۵۰۰۰ء قبل مسیح کی تاریخ رکھنے والا ’نینویٰ‘ حالیہ عراق کا ایک اہم صوبہ ہے۔ موصل اس کا صدر مقام اور ۴۵۶کلومیٹر پر واقع وفاقی دارالحکومت بغداد کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز ہے۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء سے یہاں گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک طرف عراقی افواج، الحشد الشعبی کے نام سے شیعہ رضاکار لشکر، کرد فوج ’بشمرگہ‘ اور ان سب کو مکمل امریکی سرپرستی اور عسکری تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف ۲۰۱۴ء سے اس پر قابض داعش کے جنگ جُو ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران یہاں کئی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ عراقی افواج اپنے اور شیعہ لشکروں کے سوا کسی علاقائی قوت کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ داعش خود پر حملہ آور شیعہ لشکروں کے علاوہ مقامی سُنّی آبادی اور صدام حسین کے دست راست عزت الدوری کی قیادت میں قائم نقشبندی لشکر سے بھی برسر پیکار ہے۔ ترکی بھی اپنی سرحد پر ہونے والی اس لڑائی سے لاتعلق نہیں اور عملاً اس میں شرکت چاہتا ہے۔ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے کے باوجود: امریکی، اور عراقی افواج اور دوسری طرف داعش بھی، یعنی یہ تینوں ترکی کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکا ان سب فریقوں کو تادیر باہم خوں ریزی میں مصروف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس آگ پر مسلسل تیل چھڑک رہا ہے۔ جنگ کا شکار بے گناہ شہری بن رہے ہیں، جنھیں ہر جانب سے ظلم و ستم اور مہاجرت کا سامنا ہے۔
۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا کو جس بھرپور عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، موصل ان میں سرفہرست تھا۔ اس وقت امریکی پالیسی ساز اداروں نے واضح سفارشات پیش کی تھیں کہ عراق اور دیگر علاقوں میں درپیش مزاحمت کا مقابلہ صرف ’اسلام کو تقسیم‘ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ Split Islam کے عنوان سے لکھی گئی ان تحریروں کا تعارف کئی بار ترجمان القرآن کے صفحات پر کروایا جاچکا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن آج ان ’مغربی سفارشات‘ کی عملی تصویر پیش کررہے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں اس پر داعش کا مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد خود عراقی پارلیمنٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی کہ اس بارے میں حقائق پیش کرے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں اس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ سقوط موصل کے اصل ذمہ دار اس وقت کے عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ان کے معاونین تھے۔ کچھ عرصہ قبل الاخوان المسلمون عراق کے سابق سربراہ نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ موصل پر داعش کا حملہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم نوری المالکی نے ۱۰ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے سامنے وہاں موجود ۷۰ ہزار سے زائد عراقی افواج کو اپنا تمام تر جدید ترین اسلحہ وہیں چھوڑ کر، وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ یہی اسلحہ بعد میں داعش کے ہاتھ آیا۔ گذشتہ دوبرس کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ امریکی افواج نے ’غلطی‘ سے مزید جدید اسلحہ داعش کے زیرقبضہ علاقے میں اتار دیا۔ حال ہی میں روتانا الخلیجیۃ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے بعض علاقوں کو جب دہشت گردوں سے آزاد کروایا گیا تو وہاں سے کثیر تعداد میں مغربی ممالک کا فراہم کردہ بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ’’امریکی کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ داعش کے مقابلے کے لیے دیا گیا ہے … ہم بھی تو داعش کا مقابلہ کررہے ہیں، آؤ پھر ہم مل کر اس سے لڑیں … ایک دوسرے کو یا خود کو دھوکا دینے سے باز آجانا چاہیے‘‘۔
موصل پر حالیہ حملے کا خوف ناک ترین پہلو اسے شیعہ سُنّی تصادم کی بلندیوں پر پہنچا دینا ہے۔ موصل پر حملے سے کئی ہفتے پہلے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعصبات کے شعلے بھڑکائے جانے لگے۔ موصل شہر کی ۹۰ فی صد سے زائد اکثریت سنی آبادی پر مشتمل ہے۔ داعش نے پوری آبادی کو یرغمال اور اپنی مرضی کا پابند کردیا۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر عراقی فوج اور الحشد الشعبی کو جو مذہبی غذا فراہم کی گئی، وہ تمام اہل سنت مسلمانوں سے نفرت و انتقام پر مشتمل تھی۔ الحشد الشعبی بنیادی طور پر درجنوں مسلح شیعہ رضاکار گروہوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہر گروہ کسی نہ کسی علاقے میں ’مخالفین‘ کے خلاف کوئی بڑا ’کارنامہ‘ انجام دے چکا ہے۔ ایک گروہ کے سربراہ قیس الخزعلی حملے سے پہلے اپنے کارکنان کو تیار کرتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں: ’’امام حسینؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیتے ہوئے کارروائی کرنا ہے‘‘۔ ’’یہ لوگ انھی باپ دادا کی اولاد ہیں جنہوں نے امام (حسینؓ) کو قتل کیا تھا‘‘۔ اس طرح کے اشتعال انگیز ویڈیوز بڑے پیمانے پر پھیلائے جارہے ہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ یہاں دیگ کا ایک چاول صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ اس مہیب خطرے سے خبردار کیا جاسکے۔ اس تناظر میں یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ دوران جنگ اور بعد از جنگ خدانخواستہ قتل و انتقام کیا مہیب صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملہ شروع ہوا، اسی روز کا برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ لکھتا ہے:
After ISIS the future of Mousal will be decided by sactarian forces داعش کے بعد موصل کے مستقبل کا فیصلہ فرقہ پرست قوتیں کریں گی۔
موصل کے قریب واقع شہر ’تلعفر‘ بنیادی طور پر ترکمانی النسل اہل سنت اکثریت پر مشتمل ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء کے دوران یہاں القاعدہ اور شیعہ ملیشیا تنظیموں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہیں، جن میں شیعہ ملیشیا کو شکست ہوئی۔ حالیہ حملے کے ساتھ ہی یہ امریکی یقین دہانیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ ’تلعفر ‘ کو شیعہ ملیشیا کے سپرد کردیا جائے گا۔ نینویٰ ہی کا ایک اور شہر ’سنجار‘ کرد اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ کرد قوم پرست تنظیم PKK اور ایک حصہ داعش کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔ یہ دونوں اسی علاقے سے ترکی کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف ترکی براہِ راست اور بالواسطہ اس لڑائی میں شریک رہنا چاہتا ہے۔ ترکی کا ایک اہم مقصد موصل میں مذہبی منافرت کو روکنا بھی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔ دوسری جانب عراقی کردستان کی فوج ’بشمرگا‘ اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہے۔ کردستان اس جنگ کے ذریعے اپنی مستقل حدود طے کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور روس بھی تمام تر باہمی کھینچا تانی اور بظاہر تنازعات کے باوجود اس جنگ میں ایک ہی ہدف رکھتے ہیں کہ خطے میں اپنے اپنے مہروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرسکیں۔
اس پورے نقشے پر دوبارہ نگاہ ڈالیں اور پھر مختلف اطراف بالخصوص روس کی طرف سے بار بار تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی بات سنیں، اس کی طرف سے اپنے شہریوں کو خبردار رہنے کے اعلانات اور جدید و قدیم بحری بیڑے خطے میں بھیجے جانے کی خبریں سنیں تو حالات کی مزید سنگینی سامنے آتی ہے۔ گذشتہ دونوں عالمی جنگوں کے بعد بھی عالمی قوتوں کا نیا میزانیہ سامنے آیا اور عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کردیے گئے تھے۔ لاکھوں بے گناہ انسان رزق خاک بنادیے گئے۔ اب ایک بار پھر خطے کی تقسیمِ نو کی باتیں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔
۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملے کا آغاز ہوا اور ۱۸؍ اکتوبر کو دی واشنگٹن ٹائمز نے تجزیہ شائع کیا کہ ۱۰برس قبل امریکی ذمہ دار جوبائیڈن کی طرف سے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر عمل درآمد کا وقت قریب آن لگا ہے۔ مختلف امریکی تھنک ٹینک تمام مکروہ منصوبے دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عراق کے مغربی علاقے میں ایک الگ ملک بننے کے تمام تر عوامل موجود ہیں۔ تقریباً تمام چوٹی کے امریکی جرائد و رسائل، عراق اور شام میں جاری لڑائی کی کوکھ سے نئے ممالک وجود میں آنے اور ان کی مشکلات و مستقبل کے اثرات کا تجزیہ کررہے ہیں۔ تجزیے ہی نہیں شام اور عراق تو عملاً تقسیم کیے جاچکے ہیں، بس نقشے میں رنگ بھرنا اور تقسیم کے عمل کو خطے کے کئی دیگر ممالک تک پھیلانا باقی ہے۔ بدقسمتی سے یہ رنگ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے بھرا جارہا ہے۔
اسی بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہے: ’’ہر وہ ملک جو شامی حکومت اور شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے، وہ گذشتہ پانچ برسوں میں قتل کیے جانے والے ۶ لاکھ بے گناہ شہریوں کے خون میں برابر کا شریک ہے۔ اب حالات جس مرحلے تک آن پہنچے ہیں وہ شام کی حدود تک محدود نہیں رہے۔ اب یہ مسئلہ ترکی اور ترک عوام کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم نے مصمم ارادہ اور حتمی فیصلہ کیا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ شامی سرزمین کی وحدت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے شامی عوام کے کامل حق کے بارے میں ہمارا واضح موقف ساری دنیا کو معلوم رہنا چاہیے‘‘۔
صدر اردوان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’ہم نے شامی علاقے جرابلس کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے معتدل شامی اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب تک آزاد کروائے جانے والے علاقوں کے ۴۰ ہزار کے قریب شہری اب وہاں واپس جاچکے ہیں۔‘‘ مغربی سازشوں کے پیچھے اصل ہدف واضح کرتے ہوئے صدر اردوان کا کہنا تھا ’’ان کا اصل مقصد (ہماری سرحدوں سے متصل) ان شامی علاقوں پر قبضہ کرنا اور شمالی شام میں دہشت گردی پر مشتمل ایک کاریڈور بنانا ہے___ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ترک سرزمین کی سلامتی کو درپیش ہر خطرے کامقابلہ کریں گے۔ترک سرحد سے متصل شام کا ۵ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ وہاں مقیم ہمارے برادر عرب عوام کے لیے پر امن بنانا ضروری ہے۔‘‘
ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے مغرب کے دوغلے پن کے بارے میں اردوان کا کہنا ہے: ہم نے ۳۰ لاکھ سے زائد اپنے شامی بھائیوں کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ اب تک ہم ان کی خدمت کے لیے سرکاری خزانے سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ اتنا ہی سرمایہ مختلف ترک رفاہی ادارے خرچ کرچکے ہیں (یعنی ۲۵؍ ارب ڈالر)…لیکن افسوس کہ تمام تر دعووں کے باوجود ساری عالمی برادری نے اب تک صرف ۵۲کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں… حیرت ہے کہ ساری مغربی دنیا اپنی ان انسانی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں بھی شامی پناہ گزینوں کے لیے خاردار تاریں لگا رہے ہیں لیکن ہم اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے‘‘۔
ترک صدر کے خطاب اور انٹرویو سے یہ قدرے طویل اقتباسات حالات کی جامع عکاسی کرتے ہیں۔ فعال کردار ادا کرنے کی انھی کوششوں کی وجہ سے ترکی کو ہر طرف سے مزید دشمنیوں کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کے وزرا تو آئے دن دشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں۔
شام اور عراق میں روس اور ایران کا موقف بھی ترک پالیسی سے یکسر متصادم ہے، لیکن تمام تر تلخیوں اور اختلافات کے باوجود ترکی نے سفارتی محاذ پر دونوں ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ ایران نے بھی ۱۵جولائی کو ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی کھل کر مذمت کی ہے۔ بغاوت کی رات ایرانی وزیر خارجہ نے تین بار اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کرتے ہوئے منتخب حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کچھ روز بعد ترک وزیر خارجہ بھی اچانک تہران کے دورے پر چلے گئے۔ اسی طرح روس نے بھی بغاوت کی ناکامی یقینی ہوجانے کے بعد اس کی بھرپور مذمت کی۔ تمام تر اختلافات کے باوجود پیہم رابطوں کا ایک بنیادی سبب ان تینوں ممالک کے مؤثر اقتصادی تعلقات ہے۔
۲۴نومبر ۲۰۱۵ء کو ترک فضائیہ نے اپنی سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا جنگی طیارہ ’سوخو۲۴‘ مار گرایا۔ اس کے بعد ترک روس تعلقات بدترین صورت اختیار کرگئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے وسیع اور اہم ترین اقتصادی معاہدے اور منصوبے معلق ہوجانے کے بعد دونوں ملکوں نے بالآخر معاملات کافی حد تک سلجھا لیے ہیں۔ روسی صدر پوٹن اور طیب اردوان کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ترکی کی حتی المقدور کوشش ہے کہ ایران، شام، عراق اور ترکی کے سنگم پر امریکا اور روس کو کوئی ایسا علاقہ قائم نہ کرنے دے جو ان سب ممالک کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے۔ دوسری طرف ترکی سے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والی کئی قوتیں بہرصورت ترکی کو طویل جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ہر روز ترکی کے کسی نہ کسی شہر میں پولیس اور فوجی مراکز پر دھماکے ہوجاتے ہیں۔ ترک معیشت کے اہم ستون سیاحت کو تباہ کرنا عالمی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ اللہ کرے کہ تمام مسلمان ممالک اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں کہ دشمن کا ہدف کوئی ایک نہیں سب ممالک ہیں۔
اس ساری لڑائی کا ایک بہت اہم پہلو وہ دینی بحث ہے، جو بعض مخصوص حلقوں میں گہری دل چسپی کا باعث بنتی ہے اور اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ تیسری عالمی جنگ، علاقے کے بعض شہروں اور قصبوں کے ناموں اور ظاہر ہونے والے بعض کرداروں پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فتنوں اور مراحل سے اُمت کو خبردار بھی کیا اور پیشن گوئیاں بھی کی ہیں۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آخری عہد کے عظیم ترین فتنوں اور نشانیوں کا اطلاق خود اپنے آپ پر کرتے ہوئے، بہت سے گروہوں اور افراد نے کئی بار خود کو ’خلافت‘ کا امین اور ’امام مہدی‘ تک قرار دے ڈالا ہے۔ اب ایک طرف داعش کا دعواے خلافت دیکھیں اور دوسری جانب صلیبی اور صہیونی طاقتوں کی اس کھلی عیاری کو دیکھیں کہ وہی انھیں تمام اسباب بقا فراہم کرنے والے ہیں، تو ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ صحیح احادیث میں بیان کیے گئے مراحل کی حقیقت کو بدل کر یا کسی غلط فہمی یا ضد کا شکار ہو کر دشمن کے اصل منصوبوں میں معاون بن جانا کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حالیہ دورِ فتن کا ایک بدترین المیہ یہ بھی ہے کہ کئی مسلم ممالک اور عوام پر مسلط کم ظرف حکمران ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ شیعہ سُنّی اور عرب و عجم کی لڑائی کی ایک رذیل مثال گذشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی، جب سعودی عرب نے مصر کو مزید اربوں ڈالر دینے سے عارضی معذرت کرلی۔ یہ خبریں سامنے آتے ہی مصر کی شاہراہوں پر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے جہازی سائز کے کچھ اعلانات اور بورڈ لگا دیے گئے۔ اس اعلان میں ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی بڑی سی تصویر ہے، جو اپنی ’سیلفی‘ تصویر بنارہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں سعودی دار الحکومت ریاض کے دو نمایاں ترین ٹاور اور کویتی دارالحکومت کی علامت بلند ترین ٹاور دکھائی دے رہے ہیں۔ عرب سفارت کار اس تصویر کی یہ تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’اس میں یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ ہماری مدد نہ کی گئی تو سعودی عرب اور کویت پر ایران قبضہ کرلے گا‘‘۔ اسی دوران میں شام میں جاری لڑائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد پر راے شماری ہوئی تو حیرت انگیز طور پر مصر نے روس اور ایران کے موقف کے حق میں اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ووٹ دیا۔ اس پر خلیجی ریاستوں اور مصر کے ذرائع ابلاغ میں مسلسل بحث جاری ہے۔
ماہِ محرم اپنے ساتھ کئی پیغام اور بہت سی یادیں لیے طلوع ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدینہ ہجرت کے سارے مراحل ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ یکم محرم کو اس عظیم ہستی کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں کہ جن کے قبول اسلام کے لیے خودآپؐ دُعاگو رہتے تھے۔ جن کی کئی آرا کو رب کائنات نے اپنی وحی اور قرآن کریم کی آیات میں بدل دیا۔ ۱۰ محرم نواسۂ رسولؐ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ انھوں نے اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے سر تو کٹوا لیے لیکن اُس اقتدار کی حمایت و تائید نہیں کی جو آپؐ اور خلفاے راشدین کی راہ سے انحراف کرگیا تھا۔ یومِ عاشورا ءحضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے آپؐ نے ۱۰ محرم کو خود بھی روزہ رکھا اور اُمت کو بھی ترغیب دیتے ہوئے اسے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔
سفر ہجرت کا آغاز ایک ایسے عالم میں ہوا تھا کہ سب قبائل، مکہ کے چنیدہ جنگجو قتل کے ارادے سے آپؐ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ مکہ سے نکل جانے کے بعد بھی اطمینان سے سفر نہیں کرنے دیا جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ بھاری انعام کی خبر سفر کی ہر منزل پر پیچھا کررہی تھی۔ لیکن اس عالم میں بھی آپؐ نے اور رفیق سفر نے سفر کی وہ بے مثال تیاری کی تھی کہ اُس دور میں جس کی مثال نہیں ملتی۔تین روز تک مکہ کے جنوب مغرب میں واقع غار ثور میں قیام کیا تاکہ دشمن تھک ہار کرنامراد ہوجائے۔ اس دوران مکہ کی ایک ایک خبر سے آگاہ رہنے کا انتظام بھی کیا اور خوراک پہنچتے رہنے کا بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان دو کاموں کے لیے آنے والے عبدالرحمن بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر الصدیق کے قدموں کے نشان تک مٹا دینے کا انتظام کیا گیا۔ صدیق اکبر کا غلام ان کے پیچھے پیچھے بکریوں کا ریوڑ لے آتا کہ معزز ہستیوں کو تازہ دودھ بھی میسر آجائے اور آنے والوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ جائیں۔ سرِراہ مل جانے والے بدوؤں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی احتیاط برتی کہ بلاضرورت تعارف کسی دشمن تک نہ پہنچ جائے۔ اس دور میں کہ جب کوئی لفظ لکھنے کے لیے کئی جتن کرنا پڑتے تھے، سفر تو کجا حضر میں بھی لکھنے پڑھنے کے لوازمات فراہم کرنا، جوے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سامان کتابت زاد راہ میں شامل رکھا۔ سراقہ بن مالک نے جب سنا کہ چند کوس سے دو مسافر گزرے ہیں تو فوراً اندازہ لگالیا کہ وہی قریشی سردار ہوسکتے ہیں، جن کی گرفتاری پر سردارانِ مکہ نے بھاری انعام رکھا ہے۔ پیچھا کرنے، زمین میں دھنس جانے، اور قیصر و کسریٰ کے کنگن ملنے کی خوش خبری ملنے پر تقاضا کردیا کہ یہ بشارت مجھے لکھ کر عنایت فرما دیجیے۔ یارِ غارؓ نے اس عالم میں بھی عبارت لکھ کرنبی أمّیؐ کی مہر ثبت کردی۔
سوچنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رب کائنات اشارہ کرتا تو یہاں بھی کوئی بُراق پلک جھپکنے میں ساری منزلیں طے کروادیتا۔ مگر ارادۂ الٰہی یہ تھا کہ دنیا کو ہر ممکن انسانی اسباب فراہم کرنے کا درس و سلیقہ عطا کیا جائے۔
مکہ میں اہل ایمان کے لیے جینا محال ہوگیا تو آپؐ نے طائف کا رخ کیا، وہاں لہولہان کردیے گئے تو مکہ آنے والے ایک ایک قافلے کے پاس جاکر دعوت پیش کی۔ بالآخر بیعت عقبہ ہوئی، اور پھر چھے خوش نصیب افراد نے یثرب کی قسمت بدل دی۔ دعوت دین اور بندوں کو رب کی طرف بلانے کا یہ فریضہ آپؐ نے اس طور ادا کیا کہ سفر ہجرت کے دوران بھی اس کا اہتمام کیا۔ حضرت بُریدۃ الاسلمیؓ نے اسلام قبول کیا اور اپنے پورے قبیلے کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ سفر ہجرت سے اللہ تعالیٰ نے قائد اور کارکنان کے لیے بھی اسوۂ حسنہ کا انتظام کرنا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد بھی سفر کی مشقت اور خطرات کی انھی منزلوں سے گزرے کہ جن سے کارکنان اور اُمتی گزررہے تھے۔ سفر ہجرت نے اپنے رب کی نصرت پر کامل یقین و اعتماد کی اعلیٰ ترین مثال بھی پیش کرنا تھی۔ غار ثور میں دشمن سر پر پہنچ گئے۔ یارِ غارؓ نے سرگوشی کی: ’’یارسولؐ اللہ! ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف پڑگئی تو ہم گرفتار ہوجائیں گے۔ رسولِؐ حق نے کامل وثوق سے فرمایا: مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنٍ اللہُ ثَالِثُہُمَا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ غم نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ رب کائنات نے اس پورے مکالمے کو بھی نہ صرف قرآن کی وحی بنا دیا، بلکہ تاقیامت یہ اعلان بھی فرمادیا کہ رسولؐ کا ساتھ دے کر اور ان کے راستے پر نہ چل کر خود ہی محروم رہو گے۔ انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکو گے۔ان کے لیے اللہ کافی ہے۔
ہجرت کی یاد سے شروع ہونے والا نیا سال ہر سال یہ منادی بھی کرتا ہے کہ اے بندگانِ خدا تمھیں ملنے والی مہلتِ زندگی کا ایک سال مزید کم ہو گیا۔ سال گذشتہ میں روپذیر ہر کوتاہی پر استغفار کرتے ہوئے، نئے سال کو بندگی کے نئے عزم سے شروع کیجیے۔ نئے سال کا پورا دفتر خالی ہے، اسے گناہوں سے بچانا ہی اصل کامیابی ہوگی۔ گذشتہ ساری زندگی جو اجر و منزلت اور کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے، اب پھر موقع مل رہا ہے اسے غنیمت جانو۔
ارشادِ نبویؐ ہے: پانچ چیزیں، پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: lبڑھاپے سے پہلے جوانی lبیماری سے پہلے صحت lفقر سے پہلے مال داریl مصروفیت سے پہلے فراغت اور lموت سے پہلے زندگی۔ نہ جانے کب ان نعمتوں میں سے کون سی واپس لے لی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دُعاگو رہتے: اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ،’’ اے اللہ آپ کی عطا کردہ نعمتوں کے زوال سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں‘‘۔
سیرتِ فاروقؓ بھی سیرتِ رسولؐ کا جزو لازم ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے اہل ایمان کو وہ ہیبت و عزت عطا ہوئی کہ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نہ تو بیت اللہ کا طواف کرسکتے تھے نہ وہاں جاکر نماز ہی پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔ وہی اہل مکہ جو کسی کے قبول اسلام کی بھنک پڑجانے پر اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دیتے تھے، اُن میں سے ایک ایک کے دروازے پر خود جاکر بتایا: سنو! مَیں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یہ صدمہ خیز خبر سن کر بس اتنا کہ کر دروازہ بند کرلیتے ’’نہیں … ایسا نہ کرو‘‘۔ مکہ کے اس تاریخی دن سے لے کر مدینہ میں شہادت کے آخری لمحے تک اس عظیم شخصیت نے اہل اسلام اور اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک سنہری باب رقم کیا۔ ہجری تاریخ کا آغاز بھی آپ ہی کے دورِ امارت میں ہوا۔ ایک بار ایک تحریر آئی جس پر ’شعبان‘ لکھا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ یہاں ’شعبان‘ سے مراد گذشتہ شعبان ہے یا آیندہ؟ پھر فرمایا کہ ہمیں سالانہ تاریخ، یعنی کیلنڈر کا تعین کرنا چاہیے۔ مختلف تجاویز آئیں۔ حضرت علی بن طالبؓ نے ہجرتِ نبویؐ کا مشورہ دیا۔ آپؐ نے اس کی تحسین کی اور اسی پر سب کا اجماع ہوگیا۔
۱۴۳۸ہجری شروع ہونے پر جائزہ لیں تو جدید سے جدید فلاحی ریاستوں کے بہت سارے اقدام وہ ہیں جو اس عبقری شخصیت نے شروع کیے تھے۔ ان تمام اقدامات کے پیچھے اصل قوت محرکہ بھی اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کی جنت کی طلب کے سوا کچھ نہ تھا۔
شام ڈھلے ایک قافلہ مدینہ اُترا تو سربراہ ریاست نے عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا کہ اجنبی قافلہ ہے، ان کی دیکھ بھال اور پہرے کی خاطر آج رات ہم ڈیوٹی دیں گے۔ کچھ رات ڈھلے ایک بچہ شدت سے رونے لگا۔ فاروق اعظمؓ نے قریب جا کر ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے پکارا: ’’اللہ سے ڈرو، بچے کا دھیان رکھو، اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ‘‘۔ اگلے پہر اسی بچے کی آواز دوبارہ آئی تو پھر جاکر ماں کو متوجہ کیا: ’’کیسی ماں ہو؟ بچے کو چپ نہیں کرواتی؟‘‘ ماں نے افسردہ آواز میں کہا: ’’اس کا دودھ چھڑوایا ہے لیکن یہ کچھ اور کھا پی نہیں رہا‘‘ کتنی عمر ہے بچے کی؟ ابن الخطاب نے دریافت کیا۔ اتنے ماہ، ماں نے بتایا۔ اتنی چھوٹی عمر میں دودھ کیوں چھڑوارہی ہو؟ ماں نے تڑپ کرکہا: کیوں کہ عمر بن الخطاب نے بچوں کا دودھ چھڑوانے پر ہی ان کے لیے وظیفہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رات گزر گئی۔ فجر کی جماعت کرواتے ہوئے امیر المؤمنین کی تلاوت بار بار ہچکیوں میں ڈوب جاتی تھی۔ نماز پڑھائی اور پھر پکار کر کہا: عمر تو تباہ ہوگیا۔ نہ جانے اس نے کتنے بچے مار ڈالے ہوں گے۔ آیندہ ہر بچے کی پیدایش ہی سے اس کا وظیفہ بیت المال سے جاری ہو جائے گا۔ مائیں اپنے بچوں کو پورا عرصۂ رضاعت دودھ پلایا کریں۔
ایک ایک قافلے اور ایک ایک بچے کی خبرگیری سے لے کر قیصر ، روم اور کسری فارس کے تاج و تخت فتح کرنے تک وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ساڑھے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی ریاست سب سے مضبوط عالمی قوت بن گئی۔
آخری حج کیا تو بے اختیار یہ دُعا بھی کی کہ پروردگار موت آئے تو شہادت کی موت آئے اور اپنے نبی کے شہر میں مرنا نصیب فرما۔ سننے والوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ شہادت کے لیے تو میدان جہاد کی طرف جانا ہوگا۔ آپ اپنے حبیب کے شہر میں شہید ہونا چاہتے ہیں..؟ ذی الحج کے چند ہی روز باقی تھے کہ محراب نبیؐ میں امامت کرواتے ہوئے امیر المومنین پر ایک مجوسی ابولولوہ فیروز نے دو دھاری خنجر سے حملہ کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔ ۱۳ مزید نمازی بھی زخمی کردیے جن میں سے سات شہید ہوگئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بعد میں قاتل کے بارے میں پوچھا کہ کون تھا؟ جواب سننے پر بے اختیار فرمایا: الحمدللہ کسی مسلمان نے اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ شہادت کی دہلیز پر بیٹھے امیر المؤمنین کے یہ چند الفاظ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما دنیا سے رخصت ہوئے تو تینوں کی عمر۶۳ برس تھی۔
حضرت امام حسینؓ اور ان سے پہلے حضرت امام حسنؓ نے آخری لمحے تک مسلمانوں کے مابین فتنہ واختلاف ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط بھیج بھیج کر بلانے والے اہل کوفہ بھی جب بے وفائی کا عنوان بن گئے تو آپ نے مدینہ واپس لوٹ جانے سمیت ان کے سامنے وہ تمام ممکنہ صورتیں تجویز کردیں کہ جن کے نتیجے میں قتل وغارت سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن فتنہ جُو عناصر نے ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ ان کی اکلوتی شرط یہ تھی کہ نواسۂ رسولؐ اور دیگر صحابہ کرامؓ آمرانہ اقتدار کی بیعت کرلیں، امام ذی شان نے جسے یکسر مسترد کردیا۔ جامِ شہادت نوش کرلیا لیکن صفحۂ تاریخ پر یہ بھی ثبت کردیا کہ ؎
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
