عبد الغفار عزیز


ابھی کعبے کے سایے میں طے پانے والے ’معاہدۂ مکہ‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ۱۹۴۸ء میں آدھے سے زائد فلسطین کو اسرائیل قرار دے دیے جانے اور ۱۹۶۷ء میں پورے فلسطین‘وادیِ سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوتے ہوئے عرب افواج کو شکست فاش دینے کے علاوہ بھی فلسطینی قوم کو بہت بڑے بڑے صدمے‘ سانحے اور قیامتیں دیکھنا پڑی ہیں لیکن حالیہ سانحہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے بعد سب سے تکلیف دہ گھائو ہے۔ دشمن کے وار سہنا اور اس کی طرف سے ظلم‘ زیادتی اور سازشوں کی توقع رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ درندے درندگی نہ دکھائیں تو اور کیا کریں، لیکن ’اپنے‘ بھی ان کی صف میں جاکھڑے ہوں تو صدمہ و اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کو بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود حماس نے حیرت انگیز اصرار کیا کہ تنہا ہم حکومت نہیں بنائیں گے۔ انتخاب میں ہمارے مقابل شکست کھانے والی الفتح بھی آئے‘ ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ الفتح سے پہلے امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جواب آیا: خبردارکسی صورت حماس سے اشتراک نہ کیا جائے‘ ہم ایسی کسی حکومت کو  تسلیم نہیں کریں گے۔ انتخاب کے بعد حکومت سازی کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے لگی تو حماس نے مجبوراً تنہا حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ الفتح کے سابق وزرا نے نئی تشکیل شدہ حکومت سے ’بھرپور تعاون‘ کیا، اور وہ یوں کہ دفاتر چھوڑتے ہوئے وہاں سے سارا فرنیچر‘ اسٹیشنری کا سامان‘ گاڑیاں حتیٰ کہ چائے کے برتن تک اپنے ساتھ لے گئے۔ ساتھ ہی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل نے ہر طرح کی مالی امداد بند کردی۔ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی سامان رسد پر ماہانہ  ۵۵ملین ڈالر کے ٹیکس جمع کرتا ہے جو اس کے پاس فلسطینی اتھارٹی کی امانت قرار دی گئی ہے‘ اس نے وہ بھی اداکرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کے پاس کسی چپڑاسی تک کو تنخواہ دینے کے لیے کچھ  نہ تھا۔ اس سارے کھیل کا اصل ہدف یہ تھا کہ فلسطینی عوام‘ حماس کو اپنے سارے دکھوں کا سبب قرار دیتے ہوئے بھوکے مریں گے تو ازخود بغاوت کردیں گے‘ حماس کی ناکامی درودیوار پر ثبت ہوجائے گی‘ لیکن صہیونی لومڑی دن رات ناچتے رہنے کے باوجود ’کھٹے انگوروں‘ تک نہ پہنچ سکی۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے بھی بڑھ کر حماس پر اعتماد کیا۔ حماس کے وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داروں نے بھی اپنا چولھا بجھا کر اپنے عوام کی خدمت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بلدیہ کے جمعداروں کو بھی تنخواہ دینا ممکن نہ رہا تھا تب وزیراعظم خود ان کے ساتھ مل کر غزہ کی سڑکوں پر صفائی کرنے کے لیے اُتر آیا۔

عین انھی لمحات میں امریکا نے صدر محمود عباس (ابومازن) کی ذاتی حفاظت کے لیے آٹھ کروڑ ۶۰ لاکھ (۸۶ ملین) ڈالر کی امداد فراہم کی۔ صدر کے مشیرخاص اور خود الفتح کی صفوں میں بھی بدنام اورمتنازع ترین شخصیت محمد دحلان کو اسلحے اور سرمایے کے ڈھیر فراہم کرنا شروع کردیے گئے تاکہ فلسطینی حکومت کی تابع سیکورٹی فورسز کے مقابل صدارتی فوج تیار کی جائے۔ تقریباً ۳۳ہزار افراد پرمشتمل متوازی سیکورٹی کھڑی کردی گئی‘ حماس کے ذمہ داران کے علاوہ ان کی حمایت کرنے والے عوام کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور بالآخر فلسطینی صہیونی کے بجاے الفتح حماس جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس موقع پر مختلف اطراف و اکناف سے مصالحت کی کوششیں ہوئیں اور گذشتہ مارچ میں طرفین نے سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ کی دعوت پر مکہ آکر مذاکرات کیے‘  جن کے نتیجے میں ایک سال سے زائد عرصے کے بعد حماس کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ فلسطین میں متفق علیہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ حماس نے اس ضمن میں کئی کڑوے گھونٹ پیے‘ واضح اکثریت رکھنے کے باوجود خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری قبول کرلی اور حکومت میں امریکا کے منظورنظر کئی نام بھی قبول کرلیے جیسے خزانہ کے لیے سلام فیاض۔

معاہدۂ مکہ اور قومی حکومت کی تشکیل فلسطینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دحلان گروپ نے اس پر ایک روز کے لیے بھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ وزیرداخلہ (جس کا تعلق حماس سے نہیں تھا) نے وزارت سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی استعفا دے دیا کہ فلسطینی پولیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ دحلان سیکورٹی فورس ہرطرف غالب ہے اور خود کو ہرحکومت سے بالاتر سمجھتی ہے۔ حماس کے مختلف مراکز‘ اس کی سرپرستی میں چلنے والے رفاہی اداروں‘ اسکولوں اور یتیم خانوں پر ہلے بولے جانے لگے اور عملاً خانہ جنگی کی شروعات کردی گئیں۔ عین انھی دنوں میں مصری اور اُردنی سرحدوں سے صدر کی حفاظت کے نام پر جدید اسلحے کی بڑی کھیپ محمود عباس اور ان کے مشیر سیکورٹی دحلان کو پہنچائی گئی۔ یہ سیکورٹی فورس مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں گھس گھس کر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے لگی۔ صہیونی حکومت نے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل مطلوبہ افراد کی    ایک ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور حماس کے سیاسی امور کے     سربراہ خالدالمشعل سمیت تمام سرکردہ قائدین کے نام شامل تھے۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں باقاعدہ لڑائیاں ہونے لگیں۔ الفتح کے نام پر دحلان سیکورٹی اور حماس کے افراد باقاعدہ مورچہ بند ہوکر لڑنے لگے۔ حماس نے اس موقع پر بھی حالات کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس نے مقابل فلسطینی دھڑے کے حملے تو روکے‘ لیکن خود اپنے حملوں کا رخ اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان پر خودساختہ راکٹوں کے سیکڑوں حملے کیے اور فلسطینی عوام کو یاد دلایا کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟

یہ ایک سانحہ ہے کہ الفتح کے دحلان دھڑے نے صدر محمود عباس کی سرپرستی میں حماس کے پائوں تلے سے بساط کھینچنے کی کوششیں عروج پر پہنچا دیں اور وزیراعظم کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا گیا۔ اس موقع پر حماس کے مسلح بازو نے بھی دحلان سیکورٹی سے نجات کا آپریشن شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ان کے اہم ترین جاسوسی قلعے سمیت ان کے تمام مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بارے میں خود الفتح کے دحلان مخالف دھڑے اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے ذمہ داران نے بیانات دیے ہیں کہ اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تو الفتح غزہ پر ایک مہیب خانہ جنگی مسلط کردیتی۔ غزہ میں موجود الفتح کے اعلیٰ عہدے دار احمد حلس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس ساری خوں ریزی اور حماس سے الفتح کی شکست کی ذمہ داری محمود عباس اور دحلان کے سرعائد ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دحلان پر انقلابی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اور محمود عباس جیسے کمزور صدر کو جس کے اعصاب پر دحلان سوار تھا‘ ہٹا کر الفتح کے گرفتار لیڈر مروان البرغوثی کو اپنا سربراہ بنایا جائے۔

حماس کی یہ کارروائی اور الفتح کی سیکورٹی فورسز کا غزہ سے انخلا ۱۴ جون کو ہوا۔ اسی شام محمودعباس کے ساتھیوں کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ کارروائی حماس کی طرف سے کھلی بغاوت ہے‘ اس کی حکومت فوراً ختم کی جائے اور جلد دوبارہ انتخاب کروائے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمودعباس کا فرمان جاری ہوا کہ ھنیہ حکومت ختم کردی گئی ہے‘ جلد ایمرجنسی حکومت قائم کی جائے گی اور پھر ۱۵ جون کو وزیرخزانہ سلام فیاض سے وزیراعظم کا حلف پڑھوا کر ہنگامی حکومت قائم کردی گئی۔

اس موقع پر ایک انوکھی لیکن پوری طرح سمجھ میں آنے والی پیش رفت یہ ہوئی کہ اس عبوری حکومت کو سب سے پہلی مبارک باد اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور امریکی صدر جارج واکر بش کی طرف سے موصول ہوئی۔ فوراً ہی ان اعلانات کا تانتا بندھ گیا کہ محمود عباس اور ہنگامی حکومت کو مالی امداد دی جائے گی‘ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی‘ غزہ پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ تیل‘ بجلی اور غذائی سامان بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے گردونواح میں گھیرا ڈالنا شروع کردیا ہے اور چھے فلسطینی نوجوان شہید کردیے ہیں۔

اب مقبوضہ فلسطین دوہری آگ میں جل رہا ہے۔ ایک طرف صہیونی تسلط اور مظالم اور دوسری طرف خود فلسطینی عوام کی دو علیحدہ علیحدہ حکومتیں۔ غزہ میں اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے‘ الفتح کے جو کارکنان و ذمہ داران یہاں رہنا چاہیں‘ رہیں یہ ان کا گھر ہے اور جو مغربی کنارے جانا چاہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے میں حماس سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر پکڑا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے فلسطینی منتخب اسپیکر عبدالعزیز الدویک کا گھر نذرِآتش کردیا گیا ہے۔ایک بحث ھنیہ کی منتخب حکومت کے مقابلے میں بنائی جانے والی ہنگامی حکومت کی دستوری حیثیت کی بھی ہے‘ کیونکہ فلسطینی دستور کے مطابق اگر صدر کو ہنگامی حکومت بنانا بھی پڑے تو اسے ۳۰دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اور حماس کی اکثریت کے باعث پارلیمنٹ کو یہ زحمت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی ایسی حکومت صرف۳۰ روز کے لیے ہی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توثیق کرے تو مزید ۳۰دن کے لیے اس کی عمر بڑھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے اور پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ کنٹونمنٹس میں تقسیم و مقید کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کو عوام سے اس طور لڑا دیا جائے کہ لاکھوں لوگ اپنے لاکھوں بھائیوں کو بھوک اور ہلاکت کی      نذر ہونے دیں اور امداد کے وعدوں اور تسلیم کرلیے جانے کی صحرا نوردی کو اپنی گم شدہ جنت قرار دے لیں۔ اس سوال کا جواب غزہ سے واپس آنے والے مصری وفد میں شامل ایک اعلیٰ سیکورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کے وعدے پر مصری اخبار ’المصری الیوم‘ کو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی فلسطینیوں کی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ ۷۰ فی صد فلسطینی عوام کی دحلان سے ہے۔فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت دحلان اور اس کے ساتھیوں سے نجات چاہتی ہے۔

دوسری طرف غزہ کے لاکھوں لوگ ایک اور معمے پر حیرت زدہ ہیں اور وہ یہ کہ غزہ کی فضائوں میں مسلسل ۲۴ گھنٹے بغیر پائلٹ کے جاسوسی صہیونی طیارے محوپرواز رہتے تھے۔ بعض اتنے قریب ہوتے تھے کہ فضا میں ہر وقت ان کی آواز سنائی دیتی رہتی تھی۔ جب سے غزہ سے الفتح کا انخلا ہوا ہے یہ جاسوسی طیارے غائب ہوگئے ہیں۔ ۱۸جون کو معروف عربی اخبار الحیاہ میں  فکری عابدین نے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوسی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ سے الفتح کے جاسوسی مراکز سے معلومات کا بے حد قیمتی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ اس میں صرف حساس معلومات ہی نہیں‘ جدید ترین آلات اور حساس اسلحے کی بڑی مقدار بھی ان کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ حماس حکومت کے وزیرخارجہ محمود الزھار نے‘ جنھیں اصرار کرکے متفق علیہ قومی حکومت سے باہر رکھا گیا‘ اپنے ایک انٹرویو میں ۱۴ جون کے بعد غزہ کی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام کو ۱۴ سال بعد سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔  اب انھیں کسی سیکورٹی فورس کی دہشت گردی کا خطرہ اور خوف لاحق نہیں ہے۔

فلسطینی سیکورٹی فورسز کی حد تک تو شاید یہ درست ہو لیکن اب ایک بڑا خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ حماس سے نجات پانے کے لیے اسرائیلی افواج غزہ پر خوفناک چڑھائی کردے۔ بن گوریون یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈرور زئیفی نے اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے ۱۸جون کو اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہم اگر کسی اعلیٰ پایے کی لیبارٹری میں بھی کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کرتے تو ناکام رہتے۔ اب حالات نے خود یہ فارمولا فراہم کردیا ہے کہ ہمارے سامنے دو فلسطینی دھڑے واضح تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ ہمیں کسی صورت یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ۱۸جون ہی کو عبرانی روزنامے ھآرٹز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’محمود عباس کے اس دلیرانہ اقدام سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کو اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے‘‘۔ لیکن اسی روز کے روزنامہ معاریف میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شلومو گازیٹ کی راے اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے بقول: ’’الفتح اور ابومازن اب تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی فلسطینی قیادت یا تحریک پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جسے مستقبل بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ: ’’اسرائیل نے پہلے بھی تباہ کن غلطی کی تھی کہ فلسطینی عوام کو فوجی اور اقتصادی دبائو کی نذر کیا۔ اب اگر ہم نے دوبارہ یہ غلطی دہرائی تو اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ فلسطینی عوام حماس کی جانب مزید یکسوئی سے لپکیں گے۔ ہمیں خود کو اس وہم کا شکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم گھڑی کی سوئیاں ۴۰ سال پیچھے گھما سکتے ہیں‘‘۔

ان دونوں متضاد آرا پر مشتمل دسیوں تحریریں عبرانی صحافت اور ذرائع ابلاغ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن ایک بات پر تقریباً سب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسرائیل کو اب اپنے پڑوسی عرب ممالک کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ خاص طور پر اُردن اور مصر کی۔ اس بحران کے فوراً بعد عرب لیگ کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کے اختتام پر فریقین سے تحمل اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرب لیگ دونوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرے گی ساتھ ہی مصر‘ اُردن‘ سعودی عرب‘ تیونس اورعرب لیگ سیکرٹریٹ پر مشتمل ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ حماس نے اس وفد کا خیرمقدم کیا ہے لیکن غیر جانب داری کا اعلان کرنے کے باوجود مصر نے سب سے پہلے غزہ میں قائم اپنا سفارت خانہ مغربی کنارے منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ان تمام بیانات اور اقدامات کاتجزیہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن گذشتہ ۵۹سالہ صہیونی دہشت گردی‘ جہاد کو کچلنے کی کوششوں اور فلسطینی قوم میں سے کچھ غداروں کے ان کے ساتھ    شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود ہم برسرِزمین عملی نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہی نہیں کہ فلسطینی جہاد اور اس کی سرخیل تحریک حماس اب پہلے سے کہیں زیادہ توانا‘ کہیں زیادہ فعال اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ کیا ربانی ہستی شیخ احمد یاسین کی یہ پیش گوئی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ۲۱ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہماراجہادی سفر نصرت الٰہی کی منزل پالے گا۔

 

                جمال بے مثال ہو تو تعریف مشکل ہوجاتی ہے، اور جمال اعمال و کردار کا ہو، تو احاطہ مشکل تر بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ پروردگار عالم نے بنی نوع انسان میں ابنیاے کرام کے علاوہ  کئی ایسے مومنین صادقین پیدا فرمائے جن کا ذکرِ جمیل مشک و عنبر کی حیثیت رکھتا ہے۔

                نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ان چنیدہ ہستیوں میں ایک ہستی حسن البنا شہید ہیں۔ ان کی نصف صدی پہ محیط زندگی اور پوری صدی پر محیط اثرات و ثمرات کا مطالعہ کریں، تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تجدیدِ دین ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔ ان کی ولادت کو سو برس گزرے تو ترجمان القرآن نے ان کی شخصیت و کردار اور ان کی دعوت و اثرات کا جائزہ لینے اور انھیں     مزید متعارف کروانے کا مستحسن فیصلہ کیا۔ اگرچہ حسن البنا کا نام، ان کی تحریک اور جدوجہد تحریک اسلامی کے کسی بھی کارکن کے لیے اجنبی نہیں، لیکن اس سراپا عمل و اخلاص شخصیت کے کتنے ہی پہلو ایسے ہیں، جن سے اُردو کے قارئین ابھی تک ناآشنا ہیں۔ ان کے بارے میں لکھی جانے والی کتنی ہی ایسی مؤثر تحریریں ہیں، جو صرف عرب دان حلقوں تک محدود ہیں۔ ان کے تجربات، ان کی ہمہ گیر سوچ، انھیں درپیش خطرات، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر توڑے جانے والے مظالم، کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔

                قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان پر گزرنے والے ہر نازک لمحے سے آگاہ تھے۔ یہ نہ صرف پاکستان سے ان کی گہری محبت کا مظہر اور اس سے وابستہ اُمیدوں کی دلیل ہے بلکہ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی مضبوط اسلامی بنیادوں کا واضح ثبوت بھی ہے۔ حسن البنا شہید کے صاحبزادے احمد سیف الاسلام البنا سے یہ قیمتی خطوط حاصل ہوئے۔

                اشاعت خاص کے لیے ہم نے عالم اسلام کے دانش وروں اور اسلامی تحریک کے قائدین کو لکھنے کی دعوت دی تھی۔ اکثر ممالک اور اکثر تحریکوں کے ذمہ داران نے اپنی خصوصی تحریریں ارسال کیں۔ امام شہید کے اہلِ خانہ اور سفرو حضر میں ان کے ساتھیوں نے ان کے معمولات اور شخصیت کے گوشے وا کیے۔

