر ہے۔ اس کو ہم ’’عالمگیر اسلامی انقلاب‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور ’’امامت عالم کے منصب کو حاصل کرنے‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے ’’انسانی زندگی کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لینے‘‘ کی تعبیربھی اختیار کی ہے لیکن سب کا مقصد ہے دنیا کی امامت‘ انسانوں کی رہنمائی اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی تعمیر۔ یہ دراصل ہمارا مقصد ہے اور ہرشخص کے سامنے یہمقصد واضح ہونا چاہیے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان باصلاحیت ہو‘ بہت اچھا بولنے والا ہو‘ اچھا لکھنے والا ہو‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو تب ہی وہ دنیا کی قیادت سنبھال سکتا ہے۔ اس امت کے اولین دور میں جن لوگوں نے دنیا کی امامت سنبھالی اور ساری دنیا کو فتح کرلیا وہ مکہ کے چھوٹے چھوٹے تاجر تھے۔ مدینہ کے معمولی کسان اور عرب کے صحرائوں میں بکریاں چَرانے والے بدو تھے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں تو بڑا حقیر ہوں اور میرا کام اتنا ہی ہے کہ اپنے گائوں میں ایک اجتماع کر لیا کروں‘ بس اتنا ہی کام کافی ہے۔ ممکن ہے کرنے کا کام بہت تھوڑا ہو لیکن ذہن میں اس بات کا واضح اور صاف ہونا بہت ضروری ہے کہ اصل مقصد وہ نہیں ہے جو آدمی گائوں میں کر رہا ہے‘ اصل مقصد اجتماع کرنا یا کتاب پڑھا دینا بھی نہیں ہے‘ اور اصل مقصد جلوس نکالنا بھی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو ساری دنیا کو تبدیل کر دینا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں جو جگہ جگہ ہو رہی ہیں‘ وہ سب مل کر اس عظیم الشان مقصد کی کامیابی کا ذریعہ ضرور بنیں گی۔ لیکن جب تک ہر کوشش کا رخ وہی نہ ہو اور ہر کوشش سے مطلوب وہی عظیم الشان تغیر وتبدل نہ ہو‘ اس وقت تک انسان وہ نہیں بنے گا جو وہ بننا چاہے۔
عرب کے بدو‘ کسان اور تاجر اس لیے عظیم الشان انسان بن گئے تھے کہ ان کو یہ بات معلوم تھی اور ان کے سامنے یہ منزل واضح اور روشن تھی کہ بالآخر قیصروکسریٰ کے محلات اور ان کی سلطنتیں ان کے ماتحت آنے والی ہیں۔
مکہ میں بھی یہ بات عام تھی کہ اگر تم لوگوں نے لا الٰہ الا اللہ کو اختیار کرلیا تو عرب اور عجم تمھارے زیرنگیں آجائیں گے۔ ہجرت کی طرف سفر کرتے ہوئے جب دو آدمی اس حالت میں نکلے تھے کہ پیچھے دشمن قتل کے درپے تھا اور آگے مدینہ میں کیا صورت حال پیش آنے والی تھی‘ آیا پناہ ملے گی بھی یا نہیں‘ اس کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی حضورؐ نے سراقہ بن جعشم کو جب امان کا پروانہ لکھ کر دیا تھا تو یہی پیشنگوئی فرمائی کہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھ میں ہوں گے۔
غور کیجیے کہ کن حالات میں یہ بات کہی جا رہی ہے۔ اوپر سورج ہے اور نیچے ریگستان‘ کوئی لشکر اور فوج نہیں ہے اور ایران کی حکومت اس وقت کی سپرپاور ہے اور ایسے میں آپؐ پیشنگوئی فرماتے ہیں کہ اے سراقہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
غزوئہ خندق کا واقعہ اپنے ذہن میں تازہ کیجیے کہ ہزاروں کا لشکر مدینہ کو تباہ کرنے کے لیے پورے عرب سے اُمڈ آیا ہے۔ پشت پر یہودی چھرا گھونپنے کے لیے تیار تھے۔ کہیں سے بھی کوئی سلامتی کی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ لوگوں کے دل سینوں میں اُلٹ رہے تھے‘ حالات دیکھ کر حوصلے پست ہو رہے تھے۔ صرف ایک چھوٹی سی خندق نے مدینہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں جب وہ خندق کھودی جا رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودنے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھے۔ ایک موقع پر ایک سخت چٹان پر گدال مارتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ پھر دوسرا گدال چٹان پر مارا اور فرمایا کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے دشمن گھیرے میں لیے ہوئے تھا اور ذرا سی چوک سے مدینہ تباہ و برباد ہو سکتا تھا‘ اس وقت بھی آپؐ کی نظر عالمِ انسانیت کی امامت پر تھی اور جو منصب ابراہیم علیہ السلام کے سپرد کیا گیا تھا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ ۲:۱۲۴) ’’میں تم کو سارے انسانوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘، وہی منصب سامنے تھا۔
یہ بات میں نے اتنی تفصیل سے اس لیے بیان کی ہے کہ تربیت میں جہاں ایک طرف نظر اس جنت پر ہونی چاہیے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں اور اسی کی طرح اپنے آپ کو بنانا چاہیے‘ وہاں دوسری طرف دنیا کی منزل بھی سامنے رہنی چاہیے ۔ سوچ میں‘ اعمال میں‘ برتائو میں‘ اخلاق میں وہی رویہ کارفرما ہونا چاہیے جو اہل جنت کی سوچ‘ اہل جنت کے اخلاق اور اہل جنت کے اعمال میں مطلوب ہے۔ نظر اور قلب میں وہی وسعت ہونی چاہیے جیسی کہ جنت کی وسعت ہے‘ اور فیصلوں میں وہی شادابی اور تازگی ہونی چاہیے جو جنت کی شادابی اور تازگی ہے‘ اور وہی سدابہار حوصلے اور محنتیں درکار ہیں کہ جس طرح سدابہار جنت کے پھل ہیں‘ اور اسی طرح کے ایمان اور اخلاق کی بہتی ہوئی نہریں ہونی چاہییں جو کہ جنت میں بہہ رہی ہوں گی۔ دنیا میں جب یہ سب کچھ ہوگا تب جاکر ہی جنت نصیب ہوگی اور دنیا کی امامت کی منزل سر ہوگی۔
دنیا کے اندر جو منزل ہے وہ کسی ضلع‘ گائوں اور دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ منزل تو اس ملک کو اور سارے عالم کو اس کے پیدا کرنے والے کے لیے مسخر کرنا ہے۔ کوئی آدمی جس کی صلاحیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ وہ گونگا ہو یا بہرہ‘ دیہاتی ہو یا اَن پڑھ‘ ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میں اس قافلے میں شریک ہوں جو بالآخر اس سارے عالم پر غالب آنے والا ہے۔ اس سے ایک فرد کی سوچ اور صلاحیتیں پروان چڑھیں گی۔ اگر یہ مقصد واضح اور صاف ہو اور نگاہوں کے سامنے موجود ہو تو پھر اسی لحاظ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا ہوگی اور تربیت اور عمل کے لیے جو محنت اور کوشش درکار ہے وہ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
تربیت کا انحصار نہ افراد کے جمع ہونے پر ہے‘ نہ تقریروں پر اور نہ دروس قرآن پر ہی ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات پر ہے۔ تربیت کی کنجی تقریروں میں یا دوسروں میں تلاش نہ کیجیے بلکہ وہ کنجی آپ کے دل میں ہے‘ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر صرف گفتگوئوں اور تقریروں سے تربیت ہوجایا کرتی تو انبیا علیہ السلام کی اتنی موثر وعظ و نصیحتیں اور تقاریر رائیگاں نہ جاتیں۔ جولوگ نہ ماننا چاہتے تھے ان کو ایمان کی دولت بھی نصیب نہ ہوئی‘ اور جو لوگ کوئی کام نہ کرنا چاہتے تھے ان سے کوئی نیک عمل صادر نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حکمت کے تحت پیدا کر کے دنیا میں بھیجا ہے اس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ ہم میں سے ہر شخص کو الگ الگ آزمانا چاہتا ہے۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)‘ یعنی موت اور زندگی کی یہ ساری بساط بچھائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہمیں آزما کر دیکھ سکے کہ ہم میں سے کون حسنِ عمل‘ نیک عمل کرتا ہے۔نیکی ہی حسین ہوتی ہے۔ جس کے اعمال نیک ہوتے ہیں اسی کے اعمال حسین بھی ہوتے ہیں۔ یہی اس دنیا میں پیدایش کا مقصد ہے اور اس کے لیے اپنا ارادہ‘ اپنا عزم اور اپنی کوشش ہی وہ معیار اور ذریعہ ہے جس سے کسی کی تربیت ممکن ہے۔