ذرا صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت میں شائع شدہ سابق صہیونی وزیر داخلہ جدعون ساعد اور جنرل(ر) جابی سیبونی کے مشترکہ مقالے کا شائع شدہ خلاصہ ملاحظہ فرمائیے جو انھوں صہیونی قومی سلامتی کے ریسرچ سنٹر کے لیے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ شمالی عراق اور شام میں ایک نئی کرد ریاست، اس کے مغرب میں علوی، جنوب اور مشرق میں دُرزی اور وسطی علاقے میں سُنّی ریاست کا قیام صہیونی ریاست کی اسٹرے ٹیجک ضرورت ہے‘‘۔ ادھر امریکا کے سابق نائب وزیر خارجہ کا ارشاد ہے کہ ’’ یمن کو متعدد چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردینا ہی تنازعے کا سب سے بہتر حل ہے‘‘۔ متعدد اسرائیلی تحقیقی مراکز کی یہ تجاویز اب ایک کھلا راز ہیں کہ گذشتہ صدی کے اوائل میں صہیونی ریاست کے گرد قائم کیے جانے والے ممالک اب تشکیل نو کے محتاج ہیں۔ ان ممالک کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر قائم باہم متصادم مختصر ریاستوں میں بدلنا ہماری ترجیح اول رہنا چاہیے‘‘۔
معروف عبرانی ویب سائٹ ہیڈبروٹ نے حال ہی میں ’خدشہ‘ یا ’اُمید‘ ظاہر کی ہے کہ عنقریب سعودی عرب اور ایران میں خوف ناک جنگ بھڑکنے والی ہے جس میں ایٹمی ہی نہیں کیمائی اور حیاتیاتی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان امریکی تجزیوں ، مقالوں اور کتابوں کی اشاعت میں تیزی آگئی ہے جن میں بالخصوص سعودی عرب کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا میں قانون سازی ہو رہی ہے کہ نائن الیون میں مرنے والوں کے ورثا اب سعودی عرب سے بحیثیت ریاست تاوان اور خون بہا کا مطالبہ کر سکیں گے۔ امریکی دانش وَر سارہ چیکس (Sarah Chaycs) اور ایلیکس دوول کی مشترکہ ریسرچ کا عنوان ہی ساری حقیقت بیان کررہا ہے: Start Prepairing for the collapse of the Saudi Kingdom' (سعودی مملکت کے خاتمے کی تیاری کر لیجیے)۔ معروف امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ نے US Strategy in the Muslim World After 9/11 (نائن الیون کے بعد عالم اسلام میں امریکی حکمت عملی) کے عنوان سے اپنی سفارشات میں لکھا ہے: ’’امریکا مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو استعمال کرے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق شیعہ سُنّی، جدید و قدیم، اور علاقائی طاقتوں کے نفوذ پر مشتمل جھگڑوں کو بڑھانا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ سفارشات میں ’مدارس کی اصلاح‘ کے نام پر تجویز کیا گیا ہے کہ مغرب اور امریکا کے خلاف پائے جانے والے جذبات پر قابو پانے کے لیے نصاب میں تبدیلی اور مساجد کے سرکاری ائمہ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ۲۰۰۳ء میں بھی یہی امریکی ادارہ اسلامی تحریکات اور روایتی علماے کرام کے مقابلے میں ’روشن خیال‘ اور ’صوفی‘ اسلام عام کرنے کی تجویز دے چکا ہے۔ بعد میں جناب پرویز مشرف سمیت کئی حکمران انھی الفاظ کی جگالی کرتے رہے۔ قرآن کریم بتا تا ہے کہـ: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ج وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ط ( اٰل عمرٰن۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔
دشمنوں سے کیا شکوہ … ان سے عداوت کے علاوہ اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حالیہ حج کے موقعے پر اعلیٰ ترین شیعہ پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بعد درجنوں شیعہ رہنماؤں کے بیانات دیکھ لیجیے۔ سعودی حکمران خاندان سے لے کر نعوذ باللہ خود حرمِ مکہ کے بارے میں کیا کیا الفاظ اور کارٹون نہیں شائع ہوگئے۔ سعودی عرب کے خلاف انتہائی جذباتی جنگی ترانوں کی بھرمار ہے۔سعودی مفتی اعظم عبد العزیز آل شیخ نے بھی ترت جواب دیتے ہوئے ان سب کو خارج از اسلام قرار دے دیا۔ حج کوٹے کے لیے ایران و سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات بوجوہ ناکام ہوگئے۔ اگرچہ ایرانی حجاج کی ایک بڑی تعداد عراقی اور شامی دستاویزات پر حج کے لیے آئی، لیکن براہ راست اور غالب اکثریت کی حج میں عدم شرکت کو بھی طرفین نے ایک دوسرے کے خوب لتے لینے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ اس تناؤ اور جھگڑے کا ایک مظہر یہ بھی سامنے آیا کہ عین حج کے دن(۹ ذی الحج) کو کربلا میں شیعہ زائرین کا لاکھوں کا اجتماع منعقد ہوا۔ اپنے معتقدات کے مطابق اس اجتماع پر کوئی اعتراض نہیں کیاجاسکتا لیکن گذشتہ تقریباً تین سال سے ایک پوری تبلیغاتی مہم یہ چلائی جا رہی ہے کہ آخر ہم حج وعمرے کے لیے جاتے ہی کیوں ہیں؟ اس سے سعودی عرب کو معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ’’زیارِت کربلا کا اجر ۱۰لاکھ حجوں کے اجر سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ اس آخری بات پر مشتمل لا تعداد تقاریر کی ویڈیو عام کی جارہی ہیں۔
ادھر شام میں بشار الاسد اور روس مسلسل بم باری کررہے ہیں ۔ انھیں امریکا کی بالواسطہ حمایت حاصل ہے (بدقسمتی سے ایران بھی ان کا بھرپور اور علانیہ ساتھ دے رہا ہے)۔ شام کا شہر ’حلب‘ ماہِ ستمبر میں اس تباہی کا خصوصی نشانہ بنا۔ ۹۰سے زائد شہدا تو صرف ۲۴ستمبر کو ہوگئے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں روزافزوں بھارتی درندگی، پاکستان کو ملنے والی مسلسل اور سنگین دھمکیاں، مصر اور بنگلہ دیش میں ہزاروں بے گناہوں کی قید اور پھانسیاں اور مختلف ممالک کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی، پاکستان اور ترکی میں دہشت گردی کی مسلسل کارروائیاں …کیا ہم دشمن کی کسی مزید سازش کے محتاج ہیں؟
نیا ہجری سال، ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد، سیرت فاروق و حسین (رضی اللہ عنہما) اور یومِ عاشور کی اہمیت ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے اس تباہی سے بچ جانے کی دہائیاں دے رہی ہے۔ اگر ہم شہادتِ امام حسینؓ سے یہ روح و جذبہ حاصل کرلیں کہ اقتدار کو سنت ِ نبویؐ اور خلفاے راشدینؓ کی منہج پر واپس لانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اگر ہم ریاست مدینہ کے قیام و دفاع کی سنت نبویؐ و فاروقی کی راہ اپنالیں، تو پھر تمام تر آزمایشوں اور تباہی کے باوجود آج کے فرعونوں پر غلبہ یقینی ہوگا۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور۲۴: ۵۵) تم میں سے ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں اقتدار عطا کرے گا۔
۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کا دن ترک تاریخ میں ایک عظیم الشان دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ترک فوج کے ایک عنصر نے ترکی کی جمہوری اور دستوری حکومت کے خلاف انقلاب کی ناکام کوشش کی۔ طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی ناکامی میں، ان ترک عوام کی کوششوں اور دعائوں کا دخل تھا جو اپنے صدر کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی میں مقیم ہی نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ستم رسیدہ عوام صدر طیب اردوان کی حفاظت و کامیابی کے لیے دُعاگو تھے۔ لاکھوں شامی مہاجرین، اہل غزہ و فلسطین، اراکان (برما) و صومالیہ کے مصیبت زدگان، مصر اور بنگلہ دیش میں ظلم کے شکار بے گناہ... غرض جہاں جہاں صدر اردوان کے خلاف بغاوت کی خبریں پہنچیں، لاکھوں نہیں کروڑوں عوام نے ان کی سلامتی اور باغیوں کی شکست کی دُعا کی ۔
بغاوت کی اطلاع ملتے ہی خود صدر اردوان کا پہلا ردعمل بھی دیکھ لیجیے۔ وہ اس وقت ترکی کے جنوبی شہر مرمریس کے ایک ہوٹل میں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔ انھوں نے اگلے روز وہاں ایک اہم عوامی منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔ ان کے داماد نے انھیں جب بغاوت کی اطلاع دی تو چند بنیادی اور ابتدائی سوالات کرنے کے بعد وہ اُٹھے، وضو تازہ کیا، دور رکعت نماز ادا کی اور بغاوت کا راستہ روکنے کے عمل کا آغازکردیا۔ سرکاری ٹی وی پر قابض باغیوں کی طرف سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان پڑھا جاچکا تھا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ ترک مسلح افواج ریاست کا اہم اساسی جزو ہیں۔ یہ ملک قائد عظیم اتاترک کی امانت ہے۔ ہم ملک میں سیکولر نظام ریاست اور جمہوریت لانے کے لیے اور دنیا میں ترکی کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ... ایمرجنسی، مارشل لا اور کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ صدر اردوان نے ایک پرائیویٹ ترک چینل کو سکایپ کے ذریعے ۱۲سیکنڈ پر مشتمل پیغام میں فوجی بغاوت مسترد کرتے ہوئے عوام کو مزاحمت کرنے کا کہا اور اپنے صدارتی جہاز کے بجاے ایک چھوٹے پرائیویٹ جہاز میں استنبول کے لیے روانہ ہوگئے۔ خدانخواستہ مزید ۱۵ منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو اس ہوٹل پر باغی کمانڈوز کی بم باری کا شکار ہوجاتے۔
استنبول ایئرپورٹ پہنچے تو فضا میں باغیوں کے دو ایف-۱۶ طیارے اُڑ رہے تھے۔ پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو عام پرائیویٹ جہاز کی لینڈنگ کے لیے ہی اجازت چاہی (یہ ساری گفتگو نشر ہوچکی ہے)۔ اسی اثنا میں ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے کے لیے آنے والے باغیوں کو عوام اور اسپیشل پولیس فورس کے دستوں نے بے دست و پا کر دیا تھا۔ وہاں پہنچ کر ترک سی این این کو موبائل فون ہی سے فیس ٹائم کے ذریعے انٹرویو دیا___ چہرے پر کامل اعتماد، مختصر جملوں پر مشتمل پُرعزم پیغام! تمام تر خطرات کے باوجود اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر ملک کے طول و عرض میں عوام والہانہ طور پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترک فوج کے سربراہ کے بقول ’’صدر اردوان کو استنبول ایئرپورٹ پر اپنے عوام کے ساتھ دیکھ کر باغیوں کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے‘‘۔ باغیوں نے درجنوں شہری ٹینکوں کے نیچے کچل دیے، ہیلی کاپٹروں اور اونچی عمارتوں پر تعینات باغیوں نے فائرنگ سے مزید کئی درجن شہید کردیے۔ بغاوت کا حکم نہ ماننے والے کئی فوجیوں کو ان کے افسروں نے گولیاں مار کر شہید کردیا لیکن عوام کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہ آئی۔
سڑکوں پر آنے والے ترک عوام فوجی انقلاب کا مطلب سمجھتے تھے۔ وہ طیب حکومت کی برکتوں کا بھی مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس لیے جان پر کھیلتے ہوئے گولوں، گولیوں اور ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ ایک شہری نے کہا کہ میرے مرحوم دادا ہمیشہ خلافت عثمانی کے خاتمے پر آنسو بہایا کرتے تھے۔ میرے والد عدنان مندریس کی شہادت پر اکثر رویا کرتے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اور آیندہ نسلیں طیب اردوان کو یاد کرکرکے آنسو بہاتے رہیں۔
فوجی بغاوت ناکام بنانے والے ترک عوام کو کمال اتاترک کے پہلے فوجی انقلاب کے بعد عوام سے ان کی شناخت چھین لینے سمیت تمام مظالم یاد تھے۔اس کی طرف سے قرآن و اذان پر لگائی گئی پابندی بھی یاد تھی اور پردے و مشرقی لباس کی ممانعت بھی یاد تھی۔ انھیں اتاترک کا یہ خطاب بھی یاد تھا کہ ’’ہمارے وضع کردہ نظام کا ان اصولوں سے کیا موازنہ جو اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنے اصول براہِ راست زندگی سے اخذ کیے ہیں، کسی آسمانی یا غیب پر مبنی تعلیمات سے نہیں‘‘ ۔پارلیمنٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اب بیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ ہم دستور سازی کے لیے کسی ایسی کتاب کے پیچھے نہیں چل سکتے جو تین و زیتون کی باتیں کررہی ہو‘‘۔ اتاترک اور اس کا وضع کردہ دستور اب بھی ترکی میں بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کے بارے میں ترک عوام کی ایک بڑی اکثریت جو جذبات رکھتی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب سنایا کرتے تھے کہ انھیں حرم میں ایک ترک باباجی ملے، تعارف کے بعد جیب سے ایک ترک نوٹ نکال کر اور اتاترک کی تصویر دکھا کر پوچھنے لگے کہ معلوم ہے یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، یہ اتاترک (باباے ترک) ہے۔ باباجی نے پوری شدت سے آخ تھو کرکے نوٹ پر تھوکتے ہوئے کہا :اتاترک نہیں اتاکفر ... اتاکفر!
ترکوں کو ۱۹۶۰ء میں عدنان مندریس کے خلاف فوجی انقلاب بھی یاد ہے۔ عدنان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن و اذان کی بحالی کی سزا پھانسی کی صورت میں دی گئی۔ ۱۹۷۱ء اور پھر ۱۹۸۰ء میں بھی یہی فوجی باغی منتخب حکومتیں گرانے میں کامیاب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں کنعان ایورین نے بھی اپنے پیش رو جرنیلوں کی طرح عوام پر ظلم کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ انقلاب سے پہلے دوسال دہشت گردی کی مختلف کارروائیاں کروائی گئیں جن میں ۵ ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ انقلاب کے بعد ساڑھے چھے لاکھ شہری گرفتار کرلیے گئے۔ ۲ لاکھ ۳۰ہزار افراد پر مقدمات چلائے گئے۔ ۵۱۷شہریوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ ۲۹۹ قیدی دوران حراست تشدد کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔ ۱۵ لاکھ افراد کے وارنٹ جاری ہوئے، ۳۰ ہزار سے زائد گرفتاری سے بچنے کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ ۴ ہزار سے زائد اساتذہ اور پروفیسر برطرف کردیے گئے... ان اعداد و شمار کی مزید تفصیل باقی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ فوج نے ہر شہری کو یہ پیغام دیا کہ وہ کمال اتاترک سے ورثے میں ملنے والے سیکولرازم کی حفاظت کے نام پر کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔
صدر مملکت کے منصب پر براجمان رہنے کے بعد کنعان ایورین تو رخصت ہوگئے، لیکن فوج نے بعد میں بھی باقاعدہ انقلاب کے بغیر کئی منتخب حکومتوں کو چلتا کیا۔ منتخب وزیر اعظم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی حکومت ختم کردینے کے علاوہ ان کی جماعت بھی غیر قانونی قرار دے دی۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ ’’انھوں نے وزیراعظم ہاؤس میں دعوتِ افطار کا انعقاد کیا جس میں کئی علما داڑھیوں اور ٹوپیوں سمیت شریک ہوئے اور اتاترک کی روح تڑپ اُٹھی‘‘۔ استنبول کے کامیاب ترین میئر رجب طیب اردوان کو اس جرم کی پاداش میں ۱۰ ماہ کے لیے جیل بھیج کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ایک معروف ترک شاعر کی نظم کے چند اشعار ایک جلسۂ عام میں پڑھے تھے کہ یہ مسجدیں ہمارے معسکر ہیں، اس کے گنبد ہماری ڈھالیں اور اس کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔
خدا کی قدرت ملاحظہ ہو کہ ۱۸ سال بعد اللہ نے ان اشعار کو حقیقت بنا دیا۔ حالیہ بغاوت کے دوران میں ترکی کی ۸۵ ہزار مساجد سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے آدھی رات کے وقت اذانیں شروع ہوگئیں ... عوام سے میدان میں آنے کی اپیل بھی کی جانے لگی... مسنون دُعائیں بلند ہونے لگیں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تانے شہری ایک ہی سرمدی نغمہ گانے لگے یا اللہ ... بسم اللہ ... اللہ اکبر! خلافت عثمانی کی سطوت کے دوران عثمانی لشکر بھی یہی تکبیر بلند کیا کرتے تھے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز کے کالم نگار انشیل پیبر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’اس میں شک نہیں کہ انقلاب کی ناکامی میں مساجد کا کردار بہت نمایاں تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آخری فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ترکی کتنا بدل چکا ہے‘‘۔ اللہ کے گھروں اور اللہ کے بندوں کے مابین یہ تعلق گہرا ہوجانے پر ان کے بہت سے مخالفین کا دکھ مزید گہرا ہوگیاہے۔ آج عالم یہ ہے کہ بغاوت کی ناکام کوشش کو دو ہفتے سے زائد گزر گئے، لیکن ترک شہری اب بھی ہزاروں کی تعداد میں رات سڑکوں پر گزارتے ہیں۔ اس دوران میں آیات جہاد و شہادت کی تلاوت ہوتی ہے، پُرعزم تقاریر ہوتی ہیں اور سب شہری اپنے عزائم و ارادوں میں مزید یکسو ہوجاتے ہیں۔
بغاوت کے اس شر سے ایک خیر یہ بھی برآمد ہوا کہ ترکی کی تمام سیاسی پارٹیاں بتدریج یک جا اور یک آواز ہوگئیں۔ مارشل لا کے اعلان، ریاست کے مختلف اہم دفاتر پر قبضے میں ناکامی، صدر اردوان کے پیغام اور عوام کے سڑکوں پر نکل آنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام پارٹیاں بھی فوجی بغاوت کے خلاف یکسو اور مضبوط تر ہوتی گئیں۔ ان سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو یہ کریڈٹ بہرحال ملتا ہے کہ انھوں نے عین اس وقت کہ جب ایک طرف باغی فوجی پارلیمنٹ پر راکٹ برسا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت نے اسی روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا اعلان کردیا، تو انھوں نے اس میں شرکت کا اعلان کیا اور پھر متفق علیہ قرارداد پاس کرتے ہوئے بغاوت کو مسترد کردیا۔ ۲۴ جولائی کو انقرہ میں سب سیاسی جماعتوں کا بغاوت مخالف مشترک شان دار مظاہرہ ہوا اور ۲۵ جولائی کو تینوں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ صدر اردوان سے ملاقات کے لیے قصر صدارت گئے۔ تمام تر نظریاتی، سیاسی اور ذاتی اختلافات کے باوجود ان تمام رہنماؤں کا اکٹھے بیٹھنا یقینا ملک و قوم کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا۔
حالیہ فوجی بغاوت کو سیاسی رہنماؤں نے ہی نہیں، عسکری قیادت کی واضح اکثریت نے بھی مسترد کردیا۔ سب سے اہم اور سب سے بنیادی انکار تو خود چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی آکار کا تھا۔ باغی فوجی جب ان کے پاس اسلحہ تانے پہنچے اور اعلان انقلاب پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے انھیں اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ باغیوں نے پہلے تو لالچ دیے اور کہا کہ آپ ملک کے دوسرے کنعان ایورین بنا دیے جائیں گے۔ وہ پھر بھی نہ مانے تو ان کا گلا گھونٹتے ہوئے دستخط کروانا چاہے، اس پر بھی نہ مانے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ غالب فوجی قیادت کے انکار کے باوجود بھی بغاوت کرنے والوں کی تعداد کم نہ تھی۔ سیکڑوں اعلیٰ فوجی افسر اور ان کی کمانڈ میں کام کرنے والے ہزاروں افراد اس میں عملاً شریک ہوگئے تھے۔ اگرچہ عام افراد کو بغاوت کا علم نہیں تھا اور انھیں مختلف غلط بیانیاں کرکے میدان میں لایا گیا تھا۔ صدر اردوان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والے خصوصی کمانڈو دستے کے اکثر افراد کو صرف یہ بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرنے جارہے ہیں اور اس کارروائی میں جان بھی جاسکتی ہے‘‘۔
کئی فوجی جرنیلوں نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا ہے۔ ان کے واضح اعترافات سے یہ بحث بھی اپنے عروج پر جا پہنچی کہ بغاوت کے پیچھے کارفرما اصل قوت کون سی ہے؟ ان میں سے ایک اہم اعتراف ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل لفنت تورکان کا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ۱۹۸۹ء سے فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ ہے اور اس بغاوت کا فیصلہ ہماری اعلیٰ قیادت ہی نے کیا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی نے اٹارنی جنرل کے سامنے اپنے بیان حلفی میں بتایا ہے کہ ’’بریگیڈیئر محمد ڈچلی ان کے پاس آئے اور انقلاب کی خبر دیتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ میں نے انھیں اس کے نتائج و عواقب سے خبردار کرتے ہوئے اس سے باز رکھنا چاہا لیکن وہ نہ مانے۔ چیف نے یہ بھی بتایا کہ انھیں اقنجی ایئربیس پر لے جایا گیا تو ایئربیس کے سربراہ ہاکان (خاقان) افریم نے انھیں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہوئے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن سے فون پر بات کروانے کی بھی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کردیا‘‘۔
۱۹۹۸ء سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں مقیم جناب فتح اللہ گولن، ان کی جماعت ہزمت (خدمت)، ان کے ادارے رومی فاؤنڈیشن اور دنیا بھر میں پھیلے ان کے عالی شان تعلیمی اداروں کے بارے میں حسن ظن رکھنے والے ایک دور نویس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بغاوت میں ان کے ملوث ہونے یا نہ ہونے پر کوئی حتمی راے دے، لیکن بعض حقائق انتہائی اہم ہیں۔
انتہائی ذمہ دار ترک احباب کے بقول اس امر میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن ایک طویل عرصے سے اہم ملکی اداروں میں اپنا براہِ راست نفوذ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ ترکی کے ایک سفر کے دوران ہم نے بھی سنا کہ فتح اللہ گولن نے رکوع و سجود کے بغیر نماز پڑھنے کا فتویٰ دے دیا ہے۔ ہم نے ان کے قریبی ساتھیوں سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ چوں کہ سیکولر ترک فوج میںکسی نمازی کو بھرتی ہونے اور ترقی دینے سے پہلے اس کی پیشانی، ٹخنوں اور گھٹنوں پر نماز کے اثرات و نشان چیک کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ باقاعدہ رکوع و سجود کے بغیر اشاروں سے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یہی نفوذ حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بظاہر خود کو سیاست سے بالکل الگ رکھا ہے۔ ان کے پیروکاروں میں بارہا یہ سننے کا موقع ملتا ہے کہ أعوذ باللّٰہ من السیاسۃ لیکن عملاً نہ صرف ترکی بلکہ بیرون ترکی بھی سیاست دانوں، صحافیوں اور متمول افراد سے ان کا خصوصی رابطہ رہتا ہے۔ نیوز ایجنسی، اخبارات اور ٹی وی چینلوں سمیت پوری ابلاغیاتی دنیا ہے۔ فعال بنک اور یوتھ ہاسٹلوں کا بڑا جال ہے۔ فتح اللہ گولن صاحب اگرچہ معروف ترک مصلح بدیع الزمان سعید نورسی کا تسلسل سمجھے جاتے ہیں لیکن عملاً نورسی تحریک کا ان سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ نورسی تحریک کی وارث وہ دیگر چار تنظیمیں ہیں جو اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تقسیم ہوگئیں لیکن ان کی تمام تر سرگرمیاں مرحوم نورسی کے لٹریچر اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے گرد گھومتی ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک رینڈ( RAND) نے عالم اسلام کے بارے میں اپنی جو معروف سفارشات شائع کیں، اور ان میں اسلامی تحریکات پر ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل لگا کر ان کے مقابلے میں ’صوفی اسلام‘ کی پشتیبانی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ ان میں بھی فتح اللہ گولن کے بارے میں کہا گیا کہ : ’’یہ ترک دینی رہنما ماڈریٹ صوفی اسلام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ بحیثیت ریاست نفاذِاسلام کے بجاے، دین کو افراد کی نجی زندگی کا مسئلہ قرار دیتے ہیں جو ریاست و حکومت میں بہت محدود مداخلت کرتا ہے۔ ان کے بقول شریعت اسلامی کا نفاذ ریاست کا کام نہیں، یہ ایک شخصی مسئلہ ہے۔ کسی مخصوص دین کے قوانین تمام شہریوں پر لاگو نہیںکیے جاسکتے‘‘۔ گذشتہ ۱۰ سال سے محصور اہلِ غزہ پر ہونے والے مظالم اُجاگر کرنے اور محصورین کے لیے غذائی سامان اور ادویات لے جانے کے لیے جب ایک ترک امدادی تنظیم عوامی اور صحافتی نمایندوں کو شریکِ سفر کرتے ہوئے فریڈم فلوٹیلا لے کر گئی اور صہیونی فوج نے حملہ کرکے نوترک شہری شہید کردیے تو اس وقت بھی فتح اللہ گولن کا یہ موقف بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا کہ: ’’اسرائیل ہمارا دوست ملک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کی سرحد میں داخلے کی کوشش کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔ ان ترک شہریوں کے قتل کی ذمہ دار ترک حکومت ہے‘‘۔
ان حقائق کے ساتھ ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اہم ہے کہ صدر اردوان گذشتہ کئی سال سے انھیں ترکی میں ایک متوازی ریاست کی حیثیت اختیار کرجانے کا الزام دے رہے ہیں۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن تحریک کے زیر اہتمام مختلف امتحانات بالخصوص ملٹری اکیڈیمی کے امتحانات کی تیاری اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھی کئی ادارے قائم کیے گئے۔ ذرا ایک بار پھر ڈپٹی چیف آف سٹاف کے اعترافات ملاحظہ فرمائیے۔ جنرل تورکان کہتے ہیں کہ وہ ’’۱۹۸۹ء میں فوج سے وابستہ ہونے کے لیے امتحان کی تیار کررہے تھے۔ میرے اس ارادے اور خواہش کا فتح اللہ گولن کی تحریک کے ساتھیوں کو بھی علم تھا۔ اگرچہ مجھے امتحان میں کامیابی کا یقین تھا، لیکن امتحان سے ایک رات پہلے فوج سے منسلک سردار اور موسیٰ نام کے دو افراد آئے اور مجھے چند سوالات پر مشتمل پرچہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کی تیاری کرلو صبح امتحان میں آئیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور میں بآسانی اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوگیا۔ اس کے بعد اس تحریک کے ذمہ داران سے مسلسل رابطہ رہا‘‘۔
ملٹری اکیڈیمیوں کے امتحان میں شامل ہونے والے افراد میں روابط بڑھاتے ہوئے انھیں پہلے سے سوالات فراہم کرنے کے پورے نظام کے بارے میں عسکری ذرائع کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ تقریباً چھے سال قبل یہ پورا نظام بے نقاب ہوا۔ اس کے بعد فوج اور بیوروکریسی ہی کے نہیں، عمومی تعلیمی نظام اور انٹری ٹیسٹ کے نظام میں بھی جوہری تبدیلیاں کردی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق امتحان سے قبل مخصوص لوگوں کو سوالات فراہم کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ ملانے کاپورا نظام ختم ہوا تو عجیب صورت حال سامنے آئی۔ ۲۰۱۰ء ملٹری اکیڈمی کے امتحان میں ریاضیات میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے والوں کی تعداد ۱۲۱۴ تھی۔ یہ چور راستہ بند کیا گیا تو ۲۰۱۴ء میں ریاضیات میں پاس ہونے والے صرف دو، ۲۰۱۵ء میں صفر، اور ۲۰۱۶ء میں صرف چار تھے۔ ترک اُمور پر نگاہ رکھنے والے احباب کو اس امتحانی نظام میںتبدیلی کے بعد گولن تحریک کا احتجاج یقینا یاد ہوگا۔
حالیہ ترک ناکام بغاوت کے بعد فتح اللہ گولن صاحب کی شخصیت و افکار کے بارے میں جو بہت سی نئی معلومات سامنے آئیں، ان میں ایک حیرت انگیز بات ان کا اپنے مریدوں کے سامنے خطاب بھی ہے۔ ترک زبان میں اس خطاب کی ویڈیو عربی ترجمے کے ساتھ ترکی سے موصول ہوئی ہے۔ نسبتاً عہد جوانی کے اس خطاب میں وہ انکشاف فرماتے ہیں کہ خواب میں نہیں،عالم کشف میں انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوںنے ترکی کی نگہبانی میرے سپرد کردی ہے۔ اس انکشاف سے پہلے کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی حضرت صاحب کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب اور آں حضور کے لیے (نعوذ باللہ) ٹکٹ اور پاکستانی ویزا فراہم کرنے جیسے ناقابلِ برداشت دعوے نہ سنے ہوتے، تو شاید ان کے اس دعوے پر زیادہ حیرت نہ ہوتی۔
ناکام بغاوت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں پر اردوان کے مخالفین ہی میں نہیں ان کے خیرخواہوں میں بھی ایک فطری تشویش پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے، نہ چھوٹی موٹی غلطی ہی پر کڑی سزا۔ اگرچہ بے گناہی ثابت ہونے پر اب تک ۱۲۰۰فوجی رہا کیے جانے سے اس تشویش میں قدرے کمی آئی ہے۔ وزیراعظم یلدریم نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شہری کو بھی اس کے قانونی دفاع اور حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ خود صدر اردوان کا یہ بیان بھی بہت اہم ہے کہ متوازی ریاست ختم کرنے کا مطلب گولن تحریک کا خاتمہ نہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی انتہائی اہم ہے کہ: ’’بغاوت کے پیچھے اصل ہاتھ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک سے کہیں بڑا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ انقلاب کی خبر آتے ہی تمام امریکی، یورپی، اسرائیلی،روسی اور کئی عرب حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کا لہلہا اُٹھنا بلا سبب تو نہیں ہوسکتا۔ ترک اخبارات نے ۲۴جولائی کو انتہائی باخبر سیکورٹی ذرائع سے ایک تفصیلی خبر شائع کی ہے، جس کے مطابق اس بغاوت کی اصل کمانڈ افغانستان میں ناٹوافواج کے امریکی سربراہ جنرل جان کیمبل کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے گذشتہ عرصے میں ترکی کے متعدد دورے بھی کیے اور اس کے ماتحت افسروں نے نائیجیریا کے UBA بنک سے ۲؍ارب ڈالر ترکی منتقل کیے۔ رپورٹ میں ان افسران کے فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم سے روابط پر بھی تفصیل موجود ہے۔اس رپورٹ کی اشاعت کے اگلے روز افغانستان میں متعین دو ترک فوجی جرنل بھی براستہ دبئی فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔
آغاز بغاوت کے فوراً بعد انقرہ میں امریکی سفارتخانے نے اپنا جو بیان جاری کیا تھا اس پر اس بغاوت کو ترک انتفاضہ (Turkish Uprising)کا نام دیا گیا۔ ناکامی کے بعد یہ بیان سفارت خانے کی ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا، لیکن اس کی تصاویر اور تلخ اثرات کبھی حذف نہیں ہوسکتے۔ وزیر خارجہ جان کیری نے بھی بغاوت کچلے جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ Turkey Coup does not apear to be brilliantly planned or executed۔ گویا آں جناب کو فوجی انقلاب کے منصوبے اور اس پر عمل ناقص رہنے کا غم ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بریڈ شرمین (Brad Sherman)کا ارشاد تھا: ’’اُمید ہے ترکی میں فوجی اقتدار وہاں حقیقی جمہوریت لائے گا‘‘۔ نہتے عوام نے باغیوں کے ارادے خاک میں ملا دیے تو پوری دنیا میں ان خوشی سے بغلیں بجانے والوں پر اوس پڑگئی۔ مشرق وسطیٰ کی مزید تقسیم کے نقشے پھیلانے والے معروف امریکی دانش ور فوکس نیوز پر بلبلا اُٹھے: ’’ترکی میں اسلامسٹس کے بڑھتے اقدام روکنے کی آخری اُمید بھی دم توڑ گئی‘‘۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے اداریے کی دھمکی آمیز سرخی جمائی: ’’ترکی میں جمہوریت بچ نکلی لیکن آخر کب تک؟‘‘۔
دوبارہ بغاوت کا خیال بھی دل میں لانے والوں میں اگر ادنیٰ سی عقل بھی ہے، تو انھیں اب کبھی یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے۔ صدر اردوان فرشتہ نہیں انسان ہیں۔ انسان غلطیاں کرتا ہے اور کبھی پہاڑ جتنی غلطی بھی کرسکتا ہے۔ لیکن بندوق اور خوں ریزی یقینا مزید خوں ریزی ہی کا سبب بنے گی۔ ملک میں استحکام کے بجاے خوں ریزی اور تباہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کی سفاکی کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ترکی میں ۱۵ بڑی خوں ریز کارروائیاں کی گئیں۔ آخری بڑی کارروائی رمضان کے آخری عشرے کی طاق رات میں استنبول ایئرپورٹ پر کی گئی جس میں ۴۲بے گناہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ حکومت نے اپنی ترجیحات درست طور پر طے کی ہیں۔ ان کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم کے لیے وقف ہے۔ تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے دگنا ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی قوم کا اصل دفاع تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ حالیہ بغاوت کے دوران گولیوں کی بارش اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ترک قوم نے حقیقی جہاد کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
مصر کے منتخب اور قانونی صدر محمد مرسی کی صاحبزادی شیما مرسی بتاتی ہیں: ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو جب جنرل سیسی اور اس کے حواری ایک سالہ مصری جمہوریت پر شب خون ماررہے تھے، رات گئے چند لمحوں کے لیے والد محترم اپنی رہایش گاہ میں آئے۔ ہم سب اہل خانہ وہاں جمع تھے۔ ان پر تھکاوٹ غالب تھی۔ میں نے شدت جذبات سے کہا: ابو یہ مصری قوم اس قابل ہی نہیں ہے کہ آپ جیسا خدا سے ڈرنے والا اور باصلاحیت شخص ان کا حکمران بنے۔ آپ ان کے لیے اللہ کی ایک نعمت تھے، انھوں نے کفران نعمت کیا۔ انھیں فرعون حکمران ہی راس آتے ہیں۔ یہ اسی قابل ہیں کہ ایک بار پھر ڈکٹیٹر شپ کے شکنجے میں کس دیے جائیں، جو ان سے ان کے منہ کا نوالہ، ان کی زندگی اور ان کا قومی سرمایہ چھین لے۔ شیما کہتی ہیں: ابو میری بات سن کر سخت ناراض ہوگئے اور کہا :آیندہ کبھی ایسی بات زبان پر نہ لانا۔ مصری عوام تو بے چارے خود مظلوم ہیں۔ انھیں سالہا سال سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایک ظالم اور جابر ٹولہ کئی عشروں سے ان پر مسلط ہے اور ان کی بوٹیاں نوچ رہا ہے۔ ان پر ناراض نہ ہوں۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا:آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ مجھے اپنی نہیں، خود مصری عوام کی فکر ہے کہ اگر انھوں نے ظلم قبول کرلیا، ملک کے خلاف ہونے والے اس جرم اور ظلم پر خاموش رہے تو ان کا انجام جو ہوگا اس کا تصور کر کے میں لرز جاتا ہوں۔
باپ بیٹی کا یہ مکالمہ آج مصر کی ایک تلخ ترین حقیقت ہے۔ تین برسوں میں مصری عوام پر فرعون سیسی نے وہ مظالم ڈھائے ہیں، جو شاید اس سے پہلے کسی جابر حکمران نہیں ڈھائے تھے۔ پورا ملک جیل خانے میں بدل چکا ہے۔ ۴۲ ہزار بے گناہ مستقل قیدیوں کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب افراد مختلف اوقات میں جیلوں میں جا چکے ہیں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے ریکارڈ بناتی ہیں، جنرل سیسی کی حکومت ملک میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑی جیل تعمیر کرنے کا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ سیسی بغاوت کے وقت مصر میں ۳۳ جیل خانے تھے، جو گذشتہ ۳ سال میں ۵۲ ہوچکے ہیں۔ ان میں اس وقت زیر تعمیر قاہرہ اسیوط روڈ پر واقع مصر کی سب سے بڑی جیل بھی ہے جس کا رقبہ ۴ لاکھ ۳۲ ہزار ۶ سو میٹر ہے اور اس پر ۹۰ملین پاؤنڈ کا خرچ آرہا ہے۔ ۳۸۲ قید خانے اور سیکڑوں خفیہ تعذیب گاہیں ان جیلوں اور تھانوں پر مستزاد ہیں۔
تعذیب و تشدد کے نتیجے میں ۳۸۱ افراد دوران حراست شہید کیے جاچکے ہیں۔ مختلف اجتماعات اور پروگرامات پر براہِ راست فائرنگ کے نتیجے میں چار ہزار سے زائد نہتے شہری شہید کیے جاچکے ہیں۔ نام نہاد عدالتیں ملک کے منتخب صدر، متعدد وزرا اور اخوان کے مرشد عام اور اسمبلی کے اسپیکر سمیت ۲ہزار افراد کو موت کی سزا (پھانسی) سناچکی ہیں۔
گرفتار شدگان میں ۱۸ برس سے کم عمر کے ۳۲۰۰ بچے بھی شامل ہیں اور انھیں ناقابل یقین سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ۱۷ فروری ۲۰۱۶ء کو تو مصری عدالت نے انصاف کا ایک انوکھا ریکارڈ قائم کردیا۔ ساڑھے تین سالہ بچے احمد منصور قرنی کو ۱۱۵ مزید افراد کے ساتھ مل کر مصری خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پر ہلہ بولنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنادی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق: احمدقرنی نے اخوان کے ایک مظاہرے میں شریک ہوکر چار افراد کو قتل اور آٹھ افراد کو شدید زخمی کردیا جس سے ان کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ اس نام نہاد عدالت عالیہ کا یہ بے نظیر فیصلہ آنے سے پہلے، بچے کے وکلا نے اس کے برتھ سرٹیفکیٹ سمیت دستاویزات پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ تین سال پانچ ماہ کا یہ بچہ کیوں کر ایسے سنگین جرائم کرسکتا ہے؟ لیکن عدالت نے ایک نہ سنی۔ ’المرصد المصری‘ نامی قابل اعتماد ریسرچ سنٹر کے مطابق جنرل سیسی کے ابتدائی ۱۰۰ دنوں میں ۱۲ بچوں کو براہِ راست فائرنگ سے شہید کردیا گیا تھا، اس دوران میں ۱۴۴ بچے گرفتار کیے گئے تھے، جن میں سے ۷۲بچوں کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جنرل سیسی کو اقتدار میں لانے اور سہارا دینے میں امریکا اور اسرائیل کا کردار سب سے نمایاں ہے، لیکن بعض عرب ممالک کی طرف سے اس کی پشتیبانی بھی کوئی راز نہیں۔ مختلف خلیجی ریاستوں کی طرف سے اسے ۳۳؍ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی۔ منصوبوں اور سرمایہ کاری کے نام پر اربوں ڈالر کی امداد اس کے علاوہ ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ساری امداد کے باوجود مصر اور مصری عوام کی معاشی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہے۔مصری زرمبادلہ اپنی کم ترین حد تک جاپہنچا ہے۔ صدر محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تو ملکی خزانے میں ۱۷ ارب ڈالر تھے۔ ایک سالہ پُر آشوب دور اور کئی اہم اقتصادی منصوبے شروع کرنے اور پیرس کلب کے ۷۰۰ ملین ڈالر ادا کرنے کے باوجود، اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔ آج جنرل سیسی کے تین سالہ اقتدار کے دوران میں ۳۳ ارب ڈالر نقد امداد ملنے کے باوجود خزانے میں صرف ۶ئ۱۳؍ ارب ڈالر باقی بچے ہیں۔ بیرونی قرضے جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا اندازہ اسی بات سے لگائیے کہ ایک سال پہلے یعنی ۲۰۱۵ میں یہ قرضے ۴۸؍ارب ڈالر تھے، جو مئی ۲۰۱۶ میں ۸۳ ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اندرونی قرضوں کے اعداد و شمار مزید چکرا دینے والے ہیں۔ سرکاری رپورٹوں کے مطابق مصر کے اندرونی قرضے ۶ئ۲ٹریلین، یعنی ۲۶۰؍ ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو کل قومی آمدنی کا تقریبا ۸۵فی صد بنتا ہے۔ مصری سکے کی قیمت مسلسل گررہی ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بھی ایک سبب ہے۔ صدر محمد مرسی کے عہد میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پاؤنڈ کا تھا، اس وقت چند پیسے کمی آئی تھی تو ذرائع ابلاغ میں طوفان آگیا۔ آج ۱۲؍ پاؤنڈ کا ہے، لیکن اس پر کوئی احتجاج نہیں کرسکتا۔
صدر محمد مرسی پر لگائے جانے والے سنگین الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے صحافیوں پر پابندیاں لگائیں۔ خود ہمارے بعض پاکستان صحافی حضرات نے بھی اس پر خوب ردّے چڑھائے اور بھانت بھانت کے نوحے لکھے۔ جنرل سیسی کے دور جبر میں ذرائع ابلاغ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے، مگر ہمارے صحافی احباب کو شاید خبر ہی نہیں ہوسکی۔سیسی بغاوت کے فوراً بعد مصرکے ۲۷ چینل اور اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔ متعدد صحافیوں کو شہید کردیا گیا، کئی صحافتی گروپوں کے مالکان کو ہتھکڑیاں لگا کر ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان پابندیوں اور سزاؤں کا نشانہ سیسی مخالف ہی نہیں، بہت سارے ان صحافی حضرات اور صحافتی اداروں کو بھی بنایا جارہا ہے، جو صدر مرسی کے خلاف بڑھ چڑھ کر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ آج کئی بڑے میڈیا ہاؤس براے فروخت کا اعلان کرچکے ہیں۔
مئی ۲۰۱۵ء میں تاریخ میں پہلی بار پولیس نے صحافیوں کی قومی یونین کے دفاتر پر دھاوا بولا، اور متعدد صحافی گرفتار کرلیے، کئی زخمی ہوئے اور باقیوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔ یہ وہی صحافی اور دفاتر ہیں جو منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا مراکز تھے اور آج مکافات عمل کا شکار ہیں۔ صحافی آئے روز بینر لہرا رہے ہوتے ہیں۔ أنا صحفی مش إرھابی (میں صحافی ہوں دہشت گرد نہیں)۔ الحریۃ للجدعان (ہمارے بہادر صحافیوں کو رہا کرو)۔ سابق وزیر اطلاعات و نشریات صلاح عبد المقصود کے بقول صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور حکومت کے دوران ذرائع ابلاغ کا کل بجٹ ۶؍ ارب پاؤنڈ تک جاپہنچا تھا۔ اشتہارات کی آمدن صرف ڈیڑھ ارب پاؤنڈ تھی، جب کہ ساڑھے چار ارب پاؤنڈ صدر محمد مرسی کی مخالف حکومتوں کی طرف سے میڈیا کی خفیہ امداد کے طور پر پہنچ رہے تھے۔
مصری عوام ہی نہیں، اہلِ غزہ بھی سیسی مظالم کے یکساں شکار ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شروع کیے جانے والے حصار کا دسواں سال شروع ہوچکا ہے۔ تقریباً ۲۰ لاکھ انسان پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اس وقت ۵ ہزار سے زائد مریض اپنا علاج کروانے کے لیے غزہ سے باہر جانے کے انتظار میں ہیں۔ ہزاروں طلبہ عالمی تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنے کے باوجود مصری سرحد عبور نہ کرسکنے کے باعث داخلے منسوخ کروابیٹھے ہیں۔ دو سال سے اہل غزہ میں سے کوئی شخص زیارت بیت اللہ کے لیے نہیں جاسکا۔ غزہ اور مصری سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائلی باہم رشتہ دار ہیں، لیکن کسی کی خوشی غمی میں شرکت کے لیے بھی ایک دوسرے کے ہاں نہیں جاسکتے۔
ایک معروف مصری شاعر اور صحافی عبد الرحمن یوسف کے بقول امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے: میں صدر سادات سے اپنے ۱۰ مطالبات منظور کروانے گیا تو اپنے ہمراہ اضافی طور پر مزید ۵۰ مطالبات لکھ کر لے گیا، جن میں سے کئی ایسے تھے جو میرا خیال تھا کہ کسی صورت نہیں مانے جائیں گے، لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ سادات نے کچھ دیکھے پوچھے بغیر میرے ۵۰کے ۵۰ مطالبات منظور کرلیے۔
عبدالرحمن یوسف کے بقول جنرل سیسی کے زمانے میں امریکا اور اسرائیل کو مطالبات کرنا ہی نہیں پڑتے، سب کچھ ان کے تصورات سے زیادہ بہتر صورت میں انھیں مل جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک یہی دیکھ لیجیے کہ جنرل سیسی نے غزہ کی سرحد پر واقع پورا مصری رفح کا قصبہ ہی ملیا میٹ کردیا ہے، کیوں کہ اسرائیل کے بقول ان گھروں کے نیچے سے سرنگیں کھود کر اہل غزہ اپنے لیے جینے کا سامان لے جاتے ہیں۔ سیسی نے پورا قصبہ خاک میں ملا کر وہاں طویل کھائیاں کھود دی ہیں اور ان میں سمندری پانی چھوڑ دیا ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں اب اس کی طرف سے اسرائیل کو یہ پیش کش کی جارہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے ہمیشہ ہمیشہ خاتمے کے لیے مصری صحراے سینا کا ایک وسیع علاقہ ایک نئی فلسطینی ریاست کے لیے دے دیتا ہوں۔ یہاں پر سیسی کے منصوبہ ساز اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ وہ صحرائے سینا میں مسجد اقصی اور قبلہء اول کیسے لائے گا۔ اسے یہ بھی یقینا معلوم ہوگا کہ فلسطینی عوام اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبے مسترد کرچکے ہیں، جن میں انھیں اُردن کو متبادل وطن تسلیم کرتے ہوئے سرزمین اقصی سے دست بردار ہونے کی پیشکش کی گئی تھی اور انھوں نے ۶۸ سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کا جواب نفی میںدیا ہے۔
منتخب صدر محمد مرسی کے بارے میں احمقانہ حد تک بے بنیاد پراپیگنڈے میں یہ الزام بھی تھا کہ انھوںنے اہرام مصر، ابوالہول اور نہر سویز کا علاقہ قطر کو فروخت کردیا ہے۔ اب جنرل سیسی صحرائے سینا میں فلسطینی بسانے کی بات کرکے انھی عجوبہ منصوبوں کو حقیقت میں بدلنے کی بات کررہا ہے۔ لیکن ہر آنے والا دن اس کی بلیک میلنگ اور دھوکا دہی کو بھی بے نقاب کررہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی شاہ سلمان کے دورۂ مصر کے موقعے پر جنرل سیسی نے کسی اور کارروائی یا منظوری کے بغیر خلیج عقبہ میں واقع دو متنازعہ جزیرے تیران اور منافیر سعودی عرب کو دینے کا اعلان کردیا۔ اس ایک تیر سے اس نے کئی شکار کرنا چاہے: ایک طرف شاہ سلمان کو راضی کرنے کی کوشش اور شاہ عبد اللہ کی طرح مالی مدد جاری رکھنے کی درخواست، دوسری طرف اسرائیل کو یہ لالچ کہ یہ جزیرے اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث سعودی عرب سے اس کے روابط کاذریعہ بن جائیں گے۔ اور تیسری جانب اخوان سمیت ان تمام مصری سیاسی جماعتوں اور سعودی عرب کے مابین اختلافات پیدا کرنا جو ان جزیروں کو مختلف تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر مصری سرزمین قراردیتے ہیں۔
سیسی کی یہ عیاری ۲۱ جون ۲۰۱۶ء کو اس وقت بے نقاب ہوگئی کہ جب ایک اعلیٰ مصری عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جزیرے سعودی عرب کو دینے کا معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ عہد سیسی کا ہو اور کوئی عدالت اس کے اشارۂ اَبرو کے بغیر بلکہ اس کے علی الرغم فیصلہ سنادے؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ تجزیہ نگار اس عدالتی ڈرامے کے دو بنیادی اسباب بتارہے ہیں: ایک تو سعودی عرب کو یہ پیغام کہ ’’پیسے ختم ہوگئے ہیںمیرے آقا مزید امداد‘‘ (واضح رہے کہ سیسی کی اپنے ساتھیوں سے گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگ کئی بار آچکی ہے جس میں وہ ان کے ساتھ خلیجی ممالک سے مزید ڈالر اینٹھنے کے طریقوں پر مشورہ کررہاہے)۔ دوسرا یہ کہ یہ عدالتی فیصلہ دو روز قبل ایک اور عدالتی فیصلے پر آنے والے ردعمل کو کم کرنے کے لیے ہے، جس میں منتخب صدر محمد مرسی کو چالیس سال قید اور ایک خاتون صحافی اسما الخطیب سمیت چار صحافیوں اور صدر مرسی کے دو ساتھیوں کو سزاے موت سنائی گئی۔ یہ مقدمہ اور فیصلہ بھی مصر کی فرعونی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کے طور پر لکھا جائے گا۔
ستمبر ۲۰۱۴ء کو صدر محمدمرسی سمیت ۱۱؍افراد پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے تقریباً دو سال دورِ اقتدار میں قومی راز قطر کو فراہم کیے ۔کسی عدالتی کارروائی کے بعد صدر مرسی کواس الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا، لیکن ایک سیاسی جماعت (اخوان) سے تعلق کی بنیاد پر ۲۵ سال اور قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کے حصول پر مزید ۱۵ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ سزاے موت اور ۱۵ سال قید کی سزا پانے والے ایک سینیئر صحافی ابراہیم ہلال (الجزیرہ چینل کے سابق نیوز ڈائریکٹر) نے فیصلہ سننے کے بعد کہا: ایک صحافی ہونے کے ناتے اگر ہمیں واقعی کوئی خفیہ دستاویزات مل بھی جاتیں تو ہم مکمل ذمہ داری اور امانت کے ساتھ اسے نشر کرتے، لیکن یہ ساری کہانی ہی مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ جنرل سیسی، دراصل الجزیرہ کومصر میں ہونے والے مظالم کی خبر دینے سے روکنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سات افراد کو مجموعی طور پر ۲۴۰ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان تمام غیر انسانی سزاؤں اور درندوں کے راج کے باوجود، ان بے گناہ قیدیوں کی اخلاقی و ایمانی کیفیات کیا ہیں؟ اس کا اندازہ حالیہ عدالتی ڈرامے کی اختتامی کاروائی سے ہی لگالیجیے۔ بدنام زمانہ جج فیصلہ سنانے لگا تو ملک کے قانونی صدر محمد مرسی کو ایک ساؤنڈ پروف پنجرے میں بند کرکے لایا گیا۔ فیصلے سے پہلے انھوں نے بات کرنے پر اصرار کیا تو جج نے پنجرے میں لگا مائیک کھلواتے ہوئے کہا: علی طول خش یا مرسی... خش یا مرسی’’ مرسی جلدی سے بات کرو .. مرسی جلدی کرو‘‘۔انھوں نے دو تین بار بات شروع کی، لیکن جج مسلسل ٹوکتا رہا۔
محمد مرسی نے کہا: میں عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہی اپنے ساتھیوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں: ’’صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردگی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاسکو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)۔ اس پر جج نے طیش میں آکر بات کاٹی اور مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت برخواست کردی۔
مصر کے معروف قانون دان ولید شارابی نے انھی دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیاہے کہ جنرل سیسی کی طرف سے صدر مرسی اور ساتھیوں سے رابطہ کرتے ہوئے سودے بازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا، اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار گرفتار اسپیکر ڈاکٹر سعد الکاتا کے پاس گیا اور معاملات طے کرنے کی پیش کش کی۔ قیدی اسپیکر نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا: مصر کا قانونی اور منتخب صدر ایک ہی ہے اور وہ آپ کے پاس ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنا ہے تو انہی سے ہوسکتی ہے۔ اس رابطہ کار کے چلے جانے کے بعد اسپیکر ڈاکٹر سعد نے کہا کہ یہ لوگ میرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ انھیں صدر مرسی سے بات کرکے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہوگا۔
صدر مرسی کے اہل خانہ کے مطابق گذشتہ تین سالہ غیر قانونی قید کے دوران میں اہل خانہ کی صرف ایک ملاقات ہوسکی، جو چند منٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس مصری ’گوانتا نامو کیمپ‘ سے پوری دنیا نہ صرف لاتعلق ہے ،بلکہ خاموش تماشائی بن کر جلاد کی پشتی بانی کررہی ہے۔ رہے مصر سمیت دنیا کی مختلف جیلوں میں گرفتار اہل ایمان، تو ان کا رب یہ پیغام اُمید دے رہا ہے: فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم۳۰: ۴۷) ’’پھر جنھوں نے جرم کیا ہم نے ان سے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘۔
۲۱۷؍ ارکان پر مشتمل تیونس کی قومی اسمبلی میں تحریک نہضت ۶۹ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف گروہوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکمران پارٹی نداء تیونس کی ۵۹ نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ۲۷ اور باقی ایوان مختلف جماعتوں کے ۱۰ اور ۱۵؍ارکان پر مشتمل ہے۔ تحریک نہضت چاہتی یا اب بھی چاہے تو بڑی آسانی سے اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن اس نے ادنیٰ تردد کے بغیر دوسروں کو حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف حکومت یا اقتدار نہیں، ملک سے آمریت کا خاتمہ، ثمرات انقلاب کی حفاظت، جمہوری اقدار کی مضبوطی اور ایک شفاف نظام حکومت تشکیل دینا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اقتدار کی خاطر ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہادینے والے کئی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
عالمِ عرب میں آمریت سے نجات کا خواب بھی ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن اور لیبیا بھی تیونس کے نقش قدم پر چلے لیکن بدقسمتی سے جلد ہی گرفتارِ بلا ہوگئے۔ تیونس آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور دنیا کو ایک نئے جمہوری تجربے سے آشنا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۲۰سے ۲۲ مئی تک تیونس میں تحریک نہضت کا دسواں اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس سے پہلے آٹھ اجتماع آمریت کے زیر سایہ یا ملک بدری میں ہوئے۔ ۲۰۱۲ء میں ہونے والا نواں اجلاس آزاد فضا میں سانس لینے کا پہلا تجربہ تھا۔ حالیہ اجتماع کئی لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ دنیا کو تیونس اور تحریک نہضت کے کئی اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں تحریک کے سربراہ کے علاوہ مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی ہوا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دعوتی و تربیتی کام سے الگ کرنے کے اہم ترین فیصلے سمیت کئی بنیادی دستوری و تنظیمی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک میں شخصی اقتدار اور شخصی سیاسی جماعتوں کا تسلط ہے، تحریک نہضت نے شورائیت اور تنظیمی قوت کا شان دار مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے صدارتی انتخاب کے لیے آٹھ افراد کے نام سامنے آئے جو آخر میں تین رہ گئے۔ ۷۷ سالہ جناب راشد الغنوشی صاحب کو مجلس نمایندگان کی بھاری اکثریت نے آیندہ چار برس کے لیے منتخب کرلیا، انھیں ۸۰۰ ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سابق صدر (یا اسپیکر) کو ۲۲۹؍ اور تیسرے اُمیدوار کو ۲۹ ووٹ ملے۔
دوسرا اہم مسئلہ مجلس شوریٰ و عاملہ کے انتخاب کا تھا۔ ۱۵۰ رُکنی مجلس شوریٰ کے بارے میں طے پایا کہ اس کے دو تہائی (یعنی ۱۰۰) ارکان منتخب اور ایک تہائی (۵۰) ارکان صدر کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح مجلس عاملہ کے بارے میں بھی قدرے بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ صدر مجلس شوریٰ کے سامنے ان کے نام تجویز کرے گا اور شوریٰ کی منظوری سے مجلس عاملہ وجود میں آجائے گی۔ ان تنظیمی اصلاحات کے بارے میں بحث کے دوران بعض ارکان کی طرف سے تندوتیز تقاریر بھی کی گئیں، لیکن بالآخر راے دہی کے ذریعے ہونے والا مجلس کا فیصلہ سب کو قبول ہوا۔
تیسرا اور حساس ترین موضوع ایسا تھا کہ جس کے بارے میں اب بھی عالمی سطح پر بہت لے دے جاری ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے اور پھر دوران اجلاس راشد الغنوشی صاحب نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے تقاضوں اور انتخابی سیاست کے پیش نظر ہمیں اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ: ’’تحریک نہضت ایک قومی جماعت ہے جو تیونس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کررہی ہے۔ ہم ایک قومی، سیاسی، اسلامی بنیاد رکھنے والی، ملک کے دستوری دائرے میں رہنے والی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور عہد جدید کے تقاضوں کی روشنی میں کام کرنے والی جماعت ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ : ’’اب ہمیں ایک ایسی جماعت بنانا ہوگی جو صرف سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دے سکے۔ ہمیں دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے بجاے مسلم ڈیمو کریٹس کے طور پر متعارف ہونا ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو الفاظ کی نئی ترکیب سے زیادہ اس فیصلے میں کوئی اچنبھا خیز بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے مصر، لیبیا، اُردن، یمن، مراکش، کویت، بحرین اور سوڈان سمیت کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی و دعوتی تنظیم الگ الگ کرچکی ہیں۔ اس تنظیمی اختصاص کے نتیجے میں نہ صرف ان کی سیاسی پیش رفت میں بہتری آئی، بلکہ دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں بھی وسعت ، سہولت اور بہتری پیدا ہوئی ہے۔
لیکن تحریک نہضت تیونس کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے کئی دوستوں اور اکثر دشمنوں کی طرف سے گردوغبار کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث چھیڑی جارہی ہے۔شاید اس ساری بحث و تمحیص کا ایک سبب جناب راشد الغنوشی کی طرف سے ’سیاسی اسلام‘ اور ’مسلم ڈیموکریٹس‘ کی اصطلاح میں بات کرنا بھی ہو۔ حالاں کہ خود ’سیاسی اسلام‘کی اصطلاح بھی اغیار کی تراشیدہ ہے۔ وہ اس کے ذریعے الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی فکر اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کام کرنے والی تحریکوں کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔
امام حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان سے پہلے شاعر اسلام علامہ محمد اقبال رحہم اللہ کا یہ دوٹوک موقف کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، اور یہ کہ دین و سیاست اور مذہب و ریاست کے مابین مکمل ہم آہنگی، قرآنی آیات و احکام اور آپؐ کی تعلیمات کی اصل روح ہے، ان سب عالمی طاقتوں کے لیے سُوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل گویا ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ مصر میں ۱۰ہزار کے قریب بے گناہ شہید اور ۵۰ ہزار کے لگ بھگ بہترین دماغوں کو جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا ایک ہی جرم بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ’سیاسی اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
تحریک نہضت نے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو الگ کرتے ہوئے گویا اس ’سیاسی اسلام‘ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دعوتی و تربیتی سرگرمیوں کے تقاضے پورا کرنے اور انتخابی عمل کی ضروریات و مجبوریوں کا علاج کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ الفاظ و اصطلاحات میں مسلسل تبدیلی اور اپنے فیصلے کرتے ہوئے تیونس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھنا تحریک نہضت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس کا نام ’جماعت اسلامی تیونس‘ رکھا گیا تھا۔ پھر اس کا نام ’جہت اسلامی‘ رکھ دیا گیا‘‘ اور پھر ’تحریک نہضت اسلامی‘ رکھا گیا۔ جماعتی نام میں لفظ اسلام پر پابندی لگنے کے بعد صرف ’تحریک نہضت‘ کردیا گیا جو اَب ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا افتتاحی سیشن تیونس کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس میں بھی جگہ نہ رہی اور ہزاروں افراد باہر کھڑے رہے۔ اتنا بڑا اور انتہائی منظم اجتماع تیونس کی کوئی دوسری جماعت کبھی نہیں کرسکی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں الشیخ راشد الغنوشی نے عہد جبرکی تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی ملک میں تیونس جانے یا وہاں سے آنے والی پرواز دیکھتا تو حسرت پیدا ہوتی تھی کہ نہ جانے اب کبھی اپنے دیس اور اس کی گلیوں میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ صرف واپس آنے کا موقع بخشا بلکہ اب ہم الحمدللہ خالی خولی دعووں اور نعروں سے آگے بڑھ کر اصلاح ریاست کی منزل کی جانب کامیابی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انقلاب کے بعد اپنی قائم شدہ حکومت خود چھوڑ کر اور اب حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود دوسروں کو موقع دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا مقصد اقتدار یا منصب نہیں، بندگانِ خدا کو اپنے دین کے سایے میں آزادی، عزت اور راحت سے زندہ رہنے کا حق دلانا ہے۔ انھوں نے تحریک نہضت کی روایتی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیونس کی تاریخ کے تقریباً ہر اہم فرد کا نام لیتے ہوئے سابق آمر حبیب بو رقیبہ کا نام بھی لیا۔ ا س کے لیے مغفرت کی دُعا کی اور کہا کہ یقینا ان کی بہت سی غلطیاں ہیں لیکن ہمیں ان کی اچھائیوں کو یاد رکھنا ہے۔