                امام حسن البنا شہید کی اپنی تحریریں بھی ان کے بلند علمی مقام، قابل رشک فکری گہرائی، باوقار اعتدال اور حیرت انگیز تنظیمی خوبیوں کو جاننے کا بہت اہم ذریعہ ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک اُردو میں  ان کی صرف چند تحریریں منتقل ہوسکی ہیں۔ اُمید ہے کہ شامل اشاعت ان کی چند نگارشات، ان کی فکر کو جاننے اور ان کی علمی وجاہت سے متعارف ہونے کا اہم ذریعہ ثابت ہوں گی۔

                اس اشاعت میں آپ کچھ قدیم تحریریں بھی پائیں گے، لیکن یہ سب تحریریں اس حوالے سے تازہ اور اہم ہیں کہ ابھی تک اُردو میں شائع نہیں ہوئیں۔ عظیم شخصیات کی یہ تحریریں قاری کو ایک      نیا جذبۂ عمل بخشتی ہیں۔ اس سے پہلے امام شہید کی ڈائری اور ان کے بعض خطبات اور کتابچے ترجمہ ہوکر اُن کا بھرپور تعارف کرواچکے ہیں۔ لیکن اُمید ہے کہ مطالعے کے بعد آپ کا دل بھی گواہی دے گا کہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ترجمان القرآن کی اشاعتِ خاص اور اتنے ہی مزید صفحات پر مشتمل   کتابِ خاص سے ایک بڑا خلا پر ہوا ہے۔ خواہش تو یہ تھی کہ کتاب میں شامل تمام مضامین بھی  اشاعت خاص ہی میں شامل ہوں، لیکن وسائل کی کمی نے اس خواہش کی تکمیل نہیں کرنے دی۔ ان شاء اللہ بہت جلد یہ کتاب بھی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔

                اس اشاعت خاص کی تیاری ایک بڑی سعادت ہے۔ اس میں جن احباب کا تعاون حاصل رہا، اللہ تعالیٰ انھیں اجرعظیم سے نوازے۔ تاہم جملہ امور میں معاونت کے لیے پروفیسر خالد محمود،   حافظ محمد عبداللہ،حمیداللہ خٹک، طارق زبیری، امجد عباسی، حیدر زیدی اور خلیل الرحمن ہمدانی کے   خصوصاً شکرگزار ہیں۔یہ اشاعت اپنے آنے والے کل کو گزرے ہوئے کل سے بہتر بنانے کا پیغام ہے۔ اب اصل سوال یہ رہے گا کہ کیا ہم نے یہ پیغام پڑھ لیا، سمجھ لیا اور بہتر کے لیے عزم باندھ لیا؟ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ -  وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o

عبد الغفار عزیز

۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ

افغانستان پر فوج کشی کا مرحلہ درپیش تھا تو ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے لے کر ادنیٰ وزرا اور گویوں.ّ  تک سب انھی الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ اس وقت اُمت کی بات کرنے والوں کو ‘کشمیر وفلسطین کی بات کرنے والوں کو بے حکمت‘ غیرمتوازن اور جذباتی کے طعنے دیے گئے۔ انھیں پرایوں کی لڑائی میں کودنے کے کوسنے دیے گئے۔ پھر افغانستان تباہ ہوگیا‘ ہزاروں بے گناہ انسان خاک میں ملا دیے گئے۔ کئی عشروں پر محیط افغان پالیسی کے نتیجے میں ہم نے وہاں جتنے بھی دوست بنائے تھے‘ سب کھو دیے‘ وہاں امریکا سمیت ناٹو ممالک کی افواج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال وسیع تر ہوتا چلا گیا اور برادر حقیقی کی حیثیت رکھنے والے ملک کی ہوائیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے زہریلی ہوتی چلی گئیں۔

 ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بنیادوں پر ہم نے بھی مزید ردّے چڑھا دیے۔ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں معاونت کا بوجھ تو گردن پہ تھا ہی‘ اب ہم نے اپنے قبائل کو بھی کچلنا شروع کردیا۔ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی تو ہم اس فکر سے بھی آزاد ہوگئے کہ چھری خربوزے پہ گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر۔ دونوں طرف اپنے ہی بھائی بندوں کے لاشے گر رہے تھے‘ فوجی جوان بھی پاکستانی اور قبائل بھی پاکستانی۔

ایسے المیوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اب اسی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جس بے وفا کے لیے جان سے گزرے تھے وہ اب بھی ہمیں موردالزام ٹھیرا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں سرحدپار  کھل کھیل رہی ہیں۔ کوئی بھی دھماکا ہو‘ کیسا ہی حادثہ ہو‘ جو بھی شکایات پیدا ہوں الزامات ہمارے ہی سر منڈھے جارہے ہیں۔ وہی طالبان جنھیں ہم نے خود پکڑپکڑ کر گوانتاناموبے بھجوا دیا‘ افغانستان کی خاک میں ملا دیا‘ ہمارے اور امریکیوں کے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے۔ افغان تاریخ و روایات کے عین مطابق جب انھوں نے قابض فوجوں سے عملاً نبردآزما ہونا شروع کیا‘ تو سارا نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنے لگا۔ ساری خدمت اور چاکری کرنے کے باوجود ہم ہی گردن زدنی ہیں‘ ہرطلوع ہونے والے دن ہمارے لیے دشنام و الزامات کا نیا ذخیرۂ الفاظ ایجاد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب نہ روشن خیالی کی کوئی تدبیر کام کر رہی ہے اور نہ نسلوں کو تباہ کرنے والی تعلیمی و ثقافتی قلابازیاں اثر دکھا رہی ہیں۔

اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تاریکی میں بھی اندھوں کو ایک بار پھر بڑی دُور کی سوجھی ہے۔ اب ’سب سے پہلے پاکستان‘کے بجاے زیادہ ’حقیقت پسندی‘ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ بالکل اُلٹی سمت میں جاکر اعلان کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب جنرل صاحب نے ایک دو نہیں پورے ۹مسلم ملکوں کے طوفانی دورے کیے ہیں۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے بعد اب وہ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کے سنہری فارمولے کی دلالی کر رہے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو ہم سے ہمیشہ دوستی‘ تعاون اور مضبوط تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا  نسخۂ کیمیا تھمایا گیا تھا‘ تب امریکی کولھو میں جتے دیگر تمام مسلم ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جا رہا تھا۔ اس وقت جدھر سنتے تھے‘ ایک ہی نغمہ الاپا جا رہا تھا: ’سب سے پہلے اُردن‘، ’سب سے پہلے لبنان‘، ’سب سے پہلے مصر‘، ’سب سے پہلے…۔ اب کیسٹ اُلٹی چلنی شروع ہوئی ہے تو توقع ہے کہ عنقریب ہر جانب سے ایک ہی راگ کانوں میں رس گھولے گا: ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘۔

آخر یہ نیا فارمولا ہے کیا؟ اسلام آباد نے تو اعلان کیا ہے کہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا‘ لیکن نئے سال کے دوسرے مہینے‘ دوسری بار مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے اس کی کئی جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات اور معاہدۂ مکہ سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ اب فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑانے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔ اب دونوں بھائی مل کر اپنے دشمن کا سامنا کرسکیں گے‘ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی فکر کریں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں رسمی تقاریر ہی کے دوران میں صدر محمود عباس نے   اصل ایجنڈے کی نشان دہی کردی۔ انھوں نے کہا: ’’بالآخر ہماری قومی حکومت تشکیل پاگئی ہے۔ اب حماس کو ان تمام عالمی معاہدوں کا احترام کرنا ہوگا جو ہم نے عالمی برادری کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ روسی صدر پوٹن نے جو خود بھی ان دنوںمشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’معاہدۂ مکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا عملی قدم ہے‘‘۔ ظاہر ہے محمود عباس نے تو عالمی برادری کو شیشے میںاُتارا ہی اس بنیاد پر تھا کہ وہ ان کے احکام بجا لائیں گے۔ محمودعباس اپنے عقیدے کے بارے میں زبان زدعام اطلاع کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں  ’بہائی‘ نہیں۔ لیکن عملاً اسی بات کا پرچار کرتے ہیں جو قادیانیت اور بہائیت کی اصل بنیاد ہے‘ یعنی ’’جہاد کا انکار اور مجاہدین سے دست برداری‘‘۔ محمودعباس‘ حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہروہ خدمت بجا لائے جو اسرائیل و امریکا کو مطلوب تھی۔ امریکی وزیرخارجہ نے جواباً ان کی اپنی سیکورٹی فورسز کے لیے ۸۶ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔

اُردن و مصر کے راستے‘ فلسطینی انتظامیہ کے مقابل صدارتی افواج کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کر دیے گئے اور محمودعباس کے ساتھیوں میں سے سب سے متنازع شخص محمد دحلان صدارتی فوج لے کر اپنے فلسطینی مجاہدین پر ہی چڑھ دوڑا۔ غزہ یونی ورسٹی جلا ڈالی گئی۔ مساجد میں علماے کرام اور کتاب الٰہی پر گولیوں کی برسات کردی گئی اور جہاں کبھی صرف صہیونی بم باری اور فائرنگ ہوا کرتی تھی وہاں فلسطینیوں کو خود فلسطینی مارنے لگے۔ اور یہ خوں ریزی عین اس وقت ہورہی تھی جب قابض صہیونی افواج مسجداقصیٰ سے ملحق حصے کو شہید کر رہے تھے۔ حرم قدسی کے باب المغاربہ کے باہر بنے حجرے کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اسلامی تحریک کے کارکنان ان سے برسرپیکار تھے۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی یہ خوں ریزی فلسطین کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھی‘ لیکن بالآخر فریقین مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ محمودعباس نے مذکورہ بالا بیان تو دے دیا لیکن یہودی اخبارات نے واویلا مچایا کہ حماس سے   عالمی معاہدوں کے احترام کی بات بہت کمزور اور ناکافی ہے۔ محمود عباس کو تاکیداً کہنا چاہیے تھا کہ ہم حماس سے ان معاہدوں کی پابندی کروائیں گے۔

رائس نے حالیہ دورے میں صہیونی وزیراعظم اولمرٹ اور محمودعباس سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دو ٹوک اور مختصر بات کی ہے کہ‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دہشت گردی (یعنی فلسطینی جہاد) کو ترک کرنے سے کم کوئی اور بات قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں ہوگی۔ ان مکرر ارشادات عالیہ اور گذشتہ تقریباً پون صدی کے حقائق‘ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کی وحی مستور کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں۔

ویسے اُمت مسلمہ ہی نہیں خود امریکی اور صہیونی بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ فلسطینی مجاہدین کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے سروں کی فصل‘ جتنی کاٹتے ہیں‘ اس سے زیادہ پھر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ اسی سفر معراج میں جس کا آغاز مسجداقصیٰ سے ہوا تھا‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے خود اس راز کی حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا‘ اور پوچھنے پر بتایا تھا کہ  ’’یہ آپؐ کی اُمت کے جہاد کی فصل ہے… یہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جتنی کٹے گی… اتنی ہی بڑھے گی‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’سب سے پہلے اسرائیل ‘ کا فارمولا تیار کرنے والے ’مسلم‘ حکمران اس حقیقت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں۔

شرق اوسط عرب محاورے کے مطابق کسی طاقت ور‘ دیوانے دیو کی ہتھیلی پہ رکھا ہے۔ عراق میں لاکھوں افراد خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ مہلک اور وسیع تر خون ریزی کی تیاریاں ہیں۔ فلسطین میں صہیونی درندوں کے ہاتھوں نصف صدی سے جاری قتلِ عام سنگین سے سنگین تر ہو نامعلوم حقیقت تھی‘ لیکن اب خود فلسطینی ہاتھ اپنے سینے چھلنی کر رہے ہیں۔ لبنانی چٹانوں پر صہیونی جارحیت سر پٹخ کر رہ گئی تھی‘ لیکن اب خود لبنانی عوام دو واضح اور برسرپیکار گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ سوڈان کے خلاف ہر بیرونی حملہ ناکام ہوا‘ جنوبی علیحدگی پسندوں کی کئی عشروں پر پھیلی بغاوت بالآخر معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن اب دارفور میں لاکھوں ابناے سوڈان      باہم مخاصمت اور ملک بدری کی نذر ہوچکے ہیں۔ امریکا اس انسانی المیے کا فائدہ اُٹھا کر علاقے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سوڈان پر فوج کشی کے لیے پر تول رہا ہے۔ صومالیہ میں عشروں پر محیط خانہ جنگی کے بعد اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک نظام نے انتظام سنبھالا‘ وسائل  اور تجربے سے تہی دامنی کے باوجود‘ عوامی تائید کے ذریعے امن و امان کی نئی تاریخ رقم کی۔ اگر ان کی حکومت باقی رہتی تو شاید پورا صومالیہ بلکہ پورا علاقہ ان کے دائرۂ اثر میں آجاتا‘ لیکن ایتھوپیا کے ذریعے فوج کشی کروا دی گئی۔ پھر امریکی افواج نے خود بم باری کردی اور صومالیہ ایک نئے دورِقتال و جدال میں داخل ہوگیا۔

عسکری و سیاسی کے علاوہ تہذیبی و تعلیمی یلغار بھی اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نقشہ جنگ تیار کرتے ہوئے امریکا نے نئے شرق اوسط کا دائرہ پورے عالمِ اسلامی تک پھیلا دیا ہے۔ اب اقصاے افریقہ میں واقع مراکش اور موریتانیا پر بھی شرق اوسط کا فارمولا لاگو ہوتا ہے‘ بنگلہ دیش و ملایشیا میں بھی اسی کا جادو چلتا ہے۔ روشن خیالی کو اس وسیع تر شرق اوسط کا عنوانِ حیات بنایا جارہا ہے۔ اب مراکش میں بھی قانون سازی کرکے مساجد کی تعمیر مشکل تر بنائی جارہی ہے اور تیونس میں بھی سر پہ اسکارف اوڑھنا دقیانوسیت‘ قانون کی خلاف ورزی اور جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اُردن میں کسی خطیب کو سرکاری خطبے کے علاوہ خطبۂ جمعہ دینے سے منع کردیا گیا ہے۔ انھیںپابند کردیا گیا ہے کہ وہ سیاہ پتلون‘ سفیدشرٹ اور سرپہ رومال کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنیں۔ ترکی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اس قرآنی آیت پر پابندی لگادے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہی ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام کیونکہ اس سے ان کے بقول غیرمسلموں کی دل آزاری اور ان کے دین کی توہین ہوتی ہے۔ میراتھن دوڑ اور بسنت کے نام سے برپا خرافات‘ صرف پاکستان ہی نہیں ہراسلامی ملک میں کسی نہ کسی میلے‘ جشن کے نام پر یا کھلم کھلا جسم فروشی اور مادرپدر آزادی کی صورت میں فرض قرار دے دی گئی ہیں۔

تقریباً ہر اسلامی ملک اسی دوڑ اور فکر میں مبتلا ہے کہ وہ کسی طرح دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ تعلیمی ’اصلاحات‘ کا اعزاز حاصل کرلے۔ ان ’اصلاحات‘ کا لازمی حصہ آیات و احادیث کا حذف کرنا یا ان کی من پسند تعبیر کرنا اور جہاد و دعوت کی تعلیمات کے بجاے جنسی آوارگی کی جانب لے جانے والا لوازمہ شامل کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ڈھنڈورا بھی مسلسل پیٹا جا رہا ہے کہ امریکا نے اس پورے خطے میں معاشی ترقی اور جمہوری روایات کی ترویج یقینی بنا دی ہے۔ معاشی ترقی کا ثبوت دیتے ہوئے خوش نما اعداد و شمار‘ اربوں ڈالر کی امریکی امداد‘ بے پناہ سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے انباروںکا حوالہ دیا جاتا ہے‘ لیکن ان سب دعووں کے اثرات ہرجگہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘  بے روزگاری اور فقر کے باعث کفر یا پھر خودکشی کی صورت میں ہی سامنے آرہے ہیں۔

رہی جمہوریت تو اس کی اصل تصویر عراق‘ فلسطین اور صومالیہ میں پیش کی جارہی ہے۔ خود امریکی ذرائع ابلاغ دہائی دے رہے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر یہ خون ریزی بند کی جائے۔ ۱۷جنوری کا نیویارک ٹائمز ایک روز پہلے اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’صرف ۲۰۰۶ء میں ۳۴ہزار عراقی شہریوں کا قتلِ عام امریکی منصوبے کی مکمل ناکامی و شکست کا اعلان ہے‘‘۔ یہ اعداد و شمار بھی صرف وہ ہیں جو ہسپتالوں کے ریکارڈ سے لیے گئے‘ وگرنہ صرف ایک سال میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ‘ امریکی جمہوریت کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ہیں۔ اب تک امریکی بم باری‘ فائرنگ اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ساڑھے چھے لاکھ سے زائد جانوں کا ضیاع صرف عراق میں ہوچکا ہے۔ بظاہر تو امریکا بھی اس قتلِ عام اور خانہ جنگی پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ قومی اجماع کی حیثیت رکھنے والی بیکر ہملٹن رپورٹ بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے وہاں سے افواج کے انخلا پر زور دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری خون ریزی منصوبے کے عین مطابق ہی ہو رہی ہے۔

لڑانے کی حکمت عملی

آغازکار میں پورے فلوجہ کو ملیامیٹ کر دینے جیسی دسیوں کارروائیوں کے باوجود عراقی مزاحمت کا مقابلہ نہ کرسکنے کے بعد‘ امریکا کی پالیسی کا عنوان ہے: ’’لڑائو اور قبضہ کرو‘‘۔ اس امریکی سوچ اور پالیسی کی نشان دہی بہت سی دستاویزات کر رہی ہیں۔ عراق کے پہلے امریکی حکمران   پال بریمر کی یادداشتیں بھی اہم ہیں‘ افغانستان اور پھر عراق میں متعین امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی سرگرمیاں اور بیانات ایک کھلی کتاب ہیں۔ لیکن ہم یہاں صرف ایک امریکی عسکری دانش ور کے خیالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جیمز کرتھ (James Kurth) متعدد امریکی عسکری تعلیمی اداروں میں دفاعی پالیسی‘ خارجہ پالیسی اور عالمی سیاسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ The Real Clash (حقیقی تصادم) کے عنوان سے شائع اس مقالے میں انھوں نے توجہ دلائی تھی کہ تہذیبوں کے تصادم سے زیادہ اہم امر یہ ہے کہ خود امریکی معاشرہ باہم متصادم ہونے والا ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب اور امریکی نسل پرستی پر ایمان رکھنے والے لوگ ہوں گے اور دوسری طرف کثیرثقافتی دنیا پر یقین رکھنے والے گروہ۔ گویا فکرمندی یہ تھی کہ امریکی معاشرے سے کسی بھی ممکنہ باہمی اختلاف کا خاتمہ کیسے ہو۔ امریکی معاشرے کی باہمی یک جہتی اور یک سوئی کے لیے فکرمند جناب جیمز نے ستمبر۲۰۰۵ء میں امریکی رسالے The American Conservative میں ایک اور اہم مقالہ لکھا۔ عنوان تھا: Splitting Islam(اسلام کے ٹکڑے کرنا)۔ ذیلی عنوان تھا: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے شیعہ سنی حکمت عملی‘‘۔ امریکی فوجیوں کے قتل‘ عراقی تحریک مزاحمت میں شدت‘ دہشت گرد تنظیموں کے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی اور امریکا کو درپیش عالمی اسلامی خطرے کا ذکر کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیںکہ ’’مرکزی سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے راہِ نجات کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے جو جوابات مختلف امریکی ذمہ داران یا سیاسی و عسکری حلقوں نے دیے ہیں وہ ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ خاص طور پر بش انتظامیہ کی راے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

