گولڈا مائیر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم تھی۔ وہ ۱۸۹۸ءمیں روس میں پیدا ہوئی، لڑکپن میں امریکا چلی گئی اور ۱۹۲۱ء میں فلسطین میں منتقل ہوگئی۔ فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی جانے والی ریاست کی سفیر پھر وزیر خارجہ اور ۱۹۶۹ءسے ۱۹۷۴ء تک وزیراعظم رہی۔ کئی حوالوں سے اس کی شخصیت او ر اس کا دور بہت اہم ہے۔ حال ہی میں اس کا ایک ویڈیو انٹرویو دیکھنے کا موقع ملا، جس میں وہ ۱۹۴۸ءسے پہلے کے فلسطین کا تفصیلی احوال بیان کرتی ہے۔ وہ اعتراف کرتی ہے کہ ۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۸ء تک وہ خود بھی فلسطینی پاسپورٹ رکھتی تھی۔ فلسطین، اس پر قائم کی جانے والی غاصبانہ ریاست اور فلسطینی عوام کے بارے میں اس کے کئی اقوال بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا خوف ناک ترین دن کون سا تھا اور سب سے خوش گوار دن کون سا؟ اس نے کہا کہ خوف ناک ترین دن ۲۱؍ اگست ۱۹۶۹ء کا تھا جب مسجد اقصیٰ کے جلائے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ میں ساری رات سو نہیں سکی۔ مجھے لگتا تھا کہ کسی بھی وقت ہر طرف سے عرب فوجیں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ اور خوش گوار دن اس سے اگلا روز تھا، جب ہمیں تسلی ہوگئی کہ فوج کشی تو کجا کسی عرب حکومت نے اس کا سنجیدہ نوٹس بھی نہیں لیا۔ پھر وہ کہتی ہے کہ ہمیں ان عربوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، البتہ ہمیں اس دن سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ’’جب ان کی مسجدوں میں نماز فجر کے لیے اتنے لوگ آنا شروع ہوجائیں گے جتنے لوگ ان کی نماز جمعہ میں آتے ہیں‘‘۔
۲۸جنوری ۲۰۲۰ء کو امریکی صدر ٹرمپ اور صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے فلسطین کے بارے میں اپنا ایک اہم منصوبہ پیش کرتے ہوئے اسے ’صدی کا سب سے بڑا سودا‘ (Deal of the Century )قرار دیا۔ اس دن سے فلسطین کے تمام شہروں میں ایک نئی فلسطینی قوم سامنے آرہی ہے۔ الفجر العظیم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے فلسطینی عوام، ہزاروں کی تعداد میں نمازِ فجر مساجد میں ادا کرتے ہیں۔ کئی شہروں میں یہ تعداد نماز جمعہ ہی نہیں، عید کے اجتماعات سے بھی بڑھ جاتی ہے اور مساجد سے باہر سڑکوں پر دور دور تک نمازی اُمڈ آتے ہیں۔ یہ اجتماعات صرف گولڈا مائیر کے طعنے ہی کا جواب نہیں، بلکہ نتن یاہو (عربی زبان میں نتن کا مطلب مردار کی بدبو ہے) کے اس اعلان کا بھی عملی جواب ہے کہ ’’اسرائیل اب ایک یہودی ریاست ہے اور پورے کا پورا بیت المقدس اس کا ابدی اور ناقابل تقسیم دار الحکومت ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے کی باز گشت گذشتہ تقریباً تین سال سے سنائی دے رہی تھی، لیکن جب تفصیل سامنے آئی تو وہ تحصیلِ حاصل بلکہ کسی ناجائز مردہ بچے کی ولادت سے زیادہ کچھ نہ نکلی۔ کوئی بھی معاہدہ یا سوداایک سے زیادہ فریقوں کے مابین ہوتا ہے، جب کہ یہاں صرف ایک ناجائز قابض اور اس کے سرپرست کے سوا کوئی دوسرا فریق تھا ہی نہیں۔ ٹرمپ، نتن یاہو منصوبے میں وہ تمام تکلفات بھی برطرف کردیے گئے ہیں، جو گذشتہ ۷۲ سال سے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے برتے جارہے تھے۔ پہلے بیت المقدس کو متنازعہ تسلیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا۔ سرزمین فلسطین پر اس کے اصل شہریوں کا حقِ وجود تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے ایک آزاد ریاست تشکیل دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔ صہیونی نوآبادیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تھا۔ گولان کے علاقے کو اسرائیل کے زیرتسلط شامی علاقہ مانا جاتا تھا۔ اب صہیونی جارحیت کے مکروہ عریاں بدن پر باقی یہ بچی کھچی دھجیاں بھی نوچ پھینکی گئی ہیں۔ ٹرمپ فخریہ انداز سے ان اقدامات کو اپنا تاریخی کارنامہ قرار دے رہا ہے کہ اس نے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرکے پورے بیت المقدس کو صہیونی علاقہ تسلیم کرلیا۔ اس نے گولان کو اسرائیلی علاقہ قرار دے دیا۔ اور اب وہ صدی کے اس سب سے بڑے سودے کا اعلان کرتے ہوئے، اس قدیم تنازعے کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کررہا ہے۔
البتہ فلسطین اور دنیا کو اب بھی یہ دھوکا دینے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ باقی ماندہ فلسطینیوں کے لیے ایک فلسطینی ریاست بھی تشکیل دی جائے گی۔ اس سراب ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے فلسطینی عوام کو چار سال تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس سمیت ۸۵ فی صد سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔ ساری مسلم دنیا سے بھی یہ حقیقت منوانے کے بعد بالآخر کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کیے گئے، کٹے پھٹے فلسطینی علاقے پر ایک ایسی ریاست قائم کی جائے گی جس کے شہریوں کا باہمی رابطہ بھی زیر زمین سرنگوں یا صہیونی چیک پوسٹوں کی اجازت سے مشروط گزرگاہوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔اس ریاست کی نہ اپنی فوج ہوگی، نہ وہ کوئی دفاعی اسلحہ رکھ سکے گی، نہ اس کی کوئی اپنی خارجہ پالیسی ہوگی۔ اس کا اصل ہدف اور ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ وہاں بسنے والے فلسطینی شہریوں کو صہیونی ریاست کے خلاف کسی بھی کارروائی سے باز رکھے۔ اگر یہ سب شرائط پوری کردی گئیں تو پھر پانچ سال کی مدت تک اسے ۵۰؍ ارب ڈالر کی امداد کی بتی کے پیچھے دوڑایا جاتا رہے گا تاکہ فلسطینی ریاست کے ڈرامے میں مزید رنگ آمیزی کی جاسکے۔
یہ سارا معاہدہ ایک ایسا دھوکا اور ناقابل عمل منصوبہ ہے کہ جسے خود کئی اسرائیلی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے بھی مسترد کردیا ہے۔ درجنوں اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ، نتن یاہو پر یہ پھبتی کسی ہے کہ انھوں نے اپنی حماقت سے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیا کا موضوع سخن بنادیاہے۔ پورا منصوبہ اس کے بنانے والوں کی زمینی حقائق سے لاعلمی کی دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ ایک اسرائیلی تجزیہ نگار یہودا شاؤول اسے ناقابلِ عمل دھوکا دہی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ’’جسے صدی کا بڑا سودا قراردیا جارہا ہے وہ بعینہٖ آج سے ۴۰ سال پہلے متتیاہو ڈروپلس نامی صہیونی دانش ور نے بھی پیش کیا تھا۔ وہ یہودی نوآبادیوں کی تعمیر کا ایک اہم ذمہ دار تھا، لیکن وہ ٹرمپ اور اس کے (یہودی) داماد کو چنر سے زیادہ انصاف پسند تھا۔ اس نے فلسطینیوں کے لیے مجوزہ انتظامات کو کم از کم ریاست کا نام نہیں دیا تھا‘‘۔ گویا اگر یہ قابلِ عمل ہوتا تو۴۰سال پہلے نافذ ہوجاتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس انتظام پر فلسطینی ریاست کانام چسپاں کرنا ایک تہمت ہوگی۔
کئی اسرائیلی اور مغربی اخبارات و تجزیہ نگاروں نے اس منصوبے کا اصل مقصد ٹرمپ کی اپنی صدارتی مہم اور نتن یاہو کی اپنی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ ’اسرائیل‘میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہ اکیلی یا دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرسکے۔ اب ۲مارچ کو ایک بار پھر انتخاب ہونا ہے اور نتن یاہو اس میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کی بے تابی کی ایک بنیادی وجہ اس کے خلاف ثابت ہوجانے والے بڑی کرپشن کے چارمقدمات ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسمبلی کے ذریعے ایسی قانون سازی کرسکے جو اسے سزا سے محفوظ رکھ سکے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز برطانوی اخبار دی گارڈین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ’’صدر ٹرمپ سے یہ اعلان کروانے میں دیگر لوگوں کے علاوہ ایک بنیادی کردار شیلڈن اولسن نامی ایک امریکی جواری اور اس کی اہلیہ کا ہے۔ انھوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کا چندہ بھی دیا ہے۔ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کروانے میں بھی ان دونوں کا اہم کردار تھا‘‘۔
امریکی پالیسی اور صہیونی عیاری کو دیکھیںتو گذشتہ ۱۰۰ سال سے وہ ایک جانب فلسطینی عوام کے حقوق مسلسل اور مرحلہ وار غصب کرتے چلے جارہے ہیں، اور دوسری طرف فلسطینی ذمہ داران اور دنیا کو وعدۂ فردا کے لالچ پر ٹرخاتے چلے جارہے ہیں۔ ذرا ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدہ اوسلو پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ اس وقت بھی اس معاہدے کو تاریخ ساز معاہدہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے میں امن کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس معاہدے کا ایک اہم کردار حالیہ فلسطینی ’صدر‘ محمود عباس تھے۔ انھوں نے اس معاہدے کے بارے میں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اپنی یادداشت لکھی ہے۔ ’طریق اوسلو‘ (اوسلو کا راستہ) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں انھوں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے سارپسبرگ میں کئی ہفتے جاری رہنے والے خفیہ مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کی اندرونی کہانی بیان کی ہے۔ اپنی کتاب میں وہ صہیونی ریاست کے ساتھ درپیش آنے والے معاملات اور اس دوران حاصل ہونے والی ’اہم کامیابیوں‘ کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ ۳۲۴پر لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۸۸ءمیں فلسطینی قومی مجلس کا اجلاس مراکش میں منعقد ہوا۔ اس دوران امریکی صدر بش نے مراکش کے شاہ حسن الثانی کے نام خصوصی خط میں اس مجلس کے لیے ایک خصوصی ’تحفہ‘ بھجوایا۔ تحفہ یہ تھا کہ ’’امریکی انتظامیہ آج کے بعد فلسطینیوں کو صرف فلسطینی کہنے کے بجاے ’فلسطینی عوام‘ کہا کرے گی‘‘۔ گویااب سمجھو کہ بس تمھاری ریاست قائم ہونے جارہی ہے۔
محمود عباس جنھیں یاسر عرفات کو زہر دے کر مارنے کے بعد بڑی آؤ بھگت اور کئی اندرونی سازشیں کرتے ہوئے فلسطینی رہنما کا منصب دیا گیا تھا، پہلے دن سے آزادیِ فلسطین کے لیے کسی بھی طرح کی جہادی سرگرمی کے مخالف تھے۔ وہ ہمیشہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ان کا اصل مقصد ’’إنھاءُ عَسْکَـرَۃِ الْاِنْتفَاضَۃ : تحریکِ انتفاضہ سے عسکریت کا خاتمہ‘‘ ہے۔ وہ مسلسل اپنے صہیونی دوستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فلسطینی عوام کو بھی ہمیشہ یہی باور کرواتے رہے کہ ہم بہت کچھ حاصل کررہے ہیں۔ اپنی اسی کتاب میں وہ اوسلو معاہدے کی شقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معاہدے کی شق ۷ میں فلسطینی اتھارٹی کو بجلی، پانی، ماحولیات، پٹوار خانے اور بندرگاہ کے انتظامات دیے گئے ہیں۔ ان سارے اختیارات میں اس خود مختاری کے کافی پہلو شامل ہیں، جو ہم مستقبل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ بیت المقدس کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بیت المقدس کو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے ایک فیصلے کے تحت اسرائیلی سرزمین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اب اوسلو معاہدے میں بیت المقدس کو حتمی مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرلیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے‘‘۔
محمود عباس اپنی کتاب میں ایک طرف اس طرح کے بودے دلائل دیتے ہوئے صہیونی انتظامیہ سے ہونے والے معاہدوں کو خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ان مذاکرات اور معاہدے پر دستخط ہونے کے آخری لمحے تک، صہیونی ذمہ داران کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کی مثالیں پیش کررہے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کو بحیثیت فریق ثانی قبول نہیں کیا تھا۔ سارے مذاکرات اسرائیل اور ’اُردنی و فلسطینی مشترک وفد‘ کے مابین ہوئے۔ معاہدہ تیار ہوگیا تو گویا اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیا۔ اس موقعے پر یاسر عرفات نے تجویز پیش کی کہ معاہدے کے آخر میں تنظیم کانام ثبت کیا جائے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اس ساری شٹل ڈپلومیسی کی تفصیل بھی لکھی ہے، جو تنظیم آزادی فلسطین کا نام لکھنے کے لیے کی گئی۔ اس ضمن میں کی گئی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو یاسر عرفات نے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک نہ ہونے کی دھمکی دے دی۔ اس دوران صبح ۹بجے اہم امریکی ذمہ دار جیمز بیکر عرفات کی اقامت گاہ پر آئے۔ انھوں نے پوچھا معاہدے پر دستخط کس وقت ہونا ہیں؟ عرفات نے بتایا کہ گیارہ بجے صبح۔ بیکر نے کہا اسرائیلی وفد ۵۸:۱۰ پر راضی ہوجائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا، معاہدے سے چند لمحے قبل اسرئیل نے ترمیم قبول کرنے کا عندیہ دے دیا۔ میزیں سج گئیں، دستخط کرنے سے قبل ہم نے مسودہ دیکھنے کا تقاضا کیا، تو اس پر حسب سابق شمعون پیریز از حکومت اسرائیل اور محمود عباس از فلسطینی وفد لکھا ہوا تھا۔ میں نے پھر واضح طور پر کہا کہ یاسر عرفات اسے کسی طور قبول نہیں کریں گے، بالآخر مزید ردوکد کے بعد کہا گیا کہ محمود عباس دستخط کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ترمیم کرتے ہوئے ’فلسطینی وفد‘ کا لفظ کاٹ کرتنظیم آزادی فلسطین لکھنا چاہیں تو لکھ لیں‘‘۔
یہ ہے وہ کل حاصل محصول جو ان گذشتہ ۷۲ سالہ مظالم اور اس دوران امن مذاکرات اور معاہدوں کی دھوکا دہی کے ذریعے فلسطینی عوام کے ہاتھ آیا۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ سے پہلے بھی مذاکرات کے سیکڑوں دور ہوئے، درجنوں معاہدے ہوئے، روڈ میپ پیش کیے گئے، امن کانفرنسیں منعقد ہوئیں، لیکن عملاً ہربار صہیونی جارحیت اور غاصبانہ قبضے میں مزید توسیع ہوئی اور فلسطینی عوام مزید تباہ و برباد کیے گئے۔ یاسر عرفات اپنے سارے اخلاص کے باوجود اسی مذاکراتی گورکھ دھندے اور صہیونی عیاری کی نذر ہوگئے۔ انھیں جتنا استعمال کیا جانا تھا، کیا گیا اور پھر بالآخر فرانس کے ایک ہسپتال میں زہر دے کر ان کی جان لے لی گئی۔ محمود عباس پہلے دن سے مشکوک قرار پائے۔ اپنے قریبی فلسطینی دوستوں کا اعتماد بھی حاصل نہ کرسکے۔ اب ان کے بارے میں بھی صہیونی اخبارات لکھنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’محمود عباس کا اکلوتا ہدف خود کو یاسر عرفات کے انجام سے بچانا رہ گیا ہے‘‘۔
ایک جانب یہ کھلی دھوکے بازی اور فریب ہے، اور دوسری جانب آج بھی کئی مسلم حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لالچ میں اسی فریب کے جال میں گرفتار ہونے پر مصر ہیں۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا لفظ سب سے پہلے مصر کے خونی ڈکٹیٹر جنرل سیسی کی زبان سے سننے کو ملا تھا۔ اس نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران میں اس منصوبے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ، نتن یاہو کے اعلان کردہ منصوبے پر سامنے آنے والے ردعمل (بالخصوص فلسطینی عوام کی طرف سے) کی وجہ سے سیسی سمیت کوئی بھی عرب اور مسلمان حکمران اس کی حمایت کی جرأت نہ کرسکا۔ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں بھی اسے اتفاق راے سے مسترد کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کئی عرب حکمران اب بھی اسی صہیونی عطار سے دوا لینے پر مصر ہیں۔ سوڈان میں صدر عمر البشیر کا تختہ الٹ کر حکمران بننے والے جنرل عبدالفتاح البرھان نے اسی عرصے میں یوگنڈا کے دار الحکومت میں نتن یاہو سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اتنی خفیہ رکھی گئی کہ سوڈانی وزیر خارجہ سمیت اکثر وزرا نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ صہیونی حکومت نے اپنی دیرینہ عیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملاقات کا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وہ کئی عالمی شخصیات کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل کرتے ہیں اور انھیں شیشے میں اتار لینے کے بعد اسے بے نقاب کردیتے ہیں، تاکہ ایک طرف اسے بلیک میل کیا جاتا رہے اور دوسری طرف اس کے دیگر ہم جنس عناصر کو پھانسا جاسکے کہ اس ڈیل میں تم تنہا نہیں ہو۔
سوڈانی صدر کی یہ خفیہ ملاقات خفیہ نہ رہی، تو اس نے تاویل کی کہ سوڈان کو بلیک لسٹ سے نکالنے اور سوڈان پر عائد پابندیاں ختم کروانے کے لیے ملاقات کی ہے۔ اسرائیل ہماری مدد کرے گا۔ حالانکہ سوڈان کو دہشت گردی کے سرپرست ممالک کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ یا امریکی انتظامیہ نہیں، امریکی کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ اسی طرح سوڈان پر ۶۰؍ارب ڈالر کے قرض اور اقتصادی پابندیوں کا معاملہ پیرس کلب اور یورپی یونین کے پاس ہے، ٹرمپ یا نتن یاہو کے پاس نہیں۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کا کوئی ادنیٰ فائدہ بھی سوڈانی عوام کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جنرل برہان، نتن یاہو ملاقات کے چند روز بعد ہی اسرائیلی ایئرلائن نے جنوبی امریکا اور افریقا کے کئی ممالک تک پہنچنے کے لیے اپنے جہاز سوڈان کی فضائی حدود سے گزارنا شروع کردیے۔جنوبی امریکا جانے والی ان پروازوں کا سفر اس راستے سے گزرنے کی وجہ سے تقریباً تین گھنٹے کم ہوگیا جو اس کے لیے سیاسی اور نفسیاتی ہی نہیں، ایک بڑی اقتصادی کامیابی ہے۔ نتن یاہو نے اس کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ’’سوڈان اب تک ہمارے لیے ایک سیکورٹی خطرہ تھا، اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اس خطرے کا سدباب بھی کیا جاسکے گا۔ اب کوئی سوڈانی صحرا سے گزرتے ہوئے غزہ کو اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش نہیں کرسکے گا‘‘۔
یہ وہی سوڈان ہے جس کے دارالحکومت خرطوم سے ۱۹۶۷ء میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس نے تین اہم پیغام دیے تھے۔ یہ اعلان ’اللاء اتُ الثَّلاثَۃ‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا گیا تھا: لا للإعتراف، لا للتفاوض، لا سلام مع اسرائیل ’’اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، اسرائیل سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور اسرائیل کے ساتھ کبھی امن (معاہدہ) نہیں ہوگا‘‘۔
نتن یاہو کا مزید کہنا تھا: ’’ہم اس وقت عرب اور مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں عروج تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ کو اس وقت صرف سطح سمندر پر برفانی تودے کا اُوپری سرا دکھائی دے رہا ہے، سمندر کی تہ تک پہنچنے والے اس تودے میں بہت سی کارروائیاں جاری ہیں جن سے پورے مشرق وسطیٰ کا چہرہ تبدیل ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل عالمی اور علاقائی سطح پر ایک سپر پاور کی حیثیت سے اُبھرے گا، یہ ہماری کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم اسرائیل کو ایک بڑی قوت بنا چکے ہیں اور یہ سارے ممالک اس بڑی قوت کے ساتھ اپنے تعلقات قائم اور معاہدات تحریر کررہے ہیں‘‘۔
اب ایک طرف کئی حکمرانوں کی یہ خیانت اور اقتدار کا لالچ ہے اور دوسری جانب تمام تر مظالم کے باوجود آزادی اقصیٰ کے لیے مسلسل قربانیاں دینے والی فلسطینی قوم۔ اپنے ان اُمتیوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہر صاحب ایمان کے لیے ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِ ظَاہِرِیْن، لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا أَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاء حَتّٰی یَأتِیَہُمْ أَمْرُ اللہِ وَ ھُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ: بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ وَ اَکْنَافِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ’’ میری اُمت کا ایک گروہ ایسا ہوگا جو بہرصورت حق کے ساتھ مضبوطی سے جما رہے گا۔ اپنے دشمنوں کو زیر کرتا رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے انھیں تکالیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ وہ اسی طرح (ثابت قدم) رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آن پہنچے گا۔ صحابہؓ نے دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! یہ لوگ کہا ں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں ہوں گے‘‘۔
فلسطین کے ہر بچے کو یہ حدیث اَزبر ہے اور اس کی روح اسی یقین سے سرشار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی حقانیت اس سے زیادہ کیسے واضح ہوگی کہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، دنیا کی ساری بڑی قوتیں، تمام خائن حکمران او رسارے صہیونی وسائل سرزمین اقصیٰ کو ہڑپ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہیں، لیکن ان کا یہ خواب نہ پورا ہوسکا اور نہ ان شاء اللہ کبھی پورا ہوسکے گا۔ اہل فلسطین کو یقین ہے کہ فتح مبین اہل ایمان کا مقدر ہوکر رہے گی۔ غلیلوں اور پتھروں سے شروع کیا جانے والا ان کا سفر ،تمام تر صعوبتوں کے باوجود اب جدید ہتھیاروں میں بدل چکا ہے۔ (سینیٹ آف پاکستان کو اعزاز حاصل ہے کہ اس نے نام نہاد مذکورہ بالا امریکی، یہودی منصوبے کو مسترد کیا۔ اس حوالے سے سینیٹ کی منظور شدہ متفقہ قرارداد ، ص۱۰۹ پر ملاحظہ فرمائیں۔ادارہ)
۱۳ دسمبر بروز جمعہ عین نماز فجر کے دوران والدہ محترمہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ہر ماں عظیم اور اس سے وابستہ یادیں لازوال ہوتی ہیں۔ ہر ماں کی محبت بے مثال ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ربّ ذو الجلال کی اپنے بندوں سے محبت کے لیے ماؤں کی محبت کی مثال دی ہے۔ ماں کے ذکر خیر کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا لیکن کچھ یادیں مختصراً سپردِ قلم کرنے کی کوشش ہے، تاکہ ان کی بلندیِ درجات اور ہماری یاددہانی کا ذریعہ بن سکیں۔
میری عمر اُس وقت شاید یہی تین چار سال تھی، ایک بار نماز جمعہ ادا کرکے گھر آیا تو امی نے نماز پڑھ لینے کی تسلی کرنے کے بعد پوچھا: ’’خطبہ کس موضوع پر تھا؟‘‘ خطبے کا موضوع تو کجا لفظ ’موضوع‘ کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔ امی نے وضاحت کی کہ خطیب صاحب نے کس بارے میں گفتگو کی؟ ذہن میں باقی رہ جانے والے دو چار الفاظ بتا کر جواب دینا چاہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ہم بچے تو پیچھے بیٹھے آپس میں اور دوستوں سے گپ شپ کرتے رہے، خطبے کی طرف تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔ امی نے چند جملوں میں خطبہ و نماز جمعہ کی اہمیت بتائی اور بات ختم ہوگئی۔ اس مختصر مکالمے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد جب بھی نماز جمعہ کے لیے جاتے تو یہ خیال بھی رہتا کہ ہوسکتا ہے امی پھر خطبے کا موضوع پوچھ لیں، لہٰذا بچپن کی بے دھیانی میں بھی خطبے پر دھیان رہنے لگا۔
نماز اور مسجد کے بارے میں ان کی یہ فکرمندی اور اہتمام زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ اب بھی ملتے ہی پوچھتیں: ’’نماز پڑھ لی؟‘‘ ’’نماز باجماعت ادا کی؟‘‘۔ وفات سے قبل کا کچھ عرصہ زیادہ کمزوری کا تھا، کبھی نیم غنودگی کی کیفیت ہوجاتی۔ اس عالم میں بھی گھر کے مختلف افراد کا نام لے کر انھیںنماز ہی کی تلقین کررہی ہوتیں۔ ہماری خالہ جان جو اس وقت خود بھی ماشاء اللہ ۸۰سال سے زیادہ کی عمر میں ہیں اور الحمدللہ عبادات کا مکمل اہتمام کرتی ہیں کا نام پکار پکار کر انھیں کہہ رہی ہوتی تھیں کہ ’’نماز ادا کرلو، دیکھو سورج کہاں پہنچ گیا ہے؟‘‘۔ امی ہمیں ہمارے نانا جناب عبدالقادر مرحوم جنھیں سب بہن بھائی ’میاں جی‘ کہا کرتے تھے(جو جماعت اسلامی کے ۷۵ تأسیسی ارکان میں سے ایک تھے) کے بارے میں چند باتیں اکثر سنایا بلکہ دہرایا کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔ اور اس کا اتنا زیادہ اہتمام کرتے کہ بیت الخلا جاتے تو باہر آتے ہی اس کی کچی دیوار پر ہاتھ پھیر کر تیمم کرلیتے اور پھر سیدھا وضو کے لیے چلے جاتے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ نماز بروقت ادا کرتے تھے۔ اس میں کبھی تاخیر نہ ہونے دیتے۔ یہ سنتے ہوئے ذہن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تازہ ہوجاتا کہ جب آپؐ سے پوچھا گیا:أَیُّ الأَعمَالُ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقتِہَا، بروقت نماز‘‘۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ باوضو رہنے کا اہتمام کرنے پر جنت کی بشارت والا پورا واقعہ بھی۔
امی، نانا جان کے صبر و برداشت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی والدہ کی بیماری اور پھر وفات کا واقعہ سنایا کرتیں کہ وہ کئی روز شدید بیمار رہیں۔ ایک رات اسی کیفیت میں ہم ان کے پاس سوگئے۔ فجر کی نماز کے وقت میاں جی نے آہستگی سے مجھے جگایا اور پھر رسان سے بتایا کہ: ’’دیکھو رات تمھاری امی فوت ہوگئی تھیں، لیکن زحمت نہ دینے کے خیال سے کسی کو نہیں جگایا۔ اب تم آکر ان کے پاس بیٹھو اور دُعائیں کرتی رہو۔ میں نماز فجر ادا کرکے آتا ہوں اس کے بعد اہل خانہ اور گاؤں والوں کو بتائیں گے‘‘۔ امی بتاتیں کہ یہ سن کر بے ساختہ میری چیخ نکل گئی تو میاں جی کہنے لگے: ’’میں تو تمھیں بہت سمجھ دار سمجھتا تھا، تم تو پگلی نکلیں‘‘۔
نانا کی اس صابرانہ تربیت و طبیعت کا اثر امی کی پوری زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ہم ماشاء اللہ چار بھائی تھے اور چھے بہنیں۔ مجھ سے بڑے بھائی عبد اللہ محمود چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے کہ ایک رات جماعت اسلامی کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے سڑک عبور کرنے پر آئل ٹینکر کی ٹکر لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دونوں بڑے بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے پہلے منصورہ سندھ اور بعد میں بیرون ملک بھیج دیا۔ بعد میں راقم کو بھی اسی مقصد کی خاطر بیرون ملک جانے کا موقع ملا۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے کسی کا بھی ان کے پاس نہ ہونا والدین کو اکثر اداس کردیتا لیکن دونوں کی یہی تمنا انھیں ڈھارس دیتی کہ وہ تینوں کو علم دین اور قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سکھانا چاہتے ہیں۔ بعد میں بہنیں بھی ایک ایک کرکے اپنے گھروں کو سدھاریں۔ ایسے میں ملاقات ہونے پر امی بتاتیں کہ میں اکثر اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ ’’آپ دیکھ رہے ہیں ناں کہ میرے سب بچے کہاں کہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ لیکن میں آخرت میں انھیں یوں بکھرے ہوئے نہیں، سب کو اپنے پاس اکٹھے دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ ہم بھی اتنی اچھی دُعا پر خوشی کا اظہار کرتے۔ کبھی شوخی میں آکر میں امی سے کہتا کہ بس آپ نے اس دُعا اور خواہش پر ضد کرکے بیٹھ جانا ہے، اللہ تعالیٰ نے تو اہلِ جنت کے ارادے ہی کو حقیقت میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا۔
دُعاؤں کے معاملے میں بھی والدین کی ترجیحات یکساں تھی۔ والد صاحب اکثر اپنی والدہ کی دُعا دہرایا کرتے اور امی بھی یہی دُعا کیا کرتیں: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں ایمان دے، تقویٰ دے، عزت دے، آبرو دے‘‘۔ والدین یہ دُعا دینے کے بعد کہتے دیکھو اس میں سب کچھ جمع ہوگیا۔ امی اپنے گاؤں کی ایک بزرگ خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتیں کہ وہ زندگی کے آخری عرصے میں مزید عبادت گزار ہوگئیں۔ ایک روز خواب میں انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو انھوں نے عرض کی کہ مجھے کوئی دُعا سکھائیے (شاید یہ بھی کہا کہ گھبراہٹ بہت ہے)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کثرت سے کہا کرو: رَضِیتُ بِاللّہِ رَبَّـا وَ بِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَرَسُولًا۔ وہ بزرگ خاتون یہ کلمات ہمیشہ وردِ زبان رکھتی تھیں۔ امی خود بھی بکثرت اس کا اہتمام کرتیں۔یہ سنتے ہوئے صحیح احادیث میں آپؐ کی یہ بشارتیں بھی سامنے آجاتیں کہ مَنْ قَالَ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ، رَبًّـا وِبِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃ، جس شخص نے (صدق دل سے) یہ کہا کہ میں اللہ کو رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی ہوا تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔
ایک دوسری روایت میں مزید اضافہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تو بہت خوش ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ بات ایک بار پھر فرمائیے۔ آپؐ نے دوبارہ فرمادیا اور ساتھ ہی فرمایا: وَ أُخْریٰ یُرْفَعُ بِہَا العَبْدُ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃ، مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَ الْأَرْضِ ، ایک اور عمل بھی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کے درجات میں سو درجوں کا اضافہ فرمادیں گے۔ ہر دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہوگا جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے۔ صحابی نے شوق سے پوچھا وہ کیا عمل ہے؟ آپ نے دومرتبہ فرمایا: الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
امی نے بھی نہ صرف اس زبانی اقرار و اخلاص کا اہتمام کیا بلکہ ساری زندگی اپنے حصے کے جہاد میں شریک رہیں۔ نانا جان جماعت اسلامی کے تاسیسی رکن ہونے کے باعث نہ صرف خود سراپا عمل تھے، اپنے سب بچوں کی گھٹی میں بھی دین و تحریک اسلامی سے محبت اور جنت کا شوق شامل کردیا۔ ہم سب اہل خانہ نے بھی اپنی والدہ، خالاؤں اور ماموں کو ہمیشہ مصروفِ جستجو دیکھا۔ امی کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے آنے والوں کتنے ہی ذمہ داران و کارکنان جماعت نے گواہی دی کہ ہم نے آپ کے گھر میں ہونے والے دروس قرآن، اجتماعات ارکان و کارکنان، اجلاس ہاے شوریٰ اور کسی نہ کسی تحریکی مصروفیت میں شرکت کی۔سب بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے تمام کام کاج، اباجی کے دواخانے کے کاموں میں مکمل شرکت اور پھر تمام تحریکی سرگرمیوں کا بھرپور اہتمام، یقینا اللہ ہی کی توفیق سے وہ ہر جگہ سرخرو ہوئیں۔ والدین ایک طویل عرصے کے لیے سندھ مورو منتقل ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۲ء میں سندھی پنجابی فسادات کی وجہ سے واپس پتوکی ضلع قصور آگئے۔ لیکن جہاں بھی رہے ان کی اول و آخر ترجیح دین، تحریک اور جماعت رہی۔ حالات جیسے بھی رہے کبھی کسی تحریکی کام میں تساہل نہیں آنے دیا۔ رب ذو الجلال ان کی تمام کاوشیں قبول فرماتے ہوئے انھیں اس کی بہترین جزا سے نوازے، آمین!