اگر ہم یہ چاہیں کہ کسی کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ ہلائے تو اس کے نتیجے میں تربیت ہو جائے اور ہم نیک بن جائیں‘ تو یہ جادو کی چھڑی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھی نہیں عطا کی تھی۔ انبیا کو بھی محنت کرنا پڑتی تھی اور انبیا کی بات بھی وہی سنتے تھے کہ جو سننا چاہتے تھے۔ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی (النمل ۲۷:۸۰) ’’تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَو کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَo (یونس ۱۰:۴۳) ’’مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟‘‘
سیدنا مسیح علیہ السلام کے معجزات تو ایسے تھے کہ مفلوج چلنے لگتے تھے اور اندھے دیکھنے لگتے تھے اور کوڑھی اچھے ہوجایا کرتے تھے اور مٹی کے پرندے اڑنے لگتے تھے اور مردے زندہ ہوجایا کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کے وہ عوام‘ علما اور فقہا جو بیت المقدس میں آپ کی باتیں سن رہے تھے ان کے اندھے پن کا‘ ان کی بے عملی کا اور ان کی مفلوجیت کا کوئی علاج نہ ہو سکا تھا۔ اس لیے کہ انھوں نے خود اپنا علاج نہیں کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت چاہتا ہے۔ اسی کی بہتری چاہتا ہے جو اپنی بہتری چاہتا ہے اور بہتری کے لیے کوشش کرتا ہے۔
جب تک اس نکتے کو نہیں سمجھا جائے گا کہ تربیت کا انحصار تقریروں‘ درس قرآن یا گفتگو پر نہیں ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات‘ مرضی اور ارادے پر ہے‘ تربیت نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے عمل میں ایک شخص کی ذات کی حیثیت وہی ہے جو ایک کسان کے لیے کھیت کی ہوتی ہے‘ ایک دکاندار کے لیے اس کی دوکان کی ہوتی ہے اور ایک تاجر کے لیے اس کے کاروبار کی ہوتی ہے۔ ایک کسان خوب جانتا ہے کہ گھربیٹھ کر دعا کرنے سے یا کسی اور کے دعا دینے سے یا آسمان سے بارش کے برسنے سے فصل نہیں اگے گی۔ وہ ہل لے کر نکلے گا‘ ہل چلائے گا‘ بیج بوئے گا‘ اس کی نگہداشت کرے گا‘ تب جاکر پانی بھی فائدہ دے گا‘ سورج بھی گرمی پہنچائے گا‘ بیج بھی نشوونما پائے گا‘ درخت بھی نکلے گا اور پھل بھی آئیں گے۔ اس محنت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اس کو اپنے کھیت کی ذمہ داری خود سنبھالنا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر کھیت اس کو فصل دے گا۔ دکان دار بھی جانتا ہے کہ وہ اگر دکان پر تالا ڈال کر گھر بیٹھا رہے تو کسی چھو منتر سے دکان کھل کر اس کو نفع نہیں دے گی۔ کسی کے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے۔ اس کو دکان کھولنا ہی پڑے گی‘ صبح سے شام تک مال بیچنا پڑے گا‘ خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا‘ تب کہیں جاکے چار پیسے کھرے ہوں گے۔
اسی طرح یہ دکان جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں لگا دی ہے اور یہ کھیتی جو اس نے آپ کو اپنی روح اور اخلاق کی دی ہے ‘اس کو سینچنے کی ذمہ داری آپ کو خود اٹھانا پڑے گی۔ جب آپ یہ عزم کریں گے کہ اللہ نے مجھ کو وہ کچھ بخشا ہے کہ جس کی اگر میں تربیت کروں تو وہ اس لائق ہو سکتا ہے کہ ملائکہ سے بھی اوپر جاکر اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ منزل موجود ہے‘ وہاں پہنچنا بھی مشکل نہیں ہے لیکن پرواز خود کرنا پڑے گی۔ اگر میرے اندر حوصلہ اور ہمت نہیں ہے تو میں منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جنت بھی میرے نصیب میں آسکتی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائے‘ اور امامت عالم کا وہ منصب کہ جہاں دنیا کی ساری طاقتیں اسلام کے مقابلے میں سرنگوں ہوجائیں وہ بھی میرے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی بغیر محنت اور کوشش کے مجھے نہیں مل سکتی۔
ایک طرف اگر آپ کے سامنے منزل ہو اور دوسری طرف آپ کو اس امکان پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہوں گے اور تیسری طرف اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ نہ تقریروں سے تربیت ہوتی ہے نہ دروس قرآن سے اور نہ تربیت گاہ سے ہی تربیت ہوتی ہے بلکہ تربیت صرف اپنے عمل اور کوشش سے ہوتی ہے‘ تو آپ تربیت کی کنجی کو پالیں گے۔ اس کے بعد تقاریر‘ درس قرآن‘ تربیت گاہیں اور ماحول اس کھاد‘ پانی اورروشنی کی طرح کام کرتے ہیں جس سے بیج کو پروان چڑھایا جاسکتا اور تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کوشش ہی نہ کریں‘ بیج ہی نہ ڈالیں‘ اس کی نگہداشت نہ کریں تو پھر پانی‘ کھاد‘ زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو‘ سونا اگلنے والی ہی ہو‘ وہ آپ کو کچھ نہیں دے گی۔
ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے سونا اُگلنے والی مٹی رکھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے مثال دی کہ عرب کے بدو معمولی انسان تھے لیکن دنیا کے قائد بن گئے۔ جواَن پڑھ تھے‘ اُمّی تھے‘ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو بہترین جرنیل‘ حکمران‘ علما اور جج اور فقہا ثابت ہوئے۔ مدینہ کی درس گاہ سے وہ لوگ بن کر نکلے کہ جنھوں نے سارے عالم پر حکومت کی اور ہزاروں برس تک دنیا کی رہنمائی کی۔ ان میں قیادت کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ اپنی صلاحیتوں سے بے خبر تھے۔ جس طرح ایٹم کا چھوٹا سا ذرّہ نہیں جانتا کہ اس کے اندر کتنی بڑی قوت پوشیدہ ہے۔ جب ایٹم کا وہ معمولی ذرّہ خود سے آگاہ ہو جاتا ہے یا کوئی دوسرا اس کو آگاہ کر دیتا ہے تو وہی اتنی بڑی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ ایٹم بم بن کے لاکھوں انسانوں کو ایک سیکنڈ میں تباہ کر سکتا ہے اور لاکھوں کلوواٹ کی قوت پیدا کرسکتا ہے۔
اسی طرح ہر انسان کے اندر وہ امکانات موجود ہیں کہ وہ بہت اونچا اڑ سکتا ہے‘ بہت اونچی پرواز کر سکتا ہے اور وہ ساری منازل طے کرسکتا ہے جو منازل اللہ نے انسان کے لیے کھول دی ہیں‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ میرے کرنے سے ہی ہوگا۔
اگر ایک شخص محض خواہش ہی کرتا رہے‘ تمنا ہی کرتا رہے‘ دعا کرتا رہے اور دوسروں سے دعائوں کی درخواست کرتا رہے اور یہ سوچے کہ تمنائوں اور آرزوئوں سے کام چل جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اس سے کام نہیں ہوگا۔ اصل چیز عمل ہے۔ عمل کم ہو یا زیادہ‘ عمل سے ہی زندگی بنتی ہے‘ جنت بھی جہنم بھی۔ جب آپ کچھ کرنے پر لگ جائیں گے خواہ تھوڑا کریں‘ تو تھوڑا تھوڑا کر کے بہت ہو جاتا ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے دریا بن جاتا ہے‘ ذرہ ذرہ مل کر ریگستان بن جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے آپ نیک اعمال اختیار کرلیں گے اور ایک ایک کرکے اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرلیں گے۔ البتہ یہ سب کچھ خود کرنے سے ہوگا۔ اگر خود کام نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔یہ تربیت کا بڑا اہم پہلو ہے جو ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے۔
