بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
’’امریکہ‘‘آج روے زمین پر طاقت‘ ظلم اور جبر سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی علامت بن چکا ہے۔ اس ملک کی قیادت نے جس کی پس پشت قوت دراصل یہودی ہیں‘ فساد فی الارض کو اپنا یک رکنی ایجنڈا بنا لیا ہے اور وہ اس کے خاکے میں انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگ بھرنے میں مصروف ہے۔ برطانیہ سے آزادہونے کے بعد سے امریکی فوج ۱۰۲ سے زائد مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک میں دخل اندازیاں کر چکی ہے اور صرف ۱۹۴۵ء کے بعد سے‘ اب تک یہ ۲۰ سے زائد ملکوں میں فوجی مداخلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ۲۳سے زائد ملکوں پر بمباری کر کے لاکھوں معصوم شہریوں کا خون بہایا ہے۔ ان ممالک میں عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ سوڈان‘ انڈونیشیا‘ کوریا‘ چین‘ ویت نام سمیت متعدد چھوٹے ممالک شامل ہیں۔ امریکہ ۲۰ سے زائد ممالک میں بغاوتوں میں مدد کر چکا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی‘ سربراہانِ مملکت کے قتل میں شریک ہونا ثابت ہے۔ انڈونیشیا کے سوئیکارنو ہوں یا مصر کے جمال عبدالناصر‘ مراکش کے جنرل احمد ولیمی ہوں یا ایران کے آیت اللہ خمینی‘معمرقذافی ہوں یا شاہ فیصل شہید‘ امریکہ اور اس کی خفیہ تنظیمیں دنیا بھر کے رہنمائوں کے قتل یا اقدامِ قتل کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔ اور یہ باتیں اب محض دعوے یا الزامات نہیں بلکہ ان پر متعدد تحقیقی کتب اور مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
آخر امریکہ یا بالفاظ دیگر پس پردہ قوت محرکہ یہودی کیا چاہتے ہیں؟ تمام امریکی اقدامات‘ کارروائیوں‘سازشوں اور حملوں کی کڑیاں جوڑ لی جائیں تو اس سوال کا جو جواب واضح طور پر سامنے آجاتا ہے اور وہ ہے: ’’ایک ایسے عالمی نظام کا قیام جس میں امریکہ کے معاشی مفادات اور ہوس پر مبنی امریکی تہذیب کا مکمل غلبہ ہو۔ اس کے افکار کو فروغ حاصل ہو رہا ہو‘ زیادہ سے زیادہ کی طلب کی بنیاد پر قائم نظامِ معیشت چل رہا ہو‘ جس کے نتیجے میں دولت کا بہائو عالمی اور مقامی سرمایہ داروں کی طرف رہے‘ میڈیا کے ذریعے ایک ایسی فضا بنا دی جائے کہ لوگ اس کے دیے ہوئے زاویۂ نگاہ کے مطابق دیکھتے اور سوچتے ہوں‘ اس کا حکم مانا جاتا ہو اور اس کی بارگاہ میںسرتسلیمِ خم کیا جاتا رہے اور لوگ اس کی قائم کردہ عدالتوں میں اپنے معاملات لے کر پہنچیں اور اسی کے عطا کردہ قوانین پر اپنے فیصلے کروائیں‘‘۔ غرض اخلاق‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت سب کچھ اسی کے متعین کردہ پیمانوں‘ ضابطوں‘ قاعدوں کی بنیادوں پر استوار ہو۔ اسی پروگرام اور منصوبے کے تحت اس نے کبھی لیگ آف نیشنز قائم کی تو کبھی اقوامِ متحدہ ‘کبھی وہ اپنی فوجوں کے ساتھ ویت نام‘ افغانستان اور عراق میں اترا تو کبھی سازشوں کے ذریعے اس نے ایران پر بھاگ جانے والے شاہ کو دوبارہ مسلط کیا (۱۹۵۳ئ)‘ انڈونیشیا میں فوجی حکومت لانے کی کوشش کی۔ اور کبھی لیبیا‘ کمبوڈیا‘ گوئٹے مالا‘ پاناما‘ نکاراگوا‘ لائوس اور پیرو جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک میں مداخلتیں کرتا رہا اور اپنے ایجنڈے کوآگے بڑھاتا اور فروغ دیتا رہا۔
ذرائع ابلاغ اور معیشت کی قوتوں کو استعمال کر کے اپنے مذہب ’’لبرلزم‘‘ کے فروغ کے لیے امریکہ کو عراقی تیل کی ضرورت پیش آئی یا افغانستان میں فوجی چوکی قائم کرنے کی ‘اس نے کبھی کسی رکاوٹ یا لومۃ لائم کی پروا نہیں کی۔ اقوامِ متحدہ سمیت ساری دنیا کی رائے کو نظرانداز کر دیا اور ہمیشہ پوری قوت سے اپنے ایجنڈے کے خاکے میں رنگ بھرتا چلا گیا۔ اسی حوالے سے اس کا تازہ ترین شکار ایک بار پھر عراق ہے۔
۲۲ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکی عسکری سالار جنرل ٹومی فرینکس نے دوحہ میں عراق پر اپنے حملے کے جو اسباب بیان کیے تھے ان میں مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنا‘ دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کا نیٹ ورک ختم کرنا‘ موجودہ عراقی حکومت کی معزولی اور پھر تبدیلی‘ اور تیل کے کنوئوں کی حفاظت شامل تھی۔ ان سارے مقاصد کے حصول کے لیے مہم جوئی ان مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے جو وہ خود اقوامِ متحدہ کی ربڑاسٹمپ کے ذریعے طے کروا چکا ہے۔ امریکہ جن مہلک ہتھیاروں کی بات کرتا تھا اقوامِ متحدہ کے چیف اسلحہ انسپکٹر ہنس بلکس اور عالمی ادارہ براے جوہری توانائی کے سربراہ محمدالبرادی ۷ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں عراق میں ان کے عدمِ وجود کا اعتراف کر چکے ہیں اور پھر ۶۰ سے زیادہ الصمود میزائلوں کی تباہی کے بعد تو اس کا قطعاً کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ممالک خودمختاری کے حوالے سے برابر ہیں اور کسی ملک کی سرحدوں کو بزورِ قوت پامال نہیں کیا جائے گا مگر امریکہ خود یہ کر رہا ہے اور مزید کرنے پر مصر ہے۔ جہاں تک عراق میں موجود دہشت گردوں کی گرفتاری کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر آج تک دہشت گردی کی کوئی تعریف ہی متعین نہیں کی جا سکی ہے اور اب تک عملاً جسے امریکہ دہشت گرد کہتا ہے اسے اقوامِ متحدہ دہشت گرد تسلیم کر لیتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان الزامات میں کوئی حقیقت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
دراصل امریکہ کے پیشِ نظر عراق کے حوالے سے بالکل مختلف اہداف ہیں۔ اور یہ اب کوئی راز نہیں رہے۔
۱- مشرق وسطیٰ کے عین بیچ میں بیٹھ کر اطراف کے ممالک پر تسلط قائم کرنے اور اس پورے خطے اور خود عراق کی جغرافیائی تشکیلِ نو (۷ مارچ کو ۲۰۰۳ء کو اپنی پریس کانفرنس میں بش نے تین مرتبہ شیعہ سنی اور کردوں کا الگ الگ تذکرہ کیا)۔ یاد رہے کہ ماضی میں دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد بھی استعمار نے پہلے تو عربوں کو ترکوں سے لڑایا اور پھر ایک ہی مذہب‘ خطے و جغرافیے‘ زبان‘ نسل‘ تہذیب‘ تمدن اور کلچر رکھنے والے عربوں کو بیسیوں ممالک میں تقسیم کیا اور ان پر اپنے نمایندہ بادشاہوں کو مسلط کر کے دراصل اپنی کالونیاں بنائے رکھا۔ اور اب وہ انھیں تقسیم در تقسیم سے دوچار کرنا اور ان پر اپنی تہذیب مسلط کرنا چاہتا ہے۔
۲- دنیا کے تیل کے دوسرے بڑے ذخیرے کے مالک ملک عراق کے تیل اور گیس پر قبضہ‘ اور عراق کو ۲۰۰۰ء میں تیل کی فروخت کے لیے ڈالر کے بجائے یورو کرنسی کے طور پر منتخب کر کے ڈالر کو نقصان پہنچانے کی سزا دینا اور عالمی معیشت کے یورو کی طرف رجحان کو توڑ کر دوبارہ ڈالر کی طرف موڑنا۔
۳- دنیا میں تیل کے سب سے بڑے صارف‘ یعنی خود امریکہ کو تیل کی سستی‘ محفوظ‘ مسلسل‘ بلاتعطل فراہمی کا مستقل بندوبست کرنا۔ اور عراق اور شرق اوسط سے تیل حاصل کرنے والے دوسرے ممالک جن میں یورپ کے ممالک اور چین اہم ہیںپر اپنا دبائو اور گرفت قائم کرنا۔
۴- اگلے مرحلے پر سعودی عرب‘ ایران اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے خلاف کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا۔
۵ - خطے میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا (حال ہی میں کولن پاول نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ ہم اسرائیل پر سے مہلک ہتھیاروں کے تمام سائے ہٹا کر دم لیں گے)۔
۶ - جنگ اور پھر تعمیرنو کے نام پراپنی فوجی اور تعمیری صنعتوں کو اربوں ڈالرکی فراہمی۔
۷ - دنیا پر اپنی فوجی اور معاشی دھاک بٹھانا اور عالمی اور علاقائی سیاسی نقشے کی اپنے منصوبے اور مفاد کے مطابق تشکیلِ نو۔
ان عزائم کے ساتھ امریکہ اس وقت دنیا کی قریبی تاریخ کا سب سے بڑا غاصب اور امریکی دانش ور چومسکی کے بقول (rogue) بدمعاش ملک بن کر سامنے آیا ہے اور دنیا پر اپنے قبضے کے ارادے کے سامنے چند لاکھ عراقیوں کا خون اسے سستا سودا معلوم ہو رہا ہے اور بظاہر ساری دنیا اس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ مگر امریکی ظلم کی جو تاریکی گھٹاٹوپ اندھیرے میں بدل چکی ہے یہیں سے اس کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہیں سے ایک تابندہ سویرے کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں اور سپیدۂ سحرطلوع ہونے کے آثار ہیں۔ کنارفلک کا یہی سیاہ ترین گوشہ ان شاء اللہ مطلع ماہِ تمام بن سکتا ہے۔ آیئے ذرا اس کاجائزہ لیتے ہیں:
۱- امریکی استبداد نے دنیا بھر کے دردِ دل رکھنے والے اربوں انسانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ۱۵ فروری اور اس کے بعد ہونے والے زبردست مظاہرے عوامی مزاج میں بڑی تبدیلیوں کا پتا دے رہے ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے نبض شناس جانتے ہیں کہ ہر دور میں تبدیلی کا نکتۂ آغازیہی ہوتا ہے۔
۲- امریکہ کو اس کے جبر نے تنہا کر دیا ہے۔ جو چند ممالک اس کے ساتھ ہیں ان میں اکثریت ناقابلِ ذکر ممالک کی ہے اور عراق پر قبضے کے بعد علاقے میں امریکہ کے لیے اہداف کے سلسلے میں اختلاف رائے سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکہ نے جن ۴۴ ممالک کی فہرست عراق کے خلاف حملے کے حامیوں کے طور پر پیش کی تھی ان میں کوسٹاریکا‘ جمہوریہ ڈومینگن‘ ایل سلواڈور‘ اسٹونیا‘ ایتھوپیا‘ منگولیا‘ مائیکرونیشیا‘ مارشل آئس لینڈ‘ روانڈا‘ سولومن آئی لینڈ‘ یوگنڈا‘ ہنڈوراس‘ اریٹیریا اور پائولا جیسے ممالک شامل ہیں۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب امریکہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسے نام پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تو عالمی سطح پر اس کی حیثیت کیا ہو چکی ہے اور آنے والے ماہ و سال اسے مزید کہاں پہنچا سکتے ہیں۔
۳ - ایک بات تو اب طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بنائوبگاڑ کے فطری اصولوں کے مطابق امریکہ کی شکست کے بعد اُمت مسلمہ ہی کو دنیا کی امامت کرنی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے اندر ردعمل کا جو شدید لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت آتش فشاں کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اس بے پناہ قوت کا رخ درست سمت میں موڑ کر اسے امریکی استعمار کے خلاف مستقبل کی طاقت ور مزاحمت کی شکل دی جا سکتی ہے۔
۴ - عراق کے عوام نے جس طرح پوری جرأت کے ساتھ امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور قبضے کے بعد بھی مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بزعم خود عالمی سوپرپاور قابلِ مزاحمت ہے اوراس کے بارے میں ناقابلِ شکست کا جما جمایا تاثر ختم ہوگیا ہے۔ یہ بڑی اہم اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اور ماضی میں بھی ہمیشہ بڑی قوتوں کو کمزور قوموں کی مزاحمت ہی سے زوال آیا ہے۔
۵- جس طرح افغانستان روس کے لیے دلدل بن گیا تھا اسی طرح آثار و قرائن‘ عراقیوں کی منصوبہ بندی اور بعض دیگر اطلاعات بتا رہی ہیں کہ عراق بھی ان شاء اللہ امریکہ کے لیے سیاسی مزاحمت اور گوریلا جنگ کا ایسا میدان بنے گا جس سے نکلنا امریکہ کے بس میں نہیں ہوگا۔ روسی مہم جوئی کے دوران پاکستان نے جس طرح سمجھ لیا تھا‘ اسی طرح عراق کے بعض سرحدی ممالک نے بھی جان لیا ہے کہ امریکہ کو عراق میں ہی پھنسا دینا درست حکمت عملی ہے۔
۶- افغان جہاد دورِ جدید میں جہاد کا ایک ایسا بابرکت چشمہ تھا جو اب بڑھ کر سیلِ رواں بن چکا ہے اور اس سے سیراب ہونے والے لاکھوں عرب و غیر عرب نوجوان شہادت کی تمنا لیے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ عراق نے ان بہت سے بے وطن قافلوں کو ایک اور منزل کا پتا دے دیا ہے اور شہادت کے متوالے اب اس جانب کوچ کر رہے ہیں۔ علما نے خودکش حملوں کو استشہادی مشن قرار دے دیا ہے اور اسے اللہ سے اپنی جان و مال کے سودے پر عمل درآمد سے تعبیر کیا ہے جس سے دشمن پر ایک لرزہ طاری ہے۔
۷ - مومن کا سب سے بڑا ہتھیار موت سے بے خوفی اور کافر کی سب سے بڑی کمزوری موت کا خوف ہے۔ یہی وہ فیصلہ کن نکتہ ہے جو بالآخر ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہوتا ہے۔ آج جس طرح کروڑوں مسلمانوں کے دل شہادت کی تمنا سے لبریز ہیں‘ یہ اتنی بڑی قوت ہے جس سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔
۸ - جنگ میں دشمن کے نازک مقام پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ پورے عالم اسلام میں امریکی و یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی طاقتور ہوتی تحریک دشمن پر ایک ایسی ضرب ہے جسے وہ اپنی پہلے سے گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گا‘ ان شاء اللہ۔ (یاد رہے کہ ۲۸۰ ملین امریکی عوام ۱۲ ہزار ڈالر فی کس کے مقروض ہیں اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے)۔ اس مہم کا ایک اضافی فائدہ صارفین کی یہ تربیت ہے کہ وہ ضروریات اور تعیشات میں فرق کریں۔ کم اور صرف ضروری اشیا پر قناعت سیکھیں تاکہ وسائل دشمن سے مقابلے کی تیاری میں صرف کرنے کے لیے بچائے جا سکیں۔
۹- امریکی طغیانی نے مسلمانوں کو نہیں خود عیسائی یورپی ممالک کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس وقت عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر رابطے جاری ہیں اور اس بات کے پورے پورے امکانات موجود ہیں کہ ایک ایسا بلاک وجود میں آجائے جو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ سکے۔ امریکی جارحیت کے مقابل ردعمل کی اس صورت میں بھی اُمید کا پہلو موجود ہے۔ روس‘ جرمنی اور فرانس نے حال ہی میں ایک سربراہی کانفرنس میں امریکہ کو مزید مہم جوئی کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔
مادی اسباب کے لحاظ سے اس وقت امریکہ عالمی انسانی تاریخ کی بظاہر سب سے بڑی معاشی‘ فوجی اور سیاسی طاقت بن چکا ہے۔ اسی بے مثال قوت نے اسے ایک ایسے غرور اور تکبر میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس کی قیادت طاقت کے نشے میں ہر اخلاقی حد کو پھلانگ رہی ہے۔ یہ رویہ ہمیشہ طاقت ور اقوام کے عروج کے بعد اس کے زوال کا سبب بنتا ہے اور وہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ امریکی صدر بش اور اس کے قریبی ساتھیوں کا حلقہ اپنی اس ہوس ملک گیری کو مذہبی لبادہ اوڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کوئی بھی انصاف پسند آدمی‘ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ اس بڑے پیمانے پر تباہی کو کسی مذہبی گروہ کا کارنامہ قرار نہیں دے سکتا اور خود پاپاے روم جان پال ثانی کے امریکی جارحیت کے خلاف بیانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعماری ممالک کی وہی ہوس ملک گیری ہے جس کا تین سو سال سے کمزور اقوام شکار ہیں:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
مادی قوت کے مقابلے میں برتر اخلاقی قوت‘ حوصلے اور ثابت قدمی کی طویل عرصے کی جدوجہد کے لیے اُمت مسلمہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مسلم حکمرانوں سے زیادہ مسلم اُمت کا ہے۔ سعودی عرب کے علما نے متفقہ طور پر جارحیت کے خلاف ’’مکہ مزاحمت‘‘ کے نام سے جس تحریک کے آغاز کی طرف دعوت دی ہے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور اس کو حکمرانوں کے سائے سے نکال کر عوام کی تحریک میں تبدیل کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کی تقسیم ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس تقسیم کی دیواروں کو اُمت مسلمہ کی ایک عالمگیر اسلامی تحریک کی قوت اور معاشی‘ سیاسی‘ عسکری‘ ہر میدان میں موثر تیاری اور منصوبہ بندی کے ہتھیاروں سے گرایا جا سکتا ہے۔
امریکی جارحیت کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمت مسلمہ میں تبدیلی کی موجودہ بھرپور سیاسی مزاحمتی لہر کو ایک زبردست تہذیبی جنگ میں بدل دیا جائے۔ لوگوں میں مایوسی کی جگہ اُمید کو عام کیا جائے‘ اضطراب و اشتعال کی طاقت ور لہر کو قوت میں بدل دیا جائے اور اس قوت کو اصلاحِ ذات‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کی طرف موڑ کر نتیجہ خیزبنا لیا جائے۔
مذکورہ بالا عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک کے اندر فوجی‘ اور آدھی تیترآدھی بٹیر قسم کی جمہوری حکومت بھی تشویش کا باعث ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کی حیثیت میں وزیراعظم کے ماتحت ہیں‘مگر صدرکے طور پر ان کے ’’باس‘‘ ہیں! وزیراعظم ہی نہیں‘ ۲۲گریڈ کے سرکاری افسر کی حیثیت سے وہ وزیردفاع کے بھی ماتحت ہیں اور صدر مملکت کی حیثیت سے پوری کابینہ ان کے ماتحت ہے! بحیثیت چیف آف اسٹاف وہ جوائنٹ چیف کے ماتحت اور فضائی اور بحری افواج کے سربراہوں کے برابر ہیں اور بحیثیت صدر وہ تمام افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ بحیثیت صدر مملکت پارلیمنٹ ان کے خلاف مواخذے کی قرارداد لا کر انھیں برطرف کر سکتی ہے مگر چیف آف اسٹاف پارلیمنٹ کے احتساب کے دائرہ سے باہر ہے۔ یہ تمام تضادات اپنی جگہ مگر اس پر بھی وہ مصر ہیں کہ اپنی اس مضحکہ خیز پوزیشن کوبرقرار رکھیں گے۔
اس صورت حال میں دو حوالوں سے ہمارا ایک واضح موقف ہے جسے سمجھ لینا چاہیے۔ ایک فوج اور اس کی قیادت اور دوسرا پارلیمنٹ اور ایل ایف او۔
ہم اپنی فوج کا احترام کرتے ہیں‘ بحیثیت ادارے کے ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کی جائز ضروریات پوری کرتے اور ملکی دفاع کے تناظر میں ان کو پوری اہمیت دیتے ہیں اور آیندہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہم اس کی موجودہ قیادت‘ اس کی اخلاقی و عملی حالت اور رویوں پر تحفظات رکھتے ہیں اور انھیں فوری طور پر اصلاح طلب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کا موٹو رکھنے والی اس فوج کی قیادت کو اپنا طرزِعمل درست کرنا ہوگا۔ ہمیں آج کی فوج کی کچھ سطحوں اور دائروں میں ایک بار پھر یحییٰ خانی کلچر کو فروغ دیے جانے پر شدید تشویش ہے۔ ہماری فوجی قیادت کی اخلاقی حالت نے انھیں اندر سے اتنا کمزور کردیا ہے کہ وہ رات گئے موصول ہونے والی ایک ٹیلی فون کال پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ انھی خامیوں نے انھیں امریکہ کا اتحادی بنا دیا جس کے باعث وہ اس وقت قوم کی نظروں میں اپنی عزت و توقیر کھو چکے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے افغانستان و عراق میں ظلم کے اتحادی بن کر اپنی مائوں اور بہنوں کی ردائیں‘ بھائیوں اور بیٹوں کا خون ایک ارب ڈالرکے عوض فروخت کر دیا ہے۔ ہماری حمیت گروی رکھ کر یہ لوگ رقم حاصل کرتے ہیں اور پھرنہ صرف یہ کہ انھیں اللّے تلّے میں اڑا دیتے ہیں بلکہ نہ معلوم کہاں کہاں اس میں سے کیا کچھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ بقول اقبال ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
یہ نہیں دیکھ رہے کہ پاکستان کے خلاف کیس مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کہوٹہ پابندیوں کی زد میں ہے۔ دشمن جس نے ڈھائی سو کلومیٹر مار کرنے والے عراقی میزائل برداشت نہیں کیے وہ پاکستان کے ڈھائی ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے۔ ہماری موجودہ قیادت اس احساس سے عاری ہے کہ ہمارے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہندو پنڈتوں کے جارحانہ بیانات آرہے ہیں‘ بھارت کو بیرونی قوتیں ہمارے خلا ف استعمال کر سکتی ہیں اور کسی بھی لمحے جرمِ ضعیفی کی سزا اچانک مرگ کی صورت ہم پر نازل کرنے کی سازشیں ہیں‘ امریکی ان داتا تک آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ان کے دوسری اور تیسری صف کے افسران ’’وعدے پورے کرنے‘‘ اور ’’کنٹرول لائن‘‘ پر بین الاقوامی سرحد کے قواعد کا اطلاق کرنے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیز افغان پاک سرحد کو پھر شعلہ فشاں کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اورہماری یہ فوجی قیادت چین کی بنسری بجا رہی ہے‘ خطروں پر پردے ڈال رہی ہے‘ خوش فہمیوں کے ہوائی قلعے تعمیر کر رہی ہے اور خود اپنی ہی قوم کو مفتوح رکھنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کیا قومی سلامتی اور دفاعِ وطن کے یہی طور طریقے ہیں؟ کیا عراق کے عوام کی بے مثال مزاحمت اور سیاست میں ملوث فوج کے پادر ہوا ہونے سے بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں؟ عالمی خطرات اور علاقائی طالع آزمائوں کی طرف سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں فوج کو سیاست سے پاک رکھنا اور اس کی دفاعی قوت اور قوم کے اعتماد کو ہر تنازع سے بالا رکھنا ضروری ہے‘ وہیں ملک کے اندر بنیادی امور پر یک جہتی اور حقیقی سیاسی استحکام بھی ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ لیگل فریم ورک آرڈر کو ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے؟
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بسااوقات ایک درست موقف پر مدلل گفتگو اور اپنی بات پر پوری دیانت داری کے ساتھ جمے رہنے کو فریق مخالف منفی طور پر پیش کرنے اور اپنے موقف کی کمزوری کو دوسرے پر حملہ کر کے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ایل ایف او کے سلسلے میں بھی کیا جا رہا ہے اور حکومتی حلقے کوئی مضبوط بنیاد نہ پا کر بات کو الفاظ کی گرد میں اڑانے‘ ابہام پیدا کرنے اور نان ایشوز میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم پورے شرح صدر کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ کسی فردِواحد کو آئین جیسی مقدس و محترم دستاویز میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی اجازت نہیں۔ ملک کی کوئی عدالت کسی کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ آئین کو پنسل کی لکھی دستاویز سمجھ لے اور اسے جب چاہے لکھتا مٹاتا اور تبدیل کرتا رہے۔
اسی اصولی موقف کے ساتھ ہم لیگل فریم ورک آرڈر کے نام پر کسی غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن چونکہ ہم زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے قائل ہیں اس لیے یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے صدرمشرف کو دیا گیا تین سال کا عرصہ غلط ہونے کے باوجود اب گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے۔ لہٰذا اب آئین و قانون کے مطابق سارے معاملات اسی فورم پر طے ہونے چاہییں۔ ماضی میں ایل ایف او پر جو مذاکرات ہوئے وہ بھی اس مقصد کے لیے تھے کہ ہم مسائل پیدا کرنا اور قوم اور حکومت کو بندگلی میں دھکیلنا نہیں چاہتے بلکہ اسے روشن شاہراہ پر نکال لانا چاہتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے ایل ایف او کی متعدد شقوں پر اتفاق کر لیا ہے یا مناسب ترمیم کے ساتھ انھیں قابلِ قبول بنا لیا ہے اور پارلیمنٹ میں انھیں منظور کروانے کے لیے اپنا تعاون بھی پیش کر دیا ہے‘ تاہم یہ طے ہے کہ متحدہ مجلس عمل‘ وردی والے صدر کو قبول کر کے فوجی آمریت کا تسلسل قائم نہیں رہنے دینا چاہتی۔ ہم اس موقف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ فوج اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرے میں۔ فوج کو بھی ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے اور ملک کو بھی ہمہ وقتی صدر کی۔ تاہم پوری وسعت ظرف کے ساتھ یہاں بھی ہم یہ پیش کش کرتے ہیں کہ اگر صدر مشرف وردی اتارنے کی کوئی تاریخ دے دیں تو اس سے پہلے ہم پارلیمنٹ سے انھیں صدر منتخب کروا دیں گے اور ایک منتخب صدر کی حیثیت سے انھیں ان کا پورا مقام دیں گے۔ البتہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے اصولی موقف سے اب یا آیندہ ہٹا لے گا توایسے شخص کی صحتِ دماغی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت اس وقت قوم کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہو چکی ہے اور مجلس عمل نے لاکھوں کے اجتماعات سے اپنے بھرپور عوامی قوت ہونے کی حیثیت کو ثابت کر دیا ہے۔ ایسے میں اس قوت کا رخ پرویز مشرف کی طرف موڑکر انھیں ہٹایا بھی جا سکتا ہے لیکن ہم موجودہ عالمی تناظر میں فی الحال کوئی ایسا اقدام نہیں چاہتے جس سے ملک عدمِ استحکام کی کیفیت سے دوچار ہو۔ تاہم ہمارے اس خیرسگالی پر مبنی جذبے کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے۔
ایل ایف او پر ہمارا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ فردِواحد کا تیار کردہ ہے اور اس کا برقرار رہنا پہلے سے کمزور نظام والے ملک کو مزید خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔ صدرمشرف کو جان لینا چاہیے کہ مستقبل کے خطرات کا مقابلہ عوامی شرکت والے نظام کے بغیر ممکن نہیں: ایک ایسا نظام جس میں عام آدمی اپنی عزت محسوس کرے‘ عدل اجتماعی قائم ہو‘آئین و عوامی نمایندوں پر مشتمل ایوان بالادست ہوں‘ معاملات شورائیت کے ذریعے طے پاتے ہوں اور دستور پر عمل ہوتا ہو۔ انھیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دینی قوتوں کی قیادت میں ایک بڑی طاقت ور عوامی لہر موجود ہے جو ملکی نظام کو قرآن و سنت کے تابع دیکھنا چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تیار کردہ سفارشات سے قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ پورے اخلاص کے ساتھ رہنمائی حاصل کریں‘ اور جو امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک سے باوقار دوستی کا تعلق تو ضرور قائم کرنا اور رکھنا چاہتی ہے مگر اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور ملکی اور ملّی مفادات کے تحفظ کا عزم رکھتی ہے اور ان کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہم آزاداور متوازن خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی کو ہر قیمت پر استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور یہی اس قوم کی آرزو اور عزم ہے۔
جہاں تک جمالی شجاعت حکومت کا تعلق ہے ‘ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم اسے گرانا نہیں چاہتے۔ یہ بھلی بری حکومت بہرحال جمہوری ہے۔ ہم تو ان منتخب نمایندوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے اندر جرأت پیدا کریں اور خود کو مشرف کا غلام بے دام بننے سے بچائیں۔ اسی میں ان کی‘ حکومت کی اور ملک و قوم کی بہتری ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے مشرف کے بغیر شجاعت صاحب اور جمالی صاحب اپنے آپ کو غیرمحفوظ اور سرپرستی سے محروم سمجھتے ہیں‘ اور مشرف صاحب کو بھی افواج پاکستان پر اپنا زائدالمیعاد تسلط قائم رکھنے کے لیے سیاست دانوں کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
متحدہ مجلس عمل ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے اللہ کا انعام ہے۔ یہ اُمت کے عالم گیر اتحاد کا نقطۂ آغاز ہے اور اس پہلے قدم کی برکتیں اور رحمتیں ہر صاحب ِ ایمان کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ اور ان شاء اللہ آنے والے دنوں میں اس کی فیوض و برکات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔
مجلس عمل کی بنیاد اخلاص‘ ایثار‘ قربانی اور اللہ اور اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت کے ساتھ غیر مشروط وفاداری پر رکھی گئی ہے۔ اس بابرکت اتحاد کے قیام اور برقرار رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان نے اپنے مقاصد کو آگے اور خود کو پیچھے رکھا ہے۔ مشترکات پر جمع ہوئے ہیں اور اختلافی نکات پر سکوت اور باہمی احترام کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بات کہی ہے یا پھر خاموش رہنے کو بہتر جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے بھی اس پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا‘ اسے اپنی محبتوں سے نوازا ہے اور اسے پورا مان دیا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ملین مارچ کی وہ پوری سیریز ہے جس میں بلامبالغہ لاکھوں افراد شریک رہے ہیں۔ اس حدیث رسول کے مطابق کہ:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہٖ فان لم یستطع فبلسانہٖ وان لم یستطع فبقلبہٖ وذلک اضعف الایمان (او کما قالؐ)
تم میں جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو زبان سے اسے بُرا کہے‘ اور اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو کم از کم اسے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
الحمدللہ! مجلس عمل نے پوری قوم کو اس کمزور درجے سے نکال کر علی الاعلان برائی کو للکارنے کاحوصلہ اور پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ اس ملک کے وہ کروڑوں لوگ جو موجودہ صورت حال پر دل میں کڑھتے تھے ‘ آج مجلسِ عمل کے ہم آواز ہیں اور دشمن کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہم نے لاکھوں افراد کو متحرک کر دیا ہے اور اخلاقی تائید کی زبردست کمک عراق کو فراہم کی ہے اور آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امریکہ کے استعماری عزائم اور کارروائیوں کے خلاف بڑی تحریک منظم کر رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ لوگ امریکہ کے عالمی استعمار کے خلاف اُٹھ رہے ہیں اور امریکی و یہودی مصنوعات تک استعمال کرنے کو تیار نہیں۔ نوجوانوں کے گروپ کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے باہر کھڑے ہوکر وہاںآنے والے لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد ان کی مدلل گفتگو اور پمفلٹس سے متاثر ہو کر واپس لوٹ جاتی ہے۔ جگہ جگہ عمومی بیداری کی ایک لہر ہے جس کی قیادت ایم ایم اے کے پاس ہے اور تمام آزادی پسند اور باضمیر افراد اس تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جب کہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے دُور دُور تک موجود نہیں۔ یہ کسی کا کمال نہیں محض اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے ممکن ہوا ہے۔
پرویز مشرف کے نعرے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کو جو ایک طرف دراصل ’’سب سے پہلے میں‘‘ اور دوسری طرف پاکستان کے رشتے کو اُمت ِ مسلمہ سے کاٹنے کی ایک عیارانہ چال ہے‘ عوام مسترد کر چکے ہیں۔ مسلمان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ مفکر پاکستان کے بقول:
پھر سیاست چھوڑ داخل حصار دیں میں ہو
ملک و ملت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
اور
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
اور ان کا یہ اعلان ہے کہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
یہ عقیدہ پاکستان کے ہر مرد اور عورت‘ جوان‘ بچے اور بوڑھے کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا ہے۔ اور اگر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جائے اور پاکستان اُمت مسلمہ کی تقویت کا باعث ہو اور مسلم اُمہ پاکستان کی۔ ہمارا تو اصل ہدف ہی ’’اُمت احمد مرسل‘‘ کو ایک حقیقت میں تبدیل کرنا ہے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا یہی کام ہے۔ متحدہ مجلس عمل اس تحریک کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس تحریک کے تمام کارکنان کو وقتی اور عارضی مفادات سے صرفِ نظر کرکے دُور رس نتائج کے حامل مشترک اعلیٰ مقاصد پر نظررکھنی چاہیے جو اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر کے انسانیت کو عدل و انصاف فراہم کرتا ہے۔
صوبہ سرحد میں ہماری قوت صدیوں کے جمود کو توڑ رہی ہے۔ لوگوں کے لیے اس کی حیثیت ایک خوش گوار اور تازہ ہوا کے جھونکے کی سی ہے۔ عوام کو محلات میں لے جانا توشاید جلد ممکن نہ ہوسکے مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ نئے حکمران محلات میں رہنے کے بجائے‘ اپنے شب و روز عوام کے درمیان گزار رہے ہیں۔ جبر کے نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ نئی قانون سازی ہورہی ہے۔ حکومت سرحد کی مقرر کردہ شریعت کونسل کی وقیع تجاویز آچکی ہیں جنھیں جلداسمبلی سے منظور کرا کے ان شاء اللہ بتدریج نافذ کر دیا جائے گا۔ صوبائی سطح پر اسلامی حکومت کے پہلے کام اقامت صلوٰۃ پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ تمام دفاتر اور سرکاری مقامات پر اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ غیرسودی بنک کاری‘ چھوٹے قرضوں کی فراہمی‘ خواتین کے حقوق‘ صحت و تعلیم کے محکموں کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور صوبے کی منتخب دیانت دار ٹیم اپنے اُجلے دامن کے ساتھ دن رات عوامی خدمت کے پروگرام ترتیب دیتی اور ان کے مطابق عمل درآمد کرتی نظر آتی ہے۔ الحمدللہ! تبدیلی کی یہ لہر جس میں صوبہ سرحد سبقت لے گیا ہے‘ اٹک کا پُل پار کر چکی ہے اور باب الاسلام سندھ نے بھی اس کے لیے اپنا سینہ کھول دیا ہے۔ آنے والے دن ان شاء اللہ ایک بڑے انقلاب کی نوید سناتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں کے کارکنان اپنے دل ایک دوسرے کے لیے کھول دیں‘ باہمی رنجشیں اور چھوٹے چھوٹے اختلاف بھلا دیں اور سب مل کر مجلس عمل کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوت بنا دیں۔ پھر دیگر دینی طبقات اور ہر باضمیر اور باشعور انسان تک پہنچیں‘ انھیں قریب لائیں ۔ اس وقت بیشتر دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی قیادتوں سے مایوس ہیں۔ انھیں ذاتی مفادات کا اسیرپاتے ہیں۔ ایسے میں ان کارکنان کو محبت سے اپنی جانب متوجہ کریں اور اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے اپنے ساتھ ملا لیں۔ یقین کیجیے‘ یہ مواقع قوموں کو صدیوں میں کبھی کبھی ملاکرتے ہیں کہ جب وہ برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرسکتے ہیں۔ ایسے وقت میں ساری توانائیاں‘ سارے وسائل‘ ساری صلاحیتیں لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں لگا دیں۔ معاشرے کے بااثر طبقات تک پہنچیں‘ انھیں اپنی صفوں کا حصہ بنا لیں۔ اپنے سینے کشادہ کر لیں اور چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر نکل آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ موقع اس صبح کو ہمارے بالکل قریب کر دے گا جس کی دُھن میں ہم نے اپنا سب کچھ لگا اور کھپا دیا ہے۔ آپ ایک قدم بڑھائیں‘ اللہ اور پوری قوم دس قدم آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ آیئے‘ اس انمول لمحے کو گرفت میں لے کر آنے والے کل کو تابندہ سویروں میں بدل ڈالیں!
