بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جنرل پرویز مشرف امریکہ اور تین یورپی ممالک کے دورے پر ایک نرالی شان سے روانہ ہوئے۔ داخلی طور پر انھوں نے بیک وقت دو محاذِ جنگ گرم کیے اور پے بہ پے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ کے ذریعے ایک طرف اس جمہوری عمل کو تابڑ توڑ حملوں سے نوازا جس کا خالق ہونے کا وہ خود ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کبھی اس کے ارکان کو ’’غیرمہذب‘‘کے خطاب سے نوازا اور کبھی اس پر فوج کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنی مجوزہ قومی سلامتی کونسل اور وردی کی ضرورت کو پوری شان تحکم کے ساتھ بیان فرمایا۔ مرکز اور صوبوں کے دستور پر مبنی معاہدہ باہمی (contractual relationship) کو مجروح کیا‘ ضلعی قیادت کے نظام کو مرکز میں اپنے اقتدار کی تائید کے لیے استعمال کیا اور پھر بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی کو جو انٹرویو دیا اس کے مطابق: انتخابات کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جو شکل سامنے آئی ہے‘ اس پر انھوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ملک ایک برسرِکار جمہوریت لانے میں ناکام رہا ہے۔ خود اپنے ریفرنڈم کے بارے میں جنرل صاحب نے کہا کہ یہ ایک غلطی تھا۔ (نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۴ جون ۲۰۰۳ئ)
جنرل صاحب نے دوسرا محاذ صوبہ سرحد میں شریعت بل کی منظوری کو ہدف بناکر بظاہر ایم ایم اے کے لیکن دراصل اسلام اور اس کے نظام قانون و تہذیب و تمدن کے خلاف کھولا ہے اور اس کے لیے صوبہ سرحد میں لائی جانے والی اصلاحات کو ’’طالبانائزیشن‘‘ (Talibanization) کا نام دے کر صوبے کی حکومت اور اسمبلی تک کی بساط لپیٹ دینے کی دھمکی دی ہے۔
ان دو داخلی محاذوں کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی انھوں نے ضروری سمجھا کہ چند ایسے واضح اشارے دے دیں جن میں ان کے مستقبل کے عزائم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اشاروں کو ایک خاص معنویت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ ان کا اظہار قوم کو ان حادثات کے لیے تیار کرنا ہے جن کے لیے کیمپ ڈیوڈ کی محفل سجائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ صدر جارج بش نے جنرل صاحب کو کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی آرام گاہ میں دن گزاری کی جو دعوت دی ہے اسے ان کے حواری ایک سفارتی اعزاز قرار دے رہے ہیں مگر اہل نظر اس میں بڑے خطرات دیکھ رہے ہیں--- ویسے ہی خطرات جن میں آج عالم عرب اور خصوصیت سے اہل فلسطین گھرے ہوئے ہیں اور جن کا آغاز ۱۹۷۸ء میں انورالسادات اور یاسرعرفات کی کیمپ ڈیوڈ میں شرف بازیابی سے ہوا تھا۔ انورالسادات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سزا ان کی اپنی قوم نے دی اور یاسرعرفات آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں کہ کل کا کیمپ ڈیوڈ کا یہ مہمان آج اس لائق بھی نہیں کہ اس کا منہ بھی دیکھا جائے۔
جنرل پرویز مشرف کے بیانات میں جن اشاروں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے وہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی‘ کشمیر کے ایک اصولی حل سے ہٹ کر دس بارہ حل کی بات‘ عراق میں امریکی افواج کے منہ پر جو کالک ملی جا رہی ہے اس میں پاکستان کے حصے کی تلاش‘ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کے خلاف محاذ آرائی اور اس اہم سفر میں وزیرخارجہ کی جگہ ان وزیرخزانہ کی ہم سفری جو کہوٹہ کی حساس تنصیبات کا تازہ تازہ معائنہ کر کے جا رہے ہیں اور باخبر حلقوں کے بقول پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کا رشتہ امریکہ کی جوہری توانائی کی حکمت عملی کی چھتری سے جوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اس طرح جناب شریف الدین پیرزادہ کا ہم سفر ہونا بھی بڑا معنی خیز ہے کہ وہ ایل ایف او کے مصنف اور ہرفوجی حکمران کے مشیر اور اس کے لیے سندجواز فراہم کرنے کے ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔
داخلی اور خارجی محاذ پر فوج کے خود مقرر کردہ (self-appointed) سربراہ کی‘ جو صدر مملکت ہونے کا بھی مدعی ہے‘ یہ ترک تازیاں بڑی چشم کشا اور ایک خطرناک صورت حال کی غماز ہیں۔ اس لیے اصل مسائل کے بارے میں کلام کرنے سے پہلے ہم اس اصولی بات کو پوری وضاحت اور قوت سے قوم اور دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کو یہ اختیار نہیں کہ قوم اور اس کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے بغیر ایسے اہم امور پر کوئی من مانا موقف اختیار کرے۔
جنرل صاحب بڑے شوق سے ان ممالک کا دورہ کریں لیکن انھیں پاکستانی قوم اور اسلامی مملکت پاکستان کی طرف سے ان معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کی منظوری کے بغیر کسی معاہدے اور پالیسی کی تبدیلی کے اقرار و اعلان کا حق نہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی ایک فرد اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق پوری قوم کو پابند کرنے کا اختیار نہیںرکھتا۔ جنرل صاحب کو دستور اور قانون کے اعتبار سے اقتدار کا کوئی جواز (legitimacy) حاصل نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے نامزد کردہ صدر ہیں بلکہ چیف آف اسٹاف کی توسیع بھی خود ہی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے دستور میں صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائے۔ دستوری ڈھانچے میں تو وہ کابینہ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ایل ایف او‘ جو خود متنازع ہے‘ اور زیادہ سے زیادہ ایک دستوری تجویز ہے‘ وہ دستور کا حصہ نہیں‘ اس کے تحت بھی داخلی اور خارجی پالیسی کے ان بنیادی امور اور ان کے بارے میں پالیسی فیصلے (policy decisions) اور معاہدے کرنے کا اختیار کابینہ کو حاصل ہے‘ صدر کو نہیں۔
یہاں پر دستور میں پائے جانے والے اس سقم کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ ایسے اہم معاملات کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق کی کوئی شرط نہیں حالانکہ دنیا کے بیشترممالک میں پالیسی سازی کا آخری اختیار اور بین الاقوامی معاہدات کی توثیق کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے جو کھلی بحث کے بعد یہ ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے مسائل اور مشکلات کی ایک بنیادی وجہ یہی فردِواحد کی حکمرانی کا اسلوب ہے جسے اب ختم ہونا چاہیے ورنہ یہاں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں پر بظاہر وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی دبے الفاظ میں مضطرب نظرآتے ہیں مگر کھل کر عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور خود اپنے صحیح مقام کے حصول کی کوئی کوشش کرتے نظرنہیں آتے۔ کشمیرپالیسی کے دس بارہ حل‘ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پرنظرثانی اور نیوکلیر صلاحیت کے بارے میں نئی سوچ کے بارے میں کیے جانے والے سوالوں کے جواب میں دی نیشن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دل کی بات اس طرح ان کی زبان پر آجاتی ہے کہ:
اللہ تعالیٰ معاف کرے‘ ایسے فیصلے کرنے والا ظفراللہ جمالی آخری شخص ہوگا۔ کسی بھی حکومت کو ایسے ایشوز پر پوری قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (نواے وقت‘ ۱۸ جون ۲۰۰۳ئ)
اس لیے ہم سب سے پہلے جس بات کا برملا اظہار ضروری سمجھتے ہیں وہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوتوں سے قول و قرار کے بارے میں صحیح طریق کار کے بارے میں حتمی فیصلہ ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اولیں اہمیت اس امر کو دینی چاہیے اور اس بارے میں ایک پروٹوکول پر فوری طور پر اتفاق رائے ضروری ہے جسے پہلی فرصت میں دستور کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس طرح ہر حکمران ایک ضابطے کا پابند ہوگا اور قوم اور پارلیمنٹ ہر اہم فیصلے کی ذمہ دار ہوسکے گی۔
اسلام کی درست تعبیر
جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں وکلا کے نام نہاد کنونشن میں‘ پھر کوہاٹ میں پاک جاپان دوستی سرنگ کے افتتاح کے موقع پر‘ اس کے بعد بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اور لندن میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسے وہ ’’اسلامی انتہاپسندی‘‘ اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں‘ خصوصیت سے نشانہ بنایا ہے۔ داڑھی‘ شلوارقمیض‘ حجاب‘ عورت کی اشتہاری نمایش پر گرفت وغیرہ پر بڑے سطحی اور تلخ انداز میں تنقید بلکہ تضحیک کی ہے۔ اس پر ’’دقیانوسی اسلام‘‘ کا فتویٰ لگایا ہے اور بزعم خود لبرل‘ ترقی پسند‘ روشن خیال اسلام کی باتیں کی ہیں اور وہی گھسی پٹی بات کہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم تھیوکریسی کے مخالف تھے اور پروگریسو اسلام قائم کرنا چاہتے تھے۔ صوبہ سرحد میں شریعت بل کے کتابِ قانون کا حصہ بننے پر اپنی برافروختگی کے اظہار میں یہاں تک فرما گئے ہیں کہ اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو وہ اسمبلی توڑنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب کے ان ہی ارشادات کا آج ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
پہلی بات جنرل صاحب اور ان کے فکری ہم سفروں اور موید قلم کاروں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے یہ ارشادات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے مغربی استعمار نے مسلم دنیا پر تسلط حاصل کیا ہے‘ ایک طبقہ اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندی کے زعم میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اسے مغرب کے حلقوں میں جو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اُمت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے اس لبرلزم اور روشن خیالی کو مغرب کی کورانہ تقلید اور استعماری آقائوں کی چاکری قرار دیا ہے۔ اس طرزِفکر کو کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ایک نہایت مختصر اقلیت کی سوچ تو رہی ہے لیکن اُمت نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ جس اقبال کا جنرل صاحب بار بار ذکر کرتے ہیں اس نے اس طرزِفکر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور جن قائداعظم کے اسلام کی وہ بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تمام تر مغربی تعلیم اور قانونی مہارت کے باوجود اسلام کے بارے میں وہی نقطۂ نظر رکھتے تھے جس پر اُمت کا اجماع ہے اور جس کا اساسی اصول یہ ہے کہ اسلام محض ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے‘ جس میں اصول واقدار اور بنیادی ادارات سے لے کر شکل و شباہت‘ رہن سہن‘ لباس اور خوراک‘ ہر پہلو کے لیے ہدایت اور ضابطے ہیں۔ دین و دنیا کی وحدت اور سیاست اور مذہب کی یک رنگی اس کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسلام نہ ملّا کا ہے اور نہ طالبان کا‘ نہ کسی مسٹر کی اختراع ہے اور نہ کسی جرنیل کی--- اسلام اللہ کا دین ہے جو قرآن پاک کی شکل میں محفوظ اور متعین ہے اور جس کا ماڈل صرف ایک ذاتِ پاک ہے یعنی اللہ کے برگزیدہ نبی اور ہمارے حقیقی قائد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اور قرآن و سنت ہی ہر دور اور ہر علاقے کے لیے اسلام کا اصل ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ اسلام کی اپنی حکمت انقلاب ہے لیکن جس چیز کو قرآن و سنت نے طے کر دیا وہ حتمی ہے اور اس میں تراش خراش کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔
طالبان کی بات تو ہم بعد میں کریں گے لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ اسلام وہی معتبر ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام اور اس کا نمونہ ہے--- وہ نہیں جو بش کو پسند ہو یا جسے مغرب کے سیاست دان یا دانش ور پروگریسو اور لبرل قرار دیں۔ آج امریکہ کا اصل ہدف ہی قرآن وسنت کا اسلام ہے جسے کبھی ’’فرسودہ مذہب‘‘ کہا جاتا ہے‘ کبھی ’’جہادی دین‘‘ کہہ کر اسے انتہاپسندی قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل اس پر لگایا جاتا ہے اور کبھی ’’طالبان کا اسلام‘‘ یا ’’ملّا کا اسلام‘‘ کہہ کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔ یہ سب مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے حربے ہیں۔ اسلام ایک ہے اور ہمارا ماڈل نہ طالبان ہیں‘ نہ ایران ہے‘ نہ سعودی عرب اور نہ سوڈان کا اسلام۔ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ء ہدایت قرآن و سنت ہیں۔ جہاں تک طالبان‘ ایران‘ سعودی عرب‘ سوڈان یا باقی مسلم دنیا کے ممالک اور تحریکات قرآن و سنت کے مطابق عمل پیرا ہیں وہ معتبر ہے اور جہاں وہ اس سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اصلاح طلب ہے اور ہمارا مطلوب و مقصود نہیں۔ البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ہمارا اور اُمت مسلمہ کا مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی ہے۔ بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہونا اور ان سے داد و دہش کی طلب ہماری منزل نہیں۔ معیار صرف ایک ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا پسند کردہ طریقہ ہمارے لیے اسلام ہے:
تھیوکریسی کا اسلام میں کوئی وجود نہیں لیکن تھیوکریسی کا نام لے کر اسلامی نظامِ زندگی‘ اس کے قانون‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی احکام‘ معاشی ضابطوں‘ ثقافتی حدود و اہداف کو نظرانداز کرنا اور مذہب کو محض افراد کا ذاتی معاملہ قرار دینا اسلام سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت ہے۔ اور اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا سہارا لینا بدترین علمی بددیانتی ہے۔ انگریز دانش ور بیورلی نکلسن اپنی کتاب Verdict on India (مطبوعہ ۱۹۴۴ئ) میں قائداعظم سے تحریک پاکستان کے مقاصد اور مذہب اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنے انٹرویو کا حال یوں بیان کرتا ہے:
قائداعظم : آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظامِ حیات دیتا ہے۔میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ میں اپنی تاریخ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظامِ عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر ہندوئوں سے انقلابی طور پر نہ صرف مختلف ہے بلکہ بسااوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگیوں میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر‘ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مقصد وجود کے بارے میں قائداعظم نے صاف الفاظ میں کہا کہ: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ حیات ‘ اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔
اور انھی خیالات کا اظہار اور بھی شدت کے ساتھ قائداعظم نے میلادنبویؐ کے موقع پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کیا اور صاف الفاظ میں شریعت کا لفظ استعمال کرکے کیا کہ تیرہ سو سال پہلے انسانیت کو دیے جانے والے اصول اور قوانین آج بھی اتنے ہی قابلِ عمل اور آج کے انسان کے لیے ضروری ہیں جتنے تیرہ سو سال پہلے تھے۔
بات اسلام کی ہے ‘ کسی خاص گروہ یا طبقے کی خواہشات اور عادات کی نہیں۔ محض طالبان کا ہوّا دکھا کر شریعت اسلامی سے فرار کی کوئی کوشش بھی مقبول و محترم نہیں ہوسکتی۔ رہا معاملہ علامہ اقبال کا تو ان کا تو سارا فلسفہ‘ سارا شعری سرمایہ دین ودنیا کی وحدت اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے مطابق مسلمانوں کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھال دینے کے لیے وقف ہے۔ ترقی پسند اور لبرل اسلام کے داعیوں کے لیے ان کے پاس تنقید اور ترہیب کے سوا کچھ نہیں ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
وہ مغرب کی ذہنی‘ ثقافتی اور سیاسی ہر قسم کی غلامی سے بغاوت کی دعوت دیتے ہیں اور کس طنز سے فرماتے ہیں ؎
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
لبرل اسلام کے دعوے داروں سے اقبال کا خطاب کچھ اس طرح ہے ؎
ترا وجود سراپا تجلّی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرخاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو‘ زرنگار و بے شمشیر
لبرل اسلام کے داعی آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ نماز‘ روزہ اور داڑھی کی اجازت ہے۔ پھر یہ شریعت کے نفاذ کی بات چہ معنی ؟ لیکن دیکھیے اقبال نے کس طرح اس کا جواب دیا ہے ؎
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اقبال ہوں یا قائداعظم یا اُمت مسلمہ پاک و ہند--- انھوں نے کسی ایسے اسلام کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی جو بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جس چیز کو جنرل پرویز دقیانوسی اور ازکار رفتہ کہہ رہے ہیں وہ وہ ابدی اور لازوال ہدایت ہے جس کا سرچشمہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نمونہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں صرف وہی معتبر اور مقبول ہے۔ استعماری قوتوں نے اسلام کو ’’ریفارم‘‘ (reform)کرنے کا کھیل ماضی میں بھی کھیلا ہے اور آج بھی کھیل رہی ہیں اور ان کا آلہ کار بننے والے کل بھی ناکام و نامراد رہے اور ان شاء اللہ آج بھی رہیں گے۔
دوسری بات ہم طالبان کے حوالے سے بھی بہت صاف طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ طالبان کا افغانستان میں ظہور اور غلبہ خاص حالات کا رہین منت تھا۔ پاکستانی حکمران‘ پاکستانی فوج کی قیادت‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کے سیاست کار یہ سب ان کی پشت پر تھے۔ ’’طالبان کا اسلام‘‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو وجود میں نہیں آیا۔ اپنے فہم اور شعور کے مطابق وہ پہلے دن سے ایک خاص انداز میں اپنا اجتماعی نظام چلا رہے تھے‘ جس کے کچھ پہلو نہایت روشن اور تابندہ تھے اورکچھ پہلوئوں سے ان کے نظام میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔
افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور طالبان اسی قبائلی نظام کا حصہ تھے جو پشتون آئین‘ قانون‘ روایات اور ضوابط سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ اس کی صورت گری میں اسلامی شریعت کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے لیکن طالبان کا تصور اجتماعیت بنیادی طور پر پشتون آئین اور روایات پر مبنی تھا اور جس حد تک اسلام اس کا حصہ ہے وہ اس میں شامل تھا۔ تاہم ان کی پالیسیوں کا ایک حصہ ان کی اپنی روایات پر مبنی تھا‘ جو پاکستان یا دنیا کے دوسرے ممالک اور علاقوںکے لیے متعلق (relevant) نہیں۔ اس لیے صوبہ سرحد میں جو اصلاحات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان پر طالبان کے حوالے سے کی پھبتی کسی طرح بھی صادق نہیں آتی۔
کہنے والے آج طالبان کو جوچاہے کہہ لیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے اس افغانستان کو امن و انصاف دیا جو شدید اور خون آشام خانہ جنگی کی گرفت میں تھا اور جہاں لوٹ مار کا دور دورہ تھا اور وار لارڈز (war lords) نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ طالبان کے دور میں وہ سارا علاقہ جو ان کے زیرحکومت تھا امن اور انصاف کا گہوارا بن گیا تھا اور وار لارڈز کو بے اثر کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح افیون کی کاشت کو چندسال میں ختم کر کے انھوں نے ایک بڑی لعنت سے افغانستان ہی نہیں پوری دنیا کو نجات دلائی اور ان کے اس کارنامے کا خود امریکہ تک نے اعتراف کیا۔یہ بجا کہ معاشی ترقی‘ تعلیم کے فروغ اور خصوصیت سے خواتین کی تعلیم اور ملک کی دوسری قومیتوں سے مصالحت کے سلسلے میں ان کی پالیسیوں میں خامی موجود تھی۔ پاکستان اور عالمِ اسلام کی دینی شخصیات اور تحریکات نے ان کے اچھے کاموں کی قدرافزائی کے ساتھ ان کو ان کمزوریوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور وہ تعلیم‘ ترقی اور مصالحت کی راہ پر چل بھی پڑے تھے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو آج ان پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے پہلے ان کو طالبان میںکوئی خامی نظر نہیں آتی تھی اور آج انھیں کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی ہے۔ طالبان کا عروج پیپلز پارٹی جیسی نام نہاد لبرل سیاسی جماعت کے دور میں اور اس کی مکمل تائید سے ہوا‘ فوج کی قیادت بھی ان کی پشت پر تھی۔ امریکہ بھی ان کا موید تھا اور مئی ۲۰۰۱ء تک ان سے گہرے سیاسی‘ سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھا۔ سارا نزلہ اس لیے گرا کہ انھوں نے امریکی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اور جس شخص یا گروہ کو پناہ دی تھی دلیل اور ثبوت کے بغیر اسے امریکہ کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کے لیے طالبان حلیف اور ساتھی تھے اور پاکستان سے کوئی بے وفائی انھوں نے نہیں کی۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہی امریکہ کی خوشنودی کے لیے یوٹرن لیا اور اپنے ہی دوستوں اور بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کو اپنی زمین اور اپنا کندھا فراہم کردیا۔ امریکہ کی نارتھ کمانڈ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے عوام پر امریکی افواج نے ۵۷ ہزار سے زیادہ فضائی حملے ہماری سرزمین یا ہماری فضائی حدود کو استعمال کرکے کیے اور ہم بھی ان کے اس ظلم اور فساد میں شریک ہوئے اور جو دوست اور حلیف تھے ان کو دشمن بنالیا۔
