مضامین کی فہرست


۲۰۰۵فروری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کے طویل ادوار میں عوام کے جمہوری حقوق کی صورت حال دگرگوں نظر آتی ہے۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں ایک ایسے نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے جس میں فردِ واحد کلی اختیارات کا مالک ہے ۔ وہی افواج کا سربراہ ہے‘ وہی مملکت کا بااختیار صدر ہے‘ وہی قومی سلامتی کونسل کا صدر نشین ہے ‘غرض وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے۔ ہر اہم معاملے میںآخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ داخلی اور خارجی تمام امور میں حکومتی اعیان و انصار اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے ۔ وزیراعظم اس کا ایک نمایندہ ہے ۔حکومتی پارٹیاں اس کے گرد متحدہیں اور اس کی ہر پالیسی اور ہر اقدام کی مویّد ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد یا ادارے کی یہ مجال نہیں کہ کسی بھی اہم معاملے میں وہ کوئی آخری اور حتمی فیصلہ کرسکے ۔

فوجی اصطلاح میں اسے Unity of Commandکہتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے مطابق یہ صورتِ حال ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت ہے ۔ پرویز مشرف صاحب کے ان کلی اختیارات کا منبع وہ فوجی انقلاب ہے جو پاکستانی فوج نے اس وقت برپا کیا جب پرویز مشرف صاحب ہوائی جہاز کے ذریعے بیرون ملک دورے سے واپس آ رہے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم نے ان کے ہوائی جہازکو رُخ موڑنے کا حکم دے دیا تھا ۔ کورکمانڈروں کے اجتماعی فیصلے کے تحت وزیراعظم کا یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا اور اس طرح ایک فوجی انقلاب برپا ہوگیا ۔

سابقہ حکومت کی غلطیاں اور موجودہ حکمران

بلاشبہہ حالات کو یہاں تک لانے میں میاں نوازشریف صاحب کی غلطیاں بھی شامل تھیں۔ میاں صاحب بھی کلی اختیارات کے آرزومند تھے۔ پہلی بار جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی کے تحت وزیر اعظم بنے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مختار کل بننا چاہتے تھے۔ ہم نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ ان عزائم کو چھوڑ کر ایک مہذب اور شائستہ جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالیں۔ کلی اختیارات فقط اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہیں‘جس کا علم کامل ہے‘ جو سمیع وبصیر‘جو  علیم و خبیر ہے اور جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کے اقتدار کی کنجیاں ہیں اور وہی بادشاہی کا مالک ہے۔

ہم نے اُن سے یہ بھی گزارش کی کہ ملک و ملّت کا مفاد آئینی ضابطوں کی پابندی میں ہے۔ تقسیم کار کے لیے اداروں کی تشکیل کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کردیں۔ انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے کرنے کے لیے عدلیہ کی بالا دستی کو دل سے تسلیم کریں ۔ قرآن و سنت کو آخری مرجع تسلیم کرکے تنازعات کو اللہ اور رسولؐ کے احکام کے مطابق حل کرنے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہوں ۔میاں نوازشریف یہ برادرانہ مشورہ قبول کرنے کے بجاے ہم سے ناراض ہوگئے۔ مجبوراً ہم اسلامی جمہوری اتحاد سے علاحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد میاں صاحب کا اقتدار بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا۔ اب معلوم نہیں کہ میاں صاحب نے اس ساری صورتِ حال سے کہاں تک سبق حاصل کیا ہے۔

اپنا کام نکالنے کے لیے امریکا اور اس کے مغربی حواریوں نے پرویزمشرف صاحب کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام ملا ہے ۔ پرویز مشرف کے گرد جو سیاسی عناصر اکٹھے ہوئے ہیں وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں ‘ انھیں فوجی اقتدار کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ لوگ نواز شریف اور بے نظیر کی واپسی سے خائف ہیں اور پرویز مشرف کی وردی کے بغیر نوازشریف اور بے نظیر کو باہر رکھنا انھیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ انھیں خوف ہے کہ جب پرویز مشرف اپنا فوجی عہدہ چھوڑ دیں گے اور ملک میں آئین بحال ہوجائے گا ‘ عدالتیں کام کرنے لگیں گی ‘ سیاسی جماعتیں مکمل طور پر آزاد ہوجائیںگی تو فوج کی چھتری کے ذریعے حاصل شدہ تحفظ باقی نہیں رہے گا اور ان کی شامت آجائے گی ۔ اس لیے یہ پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ان کی ناجائز اور غیر آئینی حکومت کو قانونی جوازفراہم کرنے کے لیے ہر ذلت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔

امریکا کے جمھوریت پسندی کے دعوے کی حقیقت

امریکی حکومت اپنے وقتی مصالح کی خاطر نہایت ڈھٹائی سے اپنی جمہوریت پسندی کے دعووں کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ منافقت اور دہرے معیار کا جو مظاہرہ امریکی کارپرداز ان پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے کررہے ہیں‘ اس سے امریکا کی خود غرضی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس کے چہرے سے منافقت کا نقاب مکمل طور پر اتر گیا ہے ۔

عالمی طاقت کی حیثیت سے روس کی پسپائی کے بعد امریکا ایک ایسے عالمی نظام (New World Order) کاعلم بردار بن گیا ہے جس کی قیادت‘ وہ چاہتا ہے کہ مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہو ‘ وہ پوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہو‘ تمام اقوام اس کے تابع ہوں‘ اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی لونڈ ی ہو اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر وہ باقی دنیا پر سیاسی ‘معاشی ‘ ثقافتی ‘تعلیمی اور معاشرتی ہمہ گیر غلبہ حاصل کرلے۔ اس ہمہ گیر غلبے کی خاطر وہ ہر حربے کو استعمال میں لانا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ کسی طرف سے امریکا کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس کے تدارک کے لیے وہ پیشگی حملے  (pre-emptive attack) کو وہ اپنے لیے جائز سمجھتا ہے ۔

  • لادین نظام تعلیم کے نفاذ کی کوششیں: مسلمان ممالک میںلادین نظام رائج کرنا اور اس کے لیے مسلمان ممالک کے نصاب تعلیم سے قرآن و سنت کی تعلیمات کو خارج کرنا امریکا کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان میں پرنس کریم آغاخان کو ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تعلیم کی عالم گیریت (Globlisation of Education) پر بھارت میں کریم آغا خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی کا اخبار دعوت رقم طراز ہے :

گذشتہ دنوں بین الاقوامی شہرت یافتہ آغاخان فائونڈیشن کے سربراہ کریم آغاخان ہندستان کے دورے پر آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسماعیلی خوجہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہیں مگر دل چسپ امر یہ ہے کہ ان کا مولدومسکن ہندستان یا ایران نہیں ہے اور نہ مشرق کی کوئی سرزمین اور خطہ ء ارضی ان کی جاے رہایش و پیدایش ہے بلکہ دور دراز علاقے یعنی دیار مغرب کا ایک نہایت اہم حصہ فرانس ان کا مرکز و محور ہے ۔ یہ امر اس سے کہیں زیادہ دل چسپی کا باعث ہے کہ وہ رہتے تو فرانس یعنی مغرب میں ہیں ۔مگر ان کا دل مشرقیوں کے لیے دھڑکتا ہے ‘اس لیے کہ ان کی بیشتر معلوم سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا مرکز یہی خطہ ہے۔ ان کی معلوم سرگرمیاں ‘دلچسپیاں اور فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ کلچر اور تعلیم سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ برصغیر کو اپنی کرم فرمائیوں سے اکثر نوازتے رہتے ہیں اور خاص خاص موقعوں پر نہایت خاص مقاصد کے تحت ادھر کا رخ کرتے ہیں اور جب بھی یہاں آتے ہیں‘ ان کی زبردست پذیرائی ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک کیا جاتا ہے جو کسی سربراہِ مملکت کے ساتھ ہوتا ہے۔ گویا حکومت ِہند اور اس خطے کی دوسری حکومتوں کو ان کے مقام و مرتبے کاپورا پورا ادراک ہے ۔ وہ ان کے مقاصد اور مشن سے بھی آگاہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی جب وہ یہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیاگیا۔ وہ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے خاص مہمان رہے اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انھیں آغاخان فائونڈیشن کی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کے میدانوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی تنظیم سماجی ‘ تعلیمی اور حفظان صحت کے میدانوں میں کام کررہی ہے او راب وہ اپنا دائرہ کار بڑھاناچاہتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آغاخان فائونڈیشن فی الحال گجرات اور مہاراشٹر میں سرگرم عمل تھا مگر اب وہ مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح فائونڈیشن نے تعلیم نسواں کو بھی اپنی توجہ کا خصوصی ہدف بنایا ہے ۔ انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے نمایندے کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے اہداف و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جس طرح بنیاد پرستی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے‘ وہ ان کی تشویش کا ایک مرکز ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ سختی اور مزاج کی ناہمواری دور ہو۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کو عام کرنے سے یہ چیز ختم کی جاسکتی ہے ۔ علم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا‘ ناگہانی آفتوں میں بھی یہ بڑا سہارا بنتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہی ان کی اور ان کے فرقے کی اصل قوت ہے ‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کوآج کے تقاضوں یعنی عصری تقاضوں کا جس طرح ساتھ دینا چاہیے تھا‘ ہندستان میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے ۔

گلوبلائزیشن کا عمل جس طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے اور وہاں جس رفتار کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا ہے تعلیم کے میدان میں بالخصوص ہندستان میں وہ چیز مفقود ہے ‘ گویا ان کے مطابق جس طرح معاشی میدان میں گلوبلائزیشن کے اصول کو اپنایا گیا ہے اور دوسرے میدانوں میں جس طرح اس کوتسلیم کرلیا گیا ہے ‘ ٹھیک اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی اس اصول کو نہ صرف متعار ف کرانے کی ضرورت ہے بلکہ اس پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس کے بغیر دنیا کا او رخاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ ناممکن ہے ۔ اگر ہندستان اور اس جیسے دوسرے کمزور اور پس ماندہ ملکوں کو ترقی کرنی ہے تو انھیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے ایک نہایت اہم پیغام یہ بھی دیا ہے کہ روح عصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق روح عصر یہ ہے کہ ایک عالمی آفاقی انسانی برادری جنم لے رہی ہے جس کا منبع نظم وانصرام ایک دستور ہوگا یعنی یہ عالمی و آفاقی اور انسانی برادری ایک دستور کے ماتحت ہوگی ‘ اس میں جغرافیائی حالات اور مختلف قبائلی و نسلی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے‘ اس کا جتنا جلدادراک کرلیا جائے‘ دنیا کے لیے اتنا بہتر ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب قومی ریاستوں (Nation-States)کا دور قصۂ پارینہ ہوگیا ‘ اب عالمی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے ‘کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہو کر رہنا ہے ‘ اگر ا س کوتسلیم کرلیا جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے تو تصادم اور تخریب سے بچا جاسکتا ہے۔(سہ روزہ دعوت‘دہلی‘   یکم دسمبر۲۰۰۴ئ)

  • پاک بہارت مشترکہ تعلیمی نصاب: جنرل پرویز مشرف ایک بھارتی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلے پاکستان اور بھارت کے مشترک تعلیمی نصاب کی پیش کش کرچکے ہیں۔پاکستان کے لاکھوں طلبہ پہلے ہی او (O) اور اے (A)لیول کے ا متحان دے رہے ہیں اور اس طرح اپنے قومی نصاب کی پابندی سے آزاد ہوچکے ہیں۔ جو رہی سہی کسر باقی ہے‘ اسے آغاخان بورڈ کے ذریعے پورا کرنے کے ارادے ہیں۔ مغرب اور امریکا پاکستان کے تعلیمی نصاب اور دینی مدارس میں اسلامی نظام تعلیم کو دہشت گردی کی جڑ سمجھتے ہیں۔ وہ اس نظام کو ختم یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے سے شہادت اور جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کو خارج کرنا ممکن نہیں ہے۔ واشنگٹن ٹائمزمیں ایک امریکی دانش ور اپنے ایک مضمون میں صراحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی کی جڑ خود قرآن کریم کی تعلیمات ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ایک دہشت گرداور انتہا پسند اقلیت نے مسلمانوں اور اسلام کو یرغمال بنارکھا ہے بلکہ اصل مسئلہ خودقرآنی تعلیمات کا پیدا کردہ ہے ۔ لہذا مسئلے کا حل یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر اعتدال پسندمسلمانوں کو آمادہ کیا جائے ۔ اس طرح کے دانش وروں کے زیر اثر امریکی حکومت ایک طرف مسلمان ممالک میں پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی پشت پناہی کررہی ہے جو ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ (Enlightened Moderation)کے نام پر اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے N.G.Os (غیر سرکاری اداروں )پر بے دریغ روپیا خرچ کررہے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے کثیرالقومی تجارتی کمپنیوں کی وسیع افراد ی قوت اور ڈھانچا اور ان کے وسائل بھی استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ بھی انھی بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ جو دن رات اشتہارات کے ذریعے اسلامی ثقافت کو تبدیل کرنے اور مغربی اور ہندوانہ ثقافت کو ترویج دینے کا شیطانی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
  • مغربی اقدر کا فروغ اور تعلیمی نظام میں تبدیلی : امریکا کے مشہور تھنک ٹینک بروکنگز کے دانش ور اسٹیفن کوہن اپنی زیر طبع کتاب  The Idea of Pakistanمیں لکھتے ہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکا کا مخالف (adversary) ہے‘ جب کہ امریکا کو اپنے فوری مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ طویل عرصے کے مدمقابل اور مخالف ہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی توانا ئی کا مالک ہے اور اس کی یہ صلاحیت امریکی عزائم اور علاقے میں اس کے مفادات کے لیے کسی وقت خطرہ بن سکتی ہے‘ جب کہ دوسری وجہ اسلامی نظریے سے پاکستان کی وابستگی ہے ۔ لہٰذا اسٹیفن کوہن تجویز پیش کرتا ہے کہ لمبے عرصے کے خطرات سے بچنے کے لیے‘ امریکا یہ حکمت عملی اختیار کرے کہ مختصر عرصے میں پاکستان کو جو امداد دینا ضروری ہو‘ وہ امداد اس شرط کے ساتھ مشروط ہو کہ پاکستان اپنا نظام تعلیم و تربیت مغربی اقدار کے مطابق کردے اور اس سے قرآن و سنت پر مبنی تعلیمات نکال دے اوراپنے ایٹمی پروگرام کو roll back(لپیٹ) کردے۔

ایک یورپی ادارے(ICMG) International Crisis Management Groupنے قرآن و سنت پر مبنی تعلیما ت کو نفرت انگیز مواد (hatred material)قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے نصاب تعلیم سے اس مواد کو خارج کردے۔ ہلیری کلنٹن نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف اپنے ملک کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور دینی مدارس کو مکمل طور پر حکومت کی تحویل میں لے کر اس کے نصاب کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وہ ایک سوملین ڈالر کی رقم کو قطعی ناکافی سمجھتا ہے جس کی پیش کش اس وقت حکومت امریکا نے کررکھی ہے ۔ ہیلری کلنٹن نے سفارش کی ہے کہ اس مقصد کی خاطر حکومت پاکستان کو کم ازکم   پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دی جائے ۔

ملکی عدمِ استحکام

درج بالا گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ قارئین کے سامنے حالات کا وہ رخ پیش کردیا جائے جن کا اس وقت عالم اسلام اور پاکستان کو سامنا ہے۔  پرویز مشرف کی آمرانہ روش جہاں پاکستان کے داخلی حالات کے پیش نظر خطرناک ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے نظام کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ہماری آزادی و خودمختاری اور ہمارے قومی و ملی تشخص او راسلامی نظریاتی بنیاد کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ اس وقت پرویز مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی جنگ ہمارے ملک کے اندر تک پہنچ گئی ہے ۔ وزیرستان میں قبائل اور فوج میں آویزش ہے‘جب کہ دوسرے قبائلی علاقوں میں بھی فوج پہنچ گئی ہے اور شدیدخطرہ ہے کہ فوج اور قبائل کی یہ آویزش پورے قبائلی علاقے میں پھیل جائے ۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے مجاہدین قبائلی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اگر پاکستانی فوج ان کا صفایا نہیں کرے گی تو امریکی افواج کی براہ راست مداخلت کا خطرہ ہے ۔امریکی افواج کی مداخلت کو روکنے کے لیے اپنے عوام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی منطق کو کوئی بھی جرات مند محب وطن فرد قبول نہیں کرسکتا ۔

پرویز مشرف صاحب نے بلوچ قبائل کو جس لہجے میں دھمکی دی ہے‘ وہ لہجہ دشمن ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کسی گروہ کے لیے چاہے وہ کتنا ہی منحرف ہوچکا ہو‘یہ لہجہ استعمال کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔ داخلی مسائل ہمیشہ سیاسی گفت و شنید اور لچک دار رویے سے حل کیے جاتے ہیں لیکن فوجی آمر اس سیاسی دانش سے محروم ہوتا ہے ۔ بلوچستان کے بعض سرداروں کو حکومت کے بدعنوان کارپردازوں نے جو چھوٹ دے رکھی ہے اور قبائل کے عام افراد کو جس طرح ان کے رحم وکرم پر دے دیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں بلوچ قبائل میں ایک مستحکم اور پایدار جمہوری کلچر کی نشو و نما نہیں ہوسکتی ۔ یہی حال صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جو لا وا پک رہا ہے‘ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔ فوجی آمریت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کو درپیش خطرات

کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہنی مون ختم ہونے کے قریب ہے۔ اعتماد بحال کرنے کے اقدامات (CBM)کے حوالے سے جو مذاکرات شروع کیے گئے تھے‘ بگلیہار ڈیم کے مذاکرات ناکام ہونے سے ان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے ۔ بھارت یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ۔وہ اب تک اسی پرانی رٹ پر قائم ہے کہ پوری ریاست بشمول شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر‘ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔پرویز مشرف صاحب امریکا کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے زعم میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انھوں نے کشمیرکے سات ٹکڑے کردینے کی ایک متبادل تجویز پیش کردی‘جب کہ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔

کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ایک تاریخ ہے اور اس موقف کی مستحکم بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ تقسیم ہند کے نامکمل حصے کے طور پر جب تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت یہ تنازع حل نہیں ہوپاتا‘اس وقت تک یہ ایجنڈا نامکمل ہے۔ اس قانونی بنیاد کے بغیر بھارت اسے علاحدگی پسندوں کی ایک تحریک قرار دے گا اور بھارت میں اس طرح کی بیس سے زیادہ تحریکیں موجود ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ ان تحریکوں سے کلی طور پر الگ نوعیت کا ہے ۔ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا ۔ بھارت کا قبضہ ظالمانہ ‘ناجائز اور غیر اخلاقی ہے اور اس کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ایک جائز جدوجہد ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دنیا کی تمام آزاد ی پسند اقوام کا فرض ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوںکا ساتھ دیں ۔ اگر اقوام عالم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ایک تو بھارت کے ساتھ ان کے تجارتی اور سیاسی مفادات کی وابستگی ہے اور دوسری وجہ خود پاکستان کے حکمرانوں کی سفارتی اور اخلاقی کمزوری ہے ۔

پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ ابتدا سے یہاں اکثر حکومتوں نے اپنے ملک کے عوام کی آزادیوں اور حقوق کو چھیننے اور دبانے کی کوشش کی ہے ۔ پرویز مشرف کی حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومتوں کے تسلسل کا حصہ ہے ۔اس طرح کی حکومتوں میں اخلاقی جرات کا فقدان ہوتا ہے ۔ جس حکومت نے خود اپنے عوام کے حقوق کو غصب کررکھے ہوں‘ وہ کسی دوسرے ملک کی  بے انصافیوں اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کیونکر آواز اٹھا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان‘ بھارت کے خلاف عالمی سطح پرایک موثر سفارتی مہم چلانے میں اسی وجہ سے ناکام رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں شہری آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔

فوج کو متنازع بنانے کی پالیسی

اس وقت پاکستان کو ان مخدوش حالات سے نکالنے اور اسے ایک مستحکم سیاسی او رمعاشی بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے عوام پر آپڑی ہے ۔ پرویز مشرف نے فوج کے ادارے کو سیاست میں بری طرح ملوث کر دیا ہے۔جو ادارہ سیاست میں اس قدر دھنس جائے اس میں اختلافات پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ۔ قومی سلامتی کونسل کے ادارے کی مخالفت خود ایس ایم ظفر نے کی ہے جو ایم ایم اے کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کے قانونی مشیر تھے۔ انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس ادارے میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لیڈر  آمنے سامنے بیٹھے ہوں اور افواج پاکستان کے سرکردہ سربراہ بھی ان کے ساتھ ہوں‘ تو اس ادارے میں ان کاایک طرف جھکائو اور اختلاف راے ایک بدیہی امر ہے ۔

جنرل پرویزمشرف کی وجہ سے عوام میں فوجی ادارے کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ فوجی حکومت ملّی اور قومی امراض کا مداوا نہیں کرسکتی۔پرویز مشرف کے خلاف تحریک صرف اس کی ذات تک محدودنہیں ہے بلکہ عوام کی طرف سے فوجی ادارے کو سیاسی ادارے کے طورپر مسترد کرنے کی تحریک ہے۔ پرویزمشرف کے بعد کسی اور جرنیل کی مداخلت بھی برداشت نہیںکی جائے گی ۔

موجودہ تحریک کے مراحل

حالیہ تحریک کے پہلے مرحلے میں ہم نے عوام کو یہ ہدف دیا ہے کہ ملکی سیاست سے فوج کوفارغ کرنے کا عزم کرلیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پہلے ہی سے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا لازمی ہے کہ آئین کی مکمل پاسداری کا عہدکریں‘ نہ خود آئین کے کسی بنیادی کلیے کو توڑنے کی کوشش کریں اور نہ فوج کو یہ موقع دیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور بدعنوانیوں کو بہانہ بناکر آئینی ضابطوں کو معطل کرسکیں۔ماضی میں سول حکومتوں کی ناکامی اور ان کے خلاف عوامی تحریکوں کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے آئینی ضابطوں کو پامال کیا اور مطلق العنان حکومتیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ذوالفقار علی بھٹو ‘بے نظیر بھٹواور نواز شریف صاحب کے خلاف اس لیے تحریکیں اٹھیں کہ انھوں نے اسی شاخ کو کاٹ ڈالا تھا جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی حکومتیں جمہورکی طاقت اور راے عامہ کی قوت سے چلتی ہیں۔ جب وہ عوامی امنگوں کو نظر انداز کرکے قانون اور آئینی ضابطوں کو توڑنے کے درپے ہوجاتی ہیں تو وہ خود اپنی بنیادوں پر کلہاڑا چلاتی ہیں اور فوج کے طالع آزما‘خود غرض اوربڑی طاقتوں کے آلہ کار جرنیل اس موقع کو غنیمت جان کر قومی وسائل کو خوانِ یغما سمجھ کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔

مستقبل میں کسی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس حد تک عوام کو ایک مخلص قیادت کے گرد جمع کرسکتے ہیں اور کس حد تک انھیں آخری منزل تک متحرک رکھنے کا ولولہ دے سکتے ہیں ۔ماضی میں تحریک چلانے والے قائدین کی نظر بھی آخری منزل کی بجاے موجودحکمران سے نجات حاصل کرنے تک محدود رہی‘ اس لیے عوام نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے پر ختم کردی ۔ قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کی جگہ ضیاء الحق کو قبول کرلیا اور بے نظیر اور نوازشریف کے بعد وہ پرویز مشرف کے جھانسے میں آگئے ۔موجودہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک مہذب‘ جمہوری‘ شائستہ اور آئین کی پابند اور عدالتوں کااحترام کرنے والی اسلامی جمہوری حکومت قائم نہ ہوجائے۔

تحریک ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرکر زور پکڑتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں قیادت یکسوئی کے ساتھ اہداف متعین کرکے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ عوام کو ایک واضح پروگرام دے کر پکارتی ہے ۔ قیادت کی پکار پر متعلقہ سیاسی اور دینی جماعتوں کے کارکن لبیک کہتے ہیں۔کارکن اپنی قیادت کی رہنمائی میں قربانی دیتے ہیں اور پھر عوام میدان میں نکلتے ہیں ۔اس وقت ہم اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ مجلسِ عمل کے کارکن اپنی قیادت کی پکار پر میدان میں ہیں ۔حج اور عید کے بعد ان شاء اللہ قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ہی عوام کا جم غفیر بھی پرویز مشرف کی غیر آئینی اور بلا جواز حکومت کے خلاف میدان میں آئے گا ۔ لوگ پرویزمشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔

عراق اورافغانستان میں امریکا جو مظالم ڈھا رہا ہے اور اس نے مسلمان عوام کو نئے سرے سے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑنے کے لیے جال پھیلایا ہے‘ عوام پرویز مشرف کی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں جو ملک کو امریکا کا طفیلی لادین ملک بنانے پر تلی ہوئی ہے۔عوام میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانی کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں ۔ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں مخلوط معاشرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور جس طرح ہمارے خاندانی نظام اورہمارے معاشرتی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے‘ عوام اس سے اظہار بیزاری اور نفرت کرتے ہیں ۔ پرویز مشرف اور اس کے نامزد وزیراعظم کے دعوئوں کے علی الرغم ملک کے عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے‘ ملک میں ہرسو بدامنی ‘ڈاکا زنی اور افراتفری ہے او رعوام اس صورتِ حال کے خلاف کسی بڑی تحریک کے انتظار میں ہیں ۔

متحدہ حزبِ اختلاف

حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی باہمی اتحاد کے لیے مشترک بنیادوں کی تلاش میں ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکو سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اپوزیشن جماعتوں کو مشترک بنیادفراہم کرتا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ اور بعض دوسری جماعتیں  مطالبہ کر رہی ہیں کہ مجلسِ عمل سترھویں آئینی ترمیم سے اعلان بیزاری کر دے لیکن چونکہ سترھویں آئینی ترمیم کاتقاضا پورا کرنے سے خود پرویز مشرف نے راہِ فرار اختیار کی ہے اور عملاً اس دستوری عہد کے ایک حصے کو من مانے طور پر منسوخ کر دیا ہے‘ اس لیے مجلسِ عمل کو بھی قانوناً اور اخلاقاً سترھویں ترمیم سے اعلان بیزاری کرنے میں کوئی عار نہیں ہے ۔

اس وقت حزبِ مخالف کی جماعتیں ا س بات پر متفق ہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت ناجائز‘غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔اس کی جگہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک منتخب او رجائز حکومت کے قیام کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟ اس کے لیے عافیت کا راستہ تو یہی تھا کہ پرویز مشرف سترھویں ترمیم کو قبول کرکے اپنے عہدکا پاس کرتے اور فوج کی سربراہی سے دست بردار ہوکر جمہوریت کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کرتے‘ لیکن ان کواللہ نے عزت کا یہ راستہ اختیار کرنے کی توفیق نہیں دی ۔اب عوام  انھیں صدر نہ چیف آف آرمی سٹاف قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دونوں عہدوں سے مستعفی ہوجائیں ۔ آئین کے مطابق اس صورت میں عبوری سربراہ چیئرمین سینٹ ہوگا اور قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کا نمایندہ وزیر اعظم ہوگا ۔ لیکن کیا موجودہ حکمران پارٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پرویز مشرف کے بغیر اپنی یک جہتی کو برقرار رکھ سکے ؟

حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ!