امی کی وفات پر جتنے بھی احباب نے تعزیت کی، اور دُعائیں کیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے۔ والدین کے لیے قرآنی دُعاؤں رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰــنِیْ صَغِیْرًا اور رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ سے زیادہ جامع دُعا کوئی نہیں ملی، اور جن دُعاؤں نے سب سے زیادہ ڈھارس بندھائی وہ یہ تھیں کہ’’ رب ذوالجلال ان کی تمام دُعاؤں کے ثمرات اور ان کی برکات ہمیشہ جاری رکھے‘‘۔ یہی دُعا اپنے تمام احباب، ان کے بچوں اور ان کے والدین کے حق میں دہراتا ہوں___ رب ذو الجلال! قبول فرما۔
تیونس کے نومنتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر قیس سعید کی عمر ۶۱ برس ہے، لیکن چہرے کی جھریوں اور سر کے بچے کھچے مکمل سفید بالوں کے باعث اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے لگتے ہیں۔ ساری زندگی قانون پڑھاتے گزاری، اب ریٹائرمنٹ کے بعد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑا۔ ان کے انتخابی معرکے اور ۷۷ فی صد ووٹ لے کر کامیابی نے ساری دنیا کو ششدر کردیا ہے۔ اس عالمی حیرت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ قیس سعید ایک آزاد اُمیدوار تھے، کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی پوری انتخابی مہم انتہائی سادگی سے چلائی۔ مخالف اُمیدواروں بالخصوص دوسرے نمبر پر آنے والے ارب پتی نبیل القروی نے ڈھیروں ڈھیر دولت انتخابی مہم میں جھونک دی، جب کہ قیس سعید کی ساری مہم پر صرف چند ہزار خرچ ہوئے۔ چوٹی کے اس ماہر قانون کا اس سے پہلے کہیں عوامی تعارف نہیں تھا، بس کبھی کبھار کسی ٹی وی پروگرام میں قانونی راے لینے کے لیے انھیں بلالیا جاتا تھا۔ قیس سعید ہمیشہ فصیح عربی میں، سپاٹ چہرے سے بات کرتے ہیں لیکن نوجوانوں نے ان کی ایسی مہم چلائی کہ صدارتی دوڑ میں شریک دیگر ۲۵ اُمیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کے اخلاقی اصولوں اور قانون کی پاس داری نے ان کے مخالفین کو بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور کردیا۔ان کے تعارف کی ایک اہم جھلک ان کے اور مخالف اُمیدوار کے براہِ راست ٹی وی مکالمے سے ملاحظہ فرمالیجیے، جو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے ۴۸گھنٹے قبل ہوا:
ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے اس مکالمے میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک بالخصوص، عرب لیگ کے رکن ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے دوڑ لگی ہو، یہ مؤقف اختیار کرنا آسان اور معمولی بات نہیں۔
صدر قیس سعید نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے اہم ترین انٹرویو کا اختتام اس دو ٹوک پیغام سے کیا، بلکہ ۲۳؍ اکتوبر کو نومنتخب قومی اسمبلی کے سامنے صدارتی حلف اٹھانے کے موقعے پر ۲۵منٹ کے صدارتی خطاب کا اختتام بھی اس جملے پر کیا کہ: ’’ہم دنیا کے ہر مبنی بر انصاف مسئلے کی بھرپور حمایت کریں گے۔ ان میں سرفہرست مسئلہ، مسئلہء فلسطین ہے۔ غیروں کے قبضے کی مدت کتنی بھی طویل کیوں نہ ہوجائے، فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ساقط نہیں ہوسکتا۔ مسئلۂ فلسطین جایدادوں کے کھاتہ خانوں میں درج کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اُمت کے سینوں میں نقش ایک حقیقت ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت یا کسی بھی طرح کی سودے بازی دلوں پر نقش اس حقیقت کو مٹا نہیں سکتی‘‘۔
نومنتخب صدر نے حلف برداری کے اس افتتاحی خطاب میںاپنی باقی تمام توجہ تیونس میں مطلوبہ اندرونی اصلاحات پر مرکوز رکھی اور کہا: ’’کسی بھی قوم یا ریاست کے لیے سب سے خطرناک امر اس کا اندرونی طور پر کھوکھلا ہوجانا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے فعال نظام اور ادارہ جاتی استحکام کی وجہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ نظام پر اشخاص و افراد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی سے لے کر ۲۰۱۱ءتک ۵۴سال تیونس میں صرف دو ہی افراد ملک و قوم کی قسمت کے مالک بنے رہے۔ پہلے حبیب بورقیبہ اور پھر اس کا وزیراعظم زین العابدین بن علی ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴جنوری ۲۰۱۱ء کو بن علی سے نجات کے بعد شروع ہونے والے پارلیمانی عہد میں اب قیس سعید تیسرے منتخب صدر ہیں۔ مختلف عرب ممالک میں آمریت کے خلاف جاری عوامی تحریکوں کا آغاز بھی تیونس سے ہوا تھا۔ آج تیونس ہی پُرامن انتقالِ اقتدار کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بن علی کے خاتمے کے بعد پہلی منتخب حکومت تحریک نہضت کی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس کے خلاف شروع ہونے والی سازشیں وہاں بھی مصر کا خونی تجربہ نہ دہرادیں۔ لیکن الحمدللہ تمام تر خطرات کے باوجود تیونس کی لڑکھڑاتی جمہوریت اب نسبتاً زیادہ مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۲۶؍ اُمیدوار میدان میں تھے۔ پہلے ۹؍اُمیدواروں نے ۴فی صد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ قیس سعید۱۸ء۴۰ فی صد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔ بڑے ابلاغیاتی اداروں کا مالک اور سیکولر خیالات رکھنے والا نبیل القروی ۱۵ء۵۸ فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، جب کہ تحریک نہضت کا اُمیدوار عبدالفتاح مورو ۱۲ء۸۸ فی صد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہا۔ سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کے باوجود نہضت کے اُمیدوار کا پہلے دو اُمیدواروں میں شامل نہ ہوسکنا سب کے لیے باعث حیرت بنا۔ اس ناکامی کا تجزیہ بھی اہم ہے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ملک اور خود تحریک نہضت کے لیے انھی نتائج میں خیروبھلائی تھی۔ مصر میں گذشتہ آٹھ برس سے جاری خوں ریز واقعات کے بعد تحریک نہضت انتہائی احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہے۔ اتنی احتیاط کہ بسا اوقات کئی ہمدرد اور بہی خواہ بھی اس پر اعتراضات اُٹھانے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے۔ قیس سعید جیسا ایک آزاد اُمیدوار جو ملک کی دینی اساس، قانون کی مکمل بالادستی اور اُمت کے مسائل کے بارے میں دو ٹوک راے رکھتا ہو اور اس کی پشت پر کوئی اور ذمہ داری یا تاریخی ورثے کو بچانے کا بوجھ بھی نہ ہو، حالیہ معروضی حالات میں ایک بہترین صورت ہے۔
تحریک نہضت نے صدارتی مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر قیس سعیدی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے پارلیمانی انتخاب ہوئے تو قیس غیر جانب دار رہے۔ ساری پارٹیوںنے اپنے اپنے منشور کے مطابق حصہ لیا اور ۲۱۷کے ایوان میں تحریک نہضت ۵۲ نشستیں لے کر ایک بار پھر پہلے نمبر پر رہی۔ نبیل القروی کی جماعت ’قلب تونس‘ ۳۸سیٹوں کے ساتھ دوسرے، جب کہ ۵ مزید جماعتیں ۱۰یا اس سے زیادہ نشستیں لے سکیں۔ بڑی تعداد میں جماعتوں کو ایک نشست ملی۔ حکومت سازی کے لیے ۱۰۹ ووٹ اکٹھے کرنا آسان کام نہیں، لیکن تحریک نہضت کے سربراہ راشد الغنوشی نے یہ ہدف جلد حاصل کرلینے کی اُمید ظاہر کی ہے۔
سب تجزیہ نگار اُمید کرتے ہیں کہ قیس سعید ایک انتہائی بااصول صدر ثابت ہوں گے۔ انھوںنے دوسرے مرحلے کے انتخاب میں اس لیے کوئی انتخابی مہم نہ چلانے کا اعلان کیا کہ مخالف اُمیدوار نبیل القروی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار تھا، اور خود کسی مہم میںنہیں شریک ہوسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں یکساں مواقع فراہم نہ ہونے کے باعث میں بھی کوئی مہم نہیں چلاؤں گا۔ قیس سعید کی کامیابی کے بعد تمام اسلام مخالف اور مغربی طاقتوں کی ہمدردیاں اور پروپیگنڈا مہم نبیل کے حق میں ہوگئی، تو ووٹنگ سے چند روز قبل ضمانت پر اس کی رہائی ہوگئی، پھر دونوں اپنی اپنی مہم میں شریک ہوئے۔صدارتی حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز اپنی اہلیہ، جو ایک جج ہیں کو اس لیے پانچ سال کی بلا تنخواہ چھٹی دے دی تاکہ عدلیہ کی خود مختاری پر حرف نہ آئے۔ پہلے مرحلے کے نتائج آنے پر تیونس میں فرانس کے سفیر نے قیس سعید کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا، تو انھوںنے دو ٹوک انداز میں ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیونس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور سفرا کے لیے طے شدہ عالمی ضابطوں کی پابندی کریں۔ اب اگر ایوان صدر میں قانون کا پاسدار صدر ہو اور عظیم قربانیاں دے کر اس مقام تک پہنچنے والی تحریک نہضت کی حکومت ہو، تو بجا طور پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ تیونس میں پھر ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اللہ کا نظام بھی عجب انداز سے اپنی بالادستی ثابت کرتا ہے۔ حبیب بورقیبہ نے موسمِ گرما میں روزے ساقط کردینے کا اعلان کیا تھا۔ بورقیبہ پیوند ِ خاک ہوگیا اور ماہِ رمضان تاقیامت اپنی بہاریں دکھاتا رہے گا۔ بن علی نے حجاب اور داڑھی کے خلاف جنگ لڑی۔گذشتہ ماہ ستمبر میں وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں دنیا سے چلا گیا۔ اتفاق ہے کہ اس کے جنازے میں شریک درجن بھر افراد میں سے آدھے شرکا لمبی داڑھی سے سجے چہروں والے تھے۔ سابق صدر الباجی السب سی نے قرآن کریم میں مذکور احکامِ وراثت کو منسوخ کرتے ہوئے مرد و عورت کا حصہ برابر کرنے کا اعلان کیا، وہ چلا گیا، اور آج نومنتخب صدر دوٹوک اعلان کررہا ہے کہ وراثت ہو یا کوئی اور معاملہ قرآن و سنت کے احکام حتمی ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ (التوبہ ۹:۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔
رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے۔ ایک صحابیؓ نے نماز میں شریک ہوتے ہوئے اللہ اکبر کہنے کے بعد نسبتاً بلند آواز میں کہا: اللہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلہِ کَثِیْرًا وَسُبْحٰنَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ’’اللہ کی بڑائی اتنی بیان کرتا ہوں جتنا کہ بڑائی بیان کرنے کا حق ہے۔ انتہائی کثرت سے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور صبح وشام اسی کی تسبیح کرتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے سلام پھیرنے کے بعد پوچھا: ’’یہ کلمات کن صاحب نے کہے تھے ؟‘‘ ایک صحابیؓ نے عرض کیا : میں نے یارسولؐ۔ آپ ؐ نے فرمایا : عَجِبْتُ لَھَا ، فُتِحَتْ لَھَا اَبوَابُ السَّمَاءِ’’مجھے ان کلمات پر بڑا تعجب ہو رہا ہے۔ ان کے لیے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیے گئے‘‘۔ صحیح مسلم میں روایت کی گئی یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کی ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں: میں نے جب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے، اس کے بعد سے نماز میں یہ کلمات کہنا نہیں چھوڑے۔
ایک اورموقعے پر آپ ؐ امامت کروا رہے تھے ۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے آپ نے سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ (جس نے اللہ کی حمد بیان کی، اللہ نے اسے سن لیا)فرمایا تو مقتدیوں میں سے ایک صحابی بے اختیار پکار اٹھے: رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ، حَمْدًا کَثِیْرًا، طَیِّبًامُبَارَکًا فِیْہِ ’’اے ہمارے رب اور ساری تعریفیں تو ہیں ہی آپ کے لیے۔ بے انتہا تعریفیں ، پاکیزہ اور برکتوں والی تعریفیں‘‘۔ نماز ختم ہونے کے بعد آپؐ نے پوچھا یہ کن صاحب نے کہا تھا ؟صحابیؓ نے جب بتایا کہ میں نے یارسولؐ اللہ، تو آپؐ نے فرمایا: میں نے ۳۰سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پہلے یہ کلمات لکھنا چاہتے تھے۔ (بخاری، حدیث: ۷۹۹، عن رفاعہ بن رافعؓ)
ایک صبح آپؐ نے حضرت بلال رضی اللہ کو بلایا اور پوچھا: بِمَ سَبَقْتَنِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ الْبَارِحَۃَ ، سَمِعتُ خَشخَشَتَکَ اَمَامِیْ، ’’رات میں نے جنت میں خود سے آگے آپ کے قدموں کی چاپ سنی ، آپ اپنے کس عمل کی وجہ سے مجھ سے آگے نکل گئے ؟‘‘ ایک امتی بھلا کیسے رحمتہ للعالمینؐ سے آگے نکل سکتا ہے؟ لیکن صحابیؓ کی حوصلہ افزائی اور امت کو ترغیب دینا مقصود تھا۔ جناب بلالؓ نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا: یا رسولؐ اللہ !جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نماز ادا کر لیتا ہوں اور جیسے ہی وضو کی حاجت ہوتی ہے، وضو تازہ کر لیتا ہوں۔ آپ نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا :بِھَذَا،’’یقینا اسی عمل کی وجہ سے ‘‘۔
اس موقعے پر وہ تمام احادیث بھی ذہن میں تازہ کر لیں جن میں آپؐ نے بعض اعمال اور تسبیحات واذکار کا ڈھیروں اجر بتایا ہے مثلاً: کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ والی حدیث کلمے ادا کرنے میں تو بہت آسان ، روز قیامت میزان میں بہت وزنی اور رحمٰن کو انتہائی پسندیدہ ہیں اور ان کے اجر سے زمین وآسمان کے مابین ساری فضا بھر جاتی ہے۔ اور وہ ہیں : سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحْمَدِہِ سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْمِ (بخاری، کتاب التوحید، حدیث:۱۲۹۳)
اب ایک طرف یہ ایمان افروز واقعات و فرمودات ہیں، آسان عبادات کا اجر عظیم ہے، اور دوسری جانب آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی حیات طیبہ میں ہمہ پہلو جہاد، جہد مسلسل ، سنگین ابتلائیں اور آزمایشیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ دونوں میں سے کون سا راستہ اختیارکرنا چاہیے؟ ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے دونوں جانب اس قدر افراط وتفریط کا رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے، کہ یا تو چند اذکار ہی کو دین کامل سمجھ لیا جاتا ہے ، یا بزعم خود جہاد وجہدِ مسلسل میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ اور ادو اذکار تو کجا، فرائض وسنن تک کی اہمیت عملاً ثانوی لگنے لگتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں پہلوئوں پر یکساں اور بھرپور توجہ دی جائے۔ دونوں پہلو لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ ایک معدوم ہوا تو دوسرا بھی کالعدم قرار پاجاتا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے الفاظ میں: ’’ یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ کے ہی بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہو گا، جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو گا۔ اور یہ اتنا ہی کمزور ہو گا جتنا خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہو گا‘‘۔
سابق الذکر ان تینوں واقعات ہی کو دیکھ لیجیے ۔ جنت میں حضرت بلالؓ کے قدموں کی چاپ ان کے ہمیشہ با وضو رہنے کی وجہ سے سنائی دی، لیکن اس سے قبل یہی بلالؓ مکہ کے ریگ زاروں پر گھسیٹے گئے ۔ تنور کی طرح دہکتی ریت پر لٹا کر ، انگاروں کی طرح جھلستے پتھر سینے پر رکھ دیے گئے، لیکن اللہ کا وہ بندہ ایک ہی نغمہ ء توحید بلند کرتا رہا: اَحَدٌ … اَحَدٌ…اَحَدٌ ۔ اسی طرح جن صحابہؓ نے بے ساختہ دوران نماز حمد وتسبیح کے کلمات ادا کیے ، وہ خود کو دینِ کامل میں اس طرح کھپا دینے والے تھے اور ہر دم ایک ہی تڑپ تھی کہ کسی طرح اپنے رب کی حمد وثنا زیادہ سے زیادہ کی جائے ۔ خود آپؐ نے اپنی ساری جمع پونجی میدان بدر میں پیش کر دی اور پھر رات بھر اپنے رب سے مناجات ودعائیں کرتے رہے۔ غزوۂ خندق میں جب اہل ایمان کی پوری جماعت بری طرح ہلا ڈالی گئی، دل حلق میں آن اٹکے ، صحابہ کرامؓ نے آپ سے کوئی دعا اور ذکر بتانے کی درخواست کی۔ آپؐ نے فرمایا: آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا ، اے اللہ ہماری کمزوریوں کا پردہ رکھ لے اور خوف کو امن میں بدل دے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے انھی الفاظ میں درخواست پیش کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرماتے ہوئے پانسہ پلٹ دیا۔
تعلق باللہ کے اس راستے کا سیّد مودودیؒ ’عملی طریقہ‘ بتاتے ہیں: ’’اور وہ عملی طریقہ ہے احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت اور ہر اُس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہو جائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو بادل نخواستہ نہیں، بلکہ اپنے دل کی رغبت اور شوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں، بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھیں ، اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے ان سے قلبی نفرت وکراہت کے ساتھ خفیہ وعلانیہ پرہیز کریں اور اس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں، بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔
سیّد مودودیؒ تعلق باللہ میں اضافے کی اہمیت وضرورت کو واضح کرتے ہوئے ، اور اس کے لیے مختلف وسائل بیان کرتے ہوئے ، نماز کی اہمیت بیان کرنے کے بعد ذکر الٰہی پر توجہ دینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ذکر الٰہی جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے ۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبی ؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضور ؐ کے تعلیم کردہ اذکار اور دعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے اور معانی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاًفوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ کو مرکوز رکھنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہے‘‘۔
الاخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناؒ اسی لیے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے قرآنی اور مسنون دعائوں کا وہ خزانہ جمع کر گئے جن سے آج بھی ان کا ہر تحریکی ساتھی روزانہ استفادہ کرتا ہے۔ کیا ہم سب بھی اس کا باقاعدہ اہتمام کر سکتے ہیں؟ آئیے آغاز میں بیان کیے گئے تین واقعات ہی سے ابتدا کر لیتے ہیں۔ ذرا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی بات بھی دوبارہ تازہ کر لیں کہ ’’میں نے جب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے، اس کے بعد سے نماز میں یہ کلمات کہنا نہیں چھوڑے‘‘۔
جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:
’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔
’’گذشتہ تین برس سے قید میرے بھائی اسامہ محمد مرسی کو بھی تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لیے اسی اثناء میں اجازت دے دی گئی۔ ہم نے مل کر ابّو کو غسل دینا شروع کیا، ابّو کے چہرے پر اطمینان اور مسکراہٹ میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر ہم غسل و کفن دے کر فارغ ہوئے ادھر مؤذن نے فجر کی اذان بلند کی۔ یہ ہمارے لیے ایک اور بشارت تھی، کیونکہ ابّو نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، انھوں نے کبھی فجر کی اذان گھر میں نہیںسنی تھی۔ وہ اذان فجر سے کافی پہلے مسجد چلے جاتے تھے۔ اب وہ گذشتہ چھے سال سے قید تنہائی میں تھے، تو وہاں بھی خود ہی اذان دیتے اور خود ہی اکیلے باآواز بلند نماز ادا کرتے تھے۔ ہم اہل خانہ نے جیل میں باجماعت نماز فجر ادا کی، پھر اکیلے ہی وہیں ان کی نماز جنازہ پڑھی او رسخت فوجی پہرے میں ان کی میت لے کر قبرستان روانہ ہوگئے‘‘۔
’’ابّو کی وصیت تھی کہ انھیں ان کے بزرگوں کے ساتھ مصر کے ضلع شرقی کے آبائی گاؤںمیں دفن کیا جائے، مگر جنرل سیسی نے اس وصیت پر عمل درآمد کی اجازت نہ دی اور قاہرہ کے مضافات میں واقع النصر شہر کے قبرستان میں تدفین کا حکم سنایا۔ یہاں اللہ نے ہمیں ایک اور بشارت سے نوازا۔ ہم نے انھیں الاخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف کے پہلو میں دفن کیا۔ ہم نے ابّو کو قبر میں لٹانے کے بعد آخری بار چہرہ دیکھا ،تو اب وہ بلا مبالغہ چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ ابّو کی تدفین کے لیے جیسے ہی مرحوم مرشد عام محمد مہدی عاکف کی قبر کھولی گئی تو اس دن کی آخری بشارت عطا ہوئی (واضح رہے کہ مصر میں قبریں زمین میں کھود کر نہیں، قبروں کے حجم کے چھوٹے کمرے بناکر اس کے کچے فرش پر میت سپرد خاک کر دی جاتی ہے اور دروازہ اینٹوں سے چُن دیا جاتا ہے)۔ دو سال قبل ابّو ہی کی طرح جیل میں بیماریوں اور حکمرانوں کی سفاکی کا شکار ہوکر جامِ شہادت نوش کرجانے والے مرشد عام کا جسد خاکی، دو سال بعد بھی بالکل اسی طرح تروتازہ اور کفن اسی طرح اُجلا اور سلامت تھا۔ ابّو کو ان سے خصوصی محبت تھی۔ ابّو سے ہماری آخری ملاقات گذشتہ سال ستمبر میں ہوئی تھی۔ صرف ۲۰ منٹ کی اس ملاقات میں بھی انھوں نے سب سے پہلے مرحوم محمد مہدی عاکف صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ ہم نے جب انھیں بتایا کہ وہ تو تقریباً ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، تو ابّو کو بہت دکھ ہوا۔ وہ ان کے لیے دُعائیں کرتے رہے اور پھر کہنے لگے ان شاء اللہ حوض نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اکٹھے ہوں گے۔ اب اللہ نے دونوں کو قبر میں بھی تاقیامت اکٹھا کردیا، ان شاء اللہ جنتوں میں بھی اکٹھے رہیں گے‘‘۔
مصر کے واحد منتخب صدر محمد مرسی کی وفات کے بعد ہر روز ان کی کوئی نہ کوئی نئی خوبی اور نیکی دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ ان کی صاحبزادی شیما نے بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ: ’’صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی عزت و وقار کے بارے میں پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوگئے تھے۔ ایک روز نماز جمعہ کے لیے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اچانک ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ: ’’امریکی صدر اوباما کے دفتر سے فون آرہاہے، وہ ابھی اسی وقت ۱۰ منٹ کے لیے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دفتر والے بتارہے ہیں کہ پھر اس کے بعد صدر اوباما کے پاس وقت نہیں ہوگا‘‘۔ صدر محمد مرسی نے کہا: ’’انھیں بتادیں کہ اس وقت میرا اپنے اللہ سے ملاقات کا وقت طے ہے، اس وقت بات نہیں ہوسکتی۔ اگر آج ان کے پاس وقت نہیں ہے، تو میں بھی فارغ ہوکر جب وقت ہوگا انھیں اطلاع کروادوں گا۔ انھیں یہ بھی بتادیں کہ یہ رابطہ ۱۰ منٹ نہیں صرف پانچ منٹ کے لیے ہوسکے گا‘‘۔ اتنا کہہ کر ابّو نے فون بند کردیا۔ میں یہ سن کر اور ابّو کو دیکھ کر ہنس دی، تو وہ کہنے لگے کہ: ’’یہ لوگ ہمارے ساتھ غلاموں کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ اب مصر کو ایک آزاد مسلم ملک کی طرح جینا سیکھنا ہوگا‘‘۔
ایک جانب وہ عالمی طاقت کے سربراہ کے سامنے اس قدر خوددار تھے، تو دوسری جانب اپنے بھائیوں اور عام مسلمانوں کے سامنے اتنے ہی منکسر المزاج۔ اُردن کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ: ’’صدر محمد مرسی کی شہادت کے وقت میں جرمنی میں تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ پھولوں کے ایک چھوٹے سے کھوکھے کے باہر ان کی تصویر آویزاں ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں کھوکھے کے اندر چلا گیا۔ اندر دیکھا تو اس دکان والے نے صدر مرسی کے ساتھ اپنی کئی اور تصاویر لگائی ہوئی تھیں۔ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ صدر مرسی جرمنی کی دورے پر آرہے تھے۔ میں نے آمد سے ایک روز قبل سفارت خانے فون کرکے بتایا کہ میں فلاں کھوکھے کا مالک بول رہا ہوں۔ مصر کا ایک مسیحی ہوں اور صدر مرسی سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ سفارت خانے والوں نے میرا نمبر لے کر فون بند کردیا۔ اگلی صبح میں نے دکان کھولی تو اس وقت ششدر رہ گیا کہ صدر مرسی کسی پروٹوکول کے بغیر خود میرے کھوکھے کے باہر کھڑے تھے۔ مجھے لے کر ساتھ والے چائے خانے پر بیٹھ گئے اور پوچھا کہ کیوں یاد کیا تھا؟ میں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ آپ کی جیت کے بعد مصر کے قبطی مسیحیوں کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ کہنے لگے بیرون ملک مقیم ایک مسیحی بھائی کا پیغام ملنے پر میں خود حاضر ہوگیا ہوں تو بھلا مصر کی ۱۰ فی صد مسیحی آبادی کے بارے میں کیسے تساہل برت سکتا ہوں؟ بس اس کے بعد سے صدر محمد مرسی میرے ہیرو ہیں‘‘۔