طالبان کا اسلام نہ ۱۱ستمبر کے بعد رونما ہوا اور نہ۱۱ ستمبر سے پہلے اس کا وجود تھا۔ پاکستان کے ان سے ہم رنگ اور ہم ساز ہونے کا قصہ تو سب ہی کے سامنے ہے لیکن امریکہ بھی اس میں کتنا شریک تھا اور طالبان سے کس کس طرح کی پینگیں بڑھا رہا تھا اس کا پورا حال اگر کبھی پوشیدہ تھا تو اب نہیں ہے۔ دسیوں کتابیں گذشتہ دو سال میں اس پر آچکی ہیں اور دو فرانسیسی صحافیوں کی کتاب Forbidden Truth: U.S. - Taliban Secret Oil Diplomacy جو فرانس ہی نہیں امریکہ میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی (best seller) کتاب ہے اور جس کا انگریزی ایڈیشن امریکہ اور برطانیہ سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا ہے‘ ایک اہم دستاویزی ثبوت ہے۔ بلاشبہہ ان کتب میں حقائق اور افسانے‘ واقعات اور اختراعات سب کچھ موجود ہیں مگر جو بات ناقابلِ تردید ہے وہ ۱۱ستمبر کے سانحے سے پہلے طالبان سے تعلقات‘ دوستی اور اپنے مفادات کے لیے ان سے پینگیں بڑھانا ہے۔ اس وقت ’’طالبان کا اسلام‘‘ کسی کو پریشان نہیں کر رہا تھا اور سیاسی تائید‘ معاشی مفادات کا حصول‘ اور مالی امداد کی فراوانی یہ سب جائز تھا۔
رہا ہمارا معاملہ‘ تو ہماری تحریریں گواہ ہیں کہ ہم نے طالبان کے اچھے کاموں کی تعریف کی اور ان کی خامیوں پر ان کو دلسوزی کے ساتھ متوجہ کیا اور ان خامیوں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ آج ہم ان کی مظلومیت کی بنا پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے بزدلی ہی نہیں‘ بداخلاقی بھی سمجھتے ہیں کہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں کلمہ خیر بھی کہنے سے اجتناب کریں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنے رویے پر شرمسار ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ وہ طالبان کو ان کی مظلومیت کے اس دور میں نشانۂ تضحیک بنائیں۔
جہاں تک صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی انتخابی کامیابی اور صوبائی حکومت کی نفاذِ اسلام کی کوششوں کا تعلق ہے‘ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل عوام کی بھرپور تائید اور جمہوری ذریعے سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ وہ کسی چوردروازے سے اقتدار پر قابض نہیں ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کو کوئی دستوری یا اخلاقی جواز بھی حاصل نہیں۔ وہ ایک خود مقرر کردہ (self-appointed) صدر ہیں۔ اس طرح دوسری ٹرم کی حد تک انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو چیف آف اسٹاف بنا لیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نام نہاد صدارتی ریفرنڈم کے بارے میں وہ صرف اپنی شرمندگی کا اظہار ہی کرنے پر مجبور نہیں ہوئے‘ اب وہ اس کو ایک غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں گو اس غلطی کے منطقی تقاضوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل نے ان کو دستور کے مطابق صدر منتخب ہونے کا ہر موقع دیا اور تعاون تک وعدہ کیا بشرطیکہ وہ غیرقانونی اور غیردستوری اختیارات اور ناجائز دستوری ترمیمات سے دستبردار ہوجائیں لیکن وہ دستوری اور قانونی طریقہ اختیار کرنے سے اب تک گریزاں ہیں اور اس طرح صرف قوت اور فوجی اتھارٹی کے ناجائز استعمال کے ذریعے اقتدار پر رہنے پر مصر ہیں۔ اس کے برعکس متحدہ مجلسِ عمل نے خالص قانونی اور جمہوری راستہ اختیار کیا ہے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے برسرِاقتدار آئے ہیں۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کے گرجنے برسنے کا اور ہی انداز ہے۔ وہ منتخب اسمبلی کو صرف اس لیے توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ان کے مزعومہ ترقی پسند اسلام کو دین سے انحراف سمجھتی ہے اور جو مینڈیٹ قوم نے اس کو دیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھیں اس کام پر نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ نے مامور کیا ہے۔ اس طرح وہ ظل الٰہی (divine right of kings) کے فرسودہ نظریے کا احیا کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔
ایک طرف جنرل صاحب ہیں جنھیں غیرمنتخب اور خودساختہ صدرکے سوا کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ دوسری طرف صوبے کی منتخب اسمبلی اور قیادت ہے جو اسمبلی کے ذریعے‘ ملک کے دستور کے مطابق‘ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور اقبال اور قائداعظم کے قوم سے کیے ہوئے وعدوں کی تعمیل میں جمہوری اور تعلیمی ذرائع سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قوم کے سامنے یہ دو ماڈل بالکل واضح ہیں اور قوم یا دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیںجھونکی جاسکتی۔
سرحد کی حکومت کے خلاف صرف سیاسی دبائو اور معاشی اور مالیاتی وسائل سے محرومی ہی کے وار نہیں کیے جا رہے بلکہ سب سے بڑھ کر‘ ایک پروپیگنڈا وار پہلے دن سے شروع کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے اور مثبت اور تعمیری کاموں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
صوبہ سرحد کی حکومت نے پہلے دن سے سادگی اور کفایت شعاری کو اختیار کیا۔ متعدد وزیروں نے سرکاری مکان تک نہ لیے‘ اپنے دفتر اور گھر دونوں کے دروازے عام انسانوں کے لیے کھول دیے۔ اپنے رہن سہن کا انداز وہی رکھا جو پہلے تھا اورملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور سینیروزیر نے بجٹ میں اپنی تنخواہیں دو ہزار روپے ماہانہ اور باقی تمام وزرا نے ایک ہزار روپے ماہانہ کی کمی کی جب کہ مرکز اور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے وزیروں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کا راستہ اختیار کیا اور نئی گاڑیوں اور مہنگی رہایش گاہوں پر غریب عوام کی دولت کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ صوبے میں قومی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا اور عملاً کاروبار حکومت میں اس کے نفاذ کا آغاز کر دیا۔ جرائم کی رفتار صوبے میں باقی تمام ملک سے نصف ہے اور امن و امان کی صورت حال سب سے بہتر ہے۔ آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم شعبۂ حادثات میں فوری امداد اور مفت ادویہ کی فراہمی کا آغاز کر دیا ہے۔ ترقیاتی اور عمومی بجٹ میں تعلیم کو اولیت دی ہے اور سرحد وہ واحد صوبہ ہے جس نے تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا ۴.۲۸ فی صد مختص کیا ہے‘ جب کہ پنجاب اور سندھ میں یہ حصہ ۱۹ اور ۵.۱۳ فی صد ہے اور مرکز میں صرف ۶فی صد کے قریب۔ خواتین کی تعلیم کو واضح ترجیح دی گئی ہے اور صحت کے میدان میں بھی ان کے لیے خصوصی انتظامات کا اعلان کیا ہے۔
سرحد کا بجٹ اس پہلو سے بھی منفرد ہے کہ کسی صوبے نے پہلی بار بجٹ سازی کے بارے میں ایک نیا وژن پیش کیا ہے کہ عمومی انتظامی اور ترقیاتی بجٹ کی دوگونہ تقسیم کو آیندہ کے لیے بدل کر بجٹ کے لیے تین دھاروں (streams)کو متعین کیا ہے‘ یعنی انتظامی‘ فلاحی اور ترقیاتی۔ یہ اسلام کی اولیں روایات سے مطابقت رکھتا ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میںباقاعدہ بیت المال کا آغاز ہوا تو اس کے دو شعبے تھے اموال المسلمین اور اموال الصدقہ۔ اس وژن کو سرحد کے بجٹ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
نفاذِ شریعت کے یہ وہ تمام پہلوہیں جن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور چند ضمنی باتوں کو جن کے بارے میں بھی ایک ہمدردانہ تعبیرممکن ہے‘ ایم ایم اے کے تصور اسلام کا نام دے کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ خود جنرل پرویز اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے دو اسلاموں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک انتہا پسند اسلام اور دوسرا لبرل اسلام--- اور امریکہ اور یورپی ممالک سے انتہاپسند اسلام کو کچلنے اور لبرل اسلام کی پشتی بانی کرنے کے لیے واویلا کر رہے ہیں اور اس طرح محض اپنی ذات کی خاطر اسلام اور پاکستان دونوں کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال اگر کہیں خراب ہے تو وہ کراچی ہے جہاں ماہنامہ ہیرالڈ کراچی کے ایک تازہ جائزے کے مطابق ہر روز صرف پولیس کی سرپرستی میں پچاس کاریں لوٹی جا رہی ہیں۔ صوبے میں ایم کیو ایم کے حکومت میں آتے ہی اور گورنر عشرت کا اقتدار نازل ہوتے ہی بھتّے کا کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ قتل اور بوریوں میں لاشوں کا سلسلہ ایک بار پھر شہر میں خوف و ہراس کا باعث بن گیا ہے۔
ہیرالڈ ہی کی رپورٹ ہے کہ صوبائی محکمہ انصاف کے مطابق روزانہ بنیادوں پر خود پولیس کے خلاف دسیوں کیس درج ہو رہے ہیں۔ ۲۰ مارچ ۲۰۰۱ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۲ء تک ۳۲۸ شکایات پولیس کے خلاف درج کی گئی لیکن ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء تک کے عرصے کے دوران کراچی پولیس کے خلاف ۴۸۰ کیسوں کی شناخت کی گئی۔ کراچی کے بارے میں ٹائم کی رپورٹ میں اگر مبالغہ بھی ہو تو بھی یہ شہر ایک بار پھر مخدوش حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان اور پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل کے واقعات روز افزوں ہیں۔ گیس پائپ لائن ایک ہی مہینے میں دو بار میزائلوں سے اڑائی جاتی ہے اور کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے اپنے علاقے میں پولیس کا ڈی آئی جی دن دھاڑے مار دیا جاتا ہے اور کوئٹہ میں پولیس کے زیر حراست نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ سب جنرل صاحب کے لیے کسی تشویش کا سامان نہیں فراہم کرتے البتہ ان کی نینداگر اڑ جاتی ہے تو اس پر کہ پیپسی کے بورڈوں پر عورتوں کی تصویروں پر کپڑا کیوں چڑھا دیا گیا۔ یہ ہے بالغ نظر (mature) قیادت کا احساسِ تناسب (sense of proportion) !
سرحد اسمبلی نے جو شریعت بل منظور کیا ہے غالباً جنرل پرویز اور ان کے قلم بکف گوریلوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا‘ اس لیے کہ اس میں طالبان کا کوئی ’’سایہ‘‘ (ghost) موجود نہیں۔ وہ بل دستور کے تحت منتخب اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ سیکولر پارٹیوں نے ۲۱ ترامیم بل میں پیش کیں جن کو بعد میں واپس لے لیا اور ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے اسے منظور کیا۔ ایک بھی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا۔ قانون کا آپ تجزیہ کرلیں اس میں تعلیم‘ عورتوں کے حقوق‘ غیرمسلموں کے حقوق‘ انصاف کے حصول کو آسان بنانا اور معاشی اور اجتماعی زندگی کو فساد‘ ناہمواریوں اور استحصال سے پاک کرنے کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ تمام کام قانون کے دائرے میں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سے کرنے کا خاکہ مرتب کیا گیا ہے۔ پوری منصوبہ سازی اور قانون سازی‘ باہمی مشاورت سے کرنے کا عندیہ ہے۔ تین کمیشن بنائے جا رہے ہیں جو مشورے سے اپنی سفارشات دیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اسمبلی مزید قانون سازی کرے گی۔ اس پورے عمل میں یہ عوام کی شرکت‘ راے عامہ کی تربیت اور تعلیمی انقلاب کے ذریعے تبدیلی کو اولیت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے تعمیری انداز کو’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’طالبانائزیشن‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ بدنیتی پر مبنی نہیں تو کم علمی اور غلط فہمی کے بارے میں تو کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ راستہ قوموں کی ترقی کا راستہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم پوری قوم اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے ارکان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کھلے ذہن سے قانون کے مسودے کو پڑھیں اور علم اور دیانت کے ساتھ اس بحث میں حصہ لے۔ یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
آخر میں ہم قوم کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے اس احساس کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں حصہ لینے والی جنرل صاحب کی ٹیم میں جناب شریف الدین پیرزادہ کی شرکت سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ ایل ایف او کا رشتہ اب اسلام آباد سے بڑھ کر واشنگٹن سے استوار ہو رہا ہے۔ ویسے تو امریکہ کو جمہوریت پر بڑا ناز ہے اور دنیا بھر میں وہ جمہوریت کی ترویج ہی کو اپنے استعماری پروگرام کا اصل ہدف قرار دیتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کے لیے زبانی جمع خرچ اپنی جگہ‘ لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے بادشاہوں‘ ڈکٹیٹروں اور فوجی حکمرانوں کو استعمال کیا ہے۔ تازہ ترین مثال جنرل پرویز مشرف سے دوستی بلکہ یاری کا رشتہ ہے۔ کیا وہ وقت تھا کہ کلنٹن صاحب ملاقات کے روادار نہ تھے‘ آئے تو اسے دورہ نہیں stop over قرار دیا۔ شرط لگا دی کہ وردی میں ملاقات نہیں ہوگی۔ اور سوٹ والی ملاقات کا مصافحہ تک کا فوٹو نہ تصویر کی صورت میں آئے گا اور نہ ٹی وی کیمرے کی آنکھ کا تارہ بنے گا۔ مفاد کی ہوائوں کے رخ کی ذرا سی تبدیلی نے انھی جنرل صاحب کو اب دوست بنا دیا اور کیمپ ڈیوڈ کی قربت کا سزاوار کردیا۔ ترکی میں پارلیمنٹ نے جو جمہوری کردار ادا کیا اس پر امریکی قیادت ناراض ہے اور امریکی وزیر دفاع ریمز فیلڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ترکی کی فوج نے ہماری توقعات پوری نہیں کیں‘‘۔ یہ ہے امریکہ کی جمہوریت نوازی!
لگتا یوں ہے کہ اب ’’وردی والی جمہوریت‘‘ کو امریکہ کی سند ملنے والی ہے۔ لیکن جنرل صاحب اور بش صاحب دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فیصلے پاکستانی قوم کرے گی‘ کیمپ ڈیوڈ یا لندن میں یہ معاملات طے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی قوم ملک میں حقیقی جمہوریت کی خواہش مند ہے اور وہ فوج کو وہ احترام اور مقام دینا چاہتی ہے جو دفاع وطن کے لیے ضروری ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو اب ختم ہونا چاہیے‘ ورنہ ڈر ہے کہ فوج روز بروز زیادہ سے زیادہ متنازع بنتی جائے گی اور بالآخر فوجی قیادت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں قوم اور فوج میں بُعدپیدا ہوگا جو دونوں کے لیے برا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کاکردار کسی طرح بھی قابل رشک نہیں رہا اور آج ہم بہت دکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پہلے تو عوام کے غم و غصے کا نشانہ صرف وہ حکمران ہوتے تھے جو فوج کو زینہ بنا کر حکومت پر قابض ہوتے تھے مگر اب بے چینی اور اضطراب کا رخ فوج کی طرف بحیثیت ایک ادارے کے ہوتا جا رہا ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ ان حالات میں جنرل صاحب کے ذہن اور عزائم کی جو جھلکیاں ان کے امریکہ جانے سے پہلے کے بیانات سے مترشح ہیں وہ ملک اور فوج دونوں کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ ذرا غور کریںکہ جنرل صاحب کیا پیغام دے رہے ہیں:
یہ صرف چند نمونے ہیں لیکن موصوف کا ذہن سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ قرآن کے استعارے میں اس بدقسمت خاتون کی راہ پر بڑھ رہے ہیں جو سوت بڑی محنت سے خودکاتتی ہے۔ پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط (النحل ۱۶:۹۲) خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن ہے یہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ! ان سارے خدشات اور امکانات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو غور کرنا چاہیے کہ ہوا کا رُخ کیا ہے اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تمام سیاسی قوتیں دستور اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں اور محض فوجی طالع آزمائوں کو سہارا دینے کی روش ترک کریں۔ جمہوریت کبھی بھی جرنیلوں کی سرپرستی (tutelage) کے ذریعے فروغ نہیں پاسکتی۔ جمہوری استحکام کا انحصار دستور اورملکی اداروں کے استحکام کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر سیاست دان مراعات اور وزارتوں کی خاطر جرنیلوں کے آلہ کار بننے کو ترجیح دیں اور عدالت کے ججوں کو دستور میں ایسی دفعات نظرنہ آئیں جو حاضرسروس (in service) فوجی کے صدر ہونے میں مانع ہوں تو پھر جمہوریت کا مستقبل روشن کیسے ہوسکتا ہے؟ سرکاری پارٹی اور عدلیہ نے قوم کو مایوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سوال کسی ایک پارٹی اور ایک ادارے کا نہیں‘ اس ملک کے ۱۴کروڑ انسانوں کی آزادی‘خودمختاری‘ ان کے حقوق اور ان کے مستقبل کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقوق اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان کے لیے جدوجہد کی جائے اور قربانیاں دی جائیں اور آزادی کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنی اور قوم کی آزادی کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو۔ اقبال نے اس حقیقت کو کتنے صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
آج اگر ہمیںاپنی آزادی اور اپنے حقوق کی خود اپنوں کی دست درازیوں سے حفاظت کرنی ہے تو اس کے لیے ایمان‘ استقامت‘ ایثار و قربانی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ؎
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں‘ لا الٰہ الا اللہ
(اشاعت عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
اس مہینے راے عامہ کے دو بہت اہم اوردل چسپ جائزے سامنے آئے ہیں۔ پہلا وہ ہے جس کا اہتمام بی بی سی نے آئی سی ایم کے ذریعے کیا ہے اور جو انگلستان کے روزنامہ گارڈین نے شائع کیا ہے۔ یہ سروے ۱۱ ممالک میں ۱۱۰۰ افراد کی رائے پر مبنی ہے۔ ۱۱ ممالک میں صرف دو مسلمان ملک ہیں‘ یعنی اُردن اور انڈونیشیا۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ گو امریکہ کو بحیثیت ایک جمہوری ملک کے لوگ پسند کرتے ہیں اور اس پہلو سے اس ملک میں ایک مقناطیسی کشش اب بھی موجود ہے لیکن امریکی پالیسیوں اور خصوصیت سے صدربش کو خارجہ سیاست کے اعتبار سے سخت ناپسند کرتے ہیں بلکہ ان پر برافروختہ (infuriated) ہیں۔
امریکہ کی جن چیزوں کو اس کے مثبت پہلو کہا جا سکتا ہے وہ اس کا آئیڈیل ازم ‘ اس کی دولت اور اس میں پائی جانے والی آزادیاں ہیں۔ اس کے برعکس جن چیزوں کی وجہ سے دنیا کے لوگ اس سے خائف ہیں اور جس میدان میں وہ عوامی تائید کی جنگ ہار رہا ہے وہ اس کا دوغلاپن اور اہم عالمی مسائل‘ جیسے نیوکلیر ہتھیاروں کے عدم پھیلائو‘ عالمی غربت کا خاتمہ اور ماحول کے بگاڑ کے اسباب کے بارے میں عدم دل چسپی اور مایوس کن کارکردگی ہے۔ عراق کی جنگ اور صدام کو گرانے کے بارے میں عالمی رائے کی اکثریت امریکہ کے دعووں اور اقدام کے مخالف تھی‘ جب کہ مسلمان ممالک میں امریکہ کو القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک دل چسپ بات اس سروے میں یہ بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ امریکہ کی دولت اور اس کی آزادیوں کو پسندکرتا ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ میں رہنا پسند کریں گے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے امریکی فاسٹ فوڈ اور مشروبات کو ناپسند کیا‘ جب کہ امریکی گانوں اور فلموں کو پسند کیا۔
اس سروے کا ایک اوردل چسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ‘برطانیہ اور سروے میں شامل دوسرے انگریزی بولنے والے ممالک میں بحیثیت مجموعی اکثریت کی رائے میں امریکہ عالمی میدان میں ’’خیر کی ایک قوت‘‘ (a force for good in the world) ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن ممالک کے لوگوں کی رائے مختلف ہے جو انگریزی نہیں بولتے ہیں۔ فرانس‘ روس‘ اُردن‘کوریا اور انڈونیشیا کے لوگوں کی اکثریت امریکہ کو دنیا کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ سروے سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ یہ ہے:
اس سب سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ یہ کہ اصل مسئلہ امریکی اقدار نہیں بلکہ واشنگٹن کے اقدامات اور پالیسیاں ہیں۔ اصل قصور جارج بش کا ہے۔ کیچڑ اُچھالنا اور کائوبوائے جیسا اندازِ گفتگو بیرونی دنیا میں امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں بناتا۔دنیا کے لیے امریکہ کم مسئلہ ہے‘ بش زیادہ ہے۔
دوسرا راے عامہ کا سروے اے بی سی نیوز پول اور گیلپ پول پر مبنی ہے جس میں امریکہ کے لوگوں کی رائے اس بارے میں معلوم کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی رائے کا کہاں تک لحاظ کرتے ہیں۔ دونوں جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اپنی رائے پر زیادہ اعتماد ہے اور اس کی فکر کم ہے کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ ۱۰ میں سے چھ افراد کو اس کی قطعاً فکر نہیں کہ فرانس‘ جرمنی اور روس کیا سوچتے ہیں اور عراق پر جنگ سے ان کے تعلقات کس طرح مجروح ہورہے تھے۔ اسی طرح دو تہائی افراد نے امریکہ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان کا اپنا طرزِزندگی ہر حال میں محفوظ رہنا چاہیے اور اسے غیرملکی اثرات سے مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
ساری دنیا میں لوگ امریکیوں کو درحقیقت پسند کرتے ہیں اور وہ ہمارے بارے میں مسلسل سوچتے ہیں۔ لیکن ہم مشکل ہی سے ان کا کوئی وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ۱۱ستمبر کے بعد رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے لیکن ابھی بھی خود مرکزیت کی کیفیت ہے۔ ہم ہر بات کو اپنے تجربات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے اپنے آپ میں مگن ہیں۔ لیکن صرف ہم ہی وہ ملک نہیں جو ایسا کرتے ہیں!