حزبِ مخالف کی جماعتیں اور خاص طورپر متحدہ مجلسِ عمل‘ حکمران جماعت کودعوت دیتی ہے کہ وہ اس امکان پر غور کرے اور اس سے قبل کہ عوامی سیلاب سب کچھ بہالے جائے‘ وہ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے آئینی راستے کو قبول کرے ۔ مجلسِ عمل کے ساتھ معاہدہ‘ حکمران جماعت اور فوج کے اہم سرکردہ افراد نے کیاتھا اور پرویز مشرف کے ساتھ حکمران جماعت اور فوج کے ہر اہم سرکردہ عناصر سب بد عہدی کا شکار ہوئے ہیں۔اس بد عہدی کے سبب قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے عوامی جدوجہد کا وہی راستہ اختیار کرے جس کی تازہ ترین مثال یوکرائن کے عوام نے پیش کی ہے اور اس سے کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن اور یوراگوئے میں جس کا تجربہ ہو چکا ہے۔

اس تحریک میں مسلمان خواتین کا کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکی عالمی نظام کے تحت کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامی قوانین کے خلاف اکسایا جائے ۔ مغربی تہذیب نے عورت کی جوگت بنائی ہے جس طرح اس کا لباس اتروا کر اس کو رسوا کیاگیا ہے اور جس طرح آزادی اور حقوق کے نام پر دھوکا دے کر اسے مردوں کے تفنن طبع اور جنسی ہوس کاذریعہ بنایا گیا ہے‘ وہ مسلمان خاتون سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔مسلمان خواتین ہماری تہذیب اور ہماری نئی نسل کے اخلاق و کردار کی محافظ ہیں ۔مسلمان خواتین میں قرآن کریم کی تعلیمات سے آگہی حاصل کرنے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی مجالس میں شرکت کا جو شوق آج پایا جاتا ہے‘ یہ اسلامی تہذیب کے احیا کی بڑی علامتوں میں سے ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا بڑا ذریعہ خاندانی نظام اور گھر کی حفاظت ہے اور خواتین کاجہاد یہی ہے کہ اسلامی معاشرے کے اس بنیادی قلعے کی حفاظت کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں اور اس کے لیے قرآن کریم کی تعلیمات کو ذریعہ بنائیں ۔

ملک اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ غفلت اور لاپروائی کی گنجایش نہیں۔ حکمرانوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو لہوولعب میں مبتلا کر کے حقیقی مسائل سے غافل کردیا جائے۔ وہ بھول جائیں کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے اور کن عظیم مقاصد کے لیے حاصل  کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قوم غافل نہیں‘ بیدار ہے۔ اسے اپنے مقاصد کا شعور اور احساس ہے۔ وہ ان مقاصد کے لیے قربانیاں دینا جانتی ہے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کی آواز پر لبیک کہے گی۔ مرد اور عورت سب اٹھیں گے اور ایک ایسی تحریک برپا ہوگی جس کے نتیجے میں ملک صحیح سمت میں سفر شروع کرے گا اور بالآخر اپنی حقیقی منزل کو پالے گا۔ ان شاء اللہ!

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی بھی قوم یا ملک اس بات کو گوارا اور برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی شہ رگ دشمن کی تلوار کی زد میں ہو۔ (قائداعظم محمد علی جناحؒ)

اگرچہ بہت سے لوگ اب یہ سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒنے یہ الفاظ کب کہے تھے‘ تاہم ڈاکٹرریاض علی شاہ کی ڈائری (پبلشنگ ہائوس‘ بل روڈ پبلی کیشن‘ ۱۹۵۰ئ) ملاحظہ کرلی جائے تو لوگ مخمصے سے نکل سکتے ہیں۔ ویسے کشمیر سے متعلق لکھنے اور بولنے والے ان الفاظ کے بغیر تحریر و تقریر کو کبھی مکمل نہیں سمجھتے اور واقعی موضوع کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتاہے۔ کشمیر کے بہتے دریا پاکستان کی سرزمین کے لیے میٹھاپانی لاتے ہیں اور یہاں کی مٹی سونا اُگلتی ہے۔ پاکستان کی ۷۵ فی صد معیشت کا انحصار زراعت اور اسی پانی پر ہے جو پاکستان کو شاداب اور سرسبز بناتے ہیں۔

بھارت نے روز اول ہی سے اپنی نظر ان پانیوں پر رکھی اور ہمیشہ ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے پر عمل درآمد کے لیے وجود پاکستان کے درپے رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے نام سے پانیوں کی تقسیم کا معاملہ ورلڈ بنک کے تعاون سے طے پایا۔

معاہدے کی متعلقہ دفعات درج ذیل ہیں:

آرٹیکل (۲):

۱- مشرقی دریائوں (راوی‘ ستلج‘ بیاس) کا تمام پانی بغیر کسی پابندی کے بھارت کے استعمال میں رہے گا۔

آرٹیکل (۳):

۱- پاکستان ان تمام مغربی دریائوں (سندھ‘ جہلم‘ چناب) کا پانی بغیر کسی پابندی کے استعمال کے لیے حاصل کرے گا جو بھارت کو پیراگراف ۲ کی پرویژن کے تحت چھوڑنا ہوگا۔

۲- بھارت معاہدے کے تحت پابند ہوگا کہ مغربی دریائوں کے تمام پانیوں کو بہنے دے اور اسے پانی میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔

۳- بھارت مغربی دریائوں کا پانی جمع نہ کر سکے گا‘ یا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کسی قسم کی تعمیر نہ کر سکے گا۔

بھارت نے کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے باوصف ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو اپنا آئین نافذ کیا تو اپنی سرحدوں میں کشمیر کو بھی شامل قرار دیا اور اٹوٹ انگ کی رٹ الاپنے لگا۔ پھر کسی نہ کسی بہانے سے مسئلے کو ٹالتا رہا۔

یوں اصل مسئلے کے بجاے ان جزوی مسائل کو اٹھاتے ہوئے لاحاصل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ پانیوں کے سلسلے میں واضح اور دو ٹوک معاہدے کی موجودگی میں تنازعے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن بھارت نے مشرقی دریا حاصل کرنے کے بعد بگلیہار ڈیم اور وولر ڈیم کے ناموں سے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں کے علاوہ دریاے چناب پر (۱) Nau Nut Najgad H.E. Project (۲) Kirtai H.E. Project (۳) Dulpasti H.E. Project (۴) Pakwal Dul H.E. Project(۵) Rate H.E. Project(۶) Baglihar R.E. Project ‘اور ۲۰۰۲ء میں رام بن کے نزدیک بگلیہار ڈیم‘ جب کہ دریاے جہلم پر (۱) وولر جھیل (۲) وولر بیراج (۳) پاورچینل بیراج (۴) لوئر جہلم پاور ہائوس (۵) آف ٹیک موہرا پاور چینل (۶) موہرا پاور ہائوس (۷) یوری پاور ہائوس تعمیر کیے ہیں‘ نیز دریاے کشن گنگا پر بھی Kanjarwan میں ڈیم تجویز کیا گیا ہے۔ اگر کشمیر کی سرزمین سے باہر بھارتی سرحدوں کے اندر دیکھیں تو دریاے چناب پر Gypsa H.E. Projectبمقام Tandiبھی نظر آتا ہے۔

بگلیہار ڈیم گذشتہ سات برس سے زیرِتعمیر ہے۔ بھارت نے اس ڈیم پر منصوبہ بندی کا کام ۱۹۹۲ء میں مکمل کیا‘ ۱۹۹۶ء میں اس کی حتمی تعمیر کا فیصلہ کیا اور ۱۹۹۹ء سے باقاعدہ تعمیر کا آغاز کر دیا۔ اس سارے عرصے میں پاکستان کو اول تو بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی یا پھر اس کی طرف سے مطلوبہ وضاحتوں کی تفصیل فراہم کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔اب اس کا خاصا بڑا حصہمکمل ہوچکا ہے‘ اور اب تو وہ گیٹ تعمیر ہونے باقی ہیں جن کے پیچھے دریاے چناب کے پانی کو روکا جانا ہے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کو سیراب کرنے والی دو بڑی نہریں بھی خشک ہوجائیں گی۔ کون نہیں جانتا متوازی چلنے والی یہ دو نہریں زمین کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی دفاعی لائنوں کا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ اب بھارت کے رحم و کرم پر ہے کہ پانی کو روک کر زمینوں کو بنجر کر دے اور جب چاہے سیلابی زمانے میں گیٹ کھول کر پاکستان کو سیلابی ریلے کا شکار کر دے۔

ڈیم کے موجودہ ڈیزائن کے مطابق اس سے ۴۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے علاوہ ڈیم میں ایک لاکھ ۶۵ہزار مکعب فٹ پانی جمع کرنے کی گنجایش پیدا ہوسکے گی جس کے نتیجے میں پانی کے بہائو میں ۷ سے ۸ ہزار کیوسک کی کمی واقع ہوجائے گی جو پاکستان خصوصاً پنجاب کی زراعت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق ۱۹۹۲ء ہی سے اس منصوبے کے حوالے سے بھارت سے مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن ان مذاکرات کو بھی بھارت نے مسئلہ حل کرنے کے بجاے وقت حاصل کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان کی ساری کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ نہ تو پاکستان کو ڈیزائن فراہم کیا گیا اور نہ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر کو معائنہ کی ہی اجازت دی گئی اور نہ پاکستان کی اس آخری تجویز کو پذیرائی دی کہ جب تک اس بارے میں دونوں فریقوں کے درمیان کوئی حتمی حل طے ہو‘ اس کی تعمیر روک دی جائے۔ یوں تو اس حوالے سے کافی عرصہ پہلے ہی تعطل کی صورت حال پیدا ہوچکی تھی اور پاکستان اس مسئلے کے حل کے لیے ورلڈ بنک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن ۲۴ نومبر۲۰۰۴ء کو شوکت عزیز من موہن سنگھ مذاکرات میں بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر مہلت حاصل کرنے کے لیے درخواست کی لیکن یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ اب پاکستان کے پاس سندھ طاس معاہدے کی بنیاد پر ورلڈ بنک سے رجوع کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں ہے۔

وولر ڈیم کو تو مجاہدین کشمیر نے بزورِ شمشیر روکا تھا۔ لیکن بگلیہار ڈیم کی تعمیر اور مذاکرات کا مظاہرہ کرنے سے قبل بھارت نے اعتماد سازی کے اقدامات (CBM) کے نام پر باڑ لگا کر مجاہدین آزادی کی امداد کے تمام راستے بند کروا دیے۔ آپریشن سرپ ویناش (سانپوں کو مارنا) کے بعد آپریشن فلیش آئوٹ‘ اور اب آپریشن سرچ آئوٹ کے نام سے اس قوت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے فری ہینڈ حاصل کرچکا ہے۔ لیکن کیا کہیے کہ ۱۹۶۰ء میں ایوب خان کے دورِحکومت میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی رو سے راوی‘ ستلج اور بیاس کے دریائوں سے عالمی استعمار کی سازشوں اور محض دکھاوے کے لیے ۱۶ کروڑ روپے کے عوض دستبردار ہوگئے‘ اور اب خود معاہدے کے پابند معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے حوالے سے خرابی بسیار کے بعد ورلڈ بنک کے دروازے پر دستک دینے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ وہاں سے تو فیصلہ اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کے حق میں ہوسکتا ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا جس کو بھارت نے درست تسلیم بھی کیا تھا لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوا؟ کیا بھارت نے پابندی کی‘ کیا پاکستان کو حق مل گیا؟ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت اس طرزِعمل سے ہمارا دوست بن جائے گا؟ نہیں‘ دوطرفہ مذاکرات کے عمل میں اگر بگلیہار ڈیم پر مذاکرات کو test caseبنایا جائے تو مذاکرات ناکام ہو چکے‘ سیاچن پر مذاکرات بے نتیجہ رہے‘ سرکریک پر مذکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ کشمیر پر مذاکرات کے حوالے سے بھارتی خارجہ سیکریٹری نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر دوٹوک موقف سنا دیا۔ نٹورسنگھ صاحب نے بات واضح کردی ہے‘ جب کہ بھارتی حکومت کے وزیر براے پانی و بجلی چکراورتی نے ۲۹ مئی ۲۰۰۲ء کو دہلی میں کہا تھا کہ ’’جب ہم سندھ طاس معاہدے کو چھوڑ دیں گے تو پاکستان پانی کے قطروں کے لیے چیخے گا‘‘۔

سوال یہ ہے کہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے آغاز ہی میں کیوں مؤثر طور پر نوٹس نہ لیا گیا‘ اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے‘ اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ گویا بھارت کے ہاتھ میں پاکستان کا ڈیتھ وارنٹ ہے!

خالص علمی حیثیت سے ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیرمسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوںکا سراغ ملتا ہے۔

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے--- دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔

ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلے کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کر کے رکھ دی ہے۔

’مذہب‘کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریئے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے‘ جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک’مذہب‘قرار دے لیں اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔

اسی طرح ’قوم‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیرتلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتمائوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔

جھاد کی حقیقت

پس اگر اسلام ایک ’مذہب‘ اور مسلمان ایک ’قوم‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے  کہ اسلام کسی ’مذہب‘ کا اور ’مسلمان‘ کسی ’قوم‘ کا نام نہیں ہے۔ دراصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے‘ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور  اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔

تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کردیے اور ان کی جگہ ’جہاد‘ کا لفظ استعمال کیا جو struggle کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جا سکتا ہے:

To exert one's utmost endeavour in furthering a cause

اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کر دینا۔

سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’جنگ‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہو رہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے وہ اس سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا‘ اس کی دل چسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔

اس کا مدعا اور اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑنی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے--- زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرئہ زمین--- اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے‘ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہیے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’اسلام‘ ہے‘ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہو سکتی ہیں‘ اور ان سب طاقتوںکے استعمال کا ایک جامع نام ’جہاد‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے ۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے‘ اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

فی سبیل اللّٰہ کی لازمی قید

لیکن اسلام کا جہاد نرا ’جہاد‘ نہیں ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے۔ ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’راہِ خدا میں‘۔اس ترجمے سے   لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگو ں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا    جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ کیوں کہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’راہِ خدا‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سماسکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو‘ اسلام ایسے کام کو ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں‘ اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے  کہ ایک غریب انسان کی مدد کر کے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہو کر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے‘ اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

’جہاد‘ کے لیے بھی ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق  نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اُس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہو کہ قیصرکو ہٹا کر وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و نام وری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مّدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضے میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔ (اسلامی نظام اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۴۰-۲۴۵)

حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب آپ اپنے مومن بندے کو قلیل دنیا عطا فرماتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس دروازے سے جنت کو دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا: اے موسیٰ! یہ وہ گھر اور نعمتیں ہیں‘ جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہیں (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب تیری عظمت اور جلال کی قسم! اگر ایک آدمی کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کٹے ہوں اور اسے اس دن سے جس دن اسے پیدا کیا گیا‘ ساری عمر چہرے کے بل گھسیٹا جائے لیکن اس کا انجام یہ گھر اور اس کی نعمتیں ہوں‘ تواس آدمی کا حال یہ ہے گویا اس نے کبھی بھی کوئی تکلیف اور فقروفاقہ نہیں دیکھا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ اپنے ساتھ کفر کرنے والے بندے کو فراخی کے ساتھ دنیا عطا فرماتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ تب موسیٰ علیہ السلام کو جواب دینے کے لیے دوزخ کا دروازہ کھولا گیا‘ پھر کہا گیا: اے موسیٰ! یہ وہ جگہ ہے جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہے (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ تب موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ کی عزت و جلال کی قسم! اگر دنیا میں اس وقت سے جس وقت سے آپ نے اس کافر کو پیدا کیا ہے‘ وہ قیامت تک زندہ رہے (اور عیش کرتا رہے) لیکن اس کا انجام یہ ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ گویا اس نے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ (مسند احمد)

آج ایمان والے طرح طرح کی تکالیف‘ مصائب‘ مظالم اور فقروفاقے کا شکار ہیں اور کفار عیش و عشرت میں مگن ہیں‘ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں‘ خون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور اپنی سائنس و ٹکنالوجی اور فوجی اور مادی قوت پر نازاں ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی بے بسی پر توہین و تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر ان دونوں گروہوں میں سے کون سا گروہ خوش قسمت اور کامیاب ہے؟ اس کا صحیح فیصلہ وہ منظر کرتا ہے جو جنت و دوزخ کی شکل میں سامنے ہے‘ جسے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا گیا تووہ مطمئن ہوگئے۔ اہلِ ایمان کی تکالیف اور کفار کی عیش و عشرت کے بارے میں ان کو جو اشکال پیش آیا وہ رفع ہوگیا۔ پس جو لوگ جانیں تو قربان کر دیتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں ہوں‘ وہ خسارے میں نہیں بلکہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یقینا مجرم ایمان والوں کے ساتھ ہنسی اور مذاق سے پیش آتے تھے اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کی طرف واپس آتے تھے تو مزے لے لے کر باتیں کرتے تھے اور جب انھیں دیکھتے تھے تو کہتے تھے یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘ حالانکہ یہ ان پر محافظ بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ پس آج کے دن وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں‘ کفار پر ہنس رہے ہوں گے‘ تختوں کے اوپر ٹیک لگائے بیٹھے‘ ان کی تذلیل کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ مل گیا نا‘ کافروں کو ان حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے۔(مطففین ۲۹-۳۶)

تکلیف اور راحت کا ایک منظرنامہ آج اس دنیا میں ہے اور ایک کل قیامت کے روز ہوگا۔ آج کا منظرنامہ وقتی‘ عارضی اور فانی ہے اور کل کا منظرنامہ دائمی اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کس منظرنامے والے خوش قسمت اور کس منظرنامے والے بدبخت ہیں۔ پھر کیا ایمان والوں کو آج کے اس منظرنامے پر مایوس اور دل شکستہ ہو کر بیٹھ جانا چاہیے یا اللہ کے بھروسے پر ایمان اور جہاد کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العالمین فرماتے ہیں مجھے میری عزت کی قسم میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن جمع نہیں کروں گا۔ جب وہ دنیا میں مجھ سے ڈرے گا تو آخرت میں اسے امن دوں گا اور جب دنیا میں مجھ سے بے خوف ہوگا تو آخرت میں اسے خوف زدہ کروں گا۔ (ابن حبان)

جو دنیا میںبے خوف ہیں وہ ظلم و جور اور قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے مرتکب ہیں۔ لوگوں کے گھروں‘ ملکوں مالوں اور جایدادوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ اسلامی اور انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی پیروی سے بے نیاز ہیں۔ تب قیامت کے روز ان کے لیے یہ بدلہ ہے کہ یہ خوف زدہ ہوں‘ دوزخ میں بسیرا کریں۔ جو دنیا میں خوف زدہ ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے خشوع و خضوع کرتے اور اس کی بندگی میں لگے رہتے ہیں‘ ان کے لیے اس کے سوا کیا جزا ہو سکتی ہے کہ وہ جنت کے دارالسلام اور دارالامن میں بے خوف و خطر نازونعم میں ہشاش و بشاش رہیں۔

o

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسے زمانے میں ہو کہ تم میں سے جس نے احکام کے دسویں حصے کو چھوڑا وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جس نے ان احکام کے‘ جو اسے دیے گئے ہیں‘ دسویں حصے پر عمل کیا وہ نجات پائے گا۔ (ترمذی)

آج کل کے دور میںاس حدیث کی روشنی میں ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اگر لوگ اسلامی نظریہ حیات کے حامل ہوں اور اسلامی احکام پر کچھ نہ کچھ عمل کرتے ہوں تو انھیں تحقیر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ زمانے کے حالات اور ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے سختی اور نرمی قدرتی بات ہے۔ کسی وقت حالات سازگار ہوتے ہیں۔ عمل کے اسباب اور جذبات کو ابھارنے والے ذرائع زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا۔ ایسے حالات میں سستی کا کوئی جو ازنہیں رہتا۔ اس لیے ایسے زمانہ میں کمال درجے کا عمل معتبر ہوتا ہے اور کوئی زمانہ ایسا آتا ہے‘ جس میں حالات سازگار اور موافق نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں تھوڑا عمل بھی کافی شمار ہوتا ہے۔

مسلمان معاشرے میں کام کے لیے اسی اصول کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ لوگوں کو بعض اوقات سست رفتار اور غفلت میں مبتلا دیکھ کر مایوس ہو کر بیٹھ جانا اور انھیں ناقابلِ اصلاح سمجھ لینا اور یہ تصور کر لینا کہ کچھ نہیں ہوسکتا‘ قطعاً درست نہیں ہے۔ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا سا جذبہ اور جوش و خروش اس لیے نہیں ہوسکتا کہ اس دور کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود اور براہ راست استفادہ نصیب نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو آپؐ کے اتباع کی توفیق ملتی ہے تو وہ اگر دور صحابہ کے مقابلے میں دسواں حصہ بھی ہوگی تو وہ بھی کافی شمار ہوگی۔ اس لیے آج کے دور میں اگر صحابہ کرامؓ کے دور کی جدوجہد کا دسواں حصہ بھی ہوگا تو وہ نجات اور دنیاوی و اخروی کامیابیوں کے لیے کافی و شافی ہوگا۔

o

حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے: باقی ماندہ دنیا آزمایش اور فتنہ ہے۔ تم میں سے ایک آدمی کے عمل کا حال برتن کے حال کی مانند ہے۔ جب اس کا اوپر کا حصہ صاف ستھرا ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی    صاف ستھرا ہوتا ہے‘ اور جب اوپر کا حصہ خراب ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی خراب اور گندا ہوتا ہے۔ (الفتح الربانی)

آزمایش‘ فتنے اور مصائب دنیا کا لازمہ ہیں۔ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ آزمایشوں اور مصائب میں اسلام اور حق کی بات پر قائم رہنا کامیابی ہے اور باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا یا گھبراہٹ کا شکار ہوکر نوحہ کرنا‘ اور غم زدہ اور مایوسی کا شکار ہو کر ہوا کے رخ پر چلنا ناکامی ہے۔ کسی آدمی کی ظاہری زندگی اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار اچھے ہوں‘ تو اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل بھی صاف ہے۔ وہ مومنانہ صفات سے متصف ہے۔ اور اگر ظاہری زندگی فسق و فجور‘ بداخلاقی اور بدکرداری کا مظہر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل بھی آفت زدہ ہے اور اسے روحانی بیماریوں کا روگ لگ چکا ہے۔ بہت سے بدکار اور بے دین لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر اگرچہ ٹھیک نہیں لیکن وہ دل سے بہت زیادہ مخلص اور سچے مسلمان ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ظاہراگر خراب ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ باطن بھی خراب ہے۔ اس لیے آدمی کو اپنے دل کو پاکیزہ بنانے اور نفس کی اصلاح کے لیے فکری اور عملی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ فتنوں اور مصائب میں وہی آدمی ثابت قدمی دکھا سکتا ہے‘ جو فکری‘ نظریاتی اور عقیدے کے لحاظ سے مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نور سے اس نے اپنے دل کو منور کر لیا ہو۔ جن کا عقیدہ اور فکر صحیح نہ ہو وہ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ آج اُمت مسلمہ کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں‘ وہ اسی قسم کے غیرفکری اور عقیدے کے لحاظ سے کمزورلوگوں کی نحوست ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کے لیے‘ جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار‘ ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا میں تَبَارَکَ اسْمُکَ تشہد (التحیات) میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود ابراہیمی میں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ میں دو مرتبہ کہتا ہے۔

پھردعائیہ جملوںاور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارک باد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ‘ یا اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت‘لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے‘ کسی کاروبار میں نفع ہوتا ہے‘ فصل کی پیداوار میں کثرت ہوتی ہے‘ تعلیم میں کامیابی ہوتی ہے‘ ملازمت ملتی ہے یا اس میں ترقی ہوتی ہے‘ نکاح و شادی ہوتی ہے‘ بیٹا تولد ہوتا ہے‘ ختم قرآن ہوتا ہے‘ حج و عمرے کی ادایگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیروبھلائی نصیب ہوتی ہے‘ تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔

مسلم معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیںاور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیا سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب‘ وسائل‘ مال و متاع اور دھن  دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔

برکت کا نزول کیسے ہو‘ اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں‘ جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے۔ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے‘ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے‘ جب کہ دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے دعا قبول نہیں فرماتے۔

یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اہم دعائیہ کلمے کے معنی‘ مفہوم‘دائرۂ اثر اور اس کی اہمیت اور لغت میں اس کے استعمال کے بارے میں مختصر سا تذکرہ کیا جاتاہے تاکہ ہر مسلمان اسے شعور و احساس کے ساتھ بولے اور اس کے مفہوم کو سامنے رکھ کر دعا کے طور پر ادا کرے۔

برکت کے لغوی معنی اور استعمال

برکت کے معنی اور استعمال کے بارے میں لغت کی ضخیم ترین اور اساسی کتاب  لسان العرب میں اس کلمے پر چار صفحات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یہ کلمہ ثلاثی مجرد باب‘ ن سے ہے جیسے بَرَکَ یَبْرُکُ جم کر بیٹھنا۔البتہ اس باب سے بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن باب مفاعلہ (مبارکۃ) سے کسی قدر زیادہ‘ باب تفاعل سے اور زیادہ آیا ہے اور باب تفعیل اور افتعال سے بھی استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل سے تبریک کے معنی ہیں انسان وغیرہ کے لیے برکت کی دعا کرنا‘ جیسے بَرَّکْتُ علیہ تبریکًا اے قلتُ لہ بارک اللّٰہ علیک وبارک اللّٰہ الشی ٔ وبارک فیہ وعلیہ، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ برکت کرے۔

یہ کلمہ جب جملے میںفعل بن کر استعمال ہو تو صلے کے بغیر بھی آتا ہے اور عَلٰی فِیْ،اور لِ کے صلے سے بھی آتا ہے جیسے اللھم بارک علی محمد، ابترک الفرس فی عدوہ، گھوڑا اعتماد سے اور جم کر چلتا رہا۔ ابترکوا فی الحرب یعنی جنگ میں سواریوں پر جم کر بیٹھے۔ باب مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آتا ہے جیسے بارکنا حولہ ہم نے اس کے ارد گرد برکت کی۔ تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا (الفرقان ۲۵:۶۱) بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔

اصحابِ لغت جیسے ابن منظور نے لسان العرب میں‘ زمخشری نے اساس البلاغہ میں اور عبدالرحمن کیلانی نے اپنی مشہور کتاب مترادفات القرآن میں مثالیں دے کر اس کے پانچ معنی لکھے ہیں۔

۱-  نمو، افزایش اور بڑہوتری: وَقَالَ الزُّجَاجُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ (الانعام ۶:۱۵۵) قال المبارک ما یأتی من قبلہ الخیر الکثیر۔ زراعت میں فصلوں‘ پھلوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد اُن کا بڑھنا‘ پھلنا پھولنا اور زیادہ اناج دینا ہے۔

۲- عُلو، رفعت اور بلندی: قال الازہری معنی برکۃ اللّٰہ، علوہٗ علی کل شی ئٍ وقال ابوطالب ابن عبدالمطلب: بورک المیت الغریب کما بورک نضح الرُّمان والزیتون۔ ’’مسافر میت کے درجات بلند ہوں جیسے زیتون اور انار کے درخت مناسب برسات سے بلند ہوتے ہیں‘‘۔

۳- ثبات‘ دوام اور بقا: فی الحدیث الصلاۃ علی النبی علیہ السلام وبارک علی محمد وعلٰی آلِ محمد اے ۔۔۔۔۔۔ اَثبت واَدِم ما اعطیتہ من التشریف والکرامۃ، یعنی جو شرف و بزرگی تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم کو عطا کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل کو ہمیشہ کے لیے اور دائمی عطا کر۔ یہ معنی اور استعمال اس عوامی عربی محاورے سے ماخوذ ہے بَرَکَ الْبَعِیْرُ۔ جب اونٹ باڑے میں اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ جائے۔

۴- خیر و بہلائی میں کثرت و زیادتی:  قال ابن عباس معنی البرکۃ الکثرۃ فی کل خیر۔ ہر قسم کی خیر میں کثرت ہو یعنی مادی اور معنوی خیر و بھلائی کی کثرت ہو۔

حدیث ام سلیم میں ہے: فحنکہ وبرک علیہ اے دعا لہ بالبرکۃ، اس برکت سے مادی و روحانی اورظاہری اور معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔

۵-  سعادت و خوش بختی:  فرّاء مشھور نحوی ولغوی نے رحمتہٗ وبرکاتہٗ سے مراد سعادت و نیک بختی لی ہے۔ ابومنصور نے تشہد کے کلمات اوردعا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ایُّھَا النبی ورحمۃ اللّٰہِ وبرکاتہ لان من اسعدہُ اللّٰہُ بمَا اسعد بہ النبی فقد نال السعادۃ المبارکۃ الدائمۃ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ وہ سعادت بخشے جو اپنے نبی کو بخشی ہے تو اس نے دائمی نیک بختی پالی۔

ان تمام معانی کا مجموعہ رمضان کے مہینے کوحدیث سلمان فارسی میں شھرمبارک قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔ ایک بزرگ تحریر کرتے ہیں: آدمی کا وقت‘ پیسہ‘ محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے‘ تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں‘ تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے‘ تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جس سے اللہ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔

کتاب اللّٰہ اور برکت کا کلمہ

قرآن مجید میں بَرَکَ کے مادے اور مصدر سے یہ کلمہ اسم و فعل کی صورت میں ۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ ان میں اسم کی صورت میں ۱۷ مرتبہ اور فعل کی شکل میں ۱۵ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ افعال میں باب نصر‘ ینصر‘ باب مفاعلہ (مبارکۃ) اور باب تفاعل تبارک سے صیغے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں آمدہ کلمات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ پانچوں معانی پائے جاتے ہیں تاہم روحانی اور معنوی معانی کا غلبہ ہے اور دو تہائی کلمات میں دونوں مفاہیم (روحانی و مادی‘ ظاہری و معنوی) موجود ہیں یعنی حسی و مادی برکہ اور روحانی و معانی برکہ۔ صرف دو کلمے ایسے ہیں جن میں مادی و حسی معانی کا مفہوم واضح ہے۔ اور ایک تہائی کے قریب ایسے کلمات ہیں جن میں صرف روحانی اور معنوی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ صیغے اور کلمات ہیں جن کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف کی گئی ہے۔ نوصیغے باب تفاعل سے آئے ہیں‘ جیسے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (اعراف ۷:۵۴) یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام برکات کا منبع ہے اور دوسروں کو برکت عطا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد باب مفاعلہ سے آٹھ صیغے آئے ہیں جیسے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّن الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ  الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱) ان تمام صیغوں میں برکت عطا کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات برکت عطا کرنے والی ہے اس کے علاوہ کوئی برکت عطا کرنے والا نہیں ہے۔ اس باب سے اسم اور مفعول کے ۱۲ صیغے آئے ہیں جیسے مبارک‘ مبارکۃ ان تمام میں برکت عطا کرنے‘ ان میں برکت رکھنے اور ان کو مبارک بنانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ باقی تین صیغے برکۃ کی اسم جمع برکات کے ہیں۔

برکت کے تمام کے تمام کلمات یہ ظاہر اور واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذا عام طور پر دعا میں برکاتہٗ (اللہ کی برکتیں) ہی کہا جاتا ہے ۔ اُردو میں ایسے موقعے پر اللہ برکت دے‘ برکتیں عطا کرے‘ مبارک ہو یعنی اللہ کی طرف سے برکتیں ہوں۔ کوئی شخص کھانے پینے کی دعوت دے تو جواب میں کہا جاتا ہے اللہ برکتیں دے اور برکتیں عطا کرے‘ اللہ بخش دے‘ اللہ بہت دے وغیرہ یا ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے کہے جاتے ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل بابرکت ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے کے معانی و مفاہم یہ ہوں گے کہ وہی ذات بلندو بالا اور قائم و دوائم ہے اور خیروبھلائی دیتی ہے۔ سعادت و بھلائی اس کی طرف سے آتی ہے۔

مختلف مفسرین کی نظر میں

ذیل میں نمونے کے طور پر چند متداول تفاسیر سے برکت کے معنی اور مفہوم پیش کیے جارہے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آمدہ کلمہ وَبَارَکْنَا حَوْلَہٗ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے اس طرح بیان کیا ہے۔

  • تفسیر ابن کثیر: بَارَکْنَا حَوْلَہٗ ،’’اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل‘ پھول‘ کھیت اور باغات وغیرہ‘‘۔ (ج۳‘ ص ۱۶۶‘ ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑھی)
  • تفسیر معارف القرآن (مفتی محمد شفیع)ؒ، ’’بیت اللہ کی برکات: وہ مبارک ہے۔ لفظ مبارک برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنی ہیں بڑھنا اور ثابت قدم رہنا۔ پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو‘ لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃً اس سے زائد سے نکلا کرتے ہیں۔ اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہاجا سکتا ہے۔

اس کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے اس کی ظاہری برکتیں گنوائی ہیں: ’’اس بے آب و گیاہ خطے میں پھلوں‘ سبزیوںاور دوسری خوراک کی ضروریات مہیا ہوتی ہیں اور لاکھوں انسانوں اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے باافراط موجود ہوتی ہیں اور کسی صورت میں کم نہیں ہوتیں‘‘۔ قرآن مجید نے اس برکت کو یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ (جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں۔ القصص ۲۸:۵۷) سے بیان کیا ہے۔

معنوی اور باطنی برکات تو بے شمار ہیں جیسے حج و عمرہ اور دوسری عبادات کا اجر تعداد میں ایک لاکھ تک بڑھ جانا‘ مومن کا گناہوں سے پاک ہونا اور گناہوں سے محفوظ رہنا وغیرہ۔ (ج ۲‘ ص ۱۱۷)

مسجداقصیٰ اور ملک شام کی برکات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں: اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور بہت سے انبیا کا مسکن و مدفن ہے‘ اور دنیاوی برکات میں اس کی سرزمین کا سرسبز ہونا اوراس میں عمدہ چشمے‘ نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے‘‘۔ (ج ۵‘ ص ۴۴۳)

  • فی ظلال القرآن: اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ، ’’جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکت اِلٰہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔ (ج ۳‘ ص ۲۶۹‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی)
  • تفھیم القرآن: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق اِسی کعبے کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینے کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسرآجاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی قبل ابرہہ کی فوج قہرِالٰہی کاشکار ہوئی۔ (اٰل عمران ۳:۹۶)
  • تدبر قرآن: مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک یہ اسی زمین کی روحانی و مادی دونوں قسم کی زرخیزیوں کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے‘ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیا کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا (ج ۳‘ ص ۴۷۴)
  • ضیاء القرآن: پیر کرم شاہؒ کی نظر میں اس کی برکتوںکا کیا کہنا‘ اس میں نماز پڑھی جائے تو لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔ ایک ختم قرآن کیا جائے تو لاکھ کا ثواب ملتا ہے۔ نیز اس کا حج و عمرہ کرنے والوں‘ اس کے گرد طواف کرنے والوں پر اللہ کی رحمت کی جو بارش برستی ہے اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ (ج ۱‘ ص ۲۵۵)
  •  تفسیر عثمانی: (شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ و مولانا شبیراحمد عثمانیؒ) ۱- یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے‘ نہریں‘ غلے‘ پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیا و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷ حاشیہ۳)

۲- وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسماں اور زمین سے لیکن جھٹلایا انھوں نے۔ پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے‘‘۔

مولانا اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اورکفروتکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمان و زمین کی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازیؒ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی آثارِ فاضلہ پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے جو دائمی و غیرمنقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ (تفسیر عثمانی ‘ الاعراف ۷‘ ص ۲۱۶‘ حاشیہ ۳)

برکت کا کلمہ اور احادیث

احادیث میں یہ کلمہ کثرت سے مذکورہ بالا اپنے معانی و مفاہیم میں دعا کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف افراد و اشخاص‘ خاندانوںاور گھرانوں‘ اعمال و افعال اور باغات واشیا کے لیے دعا میں اسے استعمال فرمایا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔

التحیات (تشہد) میں فرمایا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آپؐ نے سلامتی و رحمت اوربرکات کی سعادت کو نیک و صالح مومنوں کی طرف بڑھا دیا۔ چنانچہ ابومنصور نے کہا: مومن بندوں کی طرف سے آپؐ کے لیے دعا کا جواب آپؐ نے یہ دیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔’’وہی سلام و برکت ہم پر ہے وہ اللہ کے صالح بندوں پر بھی ہو‘‘۔ یہاں برکتوں سے مراد سعادت و خوش بختی اور دوام و ثبات ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو درود ابراہیمی میں آپؐ اور آپؐ کی آل اولاد کے لیے ایسی برکت کی دعا کی تلقین کی جیسی برکت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل و اولاد‘ ان کی دعوت و تبلیغ اوراللہ کی راہ میں قربانیوں میں اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ اس سے برکت کے دائرے‘ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے۔

آپؐ نے ماہِ رمضان کو شھرمبارک (برکتوں بھرا مہینہ) فرمایا۔ اس کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا ہے‘ اسے ملاحظہ کرلیں۔

آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں‘ جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔

ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ آپؐ  نے کسی کے مال‘ جان‘ صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئی اور اشیا ظاہری و معنوی دونوں حیثیتوں سے بڑھ گئیں۔ ان میں ثبات آگیا اور درختوں و پھلوں میں نشوونما زیادہ ہوگئی۔ ایک مثال حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ کی ہے جس میں آپؐ نے صحابہؓکے ساتھ مل کر کھجوروں کے ۳۰۰ پودے لگائے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ کھجور کا ایک پودا بھی ضائع نہیں ہوا۔ یہ آپؐ کی برکت تھی۔ آپؐ کی برکت کے اثرات وثمرات کے واقعات احادیث میں بہت زیادہ ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جن دعائوں کی تعلیم دی اور جو دعائیہ کلمات سکھائے ان میں ایک کلمہ برکت کا ہے۔ چنانچہ کھانے کے بعد کی یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـہُ۔(ترمذی)۔ میزبان کے لیے دعا: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمُ وَارْحَمْھُمْ ، نیا پھل دیکھنے پر اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ حَدِیْقَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا اور دودھ یا دوسرا مشروب پیے تو یہ دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْـہُ (ترمذی)۔ کھانے میں عام طور پر دونوں پہلو پیشِ نظر ہوتے ہیں: ۱- کھانے میں مادی برکت‘ ۲-روحانی و معنوی برکت۔ اسی لیے  برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی۔

برکت کے لیے چند آداب

برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہیے‘ چاہے انسان خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو۔ ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر کر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح  معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارک باد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ بقول شخصے ’مسلمان اندر کتاب و مسلمانان اندر گور‘ کے مطابق برکت کے معنی اور مفہوم کتابوں میں اور وہ بھی پرانی کتابوں میںاور حقیقی برکت کی دعا کرنے والے قبروں میں جاپہنچے اور     ہم بے برکتی کا شکوہ کرنے والے رہ گئے ہیں۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

  • ارادہ: دعا کرتے وقت دعا کا ارادہ اور اس کا تصور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ صحابہ کرام اور صلحاء اُمت کی دعا کی کیفیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
  • اخلاص: جس کام کے لیے دعا کر رہے ہیں‘ جس بھائی کے لیے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیرونی حالت اور الفاظ تو دعائیہ ہوں اور دل میں اس شخص سے یا اس دعا سے اخلاص نہ ہو‘ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (دین خیرخواہی کا نام ہے)۔
  • معانی ومفھوم کا لحاظ: دعائیہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کو سامنے رکھنا چاہیے۔ شعور واحساس کے ساتھ دعاہو۔ جب کسی کی برکت کے لیے دعا مانگ رہے ہوں یا مبارک باد دے رہے ہوں تو برکت کے مادی و حسی اور معنوی و روحانی تصور کو مستحضر کرنا چاہیے۔

آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔

  • دعا کی قبولیت کا یقین: ہر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں چار میں سے کوئی ایک صورت ضرور سامنے آتی ہے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ دعا میں اوپر بیان کردہ شرائط لازماً موجود ہوں۔ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو دعا رد کر دی جاتی ہے اور وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا۔

چار صورتیں یہ ہیں: دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے‘ اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لیے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت رسولؐ کے مطابق اور اس کے دائرے میں رہ کر کی جائیں۔

  • دعا کے کلمات: یہ کلمے سادہ‘ صاف ہوں اور جس زبان میں کی جا رہی ہو اس کی فصاحت و سلاست اور شستہ زبان سے آدمی دعا کرے۔ تُک بندی‘ قافیہ بندی اور گفتگو میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔
  • دعا‘ کس کے لیے: دعا صرف جائز‘ حلال اور مباح چیزوں اور باتوں کے لیے کی جائے۔ حرام‘ ناجائز اور شرعاً ممنوع باتوں کے لیے نہ کی جائے اس لیے کہ حرام کی کمائی جو ناجائز طریقے سے کمائی جائے یا اس کے کمانے اور کاروبار کرنے میں ناجائز حربے اور حیلے اختیار کیے جائیں تو اس میں برکت نہیں آتی بلکہ جو برکت ہے وہ بھی اٹھ جاتی ہے۔

اکثر تاجر اور دکان دار‘ اشیا کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)

حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان‘ سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی‘ آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی‘ نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ایک حدیث مبارک میں اس طرح آئی ہے۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کے لیے برکت کی دعا اور مبارک باد صرف جائز‘ پاکیزہ اور مباح باتوں‘ کامیابیوں اور نعمتوں پر دی جائے گی۔

آج ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور ہر جائز و ناجائز‘ کامیابی اور حلال و حرام طریقے اور ذریعے سے حاصل شدہ بات پر خیروبرکت کی دعائیں دی جاتی ہیں اور مبارک باد کے ڈونگرے برسا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات شرعی‘ اخلاقی اور عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ برکت‘ ہدیۂ تبریک اور مبارک باد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات‘ کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہیے۔ اسے مذاق بنالینا‘ مذاق کے طور پر استعمال کرنا اور معمولی یا غیر اہم باتوں پر موقع بے موقع بولنا درست نہیں ہے۔

اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے‘ اس لیے نسبت بھی اسی سے ہو‘ اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے‘ اور   دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کیے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا‘ وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ   غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!

تربیت کا عمل انسان کے پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ کچھ تربیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے جوخود بخود ہوجاتی ہے‘ جب کہ کچھ تربیت انسان اپنی کوشش سے کرتا ہے۔ تربیت کے معنی کسی چیز کو نشو و نما دینا‘ بڑھانا اور تقویت دینا ہے ۔ تربیت سے ملتا جلتا ایک اور لفظ بھی استعمال ہوتا ہے‘ وہ ہے تزکیہ ۔ اس میں پاکیزہ کرنا اور نشو ونما دینا ‘ دونوں معنی شامل ہیں ۔ انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ اُس کا جسم بڑھنا شروع کرتاہے ۔ آیندہ زندگی میں درپیش مراحل کے لیے مختلف صلاحیتیں اور استعداد بتدریج پیداہوتی چلی جاتی ہے۔

کچھ کام انسان دوسروں کو دیکھ کر اور ان سے سیکھ کر اختیار کرتا ہے ‘ جیسے چلنا پھرنا ‘کھانا پینا‘ کپڑے پہننا وغیرہ ۔ یہ سب کام آدمی سیکھتا ہے ‘ یعنی ان کی تربیت حاصل کرتا ہے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ نوالہ کیسے بناناہے ‘ کپڑے کیسے پہننے ہیں‘ یہ سب کچھ وہ دوسروں کو   دیکھ کر یا کسی کے سکھانے سے سیکھتا ہے ۔ زبان بڑی اہم چیز ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ تربیت کا معجزہ ہے کہ بچہ تین چار سال کی عمر تک ایک زبان سیکھ لیتاہے اور اس طرح سیکھتا ہے کہ اس کی گرامر بھی صحیح ہوتی ہے ‘ لغت بھی اور محاورہ بھی۔ اگرچہ اس نے گرامر کی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی‘ کوئی لغت نہیں دیکھی ہوتی‘ کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا ہوتا‘ وہ کوئی کتابیں نہیں پڑھتا‘ مگر پھر بھی زبان سیکھ جاتا ہے۔ اگرچہ کسی زبان کو بڑی عمر میں بھی سیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ تربیت کے لیے قدرت کے انتظامات ہیں۔

قدرتی تربیت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں اورمہارتیں بھی ضروری ہیں۔ البتہ ہمیں وہ تربیت مطلوب ہے جو ہماری سوچ ‘ عمل ‘ اخلاق اور کردار کو اس سانچے میں ڈھال دے جس کے ذریعے ہم اللہ کی رضا حاصل کرسکیں ۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر جوچیز محبوب ہے وہ اس کی راہ میں جہاد اور اس کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد ہے ۔ اس نے اپنی محبت اور اپنے رسولؐ کی محبت کو اپنی راہ میں جہاد کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں چوٹی کا عمل‘ جہاد ہے ۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر ہی ہم سب ایک تنظیم میں شامل ہوئے ہیں اورایک جماعتی اور اجتماعی زندگی اختیار کی ہے ۔ اس اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ تربیت کے عمل میں ہمارے پیش نظر سب سے بڑھ کر یہی امر ہونا چاہیے کہ ہم دین کو قائم کرنے کے لیے جہاد کے اہل بنیں۔

تربیت کی بنیاد: ارادہ و عزم

انسان کی تربیت قدرتی بھی ہوتی ہے اور گردوپیش کے حالات و مشاہدات سے بھی‘  دوسروں سے سیکھ کر بھی اور لکھ پڑھ کر بھی۔ لیکن تربیت کی اصل ذمہ داری ایک فرد کی اپنی ہی ہے۔ تربیت کے عمل میں یہ سب سے پہلا اور بنیادی سبق ہے جو ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔

ہم جیسا بھی بننا چاہیں‘ وہ اپنی کوشش سے اور اپنے عمل سے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بہت واضح اور صاف طورپر بیان فرمایا دیا ہے کہ آدمی کے حصے میں وہی کچھ آتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِ نْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹)

اوریہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

جو آدمی خود کچھ نہ بننا چاہے‘ وہ دوسروں کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ آدمی اپنی محنت اور کوشش سے ہی اپنے آپ کو وہی کچھ بناتا ہے جو وہ بننا چاہتا ہے ۔ لہٰذا تربیت کے ضمن میں بنیادی بات اپنی اِس ذمہ داری کوسمجھنا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۴)

فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔

تَزَکّٰی کا لفظ عربی زبان میں جس وزن پر اور جن معنوں میں آیا ہے ‘ اس میں انسان کا اپنے اوپر محنت سے کسی کام کو کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی وزن پر تدبر اور تذکر ہیں۔ تدبر آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا زبردستی نہیں کرواسکتا ۔ تذکر کے معنی کسی چیز کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ہیں ۔ یہ بھی آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا نہیں کروا سکتا۔ چنانچہ تَزَکّٰی سے مراد اہتمام کے ساتھ اپنی کوشش سے اپنا تزکیہ کرنا ‘ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنا اور اپنی نشوونما اور ارتقا کی کوشش کرنا ہے جو دراصل آدمی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے جہاں تَزَکّٰیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں یہ بھی فرمایا گیا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹)

یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔

تزکیہ کسی کام کو بتدریج کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ گویا اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس کو پاک صاف کرنے کا کام مسلسل کرنے کی ضرورت  ہے ۔اس کے علاوہ جتنے بیرونی محرکات اور تربیت کے ذرائع ہیں ‘ وہ اللہ کی وحی ہو یا اس کی کتاب ‘ یا اس کے رسول علیہم السلام جو اس دنیا میں رہنمائی کے لیے آتے رہے ہیں ‘ یا صالح صحبت جو آدمی کو نصیب ہوتی ہے ‘ یا کتابیں اور لٹریچر ہو ‘ یادرس قرآن اور اجتماعات ہوں‘ ان سب کی حیثیت معاون و مددگار کی ہے ۔ اگر زمین بنجر ہے اور اس میں بیج موجود نہیں ہے تو باہر سے خواہ کتنا ہی پانی دیا جائے‘ کتنی ہی کھاد ڈالی جائے‘ کتنی ہی محنت کی جائے‘ فصل نہیں اگے گی۔ فصل تو اسی وقت اگے گی جب زمین میں فصل اگانے کی صلاحیت موجود ہو اور بیج موجود ہو جو پودے اور درخت کی شکل اختیار کرسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ جونبی کریمؐ کی صحبت میں بیٹھتے تھے ‘ آپؐ کا کلام سنتے تھے ‘ آپؐ کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے‘ یا آپؐ سے واقف تھے‘ وہ کافر اور منافق ہی رہے۔ انھیں سچا ایمان لانے کی توفیق نصیب نہیںہوئی۔ اگر محض کسی اچھی بات کا سن لینا اور کسی اچھی صحبت میں بیٹھ جانا ہی کافی ہوتا ‘ تو ان میں سے ہر ایک کو ایمان کی دولت نصیب ہوجاتی‘ لیکن جنھوں نے خود صحیح بات کو نہ ماننا چاہا اور صحیح راستے پر نہ چلنا چاہا ‘ ان کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی مدد گار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو مخاطب کرکے فرمایا:

اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص ۲۸:۵۶)

اے نبیؐ! تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے ۔

یہ اللہ کا قانون ہے اور اس کے تحت ہی وہ لوگوں کو توفیق بخشتا ہے‘ اور توفیق کا انحصار آدمی کے اپنے ارادے اور خواہش پر ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر آدمی سیدھا راستہ اختیار کرتاہے ۔

انسان مجبور محض نہیں ہے بلکہ وہ ایک بااختیار ہستی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان پر ایسا کوئی اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اس سے زبردستی کوئی کام کرواسکے ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ جو اختیار حاصل ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ برائی کا خیال دل میں ڈال دے ‘ برائی کو اچھا کرکے دکھائے ‘ اس کی ترغیب دے اور آدمی سے کہے کہ یہ برائی کرو۔ لیکن وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر‘ یااس کی زبان سے کوئی برا کام نہیں کرواسکتا۔ اگر آدمی جھوٹ نہ بولنا چاہے تو وہ اس سے جھوٹ نہیں بلوا سکتا۔ اگر آدمی انتقام اور غصے سے مغلوب ہوکر کسی کی غیبت کرنا یا حسد کی بنا پر کسی کو برا بھلا نہ کہنا چاہے‘ تو شیطان اس سے یہ کام زبردستی نہیں کرواسکتا۔ اسے صرف وسوسے ڈالنے کا اختیار حاصل ہے ۔ وہ دل میں خیال ڈال سکتا ہے ‘ برائی کی ترغیب دے سکتا ہے۔ لیکن اپنے ہاتھ ‘ پائوں یا زبان سے کسی برائی کا ارتکاب کرنا‘ یہ انسان کا ذاتی فعل ہے ۔ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر وہ کوئی کام نہ کرنا چاہے تو کوئی اس سے زبردستی نہیں کرواسکتا ۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض لٹریچر کے مطالعے سے انسان کی تربیت ہوجائے گی اور وہ اچھا انسان بن جائے گا تو یہ بات درست نہیں ‘ اگرچہ لڑیچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔ لیکن تربیت کے لیے صرف لٹریچر کامطالعہ کافی نہ ہوگا ‘ جب تک آدمی اُس پر عمل کرنے کی خود کوشش نہ کرے ۔ اسی طرح موثر تقاریر اور تربیت گاہیں اور قرآن مجید کاپڑھنا بھی کافی نہ ہوگا ۔ یورپ کے بعض مفکرین نے قرآن کو پڑھنے‘ عربی جاننے اور تفسیریں پڑھنے میں عمر کھپا دی ‘بڑی شان دار کتابیں بھی لکھیں‘ لیکن ان کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوئی اور نہ عمل کی توفیق ہی ملی۔ لہٰذا تربیت کے لیے جو چیز اہم ترین ہے وہ دراصل آدمی کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

اگر اپنی اصلاح کا ارادہ ہی نہ ہوتو تربیت گاہیں ‘ دروسِ قرآن‘ یا لٹریچر ‘ کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی ۔ اگر ارادہ ہوگا اور اصلاح کی کوشش بھی ہوگی تو قرآن میں سے ہر چیز اسی طرح فائدہ دے گی جس طرح بیج اور زمین کو مناسب پانی ملے ‘ مناسب کھاد اور ادویات میسر آئیں اور مناسب دیکھ بھال ہو تو فصل لہلہا اٹھتی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔ البتہ زمین کی زرخیزی و تیاری اور بیج کی فراہمی کسان کااپنا کا م ہے۔ اگر کوئی کسان اپنے کھیت سے غافل ہو اوروہ یہ چاہے کہ محض بارش برس جائے اور اس کی فصل تیار ہوجائے‘ یا کھاد ڈالنے سے ہی پیداوار حاصل ہوجائے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ محض درس و تقریر سننے اورلڑیچر کے مطالعے سے تربیت ہو جائے گی تو یہ بھی خام خیالی ہے ۔

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ تربیت کی کمی ہے‘ انحطاط ہے ‘ معیار گر گیا ہے ‘ لٹریچر نہیں پڑھا جاتا ‘ لوگوں کے اندر عملی کمزوریاں ہیں‘ لہٰذا تربیتی پروگرام زیاہ ہونے چاہییں‘ تاکہ معیاری افراد تیار ہوسکیں اور صحیح نہج پرتربیت ہو۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ لٹریچر پڑھنا ضروری ہے ‘ قرآن مجید کا مطالعہ بھی ضروری ہے اورتربیت گاہیں بھی ضروری ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی مسئلے کااصل حل نہیں ہے ۔ تربیت کی بنیاد تو ایک فرد کی اپنی محنت ہے‘ اپنا ارداہ ہے اور اپنی کوشش ہے۔  یہی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ۔ اسی لیے نبی کریمؐنے فرمایا : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

جو جس کا نگہبان ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ سب سے بڑھ کر تو انسان کا اپنا نفس اور اس کی زندگی ہے جس کے لیے وہ جواب دہ ہے۔ اس وقت کی جواب دہی ہے جو تیزی سے گزرتا چلا جارہا ہے ۔ زندگی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور جو برف کی طرح پگھل رہی ہے اور ہاتھ سے نکلی چلی جارہی ہے ۔ اس کے لیے انسان‘ خدا کے ہاں جواب دہ ہے ۔ سورۃ العصر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o (العصر ۱۰۳:۲۱)

زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

وقت کس قدر تیزی سے گزر رہا ہے ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گزرنے والا لمحہ انسان کی عمر گھٹارہا ہے ۔ ہم رات کو سوتے ہیں اور صبح کو اٹھتے ہیں‘ لیکن ہماری زندگی کا ایک دن کم ہوچکا ہوتا ہے اور وہ کبھی دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا ۔ لہذا کامیاب وہ ہے جو زندگی کی قدر جانے اور آنے والے کل کے لیے آج سامان کرلے ۔ یہ قدر اسی کو ہوگی جسے جواب دہی کا احساس ہو ‘ جو اپنا تزکیہ کرے ‘ برائیوں کو دبائے اور بھلائیوں کو نشوونما دے‘ البتہ اس عمل کی بنیاد انسان کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی (النجم ۵۳:۳۹)

اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

انسان کی زندگی ‘ اس کی کھیتی ‘ اس کا کاروبار‘ اس کوبنانااور سنوارنا‘ اس میں نیک اعمال کے بیج بونا اور نیک اعمال کی کھیتی اگانا‘ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ کسی دوسرے کے کرنے سے یہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ نہ نماز پڑھ سکتا ہے اورنہ زبردستی اُسے نماز پڑھوا سکتا ہے ۔ اگر نماز میں اللہ کے حضور حاضری اور خشوع و خضوع سے گفتگو کا تصور آدمی خود نہ پیدا کرے تو کسی تقریر اور درس قرآن سے یہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ توممکن ہے کہ نماز بہتر بنانے پر کوئی تقریر سن کر ایک آدھ نماز بہتر پڑھ لی جائے لیکن اس کے بعد پھر توجہ بٹ جاتی ہے‘  بھول ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ ارادے کی کمزوری ‘ غفلت اور بھول انسان کے مزاج کا حصہ اور فطری امر ہیں ۔ البتہ اگر یہ مرض ہے تو اس کی دوا بھی موجود ہے ۔ آدمی اس پر قابو پاسکتا ہے لیکن دوا تو استعمال کرنے سے ہی فائدہ دیتی ہے ۔ اگر دوا شیشی میں بھر کر اپنے پاس رکھ لی جائے اوریہ وعظ سنا اور کہا جائے کہ یہ دوا بڑی فائدہ مند ہے‘ تو اس سے مرض دور نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کے لیے دوا استعمال کرنا ہوگی۔ اسی طرح اللہ کی یاد سے غفلت کا علاج ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر اللہ کو یاد ہی نہ کیا جائے تو غفلت کیسے دور ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا جو کچھ بھی تربیت ہوگی وہ اپنی کوشش سے ‘ اپنی محنت اور اپنے ارادے سے ہوگی نہ کہ محض وعظ و نصیحت یا تربیت گاہ میں شرکت سے ۔