امریکا میں دورانِ تعلیم ان کے رہایشی علاقے میں رہنے والے ایک سعودی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے بعد انھیں اسی یونی ورسٹی میں تدریس کی شان دار ملازمت مل گئی۔ دوران تعلیم اور پھر یونی ورسٹی کے پروفیسر بن جانے کے بعد بھی، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ نماز فجر سے پہلے مسجد آجاتے تھے۔ میاں بیوی مل کر مسجد کے طہارت خانوں سمیت مسجد کی صفائی کرتے، نماز تہجد پڑھتے اور باجماعت نماز فجر کے بعد گھر واپس جاتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ مؤذن یا امام صاحب بروقت نہ پہنچ پاتے تو حافظ قرآن محمد مرسی ہی اذان یا امامت کے فرائض انجام دیتے‘‘۔
شہید صدر کو یہ تواضع اور انکساری اپنے والدین سے حاصل ہوئی تھی۔ تمام اہل قصبہ باہم محبت میں گندھے ہوئے تھے۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد تھا۔ اس نام سے انھیں اتنی محبت تھی کہ انھوں نے سب سے بڑے بیٹے کا نام بھی محمد ہی رکھا۔ ان کے تمام ذاتی کاغذات میں اور صدر منتخب ہونے کے اعلان کے وقت بھی جب ان کا مکمل نام پکارا گیا، تو یہی تھا: محمد محمد مرسی عیسٰی العیاط۔
۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۰ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے الاخوان المسلمون کی طرف سے حصہ لیا اور حسنی مبارک حکومت کی تمام تر دھاندلی کے باوجود رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں پھر حصہ لیا۔ انھیں تمام اُمیدواران میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کے اور دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدوار کے ووٹوں میں بہت واضح فرق تھا، لیکن حسنی مبارک انتظامیہ نے نتائج تسلیم کرنے کے بجاے، ان کے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروادیے اور پھر ان کے بجاے ان سے ہارنے والے کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ دنیا کے بہترین پارلیمنٹیرین کا اعزاز پانے والے جناب محمد مرسی کا ’جرم‘ یہ تھا کہ گذشتہ دو اَدوار میں انھوں نے حکومتی وزرا کی کارکردگی اور ملک میں جاری کرپشن کا کڑا مؤاخذہ کیا تھا۔ انھوں نے ۲۰۰۴ء میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک قومی پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ جنوری ۲۰۱۱ میں جب مصری عوام کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حسنی مبارک کا ۳۰ سالہ دور ختم ہوا، تو ڈاکٹر محمد مرسی نے ملک کی ۴۰ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ’جمہوری اتحاد براے مصر‘ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۱۱ء کو الاخوان المسلمون کی مجلس شوریٰ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے ’ آزادی اور انصاف پارٹی‘ کے نام سے الگ جماعت بنانے اور ڈاکٹر محمد مرسی کو اس کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پارٹی نے تمام تر اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود پارلیمانی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی۔
ان کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی صلاحیتوں کی طرح ان کی تعلیمی اور تدریسی صلاحیتوں کی شہرت بھی اتنی نمایاں تھی کہ جب ۱۹۸۵ء میں مصر واپس آکر الزقازیق یونی ورسٹی میں تدریس کی خدمات انجام دینے لگے، تو انھیں کئی عالمی یونی ورسٹیوں اور اداروں نے مشورے اور مختلف تحقیقی منصوبوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔ خود ’ناسا‘ نے بھی مختلف تجربات میں انھیں شریک کیا۔
۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے ۳ جولائی ۲۰۱۳ء تک کے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں،صدر محمدمرسی کو اصل مقتدر قوتوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں اچانک گیس اور تیل کا بحران کھڑا کردیا گیا۔ یہ مصنوعی بحران پیدا کرنے کے لیے کئی بار یہ ہوا کہ تیل سپلائی کرنے والے ٹینکروں کو صحرا میں لے جا کر ان کا تیل بہا دیا گیا۔ گیس کے سلنڈر اور چینی بڑے بڑے گوداموں میں ذخیرہ کردی گئی۔ ایک غیر جانب دار تحقیقی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان کے دورِ اقتدار کے ایک سال کے دوران ان پر تین بار قاتلانہ حملوں کی سازشیں پکڑی گئیں۔ منظم مخالفانہ ابلاغی مہمات چلائی گئیں۔ پھر جب ان تمام سازشوں کے نتیجے میں مصری تاریخ کے اکلوتے منتخب صدر کا تختہ اُلٹ دیا گیا تو چند گھنٹوں میں لوڈشیڈنگ، گیس و پٹرول کی فراہمی سمیت سارے مسائل کسی جادوئی چھڑی سے حل ہونے لگے۔ چند نمایاں ممالک کی طرف سے بھی اربوں ڈالر اور مفت تیل کے عطیات کی بارش ہونے لگی۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک اربوں ڈالر وں کی جاری بارش کے باوجود مصر مسلسل تباہی اور ناقابلِ بیان اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور میں کرپشن، قومی خزانے سے لوٹ مار اور ظلم و جبر کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ بنیادی اقدام اُٹھائے تھے کہ اگر وہ اپنا عہدصدارت مکمل کرلیتے تو مصر اس وقت یقینا ایک جبر و استبداد اور تباہی و بدحالی کی علامت بن جانے کے بجاے آزادی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہوتا۔ یہی ان کا بنیادی جرم تھا۔ لیکن ان کا اصل اور سنگین جرم یہ تھا کہ وہ پڑوس میں واقع سرزمین قبلۂ اول پر صہیونی قبضہ کسی صورت تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا وہ ویڈیو کلپ آپ آج بھی سن سکتے ہیں، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہم نے صدر مرسی سے رابطہ کرکے معاملات طے کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن انھوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ’مصری دوستوں‘ کے ساتھ مل کر ان کا تختہ اُلٹ دیا‘‘۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار ہی میں ملک کو وہ دستور دیا، جس کی تیاری میں بلامبالغہ ملک کے تمام نمایندوں کو شریک کیا گیا۔ ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر باقاعدہ ووٹنگ کرواتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ تیار کیا۔ اصل مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں اس کے خلاف بھی طوفان کھڑا کردیا گیا۔ سپریم دستوری عدالت نے نومنتخب قومی اسمبلی صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل تحلیل کردی۔ اب سازش یہ تھی کہ نہ صرف نومنتخب سینیٹ بھی توڑ دی جائے، بلکہ صدر کا انتخاب بھی چیلنج کرتے ہوئے ملک و قوم کی سب قربانیاں خاک میں ملادی جائیں۔ اس موقعے پر مجبور ہوکر صدر نے ایک چار نکاتی آرڈی ننس جاری کیا، جس کے اہم ترین نکات دو تھے۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے دستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا اور دستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ بس اسی آرڈی ننس کو آج تک بعض لوگ صدر مرسی اور اخوان کی فرعونیت کا الزام لگاتے ہوئے جھوٹے پروپیگنڈے کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ صدر نے دستوری کونسل کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں اس آرڈی ننس کاجائزہ لے کر جو بھی فیصلہ کرے گی، انھیںمنظور ہوگا۔ کونسل نے آرڈی ننس منسوخ کرنے کی سفارش کی تو صدر نے آرڈی ننس منسوخ کردیاتھا۔
شہید صدر کی اہلیہ نے درست کہا کہ بظاہر صدر محمد مرسی کو چھے سال قید تنہائی اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن عملاً انھوںنے سات سال یہ ظلم و ستم برداشت کیا۔ صدارت کا ایک سال بھی درحقیقت قید ہی کا ایک سال تھا۔
المیہ یہ ہے کہ مصر کو خاک و خون میں نہلادینے اور ناکامی و نامرادی کی بدترین مثال بنادینے والے حکمران اس موقعے پر بھی شہید صدر پر اعتراضات کا وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت مصری وزیر اوقاف کی طرف سے مساجد کے تمام ائمہ و خطبا کے نام جاری حکم نامے کی کاپی پڑی ہے۔ حکم یہ جاری کیا گیا ہے کہ: ’’خطبۂ جمعہ میں سابق صدر محمدمرسی کے جرائم پر تفصیل سے بات کی جائے، اور بلند آواز میں ان کے لیے بددُعائیں کی جائیں، تاکہ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو‘‘۔ تمام عمر قرآن کے زیر سایہ گزارنے والا صدر محمد مرسی تو اب ان ظالموں کے ہرستم سے آزاد و بالاتر ہوگیا لیکن یہ حکم نامہ خود ان ظالم حکمرانوں اور ان کے بدقسمت دلالوں کا قبیح چہرہ بے نقاب کررہا ہے۔
مصری عوام کو صدر محمد مرسی کی نماز جنازہ کی اجازت نہیں دی گئی،لیکن وہ شاید تاریخ حاضر کی اکلوتی شخصیت ہیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں نہیں کروڑوں اہل ایمان نے جن کی غائبانہ نمازِ جنازہ سب سے زیادہ مرتبہ ادا کی۔ بددُعاؤں کا سرکلر جاری کرنے والے وزیر اور اس کے روسیاہ آقا جنرل سیسی کو شاید یاد نہیں رہا کہ دُعا اور بددُعا کا تعلق سرکلر سے نہیں، دلوں سے ہوتا ہے اور آج اللہ نے دنیا بھر میں اپنے شہید بندے کے لیے محبت و احترام کی ہوائیں چلا دی ہیں۔ یہی اس کا وعدہ بھی ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (مریم۱۹: ۹۶) ’’یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا‘‘۔
ایک اہم اور تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ مظلوم صدر محمد مرسی تو اپنی نیکیوں اور خطاؤں سمیت اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ اب وہ ہر طرح کے ظلم و ستم سے بھی نجات پاگئے، لیکن اس لمحے بھی مصر کی جیلوں میں ۶۰ ہزار سے زائد بے گناہ قدسی نفوس گذشتہ چھے سال سے بدترین مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میںعالمی جامعات سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حفاظ کرام بھی شامل ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور خواتین بھی۔ اب تک ان میں سے ۹۰۰کے قریب قیدی تشدد اور مظالم کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ۶۰ ہزار فرشتہ سیرت انسان عالمی ضمیر کے منہ پر مصری آمر کی جانب سے ایک طمانچہ ہیں۔ کیا حقوق انسانی، توہین رسالت تک کی اجازت چاہنے کے لیے آزادیِ راے کی دہائیاں دینے والے عالمی ادارے، اس پر بھی زبان کھولیں گے؟
ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا: يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔ خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔ کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔
مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔
پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔
تقریباً چھے صدیوں پر محیط عثمانی خلافت میں جہد مسلسل، عدل و مساوات اور اخلاص و مؤاخات کے اصول غالب رہے تو سلطنت وسیع، مضبوط اور خوش حال تر ہوتی چلی گئی۔ لہوولعب، اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں اور اپنوں کو نیچا دکھانے کے لیے دشمنوں سے سازباز ہونے لگی تو تباہی اور ہلاکت مقدر بن گئی۔ آج سے۱۰۰ سال قبل جب ایک طرف عثمانی خلافت زوال کے دھانے پر تھی، تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے دل میں ’اسرائیل‘ کے نام سے ایک زہریلا خنجر اتارا جارہا تھا۔ ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی طاقتیں مصر و حجاز سمیت کئی علاقوں میں ترکوں سے نفرت و حسد اور عرب قومیت کا تعصب اُبھارنے میں لگی ہوئی تھیں۔
عثمانی خلافت کے خلاف اس پوری تحریک میں بہت سی عرب شخصیات اور کئی برطانوی شہ دماغ پیش پیش تھے۔ مشرق وسطیٰ میں سرگرم ان برطانوی شخصیات میں عسکری جلاد لارڈ ہربرٹ کچنر، معروف سفارت کار آرتھر ہنری مک ماہن اور خطرناک جاسوس لیفٹیننٹ تھامس ایڈورڈ لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ کچنر پہلے مصر اور پھر برصغیرپاک و ہند میں کمانڈر انچیف رہا۔ مصر تعیناتی کے دوران برطانوی تسلط سے نجات کے لیے مہدی سوڈانی کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی کو ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اسی سفاک انسان نے ہزاروں مسلمان شہید کیے تھے۔ برصغیر میں قیام کے دوران بھی برطانوی سامراجی افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے مظالم کی داستان رقم کی۔ اسی نے مصر اور حجازکے مقامی حکمرانوں کے دل میں عثمانی خلافت کے خلاف بیج بوئے۔ بالخصوص شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے چار بیٹوں کو لالچ دیا کہ خلافت عثمانیہ کے مقابل برطانیا کا ساتھ دو تو ہم اس پورے علاقے کا اقتدار آپ کے نام کردیں گے۔
سر ہنری مک ماہن نے اس خفیہ گٹھ جوڑ کو عمل میں بدلنے کے لیے مسلسل تجدید ِعہد کا اہتمام کیا۔ ہر مرحلے پر نئے اہداف دیے۔ لالچ کی آنچ میں مسلسل اضافہ کیا، اور خلافت عثمانی کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی۔ شریف حسین اور ماہن کی یہ تاریخی مراسلت عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں کا ایک ایک خط نمونے کے طور پر پیش ہے۔ ۱۴ جولائی ۱۹۱۵ کو لکھے گئے ایک خط میں شریف مکہ، مک ماہن کو اپنی وفاداری کا یقین دلواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’… میں آپ اور آپ کی حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماری راے عامہ کے بارے میں کوئی فکر مندی نہ کریں۔ ہمارے عوام مشترکہ اہداف کی آب یاری کے لیے آپ کی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر درخواست کرتے ہیں کہ: ’’میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مصری ذمہ داران کو اس بات کی اجازت دے دیجیے کہ سرزمین مقدس مکہ و مدینہ کے لیے اپنے تحائف بصورت گندم، جو گذشتہ سال سے روک دیے گئے تھے، دوبارہ بھیجنا شروع کردیں۔ اس سال کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کے تحائف بھی بھیجنا ہمارے مشترک مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت مفید ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میری یہ بات آپ جیسے ذہین شخص کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
پھر یاددہانی کے طور پر پانچ اہم نکات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چونکہ عربوں کا مفاد اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے بجاے برطانیا سے ملنے والے تعاون کو ترجیح دیں، اس لیے تمام عرب عوام، حکومت برطانیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
خط کے آخر میں لکھا گیا کہ: ’’ہمارے درمیان یہ مراسلت معتمد علیہ خصوصی نمایندے کے ذریعے ہی ہوگی، اس لیے ہمارے نمایندے کو اپنا کارڈ دے دیجیے تاکہ اسے آپ تک پہنچنے میں آسانی رہے‘‘۔
جواب میں شریف مکہ کے نام ہنری مک ماہن کا خط بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ تعریف و ستایش اور چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:
اعلیٰ نسب، فرزند اشراف، تاج افتخار، یکے از شاخ شجرہء محمدی و أحمدی و قرشی۔ صاحب مقام بلند، سید ابن سید، شریف ابن شریف، جناب کل، امیر قبلہ عالم مکہ مکرمہ، اہل ایمان و اطاعت کے مرکزِ اُمید، عزت مآب جناب حسین الشریف آپ کی برکات تمام انسانوں کو عطا ہوں۔ دلی اعتراف و محبت اور کسی بھی شک سے پاک مخلصانہ اور قلبی آداب کے بعد میں آپ کی جانب سے موصول ہونے والے مخلصانہ جذبات اور انگریزوں کے بارے میں نیک احساسات پر، آپ کا شکریہ ادا کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ امر بھی انتہائی باعث مسرت ہے کہ آپ اور آپ کے مردانِ کار یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عربوں کے مفادات بھی وہی ہیں، جو انگریزوں کے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میںآپ کے نمایندہ علی افندی کے ذریعے پہنچائی جانے والی عزت مآب لارڈ کچنر کی پیش کش کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ اس پیغام میں ہماری اس خواہش کی تائید کا اظہار کیا گیا تھا کہ عرب ممالک کو (ترکوں سے) آزادی ملنا ضروری ہے۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کی جانب سے عرب خلافت کا اعلان کیے جانے پر ہم فوراً اس کی تائید کریں گے۔ یہاں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ عزت مآب شاہ برطانیا عظمیٰ بھی مبارک شجرہء نبویہ کے ایک عرب فرزند کے ہاتھوں خلافت کے حصول کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہا معاملہ [آپ کی خلافت کی] حدود کے تعین کا، تو یہ بات ذرا قبل از وقت ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب جنگ ابھی جاری ہے، (آپ کی خلافت کے لیے مجوزہ) علاقوں میں سے اکثر علاقے بدستور ترک قبضے میں ہیں۔ ایسے وقت میں عرب خلافت کی سرحدوں کے تعین پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں اس امر پر بھی بہت دکھ اور تشویش ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی عرب ابھی تک اس سنہری موقعے کی اہمیت سے غافل رہ کر اسے نظرانداز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے قیمتی موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ ہماری مدد کرنے کے بجاے جرمنوں کی طرف دست ِتعاون بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس نئے چور اور ڈاکو، یعنی جرمنی کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ظالم ’ڈکٹیٹر‘ یعنی ترکی کی طرف بھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم آپ جناب عالی اور مقدس سرزمین عرب اور محترم عرب قوم کو سرزمین مصر سے ملنے والے غلہ جات اور صدقات ارسال کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے اس کے لیے تمام ضروری انتظامات کردیے ہیں، آپ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی آپ کے مقررہ وقت و مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ آپ کے نمایندگان کے ہم تک پہنچنے کے لیے بھی سب انتظامات کردیے گئے ہیں۔ ہم دل و جان سے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
اختتام پر پھر تعریف و توصیف کے مزید مبالغہ آمیز جملے اور آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۹شوال ۱۳۳۳ھ/ ۳۰ ؍اگست ۱۹۱۵ اعلیٰ حضرت بادشاہ برطانیا کا نائب، آپ کا مخلص، سر آرتھر۔
باہم مراسلت کے ان دو خطوط پر کچھ تبصرہ بعد میں کرتے ہیں، پہلے تیسرے اہم کردار کا ذکر۔ یہ صاحب تھے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیا (پ: ۱۸۸۵ء- م: ۱۹مئی ۱۹۳۵ء)۔ اس کے والد کی ایک پرانے خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست شخصیت کی مالک اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ علیحدگی کی وجہ موصوف کی اپنی ملازمہ سے قابلِ اعتراض دوستی تھی۔ بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ شادی کے بغیر ہی ملازمہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے: بوب، تھامس، ویل، فرینک اور آرنولڈ۔ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران استاد نے فرانس کی عسکری تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کا کہا تو اپنے مضمون سے عشق کی حد تک دل چسپی رکھنے والا تھامس موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ علاقوں تک پہنچا۔ اس دوران راستوں، آثارِ قدیمہ اور علاقوں کی اہمیت سے اس کی دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ بعد ازاں عراق اور شام کے علاقوں میں سیاحت و مطالعے اور آثار قدیمہ کی تلاش کے نام پر نکلا اور پورے علاقے کا چپہ چپہ نقشوں اور ذہن میں اُتار لیا۔
جرمنی نے خلافت عثمانیہ سے تعلقات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں برلن سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا تو لارنس کو یہ منصوبہ خطے میں برطانوی مفادات کے لیے بڑا خطرہ دکھائی دیا۔ وہ اس وقت شام کے علاقے میں تھا، فوراً مصر پہنچا۔ لارڈ کچنر تک رسائی حاصل کی اور جرمن منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی تجاویز دیں۔ لارنس اس دوران میں عربی زبان پر مکمل قدرت حاصل کرچکا تھا، شامی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ علاقے میں عثمانی عسکری مراکز کو اپنی ہتھیلی کی لیکروں کی طرح جانتا تھا۔لارنس کو برطانیا کے لیے اہم جاسوس کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسے شریف مکہ او راس کے چاروں بیٹوں: عبداللہ، فیصل، زید اور علی تک بھی پہنچا دیا گیا۔ لارنس ایک شامی مسلمان کے روپ میں خطے میں بلاروک ٹوک فعال ہو گیا۔ معلومات کی فراہمی کے علاوہ اس کے سپرد اصل کام مختلف قبائل کے سرداروں کو خریدنے، علاقے میں جاسوسی کا جال پھیلانے اور علاقائی حکمرانوں کو مٹھی میں لینا تھا۔
لارنس نے اس زمانے کی اپنی یادداشتSeven Pillars of Wisdom (حکمت کے سات ستون) کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ چشم کشا ڈائری انتہائی دل چسپ اور گاہے مبالغہ آمیز تو ہے، لیکن اس دور کا پورا نقشہ سامنے لے آتی ہے۔ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مسلسل شائع ہورہی ہے۔ ابلیس اور انگریزوں کے اصل ہتھیار ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی عملی داستان کے علاوہ حکمرانوں کی حماقتوں اور لالچ کی تفصیل بھی بتاتی ہے۔ لارنس علاقے میں برطانیا کے لیے اصل ایجنٹ کی تلاش میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کی شخصیات کا بھی مکمل تعارف کرواتا ہے۔ خود شریف مکہ اور اس کے بڑے بیٹے عبداللہ سے قدرے مایوس ہوا، لیکن تیسرے بیٹے فیصل بن حسین میں اسے اپنا ’گوہر مطلوب‘ دکھائی دیا۔ کئی اہم مواقع پر اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ لارنس نے پورے علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کروایا۔ کئی کارروائیوں کی قیادت خود کی۔ بالخصوص حجاز تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے ترک خلافت ِ عثمانیہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس نے اپنی نگرانی میں کئی بار پٹڑی اور درجنوں پل تباہ کرائے۔ ان کارروائیوں کی باریک تفاصیل تک اس کتاب میں درج ہیں۔
کئی اہم مواقع پر شہزادے فیصل بن حسین کا رفیق سفر ہونے کے ناتے اس کی شخصیت کے بارے میں کئی دل چسپ حقائق بھی لکھے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ شہزادے کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اس نے خود اپنی فوج سمیت کسی پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہونے دی۔ مالی مشکلات کا راز فاش ہوجاتا تو خدشہ تھا کہ کئی قبائل سمیت خود فوج کے کئی عناصر ساتھ چھوڑ جاتے۔ اپنی مال داری اور شہزادگی کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے قافلے کے کئی اونٹوں پر پتھروں سے بھرے صندوق اور بورے لدوا رکھے تھے۔ ان کی خصوصی حفاظت کی جاتی تھی۔ کہیں پڑاؤ ڈالنے پر محفوظ خیموں میں اتار کر سخت پہرا دیا جاتا تھا۔ لشکر کو یہی بتایا گیا تھا کہ اس میں شہزادے کا خصوصی خزانہ ہے، لیکن وہ جنگی حالات کے باعث انتہائی کفایت بلکہ کنجوسی سے کام لیتا ہے۔
ان بھیانک کرداروں کی بداعمالیوں اور کج فکری کا یہ مختصر ذکر آج کے حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات میں بھی بہت مشابہت ہے اور کرداروں میں بھی۔ ۱۰۰ برس پہلے لارڈ کچنر تھا، آج امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کوچنر ہے۔اس وقت بھی وسیع و عریض مسلم علاقوں کی بادشاہت عطا کرنے کا لالچ تھا، آج بھی مختلف ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک بنادینے کا وعدہ ہے۔ سوسال قبل عالمی قوتیں برطانیا کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے، خطے کی بندربانٹ کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ قبضہ اور سرزمین فلسطین کی جگہ ایک ناجائز صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی، آج سوسال بعد اس ناجائز ریاست میں توسیع اور اس کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ہدف ہے۔اس مقصد کے لیے خطے کے اکثر ممالک کو خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پر فتنہ و انتشار کا شکار کیا جارہا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ خطے میں مسلم ممالک کے مابین مزید جنگوں کے بگل بجائے جارہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ تیل کی تنصیبات اور تیل سپلائی کے عالمی راستوں کو معلوم اور نامعلوم حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام، عراق، یمن ، لیبیا اور افغانستان کے بعد امریکا خطے کو ایک نئی خلیجی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی قرائن اور مغربی ذرائع ابلاغ ابھی اس جنگ کا ہونا یقینی نہیں دیکھ رہے، لیکن جنگی ماحول میں یقینا تیزی لائی جارہی ہے۔ اس ماحول کی آڑ میں اخراجات کی ادایگی کے تقاضوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکے گا، اور اسی ماحول کی آڑ میں خطے کے لیے نیا امریکی و صہیونی منصوبہ بھی نافذ کیا جاسکے گا۔