یہ دونوں جائزے امریکیوں کی خود اپنے بارے میں سوچ اور امریکہ اور اس کی قیادت کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں کی سوچ کا آئینہ ہیں۔
تاریخ سے کم ہی سبق سیکھا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقبولیت اور عزت محض طاقت سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال بھی ضروری ہے۔ زبان خلق کو نظرانداز کرنے والے خلق کی محبت اور تعاون سے محروم ہی رہتے ہیں۔ خوداعتمادی ایک اچھی صفت ہے مگر رعونت اور خود پسندی تعلقات کو بالآخر خراب کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ امریکہ اور باقی دنیا کے درمیان اعتماد کی فضا کمزور سے کمزور ہو رہی ہے اور ان کے درمیان بے اعتمادی‘ خوف اور نفرت کی خلیج حائل ہو رہی ہے۔ اگر امریکہ کی قیادت اس تبدیلی کا ادراک کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ امریکہ اور دنیا دونوں ہی کے لیے مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔
قومی بجٹ کسی بھی ملک کی اہم ترین دستاویزات میں سے ایک ہوتا ہے۔ یہ محض آمدنی اور خرچ کا بیان نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی معیشت کی اقتصادی و مالیاتی صورت حال کا آئینہ دار اور اس حوالے سے حکومت کی پالیسیوں کا مصدقہ بیان ہوتا ہے۔ ’’میگنا کارٹا‘‘ سے لے کر جدید جمہوری مملکتوں کے ابھر کر سامنے آنے تک‘ یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے کہ قومی خزانے کو استعمال
اسلامی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بیت المال کا انتظام چلانے والوں کا عوامی احتساب‘ اسلامی معاشیات کا سب سے اہم اصول رہا ہے۔ اسلام نے اول روز ہی سے اجتماعی اور ریاستی وسائل کے لیے امانت‘ ذمہ داری اور ایک باقاعدہ نظام کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ جمہوری نظام بھی ’’قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لینے‘‘ کے اصول کی توقع کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ صرف پارلیمنٹ کو مملکت کی آمدن اور خرچ کی اجازت دینے اور اس کی نگرانی کا اختیار حاصل ہے‘ تاہم بادشاہت‘ سامراجی یا آمرانہ حکومتوں میں انتظامیہ ہی پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کو نظرانداز کر کے بجٹ کنٹرول کرتی ہے۔ برطانوی دور میں جب منتخب نمایندوں کو بجٹ پر بحث کرنے کی سہولت (luxury) حاصل تھی‘ اصل اختیار انتظامیہ کے پاس تھا جو اس وقت غیر ملکی حکمرانوں پر مشتمل تھی۔
بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی یہی صورت حال چل رہی ہے۔ جہاں تک فنانس بل کا تعلق ہے‘ پاکستان کے تینوں آئین بھی اسی فریم ورک میں ہیں‘ جو ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں دیا گیا تھا۔ اس فریم ورک کا اہم پہلو اخراجات کی charged (وضع شدہ) اور non-charged (غیروضع شدہ) میں تقسیم ہے۔ وہ اخراجات جو دفاع‘ قرض اور اداے قرض اور مرکز یا صوبوں دونوں میں چند ایک اہم سرکاری اداروں (صدر‘ گورنر اور عدلیہ وغیرہ) سے متعلق ہیں charged اخراجات کی ذیل میں آتے ہیں۔ بجٹ کا یہ حصہ جو اس وقت کل بجٹ کے ۵۰ فی صدسے زائد ہے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے اور پارلیمنٹ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ بجٹ کے اس حصے کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ جہاں تک باقی امور کا تعلق ہے‘ اگرچہ ان میں کٹوتی کی تحریکوں کی اجازت ہے‘ لیکن یہ محض علامتی اور عوام کو خوش کرنے والی اجازت ہے۔ ایک عام تصور یہ ہے کہ کوئی بھی کٹوتی کی تحریک جس کو حکومتی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو‘ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے مترادف ہے۔ اس لیے ایک بھی ایسی مثال نہیں دی جاسکتی جب کٹوتی کی تحریکوں سے بجٹ میں کوئی حقیقی تبدیلی آئی ہو۔ اس طرح بجٹ سازی کا عمل محض ایک دکھاوا‘ شو پیس اور رابطہ عوام کی مشق بن کر رہ گیا ہے اور مملکت کے مالیات پر عوام یا ان کے نمایندوں ‘یعنی پارلیمنٹ کا کوئی کنٹرول نہیں۔
دوسرا پہلو بجٹ سازی کے عمل سے متعلق ہے۔ دنیا کے زیادہ تر جمہوری ممالک میں بجٹ سازی چار سے چھ ماہ کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں اور انتظامیہ کی طرف سے تجاویز آتی ہیں۔ برطانیہ میں Ways and Means Committe بجٹ کے بنیادی خصائص سامنے آنے سے قبل چار مہینے اجلاس کرتی ہے۔ بجٹ بند کمروں میں نہیں بنائے جاتے۔ حتیٰ کہ اگلے تین سے آٹھ سال کے ٹیکس پروگرام بھی سامنے لائے جاتے ہیں اور ان پر عام بحث کی جاتی ہے۔ ایس آر او (قانونی باضابطہ حکم نامہ ہے) اور مالیاتی قانون سازی کسی اور ذیلی ادارے کو تفویض کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہر چیز کافیصلہ پارلیمنٹ کی بحث اور کانٹ چھانٹ کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں انتظامیہ ہی بجٹ بناتی ہے اور یہ پارلیمنٹ میں عملاً ایک طے شدہ دستاویز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔پہلے پارلیمنٹ کو بجٹ پر بحث کرنے اور ووٹ کے لیے تین سے چار ہفتے دیے جاتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس کا بھی اہتمام نہیںکیا۔ ۷ جون ۲۰۰۳ء کو بجٹ پیش کیا گیا ہے اور پانچ دن میں منظور کرلیا گیا۔ یہ بجٹ پر پارلیمنٹ کی نگرانی کا تمسخر ہے۔ بجٹ سازی کے سارے عمل کو جمہوری بنانے کے لیے ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں انتظامیہ آئین کے تقاضوں پر کم ہی توجہ دیتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۱۶۰ اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی حدود (parameters)طے کرنے کے لیے نیشنل فنانس کمیشن ہونا چاہیے۔ آئین اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن کی ہر پانچ سال بعد تشکیل نو کی جانی چاہیے اور بجٹ اس کے طے کردہ حدود کے اندر بنایا جانا چاہیے۔ فنانس کمیشن کی میعاد ۲۰۰۲ء میں ختم ہو گئی تھی۔ حکومت نے چھ ماہ ضائع کر دیے ہیں اور ابھی تک اسے تشکیل نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سال ۰۴-۲۰۰۳ء کا بجٹ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی روشنی میں بنایا گیا ہے جوکہ آئینی طور پر منسوخ ہو چکا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل ۱۶۱ اور ۱۶۲ کی دفعات کی پیروی بھی معقول طریقے سے نہیں کی جا رہی۔ آرٹیکل ۱۶۶ بھی فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی پڑتال کے بعد وفاق کے قرض لینے کے اختیار اور پارلیمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس کی حدود طے کرنے کے بارے میں بہت اہم سوال اٹھاتا ہے۔ آئین کے اس تقاضے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جیسے فنانس بل کی منظوری اس آرٹیکل کے تقاضے کو بطور امر واقعہ پورا کر دیتی ہے‘ جوکہ صحیح نہیں ہے۔
ان نکات کی روشنی میں بجٹ سازی کا عمل اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کی نگرانی اور عوامی نمایندوں کے سامنے احتساب دہی کے انتظامات پر نظرثانی اور ان کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
کسی دن کا‘کسی شہر کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں‘ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے متعدد واقعات نظر پڑتے ہیں۔ اگر سب خبریں ایک جگہ جمع کر دی جائیں تو نہایت ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ پاکستانی کمیشن براے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)کے رسالے جہد حق میں واقعات اور ان کے نمایندوں کی جو رپورٹیں ہر ماہ درج ہوتی ہیں‘ ان سے معاشرے کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ وہ ایسے معاشرے کا شہری ہے۔ مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ۲۵ مارچ سے ۲۵ اپریل تک ۱۳۴ افراد کی خودکشی (یہ بھی قتل ہی کی ایک قسم ہے)‘ ۷۸ افراد کے اقدام خودکشی اور ۱۸ افراد کے کاروکاری پر قتل کی اطلاعات ہیں۔ یہ صرف ایک ماہ کے یقینا نامکمل اعداد و شمار ہیں۔ حال ہی میں امریکی رسالے ٹائم نے کراچی پر اپنے فیچر میں کسی پیشہ ور قاتل ایم آر کے اپنے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ صاحب ہاتھوں سے گردن توڑ کر قتل کے ماہر ہیں اور فی قتل ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ لیتے ہیں اور بڑی شخصیات کا ریٹ ۱۰ لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اب میں یہ کام دوسرے لڑکوں کو sub contract کرتا ہوں اور ان سب کو مہینے دومہینے میں ایک "job" تو فراہم کرنا ہی ہوتا ہے (ٹائم‘ ۱۶ جون ۲۰۰۳ئ‘ ص ۲۹)۔ کراچی میں گذشتہ سال ۵۵۵ قتل ہوئے۔
یہ ہمارا معاشرہ ہے‘ مسلمانوں کا معاشرہ۔ اور صدی بھی اکیسویں ہے۔ ذرائع تفتیش کی ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ کسی قاتل کا چھپنا محال ہے۔ لیکن قاتلوں کو چھپنے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ آزادانہ پھرتے ہیں۔ ٹائم کی اس رپورٹ کے مطابق ایک قاتل صاحب کے اپنے بیان کے مطابق تھانے میں ان سے وی وی آئی پی سلوک ہوتا ہے۔
حکومت تو نام ہی جان‘ مال‘ آبرو کے تحفظ کا ہے (ہم فی الحال آبرو اور مال کی صورت حال پر بات نہیں کر رہے)۔ مسلمان کی جان تو اس طرح مقدس و محترم ہے جس طرح ذی الحجہ کا مہینہ‘ مکہ مکرمہ کاشہر‘ اور خانہ کعبہ کی عمارت۔ پھر یہ اتنی غیرمقدس‘ غیر محترم اور اتنی ارزاں کیوں ہوگئی ہے کہ دکاندار اور گاہک کے جھگڑے میں‘ دو دوستوں کی چپقلش میں‘ میاں بیوی کی لڑائی میں معمولی اشتعال پر‘ گواہیوں سے روکنے کے لیے‘اور نسل در نسل محض جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے بے تکلف لی جا رہی ہے۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری ایمانی حس کمزور ہوگئی ہے۔ جسے آخرت پر یقین ہو وہ کسی بے گناہ کی جان کیسے لے سکتا ہے۔ جس کے کان میں اذان دی گئی ہو‘ جسے کلمہ پڑھایا گیا ہو‘ قرآن پڑھنا سکھایا گیا ہو‘ نماز کی تعلیم دی گئی ہو‘ خدا اور رسولؐ کے احکامات بتائے گئے ہوں‘ وہ مسلمانوں کا نام رکھتا ہو‘ وہ کس طرح دوسرے کی جان لینے کا اقدام کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ بنیادی تعلیم صرف اسکولوں میں ہی نہیں‘ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر خواندہ و ناخواندہ تک اس طرح پہنچائی جائے کہ ہر شہری‘ خصوصاً وہ طبقات اور لوگ جو مجرم و قاتل بننے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں‘ اس کا اثر لیں اور ان کی سوچ ایک خوف خدا رکھنے والے مسلمان کی سوچ بن جائے۔
اس کے باوجود بھی‘ شیطان کسی کو جرم کی راہ پر لگا سکتا ہے۔ معاشرے میں اجتماعی نظم اور حکومت جیسے ادارے اسی لیے قائم کیے جاتے ہیں کہ مجرم کو سزا ایک نظامِ قانون و عدل کے تحت دی جائے۔ ہمارے معاشرے میں یہ نظام ٹوٹ چکا ہے۔ حکومتی منصب رکھنے والے اور بااثر افراد قاتلوں کے سرپرست‘ پشتیبان اور ساتھی ہیں۔ عدالتی نظام بے اثر ہے۔ فریاد کی شنوائی نہیں۔عام تاثر ہے‘ غلط یا صحیح‘ کہ پولیس مجرموں کی پرورش کرتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تھانے ختم کر دیں‘ جرائم ختم ہو جائیں گے۔ جس علاقے میں نیا تھانہ قائم ہوتا ہے جرم کی فراوانی کا باعث بنتا ہے۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ صورتِ حال کی اصلاح کرے۔ جو حکومت اپنے شہریوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ نہ دے سکے‘ اس کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مانٹیرنگ سیل قائم کر کے ‘ اشتہارات عام کے ذریعے دعوت دی ہے کہ پولیس اور قبضہ گروپوں کے خلاف شکایات لائی جائیں۔ یہ درست اقدام ہے۔لیکن یہ جب ہی موثر ہوگا کہ غلط کار کے خلاف کارروائی کی جائے‘ اور اس کارروائی کو خوب مشتہرکیا جائے کہ دوسروں کو کان ہوں۔ اس حوالے سے ہماری تجویز ہے کہ یہی مانٹیرنگ سیل ‘ یا اس طرح کا کوئی خصوصی شعبہ اخباری خبروںمیں سے قتل‘ عصمت دری اور ڈاکوں کی بعض واضح اور نمایاں خبروں کا انتخاب کرکے‘ موقع پر جاکر تحقیقات کرے۔ جرم ثابت ہو… اکثر سچائی چھپی نہیں رہتی--- تو موقع پر سزا ہو۔ جو غلط ہو تو اخبار کو تنبیہ کی جائے‘ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اخبارات میں جھوٹی اور بلیک میلنگ کے لیے شائع کی جانے والی خبروں کا سدباب ہوگا اور معاشرے کی حقیقی تصویر ہی سامنے آئے گی۔
اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن سزا کی خبریں خال خال بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اسلامی تصور میں تو سزا کا مظاہرہ عام ہے ہی اسی لیے کہ عبرت ہو اور مجرم ذہن کی حوصلہ شکنی ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام مجرموں کی نہ صرف پرورش کرتا ہے بلکہ انھیں معزز بناتاہے۔
معاشرے کے وہ افراد جو دوسروں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ اور معاشرے کے قائد کہے جاسکتے ہیں--- علما‘ ائمہ مساجد‘ برادریوں اورانجمنوں کے ذمہ دار‘ سیاسی جماعتوں کے عہدے دار --- ان سب کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے کہ عوام میں جان کے تقدس کے احساس کو عام کریں اور ایک ایسی مضبوط راے عامہ تیار کریں جو شہریوں کا تحفظ کرے اور حکومت کو بھی راہِ راست پر رکھے۔کسی سے ناراضی ہو‘ کسی سے حق لینا ہو‘ کسی نے ظلم کیا ہو‘ اس کے جواب میں جان لینا کسی طرح روا نہیں‘ یہ خود ایک نیا ظلم ہے۔ جان صرف وہی لی جا سکتی ہے جس کا اللہ نے حق دیا ہو: الا بالحق (یعنی قتل کے بدلے قصاص میں‘ زنا کے جرم میں‘ اور مرتد ہونے پر) اور وہ بھی قانون اور انصاف کے نظام کے تحت‘ محض اپنے من پسند طریقے سے نہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کی ایسی کمیٹیوں کا قیام بھی مفید ہوسکتا ہے جو نظام انصاف کی مددگار و معاون ہوں اور سرکار کی گرفت سے آزاد بھی ہوں۔
جب تک مجرم کو تحفظ حاصل ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ سزا سے بچ سکتا ہے‘ جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ حکومت‘ راے عامہ کے قائدین اور عوام کو مل کر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہیے جس میں مجرم کو یقین ہو کہ کسی کو قتل کرکے‘ وہ بھاگ نہیں سکتا۔ اگر کسی کے اندر کا خوف خدا اسے قتل سے باز نہیں رکھ سکتا تو معاشرے کی گرفت کا یقین اسے باز رکھے گا‘ یا پھر وہ سزا پائے گا جو دوسروں کے لیے عبرت کا سامان ہوگی۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا ‘ اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا‘ ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدے و مسلک کی علم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگروہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو‘ جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں‘ زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جوانڈونیشیا اور ملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کوئی اورکرشما دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود‘ عقلی انحطاط‘ اخلاقی زوال اور مادّی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دوچار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔ مگر پے درپے شکستیں کھا کھا کر اُن کا حال غلاموں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے‘ تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں‘ یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا‘ خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور ۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف‘ اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ‘ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی‘ اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔
مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں‘ ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں‘ یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ ء عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے‘ مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے‘ ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ‘ ان کی ثقافت کے اطوار‘ حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی‘ الحاد‘ عصبیت ِ جاہلیہ‘ قوم پرستی‘ اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا‘ اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے‘ اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں‘ اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے انھی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں‘ کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے‘ یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے‘ اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی‘ کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا‘ سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ انھیں نظرانداز کر کے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھاجاسکتا۔
اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے‘ اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا‘ لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے اُن کی پشتیں گزر چکی ہیں‘ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لاچکی ہو‘ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں‘ کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں۔ اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے‘ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی‘ اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے ‘ لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔
چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی‘ اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑاہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہو رہی ہے بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی‘ وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدّن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار‘ آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں‘ مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہرادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں‘ ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت ‘ جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے‘ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداًء کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں‘ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں‘ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروںپر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپرآتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علم بردار ہوتا ہے۔
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیںمجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کاکید ] چال[ ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں‘ وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں‘ اور اس امرکے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔
اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے…
ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
اپنی اخلاقی اصلاح:ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے‘ اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے ‘ نہ مخلص مانا جاسکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے‘ اُن پر عامل ہونے کی‘ اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے‘ ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے‘ اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے‘ اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کواختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروںسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر‘ جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے‘ اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ ایک کثیرتعداد اُن لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے‘ آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے ‘ اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں‘ ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔
اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا‘ اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے‘ بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں‘ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔
انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے‘ اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی‘ اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ اُمید کی جا تی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں‘ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی اصل میں بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخرکیجیے‘ اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱-۳۶۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری زمانے میں جب آپؐ کی زندگی کا آخری رمضان المبارک تھا‘ دو مرتبہ جبریل امین سے قرآن پاک کے سننے سنانے کا دور کیا۔ یہ دور ’’عرضہ‘‘ کہلاتا ہے‘ جس کے لفظی معنی پیش کش یا انگریزی میں پریزنٹیشن (presentation) کے ہیں۔بالفاظ دیگرحضرت جبریل امین نے دو مرتبہ پورا قرآن پاک حضور علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور دو ہی مرتبہ حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کو قرآن پاک سنایا۔ ظاہر ہے اس آخری عرضہ میں بھی قرآن پاک کا وہی حصہ سنا اور سنایا گیا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی وحی کا نزول جاری رہا‘ اس لیے کہ آخری عرضہ تو رمضان المبارک میں ہوا تھا اور حضور علیہ السلام کی دنیا سے رحلت اس واقعے کے پانچ چھ ماہ بعد ربیع الاوّل میں ہوئی۔ اب یہ جو چھ مہینے گزرے ان میں بھی کئی آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ یہ مشہور آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاَسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اس آیت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نازل ہوئی اور اس کے نزول سے قرآن پاک مکمل ہوگیا۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت کے بعد بھی کئی دوسری آیات اور سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے بعد نازل ہونے والی آیات میں سورئہ نصربھی شامل ہے جو ایک مکمل سورہ کے طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت سے کچھ دن پہلے نازل ہوئی۔
لہٰذا یہ امرقطعی اور یقینی ہے کہ قرآن کا نزول حجۃ الوداع کے بعد بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں بعد میں چل کر یہ سوال پیدا ہواکہ نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری آیت کون سی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ خود آنحضرتؐنے کسی آیت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ اب یہ آخری آیت نازل ہوگئی ہے‘ اس پر قرآن مکمل ہوگیا ہے اور اب قرآن کا مزید کوئی حصہ نازل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس طرح کا اعلان فرما دینے کے معنی یہ تھے کہ صحابہ کرامؓ سمجھ جاتے کہ حضوؐر کا وقت رخصت آگیا ہے اور اب آپؐ دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ یہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو صحابہ کرامؓ کو پتا چلا کہ نزولِ قرآن مکمل ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال سامنے آیا کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورہ کون سی تھی؟ جس صحابی نے جو آخری آیت سنی تھی‘ اس نے یہ خیال کیا کہ وہی آخری آیت ہوگی۔ اس طرح مختلف آیتوں کے بارے میں مختلف صحابہ کرامؓ کو خیال ہوا کہ وہ آخری آیت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل علم کی خاصی بڑی تعداد سورئہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کو ہی قرآن پاک کی آخری آیت قرار دینے کے حق میں ہے‘ کیونکہ جب حضور علیہ السلام نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس آیت کے نزول کا اعلانِ عام فرمایا تو صحابہ کرامؓ کا ایک جم غفیرموجود تھا۔ حاضرین کی بڑی تعداد نے اس کو سنا تو اکثر حضرات کے لیے یہ آخری آیت تھی جو انھوں نے حضوررسالت مآبؐ کی زبانِ مبارک سے سنی تھی۔ اس کے بعد ان میں سے بیشتر کوحضور علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے پھر قرآن پاک سننے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ آخری آیت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے اور قرآن پاک کا اتنا وسیع اور عمیق علم رکھتے تھے کہ صحابہ و تابعین نے آپ کو ترجمان القرآن کا لقب دیا۔ تفسیری روایات بھی سب سے زیادہ ان سے منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی سب سے آخری آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے (وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ o)، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرو اس دن سے کہ جس دن تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے اور پھر ہر نفس کو وہ سب پورا ادا کر دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نصر سب سے آخری سورہ ہے۔ کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نساء کی آیت ۱۷۶ (یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ…) جس میں کلالہٗ یعنی بے اولادآدمی کی وراثت کا مسئلہ پوچھا گیا ہے‘ سب سے آخری آیت ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض اقوال بھی ہیں جن کی تفصیل علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں دی ہے۔
