۹۶ لاکھ مربع کلومیٹر مساحت اور ایک ارب ۴۰ کروڑ کی آبادی پر مشتمل چین، تیز تر تبدیلی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تبدیلی مثبت ہے، اسی لیے ایک دنیا آنے والے دور میں چین کے نمایاں اقتصادی اور سیاسی کردار کا اعتراف کر رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب یہ نعرہ چینی عوام کے لیے ضابطۂ حیات بنایا گیا: جو بھی فیصلہ چیئرمین مائوزے تُنگ کرے اسے تسلیم کرو، اور جو بھی ہدایات چیئرمین مائوزے تُنگ دے اس کی پیروی کرو۔ ۱۹۷۶ء میں مائوزے تُنگ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جانشین ڈِنگ ژیاؤپنگ نے مئی ۱۹۷۷ء میں اعتراف کیا کہ اس ’نظریۂ جو بھی‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خامیوں کا مداوا ضروری ہے۔ مئی ۱۹۷۸ء میں پارٹی کی طرف سے ایک نیا اصول متعارف کروایا گیا:’’تجربہ اور عمل (practice) ہی سچائی جاننے کا واحد پیمانہ (sole criterion) ہے‘‘۔
دھیرے دھیرے تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا۔ چین ایک محدود اور قومیائے ہوئے اقتصادی نظام سے کھلی منڈی کے نظام میں ڈھلتا چلا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں چین نے ہتھیاروں میں نمایاں کمی کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ کسی صورت ایٹمی اسلحے کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اور نہ کبھی اپنی یہ صلاحیت ہی کسی غیر ایٹمی ملک کے خلاف استعمال کرے گا۔ یہ بات چین کی آیندہ پالیسی کی ایک واضح علامت تھی۔ یہ ایک اعلان تھا کہ اصل توجہ اختلافات اور لڑائیوں پر نہیں اقتصادی ترقی پر دینا ہے۔ سرکاری الفاظ میں اسے چینی طرز کا کمیونزم کہا گیا، یہ چینی نظام، سرمایہ دارانہ طرزِحیات اور مارکیٹ اکانومی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، معاون تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ۲۰۰۱ء میں چین کو ۵سال کے عبوری عرصے کے لیے عالمی تنظیم تجارت WTO کا رکن بن لیا گیا اور یہ عرصہ مکمل ہونے پر ۲۰۰۷ء میں باقاعدہ اور حتمی رکنیت دے دی گئی۔ ۲۰۰۷ء ہی میں چینی دستور میں باقاعدہ ترمیم کرتے ہوئے انفرادی ملکیت کا قانون بنا دیا گیا۔ ہوجِن تائو پارٹی کے سربراہ اور پھر ملک کے صدر منتخب ہوئے تو تبدیلیوں کا سفر تیز تر ہوگیا۔
چینی حکمران پارٹی ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنا‘ (CPC) کی دعوت پر امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت کا ۸ رکنی وفد چین کے ایک ہفتے کے دورے پر گیا تو ہمارے میزبان سیکرٹری خارجہ لیوھونگ شائی (Lu Hongcai)نے شاید انھی دوررس تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’گذشتہ ۱۵ برسوں میں ہمارے دونوں ملکوں میں بڑی اہم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں لیکن ایک چیز ناقابلِ تبدیل ہے اور وہ ہے پاک چین دوستی۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ دوستی ناگزیر اور ابدی ہے‘‘۔ اس سے قبل محترم قاضی صاحب بھی کہہ چکے تھے کہ ہم دوپڑوسی، دو بھائی اور دو دوست ہیں۔ ہمارا یہ مضبوط رشتہ ہمارے تمام تر اندرونی اختلافات سے بالاتر ہے۔ چین سے مضبوط دوستی ہمارے لیے ایک قومی موقف کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
اس سے پہلے مارچ ۲۰۰۰ء میں ہماری طرف سے پیش رفت کے نتیجے میں محترم قاضی صاحب تین روز کے لیے چین آچکے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ تب ایک چینی ذمہ دار نے کہا تھا کہ اب یہ جملہ روایتی لگتا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، دیوارِ چین سے زیادہ مضبوط اور سمندر سے زیادہ گہری ہے، بلکہ اب ہماری دوستی ہر مادی تمثیل سے بالاتر ہے۔گذشتہ دورے میں ہم صرف دارالحکومت بیجنگ گئے تھے، اس بار تین اہم شہروں کا دورہ رکھا گیا۔ ہمارے میزبان کہہ رہے تھے کہ اگر چین کی ۲ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو تو بیجنگ، ۵ہزار سالہ تاریخ کے جائزے کے لیے شیان (صوبہ شانسی) اور گذشتہ ۱۰۰ سالہ تجارتی واقتصادی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو شنگھائی کا دورہ مفید ہوتا ہے۔ ہم نے اسی لیے آپ کے لیے ان تینوں شہروں کا انتخاب کیا ہے۔
ہزاروں سال پر مشتمل چین کی تاریخ انتہائی دل چسپ حقائق لیے ہوئے ہے۔ اس دورے میں بھی اس کے کئی اہم پہلو سامنے آئے، آیئے ان میں سے ایک منظر دیکھتے ہیں۔ یہ ۲ہزار سال پہلے کا منظر ہے۔ تب چینیوں کی اکثریت زندگی بعد موت پر ایمان رکھتی تھی لیکن آخرت کا تصور خرافات میں کھو چکا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دوسری زندگی میں بھی وہ پہلے جیسی زندگی ہی گزاریں گے جس میں اسی طرح پورے اسبابِ زندگی کی ضرورت ہوگی جیسے اَب ہے۔ تب ان کے شہنشاہ نے ابدی زندگی اور دوامِ اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے اپنی افواج کو اپنے مجسمے تراشنے کا حکم دیا۔ ۷ہزار مجسمے یوں تراشے گئے کہ نہ صرف اصل سے مشابہت رکھتے ہوں بلکہ ساتھ ہی ان کے عسکری مناصب کا بھی اہتمام کیا گیا ہو اور ان کے لباس کا بھی۔ سپاہیوں کے علاوہ ان کے گھوڑوں کے مجسمے بھی اسی کاریگری سے تراشے گئے اور سب کو لمبی لمبی سرنگیں اور مورچے کھود کر قطار اندر قطار ایستادہ کردیا گیا۔ ۱۱ لمبی کھائیوں میں صف در صف کھڑے مجسموں کی یہ فوج اپنا اسلحہ بھی ساتھ لیے کھڑی تھی۔ سب کا رخ اسی ایک جانب کیا گیا جدھر سے دشمن افواج آنے کا خدشہ ہوسکتا تھا۔ ’ٹیراکوٹا جنگ جوؤں‘ (Tera Cotta warriors) کا یہ عجائب گھر شیان کے مضافات میں واقع ہے۔ ایک بوڑھے دہقان کی نشان دہی پر کہ جس نے اپنے بچپن میں اس کا ذکر اپنے آبا و اجداد سے سنا تھا، یہ اہم دریافت ۱۹۷۴ء میں سامنے آئی۔ ۱۹۷۵ء میں اس پر عجائب گھر تعمیر ہونا شروع ہوا اور ۱۹۷۹ء میں عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مزید تلاش اور مزید تعمیرات کا کام اب بھی جاری ہے اور اس محیرالعقول دریافت کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جا رہا ہے۔ مصر کے اہرامات بھی اسی ذہنیت و اعتقاد کا کرشمہ تھے کہ ابدی زندگی کا حصول اور حیاتِ نو میں بھی سلطانی کا تاج سر پہ سجا ہو۔ یہ خواب ایک عجوبے میں بدل کر رہ گیا، اور دوسروں کے لیے عبرت کا سامان بن گیا۔ مٹی یا سونے سے اپنے مجسمے بنانے والے خاک ہوگئے اور رہتی دنیا تک زندگی کی بے ثباتی کا اعلان کرگئے۔
تاریخ قدیم کے آثار میں شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم جامع مسجد بھی انتہائی پُرشکوہ ہے۔ اگرچہ مزید دیکھ بھال کی متقاضی ہے لیکن اہلِ ایمان کے سجدوں سے منور ہے۔ اپنی مسجد کی طرح اس میں سربسجود انسان بھی مزید دیکھ بھال کے محتاج ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت انتہائی مشکل و مشقت سے کرتے ہیں، گاہے قرآن کے الفاظ تک سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض عجیب رسوم و رواج میں بھی بندھے ہیں، لیکن اپنے رب اور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں۔ امام مسجد نے خطبۂ جمعہ سے قبل پورے وفد کا فرداً فرداً تعارف کروایا۔ پھر قاضی صاحب کو خطاب کی دعوت دی جو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ… کے عنوان سے تھی۔ نماز سے قبل اپنے دفتر میں سادہ مگر محبت کی شیرینی سے معمور تواضع کی۔ مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے تو اُوپر لکھا ہوا تھا: المَساجِدُ أَسْوَاقُ الآخِرَۃ، ’’مساجد آخرت کے بازار ہیں‘‘۔
بعد از نماز قریبی آبادی میں ایک مسلم گھرانے سے ملاقات کے لیے گئے تو ضعیف العمر لیکن چاق و چوبند سربراہ خاندان جناب خالد نے چینی زبان میں خوب صورت انداز سے خود لکھا ہوا طغریٰ پیش کیا۔ شعر مکمل دعوت تھا:
قرآن چاند ہے جومجھے ہی نہیں سب کو منور کرتا ہے۔ اسلام روشن شاہ راہ ہے جو مجھے ہی نہیں سب کو منزل تک پہنچاتی ہے۔
ہزاروں اور سیکڑوں برس پرانے اور پھر موجودہ چین کے محیرالعقول مناظر دیکھتے ہوئے اگر موجودہ چین کے نظریے، فلسفے اور دورِ جدید کا حال دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ ہیں: اقتصادی ترقی اور محکم نظام۔ خود حکمران پارٹی کے دستور میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’تعمیرچین تاکہ وہ عصرِحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایک اشتراکی، خوش حال، جمہوری، جدید اور مربوط ریاست بن سکے‘‘۔ ریاست اور حکمران پارٹی اصل میں دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ پارٹی کا سربراہ ہی ریاست اور مسلح افواج کا سربراہ بھی ہے۔ ریاستی امور ریاستی ادارے ہی چلاتے ہیں، لیکن ان کی تمام تر پالیسی سی پی سی کی سنٹرل کمیٹی اور پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں ہی طے کرتی ہیں۔ ریاست کے دیگر نمایندے اس پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس محکم نظام کی تمام تر توجہ اقتصادی ترقی پر ہے۔ جن کتب کے حوالے سے آغاز میں مائوزے تُنگ اور ڈِنگ ژیائوپنگ کے خیالات کا ذکر کیا ان کے مطابق چین اپنی سالانہ قومی پیداوار کے لحاظ سے ۲۰۰۷ء میں چھٹے سے چوتھے اور اب تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں چین کی کُل قومی پیداوار ۲۴کھرب ۹۵۳ ارب یوآن تھی۔ روپوں میں جاننے کے لیے اس رقم کو ۱۱ سے ضرب دے لیجیے۔
عالمی اقتصادی بحران کا منفی اثر چین پر بھی پڑ رہا ہے، لیکن ان کے بقول یہ نہ صرف قابلِ برداشت ہے بلکہ وہ اس کے سدباب کے لیے اقدامات بھی کررہے ہیں۔ دنیابھر بالخصوص ترقی پذیر دنیا سے دوستی کے نئے رشتے استوار کیے جارہے ہیں۔ عین ان دنوں میں کہ جب ہم چین میں تھے، صدر ہوجن تائو چار افریقی ممالک سینیگال، تنزانیہ، مالی اور ماریشس کے علاوہ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ہر جگہ اقتصادی تعاون کے نئے معاہدے ہوئے۔ سعودی عرب میں عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ریل چلانے کے منصوبے پر دستخط ہوئے۔ ۶۵ء۶ ارب سعودی ریال کی لاگت سے بننے والا یہ منصوبہ ۲ سال کے اندر مکمل ہوجائے گا۔ China Dailyکے مطابق مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کے منصوبے پر بھی پیش رفت ہوئی ہے جس کے بعد یہ مسافت صرف ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجایا کرے گی۔ ماریشس میں ۲۷۰ ملین، تنزانیہ میں ۱۱۴ ملین اور سینیگال میں ۹۰ملین ڈالر کے منصوبوں کے علاوہ ۱۰ ہزار ٹن خوردنی تیل کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ اسی دوران چین نے روس کی دو بڑی کمپنیوں کو ۲۵ ارب ڈالر کا قرض دیتے ہوئے ان سے بھی معاہدے کیے ہیں۔ عرب چین بزنس فورم وجود میں آیا اور اس کی دوسری کانفرنس منعقد ہوچکی ہے۔ سوڈان چین مضبوط تعلقات کا حال تو بین الاقوامی تعلقات کا ہر طالب علم جانتا ہے۔
ان تمام اقتصادی معاہدوں اور تجارت کے فروغ کے علاوہ ایک اور بات جس پر چین توجہ دے رہا ہے وہ کفایت شعاری ہے۔ ہم ۹ فروری کو علی الصبح بیجنگ پہنچے تو پورا بیجنگ شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف اہم شاہ راہوں پر سٹریٹ لائٹ جل رہی تھیں۔ لیاقت بلوچ صاحب نے جہاز کے عملے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کے پچھلے پہر لوڈشیڈنگ کر کے توانائی کی بچت کی جاتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اولمپکس کے شان دار انتظامات نے دنیابھر کو ششدر کردیا تھا۔ اس کی تیاریوں کے ضمن میں تیراکی کے لیے ایک انوکھا تالاب بنایا گیا۔ اگرچہ ہم یہ تالاب دیکھنے نہیں گئے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ پوری وسیع و عریض عمارت کی دیواریں پانی کے شفاف بلبلوں کی صورت میں بنائی گئی ہیں۔ ہر ایک بلبلے کا حجم اتنا ہے کہ اس کی صفائی کے لیے آدمی اس کے اندر بآسانی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس بلبلے کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا گیا کہ دن کے وقت سورج کی روشنی ہی کافی رہتی ہے، بجلی کی بچت ہوگی۔ ان دنوں چین کے بعض صوبوں میںگذشتہ ۳۰ سال کے دوران بدترین قحط کی اطلاعات ہیں۔ تشویش ہرکسی کو ہے لیکن حکومت مطمئن ہے کہ غذائی ضروریات کا انتظام کیا جاچکا ہے۔ قحط کی پیش بندی کے لیے پانی کے استعمال میں بچت کی خصوصی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ہدف یہ رکھا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء میں پانی کی کھپت میں ۶۰ فی صد تک کمی لے آئی جائے گی صرف پانی کو ضیاع سے بچانا ہوگا۔ ان تمام تدابیر کے باوجود عالمی اقتصادی بحران نقصانات کا سبب بن رہا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ۳ماہ میں چین کی برآمدات میں ۵ء۱۷ فی صد کمی آئی ہے۔
جماعت کے وفدکا دورۂ چین اندرون و بیرون ملک یکساں توجہ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ کہیں تعریف و ستایش میں مبالغہ ہے اور کہیں تنقید و تنقیص میں۔ درحقیقت یہ دورہ جماعتی پالیسی کا تسلسل، ایک اہم قومی ضرورت، عالمِ اسلام کے لیے دُوررس خدمت اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوستی کے مزید مضبوط اور گہرے تعلقات قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس دوستی کے لیے سی پی سی کے چار رہنما اصول: برابری، باہم احترام، آزادی اور ایک دوسرے کے اندرونی مسائل میں عدمِ مداخلت بہت جامع اور مطلوب اصول ہیں۔ امریکا اپنے عالمی تعلقات میں سب سے پہلے انھی چار اصولوں کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اس لیے ناکامی در ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی جس دستاویز پر سیدمنور حسن صاحب اور نائب وزیرخارجہ نے دستخط کیے ہیں اس میں مسئلۂ کشمیر کا واضح اور اصولی ذکر اہم ترین پیش رفت ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان تقریباً ۵۰ ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، اس سب کچھ کے باوجود اس واضح اور دوٹوک موقف کے اعادے کے لیے ہماری درخواست مان لینا یقینا ایک قابلِ اعتماد دوست کے لیے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ ہم نے بھی تائی وان، تبت اور سنکیانگ سمیت چین کے کسی علاقے میں علیحدگی کی تحریک کی حمایت نہ کرنے کے قومی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ علیحدگی پسندی کی بات، خود سنکیانگ کے اکثر مسلمانوں کے لیے اجنبی ہے لیکن بعض طاقتیں اسے بڑھانا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ اس سے واضح براء ت یقینا چینی مسلمانوں کے لیے بھی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم مسجد کے علاوہ بیجنگ میں ایک ہزار سال پرانی مسجد ہے۔ چین کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ چین کے جس شہر میں چلے جائیں تلاش کیے بغیر بڑی تعداد میں حلال کھانوں کے ریسٹورنٹ مل جاتے ہیں۔ ایک اہم سفارت کار بتارہے تھے کہ ایک قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قبر ہے، اوروہ خود اس کی زیارت کرچکے ہیں۔ چینی مسلمانوں کی یہ قدیم اور مضبوط بنیادیں وہاں ان کے ابدی اثرات اور روشن مستقبل کا اعلان ہیں، علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔
حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل …حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل… لاکھوں بے سہارا فلسطینیوں کا صرف یہی ایک سہارا رہ گیا تھا۔ کٹے پھٹے اعضا لیے، ملبے سے نکلتے، خون میں نہائے ہوتے، ایک ہی وقت میں دو دو، تین تین معصوموں کی لاشیں بازوؤں میں سمیٹی ہوتیں، یا ملبے اور لاشوں کے ڈھیر سے اپنے گم شدہ پیاروں کو تلاش کر رہے ہوتے۔ بولتے تو یہی کہتے: حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل۔ ذرائع ابلاغ سے بات ہوتی تو گاہے بہ گاہے یہی دعا بددعا کی صورت بھی اختیار کرجاتی: حسبی اللّٰہ علی الحکام العرب… حسبی اللّٰہ علی الیھود ، ’’پروردگار عرب حکمرانوں کے مقابل تو کافی ہوجا… یہودیوں کے مقابلے میں تو ہمارے لیے کافی ہوجا۔ ان حکمرانوں اور یہودیوں سے تو خود نمٹ پروردگار‘‘۔
یہ بات ہر شک سے بالاتر ہے کہ اللہ کی اسی ایک سہارے کے باعث ۳۶۷ مربع کلومیٹر پر مشتمل غز.ّہ میں محصور ۱۵ لاکھ انسان مسلسل ۲۲ دن تک دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر ان مہلک ترین بموں کا عشرعشیر بھی کسی ایسی بڑی سے بڑی اور جدید سے جدید فوج یا ملک پر برسایاجاتا جس کے پاس یہ الٰہی آسرا سہارا نہ ہوتا تو وہ ۲۲ دن نہیں ۲ دن میں ہتھیار ڈال دیتا۔ ۱۹۶۷ء میں یہی اسرائیلی فوج آج سے کہیں کم ہتھیاروں کے ساتھ شام، مصر اور لبنان کی باقاعدہ افواج پر حملہ آور ہوئی، ۶دن کی جنگ میں مصر نے صحراے سینا، شام نے گولان کی پہاڑیاں اور لبنان نے سارا جنوبی حصہ اسرائیلی افواج کے سپرد کر کے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ یہ تینوں ملک مسلمان تھے لیکن ان کی قیادت حسبنا اللّٰہ کے بجاے بڑھکیں لگارہی تھیں۔ مَدَافِعُنَا تَـتَحَدَّی الْقَدَر ، ہماری توپیں تقدیر کو للکارتی ہیں۔
اہلِ غز.ّہ کا ایمان اور اللہ پر مکمل بھروسا رکھنے والی ان کی قیادت وہ اصل خطرہ تھا، جس سے نجات اس پوری خوں ریزی کا اصل ہدف اور اصل سبب تھا۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے عام انتخابات میں حماس (حَمَّاس نہیں حَمَاس) کا حصہ لینا ہی قابض یہودی افواج، ان کے پالتو بعض سیاسی لیڈروں اور عالمی استعمار کے لیے سوہانِ روح بن گیا تھا۔ بش اور کونڈولیزا نے واضح طور پر دھمکی دی کہ اگر حماس منتخب ہوئی تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ خدا ہونے کے دعوے داروں کی دھمکیوں کے باوجود عوام نے حماس کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے منتخب کیا اور امریکا و اسرائیل نے فیصلہ دے دیا: ’’ان دہشت گردوں کو جینے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
غز.ّہ کی پٹی تین اطراف سے اسرائیلی افواج کے گھیرے میں ہے۔ ایک جانب مصری صحراے سینا سے ملتی ہے۔ غز.ّہ آنے جانے کے لیے ۷ پھاٹک بنے ہوئے ہیں جن میں سے ۶اسرائیلی تسلط میں ہیں۔ رَفَح کا ایک پھاٹک (گیٹ وے) مصر میں کھلتا ہے۔ گویا پوری مسلم دنیا سے رابطے کا یہی ایک اکلوتا راستہ ہے۔ حماس کی جیت کے بعد رَفَح سمیت یہ ساتوں راستے بند کردیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سامانِ خوردونوش اور پٹرول و پانی سمیت اہلِ غز.ّہ پر ہرشے حرام ہوگئی۔ غز.ّہ کو بجلی کی فراہمی یا تو مقبوضہ فلسطین سے ہوتی تھی یا خود غز.ّہ میں موجود جنریٹروں کے ذریعے، دشمن نے تو بجلی پانی بند کرنا ہی تھا، مصر کے راستے بھی پٹرول لے جانا جرم قرار پایا۔ جنریٹر بھی بند ہوگئے، غز.ّہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور تو اور ہسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ مریض بھی بجلی نہ ہونے کے باعث دم توڑنے لگے۔
جلاد کا مطالبہ تھا حماس کا ساتھ چھوڑ دو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جہاد (اقصیٰ کی آزادی کے لیے جہاد) سے دست بردار ہوجائو۔ ہاں، اگر قبلۂ اول کی آزادی کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی طرح خالی خولی نعرے لگانا چاہو تو لگاتے رہو۔ تمھیں نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ تمھارے لیے انعام کا اعلان (صرف اعلان) کیا جائے گا۔ اہلِ غز.ّہ نے جواب دیا: گذشتہ ۶۰برسوں سے یہی نعرے تو لگا رہے تھے، یاسرعرفات بھی تمھارے دھوکے میں آیا۔ تم نے پہلے اسے امن و بہادری کا نوبل انعام دیا اور پھر فرانس لے جاکر زہر دے دیا۔ دوسری طرف شیخ احمد یٰسین نے تحریکِ انتفاضہ کے ذریعے ہمیں جہاد کا سبق یاد دلایا۔ وہ خود تو شہید ہوگئے لیکن بالآخر ان کی برپاکردہ تحریک کے نتیجے میں تم غز.ّہ کی پٹی سے انخلا پر مجبور ہوگئے۔ خود تمھارے صہیونی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تحریکِ انتفاضہ نہ ہوتی تو کبھی غز.ّہ سے نہ نکلتے۔
دسمبر ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ کی آغوش میں پرورش پانے والی فلسطینی قوم اب مجاہدین کی پوری نسل رکھتی ہے۔ وہی مجاہد نسل جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرمعراج میں مشاہدہ کروایا گیا تھا کہ اس کی فصل جتنی کٹتی ہے، اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ مجاہدین کی فصل نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بھوک، بے روزگاری، حصار اور غز.ّہ کو عملاً شعب ابی طالب بنا دیے جانے کے باوجود بھی جب حماس ہی آنکھوں کا تارا ٹھیری تو انبیا کی قاتل قوم نے پھر مقتل سجانے کی ٹھانی۔ مکمل تیاری کے بعد ’مناسب‘ وقت کا انتخاب کردیا گیا۔ دسمبر اور جنوری فلسطین میں سخت سردی کا موسم ہوتا ہے۔ فلسطین پر صہیونی قبضے کی تاریخ میں حیرت ناک طور پر اکثر جنگیں، اکثر قتل گاہیں اسی موسم میں سجائی گئیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچائی جاسکے، لیکن اس بار وقت کے انتخاب کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔
۱۰فروری کو اسرائیلی انتخابات ہونا ہیں۔ اس میں جیت کے بعد ایہود اولمرٹ کی جگہ وزیرخارجہ سیپی لفنی وزیراعظم بن سکے گی لیکن وزیردفاع باراک اور اپوزیشن لیڈر بنیامین نتن یاہو بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ غز.ّہ پر حملے کے پہلے روز سے اسرائیلی راے عامہ کے جائزے شروع ہوگئے کہ وہ کسے حکمران منتخب کریں گے۔ سروے کے نتائج میں مسلسل تبدیلی کی بنیاد یہی رہی کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں زیادہ سے زیادہ پیش پیش کون رہتا ہے۔
غز.ّہ پر توڑی جانے والی قیامت اپنی تمام تر ہلاکت خیزی اور توہینِ انسانیت سمیت تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ دنیا یوں ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ صرف غز.ّہ کے ایک لاکھ کے قریب یتیموں، بیوائوں اور زخمیوں کے علاوہ کسی کو ہولناک تباہی یاد نہیں رہی۔ صرف چند لاکھ بے گھر فلسطینی، چیتھڑوں سے سرد ہوائوں اور ان ہوائوں سے پیٹ کی آگ کا سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ باقی دنیا تو حسبِ سابق اپنے معمولات میں غرق ہے یا زیادہ سے زیادہ صہیونی اور ہندو مشیروں میں گھِرے نئے امریکی صدر کے بچپن اور نام کے مختلف حصوں سے امیدیں باندھ رہی ہے۔ ایسے میں جنگ کے مناظر بیان کرنے، زخموں کی بپتا سنانے یا صف در صف پڑے معصوم فلسطینی پھولوں کی لاشوں کا نوحہ کہنا دنیا کے لیے اہم نہیں رہا۔ البتہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس ساری تباہی سے کسے کیا حاصل ہوا اور مستقبل پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟
خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا جائزہ لیں تو ان کی ایک تعداد اس پر خوشیاں منا رہی ہے کہ خوب تباہی کی… شاباش… مزید تباہی کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اسرائیلی عسکری ماہرین اوردفاعی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اعتراف کررہی ہے کہ ہم نے عالمی عوامی نفرت، مزید خطرات اور دشمن کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔ موساد کے سابق سربراہ افرایم ھلیفی دونوں پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس کی شان دار کارکردگی نے حماس کو المناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ ایک طرف اس کی عسکری صلاحیت بہت حد تک تباہ کردی ہے، اس کی قیادت کو بے سمت کردیا ہے اور دوسری طرف اسے سنی ممالک مصر، سعودی عرب اور اُردن سے دُور کردیا ہے۔ علوی ریاست شام اور شیعہ طاقتوں ایران و حزب اللہ کو بھی حقیقتاً اس سے الگ کردیا ہے، لیکن ہم مصیبت کے دوسرے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ حماس کو تباہ کرنے کے لیے ہمارا حملہ جتنا شدید تھا، جس طرح اسرائیلی فوج نے اس پر بری، فضائی اوربحری حملوں کے ذریعے آگ کی بارش برسائی، اس سب میں سے حماس بچ نکلی اور اس طرح بچ نکلنے کی کوئی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ وہ آج پھر کسی دیوہیکل صحرائی پرندے کی طرح ریت جھاڑتے ہوئے ملبے کے ڈھیر میں سے اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مصر کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بھی اپنے موقف پر سختی سے جمی ہوئی ہے۔ وہ کسی صورت ہار ماننے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ (روزنامہ یدیعوت، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء)
اسی اخبار میں ’ناحوم برنیاع‘ غز.ّہ سے اسرائیلی انخلا کے متنازع فیصلے پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے شارون اور دیگر صہیونی ذمہ داران کے موقف کا تجزیہ کرتا ہے اور آخر میں تان اس جملے پر توڑتا ہے: ’’ہم غز.ّہ سے مکمل قطع تعلقی نہیں کرسکتے، نہ غز.ّہ پر آیندہ کسی صورت دوبارہ قبضہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ غز.ّہ اسرائیل کے حلق میں کانٹے کی صورت اٹکا رہے گا، نہ تو اسے نگلا جاسکے گا اور نہ اُگلا جاسکے گا۔ نہ اسے مارا جاسکے گا، نہ اسے جینے دیا جائے گا۔ گاہے بہ گاہے جنگ کی آگ بھڑکتی رہے گی تاکہ ہمیں بھی یاد رہے اور انھیں بھی کہ ان کا اور ہمارا تعلق کس قدر المناک ہوسکتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے دو چوٹی کے دانش وروں ا. ب. یہوشع اور جدعون لیفنی کے درمیان روزنامہ ھآرٹز کے صفحات پر باقاعدہ بحث ہوئی اور کھلے خطوط کا تبادلہ ہوا ہے۔ بائیں بازو کے صحافی جِدعون نے ہلاکت آمیز اور بے فائدہ جنگ کی مخالفت و مذمت کی ہے، جب کہ یہوشع نے اسرائیلی موقف کی ترجمانی کی ہے۔ جِدعون اپنے کھلے خط کے آخر میں لکھتا ہے: ’’آپ کی نگاہ میں اس طرح کی جنگ ہی ان پر اثرانداز ہونے کا اکلوتا ذریعہ رہ گئی ہے۔ تعلّی پر مبنی اس جملے پر کوئی تبصرہ کیے بغیر میں آپ جیسے چوٹی کے لکھاری سے اس سے بہتر کی توقع رکھتا تھا۔ میں آپ جیسی محترم شخصیت سے توقع رکھتا تھا کہ وہ آزادی کی جنگوں کی تاریخ جانتا ہوگا۔ اسے معلوم ہوگا کہ جنگ ِآزادی کو کبھی طاقت سے نہیں کچلا جاسکتا۔ ہم نے اس جنگ میں جو تباہ کن اسلحہ استعمال کیا ہے، میرا نہیں خیال کہ ہمارے مخالفین اس سے مرعوب ہوئے ہیں۔القسام میزائل اب بھی فائر ہورہے ہیں، لیکن اب حماس اور پوری دنیا ایک بات پر ایمان رکھتی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل ایک خطرناک، متشدد اور بے لگام ریاست ہے۔ کیا آپ اس شہرت کی حامل ریاست میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ ایسی ریاست میں کہ جو اپنے بارے میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہو کہ ’’گھر کا سربراہ پاگل ہوگیا ہے‘‘۔ میں تو ایسی ریاست میں نہیں رہنا چاہتا‘‘ (روزنامہ ھآرٹز، ۱۹ جنوری)
جِدعون نے ۲۲ جنوری کے شمارے میں بھی ایک مفصل مضمون لکھا ہے: Gaza War Ended in Utter Failure for Israel (غزہ کی جنگ: اسرائیل کی سراسر ناکامی پر ختم ہوئی) اس نے اسرائیل کی چار بڑی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا ہے: ’’آخرکار ہم نے حاصل کیا کیا؟‘‘ اسرائیل کے اعلان کردہ اہداف کا جائزہ لیا جائے تو اس کا سب سے بڑا ہدف غز.ّہ اور فلسطین کے باقی علاقوں سے حماس کا خاتمہ تھا۔ یک طرفہ طور پر جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی ویزراعظم اولمرٹ نے بیان دیا کہ ’’غز.ّہ میں حماس کی گرفت کمزور کردی گئی ہے اور اب محمودعباس جیسی معتدل قیادت کو وہاں لایا جاسکے گا‘‘۔ جنگ کے عروج پر برطانیہ میں اسرائیلی سفیر نے بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ’’جنگ کا مقصد شدت پسند حماس کو ہٹاکر فلسطینی اتھارٹی محمودعباس کو بحال کرنا ہے‘‘۔ جنگ کے بعد اصل صورت حال بالکل برعکس ہے۔ مغربی کنارے میں امریکا،اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے اشتراک سے ایک یونی ورسٹی چل رہی ہے، جہاں طلبہ کو ’روشن خیالی‘کے نام نہاد نعرے کے عملی ماحول میں تربیت دی جاتی ہے۔ ان طلبہ کے درمیان سروے کروایا گیا تو وہاں بھی حماس کی تائید غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ ۱۹فروری کو کویت میں عرب لیگ کی اقتصادی سربراہی کانفرنس تھی اس سے پہلے کویتی پارلیمنٹ کے ۲۲ ارکان نے ایک میمورنڈم پیش کیا کہ محمود عباس کی مدت صدارت بھی ختم ہوگئی ہے اور دورانِ جنگ اس کا کردار بھی گھنائونا رہا ہے، اس لیے اسے کانفرنس میں مدعو نہ کیا جائے بلکہ فلسطین کی نمایندگی کے لیے خالدمشعل کو بلایا جائے۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے اس حوالے سے خطاب کرتے ہوئے ایوانِ اسمبلی میں خالدمشعل کا نام لیتے ہوئے سر پہ پڑا عربی رومال اُتار کر عقیدت کا اظہار کیا اور محمود عباس کا نام لیتے ہوئے جوتا لہراتے ہوئے نفرت کا۔
محمود عباس کے علاوہ اسرائیل کا دوسرا بڑا مہرہ حسنی مبارک ہے۔ جنگ سے پہلے، دوران اور بعد میں اسی کے ساتھ سب سے زیادہ مشاورت کی گئی۔ اس نے عین تباہی کے عالم میں بھی ’رفح‘ کا پھاٹک بند کیے رکھا۔ عالمی قوانین بصراحت کہتے ہیں کہ دورانِ جنگ اگر کوئی آبادی کسی جگہ گھِر جائے تووہاں سے نکلنے کے راستے کھولنا فرض ہے۔ کوئی معاہدہ یا پابندی اسے کھولنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دورانِ جنگ فرانسیسی صدر سرکوزی علاقے کے دورے پر آیا۔ اس نے اولمرٹ سے کہا: ’’مجھے حسنی مبارک نے بھی کہا ہے کہ وہ حماس کو جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے‘‘۔
دنیا میں صرف مصر ایک ایسا ملک تھا جہاں اہلِ غز.ّہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے مظاہرے روکنے کی کوشش کی گئی۔ الاخوان المسلمون کے سیکڑوں کارکنان گرفتار کیے گئے لیکن مظاہرے پھر بھی ہوئے اور بڑے بڑے ہوئے۔ مصری شہر دمیاط میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے:یاباراک یاعباس کُلَّنا مع حماس ’’اے باراک (صہیونی وزیردفاع) اے عباس! ہم سب حماس کے ساتھ ہیں‘‘۔ کَبِّر یامسلم کَبِّر…رأسُ الصِّھْیُونی تَکَسَّر ’’مسلمانو! تکبیر بلند کرو کہ صہیونیوں کا سر پھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ اِھْتِف سَمِّع کُلَّ النَّاس… نَحْن رِجَالُکَ یَاحَمَاس ’’نعرہ لگائو…سب کو سنا دو کہ ہم حماس کے سپاہی ہیں‘‘۔ عوامی جذبات تو یہ ہیں لیکن امریکااسرائیل اور ان کے پالتو اب بھی کوشش یہی کریں گے کہ اپنے مہروں کو آگے بڑھایا جائے۔ نومنتخب صدر باراک اوباما نے حلفِ صدارت کے بعد سب سے پہلا فون محمودعباس کو کیا ہے۔
اسرائیل کا دوسرا اعلان کردہ ہدف یہ تھا کہ حماس کے میزائل حملے بند کرنا ہیں۔ اسرائیل نے ہی نہیں خود عرب اور فلسطینی مخالفین نے بھی حماس کے خودساختہ میزائلوں کو جنگ اور تباہی کا اصل سبب قرار دیا۔ اس الزام اور پروپیگنڈے کا جائزہ ہم ابھی لیں گے لیکن ایک حقیقت جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فاسفورس اور دیگر کیمیکل بم استعمال کرنے اور ۲۲ روز کی دن رات تباہ کاری کے باوجود حماس کے ان جوابی میزائلوں کا راستہ نہیں روکا جاسکا۔ یہ میزائل جو پہلے ۲۰کلومیٹر تک مار کرسکتے تھے، حماس نے نپے تلے انداز سے اور مرحلہ وار ان کی پہنچ ۶۵کلومیٹر تک بڑھا دی۔ اس طرح تقریباً ۱۰ لاکھ کی یہودی آبادی ان کی زد میں رہی۔ انھیں بھی حالت ِ جنگ کی کیفیات سے گزرنا پڑا اور آخرکار ان کی طرف سے بھی احتجاج اور اپنی حکومت سے مطالبہ شروع ہوگیا کہ ’’بے فائدہ جنگ بند کرو‘‘۔
رہی یہ بات کہ حماس کے میزائل جنگ کا سبب بنے تو اس کا سب سے اچھا جواب ترک وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے دیا کہ ’’اہلِ غز.ّہ تین سال سے حصار میں تھے، ان کا گلا گھونٹا جارہا تھا تو ان کی چیخ میزائلوں کی صورت میں برآمد ہوئی۔ اب ان چیخوں کو تباہی کا سبب قرار دینا عقل کے بھی منافی ہے اور حقیقت کے بھی‘‘۔ اس الزام کا دوسرا جواب اس سوال میں ہے کہ گذشتہ ۶۰برسوں میں اسرائیلی ناجائز ریاست نے فلسطینیوں کے جتنے بھی قتلِ عام کیے، کیا اس وقت بھی میزائل یا حماس ہی اس کا سبب تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ غز.ّہ پر حملہ کوئی حادثاتی یا ہنگامی کارروائی نہیں تھی۔ ڈیڑھ برس پہلے سے اس کی تیاریاں جاری تھیں اور باقاعدہ دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ اس وقت پتھر اور غلیل سے ہونے والی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر حماس کی منتخب حکومت کو مسترد کردیا گیا۔ ان کے اسپیکر سمیت وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کرلیا گیا اور بالآخر غز.ّہ کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ جواباً میزائل فائر ہوئے تو اپنی ساری دہشت گردی ساری سفاکانہ جنگ کا ملبہ انھی پر ڈال دیا گیا۔ حماس کو مطعون کرنے والے یہ بھی نہ بھولیں کہ صہیونی دشمن ایک ایک کر کے ہرفلسطینی اور اپنے ہرمخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتا ہے۔ ان کے ایک ایک بچے کے ذہن میں ’عرب‘ یعنی مسلمان کا تصور درندوں کی حیثیت سے بٹھاتے ہوئے انھیں قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آج اگر خدانخواستہ حماس نہ رہتی تو اب خود محمودعباس، حسنی مبارک اور پھر ایک ایک کرکے اپنے ہرہدف کو اسی طرح مطعون و معتوب کیا جاتا۔ حماس نے اس الزام کا بہت اصولی جواب دیاہے کہ ہمارے میزائل اسرائیلی قبضے کا جواب ہے، آج ہماری سرزمین سے قبضہ ختم ہوجائے، ہمارا جواب بند ہوجائے گا۔
غز.ّہ میں ہونے والی تباہی کی مثال موجودہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ افغانستان و عراق میں امریکی بم باری بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ غز.ّہ کی طرح مقید تھے اور نہ غز.ّہ کی طرح گنجان آباد، لیکن یہ ساری تباہی غز.ّہ کے عزم و ارادے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ اہلِ غز.ّہ اعلان کر رہے ہیں کہ حالیہ فتح کے بعد اب ہمیں اقصیٰ کی آزادی ایک مجسم حقیقت کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ رہی تباہی تو صرف گذشتہ صدی میں ہی دیکھ لیں۔ دنیا کے کتنے دارالحکومت اور بڑے بڑے شہر ایسے ہیں کہ ملیامیٹ کردیے گئے لیکن دوبارہ زندہ بھی ہوگئے اور فتح یاب بھی۔
اہلِ غز.ّہ کے اس عزم سے شیخ احمد یاسین کی پیشین گوئی تازہ ہوگئی۔ آیئے انھی سے سنیں: میں اسرائیلی قید میں مطالعہ قرآن کر رہاتھا۔ اس واقعے پر پہنچا کہ بنی اسرائیل کے انکار کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ۴۰برس کے لیے سینا کی صحرا نوردی کی سزا دی تو میں غور کرنے لگا کہ پروردگار اتنی لمبی سزا؟ ۴۰ برسوں میں تو نسلیں بدل جاتی ہیں۔ سوچتے سوچتے جواب ملا کہ جرم بہت کڑا تھا۔ پوری قوم نے براہِ راست اللہ اور اس کے نبی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’(موسٰی ؑ) جائو تم اور تمھارا رب جا کے لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔ اللہ کی طرف سے فیصلہ آیا کہ وہ نسل کہ جس نے انکار کیا ہے اور وہ نسل جو اس سارے انکار کی چشم دید گواہ اور ان منکروں کے زیرتربیت تھی وہ سب ختم ہوجائیں تو پھر ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ میں نے اس سنت ِ الٰہی کو فلسطین پر منطبق کیا تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطین میں پائی جانے والی نسل جہاد سے کنارہ کش ہونے کے باعث یہودیوں سے شکست خوردہ ہوئی۔ اسلامی تحریک نے بھولا ہوا سبق یاد دلانا شروع کیا اور ٹھیک ۴۰ برس بعد ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ شروع ہوئی۔ پیمانے بدلنے لگے،فرات سے نیل تک اسرائیل کا ہدف رکھنے والے باتوں اور وعدوں کی حد تک ہی سہی، فلسطینی ریاست بنانے کا اعلان کرنے لگے۔ اب ۱۹۸۸ء سے ایک نئی نسل، جہاد و مزاحمت کی نسل آگے آرہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جہاد و قربانی کے ۴۰ برس مکمل ہونے، یعنی ۲۰۱۸ء تک اللہ تعالیٰ فلسطین میں فتح یاب نسل عطاکرے گا جس کے ہاتھوں قبلۂ اول آزاد ہوکر رہے گا اور اسرائیل نام کی ریاست صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اہلِ غز.ّہ اور اہلِ فلسطین یہ سبق اچھی طرح یاد کرچکے ہیں کہ یہ پورا عرصہ جہاد و مزاحمت کا عرصہ ہے اور اللہ کا سہارا اصل سہارا ہے: حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل!
عبداللہ العلی المُطَوَّعْ(م: ستمبر ۲۰۰۶ئ) کو ہم سے رخصت ہوئے ۲ برس ہوچکے ہیں لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ انھیں گزرے ہوئے خواہ کتنے ہی برس ہوجائیں، ان کا ذکر ہمیشہ تازگی کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ اس کیفیت میں کچھ دخل ذکر کرنے والے کا بھی ہوتا ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ کیجیے، اپنی تربیت کا سامان کیجیے اور کرنے کے لیے کچھ سیکھیے۔ (ادارہ)
کویت میں اسلامی تحریک کے بانی عبداللہ العلی المُطَوَّعْ کو پوری دنیا میںان کی کنیت ابوبدر سے پہچانا جاتا تھا۔ اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے انھوں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بڑے بھائی مرحوم عبدالعزیز المطوع اور کویت کے ایک اور بزرگ مرحوم یوسف بن عیسیٰ القناعی سمندر کے کنارے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں دُور سے ان کی طرف جا رہا ہوں وہ سلام پھیرتے ہیں اور مجھے پکار کر کہتے ہیں:دُور کیوں ہو، یہ دیکھو یہ تمھارا محل ہے۔ آئو اور اسے لے لو۔ انھی دنوں انھوں نے ایک اور خواب دیکھاکہ ان کے کچھ مرحوم بزرگ جمع ہیں اور پوچھتے ہیں کہ عبداللہ المطوع نہیں پہنچا؟ جواب میں کوئی کہتا ہے: وہ دیکھو فرشتوں کی ایک بڑی جماعت کے جلو میں آرہا ہے۔
۱۹۲۶ء میں کویت میں پیداہونے والے عبداللہ المطوع کو جاننے والے لاکھوں لوگ اس امر پر متفق ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ وہ ارب پتی درویش تھے۔ وہ جہاں بھی ہوتے کسی نہ کسی کارِخیر کی درخواستیں اٹھائے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوتے اور کوئی شخص بھی ان کے ہاں سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ان کی وفات کے بعد اکثر کویتی اخبارات نے انھیں ’ہر کارخیر کے امیر‘ کے لقب سے یاد کیا۔ کویت کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران نے اپنے لیے بادشاہ یا صدر کے بجاے امیر کالقب اختیار کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں کویتی اخبار کی یہ سرخی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان سے انٹرویو کرتے ہوئے ایک بار ایک صحافی نے حیران ہوکر پوچھا: آپ سیاست دان ہیں یا دینی رہنما، تاجر ہیں یا سماجی کارکن…؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: میں ایک مسلمان انسان ہوں اور مسلمان کی ذات میں یہ سب امور یکجا ہوتے ہیں۔
عبداللہ العلی المطوع کا گھرانہ اُمت کے لیے باعث ِخیر تھا۔ ان کے والد خداسے ڈرنے والے تاجر تھے۔ ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز اپنے والد صاحب کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگئے۔ تجارت کی غرض سے وہ اکثر برعظیم پاک و ہند کا سفر بھی کرتے رہتے تھے۔ یہ وہی شخصیت ہے جو سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید حسن البنا شہید کے درمیان اوّلیں رابطے کا ذریعہ بنی۔ وہ یہاں آتے تو ترجمان القرآن اور دیگر ذرائع سے مولانا مرحوم کی تحریروں کا ترجمہ کرواتے اور سامانِ تجارت کے علاوہ یہ تراجم بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ چونکہ وہ ’اخوان المسلمون‘ کے مرکزی مکتب ِارشاد کے رکن بھی تھے، اس لیے مولانا کی یہ تحریریں ’اخوان‘ کی مرکزی قیادت سے لے کر کارکنان تک پہنچ جاتیں اور ’اخوان و جماعت‘ کے دونوں بانیوں کے درمیان کوئی بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کے باوجود اخوت و مؤدّت کے گہرے تعلقات استوار ہوگئے۔
عبداللہ المطوع نے بھی اپنے برادر بزرگ سے اخوان المسلمون اور اسلامی تحریک سے محبت کی نعمت حاصل کی۔ وہ گاہے بگاہے اخوان کے ذمہ داران اور دیگر علماے کرام کواپنے ہاں مدعو کرتے رہتے اور ان کے ذریعے دین کا پیغام عام کرتے۔ ۱۹۴۶ء (۱۳۶۵ھ) میں دونوں بھائی حج کی سعادت حاصل کرنے گئے تو وہاں اُنھیں امام حسن البنا کی رفاقت حاصل رہی۔ مکہ و مدینہ میں ان سے کسب ِ فیض کیا۔ مدینہ منورہ میں ان کا تفصیلی خطاب سنا۔ امام البنا نے دونوں بھائیوں کو دو کتابیں بطور ہدیہ دیں۔ایک تو معروف فرانسیسی مؤلف گستائولیبان کی کتاب حضارۃ العرب (تمدّنِ عرب ) تھی جس میں اسلام اور اہلِ اسلام کا ذکرِ خیر تھا، اور دوسری الرحلۃ الحجازیۃ (حجاز کا سفر) تھی۔ اس پر امام نے اپنے ہاتھ سے لکھا: ’’اپنے پیارے بھائی جناب عبداللہ العلی کے لیے۔ اللہ کی خاطر محبت اور عظیم دعوتِ اسلامی کی خاطر، حرمین شریفین میں ملاقاتوں کی یاد‘‘۔
ان دنوں یہ افواہ پھیلائی جاتی تھی کہ شراب کی ممانعت سے کویت ایئرلائن کو خسارہ ہوگا کیونکہ شراب کے رسیا شراب نہ ملنے پر اس میں سفر نہیں کریں گے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جب شراب پر پابندی لگی تو کویت ایئر کے منافعے میںاضافہ ہوگیا۔ یہی عالم خنزیر کے گوشت کا تھا جویہاں عام تھا۔ کویتی بھی کھلم کھلا اور بے سوچے سمجھے خنزیر کا گوشت کھا رہے تھے۔ ہم نے کچھ ارکان پارلیمنٹ سے اتفاق راے کے بعد وہاں سوال اٹھایا کہ کویت میں خنزیر کے گوشت کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ بحث ہوئی اور بالآخر ممانعت کا قانون منظور ہوگیا۔ اسی طرح یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم پر پابندی اور کئی دیگر اخلاقی برائیوںکا ہمیشہ کے لیے سدباب کیاگیا۔
ایک بار ایک صاحب نے اعلان کیا کہ وہ کویت میں ایک رقص گاہ قائم کریں گے۔ ہم نے اسے روکنے کے لیے مختلف دینی شخصیات کو ساتھ ملا کر امیرکویت عبداللہ السالم کوخط لکھا۔ اس نے نہ صرف ہماری درخواست مسترد کردی بلکہ کہا کہ ہم تو اس طرح کے ہال مدارس کی سطح تک قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت کویت میں سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع تھا۔ بلدیہ کے شعبہ شاہرات میں غزہ کا ایک انجینیر کام کرتا تھا۔ ہم نے اس سے جاکر بات کی اوراس فسادگاہ کی سنگینی واضح کی۔ انھوں نے نئی سڑکوں کا نقشہ اس طرح بنا دیا کہ ایک سڑک عین اس جگہ سے گزرتی تھی جہاں رقص گاہ تعمیر ہورہی تھی۔ وہ ڈھا دی گئی اور پھریہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
ابوبدر اور ان کے ساتھیوں کی خدمات صرف ان اخلاقی امور تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ کویت میں اسلامی بنک کاری کا سہرابھی انھی کے سر ہے۔ شروع میں انھیں اس کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے دبئی کے اسلامی بنک کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا اور پھر بالآخر کویت بھی اس صدقۂ جاریہ کا مضبوط مرکز بن گیا۔
جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون کے خلاف ظلم کی تاریخ رقم کی تو ابوبدر گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ کی کفالت کرنے لگے۔ اس ’جرم‘ کا سراغ ملنے پر مصری عدالت نے ابوبدر کوپانچ سال قید اور ۱۵ ہزار مصری پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔ سب کواس سزاپر حیرت ہوئی۔ خدشہ تھا کہ مصری حکومت کویتی حکمرانوں سے اپنا ملزم طلب نہ کرلے لیکن جب مصری ریڈیو پر اس فیصلے کی خبر نشر ہوئی تو کویتی امیر صباح السالم نے کہا: ’’ہم کبھی انھیں اس تک نہیں پہنچنے دیں گے‘‘۔ ابوبدر کہا کرتے تھے: ’’میں شیخ صباح السالم کا یہ موقف کسی صورت فراموش نہیں کرسکتا‘‘۔
کچھ سمجھ نہیں آئی، دفتر گئے اور اپنے سارے تجارتی سودوں کا جائزہ لینے لگے۔ یاد آیا کہ کویت فنانس ہائوس سے جو یہاں کا اسلامی بنک ہے، سرمایہ کاری کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ فون کر کے تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اس معاہدے سے پتھر کے کوئلے کا ایک بڑا سودا کیا ہے اور اس سے بڑا منافع یقینی ہے۔ ابوبدر نے کہا نہیں، میں یہ سودا منسوخ کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا کہ یہ سود نہیں مرابحت کی بنیاد پر ہے، دونوں کو نفع ہوگا۔ ابوبدر نے کہا میں اس راہ پر مزید ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا اور سودا منسوخ ہوگیا۔ عبدالالٰہ نے کہا میرے والد فرمایا کرتے تھے: منافع کوئی تاجرانہ چالاکی نہیں یہ سراسر اللہ کی برکت ہے۔ اللہ کو ناراض کر کے کبھی اس کی برکات حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ ایک اور موقع پر والدصاحب نے ایک سعودی تاجر سے ایک بڑا سودا کیا۔ ایک پورا بحری جہاز خام مال کا آرہا تھا۔ راستے میں جہاز حادثے کا شکار ہوگیا۔ والد صاحب بہت پریشان ہوئے کہ اس میں ان کے بھائیوں کی ایک بڑی رقم لگی ہوئی تھی۔ سعودی تاجر نے والد صاحب کو تسلی دیتے ہوئے ان سے دریافت کیا: آپ نے اس مال کی زکوٰۃ نکالی تھی؟ والد صاحب نے کہا ہاں، الحمدللہ! انھوں نے کہا کہ پھر نہ ڈرو، اللہ تعالیٰ تمھارے مال کی حفاظت فرمائے گا۔ سفینے تک رسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ اسی جہاز میں کچھ آٹا بھی لاد دیا گیا تھا۔ حادثہ ہوا تو سمندری پانی سے مل کر اس آٹے کی ایک موٹی تہ اُوپر جم گئی اور نیچے سارا خام مال محفوظ رہا۔ ابوبدر نے اس واقعے کے بعد کبھی اپنے سامان کی انشورنس نہیں کروائی کہ زکوٰۃ ہی اصل انشورنس ہے، اللہ حفاظت کرتا ہے۔ ابوبدر ہمیشہ سود کے بارے میں قرآنی آیات دہراتے رہتے، خاص طور پر یہ کہ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۷۶)’’اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔
کویت پر عراق کا قبضہ ہوا تو ہر کویتی شہری کا مستقبل اندیشوں اور خطروں کی نذر ہوگیا۔ کویتی حکومت اور شہریوں کی بڑی تعداد سعودی عرب میں پناہ گزیں ہوئی۔ وہاں کویت کی بازیابی اور کویتی عوام کی مدد کے لیے مختلف کوششوں کاآغاز ہوا۔ دیگر کئی امور کے علاوہ ایک اعلیٰ سطحی مالیاتی کمیٹی بنی۔ ابوبدر کی عدم موجودگی میں کویتی ولی عہد سعدالعبد اللہ نے انھیں کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ابوبدر کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے کچھ سوچنے کے بعد کمیٹی کی سربراہی قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے مجھے بہت بڑے بڑے معاملات دیکھنا پڑتے۔ بڑی بڑی امدادی رقوم حکومتوں کی طرف سے بھی آتیں اور بڑے تاجروں کی طرف سے بھی۔ ان میں سے یقینا کئی رقوم ایسی ہوسکتی تھیں کہ جن میں سود یا کسی سودی کاروبار کی رقم بھی شامل ہو۔ اور میں کبھی سود سے متعلقہ کسی کام میں شامل نہیں ہوا۔ ہاں، البتہ ایک کارکن کی حیثیت سے میں اپنے کویتی بھائیوں کی جومدد بھی کرسکا ضرور کروں گا۔