ایک فرد کے نزدیک جس چیز کی جتنی قدروقیمت ہو تی ہے‘ وہ اس کے لیے اتنی ہی تگ و دو‘ کوشش اور محنت کرتا ہے۔ وہ اگر کوئی دکاندار ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں گھر بیٹھا رہوں‘ یا دعا کرتا رہوں‘ یا کسی بزرگ کی برکت ہوگی‘ یا میں تجارت کے فضائل پر اور دکان میں مال رکھنے کی اہمیت پر کوئی تقریر کروں گا تو اس سے مال فروخت ہوگا۔ دکان تو تب چلے گی جب سودا لایا جائے ‘ دکان میں رکھا جائے ‘ گاہک آئیں اور سودا بیچا جائے‘ تب نفع ہوگا ۔ دکان چلانے اور نفع کمانے کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔ زندگی بھی ایک دکان اور تجارت کی طرح ہے ۔ یہ جنت کو کمانے کی تجارت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo  (الصف ۶۱:۱۰)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟

یہ تجارت ‘زندگی کو اللہ کی راہ میں کھپانے ‘جنت کمانے اور جہنم سے بچنے کی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ تجارت محض خواہش‘تمنا اور آرزو سے ہوجائے گی اور نفع حاصل ہو جائے گا‘ یا محض تقریر یا درس سننے سے ہوجائے گی تو ایسا نہیں ہوگا ‘ بلکہ فصل حاصل کرنے کے لیے جس طرح کھاد اور پانی ضروری ہے ‘اسی طرح تربیت کے لیے تقریر اور درس قرآن بھی اہم اور ضروری چیزیں ہیں ‘ لیکن اصل کام اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

لہٰذا تربیت کے عمل میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ عمر‘ یہ زندگی‘ یہ جسم ‘ یہ جان ‘ اگر میں تاجر ہوں تو میر ی یہ دکان اور کاروبار اور اگر میں کسان ہوں تو میری یہ کھیتی‘ اس میں جو کچھ پیدا ہوگا ‘ جو فصل اُگے گی ‘ وہ میرے ارادے اور کوشش سے ہی اُگے گی۔

قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ :

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعَیْھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹)

اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔

گویا جس نے یہ ارادہ کرلیا کہ مجھے آخرت کمانا ہے اور اس کے لیے محنت کی جیسا کہ محنت کرنی چاہیے اور ایمان کا بیج موجود ہو‘ اور عمل ہو تو اس کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔

کون کیااعمال کرے گا‘ یاکتنے گناہ اس سے سرزد ہوں گے‘ یہ کوئی نہیں جانتا۔ آدمی سے گناہ بھی ہوں گے اور بہت سے نیک کام وہ نہیں کر پائے گا ۔ بہت سے درجات تک وہ نہیں پہنچ پائے گا اوربہت سے کام کرنا چاہے لیکن نہیں ہوپائیں گے ‘ لیکن جو نیک کام بھی وہ کرناچاہے گا اس کا اجر اسے مل کر رہے گا ۔

اللہ کو تو بس یہی مطلوب ہے کہ آدمی ارادہ کرے ‘ عزم کرے اور فیصلہ کرے کہ اسے آخرت کمانا ہے ‘ اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ‘ وہ اعمال اور وہ محنت کرنی ہے جس سے اسے یہ چیز حاصل ہوسکے اور پھر اپنی حد تک کوشش کرے جتنی اللہ نے اسے ہمت اور قوت دی ہے ۔ اس سے زیادہ کسی سے مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات کہ اپنا کام خود کرنا ‘ اپنی ذمہ داری کو خود سنبھالنا‘ اپنی کھیتی اور اپنی دکان کی خود فکر کرنا‘ اس کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے پوری محنت اور کوشش کرنا‘ ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کوئی دوسرا یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ اگر اُس نے اِس راز کو پالیا‘ تو تربیت کا راستہ اس کے لیے کھل گیا ۔

جب تک آدمی اس انتظار میں رہے کہ کچھ بیساکھیاں مل جائیں جن کے سہارے وہ چل سکے ‘ تو ایسا شخص دوسروں کو مورد الزام ہی ٹھیراتا رہے گا کہ یہ نہیں ہورہا ‘ وہ نہیں ہورہا ‘ یا دوسرے ایسا نہیں کر رہے‘ وہ پروگرام نہیں ہورہا وغیرہ۔ اس لیے مجھ میں خامی ہے۔ ان میں سے کوئی عذر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔

قرآن میں ہے کہ لوگ روزِ قیامت‘ اللہ تعالیٰ کے سامنے عذر تراشیں گے کہ یہ تو ہمارے بڑوں سے ‘ آباو اجداد سے ہوتا چلا آرہا تھا‘ ہم نے تو ان کی پیروی کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں کریں گے ۔ لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار تھے ‘ پیشواتھے ‘ علما تھے ‘ لیڈر تھے ‘ ہم تو ان کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں فرمائیں گے اور ان کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔ دراصل ہر آدمی اپنے اعمال کے لیے خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ قیامت کے روز شیطان بھی کھڑا ہوجائے گا اور کہے گا کہ اپنی برائی کے تم خود ذمہ دار ہو۔ میراکوئی قصور نہیں ۔ میر اتم پر کوئی زور نہیں تھا ۔ میں نے تو تمھیں محض ترغیب دی تھی‘ للچایا تھا‘ برائی کی طرف دعوت دی تھی اور تم نے میری دعوت خود قبول کی تھی۔

اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْط (ابراھیم ۱۴:۲۲)

میراتم پر کوئی زور تو تھا نہیں ‘ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو‘ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔

گویا اگر تم بگڑ گئے‘ خرابی کا شکار ہوئے‘ اچھے انسان نہیں بنے‘ گناہ گار ٹھیرے تو دوسروں کو موردِ الزام مت ٹھیرائو‘ اس کے تم خود ہی ذمہ دار ہو۔

دراصل بنیادی ذمہ داری تو ہر شخص کی اپنی ہی ہے۔ ہر آدمی اللہ کے سامنے اکیلا حاضر ہوگا‘ اور وہ اکیلا ہی اپنے عمل کی جواب دہی کرے گا۔ اگر کوئی مجبو ر ہوگا‘ یا معقول عذر ہوگا تو   اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ البتہ کسی دوسرے پر الزام لگا کر اپنی ذمہ داری سے بر ی نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ بات بالکل واضح ہے اور جو آدمی اس بنیادی اصول سے ہی واقف نہ ہو‘ وہ صحیح معنوں میں اپنی تربیت نہیں کرسکتا۔

تربیت اپنے بس میں ھے!

دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بنایا‘ یا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جتنی اس کی استطاعت ہو ۔ اس نے انسان پرایسا کوئی بوجھ نہیںڈالا جو وہ نہ اٹھا سکتا ہو۔

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اَکْتَسَبَتْ (البقرہ ۲: ۲۸۶)

اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

ہر ایک کے لیے اُس کے اچھے اور بُرے عمل کے مطابق ہی بدلہ ہے۔ گویا اگر ایک طرف خوشخبری ہے تو دوسری طرف بڑی سخت گرفت اور پکڑ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے مجھے کچھ کرنے کا جو موقع دیا ہے ‘ اس کا میں خود ذمہ دار ہوں‘ اور جس برائی کا میں مرتکب ہوا‘ اس کا بھی میں خود ہی ذمہ دار ہوں گا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہے ۔

جب یہ آیت نازل ہوئی :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

اس پر صحابہ کرامؓ کانپ اٹھے اور لرز کر رہ گئے کہ کون ہے جو اللہ سے ویسا ہی تقویٰ اختیار کرے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اللہ سے تقویٰ کرنے کا تو کوئی حق ادا نہیں کرسکتا ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)

جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔

یعنی جتنی تمھاری استطاعت ہے اتنا اللہ سے تقویٰ اختیار کرو تو انھیں اطمینان ہو ا اور ان کی جان میں جان آئی۔ لہٰذا کون کیا کرسکتا ہے ‘ یا اسے کیا کرنا چاہیے ‘ اس حوالے سے بہت زیادہ سوچنے یا کسی ذہنی الجھن کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ آدمی جس قدر بھرپور محنت کر سکتا ہے وہ کرنی چاہیے۔ اگر غلطی ہوجائے یا گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرناچاہیے اور پھر اس کی اطاعت و فرماں برداری کی راہ پر لگ جانا چاہیے۔ اسلام میں مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کسی پر اُس کی ہمت و استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اگر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کوئی مواخذہ نہیں کرے گا لیکن یہ بات خوب سوچ سمجھ کر کہنی چاہیے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا ‘ یا اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتا ۔ اس لیے کہ یہ بات ‘ یا یہ عذر کسی ناظم‘ امیر‘ ذمہ دار‘ دوست یا محض اجتماع میں نہیں رکھنا ہے‘ بلکہ اس کے سامنے پیش کرنا ہے جو انسان کے اندر اور باہر سے خوب واقف ہے۔ لہٰذا اس موقع پر محض یہ نہ خیال کیا جائے کہ میں اپنے جیسے انسانوں کو مطمئن کررہا ہوں‘ بلکہ یہ سوچا جائے کہ ہم اس ذات کو جواب دہ ہیں جو دلوں کا حال جانتا ہے‘ جو سب سے واقف ہے‘ جو بخوبی جانتا ہے کہ کون کیا کرسکتا ہے اورکیا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا محض یہ کہنا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا‘ یا وقت نہیں ملتا‘ یہ عذر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اللہ نے ہر ایک پر وہی ذمہ داری ڈالی ہے جو وہ اٹھا سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے ہر مسلمان پر جو فرائض عائد کیے ہیں ‘ وہ کسی انسان کے بس سے باہر نہیں۔ اگر کوئی معاملہ اس کے بس میں نہ ہو تو شریعت میں اس کے لیے چھوٹ موجود ہے ۔ اگر کوئی آدمی بے ہوش ہوجائے تو نماز کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ کوئی بیمار ہو جائے تو کھڑے ہو کر پڑھنے کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے ‘ اگر پانی نہ ملے تو تیمم کر کے پڑھے ۔ اگر کوئی پاگل ہے تو اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ غرض جہاں بھی کوئی کام کسی کے بس میں نہ ہو توشریعت اس کے لیے راستہ کھول دیتی ہے‘ اور جو ممکن ہے‘ اختیار سے باہر نہیں‘ اس کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔

ہر آدمی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ فجر میں میری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ بھی کوئی معقول عذر نہیں۔ ہر آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کوئی مجبوری آن پڑے یا  ہوائی جہاز یا ٹرین میں سفر کرنا ہو تو آنکھ ضرور کھل جاتی ہے ۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے‘ یا بچہ بیمار ہو جائے تو رات بھر آنکھ نہیں لگتی۔ لہٰذا اللہ کے ہاں توکوئی ایسا عذر پیش نہیں کیا جاسکتا جو معقول نہ ہو ۔ اصل بات یہ جان لینا ہے کہ جو کام بھی اللہ نے مجھے کرنے کو کہا ہے‘ یہ بالکل میرے بس میں ہے‘ میرے اختیار میں ہے‘ اور جو کام میرے اختیار میں نہیں ہیں‘ ان کے لیے کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے۔

نماز پڑھنا آدمی کے اختیار میں ہے‘ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ نماز کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع ہو‘ اور اس کے لیے کوشش کرنا بندے کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا وہ یہ پوچھے گا کہ تم نے نماز میںخشوع پیدا کرنے اور اس کو بہتر بنانے کے لیے کیا کوشش کی‘ لیکن نماز میں کتنا خشوع پیدا ہوگایہ بندے کے بس میں نہیں ہے ۔ آدمی کا دل کبھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں ۔ کئی قسم کے خیالات اور وسوسے دل کو غافل کر دیتے ہیں۔ دل پر انسان کو مکمل اختیار نہیں دیا گیا ۔ اپنے آپ کو متوجہ رکھنا تو انسان کے اختیار میں ہے لیکن دل کی کیفیت ایک سی رہے‘ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو کام آدمی کے بس میں ہو‘ وہ کام کرنا اس کی ذمہ داری ہے‘ اور وہ اس کا مکلف ہے۔

اسی طرح ایک داعی کی حیثیت سے دوسروں تک بات پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لیے حتی المقدور کوشش کرنا‘ ذرائع و وسائل اختیار کرنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن یہ بات سوچنا کہ اس سب کے باوجود لوگ لازماً ہماری بات مان لیں تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں ٹھیرائے گئے۔ البتہ اپنی بیوی بچوں کو نیکی کی تلقین کرنا اورترغیب دینا ‘ اپنے دوستوں کو نیکی کی دعوت دینا ‘یہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور اس کے لیے ہم سے پرسش ہوگی‘ مواخذہ ہوگا۔ اس کے بعد اگر کوئی بات نہ مانے اور لوگ نہ سنیں‘ یا سنی ان سنی کردیں تو اس پر کوئی جواب دہی نہیں ہے ۔ اگر کوئی ہماری بات نہ مانے تو اس پر ہمارے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی اور نہ کوئی مواخذہ ہوگا ۔ اصل بات جو ہمارے اختیار اور ہمارے بس میں ہے ‘ وہ ہے کام کرنا‘یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ دوسرا بڑا اہم اصول ہے جو تربیت کے ضمن میں ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے ۔

 تربیت‘ عمل سے

تیسرا اصول یہ ہے کہ تربیت عمل سے ہوتی ہے ۔

کوئی کام خواہ کتنا ہی چھوٹا یا معمولی ہو‘ وہ کرنا چاہیے ‘ چاہے تھوڑا ہی کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘ کوئی نیا عمل نہیں شروع کیا‘ کسی پرانے عمل کو بہتر نہیں بنایا‘ کسی برائی کونہیں چھوڑا‘ تو اس سے ایک فرد کی تربیت میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

عمل خواہ تھوڑا کیا جائے لیکن باقاعدگی سے کیا جائے ‘ یہی تربیت کی بنیادہے ۔ ضروری ہے کہ کچھ وقت نکال کر ہم اپنا جائزہ لیں۔ اپنی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ آپ ۱۵ سال کے ہوں یا ۶۰ سال کے‘ آپ کے سامنے اپنی پوری زندگی موجود ہے۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌo (القیمۃ ۷۵:۱۴)

انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔

یعنی ہر انسان خود اپنے آپ سے بخوبی واقف ہے۔ کسی کو باہر سے وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر یہ دیکھیے کہ اللہ کے حقوق و معاملات اور اللہ کے بندوں کے معاملات میں آپ نے کیا کیا خرابیاں کی ہیں۔ اس کے بعد استغفار کیجیے اور گناہوں سے توبہ کیجیے‘ اور کوشش کرکے   غلط باتوں کو ترک کردیجیے اوراچھی باتوں کو اپنا لیجیے۔

اگر آپ فجر کی نماز مسجد میں جا کر باجماعت اور باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تو آپ یہ فیصلہ کریں کہ میں کل سے یہ کام کروں گا۔ ممکن ہے کئی دن ایسے آئیں کہ آپ یہ کام نہ کرسکیں۔ لیکن جس دن نہ کرسکیں ‘ اسی دن پھر استغفار کریں اورنئے سرے سے عزم کریں کہ اب کروں گا۔ اگر سوبار بھی یہ نوبت آجائے تو کوئی پروا نہیں ۔ آپ پیچھے پڑے رہیں کہ مجھے اس کام کو کر کے ہی چھوڑنا ہے‘ تو یہ کام ہوجائے گا۔

نماز میں آپ نیت باندھتے ہیں اور نیت باندھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کہیں اور چلے جاتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ‘ اور کس سے بات کررہا ہوں ‘ اور نماز کی صورت میں اللہ نے مجھے جو کچھ عطا کیا ہے وہ کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے آپ کی تربیت کے لیے‘ پانچ وقت کی نماز کی صورت میں‘ ایک ایسا نسخہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا ہے‘ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائیں اور وہ ساری چیزیں آپ دوبارہ تازہ کرلیں جو آپ نماز میں پڑھتے اور کہتے ہیں‘ تو یہی تربیت کے لیے کافی ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر کسی آدمی کے دروازے پر نہر بہ رہی ہو اور وہ پانچ وقت اس میں غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ کیا وہ پاک صاف نہیں ہوجائے گا؟ لیکن ہم جیسے اس نہر میں جاتے ہیں ویسے ہی اس سے واپس آجاتے ہیں۔ وہ ساری گندگیاں جو دل و دماغ کو یا روح اور اخلاق کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘ ویسی کی ویسی ہی واپس آجاتی ہیں۔

نماز اس طرح پڑھیے گویا اللہ تعالیٰ سے بات چیت ہو رہی ہو اور یہ آخری نماز ہو۔ یہ بھی طے کر لیجیے کہ نماز میں جو کچھ پڑھوں گا‘ سمجھ کر پڑھوں گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور دل میں ترجمہ بھی کرتا رہوں گا۔ اگر آپ اس کی مشق کریں اور عادت ڈالیں کہ جو کلمات عربی میں زبان سے نکلیں‘ دل ہی دل میں اور جی ہی جی میں اس کا ترجمہ کرلیں‘ یعنی زبان سے تو کہیے الحمدللہ    رب العالمین‘ لیکن دل میں کہیے کہ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس سے آپ کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے گی۔ اس میں بھی شیطان نقب لگائے گا‘ چوری کرے گا‘  ڈاکا ڈالے گا‘ ذہن میں بار بار مختلف خیال لائے گا‘ ہر بھُولی بسری چیز یاد دلائے گا۔ آپ توجہ سے اس مشق اور کوشش میں لگے رہیں گے تو بالآخر کامیاب ہوں گے ۔ خشوع و خضوع کی کیفیت بڑھے گی اور شیطان پسپائی پر مجبور ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر جھوٹ بولا اور وعدہ خلافی کی ہے‘ یا کسی کا حق مارا ہوا ہے‘ تو ان سب کی اصلاح کی کوشش کریں۔ غرض آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کا آغاز کردیں‘ اس لیے کہ عمل سے ہی تربیت ہوتی ہے۔

اگر آپ پہلوان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو آہستہ آہستہ ورزش کرنا پڑتی ہے ۔ جسم ورزش کا عادی ہوجاتا ہے ۔ ریاضت اورمجاہدہ اسی کا نام ہے ۔ کوئی چیز آپ سیکھنا چاہتے ہیں یا تقریر کرنا چاہتے ہیں تو آپ آہستہ آہستہ بولنا شروع کریں گے تو تقریر کرنا آئے گی۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو لکھنا شروع کریں گے تو تھوڑا بہت لکھنا آئے گا ۔ اچانک نہیں لکھنا شروع کردیں گے۔ یہی معاملہ ایمان اور روح کی تربیت اور تزکیے کا ہے ۔ آہستہ آہستہ آپ سیکھنا شروع کریں گے‘ عمل شروع کریں گے‘ عادت پڑے گی‘ مشق ہوگی اور اس طرح تربیت ہوتی چلی جائے گی ۔

ماحول سے سیکہنا

تربیت کا ایک ذریعہ اپنے ماحول سے سیکھنا‘ ایک دوسرے سے سیکھنا اور ایک دوسرے کی تربیت کرنا ہے۔ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے ۔

انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہاں بعض باتیں اچھی لگتی ہیں ‘ دل کو بھاتی اور موہ لیتی ہیں اوربعض باتیں ناگوار اور باعث اذیت ۔ ایسے لوگ ملتے ہیں جو اچھے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اچھے نہیں ہوتے ۔ ان میں سے کسی سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ درگزر کریں اور معافی کارویہ اختیار کریں ۔ کسی کی خرابی دیکھیں‘ اگر ممکن ہو تو اس کو خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ بتا دیں ‘ توجہ دلائیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ اس کو پھیلاتے نہ پھریں ۔ کسی ایک فرد کے اندر خرابی دیکھ کر مجموعی رائے نہ بنا لیں اور یہ فتویٰ صادر نہ کردیں کہ یہاں تو سب لوگ ایسے ہی ہیں۔

ہر جگہ ‘ ہر بستی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ کوئی انسان کسی پہلو سے مثالی نہیں ہوتا۔ انسان خیروشر کا پتلا ہے۔ کسی انسان کی زندگی اس پہلو سے خالی نہیں ہوتی ۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو اس میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ ہرانسانی بستی ایسی ہی ہوتی ہے‘ اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں اور بری باتیں بھی۔ ہمیں اچھی باتوں سے اثر قبول کرناچاہیے اور بری باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ۔ جو باتیں آپ کو بری لگتی ہیں کم از کم خود ان کا ارتکاب نہ کریں۔ یہ بھی تربیت کا ذریعہ ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ ماحول اور گرد ونواح میں پائے جانے والے لوگ کس طرح آپ کی تربیت کرتے چلے جاتے ہیں۔

یہ چند بنیادی اصول ہیں اس کے علاوہ مزید دو اہم باتیں تربیت میں اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

عمل کی بنیاد اخلاص

اعمال تو بہت سارے ہو سکتے ہیں لیکن جتنا آپ کرسکیں‘ اس کو غنیمت سمجھیے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے ‘ اس پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ جو عمل بھی کریں‘ صرف اللہ کے لیے ہو۔ اصل میں یہ اخلاص ہی ہے جس سے اعمال میں اللہ کا رنگ پیدا ہوتا ہے‘ وزن پیدا ہوتا ہے اور اعمال کا زندگی پر اثر پڑتا ہے۔

وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ (البینۃ ۹۸:۵)

یعنی اللہ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کریں ‘اس کے لیے دین کو خالص کر کے اور اس کے لیے یکسو ہو کر۔

گویا اپنا قبلہ‘ اپنا محبوب اورمطلوب صرف اللہ کو بنایا جائے۔ ہر عمل ا س کے لیے ہو۔ اگر ہم نماز پڑھیں تو اس کے لیے ‘ تجارت یا نوکری کریں تو اس کے لیے‘ اجتماع کریں تو اس کے لیے‘ دعوت کا کام کریں تو صرف اس کے لیے۔ جتنا آپ اس پہلو کو سامنے رکھیں گے‘ اور اس میں اخلاص پیداکریں گے‘ اتنا ہی آپ کے اعمال ‘اللہ کے ہاں وزنی قرار پائیں گے اور قبول ہوں گے‘ اورجتنا آپ اس کے بغیر عمل کریں گے اُسی قدر ہی اعمال بے وزن اور خیروبرکت سے محروم ہوں گے۔ عمل اگر اللہ کے لیے خالص نہیں ہے تو خواہ نماز ہو یا تعلیم قرآن یا انفاق‘ حتیٰ کہ آدمی جان بھی قربان کر دے‘ لیکن یہ اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوں گے۔ لہٰذا جو اعمال لوگ دکھاوے کے لیے کرتے ہیں وہ قبول نہیں ہوتے۔ اللہ کے ہاں صرف وہی عمل قبول ہوگا جو خالص اُسی کے لیے ہو۔

بظاہر یہ معمولی سی بات ہے کہ ہر کام کو کرتے ہوئے ‘اپنے ذہن میں اس بات کو تازہ کر لیا جائے کہ میں یہ کام اللہ کے لیے کررہاہوں لیکن اس سے اخلاصِ نیت مستحضر ہوجاتا ہے۔ کسی سے نیکی کریں یا احسان‘ کسی کو ہدیہ کریں‘ بیوی کے ساتھ اچھی بات کریں یا بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں ‘ ان کی تربیت کریں‘ غرض جو کام بھی کریں اس میں اس پہلو کو‘ اگر پیش نظر رکھیں گے تو وہ آپ کے لیے باعث اجرو ثواب ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی جو لقمہ اپنے منہ میں رکھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور جو اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے‘ اور آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے اس پر بھی اجر ملے گا۔ صحابہؓ کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہوگا کہ ایسا دنیاوی کام اور اس پر بھی اجر ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرے گا تو کیا اس کو عذاب نہیں ہوگا؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہاں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا اور اگر وہ صحیح طریقے سے اس خواہش کی تکمیل کرے توکیا اسے اجر نہیں ملنا چاہیے؟

اس طرح ہم جو بھی کام کریں ‘ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں تو پوری زندگی عبادت بن جائے گی اور ہر کام نیکی تصور ہوگا ۔ یہ سب خلوص نیت اور اخلاص کا نتیجہ ہوگا۔

حقوق اورمعاملات پر نظر

دوسری بات حقوق العباد سے متعلق ہے ۔

اسلام میںبندوں کے حقوق اوربندوں کے معاملات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ نے ہر انسان کی جان ‘ اس کا مال اور اس کی عزت‘ تینوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہوگا جو کسی کی جان لینا چاہے گا‘ لیکن مال کے معاملے میں لوگ بڑے بے احتیاط ہوتے ہیں۔ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا‘ حرام ہے ۔ کسی کا حق مار لینا یہ اس سے بھی بڑا حرام کام ہے اوریہ ایسا جرم ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے‘ الایہ کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ شراب پی‘ تو یہ ایسا گناہ ہے کہ اللہ‘ استغفار سے شاید معاف کردے لیکن اگر کسی کا حق مارلیا‘ کسی کا مال ناجائز طور پر کھا لیا‘ تو جب تک اس کا بدلہ نہ دے دیا جائے‘ اس کو معاف نہ کروائیں ‘ کوئی معافی نہیں ہے ۔ ہم لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے کہ حرام ہے ۔ حالانکہ سور کا گوشت اگر کھالیں تو شاید اللہ تعالیٰ استغفار سے معاف فرمادے۔ اس لیے کہ آپ نے صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ لیکن اگر آپ نے کسی کی عزت پر حملہ کیا‘ کسی کی غیبت کی‘ کسی کو گالی دی‘ کسی کا تمسخر اڑایا ‘ کسی کو قتل کر دیا‘ تو یہ اس سے بڑے گناہ ہیں جتنا کہ سور کا گوشت کھانا ۔ یہ وہ حرام کام ہیں کہ جن میں اگر آپ ملوث ہوں ‘ تو جب تک آپ متاثرہ فریق سے معاف نہ کروالیں‘ یا آپ اللہ کو اس قدر محبوب ہوں کہ وہ آپ کی طرف سے کچھ دے دلا کر اس بندے کو راضی کر لے ‘ تو وہ الگ معاملہ ہے ( کیا اتنے نیک ہیں ہم!)ورنہ قاعدہ اور اصول تو یہی ہے کہ یا تو آپ اس کومعاف کروائیں یا پھر قصاص دیں ‘ اس کا بدلہ دیں۔

بندوں کے حقوق اورمعاملات کی جب اس قدر اہمیت ہے توپھر اس کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں ‘ تکلیف نہ دیں ۔ بیوی بچے ہوں یا دوست احباب ‘ یا کوئی اور شخص جو ساتھ آکر بیٹھ جائے‘ ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ کسی کو بھی ہم سے تکلیف نہ پہنچے۔ ایک پڑوسی تو وہ ہے جس کا دروازہ ہمارے گھر کے دروازے کے ساتھ ملا ہوا ہے‘ ایک پڑوسی وہ ہے جو ہمارا رشتے دار بھی ہے‘ لیکن ایک پڑوسی وہ ہے جو پہلو میں آکر چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے۔ ہر پڑوسی کا ہم پر حق ہے۔ جو ساتھ بیٹھا ہوا ہے اس کابھی حق ہے‘ جو کمرے میں ساتھ رہتا ہے اس کابھی آپ پر حق ہے ‘ اور ان سب حقوق کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ بیوی بچے بھی پڑوسی ہیں ‘ ایک لحاظ سے ان کا بھی حق ہے ۔ لہٰذا بندوں کے یہ حقوق کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں‘ کسی کا حق نہ ماریں ‘ کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں‘ زبان کو پاک صاف رکھیں‘ بُرے انداز میں کسی کا ذکر نہ کریں‘ کسی کا مذاق نہ اڑائیں ‘کو ئی ایسی بات نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے‘ دل آزاری ہو‘ جذبات کو ٹھیس پہنچے وغیرہ وغیرہ‘ ہماری خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