امریکی صدر کے یہودی داماد نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ: مشرق وسطیٰ کے بارے میں تیار کردہ صدی کے سب سے بڑا منصوبے ’Deal of the Century ‘ کا اعلان جون ۲۰۱۹ء میں (یعنی ماہ رمضان کے بعد) کردیا جائے گا۔ خود مختلف صہیونی اور امریکی اخبارات کے ذریعے اس منصوبے کی کئی تفصیلات اب تک عام کی جاچکی ہیں۔ کئی پہلوؤں پر عمل درآمد شروع بھی کیا جاچکا ہے۔امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقوں (گولان) کو اسرائیلی علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ وسیع تر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جاچکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین، اُردن، سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں میں تبدیلی کے عندیے دیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو ہوش ربا دولت کا لالچ دیتے ہوئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے ’احکام سنائے‘ جارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا، لیکن بامعنی اشارے، بیانات اور اقدامات بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔
اس پورے منصوبے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلۂ اول سے دست بردار کروا دینا ہے۔ اور اس کے نظریاتی و تہذیبی اہداف میں دین کا وہ مخصوص تصور رائج کروانا ہے، جو عالمی صہیونی نظام اور بے خدا تہذیب سے ہم آہنگ ہو۔
مختلف مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ایسے افراد کو نمایاں کیا جارہا ہے، جو سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں ہی نہیں، خود قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کا زہر کاشت کردیں۔ کئی اہم عرب ریاستوں کے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والی بعض شخصیات اس ضمن میں بہت دریدہ دہن ہیں۔ انھوں نے صحیح بخاری کو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نئے سرے سے اور بڑی شدومد سے انکارِ سنت کی ایک نئی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن کریم، روزِآخرت اور یوم محشر کے بارے میں مضحکہ خیز اعتراضات کا چرچا کیا جارہا ہے۔ صحیح الفکر اسلامی تحریکوں اور ان کے جلیل القدر رہنماؤں پر ’دہشت گردی‘ کے لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں۔ خود پاکستان میں بھی ایک مخصوص معذرت خواہ فکر اور گروہ کو طرح طرح سے میڈیا پر نمایاں کیا جارہا ہے۔
مصری آمر جنرل سیسی نے اپنے حالیہ دورئہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے اس کی ایسی ہی ایک کوشش برطانیا میں ناکام ہوچکی ہے۔ خود کئی امریکی دانش ور اور قانونی تجزیہ نگار ایسے کسی اقدام کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حماقت کا باعث مسلم حکمران ہی بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم عرب ملک کے برقی اخبار کے پورے صفحے پر ۴۰ ’دہشت گردوں‘ کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اخبار سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس وقت سرپیٹ کر رہ گئے، جب انھوں نے ان تصاویر میں سرفہرست فلسطینی قوم کو نئی روح عطا کرنے والے شیخ احمد یاسین شہید اور صاحب ِ تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت اُمت کے کئی علماے کرام کی تصاویر دیکھیں۔ اخبار نے اگلے ہی روز یہ صفحہ حذف کر دیا، لیکن نامۂ اعمال کی سیاہی مستقل طور پر اپنے نام کرلی اور اپنے آقائوں کی سوچ بھی بے نقاب کردی۔
تقریباً ہرمسلمان ملک میں ایک طرف نمایاں ترین علماے کرام کا استہزا اُڑاتے ہوئے انھیںعوام میں بے وقعت بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ دوسری جانب ایسی ایسی ہستیوں کو ’علما و فقیہان‘ کے لبادے میں پیش کیا جارہا ہے کہ علم و عمل سے جن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ہر سطح کے نصاب تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور ابوابِ سیرت و سنت حذف کروائے جارہے ہیں،جن میں اللہ، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ایسی آیات اور احادیث جن میں کفار و منافقین اور جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار کیا گیا ہے، ان کو نعوذ باللہ نفرت آمیز مواد(Hate Material ) اور نفرت پر مبنی خطاب (Hate Speech )کا درجہ دیتے ہوئے ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ یہ آیات و احادیث نصاب تعلیم سے خارج کروائی جارہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے یہودیوں کی سازشوں اور ان کے عالمی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والے اہل علم اور مفسرین قرآن کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان سمیت جن ممالک کی جانب سے ریاست یا عوام کی سطح پر اعتراض و احتجاج کا خدشہ ہے، انھیں بدترین اقتصادی بحرانوں کے ذریعے قابو کیا جارہا ہے۔
خطرہ صرف دشمن کے اس بھیانک منصوبے اور اس کے ہمہ گیرمہلک اثرات ہی سے نہیں، خود اسلام کے نام لیوائوں سے بھی ہے۔ عین اس موقعے پر کہ جب پوری دنیا کی عیسائی برادری اپنا اہم مذہبی تہوار منا رہی تھی، چند مسلمان نوجوانوں نے سری لنکا کے چرچوں اور ہوٹلوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل اور زخمی کر دیا۔ اس مجرمانہ کارروائی سے پہلے نیوزی لینڈ کی دومساجد میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ۵۰نمازی شہید کردیے گئے تھے۔ اس عظیم سانحے اور نیوزی لینڈ حکومت کے مثبت اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی۔ سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی نے یہ ساری ہمدردی نفرت کی نئی لہر میں بدل دی۔ مسلمان جو کشمیر اوراراکان سے لے کر افغانستان و فلسطین تک، ہرجگہ خوف ناک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ایک بار پھر قاتلوں اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ان واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے اسی ماہِ رمضان المبارک میں سری لنکا کی درجنوں مسلم آبادیوں، دیہات اور مساجد کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اب ایک طرف یہ سارے منصوبے ، عالمی قوتیں اور ان کے علاقائی آلۂ کار ہیں، اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت رکھنے والی ایک پوری نسل ایسی ہے،جو قبلۂ اول کو اپنے نبیؐ کی امانت سمجھتی ہے۔ جو اس امانت میں کسی صورت اور کسی طرح کی خیانت کو ایمان کے منافی سمجھتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھی غزہ میں بسنے والے ان نوجوانوںنے صہیونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ صہیونی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے اپنے بنائے ہوئے میزائل چلائے، لیکن ایسے مؤثر کہ جارح افواج کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی۔
قرآن کریم بھی اپنے ابدی اور سدابہار اصول بار بار تازہ کر رہا ہے۔ سورۂ فاطر میں ہے: ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔ (فاطر ۳۵: ۴۳)
معروف مسلم سپہ سالار اور جلیل القدر تابعی حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کی جاے پیدایش مکہ مکرمہ ہے، لیکن قبر الجزائر میں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت سے ایک سال قبل آپ پیدا ہوئے تھے۔ صحابی ہونے کا شرف تو حاصل نہ ہوا، لیکن ایمان لانے کے بعد پوری زندگی میدان جہاد میں گزاردی۔ مصر و سوڈان سے لے کر سینی گال تک کے افریقا میں نُورِاسلام کا پہنچنا دیگر صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کا صدقۂ جاریہ بھی ہے۔الجزائر کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع جس قصبے میں آپ مدفون ہیں، اس کا نام ہی سیدی عقبہ رکھ دیا گیا۔
کئی صدیوں بعد اسی بستی (سیدی عقبہ) میں ۲۸ فروری ۱۹۳۱ کو ایک شخصیت نے جنم لیا، جنھیں دنیا عباسی مدنی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ دنیا میں آئے تو کئی افریقی ممالک کی طرح الجزائر پر بھی فرانس کا قبضہ تھا۔ تعلیم اور جوانی کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فکر و شعور کے مدارج بھی طے کررہے تھے۔ ۲۳ سال کی عمر کو پہنچے تو ۱۹۵۴ میں فرانسیسی تسلط سے نجات کے لیے الجزائری عوام کی عظیم الشان جدوجہد ِآزادی شروع ہوگئی۔ یہ نوجوان عباسی بھی اس تحریک کا فعال حصہ بن گئے۔ کچھ روز بعد ہی فرانسیسی قابض فوج نے انھیں گرفتار کرلیا۔ پھر آٹھ سال جیل میں گزارنے کے بعد انھیں جیل سے اس وقت ہی آزادی ملی، جب ۱۹۶۲ میں خود الجزائر کو فرانسیسی قید سے آزادی حاصل ہوئی۔ تب یہ بات طے شدہ تھی کہ اگر الجزائر کی آزادی میں مزید کچھ عرصہ بھی تاخیر ہوجاتی تو عباسی مدنی سمیت کئی اسیرانِ آزادی کو پھانسی دے دی جاتی۔
جیل اور فرانس کی غلامی سے آزادی کے بعد انھوں نے مزید تعلیمی منازل طے کیں۔ ۱۹۷۸ء میں برطانیا سے پی ایچ ڈی کی اور دارالحکومت الجزائر (الجزائر کے دارالحکومت کا نام بھی الجزائر ہی ہے) کی بوزریعہ یونی ورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و اصلاح کی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ اس وقت ملک میں قانونی لحاظ سے صرف حکمران پارٹی ہی کو سرگرمیوں کی اجازت تھی۔ اخوان سمیت مختلف تحریکیں کام تو کرتی تھیں، لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔
آخرکار ایک عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ملک سے یک جماعتی نظام ختم ہوا۔ ۳نومبر ۱۹۸۸ء کو الجزائر میں سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی تو عباسی مدنی نے ڈاکٹر علی بلحاج اور ڈاکٹر عبدالقادر الحشانی جیسی دینی و قومی شخصیات کے ساتھ مل کر ۱۸فروری ۱۹۸۹ء کو اسلامی فرنٹ، الجبہۃ الاسلامیۃ للانقاذ (FIS) تشکیل دیا، جسے ستمبر ۱۹۸۹ء کو قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اگلے برس ۱۲جون ۱۹۹۰ء کو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اسلامی فرنٹ نے ۱۵۳۹ بلدیاتی اداروں میں سے ۹۵۳ میں، اور ۴۸ بڑے شہروں میں سے ۳۲ میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگلے برس دسمبر ۱۹۹۱ء میں قومی انتخابات کا پہلا مرحلہ عمل میں آیا تو اسلامی فرنٹ نے ۲۳۱ نشستوں میں سے ۱۸۸نشستیں حاصل کرلیں۔
اسلامی فرنٹ کا یہ کامیابی حاصل کرنا ایسا سنگین جرم تھا کہ جس کی پاداش میں اگلے پورے ۱۰برس الجزائر کو خون میں نہلا دیا گیا۔ الجزائری فوج نے عوامی راے پر ڈاکا ڈالا، جس پر عوام نے احتجاج کیا۔ جنوری ۱۹۹۲ء سے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ فرنٹ کے ۲۰ ہزار کارکنان سمیت بڑی تعداد میں شہری گرفتار کرلیے گئے۔ پھر درجنوں نامعلوم مسلح تنظیمیں ظہور پذیر ہونے لگیں۔ الجزائری تاریخ میں ان دس برسوں کو خونیں عشرہ یا سرخ عشرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران ایک دوسرے کی تکفیر کا فتنہ متعارف کروادیا گیا۔ جمہوریت کی دعوے دار سب مغربی قوتوں نے فوجی انقلاب کی سرپرستی کرتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی۔
عباسی مدنی سمیت اسلامی فرنٹ اور دیگر اسلامی تحریکوں کی ساری قیادت یا تو جیلوں میں بند کردی گئی تھی یا شہید۔ نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد عباسی مدنی کو نقص امن کے نام نہاد الزام میں ۱۲ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ ۷سال قید کے بعد ۶۲ سالہ مدنی صاحب کی صحت زیادہ خراب ہوگئی تو جولائی ۱۹۹۷ء میں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھیں قید کے باقی پانچ سال دنیا سے منقطع رکھا گیا۔ فرنٹ کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے رہنما علی بلحاج اور عبدالقادر الحشانی بھی ساتھ ہی رہا ہوئے۔ الحشانی کو دوسال بعد نامعلوم عناصر نے شہید کردیا، جب کہ شعلہ نوا خطیب علی بلحاج کو آج تک آئے دن گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عباسی مدنی ۱۲ سالہ قید کی مدت پوری ہونے کے بعد علاج کے لیے ملائیشیا چلے گئے اور وہاں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہوگئے، جہاں ۲۴ ؍اپریل ۲۰۱۹ء کو انتقال کرگئے، اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) کی تشکیل و پس منظر کا مختصر جائزہ بھی لے لیا جائے۔ یہ ذکر تو آگیا کہ ۱۹۸۹ء سے پہلے ملک میں صرف ایک ہی پارٹی، یعنی حکمران جماعت کو کام کی اجازت تھی۔ لیکن غیر رسمی اور غیر علانیہ طور پر مختلف سیاسی و نظریاتی اطراف اپنی اپنی جدوجہد کررہی تھیں۔ اسلامی سوچ رکھنے والے عناصر تین حصوں میں منقسم تھے۔ الاخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے حصے کے طور پر جناب محفوظ نحناح کی سربراہی میں سرگرمیاں جاری تھیں۔ اخوان کے ہم خیال لیکن عالمی تنظیم سے الگ جناب عبداللہ جاب اللہ الگ جماعت رکھتے تھے۔ معروف اسلامی مفکر مالک بن نبی کی فکر سے منسلک لوگ الجزائر کی مرکزی جامع مسجد کو اپنا مستقر بنائے ہوئے تھے۔
نومبر ۱۹۸۲ء میں ان تمام علماے کرام او رقائدین نے جمع ہوکر ملک پر مسلط آمریت، الحاد اور کرپشن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ۱۴مطالبات پر مشتمل ایک ایجنڈے کا اعلان کیا، جن میں نفاذ شریعت، بالخصوص اقتصادی نظام میں اسلامی اصلاحات، عدلیہ میں اصلاحات اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات سرفہرست تھے۔ اس ایجنڈے میں ملک کی اہم اور حساس ذمہ داریوں پر اسلام دشمن عناصر کے واضح نفوذ کی بھی مذمت کی گئی تھی۔ مشترک ایجنڈے کے لیے مشترک سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا، یہاں تک کہ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کا دن آن پہنچا۔اس روز پوری قوم نے سڑکوں پر آکر جبرو استبداد سے لتھڑے نظام حکومت سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ ۱۹۶۲ میں فرانسیسی قبضے سے آزادی کے بعد سے لے کر آج تک الجزائر کا اصل اقتدار و اختیار فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اس عظیم الشان عوامی تحریک نے مقتدر قوتوں کو عوامی مطالبات ماننے پر مجبور کردیا۔ عوام اور ذرائع ابلاغ کو اظہار راے کی آزادی دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملی۔
سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملنے پر ۱۸ فروری ۱۹۸۹ کو اسلامی فرنٹ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے محفوظ نحناح کی سربراہی میں ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ حرکۃ المجتمع الاسلامی (حماس) اور عبداللہ جاب اللہ نے تحریک نہضت اسلامی الجزائر بنانے کا اعلان کردیا۔ اخوان کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ: ’’عارضی طور پر اکٹھے ہوکر جماعت بنانے والوں کی کامیابی بھی عارضی ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے دعوتی و تربیتی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کی جدوجہد ہی جاری رکھیں گے‘‘۔ ۹۰ء کے بلدیاتی اور ۹۱ء کے قومی انتخابات میں اگرچہ اخوان کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ تاہم، اسلام پسند ووٹروں کی غالب اکثریت نے کرپشن سے نجات اور ملک میں پہلی بار تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر اسلامی فرنٹ کو ووٹ دیے۔ اسلامک فرنٹ (FIS) پر پابندی، گرفتاریوں اور پھر خوں ریزی کے دور میں فرنٹ کی ساری تنظیم بکھر گئی۔
اس وقت ملک میں کئی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جن میں سرفہرست اخوان کی ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ (حمس) ہے۔ ملک پر اب بھی اصل اور مکمل اختیار فوج کو حاصل ہے۔ کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ الجزائر اس وقت ایک دوراہے پر ہے۔ بے مثال عوامی تحریک کی وجہ سے بوتفلیقہ اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ عوامی دھرنا اور تحریک ہنوز جاری ہے۔ تحریک کا مطالبہ ہے کہ حقیقی عوامی نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی یقینی بنانے کے لیے فوجی عہدے داران سمیت بوتفلیقہ کے تمام مددگار مستعفی ہوں۔ ملک کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔
مرحوم عباسی مدنی نے وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین مادر وطن کی آغوش میں کی جائے لیکن عبوری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور قطر ہی میں نماز جنازہ ادا کردی گئی۔ خود امیر قطر سمیت بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی الجزائر میں سوشل میڈیا اور عوامی تحریک کے پروگراموں میں میت وطن واپس لانے کا مطالبہ شروع ہوگیا،حکومت کو بالآخر واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ جمعرات ۲۴ ؍اپریل کو دوحہ میں انتقال ہوا تھا۔ اتوار ۲۸ ؍اپریل کو الجزائر میں تدفین ہوئی۔ اس موقعے پر ترک صدر طیب اردوان نے مرحوم کے کفن میں رکھنے کے لیے ۱۳۰سال پرانے غلاف کعبہ کا ایک قیمتی ٹکڑا بھجوایا۔ یہ غلاف کعبہ معروف عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی یادگار تھا۔ طیب اردوان نے یہ سوغات عباسی مدنی مرحوم کے صاحبزادے سلیم عباسی کو بھجواتے ہوئے پیغام دیا کہ: ’یہ نایاب تحفہ برادر اسلامی ملک الجزائر میں جہد مسلسل کی ایک علامت کے لیے ترک قوم کی دُعاؤں کی علامت ہے‘۔
الجزائر میں عباسی مدنی مرحوم کا جنازہ اٹھا تو تاحد نگاہ، پُرجوش لاکھوں عوام بیک زبان اور بلند آواز ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے: لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ۔ علیھا نحیا و علیھا نموت ۔ فی سبیلھا نجاھد و علیھا نلقی اللہ۔ ’’ہم لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر زندہ ہیں۔ اسی پر مریں گے، اسی کی خاطر جہاد جاری رکھیں گے اور اسی پر اپنے اللہ سے جا ملیں گے‘‘۔ یہ پُرعزم نعرے اس حقیقت کا اعلان تھے کہ الجزائری عوام کی غالب اکثریت آج بھی دین اسلام کی شیدائی ہے۔ وہ ملک و قوم کو اسی کلمے کے سایے تلے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
اُردن کا ٹی وی چینل الاخوان المسلمون اُردن کے ۸۶ سالہ رہنما اوراردنی پارلیمنٹ میں تین بار اسپیکر رہنے والے عبداللطیف عربیات کا انٹرویو کررہا تھا۔سوال پوچھا گیا: ’’آپ نے اعلیٰ دینی و قومی خدمات انجام دیں، اب آپ کی کوئی اور تمنا و خواہش؟‘‘ کہنے لگے: ’’بس یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور آخری سانس تک اقامت دین کے لیے جدوجہد کی توفیق عطا کیے رکھے‘‘۔ چند ہی روز بعد جناب عربیات نماز جمعہ کے لیے مسجد پہنچے، ابھی خطیب جمعہ منبر پر نہیں بیٹھے تھے۔ مسجد کے ہال میں کھڑے ہوکر خلاف معمول ایک بار چھت کی جانب دیکھا اور نماز شروع کردی۔ ابھی چند ہی لمحے اپنے رب سے مناجات کی تھیں کہ بیٹھ گئے اور روح جنتوں کی طرف پرواز کرگئی۔
جناب عبداللطیف عربیات ۱۹۳۳ء میں اُردن کے شہر السلط میں پیدا ہوئے۔ ۱۷برس کی عمر میں الاخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے۔ پہلے اُردن میں تعلیم حاصل کی، پھر بغداد یونی ورسٹی عراق سے گریجویشن کی اور بعد میں ٹیکساس یونی ورسٹی امریکا سے ایم اے اور پی ایچ ڈی۔ اُردن واپس لوٹنے پر وزارت تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اُردن کے نظام تعلیم اور تعلیمی نصاب میں انھوں نے اور ان کے قریبی ساتھی، اخوان کے ایک اور انتہائی باصلاحیت ذمہ دار ڈاکٹر اسحاق فرحان مرحوم نے بہت بنیادی اور دور رس اصلاحات کیں۔
ڈاکٹر عبداللطیف ۱۹۸۱ء میں اخوان کی جانب سے نہ صرف رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے بلکہ اپنی دل نواز شخصیت کے باعث لگاتار تین بار اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔ اخوان نے دعوت و تربیت اور سیاسی اُمور کو الگ الگ کرتے ہوئے جبہۃ العمل الاسلامی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کو اس کی سربراہی سونپی گئی۔ اُردن کے شاہ حسین نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی، جس کے ذمے ایک میثاقِ ملّی پر ملک کے مختلف مکاتب ِ فکر کو اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا۔ ڈاکٹر عربیات کو پہلے اس کمیٹی کا رکن، ۱۹۸۹ء میں اس کا سیکریٹری اور ۱۹۹۵ء میں اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
۲۰۱۶ء میں اُردن کے اخوان ایک بڑے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئے۔ ایک سابق سربراہ نے مزید کئی ذمہ داران کے ہمراہ تنظیم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اخوان ہی کے نام سے الگ جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ نام اور جماعت کے اثاثہ جات کے بارے میں عدالتی دعوے تک نوبت جاپہنچی۔ اس موقعے پر بعض اطراف سے کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عربیات اخوان کے ایک دھڑے کے مرکزی ذمہ دار بنادیے جائیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا کہ: ’’تنظیم کی صفوں میں یک جہتی اور سمع و طاعت کا نظام وہ سرخ لکیر ہے جسے نہ تو کسی بھی صورت عبور کیا جاسکتا ہے اور نہ ملیا میٹ‘‘۔
مرحوم سے راقم کی کئی ذاتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ سوڈان کے دار الحکومت خرطوم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی جہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان سمیت مختلف موضوعات زیربحث تھے۔ مرکزی سیشن کی صدارت ڈاکٹر عربیات کررہے تھے۔ مجھے کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں بات کرنا تھی۔ مختصر وقت جلد ختم ہوگیا تو گزارش کی کہ اس بھرپور عرب کانفرنس میں ایک عجمی مسلمان کو، ایک منٹ اضافی دے دیا جائے۔ صدر مجلس قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’عجمی چونکہ عربوں سے اچھی عربی بول رہا ہے اس لیے اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ اضافی وقت تو نہ ملا، لیکن یہ واقعہ آیندہ ہماری ہر ملاقات کا عنوان بن گیا۔ جس مجلس میں ملتے خوش گوار لہجے، مسکراتے چہرے سے ملتے اور اس واقعے کا ذکر کرتے تو جواب میں عرض کرتا کہ ایک کامیاب اسپیکر کے طور پر ایک منٹ بھی اضافی وقت نہ دے کر سب کے ساتھ یکساں معاملہ رکھا۔ یقینا سچ فرمایا رب ذوالجلال نے: يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ ۰ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا کرتا ہے اور جسے دانائی عطا ہوئی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کی وفات پر جتنا دکھ ان کے دوستوں اور احباب کو ہوا، اتنا ہی صدمہ اور افسوس ان کے مخالفین کو بھی ہوا۔
ان کی وفات پر اُردن سے تحریک کے ایک بزرگ اپنے جذبات بیان کررہے تھے۔ انھوں نے اطلاع تو اپنے ایک عزیز دوست اور عظیم شخصیت کی وفات کی دینا تھی، لیکن مرحوم اور قبلۂ اوّل کا ذکر لازم و ملزوم تھا۔ کہنے لگے: ’’بچپن سے ہمارا ایک معمول ہے کہ فلسطینی سرحد پر واقع تمام بستیوں کے تحریکی کارکنان ہر نمازِ جمعہ کے بعد کسی ایسی جگہ جاکر کھڑے ہوتے ہیں جو بیت المقدس سے قریب تر ہو۔ بظاہر یہ ایک بچکانہ عمل لگتا ہے، لیکن ہر نماز جمعہ کے بعد ۳۶۰ کلومیٹر طویل سرحد کی ہر بستی کے لوگوں کا سرحد پر آکر آزادیِ اقصیٰ کی دُعا کرنا ایک پیغام بھی ہوتا ہے اور تجدِید عزم بھی۔۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے نہ تو دست بردار ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی اس جدوجہد میں ساری عمر گزر گئی، لیکن الحمدللہ ہم نے بے وفائی نہیں کی۔ ہم اقصیٰ و بیت المقدس کی یہ امانت اپنی نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔ ۲۶؍ اپریل کو ہم نماز جمعہ کی ادایگی کے بعد فلسطینی سرحد پر جانے کے لیے بسوں میں بیٹھ رہے تھے کہ جناب عبداللطیف عربیات کی وفات کی اطلاع ملی۔ ہم سب اہلِ قافلہ اجتماعی طور پر ان کے لیے دُعاگو ہوگئے۔ رب ذوالجلال اپنے بندے کو اعلیٰ علیین میں نمایاں مقام عطا فرما،آمین!