تربیت کے عمل میں ایک اہم پہلو ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا ہے۔ یہ دین کی راہ میں اور تربیت میں بڑا بنیادی عمل ہے۔ انسان کی پوری زندگی اسی چیز میں بسرہوتی ہے کہ مختلف چیزیں انسان کی توجہ‘ اس کے مال‘ اس کے عمل اور اس کی محنت کی طلب گار ہوتی ہیں۔ اب اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسے ترجیح دے اور کسے رد کرے۔ نیکی اور بدی ایک ساتھ آجائیں تو کسے اختیار کرے؟ دو چیزیں وقت مانگتی ہیں‘ کس کو وقت دیا جائے؟ بعض دفعہ بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سردیوں کی صبح ہے‘ گرم گرم بستر ہے‘ موذن کی آواز بلند ہوجاتی ہے‘ اب یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ گرم بستر چھوڑ دوں اور رب کی پکار پر لبیک کہوں یا سوتا پڑا رہ جائوں۔ گھر میں کسی کام میں مشغولیت ہے‘ اذان کی آواز آجاتی ہے‘ یہاں بھی ترجیح کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ نماز کے ذریعے پانچ وقت اسی چیز کی تربیت ہوتی ہے۔
اس طرح ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا یہ عمل ساری عمرجاری رہتا ہے۔ اسی ترجیح کی بنا پر انسان کو اپنے بہت سے سارے رشتہ دار‘ اپنے تعلقات اور بعض دفعہ اپنا ذاتی مفاد تک قربان کرنا پڑتا ہے۔ البتہ ترجیحات کے اس عمل میں ہمیشہ ترجیح اس کام کو دی جانی چاہیے جس میں اللہ کی رضا ہو اور جس سے دنیا میں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات حصے میں آتے ہوں۔ اسی کو ترجیح دینا چاہیے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو لگانا چاہیے۔
اپنی منزل کی طرف جستجو‘ مختلف امور پر مختلف امورکو ترجیح دینا‘ اسلام میں بہت ساری عبادات میں اس کی تربیت دی گئی ہے۔ پانچ وقت نماز میں اسی بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ سارا کام چھوڑ کر نکل جائو‘ اللہ کے گھر تک جائو‘ نماز ادا کرو اور واپس آجائو۔ یہ اپنی ذات پر اور اپنے مفاد پر خدا کے حکم کو ترجیح دینا ہے اور اس کی تربیت ہے۔نماز تو گھر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گھر میں‘ تنہائی میں‘ یا کسی گوشے میں کھڑے ہوکر نماز ادا کی جائے تو مسجد کے مقابلے میں شاید زیادہ خشوع و خضوع ہوتا اور زیادہ توجہ ہوتی۔ گھر میں پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں مسجد میں نماز کی ادایگی ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ مسجد میں شاید خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہو لیکن یہ تربیت کہ آدمی اللہ کی پکار پر لبیک کہے اور سب کچھ چھوڑ کے نکل کھڑا ہو‘ سارے کاروبار ترک کر دے اور اللہ کی پکار پر حاضر ہو جائے‘ نماز باجماعت اور مسجد میں آئے بغیر ممکن نہیں۔ سورۂ جمعہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘۔
اللہ کو یاد کرنا‘ تنہائی میں خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اپنی جگہ فضیلت رکھتا ہے اس کے لیے اور مقامات ہیں۔ لیکن اللہ کی پکار پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی یاد کی طرف دوڑ پڑنا اور سارا کاروبار زندگی ترک کر دینا‘ یہ اصل چیز ہے جو مطلوب ہے اور نماز کے ذریعے اس کی بار بار یاد دہانی اور تربیت کی جاتی ہے۔ جب آپ گوشے میں کھڑے ہیں تو کوئی چیز قربان نہیں کر رہے ہیں لیکن جب آپ گھربار چھوڑ کر نکلتے ہیں تو آپ قربانی دیتے ہیں اور اصل چیز تو یہ ترجیح‘ ایثار اور قربانی ہی ہے جس سے شخصیت بنتی ہے۔
صبح سے شام تک بارہا اس سوال کا سامنا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے‘ کسے ترجیح دی جائے اور کسے نہ دی جائے‘ یہ کیا جائے اور وہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح یہ پہلو کہ غصہ آ رہا ہے یہ بات منہ سے نکالنی چاہیے یا نہیں‘ یہ وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرنے میں میرا یہ نقصان ہوتا ہے وعدہ پورا کروں یا نہ کروں‘ سچ بولوں تو یہ نقصان ہوگا اور جھوٹ بولوں تو یہ فائدہ‘ آیا سچ بولوں یا جھوٹ‘ اگر ملکی انتخابات ہیں ترجیحات کا مسئلہ پیش آتا ہے کہ کس کا ساتھ دیا جائے۔ گویا قدم قدم پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔ عملاً تربیت یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت ساری چیزوں کو ترک کرتے ہیں اور یہ تربیت مسلسل ہوتی ہے۔
حج کی تربیت بھی یہی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آدمی جاتا ہے اور ایک پتھر کے گھر کے گرد چکر کاٹتا ہے اور ایک میدان میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہے اور واپس آجاتا ہے۔ حج کا خلاصہ جو میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ حج کے اندر کوئی چیز کرنا یا پڑھنا ضروری ‘ لازمی یا ناگزیر نہیں ہے کہ جس کے بغیر حج نہ ہوسکے۔یہ سب کس لیے ہے‘ اسی لیے کہ اللہ کی راہ میں نکلو اور اس کی پکار پر لبیک کہو اور اس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دو‘ گھر بھی چھوڑ دو‘ رشتہ داروں کو بھی چھوڑ دو‘ لباس بھی بدل لو‘ سفر کرو‘ اس کے گھر تک آئو۔ اللہ ہی کو اپنا محبوب سمجھو‘ اسی کے لیے اس کے گھر کے گرد چکر لگائو‘ اسی کے دربار میں حاضری دو اور اسی کے سامنے کھڑے ہوجائو۔ یہی دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ دین کی خاطرجدوجہد اور اس کے لیے قربانی کی تربیت ہے۔
انسان تنہا نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی تو بنتی ہی دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں ہے۔ بیوی بچے‘ ماں باپ‘بھائی بہن‘ دوست احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ مختلف تعلق ہیں جن پر انسانی زندگی محیط ہے۔ دراصل انسان کا امتحان ہی یہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق میں عدل اور احسان کے اوپر قائم رہے۔ دوسروں کے حقوق پورے پورے ادا کرے۔ اگر کسی کے ساتھ بات کرے تو بہترین بات کرے‘ یا بھلی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ اگر کسی کے ساتھ معاملہ کرے تو انصاف کا معاملہ کرے‘ احسان کا معاملہ کرے۔ اپنی ذات سے کسی انسان کو ایذا نہ پہنچائے۔ راستے میں اگر کوئی ایذا پہنچانے والی چیز ہو تو اس کو بھی ہٹا دے۔ اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کسی کتے کو پیاسا دیکھیں اور اس کو پانی پلا دیں تو اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں بلی کو آدمی بھوکا مار دے تو اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
باہم مل جل کر رہنے میں‘ تعلق‘ رشتہ داری اور حقوق کی ادایگی میں ناگواریاں ہو سکتی ہیں اور تلخیاں بھی۔ مگر یہ سب صبر کرنے‘ محبت کرنے‘ ایک دوسرے سے قریب آنے کی تربیت کا ایک ذریعہ اور موقع ہے جو درس و تقریر سے الگ ہٹ کے میسرآسکتی ہے۔
اسی طرح اپنے ماحول سے آدمی سیکھتا ہے۔ باہم ملنے جلنے سے‘ چلنے پھرنے سے بہت سی باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو آدمی کو ناپسند ہوں اور بہت سی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جو پسندیدہ ہوں۔ اس میں بھی انسان کا امتحان ہوتا ہے اور اس میں دین نے جو اصول سکھائے ہیں‘ باہمی اصلاح کے طریقے بتائے ہیں ان کی آزمایش ہوتی ہے کہ اگر آدمی کسی برائی کو دیکھے تو کس طرح اس کی اصلاح کرے اور اگر اچھائی دیکھے تو کس طرح اس کی تحسین کرے۔