عراق پر امریکی افواج نے جس جارحانہ فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا ہے اس نے اس باب میں کوئی شبہہ باقی نہیں چھوڑا کہ امریکہ اب پورے عالمِ اسلامی کے خلاف برسرِجنگ ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور اس کی امریکی تائید ومعاونت‘ سرپرستی اور مالی اور سیاسی مدد تو ایک کھلی حقیقت تھی لیکن اب گذشتہ ۲۲ سال سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکہ دنیا پر صرف اپنی بالادستی قائم کرنے ہی کی جدوجہد میں مصروف نہیں بلکہ شرق اوسط پر اسرائیل کی بالادستی اور علاقے میںعظیم تراسرائیل کے قیام کی جنگ میں بھی کھلا کھلا شریک ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی کانگریس کی ۱۰ ارب ڈالر کی وہ امداد ہے جو سالانہ ۳ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ صرف عراق پر فوج کشی کے موقع پر اسرائیل کو دی گئی ہے۔ عراق پر امریکی قبضہ جنگ کا خاتمہ نہیں‘ جنگ کے ایک نئے اور دیرپا دَور کا آغاز ہے۔
اُمت مسلمہ کی حقیقی قیادتوں نے دنیا کے ہر حصے میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ مسلمان اس جنگ میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ انھیں خود اور دنیا کے دوسرے امن پسند انسانوں کے ساتھ مل کر جہاں اس نئی سامراجی یلغار کے خلاف سیاسی جدوجہد اور عوامی مزاحمت (resistance) میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے‘ وہیں امریکی ‘ برطانوی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے معاشی دبائو کا ہتھیار بھی استعمال کرنا چاہیے۔ عالم عرب کے تمام ہی اہم علما نے بائیکاٹ کا فتویٰ دیا ہے اور انڈونیشیا سے مراکش تک تمام اہم دینی جماعتوں نے بائیکاٹ کی کال دی ہے۔ پاکستان میں بھی متحدہ مجلس عمل نے اس سلسلے میں قوم کو رہنمائی دی ہے اور دوسرے امن پسند عناصر اس کی تائید کر رہے ہیں اور عملاً اس جدوجہد میں شریک ہیں۔ اس موقع پر ایک لابی بڑے معصوم انداز میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کہہ رہی ہے کہ بائیکاٹ سے امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ خود پاکستان اور مسلم ممالک کے تاجر اس سے متاثر ہوں گے‘ نیز اسی طرح ہم امریکہ کے عتاب کا نشانہ بنیں گے‘ جس سے بچنا اولیٰ ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اب عملاً اسرائیل کی معیت میںمسلمانوں کی سرزمین پر قابض ہے اور مزید کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اس موقع پر خاموشی اور مقابلے کی کارروائی سے اجتناب بے غیرتی ہی نہیں‘ سیاسی اور معاشی خودکشی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس چیلنج کا بروقت مقابلہ کیا جائے اور مزید مقابلے کی تیاری کی جائے۔ اس کے لیے کم سے کم چیزیں دو ہیں: ایک یہ کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر امریکی‘ اسرائیلی جنگی حکمت عملی کی بھرپور مخالفت ہو‘ راے عامہ کو بیدار کیا جائے اور عالمی جمہوری مزاحمت میں شرکت اور اس کی تقویت کے لیے جدوجہد کی جائے۔ دوسری چیز معاشی میدان میں بائیکاٹ کے ذریعے صرف احتجاج ہی نہ کیا جائے بلکہ اسے اتنا موثر بنایا جائے کہ امریکی اسرائیلی معیشت اس کا دبائو محسوس کرسکے۔
دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشی مقاطعہ ایک معروف احتجاجی حربہ ہے جسے دنیا کی ہر قوم نے استعمال کیا ہے اور یہ مظلوم اقوام کا حق ہے۔ مغربی اقوام نے تو اس کو ناروا انداز میں اور خود ظلم کے لیے استعمال کیا ہے۔ آخر معاشی پابندیاں (economic sanctions) کیا چیز ہیں؟ پاکستان کے خلاف یہ پابندیاں موقع بہ موقع ۱۹۶۵ء سے استعمال کی جا رہی ہیں اور خصوصیت سے ۱۹۷۶ء کے بعد تو کم ہی زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہم پر کچھ نہ کچھ پابندیاں نہ ہوں۔ اور ابھی حال ہی میں کہوٹہ لیبارٹریز پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ آخر کس چیز کی غماز ہیں؟ خود عراق پر ۱۹۹۱ء سے پابندیاں ہیں جن کے نتیجے میں یونیسیف کے مطابق ۵ لاکھ سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہیں اور عراق کی فی کس آمدنی ۸۰ فی صد کم ہوگئی ہے اور غربت نے آبادی کے ۶۰فی صد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مغربی اقوام کا تو حال یہ ہے کہ امریکہ نے فرانس اور جرمنی کی مصنوعات کے خلاف صرف اس جرم میں مہم چلا دی ہے کہ انھوں نے عراق کے خلاف جارحیت میں ساتھ نہیں دیا۔ امریکی کانگریس نے فرانس‘ جرمنی اور روس تک کو عراق کے نام نہاد تعمیرنو کے ٹھیکوں کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے اور حد یہ ہے کہ french fries کے نام تک سے french کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر امریکہ دوسروں کے ساتھ یہ معاملہ کر رہا ہے تو حیف ہے ہم پر کہ ہم اس کی کھلی کھلی جارحیت کے جواب میں اس کی مصنوعات تک کا بائیکاٹ کرنے میں تغافل کا شکار ہوں۔
مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا ایک معروف طریقہ ہے اور اس کے نتیجے میں‘ اگر یہ موثرانداز میں کیا جائے تو‘ مطلوبہ نتائج رونما ہوتے ہیں: جس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اس کی معیشت پر اثرات کی شکل میں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر ان مصنوعات کو تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے حکومت کی پالیسی کو متاثر کرنے کے ذریعے۔ پھر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بائیکاٹ خود اپنی قوم کی تعلیم‘ شعور کی بیداری اور اسے عالمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنانے کا ذریعہ بنتا ہے‘ اور ملکی مصنوعات کے فروغ اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مقامی صنعت و تجارت کو موقع فراہم کرنا ہے جو بالآخر معاشی ترقی اور خودانحصاری پر منتج ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ بائیکاٹ موثر ہو اور وسیع پیمانے پر اسے کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گذشتہ چار ہفتوں میں صرف سعودی عرب میں بائیکاٹ کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کی کھپت میں ۲۵ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی چند چیزوں کے استعمال کے بارے میں بڑی واضح شہادتیں سامنے آ رہی ہیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بائیکاٹ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے اور پُرامن ذرائع سے صرف عوامی تائید ہی حاصل نہ کی جائے بلکہ کاروباری مراکز میں مظاہروں کے ذریعے عوام کو اسے کامیاب بنانے کی ترغیب دی جائے۔ متعین اہداف کے بارے میں لوگوں کی تعلیم اور راے عامہ کی بیداری کا اہتمام کیا جائے اور موثر عوامی مظاہروں کی شکل میں امریکی مصنوعات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اپنے ملک کی مصنوعات کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔ یہ وہ کم سے کم شرکت ہے جو امریکہ کی عالمِ اسلام کے خلاف جنگ کے مقابلے میں ہم کرسکتے ہیں۔
]غزوہ احد کے موقع پر مسلمان[ جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا کوئی اندیشہ انھیں غزوئہ بدر کی عجیب و غریب فتح کے بعد نہ تھا۔ جب مسلمانوں پر یہ مصیبتیں ٹوٹیں تو وہ چیخ اُٹھے: اَنّٰی ھٰذا ، ’’یہ کیونکر ہوا؟‘‘ آخر ہمارے مسلمان ہوتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ قرآن کریم ]سورہ آل عمران کی ان آیات میں[ مسلمانوں کو اللہ کی سنتوں کی طرف‘ جو اُس کی زمین میں جاری و ساری ہیں‘ متوجہ کرتا ہے۔ وہ اُن اصولوں کو واضح کرتا ہے جن کے مطابق معاملات انجام پاتے ہیں۔ آخر وہ زندگی سے الگ اور نئی کوئی شے تو نہیں ہیں‘ جو قوانین زندگی پر حاکم ہیں‘ وہ بلاتوقف جاری و ساری رہتے ہیں۔ امور ومعاملات اَلل ٹپ رونما نہیں ہوتے‘ وہ اِن قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی اِس توضیح کے نتیجے میں مسلمانوں کو اِن قوانین کا علم ہوا‘وہ ان کے مقاصد سے واقف ہوگئے‘ واقعات و حوادث کے پیچھے اللہ کی حکمت اُن پر منکشف ہو گئی‘ واقعات کے پیچھے جو مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں‘ وہ اُن پر واضح ہو گئے‘ جس نظام کے تحت واقعات رونما ہوتے ہیں‘ اس کے ثبوت اور اس نظام کے پیچھے جو حکمت ِ خداوندی ہے‘ اس کے وجود پر انھیں اطمینان ہوگیا۔ اور اِس راہ کے ماضی میں جو کچھ ہوا تھا‘ اُس کی روشنی میں وہ اپنے سفرکے راستے کو بخوبی دیکھنے لگے۔ وہ یہ بات جان گئے کہ فتح و نصرت اور غلبہ و سربلندی حاصل کرنے کے لیے فتح و نصرت کے اسباب مہیا کیے بغیر--- جن میں اوّلین سبب اطاعت ِ خدا اور رسولؐ ہے--- صرف اپنے مسلمان ہونے پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔
اللہ کی سنتیں‘ جن کی طرف آیات اشارہ کرتی اور مسلمانوں کی نظروں کو ان کی طرف ملتفت کراتی ہیں‘ یہ ہیں: تاریخ کے دوران مکذبین کا انجام‘ اچھے اور بُرے دنوں کی لوگوں میں گردش‘ دلوں کی کیفیات کو کھوٹ سے پاک کرنے کے لیے ابتلا و آزمایش‘ مصائب و شدائد پر صبرواستقامت کی قوت کا امتحان اور ارباب صبرواستقامت کے لیے فتح و نصرت اور مکذبین کے لیے ہلاکت و مغلوبیت کا استحقاق۔
اِن سنتوں کو پیش کرنے کے دوران آیات مشکلات و مصائب کو برداشت کرنے پر اُبھارتی ہیں‘ شدائد و آلام میں مواساۃ و غم خواری کی تلقین کرتی ہیں اور اُن زخموں پر‘ جو صرف انھیں نہیں‘ اُن کے دشمنوں کو بھی پہنچے‘ اُن کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کرتی اور انھیں تسلی دیتی ہیں اور انھیں سمجھاتی ہیں کہ وہ اپنے عقیدے اور مقصد کے لحاظ سے اپنے دشمنوں سے بلند و برتر ہیں‘ راہِ عمل اور طریق زندگی کے پہلو سے اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور پھر کامیابی بالآخر اُن کے لیے ہے اور اہل کفر کے لیے مغلوبیت اور ذلّت و خواری ہے۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌلا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ o ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o (آل عمران ۳:۱۳۷-۱۳۸)
تم سے پہلے سنت ِ (الٰہی) کی بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں توزمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ یہ لوگوں کے لیے بیانِ (حقیقت) ہے اور متقیوں کے لیے ہدایت و نصیحت۔
اللہ کے یہ قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں اور یہ قوانین اللہ کی مشیت ِ مطلقہ کے وضع کردہ ہیں۔ اس لیے جو کچھ کسی اور زمانے میں رونما ہوا‘ ویسا ہی اللہ کی مشیت کے تحت تمھارے زمانے میں بھی واقع ہوگا اور جو کچھ تمھارے جیسے حالات پر منطبق ہوا‘ وہ تمھارے حالات پر بھی منطبق ہوگا۔ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (۳: ۱۳۷) ’’تو زمین میں چل پھر کر دیکھو‘‘۔ زمین پوری کی پوری ایک وحدت ہے۔ زمین پوری کی پوری انسانی زندگی کی آماج گاہ ہے۔ اور زمین اور اُس میں موجود زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس میں نگاہوں اور بصیرتوں کے لیے بہت کچھ سامانِ عبرت ہے۔ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (۳: ۱۳۷) ’’تو دیکھو کہ مکذبین کا انجام کیا ہوا؟‘‘
اِس انجام کی شہادت زمین میں اُن کے پھیلے ہوئے آثار دیتے ہیں--- یہاں قرآن اِس انجام کی طرف مجمل اشارہ کر رہا ہے تاکہ ایک مجمل فتح تک پہنچا جاسکے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ مکذبین پر کل گزرا‘ ایسے ہی انجام سے آج اور کل مکذبین دوچار ہوں گے۔ یہ اس لیے کہ اُمت مسلمہ کے دل انجام کی طرف سے مطمئن ہوں‘ نیز وہ پھسل کر مکذبین کی طرف جانے سے بچ سکیں--- اس سنت کے ذکر کے بعدنصیحت و عبرت کا بیان ہے:
ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o (۳: ۱۳۸)
یہ بیانِ (حقیقت) ہے لوگوں کے لیے اور ہدایت اور نصیحت ہے متقین کے لیے۔
یہ سب انسانوں کے لیے بیان ہے--- اس کے ذریعے ]لیکن ایک ہی گروہ[ ہدایت سے سرفراز ہوگا اور وہ ’’متقین‘‘ کا گروہ ہے۔
صرف ایمان رکھنے والا دل‘ جو ہدایت کے لیے کھلا ہوتا ہے‘ ہدایت دینے والی بات کو قبول کرتا ہے اور نصیحت و موعظت سے خدا ترس دل ہی کو‘ جو اُس کو سُن کر ہل جاتا ہے‘ نفع ہوتا ہے… مجرد علم اور معرفت کچھ نہیں! کتنے ہی لوگ ہیں جو حق کا علم رکھتے اور اس کی معرفت کے حامل ہیں لیکن وہ باطل کے کیچڑ میں لوٹتے رہتے ہیں‘ اپنی خواہشات کی بندگی کی وجہ سے ‘ جس کے ساتھ علم بے سود ہوتا ہے‘ یا ان مصائب و شدائد کے خوف سے جو حق کے علم برداروں اور اربابِ دعوت کا انتظار کرتی ہوتی ہیں۔
اس بیان کے بعد قرآن مسلمانوں کی طرف رخ کرتا ہے اور انھیں تسلی دیتا اور اُن کے لیے ثابت قدمی اور تقویت کا سامان بہم پہنچاتا ہے:
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَخْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (۳:۱۳۹)
اور تم پست ہمت نہ ہو اور نہ غم کرو --- اور تم ہی غالب و سربلند ہو--- اگر تم مومن ہو!
وَلَا تَھِنُوْا --- ’’وھن‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں‘ ضعف--- ’’کمزور نہ پڑو‘‘۔ وَلَا تَخْزَنُوْا ’’غم نہ کرو‘‘ یعنی اُن مصیبتوں کے باعث‘ جو تمھیں پہنچیں اور اُن چیزوں کے باعث جو تم نے کھو دیں‘ کمزور نہ پڑو اور غم نہ کرو۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ’’اور تم ہی غالب و سربلند ہو‘‘۔ غالب و سربلند اس لیے کہ تمھارا عقیدہ بلند و برتر ہے‘ تم صرف ایک خدا کو سجدہ کرتے ہو‘ جب کہ تمھارے مخالفین اُس کی کچھ مخلوقات کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تم اس لیے بھی بلندوبرتر ہوکہ تمھارا طریق زندگی بلند و برتر ہے‘ تم اللہ کے وضع کردہ نظامِ زندگی کے مطابق زندگی کا سفر طے کرتے ہو‘ اور وہ اُس نظامِ زندگی کو اختیار کرتے ہیں جو اُس کی مخلوق کا وضع کردہ ہے۔ دنیا میں تمھارا رول بھی سب سے اعلیٰ ہے‘ تم ساری انسانیت کی نگرانی و سرپرستی کے لیے اللہ کے منتخب کردہ اور ساری انسانیت کے لیے ہادی و رہنما ہو‘ جب کہ تمھارے اعدا حق سے بہت دُور‘ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ تم اِس لیے بھی بلندوبرتر ہو کہ زمین کی وراثت--- جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے--- تمھارے لیے ہے‘ اِس کے برعکس تمھارے اعدا کے لیے فنا اورنسیان مقدر ہے (وہ فنا ہو جائیں گے اور بھلا دیے جائیں گے)۔ اِس لیے اگر تم سچ مچ مومن ہو تو تم ہی غالب و بلند ہو اور اگر تم سچ مچ مومن ہو تو نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ تم بھی مصائب و آلام میں مبتلا ہو اور تمھارے ہاتھوں تمھارے اعدا بھی‘ اور جہاد‘ ابتلا اور کھرے اور کھوٹے کے درمیان امتیاز کے بعد انجامِ کار کامیابی تمھارے ہی لیے ہے۔
اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۰-۱۴۱)
اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان اَدلتے بدلتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں اور اُسے تم میں سے (حق کے) گواہ بنانے تھے‘--- اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا--- اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہلِ کفر کا زور توڑنا تھا۔
’’اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے‘‘ اس میں اشارہ غزوئہ بدر کی طرف بھی ہو سکتا ہے جس میں اہلِ کفر پٹ گئے تھے اور مسلمان صحیح و سالم رہے تھے اور غزوئہ احد کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ اِس غزوہ کے آغاز میں مسلمانوں کو فتح اور مشرکین کو شکست ہوئی تھی… یہ درحقیقت اُن کے باہمی اختلاف اور حکمِ رسولؐ کی خلاف ورزی کی پوری پوری سزا تھی۔ اور یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق ہوا‘ جس میں کبھی تخلف ]وعدہ خلافی[ نہیں ہوتا۔ تیراندازوںکی‘ حکمِ رسولؐ کی خلاف ورزی اور اُن کا باہمی اختلاف مالِ غنیمت کی طمع کا نتیجہ تھا‘ جب کہ اللہ نے جہاد کے معرکوں میں فتح و نصرت اُن لوگوں کے لیے مقدر کی ہے جو اُس کی راہ میں جہاد کریں اور اس حقیردنیا کے سازوسامان کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھیں۔
وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (۳:۱۴۹)
اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں‘ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں۔
یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ اچھے اور بُرے دن لوگوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ لوگوں کی نیتوں اور ان کے اعمال کے لحاظ سے اس سنت پر عمل ہوتا ہے۔ حالات میں فراخی ونرمی کے بعد شدت اور شدت کے بعد فراخی و نرمی‘ اِنھی سے لوگوں کے جوہر اور دلوں کی طبیعتوں کا علم ہوتا ہے اور انھی سے اِس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ دلوں میں کس درجہ کھوٹ یا صفائی ہے‘ بے صبری یا صبر ہے‘ اللہ پر بھروسا یا مایوسی ہے اور خود کو اللہ کی قضا وقدر کے حوالے کر دینے کا جذبہ ہے یا سرکشی و نافرمانی کا۔ اُسی وقت مسلمانوں کی صف میں لوگوں کے مابین امتیاز پیدا ہوتا اور مومنین اور منافقین کا انکشاف ہوتا ہے۔ اُسی وقت اِن دونوں گروہوں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے ‘ دلوں کے اندرونی جذبات لوگوں کی دنیا کے سامنے منکشف ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی صف سے خرابی اور اُس ڈھیلے پن کا ازالہ ہوتا ہے ‘ جس سے اُس کے اعضا و افراد میں تنظیم کی کمی رونما ہوتی ہے‘ جب کہ منافق اور مومن باہم خلط ملط ہوں اور الگ الگ پہچانے نہ جاتے ہوں…
گردشِ ایام اور حالات کی شدت و فراخی کا یکے بعد دیگرے آنا ایک ایسی کسوٹی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی اور ایک ایسی میزان ہے جو کبھی زیادتی نہیں کرتی اور اس معاملے میں حالات کی فراخی حالات کی شدت کی طرح ہے۔ کیونکہ کتنے ہی نفوس ہیں جو شدید حالات میں صابر و ثابت قدم رہتے اور اپنے آپ کو تھامتے رہتے ہیں لیکن خوش گوار اور نرم حالات میں وہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو مصیبت میں صبر کا رویہ اختیار کرتا ہے اور خوش حالی و فراخی سے وہ سبک سراور غافل نہیں ہوتا۔ دونوں حالتوں میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ خیراور شر‘ جس سے بھی اُسے سابقہ پیش آتا ہے‘ سب اللہ ہی کے اِذن سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس اُمت کی تربیت فرما رہا تھا اور ابھی یہ اُمت انسانیت کی قیادت کے لیے تیاری کے اوّلین مرحلے ہی میں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فراخی و نرمی سے آزمانے کے بعد شدید حالات سے اُس کی آزمایش کی اور عجیب و غریب فتح و نصرت کے بعد تلخ شکست کی آزمایش میں ڈالا۔ اگرچہ یہ سب اپنے اسباب کے تحت اور فتح و شکست کے سلسلے میں اللہ کی سنت ِ جاریہ کے مطابق ہوا لیکن یہ اس لیے ہوا کہ یہ اُمت فتح و شکست کے اسباب سے آگاہ ہوجائے۔ اللہ کی اطاعت ‘ اس پر توکل اور اس کے سہارے کو مضبوطی سے پکڑنے میں آگے بڑھے اور اِس نظام کی طبیعت اور اس کی ذمہ داریوں اور گراں باریوں کو پورے یقین کے ساتھ جان لے۔
سلسلۂ کلام اُمت مسلمہ کے لیے اِس معرکے کے واقعات کے سلسلے میں اللہ کی حکمت کے پہلوؤں اور گردشِ ایام اوراُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں کھوٹے اور کھرے کے درمیان فرق و امتیاز اور سچّے اہل ایمان کی معرفت جیسے امور کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے:
وَیَتَّخِذَ مِنْکُم شُھَدَآئَ ط (۳:۱۴۰)
اور تاکہ اللہ تم میں سے (حق کے) گواہ بنائے!