زندگی بہت ناپایدار ہے، اگلے لمحے پر بھی بھروسا نہیں ہوسکتا۔ جنرل عمر حسن البشیر ۱۰؍اپریل ۲۰۱۹ء کو سوڈان کے صدر تھے۔ ۱۱ ؍اپریل کو ان کے دست راست جنرل عوض بن عوف صدر بن گئے اور ۱۲؍اپریل کو ان کے ایک اور ساتھی عبدالفتاح برہان ملک کے سربراہ بن گئے۔ ایک روز قبل انھوں نے ہی اپنے پانچ جرنیل ساتھیوں کے ہمراہ جاکر صدر عمر بشیر سے کہا تھا کہ ملک میں چار ماہ سے جاری مظاہرے اب خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں، اس لیے ہماری راے ہے کہ آپ اقتدار چھوڑ دیں۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب جواب نہ ملا تو جنرل عوض بن عوف قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے: ’’ملک میں ایک عرصے سے بدانتظامی، کرپشن، بے انصافی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ ہم حالات کا جائزہ لے رہے تھے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اب ہم نے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے اور اس کے سربراہ کو اپنی حفاظت میں لے کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا ہے‘‘۔ اپنے مختصر خطاب میں ملک میں دو سال کے لیے عبوری حکومت، ۳ ماہ کے لیے ایمر جنسی اور ایک ماہ کے لیے رات ۱۰ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو کا اعلان کردیا۔
انقلاب کا یہ پہلا دن خرطوم کے قلب میں واقع مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہزاروں مظاہرین کا کڑا امتحان تھا۔ تازہ فوجی انقلاب اور بالخصوص رات کے کرفیو کا اعلان اعصاب شکن تھا۔ لگتا تھا کہ مظاہرین منتشر ہوجائیں گے اور یوں ملک میں ایک نئے عسکری دور کا آغاز ہوجائے گا۔ لیکن گذشتہ پانچ دن سے مسلسل مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بیٹھے ان مظاہرین نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ حیرت انگیز طور پر انقلابی کونسل کمزور اور مظاہرین مزید مضبوط ثابت ہوئے۔ اگلے روز جمعہ تھا، مزید عوام مظاہرین میں شامل ہوگئے۔ ۳۶ گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے جنرل عوض کو بھی اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ وہ ایک بار پھر اسی وردی کے ساتھ اسی کرسی اور اسی سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہو کر کہہ رہے تھے: ’’میرے عزیز ہم وطنو! میں مختصر وقت میں دوسری بار آپ سے مخاطب ہونے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن آج میں بلند مقاصد کے لیے ملک میں ایک نئی روایت متعارف کروانے جارہاہوں۔ یہ روایت ہے جاذبِ نظر مناصب سے بے رغبتی اور عہدوںکی چمک دمک میں عدم دلچسپی کی روایت۔ میں ملک میں تشکیل دی جانے والی عسکری سپریم کونسل کی سربراہی سے ایک ایسے شخص کے حق میں دست بردار ہورہا ہوں کہ جس کے تجربے، صلاحیت اور اس منصب کے لیے استحقاق پر ہمیں کامل یقین ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ جنرل عبدالفتاح برہان عبدالرحمان حال ہی میں سفر کا آغاز کرنے والے سفینے کو کامیابی سے ساحل نجات تک لے جائیں گے‘‘۔
پانچ منٹ کے اس خطاب کے بعد سوڈان میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہورہاہے۔ جنرل عبدالفتاح برہان، جنرل عمر البشیر کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں بری افواج کے سربراہ رہے اور اب افواج میں انسپکٹر جنرل کے علاوہ یمن میں لڑنے والی سوڈانی فوج کی نگرانی کررہے تھے۔ اس دوران سعودی اور اماراتی قیادت سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔ کسی نظریاتی شناخت کے بجاے فقط پیشہ ورانہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے سربراہ بنتے ہی سعودی عرب اور امارات کی طرف سے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے فوری طور پر سوڈان کو ۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ پٹرول اور غذائی مواد کی فراہمی کا بھی اعلان کردیا۔ عوام میں بھی نئے جنرل صاحب کے لیے نسبتاً قبولیت کا تأثر ہے، لیکن حالات اب بھی مکمل پُرسکون نہیں ہوئے۔ مظاہرین فوجی اقتدار کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
۹ دسمبر ۲۰۱۸ء سے جاری ان مظاہروں میں زیادہ شدت اس وقت آئی تھی، جب الجزائری عوام نے گذشتہ ۲۰ سال سے برسراقتدار ۸۲ سالہ مفلوج و معذور عبدالعزیز بوتفلیقہ کو اپنے بھرپور قومی دھرنوں کے ذریعے اتار پھینکا۔ انتہائی ضعیف، بیمار اور ناکارہ ہوجانے کے باوجود بوتفلیقہ نے ۱۸؍اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پانچویں بار صدارتی اُمیدوار بننے کا اعلان کیا تھا۔ بس یہی اعلان، ان کی سیاسی وفات کا اعلان ثابت ہوا۔ الجزائری عوام کی یک جہتی اور ایک قومی تحریک کی صورت میں سڑکوں پر نکل آنے سے، بہ امر مجبوری فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، بوتفلیقہ کے جانے اور دستور کے مطابق سپیکر کو عبوری صدر کی حیثیت سے ملکی انتظام سنبھال لینے کا اعلان کیا۔ الجزائری عوام کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، لیکن تحریک ہنوز جاری ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ صرف بوتفلیقہ نہیں، پورے سابقہ نظام سے نجات چاہیے۔ عوامی نعروں، تقریرروں اور تحریروں میں الجزائر کی حالیہ تاریخ کا خلاصہ دہرایا جارہاہے کہ ۱۹۹۱ءمیں ہونے والے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستیں جیتی تھیں، لیکن فوج نے انقلاب کے ذریعے عوامی راے کا خون کردیا۔ اس کے بعد پورا عشرہ الجزائر میں بدترین خوں ریزی برپا رہی۔ یہ فرانس کے خلاف جنگ آزادی کے بعد ملک کی بدترین خوں ریزی تھی۔ پھر مختلف افراد کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد، اپریل ۱۹۹۹ء میں بوتفلیقہ کو صدر بنوادیا گیا۔ اب بوتفلیقہ کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالقادر بن صالح کو ۹۰ دن کے لیے عبوری صدر بنایا گیا ہے، جس نے ۴ جولائی کو قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔تاہم، الجزائری عوام کے مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ وہ عبوری صدر کو بھی براے نام صدر قرار دیتے ہوئے، اصل مقتدر اداروں کی حکومت اور پہلے سے طے شدہ نتائج والے کسی انتخاب کو مسترد کررہے ہیں۔
سوڈانی عوام کی تحریک گذشتہ دسمبر سے جاری تھی۔ ان مظاہروں کا آغاز صدر عمر البشیر کے اچانک اور ناقابل فہم دورہء شام سے ہوا تھا۔ چند گھنٹوں کے اس دورے کے دوران وہ شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کرکے آئے۔ بشار الاسد گذشتہ آٹھ برس سے پوری قوم تباہ اور پورا ملک کھنڈر بنا چکا ہے، عالم عرب میں نفرت و وحشت کی علامت بن چکا ہے۔ اس سے یہ ملاقات صدربشیر پر عوامی و تنقید و احتجاج کا نقطہء آغاز بنی۔ سوڈانی حکومت کا کہنا تھا کہ بشار سے یہ ملاقات سوڈان پر عائد پابندیوں سے نکلنے کی ایک کوشش تھی اور یہ ملاقات کسی علاقائی طاقت کے کہنے پر نہیں ہم نے خود اپنی ترجیحات کے مطابق کی۔ اتفاق تھا یاکوئی اور’غیبی‘ انتظام کہ بشار سے ملاقات پر احتجاج کے انھی دنوں میں، ملک میں روٹی اور تیل کا بحران کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بشار مخالف مظاہرے، بشیر مخالف مظاہروں میں بدل گئے۔ فوراً ہی ان مظاہروں نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی، جس دوران ۵۷ افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں عالمی سرخیاں بن گئیں۔ یہ مظاہرے قریب الاختتام تھے کہ بوتفلیقہ کے خلاف الجزائری عوام کی تحریک کامیاب ہوئی اور سوڈان میں بھی اس کے بھرپور اثرات پہنچے۔ سوڈانی عوام نے ۶؍ اپریل کو جی ایچ کیو کے باہر دھرنے کا اعلان کردیا۔ یہی مظاہرے ۱۱؍اپریل کو صدر عمر البشیر کی رخصتی کا ’ذریعہ‘ بنے۔
جنرل عمر حسن البشیر (پیدایش: یکم جنوری ۱۹۴۴ء) ۳۰ جون ۱۹۸۹ء کو وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ اُلٹ کر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ آغاز میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت جیل میں بند کردی گئی۔ تقریباً چھے ماہ بعد سیاسی قیادت کی رہائی ہوئی اور ڈاکٹر حسن الترابی جنرل عمر البشیر کے فکری و سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ساتھ ہی سوڈان کے خلاف چاروں اطراف سے دباؤ اور سازشوں کا طویل دور شروع ہوگیا۔ امریکا و یورپ نے پابندیاں عائد کردیں۔ بلا استثناء تمام مسلم ممالک نے سوڈان کا علانیہ یا خفیہ بائیکاٹ کردیا۔ یہ بائیکاٹ اور محاصرہ اتنا شدید تھا کہ سوڈان نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے تارکول کا تقاضا کیا تو براد رمسلم ممالک نے وہ تک نہ دیا۔ خود پاکستان کا یہ عالم تھا کہ ۹۰ کے عشرے میں صدر فاروق لغاری سوڈان کے پڑوسی ملک یوگنڈا کے دورے پر گئے۔ صدر لغاری کو اس موقعے پر دورۂ سوڈان کی دعوت بھی دی گئی، لیکن پاکستان نے معذرت کرلی۔ سوڈان نے تجویز دی کہ چلیے دورہ نہ کیجیے، یوگنڈا جاتے ہوئے صرف کچھ دیر کے لیے خرطوم ایئرپورٹ پر رُک جائیے۔ سوڈانی عوام پاکستان سے ایک فطری محبت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ لیکن صدر لغاری نے خود محترم قاضی حسین احمد صاحب کو ایک ملاقات میں بتایا کہ امریکی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر مجھے خرطوم رکنے سے منع کردیا گیا تھا۔
صدر بشیر کے اقتدار سنبھالتے ہیں جنوبی سوڈان میں ۱۹۵۵ء سے جاری بغاوت کے لیے عالمی امداد کے دھانے کھول دیے گئے۔ ۹ ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے سوڈان کے خلاف مختلف پڑوسی ممالک کی طرف سے کئی بار باقاعدہ مسلح جنگیں اورحملے کروائے گئے۔ کئی بار اندرونی بغاوتوں کی کوشش کی گئی۔سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکومت نے چین کی مدد سے تیل دریافت بھی کرلیا، ملک کا اقتصادی و معاشرتی نظام قدرے سنبھلنے لگا تو پورے جنوبی سوڈان کو الگ کروادیا گیا۔ سوڈان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تو مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں بغاوت کروادی گئی۔ چاڈ اور لیبیا کی سرحدوں کے راستے باغیوں کو کھلم کھلا اسلحے کے ڈھیر فراہم کیے گئے۔ اس مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کیے گئے، تو عالمی عدالت سے صدر عمر البشیر کو جنگی مجرم قرار دے دیا گیا۔
نائن الیون سے پہلے القاعدہ کی پشتیبانی کا الزام لگاتے ہوئے سوڈان کے ادویات بنانے کے کارخانے امریکی میزائلوں کے ذریعے تباہ کردیے گئے۔ صدر البشیر ہی نہیں جنرل عوض بن عوف اور جنرل عبد الفتاح برہان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ سوڈان پر دہشت گردی کی مدد کا الزام لگا کر ذمہ داران حکومت سمیت عام شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اقتصادی جکڑ بندیوں میں کستے ہوئے دنیا کے کسی بنک اور کسی بھی ملک کو سوڈان سے ہرطرح کے مالی معاملات پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ کسی بنک نے ہمت کرنے کی کوشش بھی کی تو بھاری جرمانوں کی دھمکی دے کر روک دیا گیا۔ قارئین کے لیے شاید باعث حیرت ہو کہ اس وقت صرف دو خلیجی بنکوں کے علاوہ دنیا کا کوئی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی کاروبار یا رقوم کی ترسیل نہیں کرسکتا۔ سوڈان دنیا میں اپنے سفارت خانوں تک کو کسی بنک کے بجاے براہِ راست کیش رقوم ارسال کرنے پر مجبور ہے۔
ان تمام بیرونی چیلنجوں کے علاوہ اندرونی خلفشار بھی عروج پر رہا۔ چین اور ملائیشیا کے تعاون سے تیل اور تجارت کے میدان میں قدرے کامیابیاں ملیں تو ڈاکٹر حسن الترابی نے مشورہ بلکہ منصوبہ پیش کیا کہ ملک میں فوجی حکومت کے بجاے حقیقی جمہوری نظام نافذ کرتے ہوئے، فوج کو اقتدار سے نکال لیا جائے۔ ترابی صاحب خود اس وقت اسمبلی کے سپیکر تھے۔ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا ایک نظام وجود میں آچکا تھا۔ پارلیمنٹ میں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی تھیں، لیکن آخری اختیارات و کنٹرول فوج اور استخباراتی ادارے کے ہاتھ میں تھے۔ ترابی صاحب کی ان تجاویز پر صدر بشیر اور دیگر ذمہ داران سخت نالاں ہوگئے۔ اس وقت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے بھی وہاں جمع ہوکر مصالحت کی بھرپور کاوشیں کیں۔ پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والی وہ تمام کاوشیں کئی نازک مراحل سے گزریں۔ گاہے ایسا بھی ہوا کہ نماز تراویح کے بعد بیٹھے تو سحری تناول کرکے اُٹھے۔ بالآخر فریقین ایک درمیانی حل پر متفق ہوگئے، لیکن اختلاف پھر غالب آگیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی جنھیں صدر عمر البشیر سمیت اکثر ذمہ داران اپنا مرشد و فکری رہنما تسلیم کرتے تھے، کئی وزرا جنھیں باپ کا درجہ دیتے تھے، گرفتار کرکے قدیم ’کوبر جیل‘ بھیج دیے گئے (اب صدر بشیر اور ان کے ساتھی بھی اسی جیل میں رکھے گئے ہیں)۔ طویل قید کے بعد رہائی ہوئی تو ترابی صاحب نے ’المؤتمر الشعبی‘ کے نام سے اپنی نئی جماعت تشکیل دے لی۔ طویل عرصہ ان کا جیل آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ ترابی صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل افہام و تفہیم کی فضا تو قائم ہوگئی، لیکن اصولی اختلافات اپنی جگہ باقی رہے۔ اسی اثنا میں اخوان کی تنظیم سے بھی حکومت کے اختلافات ہوگئے۔ ان کا ایک دھڑا حکومت کے ساتھ اور دوسرا اپوزیشن کا حصہ بن گیا۔ اس طرح سوڈان میں اسلامی تحریک حکومت، اپوزیشن اور غیر جانب دار تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
نومبر ۲۰۱۸ء میں خرطو م جانا ہوا تو اقتصادی مشکلات اپنے عروج پر تھیں۔ حکمران جماعت کے کئی ذمہ داران بھی صورت احوال سے غیر مطمئن دکھائی دیے۔ مرحوم ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد اب صدر عمر البشیر کے کئی دیگر قریبی ساتھی حکومت اور حکمران جماعت میں نظر انداز کردیے جانے کا شکوہ کررہے تھے۔ حکومت اور پارٹی کے اہم ذمہ داران جو کبھی صدر بشیر سے اظہار محبت و ہمدردی کرتے ہوئے ان کے شرمیلے مزاج ہونے کا ذکر کرتے تھے، اب تنہا فیصلے کرنے کی روش پر شکوہ کناں تھے۔ دونوں نائب صدور سمیت کئی اہم ذمہ داریوں پر سیاسی کارکنان کے بجاے حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی سربراہان، تعینات کردیے گئے تھے۔ یہ حقائق سب کے لیے باعث تشویش تھے۔
ان ساری اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود سوڈان نے صدر بشیر کے عہدِ اقتدار میں کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ سب سے اہم کامیابی تو خود ان مہیب عالمی سازشوں کے باوجود ملک اور اس کے نظام کا باقی اور ثابت قدم رہنا تھا۔ وسیع و عریض زرخیز زمین اور دریاے نیل کے خزانے رکھنے کے باوجود حکومت ملنے پر ملک غذائی بدحالی کا شکار تھا۔ صدر بشیر نے قوم کو نعرہ دیا کہ مَن لَا یَملِکُ قُوتَہُ لَایَملِکُ قَرَارَہُ (جس کی غذا اپنے ہاتھ میں نہیں، اس کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں نہیں)۔غذائی خود کفالت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعلیم کے لیے نئے اعلیٰ ادارے قائم کیے گئے۔ پہلے ملک میں صرف پانچ یونی ورسٹیاں تھیں، اب ملک میں ۱۲۶ یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا ایک جال ہے۔ پورا نصاب تعلیم عربی زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیکل، انجینیرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ تعلیم بھی قومی زبان عربی میں دی جاتی ہے۔ علاج کی سہولت جتنی ہے، سب شہریوں کو مفت حاصل ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے اور بڑے ڈیم قائم کیے گئے جو عموماً ملکی ضرورت پوری کررہے ہیں۔۲ء ۹ کلومیٹر طویل اور ۸۲ میٹر چوڑے مروی ڈیم میں ۱۲۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی دس ٹربائینیں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ڈیم اور آئل ریفائنری مسلسل پیداوار دے رہی ہیں۔ تیل کے کنویں تو جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے ساتھ ہی اس کے حصے میں چلے گئے، لیکن وہ خام تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان ہی کا محتاج ہے۔ ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کے دیگر پیمانوں میں بھی بہتری آئی ہے۔لیکن رقبے کے اعتبار سے افریقا اور عالم عرب کے تیسرے بڑے اور غربت کے ساتھ ساتھ تقریباً ۵ کروڑ کی آبادی والے ملک کو، مشکلات سے نجات پانے کے لیے، بیرونی سازشوں اور جکڑ بندیوں سے نجات کے علاوہ، اندرونی استحکام کا طویل سفر ابھی طے کرنا ہے۔
عالم اسلام اور رحمۃ للعالمین کی اُمت کو قرآن و سنت کے آئینے میں دیکھیں تو ہلاکت و تباہی کے سب اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ قرآن کریم بار بار اتحاد و اخوت کی تعلیم دیتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ باہم جھگڑوں اور گروہ بندیوں میں پڑو گے تو ناکام ہوجاؤگے۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ مسلم اقوام و افراد ایک کے بعد دوسری جنگ اور عارضی مفاد و منصب کی خاطر برپا اختلافات میں کود پڑنے پر ہر دم آمادہ رہتے ہیں۔ سوڈان اور الجزائر ہی نہیں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لیبیا میں بھی خانہ جنگی کا ایک نیا اور سنگین دور شروع ہوگیا ہے۔
کرنل قذافی کے ۴۰ سالہ دور حکومت کے بعد مصر اور تیونس کی طرح لیبیا میں بھی عوام کی مرضی سے منتخب حکومت اور انتخاب و شورائیت کی بنیاد پر ایک آزادانہ معاشرتی نظام وجود میں آنا شروع ہوگیا تھا۔ لیبیا جاکر دیکھا اور وہاں سے آنے والوں نے بھی بتایا کہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ اہم ملک دنیا کے ساتھ نئے معاشی، سیاسی اور ترقیاتی تعلقات کا متمنی و منتظر ہے۔ اچانک معلوم ہوا کہ مصر میں ملکی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون کرنے والے جلادوں کے پشتیبان، اب لیبیا میں بھی خون کی یہی ہولی کھیلنے پر مصر ہیں۔ انھوں نے معمر قذافی کے ایک سابق رفیق کار خلیفہ حفتر کا مہرہ آگے بڑھایا ہے۔
خلیفہ حفتر (پیدایش ۱۹۴۳ء) ۱۹۶۹ء میں لیبیا کے شاہ ادریس السنوسی کے خلاف کرنل قذافی کے انقلاب کا حصہ تھے۔ بعد ازاں قذافی نے انھیں بری افواج کا سربراہ بنادیا۔ ۱۹۷۸ء میں لیبیا اور پڑوسی ملک چاڈ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو وقفوں وقفوں سے تقریباً دس سال جاری رہی۔ ۱۹۸۷ء کی جنگ میں خلیفہ حفتر خود شریک تھا۔ آغاز میں اسے کچھ کامیابی ملی، لیکن اسے فوری کمک کی ضرورت تھی۔ لیبیا کے تاریخ دان بتاتے ہیں کہ قذافی نے اس خدشے سے کمک نہ بھیجی کہ حفتر اس لڑائی میں ایک کامیاب ہیرو کے طور پر متعارف ہورہا ہے، اگر واقعی جیت کر واپس لوٹا تو کہیں میرا تختہ نہ الٹ دے۔ حفتر اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔ ۱۲۶۹ لیبین فوجی مارے گئے اور خلیفہ حفتر سمیت ۴۳۸ گرفتار ہوگئے۔ دوران اسیری حفتر نے قذافی سے بغاوت و علیحدگی کا اعلان کردیا۔ امریکی مداخلت پر اسے رہائی ملی اور وہ وہیں سے امریکا چلا گیا، جہاں ۲۰سال تک مقیم رہا۔ امریکی شہریت حاصل کرلی اور CIA کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون رہا۔
سقوط قذافی کے بعد لیبیا میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی۔ قذافی کے خلاف تحریک چلانے والے تقریباً سب گروہ اس میں شریک تھے۔ ملک میں امن و استحکام کا سفر شروع ہوا چاہتا تھا کہ خلیفہ حفتر نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر ’بنغازی‘ میں اعلان بغاوت کردیا۔ مصر کے جنرل سیسی اور اس کے حلیف حفتر کی بھرپور عسکری و مالی مدد کررہے تھے۔ کوئی فریق دوسرے کو شکست تو نہ دے سکا، البتہ ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ ایک دار الحکومت طرابلس (Tripoli) میں اور دوسری بنغازی میں۔ وقت اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا کہ الجزائر و سوڈان میں عوامی تحریک کے ساتھ ہی خلیفہ حفتر نے طرابلس پر پھر سے چڑھائی کردی۔ اب تک طرفین کے سیکڑوں افراد اور طرابلس کا سارا گردونواح جنگ کی نذر ہوچکا ہے۔ خلیفہ حفتر کی افواج کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، لیکن اسے شہ دینے والے جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے پر مصر ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کرتے ہوئے مطلع کیا تھا کہ: ’’آپ لوگ اپنے سے پہلے والوں کے ایک ایک قدم اور ایک ایک عمل کی پیروی کرو گے۔ یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں جاگھسو گے‘‘ ( بخاری)۔ قرآن کریم اس روش سے باز رہنے کا حکم دیتا اور خبردار کرتا ہے کہ: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۶۲ (احزاب۳۳: ۶۲) رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم اُمتیوں کو دُعا سکھائی تھی: لطیف و خبیر پروردگار اپنے بندوں پر رحم فرما۔ ہمارے گناہوں کے باعث ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ فرما جو ہمارے معاملے میں آپ کا خوف نہ رکھتے ہوں اور ہم پر رحم نہ کھاتے ہوں۔
سرخ و سپید نورانی چہرہ، گردن کو ڈھانپتی ہوئی سفید براق داڑھی، دائمی مسکراہٹ اور بے تکلف شخصیت کے مالک، یہ تھے جناب ڈاکٹر محمد صیام۔ بچپن ہی سے قرآن و سنت اور نیک لوگوں سے تعلق و محبت نے ان کے لیے رب ذوالجلال کی لازوال نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے۔ پانچ سال تک قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ کے خطیب رہے۔ ۱۵ فروری ۲۰۱۹ء بروز جمعہ سوڈان میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دُعا اور یقین ہے کہ اللہ کی رحمت نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا۔
جناب ڈاکٹر محمد محمود صیام ۱۹۳۵ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود صیام کا تعلق فلسطین کے قصبے ’الجورۃ‘ سے تھا۔ تلاش معاش کے لیے مصر کے صوبہ ’الشرقیہ‘ میں جابسے۔ ایک مصری گھرانے میں شادی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد والدین نے واپس فلسطین جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اسی دوران فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست اسرائیل بنادینے کا اعلان کردیا گیا۔ بچپن کی وہ تلخ یادیں ان کے دل و دماغ پر نقش تھیں۔ ان کے ساتھ سفروحضر میں کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ آئیے ان کی کہانی خود انھی کے بیان کیے گئے واقعات کی روشنی میں سنتے ہیں:
میں چھے سال کا تھا جب ہم اپنے والدین کے ہمراہ آبائی گاؤں ’الجورۃ‘ واپس چلے گئے۔ آئے دن ہمیں سننے کو ملتا تھا کہ یہودی ہمارے گاؤں سمیت پورے ملک پر قبضہ کرکے ہمیں وہاں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ میں بارہ سال کی عمر کو پہنچا تو ایک روز زندگی کے یہ تلخ ترین لمحات دیکھنا پڑگئے۔ یہودیوں نے ہمارے گاؤں پر قبضہ کرلیا تھا۔ دیگر آبادیوں کی طرح ہمیں بھی فوراً اپنا گھربار چھوڑ کر وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ اس دور کی تلخ یادوں میں سے ایک یہ ناقابل فہم اور تلخ حقیقت بھی مجھے یاد ہے کہ ہمیں جب اپنے گھروں سے نکالا گیا، اس سے چند روز قبل وہاں مصری فوج کے دستے آئے اور انھوں نے تلاشی لیتے ہوئے تمام شہریوں سے ہر طرح کا اسلحہ ضبط کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کا تحفظ ہم کریں گے لیکن امن و امان کی حفاظت کے لیے آپ لوگ اپنا ہر طرح کا اسلحہ ہمیں جمع کروادیں۔ اسلحہ مصری افواج کو جمع کروادیے جانے کے بعد صہیونی لشکر آئے اور انھوں نے خوں ریزی کرتے ہوئے ہمیں وہاں سے نکال باہر کیا۔ ہم پر ہر طرف سے فائرنگ شروع کردی گئی تو سارے گاؤں والے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد مجھے ایک اونٹ پر سوار کردیا گیا۔ اس لٹے پٹے قافلے کو مزید خوف زدہ کرنے کے لیے برطانوی فوج کے جہاز انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے مسلسل ہمارے اوپر سے گزر رہے تھے، تاکہ ہم جلد از جلد اس پورے علاقے سے دور نکل جائیں۔ بعض اوقات جہاز اتنا نیچے آجاتے تھے کہ لگتا تھا، ہمیں اچک کر لے جائیں گے۔ ایک بار جہاز نے نیچے غوطہ لگایا تو میں نے خوف زدہ ہوکر اُونٹ سے چھلانگ لگا دی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے ہم کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد غزہ شہر جاپہنچے۔ وہاں کئی مہاجر کیمپ قائم ہوچکے تھے۔ ہم بھی ایک مہاجر کیمپ میں چلے گئے۔ ہماری طرح وہاں موجود ہر شخص یہی سوچ اور اُمید رکھتا تھا کہ حملے اور قتل و غارت کے یہ دن جلد ختم ہوجائیں گے۔ ہم سب جلد اپنے اپنے گھر واپس چلے جائیں گے۔ ہم نے اپنے گھروں کی چابیاں سنبھال رکھی تھیں اور ہر کوئی پیچھے رہ جانے والے مویشیوں اور کھڑی فصلوں کے بارے میں فکر مند تھا۔
دن ہفتوں اور ہفتے مہ و سال میں بدلنے لگے، لیکن فلسطین کے مختلف مہاجر کیمپوں میں بسنے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو اپنے علاقوں اور گھروں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم غزہ کے ایک قصبے ’خان یونس‘ میں سمندر کنارے واقع ایک کیمپ میں رہ رہے تھے۔ ہمارے بڑوں نے وہیں ہمارے لیے عارضی سکول قائم کردیے تھے۔ ہم اپنے ساتھ ابتدائی کتابوں اور کاپیوں کے علاوہ ایک ایک اینٹ یا پتھر بھی لے کر جاتے تھے تاکہ ان پر بیٹھ کر پڑھ سکیں۔ اس عالم میں بھی ہم صہیونی حملوں سے محفوظ نہیں تھے۔ ان کے جہاز آئے دن آکر ہمارے مہاجر کیمپوں پر بھی فائرنگ کردیتے تھے۔ اسی طرح کے ایک حملے میں ایک دن میرے والدصاحب کو بھی شہید کردیا گیا۔ وہ اس وقت مہاجرین میں کھانا تقسیم کررہے تھے۔