کوئی انسان مثالی انسان نہیں ہو سکتا سوائے اللہ کے رسولوں کے۔ کوئی بستی مثالی بستی نہیں ہو سکتی سوائے جنت کی بستی کے۔ اس لیے آپ جہاں جہاں بھی انسانوں کے اندر چلیں گے‘ پھریں گے آپ کو اچھائیاں بھی دکھائی دیں گی اور خرابیاں بھی ملیں گی۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ ان سب کے ساتھ جینا اور ان سب کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ان کی اصلاح کی کوشش کرنا آپ پر فرض ہے۔ یہ بھی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
جہاں تک تعلق تقاریر‘ درس قرآن اور لٹریچر وغیرہ کا ہے تو وہ خود تو کسی انسان کی تربیت نہیں کرتے بلکہ یہ ایک ذریعہ ہیں۔ ان کی مثال بارش کی سی ہے۔ جب بارش برستی ہے تو کھیت بھی اس سے سیراب ہوتے ہیں اور کنوئوں کے اندر بھی پانی ذخیرہ ہوتا ہے اور تالابوں کے اندر بھی اور بہت سی جگہوں پر پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سیراب وہی ہوگا جو اس کو اپنے اندر جذب کرے‘ محفوظ کرے۔ درس قرآن اور تقاریر سے بھی تب ہی فائدہ اٹھایاجا سکتاہے کہ اگر ان کو اپنے ذہن‘ دماغ اور سینوں میں محفوظ کیا جا سکے۔ جو باتیں قابلِ عمل ہوں ان سے فائدہ تب حاصل کیا جاسکتا ہے‘ جب ان پر نگاہ رہے۔ تقریر فی نفسہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اگر آپ خود فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے تو پھر وہ سارے فوائد آپ کے استفادے کے لیے موجود ہوں گے جو تقریر کے اندر پائے جاتے ہیں۔
یہ تربیت سے متعلق کچھ بنیادی باتیں ہیں۔ اگر آپ انھیں ملحوظ رکھیں‘ اپنے ذہن میں تازہ رکھیں اور عمل کی کوشش کریں تو مجھے امید ہے کہ یہ باتیں ان شاء اللہ آپ کے لیے برکت کا‘ بہتری کا اور نشوونما اور ارتقا کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی اور یہ دنیا فرق و امتیاز کی جگہ ہے اور جب انسان‘ عالمِ زیست کی حدوں سے گزر جاتا ہے توموت سب کو برابر کر دیتی ہے--- بے بسی کہ دوسروںکے کاندھوں پر انحصار‘ لباسِ افتخارسب رخصت اور دو سادہ کپڑوں میں امیروغریب سب کا آخری سفر‘ اور محلات اور جھونپڑے سب ختم‘ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے بسیرا سب کا مقدر۔ بات سچی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس میں فرق و امتیاز باقی رہتا ہے اور اس کا بھرپور اظہار بھی ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ دوسرے اس موت کو کس طرح دیکھتے ہیں‘ اس غم کو کس طرح محسوس کرتے ہیں اور جنازے کے آئینے میں رخصت ہونے والے کی تصویر کیا نقش چھوڑتی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے بڑی خوب صورت بات کہی تھی کہ کچھ جنازے استصواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلقِ خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ کراچی نے جو منظر ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء کو مولانا شاہ احمد نورانی کی نمازِ جنازہ میں دیکھا‘ وہ ایک عوامی استصواب سے کم نہ تھا۔ شاید قائداعظمؒ اور مولانا شبیراحمدعثمانی ؒ کے جنازے کے بعد اتنا بڑا صلوٰۃِ جنازہ کا نظارہ کراچی کی زمین پر نہیں دیکھا گیا۔ اس میں جوان اور بوڑھے‘ عالم اور عامی‘ امیر اور غریب‘ خادم اور مخدوم اور سب سے بڑھ کر ہر مسلک اور ہر مذہبی اور سیاسی رجحان سے وابستہ افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ مرحوم کی مقبولیت اور خلقِ خدا کی ان سے محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت‘ ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کے رتبے اور مقام کا اظہار تھا۔ سچ ہے ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے صدر‘ جمعیت علما ے پاکستان کے قائد‘ ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ‘ ایک ممتاز عالمِ دین اور شہرہ آفاق مبلغ اور داعی تھے۔ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے قائد اور عملاً ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ ۱۰ دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس اور متحدہ حزبِ اختلاف کی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہنستے بولتے رخصت ہوئے کہ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ۱۲ بجے دن ایک اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ کسے خبر تھی کہ اس وقت جب انھیں اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے سینیٹ آنا تھا فرشتۂ رحمت رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا پروانہ لے کر آجائے گا اور ایک ابدی سفرکی طرف ان کو لے جائے گا۔ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مالک سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
مجھے حضرت شاہ احمد نورانی ؒسے ملنے کا پہلا موقع غالباً۵۳-۱۹۵۲ء میں نصیب ہوا جب ان کے برادرِ نسبتی اور میرے محترم اور مشفق بزرگ (جو مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے) ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی معیت میں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ وائس آف اسلام جمعیت الفلاح کا انگریزی مجلہ تھا اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اس کے مدیر تھے‘ کمالِ شفقت سے انھوں نے وجودِ باری تعالیٰ پر میرا مضمون مجلے میں شائع کیا تھا۔ اس مجلے کے ذریعے مجھے برادر محترم فضل الرحمن انصاری سے قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انھی کے توسط سے سنگاپور سے شائع ہونے والے مجلہ Al-Islam سے واقفیت ہوئی جو حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور شاید اس دور میں انگریزی میں دعوتِ اسلامی کا بہترین ترجمان تھا ۔ اسی مجلے سے عظیم مبلغ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کی تحریروں اور سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی تھی اور ملنے کا شوق تھا۔ پس یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی کا انتقال غالباً ۱۹۵۴ء میں ہوا اور پھر ان کے مشن کو ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے اپنے انداز میں جاری رکھا۔
انگلستان میں قیام کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں سے زیادہ گہری واقفیت ہوئی۔ وہ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر تشریف لائے اور بڑی شفقت سے ہمارے کام کی تحسین فرمائی۔ اسلام آباد میں بھی انتقال سے چند ماہ قبل اصرار کر کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تشریف لائے اور اپنی دعائوں سے نوازا۔ بیرون ملک بھی‘ خصوصیت سے لندن میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن سچی بات ہے کہ زیادہ قریب سے ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد حاصل ہوا‘ اور پھر گذشتہ پورا سال تو اس طرح گزرا کہ سینیٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کے کاموں کے سلسلے میں دن رات ان کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی شفقت‘ محبت‘معاملہ فہمی‘ نرم گفتاری کے نقوش دل پر مرتسم ہیں اور یہ کہنے میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ہر روز ان سے تعلق کو گہرا کرنے کا باعث ہوا۔ ان کے رخصت ہونے سے نہ صرف قومی زندگی بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی ایک خلا واقع ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے جاری کردہ اچھے کاموں میں مزید برکت اور افزونی پیدا کر دے۔ آمین!