شیخ یوسف قرضاوی صاحب بھی ایسا ہی ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں سفر میں اکٹھے تھے۔ صبح کمرے میں ناشتہ آیا توساتھ چھوٹی سی ڈبیا میں شہد بھی تھا جو بچ گیا۔ ابوبدر نے وہ اٹھا کر کمرے میں رکھ لیا اور کہا کہ ہم نے اس کے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ہم نے کویت میں ایک کانفرنس رکھی ہوئی تھی جہاں میں نے تجویز دی کہ امریکا میں کچھ افراد نے دنیا میں مسیحیت کے پرچار کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس میں ایک ارب ڈالر جمع کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اس فنڈ سے ’زویمر‘ نامی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے جہاں عیسائی مشنریوں کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے تو کیوں نہ ہم بھی ایک فنڈ قائم کریں جو ان عیسائی کاوشوں کے مقابلے کے لیے مختص ہو۔ ہم نے الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ابوبدر سب سے پہلے شخص تھے جو میرے پاس آکر کان میں کہنے لگے: میری طرف سے اس میں ایک ملین (۱۰ لاکھ) ڈالر شامل کرلیں لیکن میرے نام کا اعلان نہ کریں۔ وہی ابوبدر جو تجارت و معاملات میں ایک ریال زیادہ دینے یا چند تولے شہد چھوڑنے کا روادار نہیں تھا اللہ کی راہ میں بے حساب دیتا تھا۔ اللہ بھی انھیں بے حساب لوٹاتا تھا۔ کویت سے عراقی قبضہ ختم ہوا تو سب تاجر رو رہے تھے، لیکن ابوبدر جن کا مال اسباب دورانِ جنگ لوٹ لیا گیا تھا نو ماہ کے اندر اندر پہلے سے بھی زیادہ منافع کماچکا تھا۔
کویت پر عراقی جارحیت کے مشکل ایام میں بھی ابوبدر پوری طرح متحرک و فعال رہے۔ جیسے ہی کویت کی ’آزادی‘ کا اعلان ہوا، انھوں نے امیرکویت کے نام ایک اہم خط لکھا۔ ۲۷فروری ۱۹۹۱ء کو لکھے گئے اس خط میں انھوں نے مبارک باد دیتے ہوئے امیرکویت کو یاد دلایا کہ ’’اللہ کی نعمتوں کا شکر بندوں پر فرض ہے۔ اس شکر کی عملی صورت یہ ہے کہ ہر معاملے میں اسی پروردگار سے رجوع کیا جائے اور کویت کی حکومت اور عوام اپنی وہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں جو اللہ نے ان پر عائد کی ہیں تاکہ اللہ کی ان تمام ظاہری اور مستور نعمتوں کو دوام ملے جواس نے ہم پر کی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ جب ہم انھیں زمین پر متمکن کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے امیدکرتے ہیں کہ وہ کویت کا قومی دن اس حال میں دوبارہ لائے کہ کویت اور اس کی نسلوں کی تعمیر ِنو قرآن مجید اور سنت نبویؐ کی روشنی میں مکمل ہوچکی ہو‘‘۔ امیرکویت نے ۴مارچ کو جوابی خط میں ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر کویت میں ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس کے سربراہ اخوان ہی کے ایک بزرگ ڈاکٹر خالدالمذکور کو بنایا گیا، کمیٹی کا نام ہے: لجنۃ استکمال تطبیق الشریعۃ’’ کمیٹی براے تکمیل نفاذِ شریعت‘‘۔ کمیٹی اب تک بہت سی سفارشات تیار کرچکی ہے لیکن تشنۂ تنفیذ۔
ابوبدر سے گاہے بگاہے رابطہ رہتا تھا۔ کویت کے انتخابات کے بعد مبارک باد کافون کیا تو بے حد خوش تھے۔ کہنے لگے مصر میں اخوان، فلسطین میںحماس، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی، پاکستان میں متحدہ مجلس عمل، انڈونیشیا میں جسٹس پارٹی، مراکش میں انصاف و ترقی پارٹی اور اب کویت میں دستوری تحریک… ہر طرف سے اچھی خبریں، اسلامی بیداری کی تکمیل کی دلیل ہیں۔
۸۰سالہ عبداللہ المطوع آخری لمحے تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہے۔ ۴ستمبر کی صبح کا آغاز بھی انھوں نے قریبی مسجد میں نمازِفجر اور پھر نمازِ چاشت تک قرآن کی تلاوت و نوافل سے کیا۔ وہ اس سے ایک روز قبل ہی بیرون ملک سے آنکھ کا آپریشن کروا کے لوٹے تھے اور بہت خوش تھے کہ آج میں دوبارہ تلاوت کرنے کے قابل ہوگیا۔ عبداللہ المطوع کی پوری زندگی مسجد، نماز، قرآن اور انفاق کے گرد گھومتی تھی۔ وہ جہاں بھی ہوتے ان کے متلاشی افراد کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کس مسجد میں کس نماز کے بعد ملیں گے۔ آج بھی نمازِفجر کی ادایگی اور تلاوتِ قرآن کے بعد دسیوں لوگ اپنی اپنی درخواستیں لے کر آئے ہوئے تھے۔ ابوبدر نے سب درخواستوں کو دیکھا، ان پر مناسب ہدایات لکھیں۔ گھر جاکر ناشتہ کر کے کچھ دیر آرام کیا اور پھر دفتر چلے گئے۔نمازِ ظہر تک مصروف رہے۔ ان کے ایک عزیز دفتر آئے، ان سے مل کر نمازِ ظہر کے لیے وضو کرنے چلے ہی تھے کہ قدم بے جان ہوگئے۔ ابوبدر مسجد یا ہسپتال جانے سے پہلے ہی رفیقِ اعلیٰ کی طرف چلے گئے۔ ان کی وفات کے دن وہ ہزاروں یتیم ایک بار پھر سے یتیم ہوگئے جن کی کفالت ابوبدر کرتے تھے۔ یوں لگا اب وہ دفتر ویران ہوجائے گا جہاں ہر وقت چاردانگ عالم سے آنے والے حضرات اپنی اپنی درخواستیں لیے جمع ہوتے تھے اور سال کے ۱۲مہینے یوںلگتا تھا کہ یہاں انفاق کی سرگرمیوں کے علاوہ کوئی اور کام ہوتا ہی نہیں۔ کویت میں رفاہی سرگرمیوں کا دائرہ ساری خلیجی ریاستوں سے زیادہ منظم و وسیع تھا لیکن کویت کے اکثر اہلِ خیر کسی بھی درخواست پر کچھ دینے سے پہلے دیکھتے تھے کہ اس پر ابوبدر نے کچھ دیا ہے یا نہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ابوبدر نے ہر درخواست گزار کی ضرورت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔
ایک بار ابوبدر اپنے دفتر میں موجودتھے۔ باہر لوگوں کی بھیڑ تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد سیکرٹری نے بتایا کہ سب فارغ ہوگئے۔ ابوبدر نے باہر آکر پوچھا یہاں جو اتنا رش تھا وہ کیا ہوا؟ سیکرٹری نے بتایا کہ وہ آپ کے فلاں عزیز آئے تھے۔ انھوں نے سب کو فارغ کردیا کہ پسینوں میں شرابور اِن رنگ برنگے لوگوں کی بو.ُ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ابوبدر شدید ناراض ہوئے اور کہنے لگے: احمد تمھیں معلوم نہیں پسینے کی اسی بدبو نے ہی ہمیں جنت میں لے جانا ہے۔ میں یہاں رہوں یا نہ رہوں، یہ دفتر ان مستحق افراد کی درخواستیں یونہی لیتارہے گا۔
ابوبدر اپنے ان صدقاتِ جاریہ کے بارے میں بتاتے تھے کہ والد صاحب ۱۹۴۶ء میں اللہ کو پیارے ہوئے تو انھوں نے ۳۰ لاکھ ہندستانی روپے ترکے میں چھوڑے اور وصیت کی کہ ان میں ایک تہائی صدقات و خیرات کے لیے وقف ہیں اور دو تہائی ورثا کے لیے۔ ہم نے اس رقم کو اسی طرح الگ الگ رکھتے ہوئے تجارت میں لگادیا۔ سود، رشوت اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا۔ زکوٰۃ کی ایک ایک پائی ہمیشہ ادا کی۔ آج اللہ کا دیا رزق پوری دنیا میں پھل پھول رہا ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ گذشتہ سال عبداللہ المطوع کے بڑے صاحبزادے بدر، اللہ کو پیارے ہوگئے اور ایک سال سے کم عرصے میں ابوبدر خود بھی فردوسِ اعلیٰ کے مکیں ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد محترم قاضی حسین احمد صاحب اور راقم تعزیت کے لیے کویت گئے۔ ان کے رفقاے کار اور صاحبزادوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کویت میں پاکستانی احباب نے ان کے لیے تعزیتی اجلاس رکھا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے کہہ رہے تھے: ہمارے والدِمرحوم ہم سے زیادہ کارِخیر سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہمیں بھی ہمیشہ یہی وصیت کیا کرتے تھے کہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جینا اور نماز، سچائی اور کارہاے خیر کی حفاظت کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
صحیحین میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے اور انھوں نے میت کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ بعدازاں ایک اور جنازے کے پاس سے گزرے تو میت کے شر کا ذکرکیا۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیاواجب ہوگئی؟ آپؐ نے فرمایا: جس کی تم لوگوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لیے آگ واجب ہوگئی۔ آپ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
ابوبدر کے لیے پوری دنیا میں لوگوں کی زبان پر ذکرِخیر تھا۔ کویت کی تاریخ میں نماز جنازہ کے لیے اتنے لوگ پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں بندوں کی یہ گواہی ضرور قبول فرمائیں گے۔ آیئے ہم سب بھی جائزہ لیں کہ اپنے لیے دنیا میں کیسے کیسے گواہ بنا رہے ہیں اور اللہ کے گواہ تو ہرلمحے ہرانسان کے ساتھ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
۱۴ جولائی کو عالمی عدالت براے جنگی جرائم (International Criminal Court) نے سوڈان کے منتخب صدر عمر حسن البشیر پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ ایک سوڈانی چرواہے نے خبر سنی تو اپنے مقامی لہجے میں بے اختیار کہہ اُٹھا: دی حکایۃ تضحک الغنمایۃ’’یہ بات تو میری بکریوں کو بھی ہنسانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ خرطوم میں اس عالمی جرم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک مظاہرے میں مرکزی بینر تھا: You are joking Okambo ’’اوکامبو! تم شاید مذاق کر رہے ہو‘‘۔
اس عدالت کے اٹارنی جنرل لویس مورینو اوکامبو نے صدر عمر البشیر پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ (سوڈان کے مغربی صوبے) دارفور میں بڑے پیمانے پر ہونے والے قتلِ عام کی ذمہ داری سوڈانی حکومت اور اس کے نظام پر عائد ہوتی ہے اور وزیر انسانی امور احمد محمدہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قُشیب اس میں براہِ راست ملوث ہیں۔ عالمی عدالت نے مطالبہ کیا تھا کہ دونوں کو اس کے سپرد کیا جائے لیکن صدر عمر البشیرنے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنے شہری کو کسی کے سپرد نہیںکریں گے، وہ اگر واقعی کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیںتو ثبوت پیش کیے جائیں۔ ہم خود سوڈانی عدالت میں ان پر مقدمہ چلائیں گے۔ اوکامبو کا کہنا تھا کہ سوڈانی صدر نے نہ صرف مطلوبہ افراد کو پیش کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ خود ان کا پورا حکومتی نظام بھی اس قتلِ عام میں ملوث ہے۔ اس لیے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔
دیگر پہلوئوں کا جائزہ لینے سے پہلے آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ ’عالمی عدالت جرائم‘ کیا شے ہے۔ ٹھیک ۱۰ سال پہلے، یعنی جولائی ۱۹۹۸ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲۰ رکن ممالک نے روم میں جمع ہوکر ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ایک مستقل اور آزاد عالمی عدالت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ دستخط ہونے کے چار سال بعد یکم جولائی ۲۰۰۲ء سے یہ معاہدہ نافذ ہوگیا۔ اعلان کیا گیا کہ دنیاوی تاریخ میں یہ پہلی عالمی عدالت ہے جس کے ذریعے ہر بڑے مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ عالمی عدالت ِانصاف اور اِس نومولود عدالت میں فرق یہ بتایا گیا کہ اول الذکر اقوام متحدہ کے تابع ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور ریاستوں اور ممالک کے درمیان تنازعات نمٹاتی ہے، جب کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) اقوام متحدہ کی تابع نہیں اور یہ عدالت ممالک اور ریاستوں کے بجاے افراد کے خلاف شکایات سنا اور فیصلے صادر کیا کرے گی۔ نومبر ۲۰۰۷ء تک اس عدالت کے فیصلے پر دستخط اور توثیق (ratify) کرنے والے ملکوں کی تعداد ۱۰۵ تھی، مزید۴۱ ممالک نے دستخط تو کردیے تھے، لیکن اس کی توثیق نہیں کی تھی۔ اتفاق سے اس کی توثیق کرنے والے ممالک میں اُردن اور جیبوتی کے علاوہ کوئی عرب ملک شامل نہیں ہے۔ عدالت کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس کے دائرہ کار میں وہ ممالک شامل نہیں ہوں گے جنھوں نے اس کے قیام کی توثیق نہیں کی۔ قانوناً اور اخلاقاً تو ساری بات یہیں ختم ہوجاناچاہیے تھی لیکن یہاں بات قانون یا اخلاق کی نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے بہتے پانی کو نیچے بیٹھ کر گدلا کرنے والی ’بھیڑیئے کی منطق‘ سے ہے۔
عدالت کے ضوابط میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھی ہے کہ یہ عالمی عدالت قومی عدالتوں کی متبادل نہیں بلکہ انھیں تقویت دینے والا ادارہ ثابت ہوگی۔ ہاں اگر کوئی قومی عدالت اپنا یہ فرض پورا نہ کرے یا اسے کام نہ کرنے دیا جا رہا ہو تو ایسے میں عالمی عدالت یہ فرض پورا کرے گی۔ اس معاملے میں بھی، سوڈان کی عدالت ہی نہیں سوڈانی حکومت بھی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ دارفور میں جرائم کے مرتکب افراد کو عدالت میں لایا جائے۔ دارفور میں برسرِپیکار مسلح عناصر پڑوسی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں بیٹھے ہیں، انھیں لایا جائے۔ اگر کوئی حکومتی ذمہ دار ملوث ہے تو اس کے بارے میں بھی ثبوت لائے جائیں۔ ہم انصاف کرکے دکھائیں گے۔ سوڈان کی اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور عالمی عدالت کے ’ملک عبدالقیوم‘ یعنی اٹارنی جنرل اوکامبو نے انصاف کا ادنیٰ تقاضا پورا کیے اور فریقین کا موقف سنے بغیر ہی ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ملک کے منتخب صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
’عالمی انصاف‘ کی اصل حقیقت اسی امر سے واضح ہے کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے فردِجرم عائد کیے جانے اور وارنٹ جاری ہونے سے پہلے ہی امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کردیا تھا کہ آج سوڈانی صدر کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان ہوجائے گا۔ ’عالمی انصاف‘ کی یہ شان دار مثال پیش کیے جانے پر سوڈان کے اندر اور باہر ہر شخص ششدر اور ہکا بکا رہ گیا ہے۔ جس نے بھی یہ خبر سنی، اس نے اسے افغانستان و عراق پر حملے اور شام و ایران کو دھمکیوں کے سلسلے کا امریکی قدم قرار دیا اور جس نے بھی فردِ جرم سنی اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی عدالت واقعی کسی کو جنگی مجرم ہونے کی سزا دینا چاہتی ہے تو کیا اس کائنات میں ’امریکی بش‘ سے بڑا جنگی مجرم بھی کوئی ہوگا؟ صرف عراق میں ۱۵ لاکھ انسان موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں، کیا ان سب کی ہلاکت کی ذمہ داری بش اور اس کے حواریوں کے علاوہ کسی کے سر آتی ہے؟ کیا گوانٹانامو اور ابوغریب میں انسانیت کی تذلیل اور خود گوانٹانامو کے تفتیشی افسروں کا یہ بیان بھی کسی جنگی مجرم کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس میں بند سیکڑوں قیدیوں میں سے آدھے افراد کو محض گرفتاری کے معاوضوں کے لالچ میں پکڑوایا گیا اور وہ قطعی بے گناہ تھے۔
عالمی عدالت کے اس احمقانہ اقدام پر اب تک اکثر مسلم ممالک ،کئی غیر جانب دار ممالک اور ادارے اپنی تشویش و احتجاج کا علانیہ اظہار کرچکے ہیں۔ سب سے پہلے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے سوڈانی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے اپنی کامل یک جہتی کا اظہار کیا۔ پھر عرب لیگ نے مذمت کی اور وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا (اب ۱۹ جولائی کو منعقدہ اس اجلاس کی طرف سے بھی سوڈان کی ہرممکن قانونی و اخلاقی امداد کا اعلان ہوگیا ہے)۔ اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بھی اظہار تشویش و مذمت کیا لیکن سب سے اہم اور مؤثر بیان چین کی طرف سے آیا جس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیوجیان چائو نے کہا: ’’عالمی عدالت وہ فیصلے کرے جس سے دارفور میں قیامِ امن و استحکام میں مدد ملے، نہ کہ ایسے فیصلے کہ جن سے رہا سہا استحکام بھی خاک میں مل جائے۔ چین کا یہ بیان کئی حوالوں سے اہم ہے۔
سرکاری ردعمل کے علاوہ عوامی سطح پر بھی ہرجگہ اس کی مذمت کی گئی ہے۔ ایک مثال سے اس کے ہمہ پہلو اور عالم گیر ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موریتانیا عالمِ اسلام کے انتہائی مغرب میں بحرالکاہل کے کنارے واقع ایک غریب صحرائی مسلمان ملک ہے۔ تقریباً ۲برس پہلے اس کے فوجی جرنیل کا عہد ِاقتدار ختم ہوا، سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اور اب قومی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ اوکامبو کے اعلان کے بعد حکومتی ردعمل کے علاوہ ۷ اپوزیشن جماعتوں: پروگریسو پیپلزپارٹی، اتحاد و تبدیلی پارٹی، صواب پارٹی، جمہوری اشتراکی وحدت پارٹی، أمل (یعنی اُمید) پارٹی، اشتراکی پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی۔ موریتانیا کی اسلامی تحریک ’اصلاح و ترقی پارٹی اس سے پہلے ہی مختلف احتجاجی اقدامات کرچکی تھی۔
جنوبی سوڈان میں مئی ۱۹۸۳ء سے علیحدگی کی تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جان گرنگ کی قیادت میں جاری اس جنگ کی امریکا اور صہیونی ریاست سمیت سوڈان کے حصے بخرے کرنے کے لیے کوشاں ہر عالمی طاقت نے ہر ممکن مدد کی۔ اسے مسلم عیسائی جنگ کا رنگ دیا گیا، حالانکہ جنوبیوں کی ایک مختصر تعداد ہی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ اکثریت بے مذہب، یعنی کسی خدا کو نہ ماننے والی تھی لیکن مسلم عیسائی جنگ میں جو تعصب پیدا کیا جاسکتا ہے وہ صرف علیحدگی پسندی میں نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیر کی زیرقیادت ’انقلاب نجات‘ کے نام پر تبدیلی آئی۔ اس وقت گرنگ کی فوجیں دارالحکومت خرطوم پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ انقلابی قیادت نے اس کی راہ میں قومی سطح کی جہادی مزاحمت کی دیوار کھڑی کردی۔ پوری قوم کے لیے اس میں شرکت لازمی قرار دی۔ سرکاری عمّال اور علما و مشائخ سمیت سب بنفس نفیس محاذ جنگ پر پہنچے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے بھی اپنے افراد خانہ کی جانی قربانیاں پیش کیں اور جنوبی بغاوت ہر طرح کی عالمی مدد کے باوجود کمزور ہوتی چلی گئی۔
اسی دوران میں، کیمیاوی ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے ہوئے دارالحکومت خرطوم میں واقع ادویات کے ایک کارخانے پر براہِ راست امریکی حملہ کیا گیا، پابندیاں لگائی گئیں، مزید دھمکیاں دی گئیں، پڑوسی ملکوں سے لشکرکشی کروائی گئی، اپوزیشن پارٹیوں کو مصر میں جمع کر کے ان کے مشترکہ محاذ تشکیل دیے گئے لیکن جب اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں… تو بالآخر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور کئی طویل ادوار کے بعد ۹جولائی ۲۰۰۵ء کو حتمی و تاریخی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ شمال و جنوب کو ملاکر ایک مشترکہ حکومت تشکیل دی گئی اور جنوبیوں کو اس طور شریک کار کیا گیا کہ صدر کے ساتھ سینیر نائب صدر جنوبی، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتوں میں ان کی شرکت اور تقسیم الثروۃ والسلطۃ (تقسیم اقتدار و ثروت )کے فارمولے کا پورا پورا احترام کیا گیا۔ اس معاہدے کی خطرناک ترین شق یہ ہے کہ یہ سارا عرصہ ایک عبوری دور ہے۔ اس کے ۶برس پورے ہونے کے بعد جنوبی آبادی میں ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ لوگ علیحدگی چاہتے ہیں یا اشتراک۔ حکومت اس امر پر مطمئن ہے کہ ۶ سال کے اشتراک و قربت کے بعد علیحدگی کے لیے کوشاں اندرونی اور بیرونی عناصر کی خواہش کے باوجود آبادی کی اکثریت ملک کی تقسیم کے خلاف راے دے گی۔
اسی دوران میں ایک اہم ترین تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ اہلِ سوڈان کے لیے زمین نے اپنے خزانے اُگل دیے۔ پہلے بڑے پیمانے پر سونے کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء تک خام سونے کی پیداوار۵ ٹن سالانہ تک جاپہنچی۔ پھر کالے سونے، یعنی تیل کے نہ ختم ہونے والے خزانے دریافت ہوگئے۔ پہلے امریکی کمپنیاں تیل کی تلاش میں مگن رہیں اور ۴ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی لیکن پھر وہ اچانک سب کچھ لپیٹ کر واپس چلی گئیں۔ اس واپسی کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق: امریکیوں نے تیل کی دریافت کے بجاے سوڈان پر اقتصادی پابندیوں کا فیصلہ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز سمجھا۔ پابندیاں عائد ہوگئیں، امریکی کمپنیاں نکل گئیں لیکن سوڈان نے مایوس ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بجاے چین کا رخ کیا۔ سوڈان چین اشتراک نے نہ صرف چین کو تیل کا ایک بڑا سہارا فراہم کیا بلکہ سوڈان کی قسمت بھی تبدیل کرنا شروع کردی۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق امریکیوں نے چین سے ہمارا اشتراک ناقابلِ تلافی جرم قرار دے دیا اور پہلے سے جاری سازشیں اور دبائو ناقابلِ بیان حد تک بڑھنا شروع ہوگیا۔ القاعدہ، عالمی دہشت گردی اور نہ جانے کیا کیا الزام عائد کردیے۔ جنوب کا جنگی محاذ مذاکرات و معاہدے کی منزلیں طے کرتا ہوا ٹھنڈا ہوا تو دارفور کو جہنم زار بنا دیا گیا۔
صہیونی لابی نے دارفور کے مسئلے کو دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ثابت کرنے کے لیے مؤثر اور مضبوط ابلاغیاتی، سفارتی مہم چلائی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: صہیونی لابی نے صدر بش کو قائل کیا کہ وہ دارفور کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں اور ان کی بنیاد پر سوڈان پر پابندیاں عائد کریں (یکم جون ۲۰۰۷ئ)۔ ان صہیونی کوششوں میں مختلف این جی اوز پر خصوصی توجہ دی گئی۔ واشنگٹن میں قائم غیرسرکاری تنظیم ’دارفور بچائو اتحاد‘ کا سالانہ علانیہ بجٹ ۱۵ ملین ڈالر رکھا گیا اور جو ظاہر نہیں کیا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ان تنظیموں کے ذریعے ایک ہی دن میں واشنگٹن سمیت ۱۸مختلف امریکی شہروں میں مظاہرے کروائے گئے۔ اس صہیونی نفوذ کی تفصیل طویل ہے، لیکن نتیجہ یہی ہے کہ جنوبی علیحدگی کی مضبوط بنیاد رکھ دینے کے بعد اب مغربی سوڈان کو الگ کرنے پر توجہ مرکوزکی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مشرقی سوڈان کے مختلف قبائل کو بھی اُکسانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
ان ہمہ پہلو سازشوں کا نتیجہ کیا نکلے گا … یہ پردۂ غیب میں ہے، لیکن جو مظاہر دکھائی دے رہے ہیں، ان کے مطابق سوڈانی عوام اور حکومت کو آیندہ عرصے میں شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قواعدو ضوابط کے مطابق عالمی عدالت کے ڈرامے کو کئی سال تک بھی طول دیا جاسکتا ہے۔ کڑی اقتصادی پابندیوں اور مسلح بغاوتوں کے ہتھیار بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دارفور کے باغیوں اور حکومت میں شریک جنوبی اتحادیوں کے درمیان بھی ’رشتے ناطے‘ طے کروائے جاسکتے ہیں۔ ان تمام احتمالات و خدشات کے باوجود سوڈانی حکومت اور عوام کامل اطمینان سے سرشار ہیں۔ ان کے عزم و ارادے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی دیتی۔ہر طرف سے بہ یک زبان کہا جا رہا ہے کہ صدر عمر حسن البشیرکے لیے یہ آزمایش مزید عوامی تائید و حمایت کا موجب بنی ہے۔ انھوں نے آج پھر اعلان کیا ہے: ’’تم سوڈانی شہریوں کو سپرد کرنے کا مطالبہ کررہے ہو، خدا کی قسم! ہم اپنے کسی شہری کا ایک بال بھی تمھارے حوالے نہیں کریںگے‘‘۔