وہ صرف امریکا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانا نہیں چاہتے تھے‘ بلکہ عمومی طور پر مسلم دنیا بالخصوص شرق اوسط کی ثقافت تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس دلدل کو خشک کر دینا چاہتے تھے جو اسلامی دہشت گردوں کی تقویت کا باعث تھا۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پالیسیاں ناکام ہیں اور ناکام رہیں گی۔ پھر وہ اپنا حل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے شاید ایک قدیم طریق تفکیرکہا جائے‘ لیکن راستہ وہی ہے جو ہم نے سردجنگ میں سوویت یونین اور چین کے مقابلے میں اختیار کیا۔ امریکا نے نصف صدی قبل عالمی کمیونسٹ تحریک کے عالمی نظریاتی خطرے کا مقابلہ اسی طرح کیا کہ ان دو بڑی طاقتوں کو تقسیم کیے رکھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی اسلامی تحریک بیداری و مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تقسیم کی یہی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں:

تقسیم کرنے کی حکمت عملیاں مسلم دنیا میں پہلے سے موجود اختلافات کو ہوا دینے پر   مبنی ہیں۔ خاص طور پر ۱-اعتدال پسند بمقابلہ انتہا پسند ۲-سنی بمقابلہ شیعہ مسلمان۔

اس بات کی وضاحت میں انھوں نے روشن خیالی و بنیاد پرستی کی جنگ میں مغرب میں مقیم مسلمانوں سے پورا استفادہ کرنے کی اہمیت بھی اُجاگر کی ہے‘ لیکن پورے مقالے میں اصل زور شیعہ سنی اختلافات کی آگ پر تیل چھڑکنے ہی پر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اس کی معاصر مثال سنی شیعہ اختلاف ہے۔ عراق میں جاری شیعہ سنی تشدد ہمیں روزانہ عراق میں موجود اس اختلاف کی شدت یاد دلاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اسلام کے ان دو فرقوں میں پایا جانے والا یہ اختلاف‘ بے اعتمادی اور تنازع دوسرے مسلم ممالک‘ خاص طور پر لبنان‘ شام‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی موجود ہے۔

وہ پوری مسلم دنیا میں پھیلی (ان کے بقول) ۸۳ فی صد سنی آبادی اور ۱۶ فی صد شیعہ آبادی کا تجزیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ آبادی کی ایران و عراق میں اکثریت‘ لبنان میں سب سے بڑی اقلیت‘ سعودی عرب کی تیل سے مالامال مشرقی پٹی میں بڑی تعداد اور شام کی علوی آبادی کی اہمیت اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں ان کے اس احساس سے فائدہ اٹھانا ہوگا کہ وہ مظلوم ہیں اور سنی استبداد کا شکار ہیں۔ شیعہ آبادی ’خلافت‘ کے تصور سے خوف زدہ ہے۔ ان کے نزدیک اس سے مراد اکثریتی سنی آبادی کا تسلط ہے۔ خلافت کا خواب جتنا حقیقت سے قریب دکھائی دے گا شیعہ آبادی اتنا ہی سنی انتہاپسندی کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ یہ ایک ایسا خطرناک ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ پڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کی واضح اور دو ٹوک راے یہ ہے کہ اگر امریکا عراق میں شیعہ اور کرد ملیشیا کو اچھی تربیت اور اچھے ہتھیار فراہم کرے تو وہ عراق کے کرد اور شیعہ علاقوں سے سنی مزاحمت کا مکمل صفایا کردیں گے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس پالیسی کے نتیجے میں بالآخر عراق بھی یوگوسلاویہ کی طرح کئی مذہبی ریاستوں میں بٹ کر رہ جائے لیکن بالآخر اسلامی بیداری اور مزاحمت کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔

انھیں نہ شیعوں سے ہمدردی ہے نہ سنیوں سے۔ وہ نہ شیعوں پر بھروسا کرتے ہیںنہ سنیوں پر‘ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہی شیعہ سنی تفریق بالآخر ایران اور ایٹمی پاکستان کا علاج بھی ثابت ہوگی۔  وہ کہتے ہیں کہ ’’ایران اور دیگر خطوں کے شیعہ امریکا کو اپنا حقیر دشمن ہی سمجھتے رہیں گے۔ وہ کبھی امریکا کے سچے حلیف نہیں ہوسکتے لیکن وہ انتہاپسند سنی تحریکوں کے خلاف امریکا سے تعاون ضرور کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایران کے ایٹم بم کا بھی کوئی مؤثر علاج نہیں ہے… بدقسمتی سے پاکستان اور ایران کے انتہاپسند اور روشن خیال دونوں ہی اپنے ملکوں کو ایٹمی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں… اس صورت میں شیعہ سنی تقسیم والی پالیسی ہی مؤثر ہوسکتی ہے۔ This provides ample potential for conflict between Iran and Pakistan. (یہ ایران اور پاکستان کے درمیان تنازع کھڑا کرنے کے بھرپور امکانات فراہم کرتے ہیں)۔

عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور دیگر مسلم ممالک کے حالات سامنے رکھیں تو اس سوال کا جواب واضح طور پر مل جاتا ہے کہ جیمز کی اس چشم کشا اور پالیسی ساز تحریر کا برسرزمین حقائق پر کتنا اثر ہوا۔ جیمز جو امریکی دفاعی ماہرین میں سے ہزاروں کا استاد ہے‘ اپنی تحریروں میں بڑا سفاک دکھائی دیتاہے۔ لیکن اس کی یہ تکلیف دہ بات بالکل درست ہے کہ ’’شیعہ سنی تقسیم امریکا کو ایجاد نہیں کرنا‘ بالکل اسی طرح جس طرح پہلے چین روس تقسیم ایجاد نہیں کرنا پڑی تھی۔ لیکن امریکا خود کو اس پوزیشن میں ضرور لاسکتاہے کہ وہ پہلے سے موجود اختلافات کو گہرا کرے اور ان سے فائدہ اٹھائے‘‘۔ وہ   یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ ’’مسلم دنیا میں سنی اسلامسٹ بھی رہیں گے اور شیعہ اسلامسٹ بھی‘   لیکن ہمیں کرنا یہ ہوگا کہ وہ امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کے بجاے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگیں‘‘۔

عراق میں شیعہ سنّی خانہ جنگی

اپریل ۲۰۰۳ء میں صدام حکومت کے خاتمے سے پہلے عراقیوں کو تاثر دیا گیا تھا کہ اصل خطرہ بیرونی نہیں اندرونی ہے۔ امریکی فوجی بعدمیں آئیں گے‘ عراق میں موجود شیعہ آبادی پہلے بغاوت کرے گی۔ دوسری طرف شیعہ آبادی کو تاثر یہ دیا گیا کہ تم پر ہمیشہ اقلیت مسلط رہی ہے۔ اب اس سے انتقام کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہی وہ اصل پھندا تھا جس میں بالآخر عراقی عوام کو پھانس لیا گیا ہے۔ یہی وہ حساس ترین حقیقت ہے جس کا بے لاگ جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے اور اس کا تدارک کرنا بھی ناگزیر ہے۔ امریکا نے قبضے کے بعد جو سیاسی و عسکری نظام تشکیل دیا‘ اس کی اساس یہی شیعہ سنی اور کرد کی تقسیم ہے۔ اس نے بوجوہ شیعہ گروہوں کو فوقیت دی۔ اس موقعے پر ایران نے بھی اپنے علاقائی نقشہ کار کو خاموشی سے لیکن بیک وقت جارحانہ اور دفاعی انداز سے مکمل کیا۔ ایران میں موجود ملک بدر عراقی گروہ بڑی تعداد میں عراق واپس چلے گئے۔ دورانِ قیام ایران ان کی فکری و ثقافتی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ‘ عسکری استعداد کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ اس پوری تیاری و استعداد کے ساتھ عراق منتقل ہوگئے۔ امریکا وہاں ایسی ہی عوامی قوت و تائید کا محتاج تھا۔ امریکا اور ایران کے درمیان سنگین اختلافات‘ دشمنی اور دھمکیوں کے تبادلے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو عراق میں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ دونوں کے اپنے اپنے اہداف تھے۔ طویل ایران عراق جنگ اور بڑی عراقی شیعہ آبادی کے تناظر میں ایران کے لیے عراق کی نئی صورت حال بے حد اہم بھی تھی اور مددگار بھی۔ بظاہر یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا کہ وہ شیطان بزرگ جو ایران کے وجود کے درپے ہے اور جو خلیج کے علاوہ افغانستان میں بھی بیٹھا ہے‘ اُوپر ترکی اور وسطی ایشیا میں بھی بیٹھا ہے‘ اب ایران کے عین سر پر آن بیٹھے گا‘ لیکن اسی خطرے سے امکانات کی پو پھوٹ رہی تھی۔ یہاں امریکا کو مزاحمت کا خطرہ بھی برداشت کرنا تھا اور سیاسی جکڑبندیوں کا بھی ایک نیا چیستان اس کا منتظر تھا۔

بے لاگ لیکن دردمندانہ جائزے میں یہ اعتراف بھی جان لیوا حقیقت ہے‘ کہ جہاد کے نام پر وجود میں آنے والی بعض سنی تنظیموں اور خود کو مظلوم سمجھنے اور اب اچانک خود کو حاکم کے لبادے میں دیکھنے والی‘ شیعہ مسلح فورسز سے بہت مہیب اور سنگین غلطیاں ہوئیں۔ ابومصعب الزرقاوی جو امریکیوں سے لڑتے ہوئے تمام مسلم عوام کا ہیرو بن چلا تھا‘ بلااستثنا تمام شیعوں کے قتل کے فتوے جاری کر رہا تھا۔ دوسری طرف شیعہ ملیشیائوں نے بھی سنی آبادی کے علاقوں کے علاقے ویران  کرنا شروع کر دیے۔ آنے والا وقت اس حقیقت کا تعین ضرور کرے گا کہ امریکی جیمز کرتھ کا   ’نسخۂ کیمیا‘ اس تنازعے میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے آزمایا گیا۔ یہ کیوں ہوا کہ عراقی افواج یا پولیس کی وردیاں پہنے عناصر‘ سرکاری گاڑیوں میں آکر ہزاروں سنی اہم افراد کو چن چن کر اغوا کر کے لے گئے اور پھر ان کی لاشیں سڑکوں پر ملیں۔ یہ کیوں ہوا کہ دو شیعہ اماموں کے مقبرے‘ جو صدیوں سے سنی علاقوں ہی میں تھے اور کبھی ان کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا‘ امریکی و برطانوی افواج کے وہاں ہوتے ہوئے بموں سے اڑ گئے۔ یہ کیوں ہوا کہ ہزاروں سنی مساجد شہید کر دی گئیں‘ ہزاروں شیعہ مجالسِ عزا لاشوں کے ڈھیروں میں بدل گئیں۔ یہ کیوںممکن نہیں ہوا کہ ایران اپنی تمام تر قوت اور اثرونفوذ استعمال میں لاتا اور عراق میں موجود کسی شیعہ گروہ کو اپنے سنی بھائیوں کے قتل و بربادی میں ملوث نہ ہونے دیتا۔ یہ کیوں ہے کہ امریکی فلک میں گردش کرنے والے پڑوسی عرب ممالک‘ عراق پر قابض امریکی افواج کو نہیں ایرانی نفوذ اور شیعہ اقتدار کو اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ وقت ضرور جواب دے گا کہ عراق کے معتدل سنی عناصر کے بقول انھوں نے اٹل حقائق اور ثبوت اپنے ایرانی بھائیوں اور ذمہ داران کے گوش گزار کیے‘ان سے درخواست کی کہ وہ شیعہ سنی تصادم کو روکیں‘ لیکن انھوں نے حقائق کو الزامات قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی۔ وقت بتائے گا کہ امریکی سامراجی قوت نے کس طرح عراق کے ہر اہم واقعے سے تقسیم ہی کی فصل اگائی۔

صدام کی پہانسی

ماضی میں صدام کا کردار بلاشبہہ ظالمانہ تھا لیکن اب اس کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکا کے رویے اور اقدامات نے صدام کو جس ظلم کا نشانہ بنایا ہے اور جس طرح اسے پھانسی پر چڑھایا ہے اس نے اسے مظلوم بنا دیا ہے اور خود صدام نے آخری ایام میں جس سیاسی جراء ت اور ایمان کا مظاہرہ کیا ہے اس نے اسے عراقی عوام‘ اُمت مسلمہ اور ان کے حق پرست انسانوں کی نگاہ میں مظلوم اور ہیرو بنا دیا ہے اور توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحم کا معاملہ فرمائیں گے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح امریکا اور عراق میںاس کے حلیفوں نے صدام کو پھانسی دی ہے اس کے نتیجے میں امریکی عزائم اور مفادات کے لیے ’زندہ صدام‘ سے کہیں زیادہ صدام کی روح خطرہ بنے گی اور مزاحمت کی تحریک اس کے خون سے سیراب ہوگی۔

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ صدام کے جرائم میں عراق کے عوام پر مظالم جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے‘ ایران پر حملہ جس میں کئی لاکھ جانیں ضائع ہوئیں‘ کویت پر حملہ جس میں کئی لاکھ کویتی اور عراقی لقمہ اجل بنے‘ کردوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال جس میں کئی ہزار افراد مارے گئے ان سب جرائم کو نظرانداز کر کے بلکہ کردوں کی ہلاکت کے مسئلے کو تو مقدمہ نمبر ۲ کی شکل میں دائر کیے جانے کے باوجود ۱۴۸ شیعوں کے ہلاک کیے جانے والے مقدمے میں صدام کو جلدی میں پھانسی دینے کا کارنامہ انجام دیا گیا جس کی وجوہ پر عراق اور خود امریکا اور یورپ میں بحث ہو رہی ہے۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اصل مقصد صدام کو ہلاک کرنے کے ساتھ شیعہ سنی تنازع کو خانہ جنگی میں نہیں پورے شرق اوسط میں محاذآرائی اور جنگ و جدل کا ذریعہ بناناہے۔ ساتھ ہی یہ پہلو بھی ہے کہ باقی تمام جرائم میں امریکا برابر کا اور کھلاکھلا شریک تھااور مقدمے میں صدام اور اس کے وکلا نے امریکا کے کردار کو مرکزی مضمون بنانے کا عندیہ دیا تھا اس لیے غیرضروری تعجیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ۱۴۸ افراد کی ہلاکت کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدام کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکا کا یہ کھیل اب کھل کر سامنے آگیا ہے اور صدام کی موت امریکی استعمار اور اس کے مقاصد کے خلاف تحریک مزاحمت کو نئی جان دینے کا ذریعہ بنے گی اور صدام کی قبر امریکی اقتدار کے لیے بڑا خطرہ بننے کا امکان رکھتی ہے۔

یہ ایک بلاکم و کاست حقیقت ہے کہ ان سارے مناظر سے شیعہ سنی منافرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ آج عراق میں مذہبی منافرت کا لاوا اُگلتے آتش فشاں کی تباہ کاری‘ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے۔ آج ایران کو ملنے والی امریکی دھمکیوں پر مسلم دنیا کا ردعمل امریکی خوف کے ساتھ ہی ساتھ اسی مذہبی تقسیم سے بھی متاثرہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر خدانخواستہ ایران پر واقعی حملہ ہوا تو اس کے بعد پاکستان‘ سعودی عرب اور شام سمیت کئی دیگر ممالک کے خلاف بھی فردِ جرم اور پھانسی کا پھندا تیار ہے‘ المیہ بلکہ سانحہ یہ ہے کہ مسلم دنیا خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ حکمرانوں سے کیا شکوہ‘ ان کے نزدیک تو امریکی اقدامات الوہیت کا مقام رکھتے ہیں‘ لیکن کئی علاقوں کے عوام بھی ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کو شیعہ خطرے کاعلاج قرار دے رہے ہیں۔

شکست خوردہ اسرائیل

یہ الگ بات ہے کہ خود امریکا اپنی مصیبتوں‘ ناکامیوں اور عراقی دلدل میں بری طرح دھنسنے کی وجہ سے اپنی دھمکیوںکو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے اور فی الحال قاصر رہے گا۔ اس نے عراقی ایٹمی تنصیبات اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کروائی تھیں‘ وہ ایران کے خلاف بھی اسرائیلی افواج سے مدد لے سکتا تھا‘ لیکن لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں اپنی شکست کھانے کے بعد اسرائیلی طویل عرصے تک اپنے زخم چاٹتے رہیں گے۔ اپنی عسکری ساکھ کی فوری بحالی ان کا خواب ہے جو  فی الحال شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ان کے چیف آف آرمی سٹاف دان حالوٹس کا استعفا خود ان کے تجزیہ نگاروں کے بقول ایک آغاز ہے۔ صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کے الفاظ میں یہ استعفا ’ڈومینو‘ کا کھیل ہے جس میں ایک بلاک گرنے کے بعد اس سے متعلق تمام بلاک خودبخود ایک ایک کرکے ڈھے جاتے ہیں‘ خواہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ اخبار کے بقول یہ استعفا‘ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے برف کے کسی گولے کی طرح ہے‘ جو ہر آن بڑے سے بڑا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ صہیونی روزنامہ ھآرٹس بھی یہی لکھتا ہے کہ ’’لبنان میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا مستعفی ہوجانا‘ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ پوری اسرائیلی فوج قابلِ اصلاح ہے‘ اصلاح کا یہ عمل جلد شروع ہونا ضروری ہے۔ حالوٹس نے جنگ میں اپنی ناکامی کا اعتراف توکیا ہے لیکن اس نے ان اسباب کا اعتراف نہیں کیا جن کے باعث اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ یہاں یہ ذکر بھی مفید رہے گا کہ اس وقت صہیونی وزیردفاع‘ وزیراعظم اور صدر سمیت متعدد لیڈر مختلف عسکری و اخلاقی الزامات کی زد میں ہیں۔ کئی مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے۔