مہاجر کیمپ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان سرگرمیوں کا اہتمام کرنے والوں کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔ ہم نے قرآن کریم حفظ کیا۔ ہمیں مختلف کھیلوں اور ورزشوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔جناب احمد یاسین بھی ہمارے ہم جولیوں میں شامل تھے۔ ہم شام کے وقت ساحل سمندر پر دوڑ لگانے اور لمبی چھلانگیں لگانے کا مقابلہ کرتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ ایک ساتھی رکوع کے عالم میں کھڑا ہوجاتا، ہم دور سے دوڑ کر آتے اور اسے چھوئے بغیر اس کے اوپر سے کود جاتے۔ کبھی ایک نہیں دو دو اور تین تین نوجوان اکٹھے کھڑے ہوتے اور ہم ان کے اوپر سے چھلانگ لگالیتے۔ ایک روز اسی طرح کی چھلانگ لگاتے ہوئے ہمارا دوست احمد یاسین گردن کے بل جاگرا، سخت چوٹ لگی۔ ہم اسے اٹھاکر ان کے گھر لے گئے۔ پانی گرم کرکے مسلسل ٹکور کرتے رہے، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا اور بالآخر وہ مفلوج ہوگئے۔ اللہ کی قدرت کہ ایک روز اسی مفلوج شخص نے اللہ کے حکم و توفیق سے پوری فلسطینی قوم کو ایک نئی زندگی دے دی۔
غزہ کے مہاجر کیمپ ہی کی یہ یادیں بھی دل میں تازہ ہیں کہ ہمارے اساتذہ ہمیں تقاریر کی تربیت بھی دیا کرتے۔ کبھی یہ ہوتا کہ کسی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر ہم کھلے سمندر میں چلے جاتے۔ ہمارے اساتذہ ہمیں فی البدیہ تقریر کرنے کے لیے کوئی موضوع دیتے اور کہتے کہ یہ سمندر کی موجیں، موجیں نہیں آپ کے سامعین ہیں۔ آپ نے ان سے خطاب کرنا ہے۔ ہم تقریر کرتے اور ہمارے اساتذہ ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ نوٹ کرتے جاتے۔ اس وقت کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ سمندر کی لہروں سے کیے جانے والے یہ خطاب بالآخر قبلۂ اوّل کے منبر پہ خطبات جمعہ کی بنیاد بنیں گے۔
غزہ کے مہاجر کیمپ سے اپنے گھروں کو واپسی تو نہ ہوسکی لیکن ہم کسی طرح وہاں سے نکل کر مصر اور پھر کویت پہنچ گئے۔ وہاں میں نے باقی تعلیم مکمل کی اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا۔ ۳۰ سال تدریس کا موقع حاصل رہا۔ پھر مکہ مکرمہ کی اُم القریٰ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے اسکالر شپ مل گیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ہم واپس غزہ لوٹ گئے۔ شیخ احمد یاسین نے وہاں ’اسلامی یونی ورسٹی غزہ‘ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ۱۹۸۳ میں مجھے وہاں تدریس اور پھر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر چُن لیا گیا۔
۱۹۸۴ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ میں خطابت کا شرف عطا کردیا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار مسجد اقصیٰ کے منبر پر کھڑا ہوا تو دل لرز رہا تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ یہ قبلۂ اوّل ہی نہیں مقبوضہ قبلۂ اوّل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا تھا، لیکن اس وقت پھر صہیونی قبضے میں ہے۔ ہم نے یہاں صرف اللہ کے حضور سجدہ ریز ہی نہیں ہونا،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے فریضۂ جہاد کو بھی زندہ کرنا ہے۔ مجھے چار برس تک مسجداقصیٰ میں خطابت کا اعزاز حاصل رہا۔ ۲۸ جولائی ۱۹۸۸ء کو صہیونی افواج نے اس سے محروم کرتے ہوئے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ اس دن خود یہودی سرکاری ذرائع کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ۲ لاکھ ۴۰ ہزار اہل ایمان نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مجھے وہاں سے نکالتے ہوئے یہ بچکانہ الزام لگایا گیا کہ: ’’تحریک حماس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں لکھتا ہوں‘‘۔
مختلف مجالس میں سنائی گئی اس آپ بیتی سے شیخ محمد صیام کی زندگی کسی حد تک سامنے آجاتی ہے۔ ان سے ملاقاتوں کے دوران ان کی شخصیت کے کئی دیگر روح پرور پہلو اس تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔ اسلامی تحریک کے اکثر ذمہ داران و کارکنان کی طرح شیخ محمد صیام بھی قرآن کریم کا ایک نسخہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا وہ اس کی تلاوت کرتے ہوئے خالق دو جہاں سے محو گفتگو ہوجاتے۔ یہ بھی کئی بار دیکھا کہ وہ تلاوت مکمل کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کے لیے مغفرت، رحمت اور نصرت کی طویل دُعائیں کرتے۔ اُمت کے مظلوموں کا ذکر ہوتا تو فلسطین ، کشمیر، مصر، شام، افغانستان، ہر خطے کا ذکر کرتے۔ اپنے اعزہ و اقارب کا ذکر شروع کرتے تو ماں باپ سے لے کر ان کی نسبت سے ایک ایک رشتے کا ذکر کرتے۔ اس وقت ان کے اساتذہ کی قسمت پر بھی رشک آتا کہ جب وہ ان کا نام لے لے کر انھیں بھی ان پس از تلاوت دُعاؤں میں یاد کرتے۔ آج جب وہ دُعائیں کرنے والی ربانی شخصیت خود دُعاؤں کی محتاج ہوگئی ہے تو یقین ہے کہ اللہ رحیم و کریم نے انھیں بھی دُعائیں کرنے والوں کا ایک عظیم صدقۂ جاریہ عطا کیا ہوگا۔ان کا ایک بیٹا محمود اور ۸ بیٹیاں تھیں، لیکن ان کے لیے صرف ان کی صلبی اولاد ہی نہیں، ان کی فکری و روحانی اولاد بھی یقینا دُعاگو ہوگی۔ ڈاکٹر محمد صیام ایک شان دار شاعر بھی تھے۔ ان کے پانچ دیوان (دعائم الحق، ملحمۃ البراعم (۱۰حصے)۔ میلاد اُمۃ ، سقوط الرفاق ، دیوان الانتفاضۃ) مقصدیت سے بھرپور شاعری کا قیمتی خزانہ ہیں۔ یہ صرف شعری دیوان نہیں مسئلہ فلسطین کی تاریخ اور سرزمین اقصیٰ کی آزادی کی نوید ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ ۱۵ فروری کو ان کی وفات سے ایک دن پہلے پولینڈ کے دارالحکومت وارسو (Warsaw ) میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا اہتمام امریکی صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ دنیا کے ۷۰ ممالک کو دعوت دی گئی، جن میں سے ۶۰ شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: Peace and Security in the Middle East ’مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کانفرنس‘۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر مائک پنس سمیت اکثر مغربی دانش وروں نے اسے ایک اہم اور تاریخی موقع قرار دیا۔ ان کا ارشاد تھا:
It was a truly historic gathering at the dinner last night Arab and Israeli leaders gathered in the same room to talk about deeply common and shared interests
یہ کانفرنس واقعی ایک تاریخی اجتماع ہے۔ گذشتہ رات عشائیے میں عرب اور اسرائیلی رہنما ایک ہی کمرے میں اکٹھے تھے تاکہ سب مل کر اپنے اہم ترین مشترک مفادات پر تبادلۂ خیال کرسکیں۔
اس کانفرنس میں اکثر ممالک کی نمایندگی نسبتاً کم درجے کے ذمہ دار کررہے تھے، لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو خود شریک تھا۔ اس نے کانفرنس کے دوران مختلف عرب ذمہ داران و نمایندگان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ روس، فرانس اور جرمنی سمیت کئی دیگر اہم ممالک شریک نہیں ہوئے۔ خود فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس مسئلۂ فلسطین سے کھلواڑ کرنے کے لیے ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دو وجوہ کی بنا پر اسے ایک کامیاب کانفرنس قرار دیا۔ ایک یہ کہ کئی ایسے عرب ممالک جو اس سے پہلے اسرائیلی قیادت کے ساتھ صرف خفیہ روابط رکھے ہوئے تھے، اب ان تعلقات کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کانفرنس میں ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو یہ کہہ دیا گیا کہ خطے کی سلامتی کے لیے اصل خطرہ سرزمین فلسطین پر اسرائیلی قبضہ و مظالم نہیں، ایرانی ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔
کئی تجزیہ نگار یہ توقع ظاہر کررہے تھے کہ اس کانفرنس میں Deal of the Century صدی کی سب سے بڑی سودے بازی پر مشتمل امریکی منصوبے کا اعلان کردیا جائے گا، لیکن بوجوہ اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشرق وسطیٰ کے لیے ان کی خصوصی مشیر جیرڈ کوشنر نے اعلان کیا ہے کہ صدی کی اس سب سے بڑی ڈیل کا اعلان ۱۹؍ اپریل کو ہونے والے اسرائیلی عام انتخابات کے بعد کیاجائے گا۔
تمام تر امریکی دعوؤں کے باوجود وارسو کانفرنس اپنے شرکا اور نتائج کے لحاظ ہی سے ناکام نہیں قرار دی جارہی بلکہ اس میں کئی اندرونی تنازعے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نے خود میزبان ملک پولینڈ ہی کو رگید ڈالا۔ اس نے کہا کہ ’’میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پولینڈ نے (یہودیوں کے قتل عام میں) نازیوں کا ساتھ دیا تھا۔ہم تاریخ کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسے نہ کسی کو تبدیل کرنے دیں گے اور نہ مخفی ہی رہنے دیں گے‘‘۔ اس بیان پر پولینڈ کے صدر سمیت مختلف ذمہ داران حکومت نے سخت احتجاج کیا اور دونوں ملکوں کے مابین یہ تنازع مزید تند بیانات کا سبب بن رہا ہے۔
وارسو کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم اور دس عرب ملکوں کے نمایندگان اکٹھے تھے کہ ڈاکٹر محمد صیام اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اگرچہ دونوں واقعات کا باہم کوئی تعلق نہیں، لیکن ادھر اس کانفرنس کی بازگشت جاری تھی کہ مرحوم کی رحلت پر ان کے وہ بہت سارے اشعار و نظمیں بڑے پیمانے پر مضامین و پیغامات عرب میڈیا کا حصہ بننے لگے کہ جن میں وہ سرزمین اقصیٰ کی یقینی آزادی کا پیغام دیتے ہیں۔ وارسو کانفرنس جیسی عالمی کانفرنسوں کا ذکر ہو یا شیخ احمد یاسین سمیت شہدا فلسطین کی طویل فہرست، خطیب اقصیٰ اس مناسبت سے اپنے جان دار، عوامی شاعری کے ذریعے، اُمت مسلمہ کو قبلۂ اوّل کا پیغام یاد دلاتے ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو ڈاکٹر محمد صیام نے اس موقعے پر کئی انقلابی نظمیں کہیں۔ یہ تحریر ان میں سے اکثر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
قدرے نرم الفاظ میں کہا گیا ایک بند یہ تھا:
یَاأیہا العربُ الکِرام
أمَا لہذا اللَّیلِ آخِر
أفیُترکُ الشَّعبُ الفِلَسطِینیُّ
فِی المیدانِ حائِر
أین السُّیوفُ الیَعرُ بِیَّاتُ
الصَّقِیلاتُ بَواتِر
أَتَحَوَّلَت تِلکَ السُّیوفُ
اِلی التَّدَابُرِ وَ التَّنَاحُر
أَم أَنَّ ’واعُربَاہ‘ مَا
عَادَت تُؤَثِّر فِی الضَّمائر
[اے معزز عرب حضرات! کیا اس سیاہ رات کا کوئی اختتام نہیں؟ کیا حیران و پریشان فلسطینی عوام کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا جائے گا؟ وہ چمکتی ہوئی تیز دھار عرب تلواریں کہاں رہ گئیں؟ کیا اب وہ تلواریں صرف باہمی قتل و غارت کے لیے وقف ہوگئیں؟ یا پھر اب بھائی چارے کی کوئی پکار، ضمیروں پر اثر نہیں کرتی]۔
پھر فلسطینی قوم کی طرف سے اعلان کرتے ہیں:
لَا لَن نُہَاجِرَ کَالطُّیور
مَہما تَکَدَّسَتِ الشُّرُور
وَ لَسَوفَ نَصمُدُ فَوقَ أَرضِ
بِلادِنَا مِثلَ الصُّخُور
نَبنِی کَمَا بَنَت الجُدُودُ
لَنَاعَلیٰ مَرِّ الدُّھُور
وَ لَسَوفَ نَدفَعُ عَن حِمَانا
کَلَّ عَادٍ أو مُغِیر
بِالنَّابِ ۔ إن عَزَّ السِّلّاخُ
وَبِالمَخَالِبِ کَا الصُّقُور
[شر و مصائب جتنے بھی جمع ہوجائیں، ہم پرندوں کی طرح ہجرت نہیں کرجائیں گے۔ ہم مضبوط چٹانوں کی طرح اپنی سرزمین پر ہی ڈٹے رہیں گے۔ جس طرح ہمارے آبا و اجداد نے تعمیر کی، ہم بھی اپنے ان مضبوط بازوؤں سے جو نہ کبھی تھکتے ہیں اور نہ بزدلی سے آشنا ہیں، تعمیر کرتے رہیں گے۔ ہم ہر جارح اور حملہ آور کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کریں گے۔ اگر کوئی ہتھیار نہ بھی ملا تو ہم (شیروں کی طرح) اپنے جبڑوں اور شاہینوں کی طرح اپنے پنجوں سے اپنی سرزمین کا دفاع کریں گے]۔
شیخ محمد صیام مرحوم کے یہ اشعار صرف اشعار نہیں،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے کوشاں مجاہد فلسطینی قوم کا اعلانِ لازوال ہے!
طاقت کے نشے میں چور کسی بھی ملک کے لیے جنگ کی دلدل میں کود جانا بہت آسان، لیکن اس سے جان بچاکر واپس نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہر حملہ آور کی طرح اب امریکا بھی ’مقبوضہ‘ افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔ گذشتہ صدی کے اختتام پر ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روسی سلطنت اور ۱۹ویں صدی کے دوران ۱۸۴۲ء میں برطانیا بھی اسی انجام کو پہنچا تھا۔ اشتراکی روس تو اپنے الحادی نظریات سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ باقی ماندہ روس کو نہ صرف وسطی ایشیا کو بھی آزاد کرنا پڑا، بلکہ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کو اپنی ’نظریاتی‘ اور سیاسی غلامی سے آزادی دینا پڑی۔ برطانیا جس کے راج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے جزیرے تک محدود رہ گیا۔ اب اس کی تقریباً آدھی آبادی کا خیال ہے کہ وہ یورپی یونین میں باقی رہے تو باقی ماندہ استقلال و امتیازی مقام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ آدھے برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلے تو شدید اقتصادی بحرانوں میں گھر جائیں گے۔
امریکا، افغانستان میں وہی غلطیاں کرنے پر تلا ہوا ہے، جن کا ارتکاب افغانستان پر قبضے کے آخری اَدوار میں تباہی کا نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے باوجود، برطانیا اور اشتراکی روس نے کیا تھا۔ گذشتہ دونوں عالمی طاقتوں کی طرح اب امریکا بھی اسی انجام سے دوچار ہوا چاہتا ہے۔ اوّل الذکر دونوں وہاں سے نکلنا چاہتے تھے، لیکن وہاں اپنا قبضہ بھی باقی رکھنا چاہتے تھے۔ دونوں نے اپنے بعد وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر اصرار کیا۔ اب تیسرا طالع آزما امریکا بھی وہاں اپنے مضبوط فوجی اڈے باقی رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے، اور وہاں سے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت اور نظام بھی من مرضی کا چاہتا ہے۔
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کی فوری وجہ نائن الیون کے واقعات بنے، لیکن اس کی خواہش و تیاریاں گذشتہ کئی عشروں سے جاری تھیں۔ اشتراکی روس کے خلاف جنگ میں افغان عوام کی مدد کرکے ایک ہدف حاصل کرنا یقینا اس کے پیش نظر تھا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی بھی غیر علانیہ، مگر بڑا واضح ہدف تھا۔ اشتراکی روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت نہ بننے دینا بھی اسی امریکی ہدف کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھا۔ مختلف افغان دھڑوں اور جنگی سرداروں کے اختلافات اور لڑائیوں کی آگ پر مسلسل تیل چھڑکتے رہنا بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے تھا۔ لیکن آخر کار قرآن کریم کا اصول ایک اٹل حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا:
وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ط(الفاطر۳۵: ۴۳)، اور بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔
اس الٰہی سنت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ افغانستان اور عراق میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرنے کے لیے ایک امریکی باشندے کی بنائی ہوئی پیشہ ورانہ ویب سائٹ icasualties.org کے مطابق افغانستان اور عراق میں گذشتہ ۱۸ برسوں کے دوران امریکا اور اس کی حلیف فوجوں کے۸ہزار ۴سو ۵۰ فوجی قتل اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں سے صرف امریکا کے جہنم واصل ہونے والے فوجی ۶ہزار ۹سو ۸۵ تھے۔ بعض دیگر آزاد ذرائع مرنے والے حملہ آور فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ امریکا کی اس مسلط کردہ افغان جنگ کی آگ میں بھسم ہونے والے امریکی مالی وسائل ۳ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اب بھی ہر آنے والا دن ان مالی و جانی نقصانات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عراق میں موجود ایک لاکھ ۳۵ہزار فوجیوں پر ایک ہفتے میں ایک ارب ڈالر خرچ ہورہے تھے۔ آخرکار ، امریکی مسلح افواج کی بڑی تعداد وہاں سے نکالنا پڑی، لیکن مداخلت و قبضہ اب بھی دو طرفہ نقصانات و تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
ایک امریکی دانش وَر اور جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر جوئل اینڈریس نے اس امریکی جنگی جنون کے بارے میں اپنی کتاب Addicted To War (’جنگی جنون‘ ترجمہ: محمد ابراہیم خان) میں ان امریکی جنگوں اور امریکا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ء میں لکھی گئی تھی۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد نئے اضافوں کے ساتھ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:
امریکا میں جنگی جنون پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے پروان چڑھتا آیا ہے۔ امریکا نے اپنی جنگی مشین کو برقرار رکھنے اور دنیا کو وقتا فوقتاً اپنی بھرپور طاقت دکھاتے رہنے پر کم و بیش ۱۵ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جنگی جنون نے امریکاکو کس قدر نقصان پہنچایا ہے؟ اس کااندازہ لگانے کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے فوج اور اسلحہ خانے کو جو کچھ دیا جاتا رہا ہے اس کی مالیت ملک کے تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ امریکا میں جتنے پُل، سڑکیں، واٹر سسٹم، اسکول، ہسپتال، اسٹیڈیم، مکانات، شاپنگ مال، گھریلو آلات، سرکاری مشینری، گاڑیاں اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ان کی مجموعی مالیت بھی اس خطیر رقم سے زیادہ ہے، جو اَب تک فوج پر خرچ کی جاچکی ہے .... تمام فوجی تنصیبات، فوجی حملے اور سابق فوجیوں کی بہبود کے کھاتے میں جو کچھ خرچ کیاجاتا ہے وہ سالانہ ۸۰ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ صرف اس ایک مد میں ایک منٹ میں ۱۰ لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں… امریکا کی جنگی مشین متحرک رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے۔ اس وقت امریکاکے پاس ۱۲ طیارہ بردار بیڑے ہیں۔ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کم و بیش ایک ارب ڈالر کا پڑتا ہے… امریکا نے چھے عشروں کے دوران جوہری تجربات کے ذریعے کم و بیش ۴لاکھ ۸۰ ہزار فوجیوں کو ایٹمی تابکاری مواد کے سامنے کھڑا کیاہے۔ ان میں سے بہت سوں کی صحت کے لیے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ ہزاروں امریکی فوجی سرطان میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر جوئیل اینڈریس ان جنگی اخراجات کی وجہ سے پورے امریکی معاشرے پر روز بروز مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحبِ عقل امریکی ذمہ دار کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوجانا چاہیے تھا، لیکن صدافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہ اعلان تو کردیا کہ: ’’امریکا، افغانستان میں اپنے باقی ماندہ ۱۴ ہزار فوجیوں میں آدھے فوری طور پر نکال رہا ہے‘‘، اوراس سے ایک دن قبل انھوں نے اسی طرح کا اعلان شام سے اپنی فوجیں نکالنے کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ لیکن یہ اعلانات اس الل ٹپ انداز سے کیے گئے کہ خود امریکی انتظامیہ بھی اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وزیردفاع اس پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ افغانستان میں موجود امریکی عسکری قیادت نے ایسے بیان دے دیے کہ جو اسی امریکی جنگی جنون کو جاری رکھے جانے کا اعلان ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے وضاحت کی: ’’افغانستان میں امریکی کارروائیاں منصوبے کے مطابق جاری رہیں گی‘‘۔ ناٹو افواج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر بولے: ’’ہمیں افغانستان سے فوجیں نکالنے کے کوئی احکام موصول نہیں ہوئے‘‘۔
دوسری جانب دیکھیں تو خطے میں مختلف امریکی نمایندگان اور ذمہ داران حکومت کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ (متحرک سفارت کاری) عروج پر ہے۔افغان نژاد خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد پاکستان، افغانستان، خلیجی ریاستوں اور چین میں بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ گذشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے نئے دور منعقد ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہوئے اور آخرکار طالبان کی یہ شرط قبول کرلینے کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو دوبارہ شروع ہوئے کہ:’’ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کا ٹائم ٹیبل فراہم کرے گا‘‘۔ امریکا نے شرط تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ: ’’افغانستان کو کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ مذاکرات دو روزہ تھے، لیکن کئی دن جاری رہے۔ کابل میں قائم افغان حکومت کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اسے بھی مذاکرات میں شریک کیا جائے، لیکن طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔
امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ ایسے ہر نازک موڑ کی طرح اس موقعے پر تمام اطراف کو انتہائی احتیاط، حکمت، انصاف، حقیقت پسندی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغان عوام نے گذشتہ ۱۸ سال کے دوران بدترین امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان ۱۸برسوں کے دوران میں امریکی سربراہی میں نیٹو افواج نے قتل و غارت کے کیا کیا نئے ریکارڈ قائم نہیں کیے۔ مدارس میں حفظ قرآن کی اسناد وصول کرتے ہوئے سیکڑوں ہونہار پھولوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ شادی کی تقریبات میں جمع خاندانوں اور جنازوں میں جانے والے سوگواروں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور معصوم عوام سے بھرے بازاروں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ پورے کے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ دس سالہ سوویت جنگ کے دوران (۲۵ دسمبر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۲ فروری ۱۹۸۹ء تک) ۲۰ لاکھ سے زائد بے گناہ افغان شہری شہید کردیے گئے تھے۔ حالیہ امریکی جنگ میں بھی مزید لاکھوں شہری پیوند خاک کیے جاچکے ہیں۔ اسلحے اور بارود کی بارش نے پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود آخرکار امریکا اپنی تاریخ کی یہ سب سے طویل جنگ ختم کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ آغاز میں ان حملہ آور فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز تھی۔ صدر اوباما نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ۲۰۱۴ میں بڑی تعداد میں فوج واپس نکال لی تھی اور صرف ۱۰ ہزار باقی رہ گئے تھے۔ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم میں یہی وعدہ دُہرایا تھا، لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہی چار ہزار مزید فوجی بھیج دیے۔اب اسے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑرہے ہیں۔
اس نازک ترین مرحلے پر تمام افغان اطراف کو اپنے تمام گذشتہ تلخ تجربات کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اُمت مسلمہ کی تاریخ میں کئی بار یہ سانحہ ہوا کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی لڑائی، جنگ ختم ہونے کے بعد ہار دی گئی۔ ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو اُمید پیدا ہوئی کہ خونِ شہداء سے سیراب اس سرزمین کو اب سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ لیکن روسی سلطنت نے اپنے انخلا کے بعد اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت کو باقی رکھا۔ نتیجتاً جنگ اسی طرح جاری رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے یہ جنگ افغان عوام اور روسی فوج کے درمیان تھی، روس نکل گیا تو اب یہ جنگ براہِ راست افغان دھڑوں کی جنگ بن گئی۔ ایک جانب بالواسطہ روسی سرپرستی کا حامل صدر نجیب اللہ اور دوسری جانب روسیوں کے خلاف جہاد و مزاحمت کرنے والے تمام افغان دھڑے۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بالآخر صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت بھی زمیں بوس ہوگئی۔ افغانستان میںوہ نازک ترین لمحہ آگیا،جس سے بچنے کے لیے ساری دنیاکی اسلامی تحریکیں اور مخلص رہنما مسلسل کوششیں کرتے رہے تھے،مگر پھر تاریخ نے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک خود افغان مجاہدین کے مابین خوں ریزی کا بدنما دور دیکھا۔