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ (اپریل ۱۹۲۶ئ) میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور ۱۰ سال کی عمر سے تراویح میں باقاعدگی سے قرآنِ پاک سناتے رہے حتیٰ کہ آخری بار اِسی سال ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ بقول مولانا نورانی اس پورے عرصے میں صرف دو سال بیماری کے باعث ختمِ قرآن نہ کرسکے۔ گویا ۶۵ سال قرآن سنایا… سبحان اللہ! جزاھم اللّٰہ خیر الجزائ۔ تعلیم عربک کالج میرٹھ اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء سے والد مرحوم کے ساتھ تبلیغی سرگرمیوں میں شرکت کی اور غیرمسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور قادیانی مبلغوں سے مناظروں کا اہتمام بھی کیا اور کئی ہزار افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی۔
۱۹۷۰ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۷۶-۱۹۷۲ء والی اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی متفقہ قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں ان کا مقام صفِ اول میں تھا۔ اس جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۷۷ء میں سینیٹ میں منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ ۲۰۰۳ء میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے سینیٹ میں منتخب ہوئے۔ ۵۰سے زائد ملکوں کا دورہ کیا۔
مولانا شاہ احمد نورانی ایک جید عالم‘ ایک بالغ نظر مبلغ‘ ایک باکردار سیاسی قائد اور مدبر اور اسلامی اتحاد اور ملّی وحدت کے نقیب اور اس کی علامت تھے۔ جس حکمت‘ شفقت اور حسن تدبیر سے انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انصاف اور اعتدال کے ساتھ ان کی قیادت فرمائی وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو آنے والوں کے لیے بھی ایک تابناک مثال رہے گا ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سقوطِ بغداد (۹ اپریل ۲۰۰۳ئ)کے بعد صدام کی گرفتاری یا موت کی خبر کسی وقت بھی متوقع تھی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ خفت ہے کہ ’’فتح‘‘کے آٹھ مہینے کے بعد اسے یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ "We got him" (ہم نے اسے پکڑلیا!)۔
بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ مخبری یا صدام کے اپنے محافظوں کی بے وفائی کے سبب امریکہ اس تک پہنچ سکا اور اسے پہلے نشہ زدہ کیا گیا اور پھر گرفتاری کے ڈرامے کو ٹیلی وژن کے اسکرین پر دکھایا گیا۔ یہ بھی معنی خیز ہے کہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۳ء کو گرفتاری کے اعلان سے ایک ہفتہ پہلے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے عراقی ججوں پر مشتمل عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گویا یہ سب اسی ڈرامے کی مختلف کڑیاں ہیں اور ہرمنظر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دکھایا جا رہا ہے۔
امریکہ نے صدام کو ’جنگی قیدی‘ (prisoner of war) قرار دیا ہے اور وہ قابض فوجوں کی تحویل میں ہے۔ ہمیں صدام کی ذات سے کوئی دل چسپی نہیں اور اس نے جو کچھ کیا‘ اس کی سزا وہ اللہ کے قانونِ مکافات کے مطابق یہاں اور آخرت میں ضرور بھگتے گا--- جس میں وہ ذلت بھی شامل ہے جو اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ گرفتاری اور جس طرح اس کی تشہیر کی گئی ہے وہ امریکہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر امریکہ ایک مہذب ملک ہے تو وہ بھی بین الاقوامی قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک۔ لیکن امریکہ خود کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا سمجھتا ہے اور ان تمام قوانین اور معاہدات بشمول جنیوا کنونشنز کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا جو اسے جنگ اور جنگی قیدیوں کے باب میں کسی درجے میں بھی پابند کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران جب عراق نے امریکہ کے جنگی قیدیوں کو ٹی وی پر دکھایا تھا تو امریکہ چیخ اُٹھا تھا کہ یہ جنیوا کنونشنز کے خلاف ہے۔ لیکن خود امریکہ نے جس طرح سے صدام کے بیٹوں کی لاشوں کی نمایش کی اور اب جس حقارت کے ساتھ صدام کو بہ ایں ریش دراز دکھایا‘شیوکیے جانے اور دانتوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے مناظرکو پیش کیا اور چوہے کے بل کی داستانیں نشر کیں‘ انھیں بھلا کون سے قانون یا ضابطے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
قیدیوں کی تحقیرایک مذموم حرکت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ سب روا ہے۔ اس نے تو اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ جنگی جرائم کی کورٹ کو تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے دو طرفہ معاہدات کر رہا ہے کہ امریکہ کے فوجی بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی دسترس سے باہر رہیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ ایک مہذب ریاست کا نہیں بلکہ ایک غنڈا ریاست (Rogue State) کا کردار ادا کر رہا ہے اور طاقت کے نشے میں چور‘ خود کو ہر قانون سے بالا رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ ایک عالمی لیڈر کا نہیں ایک Master اور Bully کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کی نگاہ میں اب امریکہ کی یہی پہچان ہے۔ پھر اگر دنیا کے لوگ امریکہ کو امن کے لیے خطرہ اور خود اپنے لیے ایک ناپسندیدہ کردار تصور کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ اس کے بعد بھی اگر صدربش یہی پوچھتے ہیں اہل دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
دوسرا پہلو‘ جس میں عرب اور مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی بڑا سامانِ عبرت ہے اور خود امریکہ کے لیے بھی‘ یہ ہے کہ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ صدام پر مقدمہ کیسے چلایا جائے؟ اس لیے کہ اگر یہ کھلا مقدمہ ہو اور صدام سارا کچا چٹھا عدالت کے سامنے رکھ دے تو صدام کے جرائم سے کہیں زیادہ خود امریکہ کے جرائم اور گھنائونے کردار کا نقشہ دنیا کے سامنے آئے گا اور معلوم ہوگا کہ امریکہ عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ صدام نے ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویز عام تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی تھی امریکہ نے اس میں سے ۹ ہزار صفحات پر masking tape لگا دیا تھا کہ اس میں اس کے اپنے کردار کا ذکر تھا۔اب یہ سب چیزیں کھل کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔
اس کے علاوہ صدام کو صدام بنانے میں امریکہ نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ بھی دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ رچرڈسیل (Richard Sale)کی ایک تحقیقی رپورٹ کے بموجب جو اس سال اپریل میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے شائع کی ہے کہ امریکی سی آئی اے کا پہلا رابطہ نوجوان صدام حسین سے ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا جو عراق کے مقبول عوام حکمراں جنرل عبدالکریم قاسم کو قتل کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں تھا۔ جنرل عبدالکریم قاسم وہ شخص تھا جس نے عراق کی مغرب نواز شہنشاہیت کا تختہ الٹا تھا اور عراقی قوم پرستی اور اشتراکیت کے نظریے پر استوار بعث پارٹی کے ذریعے امریکہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ عرب محقق اور تجزیہ نگار عادل درویش کی کتاب UNHOLY BABYLON: The Secret History of Saddam's War میں پوری دستاویزی شہادتوں کے ساتھ صدام اور بعث پارٹی کے گھنائونے کردار اور ان کے سی آئی اے سے تعلقات کی تفصیلات آچکی ہیں اور خود بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اعتراف کیا تھا کہ "We came to power on CIA train" (ہم امریکی گاڑی پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے)۔ اس گاڑی میں صدام حسین کا ایک خاص مقام تھا‘ یعنی پارٹی کی خفیہ جاسوسی تنظیم کی سربراہی۔ پارٹی کا یہی وہ عنصر تھا جو Iraqi National Guardsmen کے عنوان تلے سیاسی مخالفین اورسی آئی اے کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔
صدام سی آئی اے ہی کے تعاون سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بالآخر عراق کا مطلق العنان فرمانروا بنا اور اس حیثیت سے ہی وہ امریکہ کا منظورِ نظر تھا خاص طور پر جب امریکہ نے اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سے عراق پر بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایران کے خلاف جنگی خدمات کے عوض ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن نے وہ پابندیاں اٹھائیں اور صدام کو صرف معلومات ہی نہیں بلکہ اسلحہ‘ کیمیاوی اور گیس کے ہتھیار اور ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالی امداد بھی دی۔ اور وہ امداد اس کے علاوہ ہے جو سعودی عرب اور کویت سے دلوائی گئی۔ موجودہ سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ جو اُس وقت ریگن کے نمایندے کے طور پر ۲۰ دسمبر ۱۹۸۳ء کو صدام سے ملے اور اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر ۱۹۸۴ء میں بغداد کا دورہ کیا اور جس وقت صدام کردوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کررہا تھا جو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے فراہم کی گئی تھی‘ تب کھلے عام امریکہ اس کی پیٹھ تھپک رہا تھا۔ یہ اور سارے حقائق ویسے تو اب کسی نہ کسی طرح سامنے آچکے ہیں لیکن امریکہ خائف ہے کہ صدام کے مقدمے کے ذریعے سے یہ ساری کالک اس کے منہ پر مَلی جائے گی۔ اس لیے وہ بین الاقوامی مقدمے سے کنی کترا رہا ہے اور صدام کی سرپرستی کے اپنے گھنائونے کردار کے اس طرح طشت ازبام ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدام کی گرفتار ی سے امریکہ کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوابلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ عراق میںامریکی قبضے کے خلاف جو تحریک برپا ہے اس میں کمی کا امکان نہیں اور صدام کی گرفتاری سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس کی پشت پر صدام نہیں (وہ تو ایک تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا اور منشیات کے ذریعے اپنے غم غلط کرنے میں مصروف تھا)‘ بلکہ پوری قوم ہے اور محض صدام یا القاعدہ کی دہائی دے کر اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔
عالمِ اسلام کے لیے بھی اس میں عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح وہ قائدین جو اس پر مسلط ہیں‘ وہ دوسروں کے آلہ کار رہے ہیں اور ہیں‘ اور وہ جو اپنے عوام پر ظلم ڈھانے کے لیے بڑے جری ہیں جب آزمایش آتی ہے تو کس طرح چوہوں کی طرح بلوں میں گھستے اور اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ وہ نظام جس میں باگ ڈور ایسے آمروں کے ہاتھ میں ہو‘ کتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے اور کس طرح تاش کے پتوں کے گھروندے کی طرح زمین بوس ہو جاتا ہے۔ استحکام‘ دستور اور قانون کی حکمرانی‘ اصولوں کی بالادستی اور اداروں کے استحکام سے حاصل ہوتا ہے۔ آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی اجتماعی نظام کا یہ بگاڑ اور اجتماعی احتساب کا فقدان ہے۔ خود اپنے گھر کی اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بات صرف عراق اور صدام کی نہیں‘ ہر مسلمان ملک اور وہاں پر مسلط ہر آمر کا مسئلہ ایک ہی ہے۔ نام اور جگہ مختلف ہے۔ اگر مسلم عوام یہ سبق سیکھ لیں اور اپنے معاملات ان باہر سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد مسیحائوں کے ہاتھوں سے لے کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو چند سالوں میں زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!