یہ ایک عجیب اندازِ بیان ہے ‘ جس کا مفہوم بہت عمیق ہے۔ شہدا‘ اللہ کے برگزیدہ ہیں‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین کے درمیان میں سے انھیں منتخب فرماتا ہے اور اپنے لیے خاص کر لیتا ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ان کی شہادت سرے سے کوئی مصیبت اورکوئی خسارے کا سودا نہیں‘ یہ تو اللہ کا انتخاب و اختصاص اور اعزاز و اکرام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے مختص کیا اور انھیں شہادت سے سرفراز فرمایا‘ یہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انھیں خالصتاً اپنا بنا لے اور اپنے قرب کے لیے انھیں مخصوص فرما لے…
جو شخص زبان سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت دیتا ہے‘ اُس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے شہادت دے دی‘ اِلا یہ کہ وہ اُس کے مفہوم اور اس کے تقاضوں کا حق ادا کرے۔ اُس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو ’’الٰہ‘‘ نہ بنائے اور اِس لیے اللہ کے سوا کسی سے شریعت حاصل نہ کرے۔ کیونکہ اُلوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت بندوں کے لیے تشریع و قانون سازی ہے‘ اور عبودیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تمام ہدایات اللہ ہی سے حاصل کی جائیں۔ اِسی طرح اِس کلمے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ سے ہدایات محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہی سے اخذ کی جائیں کیونکہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں‘ اور اللہ سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے اس واسطے کے علاوہ کسی اور واسطے اور ذریعے پر اعتماد نہ کیا جائے۔
اس شہادت کا تقاضا ہے کہ مومن اِس بات کی جدوجہد کرے کہ زمین میں اُلوہیت صرف اللہ کے لیے ہو‘ جیساکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے پہنچایا اور جس نظام کو اللہ نے انسانوں کے لیے پسند کیا اور چاہا اور جسے اللہ کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا‘ وہی دنیا میں غالب اور چھایا ہوا نظام ہو‘ اور لوگ اُسی کی اطاعت کرتے ہوں۔اور بلااستثنا یہی نظام انسانوں کی پوری زندگی میں متصرف ہو۔
جب اس شہادت کا تقاضا یہ ہو کہ مومن اُس کی راہ میں جان دے دے اور وہ جان دے دے تو وہ ’’شہید‘‘ ہے‘ یعنی ایسا گواہ‘ جس سے اللہ نے شہادت طلب کی تو اس نے یہ شہادت ادا کر دی‘ اللہ نے اُسے ’’شہید‘‘ بنایا اور اسے یہ مقامِ بلند عطا فرمایا! یہی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت کا مفہوم و مقتضا ہے‘ نہ یہ کہ رخصتوں‘ ناکارہ پن اور بے عملی کا راستہ اختیار کیا جائے (اور صرف زبان سے کلمے کی شہادت ادا کی جائے)۔
وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o (۳: ۱۴۰)
اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
… یہ اُسی انجام کا تاکیدی بیان ہے جو ظالم مکذبین کا‘ جو اللہ کے مبغوض ہیں‘ انتظار کررہا ہے۔…
سلسلۂ کلام آگے بڑھتا ہے اور وہ واقعات کے پیچھے چھپی ہوئی اللہ کی حکمت پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ حکمت کیا ہے؟ اُمت مسلمہ کی تربیت۔ کھوٹ سے پاک کر کے اُسے کھرا اور مضبوط بنانا‘ بلند ترین رول کے لیے‘ جو اُس کا ہے اسے تیار کرنا‘ نیز یہ امر کہ اُمت کفار کا زور توڑنے اور انھیں مغلوب کرنے کے لیے خدا کی قضا و قدر کا آلہ بنے اور مکذبین کی ہلاکت کے لیے اُس کی قدرت کا پردہ بنے۔
وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۱)
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہل کفر کا زور توڑ دینا تھا۔
’’تمحیص‘‘ (نکھارکر پختہ کرنا) کا درجہ کھوٹ کو دُور کرنے اور کھرے اور کھوٹے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے بعد کا ہے۔ یہ ایک عمل ہے‘ جو دل اور ضمیر کی گہرائیوں میں تکمیل پاتا ہے۔ یہ شخصیت کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے اور ان پر روشنی ڈالنے کا عمل ہے تاکہ وہ ہر طرح کی ملاوٹ اور کھوٹ اور عیب سے پاک صاف ہو کر حق پر قائم ہو سکے۔
انسان بسااوقات اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ وہ اپنے پوشیدہ گوشوں‘ اپنے شگافوں اور اپنی کجیوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ وہ بسااوقات اپنی کمزوری اور قوت کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا اور اس کی شخصیت کے اندرون میں جو چیزیں تہ نشین اور مخفی ہیں‘ اُن کا اُسے علم نہیں ہوتا۔ یہ سب چیزیں کسی اُبھارنے والے واقعے ہی سے اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔
شدید اور نرم حالات کی اُلٹ پھیر اور گردشِ ایام کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمحیص (نکھارنے) کا جو عمل اختیار فرماتا ہے‘ اس کے نتیجے میں اہل ایمان اپنی ذات کے مخفی پہلوئوں کو اچھی طرح جان لیتے ہیں جنھیں وہ اِس تلخ کسوٹی--- حوادث‘ تجربات اور عملی مواقف کی کسوٹی پر پرکھے جانے سے قبل جانتے نہیں ہوتے۔
انسان اپنے بارے میں خیال کرتا ہے کہ وہ قوت وشجاعت کا پیکر ہے اور حرص و بخل سے بالکلیہ پاک ہے۔ لیکن عملی تجربے اور عملی واقعات و حوادث سے دوبدو ہونے کی روشنی میں اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے نفس میں ابھی ایسے نقائص موجود ہیں‘ جن کا ازالہ نہیں ہوا اور وہ اِس سطح کی شدتِ حالات کو برداشت کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے‘ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کی اِن سب کمزوریوں کو جان لے تاکہ ازسرنو وہ اُسے تیار کرنے اور ڈھالنے کی جدوجہد کرے۔ اِس حد تک کہ وہ اس سطح کی شدتِ حالات کو انگیزکرسکے‘ جو اِس دعوت کی فطرت کا مقتضا ہے اور ان ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کر سکے جن کا تقاضا یہ عقیدہ کرتاہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسانیت کی قیادت کے لیے اِس اُمت کی تربیت کر رہا تھا اور اُس سے زمین میں ایک خاص کام لینا چاہتا تھا‘ اسی لیے اللہ نے غزوئہ احد کے واقعات و حوادث کے ذریعے اُسے اس حد تک نکھارا اور پختہ کیا تاکہ وہ اُس رول کی--- جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کیا ہے--- سطح تک بلند ہوسکے اور اس کے ہاتھوں اللہ کا منصوبہ--- جو اُس نے اِس اُمت سے وابستہ کیا ہے--- انجام پذیر ہوسکے۔
وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۱)
اور اُسے اہل کفر کا زور توڑنا تھا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ حق کے ذریعے باطل کا زور توڑ دیتا اور اُسے ختم کر دیتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے‘ جب کہ حق کھل کر سامنے آجائے اور اللہ تعالیٰ کے عملِ تمحیص کے نتیجے میں وہ ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہو جائے۔
اب ایک استفہامِ انکاری کے ذریعے اللہ تعالیٰ دعوتِ حق ‘ فتح و شکست اور عمل اور جزا کے بارے میں سنت اللہ کو بیان فرماتا اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے تصورات کی تصحیح کرتا ہے۔ وہ واضح فرماتا ہے کہ جنت کاراستہ مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے اور راہِ حق کے مصائب وشدائد پر صبر اختیار کرنا اِس راہ کا توشہ ہے‘ نہ کہ آرزوئیں اور تمنائیں جو مصائب و شدائد اور تمحیص کے عمل کے موقع پر ٹھہر نہ سکیں:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۲-۱۴۳)
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ تم جنت میں یوں ہی پہنچ جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا‘ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا--- اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘ اور تم موت کی --- قبل اِس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
استفہام انکاری کے صیغے سے مقصود فکرونظر کی غلطی پر شدت کے ساتھ تنبیہ کرنا ہے۔ فکرونظر کی یہ غلطی کہ انسان زبان سے ’’اسلام لایا‘‘ کے الفاظ دُہرا دے اور سمجھے کہ اب میں موت کے لیے تیار ہوں اور محض اِن الفاظ کی ادایگی سے وہ ایمان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور جنت اور اللہ کی رضا تک پہنچنے کا اہل ہو جائے گا۔ نہیں‘ عملی تجربے اور عملی جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد کرنے اور مصائب سے دوچار ہونے اور پھر جہاد کی تکالیف اور مصائب و آلام سے دوچار ہونے پر صبر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآنِ مجید کے یہ الفاظ بہت معنی خیز ہیں: وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ (۳:۱۴۲) ’’حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا‘‘ اور وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ (۳:۱۴۲) ’’اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘ ، یعنی اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اہل ایمان جہاد کریں‘ دعوتِ حق کی تکالیف پر صبر بھی ضروری ہے۔مسلسل‘ مستمر اور متنوع تکالیف پر --- جو میدان کے جہاد تک محدود نہیں ہیں۔ صبر! بسااوقات دعوتِ حق کی تکالیف سے--- جن میں صبر مطلوب ہے اور جن سے ایمان کا امتحان ہوتا ہے--- میدان کا جہاد نسبتاً ہلکی تکلیف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تو روزانہ مشقتوں کو جھیلنے کا سلسلہ ہے‘ جو ختم نہیں ہوتا۔ پھر ایمان کے اُفق پر استقامت کی مشقت ہے۔ فکروعمل اور زندگی کے رویے میں ایمان کے مقتضیات پر قائم رہنا ہے‘ اور اِسی دوران اپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے سلسلے میں--- جن سے مومن کو روزانہ کی زندگی میں سابقہ پیش آتا ہے--- انسانی کمزوری پر صبر۔ اُن اوقات میں صبر‘ جب کہ وہ غالب و سربلند ہوجاتا ہے اور ایک فاتح کی طرح اپنا زور دکھاتا ہے۔ راہِ حق کی درازی و دشواری اور موانع کی کثرت پر صبر۔ جدوجہد‘ کرب و بلا اور جنگ کی زحمتوں کے مقابلے میں راحت و آرام کی طرف رغبت اور اُس کے لیے نفس کے اشتیاق کے مقابلے میں صبر۔ اِسی طرح اور بہت سے امورکے مقابلے میں--- جن میں میدان کا جہاد صرف ایک امر ہے--- صبر‘ اور یہ صبر اُس راستے پر چلنے کے دوران ہے‘ جو مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے‘ یعنی جنت کا راستہ۔ وہ جنت جو آرزووں اور لفظی جمع خرچ سے حاصل نہیں ہوتی! (جہاد اور صبر سے حاصل ہوتی ہے)۔
وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۳)
اور تم موت کی --- قبل اس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے‘ تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
اِس طرح قرآن انھیں ایک بار پھر موت کے--- جس سے اُن کا سامنا میدانِ جنگ میں ہوا تھا--- آمنے سامنے لاکر کھڑا کر دیتا ہے۔ اِس سے قبل وہ موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ کلمے کے وزن کے--- جسے زبان ادا کرتی ہے اور عملی حقیقت کے وزن کے--- جو آنکھوں سے نظر آتی ہے--- مابین موازنہ کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ جو بات بھی‘ اُن کی زبان سے نکلے‘ اُس کا خیال رکھیں‘ پھر اُس کے عملی اثرات کا ‘ جو ان کے نفوس پر پڑیں‘ عملی حقیقت کی روشنی میں--- جس سے وہ عملاً دوچار ہوں--- وزن کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ منہ سے نکل کر اُڑ جانے والے الفاظ اور اُونچی اُونچی آرزوئیں انھیں جنت تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔ جنت تو حاصل ہوگی کلمے کو قائم کرنے‘ آرزووں کو عمل کے پیکر میں ڈھالنے‘ حقیقتاً جہاد کرنے اور مصائب و آلام پر صبر کرنے سے اور یہ اِس حد تک کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی دنیا میں عملاً اِن سب امور کو واقع ہوتا دیکھ لے۔
یقینا اللہ سبحانہ وتعالیٰ اِس بات پر قادر تھا کہ اپنے نبی‘ اپنی دعوت‘ اپنے دین اور اپنے نظامِ زندگی کو پہلے ہی لمحے فتح و نصرت سے نواز دیتا‘ بغیر اس کے کہ اہل ایمان کوئی جدوجہد کرتے اور مشقت برداشت کرتے۔ وہ اِس بات پر بھی قادر تھا کہ فرشتے نازل فرما دیتا‘ جو اہل ایمان کے ساتھ مل کر یا اُن کے بغیر جنگ کرتے اور مشرکین کو اسی طرح ہلاک کر دیتے جس طرح کہ انھوں نے قومِ عاد‘ قومِ ثمود اور قومِ لوط کو ہلاک کر دیا تھا۔
مسئلہ فتح و نصرت کا نہیں‘ اُمت ِ مسلمہ کی تربیت کا تھا‘ جو اِس لیے تیار کی جا رہی تھی کہ اسے انسانیت کی قیادت سونپی جائے۔ انسانیت کی ‘ اُس کی تمام کمزوریوں اور نقائص کے ساتھ‘ اس کی تمام خواہشات و جذبات کے ساتھ اور اس کی تمام جاہلیتوں اور کج رویوں کے ساتھ‘ قیادت! اور قیادت بھی‘ حق و رُشد کی قیادت! یہ قیادتِ راشدہ اِس بات کی متقاضی تھی کہ قائدین اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں۔ اِس قیادت کا اوّلین تقاضا ہے کردار کی مضبوطی و صلابت‘ حق پر ثبات و استقامت‘ مصائب و مشکلات پر صبر‘ ] نیز[ انسانی نفوس میں ضعف اور قوت کے مواقع کی معرفت اور لغزشوں کے مواقع اور کج روی و انحراف کے محرکات اور اُن کے علاج کے ذرائع و وسائل سے آگاہی۔ پھر شدید حالات پر صبر کی طرح حالات کی فراخی و سہولت پر بھی صبر۔ اسی طرح حالات کی سہولت و فراخی کے بعد شدید حالات پر صبر‘ جب کہ اُن کا مزا حد درجہ تلخ ہو۔
یہ ہے اللہ تعالیٰ کی‘ اِس اُمت کے لیے تربیت۔ اللہ تعالیٰ اِس تربیت کے ساتھ اِس اُمت کا‘ جب کہ وہ اُسے قیادت کی کنجیاں سونپنے کا اِذن دیتا ہے‘ ہاتھ پکڑ کر اُسے آگے بڑھاتا ہے‘ تاکہ اِس تربیت کے ذریعے اُس عظیم اور پُرمشقت رول کی ادایگی کے لیے‘ جو زمین میں اِس اُمت سے متعلق کیا گیا ہے‘ اِس اُمت کو تیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ رول اُس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے اِس وسیع و عریض دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔
انسانیت کی قیادت کے لیے اُمت مسلمہ کی تیاری کا خدائی منصوبہ مختلف اسباب و وسائل اور مختلف حالات و واقعات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کبھی یہ منصوبہ اِس طرح بروے کار آتا ہے کہ اُمت مسلمہ کو قطعی اور فیصلہ کُن فتح ہوتی ہے‘ اِس سے وہ خوش خبری پاتی ہے‘ اور اللہ کی مدد کے زیرسایہ اُس کا‘ اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے‘ فتح و نصرت کی لذت کا اُسے تجربہ ہوتا ہے‘ فتح کے نشے کے مقابلے میں وہ صبر کا رویہ اختیار کرتی ہے اور اتراہٹ ‘ خود پسندی اور فخروغرور پر قابو پانے کی‘ اپنی صلاحیت و قوت کا‘ اُسے تجربہ ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسے اِس بات کا بھی تجربہ ہوتا ہے کہ وہ کس درجہ اِس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتی اور تواضع کے ساتھ اُس کے آگے جھکتی ہے۔ اور کبھی خداے تعالیٰ کا یہ منصوبہ اُمت کی شکست اور مصائب و آلام میں اس کے مبتلا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس صورت میں وہ اللہ کا دامن پکڑتی اور اس کی پناہ میں آتی ہے۔ اُسے اپنی ذاتی قوت کی حقیقت اور اپنی کمزوری و ناتوانی کا--- جب خدائی نظامِ زندگی سے ادنیٰ انحراف کرتی ہے--- بخوبی علم ہو جاتا ہے اور اسے شکست کی تلخی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ باطل کے مقابلے میں سربلند رہتی ہے‘ کیونکہ اس کے پاس خالص حق ہے اور اُسے اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں اور ان کے مواقع اور اپنی خواہشات کی دراندازی اور اپنے قدموں کی لغزشوں کے مواقع کا علم ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس بات کی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ اِن سب کمزوریوں اور لغزشوں سے خود کو پاک کرکے اگلے حملے میں شریک ہواور فتح و نصرت اور شکست و ہزیمت‘ دونوں سے اپنے لیے زادِ راہ اور سازوسامان حاصل کر کے لوٹے--- اس طرح اللہ کا منصوبہ‘ اُس کی اٹل سنت کے مطابق ‘ جس میں کبھی تخلّف نہیں ہوتا‘ پورا ہوتا ہے۔
’’کتنی عجیب و غریب ہے قرآنِ مجید کی بیان کردہ یہ حقیقت! غزوئہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ کفر کا زور ختم کر دے گا۔ کیسے؟ اہلِ ایمان کو اپنی کمزوریوں کا علم ہوگا اور وہ اللہ کی توفیق اور رسول کی تربیت کے نتیجے میں پاک صاف اور پختہ تر ہوکرازسرِنو حق کے غلبے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ہاتھوں اہل کفر کا زور توڑ دے گا--- غزوئہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مسلسل پورا ہوا‘ یہاں تک کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں مشرکین کا زور بالکل ٹوٹ گیا‘ پورا عرب اسلام کے زیرنگیں ہوگیا اور اس کے بعد ۲۰‘ ۲۵ سال کے عرصے میں قیصروکسریٰ کی عظیم طاقتیں سرنگوں ہو گئیں اور گردوپیش کے بہت سے ممالک پر انھی اہل ایمان کے ہاتھوں اسلام کا پرچم لہرانے لگا‘‘ (مترجم)۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ج ۲‘ ص ۳۳۱-۳۴۴۔ تدوین: امجد عباسی)
اللہ ربّ العالمین اپنے جن بندوں کو نہایت اہم ذمے داری سپرد کریں‘ خصوصی صلاحیتوں اور اوصاف سے بھی نوازتے ہیں۔ اللہ کے پیغام و احکامات کی تبلیغ اور انسانیت کی رہنمائی کے منصب پر فائز کائنات کی سب سے ارفع و اعلیٰ‘ محترم و بزرگ ہستیوں ‘انبیاے کرام کو ایسے خصائص عطا ہوئے جن کے باعث وہ عام انسانوں سے ممتاز اور منفرد ہوئے۔
سیدالانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والے بے شمار خصائص میں کچھ تو ایسے ہیں‘ جو کسی دوسرے کو نہیں ملے‘ خواہ وہ انبیاے سابقین ہوں یا آپؐ کی اُمت کے دیگر افراد۔ کچھ خصائص ایسے بھی ہیں جو بحیثیت نبی ٔ آخرالزماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فضل و افتخار بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خصائص و کمالات کے سبب تااَبد حاصل رہنے والی بلندیوں تک تو پہنچے ہی--- بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ--- اُمت کے لیے بھی اس طرح باعث ِ رحمت ثابت ہوئے کہ ذاتِ اقدس کا ہر حوالہ اپنے معبود اور اپنے امتیوں کے گرد گھومنے لگا۔ محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ ہر امتیاز‘ فخر‘ شان‘ فضیلت و خصوصیت محمدؐ رسول اللہ کی ہستی اور الَّذِیْنَ مَعَہُ تک پھیل گیا۔
کتب سیرت میں سیدالانامؐ کے خصائص و فضائل کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر فی الحقیقت اِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ حَدٌّ ---آنحضورعلیہ السلام کے کمالات بے حد وحساب‘ جن کے بیاں سے انسان عاجز ہے۔ سیرت نگاروں نے اِن خصائص و کمالات کی وسعت کو بھی آنحضور علیہ السلام کی ایک منفرد خصوصیت اور امتیازی شان قرار دیا ہے۔
جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی واحد ہستی ہیں کہ جن کی حیاتِ مطہرہ کا ہر لمحہ‘ ہرعمل‘ ہر جنبش نگاہ و لب مکمل تفاصیل کے ساتھ محفوظ ہے۔ تاریخ نے اس قدر باریک بین نگاہوں‘احتیاط اور جزئیات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات‘ خصائل و شمائل کا مطالعہ اور احاطہ کیا ہے کہ یہ بجائے خود حیرت انگیز ہے۔ تاریخ جس نے سرزمینِ عرب کو کبھی بھی درخوراعتنا نہ سمجھا تھا‘ آپؐ کے وجود سے اس قدر اَہم ہوگئی کہ ذاتِ اقدس نہ صرف عرب‘ بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور معتبرحوالہ‘ محور و مرکز بن گئی۔ تاریخ کا یہ سفر شروع ہوا تو وہاں وہاں تک پہنچا‘ جہاں ذاتِ اقدس کا کوئی بھی حوالہ موجود تھا۔ حملۂ اَبرہہ کے موقع پر جدِّرسولؐ کا کردار ہو یا والدِ رسولؐ کی شرافت و نجابت کا فخر‘ اُمّ رسولؐ کی خاندانی عزت و مرتبت کا تذکرہ ہو‘ یا ولادت سے پہلے کے واقعات‘ ظہورِ قدسی کے لمحوں میں کہاں کہاں روشنیاں چمکیں! تہلکے کہاں کہاں مچے! کون کون سے آتش کدے بجھے! کیسے کیسے ہنگامے برپا ہوئے!! یہ سب مناظر تاریخ نے بنظرِغائر دیکھے اور خصائصِ رسالت مآبؐ کے طور پر محفوظ کر لیے۔
رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و خصائل پر شاہد اور راوی آپؐ کے پاکیزہ ساتھی تو ہیں ہی! تعجب انگیز گواہی اُن لوگوں کی ہے‘ جو آپؐ کے نہ تو پیروکار تھے‘ نہ دین کے علم بردار‘ اور نہ آپؐ کے اطاعت گزار! ساری زندگی نظریاتی اختلاف‘ اور تکذیب و عداوت کے مسلسل رویوں کے باوجود عظمت مصطفویؐ اور فضیلت مرتضوی ؐ کے شاہد۔ کبھی شاہِ رُوم کے محل میں‘ کبھی نجاشی کے دربار میں‘ کبھی اپنوں کی مجلس میں اور کبھی اصحابِ رسولؐ کے سامنے!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ذاتی خصوصیت أَنَا دَعْوَۃُ أبِیْ اِبْرَاھِیْمَ --- میں اپنے جدِّامجد ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں! رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ --- اللہ نے اپنے خلیل کی یہ دعا قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری خصوصیت ’’اُمت پر احسان‘‘ منظرعام پر آئی۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری خصوصیت تشریف آوری سے قبل ماقبل الہامی کتب میں آمد کا تذکرہ ‘ فاران کی پہاڑیوں پر روشنیوں کے طلوع کی خبر--- یَأْتِی مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہُ أَحْمَدْ--- کی بشارت ‘ مقدس‘ منور القلب‘ مبارکِ عالم کائنات کے القاب سے تعارف!
سیدالانام ؐ کی چوتھی خصوصیت --- اسمِ مبارک ’’محمدؐ‘‘ اور ’’احمدؐ‘‘ --- رب العالمین کے اسمِ پاک ’’محمود‘‘ کا حصہ۔ کائنات کا سب سے منفرد‘ ممتاز نام۔ جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوا‘ نہ کوئی اِس کا مصداق ٹھہرا‘ نہ بامسمّٰی پیدا ہوا۔ رسولؐ اللہ عالمِ ہست و بود کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعریف کی ہوئی ہستی قرار پائے! یہ خصوصیت بھی آپؐ ہی کا امتیاز ہے کہ اہل ایمان کے ناموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا لاحقہ ہمیشہ عطا ہونے والی فضیلتوں اور برکتوں کا موجب ہے۔
خیرالانامؐ کی پانچویں ذاتی خصوصیت آپ علیہ السلام کی رسالت کی شہادت ہے۔ جس ذاتِ اقدس کی آمد پر کائنات میں روشنی بکھر گئی‘ قیصروکسریٰ کے محلات کے در و دیوار بجنے لگے‘ فارس کے آتش کدے بجھ گئے‘ منصب رسالت پر فائز کیے جانے کے بعد راستے میں آنے والے شجر عظمتِ رسالتؐ کے سامنے جھک گئے‘ مٹھی میں بند حجررسالت کے گواہ بن کر بول پڑے۔ خود ربّ العالمین نے قسم کھاکر رسالت کی گواہی دی۔ یٰسٓ، وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ ‘ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ --- رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تو سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹی خصوصیت سے نوازا گیا۔ خود بارگاہِ الٰہی سے اعتراضات کا جواب آیا۔ مَا أَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ --- مَا ضَلَّ صَاحِبْکُمْ وَمَا غَوَیٰ --- وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ --- اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔
آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتویں خصوصیت اللہ عزوجل کی طرف سے قرآنِ عظیم میں براہِ راست ذاتی نام سے خطاب کی بجائے صفاتی ناموں کا استعمال ہے۔ یَا اَیُّھَا الْمُزَمِّلْ ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر۔ آپؐ کے یہ صفاتی نام بھی آپؐ کی خصوصیت قرار پائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھویں خصوصیت یہ کہ قرآنِ حکیم میں اللہ جل جلالہ نے لَعَمْرُکَ، آپؐ کی زندگی کی قسم اُٹھائی‘ آپؐ کی جاے اقامت کی قسم--- لَا اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ‘ آپؐ کے عہد کی قسم--- وَالْعَصْرِ--- آپؐ کی ذات سے متعلق مختلف چیزوں کی قسم!
سرورِ کائنات علیہ افضل التحیات کی نویں خصوصیت --- ختمِ نبوت--- کہ آپؐ عمارتِ نبوت کی تکمیل کرنے والے‘ سلسلۂ رسالت کے آخری تاجدار‘ اس کی آخری اینٹ۔ ختم بِی الْنُبُوَّۃ --- لَانَبِیَّ بَعْدِیْ --- تاریخیت‘ کاملیت‘ جامعیت‘ ابدیت‘ عملیت اور عالمیت کی ہمہ گیر خصوصیات کے ساتھ متصف نبوت کے حامل قرار پائے۔ شجروحجرجن کی رسالت کے گواہ‘ جن و انس جن کی اُمت میں شامل--- جن کی شریعت تمام شریعتوں کی ناسخ‘ جو جبرئیل امین اور وحی الٰہی کے آخری مہبط--- جن کا ہر لفظ قانون‘ دین و شریعت‘ جن کا ہر عمل واجب الاتباع‘ جن کا ہر قول حرزِ جاں‘ جن کا ہر فرمان عالی شان‘ علم و حکمت‘ جامعیت و معنویت کا خزینہ--- اہل ایمان کو نہ اختلاف کی اجازت‘ نہ سرتابی کی جرأت‘ نہ انکار کی گنجایش--- وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ اَمْرًا، اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ ان کے دامنِ پاک سے وابستگی‘ ان کو معیارِ حق تسلیم کرنا‘ دل و جان سے غیرمشروط اطاعت‘ بے چون و چرا تعمیلِ ارشاد‘ دین و دنیا کی سعادتوں‘ نجات اور بخشش کی ضمانت قرار پائے۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دسواں شرف --- اُمّی لقب--- رسمی تعلیم‘ تحریر و کتابت سے ناآشنا‘ روایتی مَدْرَسوں اور مُدَرِّسوں سے بے نیاز۔ براہِ راست اللہ ذوالجلال کی زیرنگرانی تربیت یافتہ--- اَدَّ بَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ--- مزید یہ کہ اسرارِکائنات‘ علوم و معارف‘ دین و دنیا کی رہنمائی کے لیے اَلَمْ نَشْرَحَ لَکَ صَدْرَکَ کی فضیلت سے بہرہ ور ہوئے۔
اُمت کے معلّم‘ مربی‘ مزکی‘ زبان سے منشاے الٰہی کے مبلغ و شارح‘ عمل سے اُمت کے لیے نمونۂ کامل اور اُسوۂ حسنہ۔ نگاہِ ناز سے دلوں کو جِلا بخشنے‘ تطہیرقلوب‘ تعمیرافکار‘ اور تربیت کردار کرنے والے‘ قول و عمل کو ہم آہنگی عطا کرنے اور زندگی کے تضاد ختم کرنے‘ دل کی کدُورتیں صاف کرنے‘ غلامی کے طوق اُتارنے‘ ذلّت و پستی کی زنجیریں توڑنے اور آگ کے گڑھے سے بچا بچا کر رحمت ِ ایزدی کے سائے تلے لاکھڑا کرنے کی بے شمار خصوصیات بھی آپؐ کی ذاتِ مبارک کے نمایاں پہلو ہیں!
سرورِ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارھویں خصوصیت ’’اُمت کثیر‘‘ سے نوازا جانا ہے۔ کوہِ صفا پر توحید و رسالت کا اعلان کرنے والے تن تنہا‘ بے یارومددگار‘ جانب ِ منزل اکیلے ہی چلنے والے--- ۲۳ برسوں کے محدود عرصے میں لاکھوں جاں نثاروں کے مقتدیٰ‘ ضعیفوں کے ملجا اور یتیموں کے ماویٰ اور انسانیت کے راہبر و رہنما بن گئے۔ تاریخ نے حجۃ الوداع کے دن شوکت و سطوت کا وہ عظیم الشان منظر بھی دیکھا کہ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے سوا لاکھ سے زیادہ پاکیزہ اصحاب‘ جاں نثاری و فداکاری کے جام ہاتھوں میں تھامے کھڑے‘ آقا کے اشارئہ ابرو پر اپنے ماں باپ اور اپنا وجود قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ انسانوں کا اس قدر جمِ غفیر‘ اتنا بڑا سوادِاعظم کہ اُفق نظروں سے غائب ہوگیا۔ وہ مرحلہ آپہنچا--- یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ آپؐ کا یہ فضل کہ آپؐ کی اُمت بڑھتی ہی گئی۔ قیامت تک بڑھتی رہے گی۔ آپؐ اُمتیوں کی کثرت پر فخر کریں گے۔ آپؐ کو یہ خصوصیت بھی عطا ہوئی کہ آپؐ کی اُمت سب سے بڑی‘ آخری اور بہترین--- خَیْرَاُمَّۃٍ --- اور ’’اُمت وسط!‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارھویں نمایاں خصوصیت --- أصْحَابِیْ کَالْنُّجُوْمِ--- ستاروں کی مانند--- کائنات کے سب سے محترم‘ معتبر اور پاکیزہ نفوس آپؐ کے صحابہ قرار پائے۔ انھوں نے صحبت رسولؐ کا فیض پایا۔ دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اُنھیں چاہا‘ جنت کے بدلے جانوں کے سودے کا عہد نبھایا۔ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ۔ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی--- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۔ ایسے پاکیزہ اور قدسی نفوس‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجسم معجزے‘ تاقیامت اُمت کے لیے ہدایت کے سرچشمے۔ روشنی کے مینار--- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر یہ بھی تھا کہ آپؐ کے صحابہ کا تذکرہ‘ آپؐ کے ذکر کے ساتھ قرآن اور ماقبل الہامی کتب میں کیا گیا۔ مَثَلُھُمْ فِی الْتَّوْرَاۃ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔
خیرالانام کی متعدد خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپؐ ’’باب رحمت‘‘ اور ’’مفتاح الجنۃ‘‘ ہیں۔ جنت سب سے پہلے آپؐ کے لیے کھولی جائے گی ‘ اور آپؐ کے بعد آپؐ کے اُمتیوں میں سے نفوس مطمئنہ‘ رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً --- اور ان کے بعد دوسرے داخلے کی اجازت پائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق و باطل کی وضاحت کرنے‘ انسانیت کو ظلمات سے نکل کر روشنیوں سے ہم کنار کرنے‘ آگ کے گڑھوں سے بچا بچا کر جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کرنے‘ اُمت کی بخشش کی سعی ٔ مسلسل اور راتوں کو دعائیں کرتے رہنے کے باعث نَبِیُّ الرَّحْمَۃِ اور نَبِیُّ الْتَوْبَۃِ کے امتیازات و خصائص سے بھی متصف ہوئے!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذُوْالقِبْلَتَیْنِ--- ساری اُمتوں کی مشترکہ میراث--- صَاحِبِ خَیْرُالْقُرُوْنِ --- زمانوں میں سب سے بہتر زمانے والے۔ عرب ہی نہیں کائنات کے سب سے محترم‘ بزرگ اور اشرف خاندان‘ خوب صورت و نیک سیرت مرد و عورت کے گھر ولادت کے باعث۔ اَشْرَفُ النَّاسِ ، اللہ کے بعد کائنات کی سب سے مکرم و محترم ہستی--- اَکْرَمُ الْخَلْقِ کے خصائصِ ذاتی سے بھی مشرف ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بُرھَانٌ و بَیِّنَۃٌ کے القاب سے متصف‘ حیاتِ مبارکہ حق کی روشن و مستحکم دلیل‘ آپؐ صاحب ِ خلقِ عظیم--- جس کی شہادت قرآن نے --- اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ--- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قبل از نبوت کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کے ذکرسے--- اِنَّکَ لَتَصِلُ الْرَّحِمَ--- آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ وَتَصْدُقْ الْحَدِیْثَ--- سچی بات کہتے ہیں‘ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ--- کمزور کا بوجھ اُٹھاتے ہیں‘ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ---ضرورت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں‘ وَتَقْرِیْ الْضَّیْفَ ---مہمان نوازی کرتے ہیں‘ وَتْعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ--- اور حق کی راہ میں مشکلات پر مددگار بنتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے --- کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن--- کے ذریعے دی۔ اور یہ صفات بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خصائص کا حصہ قرار پائیں!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے مونس و غم خوار‘ اس کے درد اور دُکھ میں اپنی جان گھلانے کی صفت سے متصف--- لَعَلَّکَ بِاخِعٌ نَفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ--- راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُمت کی ہدایت‘ بخشش و مغفرت اور نجات کی مسلسل دُعائیں‘ قدمِ مبارک پر ورَم اور سینۂ اطہر سے اُبلتی ہوئی ہانڈی کی طرح نکلنے والی آوازوں کے ساتھ--- خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کا حصہ ہیں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر مرضی ٔ مولا‘ پیمانۂ محبت خدا--- اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ --- معیار صراطِ مستقیم--- وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا--- اپنے پر ایمان لانے والوں--- فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٖ‘ اپنی توقیر کرنے والوں--- وَعَزَّرُوْہُ ،اپنی مدد کرنے والوں--- وَنَصَرُوْہُ، اپنے لائے ہوئے نورِ ہدایت کا کامل اتباع کرنے والوں--- وَاتَّبَعُوْا الْنُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ کے لیے نجات و کامیابی کی ضمانت --- اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منفرد خصوصیت‘ شان اور کمال یہ بھی ہے کہ آپؐ کو جو نسخۂ کیمیا عطا ہوا۔ ہر شک‘ شبہے‘ تحریف اور ملاوٹ سے پاک۔ لَارَیْبَ فِیْہِ--- دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ باطل کے حملوں سے محفوظ--- لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ۔
جملہ الہامی تعلیمات کا مجموعہ‘ علوم و معارف کا خزینہ‘ حکمت و موعظت اور قلب ونظر کی شفا و رحمت کا سرچشمہ--- قرآن حکیم--- زندہ و جاوید‘ پایندہ و تابندہ معجزہ۔ آپؐ کا یہ امتیاز و خصوصیت بھی کہ آپؐ ہی اس کی تبیین‘ تشریح اور توضیح کے مختار قرار پائے!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرھویں خصوصیت کبریٰ --- اُوْتِیْتُ جَوَامَعَ الْکَلِمِ۔ فصاحت و بلاغت کے مرکز‘ شعروخطابت کے ماحول میں زبردست قدرتِ کلام‘ بے پناہ فصاحت و بلاغت--- أنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ--- بلندپایہ خطیب‘ ماہرعالم نفسیات‘ لوگوں کے مزاج اور طبائع سے آشنا۔ زبردست اور دل نشیں طرزِ کلام‘ موثر اندازِ تخاطب کی حامل ہستی کے بے مثل ابلاغ کے عکاس۔ آپؐ کے ’’جوامع الکلم‘‘ --- پاکیزہ اور مختصر جملے‘ لفظی‘ ادبی اور صوتی حسن کے شاہکار‘ وسعت ِ معانی کے نمونے‘ حیاتِ انسانی کے فلسفے اور حقائق کا واضح بیاں‘ مسائل‘ اُلجھنوں اور عُقدوں کا حل چند اشاروں میں--- کوزے میں دریا--- تاریخ انگشت بدنداں ‘ عقل محو تماشاے لب بام--- کہ یہ سب اُس کی زباں سے ادا ہوئے‘ جو لکھنے پڑھنے کی حاجت اور عالموں کی صحبت سے بے نیاز تھا۔ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابِ وَلَا تَخُطُّہُ بِیْمِیْنِکَ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پاکیزہ جملے زبانِ اطہر سے نکلتے‘ سماعتوں سے ٹکراتے اور دلوں میں اُترجاتے۔ جسم ہی نہیں‘ قلب ونظر فتح ہوتے چلے جاتے۔ یک بیک کایا پلٹتی‘ راستی و ہدایت کے دَر کھلتے‘ صراطِ مستقیم آشکار ہوتا چلا جاتا۔ سننے والا بے اختیار پکار اُٹھتا--- اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ!!