۲۳ جولائی کو سوڈانی صدر نے دارفور میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا۔ الجزیرہ چینل پر تاحد نظر مردوں اور عورتوں کے سر ہی سر تھے۔ جوش و خروش کا ایک عالم تھا۔ نعرئہ تکبیر اور حسن البشیر اور دارفور کے نعرے لگ رہے تھے۔
ایھا الامیریکان… لیکم تدربنا
بنور اللّٰہ ونور الایمان… لیکم نسلحنا
امریکیو! ہم نے تمھارے مقابلے کے لیے ہی فوجی تربیت حاصل کی ہے، ہم نے خود کو اللہ اور ایمان کے نور سے مسلح تم سے مقابلے کے لیے ہی کیا ہے۔
تصحیح: ___ جولائی کے شمارے میں صفحہ ۵۱ کی سطر ۱۹ میں دو ہزار ارب کو دو ارب پڑھا جائے۔
___ اسی شمارے میں صفحہ ۹۷ پر درست لفظ دفاعِ قانونِ توہینِ رسالتؐ ہے۔
لیبیا کا صدر عرب حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’ہمیں اس ہال کی چار دیواری کے علاوہ اور کوئی چیز اکٹھا کرنے والی نہیں بچی، افسوس ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مخاصمت رکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہیں، دوسرے کو پہنچنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں… نتیجہ یہ ہے کہ عربوں کی عزت خاک میں مل چکی ہے، عربوں کا وجود قصۂ پارینہ بن گیا ہے، ان کا ماضی… ان کا مستقبل، سب ختم ہوچکا ہے۔
صدر قذافی کے عقیدے، نظریات، سیاست اور حکمت عملی سے بہت سے اختلافات کیے جاسکتے ہیں۔ اپنے شہریوں کی آزادیاں سلب کرلینے اور امریکا سے دشمنی کے دعووں کے بعداچانک اس کے سامنے ڈھیر ہوجانے کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن دو ماہ قبل ۳۰مارچ کو شام کے دارالحکومت دمشق میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے ان کا یہ خطاب عالمِ عرب کی بالکل درست تصویر کشی کرتا ہے۔ گذشتہ ماہ، یعنی مئی ۲۰۰۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ پر یہودیوں کے قبضے کو ۶۰سال پورے ہوگئے۔ عین اس وقت کہ جب فلسطین پر قابض صہیونی ریاست اپنا ۶۰سالہ جشن منا رہی تھی، عالمِ اسلام فتنہ و فساد اور ہلاکت و خوں ریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ صومالیہ، چیچنیا، کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین تو پہلے ہی خاک و خون کی نذر تھے، صرف عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک ۱۰ لاکھ، جی ہاں ۱۰ لاکھ سے زائد بے گناہ موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں لیکن مئی میں دو مزید مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی برپا کردی گئی۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت کی سڑکوں پر حزب اللہ اور حکومتی جماعتوں کے درمیان گولیوں، مارٹر گولوں اور آتش زدگی کی وارداتوں کا تبادلہ ہوا اور سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور اس کے جڑواں شہر اُم درمان پر دارفور کے مسلمان باغی گروہ نے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھاوا بول دیا اور سیکڑوں افراد کو زندگی سے محروم کردیا۔
حزب اللہ ہمیشہ سے صہیونی و امریکی حملوں کا نشانہ رہی ہے، لیکن ۲۰۰۰ء میں اس کی مزاحمت و جہاد سے مجبور ہوکر جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا اور ۲۰۰۶ء میں تمام تر امریکی و اسرائیلی مہلک اسلحے سے لڑی جانے والی جنگ میں اس سے شکست کھا جانے کے بعد حزب اللہ اور اس کی عسکری طاقت خاص طور پر ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ اس لیے اب ایک طرف تو اسے اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر مہیب پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی عسکری قوت کو سُنّی ممالک و عوام کے لیے خطرے کی علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے، اس سے اسلحہ چھین لینے کے لیے عالمی وعلاقائی اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اس کے اور لبنانی حکومت کے درمیان سالہا سال پر محیط ہمہ پہلو کش مکش شروع کروا دی گئی ہے۔ ۷مئی ۲۰۰۸ء کو اس کش مکش کا ایک المناک مظاہرہ بیروت کی سڑکوں پر کیا گیا۔
لبنان نمایاں طور پر مختلف مذاہب اور قومیتوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ اس تنوع نے ملک کو کئی بار سنگین خانہ جنگی کے شعلوں کی نذر بھی کیا ہے۔ خاص طور پر ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۸ء تک کی خانہ جنگی نے ’لبنانائزیشن‘ کو اندرونی خلفشار وتباہی کے لیے ضرب المثل بنا دیا۔لیکن بالآخر سعودی عرب کے شہر طائف میں امریکا و شام کے تعاون سے ہونے والے معاہدۂ طائف پر اتفاقِ راے نے سب کو اکٹھا کردیا۔ اس اتفاقِ راے کے نتیجے میں لبنان کا صدر ہمیشہ مارونی مسیحی، وزیراعظم سُنی مسلم، اسمبلی کا اسپیکر شیعہ مسلم، ڈپٹی اسپیکر آرتھوڈکس مسیحی اور ارکانِ پارلیمنٹ آدھے مسیحی اور آدھے مسلمان ہوتے ہیں۔ حالیہ سیاسی تقسیم کے نتیجے میں ملک دو بڑے کیمپوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک جانب مسیحی صدر (جس کا دوبارہ انتخاب التوا کا شکار ہے) شیعہ اسپیکر (تحریک امل، حزب اللہ) اور بعض چھوٹے دھڑے ہیں جو اب اپوزیشن کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف سُنّی وزیراعظم (حریری)، درزی رہنما ولید جنبلاط اور بعض دیگر چھوٹے گروہ ہیں۔ حکومتی دھڑا امریکی حلیف سمجھا جاتا ہے اور اپوزیشن شام اور ایران کے زیراثر گردانی جاتی ہے۔ اپوزیشن شکوہ کرتی ہے کہ حکومت امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر چلتے ہوئے حزب اللہ کی طاقت و مزاحمت کا خاتمہ چاہتی ہے اور حکومت الزام لگاتی ہے کہ حزب اللہ یہاں ایران اور شام کا تسلط چاہتی ہے اور ان کے مفادات کی محافظ ہے۔
اس تناظر میں ماہ رواں کے اوائل میں حکومت کے دو حساس فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا: ایک تو بیروت ایئرپورٹ پر سیکورٹی کے سربراہ کو جو حزب اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے منصب سے ہٹانے کا اور دوسرے، حزب اللہ کے نجی مواصلاتی نظام کو ختم کرنے کا۔ ایئرپورٹ سیکورٹی کے سربراہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ یہاں خفیہ کیمروں کے ذریعے جاسوسی کرتا ہے اور مواصلاتی نظام کے بارے میں کہا گیا کہ اسے اپنی عسکری ضرورتوں سے کہیںوسیع تر کرلیا گیا ہے اور حزب اللہ اپنے آپ کو ریاست کے اندر الگ ریاست سمجھتی ہے۔
اپوزیشن کی طرف سے یہ دونوں فیصلے مسترد کرنے اور ۷مئی کو ان کے خلاف ہڑتال اور پُرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے جیسے ہی دن کاآغاز ہوا بیروت کے مختلف علاقوں میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔ احتجاج کو باقاعدہ عسکری جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا تو حزب کا پلہ بھاری رہنا بدیہی تھا۔ اس کے افراد نے تیزی سے بیروت میں پیش قدمی شروع کر دی اور پھر دو روز کے اندر اندر اسی تیزی سے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔ اس کے ذمہ داران نے اعلان کیا کہ ہمارے پُرامن احتجاج کو ایک سازش کی بنیاد پر مسلح جھڑپوں میں تبدیل کردیا گیا، ہم نے مجبوراً دفاعی اقدامات کیے اور صورتِ حال قابو میں آتے ہی عسکری مظاہر ختم کردیے۔ حکومتی کیمپ کا کہنا ہے کہ مسلح کارروائیوں کا آغاز حزب کی طرف سے کیا گیا اور حکومت کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی، نیز یہ کہ حزب اللہ عالمی دبائو سے خوف زدہ ہوکر پسپا ہوگئی۔ اگرچہ طرفین ۲۲مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک صلح و معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں لیکن دونوں طرف سے الزامات و جوابات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگر آنے والے ماہ و ایام میں دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو یہ یقینا ۶۰سالہ جشن فتح منانے والے صہیونیوں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے سوا کسی کے لیے خیرومسرت کا باعث نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ فیصل المولاوی نے بھی اپنے بیانات میں اسی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ انھوں نے فریقین میں سے کسی کو بھی بیروت کے المناک واقعات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا۔ حزب اللہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ اپنا اسلحہ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف استعمال کرکے دشمن کے بچھائے جال میں نہ پھنسے لیکن ساتھ ہی حزب اللہ کی عسکری قوت اور اسلحے کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس اسلحے کا استعمال صرف ایک ہی رہنے دینا چاہیے اور وہ ہے صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت۔
بیروت کے حالیہ واقعات کو کئی مغربی اور صہیونی مبصرین نے ایران سے جوڑتے ہوئے خطے کے ممالک کو اس کی توسیع پذیر طاقت سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کئی عرب سرکاری ذرائع ابلاغ بھی اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ علاقے کی حکومتوں اور عوام کو ڈرایا اور باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی جنگ ہے۔ ایران نے صدام کے بعد عراق میں قائم شیعہ حکومت، شام کے ساتھ اپنے مضبوط تر تعلقات اور لبنان میں حزب اللہ کی ناقابلِ یقین عسکری طاقت کے ذریعے خطے میں ایک شیعہ ہلال تشکیل دے لیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایران نے مشکل وقت میں حماس کی مالی امداد کر کے اسے بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اس طرح وہ ایک تشدد پسند، ریڈیکل اسلام کو ترویج دیتے ہوئے پورے خطے پر قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتاہے۔ بعض صہیونی تجزیہ نگاروں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایرانی حکومت بیروت میں حزب اللہ کی کارروائیوں کی طرح حماس کی عسکری طاقت کو بھی فلسطین کے اندر اور باہر استعمال کرسکتی ہے۔ وہ غزہ کے بعد عالمی سرحدیں اور رفح کا پھاٹک پامال کرتے ہوئے مصر میں انقلاب کے لیے کوشاں ہوسکتی ہے۔ مصر میں موجود اخوان المسلمون اندر سے اُٹھ کھڑے ہوںگے اور یہاں ایران دوست اسلامی انقلاب برپا کردیا جائے گا۔
صہیونی وزیرخارجہ سیبی لیفنی نے بیان دیا: ’’اصل تنازع عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں، اعتدال پسند روشن خیالوں اور شدت پسندوں کے درمیان ہے‘‘۔ معروف اسرائیلی روزنامے ھاآرٹس میں ۲۴ مئی کو عکیناالدارنامی تجزیہ نگار دہائی دیتا ہے: ’’اب یہ امر لبنانیوں، فلسطینیوں، اُردنیوں، مصریوں اور سعودیوں کے مابین قدر مشترک ہے… حقیقت پسند حکمران، ریڈیکل اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ریڈیکل عناصر شیعہ ہوں یا سُنّی، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خون بہاکر خوشی سے رقص کرتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے موسم گرما (حزب اللہ اسرائیل لڑائی) کے بعد سے ان کا یہ خوف شدید تر ہوگیا ہے‘‘۔
معروف دانش ور رابرٹ فسک نے اگرچہ بیروت کے واقعات کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ: ’’یہ واقعات امریکا کے لیے مزید ذلت اور ایران کی ایک اور جیت ہیں‘‘۔ انھوں نے ۱۲مئی کو برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ میں شائع اپنے مضمون میںاس لڑائی کو ’’مشرقِ وسطیٰ میں جاری امریکا مخالف لڑائی کاحصہ‘‘ قرار دیا ہے جس میں امریکا اور اس کے حواریوں کو شکست در شکست ہورہی ہے، لیکن عملاً انھوں نے بھی اس جنگ میں امریکی ہدف کی نشان دہی کی ہے۔ اس ہدف کے بارے میں بدنامِ زمانہ ’موساد‘ کے سابق سربراہ افرایم ہلیفی ۲۰مئی کے اسرائیلی روزنامے یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’امریکا کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایران پر بڑھتے ہوئے دبائو میں مزید اضافہ کرے۔ اقتصادی اور مالیاتی دبائو سے لے کر خطے میں عسکری قوت جمع کرنے اور اسے استعمال کرنے کی دھمکیوں تک ہرممکن دبائو… صرف اسی دبائو کے نتیجے میں ہی ایران کو مذاکرات کی میز تک لایا جاسکتا ہے‘‘۔ پھر لکھتا ہے: ’’اگر امریکا اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو ہمیں مزید خبردار رہنا ہوگا، کہیں ایسانہ ہو کہ مذاکرات کی میز پر ہماری (اسرائیل کی) کوئی جگہ ہی نہ رکھی جائے… ہمارے لیے یہ امر فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
اس صہیونی ہلاشیری اور خطے میں حالیہ امریکی عسکری نقل و حرکت کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ بش صاحب اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے پہلے ایران پر ہلہ بولنے کی حماقت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمِ عرب کے بڑے روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق مئی کے پہلے ۲۰ روز میں ۱۹جنگی جہازوں نے نہرسویز عبور کی۔ یہ آمدورفت ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنے مختصر عرصے کے دوران میں اتنے جنگی جہاز خطے میں نہیں آئے۔ عراق میں اعترافِ شکست، امریکی فوجیوں کے زمین بوس مورال اور جنگ کی صورت میں ایران کی طرف سے امریکا و اسرائیل کو برابر کا جواب دینے کے اعلانات ایران پر حملے کے صہیونی ارادوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ہیں۔
ایران سمیت ہر خطرے کے خلاف عالمی صف بندی اور باقاعدہ حملوں کے لیے صہیونی عناصر کی بے تابی تو بآسانی سمجھ آجانے والی حقیقت ہے، لیکن سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ خود عرب اور مسلم ممالک اپنے ازلی و ابدی دشمن کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے کیوں مرے جارہے ہیں۔ یہ تو سمجھ آتا ہے کہ مسجداقصیٰ اور سرزمینِ اقصیٰ پر ۶۰سالہ قبضے کا جشن منانے کے لیے (واضح رہے کہ فلسطین سے برطانوی انتداب ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو ختم ہوا۔ اسی روز پہلے صہیونی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے قیامِ اسرائیل کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے الفاظ تھے: ’’ہم طے کرتے ہیں کہ آج رات عبرانی سال ۵۷۰۸ کے مطابق ۶مئی اور عیسوی سال ۱۹۴۸ء کے مطابق ۱۵مئی کو جس لمحے برطانوی انتداب اختتام پذیر ہوگا، اقوام متحدہ کی قرارداد (۱۸۱- ۲۹ نومبر ۴۷ئ) کی روشنی میں اور اپنے فطری و تاریخی حق کی بنیاد پر، سرزمین اسرائیل پر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہیں)، بش سمیت ۴۰ عالمی شخصیات ۱۴ مئی کو تل ابیب پہنچیں اور ۱۵ مئی کو صہیونی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بش اعلان کرے کہ اسرائیلی خود کو صرف سات ملین نہ سمجھیں، ہم اور آپ مل کر ۳۰۷ ملین ہیں اور اپنے مشترک دشمن کے خلاف شانہ بشانہ و یک جان ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ مصر جیسے اہم مسلمان ملک نے اس موقع پر ناجائز صہیونی ریاست کو۲ئ۱ ارب مکعب میٹر سالانہ کی مقدار میں قدرتی گیس کی فراہمی کیوں شروع کردی۔ کویتی ہفت روزہ المجتمع اور دیگر رپورٹوں کے مطابق یکم مئی سے اسرائیلی ریاست کو یہ گیس ناقابلِ بیان حد تک کم قیمت میں فروخت کی جارہی ہے۔ جس گیس کی قیمت اس وقت عالمی منڈی میں ساڑھے نو ڈالر فی یونٹ ہے وہ اسرائیل کو ایک ڈالر سے بھی کم، یعنی صرف ۷۵ سنٹ فی یونٹ میں فراہم کی جارہی ہے۔ جون سے اس کی مقدار بڑھا کر ۷ئ۱ارب مکعب میٹر سالانہ کردی جائے گی اور یہ ترسیل آیندہ ۲۰ سال تک جاری رکھی جائے گی۔
قرآن کریم جن کے بارے میں ’انبیاؑ کے قاتل‘ ہونے اور ’مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے آگے بڑھے‘ ہونے کی خبر دیتا ہے، ان کے ساتھ سخاوت وفیاضی کا یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب اس نے مصری حدود سے متصل غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینیوں کو محصور کررکھا ہے۔ انھیں زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کر رکھا ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس تو کجا، پینے کے لیے پانی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر دانۂ گندم پر روک لگا رکھی ہے۔ شام، جو خود صہیونی جارحیت کا نشانہ بن چکا ہے اور جس کی وادی ’جولان‘ اب بھی مقبوضہ ہے، عین انھی دنوں ان اسرائیلی خبروں کی تصدیق کررہا ہے کہ: ’’ترکی کی وساطت سے شام اسرائیل مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں اوریہ مذاکراتی عمل جاری رہے گا‘‘۔ ایک اسرائیلی وزیر نے بیان دیا ہے کہ صہیونی وزیراعظم اولمرٹ نے گذشتہ عرصے میں شامی صدر بشارالاسد کو اس مضمون کے ۲۰ پیغام بھیجے ہیں کہ ایران، حزب اللہ اور حماس سے ناتا توڑ لو، ہم تمھارے سارے دلدّر دُور کردیں گے۔ مسلمان ممالک کے اکثر حکمرانوں کی اس فراست و دانائی پر حیرت وتأسف اور اناللہ … پڑھ لینے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکمران اپنے اقتدار کے لیے ’امریکی خدا‘ کی رضاجوئی اور امریکی دل جوئی کے لیے ’سگِ لیلیٰ‘ کی بلائیں لینا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب خود اسرائیلیوں کو دیکھیں تو ان کے روزنامے یدیعوت احرونوت کے تازہ سروے کے مطابق ان کی صرف چار فی صد آبادی صہیونی ریاست میں سکون سے رہنا ممکن سمجھتی ہے۔ ۵۲ فی صد نے کہا کہ وہ کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کرسکتے ہیں۔ ۳۰ فی صد نے کہا کہ ہمیں اپنا صہیونی ہونا باعث عار و شرم لگتا ہے۔ ۲۲ فی صد نے اقرار کیا کہ صہیونی ریاست بتدریج زوال و فنا کی طرف جارہی ہے۔
۳۰ اپریل کو دوحہ میں علامہ یوسف قرضاوی سے ملاقات کے لیے چوٹی کے تین برطانوی یہودی رِبی.ّ ان کے گھر آئے ، انھوں نے اعتراف کیا کہ’’صہیونی ریاست پوری دنیا کے لیے شر کا باعث ہے‘‘۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ’’اس ریاست کا وجود تورات کی تعلیمات کے منافی اور یہودیوں کے لیے تباہی کا باعث ہے‘‘۔ اَھارون کوہن، اسرائیل ڈووِڈ وِس اور ڈووِڈ شلومو وِلڈ مین نامی ان تینوں مذہبی رہنمائوں کاشمار تورات کے بزرگ اساتذہ میں ہوتا ہے اور انھیں ’ربانی یہود‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’تورات کے حقائق اور دو ہزار سالہ یہودی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اسرائیلی ریاست کو بالآخر نیست و نابود ہونا ہے‘‘۔
کیا صہیونی ریاست کے ظالم بھیڑیوں، ان کے ہاتھوں یرغمال بنے امریکا اور اس کے سامنے سجدہ ریز مسلم حکمرانوں کو اس گواہی کے بعد بھی کوئی اور گواہی درکار ہے؟
ترکی کے سیاسی نظام پر نگاہ دوڑائیں تو دو حقیقتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اتاترک نے وہاں ایک ایسا ظالمانہ نظام ورثے میں چھوڑا ہے جس میں اسلام پسند قوتوں کے سامنے ہردروازہ بندکردیا گیا ہے، اور دوسری اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی تاریخ میں جب بھی اس نظام کے بل بوتے پر اسلامی قوتوں کا راستہ روکا گیا وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئیں۔ ترکی کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اسی عمل اور ردعمل کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔
آج سے ۱۰۰ برس قبل ۱۹۰۸ء میں عثمانی خلافت کی آخری مضبوط نشانی سلطان عبدالحمید کا اقتدار ختم کیا گیا اور آج سے ۸۵ سال پہلے اپریل ۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک اور اس کی جمہوری پیپلزپارٹی کا اقتدار شروع ہوگیا۔ ۱۹۳۸ء میں اتاترک تو آں جہانی ہوگیا لیکن اس کی پارٹی ۱۹۴۶ء تک اکلوتی حکمران رہی۔ اتاترک کی موت سے ایک سال قبل ۱۹۳۷ء تک ترکی کا دستور یہی کہتا تھا کہ ’’ترکی کا سرکاری مذہب اسلام ہے‘‘ لیکن پھر جامع ترامیم کرتے ہوئے دستور کی شق ۲ میں لکھ دیاگیا کہ ’’ترکی ایک سیکولر ریاست ہے‘‘، اور یہ شق ناقابلِ تبدیل ہے۔ اتاترک نے اذان و نماز سے لے کر تلاوتِ قرآن تک اور انفرادی لباس و انداز سے لے کر ریاستی نظام و احکام تک ہرچیز سے اسلام کی روح و شناخت کو بے دخل کردیا۔ اتاترک کے ہوتے ہوئے نہ کسی کو اس کی مخالفت کی اجازت تھی اور نہ اس کی پارٹی کے مقابلے میں کوئی اور جماعت ہی تشکیل دینے کی۔ ایک بار اس کے ذاتی دوست فتحی اوقیار نے آزاد جمہوری پارٹی کے نام سے الگ جماعت تشکیل دی تو اتاترک مخالف عناصر اس میں جمع ہونے لگے۔ جلد ہی یہ جماعت کالعدم قرار دے دی گئی۔
اتاترک کے بعد عصمت اینونو حکمران بنا، تھا تو وہ بھی سیکولر لیکن وہ جان چکا تھا کہ ترکی میں یک جماعتی نظام اب مزید نہیں چل سکتا، اس نے بعض اپوزیشن رہنمائوں کو پارٹی بنانے کی اجازت دے دی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنی اور اس نے کچھ ہی عرصے کے بعد ہونے والے انتخابات میں ۴۶ نشستیں حاصل کر لیں۔ ۱۹۵۰ء میں اگلے انتخاب ہوئے تو اس نو تشکیل شدہ جماعت نے میدان مارلیا۔ اتاترک کی پیپلزپارٹی کو نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا بلکہ ایک ایک کر کے ان اسلامی مظاہر کو بھی بحال ہوتے دیکھنے کا عذاب سہنا پڑا جنھیں اتاترک نے بڑے جبروغرور سے ختم کیا تھا۔ سالہا سال کی پابندی کے بعد مساجد کے میناروںسے عربی میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو ترک دیوانہ وار سڑکوں پر ہی سجدہ ریز ہوگئے۔ پھر قرآن کریم کی تلاوت دوبارہ سے ہونے لگی۔ دینی تعلیم کے ادارے کھل گئے اور فوج میں بھی دینی تعلیم کا احیا ہوگیا۔
ترکی کے جدید سیاسی نظام میں اس بات کا سختی سے اہتمام کیا گیا تھا کہ فوج کی سرپرستی اور سیاسی جماعتوں کے قانون کا لٹھ استعمال کرتے ہوئے ہر اسلام پسند طاقت کا راستہ روک دیا جائے۔ اسلامی عناصر کسی صورت مجتمع ہوبھی جائیں تو وہ ایک چھوٹی جماعت سے زیادہ حیثیت اختیار نہ کرسکیں۔ پہلے تو یہ اسلامی عناصر مختلف سیاسی جماعتوں کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے لیکن ۱۹۶۹ء کے آخر میں پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ملّی نظام پارٹی کے نام سے ایک مستقل بالذات پارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ دستوری پابندی کے باعث انھوں نے اپنے اسلامی ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن سب جانتے تھے کہ ان کی اصل شناخت کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ اس پارٹی کی طرف متوجہ ہوتے ۱۹۷۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ نجم الدین اربکان نے ملّی سلامت پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔ ملّی سلامت پارٹی نے کئی دیگر جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا شروع کیے ہی تھے کہ ۱۹۸۰ء میں ایک اور فوجی انقلاب کے ذریعے اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں، اربکان نے رفاہ پارٹی تشکیل دے دی اور احتیاط و کامیابی سے سیاسی سفر طے کرتے ہوئے ۹۰ کی دہائی میں بلدیاتی اداروں میں شان دار کامیابی حاصل کی۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کی بنیاد پر ۱۹۹۵ء میں رفاہ پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں بھی شان دار کامیابی حاصل کرلی اور ۱۹۹۶ء میں اربکان مخلوط حکومت کے سربراہ منتخب ہوگئے۔ حکومت کا ایک برس بھی پورا نہیں کیا تھا کہ سیکولرزم کی محافظ ہونے کی دعوے دار فوج نے دستوری عدالت کے ذریعے ان کی حکومت ختم اور پارٹی غیرقانونی قرار دے دی۔