فتنہ انکارِ حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ بظاہر خردمندی کے علم بردار یہ حضرات اپنے باطن میں رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انکار کا ناسور پالے ہوئے ہیں۔
اب سے تقریباً پچاس برس پہلے ‘نوتشکیل شدہ ریاست پاکستان میں منکرین حدیث نے باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کا اصل مقصد تحریک احیاے اسلام کا راستہ روکنا تھا۔اگرچہ اس فتنے کی تاریخ قدیم ہے‘ لیکن عصرِحاضر میں اس کا بڑا سبب مطالبہ نظامِ اسلامی ہی بنا۔ شعبہ معارف اسلامیہ‘ کراچی یونی ورسٹی کے سابق صدر پروفیسر افتخاراحمد بلخی ]م:۱۹۷۴ئ[‘ بلند پایہ عالم دین‘ معروف استاد‘ انفرادیت کے حامل محقق اور علومِ اسلامیہ بالخصوص ذخیرئہ حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے منکرین حدیث کا ہر قابلِ ذکر اقدام نوٹ کیا‘ ہرگھات پر نظر رکھی اور ہر اعتراض کو اصل مآخذ کی بنیاد پر مدلل انداز سے رد کیا۔
بلخی مرحوم نے غلام احمد پرویز] م: ۱۹۸۵ئ[ کے ہاں ترجمے کی غلطیوں‘ عربی سے ناواقفیت اور فہم دین و منصب ِ رسالتؐ سے بے خبری کوبے نقاب کرنے کے ساتھ مولانا مودودی کے دفاع کا بھی حق ادا کیا ہے۔ دفاع ان معنوں میں کہ منکرینِ حدیث نے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے لیے حدیث کے استہزا اور مولانا مودودی کے رد کے لیے بیک وقت اور بیک زبان جو مہم چلائی تھی‘ یہ کتاب اس دو طرفہ حملے کا بھرپور جواب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حجیتِ حدیث کے استدلالی سرمائے سے مالا مال ہے بلکہ مولانا مودودی کے دفاع کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ اس طرح مصنف نے دفاعِ دین کے جذبے سے اور اپنے وسیع مطالعے کی مدد سے انکارِ حدیث کی معاصر سرگرمیوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)
بعض افراد اپنے کام اور پیغام کے حوالے سے اپنے شخصی وجود سے نکل کر ایک تحریک‘ عہد یا رویے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ تاہم تاریخ میں ایسی شخصیات خال خال ہی ہوتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال ایسی ہی ایک باکمال شخصیت تھے۔ شہرت‘ دولت اور قوت کی حامل شخصیات سے بعض اوقات افسانوی حکایتیں منسوب کر دی جاتی ہیں یا پھر اُن کو حاسدانہ اور رقیبانہ الزام تراشی کی آگ میں جلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسوس کہ اقبال کے ساتھ بھی بہت سے ’دانش وروں‘ نے یہی معاملہ کیا۔
اقبال نہ معصوم عن الخطا تھے اور نہ کوئی فوق البشر۔ غلطی اور کوتاہی کا صدور ہر کسی سے ممکن ہے لیکن اقبال شکنی کی گذشتہ ایک سو سالہ روایت میں اُن کے کرم فرمائوں نے اتہام و الزام کی جو گولہ باری ان پر کی‘ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے دشمن اور حاسد‘ بڑے ہی چھوٹے لوگ تھے۔ مختلف اوقات میں وضع کیے جانے والے ایسے سترہ الزامات کی فہرست پروفیسرموصوف نے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ مثال کے طور پر: طوائف کا قتل‘ شراب نوشی‘ معاشقے‘ سر کا خطاب‘ مسلم سامراجیت‘ بداعمالی‘ تضاد فکر‘ وغیرہ وغیرہ۔
مصنف نے اس نوعیت کے الزامات کا پس منظر پیش کرتے ہوئے داخلی و خارجی شواہد کی بنیاد پر ہر الزام کا جواب پیش کیا ہے اور اپنی اس کاوش کو دستاویزی حوالوں سے مرصع کیا ہے۔ یہ ایک مشکل اور صبرآزما کام تھا‘ جسے پیش کرنے کے لیے صبر ایوب کی صفت سے نسبت ضروری تھی۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے الزامات ’’سنا تھا‘‘، ’’کیا ہوگا‘‘ اور ’’مشہور تھا‘‘ جیسے اسلوبِ بیان کے رہینِ منت ہیں‘ جب کہ بعض چیزوں کو زندگی کے ارتقائی جواز سے یکسر کاٹ کر اقبال کے مجموعی سراپے پر تھوپ دیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر الزام کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے الزام لگانے والے کا کمال تعاقب کیا ہے اور اس الزامی مہم کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کو ایک انسان‘ ایک شاعر اور ایک مسلمان کی حیثیت سے جانچا اور پرکھا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کو اپنے ’’انقلابی‘‘شعور کے باوجود علامہ اقبال کا ’شاہین‘ ناپسند ہے کہ وہ بے چارے کبوتر کو شکار کرتا ہے۔ اس ’معصومانہ اعتراض‘ کے پس پردہ محرکات پر بھی بحث کی جاتی تو اچھا تھا۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگوں نے علامہ سے تمام تر عقیدت کے باوجود‘ بعض پہلوئوں سے اقبال سے علمی اختلاف کیا ہے‘ کیا ایسے حضرات (مثلاً سلیم احمد وغیرہ) کو اقبال مخالفین کے کیمپ میں دھکیل دینا مناسب ہے۔
سہیل عمر نے تقریظ میں بجا طور پر متوجہ کیا ہے کہ ]ایوب صابر[ اقبال دشمنی کے اس مخفی رویے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں نظرآتا ہے مثلاً:اقبال مجدد مطلق ہیں‘ اقبال تاریخِ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں‘ اقبال دنیا کے سب سے بڑے مفکر ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تہمتیں زیادہ خطرناک ہیں جو امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں۔ (ص ۹)۔ مجموعی طور پر یہ کتاب اقبالیاتی ادب میں ایک فکرانگیز اضافہ ہے۔ (س- م- خ)
سائنسی معلومات پر مبنی اس کتاب کو اسلامی نقطۂ نظر سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے‘ یعنی سائنس کو ‘ جسے ایک لادینی علم سمجھا جاتا ہے‘ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا خالق و مالکِ کائنات ہونا ثابت ہو۔ اگرچہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے‘ لیکن سیکڑوں برس کی غفلت اور علمی تحقیق سے دُوری کے سبب آج ہمیں اسلامی تعلیمات سے جدید علوم کی مطابقت پیدا کرنے کا کام ایک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے ابتدائی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔
زیرِنظرکتاب بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے لیکن شاید اتنی کامیاب نہیں ہے۔ کتاب میں اگرچہ آیاتِ قرآنی کے حوالے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حمدیہ کلمات جابجا دیے گئے ہیں‘ تاہم مصنف سائنسی معلومات کوایک جامع اور باضابطہ طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ غالباً انھیں سائنس پر مناسب عبور حاصل نہیں ہے جس کے سبب انھوں نے کئی باتیں خلافِ حقیقت بھی لکھ دی ہیں‘ مثلاً: یہ کہ ’’خلا میں (بے وزنی کی کیفیت کے سبب) ہم ایک پورے خلائی جہاز (اور کسی بھی بڑی سے بڑی چیز) کو اپنی انگلی کے ذریعے اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (ص۱۹)۔ اسی طرح سائنس میں power (اردو: طاقت) ایک اصطلاح ہے جس کا ایک مخصوص اور معین مفہوم ہے مگر زیرنظر کتاب کے مصنف نے اس لفظ کو عمومی انداز میں جابجا اس طرح استعمال کیا ہے کہ اس کے معنی بالکل مبہم ہوجاتے ہیں‘ مثلاً: Power of Gravity‘ Power of Heat ‘ Air Power‘ Power of Water‘اور (water's) Power to Dissolve وغیرہ۔ پھر اسی لفظ کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرنا (He has power over every thing) سائنسی ہی نہیں‘ دینی نقطۂ نظر سے بھی نامناسب ہے‘ کیونکہ سائنسی اصطلاح power کااطلاق محض مادی اجسام پر کیا جا سکتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کوئی نسبت نہیں ہے جس کے لیے ’’قدرت‘‘ (Authority)کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔
کتاب میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں بکثرت ہیں۔ اس کی پیش کش (layout) میں بھی نہ صرف خوب صورتی اور کشش نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں خاصی غفلت اور تساہل سے کام لیا گیا ہے۔ خصوصاً صفحہ ۵۱ پر متن اور لے آئوٹ کی اغلاط کی بھرمارہے۔
اگر یہ کتاب آزمایشی اور تجرباتی بنیادوں پر شائع کی گئی ہے تو ہماری درخواست ہے کہ اسے دوبارہ شائع کرنے سے پہلے اس پر بھرپور اور ہمہ گیر نظرثانی کی جائے اور درج بالا گزارشات کو ملحوظ رکھا جائے۔ (فیضان اللّٰہ خان)
۲۰۰۳ء کو محترمہ فاطمہ جناح کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تو ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے متعدد کتابیں منظرِعام پر آئیں۔ زیرِنظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب کا موضوع صوبۂ بلوچستان کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کی یادوں اور خدمات کا احاطہ ہے۔ ایک حصے میں محترمہ کی اُن سرگرمیوں (مختلف علاقوں کے دوروں‘ عوامی و سیاسی اجتماعات میں شرکت اور عوام سے خطاب) کی تفصیل فراہم کی گئی ہے جن کا تعلق صوبۂ بلوچستان سے ہے۔ دوسرے حصے میں محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق بلوچستان کے اہلِ قلم کے مضامین و منظومات شامل ہیں۔ اس کتاب کے خاص مشمولات درج ذیل ہیں:
۱- جولائی ۱۹۴۳ء میں کوئٹہ میں خواتینِ بلوچستان مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی روداد اور تقریریں۔ اس اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ مولف نے یہ تفصیلات ہفتہ وار الاسلام (کوئٹہ‘ خواتین نمبر) بابت ۷؍رجب ۱۱ جولائی ۱۹۴۳ء سے حاصل کی ہیں۔
۲- ’’مادرِ ملت بلوچستان میں --- قدم بہ قدم‘‘ کی توقیت بھی اہم ہے۔
۳- بیرسٹر یحییٰ بختیار اور قاضی محمد عیسیٰ سے محترمہ فاطمہ جناح کی مراسلت ۔
کتاب کے مولف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل کئی علمی و ادبی تصنیفات و تالیفات اُردو دنیا کو دے چکے ہیں۔ تازہ کتاب بھی ان کے معیارِ قلم کی روایت کا حصہ سمجھی جانی چاہیے۔ (رفاقت علی شاہد)
انٹرنیٹ دورِ جدید کی انتہائی اہم دریافت و ایجاد ہے۔ اس نے فاصلے ختم کر دیے ہیں اور رابطوں کے اخراجات میں بھی غیرمعمولی کمی کر دی ہے۔ مذکورہ کتاب میں انٹرنیٹ کے بارے میں تعارفی مضامین کے علاوہ درجنوں سائٹس کا سرسری تعارف بھی شامل ہے جو اسلام‘ اسلامی تعلیمات‘ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ مسلم دنیا اور مسلمانوں کے وسائل وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔
ایک طرف تو انٹرنیٹ کے ذریعے انارکی‘ خلفشار اور فحاشی کو پھیلانے کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی سائٹس کا قیام خوش آیند ہے جو اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قائم ہوئی ہیں‘ متین خالدنے محنت شاقہ کے بعد اہم سائٹس کے کوائف اس کتاب میںجمع کر دیے ہیں۔ ایسی سائٹس بھی موجود ہیں جہاں سے آپ قرآن پاک اٹھارہ زبانوں میں حاصل (ڈائون لوڈ)کر سکتے ہیں‘ اسی طرح اسلامی تاریخ کے تمام واقعات کی تفصیلات جان سکتے ہیں‘ روز مرہ مسائل کا شرعی حل جان سکتے ہیں اور کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی اذان سن سکتے ہیں وغیرہ۔
اس کتاب کا ایک اور قابلِ تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنی حد تک قادیانیوں کی اور یہودیوں کی سائٹس کے پتے بھی دیے ہیں تاکہ ایسی اسلام دشمن طاقتوں سے آگاہی ہوسکے۔ موجودہ دور کی ضروریات کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
آئینِ پاکستان میں متفقہ طور پر قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دیا گیا ہے لیکن اقتدار کی راہداریوں میں براجمان بیوروکریسی‘ اس آئین کی جس طرح بے حُرمتی کرتی چلی آ رہی ہے اس کی ایک جھلک فاضل مصنف نے زیرنظر کتاب میں دکھائی ہے۔
جون ۲۰۰۲ء میں سپریم کورٹ نے ربا کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر سودی نظام کے حق میں حکومتی وکیل کاظم رضا اور یونائٹیڈ بنک کے وکیل راجا اکرم نے دلائل دیے۔ مصنف نے ان دلائل پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ قرآن وسنت سے متصادم ہیں اور اس معاملے میں حکومتی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دنیابھر میں سود سے نجات کے لیے کوشش اور تجربے ہو رہے ہیں‘ مثلاً: جاپان نے سود زیرو کے قریب کر دیا ہے اور دوسرے ممالک کو صنعت کے لیے ایک فی صد یا اعشاریہ ۵ فی صد پر قرض دے رہا ہے (ص ۷۳)۔ سوڈان میں جاری اسلامی بنک کاری‘ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں اور پاکستان کے تجویز کردہ ماڈل پر مبنی ہے (ص ۸۱)۔ اس طرح بعض دیگر اسلامی ممالک (بنگلہ دیش وغیرہ) میں بھی کامیابی کے ساتھ بلاسود بنک کاری ہو رہی ہے۔
مذکورہ کتاب کے باب ششم میں فاضل مصنف نے ترقی پذیر ممالک پر امریکہ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مار دھاڑ اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی بے حمیتی کے نمونے جمع کیے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس موضوع پر یہ ایک عمدہ اور مفید و معاون کتاب ہے۔ البتہ پروف خوانی مزید توجہ سے ہونی چاہیے۔ (عبدالجبار بھٹی)
اخوان المسلمون کے بانی اور مرشدعام سید حسن البناؒشہید کی داستانِ عزیمت کو ناول کے دل چسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی اس کاوش میں ادبی اور تحریکی دونوں تقاضوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔
اس ناول سے سید حسن البناؒ کی ابتدائی زندگی‘ تعلیمی کارناموں‘ سماجی خدمات‘ دعوتی سرگرمیوں‘ اس دور میں مصر کے سیاسی حالات‘ اخوان المسلمون کے قیام‘ اسے درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اور قیدخانوں میں ڈھائی جانے والی صعوبتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ حسن البنا شہید کو کس طرح شہید کیا گیا۔اسی طرح اصلاحِ احوال اور غلبۂ دین کے لیے اخوان المسلمون کے قائد کی فکرمندی‘ فرقہ بندی کے خلاف چارہ جوئی‘ تزکیہ نفس پر زور‘ حکیمانہ دعوتی اسلوب‘ لذتِ تقریر اور مدلل اندازِگفتگو سمیت ان کی شخصیت کے کئی پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف کا اصلاحی اسلوب پورے ناول پر محیط ہے۔ ناول سادہ اور بیانیہ نثرمیں لکھا گیا ہے۔ ناول کی فنّی باریکیوں سے قطع نظر‘مصنف نئی نسل کے سامنے حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
ڈاکٹر حمیدؒاللہ کے انتقال کے بعد اہلِ علم نے ان کی یاد کا حق ادا کر دیا ہے۔ یقینا یہ معاشرے کی زندگی کی علامت ہے۔ ایک طرف یادگاری مضامین کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف کتب آناشروع ہوگئیں۔ اس سلسلے کی زیرِنظر کتاب حسنِ ترتیب اور حسنِ طباعت کے لحاظ سے بڑی دل کش ہے۔ حسنِ تدوین کے لیے سید قاسم محمود کا نام ضمانت ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے چند اہم مضامین سلیقے سے ترتیب دے کر جمع کر دیے گئے۔