بعض اہل علم نے ان متعدد اقوال کے درمیان تطبیق دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے آخری اعلان تو وہ ہے جو سورئہ مائدہ کی آیت ۳ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ) کی صورت میں حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا۔ آخری مکمل سورہ‘ سورئہ نصر ہے۔ قرآن کا آخری حکم سورئہ بقرہ کی آیت بابت حرمت ربا ہے‘ جب کہ مطلقاً سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے۔
بہرحال اس آیت کے نزول کے چند روز بعد حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف لے گئے۔ نزول قرآن کے اس پورے ۲۳ سالہ عمل کے دوران آپؐ قرآن پاک کو ساتھ ساتھ لکھواتے بھی رہے‘ جیسا کہ قرآن مجید کی تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے۔ جونہی کوئی آیت نازل ہوتی آپؐ اسے فوراً کاتبانِ وحی کو بلاکر لکھوا دیتے۔ جو لکھا ہوا تھا‘ اسے وقتاً فوقتاً سنتے بھی رہتے تھے‘ اور صحابہ کرامؓ میں سے جو پورے قرآن کے حافظ تھے ان سے پورا اور جن کو جتنا دیا تھا ان سے وہی حصہ جو ان کو یاد تھا‘ وقتاً فوقتاً سنتے اور ان کو سناتے بھی رہتے تھے۔ لیکن آپؐ کے زمانے میں قرآن پاک کی تمام سورتوں اور آیات کو ایک کتاب کی شکل میں اس ترتیب سے یک جا نہیں کیا گیا تھا جس ترتیب اور شکل میں آج وہ ہمار ے پاس کتابی صورت میں موجود ہے‘ یعنی ترتیب ِتلاوت کے اعتبار سے قرآن پاک کے مکمل اور مرتب شدہ نسخے مصحف کی شکل میں تیار نہیں تھے۔ اس وقت کتابت قرآن کی شکل یہ تھی کہ کسی چیز یا محفوظ جگہ پر‘ مثلاً ایک صندوق میں قرآن مجیدکے مختلف حصے (آیات اور سورتیں) مختلف اشیا پر لکھی ہوئی محفوظ رہتی تھیں۔ کچھ حصے تختیوں پر‘ کاغذوں پر‘ اوراق پر‘ کچھ آیات اُونٹ کی ہڈیوں پر‘ یا کسی سلیٹ پر یا پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی محفوظ کی جاتی تھیں۔
جب ہم یہ کہتے یا روایات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں صحابیؓ نے قرآن پاک کو جمع کیا تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ انھوں نے کتاب اللہ کی تمام آیات‘ سورتیں اور اس کے تمام حصے مختلف اشیا پر لکھے ہوئے‘ سب کے سب ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیے تھے۔ بالفاظ دیگر ایک بڑے صندوق میں‘ یا ایک بڑی بوری میں محفوظ کرکے رکھ لیے تھے۔ لیکن ایک کتابی شکل میں جس طرح آج ہمارے پاس قرآن مجیدموجود ہے اس طرح اس وقت موجود نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا جب زمانہ آیا تو ایک مشہور جنگ‘ جنگ یرموک میں صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی تعداد شہیدہوگئی۔ یہ جنگ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب کو توشکست ہوگئی لیکن بہت سے حفاظ صحابہ کرامؓ بھی اس جنگ میں شہیدہوگئے۔ان شہدا میں ۷۰۰ صحابہ کرامؓ وہ تھے جنھوں نے خود حضور علیہ السلام سے قرآن کو سنا اور آپؐ کو سنایا تھا۔ یہ ایک بڑا صدمہ تھا جس سے صحابہ کرامؓ دوچار ہوئے۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق ؓ کو بجا طور پر یہ خیال ہوا کہ اگر اسی طرح بڑی تعداد میں صحابہ کرامؓ شہید ہوتے گئے تو ممکن ہے قرآن پاک کا کوئی حصہ اس طرح ضائع ہوجائے یا مٹ جائے۔ اس لیے فوری طور پر قرآن پاک کو کتابی شکل میں ترتیب ِ تلاوت کے ساتھ مرتب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اس کی ترتیب میں فرق نہ آنے پائے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والوں میں سے کسی سے ترتیب ِآیات و سورہ کے بارے میں کوئی بھول چوک ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کتاب اللہ کے مختلف حصوںکی ترتیب کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے۔ لہٰذا ایسے کسی بھی ممکنہ اختلاف سے بچنے کے لیے حضرت عمرفاروق ؓکاخیال تھا کہ قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں محفوظ کرنا چاہیے۔ یہ مشورہ لے کر حضرت عمرؓ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق ؓکے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا یہ مزاج تھا کہ جو کام حضورؐنے کیا ہے وہ میں اسی طرح کروں گا‘ اور جو کام حضورؐ نے نہیں کیا وہ میں ہرگز نہیں کروں گا۔ وہ ثانی اثنین تھے‘ گویا حضوؐر کا مثنیٰ تھے اور بالکل ۱۰۰ فی صد حضوؐر کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اپنے اس مزاج کے عین مطابق انھوں نے کہا کہ جو کام حضوؐر نے نہیں کیا وہ میں کیوں کروں؟ حضرت عمرؓ ،ان کو سمجھاتے رہے‘ بہت دیر تک گفتگو ہوئی اور کافی دیر کی گفتگو کے بعد بالآخر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اطمینان ہوگیا کہ یہ کام کرنا چاہیے۔
اب ان دونوںبزرگوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایاجو کاتبانِ وحی میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور حضور علیہ السلام کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے‘ اور حضور علیہ السلام کی غیرقوموں کے ساتھ تمام خط و کتابت وہی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے جو تبلیغی خطوط لکھے تھے وہ بھی سارے کے سارے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ان کو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بلایا اور تفصیل سے ان کو بتایا کہ یہ کام ہم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو ابتدا میں خود حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے دیا تھا‘ یعنی جو کام خود آنحضرتؐ نے نہیں کیا آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں؟ اب یہ دونوں مل کر ان کو سمجھاتے رہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ ان دونوں بزرگوں سے بہت کم عمر تھے۔ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی اس وقت حضرت زید بن ثابتؓ تقریباً ۲۰‘ ۲۲ سال کی عمر کے ہوں گے۔ بہرحال ان دونوں بڑے معمربزرگوں کے سمجھانے سے بالآخر حضرت زیدؓ مان گئے۔ لیکن جب انھوں نے حضرت زیدؓ سے یہ کہا کہ اس کام کو تم کرو گے اور تمھیں یہ کام کرنا ہے تو حضرت زیدؓ بہت پریشان ہوئے۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگاکہ گویا انھوں نے احد پہاڑاُٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سر پر رکھ دی‘ یعنی اتنی بڑی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگر اس کے بجاے یہ حضرات مجھے کہتے کہ اُحد پہاڑ کو کھود کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دو تو میں تنہا اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہوجاتا اور یہ کام میرے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔
بہرحال حضرات شیخین کے اصرار پر حضرت زیدؓ اس عظیم الشان اور تاریخ ساز کام کے لیے آمادہ ہوگئے۔ خلیفۂ اول نے ان کی معاونت کے لیے چند ارکان پر مشتمل ایک کمیشن بھی بنا دیا جو ان صحابہ کرامؓ پر مشتمل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کتابت ِوحی کی خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔ ان حضرات کو اس ذمہ داری کے ایک نہایت بھاری ذمہ داری ہونے کا پورا اندازہ تھا۔ وہ اس بات کا پورا شعور رکھتے تھے کہ وہ قرآن پاک کو آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتابی شکل میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ کہ آیندہ آنے والے سب مسلمانوں کی فہمِ قرآن اور تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے۔ اس لیے حتی الامکان جو احتیاط ممکن ہو وہ اختیار کی جائے۔ یہ سب حضرات جن کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی وہ سب کے سب قرآن مجید کے حافظ اور صف اوّل کے علما میں سے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے خود براہِ راست ذات رسالتؐ مآب سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا۔ خود خلیفۂ رسول قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ ان کے قریب ترین مشیر اور رفیق سیدنا عمر فاروقؓ بھی حافظ قرآن تھے۔ خلیفۂ رسول کے پاس قرآن پاک سارا کا سارا لکھا ہوا موجود تھا‘ لیکن کتابی صورت میں یک جا مجلد نہ تھا۔ ان کے سب سے بڑے مشیرحضرت عمرفاروق ؓبھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم قرآن تھے۔ ان کے پاس بھی سارا قرآن پاک لکھا ہوا موجود تھا۔ خود اس کمیشن کے ارکان حافظ قرآن تھے۔ ان حالات میں یہ بہت آسان اور عام بات تھی کہ یہ لوگ اپنی یادداشت سے بیٹھ کر قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھ کر تیار کر دیں۔ ان کے پاس عرضہ میں پیش کیے ہوئے اجزاے قرآن موجود تھے لیکن اس کے باوجود خلیفۂ رسول نے ان کو مفصل ہدایات دیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ یہ کریں کہ آپ سب افراد جس قرأت پر متفق ہوں اور وہ قرأت خلیفہ اور حضرت عمرؓ کے حفظ کے مطابق ہو‘ پھر سب حضرات کی تحریریں ان کی یادداشتوں کی تائید کریں‘ اس کے بعد بھی ہر آیت کی تائید دو صحابہؓ کے حلفیہ بیانات سے ہو‘ جوآکر یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ آیت ہم نے حضور علیہ السلام کو سنائی تھی اور اسی طرح سن کر حضورعلیہ السلام نے منظور فرمائی تھی۔ پھر ہر آیت کی تائید اور ثبوت میں دو دو تحریریں پیش کی جائیں جن کے بارے میں یہ گواہی دی جائے کہ یہ تحریر حضورعلیہ السلام کو پڑھ کر سنائی گئی تھی اور آپؐ نے اس کو اسی طرح منظور فرمایا تھا۔ ایسی ہر تحریر کے دو چشم دید گواہ ہوں اور جو یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ تحریر حضور علیہ السلام کو سنائی گئی تھی اور ہم وہاں موجود تھے‘ جب آپؐ نے اس کی تصحیح فرمائی‘ اور ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ سب بیانات اور شہادتیں مکمل ہوجائیں تب اس کو لکھا جائے۔
اس حتی الامکان احتیاطی طریقۂ کار کے مطابق انھوں نے قرآن پاک کو لکھنا شروع کردیا اور ترتیب کے ساتھ چند ماہ میں پورے قرآن کی تدوین مکمل ہوگئی۔ اس پورے عمل میں ایک لفظ اور ایک حرف کا بھی کہیں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ البتہ دو آیتیں قرآن پاک کی ایسی رہ گئیں جن کے بارے میں ایک مشکل سوال پیدا ہوگیا۔ قرآن پاک کی یہ دو آیتیں سورئہ توبہ کی آخری دو آیات تھیں۔ کمیشن کے ارکان نے کہا کہ ہم سب کو یاد ہے کہ یہ سورئہ توبہ کی آخری آیات ہیں۔ ہمارے پاس جو ذاتی تحریری ذخیرہ ہے اس میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو یاد ہیں اور ان کی تحریروں میں بھی موجود ہیں۔ دو گواہ بھی آگئے‘ انھوں نے حلفیہ بیان بھی دے دیا کہ ہم نے یہ دونوںآیات اسی طرح حضور علیہ السلام کو سنائی تھیں۔ ان دونوں گواہان کی زبانی گواہی کے علاوہ دو تحریری شہادتیں بھی آگئیں۔ لیکن ان میں سے ایک تحریری یادداشت کے تو دو گواہ موجود تھے‘ البتہ دوسری تحریری یادداشت کے حق میں صرف ایک گواہی دستیاب ہوسکی۔
اب کسی نے کہا کہ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں۔ کوئی حرج نہیں اگر دوسری دستاویز کے دو گواہ نہیں ہیں۔ لیکن کمیشن نے بالآخر یہی طے کیا کہ جب ایک اصولی طریقۂ کار طے ہوچکا ہے تو اس کو نہیں توڑنا چاہیے۔ چنانچہ اعلان کرایا گیا کہ یہ آیت جس جس نے بھی عرضہ میں پیش کی تھی وہ آکر کمیشن کے سامنے گواہی دے۔ پورے شہر مدینہ میں اعلان کرا دیا گیا‘ لیکن کوئی نہیں آیا۔ پھر ایک کارندہ مقرر کیا گیا۔ اس نے گھر گھر جاکر ایک ایک صحابی سے پوچھا کہ جب یہ عرضہ ہو رہا تھا اور یہ دو آیتیں پیش ہوئی تھیں تو کیا تمھارے پاس اس وقت کا کوئی گواہ موجود ہے؟ اس پر بھی کوئی گواہ نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ایسا ہوا ہو۔ ممکن ہے کچھ لوگ سفر پر گئے ہوں‘ ممکن ہے بعض گواہان کا انتقال ہو گیا ہو‘ممکن ہے ایسے بعض صحابہ جو وہاں موجود ہوں‘ حج پر گئے ہوئے ہوں۔ غرض بہت سے امکانات ہوسکتے ہیں‘ کئی باتیں ہو سکتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کوئی آدمی نہیں ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ شہر اور قرب و جوار کی بستیوں میں عام منادی کرائی جائے۔ وہ بھی کرا دی گئی۔ دوسرا گواہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔ اس پر خلیفۂ وقت کے حکم سے جمعہ کی نماز میں بڑے اجتماع میں یہ مسئلہ لوگوں کے سامنے رکھا گیا۔ وہاں کسی نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ جو دستیاب ہے وہ کون ہے‘ اس پر ایک صحابی نے بتایا کہ وہ ایک گواہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ ہیں۔ یہ نام سننا تھا کہ بہت سے حضرات کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا جس سے فوراً مسئلہ حل ہوگیا۔
مسئلہ کیسے حل ہوگیا؟ اس کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو یہ زمانہ حضور علیہ السلام کے انتقال کے آٹھ دس ماہ بعد کا تھا۔ آپ اس زمانے سے ذرا تین چار سال پہلے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی حیات تھے‘ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شہر سے باہر ٹہلنے یا حالات کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی تو صبح کی نماز کے بعد تشریف لے جایا کرتے تھے اور کبھی عصر کی نماز کے بعد۔ ایسے ہی کسی موقع پر حضور علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ایک قبیلہ پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ وہاں خیمے لگے ہوئے تھے اور ایک بدو ایک گھوڑا یا اُونٹ لیے کھڑا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں بیچتا ہوں۔ قیمت پوچھی‘ اس نے قیمت بتادی۔ آپؐ نے فرمایا: چلو میرے ساتھ چلو‘ میں تمھیں قیمت ادا کر دیتا ہوں۔ چنانچہ دونوں مدینہ منورہ کی سمت چل پڑے۔ حضور علیہ السلام آگے آگے چل رہے تھے اور بدو اُونٹ یا گھوڑا لیے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ یہ جانور فروخت ہوچکا ہے۔
ایک صاحب نے بدو سے پوچھا کہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں! کتنی قیمت دو گے؟ ان صاحب نے کچھ زیادہ پیسے لگا دیے۔ اس پر بدو بولا: ٹھیک ہے‘ میں تیار ہوں۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور فرمایا کہ یہ جانور تو تم نے مجھے بیچ نہیں دیا تھا؟ اس نے کہا: میں نے تو نہیں بیچا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے پھر فرمایا: تم سے اتنی قیمت کی ادایگی کی بات نہیں ہوئی تھی؟ اس نے کہا: نہیں‘ اور صاف مکر گیا۔ جب حضور علیہ السلام نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو اس نے کہا: آپؐ کے پاس کوئی گواہ ہو تو لایئے۔ حضور علیہ السلام نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ وہاں تو آپؐ تنہا ہی تھے۔ یہاں اتفاق سے ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے یہ جانور اس شخص سے اتنی قیمت میں خریدا ہے۔ اس پر وہ بدو خاموش ہوگیا۔ آپؐ نے اس کو قیمت ادا کر دی‘ بلکہ کچھ زیادہ بھی دے دیے اور جانور لے کے آگئے۔ اس کام سے فارغ ہوکرآپؐ نے خزیمہؓ سے پوچھا: میں نے تو تمھیں وہاں نہیں دیکھا! تم کہاں کھڑے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: میں تو وہاں نہیں تھا! آپؐ نے پوچھا: تم نے پھر گواہی کیسے دے دی؟ حضرت خزیمہؓ نے جواب میں عرض کیا: میں روز گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ کے پاس جبریل امین آئے اور وحی لے کر آئے‘ اور یہ کہ جنت دوزخ موجود ہیں۔ جب میں یہ سب ان دیکھی باتیںسچ مان رہا ہوں تو یہ معمولی سی بات کیسے نہ مان لوں؟ اس پر حضور علیہ السلام بڑے خوش ہوئے اور آپؐ نے فرمایا کہ آج سے خزیمہؓ کی گواہی دوآدمیوں کے برابر مانی جائے گی۔
یہ واقعہ کئی صحابہ کرامؓ نے دیکھا اور سنا ہوا تھا۔ جوں ہی انھوں نے یاد دلایا تو دوسروں کوبھی یاد آگیا۔ اب لوگوں کو احساس ہوا کہ حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو جو دو آدمیوں کے برابر قرار دیا گیا تھا یہ کیوں قرار دیا گیا تھا۔ شاید اسی موقع کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ چنانچہ اس ارشاد نبویؐ کی بنیاد پر ان دو آیتوں کے بارے میں حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو دو کے برابر تسلیم کرلیا گیا۔ اور یہ دونوں آیتیں سورئہ توبہ کے آخر میں لکھ دی گئیں۔
اس طرح قرآن کا پہلا مکمل اور کتابی شکل میں مرتب شدہ نسخہ تیار ہوگیا۔ یہ نسخہ جس کو مشورے سے مصحف کے نام سے یاد کیا گیا‘ حضرت ابوبکرصدیق ؓکے قبضے میں رہا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس رہا‘ اور ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہؓ کی تحویل میں رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے تک یہ روایت چلی آرہی تھی کہ عرب کے مختلف قبائل کو اجازت تھی کہ قرآن مجیداپنے اپنے لہجے میں پڑھ لیا کریں۔ ہر زبان میں مختلف قبیلوں اور علاقوں کے لہجے مختلف ہوتے ہیں۔ زبان تو ایک ہی ہوتی ہے‘ لکھی بھی ایک ہی طرح جاتی ہے لیکن لوگ مختلف انداز میں پڑھتے اور بولتے ہیں۔ امریکہ والے often کو’’آف ٹن‘‘پڑھتے ہیں لیکن انگریز اس کو ’’آفن‘‘ پڑھتے ہیں۔ امریکہ والے scheduleکو ’’اس کے ڈول‘‘ بولتے اور پڑھتے ہیں‘ جب کہ انگریز اس کو ’’شیڈول‘‘ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اُردو کا معاملہ ہے۔ برعظیم کے بعض علاقوں میں لوگ انیس(۱۹) کو’’وینس‘‘ پڑھتے ہیں۔ چونکہ عرب قبائل مختلف علاقوں میں آباد تھے اور مختلف لہجے ان کے ہاں رائج تھے‘ اس لیے آغاز میں ہر قبیلہ اپنے اپنے لہجے میں قرآن پاک پڑھا کرتا تھا۔ قبائلی عصبیت بڑی شدید ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے آغاز میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کو قریش کے لہجے کا پابند نہیں کیا جو عربی زبان کا ٹکسالی لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ہم اُس دور کی قبائلی عصبیت اور کشاکش کا تصور کریں تو صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس ماحول میں عرب کے بدوئوں سے آغاز ہی میں یہ کہنا کہ تم اسلام بھی قبول کر لو اور اپنا لہجہ بھی چھوڑ دو ایک ناممکن سی بات تھی۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزرتی اور ممکن ہے وہ قریشی لہجے کو معیاری ماننے سے گریز کرتے اور اصرار کرتے کہ ہمارا اپنا لہجہ بڑا معیاری ہے۔ اس لیے حضورعلیہ السلام نے اس پر اعتراض نہیں کیا‘ بلکہ جوجس لہجے میں پڑھتا تھا‘ اس کو اسی لہجے میں پڑھنے کی اجازت دی کہ اپنے ہی لہجے میں پڑھو‘ مثلاً بعض لوگ ’’ک‘‘ کو ’’ش‘‘ بولتے تھے‘ بعض ’’ب‘‘ کو ’’م‘‘ پڑھتے تھے۔ بعض ’’ال‘‘ کو ’’ام‘‘پڑھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی تلفظ کا یہ اختلاف جاری رہا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتاً توجہ دلاتے رہے کہ قرآن جس لہجے میں اتارا گیا ہے وہ قریش کا لہجہ ہے اور یہ کہ قریش کا لہجہ ہی معیاری ہے۔
حجاز کے باہر کے صحابہ کرامؓ میں جو جوحضرات تعلیم حاصل کرتے جاتے تھے وہ قریش کا معیاری اور ٹکسالی لہجہ اختیار کرتے جاتے تھے۔ لیکن عام لوگ اور بدو پس منظر کے حامل حضرات اپنے مخصوص قبائلی یا علاقائی لہجے میں ہی پڑھتے رہے۔ اب جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا تو یہ وہ دور تھا کہ نئی نئی نسلیں اور نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں۔ ایرانی‘ ترکی‘ رومی‘ حبشی وغیرہ جو عربی نہیں جانتے تھے وہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کر رہے تھے۔ ان نئے مسلمانوں نے جوش و خروش سے عربی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ ان میں سے جس نے جس عرب سے قرآن سیکھا اسی کے لہجے میں قرآن پڑھنا شروع کر دیا‘ مثلاً کسی یمنی نے اپنے نومسلم دوستوں اور شاگردوں کو اپنے لہجے میں قرآن سکھایا تو کسی کوفہ والے نے اپنے لہجے میں سکھا دیا۔
حضرت عثمان غنیؓ جب خلیفہ تھے اس وقت مسلمانوںکی فوجیں دنیا کے مختلف حصوں میں مصروف جہاد تھیں۔ آذربائیجان کے علاقے میں بھی جہاں آج کل نکوروکاراباخ کا جھگڑا چل رہا ہے اور آرمینیا کے علاقے میں بھی۔ مشہور صحابی حضرت حذیفہؓ بن یمان بھی آرمینیا کے مجاہدین میں شامل تھے۔ یہ ایک انتہائی محترم اور معزز صحابی تھے اور حضور علیہ السلام کے خاص رازدان سمجھے جاتے تھے۔ وہ بھی وہاں جہاد میں شریک تھے۔ ایک دن انھوں نے دیکھا کہ امام نے نماز پڑھائی اور ایک خاص لہجے میں تلاوت کی۔ نماز کے بعد کئی لوگوں نے امام صاحب کے لہجے پر اعتراض کیا اورکہا کہ تم نے غلط پڑھا۔ امام صاحب نے جواب میں کہا کہ میں نے تو فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ جن حضرات نے اعتراض کیا تھا انھوں نے کہا کہ ہم نے فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت حذیفہؓ نے اپنے امیر سے کہا کہ مجھے جہاد سے چھ ماہ کی چھٹی دے دیں‘ میں ضروری کام سے فوراً مدینہ جانا چاہتا ہوں۔
انھوں نے اسی وقت سواری لی اور سیدھے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ کئی ماہ کے سفر کے بعد وہ مدینہ طیبہ پہنچے۔ کہتے ہیں کہ دوپہرکا وقت تھا اور گرمی کا زمانہ تھا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ذرا آرام کرکے پھر امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ سے ملاقات کے لیے جائیں‘ لیکن حضرت حذیفہؓ نہ مانے۔ سیدھے حضرت عثمان غنیؓ کے گھر پہنچے۔ وہ پریشان ہوکر نکلے کہ دیکھیں کہ حضرت حذیفہؓ اچانک کیسے اور کیوں آئے ہیں۔ بولے: آپ تو جہاد پر گئے ہوئے تھے پھر اچانک کیا بات ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا: امیرالمومنین! مسلمانوں کی خبرلیں قبل اس کے کہ کتاب اللہ میں اختلاف پیدا ہو‘ اور ان کو اختلاف قرأت کا واقعہ سنایا اور کہا کہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ قرآن کے بارے میں اس طرح کے اختلاف کی اب اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج لہجے کا اختلاف ہے‘ کل ممکن ہے کوئی اور اختلاف پیدا ہوجائے۔ اس لیے آج ہی اس کاکچھ حل تلاش کریں۔ دونوں حضرات نے بیٹھ کرطے کیاکہ حضرت حفصہؓ کے پاس جو قرآن کا نسخہ ہے۔ اس کو منگوا کر اس کی کاپیاں تیار کروائی جائیں اور تمام دنیاے اسلام کے شہروں میں بھیج دی جائیں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے حکم سے ۱۱نسخے (اور بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ سات نسخے) تیار کیے گئے۔ دوبارہ حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ ان ۱۱ یا ۷ نسخوں کو تمام بڑے بڑے شہروں میں بھجوا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے انفرادی نسخے اب تک لوگوں کے پاس موجود ہیں‘ وہ سب سرکار کے حوالے کر دیے جائیں۔ یہ سب انفرادی نسخے ضبط کر کے بعد میں تلف کر دیے گئے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ آیندہ جس کسی کو قرآن کا نسخہ تیار کرنا ہو وہ ان نسخوںسے تیار کرے‘ اور یہ نسخہ قریش کے لہجے اور قریش کے رسم الخط کے مطابق تیارکیا جائے۔ چنانچہ آیندہ قرآن پاک کے تمام نسخے ۱۰۰ فی صد اُسی لہجے اور ہجے کے مطابق لکھے گئے جو حضور علیہ السلام کا اپنا لہجہ تھا۔ اس سے قبل سب لوگ اپنے اپنے ہجے کے مطابق لکھا کرتے تھے۔ لہجے کے اختلاف سے ہجے کا اختلاف ہو سکتاہے۔ ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ سے قرآن پاک سنتے تھے تو وہ ہجے اور طرزِتحریر نہیں پوچھتے تھے۔ ان حالات میں اس کا امکان تھا کہ ایک ہی لفظ کے ہجے مختلف انداز سے رواج پاجائیں۔ یہ امکان اس لیے بھی تھا کہ اس وقت تک عرب میں لکھنے لکھانے کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ عرب میں بہت تھوڑے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بلاذری کی روایت کو درست مانا جائے تومکہ میں صرف ۱۷ آدمی نوشت و خواند سے واقف تھے۔ ایسی صورت میں ہجے اور طرزِتحریر کی باقاعدہ standardization نہیں ہوئی تھی۔ معیاری اور متفق علیہ طرزِہجا کی عدم موجودگی میں اس کا امکان خاصا تھا کہ ایک ہی لفظ کو مختلف لوگ مختلف انداز سے لکھنا شروع کر دیں۔ اس امکان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر ممکنہ خدشات سے بچنے کے لیے قریش کے ہجے میں قرآن پاک کے یہ ۷ یا ۱۱ نسخے تیار کرائے گئے۔ باقی سب نسخے ضبط کرکے ضائع کر دیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ آیندہ سب لوگ اِنھی مستند نسخوں کے مطابق نقلیں تیار کرلیں۔ چنانچہ اس کے بعد سے تمام نئے نسخے ان اصل نسخوں کے مطابق تیار ہوئے اور یہ ۱۱نسخے انھوں نے تمام دنیاے اسلام میں تقسیم کر دیے۔