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور امتیازی خصوصیت نُصِرْتُ بِالْرُّعْبِ--- بے مثال رعب و دبدبہ‘ شان و شوکت‘قوت و سطوت‘ جلال و جمال سے آپؐ کی مدد--- الْنَّصْرُ قَادِمُہُ - وَالْفَتْحُ خَادِمُہُ ۔ نصرت و فتح ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں موجود---! غلبہ ایسا کہ فتحِ مکّہ کے روز سارے عرب کے سرنگوں۔ نصرت ایسی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ --- شان و شوکت ایسی کہ فتحِ مکہ کی شب تاحدِّنظر پھیلا ہوا لشکرِاسلام۔ لہراتے ہوئے رنگ برنگ ہزاروں عَلَم اور خیموں میں روشن چراغ--- جس سے کفر لرزہ براندام!!
سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت --- أَنَا رَحْمَۃٌ مُھْدَاۃٌ --- انسانیت کے لیے بطور ہدیہ عطا کی گئی‘ دنیا و آخرت میں سراپا رحمت۔ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ---! پیکرعفو و درگزر‘ مجسم رأفت و رحمت‘ اُمت کی ہدایت و مغفرت پر حریص۔ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ‘ اس کی پریشانیوں پر کُڑھنے اور تڑپنے والے--- عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، اپنے پر ایمان لانے والوں--- بِالْمُؤْمِنِیْنَ کے لیے رَوء فٌ رَحِیْمٌ---!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی شفقتوں نے پروانوں‘ فرزانوں اور مستانوں کا ہجوم آپؐ کے ارد گرد جمع کر دیا۔ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاْ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ--- اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ یوں دیوانہ وار اپنا تن ‘من‘ دھن نثار نہ کرتے۔
آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائصِ ذاتی میں یہ بھی شامل ہے کہ تکلم فرماتے‘ تو دل کے اندھیرے دُور ہوتے‘ تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتے‘ دل اس قدر نرم کہ زندہ گاڑی جانے والی بچیوں کے ذکر پر رقت طاری ہوگئی‘ ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ ستونِ حنانہ جدائی برداشت نہ کر سکا‘ رو دیا تو تڑپ اُٹھے‘ خطبہ موقوف کر دیا۔ اُونٹ نے مالک کے ظلم کا رونا رویا‘ تو دل بھر آیا‘ تھیلے میں تڑپتے پرندوں کی آوازسنی تو رہائی کا حکم دیا۔ معصوم حسنین کریمین دورانِ نماز پشت مبارک پر چڑھ گئے‘ تو سجدہ طویل کر دیا۔
ساری زمیں کو آپؐ کے اور اُمت کے لیے سجدۂ گاہ اور پاکیزہ بنا دیا جانا--- جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْض مَسْجِدًا وَطُھُوْرًا--- غنائم کاحلال کیا جانا--- اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے نکاح کی حُرمت‘ بیٹیوں پر سوکن لانے کی ممانعت‘ اپنے اہل بیت ؓ کے لیے زکوٰۃ سے دست برداری‘ مکہ و مدینہ کو سارے شہروں اورآپؐ کی مسجد کو تمام مساجد پر فضلیت‘ جسدِاطہر کا معطّرپسینہ‘ موئے مبارک کی برکتیں‘ انگلیوں سے پانی کی روانی‘ لعابِ دہن سے امراض کا علاج اور کھانے کی فراوانی۔ شق قمر اور شق صدر کے حیرت انگیز واقعات‘ عہدِماضی کی خبریں‘ آنے والے واقعات کی پیش گوئیاں‘ نمازِ جمعہ‘ اذان‘ اقامت‘ لیلۃ القدر اور ماہِ رمضان۔ دورانِ نماز ’’آمین‘‘، شعارِ اسلام--- یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی نمایاں امتیازات اور ذاتِ اقدس کے منفرد خصائص ہیں۔
شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں ’’شفاعت‘‘ اُمت کے لیے بہت بڑا تحفہ اور آنجناب علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کی بے مثال خصوصیت ہے۔ روزِ محشرجب جلالِ الٰہی کا آفتاب جوبن پر اور لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمَ ، لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارْ کی صدا ہر سمت گونج رہی ہوگی۔ عرشِ الٰہی کے سائے اور آقاے دوجہاںؐ کے مقامِ محمود اور حوضِ کوثر کے سوا کہیں جاے اماں نہ ہوگی۔ نفسانفسی کا عالم‘ انسانوں کے جھکے ہوئے سر‘ اُمت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوات والتسلیمات کی طرح دیگر اُمتیں شفاعت ِ محمدیؐ سے فیض یاب ہونے کی اُمیدوار اور بے قرار۔ ایسے میں ایک صدا اُبھرے گی‘ صاحب جلال و جبروت رب عرش و اَرض کی رحمت بھری آواز--- مژدۂ جانفزا‘ پیامِ امن و سلامتی--- یَامُحَمَّدْ! اِرْفَعْ رَأسَکَ۔ اے محمدؐ! سراُٹھایئے! قُلْ تُسْمَعْ --- کہتے جایئے‘ آپ کی سنی جائے گی‘ اِسْئَلْ تُعْطَ --- سوال کرتے جایئے‘ آپ کا من چاہا ملتا جائے گا‘ اِشْفَعْ تُشَفَّعْ--- شفاعت کیجیے ‘آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت ’’کمالِ عبدیت‘‘ ہے۔ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی--- شبِ معراج مسجدحرام سے مسجدِاقصٰی کا سفر پلک جھپکتے میں‘ آدم علیہ السلام سے عیسٰی علیہ السلام تک انبیا و رسُل کی امامت کی سرفرازی‘ براق کی سواری‘ جنت ودوزخ کا مشاہدہ‘ آسمان پر انبیا سے ملاقات‘ سدرۃ المنتٰہی پر دو قوس--- قَابَ قَوْسَیْنِ --- یا اس سے بھی کم فاصلے--- أَوْ اَدْنٰی۔ پر اپنے رب کے ساتھ ہم کلامی کا شرف آپؐ کے خصائص کا حصہ ہیں!!
خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بھی نمایاں ہے کہ آپؐ کا دین‘ مکمل ترین--- الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ--- آپؐ پر الٰہی نعمت ِ عظمیٰ--- راہِ مستقیم--- کا اتمام--- اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ، آپؐ کا دین اللہ کا پسندیدہ و محبوب دین ۔ رَضِیْتُ لَکَمْ الْاِسْلَامَ دَیْنًا۔ اور اس کی بارگاہ میں مقبول۔ وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔ آپؐ کا دین آسان ترین دین --- الْدِّیْنُ یُسْرٌ، آپؐ کا دین غالب ترین دین۔ جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ--- بلاشبہہ آپؐ کے وجودِ پاک سے حق غالب ہوا اور باطل مٹ گیا---
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت ِ شب جہاں جہاں
اِک طلوعِ آفتاب ، دشت و چمن سحرسحر
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے دین میں نہ کسی کو کمی کا اختیار ہے‘ نہ اضافے کی اجازت‘ نہ تغییرو تبدیل کی گنجایش‘ نہ پیوندکاری کی ضرورت--- اس میں ادخُلُوْا فِی الْسِلْمَ کَآفَّۃً کا پیغام‘ جَاھِدُوْا فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ کا حکم‘ اعلاے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کی رہنمائی--- لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَائ، دشمنانِ حق کی مکمل سرکوبی اور فتنہ و فساد کے مکمل خاتمے کی ہدایت--- قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃً۔ غلبۂ حق کی تکمیل منزل کی جانب بڑھتے رہنے کا فرض۔ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلَّہُ لِلّٰہِ --- وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا --- اتحاد و اتفاق اُمت کی کلیدِ کامرانی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا نسخہ کیمیا‘ یہ سب دین اسلام کے امتیازات اور اس کے جامع و کامل ہونے کے ہمہ پہلو دلائل ہیں!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور باکمال خصوصیت و امتیاز‘ اُمت کے لیے باعث ِ فخر--- کہ بّروبحر‘ زمین و آسمان‘ انفس و آفاق میں ظاہروباطن‘ جلی و خفی‘ صبح و شام ‘ہر جگہ‘ ہر وقت‘ ہر صورت آپؐ کا ذکر کائنات کے ہر ذی نفس سے بلندتر اور عام ہے۔ یہ مظہر ہے آپؐ کی شانِ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کا۔ ارشاد الٰہی ہے: اِذَا ذُکِرْتَ ذُکِرْتَ مَعْیِ۔ جب بھی مجھے یاد کیا‘ میرا نام لیا جائے گا۔ آپ علیہ السلام کا ذکر بھی ہوگا۔ قرآن کی تلاوت ہو یا اذان‘کے نغمے‘ انسانوں کی مجلسیں ہوں یا فرشتوں کی محفلیں۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ ہوں یا مناجات کے لیے تڑپتے ہونٹ‘ بے قرار سجدے ہوں یا خشوع و خضوع کے مظہر رکوع‘ تسبیح کے دانے ہوںیا انگلیوں کی پوریں--- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ ذکر حرزِجاں اور باعث سکون و اطمینان‘ راحت قلب و نظر بنا رہے گا۔
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور امتیاز آپؐ کا بے مثال ادب و احترام--- اُمت کو اس کی تلقین‘ خصوصی احتیاط کی ہدایت --- لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتِکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔رسول محترمؐ کی آواز سے اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ لاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِبَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔ بارگاہِ رسالت مآب میں ایک دوسرے کی طرح بلند آواز نہ کرو۔ پاسِ ادب ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رہے۔ شانِ عالی مرتبت کبھی ذہن سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھے‘ نہ زباں سے حرف نکلے‘ نہ اطاعت میں کوئی کوتاہی ہوجائے۔ رسالت مآب کی مرضی اور حکم پر تسلیم دل و جاں کے سوا کچھ نہ ظاہر ہو‘ انکار کی تو مجال ہی نہیں‘ کبیدگی ٔ خاطر بھی گوارا نہیں! ذرا سی بے احتیاطی کی اتنی بڑی سزا کہ تصور سے ماورا--- اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔ دنیا بھی خراب اور عقبیٰ بھی تباہ!!
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت‘ امتیاز و کمال کہ جس کے ذکر کے بغیر ہمارا اظہارِ عقیدت نامکمل رہے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ بارگاہِ ربّ العالمین سے حضورِانور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تاقیامت درود و سلام کی بارش۔ فرشتوں کو اس کی ہدایت اور اہل ایمان کو بے پناہ دنیوی و اخروی فضیلتوں‘ برکتوں اور رحمتوں کے تحفے کے ساتھ حکم۔ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا۔
آیئے! بارگاہِ سیدالانام علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں اپنے اظہار عقیدت و محبت کا اختتام لاکھوں درود اور کروڑوں سلام سے کریں کہ جو خود یتیم تھا‘ یتیموں کے حقوق کا محافظ اور ان کا سہارا بنا‘ خود مسکین تھا‘ دُنیا بھر کے مسکینوں کا آسرا ٹھہرا‘ خود مادّی سہاروں سے محروم تھا‘ کائنات کے مجبوروں‘ مقہوروں اور مظلوموں کا ملجا و ماویٰ بنا‘ خطائوں سے پاک تھا‘ اُمت کی لغزشوں‘ خطائوں اور گناہوں کا طلب گار ہوا۔ سارے جہاں کے لیے رحمت و شفقت کا سائبان بنا۔ جس کے قبضے میں دنیا جہان کے خزانوں کی کنجیاں‘ مگر اَلْفَقْرُ فَخْرِی پر نازاں۔ جو اپنے وجود‘ خصائل و شمائل‘ خصائص و امتیازات کے سبب اولین و آخرین۔ کائنات کے ہر ذی نفس کے لیے وجہِ افتخار اور باعث ِ نجات!!
اللھم صلی وسلم علی النبی الأمّی وعلٰی آلٰہٖ وأصحابہ وبارک وَسَلِّم!!
وقت کو عقیدئہ توحید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مغربی تصورات (اپریل ۲۰۰۳ئ) سے یکسر مختلف تصویر بنتی ہے۔ فہمِ وقت کا یہ انداز خلافت ِ ارضی پر مبنی انسانی زندگی کے تقاضوں اور ضروریات کا مکمل طور پر لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کو آشکار کرتا ہے‘ اس کی شانِ ربوبیت پر دلالت کرتا ہے اور بندے کو اپنے رب سے جوڑ دیتا ہے۔حقیقتاً یہ تصور انتہائی جان دار ہے۔
وقت پر غوروفکر ہرانسان کے بس میں ہے۔ گردش لیل و نہار‘ آئینہ ایام‘ اور تماشاے دنیا میں انسان مشاہدے‘ تجربے کے علاوہ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اثر لیتا ہے اور ڈالتا ہے۔ روز مرہ کے واقعات وقت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگرکرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت ایک ڈرانے والی اور جھنجھوڑنے والی شے ہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو خوش کن کم اور خوف ناک زیادہ ہے۔ وقت سراب کی طرح نظر آتا ہے۔ انسان لمحات کی تلاش میں‘ گذشتہ اوقات کی یاد میں‘ اور توقعات کے پورا ہونے کے انتظار میں اور تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کو کسی کام سے بھرنے کے بارے میں سوچتے سوچتے گزر جاتا ہے۔ یہ ایسا جام ہے جو غافل کو اور دھوکے میں رکھتاہے اور سوتے ہوئے کو اور مدہوش کر دیتا ہے۔ جو اس کے پیچھے ہوتا ہے‘ وقت اس سے آگے بھاگتا ہے۔
وقت مومن کے لیے نعمت ہوتا ہے۔ ایمان گزر جانے والے وقت کو محو نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے امر بنا دیتا ہے۔ ایمان وقت کے انتظار سے بچاتا ہے‘ قوتِ عمل کو بروے کار لانے کا داعیہ فراہم کرتا ہے۔ ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر آن ہمیشہ کی زندگی کا نیا باب کھول دیتا ہے۔ اللہ کی نصرت سے وقت سکڑتا ہے اور پھیلتا ہے۔ کام آسان ہو جاتے ہیں‘ راہیں کھل جاتی ہیں۔ مزید کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو زندگی پلک جھپکتے گزر جاتی ہے وہ ابدی و لازوال نعمتوں کی حقیر سی قیمت ٹھہرتی ہے۔ ایسی زندگی آہ! کاش! اور انتظار کی صعوبت سے ناآشنا رہتی ہے۔ وقت اس کی مٹھی میں بند رہتا ہے۔ جو وقت کے پجاری ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور جو وقت کے شکاری ہوتے ہیں وہ اسے سر نگوں کر لیتے ہیں۔
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ایک ایسی تخلیق ہے جو دیگر مادّی تخلیقات سے قبل وجود میں آتی ہے۔ تخلیقی عمل کے تسلسل کا اسٹیج وقت کی لہر پر استوار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کے درمیان رابطہ اور تعلق کا وسیلہ بھی ہے۔ اس لیے وقت پر غوروفکر انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے۔ اس پر ایمان وقت کے معیار پر انسانی زندگی اور تمام مادّی اشیا کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ابدی وجود کو واشگاف حقیقت کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ غیب تک رسائی وقت کے نظام پر غور کرنے سے ہو جاتی ہے۔ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے وقت اور اس کی بعض خصوصیات کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی‘ جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے‘ اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے‘ اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔ (البقرہ ۲:۲۵۸)
اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت کا وہ سانچہ یا معیار جو انسانی زندگی کے ساتھ متعلق ہے‘ استعمال نہیں ہو سکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نظمِ وقت کی خالق ہے‘ اور وہ خود تمام پہلوئوں سے اُس وقت کے نظام سے ماورا اور بالاتر ہے۔ اللہ زندہ و جاوید ہے‘ حّی و قیوم ہے۔ یہ وقت کا کون سا تصور ہے؟ اس کا ادراک شاید انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ زمین اور آسمان میں جو وقت برپا ہے اس کے محدود علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اندازہ لگانا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ایسے ہے کہ جیسے ہمیں معلوم ہے کہ اللہ جمیل ہے لیکن اس خوب صورتی کا ادراک انسانی ذہن کی صلاحیت سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وقت اور کام میں تھکن اور نیند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی وقت دورے کی مانند چلتا ہے۔ جو روزانہ ایک بار ایک دورہ مکمل کرتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ماہ و سال کا دورہ ہوتا ہے‘ اور پھر پوری زندگی اپنا دورہ مکمل کر لیتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ انسان پہلے بچہ ہوتا ہے اور پھر مختلف ادوار سے گزر کر دوبارہ بچے کی طرح محتاج بن جاتا ہے۔ اس طرح زمانے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بار بار لوٹ کر آتا ہے‘ عروج و زوال کی تصویریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ سورۃ آل عمران میں آیا ہے کہ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں (آیت ۱۴۰)۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت نہ دورہ ہے اور نہ ہی کوئی لکیر جو کھینچ دی گئی ہو۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اس کائنات کے وقت کی حیثیت ایک ایسے خط کی ہے کہ جو مسلسل حرکت پذیر ہے۔ اس کے سارے مراحل اور نقش عملاً پہلے سے بتائے نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ تیر نہیں کہ جو چھوڑا جا چکا ہو۔
انسانی جسم وقت گزرنے کے ساتھ تھک جاتا ہے۔ وقت کا بوجھ اسے مجبور کر دیتا ہے کہ وہ کام سے دست بردار ہو جائے۔ آرام اور کام کا پھیر وقفوں کی شکل میں بار بار آتا ہے اور یہ طبعاً انسان کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس سے بالاترہے۔ آیت الکرسی کی آیت کے درمیانی حصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوراتی نوعیت کا یہ وقت دراصل ایک مخصوص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مدار مسلسل اس کو ایک منزل کی جانب لے جا رہا ہے۔ وقت بذاتِ خود حالت ِ سفرمیں ہے اور وقت کا وہ مرحلہ جو انسان دنیا میں گزارتا ہے ایک مہلت اور آزمایش کی شکل میں ہے۔ یہ وقت اپنا بڑا دورہ مکمل کر کے اُس مقام پر پہنچے گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور واپسی ہوگی۔ دن اور رات کا پھیر‘ زندگی کا پھیر اور پھر زمین اور آسمان کے وقت کا پھیر اور آخر میں انسانیت اسی مرحلے پر واپس پہنچ جائے کہ جہاں سے سفرکا آغاز ہوا تھا۔
آیت الکرسی کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اقتدار کی تصدیق فرماتے ہوئے علم کے احاطے کا ذکر کرتے ہیں۔ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ اوجھل ہے‘ اس میں سب کچھ آگیا ہے۔ عبادت کے لائق کوئی ایسی ہی ذات ہو سکتی ہے کہ جو وقت کی خالق ہو‘ جس کی مشیت وقت پر غالب رہ سکتی ہے اور جو وقت کی منزل یعنی آخرت کا مالک ہو۔جب کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ موت کے بعد زندہ ہوا اور زندگی کے بعد پھر موت سے ہم کنار ہوکر دوبارہ زندگی پاتا ہے۔ انسا ن اپنے وقت اور کام کے معاملے میں مجبور ہے۔ نہ وہ اپنے وقت پر قادر‘ نہ اپنے کام کو ازخود کر لینے کے لیے خودمختار۔ وہ محتاج ہے اور اپنے عالمِ قید سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔
آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے چار انداز کے اوقات بتائے ہیں۔ ایک وہ وقت جو زمین اور آسمان میں پائے گئے وقت کی پیمایش اور تصور سے مبرا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کی تعریف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے۔ وہ خود زندہ ہے اور قائم ہے۔ وہ تمام مشرقین و مغربین اور میقات و قطبین کا خالق اور مالک ہے۔ دوسرا وقت وہ ہے جو زمین اور آسمان میں ہے۔ اس وقت کوسائنسی انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی خصوصیات‘ تجزیہ اور فکر کے نتیجے میں واضح ہوسکتی ہیں۔ تیسرا وقت ہر انسان کا اپنا وقت ہے۔ یہ وقت زمین اور آسمان میں پائے جانے والے نظم وقت ہی کے تابع ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی مخصوص مُہلت اور مدت کے لیے آتا ہے۔ چوتھا وقت آخرت کا وقت ہے۔
مغربی تصورات نے فہمِ وقت کی حدود سے آخرت کو بے دخل کرکے اس کو ایک ایسی ریل گاڑی بنا دیا ہے جس کے نیچے پٹڑی نہیں ہے۔ اور چونکہ پٹڑی نہیں اس لیے اس کا کوئی اسٹیشن بھی نہیں ہے۔ زمینی‘ کائناتی‘ انسانی‘ علمی‘ معاشرتی‘ تاریخی‘ کسی بھی نقطۂ نظر سے وقت کا تصور قائم کرنے کے لیے وقت کا سرا تلاش کرنا ہوگا۔ وقت کی منزل‘ اس کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ لگانا ہوگا۔ وقت کی سمت سے لاعلمی یا بے توجہی کے نتیجے میں وقت ایک حسابی مشق بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کا میکانیکی تصور بے جان ہے اور انسانی زندگی کو مسخ کر دیتا ہے۔ وقت ایک ایسا معمہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انسان کو اپنے حس و شعور کی گہرائیوں اور تجرباتی و مشاہداتی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک کیفیت بھی ہے اور حقیقت بھی۔ ایک قدر بھی ہے اور خبربھی۔ ایک قوت بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ ایک موقع بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
وقت کا آغاز حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل ہوا تھا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل زماں و مکاں کی صورت گری اور ہیئت سازی کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو‘ حالانکہ تم بے جان تھے‘ اس نے تم کو زندگی عطا کی‘ پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا‘ پھر وہی تمھیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا‘ پھر اسی کی طرف تم کو پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے‘ جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں‘ پھر اُوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)۔انسان کو خلیفہ کی حیثیت سے بنانے سے قبل زمین کو انسان کے لیے تیار کر دیا گیا تھا اور زمین نے اپنا دورہ شروع کر دیا تھا۔ زمینی وقت میں دن اور رات کی گردش‘ موسمیاتی تغیرات‘ ماہ و سال‘ صدی و ہزاروں کا ایسا نظام بنایا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا اور اس کے تمدن کا ارتقا ممکن ہوجائے۔ تمام قدرتی عوامل وقت کے نظم کے پابند ہیں۔ ہر شے اور ہر فعل کے ساتھ وقت کی تقدیر مطلق ہے۔
زمینی وقت کا‘ جس کا اہتمام انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیے کیا گیا ہے‘ نقطۂ اختتام قیامت ہے۔ یہ وہ دن ہے جب وقت کا دورہ تھم جائے گا۔ اس کا پھیر اس کو ایک ایسے مقام تک پہنچا دے گا جہاں یہ پورا نظمِ وقت تہس نہس ہوجائے گا۔ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ وقت کے اس دورے اور پھیرے کے اُوپر اپنی زندگی کی بقا کے لیے منحصر ہے۔ کوئی شے‘ کوئی زمینی عمل‘ بس اتنا ہی پایدار ہو سکتا ہے جتنا کہ زمینی وقت۔ زمین اور آسمان کے درمیان ہر شے اس وقت کو قائم رکھنے اور اپنے عرصۂ حیات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت کے کندھوں پر یہ سفر اِن کو آغاز سے فنا کی طرف لے جاتا ہے۔
زمینی وقت کی خصوصیات میں اس کے نقطۂ آغاز‘ نقطۂ اختتام‘ دورے اور پھیرے کی شکل میں مسلسل حرکت‘ مدت اور مہلت کے تعین اور آخرت کی سمت کی جانب بہائو کے علاوہ ایک اور بڑی خصوصیت اس کا مختلف مرحلوں اور ادوار میں قابلِ تقسیم ہونا ہے۔ اس طرح واقعات کا ہونا ممکن ہو جاتا ہے اور وقت کا میدان مختلف مدارج سے گزرنے کے قابل بناتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی اُوپر پیش کی گئی آیت میں زمینی وقت کے ساتھ انسانی زندگی کی پانچ حالتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسان پہلے بے جان تھا‘ پھر اس نے زندگی پائی اور اپنے عرصۂ حیات کو مکمل کر کے دوبارہ بے جان ہوگیا۔ اس کے بعد پھر اسے زندگی دی جائے گی اور وہ اللہ کی طرف پلٹ کر جائے گا--- ہر انسان کی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقلی وقت کی اپنی منزل کی جانب مسلسل پیش رفت کا ثبوت ہے۔
انسانی شعور کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے جسم و جان کے زمینی وقت کی حدود و قیود میں مجہور اور پابند ہونے کے باوجود آخرت اور اس کے بعد کے وقت کا نہ صرف ادراک کر سکتا ہے بلکہ غیب سے تعلق جوڑتے ہوئے آخرت اور دوزخ و جنت کی کیفیات کو پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو سکتاہے۔ انسان اور کسی بھی دوسری تخلیق میں جو زمینی وقت میں گرفتار ہے یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی یہی صفت بیان کی ہے کہ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۴) ۔ گویا انسان آخرت کو اس انتہا تک دیکھ سکتا ہے جہاں اُس کو یقین ہو کہ وہ وقت موجود ہے‘ بلکہ اگر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب میں کہ احسان کیا ہے؟ رسولؐ اللہ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے کہ ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اس کی قدرت نہیں رکھتے تو اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘، یعنی غیب کو بغیر اپنی آنکھوں سے دیکھے انسان چشمِ بصیرت سے پا سکتا ہے اور اپنے دل میں جذب کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسان طبیعی لحاظ سے زمینی وقت کے تابع رہتے ہوئے بھی حقیقی طور پر آخرت کے وقت پر یقین رکھے اور اپنے آپ کو اُس کے لحاظ سے تیار کرے۔ تجرباتی و مشاہداتی سطح پر اس کا اس طرح ادراک کرے جیسے اس کو دونوں آنکھوں سے نظرآجانے والی کسی چیز کا ہو سکتا ہے۔ ایمان بالآخرت نام ہی بیک وقت دو اقسام کے وقت کی مختلف حالتوں اور اُن کے تقاضوں کو سمجھنے اور برتنے کا نام ہے۔ ایمان سے محرومی کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو آخرت کے وقت کے اُن عظیم تصورات اور اس کے لامتناہی اثرات سے الگ کر لیتا ہے۔ وہ ایک ساکت نما وقت کی سلسلہ وار حرکت اور اس کے بتدریج ماہ و سال کی صورت میں آگے بڑھنے کی حد تک محدود ہوجاتا ہے۔ وقت کا ایسا ساکت اور یک رُخا تصور انسانی زندگی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ زندگی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے سارے مراحل اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انجامِ کار اور اتمام سعی کی فکر ختم ہوجاتی ہے۔ ذمہ داری اور جواب دہی کے ذریعے نظم پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ظاہرہے زندگی کی تعریف اور اس کا تقاضا وقت کے آئینے ہی میں ہو سکتا ہے۔