اشتراکی روس کے خلاف جہاد پر پوری افغان قوم ہی نہیں، پورا عالم اسلام متفق تھا۔لیکن پورا عالم اسلام مل کر بھی جہاد کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کو متحد نہ کرسکا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی (مرحوم) اور انجینیر گل بدین حکمت یار کے مابین آرا کا اختلاف پہلے دن سے موجود تھا۔ پروفیسر ربانی صاحب اشتراکی روسی مداخلت کا مقابلہ صرف سیاسی میدان میں کرنے کے قائل تھے، جب کہ حکمت یار صاحب مسلح جہاد ضروری سمجھتے تھے۔ بالآخر سب رہنما جہاد پر تو مجتمع ہوگئے، لیکن دس برس کے دوران کئی معاہدوں اور لاتعداد مصالحتی کوششوں کے باوجود اپنے باہمی اختلافات کی خلیج ختم نہ کرسکے۔ نجیب حکومت بھی رخصت ہوئی توکابل کے ایک کنارے پر احمد شاہ مسعود اپنے مسلح دستوں کے ساتھ موجود تھے اور دوسرے کنارے پر گلبدین حکمت یار۔ دونوںرہنما افغان جہاد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کا خیال تھا کہ: ’’میری قوت اور صلاحیت زیادہ ہے‘‘۔ بدقسمتی سے دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان تھا اور اسی کمزور پہلو کو سب دشمن قوتیں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔
آج بھی جمعۃ المبارک کی وہ خوش گوار صبح ایک ایک تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ پشاور میں ساری دنیا سے آئے ہوئے اہم مسلمان رہنما اور اسلامی تحریکوں کی قیادت جمع تھی۔ اس سے پہلی شب مصالحتی مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہے۔ جن میں طے پایا تھا کہ انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے مابین براہِ راست بات چیت کروائی جائے گی۔ یہ ذمہ داری محترم قاضی حسین احمد صاحب کو سونپی گئی۔ صبح ہی صبح ہم پشاور میں واقع برہان الدین ربانی صاحب کے مرکز پہنچ گئے۔ ربانی صاحب ہمارا استقبال کرنے کے بعد ایک دوسری جگہ جمع مختلف افغان، عرب اور پاکستانی رہنماؤں کے اجلاس میں چلے گئے۔کافی انتظار اور کوششوں کے بعد یہ تین جہتی وائرلیس رابطہ قائم ہوسکا۔
کابل کے دونوں کناروں پر بیٹھے افغان رہنما اور پشاور میں محترم قاضی حسین احمد صاحب، تینوں کے درمیان ایک طویل مکالمہ ہوا۔ اس میں شکوے بھی تھے، دھمکیاں بھی تھیں اور ڈانٹ بھی، لیکن آخر میں یہ واضح تھا کہ باہم اتفاق راے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس براہِ راست رابطے کے بعد موہوم اطمینان کے ساتھ ہم نماز جمعہ ادا کرنے قریبی مسجد پہنچے۔ دیگر سب رہنما بھی پہنچنا شروع ہوگئے۔ نماز ختم ہوتے ہی پروفیسر عبدالرب رسول سیاف صاحب کھڑے ہوئے اور سب کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ:’’سب افغان رہنما ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پہلے چار ماہ صبغۃ اللہ مجددی صدر ہوں گے۔ ان کے بعد چھےماہ کے لیے برہان الدین ربانی صاحب صدر ہوں گے۔ وزارت عظمیٰ حزب اسلامی (حکمت یار) کو دی جائے گی اور پھر انتخابات ہوں گے‘‘۔
ان کا اعلان ختم ہوتے ہی قاضی صاحب نے سیاف صاحب کو مسجد کے ایک گوشے میں لے جاکر پوچھا، اس فارمولے پر: ’’کیا حکمت یار بھی متفق ہوگئے ہیں؟‘‘
وہ کہنے لگے کہ: ’’نہیں، انھیں آپ اس پر راضی کریں گے‘‘۔
قاضی صاحب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’کاش! آپ اس قبل از وقت یک طرفہ اور ناقابل عمل فارمولے کا اعلان نہ کرتے۔ افغان بحران کا اصل حل دونوں مرکزی قوتوں کو یک جا کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں درجنوں بلکہ سیکڑوں مصالحتی کاوشوں میں سے ایک کا ذکر اس لیے کیا کہ خرابی کی اصل جڑ واضح ہوسکے۔ پورے دور جہاد کے دوران مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے کسی نہ کسی افغان جماعت کو غالب اور کسی کو نظر انداز و کمزور کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ کبھی مالی و عسکری امداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے، کبھی سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعے اور کبھی نسلی و مذہبی تعصب کی آگ بھڑکا کر۔
اس تقسیم کا اصل مقصد اور نتیجہ یہی تھا کہ افغانستان میں عوام کی کوئی حقیقی نمایندہ اور مستحکم حکومت نہ بن سکے اور اگر بنے بھی تو تقسیم کرنے والوں کی تابع فرمان ہو۔ آج بھی افغانستان پر قابض اور افغان عوام میں نفوذ رکھنے والی قوتوں کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ امریکا نے اپنے ۱۸ سالہ جنگ و جدل کے دوران مختلف افغان اطراف میں بھی گہرا نفوذ حاصل کیا ہے۔ طالبان حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے ’شمالی اتحاد‘ کا تعاون حاصل کیا گیا۔ طالبان مخالف ازبک اور ہزارہ گروپوں کو بھی سنہرے خواب دکھاکر ساتھ ملالیا گیا۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے چہرے سامنے لے آئے گئے۔ بون کانفرنس میں عبوری صدارت کے لیے تین نام پیش ہوئے تھے: عبدالستار سیرت، حامد کرزئی اور امین ارسلا۔ ابتدائی راے دہی ہوئی تو عبدالستار سیرت کو گیارہ، حامد کرزئی کو دو اور امین ارسلا کو ایک ووٹ ملا۔ پھر مذاکرات نے مزید طول کھینچا۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد (جنھیں کئی افغان رہنما امریکی ’وائسرائے‘ کا طعنہ دیتے تھے) اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندہ الاخضر الابراہیمی نے حامد کرزئی کی خصوصی وکالت و اعانت کی۔ بالآخر وہ عبوری اور پھر ’منتخب‘ صدر بنادیے گئے۔
زلمے خلیل زاد حالیہ دنوں میں بھی خصوصی امریکی ایلچی کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا مختصر تعارف آج اور کل کا پورا منظرنامہ سمجھنے میں معاون ہوگا۔ وہ ۱۹۵۱ء میں شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں پشتون تھے۔ بعدازاں مزارشریف سے کابل منتقل ہوگئے، جہاں ’غازی‘ سکول میں انٹر کیا۔ انگریزی بہتر کی اور امریکن یونی ورسٹی، بیروت(لبنان) میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظیفہ حاصل کرلیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد امریکا کی شکاگو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۹ء میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی دوران آسٹریا کی شیرل بینرڈ سے شادی کرلی۔ دونوں میاں بیوی نے عالم اسلام کے بارے میں کئی اہم مقالے اور سفارشات لکھیں۔ ۱۹۸۴ء میں امریکی شہریت مل گئی۔ امریکی صدور: جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور جارج بش (سینیئر) کے ادوار میں کئی اہم مشاورتی و پالیسی ساز ذمہ داریوں پر فائز رہے، یہاں تک کہ افغان اُمور پر امریکا میں سب سے نمایاں نام بن گئے۔ صدر کلنٹن نے ذمہ داریوں سے فارغ کیا تو اہم امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ میں ملازمت مل گئی۔ یہاں انھوں نے عالم اسلام اور اسلام کے بارے میں کئی سفارشات پیش کیں۔ اسی زمانے میں امریکی تیل کمپنی یونوکال (Unocal) کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ کمپنی افغانستان اور پڑوسی ممالک میں تیل و گیس کی تلاش اور اسے پائپ لائن کے ذریعے بحر ہند تک پہنچانے کے منصوبے پر کام کررہی تھی۔ اس وقت حامد کرزئی بھی یونوکال کے مشیر کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے۔ وہ بھی امریکی یونی ورسٹی بیروت سے فارغ تھے۔ دونوں کی دوستی مزید گہری ہوگئی جو بالآخر افغان صدارت پر منتج ہوئی۔
حامد کرزئی اور زلمے خلیل زاد ہی نہیں، امریکی یونی ورسٹی لبنان سے فارغ التحصیل کئی مشترکہ دوست افغانستان کے مدار المہام قرار پائے۔ ان میں سے ایک نام جناب اشرف غنی احمدزئی کا ہے۔ وہ ورلڈ بنک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور انتہائی وفادار قرار پائے۔ افغان وزارت خزانہ ان کے سپرد کردی گئی۔ انھی ہم جولیوں میں ڈاکٹر شریف فائز(وزیر براے اعلیٰ تعلیم)، یوسف پشتون (وزیر بہبود دیہی آبادی) اور خالد پشتون (گورنر قندھار) کے نام بھی شامل ہیں۔ وزارتوں اور عہدوں سے زیادہ ان حضرات کا ہدف مغربی تہذیب سے ہم آہنگ افغان معاشرے کی تشکیل نو تھی۔
افغانستان دوراہے پر!
حالیہ افغان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر بون کانفرنس کے اصل کردار فعال تر ہیں۔ لیکن ایک حقیقت سب اطراف کو یاد رکھنا ہوگی کہ نومبر ۲۰۰۱ میں وہ کانفرنس امریکی حملے اور جزوی فتح کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی۔ آج بظاہر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے کسی معقول راستے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۸ سال کی ناکامیوں اور تباہی سے سبق نہ سیکھا گیا، تو شاید رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔
تاریخ افغانستان کے اس نازک موڑ پر ایک انتہائی اہم فریضہ خود افغان طالبان کو بھی انجام دینا ہوگا۔ انھیں اپنے سابقہ دور حکومت اور اس کے بعد رُوپذیر تمام واقعات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنے رویے پر بھی سنجیدہ نظرثانی کرناہوگی۔
افغانستان میں اشتراکی روس کی آمد کے بعد سے لے کر آج تک جتنی ناکامی اور تباہی ہوئی ہے، حملہ آور جارح قوتوں اور کئی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے بعد، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود افغان بھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سوا باقی سب کو قابل گردن زدنی قرار دینے سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں کبھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ افغان طالبان کی ویب سائٹ پر آج بھی اکثر افغان احزاب اور ان کے رہنماؤں کو امریکا اور روس جیسا دشمن ہی قرار دیا جارہا ہے۔ ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا دور شروع ہوا اور اسی صبح وردگ میں افغان فوج کے تربیتی سنٹر پر خود کش حملہ کرکے ۱۰۰ سے زائد افغان شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ جس طرح ایسا کوئی حل ناقابلِ عمل اور تباہ کن ہوگا کہ افغانستان سے نکلتے ہوئے، بون کانفرنس جیسا کوئی اور حل مسلط کردیا جائے، طالبان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر طالبان اور افغان فوج کو جنگ کی کسی نئی جہنم میں جھونک دیا جائے، خدانخواستہ افغانستان میں کسی نئی خانہ جنگی کا آتش فشاں لاوا اگلنے لگے، تباہی، مہاجرت اور خوں ریزی مسلط ہوجائیں۔ اسی طرح یہ راستہ بھی تباہ کن ہوگا کہ آنکھیں بند کرکے سابقہ غلطیوں کو دہرایا جانے لگے۔ ملک و قوم کے کسی بھی حصے کو اپنے جسم سے کاٹ پھینکا جانے لگے۔
افغانستان پر قبضے کے علاوہ امریکی افواج اور اس کے زیراثر حکومت نے وہاں جن کئی دیگر حماقتوں کا ارتکاب کیا، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف نفرت کی اونچی دیواریں کھڑی کرنا بھی شامل ہے۔
اشتراکی روس کی یلغار سے لے کر آج تک افغان اور پاکستانی قوم عملاً یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکی موجودگی میں وہاں بھارت کو گہرا اثرونفوذ حاصل کرنے کے خصوصی مواقع دیے گئے۔ ذرائع ابلاغ سے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہوئے نفرت کے زہریلے بیج بوئے گئے۔ بعض ناراض پاکستانی قبائل سرداروں کو مزید متنفر کرتے ہوئے انھیں پاکستان سے علیحدگی اور دشمنی کے الاؤ بھڑکانے پر اکسایا گیا۔ افغان فوج کو ٹریننگ دیتے ہوئے پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔
ایک پُرامن افغانستان کے قیام کے لیے ان تمام منفی اقدامات کی نفی کرتے ہوئے تمام پڑوسی ممالک کو دوستی اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان ایران، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو بھی اپنے مفادات کے بجاے افغان امن و استحکام کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔ صرف افغان عوام اور ان کے تمام حقیقی رہنماؤں کو پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ افغانستان کا امن و استحکام یقینا تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی مثبت نتائج پیدا کرسکے گا۔
علامہ محمد اقبال آج سے تقریباً ایک صدی پہلے دنیا کو خبردار کرگئے تھے کہ:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
ایشیا آب و خاک سے بنا ایک جسم ہے، جس میں ملتِ افغان دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی تباہی پورے ایشیا کی تباہی اور اس کی تعمیر و خوش حالی پورے ایشیا کی خوش حالی ہوگی۔
زندگی مسلسل واقعات و احداث سے عبارت ہے۔ اقوام و افراد کے لیے ہر لمحہ کسی نہ کسی خیر یا شر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کئی واقعات و لمحات تو انتہائی دُور رس اثرات چھوڑجاتے ہیں۔ کبھی اتنے دُور رس کہ ان سے پہلے اور ان کے بعد کا زمانہ مختلف ہوجاتا ہے۔ مثال دیکھنا ہو تو گذشتہ دوعشروں میں نائن الیون اور عرب بہار کے دواہم واقعات ہی ملاحظہ فرمالیجیے۔۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ایک نمایاں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل بھی ایسا ہی ایک تیسرا واقعہ ثابت ہورہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ قتل تو روزانہ ہوتے ہیں۔ صحافی بھی بہت سے مارے جاچکے ہیں۔ کشمیر، شام، فلسطین اور روہنگیا سمیت کئی خطوں میں خون کی ہولی بھی مسلسل کھیلی جارہی ہے، آخر جمال کا قتل اتنا اہم کیوں ہوگیا؟ آئیے اس کی حقیقت و اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جمال خاشقجی مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والا ایک بے باک صحافی تھا۔ راقم سمیت پاکستان کے کئی افراد سے ان کا تعارف برسوں پر محیط ہے۔ حُسن اتفاق سے ان کی شہادت سے ایک ہفتہ قبل استنبول ہی میں ان سے آخری مفصل ملاقات ہوئی۔ معروف عالمی تھنک ٹینک ’الشرق فورم‘ کے زیراہتمام ’سیاسی اسلام‘ (اسلامی تحریکات کے لیے اہل مغرب کی نئی اور طنزیہ اصطلاح) کے موضوع پر دو روزہ سیمی نار میں ہم دونوں مدعو تھے۔ تین روز اکٹھے ہی قیام و تبادلۂ خیال رہا۔ جمال اشتراکی روس کے خلاف جہاد کے زمانے میں افغانستان سے رپورٹنگ کرتا رہا۔ بعد میں یکے بعد دیگرے معروف عرب روزناموں الشرق الاوسط ، عرب نیوز اور الوطن کا ایڈیٹر رہا۔ اس دوران ایک اور معروف روزنامے الحیاۃ میں کالم شائع ہوتے رہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے ’العرب‘ کے نام سے الجزیرہ چینل جیسا ایک نیا نیوز چینل بنانے کا ارادہ کیا تو جمال کو اس کا سربراہ بنایا۔ بحرین کے دارالحکومت المنامہ میں قائم اس شان دار چینل پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی۔ لیکن جونہی چینل کی نشریات شروع ہوئیں، مقامی ذمہ داران اس کی سچائی کی تاب نہ لاسکے۔ ایک دن بعد ہی چینل پر پابندی لگی اور پھر ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔
شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے اور طویل عرصے تک سعودی خفیہ ادارے کے سربراہ رہنے والے شہزادہ ترکی الفیصل اس حساس ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو اہم عرب چینل MBC پر ان کے انٹرویوز کا طویل سلسلہ چلا۔ یہ انٹرویو کرنے والا بھی جمال ہی تھا۔ ترکی الفیصل کو برطانیہ اور پھر واشنگٹن میں سعودی سفیر بنایا گیا تو جمال ان کے ابلاغیاتی مشیر کے طور پر ساتھ رہا۔ اس دوران میں وہ واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی اخبارات میں لکھنے لگا۔ جمال کے قتل کے بعد واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اگناٹیوس نے شہزادہ ترکی الفیصل سے ۹۰ منٹ کا انٹرویو کیا، جس میں انھوں نے اس قتل پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ جمال سے اپنے تعلق کے بارے میں بھی کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ افغان جہاد کی رپورٹنگ کے لیے ایک صحافی کے طور پر افغانستان گیا تھا۔ اس وقت ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پھر جب وہ عرب نیوز کا ایڈیٹر بنا تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔ گذشتہ چار برس سے ہمارے مابین اختلاف راے ہوگیا تب سے ہمارا رابطہ تقریباً منقطع تھا۔ ہمارا اختلاف الاخوان المسلمین کے بارے میں ہوا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ اخوان جمہوریت کے دعووں کی آڑ میں دہشت گردی کرتی ہے، جمال کو میری اس راے سے اتفاق نہیں تھا‘‘۔
سعودی عرب میں قیادت اور حالات تبدیل ہونے کے بعد جمال نے مستقل طور پر بیرون ملک رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں کئی اُمور بالخصوص اختلاف راے کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے اختلاف تھا۔ وہ اس بارے میں کھلم کھلا اظہار کرتا تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود زمینی حقائق کو بھی جانتا تھا۔ استنبول میں ہماری اس آخری ملاقات کے دوران بھی اس نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ بعض اختلافات کے باوجود، سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر اس سے گفت و شنید اور روابط جاری رہنا چاہییں۔ طویل عرصے سے تنہا بیرون ملک رہتے ہوئے انھوں نے دوسری شادی کا ارادہ کرلیا۔ ۳۶ سالہ ترک صحافی خدیجہ چنگیز جو شان دار عربی بھی جانتی ہے، سے ان کی تحریروں بالخصوص سلطنت آف عمان کے بارے میں لکھے جانے والے مقالے کے حوالے سے تعارف ہوا، جو شادی کے لیے آمادگی پر منتج ہوا۔ منگنی تو خاموشی سے ہوگئی، لیکن اتاترک کے سیکولر دستور کے مطابق دوسرا نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی سے طلاق کی مصدقہ دستاویز پیش کرنا لازمی تھا۔ ان دستاویزات کی تصدیق کے لیے ۲۸ ستمبر کو اپنے ملک کے قونصل خانے گئے تو چند روز بعد دوبارہ آنے کو کہا گیا۔ ۲؍اکتوبر کو کاغذات تیار ہونے کی اطلاع دی گئی۔ دوپہر ایک بج کر ۳۷منٹ پر اندر گیا تو خصوصی جہاز میں آنے والے ۱۵؍ افراد کے ہاتھوں انتہائی سفاکیت سے قتل کرکے، لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر منتظر تھی۔ دونوں میں یہ طے پایا تھا کہ اگر واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تو وہ فوراً اپنے ایک عزیز یاسین اقطائی کو مطلع کردے گی۔ یاسین اقطائی اس وقت حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نائب صدر اور تنظیمی اُمور کے سربراہ ہیں۔ اس سے پہلے وہ پارٹی کے خارجہ اُمور کے سربراہ تھے۔ وہ لمحہ اور آج کا لمحہ اس واقعے کے اثرات شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔
۲؍اکتوبر کی شام ہی یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی کہ ایک صحافی اپنے ہی ملک کے قونصل خانے میں لاپتا اور شاید قتل کیا جاچکا ہے۔ جمال کے قتل کے اگلے روز ہی ترکی نے ان ۱۵؍افراد کی ویڈیو اور تصاویر نشر کردیں، جو اسی غرض کے لیے دو خصوصی جہازوں پر استنبول آئے اور واردات کے بعد اسی سہ پہر سعودی عرب واپس چلے گئے تھے۔ آیندہ آنے والے دنوں نے ان سب کی ساری نقل و حرکت کی ویڈیو ریکارڈنگ عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچا دی۔ نہ صرف یہ بلکہ جمال کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لے کر ۲۲ منٹ کی ریکارڈنگ ایسی ہے، جس میں قاتلوں اور مقتول کے مابین ہونے والی چند لمحوں کی گفتگو سے لے کر، اسے بے ہوش کرنے اور پھر برقی آرے سے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی ساری تفصیل موجود ہے (تادمِ تحریر اس کی ریکارڈنگ نشر نہیں کی گئی)۔ واردات کے بعد سعودی قونصل جنرل اور اعلیٰ ذمہ داران نے کہا کہ جمال یہاں آنے کے کچھ دیر بعد پچھلے دروازے سے واپس چلا گیا۔ لیکن بعد ازاں سرکاری سعودی ذرائع نے اعلان کیا کہ ’’تحقیقات کے بعد معلوم ہوگیا ہے کہ جمال خاشقجی قونصل خانے کی عمارت ہی میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کا قتل دوران تفتیش اسے چپ کروانے کی کوشش کے دوران دم گھٹنے سے ہوا۔ اس الزام میں سعودی عرب میں ۱۸ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے، مزید تحقیقات جاری ہیں‘‘۔ بعد ازاں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ترک صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے اور ولی عہد نے ریاض میں منعقدہ ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بھی اس بہیمانہ قتل کو انتہائی وحشیانہ کارروائی قرار دیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ کوئی بھی ذمہ دار انصاف کے شکنجے سے بچ نہ پائے گا۔ سعودی ولی عہد نے یہ خوش آیند بات بھی زور دے کر کہی کہ: ’’جب تک شاہ سلمان، ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر اردوان موجود ہیں کوئی طاقت دونوں برادر ملکوں کے مابین کوئی دراڑ پیدا نہیں کرسکتی‘‘۔
اللہ رب العزت نے کسی بھی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔لیکن بعض جرائم کی شناعت و سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ سفارت کاری کی دنیا عین جنگ کے عروج پر بھی محفوظ رکھی جاتی ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہو اور جانی دشمن بھی سفیر یا پیغام بر کی صورت میں سامنے آجائے تو اسے کوئی گزند نہیں پہنچائی جاسکتی۔ ویانا کمیشن آج کی دنیا میں سفارت خانوں اور سفارت کاروں کے لیے خصوصی مراعات یقینی بناتا ہے۔ سفارت خانے ہی کو اگر مقتل گاہ میں بدل دیا جائے تو سب کے لیے ناقابلِ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح صحافت اور صحافیوں کو بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ صحافی دوران جنگ برستی آگ میں بھی محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔اس قتل کی تیسری سنگینی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے غائب کر دینا ہے۔ ابھی تک نہ لاش ملی، نہ کفن اور نمازِ جنازہ نصیب ہوسکا۔
سعودی فرماں روا شاہ سلمان کا یہ اعلان اور طیب اردوان کو ان کی یہ یقین دہانی یقینا اہم اور حوصلہ افزا ہے کہ قاتل جو بھی ہو، کسی طور سزا سے بچ نہ پائیں گے۔ ترک حکومت کی شائع کردہ فہرست میں آنے والے ۱۵ ،اور قونصل خانے کے تین افراد کی گرفتاری کے اعلان کے ساتھ ہی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ترین خصوصی مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جینس کے نائب سربراہ جنرل احمد العسیری کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کردینے کی خبریں بھی انتہائی اہم ہیں۔ لیکن ابھی تک کئی اہم سوالات کے جواب باقی ہیں۔ ۲۶ ؍اکتوبر کو صدراردوان نے اپنے ان مطالبات و سوالات کا دو ٹوک اعادہ کیا ہے کہ جب یہ معلوم ہوگیا کہ جمال قونصل خانے میں قتل ہوا تو لاش کہاں ہے؟ قاتل گرفتار ہوگئے ہیں تو بآسانی خود انھی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انھیں قتل کا حکم کس نے دیا؟ قاتلوں کے مقامی ترک سہولت کار اگر ہیں تو کون ہیں؟
ان سوالات کا تسلی بخش جواب اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس قتل کی آڑ میں کئی عالمی قوتیں سرزمین حرمین شریفین کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس واردات سے پہلے ہی لگاتار اپنے توہین آمیز اور بے سروپا بیانات میں سعودی عرب کو دھمکیاں دیتے اور بلیک میل کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’پیسے دو‘‘۔ تمھاری حفاظت ہم کررہے ہیں۔ ہم نہ ہوں تو تم دو ہفتے بھی باقی نہ رہ سکو۔ پیسے دو‘‘۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بھی وہ اپنی یہی دھمکیاں دُہرا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو اس سفاکانہ قتل کے شر سے اللہ تعالیٰ ایک خیر برآمد کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی عالم اسلام کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بوجوہ دونوں کے تعلقات سردمہری بلکہ تناؤ کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ دونوں کے دشمن بھی اس آگ پر تیل چھڑک رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ابلاغیاتی جنگیں بھڑکائی جارہی تھیں۔ ترکی میں آنے والے اقتصادی بحران کو بڑھاوا دینے کی بڑہانکی جاری تھی۔ جمال کے قتل کے بعد دونوں برادر ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے مابین کئی بار گفتگو ہوچکی ہے۔ گورنرمکّہ خالدالفیصل انقرہ میں صدر اردوان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ سعودی قیادت نے ترکی اور ترک قیادت کے بارے میں بہت حوصلہ افزا بیان دیے ہیں۔ اتوار ۲۸ ؍اکتوبر کو سعودی اٹارنی جنرل، استنبول میں اپنے ترک ہم منصب سے مذاکرات کررہے ہیں۔ اگر دونوں برادر ملک، قتل کی اس سنگین واردات کے تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہوئے، قرآنی حکم پر عمل درآمد کرلیتے ہیں تو نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے بلکہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا بھی سدباب ہوسکے گا۔خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں جاری تہ در تہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے، بلکہ اس کے اہم عالمی اثرات مرتب ہوںگے۔ یورپی پارلیمنٹ اس واقعے کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کرچکی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کر رہا ہے کہ Demand the Truth۔
انتخابات ۲۰۱۸ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا اور بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ عموماً ہر لکھنے یا پڑھنے والا اپنی راے سے موافق بات ہی کو قبول اور دوسری راے کو مسترد کردیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موافق ہو یا مخالف، اگر حق ہے تو اسے قبول کیا جائے۔ ناحق بات حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جیسا محبوب ساتھی ہی کیوں نہ کرے، قبول نہیں کی جاسکتی۔