حماس کی فتح اور اس کے بعد

ایک طرف تو اسرائیل کو اس اندرونی خلفشار اور نفسیاتی‘ اخلاقی اور عسکری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ لیکن دوسری طرف خود فلسطینی عوام کو باہم لڑا دیا گیا ہے۔ ان کی سیاسی تقسیم تو کسی حد تک فطری اور قابلِ قبول تھی‘ لیکن اب انھیں باہم قتل و غارت کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات منصفانہ و حقیقی ہونے کا اعتراف خود امریکی و اسرائیلی کر رہے ہیں۔ ان انتخابات میں عالمی مبصرین کے سربراہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر تھے۔ حال ہی میں ان سے انٹرویو میں الجزیرہ ٹی وی کی نمایندے وجد وقفی نے سوال کیا: کیا یہ انتخابات منصفانہ تھے؟ اگر تھے تو اب فلسطینیوں کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ جمی کارٹر کا جواب تھا: ’’۱۹۹۶ء میں یاسرعرفات کا صدارتی اور پارلیمانی الیکشن ہوا تو میں مبصر کی حیثیت سے وہاں تھا‘ عرفات کے انتقال اور محمودعباس ابومازن کے انتخاب کے وقت جنوری ۲۰۰۵ء میں دوبارہ وہاں گیا ‘ جنوری ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی مَیں وہاں مبصر تھا۔ یہ انتخابات مکمل طور پر عادلانہ اور شفاف تھے۔ ان میں حماس نے ۴۲ فی صد ووٹ حاصل کیے اور پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کو یہ نتائج تسلیم کرنا چاہییں۔ انتخابات سے اگلے روز میںرملہ میں محمود عباس سے ملا‘ انھیں قائل کرنا چاہا کہ وہ حماس کی پیش کش قبول کرتے ہوئے قومی حکومت تشکیل دے لیں‘ لیکن انھوں نے میری نصیحت قبول نہیں کی۔ اب بھی میرے خیال میں پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ حماس کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دی جائے‘‘۔

صدر کارٹر نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا بھی واضح اعتراف کیا کہ ’’امریکی حکومت حماس حکومت کو گرانا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ سخت اقتصادی پابندیوں سے مجبور ہوکر فلسطینی عوام اپنی راے تبدیل کرلیں گے۔ مجھے ان کے اس مفروضے کی صحت کا تو علم نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غیرقانونی‘ غیرمناسب اور غیراخلاقی عمل ہے۔ کیا آپ ایک پوری قوم کو ضروریاتِ زندگی سے محروم کریں گے کیونکہ اس نے جمہوری عمل میں آزادانہ حصہ لیا اور ووٹ کا استعمال کیا ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جمی کارٹر نے حال ہی میں فلسطین: امن‘ نسل پرستی نہیں کے عنوان سے اپنی اکیسویں کتاب لکھی ہے۔ (اس شمارے میں دیکھیے:’مسئلہ فلسطین اور اس کا حل‘، ص ۱۹)

یہ ایک امریکی ذمہ دار کی منصفانہ آواز ہے ۔ امریکی معاشرے میں کروڑوں افراد اس آواز کی تائید کرتے اور یہی راے رکھتے ہیں‘ لیکن امریکی انتظامیہ کا سر پُرغرور ظلم و حماقت کی راہ اختیار کرنے پر مصر ہے۔ فلسطینی صدر نے حماس سے مصالحت کا عندیہ دیا بھی تو فوراً واپس لے لیا کیونکہ وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس نے ڈانٹ پلا دی تھی۔ اب پھر کونڈالیزا علاقے کا دورہ کرکے گئی ہیں۔ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آیندہ دو ماہ کے دوران میں دو مرتبہ پھر آئیں گی‘ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپریل ۲۰۰۷ء تک ایک نیا فارمولا پیش کیا جائے گا۔ یہ فارمولا کیا ہوگا؟ اس کی تفصیل ہرصاحب ِفہم ابھی سے بتاسکتا ہے۔ آخر امریکی انتظامیہ کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کیا ہوگا جس کا مظاہرہ رائس نے اپنے حالیہ دورے میں کیا۔ چھے خلیجی ریاستوں‘ مصر اور اُردن کے وزراے خارجہ کے آٹھ رکنی وفد سے ہنگامی مذاکرات کا نتیجہ کیا تھا؟ لندن سے شائع ہونے والے روزنامے القدس العربی کے بقول اس میں رائس نے صدربش کی طرف سے اعلان شدہ امریکی فوجیوں کی نئی کھیپ آنے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان ۲۱ ہزار مزید فوجیوں کی بغداد میں تعیناتی‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نیا اور اہم مرحلہ ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے آپ ہماری مدد کریں۔ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات میں ہاتھ بٹاتے ہوئے خلیجی ریاستیںمالی مدد کریں‘ جاسوسی معلومات کی فراہمی میں اُردن مدد کرے اور سیاسی پشتیبانی کے لیے مصر مزید فعال ہو۔

الفتح حماس کی خانہ جنگی

ایک غیرسرکاری ادارے کانفلیکٹ فورم کے امریکی ذمہ دار مارک بیری اور برطانوی   ذمہ دار السٹر کروک فلسطین میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ  امریکی انتظامیہ کے اہم فرد ابریمز نے حماس اور الفتح کے درمیان جنگ چھیڑنے کا مفصل منصوبہ  تیار کیا ہے۔ اس کے مطابق الفتح کے عناصر کو اسلحہ اور تربیت دے کر غزہ اور مغربی کنارے کی سڑکوں پر اتارا جانا ہے۔ ان کا ہدف حماس کے ذمہ داروں کا قتل اور حماس کے مجاہدین سے دوبدو جنگ ہے۔ یہ منصوبہ حماس کی جیت کے بعد‘ گذشتہ فروری ہی میں تیار کرلیا گیا تھا‘ اس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے اور اس کی ذمہ داری محمود عباس کے دست راست اور امریکا و اسرائیل کے معتمد ترین شخص محمد دحلان کو سونپی گئی ہے۔

بیری‘ کروک رپورٹ کے مطابق مصر اور اُردن کے ذریعے الفتح کو اسلحے کی بڑی کھیپ دی جاچکی ہے اور صدر کی خصوصی فورسز کی تیاری کے بہانے حماس کا قلع قمع کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ لیکن نہ صرف مصر و اُردن بلکہ خود امریکی بھی اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا اس طرح حماس کی جڑیں کاٹنا ممکن ہوگا؟ کیا وہ مزید مقبول تو نہیں ہوجائے گی۔

امریکی معروف میگزین فارن افیئرز کے جنوری کے شمارے میں مائیکل ہرذوگ (Michael Herzog) اسی تلخ حقیقت کا جائزہ لیتاہے کہ Can Hamas be tamed? اس تفصیلی اور اہم مقالے میں وہ واضح کرتے ہیں کہ جمہوری عمل میں حماس کی شرکت کا کڑوا گھونٹ اس لیے برداشت کیا گیا تھا کہ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کو بہت سے عالمی و علاقائی مجبوریوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے‘ شاید حماس کو بھی اس پر مجبور کیا جاسکے۔ لیکن حماس کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے خیال میں جمہوری عمل میں شرکت بذاتِ خود ایک سمجھوتا اور اعتدال پسندی کی طرف ایک قدم ہے۔ حماس‘ اخوان‘ حزب اللہ اور مختلف تحریکوں کے تفصیلی تجزیے کے بعد وہ اپنے تئیں یہ حکیمانہ حل پیش کرتے ہیں کہ کم از کم ان تین بنیادی اقدامات کے ذریعے حماس اور دیگر اسلامیانِ عالم کو انتہاپسندی سے دُور رکھا جاسکتا ہے۔

                ۱-  ایسے مستحکم‘ صحت مند اور نسبتاً آزاد سیاسی نظام کا قیام جس میں اسلامسٹ بھی جذب ہوسکیں۔

                ۲-  اسلامسٹوں کے خلاف جھکتا ہوا توازن اقتدار جو انھیں معتدل ضوابط کے مطابق کھیلنے پر مجبور کرے۔

                ۳-  شراکت کار روبہ عمل لانے کے لیے کافی وقت ۔

حماس کے سلسلے میں وہ عالمی برادری کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ اس پر واضح کردیں کہ جمہوری عمل میں اس کی شراکت صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہوگی کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دے‘ اس کی مذمت کرے‘ غیرمسلح ہوجائے اور اسرائیل کا حق وجود تسلیم کرلے۔ رہا سوال حماس کو   اُکھاڑ پھینکنے اور کچل ڈالنے کا یا اپنے ڈھب پہ لانے کا‘ تووہ واضح کرتا ہے کہ اس کا وقت گزر چکا۔ The   time for taming Hamas already have passed.

فلسطین میں خانہ جنگی کا عالمی منصوبہ اب ایک کھلا راز ہے لیکن سراسر بدقسمتی ہے کہ بعض فلسطینی رہنما اس کے لیے اپنا ایمان و ضمیر اور قومی مفادات گروی رکھنے کے لیے بھی آمادہ ہیں۔ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ ۱۰ ماہ کے دوران پہلی بار چند مسلم ممالک کے دورے پر گئے۔ قطر اور ایران نے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے ان کی کچھ مالی امداد کا اعلان کیا‘ لیکن جیسے ہی وطن واپسی کے لیے فلسطینی مصری بارڈر پر پہنچے انھیں روک لیا گیا۔ کئی گھنٹے تک انھیں بے توقیر کرتے رہے اور رات گئے جانے کی اجازت دی۔ ابھی وہیں تھے کہ ان پر براہِ راست فائرنگ کروادی گئی۔ ان کی گاڑی میںسوار ان کا ایک محافظ سر میں گولی لگنے سے موقع پر شہید ہوگیا۔ دسیوں زخمی ہوئے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رکھا۔ پھر حماس کے جہادی بازو عزالدین القسام بریگیڈ کے کیمپ پر حملہ کر دیا گیا۔ غزہ کی سڑکوں پر ہزاروں گولیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ بھائی سے بھائی لڑ رہا تھا۔ فلسطینی عوام نے دونوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اصل دشمن کو پہچانیں۔ عوام نے اب بھی غزہ کے مرکزی علاقے میں احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے تم اپنے مقابل کھڑے فلسطینی کو قتل کردو لیکن یاد رکھو اس کے دل کی دھڑکن بھی اقصیٰ…اقصیٰ پکار رہی ہے‘‘۔ ایک فلسطینی ماں نے اپنے دو جوان بیٹوں کو گھر بلایا‘ اتفاق ہے کہ ایک الفتح کا کمانڈر ہے تو دوسرا حماس کا اہم کمانڈر ہے۔ محمودمصلح (حماس) اور جون مصلح (الفتح) اپنی ماں سے ملنے آئے توگھر کے اندر بھی دونوں کے دائیں بائیں مسلح محافظ پہرا دے رہے تھے۔ بالآخر دونوں پکار اُٹھے‘ ٹھیک ہے ہمارے درمیان سیاسی اختلاف ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے ’ماں جاے‘ پر گولی چلا دیں۔ بوڑھی ماں کے آنسو چھلک پڑے۔ بے تاب ہوکر اُٹھی سروں پر بوسہ دیا اور کہا: اللّٰہ یبعد عنھما شر الیہود، ’’پروردگار! دونوں کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھے‘‘۔ ایک ماں نے تو دو کڑیل جوان بیٹوں کو اصل دشمن سے خبردار کرتے ہوئے یک جا کردیا‘ لیکن لاکھوں مائوں کی یہی صدا محمودعباس اوردحلان کیوں نہیں سن رہے۔ دحلان نے خون ریزی کے ان واقعات کے بعد فخریہ بیان دیتے ہوئے کہا: ’’ہم نے دنیا پر ثابت کردیا کہ غزہ حماس کی جاگیر نہیں‘‘۔ گویا حماس کی وسیع تر تائید پر جگر چھلنی ہے اور فکرمندی یہ ہے کہ اسے کیسے کمزور کیا جائے اور کیسے اس کمزوری کو واضح کیا جائے۔

حماس اور اس کی حکومت کمزور کرنے میں ہر کوئی حصہ بقدر جثہ ڈال رہا ہے۔ حماس نے دن رات ایک کر کے اور اُمت کے ایک ایک فرد سے اپیل کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں پوری کرنا چاہیں۔ اسماعیل ھنیہ دورے پر آئے تو کچھ پیسے خود بھی جمع کیے‘ ۳کروڑ ۲۴ لاکھ ۹۹ہزار ڈالر جمع تھے۔ دستی لے جانا ممکن نہیں تھا۔ کہا گیا کہ عرب لیگ نے آپ کے لیے اکائونٹ کھولنے    کی خصوصی اجازت دی ہے۔ رقم اسی خصوصی اکائونٹ میں جمع کرو ادیں‘ فلسطین پہنچ جائے گی۔   رقم اکائونٹ میں جمع کروا کے اور قاتلانہ حملے سے زندہ بچ کے ھنیہ واپس پہنچے توعرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے خط بھیج دیا ’’عدالتی پابندیوں کے باعث ہم یہ رقم فلسطین نہیں بھجوا سکتے۔ نہ ہی کوئی انھیں کیش کروا سکتا ہے جب تک کہ عدالتی فیصلہ سامنے نہ آجائے‘‘۔ دبائو کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود حماس اپنے موقف پر ثابت قدم ہے اور اعلان کیا ہے کہ انتخابات قبل از وقت کروانے کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔ البتہ قومی حکومت کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ اس سلسلے میں صدر محمود عباس سے براہ راست مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔

اھم سوال

حالات ایسے ہیں کہ اچھے بھلے دانا کو بھی متحیر کردیں‘ لیکن حماس مطمئن ہے کہ ’’ہم پر آنے والی ہرآفت ہماری طاقت میں اضافے ہی کا سبب بنی ہے‘‘۔ اب بھی ہماری منزل واضح‘ عزم مصمم‘ تیاری مکمل اور کامیابی کا یقین کامل ہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ وہ امریکی اصطلاح کے مطابق  ’منظم بحران‘ کھڑے کرکے حکومتوں اور عوام کواپنی اطاعت پر مجبور کرلے گا۔ ہر آنے والا دن اس کی یہ خام خیالی واضح کر رہا ہے۔ اب وہ خودکہتے ہیں کہ ہم مسلم عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اٹل سنت کے مطابق ان کی ہر شرانگیزی انھی کے گلے پڑ رہی ہے۔ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَکْرَ السَّیِّیِٔ ط وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (فاطر۳۵:۴۳) ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے‘ حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ امریکا جتنا کیل کانٹا عراق و افغانستان میں لے کر آیا ہے یا اب ایتھوپیا کے راستے صومالیہ لانے کی سوچ رہا ہے اس کے بارے میں تحریک مزاحمت کا اعلان یہ ہے کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ o (القمر۵۴:۴۵) ’’عنقریب یہ سب لائولشکر ہزیمت اٹھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا‘‘۔

اصل سوال مسلم عوام اور حکمرانوں سے ہے۔ کیا وہ زندگی اور بعد موت کامیابی چاہتے ہیں‘ یا وہ بھی طاقت ور دیوانے دیو کے ساتھ ہی تباہ ہو جانا چاہتے ہیں۔ اگر جواب ہاں ہے تو ذلت کا یہی سفر جاری رہے۔ روشن خیالی کے نام پر تحریف دین‘ رب سے بغاوت اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے عملی نفرت جاری رہے‘ ایک اللہ کے بجاے دسیوں خدائوں کے سامنے سجدہ ریز رہیں۔ اور تو اور‘ کرزئی جیسے براے نام حکمران کی گھرکیاں بھی برداشت کرتے رہیں‘ گائے اور بچھڑے کے پجاریوں (ہندو اور یہود) کی عیاری سے دیکھتے بھالتے مات کھاتے رہیں‘ اپنے ہی ہاتھوں اپنے بھائیوں کا گلا گھونٹتے رہیں‘ شیعہ سنی‘ روشن خیال بنیاد پرستی‘ مہاجر پختون‘ عرب اور عجم کے تعصبات میں مبتلا رہیں‘ جتنے یوسف ملیں‘ برادرانِ یوسف بن کر انھیں مٹھی بھر ڈالروں کے عوض بیچ ڈالیں۔ اپنے تمام جیل خانوں کو گوانتاناموبے بنا ڈالیں۔ حیا و اخلاق کو سڑکوں پر تارتار کر دیں یا بسنت کی آہنی ڈور سے باندھ کر ہوائوں میں اڑا دیں۔ اپنی نسلوں کے خدابے زار و تارکین دین ہونے پر فخرو مباہات کریں۔ بس پھر دیکھیں عنقریب ہلاکت و تباہی کے کیسے کیسے تمغے عطا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ مسلم عوام کی اکثریت خود کو آخرت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر کی طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ دنیا میں اس کی شریعت کا علَم بلند کرنے کی راہ اختیار کر رہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اب تک آدھے سے زیادہ مسلم دنیا‘ افغانستان و عراق بن چکی ہوتی۔ قرآن عظیم الشان کے بجاے دنیا میں ’امریکی فرقان‘ کی تلاوت ہو رہی ہوتی۔ لبنان‘ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق‘ ہر جگہ جہاد کی کھیتی ویران ہوچکی ہوتی اور امریکیوں کے اپنے سروے کے مطابق ۸۴ فی صد مسلم عوام اس کی اور اس کے غلاموں کی کرتوتوں سے اظہار نفرت نہ کر رہے ہوتے۔

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّـتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ۹:۳۲)یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

 