کسی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اربکان نے فضیلت پارٹی تشکیل دے دی۔ رفاہ پر پابندی سے تین ماہ قبل ڈاکٹر اربکان سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تب فضا میں پابندی کا ارتعاش محسوس کیا جاسکتا تھا، انھوں نے کہا کہ رفاہ کے ہردفتر پر ہمارے نام کا مخفف آر پی لکھا ہوا ہے۔ ہمیں معمولی سی تبدیلی کرنا پڑے گی اور یہی دفاتر ایف پی، یعنی فضیلت پارٹی کے مراکز بن جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا لیکن جلد ہی فضیلت کو بھی رفاہ کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اربکان اور ان کے ساتھیوں نے سعادت پارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر عبداللہ گل، طیب اردوگان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی علیحدہ اور وسیع تر عوامی نمایندگی کی حامل ’انصاف و ترقی پارٹی‘ (جس کے ترکی نام کا مخفف اے کے پی ہے) بنانے کا اعلان کردیا۔ ہراسلام پسند کو اس تقسیم پر تشویش ہوئی لیکن ترک عوام کی اکثریت یہی سمجھی کہ یہ تقسیم حکمت عملی ہی کا حصہ ہے، بار بار پابندیوں کی تلوار سے بچنے کے لیے ’استاد‘ نے خود ہی اپنے ’شاگردوں‘ کو علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا ہے۔
نومبر ۲۰۰۲ء میں انتخابات ہوئے تو اے کے پی نے تمام سیاسی پارٹیوں کو تاریخی شکست دے دی۔ طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی بنیادی شناخت محنتی، امین اور باصلاحیت قیادت کی ہے۔ گذشتہ پارلیمانی سیشن کے دوران انھوں نے اپنے نام کے دونوں حصوں انصاف و ترقی کی لاج رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے کرپشن کے دروازے بند کرتے ہوئے پورے معاشی نظام کا ڈھانچا تبدیل کردیا۔ افراطِ زر کا تناسب ۶۵ اور ۷۰ فی صد سے کم کر کے ۹ فی صد تک پہنچا دیا۔ سود کا تناسب ۱۰۵ فی صد سے کم کر کے ۱۹ فی صد تک لے آئے، بیرونی قرضے ۲۳ ارب ڈالر سے کم کرکے ۹ ارب ڈالر تک لے آئے۔ ترکی کی برآمدات ۳۶ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۹۵ارب ڈالر تک جاپہنچیں، فی کس آمدنی ۲۵۰۰ ڈالر سے بڑھ کر ۵۵۰۰ ڈالر فی کس ہوگئی، غریب خاندانوں کے لیے ۲لاکھ ۸۰ ہزار گھر بنوا کر انتہائی آسان قسطوں پر دے دیے، سردی کے موسم میں غریب خاندانوں میں ہر سال ۱۵ لاکھ ٹن کوئلہ مفت تقسیم کیا۔ اتاترک کے مسلط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ترکی میں ۴۵۰۰ کلومیٹر لمبی سڑکیں بنی تھیں۔ اے کے پی نے صرف اپنے پہلے دورِاقتدار میں ۶۵۰۰ کلومیٹر لمبی سڑکیں تعمیر کروا دیں۔ ان اقتصادی و تعمیراتی فتوحات کی فہرست طویل ہے اور جو منصوبے ابھی زیرتکمیل ہیں ان کی فہرست اور بھی طویل۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں انصاف و ترقی کو ۴۷ فی صد، یعنی ایک کروڑ ۶۵ لاکھ (۵ئ۱۶ ملین) ووٹ حاصل ہوئے۔ بعدازاں صدارتی انتخابات میں بھی تمام تر کوششوں کے باوجود عبداللہ گل کا راستہ نہ روکا جاسکا اور اس طرح ملکی نظام کے پانچ ارکان میں سے تین (پارلیمنٹ، وزارتِ عظمیٰ اور صدارت) انصاف و ترقی کے ہاتھ میں آگئے۔ سیکولرزم کے محافظ دو خطرناک کیمپ (فوج اور دستوری عدالت) اب بھی اس کے سر پر لٹکتی ہوئی ایک خوں خوار تلوار ہیں۔
مارچ میں ترک پارلیمنٹ نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طالبات کے حجاب پر عائد پابندی ختم کردی، اور وہ بھی ان محفوظ الفاظ میں کہ آیندہ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طالبات پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جائے گی جس کا ذکر دستور میں نہیں ملتا۔ یہ ترمیم اتنا بڑا جرم ٹھیری کہ سابق ’حقیرکارکردگی‘ اس کے سامنے ہیچ ٹھیری۔ ترک سیکولرزم کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے اور اٹارنی جنرل نے ملک کی اعلیٰ دستوری عدالت میں منتخب حکومت اور صدر و وزیراعظم سمیت اس کے ۷۱ذمہ داران کو اپنے اپنے عہدوں کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کردیا، ۴۷ فی صد عوام کی حمایت یافتہ ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کو غیرقانونی قرار دینے کی اپیل کردی۔ حالانکہ دستور کے مطابق صدر کا مواخذہ صرف اسی صورت میں کیا جاسکتاہے کہ جب وہ دستور سے کھلی بغاوت کا مرتکب ہو اور یہ مواخذہ بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
۳۱ مارچ کو دستوری عدالت نے اس اپیل کو سماعت کے لیے قبول کرلیا اور صدر عبداللہ گل کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے پارٹی کو دو ماہ کے اندر اندر اپنا جواب جمع کرنے کا حکم دیا۔ پارٹی پر پابندی لگانے کی اپیل کو سماعت کے لیے قبول کرلینا ہی اتنا بڑا سیاسی زلزلہ ہے کہ ہرشخص حیرت زدہ رہ گیا۔ اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی کا نرخ متاثر ہونا تو فطری بات تھی، پورا سیاسی نقشہ ہی تلپٹ ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔
وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے عوام کو بہرصورت صبروتحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ حکمران پارٹی کے سامنے کئی راستے کھلے ہیں۔ ایک تو تصادم اور ایسا عوامی دبائو کہ جو دستوری عدالت اور فوج کو پسپائی پر مجبور کر دے، تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس امکان کو مسترد کر رہی ہے۔ دوسرا راستہ دستوری ہے اور وہ یہ کہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے دستوری عدالت سے سیاسی جماعتوں پر پابندی کااختیار ہی چھین لیا جائے۔ عدالت کو اٹارنی جنرل کی اپیل کے خلاف یا حق میں فیصلہ دینے کے لیے ۱۱ میں سے ۷ ججوں کا اتفاق راے چاہیے۔ ان ۱۱ میں سے کئی جج سال کے آخر میں ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کی جگہ نئے ججوں کا تعین خود صدر مملکت عبداللہ گل کریں گے، یعنی اگر دورانِ سال عدالت کسی وجہ سے اس سماعت کو مکمل نہ کرسکی تو عدالت کا اپنا ڈھانچا تبدیل ہوجائے گا۔ عدالت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ ترکی کا یورپی یونین میں شمولیت کا خواب بھی ہے۔
ان تمام رکاوٹوں اور دستوری ترامیم کے امکانات کے باوجود ترک تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اٹارنی جنرل کی اپیل اور عدالت کا اسے سماعت کے لیے قبول کرلینا ہی واضح اشارہ ہے کہ فوج ان کوششوں کی پشت پر ہے اور اب حکمران پارٹی کو پابندی کا شکار ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہی تجزیہ نگار اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اگر ایسا ہوگیا تو ’انصاف و ترقی‘ کی جگہ لینے کے لیے ایک نئی پارٹی کی تشکیل چند ہفتوں یا چند دنوں کی بات ہوگی اوردنیا ایک بار پھر اس تاریخی حقیقت کا اعادہ دیکھے گی کہ جب بھی پابندی لگی نئی پارٹی پہلے سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں آئی۔ اے کے پی نہ رہی تو نئی پارٹی دو تہائی اکثریت کے حصول اور مزید وسیع تر سیاسی صف بندی کا عملی مظاہرہ کرے گی، تب تک دستوری عدالت اور فوجی جرنیلوں کے پُلوں کے نیچے سے بھی بہت سا پانی بہہ چکا ہوگا۔ گویا کہ نام نہاد سیکولرزم کے نام نہاد محافظ اپنے ہی کھودے گڑھے کا شکار ہوچکے ہوں گے۔
وَّ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍo (ابراہیم ۱۴:۲۰) اللہ کے لیے ایسا کرنا بالکل بھی دشوار نہیں۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن باز مرحوم نابینا تھے، ایک روز ان سے کسی نے پوچھا: اگر اللہ تعالیٰ آپ کو آنکھیں عطا کردے تو سب سے پہلے کیا چیز دیکھنا چاہیں گے؟ انھوں نے بلا توقف جواب دیا: میں سب سے پہلے اُونٹ دیکھنا چاہوں گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی آسمانوں، پہاڑوں اور زمین پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے اُونٹ کا ذکر پہلے فرمایا ہے اور کہا: اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ o (الغاشیہ ۸۸:۱۷)، یعنی کیا یہ لوگ اُونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنایا گیا ہے؟ اُردو محاورے میں تو ’اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ کہہ کر طنز و استہزا کا اظہار کردیا جاتا ہے اور بس، لیکن غور کریں تو ہر مخلوق کی طرح اُونٹ بھی پروردگار کی صناعی کا حیرت انگیز مظہر ہے۔
حال ہی میں کویت سے شائع شدہ بچوں کا علمی انسائی کلوپیڈیا (حصہ اول) دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ اس کے مقدمے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ۶ سے ۱۲ سال کے بچوں کے لیے لکھا گیا ہے لیکن اس میں ایسی ایسی معلومات کا خزانہ ہے کہ بڑے بھی ان سے لاعلم ہیں۔ اس میںایک مفصل مضمون اُونٹ کے متعلق بھی ہے۔ اگرچہ اس میں جمع شدہ اکثر معلومات متفرق طور پر نظر سے گزری تھیں، لیکن اس جامع انداز سے پہلی بار سامنے آئیں۔ آئیے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
اپنے ڈیل ڈول اور حجم کے اعتبار سے تو اُونٹ توجہ کا باعث بنتا ہی ہے، لیکن پروردگار نے اسے اپنی بہت سے نشانیوں کا مجموعہ بنادیا ہے۔ اللہ نے اسے ایسی بڑی بڑی آنکھیں عطا کی ہیں کہ دن ہو یا رات، وہ ان سے دور تک بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی لمبی لمبی پلکیں آنکھوں کو صحرائی ریت سے بچاتی ہیں، لیکن اصل حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس کے پپوٹوں کا آدھا حصہ شفاف جھلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ صحراؤں میں جب آندھی تیز اور ریت زیادہ ہوتی ہے تو وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے، لیکن شفاف جھلی سے باآسانی آر پار دیکھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہی معاملہ ناک اور کانوں کا بھی ہے۔ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے باوجود کانوں کا حجم نسبتاً چھوٹا اور مقام سر کے تقریباً پچھلی جانب ہے۔ بالوں میں گھرے ہوئے چھوٹے کانوں کے پنکھ بآسانی پیچھے کو تہہ ہوجاتے ہیں، آندھی خواہ ریت کے طوفان میں بدل جائے، اس طرح تہہ کرلینے سے ریت کانوں میں نہیں جاسکتی اور نہ اسے کوئی اذیت پہنچا سکتی ہے۔ ناک کی صورت بھی یہ ہے کہ نتھنے منہ سے اُوپر اُٹھے ہوئے نہیں بلکہ صرف دو کٹاؤں کی طرح ہیں، جن کے کناروں کی ساخت ہونٹوں کی طرح ہے۔ ریت سے بچنے کے لیے انھیں بھی نرمی سے بند کرلیا جاتا ہے، اس طرح سانس بھی آتی جاتی رہتی ہے اور کوئی تکلیف دہ چیز بھی ناک میں نہیں جاتی۔
لمبی لمبی ٹانگیں جہاں مسافت جلد طے کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، وہیں اُونٹ کے باقی سارے جسم کو صحراؤں کی دہکتی ریت کی گرمی سے دور رکھتی ہیں۔ اس کے پاؤں کی ساخت بھی خالق کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُونٹ کا پاؤں دو حصوں میں بٹا ہوتا ہے لیکن مضبوط جلد کے ذریعے ایک دوسرے سے ملا ہوا بھی۔ پاؤں کی ہڈی کے نیچے چربی کا ایک آرام دہ تکیہ بنا ہوتا ہے، اس کے نیچے اعصاب میں گندھے ہوئے نرم گوشت کی ایک تہہ ہوتی ہے، جو پاؤں زمین پر پڑتے ہوئے پھیل جاتی ہے، پھر اس کے نیچے موٹی کھال ہوتی ہے جو پورے پاؤں کو ایک مضبوط چوڑے جوتے کی شکل دے دیتی ہے۔ پاؤں کی یہ ساخت جہاں پاؤں کو جھلستی ریت کی گرمی سے بچاتی ہے، وہیں انھیں ریت میں دھنسنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اُونٹ چلتے ہوئے باری باری پہلے ایک طرف کی اگلی پچھلی دونوں ٹانگوں کو اکٹھے آگے بڑھاتا ہے اور پھر دوسری طرف کی، یوں جیسے کشتی کے چپو چلائے جاتے ہیں___ تیزی سے باری باری چلتے اُونٹ کے چپو اسے دیکھنے میں بھی صحرائی سفینہ ثابت کرتے ہیں۔ بیٹھتے ہوئے جہاں اس کی ٹانگوں کے جوڑوں پر سخت موٹی کھال گرمی سے بچاتی ہے وہیں اس کے پیٹ کے نیچے بنا سخت کھال کا تکیہ، ایک پلیٹ فارم کا کام دیتا ہے۔ گرمی جتنی بھی ہو اسے پار نہیں کرسکتی۔ سخت کھال کا یہی تکیہ اس کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کاکام بھی دیتا ہے۔ اگر کبھی کسی کو اپنے انتقام و ناراضی کا نشانہ بنانا ہو تو اُونٹ اسے اپنے جبڑے کے ساتھ دبوچتے ہوئے اپنے کھردرے پیٹ کے ساتھ روند دیتا ہے۔ پتھر کی مانند اس سخت تکیے کو عربی میں کَلْکَلْ کہتے ہیں۔
اُونٹ کو اپنی خوراک میں نمک کی کافی مقدار درکار ہوتی ہے، اس لیے اس کی پسندیدہ خوراک نمکین، کانٹے دار اور خشک جھاڑیاں ہوتی ہیں۔ صحراؤں میں دستیاب بھی زیادہ تر یہی ہوتی ہیں۔ اُونٹ کے جبڑوں اور ہونٹوں کی ساخت، اس کی ان ضروریات کے عین مطابق ہے۔ منہ کا دھانہ بڑا اور اُوپر والا ہونٹ درمیان سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر زیادہ کانٹے دار جھاڑی ہو تو اُونٹ اسے منہ کے درمیان لاکر منہ کھول کر چبانا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ جب کانٹے چبائے جائیں تو پھر انھیں جھاڑی سے توڑ کر تھوڑا سا مزید چبا کر نگل لیتا ہے۔
اُونٹ کی سب سے حیرت انگیز خوبی اس کا شدید پیاس کو برداشت کرلینا اور پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار اپنے جسم میں محفوظ کرلینا ہے۔ موسم سرما میں اُونٹ پانی دستیاب ہونے کے باوجود بھی زیادہ پانی نہیں پیتا اور ایک ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پانی پیے بغیر طے کرلیتا ہے۔ گرمی کچھ بڑھتی ہے تو ہفتے دو ہفتے بعد ایک بار پانی پی لینے پر اکتفا کرلیتا ہے لیکن جب گرمی بہت زیادہ ہو تو اسے ہر پانچ روز بعد تقریباً ۲۵ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی مشقت درپیش نہ ہو اور تازہ چارہ وغیرہ مل رہا ہو تو پانی کی ضرورت کم ہوجاتی ہے۔ انتہائی گرمی میں بھی پانی دستیاب نہ ہو تو اُونٹ اپنے جسم میں موجود پانی ہی پر گزارا کرتا ہے۔ بعض اوقات معاملہ یہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنا ایک تہائی وزن اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش میں گھلا دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں کمزوری واقع نہیں ہوتی۔ جب پیاسے اُونٹ کو پانی مل جائے تو وہ انتہائی مختصر وقت میں پانی کی بڑی مقدار پی لیتا ہے جس سے جلد ہی اس کا وزن دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک پیاسے اُونٹ نے ۳ منٹ میں ۲۰۰ لیٹر پانی پی لیا۔ انسان کا معاملہ کس قدر مختلف ہے پہلے تو وہ پانی کے بغیر اس آخری حد تک صبر ہی نہیں کرسکتا، پھر اگر وہ بہت پیاسا بھی ہو اور اسے اپنی ضرورت کا پانی دستیاب ہوجائے جو یقینا تھوڑا سا ہی ہوتا ہے، تب بھی وہ اسے تیزی سے نہیں پی سکتا وگرنہ راحت کے بجاے اذیت کا شکار ہوجائے۔
اُونٹ کے طویل صبرو برداشت کا اصل راز کیا ہے۔ انسائی کلوپیڈیا بتاتا ہے: اُونٹ اپنے جسم میں پانی محفوظ کرنے اور کیے رکھنے کی عجیب صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم سے پانی کے اخراج کے چار ذرائع ہیں بول ، براز، پسینہ اور سانس میں پائی جانے والی نمی، خاص طور پر جب وہ کسی مشقت کی وجہ سے ہانپتے ہوئے منہ کھول کرسانس لے۔ اُونٹ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جتنی بھی مشقت کرلے، نہ تو وہ ہانپتا ہے اور نہ منہ سے سانس لیتا ہے۔ پھر اس کے سانس میں نمی ہرگز شامل نہیں ہوتی۔ سانس لیتے ہوئے اگر اس کے نتھنوں کے سامنے آئینہ رکھا جائے تو اس پر نمی کی کوئی تہہ نہیں آتی۔ اس کے گردے پانی کی حفاظت کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہوئے بہت تھوڑی مقدار میں بول بناتے ہیں اور اس کے جسم سے پانی کا اخراج کم سے کم ہوتا ہے۔
اس ضمن میں انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اُونٹ کو انتہائی مشقت کے باوجود بھی پسینہ نہ ہونے کے برابر آتا ہے۔ پسینے کے دیگر فوائد کے علاوہ ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جسم کا درجۂ حرارت ۳۷درجے سنٹی گریڈ رہتا ہے، اگر گرمی یا مشقت کے باعث اندرونی حرارت زیادہ ہوجائے تو اعصابی نظام جسم کو پسینے کا حکم دیتا ہے، پسینہ آنے سے جسم کا درجۂ حرارت متوازن ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، ردعمل کے طور پر پسینہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا اور پانی کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اُونٹ کے لیے خالق نے یہ سہولت رکھ دی کہ اس کا جسم کسی ایک درجۂ حرارت کا پابند نہیں بلکہ ۳۴ سے لے کر ۴۱ تک کا درجۂ حرارت اس کے لیے معمول کا درجۂ حرارت ہے، یعنی ۴۱درجے تک اس کا جسم اسے پسینے کا حکم نہیں دیتا اور ۴۱ سنٹی گریڈ سے اُوپر کا درجۂ حرارت پورے دوران سال میں نسبتاً کم رہتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور ربانی اہتمام کیا گیا ہے کہ اُونٹ کی کھال اور اس کے جسم کے درمیان چربی کی کوئی تہہ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے وہ جیسی ہی سایے میں آتاہے یا جیسے ہی صحرا کی ٹھنڈی شام شروع ہوتی ہے جسم اور بیرونی ماحول میں مطابقت ہونا شروع ہوجاتی ہے اور بہت جلد جسم کا درجۂ حرارت کم ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے موسم گرما میں اُونٹ کی اُون جھڑ جاتی ہے۔
گرمی اور مشقت کے باعث ہرجسم میں پانی اور خوراک کی کمی تو بہرحال واقع ہونا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اُونٹ کے لیے خالق نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ پانی کے انتہائی محدود اخراج میں بھی کہ اس کے خون میں سے پانی کا اخراج نہ ہو۔ خون میں پانی کی مقدار کم ہونے سے وہ گاڑھا ہونے لگتا ہے، جس سے دورانِ خون میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور بالآخر موت واقع ہوجاتی ہے۔ کئی کئی دن تک خوراک کی حاجت نہ ہونے کاایک اور اہم سبب یہ ہے کہ اُونٹ معمول کے دنوں میں خوراک کا کافی حصہ کوہان کی چربی کی صورت میں محفوظ کرلیتا ہے۔ طویل صحرائی سفر کے دوران یہ کوہان جسم کی غذائی حاجت پورا کرنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ سکڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تفصیلات پڑھتے ہوئے مجھے افریقی ملک مالی کے تاریخی دار الحکومت ٹمبکٹو میں ملنے والا وہ صحرائی بدو یاد آگیاجو کہنے لگا: میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میرے پاس ایک اُونٹنی ہو تو میں اس کی مدد سے کسی اور چیز کا محتاج ہوئے بغیر ہزاروں کلومیٹر میں پھیلے ہوئے صحراے اعظم کو عبور کرسکتا ہوں۔
اُونٹ ہی نہیں، خالق کائنات کی ہر مخلوق کے بارے میں سائنس دان آئے روز نت نئے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی غیر مسلم سائنس دان ایسے ہیں کہ انھیں جب مخلوق سے متعلق مختلف قرآنی و نبویؐ ارشادات معلوم ہوئے تو ان کی ایک بڑی تعداد نے اپنے خالق کو پہچان لیا۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایمان لے آئے، اور کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں کہ ان پر یہ فرمانِ الٰہی صادق آتا ہے:
وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ o وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۱۰۵- ۱۰۶) زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔
کوسووا یا کوسووو، نام لینے میں بھی البانوی مسلمانوں اور سرب مسیحیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سرب آخر میں ’واو‘ پڑھتے ہیں اور البان ’الف‘۔ لیکن اصل اختلاف شناخت اور آزادی کا ہے اور یہ اختلاف بہت قدیم ہے۔
۲۸جون ۱۳۸۹ء کو دارالحکومت پر سٹینا کے شمال میں دونوں طرف سے لاکھوں کی تعداد میں افواج جمع تھیں۔ ایک جانب عثمانی علَم کے سایے تلے، سلطان مراد کی قیادت میں مسلمان، اور دوسری طرف صلیبی پرچموں تلے سربیا، کروواٹیا، مولڈیویا، آسٹریا،بوسنیا اور البانیا کے شہزادوں، بادشاہوں کی قیادت میں مسیحی، ۱۳ دن کی خوف ناک جنگ کے بعد عثمانی لشکر فتح یاب ہوا۔ مسیحی افواج کا قائد سربی شہزادہ ’لازار‘ مارا گیا۔ بعدازاں سلطان مراد کو بھی ایک سرب فوجی نے زہریلے خنجر کے وار کر کے ابدی نیند سلا دیا، لیکن بلقان کا علاقہ کئی صدیوں تک عثمانی خلافت کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا۔ اہلِ علاقہ عثمانیوں کی آمد سے بھی دو صدیاں پیش تر اسلامی تعلیمات سے آشنا ہونا شروع ہوگئے تھے اور البانوی و بوسنوی (بوشناق) نسل کے افراد، بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کرچکے تھے۔ تب یہاں ’بوگومیل‘ کے نام سے ایک مسیحی فرقہ پایا جاتا تھا جو عقیدۂ تثلیث کا انکاری ہونے کے باعث کیتھولک اور آرتھوڈوکس دونوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا تھا۔ عثمانیوں کی آمد کے بعد بوگومیل فرقے کے لوگ باقی فرقوں اور قبائل کی نسبت زیادہ تیزی سے اسلام کی پناہ میں آتے چلے گئے۔
عثمانی خلافت کے اضمحلال اور بالآخر خاتمے کے زمانے میں دیگر خطوں کی طرح بلقان کی مختلف ریاستوں کی تشکیل نو اور یورپی ممالک میں ان کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۱۸۶۷ء میں سربیا کی ریاست وجود میں آئی۔ ۱۸۷۸ء میں ریاست البانیا کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ ۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان کا آغاز ہوا تو کوسووا اور سنجق سمیت البانیا کے نصف علاقے کو اس کا حصہ ماننے سے انکار کردیا گیا۔ البانوی مسلمانوں کا بہیمانہ قتلِ عام کیا گیا اور بالآخر پہلی عالمی جنگ کے بعد ۱۹۱۸ء میں سربیا نے کوسووا اور سنجق کواپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ پھر عظیم تر سرب ریاست کے قیام کا خواب دیکھنے والے متعصب سرب ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والے یوگوسلاویہ کے اصل کرتا دھرتا بن گئے۔ سرب نسل کے غلبے کے لیے کوئی ایسا موقع نہ جانے دیا گیا کہ جب کسی نہ کسی بہانے مسلمان آبادی پر ناقابلِ بیان مظالم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں۔ صرف دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اڑھائی لاکھ مسلمان لقمۂ اجل بنا دیے گئے۔ اس کے باوجود اس وقت یوگوسلاویہ میں باقی بچ جانے والی مسلم آبادی کی تعداد ۲۰لاکھ تھی۔ ۱۰ لاکھ تو صرف بوسنیا ہی میں تھے اور باقی سنجق، مقدونیا، کوسووا اور دیگر علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
عثمانی لشکر اور صلیبی افواج کے درمیان تاریخی معرکے کے ٹھیک ۶۰۰سال بعد یعنی ۲۶جون ۱۹۸۹ء کو دسیوں ہزار سرب باشندے اس جنگ کی یاد منانے کے لیے جمع تھے اور سرب صدر سلوبووان میلوسوووچ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’معرکۂ کوسووو ابھی ختم نہیں ہوا، سرب عوام اپنے کامل حقوق واپس لے کر رہیں گے‘‘۔ اس نے سابقہ یوگوسلاویہ میں البانیا کی خودمختار حیثیت کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یورپی غیرسرب آبادی کے لیے آزمایشوں کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی۔ نئے سرے سے مسلم آبادی کا ناطقہ بند کرنے کا آغاز کردیاگیا، انھیں ملازمتوں سے فارغ کردیاگیا، ان کی کمپنیاں اور کاروبار بند کردیے گئے۔ مدارس وجامعات سے نکال دیے گئے اور انھیں موت یا گرفتاریوں کی نذر کردیا گیا تاکہ وہ یا تو اس خطے سے نکل جائیں یا پھر دنیا ہی سے کوچ کرجائیں۔