انھی دنوں بعض تیونسی اخبارات میں سابق تیونسی آمر زین العابدین بن علی کے ایک داماد کا انٹرویو شائع ہوا۔ ملک سے فرار ہوتے ہوئے خوفناک جلاد کا یہ داماد اپنی اہلیہ سمیت تیونس ہی میں رہ گیا تھا اور انھیں بالآخر عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں میری اہلیہ (بن علی کی بیٹی) سے کسی نے کہا کہ آپ اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے غنوشی صاحب سے جاکر ملیں۔ بہت تردد کے بعد وہ جاکر انھیں ملیں تو راشد الغنوشی نے انتہائی شفقت سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’آپ کے والد کے خلاف جو مقدمات بھی عدالت میں ہیں ان کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ عدالت نے اگر آپ کی تمام جایداد ضبط کرلی ہے تو اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا، البتہ سرزمین تیونس کی ایک بیٹی ہونے کے ناتے میں آپ کو کبھی خوار نہیں ہونے دوں گا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے تو یہ لیں، یہ میرے فلاں عزیز کے گھر کی چابیاں ہیں، آپ کو جب تک ضرورت ہے آپ وہاں قیام پذیر رہیں‘‘، اور ہم اس گھر میں رہایش پذیر رہے۔ اس حسن سلوک کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ یہ یاد کریں کہ بن علی اور بورقیبہ کے دور میں تحریک نہضت کے ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جس میں ان اسیران اسلام کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے سامنے بے آبرو کرنا بھی شامل تھا۔
سابقہ دورِ جبر کی یہ تلخ یادیں اور ’’فی حماک ربنا ... فی سبیل دیننا: اے ہمارے پروردگار آپ کی پناہ میں ... اے ہمارے پروردگار اپنی دین کی خاطر‘‘ جیسے کلمات پر مشتمل تحریک نہضت کا سرمدی ترانہ ہونٹوں پر سجائے ہر طرح کے جبر و تشدد سے سرخرو ہوکر نکلنے والی تحریک نہضت اور اس کے کارکن ان تمام غلط فہمیوں کا عملی جواب ہیں جو ان کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں پھیلائی جارہی ہیں۔ تحریک نہضت اپنی سیاسی تنظیم اور دعوتی و تربیتی ہی نہیں فلاحی، رفاہی، تعلیمی، اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے ماہرین کواعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کررہی ہے اور ان کے تمام بہی خواہ دُعاگو ہیں کہ جامع مسجد زیتونہ کے تاریخی میناروں سے سجا تیونس، عالم اسلام میں حقیقی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
عین اس وقت کہ جب تیونس میں نہضت کے اجتماع کا اختتام ہورہا تھا، ترک دارالحکومت انقرہ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا تھا۔ ۲۲ مئی کو پارٹی نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی جگہ بن علی یلدریم کو اپنا نیا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ طویل عرصے تک وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر کام کرنے والے ایک انتہائی شریف النفس دانش ور اور عالمی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلو نے خود اپنے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا تقاضا کیا تھا۔
بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی شان دار رہی۔ خود انھوں نے بھی اس بہتر کارکردگی کا ذکر کیا۔ بالخصوص چند ماہ قبل عام انتخابات میں۸ئ۴۹ فی صد ووٹ حاصل کرنے پر اللہ کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ وہ سرد جنگ بنی جو بدقسمتی سے صدرمملکت اور وزیراعظم کے مابین چھیڑدی گئی تھی۔ رجب طیب اردوان نہ صرف قوم کے اصل قائد ہیں، بلکہ اب وہ قوم کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے صدر بھی ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۵ کو جب وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر منتخب ہورہے تھے، تب ہی سے ان کی جانشینی کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آیا تھا۔ پارٹی کے کئی افراد کا خیال تھا کہ سابق صدر عبد اللہ گل یا نائب وزیراعظم بلند آرینج کو وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ اردوان کی راے استنبول کی میئرشپ کے زمانے سے آزمودہ اپنے دیرینہ رفیق کار بن علی یلدرم کے حق میں تھی۔ ۲۱؍ اگست کو وزیراعظم کا چناؤ ہونا تھا اور ۱۹؍ اگست تک فریقین اپنی الگ الگ راے کا اظہار کررہے تھے۔ پھر اچانک احمد داؤد اوغلو کا نام تجویز ہوا، جس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس وقت یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ ’’طاقت ور صدر کا طاقت ور وزیراعظم‘‘۔
طیب اردوان ایک عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ ان کے مخالفین اسے ان کی آمریت اور تمام اختیار سمیٹنے کی خواہش کہتے ہیں لیکن طیب اردوان ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے ماضی کے تلخ واقعات کا سدباب کرتے ہوئے اسے قیادت کی وحدت اور حالات کا بنیادی تقاضا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف منتخب پارلیمنٹ او ردوسری طرف منتخب صدر کو جب ہر چار برس بعد عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا تو دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کریں گے۔ اس نظام کو باہم مربوط کرنے کے لیے صدر کو بھی جواب دہ لیکن بااختیار بنانا ہوگا۔ وزیراعظم کو صدر اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہو، لیکن اس کا بنیادی کام فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو۔ وہ متبادل قیادت کے طور پر اُبھرنے کے خبط کا شکار نہ ہو۔ نئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم صدر رجب طیب اردوان کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ وہ گذشتہ ۱۱برس سے وزیر مواصلات کے طور پر ملک میںنمایاں ترین منصوبوں کی تکمیل کرچکے ہیں۔ ملک میں نئے ایئرپورٹ، نئے پل، نئی ٹرین، نئے بحری جہاز اور الیکٹرانک نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے ۲۵۵؍ ارب ترک لیرے، یعنی ۸۵ ارب ڈالر کے منصوبے خاموشی سے مکمل کرچکے ہیں۔
۱۹۵۵ء میں پیدا ہونے والے بن علی یلدریم ۱۶ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ پھر بحری جہازوں کی انجینیرنگ پڑھی۔ اگرچہ ان کا تعلق اردوان کی طرح پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کی جماعت سے نہیں رہا، لیکن دین داری ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ طیب اردوان کے ساتھ بلدیہ استنبول کے کئی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے اور پھر وزارت ملنے پر بھی کئی نئے منصوبے مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً: ان سے پہلے ملک میں ۲۶ ایئرپورٹ تھے، اب ان کی تعداد ۵۵ہے۔ انھوں نے اعلان کیاتھا کہ ہر ترک شہری کو ہوائی سفر کی سہولت پہنچائیں گے۔ پہلے ترکی میں ہوائی سفر کے سالانہ مسافروں کی تعداد ۴و۳۴ ملین ہوا کرتی تھی جو اَب ۱۸۲ ملین سالانہ ہوچکی ہے۔ انھوں نے ۲۴ہزار ۲سو۸۰ کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں اور ۱۸۰۵ کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائن کا جال بچھا دیا جس میں ۱۲۱۳ کلومیٹر فاسٹ ٹرین کی لائن بھی شامل ہے۔ ان کے زمانے میں الیکٹرانک تجارت میں ۲۱گنا اضافہ ہوا اور وہ ۹۰۰ ملین ترک لیرے سے بڑھ کر ۱۸۰۹؍ ارب ترک لیرے تک جاپہنچی ... یہ اور اس طرح کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک صحافی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یلدریم کا مطلب ہوتا ہے ’بجلی کا کڑکا‘۔ شاید میری شخصیت میں میرے نام کا پرتو پایا جاتا ہے۔
نئے ترک وزیراعظم کے سامنے سب سے اہم مرحلہ ملک میں مجوزہ صدارتی نظام کے مراحل کو کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگر یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو وہ جدید ترکی کے آخری بااختیار وزیراعظم ہوں گے۔ کرد باغیوں، داعش کے جنگجوؤں اور اردوان کے بقول فتح اللہ گولان کی جماعت کی طرف سے ملک میں ایک متوازی ریاست چلانے کی کوششیں ناکام بنانا بھی مشکل ترین اہداف ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات بھی مسلسل نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور ترکی کے دشمنوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔۲۲ مئی کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارٹی کا جو اہم اجلاس بلایا گیا، اس میں ملک کی قومی قیادت کے علاوہ تمام سفرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتہائی اہم بات یہ تھی کہ مصر، شام، اسرائیل، روس اور بنگلہ دیش کے سفرا کو اس اجلاس میں قصداً نہیں بلایا گیا۔ ان پانچوں سفرا کو نہ بلایا جانا ترک عوام ہی نہیں، عالم اسلام کے اکثر عوام کے لیے خوشی کا باعث ہوگا لیکن ا س سے ترکی کو درپیش چیلنجوں کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب میں مدعو کیے جانے والے کئی سفرا کے ممالک بھی ترک پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، مثلاً امریکا، ایران اور متحدہ عرب امارات۔
اللہ تعالیٰ نے ترکی کو گذشتہ عرصے میں بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں سرخ رو کیا ہے اور ترک قیادت کو یقین ہے کہ چوں کہ وہ اپنے مقاصد میں مخلص ہیں، جاں فشانی اور حکمت سے کام کررہے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں__ اب بنگلہ دیش سے بھلا ان کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے سواے اس کے کہ وہاں کی پٹھو حکومت بے گناہوں کا خون بہارہی ہے۔ وہ ظلم رکوانے کے لیے کی جانے والی ترک ذمہ داران کی کسی کوشش، کسی مطالبے، کسی درخواست کو خاطر میں نہ لائی__ اس لیے ترک قیادت کو یقین ہے کہ اللہ کا فرمان مانتے ہوئے اگر کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور فرمائے گا۔ ایک اچھی مثال تو حالیہ بحران ہی میں سامنے آگئی کہ صدر اور وزیراعظم میں اختلاف راے پیدا ہوا تو انھوں نے کسی بڑی خرابی کا شکار ہوئے بغیر اس کا ایک بہتر حل نکال لیا۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول ’’ہمارے لیے عہدے اور مناصب نہیں مقاصد و نظریات اہم ہیں۔ اردوان میرے قائد ہیں اور میں پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے خدمت کرتا رہوں گا‘‘۔
اسے پروٹوکول کا چھوٹا سا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز بھی کیاجا سکتا ہے، لیکن ممالک کے مابین تعلقات کا درجۂ حرارت جانچنے کے لیے پروٹوکول کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ۲۰؍اپریل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیجی ریاستوں کے سربراہوں اور امریکی صدر باراک اوباما کی آمد ہوئی۔ یہ سب رہنما ۲۱؍اپریل کو ایک روزہ امریکی خلیجی گول میز کانفرنس میں خطے کی صورت حال پر مشورہ کرنے جمع ہو رہے تھے۔پروٹوکول اور معمول کے مطابق سعودی فرماںروا شاہ سلمان نے تمام خلیجی ذمہ داران کا استقبال خود ائیرپورٹ جا کر کیا،جو سرکاری ٹی وی چینل پر براہِ راست دکھایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسی ائیرپورٹ پر امریکی صدر پہنچے، لیکن سب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا استقبال کرنے کے لیے نہ شاہ سلمان خود تھے، نہ ان کے ولی عہد اور نہ نائب ولی عہد۔ ان کا استقبال ریاض کے گورنرفیصل بن بندر اور وزیر خارجہ عادل بن جبیر نے کیا۔ ٹی وی پر بھی یہ کارروائی نہ دکھائی گئی۔ امریکی صدر نے بھی جہاز سے اترتے ہی اپنے میزبانوں سے پہلے سعودی عرب میں امریکی سفیر سے قدرے طویل معانقہ کیا اور پھر میزبانوں سے مختصر مصافحہ کرتے ہوئے ، ان کے ہمراہ اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ گئے۔ یہی صدراوباماچند ماہ قبل ریاض آئے تھے توخود شاہ سلمان نے ائیرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا تھا۔
معاملہ ائیرپورٹ پر استقبال اور قومی ٹی وی پر براہِ راست نہ دکھائے جانے ہی کا نہیں، معاملات کئی پہلوؤں سے گھمبیر ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب آمد سے پہلے اہم امریکی رسالے The Atlantic (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں’اوباما ڈاکٹرائن‘ کے عنوان سے امریکی صدر کا بہت طویل انٹرویو شائع ہوا۔۱۹ہزار الفاظ پر مشتمل اس انٹرویو اور تبصرے میں صدر اوباما نے واضح الفاظ میں سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی مجھے سعودی عرب کے ساتھ اب بھی ایک حلیف کی حیثیت سے برتائو کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنے بغیر مفت میں مفاد حاصل کرتے رہنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کہیں امریکا کے حلیف ’سُنّی عرب ممالک‘ امریکا مخالف دہشت گردی کو شہ تو نہیں دے رہے؟ مزید کہا: ’’سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں خطے میں فرقہ وارانہ اختلافات اُبھار رہی ہیں‘‘۔ ’’ہمارا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ سعودی عرب کی مدد کرتے رہیں‘‘۔ ’’ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت نے شام ، عراق اور یمن میں پراکسی وار کو ہوا دی ہے‘‘۔ ’’ سعودی عرب خطے کے معاملات میں ایران کو ساتھ لے کر چلے‘‘ ۔ امریکی صدر کا یہ جملہ دوبارہ پڑھیں تو یوں ہوگا کہ: ’’سعودی عرب (ہمیں شیطانِ بزرگ قرار دینے والے) کو ساتھ لے کر چلے‘‘۔
انھوں نے شام کے بارے میںبھی تفصیلی بات کرتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا کہ: ’’بشار الاسد کے خاتمے کے لیے امریکی فوجیںشام نہ بھیجنے کا ہمارا فیصلہ درست تھا۔ خطے کے ممالک کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہییں‘‘ یعنی بشار کو باقی رکھتے ہوئے کوئی حل نکالا جائے۔ اس انٹرویو کے علاوہ بھی صدر اوباما نے سعودی عرب پر کڑی تنقید کی ہے مثلاً یہ کہ ’’سعودی عرب صرف تیل ہی نہیں دہشت گردی بھی برآمد کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ معتدل سوچ رکھنے والے مسلمان تھے، سعودی عرب نے وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ دیا‘‘۔
اسی دوران میں نائن الیون کی تحقیقات کے لیے قائم کانگریس کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف اقدامات کا عندیہ دینا شروع کردیاگیا۔ امریکی رسائل وجرائد کے مطابق وائٹ ہاؤس میںامریکی قومی سیکورٹی کونسل کے بعض ارکان یہ طعنہ دیتے سنائی دیتے ہیں کہ: ’’نائن الیون کے واقعات میں ملوث ۱۹؍افراد میں سے ۱۵شہری سعودی تھے، کوئی بھی ایرانی نہیں تھا‘‘۔ کہا جانے لگا کہ ان واقعات میں ملوث سعودی باشندوں نے انفرادی طور پر ہی نہیں، ریاست کے بعض ذمہ داران کے تعاون سے یہ کارروائی کی۔ یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ مزید تحقیقات نے اگر یقینی طور پر یہ بات ثابت کردی تو پھر سعودی عرب کو بحیثیت ریاست اس کا ذمہ دارٹھیرایا جائے گا اور اس سے ۳ہزار ہلاک شدگان کا تاوان لیا جائے گا۔ سعودی عرب میں حقوق انسانی، جمہوریت ، عدلیہ اور حقوق نسواں کی لَے بھی بلند کی جانے لگی۔ یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ ۱۹۹۵ء میں ریاض میں امریکی کمپاؤنڈ پر حملہ بھی کوئی انفرادی کارروائی نہیں بلکہ اس میںبعض ریاستی ذمہ داران بھی ملوث تھے۔
اس صحافتی وسفارتی یلغار کے جواب میںسعودی وزیر خارجہ اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر عادل جبیر نے بیان دیا ہے کہ: ’’اگر ہمیں محسوس ہوا کہ امریکی مالیاتی اداروں میں پڑے ہمارے سرمایے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں تو ہم یہ رقم، یعنی (۷۰۰؍ ارب ڈالر) واپس لے آئیں گے‘‘۔
دوسری طرف ایران نے امریکا ہی نہیں اس پر مؤثر ہر لابی کو مزید بہتر تعلقات کے عملی پیغامات دینا شروع کردیے ہیں ۔ ایٹمی معاہدے کے بعد امریکا کو ۸میٹرک ٹن بھاری پانی کی فروخت کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول: ’’ایٹمی معاہدے کے بعد امریکی بنکوں میں منجمد ۵۵؍ارب ڈالر میں سے ۳؍ارب ڈالر اسے واپس مل گئے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ خود اسرائیل کے حوالے سے ایرانی لب ولہجہ تبدیل ہونے لگاہے۔ نیم سرکاری نیوز ایجنسی ـ’مہر‘ کے مطابق صدر روحانی نے ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط میں تجویز دی ہے کہ دور مار ایرانی میزائلوں پر تحریر ’مرگ بر اسرائیل‘ کی عبارت حذف کردی جائے۔
لیکن ان سابق الذکر چند جھلکیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ امریکا ایران اختلافات وعداوت ختم ہوگئی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے بقول امریکا سے ہونے والا معاہدہ ابھی صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے‘‘۔ سی این این ٹیلی ویژن کے مطابق ایرانی اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ: ’’اگر امریکا نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسے سخت نادم ہونا پڑے گا‘‘۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کسی فوری اور وسیع تر تنازعے کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ البتہ یہ حقیقت ضرور واضح ہے کہ ایران، سعودی عرب اختلافات بھیانک تر ہوگئے ہیںاور عالمی طاقتیں ان اختلافات کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ امریکا، روس اور اسرائیل اس سارے کھیل میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور باہم اختلافات کے باوجود تینوں ملک باہم مشاورت وتعاون کے کئی دائرے رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں:’’بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ،سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔
اسی پس منظر میں ۷،۸؍اپریل کو ترکی کے شہر استنبول میں ۱۳ویں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ حاضری کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی ۔۲۰سے زائد سربراہان شریک تھے، باقی ممالک کی نمایندگی مختلف افراد نے کی۔ ۵۷ممالک میں سے صرف شام غیر حاضر تھا ۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا ،لیکن عین آخری لمحے انھوں نے سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا۔ شاید یہی ’خطرہ‘ ہو کہ کہیں کوئی مسلم رہنما انھیں بنگلہ دیش میں جاری وحشیانہ انتقامی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ نہ کردے ۔
پروٹوکول کے واقعات نے یہاں بھی کئی پیغامات دیے، مثلاً کانفرنس کا آغاز ہی مصری وزیر خارجہ کی کم ظرفی پر مبنی ایک حرکت سے ہوا۔ تنظیم کا سابق سربراہ ہونے کے ناتے مصر نے رسمی طور پر یہ ذمہ داری ترکی کے سپرد کرنا تھی۔مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے جو مصری غاصب حاکم جنرل سیسی کی غیر حاضری کے باعث مصر کی نمایندگی کر رہے تھے ، افتتاحی سیشن کا آغاز کیا، چند رسمی جملے ادا کیے، جن میں ترکی کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر تک نہیں کہا اور پھر تنظیم کے نئے سربراہ اور میزبان ملک کے صدر طیب اردوان کا انتظار کیے بغیر، تیزی سے سٹیج سے اُتر کر اپنی نشست پر جابیٹھے۔
واضح رہے کہ مصر کے منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کے خلاف جنرل سیسی کے خونی انقلاب کی سب سے پُرزور مخالفت ترکی ہی نے کی تھی۔ صدر اردوان اب بھی جنرل سیسی کو ملک کا آئینی سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کانفرنس کے دوران تمام شرکا کے گروپ فوٹو کا موقع آیا تو شاہ سلیمان اور صدر اردوان شرکا کے عین درمیان میں تھے۔ تصویر بننے کے بعد دونوں سربراہ دیگر مہمانوں کے جلو میں سٹیج سے روانہ ہوئے۔ ایرانی صدر روحانی بھی قطار میں کھڑے تھے۔ شاہ سلمان ان کے بالکل قریب اور سامنے سے گزر گئے اورسلام دعا تو کجا، ان سے آنکھیں بھی چار نہ کیں۔ دونوں ملکوں کے شہریوں نے اس منظر پر اپنے اپنے انداز میں کڑے تبصرے کیے۔
دو روزہ کارروائی ، تقاریر اور جانبی ملاقاتوں کے بعد ۳۴صفحات اور ۲۱۸نکات پر مشتمل اختتامی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیہ کئی لحاظ سے بہت بہتر اور جامع ہے۔مسئلۂ فلسطین حسب سابق سر فہرست ہے، جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام اور ۱۹۴۸ء سے ملک بدر کیے گئے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا ذکر نمایاں ہے۔ اعلامیے کی شق ۲۱سے ۲۶تک میں مسئلہ کشمیر پر ایسا دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے جو بعض اوقات خود پاکستانی حکومت کے بیانات سے بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کشمیر کو پاکستان وہندستان کے مابین بنیادی تنازع قرار دیتے ہوئے، اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کیوں کہ اعلامیے کے الفاظ میں’’اس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں‘‘۔ عالمی برادری کو یاد دلایا گیا ہے کہـ’’کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں ۶۸برس سے عمل درآمد کی منتظر ہیں‘‘۔ ’’حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی وسیع تر جدوجہد کی حمایت کرتے ہوئے دنیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ’’جدو جہد آزادی اور دہشت گردی کو یکساں قرار نہ دے‘‘۔کشمیر میں ہندوستانی افواج کے مظالم اور حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ۱۴فروری ۲۰۱۶ء کو پلوامہ میں ۲۲سالہ کشمیری خاتون شائستہ حمید کی شہادت کا ذکر مثال کے طور پر کیا گیا ہے۔ آخر میں اسلامی تعاون تنظیم (جس کا نام پہلے اسلامی کانفرنس تنظیم ہوتا تھا) کے زیر اہتمام ایک دائمی اور آزاد ادارے کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جس کی ذمہ داری ’’ہندستان کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں ہونے والے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہوگا‘‘ ۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں سے بھی ’مقبوضہ کشمیر ‘ آنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اوآئی سی کے ادارے ایسیسکو کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے۔ ساتھ ہی مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں۔ عالم اسلام کے سب سے اہم عالمی پلیٹ فارم سے کشمیر کے بارے میں اس قدر جامع اور مضبوط موقف کا اعلان کیے جانے میں بنیادی کردار یقینا پاکستانی وزارت خارجہ کا ہوگا۔ اس کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ا ن تمام مسلم ممالک کے کردار کی تحسین بھی کرنا ہوگی کہ جن کے واضح تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ البتہ اب اصل ضرورت عالم اسلام کے اس متفق علیہ موقف کو دنیا کے ہر شہری کے سامنے تسلسل اور مقبوضہ کشمیر سے حاصل کردہ سمعی وبصری شواہد کے ساتھ پیش کرتے رہنے کی ہے۔
اعلامیے میں افغانستان میں مصالحتی کاوشوں کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔’قلب ایشیا‘ کانفرنس کی بھی حمایت وتائید کی گئی ہے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں تشکیل پانے والی چار ملکی (افغانستان، چین، پاکستان، امریکا) کوارڈی نیشن کمیٹی کی بھی حمایت کی گئی ہے۔
اعلامیے کا سب سے نازک حصہ وہ درجن بھر شقیں ہیں، جن میں کہیں براہ راست اور واضح انداز سے اور کہیں بالواسطہ طور پر ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’دہشت گردی کی مدد‘ کرنے سے رُک جانے کا کہا گیا ہے۔ ان شقوں کا آغاز ’’مسلم ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین اچھے تعلقات کی ضرورت اور اہمیت‘‘ سے کیا گیا ہے(شق۳۰)۔ لیکن ساتھ ہی دیگر ممالک کی آزادی ، خودمختاری اور وحدت کے احترام کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔ تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بحرین، یمن، شام اور صومالیہ میں ایران کی مداخلت اور وہاں دہشت گردی کی پشتیبانی جاری رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے (شق۳۳)۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کو ہوا دینے سے خبردار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں اعلامیے کی کئی شقیں ہیں جن میں داعش کی دو ٹوک مذمت کرتے اور اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہے۔ اور پھر شق۱۰۵میں ’’شام، بحرین، کویت اور یمن میں حزب اللہ کی دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’خطے میں عدم استحکام کے لیے دیگر دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کا اصل ذمہ دار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
عالم اسلام اور او آئی سی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایران کے خلاف اس طرح کھل کر اور شدید تنقید کی گئی ہو۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ کانفرنس میں شریک ۵۶ممالک میں سے صرف ایک ایران ہی تھا جس نے اس اعلامیے پر احتجاج کرتے ہوئے اس سیشن کا بائیکاٹ کیا۔ سابق الذکر چند شقیںتو وہ ہیں جن میں ایران پر براہ راست الزامات اور اس کی مذمت ہے، وگرنہ شام اور صومالیہ سمیت کئی مسائل پر بات کرتے ہوئے بھی روے سخن اسی کی طرف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اعلامیے کے بعض الفاظ ضرورت سے زیادہ سخت ہوں، لیکن برادر اسلامی ملک ایران کو یہ ضرور سوچنا اور اس امر کا مبنی برحقیقت جائزہ لینا ہوگا کہ آخر پوری مسلم دنیا اس کے خلاف یک آواز کیوں ہوگئی۔
اعلامیے میں روہنگیا اراکان، فلپائن ، بوسنیا، کوسوا، اری ٹیریا سمیت امت مسلمہ کے تقریبا ہرمسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم اور اسلام فوبیا کا بھی سخت الفاظ میں نوٹس لیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ہونے والے قتل عام اور توہینِ انسانیت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ مصر میں ۴۸ہزار سے زائد بے گناہ قیدیوں اور ہزاروں بے گناہ شہدا کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ بنگلہ دیش میں ۸۸ہزار سے زائد بے گناہوں کو پسِ دیوار زندان دھکیل دینے، ۳۰۰ سے زائد شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کر دینے اور بے گناہ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔گذشتہ ۱۰برس سے جاری حصارِ غزہ کا ذکر بھی گول کردیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت کئی مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے فعال عالمی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بے نقاب کرتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ظلم پر آنکھیں نہ موند لی جائیں اور مکمل انصاف اور غیرجانب داری سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔ ۱۷؍اپریل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار صہیونی حکومت نے اپنا ہفتہ وار کابینہ اجلاس شام کے مقبوضہ علاقے ’جولان‘ میں کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے اس نے اعلان کیا کہ اب دنیا کو جولان پر بھی اس کا قبضہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ صہیونی ریاست کو یہ جسارت اسی لیے ہورہی ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت باہم سرپھٹول اور ماردھاڑ کا شکار ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ظالموں کا دفاع کرنے اور ان کے گناہ اپنے سر لینے میں لگاہوا ہے۔ یہی عالم رہا تو خاکم بدہن زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آج عافیت سے بیٹھے حکمران و عوام بھی دشمن کے بچھائے جال میں جکڑے جاچکے ہوں گے۔
اپنے اللہ پر کاکامل بھروسا رکھنے والے مظلوموں کو البتہ یہ یقین ہے کہ تاریکی کے بعد سحرنو کو بہرصورت طلوع ہونا ہے۔ اسی یقین کا اظہار کرتے ہوئے گذشتہ دنوں عدالت میں لائے جانے والے الاخوان المسلمون کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بلند کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا: مرسی راجع (منتخب صدر) مرسی واپس آکر رہیں گے!