عراق میں امریکی ہزیمت پر مرثیہ خوانی کرتے ہوئے‘ بیکر ہملٹن رپورٹ میں کئی     عملی تجاویز دی گئی ہیں۔ ۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جاری ہونے والی اس رپورٹ پر امریکی قوم ہی کی نہیں‘ پوری دنیا کی نظریں لگی تھیں۔ معروف سابق وزیرخارجہ جیمز بیکر اور اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے لی ہملٹن کی سربراہی میں دونوں پارٹیوں کے پانچ پانچ افراد کی پیش کردہ رپورٹ پر گویا پوری امریکی قوم کا اجماع ہے۔ عراق کے حوالے سے اس میں انتہائی اہم امور کا اعتراف اور نشان دہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ پر جو لے دے اسرائیل میں ہورہی ہے وہ آج کی فلسطینی صورتِ حال پر روشنی ڈالتی ہے۔ بیکر ہملٹن نے لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کو درپیش بحران کا حقیقی حل عرب اسرائیل تنازعہ ختم کروانے میں مضمر ہے۔ یہ تجویز دراصل ایک اعترافِ حقیقت ہے اور اس کا سبب امریکا کی ہمہ گیر اسرائیل نوازی کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام میں امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت و عداوت ہے۔

اس امریکی اعترافِ حقیقت پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لفنی اور دیگر افراد نے جیمز بیکر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ اب وہ نہیں رہا جو اس بڈھے وزیرخارجہ کے دور میں ہوا کرتا تھا‘‘۔ لیکن اس تنقید پر خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے بھی کارپردازان حکومت کا مذاق اڑایا ہے۔ بڑے صہیونی روزنامے ہآرٹز کا معروف تجزیہ نگار شلوموبن عامی لکھتا ہے: ’’یہ لوگ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اب واقعی وہ نہیں رہا۔ اب یہاں روز بروز توانا ہوتی ہوئی ریڈیکل اسلامی لہر ہے۔ اب یہاں شیعہ امپائر ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی اسی راہ پر جانکلیں۔ اب شام کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اسلامی تشدد پسند اپوزیشن  اب فلسطینی اتھارٹی میں شامل ہے۔ لبنان میں بھی ان اسلامیان کی حیثیت سب کو معلوم ہے۔ علاقے میں امریکی تسلط کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی حلیف حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہے۔ ان تمام امور نے مشرق وسطیٰ کو بیکر کے زمانے سے بھی کہیں زیادہ پُرخطر بنا دیا ہے۔ اب اسرائیل کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنا پہلے سے کئی گنا زیادہ ضروری ہوگیا ہے… اب اسرائیل کا اپنے پڑوسی ملکوں سے تنازعہ صرف قومی تنازعہ نہیں رہا بلکہ اب اس تنازعے پر دینی اور ثقافتی رنگ غالب ہے جس سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور سنگین ہوگیا ہے‘‘۔ (ہآرٹز‘ ۱۸ دسمبر)

۱۶ دسمبر کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابومازن) کی طرف سے تقریباً ۹ ماہ قبل تشکیل پانے والی فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان اسی     صہیونی خوف کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ یا تو حماس حکومت کو آغاز ہی میں مفلوج کرتے ہوئے نئے انتخابات کروا دینا چاہییں تھے یا پھر نتائج    تسلیم کرتے ہوئے اس سے نباہ کرنا چاہیے تھا اور ایک نئے فلسطینی شریک کی حیثیت سے معاملات طے کرنا چاہییں تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے دونوں میں سے کوئی بھی پالیسی واضح طور پر نہیں اپنائی۔ اب بالآخر محمود عباس کے ذریعے پہلی تجویز پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ نئے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہر طرف یہی تاثر تھا کہ الفتح اور حماس کے مابین قومی حکومت کی تشکیل پر      اتفاق راے طے پا گیا ہے۔ الفتح نے اسماعیل ھنیّہ کے بجاے حماس ہی سے نئے وزیراعظم کا نام پیش کیا جسے حماس نے قبول کرلیا۔ لیکن فلسطینی وزیرخارجہ محمود الزھار کے بقول: محمودعباس نے بندکمرے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا سے ملاقات کی اور باہر نکل کر اعلان کردیا کہ قومی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات بندگلی میں پہنچ کر دم توڑ گئے ہیں‘‘۔

اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں ابومازن نے حماس حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ لگائی اس میں اقتصادی حصار کے باعث معاشی مشکلات کے علاوہ کرپشن کا بھی ذکر تھا۔ اس الزام پر حماس نے نہیں عام افراد نے حیرت کا اظہار کیا کہ حماس حکومت کا طرئہ امتیاز ہی کرپشن اور     لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کرنا اور سابق حکمرانوں کے خوف ناک مالی اسیکنڈل بے نقاب کرنا ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی کے بقول حماس کی دیانت اور کفایت کے باعث حکومت کے انتظامی امور پر  اُٹھنے والے اخراجات ۲۱ کروڑ سے کم ہوکر صرف ۶ کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔

حماس نے اس چارج شیٹ کے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا الزام لگانے سے فلسطینی عوام کی نظروں میں فلسطینی صدر کی پوری تقریر بے معنی ہوکر    رہ گئی۔ رہے نئے انتخابات‘ تو ابھی ایک سال سے کم عرصے قبل انتخابات میں فلسطینی عوام نے اپنی بھرپور رائے کا اظہار کیا ہے۔ اگر دوبارہ انتخابات کروائے گئے توہمیں یقین ہے کہ حماس کو پہلے سے زیادہ بھرپور عوامی تائید حاصل ہوگی۔ کیا ایسی صورت میں تیسری دفعہ انتخاب کی بات کی جائے گی۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ‘ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حماس کے ذمہ داران ہی نے نہیں‘ سات جہادی تنظیموں نے مشترکہ طور پر نئے انتخابات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت اس غیرآئینی اور غیراخلاقی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گذشتہ پارلیمنٹ تو ۱۰سال تک چلائی گئی اور اب بھاری عوامی تائید سے منتخب ایوان چند ماہ سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔

اس اعلان کا اصل خمیازہ فلسطینی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صدارتی مسلح فورسز سڑکوں پر آنے سے وزارتِ داخلہ نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی اور غزہ کی سڑکوں پر فلسطینی تاریخ کے بدترین سیاہ صفحات رقم کیے گئے۔ مسلح فلسطینی نوجوان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے‘ دسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ اب تک تین شہید ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ صہیونی افواج کے ہاتھوں بھی قتل عام جاری رہا لیکن اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا غم کہیں بڑھ کر ہے۔ اس  صورتِ حال کا مستقبل کیا ہوگا؟ صہیونی تجزیہ نگار خود کیا کہتے ہیں؟ معروف دانش ور ڈینی روبنسٹائن ہآرٹز میں لکھتا ہے: ’’حماس اور الفتح کے درمیان خانہ جنگی اب ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء کی لبنان میں فلسطینی جھڑپوں کے بعد سے لے کر اب تک یہ صورت دوبارہ پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ تنازعہ صرف مسلح جھڑپوں ہی سے نہیں دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور سخت رویے سے بھی واضح ہے‘‘۔ روبنسٹائن اعتراف کرتا ہے کہ اس تنازعے میں الفتح کی حیثیت بے حدکمزور ہے۔ ایک تو اندرونی خلفشار اور مالی بدعنوانیوں کے طومار اور دوسری طرف فلسطینی عوام کی تائید سے محرومی‘ آپ غزہ کی سڑکوں پر جاکر پوچھیںآپ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جو اعتراف کرتے ہیں کہ وہ الفتح سے پیسے لیتے ہیں لیکن ’’ہم ووٹ حماس کو دیں گے‘‘۔ وہ اپنے تجزیے کا اختتام اپنے اس جملے پر کرتا ہے کہ ’’اگر اسرائیلی حکومت میں سیاسی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی  نہ لائی تو الفتح اور ابومازن کے لیے کامیابی کا ادنیٰ امکان نہیں‘‘۔

حماس کے ذمہ داران کی اصل پریشانی خانہ جنگی کے امکانات سے ہے۔ وزیراعظم ھنیّہ نے ۲۰ دسمبر کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے الفتح اور حماس کے نوجوانوں سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے کہا: ’’الفتح اور حماس کے میرے جوانو!   ہمارا اصل محاذ جنگ یہ نہیں ہے‘ ہمارا مشترکہ دشمن ایک ہی ہے‘‘۔ اس اپیل کا اثر فلسطینی ہی نہیں ہرمسلم نوجوان قبول کرتا ہے۔ فلسطین کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ حماس حکومت کواصل سزا اس بات کی دی جارہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ جہاد ترک کرنے سے انکاری ہے۔ وہ فلسطین سے باہر موجود لاکھوں مہاجرین کے حق واپسی سے دست برداری خیانت گردانتی ہے۔ یہ تینوں مطالبات ہرفلسطینی شہری کے دل کی آواز ہیں۔اس لیے وزیرخارجہ محمودالزھار نے کہا ہے کہ ہم عوام کی راے سے منتخب ایوان کا خون نہیں ہونے دیں گے حالاں کہ ہمیں یقین ہے کہ انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرے گی کیوںکہ ہم عوام سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ روٹی چاہیے یا نہیں۔ ہمارا سوال پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہوگا کہ کیا  ہم اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرلیں؟ اور اس سوال کا واضح جواب خود محمود عباس کو بھی معلوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فیصلہ کن سوال کا دوٹوک جواب جاننے کے باوجود محمودعباس انھی احکام پرعمل درآمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کونڈولیزا نے دہشت گردی کی عالمی تکون کی طرف سے انھیں پہنچائے۔ امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل نے محمودعباس کی تائید اور اپنی بھرپور مدد کا اعلان کیا ہے۔

 

جو کچھ بھارت نواز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر کیا ہے‘ کسی اسلامی تحریک یا مذہبی جماعت نے کیا ہوتا تو پوری دنیا میں نہ تھمنے والا پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہوتا۔ درندگی‘ سفاکیت‘  وحشی پن سب الفاظ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کی جو وڈیو ریکارڈنگ ہم تک پہنچی ہے اس کی چند جھلکیاں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگرچہ انسانی جان کا قتل بے حد سنگین جرم ہے پھر بھی روزانہ ہزاروں انسان قتل ہوتے اور دوسرے اس قتل کی خبر پاتے ہیں‘ لیکن جو قتل عام اکتوبر کے آخری ہفتے ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہوا‘ خدا وہ دن دوبارہ کسی ملک و قوم کو نہ دکھائے۔ معاملہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ بنگلہ دیشی دستور کے تحت عام انتخابات سے قبل جو عبوری حکومت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننی ہے ہمیں اس کا سربراہ منظور نہیں۔ پھر عوامی لیگ کے کارکن تھے‘ خنجر‘ بھالے‘ لٹھ اور آہنی سلاخیں تھیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل عام تھا۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں جمہوری روایات پاکستان سے زیادہ مستحکم ہورہی ہیں۔ الیکشن بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ عبوری حکومت کا فارمولا بھی اتفاق راے سے نافذ ہے۔ لیکن بھارتی مقتدر قوتیں بنگلہ دیش میں اپنے نفوذ و تسلط کو کسی صورت کم یا ثانوی ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی اصل پہچان ہی بھارت نوازی ہے‘ اس لیے گذشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے مسلسل دونوں مضطرب ہیں کہ کیسے واپسی ہو‘کیسے دوسری کسی بھی حکومت کو مفلوج و ناکام بنایا جائے۔

خالدہ ضیا حکومت کے پانچ برس کوئی سنہری دور تو نہیں تھے‘ لیکن میں نے اندرون و بیرون ملک رہنے والے جس بنگالی بھائی سے بھی پوچھا اس نے ’’پہلے سے اچھا ہے‘‘ کہہ کر نسبتاً اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی دو وزارتوں کی کارکردگی سب سے نمایاں اور استثنائی رہی۔ خالدہ ضیا اپنی کابینہ میں دوسرے وزرا کو بھی ان دونوں کی پیروی کی تلقین کرتی رہیں۔ لیکن الزامات اور بھارت نواز ذرائع ابلاغ کبھی تو بنگلہ دیش میں طالبنائزیشن کی دہائی دیتے رہے‘ کبھی القاعدہ سے ڈانڈے ملاتے رہے اور کبھی ہڑتالوں اور مظاہروں سے زندگی مفلوج کرنے کی سعی کرتے رہے۔

اب ایک بار پھر انتخابات کا معرکہ ہے۔ خالدہ ضیا کا چار جماعتی اتحاد اپنی سابقہ کارکردگی اور حسینہ شیخ روایتی ہتھکنڈوں اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پیسے‘ پروپیگنڈے‘ بیرونی نفوذ اور کارکنان کی جفاکشی میں ہے۔ جو بھی ہو‘ نتائج جنوری میں سامنے آجائیں گے۔

بات شروع ہوئی تھی عبوری حکومت کی سربراہی پر اختلاف کے نتیجے میں عوامی لیگ کی  قتل و غارت سے‘ کہ اس وحشی پن کا جو ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں ہوا ہے اصل حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ ادھر غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں صہیونی جارحیت بھی حسب معمول جاری ہے۔ نومبر کے آغاز میں صرف ایک ہفتے میں ۶۵ سے زائد افراد شہید کردیے گئے۔ بیت حانون کے ایک محلے پر بم باری کرکے دسیوں افراد شہید کردیے گئے جن میں سے ۱۳ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے سات معصوم بچے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں بھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ صہیونیت نواز عالمی ذرائع ابلاغ نہ تو اس قتل عام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور نہ حماس کی اس سیاسی بصیرت و قربانی کی کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وسیع تر حکومت بنانے پر مصر ہے۔

وسط نومبر میں حماس کے سربراہ خالد المشعل سے فون پر اور لبنان میں ان کے خصوصی نمایندے اسامہ حمدان سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں نے بتایا کہ ہم تو اپنی جیت کے فوراً بعد سے قومی حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن تب ہماری پیش کش قبول نہ کی گئی۔ کچھ لوگ اور عالمی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری حکومت اور فلسطینی عوام کا حصار کرکے ہمیں ناکام کردیا جائے۔ حماس کی حکومت ختم ہوگی تو دنیا بھر میں واویلا کیاجائے گا‘ دیکھا ناکام ہوگئے‘ اسلامی تحریکیں حکومت چلا ہی نہیں سکتیں۔ اس ضمن میں ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہم نے کہا امداد نہیںدینا‘ نہ دیں  ہم اُمت سے اپیل کرکے خود ہی وسائل مہیا کرلیتے ہیں‘ لیکن ہماری جمع کردہ رقوم بھی فلسطینی عوام تک پہنچنے نہ دی گئیں۔ کئی ملکوں میں ہمارے اکائونٹس منجمد کردیے گئے اور پھر بالآخر الفتح تحریک کے مسلح گروہوں اور صدر محمودعباس کی سیکورٹی فورسز کے دستوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا اور ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا بہانہ بناکر خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن بالآخر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور عوام حماس کی تائید میں مزید یکسو ہوگئے۔ رمضان کے وسط میں جب باہم لڑائی کا خدشہ اورالزامات کا طوفان شدید تھا‘ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ نے ایک جلسۂ عام کا اعلان کیا‘ بغیر کسی سرکاری انتظام کے‘ لاکھوں لوگوں نے جمع ہوکر ان کا مؤقف سنا اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا مسئلہ صرف روٹی نہیں‘ وہ تو کتوں کو بھی مل جاتی ہے‘‘۔

عوام کو حماس حکومت سے متنفر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ ایوان صدر نے     یہ دھمکی بھی دی کہ حماس کی حکومت یا پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی‘ لیکن اس کے لیے عملاً کوئی راستہ نہیں تھا۔ الفتح نے خود بیرونی سرپرستوں کے تعاون سے جو قانون سازی کی تھی‘ اس کے مطابق اگر حکومت توڑی جاتی ہے تو ایک عبوری حکومت فوراً بنانا پڑتی جس کی توثیق پارلیمنٹ سے ضروری تھی اور پارلیمنٹ میں حماس ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توڑی جاتی‘ تو نئے الیکشن ضروری تھے‘ جب کہ ہر سروے رپورٹ یہ رہی تھی کہ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ چند ماہ کی حکومت میںاس نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر   امانت دار‘ فعال اور باصلاحیت حکومت ہے۔ اگر عوام بھوکے ہوتے ہیں تووزیراعظم خود بھی بھوکا ہوتا ہے۔ اس نے آج تک کوئی الائونس یا تنخواہ نہیں لی کیونکہ اس کے عوام کو پوری تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ماہ کی حکومت نے گذشتہ حکمرانوں کے کتنے بڑے بڑے اسیکنڈل بے نقاب کیے ہیں۔ جب فلسطینی عوام دشمن کی بم باری کی زد میں ہوتے تھے‘ ان کے حکمران دشمن سے کیا کیا گٹھ جوڑ کر رہے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود جو سامانِ ضرورت (خاص طور پر پٹرول) جب مقبوضہ فلسطین پہنچتا تھا تو کس کس وزیر کا کتنا کتنا کمیشن اس میں شامل ہوتا تھا۔

اس صورت حال میں الفتح اور صدر محمود عباس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچاتھا کہ وہ یا تو اسی طرح تناؤ اور حصار باقی رہنے دے ‘ یا حماس کی قومی حکومت والی تجویز قبول کرلے۔ پہلی صورت میں یہ خطرہ برقرار رہتا کہ مزید عوام حماس کے گرد جمع ہوجائیں جو امریکی‘ صہیونی اور فلسطینی ایوانِ صدر کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے بالآخر قومی حکومت کا  کڑوا گھونٹ برداشت کرلیا گیا۔ حماس کی اکلوتی شرط یہ ہے کہ قومی حکومت بنے تو اس ضمانت پر کہ اس کے بعد فلسطین کا اقتصادی حصار ختم کردیا جائے گا‘ جب کہ ایوان صدر مختلف شرطیں عائد کر رہا ہے‘ مثلاً اسماعیل ھنیّہ جیسا دبنگ لیڈر اس کاسربراہ نہیں ہوگا‘ یا یہ کہ فلاں فلاں وزارت ہمیں ملے گی خاص طور پر وزارتِ خارجہ۔ حماس نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ غزہ میں حماس کی قائم کردہ اسلامی یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محمد شبیر شاید نئی حکومت کے سربراہ ہوں۔ وزارتیں پارلیمنٹ میں پارٹی حیثیت کے مطابق تقسیم ہوں گی‘ فلسطینی عوام کے روکے گئے فنڈ واپس مل جائیں اور اقتصادی حصار جزوی طور پر ختم ہوجائے گا۔