ان نسخوں میں سے تین نسخے اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں۔ اتفاق سے مجھے ان تینوں نسخوں کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ایک لندن کے مشہور برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ دوسرا استنبول (ترکی) میں ہے اور تیسرا تاشقند میں ہے‘ ازبکستان کے دارالحکومت میں۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں تیار ہوا تھا‘ اور خلیفہ کے پاس رہتا تھا‘ اور یہی وہ نسخہ ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کے ذاتی استعمال میں رہتا تھا۔ جب وہ شہید ہوئے تو وہ اسی نسخے کی تلاوت فرما رہے تھے۔ مشہورہے کہ ان کا خون بھی قرآن کے صفحات پر گرا تھا اور اس کی نشانی بھی ان صفحات پر موجود ہے۔ میں نے خود اس کی زیارت کی ہے۔ تاشقند والا نسخہ حمزہ سٹریٹ میں کلاں مسجد کی ایک لائبریری میں رکھا ہوا ہے۔
یوں حضرت عثمان غنیؓ نے یہ نسخے تیار کروا دیے اور یہ سارے نسخے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے جو رسم الخط اختیار کیا تھا آج تک اس رسم الخط کی پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور رسم الخط میں قرآن پاک لکھنے کی مسلمانوں نے اجازت کبھی نہیں دی۔ عربی کے عام رسم الخط میں اور قرآنی رسم الخط میں تھوڑا سا فرق ہے۔ مثال کے طور پر ’’قال‘‘کا لفظ ہے جو ق ا ل کی صورت میں عربی میں لکھا جاتا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہیں ملا کر ’’قل‘‘ لکھا تھا۔ اب جہاں انھوں نے کھڑے زبر سے لکھا تھا آج تک کھڑے زبرسے ہی لکھا جاتا ہے۔ اس کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ایران‘ توران‘ عرب‘عجم‘ ہرجگہ قدیم زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک اس جگہ ’’قل‘‘ اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ عام عربی تحریر میں اس طرح نہیںلکھا جاتا۔ اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے‘ یہ ہمیں نہیں معلوم۔ ممکن ہے کسی مصلحت سے ایسا کیا ہو یا محض اتفاق سے اس طرح لکھا گیا ہو۔ ممکن ہے کوئی حکمت ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔دو جگہ قرآن پاک میں ایسا بھی ہے کہ ایک حرف زائد لکھا ہے‘ مثلاً سورئہ ذاریات (۲۷ ویں پارے میں) کی آیت نمبر ۴۷ میں بِاَییْدٍ میں ایک یا ے زائد لکھی گئی ہے۔ ایک ی کے دو نقطے ہیں اور ایک ی کا صرف نشان بنا ہوا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے اُس وقت اسی طرح لکھا ہوگا اور آج تک یہ اسی طرح لکھا جا رہا ہے۔ اس طرزِ تحریر کی حکمتوں پر بہت سی بحثیں کی گئی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ بھولے سے ایک ہی ی کا نشان زائد لکھا گیا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس میں کچھ مصلحت ہے۔ غرض اس پر بہت سے لوگوں نے غور کیا‘ اور نئے نئے نکتے نکالے ہیں۔
الغرض جس انداز میں حضرت زید بن ثابتؓ نے قرآن مجید لکھا تھا اسی انداز میں آج کے زمانے تک لکھا جا رہا ہے۔ اس خط کو رسم عثمانی کہتے ہیں اورآج تک اس کی پیروی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ دنیا میں قرآن مجید کے جتنے بھی نسخے ہیںوہ انھی ۱۱ نسخوں کی نقل ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ نے تیار کروائے تھے۔
اسلامی فکر اور معاشی فکر دونوں صدیوں سے انسانی زندگی کی آب یاری کر رہے ہیں مگر ان دھاروں کا ملاپ جس طرح بیسویں صدی میں ہوا پہلے نہیں ہوا تھا۔ معاشی فکر کی تاریخ پر اب جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں وہ ابن خلدون کے اضافوں کا اعتراف کرتی ہیں جو آدم اسمتھ سے تقریباً ۴۰۰ سال پہلے گزرے تھے۔ علما ے اسلام حکمت تحریم ربا اور زکوٰۃ کے سماجی اور معاشی فوائد پر روز اول سے روشنی ڈالتے رہے۔ کبھی کبھی وہ قیمتوں کے رسد و طلب کی قوتوں کے نتیجے میں تعین اور زرعی معاشرے کی ترقی اور بربادی پر بھی کوئی بات کہہ گئے مگر یہ شرف آدم اسمتھ کے معاصر شاہ ولی ؒ اللہ دہلوی کو حاصل ہے کہ انھوں نے ’’ارتفاقات‘‘ کی مشہور بحث میں انسانی سماج کے معاشی ارتقا کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔ شاہ صاحب کے ۲۰۰ سال بعد برعظیم ہند میں اس مکتب ِفکر کا ظہور ہوا جو آج ساری دنیا میں ’’اسلامی معاشیات ‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔
معاشیات کی نسبت سے اس علم کا امتیاز یہ ہے کہ یہ انسان کی معاشی زندگی کو سمجھنے اور اسے سدھارنے‘ دونوں کاموں میں اس بصیرت سے بھی کام لیتا ہے جو ہدایت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کی نسبت سے اس علم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معاملات کے اس دائرے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو ٹکنالوجی اور دیگر تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس دائرے میں اجتہاد کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔ شاہ ولی ؒ اللہ کے نام سے دیے جانے والے ایوارڈ براے ۲۰۰۱ء کو اسلامی معاشیات کے لیے مختص کر کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز نے اگر ایک طرف اس علم کی اہمیت پہچانی ہے تو دوسری طرف اس علم کی نسبت سے شاہ صاحب کے pioneering مقام کی بھی نشان دہی کی ہے جس کے لیے میں انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رہا اس ایوارڈ کے لیے بورڈ کی طرف سے میرا انتخاب تو اس کی مبارک باد اپنی خوش نصیبی کو ہی دے سکتا ہوں۔
بیسویں صدی کے شروع میں علامہ اقبالؒ نے اقتصادیات پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا پس منظر پنجاب کے مسلمان مزارعین کو درپیش مسائل تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں مفتی محمد عبدہؒ ڈاک خانے میں جمع کی جانے والی بچتوں اور ان پر ملنے والے سود کے پس منظر میں شرکت و مضاربت پر غوروفکر کررہے تھے۔ چند دہائیوں کے بعد جب مسلم ممالک اور ہندستان دونوں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی نبردآزمائی نے زور پکڑا تو مسلمان دانش ور اور علماے دین اسلام کی معاشی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوئے اور بات اقبال کی شاعری سے آگے بڑھ کر انور اقبال قریشی‘ مناظر احسن گیلانی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودی اور محمد باقر الصدر کی تصانیف تک پہنچی جنھیں اسلامی معاشیات کی اولین کھیپ میں شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ عالمی سطح پر اس علم کے رسمی آغاز کی تاریخ ۱۹۷۶ء ہے جب مکہ مکرمہ میں اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس عرصے میں اسلامی معاشیات مشرق و مغرب کی یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ دینی درس گاہوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیق کے وہ موضوعات جن کا تعلق اسلامی معاشیات سے ہو ہر جگہ قابل قبول ہیں۔ نصف درجن سے زائد ان علمی رسالوں کے علاوہ جو اسی علم کے لیے مخصوص ہیں‘ ہر علمی رسالہ اس موضوع پر تحقیقی مقالات خوش دلی سے قبول کرتا ہے۔ اسلامی معاشیات کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت بتاتی ہے کہ یہ صرف جذبات کی کھیتی نہیں ہے۔ اس کے پاس دینے کے لیے کچھ ضرور ہے جو انسانوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس دین (contribution) کا تعلق ان حالات سے ضرور ہے جن سے آج مسلمان سمیت سارے انسان دوچار ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سماجی مقاصد اور اخلاقی قدروں کو رفتہ رفتہ بے دخل کر کے معاشیات کو فزکس کی طرح کا علم بنانے کا جو پروجیکٹ ۲۰۰سال پہلے چلایا گیا وہ ناکام ثابت ہوا۔ اس پروجیکٹ کے ذاتی منفعت کے بیش از بیش حصول کے مفروضہ اور maximisation کے معیار کو ریاضیات کے استعمال سے سازگار پا کر اختیار کیا گیا۔ مگر فزکس کے برعکس جس میں سائنس دان کے مفروضات کا مادے کے عناصر کے رویے پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ سماجی علوم بالخصوص معاشیات میں مفروضے معیار بن سکتے ہیں۔ جدید علمِ معاشیات نے سرمایہ داری کا جواز فراہم کیا‘ نوآبادیاتی توسیع (colonial expansion)کو مہمیز دی اور بالآخر مفادات کے ٹکرائو کے نتیجے میں دنیا کو دو عظیم جنگوں سے دوچار کیا۔ آخرکار عظیم عالمی کساد بازاری کے ردعمل میں کینز کے خیالات کو قبول کرتے ہوئے روزگار فراہم کرنے کی خاطر بازار کی قوتوں کو لگام لگانے کا تصور قبول کیا گیا اور اس طرح فلاحی ریاست وجود میں آئی۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مارکس کے افکار اور اشتراکیت کی ناکامی کی طرح فلاحی ریاست بھی اپنے بوجھ تلے آپ دم توڑ رہی ہے۔ اس طرح جو خلا پیدا ہوا اسے زر کی بابت پالیسی پر انحصار (monetarism) کے اُلٹے قدم نے بھی نہیں پر کیا بلکہ اہم معاشی فیصلوں میں جن پر قوموں کی خوش حالی ہی کا نہیں بین الاقوامی سطح پر امن کا بھی انحصار ہے‘ ایک بار پھر ایسے فیصلوںکو اہل ثروت اور کثیرالاقوام کاروباری اداروں (multinational corporations) کے تابع کر دیا۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی غیرمعمولی معاشی ترقی کے باوجود‘ دولت اور آمدنی کی تقسیم میں ناہمواری اور عدمِ توازن قوموںکے اندر بھی بڑھا ہے اور قوموں کے درمیان بھی۔
ان حالات کے ردعمل میں کچھ عرصے سے علمِ معاشیات کے مفروضات اور اس کے منہاج (methodology) پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ اخلاقی اقدار کی طرف رجوع اسی نظرثانی کا ایک مظہر ہے۔ ہندستان کے ایک سپوت نوبل انعام یافتہ امرتیہ کمارسین کے افکار اور قحط اور بھک مری پر ان کا کام اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک ٹھیٹھ ماہر معاشیات کے لیے اب بھی یہ بات ماننا بہت مشکل ہے کہ اس کے علم میں اخلاق و مذہب کا بھی کوئی حصہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے کہ اخلاق و مذہب کا تعلق مقاصد سے ہے‘ جب کہ علمِ معاشیات کا مرکز ِتوجہ ذرائع ہیں۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ ذرائع و مقاصد کے درمیان یہ تفریق اور ان کی قطعی دوئی کا تصور ایک بانجھ تصور ہے جس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا۔ مقاصد کو ذرائع سے اور ذرائع کو مقاصد سے الگ کرکے دیکھنے کے لیے ہمیں انسانی طرزِعمل کی بابت ایسے مفروضات کا سہارا لینا پڑا جو حقیقت سے دُور لے گئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بے مقصد کوئی بھی ذریعے کی طرف توجہ نہیں کرتا‘کوئی غرض ہوتی ہے تب ہی ہم ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ ذرائع کا مطالعہ مقاصد سے تجاہل برت کر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خود ذریعے کے تصور میں مقصد کا شعور چھپا ہوا ہے۔
اسلامی معاشیات کے علم بردار علمِ معاشیات کو کفایت (effeciency) کی جستجو سے ہٹانا نہیں چاہتے۔ وہ اس جستجو کو سماجی عدل اور طمانیت نفس سے آگاہ دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ذرائع کا ایسااستعمال عمل میں آئے جو افزایش دولت کے ساتھ دولت اور آمدنی کی عادلانہ تقسیم کا بھی ضامن ہو۔ نیو کلاسیکی علمِ معاشیات کی رہنمائی میں کام کرنے والا مروجہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اس سے محروم ہے۔ اس صورت حال کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ علمِ معاشیات کو اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا جائے۔ اختلاف مذاہب کے باوجود دنیا کے بیشتر انسان سچائی‘ ہمدردی‘ مساوات‘ امانت و دیانت‘ عدل و انصاف جیسی بنیادی اخلاقی اقدار پر متفق ہیں اور ان کی عظیم اکثریت کو اس بات کا بھی شعور ہے کہ اخلاقی اقدار میں استحکام اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی جڑیں خدا اور آخرت کے تصورات میں ہوں جو ہمیں مذہب دیتا ہے۔ مواصلاتی انقلاب کی لائی ہوئی گلوبلائزیشن کی نئی لہر کے نتیجے میں دنیا بدل رہی ہے۔ اہل مشرق بالخصوص ترقی پذیر مسلمان ملکوں کو شکایت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ کی تسلّط پسندی (hegemony) نے گلوبلائزیشن کو ان کے حق میں باعث رحمت بنانے کے بجاے وبالِ جان بنا رکھا ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ایک ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کے حوصلے بھی یکساں ہوگئے ہیں۔ اُسی نظام کو ہمہ گیری حاصل ہو سکے گی اور وہی دیرپا ثابت ہوگا جو انسانوںکو عدل‘ مساوات اور جمہوریت کی ضمانت دے نہ کہ ایک نئے استعمار کا شکار بنا کر رکھے۔ لیکن اس تبدیلی کے لیے علمِ معاشیات کو بدلنا ہوگا اور ذرائع کے باکفایت استعمال کے ساتھ اسے عدل و مساوات اور جمہوریت کا بھی خادم بنانا ہوگا۔
خواتین و حضرات! اسلامی معاشیات اسی منزل کی طرف ایک قدم ہے۔ آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ملک ] بھارت[ میں بھی یہ علم اجنبی نہیں رہا۔ ملک کی متعدد یونی ورسٹیاں اسلامی معاشیات سے متعلق موضوعات پر ریسرچ کرنے والوں کو ڈا کٹریٹ کی ڈگریاں دے چکی ہیں۔ بعض یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات سے متعلق کورس پڑھائے جانے لگے ہیں۔ انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس کا دو ماہی بلیٹن اور انسٹی ٹیوٹ آف ابجیکٹیواسٹڈیز کا علمی رسالہ اسلامی معاشیات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی فنانس کی فراہمی کے سلسلے میں بھی بعض ادارے کام کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی نے پانچ دن کی مختصر اور ریکارڈ مدت میں قومی بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے باوجود بجٹ پر قومی سطح پر بحث و مباحثے کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ درحقیقت بجٹ اگر ایک طرف اقتصادی لائحہ عمل پر مبنی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسرا اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ یہ حکومت کی معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہے جس کا ملک کی سلامتی اور سیاسی و داخلی صورت حال سے گہرا تعلق ہے۔ اسی تناظر میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) نے بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کا ایک جائزہ تیار کیا جس کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ملک کی مجموعی صورت حال کے ان پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر معیشت اور معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ دوسرے حصے میں حکومت کی اقتصادی حکمت عملی اور اس کی جانب سے پیش کیے گئے اقتصادی جائزے اور کارکردگی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کے اہداف اور بجٹ تجاویز پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ چوتھے حصے میں اہم اور کلیدی تجاویز کو سفارشات کی صورت میں یکجا پیش کر دیا گیا ہے۔ ہم اپنی تنگ دامنی کے باعث یہاں صرف پہلا اور چوتھا حصہ پیش کر رہے ہیں۔٭ (ادارہ)
۱- مالی سال ۰۴-۲۰۰۳ء کے وفاقی بجٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ۲۱ویں صدی بلکہ نئے ہزاریے کا پہلا بجٹ ہے جو تین سالہ فوجی اقتدار کے بعد‘ سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم بظاہر ایک غیر فوجی سیٹ اپ کے قائم ہو جانے کے باوجود سیاسی غیر یقینی‘ عدم استحکام اور بے چینی کی فضا اگر بڑھی نہیں تو ختم بھی نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ‘ بالخصوص ایل ایف او کے مسئلے پر حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کا نہ ہونا ہے جس کے نتیجے میں ایل ایف او میں تجویز کردہ دستوری ترمیمات متنازعہ ہوگئیں‘ اور اس وجہ سے ایسے تمام اقدامات کے بارے میں سندِجواز کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جو پارلیمنٹ کی بحالی کے بعد بھی جاری ہیں۔ دوسری معروضی حقیقت جس کا ادراک نہ کرنا مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے‘ یہ ہے کہ وفاق اور بعض صوبائی حکومتوں اور ضلعی حکومتوں کے درمیان تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں۔ بجٹ ایک ایسی قومی دستاویز ہے جو قومی سطح پر ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی لیے بجٹ کی تیاری کے عمل میں عوامی نمایندوں اور عوام کے مختلف طبقات کی شرکت اور قومی سطح پر بھرپور بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر غیر یقینی کی فضا اور ہم آہنگی کے فقدان کے باعث بجٹ کے موجودہ دروبست میں یہ عنصر موجود نہیں جسے اقتصادی نقطہء نظر سے کسی بھی طرح خوش آیند قرار نہیں دیا جاسکتا۔
۲- ۰۳-۲۰۰۲ء کے دوران پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر سخت تنائو رہا۔ بھارت نے اپنی فوجیں سرحدوں پر جمع کر لیں۔ جواباً ہمیں بھی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر ایسا ہی کرنا پڑا۔ اس اقدام سے اقتصادی وسائل پر بھی ایک بڑا دبائو پڑا جس کے اثرات بالخصوص دفاعی اخراجات کی مد میں مالی سال ۰۳-۲۰۰۲ء کے نظرثانی شدہ تخمینے میں نظر آتے ہیں۔ اس مد میں ابتدائی طور پر ۱۴۶ ارب روپے رکھے گئے تھے جو بڑھ کر۱ئ۱۶۰ ارب روپے ہو گئے ہیں۔ فوجی بجٹ سے فوجی عملے کی پنشنوں کو عام بجٹ میں منتقل کرنا اس پر مستزاد ہے جس کی مالی ذمہ داری بھی ۲۰ ارب کے پھیر میں آتی ہے۔ اگرچہ بھارتی فوج کے سرحدوں سے واپس چلے جانے کے باعث دبائو کی کیفیت اب اس قدر شدید نہیں رہی لیکن پیش بندی کے طور پر حملے (Pre-emptive strike) کے نظریے کے تحت عراق پر امریکی حملے اور قبضے‘ اور ایران‘ شام اور دیگر ممالک کو دی جانے والی امریکی دھمکیوں کو دیکھتے ہوئے اور مذاکرات کے لیے بظاہر مثبت ماحول کے باوجود‘ سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف دبائو بڑھانے کی بھارتی کوششیں وہ عوامل ہیں جو اقتصادی منظرنامے پر بھی براہ راست اثراندار ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر دفاع اور سلامتی کے تقاضے بھی توجہ طلب ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں اس سال ۳۱ فی صد کا اضافہ کیا گیا ہے اور اضافے کا یہ عمل گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
۳- اقتصادی سرگرمی اور اس میں ترقی‘ خصوصیت سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے داخلی سطح پر پُرسکون اور سازگار ماحول کی فراہمی لازمی ہے‘ تاہم گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں امن و امان کی صورت حال قابل رشک نہیں ہے۔ صورت حال کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث کے دنوں ہی میں بلوچستان میں پولیس افسران اور اہلکاروں کی ہلاکتیں اور کراچی میں ہدف بناکر قتل (target killing)کے واقعات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل کراچی میں پٹرول پمپوں پر حملے اور ماضی قریب میں گیس پائپ لائنوں کو بموں سے اڑانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا اقتصادی مرکز ہے۔ یہاں ایسی صورت حال بے حد تشویش ناک ہے۔ امریکی جریدے ٹائم نے اپنی حالیہ اشاعت (۱۶ جون ۲۰۰۳ئ) میں اسی وجہ سے کراچی کو امن و امان کے اعتبار سے ایشیا کا (سب سے خراب اور مشکل) Roughest and Toughest شہر قرار دے کر صورت حال کی نشان دہی کی ہے۔ ٹائم کی یہ تصویر کشی مبالغے پر مبنی ہے لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس نوعیت کے واقعات اور جائزے اقتصادی سرگرمی کو متاثر کرتے ہیں ‘ جن کے باعث ماحول معاشی سرگرمی کو پروان چڑھانے کے لیے سازگار نہیں رہتا۔ اس لیے ان عوامل پر نگاہ رکھنا اور انھیں مثبت بنانا ضروری ہے۔
۴- مالی سال ۰۳-۲۰۰۲ء کے اقتصادی جائزے (Economic Survey) کے مطابق معیشت کے بعض اشاریے بہت مثبت ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار میں ۱ئ۵ فی صد اضافہ متوقع ہے جو نہ صرف ۵ئ۴ فی صد کے ہدف سے زیادہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں سب سے بلند بھی ہے۔
۵- موجودہ منظرنامے کے ضمن میں گلوبلائزیشن اور عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن - WTO ) کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات اور مواقع بھی قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۹۵ء سے قائم شدہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مکمل نفاذ میں صرف ڈیڑھ سال باقی ہے ۔یکم جنوری ۲۰۰۵ء کے بعد تمام عالمی تجارت اس عالمی تنظیم کے فریم ورک اور قوانین و ضوابط کے تحت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے اور مسابقت کی بڑھتی ہوئی فضا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری صنعت و تجارت تیار ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے لیے کن اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
۶- معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو چار سال ہونے کو ہیں ‘ جب کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس کام کے لیے ملنے والی مہلت ابتداً صرف ڈیڑھ سال تھی ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس سلسلے میں کتنا کام کیا ہے‘ اور جو کام باقی ہے اس کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے؟
۱- اقتصادی سرگرمی کا ملک کی داخلی‘ سلامتی اور سیاسی صورت حال سے گہرا تعلق ہے۔ اقتصادی منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے دوران صورت حال کے ان تمام پہلوئوں‘ ان کے باہم تعلق اور اقتصادی اہداف اور اقدامات پر ان کے ممکنہ اثرات کا مؤثر طور پر احاطہ کیا جائے۔
۲- ملک میں بجٹ سازی اور بجٹ کی منظوری کا عمل آج بھی عملاً انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے جس طرح برطانوی دور میں ہوتا تھا۔ ۵۰ فی صد سے زیادہ اخراجات charged (وضع شدہ) ہوتے ہیں جن میں پارلیمنٹ کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ بقیہ میں بھی محض علامتی تبدیلی کی گنجایش ہوتی ہے۔ بجٹ پر عام بحث کے لیے بہت محدود وقت ہوتا ہے اور بجٹ تجاویز محض ایک سال کے تناظر میں تیار کی جاتی ہیں۔ حکومت نے اس بار میڈیم ٹرم فریم ورک کا اعلان کیا ہے جو خوش آیند ہے لیکن درحقیقت بجٹ سازی اور مالیاتی نظم و ضبط کے پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
۳- انسانی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ ان وسائل کو استعمال کرنے کی موزوں حکمت عملی ہے۔ اچھے طرزِ حکومت (Good Governance) کا قیام‘ کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کا فروغ وہ اہم ترین اہداف ہیں جن کے حصول کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
۴- کلاں معاشی (Macro Economic) استحکام کی حکمت عملی سے بعض پہلوئوں سے معیشت میں بہتری آئی ہے‘ تاہم اس حکمت عملی کے نقصانات بھی ہیں جن میں بڑھتی ہوئی غربت‘ بے روزگاری اور معاشی ناہمواریاں نمایاں ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کے عنوان سے موجودہ حکمت عملی کو جاری رکھنے پر اصرار کے بجائے جامع اور کثیر الجہتی ترقیاتی پالیسی اختیار کی جانی چاہیے جس کا ہدف محض مجموعی معاشی ترقی نہ ہو‘ بلکہ ساتھ ہی سماجی اور انسانی مسائل کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل بھی ہو۔
۵- اضافی وسائل کے حصول کے لیے قرض کا حصول بذات خود غلط نہیں ہے‘ تاہم ان اضافی وسائل کو پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرنا اصل چیلنج ہے۔ حکومت کا موقف بھی یہی ہے‘ تاہم عمل درآمد کے نقطہء نظر سے ابھی بہتری کی بہت زیادہ گنجایش موجود ہے۔ خودانحصاری کو بطور ہدف اختیار کیا جائے اور قرضوں پر انحصار کی حکمت عملی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
۶- معیشت کے بعض مثبت اشاریے بلاشبہہ ایک حقیقت ہیں‘ لیکن ان میں سے بیشتر کے حصول میں حکومت کی اقتصادی حکمت عملی کا کوئی بڑا دخل نہیں ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اقتصادی سرگرمی‘ پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں حقیقی اضافے کے بغیر حاصل ہونے والے مثبت اشاریے کسی بھی طرح پایدار ثابت نہیں ہو سکتے۔ غلط تشخیص او راس کی بنیاد پر ناموزوں حکمت عملی کا عمل جاری رہے تو اہداف کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔
۷- بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کے لیے حکومت کی جانب سے تجویز کیے گئے متعدد اہداف غیرحقیقت پسندانہ محسوس ہوتے ہیں۔ ماضی کی کارکردگی اور زمینی حقائق کی روشنی میں جی ڈی پی میں ۵ئ۵ فی صد اضافہ‘ محصولات میں ۵۱۰ ارب ڈالر وصولی کا ہدف اور اسی طرح ۱۶۰ ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام‘ ایسے اہداف ہیں جن کا حصول یقینی نہیں ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال کے جو منفی اثرات ہو سکتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
۸- زرعی شعبے کا معیشت میں بہت اہم کردار ہے اور مجموعی شرح نمو کا کوئی ہدف اس شعبے میں ترقی کے بغیر حاصل کرنا مشکل ہے‘ تاہم اس شعبے کے لیے محرکات کی جانب بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کھاد‘ زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی اور معیاری بیج کی فراہمی ‘ نیز ان چیزوں پر جنرل سیلز ٹیکس میں کمی اس شعبے کی ترقی کے لیے ناگزیر اقدامات ہیں‘ جب کہ مارکیٹنگ اور برآمدات بڑھانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
۹- بجٹ میں نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا جس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن ٹیکس وصولی کے نظام میں ضروری تبدیلیوں پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ ٹیکس وصولی میں ادایگی کی صلاحیت (capacity to pay) کو معیار بنانا چاہیے۔ اس وقت بالواسطہ ٹیکس (بشمول سرچارج) کل ٹیکسوں کا ۸۳ فی صد ہیں جو کسی طرح بھی صحت مندانہ رجحان نہیں ہے۔ اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