یہ دو بڑی اہم باتیں ہیں کہ اللہ کی مرضی و خوشنودی کے لیے کام کرنا ‘ اور بندوں کا حق نہ مارنا اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا۔ انھی دو اصولوں کی بنیاد پر آپ عمل کرتے جائیں تو ان شاء اللہ آپ کو اپنی تربیت کے لیے بڑی مدد ملے گی۔

تربیت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔ ہم انھیں یاد رکھیں اور یہ اہم ترین اصول ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ہر فرد اپنی تربیت کا خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ درس قرآن‘ تقاریر‘ تربیت گاہیں‘ دوست احباب‘ مطالعہ لٹریچر‘ گردونواح کا ماحول اور افراد تب ہی معاون و مددگار اور مؤثر ہوں گے جب ہم ارادہ اور عزم مصمم کرلیں کہ ہمیں اپنی تربیت آپ کرنا ہے‘ اور پھر اس کے لیے عمل شروع کردیں خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہو لیکن ہو مسلسل۔ یہی تربیت کی بنیاد ہے۔

(کیسٹ سے تدوین : امجد عباسی)

۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء پیر کا دن تھا۔ اس سے ایک روز قبل پوری دنیا میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں نے اپنی عید (کرسمس) بڑے اہتمام اور تزک و احتشام سے منائی تھی۔ مال دار ملکوں کے سیاح‘ مرد وخواتین سیاحت کے مقامات اور سمندری ساحلوں پر تعطیلات کے مزے لوٹ رہے تھے اور مزے لوٹنے کا ان کا جو انداز ہے‘ اس کا بھرپور اہتمام تھا۔ سالِ نو کی آمد کا پوری دنیا میں شدت سے انتظار تھا۔ سال نو کے جشن جس انداز میںمنائے جاتے ہیں ان کے لیے مادی دنیا اور اس کی لذتوں میں غرق عالمی آبادی اتنے پاپڑ بیلتی اور اس قدر انتظامات کرتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں مشرق کی جانب سے سورج نے ۲۶ دسمبر کے دن کا اعلان کیا ہی تھا کہ ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ بحرہند کی تہوں کے نیچے ایک ہولناک زلزلے نے انگڑائی لی‘ سمندر بپھر گیا اور موت ہر جانب رقص کرنے لگی۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک ہی نام ہر جانب گونج رہا تھا ’’سونامی‘‘۔

لوگ سونامی کی خون آشام تباہ کاریوں کی خبریں خوف و ہراس کے ساتھ سن رہے تھے اور سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان تھے۔ ہرشخص ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا ’’سونامی‘‘ کیا ہے۔ سونامی دراصل جاپانی زبان کا لفظ ہے جو تباہ کن سمندری طوفان اور زلزلے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جاپان ان خطوں میں شامل ہے جہاں تاریخ کے بدترین سمندری زلزلے اور طوفان تباہی مچاتے رہے ہیں۔ جاپان میں ۱۹۰۶ء میں ایک سمندری طوفان آیا تھا جس میں صرف اس ملک کے ایک لاکھ ۴۵ ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ زلزلوں کے ریکارڈ کے مطابق ۱۹۰۶ء کا سمندری زلزلہ جس نے یہ تباہی مچائی اتنا خوفناک تھا کہ اس کے لیے یہ لفظ ایجاد ہوا۔

یہ سمندر اور زمین بلکہ کائنات کی ہر چیز اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کر دی ہے مگر ان سب کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ انسان بڑا ترقی یافتہ اور خود کو نہایت طاقت ور سمجھتا ہے مگر حقیقت میں بے بس اور کمزور سی مخلوق ہے۔ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ عافیت میں زندگی گزر رہی ہو تو انسان کبھی اس امر پر غور بھی نہیں کرتا کہ یہ تسخیرشدہ کائنات کسی پہلو سے ذرا اپنی ہیئت بدل لے تو کیا ہو جائے گا۔ سونامی کی تباہ کاریوں کی پوری تفاصیل ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں مگر یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے اور کروڑوں بے گھر ہوگئے۔ ملکوں کے ملک اور ان کی منظم حکومتیں ہل کر رہ گئیں۔ اس طرح حادثے کا ایک پہلو تو واقعاتی ہے جس کی جزئیات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں مگر ایک پہلو اخلاقی و طبیعیاتی بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھائو اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنھیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو‘‘۔ (النحل۱۶:۱۴)

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’تمھارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمھاری کشتی چلاتا ہے تاکہ اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمھارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو‘ وہ سب گم ہوجاتے ہیں مگر جب وہ تم کو بچاکر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھرائو کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم ا س سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پائو؟ کیا تمھیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمھاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمھیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمھارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۶۶-۶۹)

سونامی جس نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا وہی ’’سخت طوفانی ہوا‘‘ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ملتا ہے۔ انسان کے لیے ان واقعات میں بڑی عبرت ہے مگر بدقسمتی سے کم ہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ بحرہند کے جن جن علاقوں میں یہ تباہی پھیلی ہے وہاں پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم موجود نہیں ہے‘ جب کہ بحراوقیانوس میں ایسا انتظام کیا گیا ہے مگر اس انتظام کے باوجود وہاں بھی جب ناگہانی آفت آجاتی ہے تو انسان کی بے بسی نوشتۂ دیوار بن جاتی ہے۔ سونامی کے اس طوفان نے جنوبی ایشیا‘ مشرق بعید اور افریقہ کے ممالک میں تباہی مچائی ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں آنے والے زلزلوں میں سے یہ ایک بدترین اور مہلک ترین زلزلہ تھا۔ اس سے انڈونیشیا‘ سری لنکا‘ بھارت‘ تھائی لینڈ اور مالدیپ میں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے‘ جب کہ بحرہند کے دور دراز جزیرے سیشلز تک ان لہروں نے تباہی مچائی ہے۔

انڈونیشیا کا جزیرہ آچے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہ مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں پر مسلمان ممالک اور بالخصوص پاکستان سے جانے والے الخدمت کے وفد نے جو حالات دیکھے ہیں وہ انتہائی دلخراش ہیں۔ الخدمت کے ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے وفد کو انڈونیشیا کی اسلامی جماعت ’’جسٹس پارٹی‘‘ کے رضاکاروں کی امداد اور تعاون بھی حاصل ہے مگر یہ بات انتہائی المناک ہے کہ مغربی دنیا کی این جی اوز اب تک کوئی قابلِ ذکر خدمت سرانجام نہیں  دے سکیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہاں امریکی فوجیوںکی آمد اور کارکردگی ہے۔ امریکا نے اس ناگہانی مصیبت میں جس قلیل امداد (عراق کا ڈیڑھ دن کا خرچ) کا اعلان کیا تھا‘ اس کے ساتھ یہ اڑنگا لگا دیا کہ اس امریکی امداد کو اپنی فوج کے ذریعے استعمال کرے گا۔

امریکی فوج کے بارے میں انڈونیشیا کی حکومت اور آچے کی مقامی آبادی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انڈونیشی نائب صدر نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج کو جلد از جلد واپس بلا لے۔ اندازہ ہے کہ امریکی امداد کے علاوہ بلکہ یواین او کے فنڈ سے مزید رقوم ان فوجیوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہوجائیں گی۔

نیویارک ٹائمز نے جین پرلیز (Jane Perlez) کی رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا ہے کہ تین بحری جنگی جہاز سان ڈیگو سے ۲ ہزار امریکی میرین عراق منتقل کر رہے تھے مگر ان سب کو بھی انڈونیشیا بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ کالم نگار نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان جہازوں کو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجاے فوجیوں کو وہاں بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ بہرحال سیاسی فیصلے ہیں۔ ۲۰ ہزار کے قریب امریکی فوجی یہاں براجمان ہیں۔

زلزلے کی خبر ملتے ہی امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے مصیبت زدگان کی امداد کے لیے قوم سے اپیل کی۔ ہر بستی اور محلے میں کیمپ لگ گئے۔ لوگوں نے حسبِ توفیق الخدمت کے ان کیمپوں میں امدادی رقوم جمع کرانا شروع کر دیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور الخدمت کا ایک چھ رکنی وفد امداد لے کر انڈونیشیا روانہ ہوگیا۔الخدمت کے وفد نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ امریکی فوجی کسی کام میںکوئی حصہ نہیں لے رہے بلکہ آرام سے اپنے مقامات پر پڑے ہیں۔ عیسائی مشنری امداد کے بہانے آچے میں مسلمانوں کے یتیم بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کو عیسائی بنانے پر لگے ہوئے ہیں‘ جب کہ مسلمان رضاکار تنظیموں کو وہاں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ عیسائی تنظیمیں ہر جانب سرگرمِ عمل ہیں اور رقم اقوام متحدہ اور مسلمان ممالک کی استعمال کر رہی ہیں۔

اللہ نے اپنے انبیا کے ذریعے انسانوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ ان کی غفلت‘ بغاوت‘ نافرمانی اور ظلم و عدوان پر وہ ایک حد تک مہلت دیتا ہے مگر کبھی کبھار وہ رسی کھینچ بھی لیتا ہے۔ ظالموں کے لیے یہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے مگر اس میں بے گناہ بھی آجاتے ہیں‘ ان کے حق میں یہ ابتلا شمار ہوتی ہے اور اس ابتلا پر اللہ کے ہاں اجر ملتا ہے۔ اس قیامت صغریٰ کے بعد متاثرین کی طرف سے مختلف قسم کے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ کچھ لوگ مسلم اور غیرمسلم آبادیوں میں سے یکساں برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے انسانی ظلم و زیادتی پر تنبیہہ اور سرزنش ہے۔ کچھ لوگ اُلٹا خدا کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر غور کرے تو یہ تمام مصائب اس کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ تو بہت سے گناہوں پر اپنے عفوودرگزر کی وجہ سے پردہ ڈال دیتا ہے اور ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے: ’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے‘ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے‘ اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجزکر دینے والے نہیں ہو‘ اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و مددگار نہیں رکھتے‘‘۔ (الشوریٰ ۴۲:۳۰-۳۱)

متاثرہ علاقوں میں کئی معجزات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اللہ نے کئی لوگوں کو یوں بچا لیا ہے کہ ان کے بچ جانے کی کوئی توجیہہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ کسی غیرمرئی قوت نے انھیں محفوظ رکھا ہے۔ یہ غیرمرئی قوت مغرب و مشرق کے مادہ پرست انسانوں کے لیے اجنبی ہوسکتی ہے۔ مگر اس کائنات کے سمیع و بصیر خالق پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے اس میں کوئی اچنبھا نہیں بلکہ ایمان افروز نشانی ہے۔ کئی مساجد میلوں تک تباہ ہوجانے والے علاقوں میں اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ جوں کی توں کھڑی ہیں جو ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ مغربی میڈیا بالخصوص اے ایف پی اور رائٹر کے حوالے سے ایسی بہت سی خبریں اور فیچر سامنے آئے ہیں جن میں اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آچے (انڈونیشیا) کی ان عظیم الشان مساجد کے بارے میں اے ایف پی کے الفاظ ہیں:

Indonesia's indestructible mosques defy quake tidal waves.

یعنی انڈونیشیا کی مضبوط مساجد زلزلے کی منہ زور لہروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ ان علاقوں میں مساجد میں پناہ لینے کی وجہ سے محفوظ رہ گئے۔ جس سونامی تباہ کار ریلے نے بستیوں کی بستیاں نگل لیں اور عمارتوں کے نام و نشان تک مٹ گئے‘ اس کے سامنے ان مساجد کا اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا ایک ایمان افروز واقعہ اور ان کے معماروں کی مہارت و احتیاط کی دلیل ہے۔ کئی سال قبل مجھے ایک مرتبہ افریقہ کے ملک زامبیا میں ایک یونانی نومسلم ملا تھا۔ میں نے اس سے اس کے قبولِ اسلام کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ ترکی میں استنبول کی نیلی مسجد  (blue mosque) نے اسے مسلمان بنا دیا۔ اس مسجد کی خوب صورتی‘ شان اور مہارت دیکھ کر اس کے دل نے گواہی دی کہ اس عبادت خانے کی تعمیر کرنے والے اور اس میں عبادت کرنے والے جھوٹے لوگ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح کے واقعات آہستہ آہستہ ان علاقوں سے بھی موصول ہورہے ہیں۔

اللہ نے اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے اور اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ خود کو اپنی آزاد مرضی سے اللہ کے احکام کا تابع (مسخر) بنا دے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے عظیم الشان انعام ملے گا‘ بصورت دیگر اسے شدید عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ یہ انعام اور پکڑ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میںہوگی مگر اس زندگی میں اللہ انسانوں کو جھنجھوڑتا رہتا ہے تاکہ وہ اس کی  طرف پلٹ آئیں۔ اس کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ  کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے‘ شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔ (السجدہ۳۲:۲۱)

سونامی کے اس حادثۂ جاں کاہ پر جہاں اظہارِ غم کرنا انسانی اور بشری تقاضا ہے وہیں متاثرین کی امداد اور بحالیاتی انسانی اور دینی فرض ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا‘ انسانیت کو اس تناظر میں اصلاحِ احوال کی دعوت دینا اور بغاوت و سرکشی کی روش ترک کرنے کی سنجیدہ کوشش اور منصوبہ بندی بھی بہت ضروری ہے۔ ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے ناطے داعیانِ الی الخیر قرار دیے گئے ہیں۔ ہمارا فرض منصبی امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ آج کا دور ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کا دور ہے۔ اُمت کے تمام ذی شعور لوگوں کو انسانیت سے دردِ دل کے ساتھ اپیل کرنی چاہیے کہ وہ اپنا مقام پہچانیں‘ اپنے خالق و مالک کو پہچانیں اور خود کو مالکِ حقیقی کا خلیفہ ثابت کریں۔

ترجمہ و تلخیص: مسلم سجاد

دی نیویارک ریویو ایک وقیع رسالہ ہے جو کتابوں پر تبصرے کے لیے اپنی شہرت رکھتا ہے۔ اس نے ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کے شمارے میں The Truth About Terrorism کے عنوان سے ۱۱؍۹ کمیشن رپورٹ سمیت ۶ کتابوں اور بی بی سی کی ۳گھنٹے کی ایک فلم پر جوناتھن رابن کا مفصل تبصرہ شائع کیا ہے۔ ہم اس تبصرے کا خلاصہ ترجمان القرآن میں اس لیے شائع کر رہے ہیں کہ ایک طرف اس سلسلے میں شائع ہونے والی اہم کتابوں سے ہمارے قارئین واقف ہوسکیں تو دوسری طرف خود امریکا میں اضطراب اور تلاشِ حق کے لیے جوتھوڑی بہت کوششیں شروع ہوگئی ہیں ان سے واقفیت پیدا کی جاسکے۔ خاص طور پر ہماری اس قیادت کے لیے‘ ان میں سوچنے‘ سمجھنے کا بہت عمدہ لوازمہ ہے جو آنکھیں بند کر کے امریکی قیادت کے اشارۂ چشم وآبرو پر خود اپنوں کے خلاف آپریشن کرنے میں مصروف ہیں۔ (ادارہ)

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے نو دن بعد ہی جنگ شروع ہوگئی جسے بش نے ۲۰ دسمبر کے کانگریس کے اجلاس میں ’’ایک نئی طرح کی جنگ‘ اُس سے بہت مختلف جو ہم جنگ کے نام سے جانتے ہیں‘‘، قرار دیا۔ ڈک چینی کے الفاظ میں: ’’اس جنگ میں ہمیں سایوں سے لڑنا ہے‘‘۔ بش اور ڈک چینی عوام کو جنگ کے نئے تصور سے آشنا کر رہے تھے جس میں ایک قومی ریاست غیر ریاستی عنصر سے برسرِجنگ ہوگی۔

اس وقت جس صورت حال سے ہم دوچار ہیں وہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں سب کچھ دھندلا ہے۔ اب الفاظ کے وہ معنی نہیں رہے جو ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھے۔ اب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اپنے پڑوسی کو ہم ایک ہم وطن سمجھیں یا خفیہ پولیس کا سپاہی۔ عام زندگی اور گفتگو نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ امن نے جنگ کا چہرہ اختیار کرلیا ہے اور جنگ امن کی طرح ہوگئی ہے۔ اب  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حالتِ امن ہے یا حالتِ جنگ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کیا مطلب ہے؟ دہشت گردی حملے کا ایک ذریعہ ہے‘ کوئی شے یا دشمن نہیں۔ اس کے خلاف جنگ کا مطلب ٹینکوں یا تیرکمانوں سے جنگ کا ہے۔   یہ صرف ایک سیاسی اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ نے رچرڈ پائپس جیسے سرد جنگ کے بوڑھوں کی رگوں میںتازہ خون دوڑایا ہے۔ اس نے روس کے بسلان کے سانحے پر نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ: ’’نیویارک اور پینٹاگون پر حملے کسی اشتعال کے بغیر کیے گئے اور ان کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ یہ اسلامی انتہاپسندوں کے‘ جو غیراسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں‘ عمومی حملے کا حصہ تھے۔ اس لیے القاعدہ سے امریکا کی جنگ پر کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن چیچن روس کو تباہ نہیں کرنا چاہتے‘ اس لیے مصالحت کی گنجایش ہے‘‘۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے دشمن‘ جیسا کہ ڈینیل پائپس نے کہا: اسلامی انتہا پسندی‘ عالمی جہاد‘ اسلامی فاشزم کے پاس امریکا کو تباہ کرنے کی خواہش کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں جو امریکا کی اقدار سے نفرت کی بنا پر ہے۔ اپنے موقف کے جواز کے لیے پائپس اور ان کے جیسے لوگ اسامہ بن لادن کے مطالبات کی فہرست کو زیرغور لانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایمن ظواہری اور دوسروں کا یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف ۱۹۹۸ء کا اعلانِ جنگ اسی طرح متعین ہے جس طرح چیچن باغیوںکے مطالبات متعین ہیں۔ اسامہ بن لادن کا سعودی عرب سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ (جو اب خاموشی سے پورا بھی ہوچکا ہے)‘ جزیرہ نما کو استعمال کرکے عراقی عوام کے خلاف جارحیت‘ امریکا کا عراق‘ سعودی عرب‘ مصر اور سوڈان کو توڑنے پھوڑنے کا منصوبہ‘ اور ان کی اس کمزوری سے اسرائیل کے بقا کی ضمانت حاصل کرنا اور جزیرہ نما پر قبضے کے لیے وحشیانہ صلیبی حملے میں سے کوئی بات بھی امریکی اقدار سے منسلک نہیں ہے۔

ہتھیار اٹھانے کی سب سے بلند آواز نارمن پوڈہارٹزکی ہے جو اس نے جنگِ عظیم چہارم کے نام سے مجلہ کمنٹری میں اٹھائی ہے۔ وہ اس بات سے بڑی آسانی سے گزر گیا ہے کہ کیا اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت کا عالمی جہادی فکر کی انگیخت میں کوئی سنجیدہ کردار ہے؟ وہ کہتا ہے کہ اسرائیل سے نفرت امریکا دشمنی کا عنوان ہے‘ نہ کہ امریکا دشمنی اسرائیل سے نفرت کی وجہ سے ہے۔ پوڈہارٹز اور پائپس دونوں ہی چاہتے ہیں کہ یہ خیال ہی ذہن سے نکال دیا جائے کہ اسلامی انتہا پسندی کا سرچشمہ مشرق وسطیٰ کے اندر موجود مسائل ہیں۔ وہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ دشمن کا جھگڑا امریکا کی پالیسیوں سے نہیں بلکہ خود امریکا سے ہے۔ وہ امن اور خوش حالی کے دشمن ہیں اور جو اچھائی امریکا میں ہے اس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

پوڈ ہارٹز نے امریکا پر مسلم گروپوں نے جو حملے کیے (پی ایل او‘ پی ایف ایل پی‘ ۱۹۷۹ء میں تہران کے طالب علم‘ حزب اللہ‘ ابوعباس‘ ابوندال‘ القاعدہ) ان سب کی فہرست کو بیان کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا‘ کیا ان کی دینی فکر ایک تھی‘ کجا یہ کہ وہ کمیونزم اور نازی ازم کی طرح ایک متحدہ کلی طاقت ہوں۔ جب پوڈہارٹز یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مذہب اسلام کی اصلاح کرے اور اسے جدید بنائے‘ تو اس کے مضمون سے یہ بالکل نہیں معلوم ہوتا کہ اسے اس مذہب سے جس کے لیے وہ لوتھر بن رہا ہے‘ معمولی سی واقفیت بھی ہے۔

القاعدہ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے‘ ہر دفعہ اس کے معنی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی یہ دنیا بھرمیں پھیلے  ہوئے جنگی اسلامی گروپوں کا ادارہ ہوتا ہے‘ کبھی یہ بین الاقوامی کارپوریشن نظر آتی ہے جس کے مکڑی کے جالے کی طرح خفیہ سیل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جنھیں پاکستان یا افغانستان سے کسی مرکز سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ ایک ۷-۱۱ کی طرح ایک فرنچائز تنظیم ہوتی ہے جو آزاد دکان داروںکو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے‘ اور کبھی ایک سٹور یا بنک ہوتا ہے جو اسامہ بن لادن کی ملکیت ہے اور وہ اسے چلا رہا ہے۔ یہ دھندلاپن اس سیاسی و صحافیانہ رویے سے مزید دھندلا ہوجاتا ہے کہ محض اندازے سے لوگوں کو تنظیم کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ دہشت گردی کے شبہہ میں یا جس کسی کو بھی پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت عارضی طور پر نظربند کیا جائے اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ بعد میں یہ تعلق بے بنیاد ثابت ہوتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ القاعدہ کے ممبران دنیا میں ہر جگہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اگرچہ القاعدہ کے نمایاں افراد خالد شیخ محمد اور رمزی یوسف وغیرہ لوگوں سے بہت معلومات ملی ہیں لیکن جو کچھ بتایا گیا ہے‘ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ تنظیم اور اس کی ہیئت کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوا اور وہ آج بھی غیر واضح اور دھندلی ہے۔

رچرڈ اے کلارک نے Against All Enemies میں القاعدہ کے بارے میں جو کچھ عام طور پر سمجھا جاتا ہے اسے بیان کر دیا ہے۔ اس نے ہر معمولی سے معمولی بات کو بھی وزن دے کر ایک خوفناک تنظیم کی تصویر کھینچی ہے جسے وہ ’’مذہبی فرقے کی آڑ میں عالم گیر سیاسی سازش‘‘ قرار دیتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تصویر اس تصویر سے بہت کم مختلف ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس وقت کھینچی گئی تھی جب سوڈان کا جمال الفضل اسامہ بن لادن کی رقم غبن کر کے امریکیوں کے پاس آیا تھا۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’کلارک کو امید تھی کہ ۱۹۹۸ء کے میزائل حملے بن لادن کے خلاف ایک دیرپا مہم کا آغاز ثابت ہوں گے۔ کلارک پر‘ جیسا کہ اس نے بعد میں تسلیم کیا کہ بن لادن کا خبط طاری تھا‘‘۔

اس کے باوجود کمیشن نے القاعدہ کے بارے میں جو تفصیل دی ہے وہ قریب قریب کلارک ہی کی بازگشت ہے جس کا نام رپورٹ کے حواشی میں ان گنت مرتبہ آیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین تسلیم کرتے ہیں کہ ایک مخبوط الحواس (crazy)شخص سے معاملہ کر رہے ہیں لیکن بن لادن کی تنظیم کے بارے میں ان کا اپنا بیان اسی شخص کے ناقابلِ اعتبار بیان پر مشتمل ہے۔

Imperial Hubris کا مصنف مائیکل شیور ہے۔ اس کا اصل موضوع القاعدہ نہیں بلکہ بش انتظامیہ اور اس کے سی آئی اے کے افسران ہیں جن پر اس کی کتاب میں زوردار حملہ کیا گیاہے۔

بن لادن کے خلاف اس کا معاملہ ہیرو ورشپ کا ہے۔ وہ اس کی ذہانت‘ خوش بیانی‘    سمجھ داری‘ دینی خلوص‘ تکنیکی مہارت اور اس کے دفاعی جہاد کی معقولیت کی خوب تعریفیں کرتا ہے۔ شیور کہتا ہے کہ: اسامہ بن لادن واقعی ایک غیرمعمولی آدمی ہے۔ منفی یا مثبت کا لاحقہ لگائے بغیر‘ کسی بھی لحاظ سے وہ ایک بڑا آدمی ہے۔ اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔ ایک عظیم آدمی وہ ہوتا ہے جو تاریخ کی رو کو تبدیل کر دے اور یقینا پچھلے پانچ چھ سال میں امریکا میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے‘ ہمارے طور طریقوں میں‘ ہمارے سفر کے طریقوں میں۔ یقینا مال و دولت کے لحاظ سے وہ ہمارا خون نچوڑ کر ہمیں موت تک پہنچا رہا ہے۔ بجٹ خسارے کو دیکھیں جو زیادہ تر   بن لادن کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ وہ ہمارا بہت بڑا دشمن ہے‘ ایک قابلِ تعریف آدمی۔ ہمارے ساتھ ہوتا تو وائٹ ہائوس میں ڈنر کھا رہا ہوتا۔ وہ آزادی کا سپاہی ہوتا۔ یہ میں اس کی تعریف کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ اس لیے کہ اگر ہم نے آدمی کو نہ پہچانا اور اس کے الفاظ کی طاقت کو نہ جانا تو بالآخر ہم خسارے میں رہیں گے۔

شیور کا پیغام کتاب میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ آخر میں بہترین طور پر بیان کیا گیا ہے: ’’ساری اسلامی دنیا میں امریکا سے اس کی مخصوص سرکاری پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ نفرت ٹھوس ہے خیالی نہیں‘ عسکری ہے ذہنی نہیں‘ اور مستقبل میں اس میں اضافہ ہوگا۔ مسلمان امریکا سے نفرت کرتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکا اسلامی دنیا میں کیا کر رہا ہے۔ یہ انھیں بن لادن کے پیغامات سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ سیٹلائٹ ٹیلی وژن سے بھی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ امریکی پالیسی کی محسوس حقیقت سے پتا چلتا ہے۔ ہم القاعدہ کی رہنمائی میں چلنے والی عالم گیراسلامی بغاوت کے خلاف ان پالیسیوں کی وجہ سے اور ان کے دفاع میں برسرِجنگ ہیں‘ نہ کہ جیسا کہ صدر بش غلط طور پر کہتے ہیں‘ آزادی اور جو کچھ دنیا میں اچھا اور خوب ہے اس کے دفاع میں۔

شیور متنبہ کرتا ہے کہ دونوں طرف ابھی بہت جانی نقصان ہوگا جس میں فوجیوں سے زیادہ شہری ہلاک ہوں گے‘ آبادیاں بے گھر ہوں گی‘ مہاجروں کے قافلے ہوں گے۔ یہ بات قابلِ تعریف ہے اور نہ مطلوب‘ لیکن جب تک امریکا اپنی مسلم دنیا کے ساتھ ناکام پالیسیوں پر قائم ہے‘ یہی امریکا کے لیے واحد راستہ ہے۔