امریکا نے پہلے قومی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ صدربش اور اس کی وزیر کونڈالیزارائس نے اس کے خلاف بیان بھی دے دیے‘ لیکن پھر کئی صہیونی تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا کہ اگر کوئی بھی راستہ باقی نہ بچا تو جہادی کارروائیوں میں مزید تیزی آجائے گی۔ حماس کی قیادت کو اطمینان ہے کہ جو راستہ بھی ملے گا ہم اپنی منزل سے قریب تر ہوں گے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ پہلے کوئی دبائو ہم سے تسلیم کروا سکا ہے‘ نہ آیندہ کروا سکے گا۔ جہاد و انتفاضہ سے    ہم نہ پہلے دست بردار ہوئے ہیں نہ آیندہ کوئی دست بردار کروا سکے گا۔ عزالدین قسام بریگیڈ نے خودساختہ راکٹوں سے صہیونی آبادیوں اور کئی ذمہ داروں کے گھروں کو نشانہ بنا کے پیغام دیا ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچے گی تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔ ہماری سرزمین مقبوضہ رہے گی تو جہادِ آزادی بھی  اپنی منزلیں کامیابی سے طے کرتا رہے گا۔

عرب ممالک میں ایک نعرہ بہت مقبول ہو رہا ہے: یانصراللّٰہ یاحبیب ، اضرب اضرب تل ابیب، اے پیارے نصراللہ! تل ابیب پر ضرب لگائو۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ عرب عوام میں وہ مقبولیت پا رہے ہیں کہ موریتانیا کے بعض مظاہرین ان کی تصویر تلے  سورئہ نصر کی آیت اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ… لکھے انھیں اُمت مسلمہ کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ حسن نصراللہ نے بھی اسرائیلی حملہ شروع ہونے کے بعد اپنی ریکارڈ شدہ تقریر میں اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ کسی فرقے‘ مذہب‘ ملک یا علاقے کا نہیں‘ اُمت مسلمہ کا معرکہ لڑ رہے ہیں۔

سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس میں صرف ایک فریق کو  نہیں اسرائیل کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صہیونی ذمہ داروں کا اعتراف ہے کہ گذشتہ ۱۰ روز کی لڑائی میں اسرائیلی شہروں پر حزب اللہ کی طرف سے ایک ہزار سے زائد میزائلوں کی بارش ہوچکی ہے۔ اسرائیل اپنے تمام تر اسلحے اور دنیا کی سب سے خطرناک عسکری اور جاسوسی صلاحیتوں کے باوجود‘ حزب اللہ کے مجاہدین کو یہ جدید ترین میزائل فائر کرنے سے نہیں روک سکا۔ اس نے دعوے تو کیے کہ ہم نے حزب اللہ کے کئی ٹھکانے اور میزائل لانچنگ پیڈ تباہ کردیے ہیں لیکن حزب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دے سکا کہ اگر دعوے میں واقعی سچے ہو تو لائو کوئی ثبوت۔ یہ درست ہے کہ دونوں طرف ہونے والے نقصانات میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ لبنان کے بیروت‘ صیدا اور صور سمیت کئی شہروں میں بہت مہیب و خوف ناک تباہی ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں‘ ہزاروں زخمی و شہید ہوچکے ہیں اور ادھر مرنے والے یہودیوں کی تعداددسیوں میں ہے۔ تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے لیکن یہودی قوم کی ’بہادری‘ کا یہ عالم ہے کہ حیفا اور نہاریا سمیت ان کے متعدد شہر اس وقت بھوتوں کے شہر قرار دیے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سناٹا‘ چہارسو خوف‘ دن رات سائرنوں کی آوازیں اور زیرزمین پناہ گاہوں میں چھپ جانے کی صدائیں‘ ان شہری آبادیوں کا عنوان بن چکی ہیں۔ یہ موسم مقبوضہ فلسطین میں سیاحت کے عروج کا موسم ہوتا تھا۔ جنگ سے ایک روز پہلے تمام شہروں کے تمام ہوٹل بھرے ہوئے تھے۔ اب ان میں ایک بھی مسافر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔

اپنی حکومت سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرنے والے اور اپنے تعلیمی اداروں میں ہر بچے کے  ذہن میں یہ زہر گھولنے والے کہ ’’عرب اور مسلمان کیڑے مکوڑے ہیں‘ ان کے ناپاک وجود سے روے زمین کو پاک کرنا انسانیت کی اعلیٰ معراج ہے‘‘، جنگ کے ایک ہفتے کے بعد ہی دہائی دینا شروع ہوگئے کہ اس آگ میں کود تو گئے ہیں اب نکلیں گے کیسے؟

۱۹ جولائی کے عبرانی روزنامے ہآرٹس میں اخبارکے بڑے کالم نگار عوزی بن زیمان کے کالم کا عنوان ہے ’’اولمرٹ اور بیرٹس نے جنگ تو چھیڑ دی لیکن کیا انھیں معلوم ہے کہ اس میں سے نکلنا کیسے ہے؟‘‘ وہ مزید لکھتا ہے: ’’جنگ ختم کرنے کے کئی راستے ہیں‘ جیسے حزب اللہ کی قیادت خاص طور پر حسن نصراللہ کو قتل کردیا جائے‘ یا حزب کی سیاسی قوت کا خاتمہ کردیا جائے‘ یا اس کی عسکری صلاحیت سلب کرلی جائے اور اس طرح لبنانی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کردیا جائے لیکن یہ سب نظری باتیں ہیں۔ یہ کسی صورت حقیقت میں نہیں بدلی جاسکتیں‘‘۔

اسی بات کا ذکر حسن نصراللہ نے ۲۱ جولائی کو الجزیرہ کو دیے گئے اپنے تفصیلی انٹرویو میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ’’گذشتہ ۲۳ سال سے اپنی قوم کو صہیونیوں سے جہاد کے لیے تیار کر رہے ہیں تو کیا اب ہم موت یا شہادت سے ڈر جائیں گے؟ نہیں ، ہم ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں۔ اس جنگ میں وقت اصل اہمیت کا حامل ہے۔ دشمن نے اب تک صرف شہری آبادی کا قتلِ عام کرنے‘ پُلوں‘ کارخانوں‘ سڑکوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنے پورے جبروت اور سفاکی کے باوجود وہ اپنے کسی عسکری ہدف کو حاصل نہیں کرسکا۔ ہم اپنی لڑائی مکمل بصیرت‘ صبر‘ حوصلے اور سوچ بچار کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ہم کسی جلدبازی کا شکار نہیں ہوں گے‘‘۔

واضح رہے کہ ڈیڑھ گھنٹے کے اس انٹرویو میں وہ بھرپور تحمل‘ کامل صبراور وقار کے ساتھ‘  گویا ایک ایک لفظ تول کر بول رہے تھے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دشمن اپنے بے پناہ ہتھیاروں اور دنیا کی جدید ترین عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں یہ دعویٰ بھی نہیں کرتا کہ وہ لبنان کی سرزمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں کرسکے گا‘ ہوسکتاہے کہ وہ کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوجائے لیکن ایک منظم اور جدید فوج کو ایک عوامی اسلامی تحریک مزاحمت کے ہاتھوں جو خسارہ برداشت کرنا پڑے گا اسے بھی پوری دنیا دیکھے گی‘‘۔     حسن نصراللہ اس انٹرویو میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے بھی مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’ہم    یہ نہیں چاہتے کہ تمھاری تلواریں ہمارے ساتھ ہوں بلکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ تمھارے دل ہمارے ساتھ ہوں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں چھوڑ دو‘ ہمارا راستہ نہ روکو‘ ہمارے دشمن کا ساتھ نہ دو‘‘۔ وہ اس تجزیے یا الزام پر بھی بے حد کبیدہ خاطر تھے کہ حزب اللہ کی کارروائی ایران یا شام کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ انھوں نے تلخی سے کہا کہ ’’یہ نری بکواس اور اپنی جانوں پر کھیلنے والے مجاہدین کی توہین ہے۔ ہم ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے بچوں اور اہلِ خانہ سمیت یہودیوں سے قتال کر رہے ہیں۔ اسے کسی ایک یا دوسرے ملک سے مربوط کر دینا ذلت کی انتہا ہے‘‘۔

جس روز حسن نصراللہ کا یہ انٹرویو بیروت سے آرہا تھا‘ اسی روز فلسطینی وزیراعظم    اسماعیل ھنیہّ غزہ کی جامع مسجد میں خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اسرائیل کی اس جنگ اور ریاستی دہشت گردی کا ہدف تحریکِ مزاحمت کا خاتمہ ہے۔ وہ فلسطین میں بھی مزاحمت کی کمر توڑنا چاہتا ہے اور لبنان میں بھی عوام کی ہمت اور ارادے کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ پورے خطے میں   ہنگامہ برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں ایسا سیاسی نقشہ تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں اسرائیل پورے خطے پر حاوی اور مسلط ہو‘‘۔ اسماعیل ھنیہّ نے مشرق وسطیٰ کی پوری جنگ کو تین اسرائیلی قیدیوں کی گرفتاری سے منسلک کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صہیونی جارحیت اس واقعے سے پہلے بھی جاری تھی اور وسیع تر صہیونی جارحیت کا منصوبہ بھی پہلے سے تیار تھا‘ اور اس پورے منصوبے کو امریکی انتظامیہ کی براہ راست سرپرستی اور مدد حاصل ہے‘‘۔

اسرائیلی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اپنے قیدیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناتے ہوئے    وہ فلسطین اور لبنان ہی نہیں شام میں بھی اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے‘ اور اگر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں وہ آج سے کم ہتھیار رکھتے ہوئے بھی چھے دنوں میں فتح یاب ہوگئے تھے اور عربوں کی منظم افواج کی قوت خاک میں ملا دی تھی تو لبنان جیسے کمزور ملک اور وہاں بھی صرف ایک عوامی تحریک مزاحمت کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ اس نے تباہی کی آگ بھڑکا دی‘ لیکن ان ۱۰ دنوں کے ایک ایک دن میں سات سات دفعہ زمینی پیش قدمی کی کوششیں کرنے کے باوجود وہ ابھی تک     نہ صرف ناکامی کے زخم چاٹ رہا ہے بلکہ اس کے سنسان اور مسلسل میزائلوں کی زد میں آئے ہوئے شہر ماضی سے بہت مختلف مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔

فی الحال یہ کہنا کہ اس جنگ سے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست نیست و نابود ہوجائے گی‘ شاید ایک جذباتی بات ہوگی۔ لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ اپنی تمام تر سطوت کے باوجود اسرائیل اس وقت ایک کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کی سب سے واضح دلیل اسرائیلی عوام کی طرف سے   بڑھتے ہوئے یہ مطالبات ہیں کہ غزہ اور دیگر گنجان فلسطینی آبادیوں سے صہیونی فوجیں نکال لی جائیں۔ ہمیں یک طرفہ طور پر ہی فلسطینیوں سے حتمی معاہدہ کرتے ہوئے اور ان کے کچھ علاقے خالی کرتے ہوئے اپنی اُونچی اُونچی فصیلوں میں گھرے علاقوں میں محصور ہوجانا چاہیے۔ اگرچہ   یہ صہیونی عفریت پر مبنی فصیل بذاتِ خود ان کی کمزوری‘ خوف اور ناکامی کی علامت ہے‘ لیکن شامت کے ماروں کو یہی آخری پناہ نظر آرہی ہے۔ چند روز کے فرق سے ایک نہیں تین فوجیوں کی گرفتاری بھی یقینا ممکن نہ ہوتی اگر صہیونی فوجوں کی ذلت کے دنوں کا آغاز نہ ہوتا۔

صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کا عسکری تجزیہ نگار الیکس فیشمان ۲۱جولائی ۲۰۰۶ء کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے سامنے صرف دو سے تین ہفتے ہیں کہ وہ کوئی   سیاسی مقاصد حاصل کرسکے۔ اس کے بعد عسکری حقائق سیاسی مقاصد کی تکمیل نہیں کرنے دیں گے… ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ لبنانی ہمارے حملے کا اوّلین صدمہ برداشت کرچکے ہیں… اب ایک ہفتہ باقی ہے اگر ہم اس میں کاری ضربیں لگانے اور  زمینی پیش قدمی میں کامیاب ہوگئے تو پھر دشمن سے مفید سودے بازی ہوسکے گی‘‘۔

صہیونی حکومت جن نکات پر بات چیت اور مذاکرات کرنے کے لیے تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۱۹ جولائی کے اخبار الشرق الاوسط کے نمایندے نظیر مجلی نے تل ابیب سے اپنی رپورٹ میں ان کی تفصیل بتائی ہے۔ مجلی کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کے پیش نظر‘ چھے مطالبات ہیں: ۱- تین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی‘ ۲- حزب اللہ کی طرف سے میزائل حملوں کی بندش‘ ۳- لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں کا اختتام‘ ۴- گرفتار شدہ فلسطینی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی رہائی (ان میں وہ ارکان پارلیمنٹ شامل نہیں جو ان واقعات سے پہلے گرفتار ہوئے تھے)‘ ۵-جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے دستوں کا مکمل انخلا اور ان کی جگہ لبنانی فوج کی تعیناتی‘ ۶-اسرائیل اور لبنان میں سیاسی مذاکرات۔ اس پورے عمل میں اس بات کا التزام کیا جائے گا کہ حسن نصراللہ یا حزب اللہ فاتح کی حیثیت سے سامنے نہ آسکیں۔

اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سابق سربراہ گیورایلانڈ نے ایک بڑے عبرانی اخبار       یدیعوت احرونوتکو ۱۸ مئی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ    لبنانی حکومت کے ساتھ ایسی سختی نہ دکھائے کہ وہ کسی ذلت آمیز معاہدے پر مجبور ہوجائے کیونکہ  اس صورت میں پھر ساری عوامی حمایت و تائید حزب اللہ جیسے مسلح دھڑوں کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔ انھوں نے مذاکرات و معاہدے کی جو شرائط تجویز کی ہیں ان میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۵۵۹ کے تحت حزب اللہ اور دیگر مسلح تنظیموں کو غیرمسلح کرنا‘ انھیں جنوبی لبنان سے بے دخل کرنا‘ لبنان اور اسرائیل کے درمیان تمام تر سرحدی تنازعوں کا خاتمہ کرنا اور لبنان و اسرائیل کے قیدیوں کا تبادلہ کرنا جیسے نکات شامل ہیں۔ گویا صہیونی ریاست میں عوام سے لے کر خواص تک ۱۰ روزہ لڑائی کے بعد‘ ایک ہی بات پر سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جان چھڑائی جائے‘ مذاکرات کیے جائیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان مجوزہ شرائط اور مذاکراتی نکات میں وہ کہیں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کرتے۔ لبنان پر تباہ کن بم باری کے دوران نابلس‘ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں میں جس وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا ہے دنیا کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے دی گئی۔ تین صہیونی قیدیوں کی بات کو جنگ کابہانہ ثابت کرتے ہوئے صہیونی وزیرخارجہ لیفنی کہتی ہیں: ’’حزب اللہ کو مارنے کے لیے اسرائیلی فوج ہر طرح کی کارروائی کے لیے آزاد ہے‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں اب بھی ۹۸۵۰ فلسطینی قید ہیں جن میں ۳۵۹ بچے اور ۱۰۵ خواتین ہیں۔ خواتین قیدیوں میں سے تین کو حمل کی حالت میں گرفتار کیا گیا اور وہ قید ہی میں بچے جنم دینے پر مجبور ہوئیں۔ صہیونی وزیرخارجہ نہیں بتاتیں کہ ان میں سات قیدی ایسے ہیں جو جیل میں ۲۵برس سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں‘ جب کہ ایک قیدی سعید العتبہ ۲۹ سال سے جیل میں سڑ رہا ہے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صہیونی جیلوں میں ۱۸۳ فلسطینی قیدی موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں‘ ۷۲ کو بغیر سزا سنائے‘ ۶۹ کو   تشدد کرکر کے اور ۴۲ کو بیماری کے بعد کوئی طبی امداد فراہم نہ کرکے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ گرفتار شدگان میں ۴۰ ارکانِ پارلیمنٹ ہیں جن میں سے ۲۷ کو ایک اسرائیلی فوجی کی گرفتاری کے بعد گرفتار کیا گیا‘ جب کہ ۱۳ نے جیل ہی سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ نہیں بتاتیں کہ صرف تحریکِ انتفاضہ کے دوران فلسطینیوں میں سے ۵۰ہزار افراد کو مختلف اوقات میں جیلوں کی یاترا کروائی گئی لیکن شاید   یہ ۵۰ہزار انسان نہیں‘ اسرائیلی نصابی کتابوں کے مطابق کیڑے مکوڑے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی جنگ کیا نتائج دکھائے گی؟ یہ غیب پر مشتمل مستقبل ہے۔ لیکن جو نتائج اب تک سامنے آچکے ہیں‘ امریکا اسرائیل اور ان کے مسلم حکمران حواریوں کی آنکھیں کھول دینے   کے لیے کافی ہیں۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ وہ مسلم اُمت کو شیعہ سنی‘ عربی عجمی‘ یا کسی بھی علاقائی و لسانی عصبیت کی بھینٹ چڑھانے کی لاکھ کوشش کرلیں‘ وقت اسے ہر بار یک جا و متحد کردیتا ہے۔ اب موریتانیا سے ملائیشیا تک ایک عرب شیعہ لیڈر سید حسن نصراللہ مسلم عوام کے ہیرو کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ جس لیڈر نے بھی جہاد کا علَم تھاما‘ جہاد کے خلاف تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اُمت مسلمہ نے اس رہنما کو محبت اور احترام سے دیکھا‘ خواہ وہ اس کے طریق عمل سے ناواقف یا متفق نہ بھی ہوں۔ انھوں نے دیکھا کہ دنیا میں دولت‘ دھونس‘ دھمکیوں اور دہشت گردی ہی سے معرکے جیتے نہیں جاتے‘ جذبۂ ایمانی‘ اخلاص اور قربانی بعض اوقات خود سے کئی گنا بڑے اژدہے کوبے بس و ہلاک کردیتی ہے۔ حسن نصراللہ انٹرویو میں کہہ رہے تھے: ’’ہمارے ساتھی اس معرکے کو یہودیوں کے ساتھ اُمت کا آخری معرکہ سمجھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی لوگ اس پر ملول ہیں کہ انھیں ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ فیصلہ کن معرکہ ختم ہوجائے اور پھر ہم کبھی بھی شہادت کی منزل نہ پاسکیں‘‘۔ کیا یہ عزم و احساس امریکا‘ اسرائیل اور ان کے حواری حکمرانوں کو آج سے مختلف مستقبل کی خبر دیتا ہے!