کسی مہذب اور منصفانہ معاشرے میں ہونے والے انتخابات کے بنیادی عناصر ان میں حصہ لینے والی جماعتوں کی قیادت، ان کے پروگرام ،اُمیدواران، کارکنان اور ووٹروں تک ابلاغ و رسائی کے وسائل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی انتخابات کے فیصلہ کن اسباب میں مال و دولت کے انبار، دھونس اور غنڈاگردی (بالخصوص دیہی علاقوں میں اور خصوصاً اندرونِ سندھ اور بلوچستان میں) اور سب سے بڑھ کر نادیدہ قوتوں کے فیصلے، اہم ترین حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ملک میں قرآن و سنت کے غلبے اور دنیا ہی نہیں، آخرت کی اصل کامیابی کے لیے کوشاں تحریک کے ہر کارکن (ہر سطح کے ذمہ داران سمیت) کو اس اہم دوراہے پر اصل حقائق سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ، کڑی خود احتسابی سے گزرنا ہوگا، تاکہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہوسکے۔
یہ امر اپنی جگہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ علامہ محمد اقبال کی فکر، قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت، سیّد مودودی کے بے مثال لٹریچر، ان کے ہم عصر ممتاز علماے کرام اور ہم رکاب قافلے کی مسلسل کوششوں سے پاکستان کی اسلامی شناخت اور جہت کا تعین واضح ہوگیا۔ وہ دین اسلام جسے عبادات کے محدود تصور اور چند رسوم و رواج تک محدود سمجھا جانے لگا تھا، آج الحمدللہ سب کی نظر میں جامع نظامِ حیات کے طور پر معلوم و مقبول ہوچکا ہے۔ سید مودودی اور ان کی جماعت نے ہر قومی مسئلے اور اہم دوراہے پر ہر طرح کے ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر ہوکر دو ٹوک موقف ہی اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے بیش بہا قربانیاں بھی دیں۔ لیکن دوسری جانب دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ اس بلندپایہ اور جامع کارِ تجدید، اللہ کے دین کو پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کردینے کے مشکل ہدف، دینِ حق کو مکمل طور پر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کردینے، اصلاحِ نفس، اصلاحِ معاشرہ، دعوت و تربیت، تنظیمی قوت اور اصلاحِ حکومت کے ہمہ پہلو جہاد کا اصل مقصد، گاہے نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تشکیل کردہ جماعت اسلامی میں خوداحتسابی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ احتساب کے اصول و ضابطے خود نہیں گھڑے گئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی سیرت طیبہ سے أخذ کیے گئے ہیں۔ آپؐ نے تو بلکہ حکم دیا کہ حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا ’’اپنا محاسبہ کرلو قبل اس سے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔ بدقسمتی سے یہ پورا عمل اپنی اصل روح سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنا احتساب کرو‘‘۔ ہم نے جب بھی احتساب کیا، اپنے بھائیوں، اپنے ذمہ داران اپنی قیادت، اپنے کارکنان اور اپنی اجتماعیت ہی کا کیا۔ ہمارے پیش نظر اصل ہدف ’اصلاح‘ (اپنے وسیع تر مفہوم میں) کے ذریعے قرآن و سنت کو غالب کرنا تھا اور ہے، لیکن جب میں نے خود کو اللہ کی عدالت میں کھڑا کرتے ہوئے جائزہ لیا کہ قرآن، حدیث اور سیرت کی کتنی روشنی خود میرے دل میں فروزاں ہے؟ مجھے اندازہ ہوا کہ میں دوسروں کو تو ہمیشہ نصیحت کرتا یا کرنا چاہتا ہوں، لیکن خود کو نصیحت اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ الحمدللہ ،اللہ کی رحمتِ خاص سے مجھے کچھ نہ کچھ نیکی کرنے، اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھنے کی توفیق تو حاصل ہوگئی، لیکن میں اس سوال کے جواب میں خود کو بُری طرح ناکام پاتا ہوں کہ اس ایک شمع سے میں نے مزید کتنی شمعیں روشن کیں؟ اور تو اور میں نے اپنے بچوں، اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں تک میں سے کتنے افراد کو اس قافلے کا ہم سفر بنایا؟ میں اپنی جماعت کے منظم ترین ہونے کے تاثر پر تو فخر و مسرت محسوس کرتا ہوں، لیکن اگر خود اپنا جائزہ لوں کہ سمع و طاعت کے بنیادی تقاضے کس حد تک پورے کررہا ہوں؟ تو شرمندگی گھیر لیتی ہے۔
میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تمھارا ذمہ دار کشمش کے دانے جتنے سر والا (کم علم و فہم والا) نکٹا، حبشی غلام ہی کیوں نہ بنادیا جائے، اس کی بات سنو اور اس کی پابندی کرو۔ یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناممکن صورت کی مثال دے کر سمع و طاعت کی اہمیت واضح کی ہے۔ اجتماعیت اور افراد کو یہ اختیار تو دیا گیا کہ وہ ذمہ داروں کا تعین چھان پھٹک اور ہوش مندی سے کرے، لیکن یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو امام بنائے اور پھر نماز اپنی اپنی مرضی سے ادا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی تأویل گھڑنے لگ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مفادات سے بالاتر ہوکر باہم اخوت و محبت کی تعلیم ہی نہیں، حکم دیا۔ اس رشتے میں جڑ جانے والوں کو عرش کے سایے اور نور کے منبروں پر مسندیں ملنے کی بشارتیں سنائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ باہم اخوت اسلامی تحریک کے کارکنان کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ جہاں میرے کسی ادنیٰ مفاد پر ضرب لگی، کسی بھی بات پر کوئی ناگواری محسوس ہوئی، میں اپنی جنت کا یہ خزانہ خاک میں ملا دینے پر تل گیا؟ ہم نے اصلاح یا جائزے کے نام پر اکثر مجالس میں (اور اب سوشل میڈیا پر) محاذ آرائی شروع کردی۔ غیبت اور ہتک آمیز القاب تو ہمیں اس قدر لطف دینے لگے کہ طنز و تشنیع کے تیر چلائے بغیر بھلی سے بھلی بات کرتے ہوئے بھی دل کو تسلی ہی نہیں ہوتی۔
کسی بھی نظریے کی کامیابی کے لیے کارکنان کی یکسوئی انتہائی اہم شرط ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے، جس نمایاں ترین صفت کا آٹھ مرتبہ ذکر فرمایا وہ آپؑ کا حَنِیْفًا مُسْلِمًا مطیع فرمان و یک سُو ہونا تھا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا کہ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا ط (النحل ۱۶:۱۲۳) ’’یک سُو ہوکر ابراہیم ؑ کے طریقے پر چلو‘‘۔
ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ جسد ِ واحد کی حیثیت رکھنے کے باوجود ان کی یہ یکسوئی متاثر بلکہ مجروح ہوئی ہے۔ کئی عیار مخالفین اور بعض نادان دوست ان زخموںکو گہرے گھائو میں بدلنے کے لیے بھی فعال ہیں۔ اس مرض کا علاج یقینا وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں پر لگے زنگ کو دُور کرنے کا بتایا تھا کہ:موت کی یاد اور قرآن سے گہرا تعلق۔ ساتھ ہی ساتھ ان تمام غلط فہمیوں، اور معلومات میں کمی کا ازالہ بھی کرنا ہوگا کہ جو بعض اوقات نہ چاہتے بھی نقب لگانے میں کامیابی ہوجاتی ہیں۔ ہم اگر کسی بھی مقام اور کسی بھی سطح کی اجتماعیت کا بے لاگ جائزہ لیں، اور وہاں گروہ بندی سمیت ہر وہ بیماری سرایت کرتی دکھائی دینے لگے کہ جسے محسن انسانیتؐ نے زہرِ قاتل قرار دیا ہو، تو ایسی اجتماعیت کو پھر آخر کسی دشمن کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
دشمن کا ذکر ہوا تو اس حقیقت سے آگاہ ہونا بھی اہم ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں، اس وقت پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں اور مسلم ممالک کے مابین باہم اختلافات، غلط فہمیوں اور تمام کے تمام فیصلوں کو غلط اور احمقانہ قرار دینے کی مہم اپنے جوبن پر ہے۔ مختلف حکومتوں، ان کے خفیہ اداروں، تیار کردہ افراد اور تشکیل کردہ گروہوں کے ذریعے تحریکات میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اسی مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مختلف افراد و شخصیات کو اپنی تضحیک اور بسا اوقات اس کے خیرخواہ کا روپ دھار کر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں مصر کے اخوان میں تو عملاً ایک الگ دھڑا پیدا کردیا گیا ہے۔ کئی انتہائی مخلص و فہمیدہ افراد بھی ان میں شامل ہیں۔ اخوان کی ساری قیادت اور ۵۰ ہزار سے زائد فرشتہ صفت مرد و زن جیلوں میںبدترین مظالم کا شکار ہیں، لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا میں انھی کے خلاف پروپیگنڈا، الزامات اور دہشت گرد ثابت کرنے کی مہمات جاری ہیں۔
غزہ گذشتہ ۱۲ سال سے محاصرے میں ہے، لیکن ابلاغیاتی مہم بھی انھی بے گناہ محصورین اور ان کے ذمہ داران کے خلاف ہی جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے فوٹو شاپ کے ذریعے خود ساختہ تصاویر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو غزہ کے کسی عالی شان خفیہ محل میں دکھایا اور شوروغوغا مچایا گیا کہ غزہ کے عام شہری مررہے ہیں اور یہ عیاشیاں کررہا ہے۔ اس پوری مہم میں بڑے مقدس ذمہ داران بھی شریک ہوگئے۔ انھوں نے نہ تو اسرائیل اور مصری جنرل سیسی کے محاصرے کی مذمت کی اور نہ یہ سوچا کہ جو شخص ہر لمحے شہادت کی دہلیز پر کھڑا ہو وہ کس طرح ایسی منافقت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ حالیہ حج کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی کے خلاف اچانک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کئی سال پرانے اپنے خطبۂ جمعہ میں انھوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اللہ نے یہ حج تمھارے ہی بھلے اور فائدے کے لیے فرض کیا ہے وگرنہ اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ اس پورے جملے میں سے صرف یہ بات کاٹ کر کہ ’’اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ قرضاوی نے حج کی مخالفت کردی۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات کے ماحول میں آپ اس مہم کی سنگینی کا اندازہ خود کرسکتے ہیں۔
کسی بھی فیصلے، پالیسی یا سرگرمی کے بارے میں اپنی راے دینا تمام ذمہ داران اور کارکنان کا حق ہی نہیں، ان کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تحریکات پر جو خصوصی انعامات کیے ہیں، ان میں سے ایک یہی نظام شورائیت ہے۔ مختلف سطح کی شورائیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل جس تفصیل بلکہ بے دردی سے تجزیہ کرتی ہیں وہ عموما اس معاملے کے تمام پہلو سامنے لے آتا ہے۔ قرآنی حکم و ہدایت کی روشنی میں اس ساری بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ایک یا چند افراد کا نہیں، پوری اجتماعیت کا فیصلہ قرار پاتا ہے۔ لیکن شورائیت کی یہ روح صرف اسی صورت میں سلامت رہ سکتی ہے کہ فیصلہ ہوجانے کے بعد قیادت اور کارکنان سمیت پوری جماعت کامل یکسوئی سے اس کی پابندی کرے۔ یقینا فیصلہ کرنے والے یہ ادارے انسانوں ہی پر مشتمل ہیں۔ ذمہ داران یا کارکنان میں سے کوئی بھی فرد نہ تو فرشتہ ہے اور نہ غلطیوں بلکہ گناہوں سے معصوم۔ لیکن خالق عزوجل نے اس کے باوجود، کمال علم و حکمت سے اپنے حبیب کو بھی حکم دے دیا کہ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْر،’’ فیصلہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ کیا کرو‘‘۔ اصلاح کا بیڑا اٹھانے والی کسی تحریک اور اس کی کسی بھی سطح کی قیادت یا کارکنان کے لیے اس کے بعد روا نہیں کہ پھر وہ کسی بھی سبب اور کسی بھی حالت میں شورائیت کی راے کے برعکس اپنی راے کو ترجیح و فوقیت دیتے رہیں۔ اس قرآنی حکم پر ایمان کا دعویٰ تو آسان ہے لیکن اس پر عمل آسان نہیں۔ہم قربانی کے جانور پر تو چھری پھیردیتے ہیں، لیکن اپنی راے کی قربانی دینے پر آمادہ نہیںہوتے۔
حالیہ انتخابات کے دوران مختلف اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ یاد کرتے ہوئے، دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آنے والا ایک منظر انتہائی ایمان افروز ہے۔ اس واقعے کے آئینے میں بھی اپنا اپنا چہرہ دیکھنا ضروری ہے۔ واقعہ اگرچہ ذرا طویل ہے، لیکن ہے پیغام آفرین!
یارسولؐ اللہ! سارا مالِ غنیمت عرب قبائل میں تقسیم کردینے اور انھیں کچھ بھی نہ دینے کی وجہ سے، انصار قبائل کے دل میں آپؐ سے کچھ ناراضی آگئی ہے، حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ آپؐ نے انصاری سردار اور اپنے جاں نثار صحابی کی بات سنی تو جواب دینے کے بجاے پوچھا: فَأَیْنَ اَنْتَ مِن ذٰلِکَ یَاسَعْدُ؟ سعد اس سارے ماجرے میں خود آپ کا کیا حال ہے؟ یارسولؐ اللہ! میں بھی تو آخر اپنی قوم ہی کا ایک فرد ہوں۔ حضرت سعدؓ نے احترام لیکن بے تکلفی سے دل کی کیفیت بیان کردی۔ فَاجْمَـعْ لِیْ قَوْمَکَ فِی ہٰذِہِ الْحَظِیْرَۃ، ’’اچھا تو پھر اپنی قوم کو اس احاطے میں جمع کردو‘‘، آپؐ نے ارشاد فرمایا۔
تمام انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے تو آپؐ نے معمول کے مطابق اللہ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: اے گروہِ انصار! یہ مجھ تک آپ کی کیا بات پہنچی ہے؟ یہ آپ لوگ اپنے دلوں میں کیا ناراضی محسوس کررہے ہیں؟ قدرے توقف کے بعد فرمایا: کیا تم سب لوگ گمراہی میں نہیں تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا تم لوگ فقر و فاقے کا شکار نہیں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں غنی کردیا؟ آپ ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے، اللہ نے تمھارے دل ایک دوسرے سے جوڑ دیے؟ صحابہ نے عرض کی: یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم پر بہت کرم فرمایا۔ آپؐ نے اپنا سوال پھر دہراتے ہوئے فرمایا: اَلَا تُجِیْبُوْنِی یَامَعْشَرَ الْاَنْصَار؟ ’’اے گروہ انصار! آپ میری گذشتہ بات کا جواب نہیں دے رہے؟ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم بھلا آپؐ کو کیا جواب دیں؟ یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہم پر بہت فضل و احسانات ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر آپ لوگ چاہتے تو یہ جواب دے سکتے تھے، تمھارا یہ جواب درست ہوتا اور سب اس کی صداقت تسلیم کرتے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ آپ جب ہمارے پاس آئے تھے تب سب نے آپ کو جھٹلا دیا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ جب سب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، تب ہم نے آپ کی نصرت کی تھی۔ آپ کو نکال دیا گیا تھا، تب ہم نے آپ کو پناہ دی تھی۔ آپ نادار آئے تھے، ہم نے آپ کی دل جوئی کی تھی…
پھر اصل رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے گروہ انصار! کیا آپ نے اپنے دلوں میں حقیر دنیا کو جگہ دے دی ہے؟ صرف اس بات پر کہ میں نے کچھ لوگ کی تالیف قلب کی تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں…؟ آپ کو تو میں نے آپ کے اسلام کے سپرد کردیا تھا… ؟ اے گروہِ انصار! کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ لوگ تو یہاں سے اپنے ساتھ کوئی بکری یا اونٹ لے جائیں اور آپ لوگ اپنے ساتھ اللہ کے رسولؐ کو اپنی رہایش گاہوں میں لے جاؤ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا… اگر سب لوگ اپنا اپنا راستہ اختیار کریں تو میں انصار کے ساتھ ان کا راستہ اختیار کروں گا۔ پھر فرمایا:’’اے اللہ! انصار پر رحم فرما، انصار کی اولاد پر رحم فرما، انصار کی اولاد کی اولاد پر رحم فرما‘‘۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سن کر انصار زارو قطار رونے لگے ۔ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھے: ہم اس بات پر راضی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حصے میں آئے۔ ہم اس خوش بختی پر نازاں ہیں۔ آپؐ ان کا یہ جواب سن کر رخصت ہوئے اور مجلس برخاست ہوگئی۔ کاش! اصلاح و تجدید کا اعزاز پانے والا ہرخوش قسمت یہ جملہ بار بار دہراتا رہے کہ: ’’یقینا ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘۔
قرآن کریم کی آیت مبارکہ : مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب۳۳: ۲۳) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ اُن میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘، اللہ کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے تعریف و ستایش کی ایک شان دار سند ہے۔ اس اعزاز و اکرام کا حق دار ہر وہ صاحب ایمان بن سکتا ہے جس نے بالخصوص آیت کے آخری جملے کو یاد رکھا: وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا کہ انھوں نے (آخری سانس تک) اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں آنے دی۔ یقینا ہر وہ شخص خوش قسمت ہے جو اس پر ثابت قدم رہا۔ کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی صورت میں اور کسی بھی وجہ سے اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد پر آنچ نہ آنے دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ مجھے سورہء ھود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، تو کسی نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! خصوصی طور پر اس سورت کی کس آیت نے؟ تو آپؐ نے فرمایا: خصوصی طور پر اللہ کے اس ارشاد نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمْرِتَ ، ’’ پس (اے محمدؐ) تم ٹھیک ٹھیک راستے پر ثابت قدم رہو‘‘۔ اپنا یہ جائزہ و تذکیر یقینا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن انھیں اس سے بھی بہتر طور پر جانتا اور اس سے بھی بہتر انداز سے بیان کرسکتا ہے۔ لیکن اصل مقصد الفاظ کو عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔
حالیہ انتخابات سے تقریباً دو ہفتے قبل ترکی کے سابق وزیرخارجہ اور دوبار وزیراعظم رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر احمد داؤد اوغلو کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔داؤد اوغلو کا شمار دورِ حاضر کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو علم، عمل اور تجربے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ معروف عالمی رسالے Foreign Policy نے ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں ان کا شمار دنیا کے ۱۰۰ نمایاں ترین دانش وروں میں کیا۔ اپنی وزارت اور وزارت عظمیٰ کے دوران، اس سے پہلے اور بعد میں بھی انھوںنے ترک پالیسیوں کے ایسے اصول وضع کیے کہ ترکی اور صدر طیب اردوان کی کامیابیوںمیں جن کا ایک اہم کردار ہے۔بدقسمتی سے صدر اردوان کے ساتھ بعض اصولی اختلافات کے باعث وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ حالیہ ترک انتخابات کے موقعے پر بعض عناصر نے انھیں صدر اردوان کے بالمقابل کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ مکمل یکسوئی سے اردوان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور مخالفین کی ایک مہلک چال ناکام ہوگئی۔
ان سے ملاقات میں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف پاکستان کی صورتِ حال سے بخوبی آگاہ تھے، بلکہ ان اکثر عالمی تجزیوں سے بھی باخبر تھے جن میں واضح طور پر بتایا جارہا تھا کہ کون کون سی قوتیں انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے احساسات بہت سے پاکستانیوں کی نسبت بھی زیادہ جذباتی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے لیے جو قائدانہ کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے، وہ ترکی بھی ادا نہیں کرسکتا۔ اگر پاکستان اور ترکی مل کر مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کریں تو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے لیے خیر کثیر کا باعث ہوگا۔
انتخابی سیاست کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتخاب میں آپ معاشرے کے کسی بھی فرد کو اپنے ساتھ آنے سے مستثنیٰ نہیںکرسکتے۔ نہ آپ اس کے ساتھ اس کی پوری زندگی اور زندگی کے ہر گوشے پر محیط کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ پھر مثال دیتے ہوئے بتایا کہ طیب اردوان نے جب اپنی پہلی انتخابی مہم چلائی تو وہ قحبہ خانوں اور جوا خانوں میں بھی پہنچے۔ وہ یقینا وہاں کے مکینوں کو اس لعنت و تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، لیکن اس موقعے پر ان کا ہدف اور مطالبہ یک نکاتی تھا اور وہ یہ کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارا ساتھ دو۔
ان کی پختہ راے تھی کہ جماعت کو بھی الگ سے اپنا سیاسی بازو تشکیل دے لینا چاہیے۔ اس تجویز کا مزید جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت دنیا کے گیارہ ممالک کی اسلامی تحریکات اپنی اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دے چکی ہیں۔ موریتانیا، مراکش، تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، اُردن، کویت، بحرین، یمن اور انڈونیشیا میںپورا نظامِ دعوت و تربیت الگ اور سیاسی جدوجہد کے لیے پارٹی الگ ہے۔ ترکی میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی تشکیل کردہ سعادت پارٹی (SP) اور طیب اردوان کی (AKP) کے بنیادی نظام، پروگرام اور اہداف و مقاصد میں ، کوئی بڑا فرق نہیں۔ دونوں ہی بنیادی طور پر قومی سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن دونوں کی اصل قیادت اسلامی تحریک کی فکر و مقاصد سے ہم آہنگ افراد کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ جہاں جہاں تحریک اور سیاسی جماعت الگ ہوئی ہیں، وہاں بھی تحریک ہی سیاسی پارٹی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس امر میں بھی قطعاً کوئی شک نہیں کہ سابق الذکر اکثر تحریکیں تمام تر ابتلا و آزمایش کے باوجود اپنی افرادی و تربیتی قوت کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ تقریباً دس کروڑ کی آبادی والے مصر ہی کو دیکھ لیجیے، وہاں اخوان کے تربیت یافتہ ارکان و اُمیدواران کی تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہے (یہ اعداد و شمار ۲۰۱۱ء کے ہیں)۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد جب قومی اور پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آیا تو الحریۃ و العدالۃ کے نام سے اخوان نے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ، جس میں ۱۰ فی صد قبطی مسیحی آبادی کے افراد بھی شامل کیے گئے۔
یقینا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر ملک کے حالات و مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی کسی صورت درست نہیںہوگا کہ الگ سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہی ہتھیلی پر سرسوں جم جائے گی اور کامیابیوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ الگ الگ جماعتیںقائم کرنے سے بعض تنظیمی مسائل بھی جنم لیں گے۔ لیکن اگر ہم انتخابات کے دوران افرادی قوت میں اضافے کے لیے مختلف النوع جماعتوں سے اتحاد کی کڑی آزمایش سے گزر سکتے ہیں، تو اپنی ایک الگ جماعت کو کہیں آسانی سے منظم کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال اپنے تحریکی تشخص کو محفوظ رکھنے کا بھی سامنے آتا ہے۔ سیاسی جماعت میں شریک ہونے والے بہت سے مرد و زن یقینا اپنے اپنے پس منظر رکھتے ہوں گے۔ لیکن اگر ہم دوران انتخاب ووٹ مانگتے ہوئے، ہر در پہ دستک دے سکتے ہیں، کوئی ووٹ دینے پر آمادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا اور کندھوں پر اٹھا سکتے ہیں تو ہمیں مستقل طور پہ بھی یہ فریضہ انجام دینے میں عار نہیں محسوس ہونی چاہیے۔ ایک داعی اور تحریکی کارکن ہونے کے ناتے سے تو کسی فرد کو سیاسی جماعت میں شامل کرلینے سے گویا آدھا سفر طے ہوجاتا ہے۔ ان سب حقائق کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے بارے میں یہ بے بنیاد تاثر بھی درست کرنا ہوگا کہ ہم اپنے علاوہ باقی سب کو خدانخواستہ کسی کم تر درجے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔ آخر کون نہیں جانتا کہ بعض اوقات بظاہر ایک گیاگزرا شخص اپنی کسی ادا کے باعث اللہ کے ہاں وہ مقام حاصل کرجاتا ہے، جو بظاہر بہت متقی دکھائی دینے والا بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق: ’’دُنیا میں آنے والا ہرانسان نیک فطرت لے کر آتا ہے‘‘۔ انسان ہونے کے ناتے ہرشخص کے دل میں خیروبھلائی کی چنگاریاں موجود ہوتی ہیں۔ہم اگر ہر شخص کے دل میں موجود خیر کو اُجاگر کریں گے تو ان شاء اللہ بالآخر خیر ہی غالب تر ہوجائے گا۔
ان اور دیگر تمام دلائل و حقائق کے باوجود، یہ تجویز بہرحال دیگر کئی تجاویز کی طرح ایک تجویز ہی ہے۔ فیصلہ پوری جماعت اور اس کے دستوری اداروں ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس نکتے پر کسی کو اختلاف نہیںہوسکتا، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو سب سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ دل میں یہ شمع از سرِ نو روشن کرنا ہوگی کہ ہم اپنے نبی کے وارث ہیں۔ جس فریضے کے بوجھ سے آپؐ کی کمر ٹوٹی جارہی تھی (وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ۲ۙ الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَكَ۳ۙ الم نشرح : ۲-۳)، وہ فریضہ اب ہم میں سے ہراُمتی کے سر پر عائد ہوتا ہے۔ خود نیک بننا بھی یقینا بہت اہم ہے، لیکن دین اسلام کی نظر میں یہ ایک ادھورا ہدف ہے۔ اصل راہِ نجات ہر فرد، پورے معاشرے اور سارے نظام کو عملی طور پر سایہ خداے ذو الجلال تلے لانا ہے۔