کوسووا کے مسلمانوں نے اس صورت حال کا سامنا صبروثبات اور ممکنہ مزاحمت کے فیصلے سے کیا۔ ابراہیم روگووا اور ہاشم تاچی نام کی دو شخصیات نے کوسووا کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ ابراہیم پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، جب کہ ہاشم مسلح مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ ابراہیم نے ’البانوی جمہوری اتحاد‘ کے نام سے پارٹی قائم کی اور پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے کوسووا میں ستمبر۱۹۹۱ء میں عوامی ریفرنڈم کروا دیا۔ مسلمانوں نے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کردیا لیکن اس اعلان آزادی کو نہ تو سربیا نے قبول کیا اور نہ ہی عالمی برادری نے اس کی پشتیبانی کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ البتہ کوسووا کے عوام نے مئی ۱۹۹۲ء کو ابراہیم روگووا کو جمہوریہ کوسووا کا صدر منتخب کرلیا۔
پُرامن جدوجہد، کوسووا کی آزادی اور سرب مظالم سے نجات کے لیے عملاً کوئی تبدیلی واقع نہ کرسکی، تونوجوانوں نے ہاشم تاچی کی قیادت میں خود کو عسکری لحاظ سے بھی تیار و منظم کرنا شروع کردیا۔ بوسنیا کی صورت حال نے اس تیاری کی ضرورت مزید واضح کردی۔ بوسنیا نے بھی ۲۹فروری اور یکم مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کیا تھا۔ لیکن بوسنیا کی ۳۲ فی صد سرب آبادی نے نہ صرف اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ۶۸ فی صد مسلمان آبادی کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ چند روز کے اندر اندر دارالحکومت سرائیوو سمیت مختلف مسلم آبادیوں پر بم باری شروع کردی اور پھر عظیم تر سربیا کے قیام کے لیے کوشاں میلوسووچ نے درندگی، خوں خواری اور وحشی پن کے تمام الفاظ کو مظالم کی صحیح عکاسی سے محروم کردیا۔ چار سال تک بوسنیا میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ بلامبالغہ لاکھوں جانیں فنا کے گھاٹ اُتار دی گئیں، ۵۰ ہزار سے زائد مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور مہذب ہونے کی دعوے دار پوری دنیا تماشائی بنی رہی۔
ہاشم تاچی اور ان کے ساتھیوں نے بوسنیا کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی عسکری تیاریوں کو مزید مربوط و منظم کیا لیکن یہ ساری تیاریاں سرب وحشی پن کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیائی قیامت کا طوفان تھما تو سربوں نے ۱۹۹۸ء میں کوسووا کا محاذ گرم کردیا۔ یہاںبھی جب دسیوں ہزار مسلمانوں کواجتماعی قبروں میں زندہ یا مُردہ دفن کردیا گیا اور ہرطرف تباہی کا راج ہوگیا تو ۱۹۹۹ء میں طرفین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا لیکن سربوں نے مذاکرات کے نتائج کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ بالآخر ناٹو افواج نے کوسووا سے سرب افواج کونکالنے کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ ۷۸ روز کے فضائی حملوں کے بعد سرب افواج نے کوسووا کا علاقہ خالی کیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد ۱۲۴۴ منظور کی۔ ۳۹ملکوں سے ۵۰ ہزار فوجی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی زیرقیادت کوسووا کے پانچ الگ الگ علاقوں میں متعین کیے گئے اور کوسووا کی شناخت اور مستقبل کے تعین کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔
گذشتہ نو برس سے اقوام متحدہ کاعبوری انتظامی مشن UNMIK (United Nations Interim Administration Mission in Kosovo) کے نام سے کوسووا کے معاملات چلا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ریاستی ڈھانچے کی تشکیلِ نو جاری ہے۔ سربیا کے ساتھ بھی مذاکرات کے لاتعداد دور چل چکے ہیں لیکن کوسووا کی آزادی کے سلسلے میں کسی مفاہمت تک نہ پہنچا جاسکا۔ بالآخر طرفین کو مزید ۱۲۰ روز کی حتمی تاریخ دے دی گئی کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء تک بہرصورت کوئی فیصلہ کرلیں۔ یہ مہلت بھی گزر گئی لیکن سربیا اسی ہٹ دھرمی پر اڑا رہا کہ ’’کوسووا ہمارا اَٹوٹ انگ ہے‘‘۔ اسی دوران نومبر ۲۰۰۷ء میں کوسووا کے عام انتخابات ہوگئے اور سرب مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کا سربراہ ہاشم تاچی کوسووا کا وزیراعظم منتخب ہوگیا۔ اپنے انتخاب کے فوراً بعد انھوں نے بیان دیا کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء کے بعد ہم کسی بھی وقت اعلانِ آزادی کرسکتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔
امریکا اور یورپی ممالک نے کوسووا کے حق آزادی کی بھرپور سرپرستی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ مارٹی اھٹساری نے بھی یہی فارمولا پیش کیا کہ کوسووا کو آزاد ہوجانا چاہیے۔ اس کا اپنا دستور، اپنا پرچم اور اپنا قومی ترانہ ہونا چاہیے اور اسے عالمی تنظیموں اور اداروں کا رکن بننا چاہیے۔ پہلے تو خیال تھا کہ شاید کوسووا کا اعلان آزادی اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کے ذریعے کیا جائے گا لیکن جب روس نے کوسووا کی آزادی کی بھرپور مخالفت کی تو کوسووا کی پارلیمنٹ نے خودہی یہ اعزاز حاصل کرلیا۔ ۱۷فروری بروزاتوار پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا، قرارداد آزادی پیش کی گئی، ۱۲۰ارکان اسمبلی میں سے ۱۰۹ حاضر ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا، اور وزیراعظم ہاشم نے اپنے جذبات سے معمور خطاب میں اعلان کیا کہ ’’آج کے بعد سربیا کبھی کوسووا پر حکمرانی نہیں کرسکے گا‘‘۔ اعلانِ آزادی کے الفاظ تھے: ’’ہم اپنی قوم کے منتخب نمایندگان و رہنما، کوسووا کی آزاد و خودمختار، جمہوری ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ اسپیکر یعقوب کراسنیکی نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’آج کوسووا نے اپنی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب ہم آزادی، استقلال اور اپنی مرضی کی مالک ایک ریاست ہیں۔
۱۹۱۲ء میں بلقان سے عثمانی افواج کی واپسی سے لے کر اب تک گذشتہ ۹۶برس سے اہلِ کوسووا نے یہ خواب آنکھوں میں سجایا ہوا تھا کہ کوئی دوسرا ان پر اپنی حکمرانی نہ کرے، بالآخر اس خواب کی تکمیل ہوئی۔ اعلان آزادی کے ساتھ ہی اہم عالمی قوتوں نے کوسووا کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ترکی، آسٹریلیا سمیت اب تک ۱۸ ممالک، کوسووا کو تسلیم کرچکے ہیں۔ روس، اسپین، قبرص، اسپین اور رومانیہ نے اس آزادی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ چین اور انڈونیشیا نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے کہ اس سے نسلی تقسیم وانتشار کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ روس اور چین کی مخالفت کا ایک اہم سبب چیچنیا اور تبت جیسی دیگر ریاستوں اور خطوں کو دعواے آزادی سے روکنا بھی ہے۔
نومولود کوسووا کو اعلان آزادی کے باوجود بے حد گمبھیر خطرات کا سامنا ہے۔ درندہ نما سلوبودان میلوسووچ کے بھائی بوری سلاف نے روس میں بیٹھ کر دھمکی دی ہے کہ ’’ہمیں کوسووا کی بازیابی کے لیے نئی جنگ لڑنا ہوگی‘‘۔ ۲۱فروری کی سہ پہر بلگراد میں مظاہرہ کرتے ہوئے سربوں نے بھی تقریباً ایسی ہی زبان استعمال کی ہے۔ انھوں نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔ یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ کوسووا میں مقیم ۷ فی صد سرب آبادی کے ذریعے وہاں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جائے گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی طرح کوسووا کا مکمل محاصرہ کردیا جائے گا۔ کوسووا نئے دوراہے پر کھڑا ہے، آزادی کی حفاظت یا پہلے سے بھی بدتر خوں ریزی جس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے خدانخواستہ کسی عالمی نزاع تک جاپہنچے۔ واضح رہے کہ پہلی دوعالمی جنگوں کی ابتدائی چنگاریاں بلقان ہی سے پھوٹی تھیں۔ پہلا امکان زیادہ قوی ہے۔ روس اور سربیا کی دھمکیاں اب دھمکیوں سے زیادہ گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔
کوسووا کا اعلانِ آزادی جہاں ایک طرف وہاں کے عوام کے عزم و ارادے کا مظہر ہے وہیں امریکا اور یورپ کے مقاصد و طمع کی تکمیل بھی ہے۔ کوسووا روس کا پچھواڑا ہے، مشرقی یورپ میں مسلسل سرایت کرتے ہوئے امریکا اور یورپ، روس کے گرد اپنا حصار مضبوط تر کرتے آرہے ہیں۔ کوسووا معدنی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا مال دار خطہ ہے۔ یہاں سونا، چاندی، سکّہ اور کوئلہ پایا جاتا ہے۔ ۱۰ہزار ۹سو مربع کلومیٹر مساحت پر مشتمل اس ریاست میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۰ ارب ۸۰ کروڑ کیوبک میٹر کوئلے کے ذخائر ہیں۔ ۱۰مارچ کو یورپی ممالک اور امریکی نمایندگان کی موجودگی میں کوسووا کی آزادی کا عالمی سطح پر اعلان ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے بجاے یورپی انتظامیہ کوسووا کے معاملات کی اصل ذمہ دار بن جائے گی۔ اگرسابق الذکر اسباب و علل نہ ہوتیں تو امریکا و یورپ یقینا کبھی ایسا ’مبارک‘ قدم نہ اٹھاتے جو فلسطین، کشمیر، چیچنیا سمیت آزادی کے ہر خوگر کے لیے ایک مثال اور حجت بن جائے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شون میکورمیک سے دریافت کیا گیا۔ کیا امریکا کوسووا کی طرح فلسطین کابھی یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کردے؟ شون نے کہا: ’’مشرق وسطیٰ کا تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی امید ابھی باقی ہے۔ کوسووا میں مذاکرات ناکام ہوگئے تھے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ فلسطین میں تو ۶۰سال گزرنے کے باوجود مذاکرات سے اُمید باقی ہے کوسووا میں نوسال کے بعد ہی یہ اُمیدیں مایوسی میں بدل گئیں…؟
کوسووا کی ۲۵ لاکھ آبادی میں سے ۹۰ فی صد مسلمان ہیں لیکن اب شاذونادر ہی ان کی اسلامی شناخت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنما ۹۲ فی صد البانوی النسل آبادی ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں امریکا اور یورپ کا مفاد تھا تو انھوں نے مسلم کوسووا کی آزادی کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم ممالک کا کردار کیا ہے؟ بدقسمتی سے وہ ابھی تک آزاد کوسووا کو تسلیم کرنے کے لیے بھی آگے نہیں آسکے۔ سابق الذکر ۱۸ممالک جنھوں نے کوسووا کو تسلیم کیا ہے، میں سے صرف ترکی مسلم ملک ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے اسے اپنے فیصلے خود کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی، امریکا خود ہی کرلیتا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک بالخصوص پاکستان، کوسووا کوتسلیم کرتے ہوئے وہاں کے مسلم عوام کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کی بنیاد مستحکم کرلیں، تو اس کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ علاوہ ازیں کشمیر اور فلسطین کے بارے میں بھی مغربی ممالک کے عوام کے سامنے ہمارا اخلاقی موقف مضبوط ہوگا۔
صدرمملکت عبداللہ گل کی اہلیہ ہوں، وزیراعظم طیب اردوگان کی صاحبزادیاں ہوں، منتخب رکن پارلیمنٹ مروہ قاوقچی ہوں یا دیگر کروڑوں ترک خواتین، کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر یا سرکاری تقریبات میں جاتے ہوئے سر ڈھانپ سکیں۔ چہرے کا پردہ نہیں صرف سر اور گردن کو دوپٹے یا اسکارف سے ڈھانپ لینا ہی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں ہزاروں طالبات کو حصولِ تعلیم سے محروم کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم اردوگان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ اپنی دو بیٹیوں کے سر ڈھانپ کر کالج میں داخلہ دلوا سکیں۔ ہاں، اگر کوئی خاتون اپنا لباس مختصر کرنا چاہے تواس پر کوئی قدغن نہیں، اسے ایسا کرنے سے روکنے والے بنیاد پرست، تاریک خیال اور سیکولر ریاست دشمن قرار پائیں گے۔ خلافت اسلامی کے آخری امین، ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ترکی کے درودیوار سیکڑوں ایسے مناظر کے گواہ ہیں کہ سر ڈھانپے نوجوان بچیوں کو دھکے مار کر تعلیمی اداروں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا کہ طالبات اپنے اس ایمان کے باعث کہ حجاب امرخداوندی ہے، سر، گردن اور سینے پر باوقار اسکارف اوڑھ کر آئیں، لیکن اپنی مادر علمی کی دہلیز پر آنسو بہاتے ہوئے اسکارف نوچ کر بیگ میں چھپا لیا کہ ایسا نہ کیا تو حصولِ علم سے محروم کردی جائیں گی۔
پردے کے مخالفین میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں پردہ کرنا، نہ کرنے سے زیادہ آسان ہو، وہاں یہ ’فلسفہ‘ رواج دیا جاتا ہے کہ یہ تو انسان کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی دوسرا کیسے اسے اس بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے، بندہ جانے اور اس کا رب جانے یا پھر یہ کہ یہ تو معمولی اور چھوٹی سی بات ہے، اس کا بتنگڑ کیوں بناتے ہو… وغیرہ لیکن ترکی جیسے معاشرے میں کہاجاتا ہے: پردہ ایک مخصوص عقیدے کی علامت ہے، پردہ بنیاد پرستی کی نشانی ہے، پردہ رجعت پسندی کی طرف لے جاتا ہے، پردہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے منافی ہے، پردہ دہشت گردی کی انتہاتک لے جاتا ہے۔ ترکی ہی نہیں تیونس، تاجکستان اور ازبکستان جیسے کئی مسلمان ملکوں میں، جہاں بھی اسلام پسندی کے خلاف سرکاری محاذ آرائی عروج پر ہوتی ہے، سب سے پہلا نشانہ پردے ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں سے صرف فرانس ایسا ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھ کر جانا قانوناً ممنوع ہے۔ جرمنی نے بھی اس راہ پر قدم اٹھائے ہیں، اس کے ۱۲ صوبوں میں سے سات میں اسکارف پر پابندی ہے۔ اسپین میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، انتخابی مہم میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو تعلیمی اداروں میں اسکارف پر پابندی لگا دے گی۔
ترک عوام اور بالخصوص خواتین نے ان پابندیوںاور جبر سے نجات کی ہرممکن کوشش کی، لیکن روشن خیالی اور سیکولر ریاست کو بنیاد بناکر ان تمام کوششوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ صدآفریں کہ خواتین نے اپنے حق اور اپنی کوششوں سے دست برداری قبول نہیں کی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر مظاہرے کیے، تعلیمی اداروںاور سرکاری ملازمتوں سے باہر آتے ہی خود کو اسکارف کی زینت سے آراستہ کیے رکھا۔ عرصے تک ایک انوکھا مظاہرہ یہ بھی کیا کہ ہراتوار کی صبح فجر کی نماز استنبول میں واقع صحابی رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر سے ملحق مسجد اور میدان میں ادا کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین اپنے کنبوں سمیت منہ اندھیرے آتیں اور آس پاس کی تمام سڑکیں رب کے حضور سجدہ ریز، اللہ کی ان بندیوں سے بھر جاتیں۔
۲۰۰۲ء میں انصاف و ترقی پارٹی بھاری اکثریت سے برسرِاقتدار آئی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ حجاب سے پابندی ختم کردے گی، کیونکہ یہ پابندی خود سیکولرزم کے ان دعووں کے بھی منافی ہے جن میں ہر شخص کو اپنے لباس اور عقیدے کی آزادی دینے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن سعی کے باوجود یہ پابندی ختم نہیں کی جاسکی۔ صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو عبداللہ گل پر سب سے بڑااعتراض ہی ان کی اہلیہ کا باحجاب ہونا تھا۔ اعتراض اور معرکہ یہاں تک پہنچا کہ کئی بار پولنگ کے بعد بالآخر اسمبلی برخاست ہوگئی۔ دوبارہ عام انتخابات بھی ’انصاف و ترقی‘ کی جیت پر منتج ہوئے تو صدارتی معرکے میں پھر حجاب ہی کو اصل وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی تائید کی لہر کے سامنے مخالفین کی ایک نہ چلی اور باحجاب خاتونِ اول ایوانِ صدر کی زینت بن گئیں۔ اس سے قبل جب ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے مروہ قاوقچی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں تو مخالفین کے منع کرنے کے باوجود وہ اسکارف سمیت ایوان میں داخل ہوگئیں، آسمان سر پر اُٹھالیا گیا، دہائیاں دی گئیں کہ اتاترک کی روح کو گھائل کردیا گیا، بالآخر مروہ کو اسمبلی چھوڑنا پڑی۔
اب ایک ایک کر کے اتاترک کی باقیات السیئات سے نجات مل رہی ہے۔ ۷فروری کو اسی پارلیمنٹ میں ایک دستوری ترمیم پیش کی گئی جس میں براہِ راست تو حجاب یا اسکارف کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن اصل ہدف حجاب کی بتدریج بحالی ہی تھا۔ عمومی تصور یہ ہے کہ ترکی دستور حجاب پر کوئی براہِ راست ممانعت عائد کرتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں درحقیقت ۱۹۲۶ء میں جاری قانونِ ہیئت کی ایک شق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اتاترک نے اس قانون کے ذریعے ہر مردوزن پر مغربی لباس فرض کردیا تھا تاکہ ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا جاسکے۔ اس ضمن میں خواتین کو پابند کردیا گیا کہ وہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لمبااسکرٹ اور شرٹ پہنا کریں۔ا گرچہ اس میں یہ نہیں کہاگیا تھا کہ سرڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن عملاً ایسا ہی کیا جاتا رہا۔ ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ترک یونی ورسٹیوں کے سربراہوں نے مل کر ایک فیصلہ جاری کردیا کہ آیندہ کوئی طالبہ یونی ورسٹی کی عمارت میں اسکارف لے کر نہیں آسکے گی، تب سے یہ معرکہ اپنے عروج پر جاپہنچا۔ کئی شہروں میں ہنگامے ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبات و خواتین کو جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ کئی طالبات اور ان کے خاندان ترکی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تنہا خاتون ہدی کایا اپنی تین بچیوں اور ایک صاحبزادے سمیت پاکستان آکر بھی رہیں۔ تقریباً ایک سال قیام کے بعد واپس گئیں تو جاتے ہی پھر گرفتار ہوگئیں، مقدمہ چلا اور سب کو کئی سال کی سزا بھگتنا پڑی۔ جرم صرف یہی تھا کہ نہ تو یونی ورسٹی میں حجاب اُتارنے پر راضی تھیں اور نہ تعلیم سے محروم رہنے پر تیار ، بلکہ اس پر احتجاج کرتی تھیں۔ پھر ۱۹۹۷ء میں صدر سلیمان ڈیمرل نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صراحت کے ساتھ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی۔
فروری کو پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی دستوری ترمیم میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’کوئی شخص یا ادارہ کسی ایسی بنیاد پر کسی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکے گا کہ جس کا ذکر ترک دستور میں نہیں ہے‘‘۔ اس ترمیم پر ۹فروری کو ووٹنگ ہوئی تو ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۴۰۳ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دستوری ترمیم کے لیے ۳۶۷ ووٹ درکار تھے لیکن ’قومی تحریک پارٹی‘ نامی ایک سیکولر جماعت نے بھی اردوگان کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ ایک سیکولر جماعت کا حجاب کی راہ سے رکاوٹیں ختم کرنے میں ساتھ دینا سب کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ تجزیہ نگار اس فیصلے کی توجیہہ یہ کر رہے ہیں کہ ’قومی تحریک پارٹی‘نے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔ سیکولر جماعتوں نے یہ ترمیم سامنے آنے پر ۱۷شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اس کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ اب ترمیم کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ’قومی تحریک‘ نے فیصلہ کیا کہ حجاب کے حق میں بڑھتی ہوئی عوامی لہرسے اپنا حصہ حاصل کیا جائے۔ دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی کی سیکولر پارٹیوںنے جان لیا ہے کہ ’انصاف و ترقی‘ کی مخالفت اس کی مزید شہرت و تقویت کا باعث بنتی رہی ہے۔ اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ قومی تحریک پارٹی کے نائب صدر ٹوسکای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے انصاف و ترقی کی اس دستوری ترمیم کا ساتھ اس لیے دیا ہے تاکہ اسے اس سے زیادہ حسّاس اور اہم ترامیم سے روکا جاسکے۔ واضح رہے کہ انصاف و ترقی آیندہ برس ترکی کے نئے دستور کا مسودہ پیش کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے۔
۹فروری ۲۰۰۸ء کو اسمبلی سے منظوری کے دو ہفتے کے اندر اندر اس پر صدر جمہوریہ کی منظوری درکار تھی۔ صدر یہ منظوری دو ہفتے کے دوران کسی بھی وقت دے سکتا تھا لیکن انھوں نے آخری روز، یعنی ۲۳فروری کو دستخط کیے اور یہ ترمیم دستور کا حصہ بن گئی۔ تحمل اور صبر کا یہ رویہ بھی انصاف پارٹی کی حکمت عملی کا ایک تعارف کرواتا ہے۔ حالیہ ترمیم سے صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پر سے پابندی ختم ہوئی ہے، تعلیم کے تمام ابتدائی مراحل میں ابھی یہ پابندی باقی ہے اور یونی ورسٹیوں کی اساتذہ و ملازمین بھی اسکارف لے کر یونی ورسٹی نہیں آسکتیں۔ دیگر سرکاری اداروں میں بھی یہ پابندی بدستور باقی ہے لیکن یہ ایک آغاز ہے اور اتاترک کی راہ پر چلنے والوں کے لیے انتہائی تہلکہ خیز آغاز۔
اب اصل سوال ترک فوج اوردستوری عدالت کا ہے۔ فوج کے سربراہ نے تو یہ بیان دے کر فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے کہ ’’پردے کے بارے میں فوج کا موقف معلوم و معروف ہے، اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ لیکن دستوری عدالت کا موقف فی الحال مجہول بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس کا فیصلہ ناقابلِ اپیل اور حتمی ہوتا ہے اور اس پر کٹڑ اسلام دشمن سیکولر حاوی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ بھرپور عوامی رو کو دیکھتے ہوئے دستوری عدالت بھی خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھے گی۔ عدالت کو بھی یہ خدشہ ہے کہ اگر اس جزوی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو کہیں اردوگان فوراً ہی نئے دستور کا مسودہ ریفرنڈم کے لیے پیش نہ کردیں کہ جس میں خود دستوری عدالت کا کردار بھی محدود کرنا پیش نظر ہے۔ ترکی میں گذشتہ پون صدی سے جاری سیاسی و ثقافتی کش مکش اب حسّاس دور میں داخل ہوگئی ہے۔ عوام کی بھرپور اکثریت اسلامی شعائر کا احترام کرنے پر زور دے رہی ہے۔ حالیہ دستوری ترامیم کے بارے میں جب سروے کروایا گیا تو ۷۰ فی صد عوام نے اس کے حق میں رائے دی۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ حمایت کسی عمومی معاشرتی ماحول یا وراثتی روایات کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ اسکارف کی حمایت کرنے والوں میں سے ۶۱ فی صد نے بتایا کہ وہ اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ اسلام حجاب کا حکم دیتا ہے۔
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ،(الصف ۶۱:۸) اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