خلیجی ریاستوں میں صرف کویت اور بحرین ہی دو ریاستیں ایسی ہیں جہاں پارلیمنٹ قائم ہے اور باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں بھی کویتی پارلیمنٹ زیادہ مستحکم‘ جان دار‘   قدیم اور خودمختار ہے۔ اگرچہ یہاں بھی فیصلہ کن اختیارات امیر اور آلِ صباح خاندان کے پاس ہیں۔ معمول کے مطابق کویت کے عام انتخابات ۲۰۰۷ء کے اوائل میں متوقع تھے لیکن پارلیمنٹ اور کابینہ میں دستوری اصلاحات کے حوالے سے اختلافات اتنے گمبھیر ہوگئے کہ امیر نے اسمبلی توڑ دی اور فوری انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔

ان اختلافات کے دوران ہی اسلامی ذہن رکھنے والے اور اصلاح پسند ارکان کا ۲۹ رکنی گروپ سامنے آیا اور ۵۰ رکنی ایوان میں اپوزیشن کی تعداد حکومتی ارکان سے بڑھ گئی۔ انتخابات میں بھی اس پورے گروپ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی تعداد ۲۹ سے بڑھ کر ۳۵ ہوگئی جن میں  سے ۱۸اسلامی ذہن رکھنے والے ہیں۔ ان ۱۸ میں سے نو ‘گویا نصف الحرکۃ الاستوریۃ‘ یعنی  اخوان المسلمون سے ہیں‘ دو کا تعلق ایک سلفی تحریک سے‘ دیگر دو کا تعلق ایک دوسرے سلفی گروپ سے‘  چھے شیعہ تحریک سے وابستہ ہیں‘ جب کہ چھے آزاد ہیں (دستوری تحریک کے نام سے چھے ارکان منتخب ہوئے‘ جب کہ ان کے تین ارکان آزاد حیثیت سے جیتے)۔ کل انتخابی حلقے ۲۵ تھے‘ جب کہ ہر حلقے سے دو امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ کل امیدوار ۲۲۵ تھے اور خواتین امیدواران کی تعداد ۲۷تھی۔

انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے خود ارکان اسمبلی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جیت کے پیچھے نصرتِ خداوندی کے بعد سب سے زیادہ عمل دخل باہمی مفاہمت اور تعاون کا ہے۔ سب اسلامی عناصر نے ایک دوسرے کے ووٹ تقسیم کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سب نے اس کے ثمرات سمیٹے۔

کویتی انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج پیسے کا استعمال تھا۔ لوگ کھلم کھلا ووٹوں کی     خرید و فروخت کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں ووٹ کی قیمت بینروں پر آویزاں کردی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس چھوٹی سی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کم از کم ایک ارب ڈالر لگ جاتے تھے‘ یعنی ۶۰ ارب روپے سے بھی زیادہ‘ جب کہ کویت میں ووٹروں کی کل تعداد  ۳ لاکھ ۴۰ ہزار ہے۔ اس بار کویت کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بھی ووٹ کا حق حاصل تھا اور ان کی تعداد ایک لاکھ ۹۵ہزار‘ یعنی نصف سے بھی زائد تھی (کل آبادی کا ۵۷ فی صد)۔    کئی خواتین نے امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخاب میں حصہ لیا لیکن ان میں سے کوئی بھی رکن منتخب نہ ہوسکی۔

انتخابات کے بعد حکومت کو ایک بار پھر انھی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ تحلیل کی گئی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی اصلاحات‘ پارلیمانی اکثریت رکھنے والوں کو تشکیل حکومت کا حق دینے کے علاوہ مختلف حکومتی اداروں میں مالی اور معاشرے میں اخلاقی کرپشن کا علاج جیسے مسائل آیندہ پارلیمنٹ کا اصل امتحان ہوں گے۔

ترکی‘ مراکش‘ الجزائر‘مصر اور فلسطین کے بعد اب کویت میں اسلامی نظام کے علم برداروں کی جیت اُمت کے اصل انتخاب و پسند کا واضح اعلان ہے۔ کویت جہاں عراق کے قبضے کے خاتمے کے بعد امریکی تسلط کا راز اب راز نہیں رہا‘ جہاں دینی مدارس میں پروان چڑھنے والی نسلوں کی کوئی  فصل نہیں پائی جاتی‘ جہاں معاشی مسئلہ کوئی بحرانی حیثیت نہیں رکھتا‘ جہاں تعلیم کے تناسب میں مسلسل اور تیز تر اضافہ ہوا ہے__ اسی کویت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ مستقبل یقینا اسلام اور حقیقی اسلام کا ہے!

اس سال ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر دنیا بھر میں پھیلے لیبیا کے سفارت خانوں نے سیکڑوں افراد‘ اداروں اور تنظیموں کو لیبیا کے شہر طرابلس (ٹریپولی) میں سیرت رسول اعظمؐ کانفرنس میں مدعو کیا۔ ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کے تناظر میں اس کانفرنس کی ایک خاص اہمیت تھی۔ سو لاطینی امریکا سے لے کر ملایشیا‘ انڈونیشیا تک اور یورپی ممالک سے لے کر بنگلہ دیش و مالدیپ تک ہرجگہ سے سیکڑوں وفود لپکے چلے آئے تھے۔ دنیابھر کی طرح پاکستان سے بھی ۳۶ذمہ دار افراد اس سیرت کانفرنس میں شریک تھے‘ جن میں پاکستان سے تقریباً سب دینی جماعتوں اور دینی مدارس کے مرکزی ذمہ داران و نمایندگان شامل تھے۔ ارکان پارلیمنٹ میں سے بھی   مولانا عبدالمالک‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ حافظ حسین احمد اور مولانا سمیع الحق موجودتھے۔   پروفیسر ساجدمیر کی نمایندگی عبدالغفور راشد کرر ہے تھے‘ جب کہ جمعیت علماے پاکستان کی نمایندگی صاحبزادہ ناصرجمیل ہاشمی نے کی۔

طرابلس میں کانفرنس کے دو ابتدائی سیشن ہی ہوئے تھے کہ اعلان کیا گیا کہ صدر قذافی صاحب (جنھیں وہاں ہر چھوٹا بڑا الاخ القائد/قائد بھائی کے لقب سے پکارتا ہے) سمیت بہت سے ذمہ داران افریقی ممالک کے دورے پر ہیں وہ ۱۲ ربیع الاول کو افریقی ملک مالی کے قدیم  ثقافتی مرکز‘ ٹمبکٹو پہنچیں گے۔ اس لیے کانفرنس کے سب شرکا بھی وہیں چلیں گے اور پھر چارٹرڈ پروازوں کا سلسلہ اس صحرا گزیدہ شہر کی طرف چل نکلا۔ بحرمتوسط کے کنارے واقع شہر طرابلس سے ٹمبکٹو جنوب مغرب کی طرف واقع ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے جہاز کو ساڑھے تین گھنٹے درکار تھے۔ گویا یہ مسافت اتنی تھی جتنی اسلام آباد سے دبئی کی ہے۔ عصر کے کچھ بعد طرابلس سے روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو سفیدی مائل سرخ ریت کا سمندر‘ بارھویں کے چاند کی کرنیں آغوش میں سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان اور ٹمبکٹو کی توقیت (مقامی وقت) میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ ہم عشاء کے وقت وہاں پہنچے تب پاکستان میں رات بھیگ رہی تھی۔ ہم ایرپورٹ کی مختصر سی عمارت سے بغیر کسی کارروائی کے باہر آگئے‘ گاڑیاں آرہی تھیں اور مسافروں کو سمیٹتے ہوئے‘ ایرپورٹ سے شہر کا قلب چیرتی شہر کی اکلوتی پختہ سڑک پر روانہ ہو رہی تھیں۔ چند کلومیٹر چلنے کے بعد ایک کیمپ میں پڑائو ڈالا گیا‘ تمبو قناتیں لگے‘ اس کیمپ میں ناہموار لیکن نرم ریت پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھی تھیں۔ کیمپ کے باہر قذافی صاحب کی قدآدم تصاویر سجی تھیں۔ بڑے بڑے بورڈوں پر براعظم افریقہ کا نقشہ بنا تھا جو مکمل طور پر سیاہ تھا‘ اُوپر بحرمتوسط کے کنارے واقع لیبیا میں سیاہی مائل سبز رنگ تھا جہاں سے ایک سورج طلوع ہوتا دکھائی دیتا تھا‘ گویا اس سورج نے پورے افریقہ کی سیاہی کو روشنی میں بدلنا ہے۔

کیمپ میں نمازوں کی ادایگی اور اجتماعی کھانے کے بعد کہ جس میں عرب روایت کے مطابق ایک ایک بڑے پیالے میں چار چار‘ پانچ پانچ افراد کھاناکھا رہے تھے‘ مختلف ممالک کے قافلوں کو ان کی رہایش گاہوں پر لے جایا جانے لگا۔ سب حیرت زدہ تھے کہ عازمِ سفر ہوتے ہوئے جس جگہ کا خواب بھی نہ دیکھا تھا‘ دنیا بھر سے آئے قافلے وہاں جمع ہو رہے تھے۔ یہاں اپریل میں بھی درجہ حرارت ۴۷ تک پہنچ جاتا ہے۔ رات کے وقت ۲۷ تھا‘ ہوائوں کے جھونکے انتہائی خوش گوار لگتے‘ لیکن گاہے تیز جھونکا ہوتا تو ریت کو بھی ساتھ شامل سفر کرلیتا۔ حافظ حسین احمد پکارے : ٹمبکٹو تو    ’تم بھگتو‘ میں بدل چکا ہے۔

رہایش گاہ لے جایا گیا تو وہ ایک شکستہ حویلی تھی۔ فوم کے گدے قالینوں پر ڈالے گئے تھے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ یہ اصل میں سعودی عرب کے ایک رفاہی ادارے مؤسسۃ الحرمین کا دفتر تھا جو ٹمبکٹو اور گردونواح میںمفلوک الحال لوگوں کی بہبود کے لیے کام کر رہا تھا۔ ناین الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں‘ متعدد رفاہی تنظیموں پر دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں پابندی لگائی گئی تو اسے بھی تحلیل کر دیا گیا۔دنیا بھر میںاس کے دفاتر اُجاڑ دیے گئے اوران کے جاری رفاہی منصوبے روک دیے گئے۔ یہ دفتر بھی اسی آندھی کی نذر ہوا تھا اور اب اس حویلی کے ایک شکستہ کمرے میں ۱۶/۱۷ سالہ نوجوان چوکیدار ’مولود‘ کے علاوہ کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ البتہ وسیع و عریض دالان میں نیم اور جنگلی کیکر کے خود رو درخت تروتازہ تھے۔ لق و دق صحرا میں قدرت کا شاہکار اور اُجڑے دیار میں اُمید کی کرن۔

اس حویلی میں سب بزرگانِ دین اور خادمینِ قوم برابر تھے۔ نوجوان علما نے بزرگوں کی تکریم و احترام یہاں بھی ملحوظ خاطر رکھی لیکن بالآخر سب ہی یکساں کیفیات سے دوچار تھے۔ نصف شب کے قریب یہاں پہنچے تھے‘ پہنچتے ہی نیند میں ڈوب گئے۔ حالانکہ کئی کمروں میں پنکھا بھی نہیں تھا۔ صبح دم افریقی بدوانہ آواز میں اذانِ فجر‘ روحانیت سے معمور لمحوں کو منفرد سحر بخشنے لگی۔ حویلی سے نکل کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ آواز کس طرف سے آرہی ہے ‘شاید مسجد قریب ہو۔ اچانک نظر پڑی کہ حویلی سے عین متصل مسجد کی عمارت ہے اور اس کی چھت پر ایک ادھیڑ عمرافریقی بدو‘ اپنے مخصوص لباس میں ملبوس‘ اپنے پورے جسم کو دائیں بائیں زور زور سے جھلاتے ہوئے‘ کڑاکے دار آواز میں اللہ اکبر کی صدائیں ہفت آسمان تک پہنچا رہا ہے۔

مسجد کی عمارت پختہ تھی‘ ہال کمرے میںاینٹوں کا فرش تھا‘ جس کی درزوں سے ریت   نکل نکل کر چٹائیوں تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ باہر صحن کچا تھا‘ یعنی اُونچی کرسی کے صحن میں صرف ریت بھری ہوئی تھی‘ اُوپر چٹائیاں بچھی تھیں۔ نماز فجر میں آس پڑوس سے ۲۰‘ ۲۵ نمازی آگئے تھے۔ سب لوگ گھروں سے وضو کر کے آرہے تھے۔ مسجد میں وضوخانے کا انتظام نہیں تھا۔ مجھے وضو کرنا تھا‘ ایک نمازی بھاگ کر اپنے گھر سے پلاسٹک کے جگ میں پانی لے آیا اور مسجد کے دروازے کی سیڑھیوں میںرکھتے ہوئے اشارہ کیا: ’’یہاں بیٹھ کر وضو کرلو‘‘۔

ٹمبکٹو کے باسیوں کا لباس بھی پورے صحراے اعظم میں پھیلے مختلف قبائل کے لباس سے  ہم آہنگ ہے۔ گہرے رنگ کے سوتی کپڑے کا لمبا چولا‘ اس کے اوپر ایک کوٹ نما کھلی چادر‘ اور سرپر بڑا پگڑ‘ جس سے صرف سر ہی نہیں گردن اور منہ کو بھی ڈھانپا جاتا ہے۔ کئی لوگوں نے اکٹھے  دو دو تین تین پگڑ باندھے ہوئے تھے۔ کچھ قبائل اپنے لیے مخصوص رنگوں کے پگڑوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ مثلاً پورا قبیلہ سیاہ‘ سفید اور نیلا پگڑ اُوپر تلے باندھے ہوئے ہوگا۔ اس پگڑ کے اور بھی بہت فوائد ہوں گے لیکن چلچلاتی دھوپ اور کھلی فضا میں ہر دم تیرتی ریت‘ جو نتھنوں اور حلق میں جا بسیرا کرتی ہے‘ سے بچنے کی صرف یہی سبیل ہے۔ کچھ قبائل میں مرد حضرات اپنے خیموں اور اپنے گھروں میں بھی دوسروں کے سامنے چہرہ کھولنا معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لمبے قد اور اُونچے اُونچے پگڑوالوں کے سامنے ایک درازقد انسان بھی پست قد محسوس ہوتا ہے۔

شام کے وقت ایک کھلے میدان میں جلسۂ عام تھا۔ قذافی صاحب کے علاوہ پانچ پڑوسی ملکوں کے سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے۔ خود مالی کے سربراہ اور کچھ عرصہ قبل فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آنے والے موریتانیا کے صدر بھی ان میں شامل تھے۔ قذافی صاحب نے پہلے ان سب سربراہوں‘ مختلف ملکوں سے آئے مہمانوں اور صحراے اعظم کے مختلف قبائل کے سرداروں سمیت تقریباً ۵۰ ہزار کے مجمعے کو مغرب کی نماز باجماعت پڑھائی‘ پھر تفصیلی خطاب کیا اور عشاء کی جماعت کروا کے پروگرام کا اختتام کیا۔ ایک شہر میں اچانک دنیا بھر سے چنیدہ مہمانوں کو لابسانے سے شہر اور کانفرنس کی انتظامیہ کو جو مشکلات درپیش تھیں‘ ان کا ایک مظہر یہ تھا کہ پاکستان سے جانے والا پورا وفد صدرقذافی کے اس اجتماع عام میں شریک نہ ہوسکا اور اپنے ساتھ موجود لیبین نمایندے کے ہمراہ اپنی حویلی ہی میں شرکت کے لیے تیار بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ اجتماع عام کے بعد رات کے کھانے کا وقفہ تھا اور رات تقریباً ۱۲ بجے ایک وسیع و عریض پنڈال میں ایک اور کنونشن کا آغاز ہوگیا۔ صحراے اعظم کے مختلف سردارانِ قبائل نے خطابات کیے جن میں سے ہر ایک نے اپنے لیے اپنی پسند کے القاب رکھے ہوئے تھے‘ کچھ کا نام سلطان السلاطین‘ یعنی شہنشاہ تھا اور کچھ کا شیخ المشائخ‘ یعنی پیرانِ پیر۔

خیرسگالی کے کلمات اور مختلف جذباتی‘ لیکن عربی ادب کے حسین مرصع قصائد کے بعد قذافی صاحب کا خطاب شروع ہوا۔ انھوں نے کسی بھی طرح کے تمہیدی کلمات کے بغیر براہِ راست گفتگو شروع کردی۔ صحراے اعظم کی عظمت و تاریخ کا ذکر کیا۔ ٹمبکٹو کے تہذیبی کردار کو واضح کیا۔ دریاے نائیجر(نائیجریا نہیں) سے ٹمبکٹو تک آنے والی نہر کا ذکر کیا جو اب ریت سے پاٹ دی گئی ہے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ آپ کے لیبین بھائیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ نہر دوبارہ کھودیں گے اور ٹمبکٹو دوبارہ ایک شان دار و خوب صورت نخلستان میں بدل جائے گا۔

واضح رہے کہ ٹمبکٹو دریاے نائیجر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر پر واقع ہے۔ دریاے نائیجر  صحراے اعظم کے انتہائی مغربی کنارے سے جنوب مشرق کی طرف بہتا ہوا متعدد افریقی ملکوں سے گزرتا اور صحرا کو گلزار میں بدلتا ہے۔ دریاے نائیجر سے ایک نہر ٹمبکٹو تک بہتی تھی جو یہاں کے شہریوں کو ہریالی‘ شادابی و خوش حالی بخشتی تھی۔ یہ نہر بند کر دی گئی اور وقت کا پہیہ چلنے کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو ریت میں ڈوبتا چلا گیا۔ شادابی کو صحرا میں بدلنے کا یہ کارخیر فرانسیسی استعمار کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا تھا۔ اگرچہ استعمار کا مطلب ’تعمیر کی خاطر‘ بیان کیا جاتا ہے لیکن اس علمی و تہذیبی جھرنے کے سوتے خشک کرنے کا سہرا فرانس ہی نے اپنے سر پرسجایا۔