شیور نے القاعدہ کا جو تصور پیش کیا ہے ‘ وہ زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ وہ سوچ سمجھ کر اقدام کرنے والا دشمن ہے‘ اور ان مقاصد کے لیے متحرک ہے جو اس کو ایسے ہی عزیز ہیں جیسے وہ جو امریکیوں کو متحرک رکھتے ہیں‘ انھیں عزیز ہیں۔ وہ اپنے ملکوں میں اپنی آزادیوں کا دفاع کر رہے ہیں‘ اچھی طرح مسلح ہیں اور اس جنگ کی حکمت عملی کو امریکا سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ہمیں اس کے حجم‘ اس کی تنظیمی ہیئت اور اس کے منصوبوں کا کوئی حقیقت پسندانہ علم نہیں ہے۔ ہمیں اب بھی نہیں معلوم کہ القاعدہ کتنی بڑی ہے‘ آج بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کی کمانڈ میں کس کو کیا مقام حاصل ہے۔

متبادل طور پر ایک شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ القاعدہ صرف ہمارا ایک واہمہ ہے‘ ایک سراب جسے واشنگٹن کے نیوکونز (نئے قدامت پسند)جادوگر ڈاکٹروں کے خفیہ سیل نے تخلیق کیا ہے‘ اور ایک قابلِ اعتبار پریس نے اس کو خاصا ہولناک بنا دیا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو برطانیہ کے ایک فلم ساز ایڈم کرٹس نے بی بی سی پر ایک ایک گھنٹے کے تین پروگراموں کی سیریز میں پیش کیا ہے: The Power of Nightmares (ڈرائونے خوابوں کی طاقت)۔ اس نے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جو اب تک دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے نظرانداز کیا جا رہا تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جنگجو اسلام اور امریکی نیو کنزرویٹوازم دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ دونوں نے لبرل مغرب کے اخلاقی زوال پر بے چینی سے طاقت حاصل کی ہے۔ دونوں کا ایک بانی گاڈفادر ہے۔ ایک کے سید قطب (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) اور دوسرے کے لیوااسٹراس‘ (۱۸۹۹ئ-۱۹۷۳ئ)۔ کرٹس کے بقول یہ اسٹراس ہے جس نے نیو کونز کو یہ سکھایا کہ کس طرح امریکی عوام کو یہ بتایا جائے کہ وہ شر کے خلاف اور خیر کے ساتھی ہیں۔

۱۹۹۴ء میں سوڈانی جمال الفضل نے اپنے امریکی تفتیش کاروں کو وہ بتایا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ وہ ایک نیٹ ورک چاہتے تھے ‘ اس نے انھیں ایک نیٹ ورک دیا۔ انھیں ایک ماسٹر مائنڈ کی ضرورت تھی‘ اس نے بن لادن دیا۔ امریکا میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک کمپنی نام کی ضرورت تھی‘ انھوں نے اسے القاعدہ یعنی‘ کارروائیوں کی اساس کہا۔ چنانچہ کرٹس کے مطابق القاعدہ نے اپنی زندگی کا آغاز امریکا کے بنائے ہوئے قانونی فکشن کی حیثیت سے کیا۔

۱۱ستمبر نے نیوکونز پالیسی سازوں کو موقع دیا کہ القاعدہ کو وہی کردار دیں جو اس سے پہلے سوویت روس کو دے چکے تھے۔ وہی عالمی نیٹ ورک ‘ وہی مرکزی کنٹرول اور افغان دیہات میں واقع ’’کریملن‘‘۔

کرٹس کے مطابق ان کا اصل مسئلہ کسی بھی قسم کی حقیقی شہادت کا فقدان تھا۔ اس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ رمزفیلڈ پریس کو تورابورا کے پہاڑوں میں ایک عظیم الشان قسم کی تعمیر دکھاتا ہے۔ بیڈروم ہیں‘ دفاتر ہیں‘ کمپیوٹر سسٹم ہے‘ داخلے کے اتنے بڑے دروازے ہیں کہ ٹینک بآسانی آئیں اور جائیں۔ اور رمز فیلڈ کہتا ہے کہ ’’ایسا ایک نہیں‘ ایسے بہت سارے ہیں‘‘۔ لیکن جب تورابورا پہنچ جاتے ہیں تو وہاں وہی قدیم غار ہیں جو محض غار ہیں‘ چھوٹے‘ تاریک‘ سوائے چند بارود بھرے صندوقوں کے وہاں کچھ نہیں۔ فوراً ہی بعد بش آتا ہے اور قوم کو بتاتا ہے کہ ’’ہم نے دہشت گردوں کو امریکا کے فلاں فلاں شہروں میں ناکام کر دیا ہے۔ ہم پرعزم ہیں کہ دشمن کو اپنے عوام پر حملے سے پہلے روک دیں گے‘‘۔ لیکن بش کی پوری فہرست میں سے ہر ایک کیس عدالتوں میں آکر ٹوٹ پھوٹ گیا‘ یا نہایت معمولی الزامات میں سزائیں ہوئیں۔ جو بہترین شہادتیں ایف بی آئی لاسکی وہ نہایت معمولی تھیں‘ جیسے کہ ایک سیاح کی ڈزنی لینڈ وزٹ کی فلم‘ مختار البکری کا ایک ای میل جس میں اس نے کہا تھا کہ میں شادی کرنے بغداد جا رہا ہوں جس کو ایف بی آئی نے کہا کہ وہ خفیہ پیغام ہے کہ وہ امریکا کے چھٹے فلیٹ پر خودکش حملہ کرے گا۔ اور ایک کاغذ پر کچھ نشانات جو کافی عرصہ پہلے فوت شدہ ذہنی مریض جمینی نے بنائے تھے جن کو کہا گیا کہ یہ ترکی میں امریکی اڈے کا نقشہ ہے۔ کرٹس کا استدلال ہے کہ القاعدہ ایک آسیب ہے۔ اس کا خفیہ دہشت گردی کا نیٹ ورک ایک فریب ہے جو سیاست دانوں نے ہمارے مستقبل کے اندیشوں کو استعمال کرتے ہوئے تشکیل دیا ہے۔ یہ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ کوئی امریکی نیٹ ورک اس فلم کو دکھائے۔

کرٹس کا ایک نمایاں گواہ کہتا ہے کہ کوئی القاعدہ تنظیم نہیں ہے۔ جوسن برگ مئی جون ۲۰۰۴ء کے فارن پالیسی میں لکھتا ہے: القاعدہ نے افغانستان میں جو کچھ بنایا تھا وہ تباہ کیا جاچکا ہے‘ اور اس کے رفقا منتشر ہوگئے ہیں‘ یا گرفتار ہوگئے ہیں یا قتل ہوگئے ہیں۔ اب اسلامی جنگجوئوںکے لیے کوئی مرکزی پناہ گاہ نہیں ہے لیکن القاعدہ ورلڈ ویو یا القاعدہ ازم ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔

کرٹس کی فلمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجودہ طریقے کے بے نتیجہ ہونے کو بالکل واضح کر دیتی ہیں: خیالی نیٹ ورک کو توڑنا‘ بیرون ملک دہشت گردوں سے مقابلہ تاکہ وہ گھر پر حملہ نہ کرسکیں‘ یہ خیال کہ ایک نظریے کو بے اثر کیا جا سکتا ہے اگر اس کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کر لیا جائے‘ ہمہ وقت نگرانی کی خطرناک خواہش۔ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بڑے بڑے شہروں کو کمپیوٹر کے ایسے پروگراموں کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ اس میں کسی بھی جگہ چلنے والے ہر شخص کو نظر میں رکھا جا رہا ہے۔


America the Vulnerable: How Our Government is Failing to Protect Us from Terrorism by Stephen Flynn. Harper Collins.

Fortress America: On the Front Lines of Homeland Security ___ An Inside Look at the Coming Surveillance State by Matthew Brzezinski. Bantam.

The 9/11 Commission Report: Final Report of the National Commission on Terrorist Attacks upon the United States, Norton.

Imperial Hubris: Why the West Is Losing the War on Terror by "Anonymous" (Michael Scheuer) Brassey's.

Against All Enemies: Inside America's War on Terror by Richard A. Clarke. Free Press.

The Power of Nightmares: A three-part television series by Adam Curtis, BBC Two. October 20 and 27 and November 3, 2004.

Al-Qaeda: Casting a Shadow of Terror by Jason Burke. I.B. Tauris.

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کی ۶۵ فی صد آبادی کا انحصار زراعت اور اس سے منسلک صنعتوں پر ہے۔ پاکستان کی ۷۰ فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔

یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی ملک کے کاشت کار ‘ہاری اور زرعی مزدور بدترین زمین دارانہ نظام کا شکار ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں نواب شاہ کے ایک ڈپٹی کمشنر مسعود کھدر پوش نے اپنی مشہور ہاری رپورٹ میں ہاری کی حالت زار بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:’’انسان‘ حیوان ناطق ہوتے ہوئے بھی وہ پالتو جانوروں کی طرح مشقت میں جُتے رہتے ہیں‘ انھیں مراعات حاصل ہیں نہ حقوق‘ اور اب تین تین بڑی زرعی اصلاحات اور مزارعت (tenancy)کے قوانین میں تبدیلیوں کے بعد ملک میں آج بھی لاکھوں انسان جبری مشقت پر مجبور ہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کے ادارے اکنامک ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کے ۹۳ فی صد چھوٹے کاشت کاروں کے پاس پاکستان کی ۳۷ فی صد اراضی ہے‘  جب کہ آبادی کے ۷ فی صد بڑے زمین داروں کے پاس ۶۷ فی صد اراضی ہے۔ گویا بڑے زمین دارجو تعداد میں کم ہیں‘ زیادہ اراضی کے مالک ہیں‘ جب کہ چھوٹے کاشت کار جو بڑی تعداد میں ہیں کم اراضی کے مالک ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے ۵۷سال بعد بھی محروم طبقات کی مراعات میں اضافہ نہیں ہوا۔ وہ اب بھی ناامیدی‘ مالی پریشانی اور اپنے خاندان کی عصمت کے تحفظ کے خوف کی فضا میں جیتے ہیں۔ ایسے حالات میں کاشت کار یکسوئی‘ پوری توجہ‘ محنت اور لگن کے ساتھ کیونکر کام کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری زرعی پیداوار بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم گندم جیسی اہم پیدوار میں خودکفیل نہیں ہیں‘ جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک کی زرعی پیداوار میں اور ان کے خود کفالتی زرعی نظام میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

حالات گہرے غوروخوض اور عمل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رب کائنات کی الہامی اقتصادی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں جو عدل پر مبنی حقیقی اور مستقل قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور ہر حال میں واجب العمل ہیں‘ اور جن کے تحفظ اور نفاذ کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ان ربانی ہدایات پر عمل کر کے ہم آخرت کی عیشہ راضیہ اور جنت سے پہلے اس دنیا میں بھی امن و سکون اور وہ خوش گوار زندگی حاصل کرسکتے ہیں جس کو قرآن نے حیاتِ طیبہ اور حیاتِ حسنہ سے بیان فرمایا ہے۔

ان ربانی تعلیمات کا ایک اہم قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ان کی بنیاد‘ انسانی وحدت و مساوات کے نظریے پرہے۔ تمام انسان پیدایشی طور پر مساوی اور برابری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان انسانیت کے لحاظ سے جن حقوق کا مستحق ہوتاہے ہر دوسرا انسان بھی برابری کے ساتھ ان حقوق کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ ان بنیادی حقوق میں سے پہلا حق تحفظ کے ساتھ اپنی طبیعی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ دوسرا حق اپنے ذتی امور آزاد مرضی سے خود طے کرنا‘تیسراذاتی ملکیت کا حق‘ چوتھا قانونی مساوات کا حق ہے۔

اسلامی تعلیمات میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قدرتی وسائل دولت اور ملکی ذرائع آمدنی پر معاشرے کے چند لوگوں کی اجارہ داری اور بالادستی قائم نہ ہونے پائے کہ دوسرے لوگ محرومی کا شکار ہوجائیں۔ اسی طرح ملکی اور قومی دولت کی گردش کا دائرہ چند بڑے لوگوں کے درمیان نہ رہے بلکہ وہ معاشرے کے تمام افراد تک وسیع اور پھیلا ہوا ہو‘ سب آزادی اور عزتِ نفس کے ساتھ اس سے مستفید ہوسکیں‘ بصورت دیگر پورا معاشرہ بدامنی و بے چینی اور بربادی کا شکار ہوکر رہتا ہے۔ معاشی عدمِ توازن ضرور باہمی نزاع و تصادم کا سبب بنتا ہے۔

ان حالات میں‘ پاکستان میں زرعی اصلاحات کے نفاذ کو اولین ترجیح دینا چاہیے۔ اس حوالے سے کچھ نکات غور کے لیے پیش ہیں۔

زرعی اصلاحات کے نفاذ کے لیے حکمت عملی

زرعی اصلاحات اور نفاذ کے لیے مندرجہ ذیل حکمت عملی کو بروے کار لاکر مؤثر طریقے سے ان اصلاحات کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔

۱-            زرعی و اقتصادی ماہرین‘ دانش ور‘ علماے کرام اور ترقی پسند زمین داروں و کاشت کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ سیمی نار‘ مباحثے اور میڈیا کے ذریعے زرعی اصلاحات کی افادیت کو واضح کیا جائے‘ اور فوری طور پر زرعی اصلاحات ایکٹ ۱۹۷۷ء نافذ کیا جائے۔

۲-            ایک مستقل زرعی اصلاحات کمیشن قائم کیا جائے تاکہ زرعی اصلاحات کے نفاذ کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے ‘اور ان کو مزید مؤثر بنانے کے لیے نہ صرف اقدامات تجویز کیے جائیں بلکہ ان اقدامات کے نتائج کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے اور اس سلسلے میں مشکلات کو دُور کیا جائے۔

۳-            شرعی وراثت کے احکامات پر عمل کیاجائے اور انھیں مؤثر بہ ماضی (retrospective) قرار دیا جائے۔ خاص طور پر خواتین کے حقوق وراثت بہت زیادہ رواجی طور پر تلف قرار پائے جاتے ہیں۔ ان حق داروں کو ان کا حق دلایا جائے۔ اس کے لیے علیحدہ سے عدالتی ٹریبونل قائم کیا جائے تاکہ ان کے مقدمات کا تصفیہ جلد اور باقاعدگی سے عمل میں آسکے۔

۴-            زرعی گریجوایٹس میں فاضل سرکاری زرعی زمین تقسیم کی جائے تاکہ زراعت میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔

۵-            مزارعت کا نظام: اسلامی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک عبوری دور کے لیے بٹائی سسٹم پر پابندی لگا دے اور کاشت کار مقررہ اُجرت پر زمین دار کے پاس کام کریں اور اُجرت کا تعین حکومت خود کرے۔ بصورت دیگر حکومت زیرکاشت زمین کا پیداواری یونٹ کے لحاظ سے مالیانہ (لگان) متعین کر دے جسے کاشت کار نقد کی صورت میں زمین دار کو ادا کرے۔ اس طرح کاشت کار یکسوئی اور پوری توجہ سے زمین کی پیداوار بڑھانے پر اپنی محنت صرف کر سکے گا اور زمین دار کی بے جا مداخلت سے محفوظ رہے گا۔

۶-            زرعی پیداوار پر عشر یا نصف عشر کی تحصیل وصول اور تقسیم کاباقاعدہ نظام قائم کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے عشر سے متعلق مسائل کو تفصیل سے مرتب کر دیا ہے۔ ان پر عمل درآمد صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عشر کے فنڈ سے ہم دیہی علاقوں میں غریب بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیمی وظائف اور ترغیبات کا اہتمام کرسکتے ہیں اور ان کے بگڑے ہوئے احوال کی کچھ اصلاح کرسکتے ہیں۔

۷-            جبری مشقت اور نجی قیدخانوں سے نجات کے لیے بانڈڈ لیبر ایکٹ ۱۹۹۲ء پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور کسی مزدور یا ہاری کو ماہانہ تنخواہ سے زاید بطور ایڈوانس زاید رقم اور قرض خلافِ قانون قرار دیا جائے۔ پرانے قرض داروں کے قرض رائٹ آف قرار دیے جائیں اور انھیں قید سے آزاد قرار دیاجائے۔

۸-            زمین داروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی تمام زمینیں زیرکاشت لائیں۔ اگرکوئی زمین دار بغیر کسی مثبت عذر کے مسلسل تین سال تک زمینوں کو بغیر کاشت کے پڑا رہنے دے توحکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان زمینوں کو واپس لے کر مستحق کاشت کاروں میں تقسیم کردے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی تمام غیر آباد زرعی زمینوں کو مستحق افراد میں تقسیم کرے اور کوئی زمین غیرآباد پڑی نہ رہنے دے۔

بالآخر سوڈان پر مسلط کردہ ۲۲ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۲۰۰۵ء کو کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول‘ متعدد افریقی سربراہوں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں سوڈانی حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے بعد اب جنوبی لیڈر جون گرنگ‘ صدر عمر حسن البشیر کے ساتھ سینئر نائب صدر مملکت کے طور پر کام کریں گے۔ نائب صدر دوم شمالی سوڈان سے لیا جائے گا۔ تمام وزارتیں ایک مخصوص تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ حکومتی پارٹی اور گرنگ کی پیپلز موومنٹ کے علاوہ کچھ وزارتیں دیگر پارٹیوں کے لیے بھی مخصوص کی جائیں گی اور ایک نیم قومی حکومت چھے سال کا عبوری دور شروع کرے گی۔ اس عبوری دور کے لیے ایک عبوری دستور‘ تاریخ معاہدہ کے چھے ہفتے کے اندر اندر منظور ہوگا‘ جس کے تحت سینئرنائب صدر کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ملک کے تمام وسائل شمال و جنوب میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہوں گے اور چھے سال کے بعد انتخابات کے ذریعے اہلِ جنوب کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک الگ ریاست کے طور پر۔

جنوبی حصہ‘ سوڈان کے کل رقبے ۲۵ لاکھ ۵ ہزار ۸ سو ۱۰ مربع کلومیٹر کا تقریباً ۲۸ فی صد‘ یعنی ۷ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا زیادہ تر (۶۳ فی صد) حصہ گھنے جنگلات یا چراگاہوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ ۳۰ فی صد علاقہ زرخیز زرعی اراضی پر۔ جنوبی آبادی‘ سوڈان کی کل آبادی (۳ کروڑ ۳۶ لاکھ) کا صرف ۱۰ فی صد ہے‘ جن کی زبان ۱۲ مختلف لہجوں پر مبنی ہے‘ جب کہ افریقی اور عربی زبان کا ایک مخلوط لہجہ پوری آبادی کی مشترکہ زبان ہے۔ اگرچہ مشہور یہی کیا جاتا ہے کہ جنوب میں عیسائی اکثریت ہے اور عیسائی علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے لیکن وہاں عیسائیوں کا تناسب صرف ۱۷ فی صد ہے‘ مسلمان آبادی کا تناسب ۱۸ فی صد ہے‘ جب کہ ۶۵ فی صد آبادی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ مختلف بتوں اور ارواح پر یقین رکھتی ہے۔

اگرچہ جنوبی قبائل کی شمالی سوڈان سے بغاوت و لڑائی ۱۹۶۲ء سے شروع ہے جو ۱۹۷۲ء میں صدر جعفر نمیری کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ۱۱سال تک بند رہی۔ اس وقت بغاوت کی قیادت ’’انیانیا‘‘ کررہا تھا لیکن ۱۹۸۳ء میں جب جعفر نمیری نے نفاذ شریعت اسلامی کا اعلان کیا تو نئے باغی لیڈر جون گرنگ نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا جو ۹جنوری کے معاہدے سے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی کے بیج سوڈان پر برطانوی استعمار کے وقت سے ہی بو دیے گئے تھے اور اس کے لیے برطانوی حکمرانوں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی۔

حالیہ مصر اور سوڈان کی سرزمین خلافتِ عثمانیہ ہی کا حصہ تھی مگر ۱۸۸۱ء میں اس نے بغاوت کردی۔ ۱۸۹۹ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کا مشترکہ انتظام سنبھالا اور سوڈان میں عملاً انگریزی اقتدار قائم ہوگیا۔ تب ہی سے انگریز نے جنوبی سوڈان سے شمالی سوڈان کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت جنوب میں مصری افواج‘ مصر اور شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اور تاجروں کی ایک معتدبہ تعداد تھی۔

برطانوی راج نے پوری منصوبہ بندی سے آہستہ آہستہ ان تینوں عناصر کو جنوب سے نکالنا شروع کر دیا۔ عربی زبان کے بجاے مقامی زبانوں کو فروغ دینا شروع کر دیا‘ عیسائی مشنریوں کے اسکول کھول دیے اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کو اتوار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد ۱۹۱۰ء میں شروع ہوا اور ۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنوب سے شمالی سوڈان کی افواج کا آخری سپاہی بھی نکل گیا‘ جس کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہفتہ وارچھٹی جمعہ سے اتوار میں بدل دی گئی (پاکستان میں جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے مسئلے کو استہزا و خفت پن کا شکار کرنے والے متوجہ ہوں)۔

وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی راج نے جنوب و شمال کی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ ۱۹۱۹ء میں لارڈ ملنر کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد متعدد سفارشات و دستاویزات پیش کیں۔ جنوبی سوڈان کے حوالے سے تین دستاویزات بہت اہم تھیں۔ ان میں سے ۱۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کمیٹی صراحت کے ساتھ سفارش کرتی ہے:’’حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو حتی المقدور اسلامی اثرات سے دور رکھا جائے۔ اس علاقے میں سرکاری ملازمین غیرمسلم سیاہ فام ہوں اور اگر ملازمین باہر سے منگوانا ضروری ہو تو مصر کے قبطی مسیحی لائے جائیں۔ جمعہ کے بجاے اتوار کی چھٹی لازمی کر دی گئی ہے اور عیسائی مشنریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘‘۔

عربی زبان کو جنوب سے بے دخل کرنے کے لیے یہ حجت گھڑی گئی کہ: ’’یہاں متعدد زبانیں رائج ہیں۔ اس لیے اہلِ جنوب کو کسی مشترکہ مقامی زبان کی تعلیم دینی چاہیے اور جب تک یہ مقامی زبان باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہوجاتی‘ انگریزی کو مشترک زبان کے طور پر رائج کیا جاتا ہے‘‘۔ عربی زبان کے بارے میں برطانوی سول سیکریٹری میک مائیکل نے بلاجھجک و تردد کہا کہ: ’’جنوب میں عربی زبان کوبدستور قبول کیے رکھنے سے یہاں اسلام پھیلے گا اور ’’متعصب شمالی سوڈان‘‘ (یعنی مسلمان آبادی)کو اتنا ہی مزید رقبہ مل جائے گا جتنا اب اس کے پاس ہے‘‘۔

اس پورے پس منظر اور حالیہ طویل خانہ جنگی کے بعد اب یہ معاہدہ طے پایا ہے تو پورے سوڈان نے سکھ کا سانس لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشات بھی بہت سنگین ہیں کہ کیا یہ معاہدہ حقیقی صلح اور سوڈان کی تعمیروترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا؟ معاہدے پر دستخط سے پہلے طرفین کے درمیان تقریباً تین سال مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس پورے عرصے اور پورے عمل میں امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک مکمل شریک رہے ہیں۔ امریکا کی حالیہ سوڈانی حکومت سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جنوبی باغیوں کی مدد میں وہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں‘ تو کیا اب واقعی سوڈان اور اس کے نظام کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا اس ماہیت قلبی کا سبب یہ خدشہ بنا ہے کہ سوڈان میں دریافت ہونے والا تیل اب چین کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘ اور اس کا راستہ روکنا ضروری ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیرکا انقلاب آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا گیا‘ لیکن سوڈانی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب مذاکرات و افہام و تفہیم سے اختلافات پاٹنے اور ’’زہر‘‘ کم کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر اندر جاکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جائے؟

حقیقت جو بھی ہو‘ خدشات و امکانات کا ایک وسیع باب کھل گیا ہے۔ یورپ و امریکا سمیت اگر طرفین نے باہم اعتماد کو فروغ دیا تو سوڈان کا استحکام‘ وہاں کی زرخیز سرزمین اور وافر تیل پورے خطے کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ لیکن ۲۴ جنوری کا جون گرنگ کا یہ بیان تشویش ناک ہے کہ ’’عبوری دور میں اقوام متحدہ کی طرف سے ۱۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرتے ہوئے چین‘ ملایشیا اور پاکستان کی افواج کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ کیونکہ اول الذکر دونوں ممالک کا مفاد سوڈان کے تیل سے وابستہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کینیا سمیت کئی ممالک سوڈان فوجیں بھجوانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔

ان خدشات کے حوالے سے راقم کو سوڈانی صدر سمیت متعدد ذمہ داران سے گفت و شنید کا موقع ملا تو انھوں نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا کہ: ’’جنگ بند کروانے میں کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے‘ اور جہاں تک خدشات کا تعلق ہے توگذشتہ ۱۵ سال میں سوڈان میں جو نظام تشکیل دیا جا چکا ہے وہ کسی کے اندر آبیٹھنے یا باہر چلے جانے سے متاثر نہیں ہوگا۔

ایک اور اہم پہلو جس کے بارے میں سوڈان کے ہر خیرخواہ کو تشویش ہے وہ سوڈانی حکمران پارٹی کے باہمی اختلافات ہیں جن کے نتیجے میں ایک پارٹی دو پارٹیاں بن گئیں اور ڈاکٹر حسن ترابی کو پس دیوار زندان بھیج دیا گیا۔ باہم لڑائی کبھی بھی کسی ایک فریق کی تقویت کا باعث نہیں بنتی۔ اس مرحلے پر اگر خطرات حقیقی ہیں تو سب یکجا ہو کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اور اگر مصالحت حقیقی ہے تو دوسروں سے پہلے (یا ان کے بعد ہی سہی) اپنوں سے مصالحت کیوں نہیں؟

پچھلے دو تین ماہ ذرائع ابلاغ میں یوکرائن کا بڑا چرچا رہا۔ وجہ؟ وہاں دنیا کی دو بڑی طاقتیں‘امریکہ اورروس شطرنج کھیلنے میں مصروف ہیں جس میں فی الحال روس کو شکست ہوئی ہے۔ کیونکہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کے صدارتی انتخاب میں روس نواز سابق وزیراعظم وکٹر یانو کووچ شکست کھا گئے‘ ان کے حریف اور مغرب نواز وکٹر یوشینکو کو کامیابی ملی۔

یہ صدارتی انتخاب ۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو بھی ہوا تھا جس میں یانو کووچ کامیاب ہوا مگر  حزبِ اختلاف نے دھاندلی کا شور مچا دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دیا۔ انتخاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کسی روسی صدر نے ۲۸ برس بعد امریکا کو دھمکی دی کہ وہ اس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔

یوکرائن پر کئی وجوہ سے عالمی طاقتیں توجہ دے رہی ہیں۔ وہاں مینگنیز‘ کچ لوہے‘ کوئلے‘ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ پھر وہ روس جیسی طاقت کی پڑوسی ہے۔ اگر یہاں امریکی اثرورسوخ بڑھ جائے‘ تو وہ روسی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے جو اسٹرے ٹیجک اعتبار سے دنیا کا اہم سمندر ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا اور آبادی میں چھٹا بڑا یورپی ملک ہے۔ یہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے مگر مسلمان بھی خاصی تعداد میں ہیں‘ بلکہ یہ اس ضمن میں یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔

  • تاریخی پس منظر: یوکرائن میں اس وقت تقریباً ۲۰ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کل آبادی (۴ کروڑ ۸۰ لاکھ) کا ۴ فی صد بنتے ہیں۔ ان میں اکثریت تاتاری مسلمانوں کی ہے جو جزیرہ نما کریمیا (یاقریم) میں بستے ہیں۔ یہ ایک زمانے میں کریمیا کے حاکم تھے۔ چودھویں صدی میں جب تیمورلنگ نے اردوے زیریں (Golden Horde) کی اینٹ سے اینٹ بجائی‘ تو تاتاری مسلم سرداروںنے کریمیا میں اپنی حکومت قائم کرلی‘ تاہم ۱۴۷۵ء کے بعد وہ سلطنت عثمانیہ کے باج گزار بن گئے۔ اٹھارھویں صدی میں جب روس کریمیا پر حملہ آور ہوا تو یہ ثقافتی‘ تہذیبی اور دینی لحاظ سے مسلم علاقہ تھا۔ ۱۷۸۳ء میں اس پر قبضے کے بعد روسی‘ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگے۔ نتیجتاً انیسویں صدی کے وسط تک پونے دو لاکھ مسلمان کریمیا سے ہجرت کرگئے۔ ان کی جگہ روسیوں کو بسایا گیا تاکہ علاقے کو ’’روسیایا‘‘جاسکے۔ ۱۹۱۷ء تک کریمیا میں مسلمانوں کی آبادی صرف ایک تہائی رہ گئی۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران بچے کھچے مسلمانوں کو شیطان نما آمر‘ اسٹالن کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اس نے ان پر جرمنوں کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا۔ یوں کریمیائی مسلمانوں کی تاریخ کے سب سے الم ناک باب کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۴ء تک اسٹالن نے ۲ لاکھ مسلمانوں کو زبردستی دوسرے علاقوں کی طرف بھجوا دیا۔ بہت سے مسلمان بھوک‘ پیاس اور ہجرت کی سختیوں کے باعث راہ میں شہید ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء میں روسی حکومت نے تاتاری مسلمانوں کے خلاف الزام واپس لے لیے مگر کریمیا میں ان کی آباد کاری اور انھیں معاوضہ دینے کے سلسلے میں وعدہ پورا نہ کیا۔

۹۰ کے عشرے میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے نابود ہوا‘ تو کریمیا یوکرائن کا حصہ بن گیا‘ تاہم وہ خاصی حد تک خودمختار علاقہ ہے۔ یوکرائنی حکومت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے کیونکہ یوکرائن کے باشندے بھی تقریباً ایک صدی تک روسیوں کے جبر کا شکار رہے۔ آزادی کے بعد سے ڈھائی لاکھ کریمیائی مسلمان دوبارہ کریمیا میں بس چکے ہیں۔ گو انھیں کئی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں۔ پھر ان کے مقامی روسیوں سے تعلقات خوش گوار نہیں جن کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور وہ اُسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔

  • مسلمانوں کی حالت : اس وقت یوکرائنی مسلمانوں کی تین بڑی تنظیمیں ہیں۔ ان کی ۴۶۷ آبادیاں (communities) ہیں۔ سات اسلامی تعلیمی اداروں میں ۳۰۰ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ اتوار کے دن لگنے والے مدارس کی تعداد ۹۰ہے۔ ملک بھر میں پانچ اسلامی رسائل نکلتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور مدرسوں سے ۴۳۳ علما وابستہ ہیں جن میں سے ۲۰ غیرملکی ہیں۔ یوکرائن میں مساجد کی تعداد ۱۴۰ ہے۔ ان میں سے ۵۴ مساجد ۱۹۹۲ء تا ۲۰۰۳ء کے عرصے میں تعمیر ہوئیں۔ مزید ۲۳ مساجد زیرتعمیر ہیں۔

یوکرائن میں تاتاری مسلمانوں کے علاوہ کوہ قاف‘ وسطی ایشیا کے ممالک‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان‘ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد بستی ہے اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ مسلم ممالک کے طلبہ یوکرائن میں تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں۔ خصوصاً جب سے ’’واقعہ نوگیارہ‘‘ کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندیاں لگا دی ہیں۔

ایس ڈی ایم سی (The Spiritual Direction of the Muslims of Crimea) یوکرائنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی بنیاد پڑی اور سرکاری طور پر منظورشدہ ۷۰ فی صد مسلم آبادیاں اسی سے وابستہ ہیں۔ تنظیم کے اپنے اسکول اور اخبار ہدایت ہے جو تاتاری زبان میں نکلتا ہے۔ دوسری بڑی تنظیم ایس ڈی ایم یو (The Spiritual Direction of the Muslims of Ukraine) کی بنیاد ۱۹۹۲ء میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر مسلمانوں کو متحد کرنا ہے۔ یوکرائن کے دس صوبوں میں اس کے دفاتر ہیں۔ دارالحکومت کیف میں اسلامی مرکز چلاتی اور روسی زبان میں اخبار منار نکالتی ہے۔

ایس سی ایم یو کی بنیاد ۱۹۹۴ء میں پڑی۔ اس تنظیم میں تاتاری مسلمانوں کی اکثریت ہے جو اپنے دین سے بڑی قربت رکھتے ہیں۔ اس کا صدر دفتر ڈونٹسک شہر میں ہے جہاں ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۷ء میں جذبۂ ایمانی سے سرشار تنظیم کے رہنمائوں نے یوکرائنی مسلمانوں کی سیاسی جماعت‘ مسلم پارٹی کی بنیاد رکھی۔

یوکرائن ان گنے چنے مغربی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں کو خاصی آزادی حاصل ہے‘ عبادت کرنے اور اپنی رسوم بجا لانے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ یوکرائن آزاد ہوا‘ تو خصوصاً یوکرائنی مسلمانوں میں نئے جوش و ولولے نے جنم لیا۔ اب وہ نئے سرے سے اپنے دین سے روشناس ہو رہے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی روح سے شناسا ہوسکیں۔ وہاں اشاعت اسلام کا عمل بھی جاری ہے اور ہر سال کئی یوکرائنی اور روسی عیسائی مسلمان ہو رہے ہیں۔

’’واقعہ نوگیارہ‘‘ نے یوکرائن میں الٹا اثر کیا‘ یعنی مقامی باشندے اسلام میں دل چسپی لینے لگے۔ یوکرائنی نئی نسل میں اسلامی کتب کی مانگ بڑھ گئی۔ مقامی لوگ اور مسلمانوں میں اتحاد کی دو بڑی وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ یوکرائن میں رہتے ہوئے ہی ترقی اور خوش حالی کی منازل طے کریں۔ دوسری یہ کہ دونوں یہودیوں کے مخالف ہیں جو ان کے خیال میں انسانیت کے لیے ناسور ہیں۔ اس وقت تاتاری مسلمانوں کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ مسلم معاشرہ دوبارہ تشکیل دیا جائے جس کا اسٹالن نے صفایا کردیا‘ یعنی جو تاتاری کریمیا  واپس آرہے ہیں‘ انھیں گھر‘تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملیں‘ وہ اپنے دین‘ زبان‘ تہذیب و تمدن وغیرہ سے واقف اور اپنے وطن میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔

  • اسلامی یونی ورسٹی:فی الوقت یوکرائنی مسلمانوں کی کوشش ہے کہ ان کی صفوں میں اتحاد پیدا ہو اور وہ اپنے دین سے قریب ہوں جو ان کی بقا کا ضامن ہے۔ اسی تمنا کے زیراثر ۱۹۹۳ء میں کیف میں اسلامی یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ وہاں دینی اور دنیاوی نصاب کا بہترین امتزاج طلبہ کو بہترین تعلیم دینے کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہاں یوکرائنوں کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں کے طلبہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ گریجویشن تک تعلیم دی جاتی ہے۔

کریمیا میں اس وقت مسلمان بڑی آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہاں کے شہروں میں گھومتے پھرتے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک عیسائی مملکت کا حصہ ہے‘ خصوصاً جب شہر کی مساجد کے لائوڈاسپیکروں سے اذان بلند ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ایک دن یوکرائنی مسلمان مؤثر قوت بن کر ملکی معاملات میں فعال کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کریمیا کا رقبہ ۲۵ ہزار ۹ سو ۹۳ مربع کلومیٹر اور آبادی ۳۰ لاکھ ہے۔

غیروارث قربت داروں میں تقسیم میراث

سوال : ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کچھ زمینیں تھیں اور عرصہ ۴۰ سال سے اس پر قبضہ تھا۔ ہمارے والد صاحب یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ہم کل چار بہن بھائی تھے‘ دو بہنیں اور دو بھائی۔ ہم لوگ کراچی میں رہایش پذیر تھے۔ زمین بہاولپور میں ہے اور مقدمے کے لیے پہلے لاہور‘ بعدازاں اسلام آباد جانا پڑتا تھا۔ مقدمہ کا فیصلہ ہونے سے ایک سال پہلے ہمارے والد صاحب اور بڑے بھائی صاحب مقدمے کی پیشی سے واپس کراچی آرہے تھے کہ راستے میں حادثہ ہوگیا اور دونوں باپ بیٹا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد چھوٹے بھائی نے مقدمہ لڑا۔ بالآخر ایک سال بعد ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا‘ یوں ہم زمین لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے بھائی صاحب جو کہ والد صاحب کے ساتھ ہی وفات پاگئے تھے ان کی بیوی‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ دادا کی وراثت میں پوتوں کا کوئی حق نہیں ہوتا‘ اگر صلبی اولاد حیات ہو۔ اب ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں‘ جب کہ دوسرے بھائی کے بچے ہیں۔ آیا دادا کی وراثت میں ان کا کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ ہم لوگ اس بارے میں بہت متفکر ہیں۔ اس دنیا میں کسی حق دار کو اس کا حصہ دینا بہت آسان ہے مگر اگلے جہاں میں بہت مشکل ہے۔ براہ مہربانی آپ قرآن و حدیث کے حوالے سے اس مسئلے کا حل پیش کریں۔

جواب: آپ کے والد صاحب اور بڑے بھائی کا حادثے میں شہید ہونے کا بڑا صدمہ ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر اور اجر سے نوازے۔ آمین!

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب بڑے بھائی والد صاحب کے ساتھ ہی فوت ہوگئے ہیں توا ن کے بیٹوں اور بیٹی اور بیوہ کو ترکے کا ۳؍۱ حصہ قانونِ وصیت کے تحت دینا چاہیے۔ یہ صلہ رحمی کا بھی تقاضا ہے جس کی قرآن و حدیث میں بڑی تاکید کی گئی ہے‘ نیز قرآن و حدیث نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے قرابت داروں کے لیے جن کا وراثت میں حصہ نہیں ہے‘ وصیت کریں (البقرہ ۲:۱۸۰)۔ یہ وصیت پہلے وارث اور غیروارث سب کے لیے فرض تھی لیکن آیت میراث کے نزول کے بعد وارثوں کے لیے وصیت کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ غیروارث قرابت داروں کے لیے جو وصیت فرض تھی‘ وہ اس کے بعد بھی باقی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ غیروارث قرابت داروں کو میراث میں سے بذریعہ وصیت حصہ دلانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ آدمی وصیت کرنے سے عاجز ہوتا ہے‘ جیسے آپ کے والد صاحب کو حادثہ پیش آیا اور بڑے بھائی ان کے ساتھ ہی شہید ہوگئے۔ ایسی صورت میں بڑے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوی کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی تھی۔ جب اس طرح کی صورت حال پیش آجائے تو وارثوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی جسے ان کے فوت ہوجانے والے سرپرست نے پورا کرنا تھا‘ اسے وہ پورا کریں کہ مقصد تو اللہ کی مرضی کو پورا کرنا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائیں گے‘ شہید ہوجانے والے بھائی کی روح بھی خوش ہوجائے گی اور بھتیجے اور بھتیجی اور مرحوم بھائی کی بیوہ بھی راضی ہو جائیں گے۔

غیروارث قرابت داروں کے لیے شریعت کی اس ہدایت پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ بعض نے تو فوت ہونے والے پر غیروارث کے لیے وصیت کو فرض قرار دیا ہے اوراگر فوت ہونے والا کسی وجہ سے اس فرض کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے تو انھوں نے ورثا پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے اس فرض کو باہمی مشورے و رضامندی سے عملی جامہ پہنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی طرف سے یہ فرض کی ادایگی شمار ہوگی۔ ابن جریر طبری‘ ابن حزم ظاہری‘ دائود طاہر‘ اسحاق بن راہویہ اور امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ آیت الوصیۃ (البقرہ۲:۱۸۰) وارثوں کے حق میں تو منسوخ ہے لیکن غیروارث اقارب کے لیے منسوخ نہیں ہے‘ بلکہ ان کے لیے وصیت حسب سابق فرض ہے۔ آیت المیراث اور حدیث لاوصیۃ لوارث (وارث کے لیے وصیت نہیں) کے ذریعے میراث کے مستحق والدین اور قرابت داروں کو آیت وصیت سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے‘ لیکن غیروارث اقربا کے استثنا کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ابن جریر طبری آیت الوصیۃ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی سوال کرے کہ کیا صاحبِ مال شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے ان والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کرے جو اس کی میراث نہیں لے سکتے‘ غیرمسلم ہیں یا دوسرے ورثا کی وجہ سے محروم ہیں‘(جیسے پوتے بیٹوں کی موجودگی میں) تو جواب میں کہا جائے گا کہ ہاں فرض ہے۔ پھر اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب اس نے کوتاہی یا تفریط کی وجہ سے وصیت نہ کی ہو تو کیا وہ فرض ضائع کرنے پر گنہگار ہوگا۔ جواب دیا جائے گا: ہاں!گنہگار ہوگا۔ اس کے بعد اگر کہا جائے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ تو کہا جائے گا کہ دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ ’’فرض کر دی گئی تم پر جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے وصیت کرنا والدین اور قرابت داروں کے لیے‘‘۔ پس جان لو کہ یہ وصیت ہم پر اس طرح فرض کی گئی ہے ‘ جس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ باوجود قدرت کے روزے نہ رکھنے والا شخص اللہ کے فرض کو ضائع کرنے والا ہے اور گنہگار ہے۔ اس طرح صاحبِ مال شخص والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت ترک کرنے پر گنہگار ہوگا۔ ابن جریر طبری نے عبداللہ بن عباس‘ حسن بصری‘ جابر بن زید‘ طائوس‘ قتادہ‘ ضحاک‘ مسروق‘ عبدالملک بن یعلی‘ ربیع‘ مسلم بن یسار‘ علا بن زیاد اور یاس بن معاویہ جیسے اسلاف کے اقوال اس حوالے سے بطور دلیل نقل کیے ہیں‘‘۔ (جامع البیان لتاویل القرآن‘طبع بیروت ۱۹۸۸ئ‘ ص ۱۱۵‘ ۱۱۶‘ ج ۲ بحوالہ تفہیم المسائل‘ ج ۵‘ ص ۴۸۹ تا ۴۹۸)

مفسر عصرِحاضر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’’بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہوکر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے‘ جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے (غیر وارثوں کے لیے)۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں گے جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں‘ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ‘ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کیا چاہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ یتیم پوتے اور دوسرے قرابت داروں کے لیے وصیت کی جائے اور انھیں بھی حصہ دیا جائے۔ فوت ہونے والے کے لیے یہ حکم تھا‘ اگر وہ اس کی تعمیل اس لیے نہ کر سکا کہ اسے اس کا موقع نہ مل سکا‘ تب اس کی تعمیل ورثا کو کرنا چاہیے۔ اس لیے دو بہنوں‘ ایک بھائی کو چاہیے کہ وہ فوت ہونے والے بھائی کے دو بیٹوں ایک بیٹی اور بیوہ کو ۳؍۱ جو غیروارث کے لیے بطور وصیت رکھا گیا ہے‘ دے دیں اور ۳؍۲ آپس میں تقسیم کرلیں۔ کل جایداد کو چھے حصوں میں تقسیم کر کے دوحصے‘ یعنی کل جایداد کا ۳؍۱شہید ہونے والے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوہ کو ان کے حصصِ وراثت کے مطابق دے دیں اور بقیہ چار حصے اس طرح تقسیم کریں کہ دو حصے بھائی کو اور ایک ایک حصہ بہنوں کو مل جائے۔(مولانا عبدالمالک)


جمہوریت کی اصطلاح کی شرعی حیثیت

س : آج کل دنیا میں پرامن تبدیلی اور آمریت کے مقابلے میں جمہوریت اور جمہوری نظام کا چرچا ہے۔ اسے تمام مسائل کا حل تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کے حوالے سے واضح فرما دیں کہ جمہوریت کی اصطلاح کا مفہوم کیا ہے اور کیا اس کا وجود قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے؟

ج: اس اہم سوال کا براہ راست جواب دینے سے قبل مناسب ہوگا کہ اس بات پر غور کرلیا جائے کہ گو ہم قرآن کریم اور سنت رسولؐ یا حدیث کے بارے میں یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہی ہمارے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں‘ لیکن کیا ہدایت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکنہ موضوع پر تفصیلات بھی فراہم کرے‘ یا ہدایت کا اصل مقصد بنیادی اصول اور بعض ایسی منتخب عملی مثالیں فراہم کرنا ہوتا ہے جو مختلف حالات میں رہنمائی فراہم کریں۔

قرآن و سنت بلاشبہہ قیامت تک کے لیے واحد جامع ہدایات ہیں لیکن ان میں دنیا کے ہر موضوع پر ایک مفصل باب تلاش کرنا یا ہر علمی اور فنی اصطلاح کا پایا جانا ایک غیر ضروری خواہش ہے۔ اس سب کے باوجود وہ جمہوریت ہو یا طب‘ فلکیات ہو یا بحریات‘ علمِ الارض ہو یا علمِ موسمیات‘ فلسفہ ہو یا ادب یا دیگر علوم و فنون‘ ان سب کے لیے اخلاقی اصول اور بنیادیں قرآن و سنت میں پائی جاتی ہیں جس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ قرآن طب یا کیمیا یا فلکیات کی کتاب ہے۔

جہاں تک سوال جمہوریت کا ہے ‘ اس اصطلاح سے عموماً ہم وہ سیاسی نظام مراد لیتے ہیں جس کی فکری بنیادیں یورپی فکر میں افلاطون کی کتاب ’’جمہوریت‘‘ سے جاکر ملتی ہیں‘ یاوہ نظام مراد لیتے ہیں جس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ امریکا یا بعض یورپی ممالک کرتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکا یا یورپی ممالک جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مغربی جمہوریت کی بنیاد لادینیت (secularism) پرہے۔ لیکن مغربی جمہوریت میں آزادیِ راے‘ اختلاف کا حق‘ اکثریت کی رائے کا احترام‘ آزادانہ انتخاب کے ذریعے ذمہ دارانِ ریاست کا انتخاب وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جنھیں روحِ جمہوریت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ لادینیت اس کا جسم کہا جا سکتا ہے۔

اسلام نے سیاست اور حکومت کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول دیے ہیں ان میں روحِ جمہوریت اپنی اعلیٰ ترین شکل میں پائی جاتی ہے اور اس نظام کے خدوخال اور  جسم بجاے لادینیت کے قیامِ دین پر مبنی ہے۔ گویا قرآن و سنت نے ایک جمہوری‘ عادلانہ اور دینی معاشرہ و ریاست کے قیام کے لیے ہمیں واضح اصول دیے ہیں جو مغربی جمہوریت سے بلندو برتر ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو قرآن کریم نے بنیادی سوال یہ اٹھایا ہے کہ انسان اس دنیا میں شترِبے مہار ہے یا وہ اپنے خالق اور مالک کے نمایندے کی حیثیت رکھتا ہے؟ چنانچہ سورہ بقرہ میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ انسان کا اصل مقام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے (البقرہ ۲:۳۱)۔ اس خلیفہ کا انتخاب یا تقرر کس طرح ہوگا‘اس کے لیے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر ہدایات دی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ مشاورت کر کے ایسے فرد کا انتخاب کیا جائے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اہلِ ایمان کے تمام معاملات مشاورت سے طے ہوتے ہیں (الشوریٰ ۴۲:۳۸)۔ پھر اسی بات کو یوں بیان کیا گیا کہ اپنے امور میںمشورہ کرو اور جب کسی فیصلے پر پہنچ جائو تو پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دو (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)۔ ظاہر ہے انتخابِ ذمہ داران سے بڑھ کر اور اہم معاملہ کیا ہو سکتا ہے‘ اس لیے اس کی بنیاد عوامی شوریٰ ہی ہوگی اور مشورے کے بعدلوگ جسے منتخب کریں وہی ذمہ داری پر مقرر کیا جائے گا۔ تاریخ سے اس کی مثال حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا انتخاب ہے جس میں شوریٰ کی بنیاد پر ان حضرات کو منتخب کیا گیا۔

اسلام کے سیاسی اورمعاشرتی نظام میں ذمہ داریاں کن حضرات کو دی جائیں گی‘ سربراہِ مملکت ہو یا دیگر شعبوں کے سربراہ ہوں وہ کس بنیاد پر منتخب کیے جائیں گے‘ اس کی بھی قرآن و سنت میں ہدایت دی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ذمہ داریاں صرف ایسے افراد کو دی جائیں جو اس کے اہل ہوں (اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا - النساء ۴:۵۸)۔ اس اہلیت کو بھی دیگر مقامات پر سمجھا دیا گیا کہ اس سے مراد کیا ہے‘ یعنی وہ افراد جو دیانت دار ہوں‘ امین ہوں‘ علمی اور جسمانی لحاظ سے قوی ہوں‘ فیصلے کی قوت رکھتے ہوں‘ جن پر لوگوں کو اعتماد ہو‘ جو خود منصب کے پیچھے نہ بھاگ رہے ہوں وغیرہ۔

ان ہدایات کو سامنے رکھیں تو جس چیز کو جمہوریت کہا جاتا ہے اسلام کا دیا ہوا نظام اس سے بلند اور روحِ جمہوریت میں اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔ اس نظام میں اللہ کا رسول بھی اپنے صحابہؓ سے مشورہ کرتا ہے اور صحابہ کرامؓ پورے ادب و احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپؐ جوفیصلہ کر رہے ہیں کیا یہ وحی کی بنیاد پر ہے یا آپ کی اپنی رائے ہے؟ اگررسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی بنیاد وحی نہیں تو صحابہؓ کی تجویز پر عمل کیا جاتا ہے (غزوئہ بدر)۔ گویا آمریت‘ بادشاہت اور تنہا ایک فرد کی عقل و فیصلے کی جگہ مشاورت پر فیصلے ہوتے ہیں اور صاحبِ امر مشاورت کی پیروی کرتا ہے‘ اسے ویٹو نہیں کرتا۔ اسی کا نام روحِ جمہوریت ہے ‘ جب کہ مغربی جمہوریت بالکل مختلف بنیادوں اور اصولوں پر قائم ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

قانون قصاص و دیت ‘ میاں مسعود احمد بھٹّا۔ ناشر: آمین ادارہ اشاعت و تحقیق‘ ۳۹- لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۴۹۴۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

قانون قصاص و دیت ۲۰۰۳ء کے مولف میاں مسعود احمد بھٹّا پاکستان کے قانونی اور دینی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ فاضل ایڈووکیٹ قصاص و دیت آرڈی ننس پر ایک کتاب ۱۹۹۱ء میں بھی لکھ چکے ہیں۔ اب اسی موضوع پر ان کی دوسری کتاب ہے۔ نقش ثانی‘ نقش اول سے بہرصورت بہتر اور جامعیت کی سرحدوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قصاص و دیت کے قانون کا بنیادی مآخذ قرآن وسنت ہے۔ مصنف نے تمام مذاہب فقہ کے علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے۔ لیکن انھوں نے فقہی مکاتب فکر کے جزوی اختلافات سے بحث نہیں کی ہے۔ کیونکہ جہاں تک اسلامی قانون کے اصولوں کا تعلق ہے     ان کے بارے میں سب ائمہ فقہ متفق الراے ہیں۔ اسلام میں فطری مساوات اور توازن کا اصول زندگی کے تمام شعبوں میں کارفرما ہے۔ اس لیے جرم و سزا میں بھی اسی قانونِ مساوات کی عمل داری ہے۔

کتاب کا حصہ اول جنایات علی النفس‘ یعنی انسانی جسم پر وارد ہونے والے جرائم سے متعلق ہے۔ حصہ دوم میں ان جرائم کی تعریف اور ان کی سزائوں سے متعلق تمام دفعات ۲۹۹ تا ۳۸۸ درج ہیں۔ دفعات‘ ان کی تعریف‘ ان کی سزائیں اور اس ضمن میں قرآن وسنت اور فقہا کے حوالے سے شرعی فیصلے اور موجودہ اسلامی قانون کی رو سے عدالتی فیصلوں کے اہم نکات‘ پھر ان کی تشریحات (commentary) سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ حواشی میں حدیث‘ فقہ اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں مگر موضوعاتی اشاریہ (index)  نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مؤلف نے اہم اور مستند کتابوں کے وسیع مطالعے کے بعد نہایت محنت اور جانفشانی سے یہ کتاب مرتب کی ہے۔

مولف موصوف نے دیت کے بارے میں فقہا کے نظریات‘ حکومت اور قضا کے اختیارات کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مغربی مفکرین مارس گاڈفرے اور جوزف سکاچ کے خیالات کو بھی نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی ریسرچ محض سطحی اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ بہتر ہوتا کہ ان کے مخالفانہ نقطۂ نظر کا دلائل کے ساتھ محاکمہ کیا جاتا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجاتی۔

موجودہ قانون کی دفعہ ۲۲۳ کی رو سے مرد اور عورت کی دیت میں تفریق نہیں کی گئی۔ لیکن مولف کتاب نے ائمہ مذاہبِ اربعہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عورت کی نصف دیت کے قائل ہیں۔ لیکن تحقیقی جائزے کی روشنی میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں عورت‘ مرد کی طرح    پوری دیت کی حق دار ہے۔ چونکہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے جو قانونِ وراثت سے مختلف ہے۔ علماے ازہر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ قانون دیت و قصاص کے مرتبین کے پیشِ نظر بھی دیت کے بارے میں یہی فقہی مسلک رہا ہے۔

مولف نے اسلامی قانونِ شہادت اور خاص طور پر تزکیہ الشہود پر (جو حقائق کو دریافت کرنے کا موثر ذریعہ ہے اور قانون فوجداری جو قصاص و دیت سے متعلق ہے) سیرحاصل بحث کی ہے‘ جو لائق ستایش ہے۔

ابتدایئے میں لائق مولف نے پاکستان میں نفاذ اسلام کی مختصر تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے قانونِ اسلامی کی تنفیذ کا سارا کریڈٹ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ‘ ہائی کورٹوں‘ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کو دیا ہے۔ ان کی سعی و کاوش سے انکار نہیں۔ بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ نے اسلامائزیشن کے لیے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ ملکِ عزیز میں اسلامی قانون کی تدوین اور نفاذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کی دینی بصیرت اور عملی اقدام‘ ان کے ہم عصر اور علماے متاخرین کی شعوری کوشش‘ عوام‘ سیاسی مذہبی اور دینی جماعتوں اور اسلامی وکلا کی مساعیِ پیہم ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ قانونِ قصاص و دیت‘ سپریم کورٹ میں ہماری آئینی پٹیشن پر ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ ہجری کو نافذ العمل قرار دیا گیا جس میں موجودہ پارلیمنٹ کی منظوری سے چند ترامیم کی گئی ہیں مگر اب بھی کافی سقم اور خامیاں موجود ہیں جنھیں دُور کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔

مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک اہم علمی موضوع پر یہ کتاب قومی زبان اُردو میں اور سلیس و عام فہم انداز میں مرتب کی ہے۔ یہ کاوش مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ اس سے اراکینِ عدلیہ‘ قانون کے طلبا‘ علما اور تعلیم یافتہ حضرات براہِ راست استفادہ کرسکیں گے۔(محمد اسماعیل قریشی)


قرآنِ مجید ایک تعارف‘ ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ دعوہ اکیڈمی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ پوسٹ بکس نمبر ۱۴۸۵‘ اسلام آباد۔ صفحات:۱۲۴۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی (صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد) کی متنوع   دل چسپیاں جن علوم و فنون میں ہیں‘ ان میں قرآن حکیم بطور خاص شامل ہے۔ زیرنظر کتاب موصوف کے لیکچر ہیں جو انھوں نے دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتمام فیصل مسجد اسلام آباد کے معتکفین کو دیے۔ بعدازاں ایک صاحب نے انھیں فیتے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ کتاب میں قرآن مجید کے متعلق پانچ پہلوئوں پر عام فہم مگر مستند معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ ان میں قرآن مجید کے ناموں کی معنویت‘ اس کا موضوع‘ کیفیتِ نزول اور ترتیب و تدوین سے متعلق معلومات شامل ہیں۔

آپ نے بھرپور استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جہاں دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر قرآن پاک کی تلاوت‘ تعلیم اور تدریس کا کام نہ ہو رہا ہو۔ (ص ۱۱)