ہاشمی نسب جناب ہاشم بن عبدِمَناف سے شروع ہوتا ہے۔ بلندکردار قریشی سردار، ذہانت و جرأت میں ہی نہیں صداقت و امانت میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ قریشِ مکہ ہرسال موسم گرما میں اپنے تجارتی قافلے شام بھیجا کرتے۔ یہ قافلے سرما میں واپس لوٹتے۔ ان رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْف میں سے ایک قافلہ جناب ہاشم کی قیادت میں جاتا۔ ۲۵ برس کی عمر تک یہ سردار نمایاں ترین مقام حاصل کرچکا تھا۔ لوگ انھیں التَّاجِرُ الصَّدُوق ’انتہائی سچا تاجر‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ ۲۵سال کی عمر میں ہاشم بن عبدِمناف تجارتی قافلہ لے کر شام جا رہے تھے کہ وادیِ سینا سے ملحق علاقے غزہ میں انھیں اچانک بیماری نے آن لیا۔ یہ بیماری مرض الموت ثابت ہوئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد ہاشم بن عبدِمناف غزہ میں انتقال فرما گئے۔ غزہ کے محلے ’الدرج‘ میں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ قبر کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد، مسجدِسیدہاشم واقع ہے۔ یہ مسجد ممالیک کے عہد میںتعمیر کی گئی۔ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۵۰ء میں اس کی تجدید کی، غزہ کو اسی حوالے سے غزۂ ہاشم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
مصر کی وادیِ سینا سے منسلک اور بحرمتوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی ۴۰کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں سرزمینِ فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آگئی۔ مصری انتظام ۱۹ سال تک قائم رہا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ہی ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزۂ ہاشم پر ابتلا کا نیا دور شروع ہوگیا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی، آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں۔ یہودیوں نے بھی یہاں اپنی ۲۵ جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی کثافتِ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے گنجان انسانی آبادی بن گئی۔
مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک نئی نسل نے جنم لیا۔ شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیریحییٰ شہید جیسے راہ نمائوں نے اس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور بالآخر ۱۹۸۷ء میں اسلامی تحریک مزاحمت (ح: حرکۃ م: المقاومۃ اس: الاسلامیۃ حماس ،یعنی جوش و جذبہ) وجود میں آگئی۔ آغازِکار میں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا، معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا۔ ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر آتے، مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے۔ بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہدا، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریکِ انتفاضہ ہی کامیاب ہوئی اور ۱۹۶۷ء سے غزہ پر قابض صہیونی افواج ۲۰۰۵ء میں انخلا پر مجبور ہوئیں۔
صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں۔ صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک خودکو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمایندہ قرار دیتی رہی ہے۔ وہی۱۹۹۳ء کے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ’حکمرانوں‘ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے۔ اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خطیر امدادی رقم چند جیبوں میں جارہی ہے اس کرپشن پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا، مزید امداد کے لیے اکلوتی شرط یہی رکھی گئی کہ مزید دہشت گردوں، یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو۔
یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی لیکن جنوری ۲۰۰۶ء میں پورا نقشہ ہی بدل گیا۔ انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ امریکا، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی… اسرائیل پھر فوج کشی کردے گا… محاصرہ کردیا جائے گا… لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمایندہ منتخب کیا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی سب ایک مخمصے کا شکار ہوگئے۔ اپنے وضع کردہ نظام کو باقی رکھتے ہوئے حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرلیں یا سب کچھ لپیٹ کر، واپس ۱۹۹۳ء سے پہلے کی صورت حال میں جاپہنچیں۔ طویل لیت و لعل کے بعد صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے، منتخب ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا۔
کہنے کو تو ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی لیکن عملاً یہ زہریلے کانٹوں سے بھرا ایک تاج تھا جو حماس حکومت کے حصے میں آیا۔ کہنے کو تو صہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں ہے، بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمایندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے۔ منتخب حکومت کو ایک دن بھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ ۱۹۹۳ء میں صہیونی انتظامیہ کے ساتھ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں متعارف کروائی جانے والی فلسطینی اتھارٹی کی بنیاد ہی بیرونی مالی امداد اور اسرائیلی شراکت داری پر رکھی گئی تھی، حماس کی حکومت آتے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی۔ اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجاے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے اور ان سے یہی توقع تھی۔ حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے۔ پورے عالمِ اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی، بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا اور دنیا کو ’خطرہ‘ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوسکتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے بنکوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بنک فلسطینی حکومت کے اکائونٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہ کرے۔ کئی بنکوں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ دارانِ حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے۔
غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعداد چھے ہے۔ ان میں سے پانچ تو براہِ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں اور غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جب کہ ایک راستہ (رَفح گیٹ وے) غزہ کو مصر سے ملاتا ہے۔ وزیراعظم ھنیہ، وزیرخارجہ محمود الزھار اور دیگر کئی ذمہ داران حکومت کو رَفح کے راستے جمع شدہ مالی اعانت غزہ لے جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہربار فلسطینی مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت کرتے ہوئے یہ امداد اندر پہنچائی۔ تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یوں ہی گزرا۔ عالمی امداد بند، تمام بّری راستے جزوی طور پر بند، صہیونی فوجی کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام، آئے روز ذمہ داران قتل، مجاہدین گرفتار… صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں، اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے۔ اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں۔ مکہ مکرمہ میں حماس اور الفتح کے درمیان کعبے کے سایے میں ایک تفصیلی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں پھر شروع ہوگئیں۔ اغوا، قتل اور جلائوگھیرائو کی یہ کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو بالآخر ۱۴ جون ۲۰۰۷ء کو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی۔ حماس نے اعلان کیاکہ یہ صرف ایک عارضی اورانتظامی کارروائی ہے، ہم معاہدۂ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراکِ عمل چاہتے ہیں، لیکن ۱۴ جون کے واقعات کو بنیاد بناکر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا۔
اس محاصرے کو سات ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ غزہ آنے جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں۔ کوئی گاڑی، کوئی سواری، کوئی شخص غزہ آسکتا ہے، نہ وہاں سے جاسکتا ہے۔ اس مکمل بندش سے زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ ایندھن، پانی، ادویات، سامانِ خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا، وہ بند ہوگیا۔ غزہ سے کچھ سامانِ تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بند، غزہ میں موجود ۱۸ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند۔ غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے، ان کے جانے پر پابندی۔ غزہ میں علاج کی سہولت محدود ہونے کے باعث سنگین امراض کے شکار افراد علاج کے لیے رَفح کے راستے مصر لے جائے جاتے تھے۔ گذشتہ سات ماہ میں کئی افراد کو انتہائی مجبوری کے عالم میں مصر لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن انھیں کئی کئی روز راستے ہی میں روکے رکھا گیا جس کی وجہ سے ۸۲افراد راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ کئی مریض ایسے تھے کہ حصار سے پہلے مصری ہسپتالوں میں داخل تھے، انھیں علاج کے بعد واپس اپنے اہلِ خانہ کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔ ان میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
۲۰ جنوری ۲۰۰۸ء محاصرے کی ہلاکت خیزیوں کے عروج کا دن تھا۔ غزہ کی ۱۵ لاکھ آبادی بجلی کے حصول کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مصر سے آنے والی سپلائی کے رحم و کرم پر تھی۔ ۵ فی صد بجلی جنریٹروں کے ذریعے غزہ ہی سے فراہم ہوجاتی تھی۔ مقبوضہ علاقوں اور مصر سے آنے والی بجلی پہلے ہی بند کر دی گئی تھی۔ ۵ فی صد پر کسی نہ کسی طرح گزارا ہورہا تھا لیکن یہ جنریٹر بھی تیل سے چلتے ہیں اور ایندھن کی سپلائی گذشتہ سات ماہ سے بند تھی۔ ۲۰ جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ غزہ مکمل طور پہ تاریک ہوگیا۔ صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیا جاسکتا تھا لیکن برقی رَو نہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے، پانی ناپید ہوگیا۔ ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا، جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے، موت و حیات کی کش مکش سے دوچار ہوگئے۔ ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں، ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل، نقل و حرکت کے وسائل مفلوج، زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال۔ اسی پر اکتفا نہیں، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بم باری شروع۔ حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چُن چُن کر میزائلوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ منتخب وزیرخارجہ محمود الزھار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیا گیا (ان کا ایک بیٹا ۲۰۰۳ء میں اس وقت شہید ہوگیا تھا جب خود انھیں میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا)۔ حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر ۴۰ کے قریب افراد کو شہید کردیا گیا۔ شہدا اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھیں توان میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں کہ جن کی عمر بالترتیب ۴۲، ۵۴ اور ۵۹ سال ہے۔ باقی سب نوجوان یا بچے ہیں۔
۱۵ لاکھ انسانوں کو اب بھی پوری دنیا کے سامنے روزانہ موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں، اپنے نبیؐ کے قبلۂ اول اور مقام اسراء و معراج پر صہیونی قبضہ تسلیم کرنے سے انکاری فلسطینی۔ لاکھوں افراد کے سامنے جب کوئی راستہ نہ بچا تو ۲۲جنوری کی شام سیکڑوں خواتین رفح کے سرحدی پھاٹک پر جمع ہوگئیں، انھوں نے زبردستی پھاٹک کھولنے کی کوشش کی لیکن مصری انتظامیہ نے ان پر آنسو گیس اور گولیاں چلا دیں۔ اگلے روز، یعنی ۲۳جنوری کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے بلڈوزر کے ذریعے غزہ اور مصر کے مابین حائل جنگلے اور آہنی دیوار مسمار کر دی۔ پھر وہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کے قافلے مصری شہر عَرِیش اور رَفح کی جانب چل دیے۔ سب کا ہدف صرف یہ تھا کہ تیل، کھانے پینے کا سامان اور لالٹینیں، موم بتیاں خرید کر واپس جاسکیں۔ جب اتنی بڑی تعداد کو روکنا مصر کے لیے ممکن نہ رہا تو صدر حسنی مبارک نے اعلان کیا کہ ہم نے سرحد کھول دی ہے، فلسطینی سامان خوردونوش خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔ مصری دکان دار اور تاجر ایک انوکھی سرشاری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ معمول سے بھی کم قیمت پر جو کچھ ہے اپنے محصور بھائیوں کو پیش کر دیتے، بعض اوقات قیمت خرید سے بھی کم پر۔
یہ منظر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ہی قوم، ایک زبان، ایک ہی علاقے کے ساجھی ایک ہی نبیؐ کے اُمتی لیکن چند فٹ کی دیوار اور خاردار تاروں سے یوں تقسیم کردی گئی کہ ایک طرف ۱۵لاکھ انسانی جانیں موت کی دہلیز پر کھڑی ہیں اور دوسری جانب کے حکمران صرف امریکا و اسرائیل کے خوف سے انھیں روٹی، پانی، دوا یا تیل دینے سے انکاری ہیں۔ سرحدی دیوار روند دیے جانے پر امریکا بہادر نے خبردار کیا ہے کہ یہاں سے دہشت گرد اسلحہ اور مجاہدین غزہ جاسکتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہے کہ مصر یہ راستہ بند کردے وگرنہ براہ راست کارروائی کریں گے۔ اور مصر نے آمنا وصدقنا کہتے ہوئے یہ سرحدی شگاف بند کردیا۔ اب غزہ سے کسی کو مصر جانے کی اجازت نہیں البتہ فی الحال مصر کی طرف آئے ہوئے فلسطینیوں کو واپس غزہ کی سب سے بڑی انسانی جیل میں جانے کی آزادی ہے۔ سرحدی شگاف بند کردیا گیا لیکن اس اقدام سے اُمت کے جسد میں جو شگاف ڈالا جا رہا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مظلوم کے سامنے جب سب راستے بند کردیے جائیں تو پھر وہ کسی طرح سرحدیں مسمار کردیتا ہے۔ دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھ لیا۔
اہلِ غزہ پر توڑی جانے والی اس قیامت پر اُمت نے بیداری و زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے پورے عالمِ اسلام میں اس پر احتجاج کیا ہے۔ موریتانیا سے لے کر انڈونیشیا تک ہر جگہ مظاہرے اور مذمتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے مظاہرے مصر اور اُردن میں اخوان المسلمون نے کیے ہیں۔ ایران اور لبنان میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ موریتانیا میں خواتین کے مظاہرے میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ وضع حمل کے تیسرے روز بیماری کے باوجود مظاہرے کی قیادت کے لیے نکل آئی۔ خلیجی ریاستوں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے شہر شارقہ میں بھی مظاہرہ ہوا ہے حالانکہ وہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ دمشق میں ایک بڑی قومی کانفرنس ہوئی ہے۔ کئی عرب ممالک میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے: وَلَایَھُـمُّک فِلَسْطِین - کُلنُّا صَلاحُ الدِّین ’فلسطین فکر نہ کرو ہم سب صلاح الدین ہیں‘۔ اہلِ غزہ نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بینر بلند کیے: شعب غزہ ما بینھار ’غزہ کے باسی کبھی شکست خوردہ نہیں ہوں گے‘۔ عالمی سروے بتارہے ہیں کہ اہل غزہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کو اہلِ خانہ سمیت شعبِ ابی طالب میں محبوس کردیا گیا اور وہ خشک چمڑا اور درختوں کی چھال تک کھانے پر مجبور کردیے گئے تو ایک روز زہیر بن امیہ تڑپ اٹھا، اپنا شان دار جبہ زیب تن کرکے حرم میں آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور کہا: ’’ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں، طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں، ان سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند ہو…؟ نہیں، خدا کی قسم! نہیں۔ میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی‘‘۔ آج خود ہاشم بن عبدِمناف کے میزبانوں کے لیے غزہ کو شعبِ ابی طالب بنا دیا گیا ہے۔ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں کے گرد ۶۵۰ کلومیٹر لمبی اور ۲۵ فٹ اُونچی جدید ہتھیاروں سے آراستہ آہنی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ (دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر لمبی اور ۱۱ فٹ ۸ انچ اُونچی تھی) تمام راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ رسولِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد کا میزبان غزہ دہائی دے رہا ہے کہ: کیا دنیابھر میں پھیلے اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی زہیر بن اُمیہ نہیں ہے؟
اپنا سب کچھ امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دینے کے باوجود، آج پاکستان کو امریکا سے وہ دھمکیاں مل رہی ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں ملی تھیں۔ امریکی دانش ور پاکستان کو سابقہ سوویت یونین جیسے دشمن کا ’مرتبہ‘ دے رہے ہیں۔ کھلم کھلا تجاویز آرہی ہیں کہ اسلام آباد پر امریکی افواج اتار دینا چاہییں۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحے کو ’محفوظ‘ ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے میکسیکو یا کسی قریبی محفوظ و خفیہ مقام پر منتقل کردینا چاہیے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان پر قبضہ کرلینا چاہیے۔
عراق پر امریکی فوج کُشی کے ایک اہم نقشہ گر، ممتاز عسکری مؤرخ، بش انتظامیہ سے مضبوط نظریاتی وابستگی رکھنے اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینک میں کام کرنے والے امریکی دانش ور فریڈرک کاگان (Frederick Kagan) نے صدربش کو پاکستان کے بارے میں بھی نقشۂ کار پیش کردیا ہے۔ کاگان کی اس دستاویز کے حوالے سے برطانوی اخبار گارڈین اپنے یکم دسمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں سرخی جماتا ہے: ’’پاکستانی ایٹمی اسلحہ قبضے میں لینے کا منصوبہ بش کے سپرد کردیا گیا‘‘۔ کاگان اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:’’سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار مایوس عناصر کے ہاتھ میں جاتے دیکھ کر امریکا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا‘‘۔ خود گارڈین ایک عسکری ماہر اور امریکی وزارتِ خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے لکھتا ہے: ’’اگرچہ حکومتوں کو بعض اوقات ناقابلِ تصور امور پر بھی سوچ بچار کرنا ہوتی ہے، لیکن یہ خیالات اور تجاویز واشنگٹن کے عسکری کیمپ پر نمایاںاثر ونفوذ رکھنے والے ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہیں، جس کے مشوروں پر عمل کر کے امریکی افواج کو عراق میں اپنی مشکلات کم کرنے میں مدد ملی ہے‘‘۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
کاگان نے پاکستان پر فوج کشی کی بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے بارے میں بھی تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور پاک فوج کو تقسیم کرنے کی ناپاک خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’ہمیں [پاکستان کی] صورت حال کا مکمل اور ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ہوگا۔ ہمیں اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا جو ہمارے لیے اسی طرح ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے جس طرح کبھی سوویت ٹینک ہمارے لیے خطرہ تھے‘‘۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان پر حملہ بہت مہنگا سودا ہوگا، لیکن جو راستہ وہ منتخب کرنا چاہتا ہے، وہ حملے سے بھی زیادہ مہلک ہے، کہتا ہے: ’’ہم حملہ نہیں کرسکتے، ہم صرف پاکستانی فوج کے بعض عناصر کے اشتراک سے کارروائی کرسکتے ہیں… وزیرستان اور شمال مغربی سرحدی علاقے میں لڑتے لڑتے پاکستانی فوج نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ وہاں سے شکست کھاکر نکل آئے، اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ آئے اور وہاں انتہاپسند آجائیں۔ ایک خراب صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج تقسیم ہوجائے اور اس کا انتہاپسند گروہ ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرلے… یہ ٹھیک ہے کہ فوجی افسروں اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد اعتدال پسند ہے، واضح رہے کہ امریکا کی یہی سوچ شاہِ ایران کی حکومت کے بارے میں بھی تھی، مگر دیکھو وہاں ۱۹۷۹ء میں کیا ہوا‘‘۔
عراق کے ایٹمی اور کیمیائی اسلحے کا ہو.ّا کھڑا کر کے اس پر تباہی مسلط کردینے، ایران پر ایٹمی اسلحے کی تیاری کے الزامات کی آڑ میں دھمکیوں اور پابندیوں کے طوفانوں کے بعد اب پاکستانی ایٹمی اسلحہ انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ جانے کی احمقانہ بات کو اپنی منصوبہ بندیوں کا مرکز و محور بنایا جارہا ہے۔ کاگان اور کئی امریکی دانش ور اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسے ہی مسموم و مذموم خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ۱۸نومبر۲۰۰۷ء کے نیویارک ٹائمز میں’پاکستان کی تباہی، ہمارا اصل مسئلہ‘ کے عنوان سے کاگان اور مائیکل ہینلون (Michael Hanlon)نے لکھا ہے کہ ایک تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو استحکام بخشنے کا ہدف حاصل کرنا امریکا اور اس کے حلیفوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۱۶ کروڑ کی آبادی اور عراق سے پانچ گنا زیادہ رقبے پر مشتمل پاکستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً آدھی دنیا کا سفر طے کرنا ہوگا، جو طویل وقت کا متقاضی بھی ہوگا اور پھر جب تک ہمارے پاس اس بارے میں دقیق معلومات نہ ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی مواد کہاں کہاں ہے، ہم بمباری کرنے اور اسپیشل فورس استعمال کرنے پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ سرسری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان جیسے ملک کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً ۱۰ لاکھ فوجی درکار ہوں گے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر ہمیں کامیابی کی امید نظر آئے تو ہمیں پاکستانی حکومت کی مکمل تباہی سے پہلے پہلے کارروائی کرنا ہوگی اور اس کے لیے ہمیں ’اعتدال پسند‘ قوتوں کا تعاون درکار ہوگا۔
اعتدال پسند قوتوں کے تعین اور ان سے تعاون کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے خودساختہ پیمانے سب پر عیاں ہیں۔ اب تک اکلوتی بااعتماد اعتدال پسند ’طاقت‘ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کے حواری تھے، لیکن اب کئی دیگر پارٹیاں بھی طائفے میں شامل کی جارہی ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں ان کی راے جاننے کے لیے مارون جی وائن بوم کے ایک تازہ انٹرویو سے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ موصوف پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اتھارٹی ہیں۔ وہ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۳ء تک امریکی وزارتِ خارجہ میں باقاعدہ ذمہ دار بھی رہے ہیں، کہتے ہیں: ’’بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مشرف ہم سے جتنے بھی مخلص ہوں، وہ القاعدہ و طالبان کے خلاف امریکا سے تعاون کے لیے جتنے بھی پُرعزم ہوں لیکن اب وہ عملاً ایسا کر دکھانے کی صلاحیت کھو چکے ہیں… ’’صدر پرویز مشرف نے وردی اُتار کر سیاسی لحاظ سے کچھ وقت مزیدحاصل کرلیا ہے، لیکن رہے گا وہ ایک کمزور مشرف‘‘۔