کسی انسانی جان کی پیدایش یا اس کا خاتمہ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کی نشانی ہوتا ہے‘ یہ آیت انسانی زندگی کے دورہ کو سمیٹ لیتی ہے۔اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اور اسی طرف واپس لوٹ کر چلی جاتی ہے۔ کیلنڈر اور گھڑی کے بتائے ہوئے وقت سے ایک گاڑی کی طرح وقت کے آگے بڑھنے یا دریا کے بہنے کی طرح وقت کے گزرنے کا تاثر تو ملتا ہے لیکن وقت کا مہلت اور میعاد ہونے کا تاثر نہیں ملتا ہے۔
آخرت کے وقت کی فکر میں جذب ہو کر زمینی وقت کی مجبوریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ اس کی پابندیوں سے بالآخر آزاد ہوا جا سکتا ہے۔ زماں کی حدود‘ مکاں کی قیود کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ زماں و مکاں کا نظام انسانی زندگی کی استواری کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے خول سے ایمان کے نتیجے میں ہی باہر نکلا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لیلۃ القدر کا انعام ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ ایک ہزار مہینوں کا مطلب ۳۰ ہزار دن یا ۸۳ برس سے زائد کی عمرہے‘ یعنی ایک رات یا پانچ راتوں کی عبادت ایک زندگی اور ایک عمر کے برابرقراردی گئی ہے۔ ۱۰ سال اگر لیلۃ القدر کا اہتمام کیا جائے تو ۱۰ زندگیاں نذر ہوگئیں۔ ایمان کے علاوہ وہ کون سا دوسرا راستہ ہے جو ایک رات کی یہ قیمت دے سکتا ہو۔ اس طرح ہر نیکی کا کم از کم اجر ۱۰گنا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر منحصر ہے۔ شہادت موت کو شکست دے دیتی ہے۔ موت کو موت کا شکار کر دینا نظمِ وقت کے طبیعی اصولوں کی اور سائنس دانوں کے فہم وفراست کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ صرف ایمان بالآخرت کی وجہ سے ممکن ہے۔
تاریخوں کے تعین کے لیے اسلامی کیلنڈر قمری حساب سے استوار ہوتا ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے نبی! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۹)۔ اس آیت سے قبل جو آیت ہے وہ لوگوں کے مال ناروا طریقے سے نہ کھانے کی ہدایت کرتی ہے۔ شمسی نظام کو اختیار کرنے کی ایک وجہ دراصل سودخوری تھی۔رومی دور میں سود کا حساب رکھنے کے لیے کیلنڈر کی صورت میں ایام اور ماہ و سال کا حساب رکھا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں موسم اور دوسرے قدرتی تغیرات کا حساب تو رکھا ہی جاتا تھا۔ اسلام کیلنڈر کے لحاظ سے قمری اور دن میں عبادات کے اوقات کے تعین کے لیے سورج کو ذریعہ بناتا ہے۔ نمازوں اور رمضان میں سحروافطار کا حساب سورج سے ہوتا ہے‘ جب کہ رمضان اور حج کا حساب چاند سے رکھا جاتا ہے۔ چاند کے ذریعے وقت کا دوراتی حساب رکھا گیا ہے اور سورج کے ذریعے وقت کا سلسلہ جاتی حساب رکھا گیا ہے۔ وقت کا پیغام دورے کے لحاظ سے پلٹنے کا ہے‘ گھیرا مکمل کر جانے کا ہے اور مدت کے لحاظ سے دو واقعات کے درمیان عرصے کی پیمایش کا ہے۔ اسی لیے گھڑی سورج کے حساب سے مدت بتاتی ہے۔
وقت کے ذریعے سے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی عمل کا وسیلہ وقت کی سواری ہے۔ وقت کے دو مرحلوں میں جو تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ ایک واقعے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ اوّلین مظہر توحید کا بھی بہت بڑا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ ’’اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے‘ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ پردئہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے۔ اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے۔ اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے۔ یہ سب اسی زبردست قدرت اورعلم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں‘‘۔ (الانعام ۶:۹۶)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ وقت کو‘ وقت کے ساتھ ارتقا کو‘ تخلیق کے تسلسل کو‘ زندگی اور موت کے مدارج کو‘ توحید کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے‘ یعنی وقت‘ توحید‘ اور تخلیق ان تینوں کا تعلق اس آیت میں ظاہر ہے۔ مغرب کے مادی اور مشینی تصور کے مقابلے میں اسلام وقت کو زبردست تخلیقی تحریک اور قوتِ کار کے طور پر پیش کرتا ہے۔
سورج اور زمین اپنے محور اور مدار پر ہیں۔ لیکن اِن کے تعلق میں اس انداز سے تبدیلیاں آتی ہیں کہ اس دنیا میں نباتات‘ جمادات‘ حیوانات اور انسان کی زندگی کی بقا ‘ نسل کے تسلسل اور پھیلائو کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف‘ رات کی تاریکی میں دن کا نکل آنا اور دن کی روشنی کا ڈھل کر دوبارہ رات ہوجانا‘ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر معانی کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف درحقیقت دو متضاد اور مختلف حالتوں کی موجودگی کی دلیل ہے۔ اس دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ دو قوتیں حق اور باطل کی ہیں‘ خیر اور شر کی ہیں‘ ایمان اور کفر کی ہیں۔ دن کی روشنی دعوتِ عمل دیتی ہے‘ رات کی تاریکی طلبِ سکوت لے کر آتی ہے۔ دن کا پوری طرح سے روشن ہو کر پھربتدریج مدہم ہو جانا اور رات کے سماں کا چھا جانا‘ اس دنیا کی عارضی چکاچوند کا ثبوت ہے۔ فنا ہو جانا اور ختم ہو جانا جو اِس کا مقدر ہے‘ اُس کا اظہار ہے۔ جس خدا کے ہاتھ میں دن اور رات کا آنا اور جانا ہے اس کے ہاتھ میں عزت و ذلت بھی ہے۔ زندگی کے بعد موت کی یاد دہانی کے لیے شام کا اور پھررات کا آنا بہترین تذکیر ہے۔
دن اور رات کا مسلسل ایک ڈھب پر اور ایک اصول کے مطابق آنا اور جانا‘ اس کائنات میں تنظیم‘ ترتیب‘ اور پیہم حرکت کی نشانی ہے۔ جمود کے مقابلے میں تبدیلی پر مبنی فطرت کا اظہار ہے۔ تغیر اور تبدل کا پیغام ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا‘ اس کے تقاضوں کا مؤثر جواب دینا‘ اس کی ضرورت کا شعور اور احساس کرنا‘ کامیاب زندگی کا تقاضا ہے۔ انسان کی زندگی کو جہاں سورج کی حرارت چاہیے تاکہ روشنی اور گرمی پہنچے ‘ وہیں رات کا سکون اور ٹھنڈک بھی چاہیے تاکہ قوتِ عمل کو تازہ کیا جائے اور زندگی کو جو گھر اور باہر تقسیم ہو جاتی ہے‘ مربوط کیا جائے۔ زندگی کے خارجی اور اندرونی پہلوئوںمیں توازن پیدا کیا جائے۔دن کو دنیا نظر آتی ہے اور خوب متاثر کرتی ہے‘ اپنے آپ سے وابستہ کرلیتی ہے۔ رات کو آسمان کے نیچے ستاروں کا خوب صورت ہجوم نظر آتا ہے۔ نگاہ اُوپر اٹھ جائے تو واپس نہیں آتی۔
دن اور رات کا آنا اور جانا موسمیاتی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ ہوائوں اور بارش کا نظام‘ درجۂ حرارت کی تبدیلیاں اسی عمل سے وابستہ ہیں۔ زمین کے سینے میں چھپا ہوا دانہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے کونپل بن کر نکلتا ہے۔ مختلف موسم مختلف انواع وا قسام کے پھل لاتے ہیں۔ زمین میں زندگی پانا تو ویسے ایک دفعہ ہی ہوتا ہے اور زندگی کا موت کی صورت میں تبدیل ہونا بھی۔ لیکن روزانہ اُٹھنے اور سونے کا جو انسانی عمل ہے اس کو بھی زندگی اور موت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہی ہے جو رات کو تمھاری روحیں قبض کر لیتاہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔ پھر روز وہ تم کو اس کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمھاری واپسی ہے۔ پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو (الانعام ۶:۶۰)۔ زندگی اور موت جیسی حالت میں‘ روزانہ مبتلا کرنے کا مقصد‘ اس بات کو مسلسل تازہ رکھتا ہے کہ ایک وہ وقت آئے گا جب بند ہونے والی آنکھ دوبارہ حسب معمول نہیں کھلے گی اور جب اس دنیا سے رشتہ کٹ جائے گا۔ اس لحاظ سے طبیعی وقت ایک ڈرانے والا وقت ہے۔ یہ لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس وقت میں الحاقۃ‘ القارعۃ ‘ الواقعہ جیسے ہولناک موڑ کا آنا یقینی ہو‘ اس کا ہر لمحہ کتنی نازک ذمہ داری لے کر آتا ہے۔
دن اور رات کے عمل کے بغیر زمین اور آسمان کی تخلیق مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وقت کا جو نظام اس طرح تشکیل پا گیا وہ ایک قرینہ فراہم کرتا ہے‘ ایک فطری اسلوب اور قدرتی ڈھانچا بن جاتا ہے۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے نمو اور ارتقا کے نظام کے لیے لیل و نہار کی گردش کی تابع ہے۔ تخلیق کا یہ عمل دن اور رات کے رُک جانے پر ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بس ایک نظام ہے جس کا ایک مقصد ہے۔ قرآن بار بار اس نظام کی جانب توجہ اس لیے مبذول کراتا ہے کہ وہ مقصد واضح ہو جائے جس کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے جب وقت کے خول سے باہر نکل کر اپنے وجدان اور شعور کا استعمال کیا تو وہ نظمِ وقت کے ظاہری عمل یعنی چاند‘ سورج اور ستاروں کی دوڑ سے دھوکا کھانے سے بچ گئے۔ اُن کو دوسری نظر میں معلوم ہوگیا کہ یہ تو خود محکوم ہیں۔ آپ کی یقین افروز بصیرت نے پھر اُس کو پا لیا جو غیب کے پردوں میں بظاہر چھپا ہوا ہے لیکن سب کا خالق ہے اورخوب واضح ہے۔ سورج باوجود بڑے اور بھاری اور خوب روشن ہونے کے محض ایک علامت تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اس طرح غوروفکر کے عمل سے گزر کر ایمان و یقین کی لازوال نعمت سے مالا مال ہوگئے۔ ان کو اُبھرتے اور ڈوبتے وقت نے یہ بتا دیا کہ یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت خالق کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ وقت نے وہ رخ متعین کر دیا جس کی طرف پھر کر حضرت ابراہیم ؑ یکسو ہوگئے۔ ’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنارخ اس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے‘‘ (الانعام ۷:۷۸)۔ (جاری)
یہ ایک عام دن نہیں ہے کہ جس کے شمار سے کوئی پہلو بچا کر نکل جائے۔ اسلامی‘ عالمی اور سیاسی تاریخ میں یہ دن کئی اعتبار سے حوالے‘ عبرت اور نئی منزلوں کی تلاش کا دن قرار پائے گا۔ اور اگر کوئی عبرت پکڑنے کے لیے تیار ہو تو قدرتِ حق کا یہ تازیانہ‘ بے عملی اور نفاق میں مبتلا قوموں کو راست رو بنا دے گا‘ اگر شکستہ جسم و جان کے باوجود ذہن و ضمیر میں زندگی کی رمق موجود ہوئی تو اس یوم سے وابستہ دکھ ‘ نہ صرف صف بندی کرائے گا‘ بلکہ منزل پر پہنچنے اور شکست و خجالت کے داغ دھونے کاکام بھی کرے گا۔
گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بظاہر ایسی اُمید افزا بات کہنے کے لیے کوئی بڑے قابلِ قدر حوالے دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے ۹ اپریل کی شام بغداد کی دھواں دار فضا‘ اور تحیّروصدمے سے پتھرایاہوا شہر---جہاں ۵۰ لاکھ انسانوں کے اس شہر میں صرف ۱۵۰ افراد دیوانگی یا مسرت کا اظہار کر رہے ہیں‘ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
اس روز بغداد کی تیسری تباہی کا علامتی سطح پر اظہار ہوا‘ جسے برقی خبر رسانی اور تصویرکشی کے سہارے کروڑوں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاتاری لشکروں کی بغداد میں خوں آشامی تو ماضی بعید کی تاریخ کا ایک حصہ ہے‘مگر آج کا انسان جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے اسے بہ چشم سر دیکھ رہا ہے ‘ اور انسان کی پستی‘ ظلم‘ زیادتی‘ بے بسی و بے چارگی کا بار بار مشاہدہ کر رہا ہے۔
میں ان معنوں میں تو تاریخ کا طالب علم نہیں جن معنوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کوئی مورخ ہوتا ہے‘ لیکن اُمت مسلمہ کے بہی خواہ اور تاریخ کے موضوع میں دل چسپی رکھنے والے ایک شخص کی حیثیت سے اس کی کئی سطحیں میرے سامنے آتی ہیں۔
بغداد کی پہلی تباہی (۱۲۵۸ئ) اپنے اندر بڑے سبق رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ اس کے بعد پہلی جنگ ِ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ئ) کے اختتام پر دولت ِ عثمانیہ کا انتشار‘ لارنس آف عریبیا کی زیرقیادت عرب قومیت کے فریب کی پرورش‘ اور پھر برطانیہ کی عراق پر فوج کشی اور بغداد پر قبضہ اور اب سقوطِ بغداد کا وہ واقعہ جو ہم میں سے بیشترنے ٹی وی پر دیکھا ہے ‘ یہ ہماری تاریخ کے وہ الم ناک لمحے ہیں جن پر آنسو بہائے گئے ہیں اور آنسو بہائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دکھ‘ کرب اور غصے کی حالت میں مقید رہنے کے بجائے آگے بڑھیں‘ قرآن عزیز کے اوراق پر قوموں کے عروج و زوال اور ناکامی و کامرانی کا قانون پڑھیں۔ اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے‘ اُس کی طرف توجہ دیں۔
یہی بغداد چار ساڑھے چار سو سال تک علم‘ تہذیب‘ سیاسی قوت اور عسکری طاقت کا مرکز و محور رہا ہے‘ جو مسلمانوں کی سطوت کی علامت اور پہچان تھا۔ بلاشبہہ اس باوقار ماضی کا ایک بڑا محرک وہ تعلیمی نظام تھا‘ جس نے ہر ہر میدان میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو پیدا کیا تھا۔ مفسرین‘ محدثین‘ فقہا‘ متکلمین‘ منتظمین ‘ مالیات کے ماہر‘ فوجی جرنیل‘ یہ سب اس نظامِ تعلیم کی پیداوار تھے‘ جسے آج مدرسے کا نظام کہتے ہیں۔ کبھی یہی مدرسہ ان تمام چیزوں کا جامع تھا۔ میرے محدود علم کی حد تک جامعہ کا تصور نہ یونان میں تھاکہ جنھوں نے تعلیم کی شمعیں روشن کیں‘ نہ چین میں تھا جو تعلیم کے میدان میں دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں دنیا کے دوسروں ملکوں سے بہت آگے تھے۔ تعلیم کو زندگی کے اجتماعی معاملات میں اہمیت دینے والوں میں‘ اُس عہدکے مسلمان بہت اُونچے مقام پر تھے۔ یہ تصور کہ تمام علوم کو ایک محور کے گرد جمع ہونا چاہیے‘ ایک منبع سے انھیں روشنی حاصل کرنی چاہیے‘ حتیٰ کہ ایک چھت کے نیچے ان سب کو جمع کیا جائے--- یہ تھا جامعہ کا تصور‘ جسے انگریزی میں یونی ورسٹی کہا گیا۔ یونی ورسٹی کا مفہوم ہی یہی تھا کہ پوری ’ورس‘ کو ہم ایک وحدت میں لا رہے ہیں۔ وہ مدرسہ جس کو آج تحقیر کے ساتھ پکارا جاتا ہے‘ اپنے آغاز میں دراصل یہی مدرسہ اس انقلابی تصورکا علم بردار اور نمونہ تھا۔
پھر اس زمانے کی مسلم قیادت نے پلٹی کھائی‘ جس کے نتیجے میں فکری آزادی‘ جمود اور تقلید کا شکار ہوگئی۔ وہ الہامی ہدایت ‘ جسے زندگی کے ہر شعبے میں اصل رہنما اور صورت گر ہونا چاہیے تھا‘ وہ گروہ بندی‘ فرقہ بندی‘ مسلک بندی کی نذر ہوگئی۔ تحقیق‘ جستجو‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ عمرانی علوم‘ اخلاقی پہلو‘ جن میں ہم آگے تھے روایت پسندی اور بے عملی کی یخ بستگی کا نشان بن کر رہ گئے۔ جارج سارٹنس اپنی کتاب ’ہسٹری آف سائنس‘ میں ہر ۵۰ سال پر ایک باب (chapter) باندھتا ہے اور ہر باب کے لیے ایک مفکر کو اس دور کا سب سے بڑا فکرساز اور مفکر قرار دیتا ہے۔ اس زمانے کے پانچ ابواب کے سرعنوان میں ہمیں مسلمان مفکر نظر آتے ہیں۔
اسی بغداد نے یہ بھی دیکھا کہ تعیش‘ نفس پرستی‘ فرقہ بندی‘ اندھی تقلید‘ قبرپرستی اور اکابر پرستی ‘ محسن ناشناسی کے ایک طاعون نے انھیں گھیرلیا۔ اپنے محسنوں کی قدرافزائی ایک بڑی قیمتی قدر ہے اور کوئی فرد اور کوئی قوم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ لیکن جب یہی محسن شناسی‘ قبرپرستی اور شخصیت پرستی میں بدل جاتی ہے تو پھر فکری آزادی کے سوتے سوکھ جاتے ہیں۔ وہاں پر بھی یہی المیہ رونما ہوا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب منگولوں کی سفاک فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ‘کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ بغداد کی نہریں انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھیں‘ اس وقت مسلمانوں کے خوف کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی حملہ آور منگول‘ مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم زمین پر لیٹ جائو‘ تاکہ میں تمھیں مارنے کے لیے نیا خنجر یا تلوار اپنے خیمے سے لے آئوں‘ تو وہ اُس حملہ آور کے ’’احترام‘‘ میں وہیں لیٹا رہتا‘تاآنکہ وہ اپنی تلوار لائے اور اس کو ذبح کر ڈالے۔
آج بھی ’آیندہ کون؟‘ (Who Next?) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج اس کرئہ ارضی پر ۵۶ آزاد مسلمان ملک اور ایک ارب پچیس تیس کروڑ مسلمان ہیں۔ کس مپرسی کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک یہ سوچ رہا ہے کہ ’آیندہ کون؟‘ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اگر ہم مل کر اپنی قوت‘ اور اپنے وسائل کو استعمال کریں تو پھربے بسی‘ موت اور بربادی کے انتظار کا یہ لمحہ ختم ہو سکتا ہے۔
دوسرا واقعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ کو تین یا چار دن کے فاقے کی حالت میں زنجیروں سے باندھ کر دربار میں لایا گیا تو فاتح تاتاری جرنیل نے حقارت سے پوچھا: ’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ تو عباسی خلیفہ نے بے ساختہ کہا: ’’مجھے پانی چاہیے‘ کچھ کھانے کو دو‘‘۔ تو تاتاری جرنیل نے سونے کا ایک ٹکڑا اس کے سامنے ڈال دیا۔ خلیفہ نے کہا: ’’میں اس کو تو نہیں کھاسکتا‘‘۔ اس لمحے وہ دشمن یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے: ’’اگر تم نے اس سونے کو اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہوتا تو آج تمھیں ان حالات سے دوچار نہیں ہونا پڑتا‘‘--- ایسی صورت آج ہماری بھی ہے۔ ہم اپنے اسلحے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔ہمیں اپنے دفاع کے لیے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنے قومی وسائل سے جو دفاعی ذرائع ہم کو درکار ہیں انھیں حاصل کر سکیں‘ یا ان کی بنیاد پر ہم اپنا دفاعی اسلحہ تیار کر سکیں اور اپنا دفاع کر سکیں۔ برطانیہ کے وزیردفاع نے ۹ اپریل ۲۰۰۳ء ہی کی شام ڈنمارک میں یہ کہہ دیا کہ ’’عراق ہی نہیں‘ جس کے پاس بھی ہم سمجھیں گے کہ مہلک ہتھیار ہیں اور وہ ہمارے لیے خطرہ ہے تو ہم ان پر بھی پیشگی حملے کا حق استعمال کریں گے‘‘۔
یہ وہ ماحول ہے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ جس طرح امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراقی عوام کے لیے بیان دیا ہے: ’’ہم آپ کی آزادی کے لیے آئے ہیں‘ آپ بالکل پریشان نہ ہوں‘‘، اگر تاریخ کے ورق اُلٹیں تو برطانیہ کے وزیراعظم نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد فوج کشی کے موقع پر بھی یہی کہا تھا: ’ہم عربوں کو ترکوں سے آزادی دلانے کے لیے آ رہے ہیں‘ بعینہٖ وہی الفاظ ہیں‘ بلیئرکے بیان میں درج ہیں۔اُس وقت کے وزیراعظم کا بیان ملا کر دیکھ لیجیے‘ زبان و بیان ایک ہے‘ اگرچہ زمانہ بدلا ہوا ہے۔
میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ تعلیم کسی غار میں نہیں دی جاتی۔ تعلیم کاتعلق تہذیب سے ہے‘ معاشرے ‘سیاست ‘عسکریت اور زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔ تعلیم کا یہ رشتہ اگر کٹ جائے تو پھر وہ تعلیم‘ زندگی سے لاتعلق ہو جاتی ہے‘ محض وقت کاضیاع اور محکومی و غلامی کا دعوت نامہ بن جاتی ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں اس بات کا بڑا دخل تھا کہ عرصہ گزرا ہمارا تعلیمی نظام‘ زندگی کے تقاضوں اور اس کے مطالبات سے اس طرح مربوط نہیں رہا کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ وہ زوال کے حادثات بنے ۔ آج بھی ہم اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔
پچھلے ۲۰۰ سال کے حالات پر خصوصاً بیسویں صدی کے حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے ‘میں بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اُمت مسلمہ کو جو حالات درپیش ہیں ایک بنیادی فرق کے ساتھ ان میں غیرمعمولی مشابہت ہمارے اولین دور سے ہے۔
بڑا بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان کے ذریعے وحی کے نور سے انسانیت کی زندگی کو منور کرنے کا دور تھا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نئی تحریک اورایک نئی تہذیب اور ایک نئی عالمی رو کے اُبھرنے کا دور تھا۔ اس بنیادی فرق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور جوں ہی اسلامی دعوت جزدانوں سے نکلی اور فکرورہنمائی سامنے آئی تونئی تہذیب‘ نئی ٹکنالوجی‘ حکمرانی اور قانون کے نئے نظام نے‘ ایرانی و رومی تہذیبوں یا دوسری تہذیبوں کو متاثر ہی نہیں‘ بلکہ مسخر کیا۔ ایک طرف انھوں نے اس تحریک‘ پیغام اور انقلابی رو کو مستحکم کیا اور آگے بڑھایا اور دوسری طرف نئے ادارے قائم کیے اور جو ادارے پہلے سے موجود تھے ان کا احتساب کیا۔ رد و قبول کا سلسلہ شروع کیا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو چار بڑے علم اس زمانے میں پروان چڑھے: علمِ تفسیر‘علمِ حدیث‘ اصول فقہ اور کلام‘ کچھ پہلو سے ان میں اصول فقہ سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ ان سب نے ہماری فکر اور تہذیب کو استحکام عطا کیا۔
پھر قیادت‘ تعلیم‘قوت کا حصول اور قوت کے تمام ذرائع‘ جن میں علم‘ ایمان و کردار‘ سائنس و ٹکنالوجی ‘ انتظام و انصرام‘ تنظیمی مہارت‘ عسکری قوت‘ اسلحہ سازی‘ یہ چیزیں تقریباً چار صدیوں تک ہماری وسعت اور استحکام کے لیے جوہری بنیاد بنی رہیں۔ تہذیبی انتشارکے شروع ہو جانے کے باوجود امام غزالی ؒنے کوشش کی کہ فکری اعتبار سے اس وقت کی تمام تحریکوں کو جوڑ کر ایک مربوط شکل دیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پچھلے ۲۰۰ سالوں کو دیکھیں تو ایک بالکل اُلٹے پائوں چلتی ہوئی تحریک نظر آتی ہے ‘ جس کی بنیاد ‘اندرونی کمزوریوں پر استوار ہے۔
میں اس خیال کا علم بردار نہیں ہوں کہ اُمت مسلمہ کا انتشار اور ہماری سیاسی قوت کا محکوم اور منتشر ہو جانا محض بیرونی اسباب کی وجہ سے ہے۔ بلاشبہہ اس میں بیرونی اسباب ایک بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ لیکن بہرحال یہ ہماری اندرونی کمزوری تھی‘ جس نے بیرونی قوتوں کو ایک موثر کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ پھر ہم برابر پیچھے ہوتے چلے گئے۔ انجامِ کار جو کچھ ہوا‘ اس کا آغاز انیسویں صدی کے ابتدا میں ہوا‘ اور جس کا آخری باب ۱۹۲۴ء میں سقوطِ خلافت عثمانیہ کی شکل میں نظر آیا۔
اس زمانے میں وہ اُلٹا عمل شروع ہوا کہ جو کچھ ہم نے پہلے تین یا چار صدیوں میں حاصل کیا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ہم سے چھن گیا۔ اندرونی انتشار اور کمزوری‘ سیاسی شکست‘ عسکری میدان میں ہزیمت‘ ایک ایک کر کے مسلمان ممالک مغربی (یعنی: برطانوی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘پرتگالی‘ روسی‘ ولندیزی) سامراج کی زد میں آگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صرف چار بیمار مسلمان ملک باقی رہ گئے جنھیں نام کا آزاد کہا جا سکتا تھا۔ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ قوت‘ اقتدار اور عالمی حکمرانی کے کردار سے مسلمانوں کی گرفت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ۱۲۰۰ سال میں نشیب و فراز تو بہت آئے ‘ لیکن بے کسی و محکومی کا یہ سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔
دوسری چیز یہ کہ‘ پہلی صدی سے ہم نے جو ادارے قائم کیے تھے‘ وہ ایک ایک کر کے تباہ ہو گئے۔ بغدادکے پہلے سقوط کے بعد ہماری سیاسی قوت کو شکست ہوئی تھی‘ لیکن ہماری ایمانی اور تہذیبی اور اخلاقی قوت نے اس کو دوبارہ حاصل کیا اور اقبال نے اسی مناسبت سے فرمایا: ؎
سبق ملا ہے یہ تاتار کے فسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ مغربی سامراج نے گذشتہ ۲۰۰برسوں کے دوران سیاسی قوت اور فوجی برتری حاصل کرنے کے ساتھ‘ ان اداروں کو تباہ ہی نہیں کیا‘ بلکہ ان کی جگہ متبادل ادارے مسلط (impose) بھی کیے۔ لے دے کر ۲۰۰ سال میں مجروح اور مضمحل شکل میں اگر کوئی چیز باقی رہی تو وہ تین ادارے تھے: مسجد‘ مدرسہ اور گھر۔ انھوں نے اس پورے زمانے میں ہم کو سنبھالا ہے۔ یہ بھی اپنی اصل شکل میں نہیں رہے‘ بلکہ مضمحل اور مجروح شکل میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن باقی سارے ادارے ہمارے ہاتھ سے نکل گئے!