کتاب میں ۱۲ خطبات بہاولپور کی تلخیص و تسہیل اور ۴۰ استفسارات کے جواب شامل ہیں۔ پہلے حصے میں حمیداللہ مرحوم کی شخصیت پر چند مطبوعہ مضامین (محمود احمد غازی‘ صلاح الدین شہید‘ شاہ بلیغ الدین) ہیں۔ آخر میں ایک ہی صاحب کے نام ان کے مکتوبات ہیں جن پر وضاحتی نوٹ بھی دیے گئے ہیں۔ ان تین طرح کے آئینوں میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی شخصیت چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے اور ان کی وسعتِ نظر اور تبحرعلمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
غرض یہ کتاب ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کے لیے نہایت موزوں اور قرار واقعی خراجِ عقیدت و تحسین ہے جس کا مطالعہ قاری کو ان کی زندگی اور کام کے ہر پہلو سے بلاواسطہ آگاہی دیتا ہے۔ کتاب کے نام میں ’’بہترین‘‘ کے بجاے ’’منتخب‘‘ زیادہ بہتر ہوتا۔ (مسلم سجاد)
ماہنامہ ترجمان القرآن کی ’’اشاعتِ خاص‘‘ کا سرِورق دیکھا تو عجیب لگا کیونکہ معمول سے ہٹ کر تھا۔ مضامین کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ علم کے موتی ایک گلدستے کی صورت میں جمع ہوگئے ہیں ‘ان سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ خلیل الرحمن چشتی نے ’’تحریک احیاے دین کے قافلہ سالار‘‘ میں کمال اندازِ بیاں سے تاریخ کے پس منظر کے ساتھ مولانا کی خدمات کا ذکر بہت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک عام قاری کے لیے جو مولانا کی شخصیت کے بارے میں لاعلم ہو تصویر کا پورا رخ پیش کرتا ہے۔ یہ مضمون جہاں مولانا مودودیؒ کی علمی خدمات کا احاطہ کرتا ہے وہاں جماعت کی جدوجہد کو بھی تاریخی تناظر میں پیش کرتا ہے۔’’یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند‘‘پڑھ کر اندازہ ہوا کہ مولانا بہت بڑے پائے کے قانون دان بھی تھے۔ ’’مودودی نمبر‘‘سے ہمیں ایک صدی پر محیط مسلمانوں کی دینی‘ علمی و سیاسی خدمات اور احیاے اسلام کی جدوجہد سے آگہی ہوئی۔ مولاناؒ پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ انھوں نے اس صدی میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کر کے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے مضامین کو اعلیٰ معیار کا پایا‘ تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیالات‘ تجزیے اور اجماع امت سے متعلق مشورے سے دل آزاری ہوئی۔ سرورق سے کئی سوالات ذہن میں اٹھے۔ہزاروں سالوں پر محیط فکرمودودیؒ سے شخصیت پرستی کا سوال بھی ذہن میں اٹھا اگرچہ پروفیسر خورشید احمد کے بقول یہ ’’احسان مندی اور محسن شناسی‘‘ ہے۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے مطالعے سے قبل میں مولانا مودودیؒ کو بڑاآدمی سمجھتا تھا لیکن اسے پڑھ کر یقین ہوگیا کہ میں تو کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ سید صاحب تو اس سے کہیں زیادہ‘ بہت زیادہ بڑے انسان تھے۔ انھیں قریب سے دیکھنے والوں کی تحریریں بتا رہی ہیں کہ وہ ’’عظمتِ کردار‘ وسعتِ ظرف‘ علوے ہمت‘ درویش مزاجی‘ اِتقا‘ توکل‘ تحمل‘ صداقت شعاری‘ ایثار‘ تدبر‘ دردمندی‘ ذہانت‘ فراست اور شگفتہ مزاجی‘‘ جیسی عمدہ‘ مسنون اور اب ناپید ہوتی ہوئی خصوصیات کے حامل رہنما تھے۔بیرونی تحریکی شخصیات کے مزید مضامین ہونے چاہییں۔ اگلے شمارے میں یہ کمی دُور ہو جائے تو بات بن جائے گی۔مولانا محترم کی زندگی کے آخری چند ماہ‘ چند ہفتے‘ چند روز‘ روزِ وداع اور سفرِوداع پر بھی معلومات اس تاریخی سلسلے کا حصہ بنایئے۔ اب تحریک کے ہم سفروں کی بڑی تعداد مولانا مرحوم سے زمانی طور پر بُعد کے سبب یہ جاننا چاہے گی۔ یہ معلومات بھی اِن شاء اللہ مفید ہوں گی۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے سرورق پر ایک صدی سے دوسری صدی اور پھر صدیوں سے ہوتے ہوئے ایک ہزاریے سے دوسرے ہزاریے کی طرف پیش رفت کی جس طرح مؤثر جدول بندی کی گئی ہے وہ مجھے بہت پسند آئی‘ اور واقعی قابلِ ستایش ہے یہ منظرنامہ! اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ مولاناؒ کی فکروعمل جو ان کی تحریروں و تقریروں سے لے کر تشکیلِ جماعت اسلامی تک اور پھر ان کی منظم تحریک کا ربط عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیتوں و دیگر بین الاقوامی اداروں اور افراد سے عبارت ہے‘ اس کے اثرات وثمرات صرف ایک صدی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ بے کنار ہوکر ہزاریوں میں منتقل ہوتے رہیں گے۔
غزالیِ عصر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بلاشبہہ اس صدی کے عظیم انسان تھے۔ ان سے عقیدت و محبت تو پہلے بھی تھی مگر اس اشاعتِ خاص نے مجھے اپنے مرشد کا مزید گرویدہ بنا دیا ہے۔
’’راوانڈا: ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘‘(دسمبر ۲۰۰۳ئ) پڑھ کر دلی مسرت ہوئی کہ کس طرح راونڈا کے مظلوم مسلمان صبروضبط کا دامن تھامے‘ حالات کا جائزہ لیتے رہے‘ خانہ جنگی میں مبتلا دونوں دھڑوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت‘ پناہ اور تحفظ دیتے رہے اور اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار سے دعوتِ اسلام دیتے رہے۔ اس کے اثر سے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ کیا عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کو مسلمان کرنے اور مسلمان ہونے والوں کے لیے اپنے فرائض کا احساس ہے!
…مگر واقعہ کیا ہے؟ یہاں جو تعلیم اورتربیت آپ کو ملتی ہے‘ جو ذہنیت آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ جو خیالات‘ جذبات اور داعیات آپ کے اندر پرورش پاتے ہیں‘ جو عادات‘ اطوار اور خصائل آپ میں راسخ ہوتے ہیں‘ اور جس طرزِفکر‘ رنگِ طبیعت اور طریق زندگی کے سانچے میں آپ ڈھالے جاتے ہیں‘ کیا وہ سب مل جل کر اِس زمین‘ اِس آب و ہوا اور اس موسم سے کوئی مناسبت بھی آپ کے اندر باقی رہنے دیتے ہیں؟…
جو تعلیم افراد کو اپنی سوسائٹی اور اس کی حقیقی زندگی سے اجنبی بنا دے اس کے حق میں اس کے سوا آپ اور کیا فتویٰ دے سکتے ہیں کہ وہ افراد کو بناتی نہیں بلکہ ضائع کرتی ہے؟ ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ]نوشتہ[ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے‘ اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ ہم وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کے بجاے اسے دوسروں کے حوالے کردیتی ہے کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں‘خواہ وہ ہماری اپنی موت کا فتویٰ ہی کیوں نہ ہو۔
آپ غور تو کیجیے‘ کس قدر سخت خسارے میں ہے وہ قوم جو اپنی بہترین انسانی متاع دوسروں کے ہاتھ بیچتی ہے؟ ہم وہ ہیں جو انسان دے کر جوتی اور کپڑا اور روٹی حاصل کرتے ہیں۔ قدرت نے جو انسانی طاقت (man power)اور دماغی طاقت(brain power) ہم کو خود ہمارے اپنے کام کے لیے دی تھی وہ دوسروں کے کام آتی ہے…اِن ہٹّے کٹّے جسموں میں جو قوت بھری ہوئی ہے ‘ اِن بڑے بڑے سروں میں جو قابلیتیں بھری ہوئی ہیں‘ اِن چوڑے چکلے سینوں میں جو دل طرح طرح کی طاقتیں رکھتے ہیں‘ جنھیں خدا نے ہمارے لیے عطا کیا تھا‘اِن میں سے بمشکل ایک دو فی صدی ہمارے کام آتے ہیں‘ باقی سب کو دوسرے خرید لے جاتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ اس خسارے کی تجارت کو ہم بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا اصل سرمایۂ زندگی تو یہی انسانی طاقت ہے۔ اسے بیچنا نفع کا سودا نہیں بلکہ سراسر ٹوٹا ہے۔ (’’خطبہ تقسیمِ اسناد‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘جلد ۲۴‘ عدد۱-۲‘ محرم و صفر ۱۴۶۳ھ‘ جنوری فروری ۱۹۴۴ئ‘ ص ۶۴-۶۶)