۱۰- ترسیلات میں اضافہ ایک غیر معمولی موقع فراہم کرتا ہے۔ موجودہ صورت میں یہ محض نمایشی اور غیرپیداواری اخراجات میں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان کے پیداواری استعمال کی جامع حکمت عملی اور ادارتی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۱- مرکز اور صوبوں کے درمیان باہم وسائل کی تقسیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وسائل کی تقسیم میں آبادی کے ساتھ علاقے کی ضروریات‘ ترقی کی صورت حال اور لوگوں کی رفاہی ضروریات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل نو میں تاخیر بھی خلاف آئین اور قابل توجہ ہے۔
۱۲- عالمگیریت اور عالمی تجارتی تنظیم کے حوالے سے درپیش مشکلات کے حل اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء میں اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔
بھارت کے نام ور اہل قلم ڈاکٹر ابن فرید (محمود مصطفی صدیقی) ۸ مئی ۲۰۰۳ء کی صبح‘ علی گڑھ میڈیکل کالج میں اپنے رب سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘ حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔
ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔
وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔
حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔
علی گڑھ میں ان کا مجموعی قیام ۳۲ برس بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’علی گڑھ نے مجھے اقبال کے اس شعر کے معنی بہت واضح انداز میں سمجھائے ہیں ؎
بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی
چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است
اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔
علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔
ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔
ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔
ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)
مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست کا پرچم امن معاہدوں اور روڈمیپ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ سفیدپرچم کے وسط میں چھ کونوں والا دائودی تارہ ایک مذہبی صہیونی ریاست کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے اُوپر نیچے پرچم کے دونوں کناروں پر عمودی نیلی لکیریں اس صہیونی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرتی ہیں۔ صہیونی کرنسی شیکل اور صہیونی پارلیمنٹ کنیسٹ کی پیشانی پر کندہ الفاظ ان سرحدوں کا زیادہ واضح اظہار کرتے ہیں: ’’تیری سرحدیں اے اسرائیل از فرات تا نیل‘‘۔ گویا پرچم کی دو لکیروں میں سے ایک دریاے نیل ہے اور دوسری دریاے فرات۔
اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تمام اہم واقعات اسی صہیونی منصوبے کی تکمیل کا ایک حصہ ہیں۔ لایعنی امن مذاکرات اور سراب معاہدے اسی سفرکو مزید محفوظ بنانے کی عملی تدابیر ہیں۔ پہلی تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی ہوئی تو عراق کویت جنگ کے بعد یاسر عرفات سے اوسلو معاہدہ کیاگیا۔ اسے فلسطینی ریاست کا صدر بنانے کا خواب دکھاتے ہوئے اس کے وزیرداخلہ محمد دحلان کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار‘ زخمی اور شہیدکروایا گیا۔ پھر جب اس معاہدے کے اصل اہداف میں سے ایک اور ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں آرییل شارون مسجداقصیٰ میں جا گھسا تو تحریک انتفاضہ کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ نتن یاہو‘ ایہودباراک اور سو دن کے اندر اندر انتفاضہ کو کچل دینے کا اعلا ن کرنے والے شارون سمیت کسی سے شہادتوں کا سفر روکا نہ جاسکا۔
اب تیسری خلیجی جنگ کے بعد فلسطینیوں ہی کے ہاتھوں آزادی کی اس جدوجہد کو کچلنے کی نئی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلان یہ کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو علیحدہ آزاد ریاست دے دی جائے گی‘ اور تین مرحلوں میں ۲۰۰۵ء تک پورے روڈمیپ پر عمل کرلیا جائے گا۔ ہر مرحلے میں تاریخوں کے تعین کے ساتھ مخصوص ہدف حاصل کیے جائیں گے‘ لیکن سب سے اہم اور بنیادی ہدف‘ معاہدے کے نام ہی میں واضح کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کا نام ہے: A performance based road map to a permanent two state solution to the Israeli-Palestinian conflict ’’اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے دو مستقل مملکتوں کے قیام کے لیے‘ کارکردگی پر مبنی‘ روڈمیپ‘‘۔ اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: تنازعے کا حل اور اس کا کارکردگی پر مبنی ہونا۔ تنازعے کا صہیونی حل تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فلسطینیوں کا زن بچہ کولہو میں پیس دیا جائے گا۔ اب اس حل میں اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ یہ کارکردگی فلسطینیوں ہی کو دکھانا ہوگی۔ اس بات کا اعادہ ہر مرحلے میں نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔ مقدمے میں لکھا گیا کہ یہ ’’حل تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذریعے صرف اس صورت میں حاصل ہوگا جب فلسطینی عوام کو ایسی قیادت ملے جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے اور رواداری پر مبنی جمہوریت کے قیام کی خواہش اور اہلیت رکھتی ہو‘‘۔ یاسرعرفات امن کا نوبل انعام پانے کے باوجود یہ اہلیت ثابت نہیں کر سکے تو راستے کا آغاز ہی اسے ہٹانے اور بہائی مذہب کے ایک سپوت مرزا محمود عباس (ابومازن) کو قائد بنانے سے کیا گیا۔
پہلے مرحلے میں ۲۱ نکات پر مشتمل نقشۂ کار ہے۔ دیگ کے ایک دانے سے ہی اس کی حقیقت کھل جاتی ہے: ’’فلسطینی قیادت غیرمبہم اور بالکل واضح بیان جاری کرے گی جس میں اسرائیل کے امن و سلامتی سے زندہ رہنے کے حق کا اعادہ کیا جائے گا۔ (بھول جائیے کہ اسرائیل کبھی فلسطین تھا) اور اسرائیلیوں کے خلاف ہرجگہ فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور مسلح سرگرمیوں اور تشدد کے تمام اقدامات کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔ فلسطین کے تمام سرکاری ادارے اسرائیل کے خلاف ترغیب اور اُکسانے کا سلسلہ ختم کر دیںگے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کہیں بھی تشدد اور حملوں یا ان کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور گروپوں کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے واضح اور موثر کوشش کریں گے‘ دہشت گردی میں ملوث تمام لوگوں اور گروپوں کے خلاف مسلسل متعین اور موثراقدامات کا آغاز کریں گے اور دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کریں گے‘‘۔
۲۱ نکات پر مشتمل اس نقشۂ کار میں ’’اسرائیل‘‘ کے ذمے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ’’جب سیکورٹی کے شعبے میں جامع کارکردگی میں پیش رفت ہوگی (فلسطینیوں کے ذمے اصل کام کا ایک بار پھر اعادہ) تو اسرائیلی دفاعی فورسز بتدریج وہ علاقے خالی کر دیں گی جن پر انھوں نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو یا اس کے بعد قبضہ کر لیا تھا‘‘۔ گویا کہ نصف صدی سے قبلۂ اول اور پوری سرزمین اقصیٰ پر قبضہ توعین حق ہے۔ ستمبر۲۰۰۰ء میں شارون کے مسجداقصیٰ میں جاگھسنے اور دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہونے پر جن فلسطینی مہاجرکیمپوں اور جنین جیسی پناہ گزیں بستیوں پر صہیونی فوجوں نے چڑھائی کی تھی وہاں سے انھیں نکال لیا جائے گا۔
دوسرا مرحلہ جو تاریخوں کے اعتبار سے اب عملاً شروع ہو جانا چاہیے‘ نام نہاد خودمختاری کی حامل فلسطینی ریاست کے اعلان کرنے کا مرحلہ ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۳ء تک پورا ہو جانا ہے۔ اس میں فلسطینی ریاست کا اعلان تو کر دیا جائے گا لیکن اس کی سرحدیں ’’وقتی اور عارضی‘‘ ہوں گی۔ اس موہوم اعلان ریاست میں بھی اصل ہدف وہی رہے گا کہ ’’سلامتی کے شعبے میں مسلسل عمدہ کارکردگی اور موثر سیکورٹی تعاون‘‘ اور یہ کہ’’ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب فلسطینی عوام کی قیادت ایسے افرادکے ہاتھ میں ہو جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گے‘‘۔
۰۵-۲۰۰۴ء میں تیسرے مرحلے میں بھی فلسطینی انتظامیہ کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔ لکھا ہے: ’’تیسرے مرحلے کے مقاصد میں فلسطینی اداروں میں اصلاح‘ ان کے استحکام اور فلسطین سیکورٹی اداروں کی مسلسل موثر کارکردگی کے علاوہ یہ بات شامل ہوگی کہ اسرائیلی اورفلسطینی ۲۰۰۵ء میں مستقل حیثیت کے سمجھوتے کے متعلق مذاکرات کریں گے‘‘۔
فلسطینیوںکے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنے کی مسلسل و موثر کارکردگی کے نتیجے میں صہیونی ریاست ان علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کر دے گی جن پر ۱۹۶۷ء میں قابض ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ ۱۹۴۸ء اور پھر ۱۹۶۷ء میں فلسطین کے ۸۰ فی صد علاقے پر صہیونی قبضہ ہوگیا تھا۔ اب مغربی کنارے اور غزہ کے جن علاقوںمیں فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب دکھایاجا رہا ہے‘ اسے بھی یوں چیرپھاڑدیا گیا کہ وسیع ترصہیونی ریاست کے اندر ان علاقوں کی حیثیت محصور چھائونیوں سے زیادہ نہ ہو۔ کئی سال سے ایک صہیونی منصوبہ پوری یکسوئی سے جاری ہے کہ فلسطینی جانبازوں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے اور اپنے درمیان بلند‘ آہنی اور جدید آلات حرب و جاسوسی سے لیس دیوار کھینچ دی جائے۔ یہ آہنی دیوار فلسطینی آبادیوں کے گرد اس طور گھومتی ہے کہ ۳۵۰ کلومیٹر کی اصل مسافت بڑھ کر ایک ہزار کلومیٹر ہوگئی ہے۔ اس ایک ہزار کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر پر ۲ ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ یعنی ہر ایک کلومیٹر پر ۲۰ لاکھ ڈالر۔
ابومازن کے ذریعے کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اوسلو معاہدے کی نسبت تیز ترہے۔ تب پورے عمل کو ۱۰ سال پر پھیلا دیا گیا تھا‘ اب اڑھائی سال میں پورا کرنے پر زور ہے۔ تب مسجداقصیٰ میں جا گھسنے کی بات معاہدے کے سات سال بعد کی گئی تھی‘ اب سات ہفتے بھی نہیں گزرے کہ صہیونی سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے کہ حرم اقصیٰ کسی مخصوص مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہودیوں کو بھی وہاں جانے کی مکمل آزادی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج حماس کے رہنمائوں کو ہدف بناکر قتل کرنے کی پالیسی پر ببانگ دہل عمل پیرا ہے جس میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف مجاہدین کی شہادت طلب کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن کے جنازوں میں ہزاروں فلسطینی ایمان افروز نعروں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔
حماس الجہاد اور خود الفتح کے کئی شہادت طلب حملوں نے روڈمیپ کے سرپرستوں کو حقیقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ صہیونی ٹی وی چینل ’’۱‘‘ کے مراسلہ نگار ایٹان ریبورٹ نے شہادت طلب کارروائی کے بعد یہودی بستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اس علاقے میں حماس نے کرفیو لگا رکھا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ڈرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہاں ہر طرف خوف کا راج ہے‘‘۔ یہودی بستی کی ایک رہایشی فلونیٹ نے اپنے ٹی وی کو بتایا: ’’میں نے اور میرے شوہر نے ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا دفتر یہاں سے آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ ہم دونوں یہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی مشکل بات یہ ہے کہ بندہ اپنے دفتر جانے کی کوشش میں موت کی وادی میں جااُترے‘‘۔ صہیونی ملٹری انٹیلی جنس کے شعبۂ ریسرچ کے سابق سربراہ جنرل دانی روچیلڈ نے عبرانی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تمام تر فوجی کارروائیوں اور حملوں کے باوجود حماس کا شہادت طلب کارروائیوں میں کامیاب ہو جانا‘ مایوسی اور تشویش میں اضافے کا باعث ہے۔ اس صورت حال پر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اداروں کے تمام دعوے مبالغہ آمیز بلکہ مجرد خیال ہیں‘‘۔
خود وزیر امن تساحی ہنجبی نے کہا کہ ’’میں ہر لمحے فلسطینی فدائی کارروائیوں کی خبر سننے کے لیے خود کو تیار رکھتا ہوں‘‘۔ وزیرموصوف نے کہا کہ ہمارے ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ افسر نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ توقع کہ کل فدائی کارروائی ہوگی اتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ کل سورج طلوع ہوگا‘‘۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا کہ اب بھی ہم ۹۵ فی صد کارروائیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ روزنامہ معاریف لکھتا ہے: ’’وہ جب بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو کچلنے کی بات کرتے ہیں‘ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان دعووں کی زمینی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک ہر طریقہ آزمالیا۔ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ سمیت تمام علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے لیکن بے فائدہ۔
ستمبر ۲۰۰۰ء سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے دوران ۱۱۹ شہادت طلب کارروائیاں ہوئیں۔ ۷۸ کارروائیاں ناکام رہیں جن میں سے ۳۰ کارروائیاں فلسطینی خواتین کرنا چاہتی تھیں‘ جب کہ پانچ خواتین اپنے مشن میں کامیاب رہیں۔ (صہیونی اخبار یدیعوت احرونوت‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۳ئ)
گھنی فلسطینی آبادی کے علاقے خالی کرنا ان کی دفاعی ضرورت ہے۔ خود شارون کے سابق وزیردفاع جنرل بنیامین بن ایعازر نے حماس کی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بہت سے مسلمہ حقائق سے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے ہم ماضی میں سختی سے چپکے ہوئے تھے۔ ہم سڑکوں‘ کلبوں اور چائے خانوں میں اپنے شہریوں کا قتلِ عام صرف اس صورت روک سکتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے علاقے سے نکل آئیں اور ان کی ایسی حکومت منظور کرلیں جو مغربی کنارے اور غزہ میں اقتدار سنبھال لے۔ فلسطینیوں کا سامنا کرنے کے لیے فوجی حل کی بات اب بھی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے تمام انتظامات کے باوجود حماس کی کارروائیاں اس امر کی دلیل ہیں کہ فلسطینی عوام کے جذبۂ مزاحمت کا فوجی علاج حقیقت پسندانہ نہیں ہے‘ اور جو اب بھی اس پر مصرہے وہ خود کو دھوکا دیتا ہے‘‘۔ (الامان‘ لبنان۶/۶)
ایک طرف تو یہ حقائق ہیں‘ فلسطینی عوام کے جذبۂ شہادت سے صہیونی درندے شکست خوردہ ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکمران روڈمیپ کے تیسرے مرحلے کے ان نکات پر عمل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جن کا حکم انھیں دیا گیا ہے۔ وہاں لکھا ہے: ’’عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ معمول کے مکمل تعلقات کا قیام تسلیم کریں گی‘‘۔ مصرکے شہر شرم الشیخ اور اُردن کے شہر عقبہ میں صدربش کی زیرسرپرستی ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں محمود عباس کی تقریب رونمائی کی گئی اور کھلے لفظوں میں فلسطینی جانبازوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
روڈمیپ بظاہر چند فی صد فلسطینی علاقے خالی کرنے کا اعلان ہے لیکن حقیقت میں فلسطینی مزاحمت کو کچلتے ہوئے مزید توسیعی منصوبوں کا نقطۂ آغاز ہے۔ روڈمیپ کے چند روز بعد ہی صہیونی وزیر سیاحت بنی ایلون نے اعلان کیا کہ دریاے اُردن کے مشرقی کنارے (یعنی کہ اُردن میں) فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن تشکیل دیا جائے۔ اگر بنی ایلون کا اعلان کردہ یہ سات نکاتی منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھتا ہے تو یہ عظیم تر اسرائیلی ریاست کی جانب اگلا جارحانہ اقدام ہوگا۔
ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘ حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔
ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔
وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔
حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔
بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی
چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است
اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔
علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔
ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔
ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔
ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)
ترجمان القرآن ایک عظیم روایت کا نام ہے۔ اسلامی انقلاب کا یہ سب سے بڑا نقیب ہے۔ اس نے ایک نئی سوچ اور ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ ایک نئے عزم اور ایک نئے نصب العین سے ملّت ِاسلامیہ‘ ہند کو آشنا کرنے کی مہم اپنے ذمے لی۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ملّت کی چارہ گری کے لیے سب سے پہلے مرض کی صحیح تشخیص کا کام کیا اور پھر اس کے معالجے کے لیے اصل نسخے کی تجویز میں اپنی دانائی کا مظاہرہ کیا۔ قرآن سے پھری ہوئی ملّت کو قرآن کی صحت بخش فضائوں میں لوٹنے کی دعوت دی۔ ترجمان القرآن جس دانش و فکر کا پرچار کر رہا تھا اس کی جڑیں قرآن و سنت میں تھیں۔ اس میںنہ تو معذرت خواہانہ انداز تھا اور نہ نرا تعقّل کارفرما تھا۔ عقل کا پورا استعمال تھا لیکن یہ قرآنی دلائل و براہین سے صیقل تھی۔
ترجمان القرآن میں مولانا مودودی ؒنے ’’رسائل و مسائل‘‘ کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ ہر سوچ اور ہر نقطۂ نظر رکھنے والے لوگوں کے ذہنوںمیں اٹھنے والے ہر طرح کے سوالوں کے جوابات پر مشتمل پانچ جلدوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وقت اور حالات نے انسانی ذہن پر کئی رخ سے اثرات ڈالے ہیں۔ نوجوان نسل میں ایک طرح کی بے چینی اور اضطراب آج کا عالمی مسئلہ ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کے باعث نوجوانوں میں باغیانہ رجحانات نے جنم لیا ہے۔ پھرغیرمسلم معاشروں ہی میں نہیں بلکہ خود مسلم معاشروں کے اندر بھی خاندانی نظام کی چولیں کہیں ڈھیلی پڑرہی ہیں اور کہیں بالکل ہی اکھڑچکی ہیں۔ والدین کی اولاد پر گرفت کچھ مصروفیات کی وجہ سے اور کچھ آزادی کے تصور کے تحت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے میڈیا پُر کررہا ہے۔ درس گاہیں عجیب حرکات‘ انوکھے رویوں‘ بدیسی کلچر کی نقالی اور آوارہ فکری کے ابلاغ کے مراکز بنی ہوئی ہیں۔ دین سے لگائو رکھنے والے گھرانوں کی لڑکیاں لڑکے بھی اپنے اندر خیر کے جذبات رکھنے کے باوجود غیرمحسوس طور پر مغرب کے تہذیبی رنگ کے کچھ چھینٹے اپنے اُوپر لے ہی لیتے ہیں۔
ہمیں احساس ہے کہ گذشتہ دس بارہ برسوں میں تشکیل پانے والی اس منفی نفسیات نے اس عرصے میں سوالات کے جواب دینے والے فاضل اصحاب ِ علم کے لیے فضا زیادہ پیچیدہ بنا دی ہے۔ اب معاشرے میں انتشار زیادہ ہے۔ دوسری طرف تربیت کے معیار میں کمی آگئی ہے۔ معلومات میں شاید کچھ اضافہ ہوا ہو لیکن دینی شعور اور مزاج میں ضعف کے آثار زیادہ ہیں۔ ایسی فضا میں دینی بنیادوں پر رہنمائی کے کام کی نزاکت بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں ازدواجی اور عائلی رشتے نہ تو فقہی موشگافیوں کے متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ روحِ دین سے منفک عقلیت ہی ان کو سمجھنے اور جانچنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حسنِ معاشرت ان رشتوں کی بنیاد ہے۔ اس رشتے میں کارفرما جذبوں--- مودت اور رحمت--- کو بھی دلوں کو اعلیٰ جذبات سے سرشار کرنے والی ذات نے خود بیان فرما دیا جو حسنِ معاشرت کے ساتھ ازدواجی رشتے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورۃ النحل کی آیت ۹۰ کے تحت لفظ ’’احسان‘‘ کی جو تعریف کی ہے اسے ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھیںکہ زوجین ناپ ناپ اور تول تول کر اور حساب کم و بیش کے پیمانے سامنے رکھ کر جب ایک دوسرے کے حقوق دینے لینے لگیں تو رشتۂ ازدواج اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے بجائے ایک کمرشل ادارہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عورت کے اندر ایک بیوی کی حیثیت سے جو سب سے اہم چیزمطلوب ہے وہ محبت ‘ وفا‘ اطاعت اور خدمت کے جذبات ہیں۔ اسی طرح محبت‘ وفا اور کفالت و حمایت مرد کے وہ اوصاف ہیں جن کے ملنے سے لذتِ ازدواج پیدا ہوتی ہے۔ گھر اور خاندان کسی پارلیمنٹ ہائوس کی طرز پر کبھی نہیں چلائے جاسکتے۔ جہاں ’’ہائوس‘‘ ایک حزبِ اقتدار اور ایک حزبِ اختلاف میں بٹا ہوتا ہے۔ گھر وہ ’’ہائوس‘‘ ہے جہاں بیوی کو شوہر کی بصیرت اور دانش مندی کا یقین ہوتاہے اور شوہر بیوی کی سلیقہ مندی اور سگھڑاپے پر بھروسا کرتا ہے۔ اہم معاملات میں باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے کی رائے کا پتا چلا لیا جاتا ہے۔ بیوی مرد کو اپنی اطاعت اورخدمت ہی سے رام کرتی ہے اور مرد اپنی رفیقۂ حیات کو نرمی اور مٹھاس ہی سے پیچھے چلاتا ہے۔
والدین اور اولاد کے معاملے میں بھی مساوات اور برابری کا اصول شریعت نے قائم نہیں کیا ہے۔ والدین خالق کی معصیت پر مجبور کرنے والا حکم دیں تو اس کو نہیں ماننا چاہیے ورنہ عام حالات میں ان کی خدمت اور اطاعت واجبات میں سے ہے۔ ان کی خدمت اور اطاعت سے منہ موڑنا اسی طرح کبیرہ گناہ ہے جس طرح بیوی کامعروف میں خاوند کی اطاعت سے منہ موڑنا کبیرہ گناہ ہے۔ ادب و احترام بیوی پر شوہر کا لازم ہے اور اولاد پر والدین کا۔ ماں باپ کی خدمات اور احسانات کا احساس نہ کرنا سعادت کے منافی ہے۔ اسی طرح بیوی کی ناشکرگزاری ایسا گناہ ہے جس کے باعث سب سے زیادہ عورتیں دوزخ میں پڑیں گی۔
ہماری ان گزارشات کا مقصد صرف یہ ہے کہ خاص طور پر خاندانی اور ازدواجی معاملات میں قران و سنت کے واضح احکامات کی بنیاد پر سوال کرنے والوں کی رہنمائی کی جائے اور دینی اساسات کو بنیاد بنایا جائے تو دراڑوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور درزیں بھری جاسکتی ہیں۔ گھرانوں کو کش مکش‘ آویزش اور کشیدگی سے بچانے کی احسن تدبیر یہی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں نصوص پر اطمینان پیدا کیا جائے۔ اخلاقی اقدار کی طرف لوٹایا جائے۔ برداشت اور تحمل کا سبق دیا جائے۔ حق ادا کرنے میں ایثار پر ابھارا جائے اور حق وصول کرنے میں رعایت کی تلقین کی جائے۔
۱- حکومت اور متحدہ مجلسِ عمل کے درمیان جو مذاکراتی عمل چل رہا تھا وہ تقریباً ناکام ہوچکاہے۔ جمالی اور شجاعت صاحبان نے جو انداز اختیار کیا تھا وہ اب بے نتیجہ دکھائی دے رہا ہے۔ اب سب حکومتی ادارے صدر پرویز شرف کے اصل مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اندریں حالات پارلیمنٹ کے اندر اورباہر کی اجتماعی فضا کسی نئے خطرناک بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
۲- بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو منتیں کی جا رہی تھیں اس سے موجودہ حکومت کی اصل کمزوری سامنے آچکی ہے۔ بھارتی الزام (دراندازی) کے جواب میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی مذمت نہ کر کے صرف مذاکرات کی رٹ لگانا حیرت کا موجب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اندرونِ خانہ کشمیر کا کوئی حتمی فیصلہ طے پاچکا ہے جس کی تکمیل شاید عنقریب دورۂ امریکہ کے موقع پر کیمپ ڈیوڈ میں ہوجائے گی۔امریکہ کے بش صاحب کی خوشنودی کے لیے شاید پاکستان وہ سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جائے جو ابھی تک باقی رہ گیا ہے۔ اس صورتِ حالات کے تدارک کے لیے حکومت کو لگام ڈالنا ازبس ضروری ہے۔
۳- صوبہ سرحد میں شریعت بل کی منظوری کے بعد حکومت کے حلقوں میں جو اضطراب‘ گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ طاری ہے وہ بھی قابلِ دید ہے۔ پہلے تو دبی زبان میں اسلام کو ترقی پسند‘ معتدل اور رواداری کا پیغام بر ثابت کیا جا رہا تھا‘ اب کھلے بندوں صدر سے لے کر وزیراعظم اور ان کے حاشیہ برداروں کی جانب سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کو طالبان ازم سے موسوم کیا جا رہا ہے جس کی پاکستان میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پردہ‘ داڑھی‘ موسیقی کی بندش اور عریاں فلمی پوسٹروں اور فحش بورڈوں کی آڑ میں اسلام کو رگیدنے کی کافرانہ جسارتوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ برملا کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں لبرل اسلام کو لائے بغیر کوئی ترقی اور استحکام پیدا نہیں کیاجاسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ عالم کفر کی قوتوں کو وہ اسلام منظورومطلوب ہے جو قرآن و سنت کی ٹھیٹھ تعلیمات کے مطابق ہونے کی بجائے عالمی نیو ورلڈ آرڈر کے معیار پر پورا اترتا ہو۔
معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو کمال اتاترک کا ترکی بنایا جانا مقصود ہے اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کا سرکاری پروگرام زیرعمل ہونے والا ہے۔ ملک کی تمام اسلامی قوتوں کو اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر سبیل اختیار کرنا چاہیے تاکہ پاکستان قائم رہے اور اصل نصب العین (اسلامی نظامِ حکومت) کے حصول کو یقینی بنایاجاسکے!