پھر تیسرا سانحہ یہ ہوا کہ اس زمانے میں ایک نئی قیادت اُبھری۔ یہ قیادت بظاہر مسلمانوں میں سے اُبھاری گئی اور صرف سیاسی میدان میں نہیں‘ بلکہ ہر شعبے میں فکری‘ معاشی اور سیاسی سطح پر یہ قیادت‘ حکمران قوت کے طور پر تیار کر کے مسلط کر دی گئی۔ جو شکل اور نام سے مسلم دنیا کا حصہ دکھائی دیتی ہے‘ مگر ذہن‘ کردار‘ فکر اور مفادات کے حوالے سے مغربی استعمار کی نسل در نسل آلۂ کار بن کر خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ یہی قیادت اُمت مسلمہ کو ٹکڑیوں میں توڑنے اور غلامی و بربادی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پچھلے ۵۰ سال میں ۵۶ مسلمان آزاد ملک وجودمیں آئے ہیں۔ معاشی اعتبار سے بھی توازن میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوت پر ہماری گرفت‘ اداروں کی تباہی اور استعماریت کی کاسہ لیس قیادت کی معزولی میں ناکامی ہمارے بحران کے تین بڑے محورہیں۔
اللہ کی رحمتیں ہوں‘ ان انسانوں پر جنھوں نے دینی پس منظر میں بھی اور سیاسی پس منظر میں بھی‘ اس زمانے میں مسلمانوں میں بیداری کی تحریکوں کو جنم دیا۔ جمال الدین افغانی‘ پرنس حلیم پاشا‘ علامہ محمد اقبال‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمد عبدہ‘ امیرشکیب ارسلان‘ رشید رضا‘ امام حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘ مالک بن نبی رحمہم اللہ الاجمعین روشنی کے وہ مینار ہیں جنھوں نے دو صدیوں کی تاریکی کو چھاننے کا مشکل کام انجام دیا اور نئی راہیں کھول دیں۔بظاہر مایوس کن منظرنامہ ہونے کے باوجود مجھے امکانات نظر آرہے ہیں‘ لیکن ابھی منزل بہت دُور ہے‘ مسائل گمبھیرہیں اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہمہ گیر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔
اس وقت بغداد کا سقوط ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آمریت کا نظام کبھی استحکام نہیں دے سکتا۔ اس کے استحکام کے دعوے بڑے بودے اور بڑے دھوکا دینے والے ہوتے ہیں۔ آمریت کے علم بردار لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے استحکام دے دیا ہے‘ لیکن وہ استحکام چشمِ زدن میں زمین بوس ہو جاتا ہے۔ دراصل استحکام وہی ہے جو اعتماد‘ مشاورت‘ محبت‘ تعاون اور باہم شراکت کی بنیاد پر ہو اور جس کا انحصار افراد نہیں قوم اور اس کے اداروں پر ہو۔ پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ ہر وہ فوج جو فنی مہارت پر مشتمل فوج کے دائرے سے نکل کرسیاسی قوتوں کی آلہ کار بنی ‘ خواہ وہ ۱۹۶۷ء میں مصر کی فوج ہو‘ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی فوج ہو‘ یا ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں عراق کی فوج--- اس فوج نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ عوام ہی نے بری بھلی مزاحمت کی ہے۔
وہ تمام اندازے‘ خواہشات‘ توقعات اور پروپیگنڈا جو استعماری قوتیں اپنے میڈیا کی طاقت کے زور پر کرا رہی تھیں ان میں کوئی اندازہ پورا نہیں ہوا۔ سبھی نے صدام حسین کے علامتی بت کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا ‘کہ ۵۰ لاکھ کے شہر میں ۱۵۰ سے زیادہ افراد دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ لیکن وہ فوج کہاں گئی جس کی طرف سے مزاحمت کی بات کی گئی تھی۔ اگرچہ فوجی قوت اور ٹکنالوجی کے مابین کوئی مقابلہ نہیں تھا ‘ لیکن تاریخ میں اس سے پہلے بھی قوت میں عدمِ توازن کے ساتھ مقابلے ہوئے ہیں‘ بے جگری سے ہوئے ہیں اور وہ مقابلے سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ کیا اسی عراق کی سرزمین پر شہید کربلا کا مقابلہ تاریخ کا حصہ اور تاریخ سازی کا عنوان نہیں؟ لیکن یاد رکھیے وہ فوج لڑنے کے لائق نہیں رہتی جو کسی ایک شخص کی وفاداری کے لیے اپنی قوتیں وقف کردے‘ جسے سیاست میں ملوث کیا جائے‘ جو اپنے لوگوں کو دھوکا دینے‘ اور ان کے اُوپر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کی جائے۔ ایسا عمل خود‘ فوج اور قوم دونوں کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیغام ہے۔ اگر ہم آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھتے تو پھر معلوم نہیں کون سی چیز ہماری آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنے گی؟ اور کتنے زلزلے‘ کتنی قیامتیں برپا ہوں گی کہ جن سے آنکھیں کھلیں گی اور ضمیر بیدار ہوں گے۔
اس المیے کی کتنی ہی تہہ در تہہ پرتیں ہیں۔ چند ایک تو آشکارا ہوئی ہیں‘ اور بہت سی پرتیں وقت کا تندوتیز دھارا کھول کر رکھ دے گا۔ امریکہ کی قیادت میں‘ استعمار کی بدترین یلغار اور عراق کے بے بس مسلمانوں کی حسرت ناک موت و حیات‘ وہ دو انتہائیں ہیں ‘ جنھیں دیکھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ڈارون ازم کی فکری بنیادوں پر اُٹھنے والی مغربی تہذیب کا بے رحمانہ طوفان دیکھ کر‘ علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا ع
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
کیا واقعی بحیثیت مسلمان ہم اس خواب کی تعبیر پیش کرنے کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے مقتدر طبقے‘ مذہبی قیادتیں‘ اہل قرطاس و قلم اور اساتذہ کرام‘ اس طوفانِ مغرب بلکہ عذابِ مغرب کی طوفان خیزیوںکو محسوس کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے تو یہ نقصانِ عظیم‘ فلاح و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور گذشتہ ۳۰۰برس سے مسلمان جس عبرت کدے کی مجبور پتلیاں بنے ہوئے ہیں‘ اسے پیغامِ حق کا مرکز ثقل بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یہ سب کچھ کسی خوف ناک فلم کے دہشت انگیز منظر کی طرح ذہن کی اسکرین سے محو ہو جانے کا ایک عام واقعہ ہی ہے تو پھر اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھے بغیر چارہ نہیں۔
ایک کے بعد دوسرے کی باری ضروری نہیں کہ ڈرٹی بموں اور میزائلوں یا نیپام بموں کی بارش کی صورت ہی میں سامنے آئے ‘ بلکہ ان کے بغیر بھی وہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ ایک رات قوم سو کر اُٹھے‘ تو اس کے حکمران‘ محض جدید فرعون و نمرود کی خوشنودی پر پھولے نہ سمائے ہوئے قوم کے مستقبل کا سودا کر دیں‘ اور وہ بے بس لوگ تڑپ بھی نہ سکیں۔ کل ایسا ہوا ہے اور آنے والے کل میں ایسا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غداری اور بے وفائی کے ان مقامی کٹھ پتلیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے گا؟
۱- جن مسلم ممالک میں اسلام کو محض اپنے اقتدار کی مدت دراز کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ وہاں اسلام کا سایہ انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
۲- پروپیگنڈے کے زور پر‘ خود کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن قضا کو نہیں ٹالا جا سکتا۔
۳- ایمان کی دولت اور آخرت میں کامیابی کی خوشبو سے کٹے ہوئے مسلم معاشرے کبھی کامرانی حاصل نہیں کر سکتے۔
۴- قدرت کے خزانوں کو تعیش اور بے کار کی مہم جوئی پر صرف کرنے سے انسان خود اپنی نفی کرتا ہے‘ اور آخرکار عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔
۵- تعلیمی و تحقیقی دنیا کو روایتی سست روی کا نشان بنانے سے کبھی حریت اور آزادی کے پرچم نہیں لہلہایا کرتے۔
۶- اسلام کا سب سے بڑا موضوع انسان ہے۔ اسلام کا انسانِ مطلوب تیار کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر وہی ہوتا ہے ‘ جو مظلوم اہل عراق کے ساتھ اُن لٹیرے ہم وطنوں نے کیا۔ کیا یہ لوگ اَن پڑھ تھے‘ کیا یہ جدید روشنی سے بے خبر تھے‘ مگر انھیں کیا ہوگیا کہ اپنے ہی بے بس و بے کس لوگوں کے گھروں کو لشکروں کی صورت میں لوٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ اصل انقلاب سڑکوں‘ ڈیموں‘ بموں اور بڑے ایئرپورٹوں کی تعمیر سے نہیںرونما ہوتا‘ بلکہ انسان کے اندر حیوانی جبلت کو اشرف المخلوقات اور ایک ذمہ دار ہستی کے قالب میں ڈھالنے سے روپذیر ہوتا ہے۔
۷- حکمرانوں کے ظلم پر خاموش رہنے والے حکمران ہی نہیں‘ بلکہ گونگے بہرے معاشرے‘ قانون الٰہی کے تحت خود ظالم کے طرف دار اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
۸- آج بھی اگر مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‘ نئے سرے سے اپنے معاملات اور عوام کے تعلقاتِ کار کو درست نہیں کرتے ‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ قومِ یہود کی عبرت انگیزیوں سے فرار کا کوئی راستہ مل سکے۔
اس موقع پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران‘ بلکہ حکمرانی کے سرچشموں پر قابض رہنے پر مصر پاکستانی پینٹاگون کے چند ’’راج دلاروں‘‘ کو عبرت کے چوراہوں پر گھسٹنے سے پہلے توبہ کر کے اپنی اصل جگہ چلے جانا چاہیے۔ قدرتِ حق کی جانب سے عبرت کے یہ چابک کبھی تاتاروں سے‘ کبھی یہودیوں سے‘ کبھی ہندو مہاشوں کے ہاتھوں اور اب مسیحی جنگ بازوں کے ذریعے‘ جسدِملّی پر پڑے ہیں۔ کیا ایسا انجام دیکھنے کے باوجود ‘ اپنوں کو محکوم بنانے کا نشۂ قوت ابھی تک ہرن نہیں ہوا؟
] آرمڈ [ سروسز سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تعلیم یافتہ لوگ ہیں‘ دین کی نہیں تو کم از کم دنیا کی سمجھ رکھنے کا تو آپ کو بڑا دعویٰ ہے۔ خدارا‘ کبھی اس بات پر غور کریں کہ جن انگریزوں سے آپ نے تعلیم اور حکمرانی کی تربیت پائی ہے‘ ان کی سروسز کے اخلاق و کردار کے مقابلے میں آپ کس قدر گھٹیا اور قابلِ شرم کردارپیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی قوم‘ اور اس کے آئین اور اس کی پارلیمنٹ کے وفادار تھے۔ اس کا مظاہرہ ایک دو دن نہیں‘ پورے ۱۹۰ سال انھوں نے آپ کی اسی سرزمین میں کر کے دکھا دیا… جب ان کی پارلیمنٹ نے آئینی طریقے سے اتنی بڑی سلطنت سے دست بردار ہو جانے کا فیصلہ کر لیا تو ان کی سول سروس نے بھی‘ اور ان کی فوج نے بھی پورے ڈسپلن کے ساتھ اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ ایک انگریز افسر بھی ایسا نہ تھا جو اَڑ کر بیٹھ گیا ہو‘ اور اس نے کہا ہو کہ میں لڑے بغیر اتنی بڑی سلطنت ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مگر آپ نے دنیا بھر کو یہ دکھا دیا کہ آپ کے اندر نہ قوم کی وفاداری ہے‘ نہ اس کے آئین کی‘ نہ اس کی پارلیمنٹ کی۔ آپ نے ہر موقع پر ان اشخاص کا ساتھ دیا ہے جنھوں نے آئین کو توڑ کر‘ قوم کی مرضی کو نظراندازکرکے‘ اور پارلیمنٹ کو پاے استحقار سے ٹھکرا کر‘ یہاں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہر آزمایش کے موقع پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو قانون کی حکمرانی کے اصول کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلسہ عام سے خطاب‘ لاہور‘ ۲۵مئی ۱۹۶۸ئ)
اپنی قوم کے لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی آزادی کی حفاظت اس وقت تک قطعاً نہیں کرسکتے ‘جب تک آپ کے اندر یہ مضبوط اور غیرمتزلزل قومی ارادہ پیدا نہ ہو جائے کہ آپ اپنے افراد کو‘ اور اپنے ] سول اور فوجی [ ملازمین کو اپنی اجتماعی مرضی کے تابع بنا کر چھوڑیں گے۔ کسی کو اس سے منحرف نہ ہونے دیں گے۔ آپ کے ملک میں آپ کی اپنی ہی پسند کا آئین چلے گا۔ کسی شخص یا گروہ یا طبقے کے بنائے ہوئے آئین کو آپ ہرگز نہ مانیں گے‘ اور جو آئین آپ کی مرضی سے بنے اس کی پیروی اس سرزمین میں ہر شخص کو کرنی پڑے گی‘ اور اس سے انحراف کرنے والے کے ساتھ آپ قطعاًکوئی رعایت‘ کوئی مداہنت اور کوئی مصالحت نہ کریں گے۔ یہ عزم اور یہ ارادہ آپ کے اندر پیدا نہ ہوا توآئے دن کوئی نہ کوئی طاقت ور آپ پر مسلط ہوتا رہے گا اور آپ کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ایک گلے کے سوا کچھ نہ ہوگی‘ جسے ہر لاٹھی والا جدھر چاہے ہانک کر لے جا سکے گا۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تحریک جمہوریت: اسباب اور مقاصد‘ ۱۹۶۸ئ‘ ص ۸۷)
’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ لیکن عراق میں امریکہ کی فتح سے ہمارے لیے ایک نئی روشن صبح طلوع ہوئی ہے جس کے بعد دنیا کبھی دوبارہ اس طرح کی نہیں ہوسکتی جس طرح اس جنگ سے پہلے تھی۔ اسرائیل اس نئی اور بہتر دنیا کا ایک فعال ملک ہوگا‘‘--- یہ الفاظ ہیں صہیونی دانش ور موشیہ ایرنز کے جو بڑے صہیونی روزنامہ ہآرٹس میں ۱۵اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع ہوئے۔
وہ مزید لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے لیے امریکہ کی جیت ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ عالم عرب میں اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ‘ جس نے اسے کیمیائی اسلحے کی دھمکی دی اور ۱۹۹۱ء کی جنگ میں اس پر میزائل چلائے‘ شکست کھا گیا۔ اس کی شکست کے بعد عراق اسرائیل کے ساتھ صلح کے لیے واضح اور نمایاں قدم اٹھائے گا‘‘۔ یہ صرف موشیہ ایرنز ہی نہیں خود امریکی و صہیونی ذمہ داران آئے روز طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ شارون کہتا ہے: ’’اب ایک سنہری موقع ہاتھ لگا ہے اور میں اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گا‘‘۔
امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے اپنے صہیونی ہم منصب سلفان شالوم سے ملاقات کے دوران کہا: ’’ہماری کامیابی پورے خطے میں دہشت گرد اور شدت پسند طاقتوں کے خاتمے کا آغاز ہے‘ اور آپ بہت جلد‘ مختلف ممالک اور تنظیموں کی پالیسیوں سے اس کے آثار واضح طور پر دیکھ لیں گے‘‘۔ شارون نے اس موقع پر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’شام کی حکومت پرشدید ترین دبائو ڈالے تاکہ وہ شام میں موجود فلسطینی تنظیموں کا خاتمہ کر دے اور ایران سے اپنے تعلقات منقطع کر لے (صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت‘ ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ سابق روسی وزیراعظم پریماکوف نے اپنے ایک انٹرویو میں صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’’شارون اور اس کا احاطہ کیے ہوئے لوگ امریکہ کو بہرصورت شام کے مقابل لانا چاہتے ہیں کیونکہ شام پر حملہ درحقیقت انھی لوگوں کی جنگ ہے جو عسکری ذرائع سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘‘۔ (الشرق الاوسط‘ ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ئ)
اس ضمن میں اب تک شام پر مختلف الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ اس کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں امریکی ذمہ داران اپنے عراق والے بیانات متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہمارے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں‘‘۔ ’’شام نے یورپی ممالک سے اپنے نام پر عراق کے لیے ہتھیار خریدے‘‘۔ ان ہتھیاروں میں رات کے وقت دیکھ سکنے والی خطرناک دوربینیں بھی شامل ہیں۔ پھر کہا گیا کہ ’’دورانِ جنگ شام سے مجاہدین اور شامی فوجی عراق بھیجے‘‘۔ اب کہا جا رہا ہے: ’’عراق سے سائنس دان اور دیگر عراقی ذمہ داران شام میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘۔ وائٹ ہائو س کے ترجمان ایری فلیشر نے تو ہر گردن میں پورا آجانے والا پھندا پھینک دیا ہے کہ ’’شام دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے‘‘۔ یہی بات صہیونی تجزیہ نگار زائیف شیف لکھتا ہے: ’’شام حزب اللہ کے ساتھ مل کر عراق کو امریکی فوجیوں کے لیے لبنان بنانا چاہتا ہے‘‘۔ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیچ کا کہنا ہے: ’’حزب اللہ القاعدہ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے‘‘۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کا صہیونی روزنامہ ہآرٹس لکھتا ہے: ’’لگتا ہے کہ اس بار امریکی کانگریس زیادہ موثر کردار ادا کرے گی۔ وہ اپنی وزارت خارجہ کے اس فیصلے کے انتظار میں نہیں رہے گی کہ وہ شام کو باقاعدہ برائی کا محور قرار دے۔ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اور شام و عراق کے مابین جو تعاون سامنے آچکا ہے‘ اس کے بعد بشارالاسد کے ساتھ کسی اور زبان میں ہی بات کرنا ہوگی۔ اب یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ دمشق میں بیٹھے فلسطینی جہادی لیڈر اسرائیلی شہروں میں بسیں اُڑانے کے احکام جاری کرتے رہیں اور دمشق و حلب محفوظ رہیں‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’اس وقت دنیا میں کسی اور ملک کے پاس اتنا قابلِ استعمال کیمیائی اسلحہ نہیں ہے جتنا شامیوں کے پاس ہے‘‘۔ البتہ صہیونی تجزیہ نگار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ کیمیائی اسلحہ (اگر ہے تو) اسرائیل کے پاس موجود ۱۹قسم کے مہلک کیمیائی و حیاتیاتی اسلحے سے بھی زیادہ ہے‘ خود امریکہ کے اسلحے سے بھی زیادہ ہے کہ جس کا دفاعی بجٹ اب ۴۲۲ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو دنیا بھر کے تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے متجاوز ہے۔ واضح رہے کہ روس کا دفاعی بجٹ ۶۵ارب ڈالر‘ چین کا ۴۷ ارب ڈالر‘ جاپان کا ۳.۴۰ ارب ڈالر‘ برطانیہ کا ۴.۳۵ ارب ڈالر‘فرانس کا ۶.۳۳ ارب ڈالر اور جرمنی کا ۵.۲۷ ارب ڈالر سالانہ ہے۔
ایک طرف تو شام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے دوسری طرف خود فلسطینی محاذ پر ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام پر بش (خورد) نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینیوں کو نئی قیادت منتخب کرنا ہوگی‘ حالیہ قیادت سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یاسرعرفات نے ایک آدھ بار یہ کہا کہ جیسے ہی انتخابات کے لیے مناسب حالات پیدا ہوئے انتخابات کروا کے نئی فلسطینی قیادت چن لی جائے گی‘ لیکن آخرکار ۸ مارچ کو دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نیا عہدہ تراش لیا گیا۔ محمود عباس (ابومازن) کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم چن لیا گیا۔ محمود عباس صہیونی و امریکی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں دونوں کے اعتماد پر پورے اُترے تھے۔ اوسلو معاہدے کے پیچھے اصل کردار ابومازن ہی کا تھا۔ اسے وزیراعظم بنوانے کا اصل مقصد یاسرعرفات کو نمایشی صدر بنا کر اس کے تمام اختیارات سلب کرلینا ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار ایلیکس فش مین یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’فلسطینیوں کے حملے اور شدت پسندی روکنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یاسرعرفات اور اس کے قریبی ساتھی ہیں۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)
ساری دنیا کو یاد ہے کہ ۱۹۸۷ء میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اسے کچلنے کے لیے یاسرعرفات کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی تشکیل دی گئی اور ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطین کے اڑھائی فی صد رقبے میں فلسطینی ریاست اور باقی ساڑھے ستانوے فی صد سرزمین پر اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یاسرعرفات کو عالمِ اسلام کے تمام حکمرانوں کے سامنے مثالی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ یاسرعرفات نے امریکی اور صہیونی امداد سے متعدد سیکورٹی فورسز تشکیل دیں اور ہر آزادی پسند لیڈر اور مجاہد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ غزہ میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا جواخانہ اور علاقے کی بڑی زیرزمین جیل تعمیر کی گئی۔ قومی سلامتی کی ذمہ داری محمد دحلان نامی ایک شخص کو سونپی گئی جس نے اپنے فلسطینی بھائی بندوں کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا‘ ۱۹۹۹ء کے اختتام پر تحریکِ انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی جانے لگی۔ شارون نے بھی بہیمیت کی انتہا کر دی۔ جنین اور دیگر فلسطینی علاقوں کو ٹینکوں سے روندا جانے لگا‘ میزائل برسنے لگے لیکن شہادتی کارروائیوں کو نہ روکا جا سکا۔ یاسرعرفات کو بھی اس کے ہیڈکوارٹر میں محصور ہونا پڑا۔ گولہ باری کا نشانہ بننا پڑا‘ اور اب اسے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
محمود عباس کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فلسطینی تحریک پر سے عسکری چھاپ ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی عسکری اور شہادتی کارروائیاں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یدیعوت احرونوت لکھتا ہے: ’’ابومازن کی کابینہ یاسرعرفات کی کابینہ سے یکسر مختلف اور فلسطینی تاریخ کا ایک حقیقی اہم موڑ ہے۔ اس میں پیشہ ور‘ صاحب اختصاص‘ صاف ستھری شخصیتیں شامل ہیں۔ اس میں شامل سب سے نمایاں شخصیت وزیرداخلہ محمد دحلان کی ہے جس نے حماس کی قیادت کو ابھی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اگراس نے نئی قیادت کے احکام نہ مانے تو وہ ان سے اسی طرح نمٹے گا جیسے ۱۹۹۶ء میں نمٹا تھا۔ دحلان ایسے پیغامات دے کر ان تنظیموں سے عملاً تصادم چاہتا ہے تاکہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سبق سکھا دے۔ اس ہفتے ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو اسرائیل کے لیے بڑی نیک فالی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے سامرہ کے علاقے میں ایک اہم جہادی لیڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ ابھی پٹرول دریافت نہیں ہوا لیکن اس کی موجودگی کے بڑے قوی امکانات و آثار ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل۲۰۰۳ئ)
واضح رہے کہ ابومازن نے اپنی کابینہ کے لیے جو نام پیش کیے ہیں ان میں سات افراد ایسے تھے جو یاسر عرفات سے کھلم کھلا بغاوت کرچکے ہیں۔ محمددحلان بھی ان میں سے ایک ہے جسے یاسرعرفات نے بڑی رشوت کھانے اور قومی مفادات سے غداری کے الزام میں نکال دیا تھا۔ اب اسی کا نام وزیرداخلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پہلے اسی کو وزیراعظم کے لیے لائے جانے کی افواہیں بھی تھیں۔ یاسرعرفات نے وزارتِ داخلہ کے لیے دحلان کا نام یکسر مسترد کر دیا ہے‘ لیکن صہیونی مشیرابومازن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم وزارت داخلہ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا اعلان کر دو اور دحلان کو وزیرمملکت بنا کر وزارتِ داخلہ عملاً اس کے سپرد کر دو۔
صہیونی منصوبہ یہ ہے کہ عراق پر امریکی تسلط‘ شام و ایران کے خلاف بلند بانگ دھمکیوں اور دنیا بھر پر امریکی جنگی مشنری کی دھاک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران ہی فلسطینی مسئلے سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اسی موقع پر بڑی تعداد میں فلسطینیوںکو عراق واُردن میں بسانے کے منصوبے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں ۔ بش عنقریب ایک روڈمیپ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس کا مسودہ کہیں سامنے نہیں آیا لیکن شارون نے اعلان کر دیا ہے کہ ہمیں اس پر ۱۴اعتراضات ہیں ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ملک بدر لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر بھی بات کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ ایک ایسا سرخ خط ہے جسے پار کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
صہیونی وزیرخارجہ شالوم کے الفاظ ہیں: ’’ہم یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی واپسی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ روڈمیپ میں اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ تل ابیب میں امریکی سفیر ڈینیل کیرٹزر نے فوراً ہی صہیونی حکمرانوں کے در پہ حاضری دیتے ہوئے انھیں تسلی دلائی اور کہا کہ ’’روڈ میپ اصل حل نہیں ہے یہ تو صرف مذاکرات شروع کرنے کا ایک بہانہ ہے‘‘۔ اسی دوران امریکی کانگریس کے ۲۳۵ اور امریکی سینیٹ کے ۷۰ ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت امریکہ کو شارون حکومت کے ساتھ کوئی تصادم مول نہیں لینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون کے کئی خطوط بش کی مشیرہ براے قومی سلامتی کونڈالیزا رائس کو متعدد صہیونی تنظیموں کی طرف سے موصول ہوئے۔ (صہیونی روزنامہ معاریف)
سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا: ’’القدس جانے کا راستہ بغداد سے گزرتا ہے‘‘۔ کیا اس کی بات اس معروف صہیونی ماٹو کی طرف اشارہ تھا کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے نیل تک ہیں‘‘ (حدودک یا اسرائیل من الفرات الی النیل)‘ یا اس نے پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون کے اس جملے کو عراق پر منطبق کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کی سلامتی صرف اس بات میں مضمر نہیں ہے کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر اس ایٹمی طاقت کو تباہ کر دیا جائے جو اس میدان میں اسرائیل کے مقابل ہو اور اس کے وجود اور علاقائی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہو‘‘۔ کسنجرکا یہ معروف جملہ آج کے حالات پر بھی پوری طرح درست بیٹھتا ہے۔
سقوطِ بغداد کے بعد اب القدس کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ عالمِ اسلام اس صہیونی امریکی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تو کیا اس میں شرکت کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ خود صہیونی نقشہ نویس اپنے اس نقشۂ کار کے متعلق شکوک کا شکار ہیں۔ ایلیکس فش مین لکھتا ہے: ’’اس پورے معاملے میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ابومازن یاسرعرفات کی جگہ تو لے لے لیکن وہ سیاسی اور امن و امان سے متعلقہ مقاصد حاصل نہ ہوں جو اسرائیل چاہتا ہے‘ دہشت گردی جاری رہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا‘ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری پوری کی پوری پالیسی ہی غلط تھی‘‘ (یدیعوت احرونوت‘ ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ لیکن پاکستانی وزیرخارجہ کا بیان ملاحظہ فرمایئے: ’’عراق کے بعد فلسطین اور پھر کشمیر کامسئلہ حل ہوگا‘‘، یعنی ہم نہ صرف سقوطِ بغداد اور فلسطین کا کانٹا نکل جانے کے لیے بھی ذہناً تیار بیٹھے ہیں بلکہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امریکہ ہی کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں۔
یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ فلسطین کے سربراہ موعود ابومازن کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ اپنے مجاہدین اور اپنی قوم کے بجائے دشمن کے کام آنے والا ہر بدقسمت عبرت کا نشان ضرور بنتا ہے‘ لیکن کیا پاکستان‘ اہل پاکستان‘ اور کارپردازانِ پاکستان کے لیے بھی اس میں کوئی پیغام‘ کوئی سبق ہے!
جب ہم ۵-اے‘ ذیلدارپارک میں آپا جان کا درس سننے کے لیے آیا کرتے تھے تو اندر کھڑکی کے شیشے میں سے لان کی اسی جگہ پر مولانا مودودیؒ کرسی پر بیٹھے نظر آتے تھے جہاں آج ان کی میت رکھی جا رہی تھی۔ گھر کے اندرونی لان میں شامیانے کے نیچے قالینوں اور چاروں طرف کرسیوں پر خواتین تلاوت اور زیرلب باتوں میں مشغول تھیں۔
سوچتے سوچتے ذہن تقریباً ۵۰ برس پیچھے لوٹ گیا۔ جب پہلی بار ’’آپا جان‘‘ کو ایک بہت بڑے اجتماع میں دیکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ جیل میں تھے اور وہ پوچھنے والوں سے کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کی راہ میں جو مشکلات آئیں وہ مبارک ہوتی ہیں‘‘--- یہ جملہ میرے معصوم سے ذہن پر نقش ہوگیا اور زندگی کے کئی مواقع پر میں نے اس کی بازگشت سنی۔
بیگم مودودیؒ کے آبا و اجداد مغل شہنشاہ شاہجہان کے دور میں بخارا سے نقل مکانی کرکے دلّی آئے تھے۔ شاہجہان نے جامع مسجد دلّی کی امامت کے لیے اُنھیں بلایا تھا۔ موجودہ امام عبداللہ شاہ بخاری اِسی خانوادئہ سادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت سے لے آخر تک وہ لوگ دلّی میں آباد رہے۔ بیگم مودودیؒ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں دادا اور چچا کے ہاں
کوئی بیٹی نہ ہونے کے باعث ان کی پیدایش بڑی پُرمسرت تھی۔ پرورش بڑے نازونعم میں ہوئی۔ اِن کے والد بہت متقی پرہیزگار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے انھیں کوئین میری اسکول میں بھیجا گیا۔ مگر تحریکِ خلافت کے موقع پر اکثر مسلم خاندانوں نے اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں سے نکال لیا۔ ان کی آیندہ تعلیم گھر پر ہی ہوئی جو مڈل اور منشی فاضل تک محدود تھی۔ اُن کے ماموں اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر تھے جنھوں نے انھیں فارسی پڑھائی۔ فارسی میں اتنی دسترس ہوگئی کہ مادری زبان کی طرح لکھ‘ بول اور پڑھ سکتی تھیں۔ منشی فاضل میں ایک پرچہ عربی کا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بیٹا سب سے اچھی عربی قرآنِ پاک میں ہے۔ اس طرح بقول اُن کے‘ قرآنِ پاک سے پہلا معنوی تعارف حاصل ہوا۔
بیگم مودودیؒ کی اپنے سسرال سے پہلے بھی رشتہ داری تھی۔ مولاناؒ کی والدہ اِن کی دادی کی سگی خالہ تھیں۔ آپس میں ملنا ملانا اور دیکھے بھالے خاندان تھے۔ اس لیے نسبت فوراً ہی طے ہو گئی۔ شادی سے پہلے اُنھوں نے مولاناؒ کی کوئی تحریر نہیں پڑھی تھی حتیٰ کہ الجمیعۃ اخبار بھی کبھی نہیں پڑھا تھا۔ اُن کا گھرانہ بہت ماڈرن تھا اور اِدھر کے لوگوں کا طرزِ زندگی ذرا مختلف تھا۔ خصوصاً مولاناؒ تو ذہنی طور پر بہت بدل رہے تھے۔ اس لیے جب مولاناؒ کی والدہ مرحومہ نے یہ بات پوچھی کہ تمھارے اِتنے دینی نظریات کی وجہ سے آپس میں کیسے گزارہ ہوگا تو مولاناؒ کا پُراعتماد جواب اُنھیں لاجواب کر گیا کہ اگر میں ایک لڑکی کا ذہن بھی نہ بدل سکا تو مجھے اپنا یہ کام ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