عالم اسلام کو ایک بار پھر اپنی تاریخ کی سنگین تر آزمایشوں کا سامنا ہے۔ دشمنوں کی عیارانہ سازشیں بھی انتہا پر ہیں اور اپنوں کی غلطیاں اور جرائم بھی آخری حدوں کو چھورہے ہیں۔ سامراجی چالیں عالم اسلام کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کررہی ہیں اور کئی مسلم حکمرانوں اور گروہوں کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز بھی بونے نظر آ رہے ہیں۔ رب ذو الجلال کی ذات کا سہارا نہ ہوتا، اس کی طرف سے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط ، وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) جیسی تلقین اور اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (یقینا تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے) جیسے مسلمہ اصول نہ ہوتے، تو لگتا کہ پانی سر سے گزر چکا، عالم اسلام کا اختتام قریب آن لگا اور اُمت پھر زوال پذیر ہوگئی۔
مسلم ممالک اور اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہم ان سب نافرمانیوں پر تلے ہوئے ہیں جن کے انجام بد سے خالق کائنات نے خبردار کیا تھا۔ واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال۸: ۴۶)’’اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوااکھڑ جائے گی‘‘۔ لیکن ہم ایک نہیں کئی کئی اختلافات و تنازعات میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ظلم کرنے سے بار بار منع کرتے ہوئے ہمیں خبردار کردیا گیا تھا کہ: وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵: ۱۹) ’’اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اُسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے‘‘۔ لیکن آج ہم میں سے کسی فرد کا داؤ چلے یا کسی حکومت کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑیں، ہم ظلم کے وہ پہاڑ توڑ دیتے ہیں کہ الأمان الحفیظ!ہمیں کسی بھی ظالم کا ساتھ دینے سے خبردار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ:وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ o (ھود۱۱: ۱۱۳)’’اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی‘‘۔ لیکن ہم اپنے عارضی اور محدود مفادات کی خاطر، سفاک ترین ظالم کے حق میں بھی دلیلوں کے انبار لگانے لگتے ہیں۔ ہمیں بدکاری کرنے سے ہی نہیں، بدکاری کے قریب بھی پھٹکنے سے منع کرتے ہوئے بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَ سَآئَ سَبِیْلًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ ہم ضرورت کی ادنیٰ ترین چیز کو بھی فحش اشتہارات کے بغیر بازار میں نہیں لاتے۔
ایک ایک کرکے خالق کے تمام احکامات کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ ہم بحیثیت فرد ہی نہیں بحیثیت اُمت و ملت انھیں پامال کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تمام نافرمانیوں کو خالق نے ایک لفظ میں سمو کر اور اس سے خبردار کرتے ہوئے، راہ نجات کی طرف بھی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ لفظ ہے: ’ظلم‘۔ جو کبھی دشمنوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی اپنوں ہی کے ہاتھوں۔ کبھی دوسروں پر کیا جاتا ہے اور کبھی خود اپنی ہی جان پر۔ ظلم کی ان تمام اقسام سے نجات حاصل کرنے کا اولین قدم، ظلم کو ظلم سمجھنا اور اسے ظلم کہنا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جیسے ہی احساس ہوا تو وہ فوراً پکار اُٹھے: رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف۷:۲۳)’’اے ہمارے پروردگار ہم خود پر ظلم کربیٹھے ہیں، آپ نے معاف نہ فرمایا تو خسارہ پانے والوں میں شمار ہوں گے‘‘، جب کہ ابلیس سراسر نافرمانی کے بعد بھی بولا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَo (الحجر۱۵: ۳۹) ’’اے اللہ جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں بھی (ان بندوں کے سامنے) گناہوں کو خوش نما بناکر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا‘‘۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے تھے کہ: و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ، ’’اور ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔
پانچ برس گزر گئے جب عالم اسلام میں اُمید ِبہار دکھائی دی تھی۔ ۳۰،۳۰ ؍ ۴۰،۴۰ سال سے اپنی قوم پر مسلط ظالم ڈکٹیٹر شپ کے بت گرنے لگے۔ صہیونی عزائم اور عالمی نقشہ گروں کو اپنے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دیے، تو پہلے شام پھر مصر، لیبیا اور یمن میں انھی ’اپنوں‘ ہی کو اپنے عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی راہ دکھا دی۔ آج صرف شام میں ۳ لاکھ سے زائد شہید، اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے۔ منفی ۲۰ درجے کی سردی ہو یا جھلسا دینے والی گرمی، تیزی سے رزق خاک بنتے یہ انسان مہاجر کیمپوں ہی میں مقید رہنے پر مجبور ہیں۔ کیمپوں کی یہ زندگی اس قدر جان لیوا ہے کہ اس سے نجات پانے کے لیے مہاجرین کی بڑی تعداد آئے دن وہاں سے نکلنے کی کوششوں کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ابھی ۲۱جنوری کو بھی یونان کے قریب ۲۲ بچوں سمیت ۴۵ افراد سمندر کے برفیلے پانیوں میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مہاجر کیمپوں میں خوراک ناپید ہونے کا یہ عالم ہے کہ حالت اضطرار میں بلیاں اور کتے تک کھانے کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ حکومت مخالف کسی ایک قصبے کو فتح کرنے کے لیے اس کا مکمل محاصرہ کرلیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں بچے اور بوڑھے بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بشارالاسد اور اس کی مددگار افواج کا دل موم نہیں ہوپاتا۔ گذشتہ دسمبر اور جنوری میں شام کے قصبے ’مضایا‘ پر گزرنے والی قیامت نے کئی عالمی اداروں تک کو جھنجھوڑ ڈالا، لیکن ہم مسلمان، ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکمران تو شاید اس قصبے کانام تک بھی نہیں جانتے۔ جانتے بھی ہیں تو اسے کسی نہ کسی مذہبی، علاقائی یا قومیتی تعصب کی چادر میں چھپا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف شام میں ایسے محصور علاقوں کی تعداد ۱۵ ہے جن میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد انسان حشرات الارض سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عراق کے علاقے ’المِقدادیۃ‘ اور یمن کے شہر’تَعِز‘ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق کے سابق نائب صدر طارق الہاشمی کے مطابق’المقدادیۃ‘ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کی مساجد کئی روز سے اذان کی آواز سے محروم ہیں۔ مذہبی اختلاف و تعصب اور شیعہ و سُنّی کی تقسیم یقینا وہ زہرِ قاتل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے اسلامی تحریکوں کو محفوظ رکھا ہے، اور وہ پوری اُمت کو اس زہر سے محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم، یہاں مرض کی تشخیص و شدت بیان کرنے کے لیے مجبوراً یہ اصطلاحات ہی استعمال کرنا پڑرہی ہیں۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران المقدادیۃ میں اہلسنت کی اتنی مساجد شہید کردی گئیں کہ خود عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ رہنما آیت اللہ السیستانی نے ۱۵جنوری کو اپنے خطبہء جمعہ میں عراقی حکومت کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ سلسلہ رُکوانے کا مطالبہ کیا۔ ضلع ’دیالا‘ ایران کے ساتھ جس کی سرحد ۲۴۰ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور جس کی آبادی کا ۸۵ فی صد اہل سنت پر مشتمل تھا، بھی ایسی ہی بربادی کا شکار ہے۔
چند علاقوں کے یہ نام تو محض ایک مثال ہیں وگرنہ ۲۰۰۳ میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے پورا عراق، اور اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والے شامی عوام کے خلاف بشار الاسد کی فوجی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے پورا شام، خون آشام ہے۔ ان دونوں ملکو ںمیں اب تک بلامبالغہ لاکھوں انسان اور ہزاروں مساجد اور امام بارگاہیں شہید کی جاچکی ہیں۔ صد افسوس کہ دونوں ملک اب کبھی شاید پہلے والے ممالک نہ بن سکیں گے۔ عراق تین ملکوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے اور شام کئی ٹکڑیوںمیں۔ یہ بندگان خدا ان ٹکڑیوں میں بٹ کر ہی کوئی نئی زندگی شروع کرلیتے تو شاید غنیمت ہوتا، لیکن صہیونی ریاست اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی ان کا خون مزید بہایا جانا ہے۔ لڑانے اور لڑنے والوں کے خوں ریز جبڑوں سے مسلسل ایک ہی جہنمی آواز سنائی دے رہی ہے: ھل من مزید...؟ ھل من مزید...؟
مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ اب یہ تنازعات ایک مہیب علاقائی جنگ میں بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تو اظہار نہیں ہوتا تھا لیکن اب مسلسل اعتراف و اعلان کیے جارہے ہیں۔شام اور عراق سے آئے روز ایران اور لبنان (حزب اللہ) کے عسکری ذمہ داران اور سپاہیوں کے تابوت و جنازے واپس آتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ عسکری منصوبہ ساز وہاں مستقلاً موجود ہیں۔ ایرانی ملیشیا القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی وہاں کے اصل حکمران قرار دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ شام میں ایرانی پاس داران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار حمید رضا اسد اللہی مارے گئے، تو جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاس داران کے سربراہ محمد علی جعفری نے ایک تہلکہ خیز بیان دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے گذشتہ عرصے میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان کے ۲ لاکھ نوجوانوں کو فوجی تربیت دی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو عسکری تربیت دینے کا مقصد کیا ہے؟
برادر مسلم ممالک کے مابین یہ کھلی جنگ کس حد تک سنگین ہوچکی ہے اس کا اندازہ اسی مثال سے لگا لیجیے کہ گذشتہ مہینے شام میں حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر سمیر قنطار قتل ہوگئے۔ سَمیرِ قنطار اُمت مسلمہ کے وہ ہیرو تھے کہ ۲۸ سال تک اسرائیل کی قید میں رہے۔ رہائی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر حماس کے ہاتھوں اغوا ہونے والے صہیونی فوجی کے بدلے میں رہائی پانے والوں میں درجنوں فلسطینی قیدیوں کے علاوہ لبنانی سَمِیْر القنطار بھی شامل تھے۔ ان کی رہائی لبنان میں ایک قومی جشن میں بدل گئی اور دنیا بھر کے ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دکھائی گئی۔ لیکن صہیونی ریاست کے خلاف اتنی طویل جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا سَمِیْر مسجد اقصیٰ پر قابض یہودی سے لڑائی میں شہید نہیں ہوا، گذشتہ ماہ بشار الاسد کے فوجیوں کے ساتھ مل کر مظلوم شامی عوام کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شام میں ان کا مارا جانا خطے کے عوام میں مزید تنازعے اور اختلافات کا باعث بنا۔ شامی عوام اور ان کے حامیوں نے اس قتل پر مبارک بادوں کا تبادلہ کیا، جب کہ بشارانتظامیہ اور حزب اللہ نے اس پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہا ر کیا۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی طویل تاریخ رکھنے کی وجہ سے تحریک حماس نے سمیر کے لیے چند سطری تعزیتی بیان جاری کردیا، تو اس پر شامی اور خلیجی عوام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حماس کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا، چند ہی روز بعد بشار الاسد کے خلاف مزاحمت کی ایک بڑی علامت اور ۴۰ مختلف شامی مسلح گروہوں کے اتحاد ’جیش الاسلام‘ کے سربراہ زھران علوش قتل ہوگئے۔ ان پر روسی جہازوں نے بمباری کی تھی۔ ان کی شہادت پر الاخوان المسلمون شام سمیت بشار مخالف تمام اطراف نے سوگ منایا، لیکن ایران و حزب اللہ سمیت بشار کے حامی تمام عناصر نے اس پر خوشی کا جشن منایا۔ اس موقعے پر صرف ایک ملک ایسا تھا جس نے ان دونوں قائدین کے قتل پر سُکھ کا سانس لیا اور وہ تھا اسرائیل۔ تیسری جانب اسی عرصے میں ترکی، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا اور سعودی عرب میں کئی ایسے خوں ریز بم دھماکے ہوئے، جن میں سیکڑوں بے گناہ شہری شہید و زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں میں سے اکثر کی ذمہ داری سرکاری طور پر داعش نے قبول کرتے ہوئے اپنی ان کارروائیوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا۔
اب ان جھلکیوں کی مدد سے آج مشرق وسطیٰ کا نقشہ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی کا اپنی فضائی حدود میں گھس آنے والا روسی جنگی جہاز مار گرانا، روس کا ترکی کو سنگین دھمکیاں دینا یا سعودی عرب میں سزاے موت پانے والے ۴۷ افراد میں ایک شیعہ رہنما بھی شامل ہونے پر ایران کا شدید مشتعل ہوجانااو رتہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ اور مشہد میں اس کا قونصل خانہ جلاڈالنا، اصل تنازع نہیں، بلکہ یہ خطے میں جاری ایک بڑی جنگ کے چند خوف ناک شعلے ہیں۔ عالم اسلام کے سب دشمن ان شعلوں کو مزید ہوا دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کے فکری مراکز تجزیے کررہے ہیں کہ:what would a Saudi - Iran war look like? dont look now, but it is already here (ایران و سعودی عرب کی جنگ کیسی ہوگی؟ اگرچہ یہ اس وقت دکھائی نہیں دیتی لیکن یہ عملاً جاری ہے)۔ اعداد و شمار شائع کیے جارہے ہیں کہ افواج اور عسکری سازوسامان کے اعتبار سے سعودی عرب ۲۸ ویں، جب کہ ایران ۲۳ ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب کی افواج ۲ لاکھ ۳۳ ہزار، جب کہ ایران کے ۵لاکھ ۴۵ہزار ہیں۔ سعودی عرب کے پاس ۱۲۱۰ ٹینک ہیں اور ایران کے پاس ۱۶۵۸۔ سعودی عرب کے پاس ۱۵۵ جنگی جہاز ہیں اور ایران کے پاس ۱۳۷ (Globe Fire Power)۔ اس طرح کے اعداد و شمار شائع کرنے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہے کہ جنگ کا ماحول اور خوف کی فضا بنا کر مزید اسلحہ بیچا جائے۔ اسی ماحول میں ۱۳ جنوری کو کویتی پارلیمنٹ نے اپنے محفوظ مالی ذخائر میں سے اضافی ۱۰؍ ارب ڈالر منظور کیے تاکہ ان سے مزید اسلحہ خریدا جاسکے۔ یہی عالم خطے کے دیگر کئی ممالک کی طرف سے کیے جانے والے کئی بڑے عسکری معاہدوں کا ہے۔
داعش کے خلاف امریکی جنگ بھی خود اعلیٰ امریکی ذمہ داران کے بقول آیندہ ۳۰ برس تک جاری رہنا اور اس پر ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ آنا ہے۔ اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی خطے کے مسلم ممالک ہی سے لیا جانا ہے۔ یہ دونوں پہلو (۳۰ سالہ جنگ اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ) ذہن میں رکھیں تو پھر یہ راز کوئی راز نہیں رہتا کہ تمام تر فوجی کارروائیوں اور بمباری کے باوجود بھی داعش کیوںکر ایک کے بعد دوسرا میدان سر کرتی جارہی ہے۔
امریکی کونسل براے اُمور خارجہ کے سینئرمحقق میکازنکو (Micah Zenko) ۷جنوری کو اپنی ایک تحریر میں گذشتہ ایک سال میں امریکا کی طرف سے مسلمان ملکوں پر گرائے گئے بموں کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوباما انتظامیہ نے صرف ۲۰۱۵ میں عراق، شام، افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ پر ۲۳ہزار ایک سو۴۴ بم برسائے‘‘۔ (حقیقی تعداد یقینا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے کہ اس میں پاکستان پر برسائے گئے بموں کی تعداد صرف ۱۱ لکھی ہے)۔ لیکن خود زنکو اس امر پر تمسخر خیز حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’امریکی وزارت دفاع کے ذمہ داران کے مطابق اس بمباری سے داعش کے ۲۵ ہزار مسلح عناصر مار ے گئے۔ ۲۰۱۴ میں سی آئی اے کا کہنا تھا کہ داعش کے مسلح عناصر کی تعداد ۲۰ سے ۳۱ ہزار تک ہے۔ ان میں سے ۲۵ ہزار مارے جانے کے بعد اب ان سے پوچھیں کہ داعش کے ان عناصر کی تعداد کیا ہے تو اَب بھی جوا ب یہی ملتا ہے: ۳۰ ہزار‘‘۔ زنکو کے بقول اس نئے امریکی حسابی فارمولے کے مطابق اب ۳۰ ہزار منفی ۲۵ ہزار ۳۰ ہزار کے مساوی ہوا کریں گے۔ زنکو نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ۱۶ سالہ جنگ کے بعد بھی فارن پالیسی جیسے وقیع رسالے یہ لکھ رہے ہیں کہ طالبان افغانستان میں پہلے سے کسی بھی وقت سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔
جملۂ معترضہ کے طور پر یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ داعش کے ساتھ جاملنے والوں کی ایک تعداد مخلص اور دین دار نوجوانوں پر بھی مشتمل ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلامی ریاست اور اسلامی خلافت کا قیام او رجنت کا حصول چاہتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن نیک نیتی کے ساتھ ساتھ ظاہری عمل بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تعلیمات کے مطابق ہونا ضرور ی ہے۔یہ نہ ہو کہ صرف ذرائع ابلاغ اور ظاہری اعلانات سے متاثر ہو کر کوئی ایسی راہ اختیار کرلی جائے کہ یہ قرآنی وصف صادق آنے لگے:قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) ’’اے نبیؐ ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ جو کچھ وہاں ہورہا ہے اس کے بارے میں خود شام اور عراق کے جلیل القدر اور مخلص علماے کرام کی راے بھی سن لیجیے۔ شام کے معروف عالم دین اور رابطۂ علماے شام کے ذمہ دار علامہ مجد مکی کا کہنا ہے کہ: ما فعلتہ داعش في صد الناس عن دین اللّٰہ لم تفعلہ جیوش جرارۃ قوامہا ملایین الجنود،’’ لوگوں کو اللہ کے دین سے متنفر کرنے کے لیے جو خدمت داعش نے انجام دی ہے وہ لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل بڑے بڑے عالمی لشکر بھی نہیں دے سکتے تھے‘‘۔
یہ درست ہے کہ نظریۂ سازش بنیادی طور پر انسان کو مایوس اور بے دست و پا کردیتا ہے، لیکن یہ بھی کسی طورممکن نہیں کہ بندہ اپنے سامنے وقوع پذیر حقائق سے آنکھیں بند کرلے۔ شام میں اپنے پورے لاؤلشکر سمیت آکودنے والے روس ہی کو دیکھ لیجیے کہ اس کی تمام تر کارروائیوں کا نشانہ مظلوم شامی عوام بن رہے ہیں۔ شامی عوام ہی کا ساتھ دینے پر وہ ترکی کو سبق سکھانے اور اسے عبرت کا نشان بنادینے کا اعلان کررہا ہے۔ لیکن بظاہر اعلان اس کا بھی یہی ہے کہ وہ داعش سے جنگ کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ اپنی اس آمد کو سیاسی اور عوامی حمایت دلوانے کے لیے اس نے مصر کے صحراے سینا میں مار گرائے جانے والے روسی مسافر جہاز کو بھی خوب پراپیگنڈے کی بنیاد بنایا۔ اس نے بھی اسے داعش کی کارروائی قرار دیا، اور خود داعش نے بھی ذمہ داری قبول کی۔
روسی مسافر جہاز میں مارے جانے والے بے گناہ شہری یقینا ظلم کا شکار ہوئے۔ لیکن ذرا ایک نظر برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ۲۶ دسمبر ۲۰۱۵ء کو شائع شدہ روسی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق افسر پورس کارپشکوف کا وہ تفصیلی انٹرویو بھی دیکھ لیجیے جس میں اس نے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ روس سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہوکر برطانیہ میں پناہ لینے والے اس سابق روسی افسر کا پُرزور دعویٰ ہے کہ صحراے سینا میں تباہ ہونے والا جہاز روس نے خود گرایا تھا۔ اس کے بقول روسی خفیہ ادارے کے خصوصی شعبے GRU میں یہ منصوبہ خود روسی صدر کی منظوری سے تیار ہوا، تاکہ اس کے نتیجے میں ایک طرف داعش کا ہوّا مزید مستحکم ہو اور دوسری طرف روس خطے میں اپنے اثر و نفوذ کے دیگر منصوبوں کو رُوبہ عمل لاسکے۔ اس روسی افسر نے منصوبے پر عمل در آمد کی جزئیات تک بیان کرتے ہوئے ان تمام افراد کے نام، ان کا منصوبہ، جہاز میں ٹائم بم پہنچانے کا طریق کار، دھوکے سے استعمال ہونے والی روسی سیاح خاتون اور اس کی سیٹ نمبر وغیرہ سمیت سب کچھ تفصیلاً بتادیا ہے۔ اب اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ ساری کہانی جھوٹی اور دعویٰ غلط ہے تو روسی ذمہ داران، برطانوی قانون کے مطابق اخبار اور انٹرویو دینے والے پر کروڑوں روپے ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ ہرجانے کا کوئی دعویٰ یا کوئی تردید تو نہیں ہوئی، البتہ ۲۱ جنوری کو برطانوی عدالت کے ایک فیصلے سے کارپشکوف کے اس دعوے کو تقویت ضرور ملی۔ عدالت نے ۲۰۰۶ء میں لندن میں ایک روسی جاسوس الگزنڈر لیٹفینکو کے قتل کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق سابق روسی جاسوس کو روسی خفیہ ایجنسی نے زہر دے کر قتل کیا تھا۔ قصور اس کا یہ تھا کہ اس نے اپنی ایک کتاب میں کئی خوف ناک انکشافات کر دیے تھے۔ ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ چیچنیا میں اپنی فوجیں اُتارنے سے پہلے، راے عامہ ہموار کرنے کے لیے کئی روسی شہری آبادیوں میں چیچن ’باغیوں‘ سے منسوب بم دھماکے، دراصل روس نے خود کروائے تھے، اور پوٹن نے ان کی سرپرستی کی تھی۔
یہ خبریں بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ شام میں روسی افواج کی آمد کے موقع پر روسی صدر پوٹن اور صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کے مابین تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ بشار الاسد کی حمایت کے لیے روس کی آمد بظاہر اسرائیل کے اہداف سے متصادم ہے، لیکن دونوں ملکوں نے باہم تعاون اور مفاہمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باہم قریبی روابط رکھیں گے تاکہ دونوں کسی غلط فہمی کی بناپر ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔
شاید اس سے بھی زیادہ حیرت آپ کو امریکی صدر اوباما کے حالیہ سالانہ خطاب سے متصل واشنگٹن کے وڈرو ویلسن ریسرچ سنٹر (Woodrow Wilson International Center for Scholars) میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈوری گولڈ کے خطاب سے ہوگی۔ یہ ریسرچ سنٹر واشنگٹن میں ایرانی نفوذ کا اہم ذریعہ، اور ڈوری گولڈ اسرائیل کے حقیقی وزیر خارجہ سمجھے جاتے ہیں۔ شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈوری گولڈ نے بعینہٖ وہ بات کہی جو کویت پر حملے کا سبز اشارہ دیتے ہوئے امریکی سفیر نے صدام حسین سے کہی تھی۔ اس نے کہا : ’’اسرائیل شام کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ دوسری اہم بات جو اس نے کہی، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ گولان (مقبوضہ شامی علاقہ) کے گردونواح میں ایرانی اثرونفوذ میں اضافہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا اور اسرائیل کسی صورت اس کی اجازت نہیں دے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دمشق پر آپ کا قبضہ ہمیں قبول اور گولان پر ہمارے قبضے کو آپ کسی صورت چیلنج نہ کریں۔
یہ امر بھی ہر شک سے بالاتر ہے کہ اس علانیہ اور خفیہ سفارت کاری، امریکا ایران ایٹمی معاہدے، ایران سے اقتصادی پابندیاں ہٹنے کامطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ اسرائیل اور امریکا ایران، سعودی عرب یا کسی اور مسلم ملک کے حقیقی خیر خواہ اور دوست بن گئے ہیں۔ امریکا اپنے قوانین اور معاہدوں کی روشنی میں اس بات کا پابند ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کو فوجی سازوسامان فروخت کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنائے کہ اس سے خطے میں اسرائیل کی عسکری بالادستی متاثر نہیں ہوگی۔ امریکی پالیسی ساز اداروں میں صہیونی نفوذ ان سے خود امریکی مفادات کے منافی فیصلے تو کرواسکتا ہے، اسرائیل کو ناگوار محسوس ہونے والے کسی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہشت گردی کے نام پر اس کی جنگ اور اس کی پالیسیوں کا مرکز و محور، مسلم ممالک کی مشکیں کسنا اور اسرائیلی ریاست کا دفاع یقینی بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تباہ کن اسلحہ رکھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عراق کو نشان عبرت بنایا گیا تھا اور یہ قتل و غارت ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل ہو یا کوئی بھی عالمی سامراجی قوت، اس وقت سب کا مشترک ہدف ایک ہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اختلافات کی یہ آگ کسی صورت بجھنے نہ دی جائے۔ جو فریق بھی کمزور ہونے لگے گا، وہ اسے کسی نہ کسی طور آکسیجن دیتے رہیں گے۔ اگر کہیں اقتصادی پابندیاں ہٹائیں گے تو بھی تیل کی قیمت میں تاریخی کمی کرتے ہوئے اسے عملاً بے وقعت کردیں گے۔ داعش اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہزاروں بم برسائے جاتے رہیں گے، لیکن وہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں نمودار ہوتی رہے گی۔
ایسے میں اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کی قیادت کا ہے۔ اگر جانتے بوجھتے بھی کسی نہ کسی تعصب، ضد یا نفرت و عداوت کا شکار ہو کر اور صرف اپنے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے رہے، تو شاید زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ سب ہی ندامت و شکست سے دوچار ہوں گے۔ لیکن اگر اس وقت کھلے ذہن، اعلیٰ ظرفی اور تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے گئے تو یقینا دوجہاں کی سرفرازی قدم چومے گی۔ بصورت دیگر ظلم اور ظالموں کے بارے میں قرآن کے اس خطاب کا مخاطب ہر ظالم اور اس کا ہر مددگار ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے۔ اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے نبیؐ، اُس دن سے تم انھیں ڈرادو، جب کہ عذاب انھیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے۔‘‘ (مگر انھیں صاف جواب دیا جائے گا) کہ ’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنھوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا او ردیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمھیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔ ’’پس اے نبیؐ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۴۲-۴۷)
ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم خلوص کے ساتھ جدوجہد کرتے رہیں گے تو اللہ پاک ہمیں کامیابی سے ہم کنار فرمائیں گے۔
توجہ فرمایئے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، انتظامی دفتر کا نیا فون نمبر:042-3525212
سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ (۱۰۷۷ئ-۱۱۶۶ئ) اللہ کی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں۔ خواہش تھی کہ اللہ کے اس برگزیدہ بندے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میں جامع معلومات حاصل ہوں۔ بدقسمتی سے ان کے بارے میں ملنے والی کتب اور ہمارے معاشرے میں ان کے کروائے جانے والے تعارف نے ان کی اصل شان دار شخصیت ہم سے چھین لی ہے۔ صرف وہی نہیں عالم اسلام اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کی اکثر بزرگ ہستیوں کو بے بنیاد اختلافات و خرافات کی نذر کردیا گیا ہے۔ بعض پیشہ ور، ان کا نام اپنی اور اپنی نسلوں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان کی حقیقی تعلیمات کو ہندوانہ رسوم و رواج سے مشابہ چند بدعات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے عراق کے ایک معروف سکالر ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی کا انھوں نے اپنی کتاب: ھَکَذَا ظَہَرَ جِیْلُ صَلَاحِ الدِّین (سلطان صلاح الدین ایوبی کی نسل یوں تیار ہوئی) میں حضرت عبدالقادر جیلانی.ؒ کا اصل تعارف کروادیا۔ کتاب کا عنوان دیکھیں تو دونوں شخصیات میں بظاہر کوئی ربط و تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء -۱۱۹۳ئ) ایک سپہ سالار اور حکمران تھے، جب کہ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ ایک عالم باعمل، عظیم مصلح، مربی اور فقیہ تھے۔ دونوں کا باہم کوئی براہِ راست رابطہ معلوم نہیں ہوسکا۔لیکن دونوں عظیم شخصیتوں نے بچپن ہی سے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سچی محبت دل میں بسائی کہ دونوں سراپا اخلاص و عمل بن گئے۔
الشیخ عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میںخود ان کی اپنی مایہ ناز تصنیفات اور ان کے بارے میں لکھی جانے والی بے شمار کتب اور مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ اُردن کے ڈاکٹر سعود ابو محفوظ اور لیبیا کے ڈاکٹر علی صلابی کی کتب سے بھی بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ ان کے بارے میں سب سے پہلی حیرت یہ جان کر ہوئی کہ وہ نہ صرف حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ ان کا شمار فقہ حنبلی کے نمایاں ترین علماے کرام میں ہوتا تھا۔ اپنے اس عظیم علمی مقام کے ساتھ ساتھ انھوںنے معاشرے میں پھیلی معاشرتی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی تصوف کو زندہ کیا۔ فقہ و تصوف کا یہی حسین امتزاج بالآخر انھیں دوجہاں میں رتبۂ بلند عطا کرنے کا سبب بنا۔ ان کے اس اعلیٰ علمی و اصلاحی مقام کا تقریباً ہر منصف مؤرخ نے انتہائی شان دار الفاظ میںذکر کیا ہے۔
ان میں سے ایک اہم ترین تذکرہ امام ابن تیمیہؒ کے ہاں ملتا ہے، جنھوں نے اپنے فتاویٰ کی جلد آٹھ اور گیارہ میں انھیں شریعت کے احکام و نواہی کی اتباع کرنے میں اس دور میں سب سے آگے بڑھ جانے والا قرار دیا ہے۔
اگر سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان سے پہلے امام غزالیؒ (م: ۱۰۵۸ئ) کے دور کے احوال پڑھیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہم آج ہی کے دور میں جا پہنچے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ انحطاط و فساد کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ ایک طرف تاتاریوں اور صلیبیوں کی یلغار اور دوسری طرف طوائف الملوکی، قتل و غارت، اخلاقی تباہی، علم اور علما کی زبوں حالی، ہر طرف اور ہر نوع کی شہوتوں کی غلامی، غرض ہر وہ لعنت و آزمایش جو آج مسلم اُمت کو درپیش ہے، اس دور میں عروج پر تھی۔ سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ جو امام غزالی ؒکے علم و فکر اور تجربات و احوال کا قریب سے مشاہدہ کررہے تھے، اس دوران تحصیل علم کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے حکمرانوں، علماے کرام، طلبہ و نوجوانوں، تجّار و عُمال ،ہر طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے ان پر ان کے اعمال کی حقیقت واضح کی۔ ان کی اصلاح کے لیے اپنا ایک مدرسہ و مرکز قائم کیا۔ جہاں تعلیم و تعلم کے علاوہ لوگوں کو مختلف اصلاحی تربیت گاہوں سے بھی گزارا جاتا۔
۵۰ برس کی عمر میں ان کا چرچا نمایاں طور پر عام ہوچکا تھا۔ فقہ حنبلی کے چوٹی کے عالم دین اور سیّد عبد القادر جیلانی ؒکے استاذ ابو سعید المخرمیؒ کا انتقال ہونے پر سب نے ان سے بغداد کے ایک علاقے ’ازج‘ میں واقع ان کے مدرسے کو اپنا مرکز بنانے کی درخواست کی۔ انھوں نے نہ صرف درخواست قبول کی بلکہ اس مدرسے کی توسیع و تعمیرِ نو کا بِیڑا اُٹھایا۔ ۱۱۳۳ء میں مدرسے کی تعمیر مکمل ہوئی تو پھر وفات تک، یعنی ۳۳ برس یہی مدرسہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بنارہا۔
آپ اس کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں جاتے، لیکن مرکز اصلاح و تربیت یہی مدرسہ ٹھیرا، جہاں ۱۳ علوم میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی لیکن علم الکلام اور فلسفے کی بے فائدہ بحثیں خارج از نصاب قرار دے دی گئی تھیں۔ ان کی جگہ انھوں نے سات اسلامی اقدار ہر طالب علم کے قلب و نگاہ میں راسخ کرنے کا اہتمام کیا۔ یہ سات بنیادی نکات تھے: (۱) توحید(۲) قضا و قدر کا صحیح مفہوم (۳)حقیقت ایمان(۴) امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور اولی الامر کا حقیقی مفہوم (۵) حقیقت دنیا و آخرت (۶) مقام نبوت و انبیا (۷) حقیقت زہد۔ یہ ارکان تربیت کوئی مجرد نصابی سرگرمی نہیں بلکہ تمام متعلقین کو ان کا عملی پابند بنایا جاتا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے پورے عالم تصوف کو اس کی کمزوریوں اور خامیوں سے پاک کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ بالخصوص ۱۱۵۱ء سے ۱۱۵۵ء تک کے چار سالہ عرصے میں انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہاے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال، اوتاد اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں۔ اس مدرسہ قادریہ میں مختلف علاقوں سے آنے والے طلبہ فیض یاب ہوئے لیکن ان علاقوں سے کہ جن پر دشمن قابض ہوچکے تھے آنے والے طلبہ کو خصوصی طور پر تربیت دے کر اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جاتا۔ ان طلبہ میں سے بھی بالخصوص بیت المقدس سے آنے والے طلبہ کو اہمیت دی جاتی۔ یہ طلبہ ’مقادسہ‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
سیّد عبدالقادر جیلانی ؒکی ان تمام سرگرمیوں میں بظاہر اس دور کے بڑے بیرونی خطرات سے کوئی تعارض دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن وہ اس امر پر یکسو تھے کہ افراد و معاشرے کی اصلاح کے بغیر کسی بڑے خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شخصیت و مقام کا مطالعہ کرنے والے تمام مؤرخ یہ نتیجہ اخذ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین ایوبی کی پشت پر اصلاحِ معاشرہ کی یہ پوری تحریک اصلاحِ معاشرہ نہ ہوتی تو وہ کبھی بیت المقدس آزاد نہیں کرواسکتے تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اور مجاہدین کو جس عظیم الشان انداز سے تیار کیا، اس میں ان کی ایمانی و اخلاقی تربیت بنیاد و ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں ہمیں امام غزالی، سیّد عبدالقادر جیلانی، نور الدین محمود زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسی چار عظیم شخصیات کی جدوجہد ایک سنگم پر یکجا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں سپہ سالاروں نے ان دونوں جلیل القدر ہستیوں اور ان کے مخلص شاگردوں کے اثرات و خدمات سے بھرپور استفادہ کیا۔ فقہ حنبلی کی معروف کتاب المُغْنِي کے مؤلف ،موقف الدین ابن قدامہ ہوں یا اپنے زمانے کے معروف مدرس اور واعظ ’ابن نجا‘ دونوں حضرات سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے خصوصی شاگرد تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انھیں اپنا خصوصی مشیر بنایا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کی طرح انھوں نے اپنے دور کے تمام دیگر علماے ربانی کی خدمات حاصل کیں۔ قوم کو معصیتوں بھری زندگی سے نکال باہر لانے اور اس میں روح جہاد پھونکنے کا اصل فریضہ انھی مبارک ہستیوں کے ذریعے تکمیل تک پہنچا۔ سلطان صلاح الدین اس حقیقت کا برملا اظہار کیا کرتے تھے کہ ’’میں نے بیت المقدس کو اپنی تلوار سے نہیں ان علماے کرام کے علم و فضل اور رہنمائی کے ذریعے آزاد کروایا ہے‘‘۔
o اصلاح و نجات کی اسلامی تحریکیں بعض اوقات کئی نسلوں تک جاری رہنے کے بعد فتح و نصرت کی منزل حاصل کرتی ہیں۔ پروردگار مختلف ادوار میں مختلف افراد سے مختلف کام لے رہا ہوتا ہے لیکن عملاً وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے اور قافلے کو فتح و کامیابی کی جانب آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
o اصلاحِ اقوام کے لیے اصلاحِ افراد بے حد ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ فاسق افراد مل کر کوئی صالح قوم تشکیل دے دیں۔ ارشاد ربانی کے مطابق: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد۱۳:۱۱) ’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
o اصلاحِ افراد و معاشرہ کے لیے وہی اصول اپنانا ہوں گے جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنائے۔ امام غزالیؒ اور سیّد عبدالقادرجیلانی.ؒ نے سب سے زیادہ زور توحید خالص کو اپنانے اور شرک، جھوٹ، منافقت اور بدعنوانی و خیانت چھوڑنے پر دی۔ جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سے بچپن ہی میں سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے سامنے ڈاکوؤں اور ان کے سردار کی توبہ کا واقعہ معروف ہے۔
o روحانیت اور تمام تر شرک و شوائب سے پاک راہِ تصوف، توحید و جہاد اور اقامتِ دین کی نفی نہیں، اس کی تکمیل کرتی ہے۔ آج کے دور میں بھی دیکھیں تو الاخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا نے اس کا خصوصی اہتمام کیا۔
o ان ہستیوں نے فروعی اختلافات اور علم الکلام کی مختلف بحثوں یا لفظی موشگافیوں میں اُلجھ یا اُلجھا کر معاشرے میں تقسیم و نفرت کی آگ نہیں بھڑکائی۔ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ نے ایسے علماے کرام کو کہ جو دین کو دکانوں کا درجہ دیے بیٹھے تھے اور سلاطین کو خوش کرنے کے لیے فتویٰ فروشی کے مرتکب ہوتے تھے، راہِ شریعت کھوٹی کرنے والے ڈاکو قرار دے کر بے نقاب کیا۔
o تبدیلی اس وقت آتی ہے جب محدود و مخصوص افراد کے بجاے معاشرے کے تمام افراد کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔ صلاح الدین ایوبی نے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان کے دیگر حنبلی علما و فقہا کے علاوہ شافعی علما کی نمایاں تعداد بھی ساتھ ملائی۔ سب نے مل کر اصلاح و جہاد کا فریضہ سرانجام دیا۔ البتہ جہاں مختلف باطنی تحریکوں سے واسطہ پڑا چاروں شخصیات امام غزالیؒ و سیّد عبدالقادر جیلانی ؒاور نورالدین زنگی و صلاح الدین ایوبی نے ان کی مکمل سرکوبی کی۔
پروردگار ہمیں بھی اپنے ان محبوب بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے اور دوجہاں کی سرخروئی عطا فرمائے، آمین!
پورے ۱۴۳۶ سال گزرگئے، سیرتِ اطہرؐ کے تمام ابواب کی طرح باب ہجرت آج بھی سراسر باب رُشد و ہدایت ہے۔ ہجرت کے ایک ہی موڑ نے، اہل ایمان کو ظلم و عذاب سے نجات دلا کر، ایک حقیقی اسلامی انقلاب کی منزل سے آشنا کردیا تھا۔ پھر یثرب، یثرب نہ رہا قیامت تک کے لیے ایک شہر روشن: ’مدینہ منورہ ‘ میں بدل گیا۔ عناد و تکبر کے بت دیکھتے ہی دیکھتے رزق خاک ہوتے چلے گئے اور صرف آٹھ برس بعد قافلۂ حق جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ (حق آگیا اور باطل رسوا ہوگیا) کا سرمدی ترانہ دہراتے ہوئے، بیت اللہ کو اپنے مخلصانہ سجدوں سے آباد کررہا تھا۔
سفر ہجرت یقینا قربانیوں کی ایک بے مثال و لازوال داستان ہے۔ مقصدِ حیات کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا گھر بار، مال و متاع بلکہ اہل و عیال تک قربان کردیے۔ سفر ہجرت، اللہ کی معیت و نصرت اور معجزاتِ نبیؐ کا ایمان افروز تذکرہ بھی ہے۔ غارِ ثور کی سرگوشی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج ( فکر نہ کریں اللہ یقینا ہما رے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹:۴۰)، اُم معبد کا خیمہ اور سراقہ کی سواری سب اس کی تفصیل سناتے ہیں۔ لیکن سفر ہجرت آپؐ کی عظیم منصوبہ بندی اور اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ (ان کے مقابلے کے لیے جتنی تیاری کرسکتے ہو ضرور کرو۔ انفال ۸:۶۰) کی جامع تفسیر بھی ہے۔ خون کے پیاسے دشمن ہی سے نہیں، ان کی طرف سے اعلان کردہ بڑی انعامی رقم کے لالچ میں ہر قدم پر ممکنہ دشمن سے خطرات لاحق تھے۔ آپؐ نے احتیاط و حذر، مناسب سواری، جاں نثار یارِ غار، صحرائی راستوں کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جاننے والے راہ نما، دشمن کی نقل و حرکت سے آگاہ کرنے والے زیرک خبررساں___ گویا ایک ایک ضرورت کا اہتمام اور انتظام فرمایا تھا۔ پورا سفر خود اذنِ الٰہی سے شروع ہوا تھا، اللہ پر بھروسا اور اعتماد بھی آپؐ سے زیادہ کون کرسکتا تھا، لیکن انسان ہونے کے ناتے ہر وہ تیاری کی گئی جس کا تصور اس دور میں کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ منتظم ہی کرسکتا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، تو وحی کے انداز و موضوعات بھی بدلتے گئے۔ اب دعوت و تربیت، ایک اُمت اور ایک ریاست میں بدل رہی تھی۔ انسانیت کو عقائد و عبادات کے ساتھ، معاشرت و ریاست کے تفصیلی احکام کی بھی ضرورت تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز یہ بشارت مل گئی کہ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے، اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ زندگی کا کوئی گوشہ رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا گیا۔ خالق نے مخلوق کے حقوق بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کردیے۔ یہ اعزاز و سرفرازی اتنی شان دار تھی کہ غیر مسلم بھی حسرت سے کہنے لگے: ’’یہ آیت ہمارے لیے نازل ہوئی ہوتی تو ہم آج کا دن روزِ عید قرار دے دیتے‘‘۔
اسی کامل و اکمل شریعت میں کئی اہم اُمور ایسے ہیں جن کے بارے میں اصولی رہنمائی دے کر بندوں کو فیصلے اور چناؤ کا اختیار دے دیا گیا۔ یہ بھی رحمن و رحیم پروردگار کی رحمت ہی کا ایک پرتو تھا، تاکہ بندے ہر بدلتے حالات میں اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق:’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرائض عائد کردیے، انھیں ضائع نہ کرو۔ تمھارے لیے حدود متعین کردیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ تمھیں کچھ چیزوں سے منع کردیا، ان کا ارتکاب نہ کرو۔ اور کچھ اُمور کے بارے میں اس نے بھولے بغیر او رتم پر رحم کرتے ہوئے سکوت اختیار فرمایا، ان کے بارے میں غیر ضروری تکلف میں پڑے بغیر انھیں قبول کرلو‘‘۔
حکومت سازی اور انتقالِ اقتدار کا معاملہ بھی انھی اہم اُمور میں سے ایک ہے۔ اسلام میں کسی بھی طرح کی آمریت، ظلم و تعدی یا انتشار و فساد کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ مسلم معاشرے کا ہرشہری یکساں حقوق و مواقع رکھتا ہے۔ واضح حکم دے دیا گیا کہ: شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کیا کیجیے۔آل عمران۳:۱۵۹)۔ آپؐ اور آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اجتماعیت کے اس بنیادی حسن، شورائیت و مشاورت کا حق ادا کردیا۔ اللہ کا نبی اور صاحبِ وحی ہونے کے باوجود صحابہ کرامؓ نے اگر آپؐ کی راے سے مختلف کوئی راے رکھی، تو کامل اخلاص و محبت سے اس کا اظہار کیا۔ آپ نے بھی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کی آرا کو تسلیم کیا۔ بدر میں پڑاؤ اور اُحد کے میدان کا انتخاب جیسے درجنوں واقعات اس مشاورتی عمل کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔ آپؐ کی رحلت کے بعد انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آپؐ کی تربیت اور قرآنی تعلیمات پر عمل در آمد کا پہلا کڑا امتحان تھا۔ یہی صورت خلیفۂ اول اور ان کے بعد آنے والوں کو درپیش آئی۔ آئیے! یہاں چاروں خلفاے راشدین کے انتقالِ اقتدار کے واقعات مختصراً تازہ کرلیں۔
’’میں نے اپنے بعد عمر بن الخطاب کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کی بات سنیں اور ان کی اطاعت کریں۔ میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین اور خود اپنی بھلائی کے لیے بہترین فیصلہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ اگر انھوں نے انصاف سے کام لیا تو ان کے بارے میں میرا یہی گمان اور علم ہے۔ اور اگر وہ اس راے سے مختلف نکلیں، تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے، مجھے کوئی علم غیب نہیں۔ کیا آپ بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں جنہیں میں نے اپنے بعد آپ لوگوں کا خلیفہ بنایا ہے؟‘‘ تمام صحابہ کرام نے بالاجماع اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
بظاہر ان چاروں خلفاے راشدین کے لیے طریق انتخاب مختلف رہا، لیکن سب نے اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح، یعنی آزادانہ راے اور شورائیت کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ ان سب قدسی نفوس نے ہمیشہ خود کو عوامی عدالت میں پیش کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے الفاظ میں کہا: ’’میں آپ کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کریں اور اگر غلطی کروں تو میری اصلاح کردیں‘‘۔ اس ضمن میں صحابہ کرامؓ اس قدر دوٹوک اور بیدار تھے کہ ایک خاتون نے بھی راہ چلتے خلیفۂ راشد کو روک کر کہا: آپ نے کیسے یہ فرمان جاری کردیا کہ خواتین کے لیے حق مہر کی رقم ایک متعین حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی حالانکہ خود قرآن کریم ڈھیروں کے ڈھیر مہر ہوسکنے کا ذکر کرتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ تھے کہ کئی مواقع پر ان کی راے کی توثیق خود وحی الٰہی نے کی تھی۔ آپ چند لمحے سوچ کر بولے: أَصَابَت اِمرَأَۃٌ وَ أَخطَأَ عُمَر( ایک خاتون کی راے درست ہے اور عمر کی راے غلط)۔ حق مہر کی رقم محدود کردینے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ پورا دور خلافت راشدہ آزادیِ راے اور حقیقی جمہوریت کی ایسی لاتعداد مثالوں سے درخشاں ہے۔ رسول اکرمؐ نے بھی اس درخشندہ دورِ خلافت راشدہ کی بشارت دیتے ہوئے اسے انسانیت کے لیے رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ’’آپ نے مختلف فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’آپ لوگوں میں سے میرے بعد جو زندہ رہا، وہ معاشرے میں بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے میں آپ لوگ میری اور میرے بعد آنے والے سراپا ہدایت خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کیجیے گا۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیے گا‘‘۔ (صححہ الالبانی)
۱۴۳۶ سالوں پر مشتمل تاریخ شاہد ہے کہ اس پورے عرصے میں جو معاشرہ جتنا جتنا اس سرچشمہء خیر سے قریب رہا، اتنا ہی کامران ہوا۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کے اس درست ترین پیمانے سے جو بھی او رجتنا بھی دُور ہوا اتنا ہی برباد و بے آبرو ہوتا چلا گیا۔ تاریخ کے تمام ادوار اور زندگی کے باقی تمام ابواب ایک طرف رکھ کر، ہم اگر عہد حاضر کے مختلف نظام ہاے حکومت ہی پر نگاہ دوڑائیں، تو صرف وہی نظام سرخرو ثابت ہوگا کہ جس میں ان بنیادی اسلامی تعلیمات کی روح کارفرماہوگی۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کا نظام رائج ہو تو غیر مسلم معاشرے بھی امن و خوش حالی کی اعلیٰ مثالیں بن کر دنیا کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب جب آزاد اور پُرامن معاشروں میں اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کرنے کی بات ہو تو یہ تحریکیں مکمل طور پہ پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کی قیادت اور کارکنان کو پھانسیوں پر چڑھادیا گیا اور چڑھایا جارہا ہے۔ ان کے کارکنان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ مصر، شام، بنگلہ دیش اور یمن سمیت کئی ممالک میں آج بھی ان تحریکوں کے ایک لاکھ سے زائد کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت سہ رہے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ انھوں نے دل و دماغ پر دعوت کی دستک دینے کے بجاے، بم دھماکوں یا اپنے مخالفین کو ذبح کردینے کی بات نہیں کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تین نکات کی صورت دوٹوک اصول واضح کردیے:
۱- آپ اس ملک میں اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
۲-آپ جس ملک میں کام کررہے ہیںوہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔
۳- ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔
اور پھر فرمایا: ’’ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے توبالکل منطقی طور پر وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا ۱۰،۲۰،۵۰ برس بعد، بہرحال اگر آپ کو یہاں کبھی اسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔
رب ذو الجلال کی مشیت ان اسلامی تحریکات کو ایک اور طرۂ امتیاز عطا کرتی ہے۔ مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین یا ترکی و یمن کی جیلیں ہوں یا وہاں کے پھانسی گھاٹ اور عقوبت خانے، جتنا جتنا ان تحریکات کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے، ان تحریکات کو اللہ نے مزید قوت و اہمیت عطا کی ہے۔ وہ تحریک جسے مصر اور پاکستان ہی میں نابود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، آج نہ صرف پورے عالم اسلام بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی مضبوط و توانا وجود رکھتی ہے۔ ۱۹۴۹ء میں امام حسن البناؒ کو شہید کرکے ساری تحریکی قیادت جیلوں میں بند کردی گئی۔ جیلوں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ تب سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۱ء میں پہلی بار اخوان کو برسرِاقتدار آکر قوم کی رہنمائی و نمایندگی کا موقع ملا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ جو ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گئے تھے، اب صرف مصر میں ان کی تنظیمی افرادی قوت ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تقریباً یہی عالم دیگر مسلم ممالک میں ہے۔
ترکی میں ملّی نظام پارٹی، ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی اور پھر فضیلت پارٹی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن آج ان پابندیوں اور گرفتاریوں کا شکار رہنے والی قیادت ہی ترکی میں اصلاح و استحکام کی شان دار مثالیں قائم کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے کبھی انتخابی نتائج میں وہ سرخروئی حاصل نہیں کی تھی، جو جیلوں میں رہ کر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی ہے۔ خاکم بدہن بہت ممکن ہے کہ یہ پرچہ آپ تک پہنچنے تک علی احسن مجاہد ( سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) کی شہادت کی روح فرسا خبر بھی پہنچ جائے، لیکن پیچھے رہ جانے والوں سے زیادہ، ان آگے جانے والوں کو یقین ہے کہ ان کی یہ قربانیاںبالآخر شورائیت پر مبنی حقیقی جمہوریت کے قیام کی بنیاد بنیں گی۔ رہ گئیں ان کی قربانیاں، تو دنیا میں ہر آنے والے کو بہرحال واپس جانا ہے، اور شہادت کی سعادت کے لیے خود رسولِؐ رحمت اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ تمنا اور دُعائیں کرتے رہے۔
یہ حقیقت بھی کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ مادر پدر آزاد معاشروں کی مغربی جمہوریت اور سر پہ ’حاکمیت اعلیٰ‘ کا تاج سجائے مسلمان ممالک کے تصورِ جمہوریت میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغربی ممالک کا جمہوری نظام اس حوالے سے یقینا باعث رشک ہے کہ اس میں اب بھی کرپشن، دھاندلی،ہارس ٹریڈنگ، غنڈا گری اور جعل سازی کا عنصر قدرے محدود ہے، جب کہ مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ سب خرابیاں اور انتخابات لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب مفاسد کے باوجود مسلم ممالک، اپنی مجالس شوریٰ، یعنی ایوان ہاے اسمبلی کے ذریعے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہنے کے پابند ہیں۔ مثال کے طور پہ کوئی مسلم معاشرہ اہل مغرب کی طرح اس بہیمیت و حیوانیت کی سطح تک گرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی مردوں سے شادی کو جائز و ممکن قرار دینے جیسے جرائم کا ارتکاب کرسکے۔ اصل سوال البتہ یہ ہے کہ مروجہ نظام راے دہی، یعنی انتخابی عمل کی خامیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟
افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام سے زیادہ خود اپنی اور اپنے معاشرے کی خامیاں سامنے آئیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سکھایا تھا: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ، ہم تیرے نافرمان ہر شخص کی اطاعت کا قلاوہ اتارنے اور اسے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے: ’’جس نے کسی فاجر کو اپنا ذمہ دار چنا تو وہ بھی اسی کی طرح کا فاجر ہے‘‘۔
امام غزالی احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں فرماتے ہیں: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کے بغیر دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور دین جڑواں چیزیں ہیں۔ دین اصل اور اقتدار نگہبان ہے۔ جس عمارت کی اصل و بنیاد نہ ہو، وہ ڈھے جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ ضائع ہوجاتا ہے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا’’اگر میری ایک ہی دُعا قبول ہونی ہوتی تو میں وہ دُعا حکمران کی اصلاح کے لیے کرتا‘‘۔ لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دعوے دار ہمارا معاشرہ صرف آپ کی ولادت و بعثت و ہجرت اور مختلف صحابہ کرامؓ کی شہادت کے ایام منانے ہی کو دین کی اصل معراج قرار دیتا ہے۔ انتخاب و اقتدار کو محض ایک کھیل تماشا، اور مفادات کی غلیظ جنگ بنادیا گیا ہے۔ اس پوری جدوجہد کو دینی فریضہ اور عبادت سمجھنے والوں کی اکثریت بھی اس کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے اپنے محدود دائرے میں مخصوص سرگرمیوں پر اکتفا کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت اور آپؐ کی سراپا عمل و جہاد حیاتِ طیبہ کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن خود آپؐ کے نقوش پا کی پیروی کرنے کا مرحلہ آئے تو صرف طفل تسلیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اخبارات، ٹی وی کے تبصروں، باہمی پسند و ناپسند اور گروہ بندیوں اور افراد کی غلطیوں کی بنا پر پوری تحریک کو مطعون کرتے ہوئے مایوسی پھیلانے کی نذر ہوجاتا ہے۔
بعثت کا اعزاز ملنے کے بعد سے لے کر وصال تک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لمحوں کے لیے بھی اس فریضے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔مکہ والوں میں سے کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ چھوڑا جس تک آپ نے اپنی دعوت نہ پہنچائی۔ قریبی شہروں میں بھی تشریف لے گئے اور مکہ آنے والے ایک ایک قافلے اور قبیلے کے پاس جاکر انھیں اس قافلہء حق میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بالآخر ایک شب یثرب کے چھے مبارک نفوس ابتدائی قبولِ دعوت کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلے برس موسم حج میں وہ دُگنے (۱۲) ہوکر آئے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوئی۔ اس سے اگلے برس (۷۵) (چھے گنا سے بھی زیادہ) ہوگئے۔ آپ نے ان کے ۱۲ نقیب مقرر کرکے گویا انھیں ۱۲ ذیلی تنظیموں کی لڑی میں پُرو دیا۔ چند ہی ماہ بعد پورا یثرب آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ اور پھر ایک وقتیَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا منظر نصیب ہوگیا۔
آج ہمارا کام تو نسبتاً آسان ہے۔ ہم نے کسی کو اس کے دینِ آبا سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل نہیں کرنا۔ ہم نے انھیں صرف حقیقت ِاسلام بتانی اور یاد دلانی ہے۔ خصوصی طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں دین، عبادت، رب اور الٰہ کا حقیقی مفہوم بتانا ہے۔ رسولؐ و بتولؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناؐ کی قائم کردہ اور خلفاے راشدین کی امانت اسلامی ریاست اور نظامِ حکومت کی حفاظت کی خاطر، کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی تھی، اس کے اصل مقصد سے آشنا کروانا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرکے اس کے حق میں اپنا ووٹ دینے سے انکار ہی تو کیا تھا۔ آج ہمیں اپنے معاشرے اور اس سے پہلے خود کو یہ فرمانِ الٰہی یاد دلانا ہے کہ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ o(ھود۱۱: ۱۱۳)’’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے‘‘۔
ہم نے اپنے حصے کا یہ کام کرلیا، بلااستثنا معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنے اور انھیں قافلۂ حق میں شریک کرنے کا آغاز کردیا تو ان شاء اللہ بہت جلد ایک اور فرمانِ الٰہی ہمیں بشارت دے رہا ہوگا: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o(الروم۳۰: ۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں گے‘‘۔
جاں نثار صحابی حضرت خباب بن الأرتّ نے رات کے پچھلے پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے تابانہ دُعائیں دیکھیں تو تڑپ کر پوچھ ہی لیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آج تو لگتا ہے خصوصی دُعا ہوئی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ ہمیں اس طرح (کسی عذاب) سے ہلاک نہ فرمائے کہ جیسے گذشتہ قومیں ہلاک کی گئیں۔ اللہ نے میری دُعا قبول فرمالی۔ میں نے دُعا کی کہ ہم پر ہمارے دشمن کو غالب نہ رہنے دے۔ اللہ نے میری یہ دُعا قبول فرمالی۔ پھر میں نے اپنے رب سے دُعا کی کہ ہمیں باہم دشمن گروہوں میں نہ تقسیم کردے مگر میری یہ دُعا قبول نہ کی گئی‘‘۔ رب ذو الجلال کا فیصلہ تھا کہ اس نے ہمیں باہم اختلافات کے ذریعے آزمانا ہے اور اسے معلوم تھا کہ ہم نے اس آزمایش میں ناکامی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس نے اپنے حبیب کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ یہ حدیث اور ایک دوسرے موقعے پر ارشاد کیا گیا یہ فرمان کہ ’’عنقریب تم لوگوں پر اقوام عالم یوں جھپٹیں گی جیسے بھوکے کسی دسترخوان کی طرف لپکتے ہیں‘‘ کو دیکھیں تو عالمِ اسلام کا حالیہ نقشہ واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔
ایک طرف گذشتہ ۱۵ سال سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر مکمل تباہ کاری ہے۔ امریکی سرپرستی میں عالمی فوج کشی تمام قانونی و اخلاقی پابندیوں سے بے نیاز ہے۔ اس ضمن میں گوانتا نامو، ابو غریب اور ڈاکٹر عافیہ کی مثال ہی کافی ہے۔ دوسری طرف تقریباً ہرمسلمان ملک میں فتنوں کا وہ طوفان ہے کہ ایک بند باندھیں ۱۰۰ بند ٹوٹتے ہیں۔ دین، عبادت اور جہاد جیسے مقدس الفاظ کو دہشت اور خوں ریزی کی مہیب علامت بنادیا گیا ہے۔ مسلک اور فرقہ بندی اصلِ دین قرار دی جارہی ہے۔ کتنے ایسے مسلمان ملک ہیں کہ جن کے شہری، شیعہ یا سنی کو صہیونی درندوں سے زیادہ بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ کتنے ایسے ملک ہیں کہ جہاں سفاک جنرل سیسی، درندہ صفت بشار الاسد اور قاتل حسینہ واجد جیسے ننگِ انسانیت حکمران اپنے ہی شہریوںکو پیوند خاک کررہے ہیں۔
تین سالہ معصوم شامی بچے عیلان عبد اللہ کی سمندر میں تیرتی تصویر تو صرف ایک استعارہ ہے۔ ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ کے بعد سے پورا شام خون کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ عیلان عبداللہ کی تصویر شائع ہونے کے بعد یورپ کی طرف بھاگتے تباہ حال شامی مہاجرین کا بھی ایک مختصر سا گوشہ ہی عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بن سکا ہے، وگرنہ اس وقت ایک کروڑ ۲۰لاکھ سے زائد شامی عوام مختلف مہاجرین کیمپوں میں موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہاں اس بات کا اعتراف و اظہار ضرور کرنا چاہیے کہ بعض یورپی ممالک مثلاً جرمنی، کسی حد تک فرانس اور قدرے تردد کے بعد برطانیہ نے ان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولنے کا اور اربوں ڈالر کے بجٹ کا ’اعلان‘ کیا ہے۔ لٹے پٹے مہاجرین سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد ان ممالک میں پہنچے تو لباس و غذا کے سٹال لگاکر ان کا استقبال کیا گیا اور اُمید کی جارہی ہے کہ یہ مہاجرین مستقبل میں بھی وہاں بہتر مواقع حاصل کرسکیں گے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ان چند ہزار مہاجرین کو پناہ ملنا یا نہ ملنا ہی اصل مسئلہ ہے؟ تین سالہ عیلان کی تیرتی لاش سے پہلے اسی بحیرہ روم میں ۲۸۰۰ شامی مہاجرین ڈوب چکے ہیں، ان میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ عالمی برادری اور اس کا فعال میڈیا کیوں اندھا بنارہا؟ ہمارے اپنے بعض وہ عزیز کالم نگار جو جرمنی کی چانسلر کے لیے ’خالہ میرکل! شکریہ‘ کی تختیاں سجا رہے ہیں، ترکی میں پناگزیں ۲۰ لاکھ سے زائد، لبنان اور اُردن میں ۲۵ لاکھ سے زائد اور سعودی عرب میں ۲۵ لاکھ اور خود شام کے اندر بے گھر ۸۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کے بارے میں ایک بھی حرف ہمدردی کیوں تحریر نہیں کرپائے؟ ترکی نے ان مہاجرین سے حسن سلوک کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ تمام سرکاری انتظامات کے علاوہ اس نے اعلان کیا ہے کہ جو شہری ان مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دیں گے، ان کے لیے بجلی پانی کے بلوں اور ٹیکس میں تخفیف کی جائے گی۔ سعودی عرب جہاں ۱۰ لاکھ سے زائد یمنی مہاجرین بھی آچکے ہیں اور جہاں اقامتی ویزوں کا حصول ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، وہاں ان شامی و یمنی مہاجرین کوویزوں کی تجدید اور کفیل کی بندش سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ لیکن کبھی ان کا ذکر خیر تک نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں مسلسل مخالفانہ مہم کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
ترکی یا سعودی عرب کا قصیدہ کہنا مقصود نہیں، لیکن عرض یہ کرنا ہے کہ جب شامی پناہ گزینوں کا ذکر ہو تو صرف یورپی ممالک کے گیت نہ گائے جائیں ان مسلمان ملکوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیجیے جو اس ضمن میں کوئی بھی ادنیٰ کوشش کررہے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر بھی کیا جائے کہ ہنگری، آسٹریا، سلوواکیا اور یونان سمیت متعدد یورپی ریاستوں میں ان مہاجرین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے۔ ہنگری نے ان لٹے پٹے مہاجرین کا راستہ روکنے کے لیے طویل آہنی باڑ قائم کرکے وہاں خونخوار کتے چھوڑ دیے ہیں۔ اسی طرح آسٹریا کی موٹروے پر شامی مہاجرین کی لاشوں سے بھرا ہوا ایک پورا کنٹینر دریافت ہوا اور ان ’انسانیت دوست‘ یورپی ممالک کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سلوواکیا نے بأمر مجبوری مہاجرین کی محدود تعداد وصول کرنے کا اعلان کیا بھی تو کہا ’’وہ صرف مسیحی مہاجرین کو آنے کی اجازت دیں گے‘‘۔ واشنگٹن پوسٹ سمیت مغربی پریس میں شائع ہونے اور مختصر عوامی احتجاج کے باوجود عملاً یہ پالیسی جاری ہے۔ یہ منظر بھی بیان کرنا چاہیے کہ کس طرح ہنگری کی ایک خاتون صحافی ان ہانپتے کانپتے مہاجرین کو ’دولتیاں‘ رسید کررہی تھی۔ جب کیمروں کی زد میں آگئی تو اس کے ادارے نے اسے برطرف کردیا، لیکن اگلے ہی روز برطانیہ میں ایک دوسرے ادارے نے ملازمت دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔
دوسری اور بنیادی بات یہ کہ شامی مہاجرین کا مسئلہ گمبھیر اور الم ناک ہونے کے باوجود اصل مسئلہ نہیں ہے۔ نہ آیندہ دو سال کے دوران ہی ایک لاکھ ۲۰ ہزار مہاجرین کو یورپ میں پناہ دینے کے اعلان سے یورپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔ اصل مسئلہ شامی درندے بشار الاسد سے وہاں کے عوام کو نجات دلانا ہے، ۱۹۷۰ء سے جس کا خاندان شام میں اپنے ہر مخالف سے حقِ حیات سلب کررہا ہے۔ امریکی سرپرستی میں یورپی ممالک بھی شامی عوام کے حق میں زبانی جمع خرچ تو خوب کررہے ہیں، لیکن بشار اور جنرل سیسی جیسے قاتلوں کو عوام پر مسلسل مسلط رکھنے میں بھی سہیم ہیں۔ ایک مثال سے ان ملکوں کے زبانی جمع خرچ کا اندازہ لگا لیجیے۔ امریکا نے بشار الاسد سے عوام کو نجات دلانے کے لیے انھیں فوجی تربیت دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ ۱۵ ہزار معتدل فکر رکھنے والے نوجوانوں کو تربیت اور اسلحہ دیا جائے گا۔ گذشتہ ۸ ماہ میں ان ۱۵ ہزار میں سے صرف ۵۴؍افراد کو تربیت دی گئی اور اس پر ۲۳ ملین امریکی ڈالر یعنی ۲ ارب ۴۰ کروڑ روپے خرچ دکھائے گئے۔ ان تربیت یافتہ افراد کے سربراہ عمار الواوی نے ڈیلی ٹیلی گراف کو خصوصی انٹرویو میں یہ اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ اگر اسی رفتار اور اس حساب سے تربیت دی گئی تو ۱۵ہزار افراد کے لیے ۳۸ سال کا عرصہ اور اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔الواوی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ امریکی ذمہ داران نے ہمیں دشمن کے سامنے تنہا چھوڑ دیا۔ اطلاع دینے کے باوجود کوئی امریکی جہاز ہماری مدد کو نہ آیا اور ہمارے پانچ ساتھی مارے گئے، باقیوں کو فرار ہوکر پناہ لینا پڑی۔ اخراجات اور عملی اقدام کی بعینہ یہی صورت داعش کے خلاف اعلان جنگ کی بھی ہے۔ عربی محاورے کے مطابق جَعجَعَۃ وَ لاَ طَحِین، ’’چکی کا شور بہت ہے، آٹا چٹکی بھی نہیں‘‘۔
یہ صرف ایک تجزیہ ہی نہیں، سامنے دکھائی دینے والی اور خود ان کی اپنی دستاویزات سے ثابت حقیقت ہے کہ وہ بشار جیسے درندوں کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں اور مخصوص مسلح تنظیموں کو بھی۔ ان دونوں کے خلاف جنگ کے نام پر پورے خطے کو مسلسل خوں ریزی میں مبتلا کرکے اس کے شکار مسلمان ملکوں کا خون نچوڑنا چاہتے ہیں۔ شام کوایران کا اور یمن کو سعودی عرب کا افغانستان بنانے کی باتیں علانیہ کی جارہی ہیں۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی منکشف ہوجانے والی دستاویزات کے مطابق اس عمل کو ’بھڑوں کے چھتے‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں خونی ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ خطے میں ایسے شدت پسند گروہ پیدا کرنا اور باقی رکھنا شامل ہے، جو اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دیں۔ ان کا خون بہاتے رہیں اور پڑوس میں واقع اسرائیل محفوظ رہے۔ اسی حکمت عملی کی تصدیق صہیونی وزیر دفاع موشے یعلون اور اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ عاموس یدلین نے بھی محدود افراد کے ایک سیمی نار میں کی ہے، جو صہیونی اخبارات میں شائع ہوگئی کہ ’’داعش اسرائیل کے لیے کوئی براہِ راست یا حقیقی خطرہ نہیں۔ اس کی عسکری قوت حماس کی قوت سے آدھی بھی نہیں ہے‘‘۔
زمینی حقائق اور دستاویزی ثبوتوں کے باوجود ہمیں اصل شکوہ امریکا، یورپ یا صہیونی دشمن سے نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ہماری ہی کمزوریوں، حماقتوں اور جرائم کو اپنی مرضی کا رُخ دیتے اور انھیں اپنے مفادات کے تابع بناتے ہیں۔ شام، عراق اور مصر میں جتنا خون خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کا بہایا اور بہا رہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ان کے دشمنوں نے نہیں بہایا۔ شام میں گذشتہ ساڑھے چار برس کے دوران میں ۳ لاکھ سے زائد بے گناہ عوام موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی تیزی سے جاری ہے۔ چند ہفتے قبل دمشق کے پڑوس میں واقع ’دوما‘ پر بشار کے ایک ہی حملے کے نتیجے میں ۳۰۰ افراد شہید ہوگئے۔ الغوطۃ الشرقیۃ پر حملے سے ایک ہی روز ۴۰۰ افراد شہید ہوگئے جن میں ۸۳ بچے اور ۲۰ خواتین بھی شامل تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ایک ہی روز قتل کردیے جانے والوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو گاہے یہ تعداد ہزار سے تجاوز ہوجاتی ہے۔
روسی ریچھ اب اس معرکے میں براہِ راست اتر آیا ہے۔ اس نے نہ صرف بشار الاسد کو بے پناہ اسلحہ دیا ہے بلکہ اپنے اعلیٰ عسکری مہارت رکھنے والی افراد بھی شام بھیجے ہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں بشار افواج کو ’ابوالظہور‘ فوجی ائیرپورٹ پر بڑی ہزیمت اُٹھانا پڑی تو اس پر قبضہ کرنے والوں نے وہاں سے نہ صرف شامی فوجی افسر بلکہ روس اور ایران کے ماہرین بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ خود روسی خبررساں ایجنسی ’گازیٹا رو‘ کے مطابق روسی فوجیوں کو دھوکے سے شام بھیجا گیا ہے۔ ایجنسی کی تحقیق کے مطابق ۱۷؍ اگست کو ان فوجیوں کے لیے احکام جاری ہوئے کہ وہ فوجی بندرگاہ ’نوورو سیسک‘ پہنچیں، وہا ں سے انھیں ایک انتہائی خفیہ کارروائی کے لیے بھیجا جانا ہے۔ وہ اسے یوکرائن جانے کا خفیہ حکم سمجھتے رہے، بعد میں ان پر عقدہ کھلا کہ انھیں شام بھیجا جارہا ہے۔ اب ایسے فوجی جنھیں شام بھیجنے پر قائل کرنا بھی ممکن نہیں تھا اور جو اپنے افسروں سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’’ہم بشار کی خاطر جانیں کیوں دیں؟‘‘ شام میں بھلا کیا کارنامہ انجام دے سکیں گے؟ لیکن روسی صدر پوٹین اس وقت روس کو پھر سے بڑی عالمی قوت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شرق اوسط میں شام اب اس کا آخری ٹھکانا ہے۔ اسے بشار کی پشت پر کھڑا رکھنے میں ایران کا بھی واضح اور بھرپور کردار ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب شام میں بشار الاسد صرف ۲۰ فی صد علاقے میں محصور رہ گیا ہے روس کا یہ اقدام اس کے لیے مفید ہوسکے گا یا نہیں؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ شام اور عوام کی مزید تباہی اور ہلاکتیں ہوں گی۔
شام ہی نہیں عراق بھی خوف ناک تباہی کے بعد اب ایک نئے آتش فشاں کے دھانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم نوری المالکی اور اس کے وزرا نے نہ صرف ملکی تباہی اور مسلکی منافرت کا ایجنڈا خوف ناک انداز سے آگے بڑھایا، بلکہ لوٹ مار اور کرپشن کے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کے باوجود پہلے کئی ماہ تک اسے دوبارہ وزیراعظم بنوانے کی کوشش کی گئی، اس میں ناکامی کے بعد اسے نائب وزیراعظم بنوادیا گیا۔ لیکن اب خود وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کی حامی شیعہ جماعتیں اس کی کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ اڑھائی ماہ سے ہر جمعے کے روز بہت بڑی تعداد میں عراقی عوام اس کے خلاف مظاہرے کرتے اور کرپٹ ٹولے کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم حیدر العبادی نے مالکی کو ہٹاکر اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ اس ضمن میں بغداد میں ہونے والا ایک قومی اجلاس بالخصوص نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس میں ساری مرکزی عراقی شیعہ قیادت جمع ہوئی اور ان کے ساتھ عراق میں موجود ایرانی جنرل قاسم سلیمانی صاحب بھی علانیہ شریک ہوئے۔ عراقی سیاست کا رخ طے کرنے کے لیے ہونے والے اجلاس میں اہم ایرانی جنرل کی شرکت کی تصاویر نے عراق میں ایرانی نفوذ کے مخالف عناصر کو بھرپور لوازمہ فراہم کیا۔ اگلے ہی ہفتے کربلا میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے بڑے اجتماع میں عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کے نمایندے عبدالہادی کربلائی نے ان کا پیغام سناتے ہوئے ’کرپشن کے خلاف جنگ‘ میں عراقی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔
واشنگٹن میں ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے موضوع پر ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں سی آئی اے کے سربراہ نے کہا تھا ’’عراق اور شام کے عوام اب خود کو اپنے ملک کے نام سے نہیں اپنے قبیلے، مسلک اور علاقے کی بنیاد پر متعارف کرواتے ہیں۔ ان کامزید کہنا تھا ’’میرا خیال ہے کہ آیندہ دو یا تین عشروں میں شرق اوسط کا نقشہ اس کے حالیہ نقشے سے یکسر مختلف ہوگا‘‘۔ نئے شرق اوسط کے پرانے امریکی نقشوں میں خطے کی تقسیم نو ہی نہیں، ان نئی ریاستوں کو باہم متحارب رکھنا بھی شامل ہے۔ گویا عراق میں ایک نئی شیعہ ریاست بنانا ہی مطلوب نہیں، فارسی شیعہ ریاست سے عرب شیعہ ریاست کا تصادم مقصود ہے۔ اللہ کرے کہ عراق میں جاری حالیہ سیاسی کش مکش تقسیم در تقسیم کے اس بیرونی خواب کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنے۔ وگرنہ حالات کا دھارا اس قدر ہولناک ہے کہ ہر آنے والے دن اسی مسلکی جنگ پر تیل چھڑک رہا ہے۔ عراق اور شام سے باہر خلیجی ریاستوں میں بھی آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جن کا انجام کسی صورت مثبت نہیں ہوسکتا۔ کبھی کویت سے ’حزب اللہ کے مسلح خفیہ سیل‘ کا انکشاف ہوتا ہے۔ کبھی بحرین سے اتنی مقدار میں اسلحہ پکڑا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ کے بقول اس سے پورا دارالحکومت تباہ ہوجاتا۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے جاری ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا اور یورپ سے چلنے والے ٹی وی چینلوں کے ذریعے صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ اور اہل بیت کے بارے میں وہ غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے کہ کوئی حلیم سے حلیم مسلمان بھی سن کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
مصر اور یمن کی صورت حال ایک الگ مفصل جائزے کی محتاج ہے لیکن وہاں بھی موت کا بھوت مسلسل تباہی پھیلا رہا ہے۔ مصر میں اپنے عوام کو بلاتردد قتل کرنے کی خوگر مصری فوج نے گذشتہ دنوں میکسیکو کے ۱۲ سیاح قتل کردیے تو مغرب میں کچھ احتجاج ہوا۔ میکسیکو کی وزیر خارجہ نے قاہرہ جاکر جنرل سیسی سے تاوان طلب کیا تو اسے بھی زبانی معذرت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ فوج نے ان شہریوں کو دہشت گرد سمجھ کر غلطی سے ماردیا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی بحران چل رہا ہے وگرنہ مصر میں ۴۰ ہزار سے زائد بے گناہ جن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے اور جن میں سے ۲۸۹ افراد اب تک جیلوں کے اندر تشدد اور بیماریوں سے موت کی وادی میں اُتر چکے ہیں، کے حقوق کے بارے میں کسی مغربی یا مشرقی ملک کو ادنیٰ سروکار نہیں ہے۔
یمن میں البتہ کچھ مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پورے ملک پر قابض ہوجانے والے باغی حوثی قبائل کو کئی محاذوں پر واضح شکست کا سامنا ہے۔ یمن کا دوسرا بڑا شہر عدن ان سے مکمل طور پر خالی کروالیا گیا ہے اور تحریک اسلامی یمن کے ایک فعال نوجوان کو اس کا عبوری اختیار سونپا گیا ہے۔ اب دارالحکومت صنعاء کو ان باغیوں سے واگزار کروانے کی کارروائی جاری ہے۔ کاش! یہ باغی پورے ملک پر قبضہ نہ کرتے۔ کاش! سابق ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح ۳۳ سالہ اقتدار پر اکتفاکرتے ہوئے، یمنی عوام سے انتقام لینے کی آگ نہ بھڑکاتا۔ اور کاش! ایران جیسا اہم برادر ملک ان باغیوں کی مدد نہ کرتا۔ لیکن اب تو وہاں پانی سر سے گزر چکا۔ اللہ کرے کہ یمن سمیت تمام ملکوں میں نفرت، انتقام اور تعصب کے بجاے امن، حکمت اور انصاف کا علم اُٹھانے والے آگے بڑھ سکیں۔
اب ایک جانب یہ سب قتل و غارت اور ڈکٹیٹر شپ کی لعنت ہے اور دوسری جانب اُمت کے قبلۂ اول کے خلاف کھلی صہیونی جارحیت عروج پر ہے۔ صہیونی ریاست اب مسجد اقصیٰ پر قبضے کی جانب ایک اور خوف ناک قدم اُٹھا چکی ہے۔ یہ حرم اقصیٰ کو تقسیم کرنے اور وہاں یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مکمل منصوبہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کو اوقات اور جگہ کے اعتبار سے تقسیم کرنے کے اس عمل میں جمعے کے روز فلسطینی مسلمانوں کو محدود تعداد میں مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت ہے، جب کہ ہفتے کا روز مکمل طور پر یہودیوں کے لیے کھلا ہوگا۔ اس کے علاوہ روزانہ صبح ۷ بجے سے ۱۱بجے تک بھی حرم اقصیٰ مسلمانوں کے لیے ممنوعہ اور یہودیوں کے لیے کھلا ہوگا۔ مسلمانوں کے لیے صرف مسجد کے اندر کا علاقہ مخصوص ہوگا، جب کہ حرم کا باقی پورا علاقہ یہودیوں کے لیے ہوگا۔
محصور و مقہور فلسطینی مردوزن مسجد اقصیٰ میں اوقات و اماکن کی اس تقسیم کو روکنے کے لیے گذشتہ کئی ماہ سے مسجد کے اندر معتکف ہوکر بیٹھے ہیں۔ ان معتکفین کو صہیونی قابضین نے دہشت گرد قرار دے دیا ہے اور اب ان ’دہشت گردوں سے مقابلے‘ کے لیے ’صہیونی سورما‘ ان پر حملہ آور ہوتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا سے مزین مسجد اقصیٰ میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کی ناپاک جسارت ہوئی تھی، تو پوری مسلم دنیا میں کہرام مچ گیا تھا۔ او آئی سی کی تنظیم اسی موقعے پر وجود میں آئی تھی۔ لیکن آج ہم ڈکٹیٹرشپ، اس کے مکار سرپرستوں، خوارج کے وحشی وارثوں اور اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے نتیجے میں چرکے سہہ رہے ہیں۔ مسلم دنیا کو معلوم ہی نہیں کہ مسجد اقصیٰ پر کیا بیت گئی۔ آج اگر اُمید ہے تو دشمن کے بارے میں یکسو ان سچے مجاہدین سے ہے، جو اقصیٰ اور اس کے گردونواح میں برسرِ پیکار ہیں۔ ڈھارس ہے تو آغاز میں بیان کی گئی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبول ہوجانے والی اس دُعا سے ہے کہ ’’پروردگار ہمارے دشمنوں کو ہم پر حاوی نہ رہنے دے‘‘۔