میرے والد ۱۹ ویں گریڈ میں‘ محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہیں۔ شہر کے مرکز میں ان کی پراپرٹی ہے جو انھوں نے کرائے پر دی ہوئی ہے لیکن میرے والد اور سوتیلی والدہ‘ میری کسی قسم کی کفالت کرنے یا مجھے میرا کوئی جائز حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور مجھے بدنام کرنے کا ہر طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مجھے عاق کر دیں۔ دو تین دوستوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو والد صاحب نے ان سے بولنا ہی چھوڑ دیا۔ ماں کی محبت سے تو میں ہمیشہ ہی محروم رہا اور والد صاحب نے بھی‘ نہ توروحانی تربیت کا ہی کوئی اہتمام کیا اور نہ مالی طور پر ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ میری یہی کوشش رہی کہ میں اپنے والد کو کسی مصیبت یا تکلیف میں کبھی اکیلا نہ چھوڑوں۔ لیکن وہ ہیں کہ مجھے میرا حق تک نہیں دینا چاہتے۔
میں کاروبار کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور اپنے ’’ایمان کی تکمیل‘‘ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنے جائز حق کے حصول کے لیے اپنے والد صاحب کو عدالت میں لے جائوں۔ کیا مجھے صبر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یومِ حساب پر بات ڈال دینی چاہیے‘ یا اپنے حق سے دستبردار ہوجانا چاہیے؟ مجھے اپنے جائز حق کے حصول کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
جواب : اسلام انسانوں کے لیے ان کے پیدا کرنے والے پروردگار کی طرف سے بھیجا ہوا ضابطہ ء حیات ہے جس میں ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ نیز ان اخلاق و آداب کی بھی تعلیم دی گئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں ایک پُرسکون‘ پُرمسرت‘پُرامن اور ایک ترقی یافتہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے‘ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔
مسلمان والد کی حیثیت سے اسلام نے ہر باپ کی یہ ذمہ داری متعین کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ بالغ ہونے سے قبل تک اس کی معقول انداز میں حسب استطاعت کفالت کرے‘ اور اس کو معاشرے میں ایک اچھے مفید مسلمان عنصر کی حیثیت میں پیش کرے۔ تمام میسرنعمتوں‘ سہولتوں اور مال و دولت میں سے اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا ضرور چھوڑ جائے کہ وہ دَر دَر کی بھیک مانگنے سے بچ سکے‘ نیز اپنی اولادکو کچھ دینے میں بھی کسی کو کسی پر ناجائز فضیلت اور ترجیح نہ دے۔ یہ ایک باپ کی شرعی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے۔
ایک بیٹے اور اولاد کی حیثیت سے اسلام ہماری یہ رہنمائی کرتا ہے کہ باپ کا رشتہ بڑا ہی مقدس ہے۔ اس کے احترام اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ اس بات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں شرک سے بچنے اور توحید کی تعلیم دی ہے وہاں والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اپنانے کا واضح حکم دیا ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّا ٓاِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ: ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ‘ مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔
جہاں تک صورت مسئولہ کا تعلق ہے تو اس میں اگر آپ کے والد محترم کو تذکیر اور یاد دہانی کے طور پر صلۂ رحمی اوراولاد کے حقوق سمجھائے جا سکتے ہوں تو یہ کام کیا جانا چاہیے لیکن آپ کے لیے یہ بات مناسب نہ ہوگی کہ آپ ان کی شہرت کو نقصان پہنچائیں‘ یا ان کی غیبت کرتے پھریں۔ بالغ ہوجانے کے بعد آپ کے والد کو اخلاقی طور پر تو آپ کی مدد اور کفالت کا پابند ہونا چاہیے لیکن یہ ایسا حق نہیں ہے کہ جس کے لیے آپ قانونی جنگ لڑیں یا اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ لہٰذا انھوں نے آپ کے بچپن کے دوران آپ کے حق میں جو کوتاہی کی ہے ‘ اُس سے درگزر کریں یا اُس معاملے کو احکم الحاکمین پروردگار کی عدالت میں یومِ قیامت کے لیے اُٹھا رکھیں جہاں پر ہر حق دار کو اپنا حق مل کر رہے گا۔
یہ آپ کے والد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے حقوق کی ادایگی کرتے ہوئے آپ کی جو مدد کرسکتے ہیں وہ کریں‘ صلۂ رحمی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اولاد مفلوک الحال ہو اور والد مدد کرسکتا ہو اور نہ کرے تو وہ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے۔
اگروہ ایک غلط روش کے مرتکب ہو رہے ہیں تو خاندان کے بڑے بزرگ‘ ان کے دوست احباب اور وہ لوگ جن کا کچھ اثر ورسوخ ہو‘ ان سب کو موثرانداز میں انھیں اس طرف توجہ دلانی چاہیے کہ وہ حق تلفی نہ کریں اور اس کے لیے ہر قسم کا سماجی دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ کسی طرح وہ اپنے بھائی کو خدا کا عذاب مول لینے سے روک سکیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ آپ کو تنہا نہ چھوڑیں اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔
آپ دنیا میں اس مسئلے کو اپنے لیے مسئلہ نہ بنائیں۔ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ مانگنے اور مفت مل جانے کی توقعات کے خیالات کو ہی دل سے نکال پھینکیں۔ لومڑی بن کر دوسروں کی باقی خوراک کے انتظار میں گھٹتے رہنے کے بجائے شیروں کی طرح اپنی خوراک کا خود انتظام کرنا سیکھیں اور دوسروں کو دینے کے قابل بنیں۔ اپنے والد صاحب کے لیے دعاے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کا ذکر کھلے دل سے کیا کریں۔ اپنے حقوق کی کھوج لگاتے رہنے کی بجائے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی فکر کریں کہ یہی کامیاب زندگی گزارنے کا گُرہے۔ اور اسی سے اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کا حصول بھی ممکن ہے۔
جب آپ کو اپنے والد صاحب کی اس لاپروائی اور غفلت کی یاد آئے تو ان کی عظمت‘ تقدس اور مقام و مرتبے کا خیال بھی ذہن میں تازہ کیجیے کیونکہ وہ ایک باپ ہیں۔ دنیا میں آپ کے وجود کا باعث اور رب کریم کے بعد آپ کے عظیم محسن ہیں جن کی خدمت و احترام آپ کا انسانی‘ دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صبر و یقین کی دولت سے مالا مال رکھے‘ اور اس حسنِ سلوک پر استقامت نصیب فرمائے ‘ اور آپ کی ضروریات کو اپنے خزانہ غیب سے پورا فرمائے۔ آمین۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)
س: ایک عرصے سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر شک ہونے لگا ہے۔ میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں: ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔ اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ ان وسوسوں سے نجات پانے میں رہنمائی فرمایئے۔
ج: ہر مومن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے‘ جب شیطان اسے بہکاتا اور ورغلاتا ہے۔ اسے وسوسوں میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں:
۱- پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ مال و دولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنھیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے‘ اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔ مال و دولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں‘ یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ نکل آتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو غریبوں کی طرح پیٹ بھرکر کھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خریدسکتے۔ بھوک ہے تو موٹاپے کے خوف سے پیٹ بھرکرنہیں کھاسکتے۔ مان لیجیے وہ پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟ کیا اپنے پیٹ میں زمین و آسمان کو سمولیں گے؟ کیا اپنی دولت کو قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔
معلوم ہوا کہ مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔ اب آپ ذرا خود پر غور کیجیے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے‘ کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟ یہ جو قوت سماعت آپ کو ملی ہے‘ اسے سونے چاندی کے بدلے آپ فروخت کرسکتے ہیں؟ غرض کہ ہاتھ‘ کان‘ناک‘ پائوں اور دوسرے سارے اعضا اللہ کی وہ نعمتیں ہیں‘ جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے۔ اللہ فرماتا ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا o (ابراھیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘۔ ہر چیز کو مادیت کی نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔
۲- دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان مال و دولت میں برابر ہوتے۔
بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمایش ہوسکے اور معلوم ہوسکے کہ کون شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔
اللہ نے جو یہ زمین و آسمان پیدا کیے‘ ہماری تخلیق کی‘ تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟ کیا ہمیں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مرجائیں؟ اگر سب کو برابر پیدا کرنا ہوتا تو وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا۔ نہ ہمیں لباس کی ضرورت ہوتی نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔ پھر توامیر و غریب کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں۔ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔ آزمایش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔ اگر کوئی احسان و بھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ بھلائی کرے۔ اگر کوئی صبرکرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔ اگر سب برابر ہوتے تواس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔ کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ ساری رونق حیات مفقود رہتی۔ دن اور روشنی کی اہمیت و منفعت کا احساس ہمیں اسی لیے توہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہم انسان‘ خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہو جائے‘ دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ اب آپ بتائیں کہ خدا کس کس کی سنے؟ کس عمل میں حکمت پوشیدہ ہے؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
یہاں پر ایک قصے کا بیان قرین سیاق معلوم ہوتا ہے۔ ایک باغ میں باپ بیٹے محو گفتگو تھے۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظرنہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرکم پھل کو کمزور سی بیلوں میں جنم دیا کہ یہ بیلیں زمین سے اوپر نہیں جاسکتیں۔ باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔ اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیٹے کے سر پر آگری۔ بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ کھجور کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باپ نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔ گرچہ یہ ایک قصہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔
آپ کو چاہیے کہ جو شیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیں۔ خدا سے توبہ کیجیے‘ اپنے ایمان کا اعادہ کیجیے۔ نمازیں پڑھنی شروع کر دیجیے اور جب کوئی شک ذہن میں آئے تو فوراً اہل علم کی طرف رجوع کیجیے۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی ‘ ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی‘ ص ۱۰۱-۱۰۴‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ بھارت)
اسلام کے اجتماعی نظام کا عملی اظہار اسلامی شریعت پر مبنی اسلامی ریاست ہے‘اور اسی ریاست کے ذریعے اسلامی عدلِ اجتماعی اور اجتماعی سطح پر تقویٰ کی زندگی گزارنا ممکن ہے۔ صدیوں تک ملوکیت ‘ استعمار کی غلامی اور علما کے غالب طبقے کی جانب سے‘ حالت موجودہ پر صبروشکر کربیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ برعظیم پاک و ہندمیں ایک طویل مدت تک اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مسئلہ نظروں سے اوجھل رہا۔ البتہ انیسویں صدی میں سید احمد شہیدؒ (م: ۱۸۳۱ئ) نے اور پھر بیسویں صدی میں سید مودودیؒ (م: ۱۹۷۹ئ) نے اسلامی ریاست کے بھولے سبق کو یاد دلانے کی کوشش کی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م: ۱۹۹۷ئ) ‘ فہم قرآنیات کے حوالے سے ایک عظیم شخصیت اور اپنی مثال آپ اسکالر تھے۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپنے زمانۂ وابستگی میں اسلامی ریاست کے مختلف عناصر ترکیبی پر تحریر و تالیف کا بہت اہم اور عالمانہ کام سرانجام دیا‘ تاہم وہ اس علمی منصوبے کو مکمل نہ کر سکے (ص ۱۳)۔ لیکن اس کے جو حصے انھوں نے لکھے وہ ان کی علمی بصیرت‘ دینی حمیت اور سیاسی دوراندیشی کا ایک قیمتی نمونہ ہیں۔ زیرنظر کتاب میں اس نوعیت کی تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اسے مولانا مودودیؒ کی کتاب اسلامی ریاست کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو فکری مباحث کا ایک وسیع منظرنامہ سامنے آتا ہے۔
اصلاحی صاحب نے ابتدا میں وضاحت کی ہے کہ ان کی دانست میں: ’اسلامی خلافت‘ کا مطلب ’اسلامی ریاست ہے‘ اور’امامت و امارت‘ کا مطلب ’اسلامی حکومت‘ ہے (ص‘ ۱۶)۔ اس ریاست کی مقننہ اور انتظامیہ کے کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسلام میں شوریٰ متعین بھی ہے اور امیر اس کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند بھی ہے۔ ] موجودہ[ زمانے میں شوریٰ کو متعین کرنے کے‘ بعض ضروری اصلاحات کے ساتھ‘ انتخاب کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے ‘‘ (ص۴۴)۔ مزید یہ کہ امیریا خلیفہ مجلس شوریٰ کی رائے کو مسترد (ویٹو) نہیں کر سکتا (ص ۳۲-۴۴)۔ رسولؐ اللہ نے جس معاملے میں بھی لوگوں سے مشورہ لیا‘ اس میں اکثریت کے فیصلے کے مطابق ہی عمل کیا (ص ۴۰)۔’’سمع و طاعت… زمین میں خدا کے دین کے نفاذ و قیام کا ذریعہ ہے‘‘۔ اور: ’’اقامت دین… اسلامی ریاست کا اصلی مقصد قیام ہے‘‘ (ص ۱۵۳)… ’’اگر اسلامی ریاست کا وجود نہ ہو تو‘نہ اجتماعی زندگی بِّروتقویٰ سے آشنا ہوسکتی ہے اور نہ انفرادی زندگیوں ہی میں اس کا قائم رکھنا ممکن ہو سکتا ہے ‘‘۔ (ص‘ ۱۵۶)
قومیت کے مسئلے پر بلند درجہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی نسلی قومیت کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی جہانی ریاست کی بنیاد رکھ سکے‘‘ (ص ۷۰)--- اسلامی ریاست کے غیرمسلم باشندوں کے مقام شہریت پر کہتے ہیں: ’’ذمیوں کو حقوق‘ مسلمانوں یا ان کی حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان کی ضمانت پر دیے جاتے ہیں‘ ان کی ادایگی میں دانستہ اور بلاعذر کوتاہی‘ خدا اور رسولؐ سے خیانت اور غداری ہوگی‘‘(ص ۲۰۰‘ ۲۰۱)۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جس نے کسی معاہد ] ذمی[ پر ظلم کیا یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالا تومیں قیامت کے دن خود اس سے جھگڑنے والا بنوںگا… یہ تمھارے غلام نہیں کہ تم ان کو وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاں پھینکتے پھرو۔ یہ آزاد اہل ذمہ ہیں‘‘۔ (ص ‘ ۱۹۵)
کم و بیش نصف صدی قبل کے یہ علمی مباحث‘ اپنی فکری اہمیت کے باعث آج بھی تروتازہ اور موجودہ حالات میں بامعنی ہیں۔ خصوصاً ’’فکرِاصلاحی‘‘ کے قائلین کو‘ اس نوعیت کے نکات‘ غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں‘ مثلاً: ’’]اسلامی[ ریاست کے تحفظ‘ اور اس کے مقصد جھاد فی سبیل اللّٰہ کی تکمیل کے لیے ہر ذی صلاحیت شہری کا فرض ہے کہ وہ برابر مستعد اور تیار رہے۔ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کے جذبے سے معمور رہنا دلیلِ ایمان ہے اور اس جذبے سے خالی ہونا نفاق کی علامت ہے۔ اگر ریاست کے تحفظ کا سوال سامنے آجائے تو پھر جان کو عزیز رکھنا اور قربانی سے جی چرانا ایمان کی کھلی موت ہے‘‘۔ (ص ۱۵۸)
اسلامی ریاست کے موضوع پر‘ اُردو میں یہ ایک قابلِ قدر عالمانہ کتاب ہے۔ موضوع پر مصنف کی گرفت نے‘ بحثوں کو جان دار اور پُرتاثیر بنا دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)
عصرحاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بہت سے الفاظ اپنی پہچان اور حرمت کھو بیٹھے ہیں۔ لفظ نعرے بازی کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ جن لفظوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوا اُن میں: عوام‘ حقوق‘ آزادی‘ انقلاب‘ جمہوریت‘ قومی مفاد‘ مساوات اور آزادیِ نسواں سرفہرست ہیں۔
یہ کتاب شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک معلمہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر تحریر کی ہے‘ جس میں آزادیِ نسواں کی تحریک کے ماضی و حال کا جائزہ لینے کے لیے مصر کو موضوع مطالعہ بنایا گیا ہے۔ مصر اور بعض دوسرے مسلم ملکوں میں اہل مغرب نے اپنی فکریات کے ساتھ سب سے زیادہ منظم اور سب سے پہلے حملہ کیا۔ کتاب کے مندرجات چشم کشا ہیں اور ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران مصر میںتحریکِ نسواں کن اسالیب میں جدید عربی ادب و فکر پراثرانداز ہوئی۔ اس پھیلے ہوئے موضوع کو تحقیقی شعور اور محنت کے ساتھ یکجا کر کے پیش کرنا ایک اعلیٰ درجے کی دینی اور علمی خدمت ہے‘ جس پر مصنفہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔
ڈاکٹر سطوت ریحانہ کا یہ مقالہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے ہی وطن کی کہانی پڑھ رہے ہوں۔ فرانسیسیوں نے اٹھارھویں صدی میں مصر کی مسلم عورت کو ترغیب و تحریص سے کوچہ و بازار میں لانے کی کوشش کی تھی‘ یہی صورت ہمارے گردوپیش بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے فرانسیسیوں اور پھر انگریزوں کے زیراثر عورت کو معاشی زندگی اور نام نہاد کلچرل میلوں اور تماشوں کا ایک طاقت ور حصہ بنانے کی جو طرزِ رنگ و طرب ایجاد کی گئی تھی‘ اُس نے ڈیڑھ سو سال میں مصر کے معاشرے اور مصری عورت کو کون سا اعلیٰ مقام دیا کہ جس سے وہ باقی مسلم دنیا میں محروم ہے؟ دوسرے یہ کہ اس عمل سے مصر سائنس اور معاشی و عسکری یا تہذیبی ترقی کے کس اوجِ کمال پر پہنچا ہے کہ جس پر پاکستان کا طبقۂ نسواں حسرت اور محرومی میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے؟
زیرتبصرہ کتاب کے آغاز میں آزادیِ نسواں کی یورپی تحریک اور مصر میں اس تحریک کے خدوخال کا تحقیقی موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ پھر مصر میں تحریکِ نسواں کی ۱۴ مرکزی شخصیات (۱۱ مرد اور ۳ خواتین) کا تذکرہ اُن کے افکار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریکِ نسواں پر اثرانداز ہونے والی ۱۰ کتب کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
پانچویں باب میں آزادیِ نسواں کے مثبت اور منفی پہلوئوں کے بارے میں چند مصری شعرا کا کلام پیش کیا گیا ہے مگر اس کے اُردو ترجمے کی عدم موجودگی سے غیر عربی دان قاری محرومی کا شکار رہتا ہے۔ آخری باب: ’’حقوق نسواں اور اسلام‘‘ میں تحریکِ نسواں کے موضوع پر اسلام کے حقیقی منشا کو پیش کیا گیا ہے جو متوازن اور مدلل وضاحت کے ساتھ ایک قیمتی دعوت فکرہے۔ اسلامی روایت سے وابستہ علمی دنیا میں فاضل مصفہ کی آمد ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ (س - م - خ)