کتاب میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم سورہ القدر کی آیت ایک میں انزلنٰہ کی جگہ انزلنا اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں وننزل کی جگہ ونزل درج ہوگیا ہے۔ کتاب عوام کے لیے عام فہم اور سہل انداز میں مرتب کی گئی ہے‘ تاہم اہلِ علم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)


Jama'at-i- Islami - The Catalyst of Islamization in Pakistan‘ ] جماعت اسلامی اور پاکستان میں نفاذِ اسلام [‘ڈاکٹر پوجا جوشی۔ ناشر: کالنگا پبلی کیشنز‘ دہلی۔ صفحات: ۲۱۹۔ قیمت: ۸۹۵ روپے پاکستانی یا ۹۰ ڈالر۔

جماعت اسلامی اللہ کی زمین پر نظام عدل رائج کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سیاسی جماعت کی محدود اصطلاح اور مذہبی جماعت کا لیبل اس کی انقلابی دعوت کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ جموں و کشمیر اورسری لنکا میں جماعت آزادانہ لیکن نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ اپنی دعوت پھیلا رہی ہیں۔ تمام تر مخالفتوں اور الزامات و اتہامات کے باوجود جماعت کی دعوت و اثرات کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے‘ خصوصاً پاکستان میں اس کے اثر و نفوذ میں قابلِ ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔پارلیمنٹ میں اس کی موجودگی‘ مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

آغاز (۱۹۴۱ئ) ہی سے جماعت کو اندرونی و بیرونی مخاصمتوں کا سامنا ہے۔ نظریاتی طور پر اس کے پیغام کی تنقیص کی گئی اور سیاسی طور پر اس کے پروگرام کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ امریکا اور یورپ کی کئی جامعات میں جماعت کی نظریاتی پرداخت اور سیاسی طرزعمل پر تحقیقی مقالے لکھے لکھوائے گئے۔ مغربی یورپ اور سکنڈے نیویا کے کئی ریسرچ اسکالر جہاد افغانستان کے حوالے سے اپنا تحقیقی کام مکمل کرچکے ہیں اور اخبارات و رسائل میں وقتاً فوقتاً ایسے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن میں جماعت کے جہادی کردار یا سیاسی سرگرمیوں کو زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھی جماعت کو کہیں نہ کہیں ملوث کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے جموں و کشمیر کا بنیادی تنازع موجود ہے۔ عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک میں مختلف موضوعات پر نظریاتی بحثیں جاری رہتی ہیں۔ پاکستانی عوام دو قومی نظریے پر کامل یقین رکھتے ہیں‘ مگر دو قومی نظریہ بھارت کے بعض عناصر‘ خصوصاً حکمران طبقے کے گلے سے نیچے نہیں اُترسکا ہے۔

جماعت اسلامی کی جدوجہد اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے کردار کے حوالے سے کلیم بہادر‘ اور ولی رضا نصر وغیرہ کے بعد حال ہی میں ڈاکٹر پوجا جوشی کی زیرنظر کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان میں مذہبی حکومت کے قیام کے لیے سب سے متحرک پارٹی جماعت اسلامی ہے لیکن اس کو ناقص پالیسیوں کے سبب اسے قبولِ عام نہیں مل سکا۔ ڈاکٹر پوجا نے راجستھان یونی ورسٹی‘ جے پور سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ پاکستان میں حکومت و سیاست کے حوالے سے اُ ن کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اور آج کل وہ انڈین سول سروس میں ہیں۔

کتاب میں پاکستانی رسائل و جرائد کی مدد سے  جماعت کے اصل کردار کو سمجھنے کی کوشش  نظر آتی ہے۔ مولفہ کی یہ کوشش بھی رہی ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جائے اور خاکم بدہن‘ اس کے زوال میں جماعت کا کردار یا کم از کم ہاتھ ضرور ثابت کر دیا جائے۔

ہر کسی تجزیہ نگار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس پہلو سے بھی چاہے جماعت کی جانچ پرکھ کرے اور اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کرے لیکن یہ بات علمی دیانت کے خلاف ہے کہ جماعت پر انھی گھسے پٹے اور بے بنیاد الزامات کو پھر سے دُہرایا جائے جن سے جماعت برأت کا بارہا اظہار کرچکی ہے‘ مثلاً: قیامِ پاکستان کی مخالفت‘ قائداعظم کو کافراعظم کہنا‘ پاکستانی نظامِ حکومت کو کافرانہ نظام کہنا‘ امریکا سے ڈالر وصول کرنا‘ احمدیوںاور شیعوں کے خلاف مہم‘ پاکستان میں مذہبی فاشیت کافروغ جیسے الزامات موقع بہ موقع دہرائے گئے ہیں۔ مولفہ کو اندازہ نہیں کہ جماعت اسلامی کا قافلہ ان الزامات کی گرد جھاڑ کر کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔

ڈاکٹر پوجا نے مولانا مودودی کی زندگی‘ اُن کے ذہنی ارتقا اور جماعت پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے لیکن مولانا نے نظمِ جماعت کا جو خاکہ مرتب کیا اور جس کی بنیاد پر ایک جماعت کو قائم کر کے منظم کیا اور بالفعل پاکستان کی سب سے فعال اور متحرک پارٹی بنا دیا‘    ڈاکٹر پوجا اسے فاشیت قرار دیتی ہیں۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ مولانا نے ’سود سے پاک معیشت‘ کا جو تصور پیش کیا ہے‘ وہ جدید معیشت اور بنک کاری کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔پوجا کااصرارہے کہ جنرل محمد ایوب خان اور اُن کے بعد آنے والے سربراہان کے ذریعے پاکستان‘ سیکولرزم کے راستے پر ٹھیک ٹھیک آگے بڑھ رہا تھا لیکن جماعت نے قرارداد مقاصد‘ اسلامی نظام تحریک‘ تحریک ختمِ نبوت‘ افغان جہاد کی حمایت اور جنرل محمد ضیا الحق سے تعاون کے ذریعے پاکستان کو ایک دوراہے پر ڈال دیا ہے۔ سرمایہ دار ممالک‘ اشتراکی بلاک اور مسلم دنیا‘      تینوں گروہوں کے لیے پاکستان ایک معما ہے جو دو قدم آگے بڑھتا ہے اور چار قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پوجا کے خیال میں اس کا سبب پاکستان کا مذہبی طبقہ ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام پرست‘ مخلص قیادت کے برسرِاقتدار نہ آنے سے وہ دلدل پیدا ہوئی جس کا پوجا دُکھ کے ساتھ ذکر کرتی ہیں۔

ڈاکٹر پوجا نے عالمی معاملات‘ خصوصاً مسلم ایشوز پر رائے دینے کی پالیسی کے سبب بھی جماعت پر تنقید کی ہے‘ مثلاً وہ معترض ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلم افراد کے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ جماعت آگے بڑھ کر اُس کی مذمت کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ بھارتی صحافیوں‘ دانش وروں اور قلم کاروں کی طے شدہ لائن کے مطابق مصنفہ یہ موقف اختیار کرتی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘ فرقہ پرستی عروج پر ہے‘ صوبائی نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں‘بدعنوانی تمام حدود کو پار کرچکی ہے‘ اس لیے جماعت کو داخلی سیاست اور ملکی معاملات کے سدھار پر توجہ دینی چاہیے۔ بیرونی معاملات‘ خصوصاً بھارتی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اِکا دکا واقعات کو رائی کا پہاڑ نہیں بنانا چاہیے۔

بلاشبہہ یہ کتاب کی ایک خوبی ہے کہ معروف طریقے کے مطابق مولفہ نے پاکستانی  اخبارات کے بہ کثرت حوالے دیے ہیں لیکن کیا یہ علمی اصولوں کی پامالی نہیں کہ انھوں نے جماعت کے اپنے رسائل و جرائد جماعت کے لٹریچر اور مجلسِ شوریٰ کی قراردادوں کا مطالعہ نہیں کیا‘ بعض باتیں تو سنی سنائی اور مضحکہ خیز ہیں‘ مثلاً: اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام میںپروفیسر خورشید احمد کے ساتھ مولانا مفتی محمود نے بھی کردار ادا کیا تھا ‘وغیرہ۔

مجموعی طور پر اس کتاب میں علمی دیانت اور معروضیت کا فقدان اور متعلقہ ناگزیر مآخذ تک مولفہ کی نارسائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


یونائیٹڈمسلمز آرگنائزیشن‘ سحر رضوان۔ ناشر: سحرسن پبلشرز‘ ۲۸/۲ وحدت کالونی‘ ملتان۔ صفحات:۱۵۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ماضی قریب میں متحدہ مسلم تنظیم UMO کا تصورانڈونیشیا اور لیبیا کی طرف سے سامنے آیا‘ مگر یہ تصور یو این کی بے حسی پر ’احتجاج‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم OIC اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں موجود ہیں مگر ان سے کسی فعال کردار کی توقع کم ہی ہے۔ شاید اسی لیے جناب سحر رضوان نے یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔

مصنف نے ’درددل‘ کے عنوان سے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۴ء میں یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کے نام سے ایک کتابچہ تحریر کیا تھا۔ بعد کے معروضی حالات میں انھوں نے اس میں اہم اضافے کیے۔ یہ کتاب کسی فہرست کے بغیر چھوٹے چھوٹے عنوانات مثلاً:  مسلم امہ کو درپیش مسائل‘ مسلم امہ کے اتحاد میں رکاوٹیں‘ یو این اور مسلم امہ‘ جدید سیکولر صلیبی جنگ‘ آیت اللہ خمینی کا اتحادِ عالم اسلام میں کردار وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اہم حصہ ’’یو ایم او اوراس کے تنظیمی ڈھانچے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ گویا سحررضوان صاحب کا مرتب کردہ دستور ہے جسے یوایم او اپنا سکتی ہے۔ مصنف مسلم اُمہ میں بیداری کی ایک لہر اٹھتی محسوس کرتے ہیں اور اس  سلسلے میں مختلف تنظیموں مثلاً ’ایکو‘ مصر شام فری ٹریڈ زون‘ ڈی-۸‘ خلیج تعاون کونسل اور موتمر  عالمِ اسلامی کا ذکر پُرامید انداز میں کرتے ہیں۔

محسوس ہوتا ہے کتاب نظرثانی کے بغیر چھپی ہے۔ پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔ اسلامی ممالک اور غیر اسلامی ممالک کی فہرستوں میں موجود نام آپس میں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔ بلغاریہ‘ تنزانیہ‘ انگولا‘ چلّی اور گھانا کو اسلامی ملک بتایا گیا ہے‘ جب کہ یہ نہ تو مسلم ممالک ہیں اور نہ اسلامی ملکوں کی تنظیموں کے رکن ہیں۔ کتاب میں دو مسلمان ملکوں گنی اور ملائشیا کو مسلم اور غیرمسلم دونوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ایسی غلطیوں سے بچنا چاہیے۔ (فیض احمد شہابی)


جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ نگہت سیما۔ ناشر: المجاہد پبلشرز‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

عراق اور کشمیر جیسے سلگتے اور دل فگار موضوعات پر بہت سے ناول‘ کہانیاں اور نظمیں‘ غزلیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ نگہت سیما کے تین افسانوں کا مجموعہ ہے ۔

افسانہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم عراق کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ بغداد کی گلیاں رات کو تو الف لیلوی کرداروں کی کہانیاں سنا رہی تھیں مگر صبح ہونے پر وہاں خون کی ندیاں رواں تھیں۔ معصوم بچوں‘ بے کس مائوں اور بہنوں بیٹیوں کی چیخوں اور آہوں سے بغداد کے الف لیلوی خواب چکناچور ہوگئے مگر اہلِ بغداد جاگ اٹھے ہیں۔ وہ بغداد کے عبدالعزیز یا عبدالماجد ہوں یا پاکستان کا عمرستار‘ ان کے دلوں میں شہادت کی مشعلیں روشن ہیں۔ یہ وہ بغدادی ہیں جنھیں اپنے جسموں پر بم باندھ کر گھومنے میں لطف و سرور ملتا ہے۔ مصنفہ نے اہلِ عراق کے بے کس مسلمانوں کے جذبات کو بہت خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے۔

دوسرے اور تیسرے افسانوں (راہ جنوں، نامہ بر بہار کا) میں کشمیر کے سلگتے چناروں اور کشمیریوں کی حرماں نصیبی کا تذکرہ ہے۔ نگہت سیما کے قلم نے حقیقی معنوں میں اہلِ کشمیر کے  دلی جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت بل پر موئے مبارک کی زیارت کے لیے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور جن کے لیے جھیل ڈل کی خوب صورتی‘ چنار کی سرخ پتوں کی محبت اور کشمیر جنت نظیر جیسی بے مثال دلھن کا سارا حُسن اس وقت تک   بے معنی ہے‘ جب تک کہ ان کے وطن میں آزادی کی صبح طلوع نہیں ہوتی۔ جب زعفران کے کھیت تباہ ہو جائیں‘ سبزہ زاروں میں آگ لگ جائے اور دھرتی لہو رنگ ہو جائے تو سید ثقلین شاہ (راہِ جنوں) اور عباس حسن (یہی نامہ بر ہے بہار کا) کے لیے ذاتی خوشی بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ افسانے جہادِ بالقلم کا عمدہ نمونہ ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کاوش ادبی حلقوں میں سراہی جائے گی۔ (قدسیہ ہاشمی)


منظرعالم، مولانا حافظ محمد صدیق ارکانی۔ صفحات: ۴۸۰۔ ناشر: مکتبہ احتشامیہ‘ جیوک لائن کراچی۔ قیمت: ۴۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب کے مصنف‘ جامعہ احتشامیہ کراچی سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مقالات ماہ نامہ حق نواے احتشام میں‘ وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ اقوام مغرب کی تاریخ پر بھی خاصا عبور رکھتے ہیں۔

مصنف نے اس کتاب میں ’رموز معراج شریف‘، ’فلسفہ قربانی‘، ’خدمت خلق‘ اور ’صدقہ کے فضائل و برکات‘پر بھی لکھا ہے۔ ایک مضمون ’رجب کے کونڈے‘ پر ہے۔ اس کے علاوہ ’التاریخ والتقویم‘ کے عنوان سے بہت وقیع مقدمہ ہے۔ آپ قمری حساب کے اہتمام اور شمسی حساب سے اجتناب ضروری سمجھتے ہیں لیکن معارف القرآن کے حوالے سے مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یااستعمال کرنا ناجائز ہے‘ بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور عدت کے معاملے میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے مگر اپنے کاروبار‘ تجارت وغیرہ میں شمسی حساب استعمال کرے۔ (ص ۲۹)

مولانا ارکانی نے متعدد مضامین میں پاکستان‘ امریکا‘ انڈونیشیا‘ ترکستان‘تاجکستان‘ چیچنیا‘ افغانستان‘ سوڈان اور صومالیہ و یمن کی تاریخ بیان کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک حصہ جناب واجد رضا اصفہانی کے مضامین پر مشتمل ہے۔

مولانا واقعاتی معلومات اور اعداد و شمار کے لیے مقامی اخبارات و رسائل کا حوالہ دیتے ہیں‘ اگر وہ جدید و قدیم معروف کتابوں کے حوالے بھی ساتھ ہی دیتے تو بہتر تھا۔ یہ کتاب مذہبی‘ سیاسی اور عالمی معلومات کا ایک مجموعہ ہے۔ چند واقعات پر تبصرے بھی شامل ہیں۔ عالمِ اسلام سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور طلبا اسے اپنے لیے مفید پائیں گے۔ (ف - ا - ش)


اسلامی آدابِ زندگی‘ محمد منصور الزمان صدیقی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ برانچ پوسٹ آفس‘ خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۹۳۷۔ قیمت: درج نہیں۔

صدیقی ٹرسٹ کراچی ایک عرصے سے مختلف النوع دینی‘ تبلیغی اور دعوتی کتابچے شائع کر کے تعلیمات اسلامی کے فروغ میں مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹرسٹ کے بانی اور صدر نشین محمد منظورالزمان صدیقی کے مرتبہ ۵۵ کتابچوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ موضوعات گوناگوں ہیں: قرآن‘ حدیث‘ دعا‘ تقویٰ‘ اخلاق حسنہ‘ حسنِ معاشرت‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ اقتصادی مسائل‘ آدابِ مجلس‘ مسجد کا احترام‘ قتل‘ خودکشی‘ حلال و حرام‘عالم اسلام‘ پاکستان اور صلیبی جنگ‘ مخلوط تعلیم‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں‘ صحت اور جیب کے دشمن (چائے‘ پان‘ سگریٹ) خواتین کے حقوق‘ پردہ‘ نیل پالش‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں مفکرانہ یا فلسفیانہ انداز کے بجائے سادہ‘ عام فہم اور سلیس اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو متوازن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتابت ضرورت سے زیادہ جلی ہے اور اس میں پھیلائو بہت ہے۔ فنّی تدوین سے کتاب کا حجم کم ہوسکتا تھا اور قیمت بھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

  • تاریخ اسلام، جلد اول‘ دوم۔ اکبرشاہ خان نجیب آبادی۔ ناشر: دارالمسلم‘ لاہور۔ صفحات: ۱۲۰۸‘۵۷۸۔ قیمت: ۳۰۰‘ ۱۵۰ روپے۔[نجیب آبادی معروف مورخ ہیں ان کی یہ ضخیم کتاب ایک طرح سے کلاسکی حیثیت رکھتی ہے۔ سرورق: ’’تخریج و تصحیح‘ توضیحاتِ مزید: عبداللہ ادیب‘‘ مگر یہ پتا نہیں چلتا کہ کیا اضافے یا تصحیح و توضیح کی گئی ہے؟ کاش ایک صفحاتی مقدمہ لکھنے کی زحمت کی جاتی۔ کتابت عمدہ اور خوش نما ہے۔ جلداول کو دوحصوں میں یعنی پوری کتاب تین الگ الگ حصوں میں چھاپنا‘ ہمارے خیال میں بہتر تھا۔]
  • اوصافِ حمیدہ، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر: کتاب سراے‘ الحمد مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[محترمہ حمیدہ بیگم مرحومہ جماعت اسلامی کی نہایت مخلص اور فعال رکن تھیں۔ اس نیک نفس خاتون کے سوانح اور شخصیت پر یہ کتاب‘اب تیسری بار چھپی ہے۔ دیباچہ: نیربانو۔ مقدمہ: بنت الاسلام اور تقریظ: ثریا اسما شاہد--- مرحومہ کے منتخب مضامین (ص ۱۷۱ تا ۲۹۶) بھی شامل ہیں۔ تربیتی اور دعوتی مقاصد کے لیے ایک عمدہ کتاب۔]

اختر حسین عزمی ‘ پتوکی

’’امریکا کے صدارتی انتخابی نتائج‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) اب تک امریکی انتخابات کے حوالے سے آنے والے تجزیوں میں انفرادیت کا حامل ہے۔ عالمی ردعمل‘ امریکی ایجنڈا و پالیسی کے پیشِ نظر مقابلے کی حکمت عملی کے لیے اہم نکات بالخصوص پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت پر زور اور موجودہ حکمرانوں کی     غلط روش پر گرفت کرتے ہوئے تمام جمہوری قوتوں کو بنیادی مقاصد کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کی دعوت  ملک و ملّت کو درپیش مسائل کے لیے راہنما خطوط ہیں۔ دوسری طرف ’’امریکا میں مسلمان‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) امریکا اور امریکی معاشرت کی چشم کشا تصویر ہے اور امریکا میں مقیم مسلمانوں کی مشکلات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔


عبدالجبار بھٹی ‘ قصور

’’پاکستان: سیاسی و سماجی صورت حال‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) کے ذریعے جہاں معاشرتی صورت حال سے آگہی ہوئی وہاں مصنف کا یہ جملہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں:ایک اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہردو سے رابطہ ہوتا ہے--- اسلام کے نام لیوائوں پہ خاص ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔

’’سفرلیبیا: مشاہدات و تاثرات‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) سے لیبیا کے احوال سے آگہی ہوئی خاص طور پر پابندی اٹھنے کے بعد۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرنل قذافی نے لیبیا اور گردونواح کو امریکی آماجگاہ بناکر ایک انقلابی لیڈر کے بجاے لارنس آف عریبیا کا کردار ادا کیا ہے۔


مبشر اجمل ‘ لاہور

عیادت سے متعلق چند باتیں ہی معروف ہیں لیکن ’’عیادت کے ۲۳نسخے‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اس حوالے سے مریضوں اور مصیبت زدگان کے لیے کتنی روشنی اور ایمان و تزکیے کا سامان ہے۔


خورشید عالم ‘بونیر

’’مسلمان کا نصب العین‘‘ (دسمبر ۲۰۰۴ئ) نے ایک نیا عزم و ولولہ دیا۔ جس طرح مولانا مودودیؒ نے مسلمانوں کو زندگی کے نصب العین سے آشنا کیاہے‘ اگر واقعی اس کو اپناتے ہوئے عمل کیا جائے تو اُمت مسلمہ میں جدوجہد کی ایک نئی رو دوڑ پڑے۔


عرفان شاہد فلاحی ‘بھارت

دنیا ایک عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملکوں کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے تجارت‘ کرنسی اور دفاع کے لیے اجتماعی نظام وضع کیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یورو ہے۔ ایک موقع پر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے سارک ممالک کے لیے ایک کرنسی کی بات کی اور کہا کہ جب یورو کرنسی وجود میں آسکتی ہے تو سارک ممالک اپنے لیے ایک کرنسی کیوں نہیں ایجاد کرسکتے۔ لیکن اسلام اپنے آفاقی اصولوں‘ انسانیت کی فلاح اور   رنگ و نسل کے کسی تعصب سے اجتناب کی وجہ سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے کہ ایک عالمی نظام تشکیل دے سکے اور ایک عالمی کرنسی کا اجرا کر سکے۔ مسلم اُمہ کے تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے مسلم حکمرانوں کو اس میدان میں پیش رفت کے لیے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔


محمد سلیم وائیں ‘نارووال

سید اسعد گیلانیؒ کا ایمان افروز ’’ایک مکتوب‘ دوست کے نام‘‘ (دسمبر ۲۰۰۴ئ) پڑھ کر بے اختیار آنسو بہہ نکلے اور اپنی کمزوریوں‘ کوتاہیوں اور غفلتوں کا بھی احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی راولپنڈی اور میانوالی جیلوں میں ۱۹۷۷ء میں تحریکِ نظام مصطفیؐ کے دوران گیلانی صاحب کے ساتھ اسیری کا زمانہ یاد آگیا۔

میانوالی سنٹرل جیل کی ایک بارک میں ہم ۸۹‘ ۹۰ سیاسی قیدی نظربند تھے۔ دوپہر کے ۱۰ بجے کا وقت تھا کہ جیل کا ملازم آیا اور اُس نے پیغام دیا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل تشریف لانے والے ہیں‘ لہٰذا اُن کے آتے ہی آپ سب قیدی مؤدبانہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس پر گیلانی صاحب نے تمام قیدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جونہی وہ آئے تو آپ سب کے سب جس حالت میں ہوں‘ اسی حالت میں رہیں۔ اگر کوئی کھڑا ہے تو کھڑا رہے‘ بیٹھا ہے تو بیٹھا رہے‘ لیٹا ہے تو لیٹا رہے اور اگر کسی ساتھی سے وہ کچھ بازپرس کرے تو میری طرف اشارہ کر دو۔ چنانچہ سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنے لائولشکر کے ہمراہ جونہی ہماری بارک میں داخل ہونے لگے تو زوردار الفاظ میں کہا گیا: باادب باملاحظہ ہوشیار سپرنٹنڈنٹ صاحب تشریف لا رہے ہیں! مگر ہم پر جوں بھی نہ رینگی اور اُن لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ حیران و ششدر ہو کر بارک کے دروازے کے ساتھ ہی پہلے قیدی سے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کچھ پوچھا تو اُس نے برجستہ جواب دیا کہ وہ ہمارے امیر ہیں اُن سے بات کرو۔ چنانچہ انتہائی ندامت و خفت لیے سپرنٹنڈنٹ گیلانی صاحب کی چٹائی پر دوزانو ہوکر بیٹھا رہا۔ اُس کے سوال کرنے پر آپ اُسے جواب ضرور دیتے مگر اپنے مطالعے کو انہماک کے ساتھ جاری رکھا۔ کیا عظیم لوگ تھے!


  • گذشتہ شمارے میں صفحہ ۳۶ پر خیرخواہ کی نصیحت کا عنوان اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ پڑھا جائے۔ غلطی کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ (ادارہ)

حقیقت عبودیت

اللہ کی بارگاہ میں اپنی شکایتوں کو پیش کرنا اور اپنی مصیبتوں کے متعلق عرض و معروض کرنا ممنوع اور مذموم نہیں بلکہ مامور اور ممدوح ہے‘ اور جو بندہ اپنی حاجت براری کے لیے اللہ کے فضل و کرم کا جتنا ہی زیادہ حریص ہوگا اس کی عبدیت اتنی ہی زیادہ پختہ اور خالص‘ اور ماسوا سے اس کی بے نیازی اتنی ہی زیادہ محکم اور کامل ہوگی۔ جس طرح کسی مخلوق کی حرص اور رغبت اس کی عبودیت کی موجب‘ اور اس سے مایوسی اور بے رغبتی اس سے قلب کی بے نیازی کی باعث ہوتی ہے‘ اسی طرح خالق اور رازقِ حقیقی کی نعمتوں اور نعمتوں کی حرص و رغبت اس کی عبودیت کی موجب ہے اور قلب انسانی کا اس کی طلب و احتیاج سے اعراض کرنا اس کی عبودیت سے اعراض کرنے کے مترادف ہے۔ یہ خطرہ ان لوگوں کے حق میں تو بہت زیادہ شدید ہے جو خالق کی طرف سے اپنی طلب و رجا کا رشتہ توڑ کر کسی مخلوق سے اس طرح جوڑ لیں کہ اسی کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیں اور اسی پر اپنے اعتمادِ قلب کی عمارت تعمیرکرلیں‘ مثلاً کوئی اپنی ریاست‘ اپنی حکومت‘ اپنی فوج اور اپنے خدم و حشم پر اعتماد کربیٹھے یا کوئی اپنے اہل و عیال اور احباب و اقارب پر‘ یا اپنے ذخائر دولت پر اور خزائن سیم و زر کو اپنا مرجع التفات بنا لے‘ یا اپنے کسی آقا‘ کسی فرمانروا‘ کسی مخدوم‘ کسی پیر‘ کسی مرشد اور اسی طرح کے دوسرے بزرگوں کو‘ جو فنا ہوچکے ہوں یا جن کا فنا ہونا بہرحال یقینی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نصیحت اپنے ہر بندے کے لیے یہ ہے کہ:

تَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ وَکَفٰی بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا o (فرقان۲۵:۵۸)، اس اللہ پر بھروسا کر جو زندئہ جاوید ہے جس کو کبھی فنا نہیں اور اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کر اور اللہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کے لیے کسی غیر کا ضرورت مند نہیں۔

اور یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جس شخص کا دل بھی مخلوقات کی طرف اس توقع کے ساتھ مائل ہوگا کہ وہ اس کے کسی آڑے وقت میں کام دیں گی‘ یا اسے روزی مہیا کریںگی‘ یا اس کو راستی اور ہدایت عطا کریں گی‘ یقینا اس کے دل میں ان کی عظمت پیدا ہوگی اور وہ ان کے سامنے عاجزانہ جھکا ہوا ہوگا اور انجام کار اسی اعتقاد اور اسی تذلل کے تناسب سے اس کے اندر ان کی عبدیت اور بندگی بھی ضرور پیدا ہوجائے گی‘اگرچہ بظاہر وہ ان کا امیر اور سردار اور آقا و فرماںروا ہی کیوں نہ ہو‘ کیونکہ حکیم کی نگاہ تو ظواہر پر نہیں ہوتی‘ حقائق پر ہوتی ہے۔ (’’عبادت اور عبودیت‘‘، افادات امام ابن تیمیہؒ، ترجمہ: مولانا صدرالدین اصلاحیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۲۶‘ عدد ۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۴ھ‘ جنوری و فروری ۱۹۴۵ء (ص ۴۷-۴۸)