بیگم مودودیؒ کو ہم سب ’’آپا جان‘‘ کہتے اور وہ عمر اور مرتبے کے حساب سے لڑکیوں کو ’’بیٹا‘‘ اور خواتین کو ’’بی بی‘‘ کہتیں۔ بیٹیوں کی تربیت کے معاملے میں آپا جان نے پردے اور حیا و شرم کو بہت فوقیت دی۔ ۱۰ برس کی عمر میں اُنھیں نقاب اُوڑھا دیا۔ اسکول میں تعلیم نہیں دلوائی‘ گھر پر ٹیوٹر رکھی اور پھر میٹرک کے بعد کالج میں داخلے دلوائے۔ بچیوں کا گھر میں آنے والی خواتین کے اندر بیٹھنا بھی اُنھیں پسند نہیں تھا۔ کسی بچی کے بال نہیں کاٹے۔ چار پانچ سال کی عمر سے ہی کس کر چوٹیاں باندھیں اور نہایت عمدہ طریقے سے دوپٹہ اوڑھنا سکھایا۔ سلائی کڑھائی‘ سینا پرونا اور کھانا پکانا ہرچیز میں بچیوں کوماہر کیا۔ تشکیلِ جماعت اسلامی سے پہلے تین سال اسلامیہ پارک میں رہے۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ پھر تقسیم کے بعددوبارہ جب یہاں آئے تو بچے بڑے ہوچکے تھے۔ سعیدہ احسن بتاتی ہیں کہ جب آپاجان نے ہمارے بڑے بھائی سے پردہ کیا تو بی بی (والدہ بنت الاسلام) کہنے لگیں محمودہ یہ تو تمھارے سامنے بڑا ہوا ہے۔ آپا جان نے بڑے اعتماد سے کہا: بی بی‘ بیٹا ہو یا بھائی‘ جہاں بات اللہ کے حکم سے ٹکرائے اُسے نہیں ماننا چاہیے۔ اس طرح حمیرا‘ اسماء جن لڑکوں بالوں سے کھیلتی گئی تھیں اُن سے اجنبی ہوکر الگ ہوگئیں حالانکہ ابھی اُن کے پردے کی عمر نہیں تھی۔ لیکن اُنھوں نے پردے کی اہمیت اس طرح دلوں میں بٹھا دی کہ وقت آنے پر وہ کوئی بحث مباحثہ نہ کرسکیں۔
آپا جان دمہ کی پرانی مریض تھیں۔ صحت کی کمزوری کے باعث اکثر اس کا حملہ ہوجاتا لیکن اُن کا سب سے اہم کام مولاناؒ کو ہر قسم کا جسمانی اور ذہنی سکون بہم پہنچانا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنا بڑا کام کر گئے۔ وہ بھی ان کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ جن دنوں آپا جان کی طبیعت خراب ہوتی اُنھیں دفتر کے ساتھ والے کمرے میں لے آتے۔ گھر کی طرف سے دروازہ بند کر دیتے تاکہ بچے ڈسٹرب نہ کریں اور اندر سے اپنے دفتر کا دروازہ کھلا رکھتے۔ بعض اوقات لکھنے پڑھنے کاکام بستر کے پاس ہی لے آتے تاکہ طبیعت کا پتا رہے۔ آپا جان مولاناؒ کے صحت و آرام کا اس سے بھی زیادہ خیال رکھتیں۔ مولانا کا تمام دن گھڑی کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا‘ سہ پہر کی چائے‘ رات کا کھانا سب وقت کے ساتھ طے تھا۔ عصرکی نماز کے بعد جب ٹوپی رکھنے کمرے میں آتے توآپا جان چائے کا کپ لیے کھڑی ہوتیں۔ ایک منٹ کی دیر بھی اُس میں نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ باہر عصری مجلس شروع ہوجاتی۔ کھانے کے بعد ذرا ساکچھ میٹھا‘ کچھ نہ ہو تو شہد۔ صبح ناشتہ کے بعد پان اور پھر دن بھر کا پان کا کوٹہ ڈبیا میں ڈال کر دینا۔ باورچی نہ ہو تو مولانا کا کھانا خود پکانا۔ خاص طور پر پھلکے‘ دلیہ انھیں بہت پسند تھا لیکن آپا جان ہمیشہ گھر میں پسواتیں۔ اُنھیں وہم رہتا کہ اِتنی تو مخالفت ہے‘ باہر سے پسوائی ہوئی چیز میں کوئی کچھ ملا نہ دے۔اِس طرح کھانے میں اُن کی پسندیدہ چیزیں خود اہتمام سے تیار کرلیتیں۔ اجتماعات میں صحیح وقت پر اُٹھ جاتیں کہ میاں کو کھانا دینا ہے۔
خود فرماتی ہیں: ’’مودودی صاحب سے جو جذبۂ ایمانی لیا تھا اُس کی طاقت مجھے لے کر چلتی رہی ورنہ نو بچے‘ ان کی تعلیم و تربیت‘ گھرداری‘ مہمان داری اور درس و تدریس--- آج بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ اتنے بڑے چھکڑے کو مجھ جیسی دھان پان اور نامکمل صحت کی عورت نے کیسے گھسیٹا---ظاہر ہے اس میں قوتِ ایمانی اور تائید ربانی ہی کا فضل تھا‘‘۔
آپا جان ایک نہایت منضبط‘ سلیقہ شعار اور سُگھڑخاتون تھیں۔ بہت نفاست پسند‘ صفائی پسند اور پاکیزہ صفت۔ یہ تمام سلیقہ اُنھوں نے آگے اپنی بچیوں میں اُتارا۔ آپاجان کا لباس ساڑھی تھا۔ بلائوز کی آستینیں کف والی اور کلائیوں تک ہوتیں۔ اونچا گریبان اور ساڑھی کے پلّو سے لپٹا ہوا سر۔ سوائے وقت ِ وضو کے کبھی بازو اور سر ننگا نہیں دیکھا۔ سعیدہ احسن کہتی ہیں میں کہا کرتی آپا جان آپ ساڑھی کو کام کے وقت کیسے سنبھالتی ہیں۔ وہ کہتیں آپ کا دوپٹہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ اسے کیسے سنبھالتی ہیں؟ بہرحال کئی لوگ اُن کی ساڑھی پر اعتراض کرتے۔ اچھرہ مین روڈ پر جس گھر میں درس دینے جاتیں اُنھیں ساڑھی پر اعتراض تھا۔ کہتے آپ شلوارقمیض پہنیں۔ آپا جان نے کہا میری ساڑھی باپردہ ہے میں تو یہی پہنوں گی۔ درس خواہ رکھو یا نہ رکھو۔ چنانچہ وہاں جانا چھوڑ دیا۔
مسلم ٹائون اور ماڈل ٹائون آپا جان کے ہفتہ وارحلقے تھے۔ ماڈل ٹائون تو ۲۶ سال گئیں۔ بڑا منضبط پروگرام ہوتا۔ ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل درسِ قرآن اور سوال و جواب۔ اس کے بعد وہ بہت روکنا چاہتیں مگر آپا جان اپنے وقت پر اُٹھ جاتیں کہ مولانا کا کھانا لیٹ نہ ہو جائے۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک آپا جان نے سیاسی جلسے بھی کیے۔ یہ اُن کی زندگی کے بڑے مصروف دن تھے۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتیں۔ ۷۷ء میں نو جماعتوں کا‘ پاکستان قومی اتحاد عمل میں آیا تھا۔ ماڈل ٹائون میں بہت بڑا جلسہ تھا۔ پانچ چھ ہزار کے قریب خواتین جمع تھیں کہ اسٹیج پر فوٹوگرافر آگئے۔ آپا جان نے برقعہ تو لیا ہوا ہی تھا۔ فوراً احتجاجاً اسٹیج سے اُتر کر اپنی گاڑی میں جابیٹھیں۔ مسلم لیگی خواتین کے کہنے پر واپس آئیں۔ جلسے میں جو بھگدڑ مچی ہوئی تھی وہ بھی ٹھیک ہوگئی اور سب خواتین جلسہ گاہ میں اپنی جگہ لوٹ آئیں۔
بھٹو کے خلاف تحریک میں ۹ اپریل ۱۹۷۷ء کے احتجاجی جلوس میں ساری جماعتوں کی خاتون سربراہان قیادت کر رہی تھیں۔ جیسے ہی آنسوگیس کے شیل پھینکے گئے اور لاٹھی چارج ہوا‘ سب جماعتوں کی خواتین پچھلی صفوں کی طرف بھاگیں۔ لیکن آپا جان اور باقی ارکانِ جماعت اگلی صفوں میں ہی رہیں۔ سب کو بیٹھ جانے کوکہا۔ بھاگنے سے روکا اور بڑی ہمت اور جرأت سے اس وقت کو گزارا۔ گولی چلنے سے جمعیت کے کئی لڑکے جو خواتین کی حفاظت کے لیے دو رویہ چل رہے تھے‘ شہید ہوئے۔ کچھ عرصے بعد پھرصاحبزادی محمودہ بیگم نے کہا کہ عورتوں کا جلوس دوبارہ نکالا جائے۔ اس پر آپا جان ذرا تلخ ہو گئیں۔ کہنے لگیں:’’بی بی جب عورتیں میدان میں آتی ہیں تو مرد جانیں دے کر اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے فالتو مرد نہیں ہیں‘‘۔
اس طرح جماعت کے اجتماع ۱۹۶۴ء میں مولانا کی تقریر کے آغاز میں ہی غنڈوں نے حملہ کیا۔ گولیاں چلنے کی آواز آئی اور خواتین کے کیمپ میں بوتلیں پھینکی گئیں۔ میرابڑا بچہ گودمیں تھا۔ سب کا خوف کے مارے برا حال تھا لیکن آپا جان اور آپا جی حمیدہ بیگم مسلسل سب کو تسلی دینے اور اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی تھیں اور خواتین کو وہاں سے نکلوا کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد وہاں سے خود نکلیں۔
قیامِ پاکستان کے تقریباً ۱۴ ماہ بعد مولانا کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ سزاے موت کا بھی حکم ہوا۔ عورتیں اخبار پڑھ کر روتی ہوئی آ رہی تھیں۔ آپا جان نے سختی سے ڈانٹا کہ سزاے موت اللہ کی طرف سے تو نہیں۔ دیکھیں اللہ کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو تسلی دی۔ بچے تمام اسکول گئے ہوئے تھے۔ خود وہ پُرسکون تھیں۔
جب بھی گرفتاریاں ہوتیں‘ کبھی جزع فزع نہ کرتیں۔ دوسرے گرفتار ہونے والے ارکان کے گھروں میں جاتیں ‘ اُنھیں تسلی دیتیں‘ مالی امداد جتنی ممکن ہوتی کرتیں اور صبروسکون سے رہنے کی تلقین بھی۔ ایسی پریشانی کے دنوں میں مرکز کی خواتین خود بھی آپا جان کے پاس رات کو جمع ہو جاتیں۔ وہ انھیں قرآن سناتیں‘ آزمایش کو برداشت نہ کرنے پر بہت خفا ہوتیں‘ سختی سے کہتیں کہ اگر مارپیٹ‘ بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی تو اس راہ میں کیوں نکلے؟ پھر نرمی سے پٹھان کوٹ کی زندگی کا ذکر کرتیں کہ وہاں تو تنہائی‘ سانپ‘ بچھو اور گیدڑ تھے اور یہاں ہم سب اکٹھے ہیں۔ شوہروں کے جیلوں میں ہونے کے باعث ننھے ننھے بچوں کی معیت میں اِن خواتین کے لیے پریشانیاں تو بہت تھیں لیکن آپا جان اپنی جیلوں اور پھانسی کے تختوں کو بھول کر اُن کی تربیت اور تسلی میں لگ جاتیں:’’اللہ کے راز کبھی نہ کھولنا کہ آج تم فاقے سے ہو۔ بھوک کا حال کسی باپ‘ بھائی یا ساس سسر کے آگے نہ کھولنا‘ یہ اللہ کا راز ہے۔ تمہارا اجر مارا جائے گا اگر کسی کے آگے بھی یہ شکوہ کردیا۔ اللہ کا رحم اور اُس کی رضا لینے کے لیے زبان بند رکھو۔ گورنمنٹ کا شکوہ بھی نہ کرو کہ جیل میں ملنے نہیں دیتے‘‘۔
آپا جان کی خوش حالی کی زندگی تو دوچار سال میں ختم ہو گئی۔ پٹھان کوٹ کی زندگی نے دراصل اُن کو اُس ابتلا کے لیے تیار کیا جو آیندہ اُن پر آنے والی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ دادا ابا مرحوم نے اپنے خط میں میری شادی سے پہلے مولانا کو لکھا تھا کہ ہماری بیٹی محل میں بھی تمھارا ساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی۔ یہ جملہ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتا رہا اور اللہ کی رضا میں میری رہنمائی کرتا رہا۔
جماعت اسلامی کی رُکنیت آپا جان نے خود سوچ سمجھ کر اختیار کی لیکن اپنی صحت‘ مولانا کی خدمت‘ اور گھر کی ذمہ داریوں کے باعث کوئی تنظیمی ذمہ داری نہ لی۔ شروع میں اجتماعات کے لیے باہر بھی نکلتیں۔ بک اسٹال کی ذمہ داری بھی کبھی لے لیتیں۔ جماعت کے ارکان پر اُنھیں اِتنا بھروسا تھا کہ ایک دفعہ کہنے لگیں: اسٹال پر کاپی پنسل رکھ دو۔ لوگ کتابیں لیں اور پیسے رکھتے جائیں۔ پھر کہنے لگیں:رُکن جماعت کا ستون ہے۔ یہ بذاتِ خود ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ جماعت کا نقصان ہو رہا ہو‘ کارکن کم ہوں‘ مت انتظار کرو کہ کوئی آپ سے کہے۔ خود اپنا مورچہ سنبھال لو۔
آپا جان کا گھر دعوت کا مرکز تھا۔ تمام دن لوگ آتے جاتے رہتے۔ اُنھوں نے یہ نکتہ نہایت اچھی طرح سمجھ رکھا تھا کہ اس گھر کے دروازے لوگوں کے لیے ہروقت کھلے رہنے چاہییں۔ لہٰذا کبھی ماتھے پر بل نہ ڈالا۔ خواتین آتی رہتیں اور بیٹھتی جاتیں‘ آپاجان فرصت ملتے ہی حاضرہوجاتیں۔ روزانہ قرآن کی کلاس‘ ہفتہ وار درس‘ ماہانہ ادبی نشست‘ تربیت گاہیں‘ ناگہانی اور فوری اجتماعات۔ اسماء بتاتی ہیں کہ جمعہ کے روز نماز اور بعد میں درس سالہا سال ہوا ہے۔ مولانا مبارک مسجد میں جب تک جاتے رہے قرآنِ پاک اور مشکوٰۃ اُٹھائے ہمیشہ ساتھ ہوتیں کہ گھر میں فرصت نہیں ‘ وہیں میں اُن سے پڑھ لوں۔
مولانا کی وفات کے بعد آپا جان نے باہر نکلنا تقریباً ختم کر دیا۔ لیکن قرآنِ پاک کا محاذ اُسی طرح گرم تھا۔ اسماء کے میاں کی وفات کے کچھ سال بعد اُدھر چلی گئیں۔ وہاں بھی ۱۵‘ ۱۶ لوگوں کی روزانہ کلاس چلتی رہی۔ پچھلے سال مارچ میں جب معدے کا السر پھٹ گیا تو کلاس ختم کرنا پڑی۔ اسماء نے اپنے تمام پروگرام ختم کر کے ماں کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا۔ کبھی کبھار کہتیں: ’’اسماء میں تم پر بوجھ ہوں‘‘۔ اسماء کہتیں: ’’اماں میں تو مزدور ہوں۔ اللہ سے اپنی مزدوری لے لوں گی‘‘۔ اس طرح سال بھر بستر پر رہیں۔ چھ بار ہسپتال لے جانا پڑا۔ آخری دنوں میں ایک بار اسماء سے نیم بے ہوشی میں کہا: ’’ماموں سے پوچھو‘ میں اُن سے پڑھنے آجائوں؟‘‘ یہ وہ ماموں تھے جنھوں نے اُنھیں فارسی پڑھائی تھی۔
آپا جان کی باتیں لکھتے وقت دل بے حد دُکھی ہو رہا ہے۔ احساسِ زیاں بڑھ گیا ہے۔ لیکن مولاناؒ کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ لکھے بغیر ختم کرنے کو دل نہیں چاہا۔ مولانا سے اگر خواتین ملنا چاہتیں تو برقعہ لے کر آپا جان کے ہمراہ بیٹھ جاتیں اور اپنے سوال و جواب اور مسائل پوچھتیں یا پردے کے پیچھے سے بات کرلیتیں۔
بھرپور مخالفتوں کے زمانہ میں گوجرانوالہ سے کچھ خواتین آئیں۔ مولانا اور آپا جان کے پاس بیٹھی شکوہ بھرے انداز میں کہنے لگیں: ’’آپ مخالفین کی کسی بات کا جواب دیتے‘ نہ تردید کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ مودودی صاحب نے ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کر رکھی ہے‘‘، آپا جان اِس الزام پر بہت ہنسیں۔ مولاناؒ اُن کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ’’ٹھیک تو کہتے ہیں لیکن تھوڑی سی غلطی ہے۔ سولہ سالہ نہیں اٹھارہ سالہ!‘‘ (آپا جان کی عمر شادی کے وقت اٹھارہ سال تھی)۔
اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کونور سے بھر دے۔ اُن کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ (آمین)
عالِم کی موت عالَم کی موت کے مترادف ہے۔ موۃ العالِم موۃ العالَم، محض عربی زبان کا ایک مقولہ ہی نہیں انسانی زندگی کی ایک بڑی بنیادی حقیقت کا اعتراف اور اعلان ہے۔ زندگی صرف ہوا اور پانی کا نام نہیں‘ اس کا اصل جوہر علم کی روشنی ہے اور اہل علم میں سے کسی ایک چراغ کا بجھ جانا بھی انسانیت کے لیے بڑے خسارے کا معاملہ ہے چہ جائیکہ ایک بقعۂ نورسے محروم ہو جانا---! بلاشبہہ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمن کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا علمی دنیا کا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے علمی اور نظریاتی حلقے میں تو ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جسے برسوں محسوس کیا جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محترم مولانا مودودیؒ اور جناب ملک غلام علیؒ کے اٹھ جانے کے بعد جس شخص نے ہر علمی محاذ پر تحقیق اور تفقہ کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا وہ مولانا گوہر رحمن ہی تھے اور ان کے انتقال سے ایسا لگتا ہے جیسے ع
مولانا گوہررحمن مرحوم سے ملاقاتوں اور بحث و استفادہ کا سلسلہ ۱۹۶۳ء میں ان کے مرکزی مجلس شوریٰ میں آنے سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن زیادہ قریبی تعلق ۱۹۸۵ء میں ان کے قومی اسمبلی میں انتخاب سے بنا۔ شوریٰ کے اولین دور میں وہ نسبتاً کم گو تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا contribution بڑھتا گیا اور ہر میدان میں--- علمی‘ تنظیمی‘ دعوتی اور احتسابی--- انھوں نے اپنا منفرد مقام بنالیا۔گذشتہ ۲۰‘ ۲۵ سال میں مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے‘ گھنٹوں ان سے بحث و گفتگو کرنے اور ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے کا موقع ملا اور تعلق خاطر گہرے سے گہرا ہوتاچلا گیا۔ اس زمانے میں ان سے ہر ملاقات حتیٰ کہ ہر اختلاف کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی تابندہ ہوتا رہا۔ مولانا کے تبحرعلمی اور عظمت کردار دونوں نے ان کا گرویدہ بنا لیا۔ نصف صدی کے اس دریچے میں جتنا بھی دیکھتا ہوں ان کی علمی عظمت‘ اخلاقی وجاہت‘ تحریکی معاملات میں فہم و فراست اور دینی حمیت ہی کے نقوش نظر آتے ہیں۔ کچھ معاملات میں مولانا کے مزاج میں سختی بھی تھی لیکن اس کا تعلق ان کی ذات سے نہیں‘ دین اور تحریک کے مفاد اور اس کے مزاج کے تحفظ کے جذبے سے تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کے احکام کے بارے میں ان کی بے لاگ وفاداری کا غماض تھا۔ وہ ہمارے دور میں سلف کا نمونہ تھے اور تحریک کا قیمتی سرمایہ۔ ان کی تنقید اور ان کا احتساب ان کے علمی افادات سے کچھ کم ہماری متاع نہ تھے۔
مولانا گوہر رحمن ایک غریب مگر صاحب ِ علم دینی گھرانے میں مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گائوں (چمراسی درہ شنگلی) میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ والد محترم مولوی شریف اللہ کے انتقال کے بعد‘ جو آبائی گائوں سے کوئی ۱۰ میل دُور کوبائی نام کے ایک گائوں میں امام تھے‘ عالم طفولیت ہی میں والدہ‘ ایک بھائی اور تین بہنوں کے ساتھ‘ دنیوی سہارے سے محروم ہو کر‘ ننھیال منتقل ہو گئے اور بڑی عسرت کی زندگی گزاری۔ ماں کی محبت اور محنت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا‘ پرائمری تعلیم کے بعددینی تعلیم حاصل کی اور ۱۵ سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ اس زمانے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’کھانا تو مسجد میں کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا تھا اگرچہ ہشت نگر کے گائوں شیخوتروسردھڑی کے دورانِ قیام میں بعض اوقات ہفتوں تک دن کا فاقہ کرنا پڑتا تھا لیکن کپڑوں اور جوتوں کے لیے اسباق کے اوقات کے بعد مزدوری کرتا تھا‘‘۔
ایسی پُرمشقت زندگی کے باوجود انھوں نے حصولِ علم میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور ۱۹۵۱ء میں تحصیل صوابی کی ایک مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ پھر مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی اور دارالعلوم سلفیہ فیصل آباد میں مختصر مدت کے لیے درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد بالآخر مولانا غلام حقانی امیرجماعت اسلامی صوبہ سرحد کے مشورے سے ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم تفہیم القرآن کی بنیاد ڈالی جو مولانا گوہر رحمن کی مسلسل محنت‘اللہ تعالیٰ کے فضل اور ساتھیوں کی تائید و معاونت سے آج صوبہ سرحد کی ایک عظیم جامعہ کا مقام حاصل کرچکی ہے۔ اس سے ہزاروں طلبا دین کا علم حاصل کر کے ملک ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ دارالعلوم تفہیم القرآن آج ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے جس میں مخلص اور صاحب ِ نظر اہل علم جمع ہیں اور جو قدیم کے ساتھ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
مولانا گوہر رحمن کا جماعت اسلامی سے تعلق ۱۹۵۲ء میں قائم ہوا اور رکنیت کا رشتہ ۱۹۶۳ء میں استوار ہوا جس کے بعد وہ تحریک میں اہم سے اہم تر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ وہ ۱۹۶۳ء سے وفات تک مرکزی شوریٰ کے رکن رہے‘ کئی کمیٹیوں کے سربراہ بنے، ۱۲‘ ۱۳ سال صوبہ سرحد کے امیر رہے‘ جمعیت اتحادالعلما کے سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اور ۱۹۸۷ء سے رابطہ المدارس کے صدر رہے۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۸ء تک مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے شریعت بل (مئی ۱۹۸۵ئ) کا مسودہ اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز بل کے طور پر پیش کیا جو سینیٹ میں شریعت بل کی بنیاد بنا۔ ملک میں نفاذِ شریعت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مولانا گوہر رحمن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا۔
فکری اعتبار سے مولانا مرحوم اپنے کو دیوبندی مکتب ِ فکر کا حصہ سمجھتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے پورے علمی ورثے کے وارث تھے۔ طالب علمی ہی کے دور میں شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب تقویۃ الایمان سے متاثر ہوئے۔ امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ اور شاہ ولیؒ اللہ کی فکر میں رچ بس گئے۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب الجہاد فی الاسلام، ان کو مولانا کے حلقے میں لے آئی اور وہ تحریک کی فکر کے صاحب ِ نظر ترجمان بن گئے۔ فقہ حنفی سے خصوصی نسبت کے باوجود ان کے خیالات میں بڑی وسعت تھی اور خود ایک مقام پر کہتے ہیں کہ ’’ذہن میں بحمدللہ جموداور گروہی عصبیت نہیں ہے‘‘۔ امام عبدالوہاب شعرانی ؒ کے مکاشفے نے جو انھوں نے اپنی کتاب المیزان الکبریٰ میں نقل فرمایا ہے‘ ذہن وفکر کی وسعت کو اور بڑھا دیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ علم رسولؐ کی مثال ایک بڑے اور وسیع حوض کی ہے جس کے چاروں طرف نالیاں ہیں اور ہر ایک میں اس کی وسعت کے مطابق حوض کا پانی بہہ رہا ہے۔ مگرایک بڑی نالی ہے جس میں سب سے زیادہ پانی بہہ رہاہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بڑی نالی امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے اور باقی نالیاں دوسرے ائمہ کی فقہ ہے‘‘۔
مولانا گوہر رحمن نے دورۂ تفسیرقرآن کی روایت ۱۹۶۷ء سے قائم کی۔ پہلے‘ سال میں دو بار پورے قرآن کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔پھر تحریکی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسے سال میں ایک بار کر دیا۔ منصورہ میں ۱۰ سال ۱۵ شعبان سے ۲۷ رمضان تک ڈیڑھ مہینے میں ہر سال سیکڑوں مرد و خواتین کو مکمل قرآن کا درس دیا ۔ درس کا یہ سلسلہ روزانہ ۸ سے ۱۰ گھنٹے چلتا تھا جو محض روایتی درس قرآن نہ تھا بلکہ قرآن کے پیغام و معانی کے ساتھ عصری مسائل و معاملات پر ان تعلیمات کے اطلاق اور قرآن کی روشنی میں مطلوبہ انسان اور معاشرے کے قیام تک کے مباحث پر محیط ہوتا اورایمان‘ علم‘اخلاق اور تحریکیت‘ ہر ایک کو جلا بخشنے کا ذریعہ بنتا تھا۔
توحید اور اسلامی سیاست کے موضوع پر انھوں نے بڑی معرکہ آرا کتابیں تحریر کی ہیں جو اہل علم کے لیے ایک مدت تک سرمایۂ جان رہیں گی۔ ان کے مقالات اور وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں ریفرنسوں کا مجموعہ تفہیم المسائل کے عنوان سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے جو بیک وقت مولانا مودودیؒ کی تفہیمات اور رسائل و مسائل کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اپنے اپنے موضوع پر ہر تحریر معرکے کی چیز ہے۔ سود‘ اسلامی ریاست میں شوریٰ کا مقام‘ اسلام اور جمہوریت کے تعلق کی صحیح نوعیت‘ جدید اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور کردار کا مسئلہ‘ اقامت ِ دین کا حقیقی مفہوم اور غلبۂ دین کی جدوجہد کی اصل حیثیت وہ موضوعات جن پر مولانا نے صرف دادِ تحقیق ہی نہیں دی بلکہ بالغ نظری سے جدید حالات کو سامنے رکھ کر دین کے احکام کی تشریح کی ہے اور تطبیق کے میدان میں اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جدید میڈیکل مسائل کے بارے میں بھی ان کی تحقیق روایت اور جدت کا امتزاج ہے۔ وہ جدید دور کے تقاضوں کا کھلے دل سے ادراک کرتے مگر روایت کے فریم ورک میں ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے سے کہیں کہیں پورے ادب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی رائے کے وزن اور علمی ثقاہت کے بارے میں دو رائے ممکن نہیں۔ میں نے اسلامی سیاست کے طرز پر ’’اسلامی معیشت‘‘ پر لکھنے کے لیے ان سے بار بار درخواست کی لیکن بدقسمتی سے اس موضوع پر انھیں مربوط کتاب لکھنے کی مہلت نہ ملی۔ اگرچہ سود کی بحثوں میں معاشی معاملات پر انھوں نے اپنی جچی تلی آرا کا اظہار کیا ہے۔
مولانا گوہر رحمن بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دلیل کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے‘ گو اپنی رائے پر دلیل کی بنیاد پر ہی قائم رہتے تھے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل کے سلسلے میں افہام و تفہیم کے لیے آمادہ رہتے لیکن جدید کے ادراک کے باوصف اپنے کردار کو قدیم اور روایت ہی کی ترجمانی قرار دیتے۔ دعوت کے میدان میں بے حد سرگرم اور اَن تھک محنت کے عادی تھے۔ علم کا ایک بحربے کراں تھے اور الحمدللہ استحضار علمی کے باب میں منفرد تھے۔ بات منطقی ترتیب سے پیش کرتے اوردین کے معاملے میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیتے۔ احتساب کے باب میں بھی ان کی گرفت مضبوط اور بے لاگ ہوتی۔ تدبیر کے معاملات میں اختلاف بھی پوری قوت سے کرتے اور پھر جو فیصلہ ہو جائے اس پر دیانت داری سے عمل کرتے‘ البتہ جس چیز کو شریعت کے باب میں راہ صواب کے مطابق نہ پاتے اس پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے لیکن شریعت کے دائرے میں جو حل نکلتا اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ اپنے اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیتے جو ان کے کردار کی عظمت کی نشانی ہے۔
مجھے مولانا گوہر رحمن سے متعدد امور پر علمی استفادے کا موقع ملا اور میں نے ان کو ہمیشہ ایک روشن دماغ صاحب ِ علم پایا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے استفادہ بھی ایک سعادت تھی اور اختلاف بھی ایک درس کا درجہ رکھتا تھا۔ تحریکی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں مولانا شدید اضطراب کا شکار تھے۔ کچھ چیزوں پر انھیں شدید عدمِ اطمینان تھا لیکن اس کے ساتھ تحریک سے وفاداری اور تعلق کے متاثر نہ ہونے دینے کی خواہش بھی تھی۔ ایک بہت ہی نازک مرحلے پر میں نے اور محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مردان کا سفر صرف اس لیے کیا کہ مولانا کے نقطۂ نظر کو سمجھیں اور اختلاف کے باوجود تحریک سے تعلق کی استواری میں کمی نہ آنے کی درخواست کریں۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اجرعظیم دے کہ اپنے انقباض کے باوجود ہماری اور دوسرے احباب کی کوششوں سے‘ اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے‘ وہ اس دور سے جلد نکل آئے اور پھر اس کا کوئی سایہ ان کے تحریکی کردار پر باقی نہ رہا۔ جزاھم اللّٰہ خیرالجزائ۔
وہ کئی سال سے بیمار تھے۔ قوتِ کار برابر کم ہو رہی تھی۔ کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے تھے لیکن ان کے عزم اور شوقِ کار میں کوئی کمی نہ آئی۔ اپنی زندگی کے شوریٰ کے آخری اجلاس میں بھی شریک تھے اورکھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنے خیالات کا اظہار اسی شان سے اور دلیل اور جرأت سے کیا جو اُن کا شعار تھا۔ زیربحث موضوع پر اپنی جچی تلی رائے کا اظہار دلائل کے ساتھ اور نکات کی تعداد کے تعین کے ساتھ کیا۔ البتہ ان کی نقاہت اور آواز کے گلوگیر ہوجانے سے دل کودھچکا لگا اور ان کے لیے صحت اور درازیٔ عمر کی دعا کی۔ آخری ملاقات ان کے لائق فرزند ڈاکٹر عطاء الرحمن کی پارلیمانی لاج کی قیام گاہ پر جنوری کے مہینے میں ہوئی۔ کیا خبر تھی کہ اس کے بعد ان سے ملنے کی سعادت حاصل نہ ہوگی اور ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو ان کے انتقال کی خبر ملے گی--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی گراں قدر خدمات کو قبول فرمائے‘ جو چراغ انھوں نے روشن کیے ہیں وہ تادیر روشن رہیں۔ ان کی کتب‘ ان کے خطبات‘ ان کے تیار کردہ انسان‘ اُس مشن کے فروغ کا ذریعہ بنیں جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مدارج میں جگہ دے اور ان کو اپنے مقرب بندوں کی معیت عطا فرمائے اور اس اُمت پر اپنا کرم جاری رکھے اور جو جگہ خالی ہوئی ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے۔ ان کے اُٹھ جانے سے اپنی محرومی کا احساس کچھ اور بھی شدید ہوگیا ہے ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
مولانا گوہر رحمن کا غم ابھی دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے ایک اولیں خادم اور مثالی کارکن مولانا مصاحب علی کے انتقال (۱۷ اپریل ۲۰۰۳ئ) کی خبر نے غم و الم کو اور بھی گراں بار کر دیا۔ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن میں نے تو ان کو اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک کے سرگرم قائدین کی صف میں دیکھا ہے اور جماعت کے اولیں دور کا سراپا ان کے اور ان جیسے تحریکی رہبروں کی زندگی میں دیکھا ہے۔ اپنے جمعیت کے زمانے میں‘ نواب شاہ میں‘ مجھے ان سے ملنے اور ان کی شفقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پھر ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کا سب سے اہم حاصل ان کی دعوتی تڑپ اور اصلاحِ احوال کا شوق تھا۔ تحریک سے وفاداری‘ کام کی لگن‘ بے لوث تنقید اور محاسبہ‘ جرأتِ اظہار---کس کس بات کا انسان ذکر کرے۔ ایک طرف ذاتی شفقت اور محبت اور دوسری طرف بڑے سے بڑے انسان پر بھرپور تنقید اور احتساب۔ ان کا خلوص‘ ان کی یکسوئی‘ ان کی اصابت ِرائے‘ ہر ایک کا نقش دل پر مرتسم ہے۔
مولانا مصاحب علی مرحوم ہمارے لیے ایک مثالی کارکن اور ان لوگوں کا ایک نمونہ تھے جن کو سید مودودی کی انقلابی ؒتحریک نے سب سے پہلے متاثر کیا اور جو اس کا ہراول دستہ بنے۔ ان کی زندگی میں دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے دین‘ دعوت اور تحریک کے لیے اپنے اللہ سے عہد کر کے اپنے کو وقف کر دیا‘ اور پھر آخری لمحے تک انھوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج (الاحزاب ۳۳:۲۳)
مولانا مصاحب علی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے جو سب کچھ لٹا کر سندھ آئے لیکن تبادلے میں حاصل کی جا سکنے والی جایداد تک کے بارے میں ‘ جو ان کا حق تھا‘کسی کوشش اور تگ و دو سے مجتنب رہے۔ استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جماعت اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ دعوت ان کی زندگی تھی اور قناعت ان کا شعار۔ اولاد کو بھی اسی راستے کی تعلیم دی اور عزیزی عبدالملک مجاہد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے اور آج کل امریکہ میں سمعی و بصری ادارے سائونڈ وژن کے ذریعے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی اولاد بھی الحمدللہ دین اور تحریک کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا مصاحب علی نے احیاے دین کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا اور دنیا سے حتیٰ کہ تحریک سے کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ ان کی سوچ‘ ان کی تگ و دو‘ ان کے اضطراب اور احتساب‘ غرض ہرایک کا محور بس یہی تھا کہ جس چیز کو زندگی کا مشن بنایا ہے اس کے حصول کے لیے سب کچھ تج دیں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
مولانامصاحب علی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب تھے۔ ایک مدت سے صاحب ِ فراش تھے۔ آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کے گھر پر پچھلے سال ہوئی۔ زبان بند تھی۔ بار بار بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مگر جب ہوش آیا اور پہچانا تو بے حد خوش ہوئے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے ہاتھ سے اشاروں کو بھول نہیں سکتا۔ شفقت کا یہ عالم کہ اس عالم میں بھی بچوں کو تواضع کی ہدایات دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے‘ ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس سے نوازے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سوال: کیا عورت جج (قاضی) بن سکتی ہے جس کے لیے آج کل judiciary کا امتحان دیا جاتا ہے؟ میں نے قاضی کی شرائط میں پڑھا تھا کہ مرد ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر یہ جج صرف فیملی کیسز سے متعلق ہو تو اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہوگی؟
جواب: اسلام کے حوالے سے عصری مباحث میں زیربحث مسئلے پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے اور خصوصاً غیرمسلم اپنی تنقید میں اس طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں۔ مسلمان دانش ور بعض اوقات اپنے خیال میں اسلام کا دفاع کرنے کے لیے اور نام نہاد انسانی حقوق کے علم برداروں کے مسلسل حملوں کو پسپا کرنے کے لیے محض عقلی بنیاد پر ایک موقف اختیار کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عقل بلکہ قرآن و سنت کا مدعا و مزاج اور ہدایات کے پیشِ نظرایک رائے قائم کی جائے‘ چاہے وہ حقوقِ انسانی کے نام نہاد علم برداروں کو پسند آئے یا سخت ناپسند ہو۔