اس سب کچھ کے باوجود وائن بوم اور کئی دیگر امریکی ذمہ داران کی آرا اور امریکی پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکا فی الحال اسی کمزور پرویز مشرف کو حکمران دیکھنا چاہتا ہے۔ ’وہ بے بس ہے‘، ’وہ مزید اقدامات کی استعداد نہیں رکھتا‘، ’وہ کمزور تر ہوچکا ہے‘ جیسے بیانات کے چابک، اس کمزور لیکن مطلق العنان حکمران سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانے کا بہانہ ہیں۔ کمزور حکمران کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مزید ’روشن خیال‘ عوامی طاقت بھی فراہم کر دی جائے۔ انتخابات میں بظاہر برسرپیکار پارٹیوں کو انتخابات کے بعد یکجا کر دیا جائے اور اس طرح اعتدال پسند طاقت کا ایک نیا فارمولا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔
امریکی عسکری ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے امریکی دوستی کا دم بھرنے والے پاکستانی بھی بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ ان سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانا کوئی بہت آسان ہدف نہیں ہوگا۔ لیکن مختلف متبادل تجاویز کے بعد زیادہ تر آرا اسی پر مجتمع ہوتی ہیں کہ براہِ راست فوج کشی کی تیاریاں کی جائیں، محدود فوجی کارروائیاں جاری رکھی جائیں، کمزور حکمرانوں کو اپنی دست نگر سیاسی قیادت کی کرم خوردہ بیساکھی فراہم کی جائے، پھر مزید دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کی وحدت اور ایٹمی اسلحے سمیت پاکستان کے تمام ملّی مفادات کو ایک ایک کر کے خاک میں ملا دیا جائے۔ اس حکمت عملی میں بوقت ضرورت بھارت کو بھی آزمودہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر امریکی حملے کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی تعریفوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ مثال کے طور پر سابق نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ (Karl Inderfurth) کا یہ مضمون ملاحظہ فرمایئے: India and the United States: A rare Stable Partnership (بھارت اور امریکا ایک منفرد مستحکم اشتراکِ کار)۔ ۱۸ نومبر ۲۰۰۷ء کو شائع شدہ اس مضمون میں وہ آیندہ سال آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کو رہنمائی دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نئی امریکی انتظامیہ کے لیے اصل چیلنج یہ ہوگا کہ صدر کلنٹن اور صدر بش نے بھارت امریکا تعلقات کی جو مضبوط بنیاد قائم کی ہے، وہ ان تعلقات کو اگلے مراحل تک لے جائیں‘‘۔ امریکی بھارتی مشترکہ مفادات کی فہرست گنواتے ہوئے تان اس بات پر توڑتے ہیں:’’ہم دونوں جہادی دہشت گردی کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ان مشترکہ مفادات کو حاصل کرنے اور دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات میں وہ جہاں یہ تجویز دیتے ہیں کہ بھارت کو سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لیے امریکا کھل کر اس کی مدد کرے ، امریکا بھارت عسکری تعاون میں بے محابا اضافہ ہو، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ایک دوسرے کی پشتیبانی ہو، وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت مل کر پاکستان کو ایک ’محفوظ‘، ’جمہوری‘ اور’ مستحکم‘ ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔ حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے اگر شدت پسند عناصر نے پاکستان کے جوہری اسلحے پر قبضہ کرلیا تو ’’امریکا اور بھارت کے لیے اس سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان خیالاتِ ’عالیہ‘ کی روشنی میں بھارتی حکمرانوں کا یہ فرمان بھی اذہان میں تازہ کرلیجیے جو انھوں نے پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے بارے میں دیا ہے۔ گویا یہ ہتھیار محفوظ ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفیکٹ بھارت کو دینا ہے۔
اپنے اس مقالے میں امریکی دانش ور بھارت کے ساتھ اپنے اکلوتے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’بھارت نے ہمارے کہنے کے باوجود ابھی تک جوہری پھیلائو کو روکنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے، لیکن اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے مزید وقت اور صبروتحمل کی ضرورت ہے‘‘۔
ظاہر ہے کہ صبروتحمل پر مشتمل پالیسی تو صرف بھارت یا اسرائیل جیسے اپنوں کے لیے ہوسکتی ہے، رہے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک تو یہ دہشت گرد گنوار فوج کشی کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیے اس کی تیاریاں ہی نہیں، عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا مسلم اُمت اور پاکستانی قوم ان خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ جن تازہ دم اعتدال پسندوں کو قریب المرگ اعتدال پسند کی مدد کے لیے لایا جا رہا ہے، کیا وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کی گردن پر کون سا جوا لادا جا رہا ہے؟ کیا بے نظیر جانتی ہیں کہ جس ایٹمی پروگرام کی سزا ان کے والد کو دی گئی، اب انھی کے ہاتھوں اس کے گرد اپنا مکروہ جال تنگ سے تنگ کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں؟ اور کیا ’سب سے پہلے پاکستان‘ والے ریٹائرڈ جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا یہ جانتے ہیں کہ اپنی قوم اور اپنے ضمیر سے غداری کرنے والے میرجعفر اور میرصادق کا دنیا و آخرت میں کیا انجام ہوتا ہے؟ ایک اور سوال ہم میں سے ہر شخص کو خود سے پوچھنا ہے کہ اب، جب کہ خطرات گھر کی منڈیروں سے جھانک رہے ہیں، ہم ان کے مقابلے کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں؟کیا رب سے لو لگاتے ہوئے، منظم اجتماعیت سے وابستہ ہوکر مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے، ہر قربانی کے لیے تیار ہوکر میدانِ عمل میں اُترنے کا وقت نہیں آن پہنچا؟ رہیں امریکی دانش وروں کی دھمکیاں تو وہ خاطر جمع رکھیں۔ امریکی عوام کی غالب اکثریت سمیت دنیا کا ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ یہ دھمکیاں نہیں خودکشی پر اصرار ہے اور اگر کسی کو یہ حقیقت سمجھ نہ آئے تو عراق یا افغانستان میں موجود کسی امریکی فوجی یا اس کے خاندان سے دریافت کر لے۔
اسے ایک اتفاق قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز ترکی میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جارہے تھے‘ اسی روز ترک ساحلوں پر امریکی‘ اسرائیلی اور ترک افواج کی مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہو رہا تھا۔ ترک سیاست میں ترک فوج کا یک طرفہ اور جانب دارانہ کردار کسی سے مخفی نہیں ہے اور خود کو ترک سیکولرزم کی محافظ قرار دینے والی اس فوج میں صہیونی و امریکی اثرونفوذ بھی موقع بہ موقع سرچڑھ کر بولتا ہے۔
۲۰ اگست ۲۰۰۷ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج حسب توقع حکمران انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کے امیدوار عبداللہ گل کی شکست کی صورت میں نکلے۔ اس مرحلے میں ان کی اصل کامیابی یہ قرار پائی کہ فوج‘ ایوانِ صدر اور اپوزیشن سیکولر پارٹی کی تمام دھمکیوں کے باوجود پارلیمنٹ میں موجود رہنے والے ارکان کی تعداد دو تہائی سے کہیں زیادہ تھی۔ گذشتہ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اسی نکتے کو بنیاد بناکر اعلیٰ عدالت نے پورا انتخابی عمل کالعدم قرار دے دیا تھا‘ اور اس کے بعد قبل از وقت انتخابات منعقد کروانا پڑے تھے۔
اس انتخاب میں دوسرا امیدوار نیشنلسٹ تحریک کی طرف سے تھا۔ صباح الدین چکماک نامی اس امیدوار کو ۷۰ ووٹ ملے‘بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی (DSP) کے امیدوار تایفون اِچلی نے بھی وقت ختم ہونے سے دوگھنٹے پہلے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے تھے انھیں ۱۳ ووٹ ملے۔ دونوں امیدوارون کی پارٹی ارکان اسمبلی کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک اور اہم عنصر کرد ارکان ہیں۔ ترک پارلیمانی نظام کے مطابق اگر ۲۰ سے زائد ارکان اپنا الگ گروپ بناناچاہیں تو بناسکتے ہیں۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر آنے والے یہ ۲۴ ارکان اب کرد آبادی کی نمایندگی کرنے کے لیے ایک مؤثر گروپ ہیں۔ ترکی قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کو اسمبلی میں آنے کے لیے کم از کم ۱۰ فی صد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ۱۳ برس تک کوئی کرد رکن پارلیمنٹ میں نہیںآسکا تھا کیونکہ وہ ہر بار ۱۰فی صد کی حد پار نہیں کرسکے تھے۔ اس بار وہ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے آئے اور ۲۴ کا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
۵۷سالہ گل ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۰ء کوقیصری شہر کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ استمبول یونی ورسٹی سے اقتصادیات میں ڈگری حاصل کی‘ پھر برطانیہ سے اقتصادیات ہی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اسلامی ڈویلپمنٹ بنک میں اقتصادی ماہر کی حیثیت سے کام کیا اور ۱۹۹۱ء میں ترکی واپس جاکر اپنے استاد اور قائد نجم الدین اربکان کے ساتھ انتخابی عمل میں باقاعدہ شریک ہوگئے۔ ۹۱ء سے لے کر اب تک قیصری سے ہر بار انتخاب جیتا۔ ۱۹۹۵ء میں مخلوط حکومت بنی تو عبداللہ وزیرمملکت براے امورخارجہ بنے لیکن ۱۹۹۷ء میں سیکولرزم کی حفاظت کے نام پر فوج نے اربکان حکومت کاخاتمہ کردیا۔ ۱۹۹۸ء میں رفاہ پارٹی ہی کو غیرقانونی قرار دیدیا گیا۔ اربکان نے فضیلت پارٹی بنائی تو گل اس کا نہ صرف حصہ تھے‘ بلکہ انھوں نے پارٹی کا صدارتی انتخاب لڑا‘ اور پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے معتمدعلیہ ساتھی رجائی قوطان سے مقابلے میں ناکام رہے۔ ۲۰۰۱ء میں ’فضیلت‘ پر بھی پابندی لگی تو اربکان نے ’سعادت پارٹی‘ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر گل‘ اردوگان اور تقریباً ۵۰ فی صد ارکان نے اس کا حصہ بننے کا بجاے انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کا اعلان کردیا۔ گل اور اردوگان بھی پروفیسر اربکان کے انتہائی معتمدترین ساتھیوں میں سے تھے۔ رفاہ پارٹی کی حکومت اور اس سے پہلے ترک بلدیاتی اداروں میں رفاہ پارٹی کی خدمات میں دونوں کا کردار کلیدی تھا۔ رجب طیب نے استمبول کے میئر کی حیثیت سے انتہائی جانفشانی‘ ایمان داری اور اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تحریک کے بارے میں لوگوں کے عمومی تاثر کو یک سر بدل دیا تھا۔ دونوں نوجوان‘ یعنی صدر اور وزیراعظم اپنی اسلامی شناخت اور اسلامی فکر کے اعتبار سے اتنے ہی یکسو تھے جتنے خود ان کے بزرگ رہنما‘ پروفیسر اربکان اکثر وبیش تر اپنے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے عبداللہ گل ہی پر اعتماد کیا کرتے تھے۔ اپنے استاد و رہنما اربکان کی طرح رجب طیب اردوگان پر بھی سیکولرزم کو چیلنج کرنے کا الزام تھا۔ ایک اجتماع میں انھوں نے جب ترک قومی شاعر کی ایک نظم کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں اگر ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے تو شاید تم درست کہتے ہو‘ دیکھو یہ مسجدیں ہماری بیرکیں‘ ان کے مینار ہمارے نیزے اور ان کے گنبد ہماری ڈھالیں ہیں‘‘ تو ان پر مقدمہ چلا‘ قید کی سزا سنا دی گئی اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
جب اربکان سے علیحدگی اور انصاف و ترقی پارٹی بنالینے کے بعد طیب اردوگان دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تب بھی وہی مسجدوں کے ’دہشت گردانہ‘ استعارے کے الزام میں لگی اس پابندی کی مدت باقی تھی۔ ایک دوسرے کے سائے کی حیثیت اختیار کرجانے والے طیب و عبداللہ نے فیصلہ کیا کہ عبداللہ تب تک وزیراعظم ہوں گے جب تک طیب پر لگی پابندی کی مدت پوری نہ ہوجائے۔ یہ مدت پوری ہوئی‘ طیب رکن اسمبلی بنے‘ عبداللہ گل نے بغیر ادنیٰ تأمل کے وزارت عظمیٰ کی ’امانت‘ طیب اردوگان کے سپرد کی اور خود ان کی کابینہ میں وزیرخارجہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان لڑکپن ہی سے ’گل‘ اور ’بوے گل‘ جیسا یہ تعلق‘ ایک اکیلا اور دو گیارہ کی عملی تفسیر ہے۔
’انصاف و ترقی‘ کی تشکیل کے اعلان سے لے کران کی واضح جیت تک اور پہلی حکومت سازی سے لے کر حالیہ انتخابات تک ترکی کے اندر اور باہر ایک گہرا تاثر یہ اُبھرا کہ ان نوجوانوں کا یوں الگ ہوکر نئی پارٹی بنانے اور اپنے سابقہ تعارف و نسبت کا یک گونہ پردے میں لے جانے کا فیصلہ‘ بنیادی طور پر باہمی مشورے اور حکمت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ترک ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہی تاثر تھا کہ ’انصاف و ترقی‘ کو پروفیسر اربکان کی خاموش و خفیہ سرپرستی حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ کمال اتاترک کے ظالم جانشینوں نے سیکولر فوج کی مدد سے جب اربکان اور ان کی تحریک کے سامنے تمام راستے بند کردیے‘ ان کی ملی نظام پارٹی‘ ملی سلامت پارٹی‘ رفاہ پارٹی‘ فضیلت پارٹی اور پھر سعادت پارٹی کا ناطقہ بند کرنے کے لیے کسی اخلاقی و قانونی ضابطے کو خاطر میں نہیں رکھا گیا تو ’انصاف و ترقی‘ کے نام پر آگے بڑھنے کا فیصلہ‘ کسی خفیہ اتفاق راے سے کیا گیا۔ اس تاثر نے پروفیسر اربکان کے لاکھوں متوالوں کے ووٹ بھی اردوگان کے پلڑے میں ڈال دیے۔
حقیقت میں یہ تاثر بالکل خلافِ واقع ہے۔ حالیہ انتخابات میں ڈاکٹر اربکان نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ اس لہجے کا آغاز علیحدگی کے وقت سے ہی ہوگیا تھا‘ لیکن اب اردوگان اور ان کی پارٹی پر نجم الدین اربکان کی تنقید اپنے انتہائی عروج پر ہے۔ مئی کے اختتام میں ان سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع ملا‘ وہ اور ان کی سعادت پارٹی کے اکثر رہنما اس بات پر مکمل طور پر یک سو اور پختہ راے رکھتے تھے کہ ’انصاف و ترقی‘ پارٹی کی قیادت نہ صرف مکمل طور پر امریکی اطاعت قبول کرچکی ہے‘ بلکہ علاقے میں امریکی‘ صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کے ایجنٹ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اربکان صاحب کے الفاظ میں: ’’اگر کوئی شخص نماز بھی پڑھتا ہو لیکن سلام پھیرتے ہی صہیونی دشمن کے صدقے واری جاتے ہوئے ان کی غلامی اختیار کرلے تو جوفرق اس میں اور ایک کھرے مسلمان میں ہے وہی فرق انصاف پارٹی اور سعادت پارٹی میں ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب دائیں اور بائیں کی تقسیم ختم ہوچکی ہے۔ اب دنیا کی تقسیم یوں ہے کہ ایک طرف صہیونی اور ان کے حلیف ہیں اور دوسری طرف ان کے مخالفین ہیں‘‘۔ ان کے ایک کارکن گویا ہوئے: پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کے درمیان ملاقات کروانے میںاردوگان حکومت کا اہم کردار تھا‘ کیا اس کے بعد بھی تمھیں کوئی دلیل چاہیے ان کی صہیونیت نوازی کی؟‘‘
اردوگان اور ان کے رفقاے کار کے بارے میں زیادہ اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت ان کی سب سے اہم ترجیح ہے اور اس مقصد کی خاطر وہ تمام ایسے اقدامات کرتے چلے جارہے ہیں جن کا ان سے تقاضا کیا جائے خواہ وہ اسلامی تعلیمات سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر باہمی رضامندی سے بدکاری کو جرم نہ قرار دینے کے لیے قانون سازی‘ دستور میں خاندان کی اس تعریف کے بجاے کہ ’’خاندان میاں بیوی سے عبارت ہے‘‘، یہ تعریف شامل کرنا کہ ’’خاندان دو افراد کی رضامندی سے تشکیل پاتا ہے‘‘ (یعنی خواہ دونوں ایک ہی جنس سے کیوں نہ ہوں)‘ خنزیر کے گوشت کی کھلے عام فروخت پرسے پابندی ختم کردینا وغیرہ۔ یہ اور اس طرح کے اقدامات کی ایک طویل فہرست پیش کی جاتی ہے کہ اب ان اقدامات کے بعد کوئی کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے نظریات سے وفادار ہیں اور ان کے یہ سارے اقدامات صرف سیکولر فوج کے شر سے بچنے کی خاطر ہیں۔
اس تناظر میں عالمِ عرب میں یہ بحث بہت شدومد سے چھیڑی گئی کہ اگر ترکی میں ایک جماعت اپنے اسلامی نظریات سے (بظاہر یاحقیقتاً) دست بردار ہوکر کامیابی کے زینے طے کرسکتی ہے تو عالمِ اسلام کی باقی جماعتیں کیوں اپنی اسلامی شناخت پرمصر ہیں۔ وہ کیوں دورِحاضر کے تقاضوں سے مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اس سلسلۂ بحث میں انصاف و ترقی پارٹی کے دفاع و ستایش میں بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ معروف امریکی دانش ور گراہم وولر اپنے مضمون ’ترکی میں اسلامیوں کی جیت‘ میں لکھتے ہیں: ’’انصاف پارٹی کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ملک میں نفاذِ شریعت کا ارادہ نہیں رکھتے اور سیکولرزم کی تائید کرتے ہیں‘ اس پر غیراسلامی پارٹی ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کئی اسلامی عناصر اس پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ترکی کومغرب کے ہاتھوں فروخت کرڈالا ہے۔ آیئے ان الزامات کاتجزیہ کرتے ہیں۔ ترکی کے دستور کے مطابق ہروہ پارٹی جو سیکولر نظام کا خاتمہ چاہتی ہے‘ غیرقانونی ہے۔ ایسے میں وہ اس کے علاوہ اورکیا بیان دے سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک فریق انھیں غیراسلامی کہہ رہا ہے اور دوسرا ان پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ ’تقیہ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اسلامی شناخت کو چھپانے کے لیے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں‘‘۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’’کیا صرف نفاذ شریعت ہی وہ اکلوتا معیاررہ گیا ہے جس سے کسی کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا تعین ہو؟ آج کے جدید معاشرے میں شریعت کے علاوہ اور بڑے گنجلک مسائل ہیں‘ جیسے جنگ یا امن‘ تعلیم اور ٹیکسوں کا نظام‘ عالمی قرضوں کا نظام اور عالمی سرمایہ کاری‘ ٹکنالوجی اور تجارت‘ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا شریعت سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے‘‘۔
اگرچہ گراہم وولر کے اس پورے استنباط میں شریعت کے بارے میں خود ان کا اپنا تصور بہت ادھورا و ناقص ہوناواضح ہو رہا ہے لیکن اپنے تجزیے میں وہ اس بات پر خصوصی اصرار کرتے ہیں کہ ’’انصاف پارٹی کی جیت سے امریکا اسلامی تحریکوں کے بارے میں اپنے رویے پر نظرثانی کرسکتا ہے۔ امریکا جو ایرانی انقلاب اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد اسلامی عناصر کے بارے میں بہت منفی نقطۂ نظر رکھتا ہے‘ اب انصاف پارٹی کی پالیسیوں اور واضح کامیابی کے بعد اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ترکی میں منصفانہ انتخابات پر ترکی کو مبارک باد پیش کی ہے اور اگر انصاف و ترقی پارٹی اچھی حکومت تشکیل دیتی ہے تو امریکا اس سے اچھے تعلقات کاخواہاں ہوگا۔ یہ امرمستقبل میں دیگر اسلامی تحریکوں کو بھی قبول کرلینے کی نظیربن سکتا ہے‘‘۔ گراہم وولر مؤثر امریکی اداروں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ عالمِ اسلام کے بارے میں ان کی راے اہم قرار دی جاتی ہے۔ وہ جب اسلامی جماعتوں اور مسلم معاشرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ دین و شریعت سے سروکار رکھنے والی کسی پارٹی کو اقتدار میں آنا بھی نہیںچاہیے کیونکہ حکومتی معاملات چلانا دینی مسائل حل کرنے سے مختلف چیز ہے۔ دینی مسائل اہم چیز ہیں لیکن اگر کوئی جماعت بنیادی طور پرانھی مسائل کے گرد گھومتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایک دعوتی تحریک بن جائے۔ دینی و اخلاقی خطاب کرے لیکن اسے حکومت نہیں بنانی چاہیے‘‘۔ تب یہ بحث ایک نئی جہت اور نئی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔
تیونس کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ راشدغنوشی نے بھی اس ضمن میں بہت اہم مضمون تحریر کیا ہے لیکن انھوں نے اس نظریے کی مذمت و تردید کی ہے کہ اسلامی تحریکوں کو جیتنے کے لیے اپنے اسلامی تشخص‘ اسلامی پروگرام اور اسلامی اقدار و تعلیمات سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے عالمِ اسلام کے سیکولر عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انصاف و ترقی پارٹی ترکی کے سیکولر دستور کا احترام کرتے ہوئے خود کو ایک سیکولر تحریک کے روپ میں پیش کرتی ہے تو پھر عالمِ اسلام کی سیکولر پارٹیوں کو بھی اپنے ممالک کے اسلامی دساتیر کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا چاہیے۔
ان کے بقول: ’’ترکی کا تجربہ وہاں کے مخصوص حالات کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہ دیگر اسلامی ممالک کے لیے مثال نہیں بن سکتا۔ یہ تجربہ وہاں کے جبر اور اضطراری کیفیت کا ماحصل ہے۔ سالہا سال کے تلخ تجربات کے بعد حالات نے اسلامیانِ ترکی کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے اس عقیدے کے خلاف نظریات اپنانے کا اعلان کریں کہ اسلام صرف عقیدہ ہی نہیں کامل منہاجِ حیات ہے… دنیا بھر میں اسلامی بیداری کی مضبوط سے مضبوط تر ہوئی لہر میں بالآخر ترک اسلام کو بھی ضم ہونا ہوگا۔ بالآخر سب کو اسلام کے اسی عظیم چشمۂ صافی سے سیراب ہونا ہے جس میں نہ کوئی تلچھٹ ہے‘ نہ کوئی تحریف‘‘۔
اگرچہ ہردور میں اس سوال کا جواب اپنے اپنے انداز میںدیا گیاہے لیکن اسلامی تحریکوں کو قابلِ قبول بننے اور خود کو عالمی حالات کے مطابق ڈھال لینے یا اکل کھرے انداز سے اپنے نظریات و مقاصد پر جمے رہنے کی اس اہم نظریاتی بحث پر بے لاگ‘ غیر جانب دارانہ‘ غیر معذرت خواہانہ اور مکمل طور پر کھلے دل و دماغ سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سید قطبؒ کی مفصل تحریر میںسے یہ مختصر اقتباس بھی پیش نظر رہے:
ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنھیں سب صادق و امین مانتے تھے‘ جنھیں قریش نے بھی حجراسود رکھنے کے معاملے میں فیصلے کا اختیار دیا اور جو بنی ہاشم سے اور قریش میں بھی اعلیٰ ترین نسب رکھتے تھے‘ کے لیے زیادہ مناسب ہو تاکہ وہ پہلے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ جب سب عرب ان کا اقتدار تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنا حکمران و سربراہ تسلیم کرلیتے تو پھر آپؐ اس پورے اقتدار کو عقیدۂ توحید راسخ کرنے اور لوگوں کو اپنا مطیع فرمان بنالینے کے بعد ان کے رب کے اقتدار کے سامنے جھکانے کے لیے صرف کردیتے… لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے اپنے رسولؐ کو یہ راہ نہیں دکھائی بلکہ آغازِ کار ہی سے فرما دیا کہ لا الٰہ الا اللہ کا واضح اعلان کردیجیے۔ اس راستے میں آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو بھی اذیت پہنچے اسے برداشت کیجیے۔
مستقبل قریب میں ان انتخابات اور انصاف پارٹی کی مقبولیت کے حقیقی اثرات و نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے لیکن جو نتائج اس وقت دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ گذشتہ ۸۰برس سے زائد عرصے سے جاری نام نہاد روشن خیال پالیسیوں اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کے جواب میں ترک عوام کی واضح اکثریت‘ ایک سروے کے مطابق ۶۵ فی صد نے سیکولر قوتوں سے نفرت کا اظہار کیا ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