مصنف کو بلوچستان کی تاریخ‘علوم و فنون اور شعروادب کے مختلف پہلوئوں پر تخصص کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ علامہ اقبال اور بلوچستان نام کی ایک کتاب شائع کرچکے ہیں (علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد‘ ۱۹۸۶ئ‘ صفحات ۲۱۶)۔ مذکورہ کتاب زیادہ تر علامہ اقبال کے حوالے سے لکھی گئی تھی‘ مگر زیرنظر کتاب قدرے مختلف نوعیت کی ہے۔
اس کتاب میں سرزمین بلوچستان میں اقبالیات کی روایت کا آغاز اور اقبالیاتی اداروں کی سرگرمیوں‘ فکرِاقبال کی توضیح و تشریح کرنے والے مصنفین‘ کلامِ اقبال کے بلوچی اور براہوی مترجمین‘ اقبال کے مقلّد شعرا‘ بلوچستان کے کالج میگزینوں میں ذخیرئہ اقبالیات‘ بلوچستان میں منعقد ہونے والی اقبالیاتی تقاریب اور متعدد دوسرے پہلوئوں سے اس روایت کا ارتقا اور موجودہ صورتِ حال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی‘ علمی اور ادبی حلقوں میں علامہ اقبال کی شاعری اور اُن کے فکر کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
خود مصنف نے فروغِ اقبالیات میں بے حد سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ انھوں نے اقبال کی شاعری اور فکر پر اپنے تنقیدی و توضیحی مضامین کے دو مجموعے (اقبالیات کے چند خوشے۔ مردِ حر) شائع کرنے کے علاوہ مصنفین بلوچستان کے اقبالیاتی مضامین کے کئی مجموعے بھی مرتب کیے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان میں فروغِ اقبالیات کے ضمن میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کی زیرنظر کاوش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلوچستان میں اقبالیات کی تاریخ لکھی جائے گی تو ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی زیرنظر اور متذکرہ بالا کتابیں اس ضمن میں ایک اہم حوالہ اور ماخذ ہوںگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سلسلۂ نبوت و رسالت کی وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں جن کو خلیل اللہ (اللہ جل شانہٗ کے دوست) اور حنیف (سب سے کٹ کر ایک اللہ کے ہوجانے والے) کے مہتم بالشان لقب ملے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انھیں ہی سونپی تھی اور ان کو دنیا کا امام و پیشوا بنایا تھا۔ وہ ابوالانبیا یا جدالانبیا بھی تھے کہ ان کے بعد آنے والے تقریباً سبھی نبی اور رسول (بشمول خاتم الانبیا والمرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) انھی کی اولاد سے تھے۔ قرآنِ حکیم کی ۲۵ مختلف سورتوں میں اُن کا ذکر آیا ہے اور چودھویں پارے میں ایک مستقل سورہ (ابراہیم) بھی ان کے نام کے ساتھ موجود ہے۔ قرآنِ حکیم کے علاوہ تفسیر‘ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
زیرنظرکتاب ان کتابوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ فاضل مؤلف نے اس میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوانح حیات بڑی تحقیق و تفحص کے ساتھ قلمبند کیے ہیں وہاں ان سے پہلے تباہ ہونے والی قوموں (قومِ نوح‘ ثمود) کی تباہی کا پس منظر بھی اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کے سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور مذہبی حالات کا خاکہ بھی انھوں نے بڑی عمدگی سے کھینچا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی مقامات پر ملّت ِ ابراہیم اور اسوئہ ابراہیم کا تذکرہ ہوا ہے۔ فاضل مؤلف نے کتاب کے دو ابواب میں ان کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنایا ہے اور ملّت ابراہیمی اور اسوئہ ابراہیمی پر نہایت بلیغ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش بڑا شگفتہ اور سلجھا ہوا ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب لکھ کر انھوں نے ایک قابلِ قدر دینی خدمت انجام دی ہے۔ (طالب الہاشمی)
قرآن فہمی کی تحریک کو گذشتہ کچھ عرصے سے بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک موثر کوشش ہے۔ مولف موصوف مدینہ یونی ورسٹی کے فاضل اور پنجاب یونی ورسٹی میں استاد ہیں اور ایک عرصے سے قرآن اور زبانِ قرآن کی تدریس میں مصروف ہیں۔ اس کتاب میں عربی زبان کی تفہیم کے لیے آسان ترین انداز اختیار کیا گیا ہے۔ عربی قواعد کے پیچیدہ اصولوں کو مختلف علامات کی صورت میں پیش کر کے اس کا ترجمہ کرنا انتہائی سہل بنا دیا گیا ہے۔ اُردو دان طبقے کے لیے تفہیم زبان قرآن کے اس انداز کو براہِ راست طریق تفہیم (direct method) قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس طریقے سے روایتی عربی گرامر سیکھنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان علامات کی تفہیم و استعمال میں بھی بعض اصول مدنظر رکھنا ضروری ہیں‘ مثلاً: کسی ایک علامت کا استعمال اگر اسم کے ساتھ ہو تو معنی اور ہوتا ہے‘اور اگر فعل یا حرف کے ساتھ ہو تو ترجمہ مختلف ہوجاتا ہے (ص ۲۵- ۳۰‘ ۳۳‘ ۴۷ وغیرہ)۔ بعض علامتیں الفاظ کے شروع میں آئیں تومعنی اور ہوتا ہے اور لفظ کے آخر میں وہی علامت آنے سے معنی میں فرق پڑجاتا ہے (ص ۲۹)۔ اسی طرح بعض علامتوں کے ایک جیسے استعمال میں بھی مختلف مقامات پر معانی مختلف ہوتے ہیں (ص ۵)۔ اسی طرح علامات کی پہچان اور استعمال میں بھی کہیں کہیں مشکل کا احساس ہوتا ہے۔ مولف نے جابجا نوٹ دے کر وضاحت بھی کی ہے۔
زبان قرآن کی تفہیم کے لیے مذکورہ کتاب سے زیادہ آسان اور مفید کتاب شاید اب تک موجود نہیں تھی۔ جس کے لیے مؤلف اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ طباعت معیاری ہے اورقیمت کم ہے۔ اُمید ہے کہ اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ کتاب ایک مفید اور پُراثر کوشش ثابت ہوگی۔ (محمد حماد لکھوی)
سید معروف شاہ شیرازی معروف عالم دین اور دینی مصنف ہیں۔ فہم قرآن ان کی دل چسپی کا خاص موضوع ہے۔ سید قطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کا اردو ترجمہ عربی زبان و ادب پر ان کی دسترس کا عکاس ہے۔
زیرنظر کتاب صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے سلسلے میں ان کی فکرمندی کی آئینہ دار ہے۔ شرعی قوانین کی روشنی میں دورِحاضر کے تقاضوں کا جائزہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کتاب میں ان مسائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جو صوبہ سرحد کی اسلامی حکومت کو درپیش ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کتاب شرعی اصلاحات کے بارے میں ان کی تجاویز پرمشتمل ہے جو مصنف صوبہ سرحد کے ارباب اختیار کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ ان تجاویز میں درس نظامی اور جدید نظام تعلیم کے اشتراک‘ مسجد مکتب اسکول‘ نئے نظام تعلیم کی درجہ بندی اور نئے نصاب کی تشکیل کے بارے میں مشورے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں ممکنہ تبدیلیوں اور محکمہ خزانہ کے حوالے سے امانت گھروں اور شراکتی بنک کے قیام‘ عشروزکوٰۃ‘ مقامی صنعتوں کی ترقی اور واپڈا کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔ اسلام کے تعزیراتی اور عائلی قوانین‘ قانونِ وراثت اور دیوانی قانون کے نفاذ کی بابت بھی چند تدابیر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ تجاویز خاصی عرق ریزی سے مرتب کی گئی ہیں۔
پہلے باب میں اسلامی ریاست کے ماڈل‘ اس کے اختیارات‘ بنیادی اداروں‘ جمہوریت اور اسلام کے شورائی نظام پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب (نظامِ تعلیم) میں ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو نج کاری کے نام سے تعلیمی میدان میں این جی اوز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش ہیں۔ تیسرے باب میں مختلف صوبائی محکموں کے بارے میں مفید تجاویز دی گئی ہیں۔ آخری باب میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں اسلامی قوانین کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے اپنے فکرانگیز مقالے، ’’وقت: اسلامی تصورات‘‘ (جون ۲۰۰۳ئ) میں وقت کے چار نظام بتائے ہیں: ۱- نظام قبل تخلیق‘ ۲- نظام بعد تخلیق تاقیامت ‘۳- نظام جو قیامت کی گھڑی سے قائم ہوجائے گا‘ ۴- نظام جو اس وقت قائم ہوگا جب لوگ دوبارہ اٹھا کر زندہ کیے جائیں گے (ص ۵۶)۔ راقم کے خیال میں ان کے علاوہ ایک اور نظامِ وقت بھی ہے جو ان چاروں میں سے کسی کے تحت نہیں آتا۔ یہ عالمِ برزخ کا نظامِ وقت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ان کے (مرنے والوں کے) آگے برزخ (پردہ) ہے۔ اس دن تک کے لیے جب وہ اٹھائے جائیں گے‘‘ (المومنون ۲۳:۱۰۰)۔ اس آیت میں مرنے کے بعد سے نفخ صور تک دوبارہ اٹھائے جانے تک کے عالم کو عالمِ برزخ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پس پردہ عالم کے وقت کے بارے میں شاید ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی حقیقت‘ نظام اور پیمانے وہ نہیں جو اس دنیا کے وقت کے ہیں۔
’’امریکی اور برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں معاشی مقاطعے کو احتجاجی حربے کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ صائب اور اہم ہے۔ گو اس معاملے میں احساس بہت دیر سے ہوا ہے مگر شکر ہے کہ ہوا تو ہے۔ صورتِ حال یوں ہے کہ پاکستانی مصنوعات مارکیٹ میں جب اپنی ساکھ بنا لیتی ہیں اور برانڈ قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے تو انھیں ملٹی نیشنل کمپنیاں خرید لیتی ہیں۔ تازہ مثال رفحان کارن آئل کی ہے۔ اس کمپنی کو لیوربرادرز نے خرید لیا ہے۔ سامراجیت پہلے براہِ راست قبضہ کر کے ملکوں کو غلام بنا کر لوٹنے کا اہتمام کرتی تھی‘ اب بالواسطہ زیادہ موثر طریقے سے اُن ملکوں کی معیشت کو نچوڑ کر‘ خوش حالی کو گھسیٹ کر ترقی یافتہ ملکوں میں لے جانے کا بندوبست کرتی ہے۔لہٰذا محض مقاطعہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اُن کے مقابلے میں بہتر اور نسبتاً ارزاں مصنوعات تیار کر کے بہتر پیکنگ میں پیش کرنی چاہییں۔
’’امریکی برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) خوب ہے۔ جہاں تک مصنوعات کے بائیکاٹ کا تعلق ہے تو ہماری ملکی مصنوعات کا معیاری ہونا بھی ضروری ہے تاکہ صارفین راغب ہو سکیں۔
’’صحابہؓ: سرورعالمؐ کے مجسم معجزے‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں صحابہ کرامؓ کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث بھی نقل ہوئی ہے: اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم’’میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جسے بھی تم پیشوا بنا لو ہدایت پا لوگے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک معروف حدیث کے طور پر روایت کی جاتی ہے لیکن اکثر محدثین کے نزدیک یہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث ہے۔ مولانا صہیب حسن کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ ’’یہ ایک ضعیف یا موضوع حدیث ہے جسے احمد بن حنبلؒ، ابن عبدالبرؒ، البزارؒ اوردیگر لوگوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ اس کی نہ صرف سند میں علت ہے بلکہ یہ حدیث درج ذیل وجوہ کی بنا پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی۔ اول: صحابہ کرامؓ معصوم عن الخطا نہیں ہیں اور ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ ان میں کسی ایک کی اتباع سے ہدایت حاصل ہوجائے گی۔ دوم: ان کی مشابہت ستاروں سے کرنا بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ہر ستارہ منزل کی رہنمائی نہیں کرتا‘‘۔ یہ اقتباس ان کی انگریزی کتاب An Introduction to The Science of Hadith سے پیش کیاگیا ہے۔ خیال رہے کہ احادیث کی روایت میں ان کی صحت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
ملکی سطح پر ایک معیاری تھنک ٹینک کی ضرورت پر مختلف حلقوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً زوردیا جاتا رہتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ دفاع‘معیشت‘ امورخارجہ اور شریعت کے مختلف ماہرین کے تھنک ٹینک قومی سطح پر قائم کرنے کی کوشش تحریکی سطح پرکی جائے اور ملک بھرکے ماہرین سے رابطہ کر کے انھیں ان میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ متحدہ مجلس عمل میں ملک کی تمام دینی قوتوں کو شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تاکہ تمام محب وطن اور اسلام پسند قوتوں کو متحد کر کے استحکامِ پاکستان اور نفاذ شریعت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جا سکے۔
ترجمان القرآن کی اشاعت کا مقصد قاری کی فکری رہنمائی و تربیت کرنا ہے‘ تاہم یہ متعین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی علمی جرنل ہے یا اسلامی ڈائجسٹ۔ اگر پہلی چیز ہے تو اس میں سے بہت سی چیزیں نکالنی پڑیں گی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے حلقے سے باہر کے علماے کرام کے بڑے اچھے مضامین پڑھنے کو مل جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔
اب تو تحقیقی اور ریسرچ کے مقالے بھی آسان زبان اور سادہ الفاظ اور عام فہم اسلوب میں لکھے جارہے ہیں اور پسند کیے جاتے ہیں۔خرم مراد صاحب کے انداز کو اپنایئے۔ کیسا بڑا مسئلہ‘ کتنی دقیق اور فکری بات وہ کتنی آسانی کے ساتھ مختصر جملوں‘ سادہ الفاظ اور رواں قلم کے ساتھ لکھ جاتے ہیں۔ کہیں بات کو پھیلایا نہیں جاتا‘ آسان رکھتے ہیں۔ قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور فکر رکھتے ہیں کہ وہ بات سمجھ رہا ہے۔ مشکل الفاظ اور گنجلک اندازِ بیان سے آپ کی قابلیت اور صلاحیت کا رعب نہیں بنتا! خدارا ترجمان القرآن کو طاق میں رکھنے والی چیز نہ بنائیں۔ وہ بھی ۵‘ ۱۰ طاقوں کے لیے!
شہرکے اہم اور مرکزی چوراہوں پر بڑے بڑے بورڈوں پر مختلف کمپنیوں کے انتہائی شرم ناک اور فحش تصاویر سے مزین اشتہارات عامۃ الناس کے اندر سے رفتہ رفتہ برائی کے احساس کو بتدریج کم کر رہے ہیں۔ اشتہاربازی ہمارے معاشرے میں اس کیفیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ فیشن پرستی‘تعلیم براے معاش اور پُرتعیش زندگی کا حصول‘ یہ سب مادہ پرستی کے شاخسانے ہیں۔ روس جیسے بے دین ملک میں اشتہار بازی پر محض اس لیے پابندی تھی کہ وہاں مادی زندگی کی دوڑ نہ لگ جائے اور معیشت پر بُرا اثر نہ پڑے۔دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا پرستی اور حصولِ دنیا کی خواہش نے دل سے آخرت کی فکر کو نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ ہم کو اسلامی تہذیب سے بھی بہت دُور کر دیا ہے۔ اخبارات دیکھ لیجیے۔ شیخ رشیدصاحب فرما رہے ہیں: ’’سائن بورڈ ہٹانا اسلام نہیں ہے‘‘۔ تو پھر اسلام کیا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتا دیجیے۔ ہمارے نزدیک تو اسلام یہ ہے کہ ’’جہاں برائی ہوتے دیکھو اسے روکو۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل سے برا جانو کہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔
مجھے وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے بطور مندوب قومی سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانے کا موقع ملا۔ محکمے کی جانب سے نہایت اعلیٰ پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے اور ہر طرح سے آسایشیں مہیا کی گئیں۔ وزارتِ مذہبی امور گذشتہ ۲۷ سال سے ایک کثیر رقم ہر سال اس مد میں خرچ کر رہی ہے۔ اسی دن سیرت کانفرنس کے اختتام پر لوگوں کوگردنیں پھلانگ پھلانگ کر لذت کام و دہن پر گرتے دیکھا۔ ایک دن کے لیے بھی ایثار کا عملی مظاہرہ نظرنہ آسکا‘ جب کہ یہ اس ہادی و رہنماؐ کے ذکر کی مجلس تھی جو ایثار و قربانی کا مجسم پیکر تھا‘ جس نے پیٹ پر پتھرباندھے تھے اور کئی کئی ماہ اس کے گھرکا چولہا ٹھنڈا رہتا تھا۔ ہم خوب صورت باتیں سنتے ہیں اور بھلا دیتے ہیں‘ اچھے لفظ لکھتے ہیں اور مٹا دیتے ہیں۔ ہمارا عمل محض چند محافل کے انعقاد تک رہ گیا ہے۔ یہ بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اتنی کثیر رقم کے استعمال کا کیا حاصل ہے‘ جب کہ یہ اس ملک کے خزانے سے خرچ کی جا رہی ہے جس نے اغیار سے کشکولِ قرض بھروانے کے لیے اپنی خودی بھی دائوپر لگا رکھی ہے۔
ماہنامہ تدریس القرآن (کراچی) میں چند ایسے امور کی طرف اشتہار کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے کہ دل چاہا کہ آپ کے قارئین تک پہنچائوں۔ ۱-ائمہ کرام جمعہ کے دن خطبے سے پہلے کی تقریر ایک ایک گھنٹہ کرنے کے بجائے صرف ۱۵‘ ۲۰ منٹ کریں کہ اسی وقت حاضری ہوتی ہے۔ ۲- شادی میں کھانا اول وقت کھلا دیا جائے کہ صحت کے لیے بھی بہتر ہے اور بارہ ایک بجے گھر پہنچ کر فجر کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ۳- مغرب کی اذان اور نماز میں (سعودی عرب کی طرح) پانچ سات منٹ کا وقفہ دیا جائے تو بہت سے لوگوں کی رکعتیں اور تکبیر تحریمہ ضائع ہونے سے بچ جائیں گی۔ اگر آپ کو کوئی بندۂ خدا اسپانسر کرے تو ان امور کی طرف معاشرے کو ضرور توجہ دلائیں۔
اس پرچے سے ’’رسائل و مسائل‘‘ کے پرانے مستقل عنوان کا احیا کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے شعبۂ تنظیم کے ماتحت خطوط کے جو جواب مرکز سے دیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان میں تفسیربھی ہوتی ہے‘ فقہ بھی‘ فلسفہ بھی ہوتا ہے اور ادب بھی۔ ہم نے سوچا ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ صرف مستفسرین تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے عام تعلیم یافتہ طبقے میں پھیل جانا چاہیے…
سوالات کی عبارت کے متعلق ایک ضروری بات یہ یاد رکھیے کہ یہ ضروری نہیں کہ سوال بالکل مستفسرکے الفاظ میں لکھا جائے اور اس کی چند وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ جو لوگ زبان پر قدرت نہیں رکھتے ان کے خطوط میں بے ربطی سی ہوتی ہے‘ کسی خط میں تکرار پائی جاتی ہے اور کسی میں الفاظ کا مسرفانہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اختصار اور ربط کے لیے سوال کی عبارت میں تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ البتہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ مستفسرکا پورا مدعا سامنے آجائے…
یہ خطوط اگر انفرادی طور پر محفوظ رکھے گئے تو دراصل غیرمحفوظ ہوں گے۔ لیکن اگرانھیں ترجمان القرآن میں شائع کر دیا گیا تو یہ ایک مستقل تاریخی سرمایے کی حیثیت سے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ سکیں گے۔ اور آنے والے عہد کا مورّخ‘ موجودہ دور کے مسلمانوں کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے ان خطوط سے بڑی مدد لے سکے گا‘ نیز وہ اُس فکری ارتقا کی سب سے بڑی کڑی کو پورے طور پر سمجھ سکے گا جو مسلمانانِ ہند کی سیاسی زندگی کی تشکیل کر رہا ہے۔ پھر یہ خطوط مستقبل کے ان فقہا کے لیے بھی مفید ہوں گے جو مجتہدانہ انداز سے اسلامی اصولوں کو حالاتِ حاضرہ پر منطبق کرنے کے لیے فقہ کی جدید تدوین کی ہمت کریں۔ (’’اشارات‘‘ ، نعیم صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۳‘ عدد ۱-۲‘ رجب و شعبان ۱۳۶۲ھ‘ جولائی ‘ اگست ۱۹۴۳ئ‘ ص ۵-۶)