اگر معروف فقہی مذاہب پر نظر ڈالی جائے تو صاحب ہدایہ نے قاضی یا جج کے لیے جو شرائط مقرر کی ہیں اور جو فقہ حنفی کی عمومی رائے کہی جا سکتی ہے ‘ اس میں سات شرائط پائی جاتی ہیں: ۱- مسلمان ہونا‘ ۲- مکلف ہونا‘ ۳- آزاد ہونا‘ ۴- صاحب ِ عقل و بینا ہونا‘ ۵- کبھی حدِ قذف نہ لگی ہو‘ ۶- سماعت درست ہو‘ ۷- گونگا نہ ہو۔ ان صفات میں اس کا مرد ہونا اور مجتہد ہونا شامل نہیں ہے (البحرالرائق‘ ج ۶‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)۔ اس کے مقابلے میں فقہ مالکی میں مرد ہونا بھی شرائط میں شامل کیا گیا ہے (الشرح الصغیر‘ ج ۴‘ ص ۱۸۷-۱۸۸)۔ فقہ حنبلی میں مرد ہونا ضروری سمجھا گیا ہے لیکن امام ابن جریر طبری سے منقول ہے کہ مرد ہونا شرط نہیں۔ فقہ شافعی بھی مرد ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے (المنہاج‘ ج۴‘ ص ۳۷۵-۳۷۷)۔ البتہ فقہ حنفی میں حدود اور قصاص کے مقدمات کی سماعت ایک خاتون جج نہیں کرسکتی۔ (ہدایہ‘ ج۳‘ ص ۱۲۵)
جومذاہب عورت کو قاضی تصور کرنے کے حق میں نہیں ہیں ان کی بنیاد ایرانیوں کے ایک عورت کو فرمانروا بنانے اور اس پر حضور نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر ہے کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کر دے‘ یا اس پہلو پر ہے کہ وہ مردوں کی محفل میں دقت میں پڑے گی اور مشکلات کا شکار ہوگی۔ چونکہ ہمارے ہاں اکثریت کا مسلک حنفی ہے اس لیے قصاص و دیت کو چھوڑتے ہوئے بقیہ معاملات ایک خاتون جج کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: سعودی عرب کے فتاویٰ شائع شدہ فتاویٰ براے خواتین (جمع و ترتیب محمد بن عبدالعزیز‘ دارالاسلام مطبوعات) میں پڑھا کہ عورت کے لیے گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ جس کی وجہ انھوں نے ان امکانات سے بھی بچنا قرار دیا جن سے حدود کو نقصان پہنچ سکتا ہو‘ یعنی خلوت اور گھر کی چار دیواری کے تصور کو مجروح کرنا۔ موجودہ حالات اور ضروریات کے پیشِ نظر اس کی کیا حیثیت ہوگی‘ جب کہ پردہ (شرعی) کیا جائے؟
ج : آپ نے سعودی حکومت کے زیرانتظام دارالافتاء کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ خواتین کے تحفظ و احترام کے پیش نظر ان کی رائے میں گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ بلاشبہہ دین کی تعلیمات اہل ایمان کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے ہیں اور بہت سے معاملات میں مصلحتِ عامہ کے پیش نظر ایک ایسا کام بھی جائز ہو جاتا ہے جو عام حالات میں جائز نہ ہو‘ یا اسی طرح بعض جائز امور ممنوع قرار پاتے ہیں لیکن حلّت و حرمت کی بنیاد حکمت پر نہیں‘ علت پر ہوتی ہے اور نصوص ہی کی بنیاد پر ایک فعل کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔
خواتین کے گاڑی چلانے کو اگر گھڑسواری یا اُونٹ کی سواری پر قیاس کیا جائے تو ہمیں آثار میں یہ تلاش کرنا پڑے گا کہ کیا قرآن وسنت نے کسی مقام پر ایک مسلمان عورت کو تنہا گھوڑے یا اُونٹ پر سواری کرنے سے منع کیا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا گاڑی چلانے میں ایک خاتون ڈرائیور کی جان‘ عزت‘ ملکیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یا گاڑی چلانا اس کے لیے بہت سے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کاروبار کی بنا پر گھر سے دُور رہتا ہو‘ اور اس کے گھر میں سوائے بیوی اور بچوں کے‘ جو کم عمر ہوں کوئی اور نہ ہو اور بچوں میں سے کسی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو یا انھیںاسکول سے لانا ہو تو کیا کار چلانا مقاصدِ شریعت کے منافی ہوگا؟
شریعت کا ایک معروف قاعدہ یہ ہے کہ اصلاً اشیا مباح ہیں جب تک‘ اس کی ممانعت نہ ہو۔ اس بنا پر گاڑی چلانا یااس میں سفر کرنا ناجائز کی تعریف میں نہیں آسکتا۔ اگر قیاس کو تھوڑا اور آگے بڑھایا جائے ‘ فرض کیجیے ہمارے علم میں یہ بات آئے کہ پشاور سے لاہور جاتے وقت ایک مرد کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسے رات سخت سردی کے عالم میں ٹھٹھرکر گزارنی پڑی جس کی وجہ سے اسے نمونیہ ہوگیا اور وہ انتقال کر گیا۔ اب یہ کہا جائے کہ اس بنیاد پر آیندہ کسی مرد کو پشاور سے لاہور گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے تو یہ ایک انتہائی مبالغہ آمیز فیصلہ ہوگا۔ آج‘ جب کہ کار میں دو طرفہ بات کرنے کے لیے ایسا سسٹم لگوایا جا سکتا ہے جس میں گاڑی چلاتے ہوئے ایک فرد اپنے گھر یا جس سے چاہے رابطہ رکھ سکتا ہے‘ جب سڑکوں پر ہر تھوڑے فاصلے کے بعد ہنگامی امدادی مراکز پائے جاتے ہیں اور جب عموماً ایک خاتون جنگل بیاباں میں نہیں‘ شہر میں تفریحاً نہیں ضرورتاً گاڑی استعمال کرے تو اس میں شریعت کے کون سے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
رہا معاملہ چار دیواری کے تصور کا‘ تو کیا تعلیم و تجارت اور دیگر ضروریات کے لیے ایک خاتون پر گھر سے نکلنے پر شریعت نے کوئی بندش عائد کی ہے یا وہ ضوابط فراہم کیے ہیں جن کی پابندی کرتے ہوئے اس کا چلنا پھرنا‘ لباس پہننا‘ نگاہوں کو محفوظ رکھنا‘ غرض ہر اس پہلوپر جو معاشرتی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے ہدایات دے کر اس کے لیے گھر سے باہر جانے کے آداب متعین کر دیے ہیں۔ ان واضح تعلیمات کا مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے بلاکسی احساسِ گناہ کے گھر سے باہر جائے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ وہ وقت کابڑا حصہ بالاستمرار گھر سے باہر گزارے اور محض سونے کے لیے گھرآجائے۔ دین میں غلو کی جگہ توازن اور شفقت اور پریشانی کی جگہ آسانی شریعت کا منشا و مقصود ہے۔ توازن اور وسط کا طریقہ ہی ہمیں دین پر عمل کرنے کے لیے صحیح فضا فراہم کر سکتا ہے۔ (ا - ا)
س: ابرئوں کے بالوں کو اُتارنا اور باریک کرنا حرام ہے‘ جب کہ غیر فطری بالوں کی نسبت کچھ رعایت ملتی ہے‘ مثلاً مونچھوں کی جگہ پر یا رخساروں پر عورتوں کے بال آنا--- تو کیا ابرئوں کے درمیان‘ ناک کے اُوپر ملنے کی جگہ بھی غیر فطری شمار ہوگی؟
ج : احادیث میں واضح حکم آتا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ لیکن یہ حکم تمام بالوں کے بارے میں نہیں ہے۔ چنانچہ طہارت کے لیے جسم کے بعض حصوں کے بالوں کو صاف کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی شکل صورت اور جسم کو متوازن اور خوب صورت بنایا ہے۔ اگر کسی کی ابرئویں گھنی ہیں تو یہ اس کی خوب صورتی کا حصہ ہے۔ کسی کی بھنویں پیشانی کے وسط میں آکر مل جاتی ہیں اور کسی کی نہیں ملتیں تویہ اس کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اس کے خلاف کیا جائے تو فطری توازن اور صورت میں تبدیلی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
فرض کیا جائے کہ ایک خاتون کے گالوں اور لبوں کے اُوپربال اُگ آتے ہیں جن کی بنا پر اس کا شوہر اسے چھوڑنے پر غور شروع کر دیتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ بات خوش کرے گی کہ وہ طلاق قبول کر لے لیکن زائد بالوں کو صاف نہ کرے؟
جن معاملات میں قرآن و حدیث نے وضاحت کر دی ہے ان کی بغیر کسی تردد کے اطاعت لازمی ہے اور جن معاملات میں رخصت اور اجازت ہے ان میں قیاس کر کے مشکل بنانا‘ دین کی حکمت کے منافی ہے۔ اللہ کے کسی حکم یا رسولؐ اللہ کی کسی ہدایت کو ناپسند کرنا‘ ردّ کرنا یا اس کے خلاف کرنا دین سے بغاوت ہے۔ لیکن جہاں دین نے رخصت دی ہو وہاں شدت اختیار کرنا نہ تقویٰ ہے‘ نہ عزیمت۔ جائزکے دائرے میں رہتے ہوئے رشتہ ازدواج کو برقرار رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے کسی کام کا کرنا مقاصدِ شریعت سے مطابقت رکھتاہے۔ اس لیے بلاوجہ ایسے معاملات میں غلو سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ا - ا)
مشہور ہے کہ خود چور، ’’چور چور‘‘ کا شور مچا کر اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ آج حقوقِ انسانی کی محافظت کی علم بردار مغربی استعماری قوتیں ’’حقوقِ انسانی‘‘ کی خوش نما ترکیب کو استعمال کرکے معاشی اعتبار سے ترقی پذیر ممالک کے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ ایک طرف حقوقِ انسانی کا یہ نعرہ ہے اور دوسری جانب فلسطین‘ چیچنیا‘ مشرقی یورپ‘ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام‘ لیکن اس پر زبانیں گنگ۔
اکیسویں صدی کے استعمار نے اپنی سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی بالادستی کے لیے جہاں توپ و تفنگ‘ منڈی کی معیشت ‘ تعلیم گاہوں اور ذرائع ابلاغ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے‘ وہاں انھوں نے خاص طور پر مسلم ملکوں میں کرائے کے غدار فطرت دانش وروں کو اپنے مقاصد کے حصول کا آلۂ کار بھی بنایا ہے۔ یہ لوگ بالعموم این جی اوز کے لبادے میںکام کرتے ہیں (مستثنیات کے علاوہ)۔ ان این جی اوز کا کام کیا ہے؟ اپنے ملک‘ تہذیب‘ دین اور مفادات کے خلاف استعماری ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی تحریری اور پروپیگنڈا مہمات میں حصہ ادا کرنا۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے دو سب سے بڑے ملک ہیں۔ ان میں فکری انتشار کی حامل یہ تنظیمات ایک باقاعدہ ان دیکھی حکومت کی صورت میں اقتدار و اختیار پر شب خون مار رہی ہیں۔
پاکستان میں ایسی این جی اوز نے ملک‘ دین‘ تاریخ اور گھر کو ہدف بنانے کے لیے چومکھی یلغار کر رکھی ہے۔ انھیں پاکستانی ’’اتاترک‘‘ کے زمانے میں پالیسی سازی کے ایوانوں میں بڑی آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ کام انھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں کرلیا ہے۔ پاکستان میں ان تنظیمات میں ریڑھ کی ہڈی قادیانی گروہ کے افراد ہیں (جنھیں حکومت میں شامل طاقت ور افراد کی براہِ راست اعانت حاصل ہے) جن کے مددگاروں میں خاص طورپر عیسائی مشنری اور سابق نام نہاد کمیونسٹ شامل ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں ان تنظیموں کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے مختلف افراد نے اپنی مختصر یا مفصل تحریروں کے ذریعے نقاب اُلٹ دینے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر اخباری و مجلاتی اور کچھ تحقیقی مضامین کا یہ مجموعہ بڑی بڑی کہانیوں کی سرخیوں اور بنیادی معلومات تک قاری کو پہنچا دیتا ہے۔ محمدمتین خالد نے اس آکاس بیل کی نشان دہی کے لیے بکھری تحریروںکی تدوین کرکے یہ قابلِ قدر مجموعہ پیش کیا اور اس طرح ایک ملّی اور دینی خدمت انجام دی ہے‘ تاہم اس موضوع پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق و مطالعے اور تجزیے کی ضرورت باقی ہے۔ فاضل مرتب اگر اس کتاب کو دو مجموعوں میں تقسیم کر کے اس کا اشاریہ بنا دیتے تو افراد‘ تنظیمات اور موضوعات کی نشان دہی کے لیے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔
دینی‘ سیاسی ‘ انتظامی اور تدریسی رجالِ کار اس کتاب کی مدد سے قوم میں بیداری اور ہوش مندی کی ایک لہر اُٹھا سکتے ہیں‘ اگر وہ اسے پڑھیں اور اپنی غیرتِ دینی میں کوئی اُکساہٹ محسوس کریں تو۔ (سلیم منصور خالد)
ایک: ۱۹۵۳ء کے کاروباری سفر ایران و عراق اور کویت کا ذکر‘ دوسرے: تیرھویں ایشیائی کانفرنس براے پسماندگان‘‘ (ڈھاکہ ۱۹۹۷ئ) کے سفر کا تذکرہ۔
سفر ’’وسیلۂ ظفر‘‘تو عموماً ہوتا ہی ہے‘ ع س مسلم کے لیے سفرہمیشہ ’’چشم کشا‘‘ بھی رہا۔ چنانچہ ایک بابصیرت سیاح ‘قاری کو بھی اپنے مشاہدے میں یوں شامل کرتا ہے کہ وہ قاری کی انگلی پکڑ کر اسے ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور حسب موقع مشاہدات پر تبصرہ کرتا ہے اورکہیں کہیںصورتِ احوال کا تجزیہ بھی۔ ان تجزیوں میں مصنف کا ردعمل ہرچند کہ متوازن اور جچا تلا ہے‘ مگر قدرتی طور پر ایک پاکستانی مسلمان کا زاویۂ نظر غالب ہے۔ شاید اسی سبب سے (محض رودادِ سفر سے لطف اندوز ہونے والوں کے علاوہ) ایک سنجیدہ فکر قاری کو بھی اس کتاب میں کشش نظر آتی ہے۔
سفر ایران میں پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے کی بے حسی اور عدم توجہی‘ اس کے مقابلے میں بھارت کی کامیاب سفارت کاری‘ ایک ترک سفارت کار کی اہلیہ سے پاکستانی سفیر راجا غضنفرعلی خاں کی عشق بازی‘ ایران میں یہ عمومی تاثر کہ پاکستان انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے بنایا اور کویت کے ایک مفلوک الحال ہوٹل کا حال۔ بنگلہ دیش میں بہت سے دوستوں سے ملاقاتوں کے بعد‘ مصنف کا تاثر یہ ہے کہ ہندو ابھی تک بنگلہ دیش کے رگ و پے میں سرطان کی طرح پنجے گاڑے ہوئے ہے اور ہرچند کہ عوام کا شعور بیدار ہے‘ تاہم عوامی لیگ کے خواص اپنی ذہنی اور فکری آبیاری کے لیے سیکولرزم کے نام پر انھی کے گھاٹ سے سیراب ہوتے ہیں (ص ۱۵۹)۔ دوسری طرف (اُردو زبان پرانے رشتوں کی بحالی اور باہمی رابطوں کا ایک موثر ذریعہ بن سکتی ہے‘ مگر)پاکستانی حکومت کا یہ حال ہے کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اُردو شعبے اورطلبہ کے لیے نہ تعاون کی کوئی صورت ہے‘ نہ حوصلہ افزائی یا وظائف کی پیش کش اور نہ کسی اُردو چیئر یا اُردو پروفیسر کا انتظام۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے برعکس فارسی زبان کے فروغ کے لیے ایرانی سفارت خانے کا تحرک اور فراخ دلانہ امداد قابل ستایش ہے۔ ایرانی‘ یونی ورسٹی اساتذہ سے قریبی اور گہرے روابط رکھتے ہیںاور طلبہ کو کتابیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک عمارت تعمیر کر کے شعبۂ فارسی کو عطیہ کر دی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اب اکثر طلبہ فارسی میں زیادہ دل چسپی لینے لگے ہیں۔
یہ ایک پُرخلوص اور خالص سفرنامہ ہے--- ’’پُرخلوص‘‘ اس لیے کہ ملّی اور قومی جذبۂ اخلاص کے ساتھ لکھا گیا ہے اور ’’خالص‘‘ اس لیے کہ مصنف نے اسے رنگ آمیزی‘ مبالغے اور سفرنامے کو افسانہ بنانے سے اجتناب کیا ہے۔
ایک تو بذاتِ خود احوال و واقعات دل چسپ ہیں‘ دوسرے (بصورتِ تبصرہ و تجزیہ) مصنف کے تعمیری اور مثبت جذبات و احساسات‘ اور تیسرے ع س مسلم کا دل کش ادبی اور انشائی اسلوبِ تحریر--- ان دو تین چیزوں نے اسے ایک دل چسپ‘ بامعنی اور قابلِ مطالعہ رودادِ سفربنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
یہ انتخاب پہلی مرتبہ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں خصوصاً جماعت اسلامی کی رودادوں سے مولانا مودودیؒ کے خطبات اور ہدایات کو مدون کیا گیا ہے۔ کتاب کا موضوع خود وضاحت کرتا ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے کارکن کو مقصد‘ تنظیم اور عملی جدوجہد کے بارے میں ہدایات اور رہنمائی دی گئی ہے۔
’اشاعت ِنو‘ اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ ادارہ معارف اسلامی نے خصوصی اہتمام سے کتاب کے متن کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے‘ اصل ماخذ سے موازنہ کر کے یہ نسخہ تیار کیا ہے۔ اس طرح وہ بہت سی کمیاں اور کوتاہیاں دُور کر دی گئی ہیں‘ جو اس انتخاب کی اشاعت کے روز ہی سے اس کا حصہ بن چکی تھیں۔ کتاب میں آیات اور احادیث کے ترجمے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ کتاب میں چند مقامات پر جو لفظی تغیر یا اضافہ کرنا پڑا‘ اسے قلابین میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ بعض تحریروں کو اس مجموعے سے قلم زد کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ کتاب صحت و احتیاط کی ایک معیاری کوشش کے طور پر سامنے آئی ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں خود مولانا محترم اس حوالے سے دل گرفتہ تھے کہ ان کے کم و بیش تمام ناشرین‘ ان کی تحریروں کو شائع کرتے ہوئے نہایت بے احتیاطی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مجموعے کی یہ اشاعت خاصی احتیاط سے مرتب کی گئی ہے۔
’اشاعت ِنو‘ کی آیندہ طباعت کے وقت چند امورپر توجہ ضروری ہے: قرآن و حدیث کے متن کوکتاب کے عمومی اسلوب کے مطابق ہی پیش کیا جائے۔ یہ نہیں کہ کوئی لائن ایک ترتیب میں اور کوئی درمیان میں۔ احادیث نبویؐ کا حوالہ بھی درج کیا جائے۔ مولانا محترم اس کے اہتمام پر زور دیا کرتے تھے۔ ضمنی سرخیوں میں قلابین کا اہتمام غیرضروری ہے۔ یہ کتاب ایک طرح کی رہنما کتاب ہے اس لیے آخر میں اشاریہ ہونا چاہیے‘ تاکہ مستقبل میں مولانا کی کتب مرتب کرتے وقت یہ نمونہ ایک معیار قرار پائے۔ مزید یہ کہ اتنے رنگوں کے ہجوم سے پیدا شدہ کثافت سے سرورق کو پاک کیا جائے۔ سادگی کی خوب صورتی اور جاذبیت کو موقع دیا جائے۔ ادارہ اس پیش کش پر مبارک باد کا مستحق ہے‘ دیر آید درست آید۔ (س - م -خ )
معروف انگریزی رسالے اکانومسٹ کے ایڈیٹر نے اپنے ایک مضمون میں صلیب و ہلال کی طویل جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں باہمی تصادم سے بچنے کے لیے مغرب اور اسلام کو قریب تر لانے کی ضرورت ہے (۶ اگست‘ ۱۹۹۴ئ)۔ فاروقی صاحب نے محسوس کیا کہ اکانومسٹ کے اداریہ نویس بعض غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں‘ اُن کی معلومات بھی ادھوری اور نادرست ہیں اور اُن کے ہاں اسلام کا تصور بھی بہت محدود ہے۔ چنانچہ انھوں نے غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مدیر مذکورکو ایک خط لکھا اور پھر کئی خطوں کا تبادلہ ہوا۔ اب اس طویل مراسلت کو زیرنظر کتاب میں مرتب کیا گیا ہے۔ مصنف امریکی جیلوں کے قیدیوں سے بھی مراسلت رکھتے ہیں اور انھیں اسلامی لٹریچر فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے امریکی قیدیوں نے بھی یہ لٹریچر پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ زیرنظر کتاب میں اس سلسلے میں بھی کئی لوگوں کا تذکرہ شامل ہے۔
کتاب دل چسپ ہے۔ اس کے مباحث میں تنوع ہے۔ اہل مغرب کی غلط فہمیوں‘ غلطیوں اور غلط کاریوں کا تذکرہ ہے اورکچھ اُن کے تعصب اور اسلام کے خلاف دشمنیوں کا ذکر۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بذریعہ قلم و قرطاس‘ دعوت و تبلیغ کو ایک بامقصد مشغلے کے طور پر اپنایا جو بہت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔ (ر-ہ)
امریکہ‘ امریکہ‘ امریکہ--- ان دنوںہر طرف یہی ایک موضوع ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی کے چینلوں پر ماہرین‘ تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ نئے نئے نام سننے میں اور دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لیکن وقتی نوعیت کے ان تبصروں کے ریلے میں ایسی کتابیں شاذ ہی سامنے آئی ہیں جن پر نظر ٹھہر جائے اور غوروفکر کیا جائے۔ ۸۲ صفحے کی اس مختصرکتاب نے اپنے موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۴۱صفحات تک امریکہ جو کچھ ہے‘ اس کے پورے نظام‘ طریق کار اور سوچ کو معروضی طور پر پیش کیا گیا ہے اور بعد کے ۴۱ صفحات میں اُمت مسلمہ اور پاکستان ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے جو رویے رکھ سکتی ہے اس کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے ’’جذباتی نعروں‘ کھوکھلے دعووں‘ غلط الزامات اور فضول جنگوں‘‘ کے علی الرغم غیر جذباتی سات نکاتی راہِ عمل پیش کی ہے۔ آج ہماری حقیقی ضرورت فکری یکسوئی ہے‘ اس لیے کہ مولانا مودودیؒ کے بقول انتشار ذہنی عملی قوتوں پر گرنے والا فالج ہے۔ (مسلم سجاد)
دنیا میں سیرت النبیؐ سے زیادہ‘ شاید کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا۔ اس ہمہ گیر و ہمہ جہت‘ تحقیقی و علمی سلسلۂ کاوش کا ایک سبب یہ ہے کہ اہل اسلام کے لیے زندگی کے ہر میدان میں رہنما اصول سیرت پاکؐ ہی سے ملتے ہیں۔ عصرِحاضر میں یہ رجحان تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ دورِحاضر کے مسائل کے بارے میں سیرت مجتبیٰؐ سے رہنمائی کے لیے باقاعدہ تحقیقی مقالات و کتب مرتب کی جائیں۔ اس رجحان کے فروغ میں ایک بنیادی کردار وزارتِ مذہبی امور کی قومی سیرت کانفرنس کا ہے۔
یہ کتاب متذکرہ کانفرنس میں پیش کردہ مصنف کے چند تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سات مقالات اپنے موضوعات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ پہلا مقالہ سیرت طیبہؐ اور اس کے مطالعے کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے ہے۔ علاوہ ازیں ’’انسانی حقوق‘ تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں‘‘،’’عصرِحاضر کے مسائل کا حل سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ اور ’’لسانی و گروہی اختلافات کا خاتمہ‘ سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ بھی اپنی جگہ خوب ہیں۔ مقالات تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔ ترتیب ِکتاب کے وقت غالباً استفادۂ عام کی غرض سے تحقیقی رنگ نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح تحریر کے بھرپور تاثرمیں کسی قدر کمی کا احساس ہوتا ہے۔ بہرحال آیات و احادیث سے مزین یہ مختصر کتاب سیرت کے موضوع پر ایک اچھا اضافہ ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
یہ علامہ اقبالؒ کی ایک مختصر سوانح عمری ہے۔ اس میں علامہ اقبالؒ کے آباواجداد‘ان کے آبائی وطن کشمیر‘ ان کی پیدایش اور تصنیفات سے لے کر ان کی وفات تک کے حالات و واقعات کو گویا ’’دریاکو کوزے میںبند کر دیا ہے‘‘۔
داستانِ اقبال اقبال کی سابقہ سوانح عمریوں کا ایک طرح سے خلاصہ ہے۔ بعض جگہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی گئی‘ مثلاً ابتدائی تعلیم و تربیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اقبال ایک سال تک مولانا غلام حسن کے مدرسے میں زیرتعلیم رہے اور پھر تین سال تک سیدمیرحسن کے مدرسے میں پڑھے۔ اس کے بعد ۱۸۸۲ء میں اسکاچ مشن اسکول میں داخل ہوئے (ص ۲۵ تا ۲۸)‘ تو کیا اقبال نے محض ایک سال کی عمر میں مولوی غلام حسن کے مدرسے میں پڑھنا شروع کر دیا؟ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو پانچ بج کر ۱۴ منٹ پر صبح کی اذانوں کی گونج میں اپنی جان خدا کے سپرد کی‘‘ حالانکہ ۲۱ اپریل کو یہ وقت طلوعِ آفتاب سے قریب ہوتا ہے اور صبح کی اذان تو تقریباً ساڑھے چار بجے ہوتی ہے۔ اسی طرح میٹرک میں اقبال کے حاصل کردہ ۴۲۴ نمبروں کا ذکر ہے (ص۳۱)۔ مگر کل نمبر کتنے تھے؟ پتا نہیں چلتا (یہ ۸۵۰ تھے)۔ گویا اقبال کے حاصل کردہ نمبر‘ ۵۰ فی صد سے بھی (ایک نمبر) کم ہیں۔
ان فروگزاشتوں کے باوجود‘ اقبال پر یہ ایک مفید تعارفی کتاب ہے۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے بجا طور پر مصنفہ کی ’’زبان و بیان کی سادگی اور صفاتی‘‘ کو سراہا اور توقع ظاہر کی ہے کہ یہ نوجوانوں کے لیے شوق انگیز ثابت ہوگی۔ (محمد قاسم انیس)
نائن الیون کے واقعے نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا ہے وہاں عالم اسلام کے لیے اِبتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ کئی اہل قلم نے ان حالات کا تجزیہ کیا ہے اور آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ زیرنظر کتاب ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ مصنف نے مختلف شواہد کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بڑے واقعے میں صہیونی دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ڈینیل پرل کیس کا بھی تجزیہ اور صہیونی عزائم کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاک بھارت جنگ ہو کر رہے گی۔ اُمت مسلمہ کو جو خطرات لاحق ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے فاضل مصنف نے ملاعمر اور اسامہ بن لادن سمیت بہت سے مجاہدین کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ لوگ ایک بین الاقوامی سازش میں شامل ہیں۔ یہ بات محل نظر ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں ہر بڑی تبدیلی کے پس پردہ عالمی یہودی تنظیموں کا نادیدہ ہاتھ اب راز نہیں رہا۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
’’بحالی جمہوریت…‘‘ (اپریل ۲۰۰۳ئ) میں ایل ایف او کے اسرار و رموز سمجھانے کے لیے ایک ایسا عام فہم مطالعہ پیش کیا گیا ہے جس سے آگہی پیدا ہوگی اور متحدہ مجلس عمل کے موقف کو ٹھوس بنیادوں پر پیش کیا جاسکے گا۔
’’علامہ اقبالؒ اور تجدید و احیاے دین‘‘ (اپریل ۲۰۰۳ئ) بہت موثر مضمون ہے۔ تجدید و احیاے دین کے حوالے سے اقبال کی فکر اور مساعی سے آگہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللّٰہ صدیقی ‘ سعودی عرب
عراق تو ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوا ۔جو اپنا حال خود بدلنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہو‘ وہ دوسرے کے تصرف پر ماتم ہی کر سکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ ہم اس بدحالی سے کب نکلتے ہیں!
عراق کے حوالے سے امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ وہاں جمہوریت لائے گا اور اس سے ایسی لہر چلے گی کہ پورے عالمِ عرب میں جمہوریت آجائے گی۔ اگر عرب ممالک میں واقعی جمہوریت آئی تو ہرجگہ امریکہ دشمن حکومتیں برسرِاقتدار آجائیں گی۔ کیا امریکہ اس کے لیے تیار ہے؟ امریکہ جمہوریت سے مخلص ہے تو صرف اتنا کرم کرے کہ آمروں کی سرپرستی اور پشتیبانی ختم کر دے۔ آمر خود ہی راہِ راست پر آجائیں گے اور عوام کی مرضی بالادست ہو جائے گی۔
بڑی بات ہو رہی ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹکنالوجی پر توجہ دیں۔ لیکن شاید ہم اس طرح امریکہ پر برتری حاصل نہ کر سکیں۔ اپنے حکمران بدل دیں جو سودا نہ کریں‘ یہ بھی آسان نہں لگتا۔ یہ کوشش بھی کریں‘ لیکن ساتھ ساتھ بھرپور توجہ امریکہ بلکہ مغرب کے سلیم الفطرت عوام اور (حکمرانوں کو بھی) منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید منگولوں کی تاریخ دہرائی جاسکے۔ اس کے لیے بڑا وسیع میدان ہے لیکن معلوم نہیں کیوں اس پر عملی پیش رفت تقاضے کے مطابق نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ اس موضوع پر کسی ایک سیمی نار کی خبر بھی نہ پڑھی۔ اللہ کا کام اللہ پر ہی چھوڑنے کی پالیسی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹرحمیداللہ مرحوم نے لاہور میں (۳۰ اپریل ۱۹۹۲ئ) ’’سیرتِ طیبہؐ کا پیغام عصرِحاضر کے نام‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس پیغام کا لب ِ لباب ان کے الفاظ میں یہ تھا: کام‘ کام اور کام۔ مشکل حالات میں استقامت کا ثبوت دیناہے‘ مایوس نہیں ہونا ہے‘ گھبراکر بیٹھ نہیں جانا ہے‘ کام کیے جانا ہے! یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آج ہی کے لیے ہو۔
ترجمان کا ہر تازہ شمارہ آپ کی یاد دلاتا ہے۔ اس کے پرمغز اداریے خاصے کی چیز ہوتے ہیں۔ شذرات کا سلسلہ اچھا اضافہ ہے۔ اس سے کئی اہم موضوعات پر ادارے کے نقطۂ نظرسے آگاہی ہوجاتی ہے۔ آج کی اس کیفیت میں مسلم دنیا کی اجتماعی دانش کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے۔ چوٹی کے مسلم اہل نظر پر مشتمل کوئی ایسا فورم تشکیل دیا جانا چاہیے جہاں سے صرف مسلمانوں ہی کی نہیں‘ پوری انسانی برادری کی اللہ کے پیغام کی روشنی میں رہنمائی کی جائے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا مسکت جواب بھی دیا جائے اور انسانیت کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو ان کے صحیح رنگ اور دعوتی انداز میں پورے اہتمام کے ساتھ پیش بھی کیا جائے ۔ اس ادارے کو اپنی داخلی قوت کی بنا پر خود بخود پوری دنیا میں نمایندہ حیثیت حاصل ہو جائے گی‘ اور اس کے موقف کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ عالمی ذرائع ابلاغ اسے وزن دینے پر مجبور ہوں گے۔ اس طرح مسلمانوں کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اسلام کی ترجمانی کا بھی ایک عالمی اجتماعی نظام وجود میں آجائے گا۔ مغرب کی اصطلاح میں بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ عالمِ اسلام کے ایک نمایندہ تھنک ٹینک (مجلس دانش) کے قیام کی تجویز ہے۔یہ کام مسلم حکمرانوں کے بس کا نہیں‘ اسے مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں کو انجام دینا چاہیے۔
فکریں ہر طرف سے سمٹ کر اس سوال پر مرکوز ہوگئی ہیںکہ ادیانِ باطلہ کی گرفت جس نے پوری زندگی کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے کیسے ہٹائی جائے‘ عبدیت کو اللہ کے لیے خالص کر دینے میں جو مزاحمتیں حائل ہیں انھیں کیسے دُور کیا جائے‘ اور دین حق کو زمین پر اور خود اپنی حیاتِ دنیا کے تمام شعبوں پر کس طرح قائم کیا جائے؟… کچھ لوگ حیران ہیں کہ اتنا بڑا مقصد اتنی شدید مزاحمتوں کے علی الرغم کیسے حاصل ہوگا؟ کچھ لوگ مزاحم طاقتوں میں سے کسی ایک طاقت سے… فوراً ٹکرا جانا چاہتے ہیں… کچھ لوگ بیچ کے تمام مراحل کو بیک جنبش خیال پھلانگ جاتے ہیں اور بالکل آخری مرحلے میں جو کچھ ہونا چاہیے ‘ اس کی تیاری ابھی سے کر ڈالنا چاہتے ہیں… کچھ لوگ مرحلۂ اوّل سے لے کر آخری مرحلے تک پورا پروگرام مفصل ٹائم ٹیبل کے ساتھ مانگتے ہیں تاکہ انھیں ٹھیک وہ تاریخ معلوم ہوجائے جب خلیفۂ راشد کا انتخاب ہوگا… کچھ لوگ کتابی دنیا میں مقیم ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نقشے انھوں نے صفحۂ قرطاس پر کہیں دیکھے ہیں وہی عالمِ آب و گل میں ہوبہو نظر آجائیں… کچھ اور لوگ ہیں جو بار بار کہتے اور سوچتے ہیں کہ ’’کچھ ہونا چاہیے‘‘مگر خود نہیں جانتے کہ کیا ہونا چاہیے…
عملی قوتوں کے لیے ذہنی انتشار سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہے۔ مگر اس کا صحیح علاج یہ نہیں ہے کہ لوگ سوچنا چھوڑ دیں اور بس کسی کے احکام کی تعمیل کرنے لگیں۔ اس طرح کا عمل انسانوں کا نہیں‘ حیوانوں کا خاصہ ہے اور وہ شخص خود اپنے نصب العین کے ساتھ دشمنی کرتا ہے جو افراد کو عملِ بلافکر اور اطاعت ِ بلافہم کی مشق کراتا ہے۔ انتشارِ ذہنی کے سبب سے عملی قوتوں پر جو فالج گرا ہو اس کا اصلی علاج یہ ہے کہ بروقت صحیح فکری رہنمائی کی جائے تاکہ دماغ غلط راہوں پر سوچنے کے بجاے صحیح راہ پر سوچنے لگیں اور پوری طرح یکسو ہو کر اس طرز پر کام کرنے کا فیصلہ کرلیں جس کے صحیح ہونے کا انھیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۲‘ عدد ۵‘ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۲ھ‘ مئی ۱۹۴۳ئ‘ ص ۱۳۱-۱۳۲)