ناجائز صہیونی ریاست نے بھی بہرحال معدوم ہوناہے۔ شیخ احمد یاسین کا یہ الہامی جملہ اہل فلسطین کو ہمیشہ فعال رکھتا ہے کہ ’’میں ۲۰۲۷ کے بعد دنیا کے نقشے پر اسرائیل نام کی ریاست کا وجود نہیں دیکھتا۔ اللہ نے اپنے اس شہید بندے کی بات کی لاج رکھ لی تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ اس کے پڑوسی ممالک بالخصوص شام، عراق اور مصر میں بھی جوہری تبدیلی کی پیامبر ہوگی۔
’’۹ مئی ۲۰۱۴ء کو ہماری نسبت طے ہوئی۔ شادی ہوئی تو میں نے پہلے ہی روز معاذ سے کہا کہ میں نے ایسے جیون ساتھی کے لیے دعا کی تھی جو مجھے اپنے ساتھ جنت لے جائے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے جنت لے کر جائیں گے۔ شہادت سے کئی ہفتے قبل انھوں نے مجھے کہا کہ ہم دونوں روزانہ قرآن کریم کے ۱۰صفحات تلاوت کیا کریں گے، تاکہ اکٹھے ختم قرآن کیا کریں۔ شہادت کے روز بھی فجر کے وقت معاذ نے مجھے جگایا اور کہا کہ آج مجھے ایک آپریشن کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ میں نے ابھی دو رکعت نماز شہادت بھی ادا کرلی ہے اور اللہ سے یہ دُعا بھی کی ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا خون میرے سر نہ آئے‘‘۔ یہ الفاظ اُردنی ایئر فورس کے اس پائلٹ معاذ الکساسبہ کی بیوہ کے ہیں، جسے چند ماہ پہلے داعش نے آہنی پنجرے میں کھڑا کرکے، زنجیروں سے جکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔ جلانے کے اس پورے عمل کو فلمایا اور وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں دکھایا گیا۔
عراق اور شام میں ’اسلامی ریاست‘ (داعش) کے قیام کا دعویٰ کرنے والے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کرنے کے واقعات تو اب ہزاروں میں ہیں۔ ان ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمایش کرنا بھی اب معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی زندہ انسان کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینک کر قتل کرنا، کسی کو پنجرے میں بند کر کے سمندر میں ڈبو دینا، کسی کی گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑا دینا… غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ پھر انتہائی مہارت سے اس کی فلم بنائی اور دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کو وہاں آنے کا حکم دیا جاتا اور قتل و تعذیب کے سارے مناظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ مارنے والے بھی ’اللہ اکبر‘ کہہ رہے ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی، اکثر لوگ کلمۂ شہادت ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض غیرمسلموں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں سے چند درجن ہی بنتی ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ارتداد کی وجہ اکثر وبیش تر ان کا بیعت سے انکار یا ’باطل نظام‘ کا حصہ دار اور دشمن کا ایجنٹ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اب تو اس کام کے لیے اعلانِ عام کردیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں داعش کا ایک نوجوان ہرمسلمان کو ترغیب دیتا ہے کہ:’’ اسلامی ریاست کے علاوہ تمام حکومتیں باطل پر مبنی ہیں۔ اس کے کارپردازان بالخصوص فوج اور پولیس کے ملازمین کو قتل کر کے ہمارے پاس آجائو ہم تمھیں پناہ دیں گے‘‘۔ اس طرح کے پیغامات سے متاثر ہوکر مختلف کارروائیاں کرنے والوں کی تعداد بھی اب کافی ہوچکی ہے۔ حالیہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہونے کے چند گھنٹے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملے سے پہلے حملہ آور نے اپنے سگے ماموں راشد ابراہیم الصفیان کو قتل کر دیا کیونکہ وہ سعودی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔
افسوس کہ والا شب ِ عید اپنے سگے بھانجے کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ پھر گذشتہ آٹھ برس سے صہیونی فوجوں اور جنرل سیسی کے ہاتھوں محصور اہلِ غزہ کے خلاف اعلانِ جنگ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عنقریب غزہ آرہے ہیں۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو وہاں خون کے دریا بہہ جائیںگے‘‘۔
ریاض شہر کے سابق الذکر واقعے کے بعد وہاں داعش یا دیگر مسلح تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں ۵۰۰ کے قریب افراد گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعے کی خبر اسرائیلی اخبارات میں ملاحظہ کیجیے: ’’غزہ میں موجود داعش کے ذمہ داران نے خبردار کیا ہے کہ ہم ریاض میں ہونے والی گرفتاریوں کا بدلہ لیں گے‘‘۔ یہ خبر ۱۹جولائی کو شائع ہوئی اور ۲۰جولائی کی صبح غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے ذمہ داروں کو نشانہ بناتے ہوئے پانچ بم دھماکے ہوگئے۔ ممکن ہے کہ یہ دھماکے داعش نے نہ کیے ہوں، لیکن ان کے بیان کے بعد ہرشخص کا ذہن سب سے پہلے ادھر ہی جاتا ہے۔
داعش کے بارے میں دنیا میں ہر طرف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ساری دنیا اس کی دشمن دکھائی دیتی ہے۔ امریکی سربراہی میں ۴۰ ممالک نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے۔ ۵۵۰؍ارب ڈالر اس جنگ کا بجٹ رکھا گیا ہے، لیکن شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں اچانک عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے، اور اپنی ریاست کا اعلان کرنے سے لے کر اب تک اس کے علاقوں، افرادی قوت اور اسلحے میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جدید ترین اسلحے اور گاڑیوں کی نمایش کئی کئی فرلانگ لمبے جلوسوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک ایک گاڑی اور ایک ایک جھونپڑی کو ڈرون حملوں سے اُڑا دینے والے امریکا کو دشمن کا یہ طویل جلوس اور نمایش کبھی دکھائی نہیں دیے۔
اس بارے میں، میں مزید حقائق تلاش کر رہا تھا کہ عراق سے الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ اور مرکزی رہنما نے ہاتھ سے لکھا، اپنا تجزیہ مطالعے کے لیے ارسال کیا۔ اس تجزیے کے اہم نکات اور خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’سوویت یونین کے خاتمے (اکتوبر ۱۹۱۷ئ- دسمبر ۱۹۹۱ئ) کے بعد امریکی پالیسی ساز اداروں کے لیے اپنا کوئی نیا دشمن ایجاد کرنا ضروری تھا۔ واشنگٹن نے ’اسلامی بنیاد پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر دشمن ایجاد کرلیا۔ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، خلیجی ریاستوں اور تمام اہم عرب ممالک سے لے کر ترکی تک سب ممالک شامل تھے، اس نئے دشمن کے خلاف جنگ میں ناکامی یا کامیابی کا اصل پیمانہ قرار پایا۔ بعض اہم ممالک میں عرب بہار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اسلام (یعنی اسلامی تحریکوں) کی کامیابی سے امریکا کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں سایکس پیکو (۱۹۱۶ئ)، سان ریمو (۱۹۲۰ئ) اور لوزان (۱۹۲۳ئ) معاہدوں کے مطابق خطے کی تقسیم میں مزید ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ اب اس نقشے میں رنگ بھرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کا نیا مرحلہ شروع کر دیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شروع کی جانے والی جنگ افغانستان ابھی عروج پر تھی کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق میں بھی فوجیں اُتار دی گئیں۔ تمام تر مذہبی اور نسلی فتنہ پردازیوں اور ۲۰۰۶ئ،۲۰۰۷ء میں بدترین خانہ جنگی کے بعد امریکا نے اس جنگ کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس عرصے میں تمام عالمی رپورٹوں کے مطابق عراق دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں سرفہرست آگیا‘‘۔
عراقی رہنما مزید لکھتے ہیں: ’’داعش مختلف مواقع اور واقعات کی روشنی میں مسلسل توانا ہوتی چلی گئی۔ عراق میں امریکی فوجوں کی آمد کے بعد اصل مزاحمت وہاں کی اہلِ سنت آبادی کر رہی تھی۔ امریکا اور عراق کی شیعہ حکومتوں نے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینے کے لیے ’القاعدہ‘ کا نام استعمال کیا۔ لیکن پھر جب اہلِ سنت آبادی نے اکثر علاقوں سے ’القاعدہ‘ کا تقریباً صفایا کردیا تو اس موقعے پر مختلف فرضی کارروائیوں کے ذریعے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا، مثلاً ابوغریب اور تکریت جیل سے قیدیوں کو رہا کروا کر لے جانا۔ پھر اچانک بغداد کے بعد عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بآسانی داعش کا قبضہ ہوگیا۔ اتنا بآسانی کہ خود داعش کو بھی اس پر حیرت ہوئی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس کی حکومت داعش کے اس قبضے کے ذریعے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ داعش نے کسی مزاحمت کے بغیر تین سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیا۔ اہلِ سنت اکثریتی آبادی کے شہر انبار کے گورنر کا کہنا ہے کہ میں عراقی وزیردفاع، فضائیہ کے سربراہ اور فوجی آپریشنز کے انچارج سے رابطہ کر کے انھیں داعش کا راستہ روکنے اور کوئی کارروائی کرنے کا کہتا رہا، لیکن انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ موصل شہر کے سیکورٹی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا کہ داعش کے سامنے مزاحمت کیے بغیر پسپا ہوجانے اور اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ جانے کا حکم براہِ راست عراقی وزیراعظم کی طرف سے ملا ہے‘‘۔ عراقی اخوان رہنما نے اس تجزیے میں مستقبل کی ممکنہ صورتوں پر بھی تفصیلی بات کی ہے جن سب کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے میں یہ سب شروفساد ’منظم انتشار‘ نامی امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ طے شدہ اہداف اور ضروریات کے مطابق مختلف مہروں کو استعمال میں لایا جاتا رہے گا۔ ان کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے گی اور انھیں باقی بھی رکھا جائے گا اور بالآخر پورے خطے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اس موقعے پر ایک صہیونی مضمون نگار عوفرہ بانجو کی تحریر بعنوان: ’کردستان اور داعش نئے علاقائی نقشہ گر‘ کا حوالہ بھی اہم ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے’ العربی ۲۱‘ میں اس کا مکمل ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کی تحریر کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ: ’’عراق اور شام اب کبھی ماضی کے عراق اور شام نہیں بن سکیں گے۔ اب بغداد حکومت، کردستان اور داعش کی ایک گنجلک تکون مستقبل کا نقشہ تشکیل دے گی‘‘۔ عوفرہ اس امرپر بھی اظہار اطمینان کرتا ہے کہ داعش اور اس کی شدت پسندی نے عراق، کردستان اور شام میں سیاسی اسلام (یعنی الاخوان المسلمون ) کے اثرونفوذ میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق کردستان کو موجودہ صورت حال میں جو اہم نقصان ہوا، وہ یہ ہے کہ اس کی آزادی (یعنی علیحدگی) کے لیے مجوزہ ریفرنڈم میں تاخیر ہو رہی ہے، لیکن اس کے مقابل اسے دو اہم فوائد ملے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی ہنگامے کے دوران اس نے تیل کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو بغداد کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ داعش کی سفاک شناخت کے مقابل کردستان ایک مہذب اور انسان دوست ریاست کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ داعش لوگوں کو غلام اور ان کی خواتین کو باندیاں بنارہا ہے اور کردستان لاکھوں مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار اس امر پر بھی اطمینان آمیز حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بہت سے کام جو ملکوں کی باقاعدہ افواج انجام نہیں دے سکیں، مسلح ملیشیا انجام دے رہی ہیں۔ اس موضوع پر گذشتہ مارچ کے ماہنامہ المجتمع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ استعماری اور جارح افواج کس طرح اپنے مقبوضہ علاقوں میں خود وہیں سے ایسی عوامی تحریکیں کھڑی کرتی ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب افراد کو دشمن افواج سے بھی زیادہ سفاکیت سے تہِ تیغ کرتی ہیں۔ فرانسیسی فاتح نپولین نے مصر پر قبضہ کیا تو ’یعقوب المصری‘ نامی غدارِ ملّت اور اس کی تحریک کی سرپرستی کی۔ الجزائر پر فرانسیسی قبضہ کرتے ہوئے ’الحرکیون‘ نامی تحریک شروع کروائی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر آزاد ہوا تو فرانسیسی جنرل ڈیگال نے ان کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہتک آمیز جملہ کہا: ’’یہ لوگ تاریخ کا ایک کھلونا تھے، محض ایک کھلونا‘‘۔ ویت نام میں امریکیوں نے ’اسٹرے ٹیجک بستیوں‘ کے نام سے ۱۶ہزار خائن بستیاں تیار کیں۔
عراق اور شام ہی نہیں خطے کے کئی ممالک میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہرجگہ تقریباً ایک ہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے اور ہم دیکھتے بھالتے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں ہر ملک یا گروہ اپنے اپنے دشمنوں پر وہی لیبل لگانا شروع کر دیتا ہے جس کے خلاف راے عامہ تیار کی گئی ہو۔ اس وقت اخوان کو شام اور عراق میں داعش نے اپنی سنگین کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے لیکن جنرل سیسی، بشارالاسد اور حوثی قبائل سمیت بہت سے لوگ کمال بددیانتی سے اخوان ہی کو داعش کا سرپرست قرار دے رہے ہیں۔ عیدالفطر کے تین روز بعد ترکی کے سرحدی شہر سروج میں خودکش حملہ کرکے داعش نے۳۱شہری شہید کردیے اور دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان کے مخالفین انھیں مسلسل داعش کا مددگار قرار دے رہے ہیں۔دشمن ایجاد کرنے کی جو بات آغاز میںگزری، وہ طویل عرصے تک عالمِ اسلام میں اپنے زہرآلود پھل دیتی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل اور آمر حکمرانوں کو اپنے لیے یہی صورت حال مثالی اور مطلوب دکھائی دیتی ہے۔ جابر حکمران چونکہ خود بھی ایک عارضی مہرہ ہوتے ہیں، اس لیے انھیں حتماً اور جلد اس ظلم کا انجام دیکھنا ہوگا، لیکن امریکا اور اسرائیل جو اس پوری فتنہ گری میں خود کو محفوظ و مامون سمجھ رہے ہیں، خود بھی یقینا اپنے انجام کو پہنچیں گے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل راہِ نجات قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ آپؐ کی اُمت کو رب ذوالجلال نے اُمت ِ وسط، یعنی راہِ اعتدال پر چلنے والی اُمت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انتہا کا شکار ہو جانا اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ آج اگر ایک طرف اسلام کی تمام بنیادی اصطلاحات: جہاد، اسلامی ریاست، اسلامی خلافت، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، حتیٰ کہ قرآن کریم اور رسولِؐ رحمت کو مذاق و استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف جہاد، شریعت، اسلامی حدود اور قوانین کو اپنے ہرمخالف کا صفایاکردینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بزعم خود امیرالمومنین کی بیعت سے انکار کو ارتداد اور ہرمرتد کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔خود یہ امر بھی انتہائی باعث ِ حیرت ہے کہ اس کے تمام تر ظلم و ستم کا اصل نشانہ خود مظلوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ شامی آمر بشارالاسد جیسا درندہ اور اس کی فوج ان سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس سفاک درندے سے برسرِپیکار مظلوم عوام اور ان کی مزاحمتی تحریک کو وہ چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ غزہ کے محصور و بے کس عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں، صہیونی ناجائز ریاست کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے۔
انبیاے کرام ؑ کے بعد محترم ترین ہستیوں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی کچھ لوگ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ایسی ہی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔ اُمت انھیں ’خوارج‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲:۴۰)جیسی لازوال حقیقت سے روشنی حاصل کرنے کے بجاے، اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دینے جیسی ہلاکت کا شکار ہوگئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے الفاظ میں کلمۂ حق کہہ کر اس سے مراد باطل لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ان کی تلاوت، ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے سامنے تمھیں اپنی تلاوت، اپنی نمازیں اور اپنے روزے کم تر دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترا ہوگا۔ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے اور اہلِ اوثان کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ بالآخر ان کی کج فہمی اور ’زعم تقویٰ‘ نے انھیں ایک ہی شب حضرت معاویہ ، حضرت علی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیوں تک کو شہید کرنے پر آمادہ کر دیا۔
اُمت کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فتنے کو جس کے پیچھے سراسر منافقین اور یہودیوں کی دسیسہ کاری شامل تھی، آج بھی اپنی تباہی کا ذریعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شیعہ سُنّی یا خوارج کی اصطلاحیں صرف کسی مخصوص گروہ ہی کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور طریق کار کا نام بھی ہے۔ آج کا عالمِ اسلام بُری طرح اس تقسیم کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام نسلی، لسانی، علاقائی اور سیاسی تعصبات سے لیا جا رہا ہے۔ عراق اور شام کا خونی نقشہ اب یمن تک پھیل چکا ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش اور بعض مغربی دستاویزات کے مطابق داعش کے بعد کوئی اور ایسی تنظیم سامنے لائی جانا ہے، جس کے سامنے داعش کا نام بھی ہلکا لگنے لگے۔ کاش! کہ ہم سب کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوکر خود کو دھوکا دینے کے بجاے صرف اور صرف حق و انصاف کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ ظلم کرنے والا خواہ بشارالاسد ہو یا جنرل سیسی، داعش ہو یا باغی حوثی قبائل، ہم میں سے کوئی ان کی حمایت یا دفاع نہ کرے۔ مظلوم خواہ کویت یا سعودی عرب کی کسی امام بارگاہ میں مارا جائے یا عراق و یمن کی کسی مسجد میں، اللہ ہمیں ہمیشہ اس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھے۔ بے گناہ قیدی مصر کی جیلوں میں ہوں یا فلسطین، بنگلہ دیش، کشمیر،اراکان اور افغانستان کے زندان خانوں میں ہمیں ان کی آزادی کے لیے ہر دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ ایک روز سب ہی کو ایسے روزِ بد دیکھنا پڑ سکتے ہیں والعیاذ باللّٰہ۔
۱۶ جون کو اکثر مسلمان ممالک میں شعبان کی ۲۹ تاریخ تھی، رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کا دن۔ بدقسمتی سے عین اسی روز کچھ بدنصیب اپنا نام مزید ظلم و ستم ڈھانے والوں میں لکھوا رہے تھے۔ قاہرہ کی عدالت میں ملک کے منتخب صدر محمد مرسی اور اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت اخوان کے درجنوں قائدین جمع تھے اور انھیں ایک بار پھر سزاے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جارہی تھیں۔ حالانکہ کمرۂ عدالت میں انصاف کرنے کا حکم دینے والی آیت قرآنی بھی جلی حروف میں لکھی تھی، لیکن مصر کے جج، احکام الٰہی کے نہیں، ’مصری فرعون‘ کے احکام پر عمل کے پابند ہیں۔ سب سزا یافتہ اپنے اپنے پیشہ ورانہ میدان کے شہ دماغ ہیں۔ صدر محمد مرسی انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی، مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع میڈیکل یونی ورسٹی کے پروفیسر، نائب مرشد عام خیرت کامرس میں پی ایچ ڈی اور عالم عرب کے چوٹی کے ۱۰۰ کامیاب ترین ماہرین اقتصادیات میں سے ایک۔یہی نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں یہ سب نابغہء روزگار دلوں میں قرآن بسائے، دن رات قرآن کی صحبت میں گزارنے والے حفاظ کرام بھی ہیں۔
تمام سزا یافتگان نے فیصلہ سن کر تکبیر تحمید اور تہلیل بلند کی، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد لااِلٰہ اِلَّا اللّٰہ۔ صدر محمد مرسی ایمان افروز خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمھاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیامیں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔(ایسے مومنوں کے اجر کو) جنھوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہا___ ان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے___ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خوامخواہ ڈرارہا تھا۔ لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو‘‘(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۸-۱۷۵) ۔ محمد مرسی نے تلاوت مکمل کی تو پورا کمرۂ عدالت ایک بار پھر اس آیت سے گونج اُٹھا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo (الِ عمرٰن ۳:۱۷۳) ۔پورے خطاب کے دوران، ظالم جج شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے، جب کہ سزاے موت کا حکم سننے والے یہ قائدین تمتماتے چہروں کے ساتھ سرخرو تھے۔ ان میں سے کئی بزرگ کہہ رہے تھے: ’’سب نے اپنے اپنے مقررہ وقت پر یقینا جانا ہے۔ ہم نے تو اسی موت کے لیے ۴۰سال انتظار اور جدوجہد کی ہے‘‘۔
اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ اسی کمرۂ عدالت میں اسی چیف جج نے چند روز قبل بھی ان رہنماؤں کو سزاے موت سنائی تھی۔ اس وقت اس کے دائیں طرف ایک کرخت چہرے والا جج (جمال عبدہ) بیٹھا تھا۔ سزا سنانے کے چند روز بعد ۱۳ جون کو کمرۂ عدالت میں بیٹھے بیٹھے ہی اس کی حرکت قلب بند ہوئی اورسامنے کھڑے اللہ والوں کو دھڑا دھڑ موت کی سزا سنانے والا، خود ان سے پہلے اللہ کی عدالت میں حاضر کردیاگیا۔ اس سے پہلے ۱۹ مارچ کو بھی اسی طرح کے ایک حیرت انگیز واقعے میں ایک جج احمد سعد کا دل ڈوبا، اور وہ دنیا سے کوچ کرگیا۔ یہ وہی جج تھا جس نے موت سے تین ہفتے قبل تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ رب ذو الجلال کی بے آواز لاٹھی اور اس کی قدرت ملاحظہ کیجیے کہ یہ سطور لکھتے ہوئے ٹی وی پر تازہ ترین خبر چل رہی ہے: ’’مصری صوبے دَمَنہور کا چیف جسٹس حازم الکحیلی اب سے پانچ منٹ پہلے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا، حادثہ اتنا شدید اور عجیب تھا کہ جج کا سرتن سے کٹ کر دور جاگرا۔ یہ جج بھی اخوان کے کئی بے گناہ اللہ والوں کو سزائیں سنا چکا ہے۔ان میں ۱۷ سالہ معصوم طالبہ سارہ رضوان بھی شامل ہے، جسے اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا، اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگا کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پروردگار عالم نے فرمایا ہے: اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰیo (النازعات ۷۹:۲۶)’’ اس میں (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے‘‘۔ وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآئِھِمْ مُّحِیْطٌ o(البروج۸۵:۲۰)’’ اور اللہ نے انھیں گھیرے میں لے رکھا ہے‘‘۔
ظالم حکمران ہیں کہ کسی بھی تنبیہہ سے عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ ۵۲ فی صد مصری عوام کے منتخب صدر کو کئی بار مختلف سزائیں سنانے کے بعد اب سزاے موت کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ۲۱جون کو انھیں عدالت میں لایا گیا تو انھیں پہلی بار سرخ لباس میں لایا گیا۔ کسی قیدی کا سرخ لباس اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ صدر محمد مرسی سے پہلے یہ سرخ جوڑا اخوان کے مرشدعام کو بھی پہنایا جاچکا ہے، اور اب ڈاکٹر محمد بلتاجی کو بھی۔ ڈاکٹر بلتاجی کا ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ جیل میں بند ہے۔ بیٹی اسماء بلتاجی رابعہ میدان میں شہید کردی گئی تھی اور دوسرا بیٹا لاپتا ہے۔ لیکن سرخ جوڑا پہنے ڈاکٹر بلتاجی عدالت آئے تو چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سامنے بیٹھے جج کے سامنے کھڑے ہوکر بلندآواز سے کہا: جج صاحب! آپ لوگ ہمیں روزانہ بھی کئی کئی بار پھانسیاں چڑھائو ہم تب بھی کسی صورت تم سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
اخوان کی اولوالعزمی ہے کہ بدترین جبر و تشدد کے دو برس گزر جانے کے بعد بھی ان کی تحریک ختم نہیں کی جاسکی۔ ۳۰ جون سیسی کے خونیں انقلاب کی دوسری سال گرہ بلکہ ’برسی‘ ہے۔ عین ممکن ہے اس موقعے پر سزائوں پر عمل درآمد کردیا جائے لیکن مظلوم قیدیوں سے زیادہ جابر حکمرانوں کو یقین ہے کہ بالآخر ظلم کا انجام بدترین اور عبرت ناک ہوگا، بالکل فرعون کی طرح۔ اس موقعے پر ایک کوشش اخوان کے اندر غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی بھی ہورہی ہے۔کچھ جذباتی نوجوانوں کو پُرامن تحریک سے مسلح جدوجہد کی طرف دھکیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لیکن یہ کوششیں بھی کوئی نئی بات نہیں پرانا ابلیسی ہتھکنڈا ہے اور الحمدللہ اخوان اس سے نمٹنا خوب جانتے ہیں۔