فرانس کو اس شہر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ فرانس کے بعض جنگ جو اور مہم جو ٹمبکٹو کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوششوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے‘ لیکن کوئی وہاں تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ پورا شہر مسلم آبادی پر مشتمل تھا۔ بالآخر ۱۸۲۸ء میں ایک فرانسیسی مہم جو ’رینیہ کاییہ‘ جان جوکھوں میں ڈال کر ٹمبکٹو پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں اس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے معززین شہر میں سے ایک کے گھر پناہ لی اور تقریباً دو ہفتے وہاں رہ کر وہاں پہنچنے کا آسان تر راستہ تلاش کیا اور فوج کشی کے لیے دیگر ضروری معلومات جمع کیں۔

فرانسیسی اس جاسوس کو اپنا قومی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسواں میتراں جب ٹمبکٹو کے دورے پر آئے تو انھوں نے احترام و عقیدت سے اس گھر کا دورہ کیا جہاں ’رینیہ کاییہ‘ مہمان کے روپ میں ٹھیرا تھا اور اس شہر تک پہنچنے کے لیے فرانسیسی افواج کی رہنمائی کی جسے  صحراے اعظم کا نگینہ کہا جاتا تھا۔

صدر معمرالقذافی اسی ٹمبکٹو میں صحراے اعظم کے قبائل کو ایک ہوجانے کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ہم سب اس ایک گھر کے باسی ہیں‘ ہمارا باہمی تعلق اہلِ خانہ کے باہمی تعلق کی طرح مضبوط ہونا چاہیے اور یہ جو مختلف ممالک کی سرحدوں کے ذریعے ایک ایک قبیلے کو ۱۰‘۱۰ٹکڑیوں میں بدل دیا گیا ہے ہمیں اس استعماری تقسیم کو ختم کردینا چاہیے‘‘۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم نے اور ہمارے کئی پڑوسی ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ صحراے اعظم کے ایک قبیلے کے فرد کو اپنے قبیلے کے دوسرے افراد سے ملنے کے لیے‘ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ استعماری ممالک اب بھی ہمارے صحرا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم انھیں خبردار کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہمارے صحرا کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو صحراے اعظم کا ہرذرہ ان کے لیے انگارہ بن جائے گا‘ ہر فرد ایک خونخوار شیر بن جائے گا اور صحرائوں کی تپتی ہوائیں ان کے لیے آگ کی لپٹیں ثابت ہوں گی‘‘۔

فجر سے پہلے تقریباً تین بجے یہ خطاب اور تقریب اختتام کو پہنچی اور پھر سب مہمان پنڈلیوں تک ریت میں ڈوبتے ہوئے‘ شہر کی اکلوتی سڑک اور وہاں سے اپنی اپنی رہایش گاہوں کی جانب چل دیے۔ ہمیں نماز فجر کے بعد دوبارہ گاڑیوں میں بٹھاکر ایرپورٹ لے جایا گیا‘ جہاں سے طرابلس جانے کے لیے چارٹرڈ جہاز آنے کی نوید سنائی گئی تھی‘ لیکن یہ ایک بہت جاں گسل انتظار پر مشتمل‘ طویل دن تھا۔ تمام غیرملکی مہمان جن میں کئی حکومتی ذمہ داران اور ترکی کے ایک نائب وزیر بھی تھے‘ دن بھر جہاز کے انتظار میں ایرپورٹ پر بیٹھے رہے۔ سربراہانِ مملکت کے جہاز آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن مہمانوں کے لیے دو جہاز تاخیرکا وقت آگے بڑھاتے بڑھاتے رات ڈیڑھ بجے رن وے پر اترے۔ اس دوران طعام و آرام‘ نشست و برخواست کے حوالے سے کئی شکایات کا تبادلہ بھی ہوا اور اس سارے اجتماع‘ اوقات اور وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے امکانات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔ صبح اڑھائی بجے کے قریب ہمارے جہاز نے ٹمبکٹو کی سرزمین کو خیرباد کہتے ہوئے زقند بھری اور صبح ۹بجے کے لگ بھگ واپس طرابلس پہنچے۔

ٹمبکٹو قیام کے دوران وہاں کے قبائل اور ان کی روایات کے بارے میں کئی بہت دل چسپ معلومات بھی حاصل ہوئیں‘ مثلاً ایک ۱۵سالہ بچے سے تعارف ہوا تو وہ بہت فصیح عربی میں گفتگو کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے قبیلے کا نام آل عثمان ہے اور ہماری تاریخ کے بارے میں روایت ہے کہ جب مدینہ منورہ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ایک فتنہ عظیم اُٹھ کھڑا ہوا تو ہمارے آباواجداد وہاں سے ہجرت کر کے شمالی افریقہ میں آبسے اور پھر پھیلتے پھیلتے صحراے اعظم کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ ہمارا قبیلہ بہت صلح جو ہے‘ لیکن صحرائی روایات کے مطابق قبیلے کا ہر فرد‘ اپنی تلوار بھی اپنی زینت و لباس کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایک سرخی مائل گہری اور چمکتی سیاہ جلد اور     غیرمعمولی لمبے قد والے صاحب سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے کہ صحرا اپنے باسیوں کو کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ مجھے اگر کبھی اپنی اُونٹنی کے ہمراہ تنہا بھی یہ پورا صحرا عبور کرنا پڑے تو میں کسی آزمایش کا شکار ہوئے بغیر عبور کرسکتا ہوں۔ پڑوس میں واقع مسجد کے امام محمد ابراہیم سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے: ٹمبکٹو کے اکثر لوگ دریاے نائیجرکے کنارے واقع اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی سے گزارا کرتے ہیں‘ ویسے یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا یہاں نمک سونے سے بھی زیادہ مہنگا تھا لیکن اب یہاں کی معدنی ثروت سے استفادے کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ وہ کہنے لگے ہم پاکستان سے آنے والی تبلیغی جماعتوں (جن کی آمد ناین الیون کے بعد تقریباً معدوم ہوچکی ہے) کے ذریعے آگاہ ہیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی میرے لیے بہت آشنا و محترم ہے اور میں ان کی کتب پڑھنا چاہتا ہوں۔

ہم ۱۲ اپریل کی صبح واپس طرابلس پہنچے تھے‘ جب کہ ۱۳تاریخ کو وہاں سے تہران کی القدس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ اس لیے پاکستان آنے کے بجاے سیدھا تہران چلے گئے۔ لیبیا میں تقریباً ڈیڑھ دن قیام کے دوران سیرت کانفرنس کے دو سیشنوں میں شرکت کے علاوہ خود لیبیا کی مختلف پالیسیوں کے بارے میں بھی استفسارات زیربحث آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے شروع کی جانے والی بحث میں لیبیا کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے کہ اس نے پاکستان کے بارے میں وعدہ معاف گواہ کا کردار ادا کیا ہے۔ لیبین اعلیٰ ذمہ داران اس الزام کی مکمل نفی کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عالمی استعمار اس طرح ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو ڈاکٹر عبدالقدیر اور پاکستان کے خلاف فردِ جرم کی تکمیل‘ دوسرا خود لیبیا پر الزامات کی تصدیق کہ تم بھی بالفعل ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہو‘ اور تیسرا پاکستان و لیبیا کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنا۔

لیبیا پر ان الزامات اوراس کی طرف سے کی جانے والی نفی کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ابھی بہت سے اہم رازوں سے پردہ اُٹھنا باقی ہے۔ ان میں سے ایک راز یا معمہ یہ بھی ہے کہ صدر قذافی کا لہجہ اور عالمی استعمار کے خلاف ان کی گفتگو تو اب بھی سابقہ شان رکھتی تھی۔ لیکن عین انھی دنوں کونڈولیزا رائس نے اعلان کیا کہ لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل بحال کیے جارہے ہیں۔ وہ لیبیا کے ساتھ دشمنی کے بجاے دوستی کے نئے عہد کی نوید بھی دے رہی تھیں اور دعویٰ کر رہی تھیں کہ لیبیا نے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی مدد بند کر دی ہے۔

یہودی روزنامہ یدیعوت احرونوت نے ۱۶مئی کے شمارے میں لیبیا کی اس مذکورہ تبدیلی کو بنیادی طور پر برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی-۶ کا کارنامہ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم پانے والے صدر قذافی کے صاحبزادے نے اس ضمن میں بنیادی کردارادا کیا ہے‘ لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف خود   ملک و قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور کہیں کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر ان کی اجازت کے بغیر خفیہ پروازوں سے ایران جاتے تھے‘‘ تو کیا یہ سوال بے معنی نہیں ہوجاتا کہ لیبیا اور ایران کے ایٹمی پروگراموں کے حوالے سے پاکستان کو کس نے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے!

تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس کے اختتام پر جب ایرانی اسپیکر حداد عادل نے دعا کی کہ ’’پروردگار ہم سب کو وہ دن جلد دکھا کہ جب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ معراج    اور قبلہ اوّل میں تیرے حضور سجدہ ریز ہوں‘‘تو میرے ساتھ بیٹھے سراج الحق صاحب آمین کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اس کانفرنس کے تقریباً ایک ماہ بعد ۱۰مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں علامہ یوسف القرضاوی کی دعوت پر علماے کرام کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے آغاز میں چند منٹ کی ایک وڈیو دکھائی گئی۔ تین ماہ کی فلسطینی بچی ایمان پھولوں کے درمیان نمایاں ترین پھول کی صورت سوئی ہوئی تھی لیکن جیسے ہی کیمرہ چہرے سے چھاتی پر آیا تو دکھائی دیا کہ ایک  صہیونی گولی اسے چھید چکی ہے اور ایمان اپنی مسکان ہونٹوں پر سجائے ابدی نیند سوگئی ہے۔ ہونٹوں کے کنارے دودھ کے چند قطرے ابھی تازہ تھے‘ جب کہ نیچے بچھا بسترسرخ خون سے تر ہوچکاتھا۔   یہ منظر دیکھتے ہی پوری کانفرنس سسکیوں میں ڈوب گئی۔

فلسطینی عوام کی نصرت کی خاطر بلائے جانے والے اس اجلاس کا فیصلہ‘ تیاری اور انعقاد صرف دو ہفتے کے اندر ہوا تھا۔ اس میں اُمت مسلمہ کے اہم نمایندگان کے علاوہ فلسطینی قیادت کی بھرپور نمایندگی تھی۔ محترم قاضی حسین احمد پاکستان ہی نہیں تمام غیرعرب مسلم ممالک کی نمایندگی کررہے تھے۔ افتتاحی تقریب میں میزبان علامہ قرضاوی کی گفتگو کے بعد حماس کے سربراہ خالدمشعل کاخطاب تھا۔ پھر قاضی صاحب کا اور ان کے بعد مختلف فلسطینی قائدین‘ مسلم رہنمائوں اور فلسطینی نومنتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا اہم ٹیلی فونک خطاب تھا۔

علامہ قرضاوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس ہنگامی اجلاس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر آنے والا دن ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے نئی آزمایش کا موجب بن رہا ہے۔ صہیونی اسلحے کی ہلاکت آفرینی کے بعد اب ایک طرف تو ان پر بھوک کاعذاب مسلط کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھیں خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں میں الفتح اور حماس کے مسلح دستوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دشمن کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ اس کانفرنس میں الفتح کے ذمہ داران بھی شریک ہوسکیں۔ خالدمشعل نے بھی ان سے رابطہ کیا اور میں نے خود بھی ان میں سے کئی کے ساتھ فون پر بات کی‘ لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے ہماری دعوت قبول نہیں کی۔

علامہ قرضاوی نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بدقسمتی سے صدر محمود عباس (ابومازن) اور ان کا ایوانِ صدر فلسطینی حکومت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ان کی اس بات کی تائید دوسرے روز کے سیشن میں فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب ارکان نے اپنی تقاریر میں کی۔ انھوں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ۱۳فروری ۲۰۰۶ء کو سابق پارلیمنٹ کا الوداعی اجلاس تھا۔ اس میں کوشش کی گئی کہ منتخب وزیراعظم کے وہ اختیارات واپس صدر کو دے دیے جائیںجو اصرار کرکے صدر یاسرعرفات سے چھینے گئے تھے (کیونکہ اس وقت محمود عباس وزیراعظم تھے)۔ نومنتخب پارلیمنٹ نے ۱۸ فروری کو حلف اُٹھایا‘ ان درمیانی پانچ دنوں میں صدرمحمود عباس نے پانچ نئے قوانین ہنگامی طور پر جاری کیے‘ تاکہ وہ پارلیمنٹ میں نہ پیش کرنا پڑیں‘ حالانکہ ایسا صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی ممکن ہے جب کہ ان قوانین کا مقصد صرف منتخب حکومت کو بے دست و پا کرنا ہی تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی بھاری اکثریت کی بنیاد پر ان قوانین کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اس مثال سے دنیا ایوانِ صدر کی ’فطرت‘ سے آگاہ ہوسکتی ہے۔ حماس کے ان ذمہ داران نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد اور تقسیم بھی واضح کی کہ ۱۳۲ کے ایوان میں ۷۴ نشستیں حماس کی ہیں‘ چار ارکان آزاد جیتے لیکن انھیں حماس کی تائید حاصل تھی۔ اس طرح ہمارے ارکان ۷۸ ہیں۔ الفتح کے ارکان ۴۵ہیں۔ نو ارکان چار مختلف دھڑوں کے ہیں جو یوں ہیں: پاپولر فرنٹ ۳‘ جمہوری اتحاد ۲‘ آزاد فلسطین گروپ ۲ اور تیسری راہ ۲۔ حماس کے ارکان نے بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ   الفتح کے ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر چلیں۔ ہم نے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کی تشکیل میں الفتح کو   اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی دی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے چچازاد بھائی اور منتخب رکن اسمبلی ڈاکٹر مازن ھنیہ نے شرکاے اجلاس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو آپ کی طرف سے مالی امداد سے زیادہ اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ فلسطینی عوام اگرچہ بھوکے مررہے ہیں لیکن پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حماس کے ترجمان سامی ابوزھری جو زندگی میں پہلی بار غزہ سے باہر نکل سکے بتا رہے تھے کہ خزانہ خالی ہونے کی بات تو روایتی سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں سابقہ حکومت نے انتہائی مقروض چھوڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کرپشن کی تفصیلات اتنی ہیں کہ اس کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ اقربا پروری   کا عالم یہ ہے کہ ۱۳۲ ارکان کے ایوان کے لیے سابق ارکان اسمبلی اور وزرا نے اپنے عزیزوں اور    واسطہ داروں میں سے ۶۰۰ ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں اور ان کے لیے بھاری تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ہم مختلف ضابطے بنا رہے ہیں جن سے تنخواہیں بھی کچھ کنٹرول ہوجائیں گی‘ خاص طور پر   بڑی تنخواہوں پر ضرور نظرثانی اور کمی ہوگی۔

حماس کے ان ذمہ داران نے ایک اور اہم پہلو یہ بتایا کہ اگرچہ فلسطینی عوام کو دورحاضر کے شعب ابی طالب میں حصار کا سامنا ہے لیکن وہ اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت کو ہر ماہ تنخواہیں دینے کے لیے تقریباً ۱۷ کروڑ ڈالر درکارہوتے ہیں جو مختلف ممالک کی اعانتوں سے پورے ہوتے تھے۔ اب یہ امداد روک دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کے چولہے بجھ رہے ہیں۔ وہ بجلی اور گیس کے بجاے‘ تیل کے دیے اور لکڑی جلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ صہیونی افواج نے مزدوروں کو مزدوری کے لیے نکلنے سے منع کردیا ہے۔ کسان اپنی سال بھر کی محنت کے بعد اپنی فصلیں منڈی لے جانے سے عاجز ہیں‘ کیونکہ کرایہ نہیں اور اگر منڈی پہنچ بھی جائیں تو قیمتیں اتنی کم کر دی گئی ہیں کہ فصلوں کے اخراجات تو کجا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ گویا کہ پوری کی پوری فلسطینی قوم بے روزگار کردی گئی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ مزدور کسان اور سرکاری ملازمین خاص طور پر اساتذہ فلسطینی حکومت کے خلاف یا تنخواہیں مانگنے کے لیے جلوس نکالنے کے بجاے حماس اور اس کی حکومت کے حق میں جلوس نکال رہے ہیں۔ بوڑھی خواتین اور بچے جلوس نکال رہے ہیں کہ ہمیں عزت کی موت برداشت ہے ذلیل ہوکر اور اپنے حقوق سے دست بردار ہوکر جیناقبول نہیں ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا ٹیلی فونک خطاب بہت ایمان افروز تھا۔ وہ اپنی پُرثبات آواز میں کہہ رہے تھے: ’’الحمدللہ! ہم اقتدار کے لالچ سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ہمارے سامنے درج ذیل پانچ واضح اور بنیادی اہداف ہیں: ۱- فلسطینی عوام کے حقوق اور مسئلہ فلسطین کے اصول و مبادی کی حفاظت۔ ہماری منتخب حکومت غاصب قوتوں کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ ہم کبھی اپنے عوام کے حقوق کا سودا نہیں کریں گے۔ ہم یہاں نہ تو کسی مخصوص تحریک کے نمایندہ ہیں نہ کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم قبلۂ اوّل سے صہیونی استعمار کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ یہی ہمارا سب سے بنیادی ہدف رہے گا۔

۲- فلسطینی قوم کی وحدت کی حفاظت‘ فلسطینی خون کی حفاظت‘ خونریزی ایسا سرخ نشان ہے جس سے آگے جانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ گذشتہ دنوں جب الفتح اور حماس کے کچھ عناصر کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو میں فوراً طرفین کے ذمہ داران کے پاس پہنچا اور دونوں کے درمیان معاہدہ طے کروایا کہ کسی فلسطینی ہتھیار کا ہدف کوئی فلسطینی سینہ نہیں بنے گا۔ فلسطینی حکومت باہم خونریزی کو روکنے کے لیے تمام وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کارروائی کرے گی۔

۳- یہ بات عملاً ثابت کرنا کہ مسئلہ فلسطین محدود فلسطینی مسئلہ نہیں‘ یہ پوری اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ یہ لاکھوں فلسطینیوں کا نہیں‘ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔

۴- فلسطینی قوم کا یہ حق تسلیم کروانا کہ اسے اپنی حفاظت کا مکمل حق حاصل ہے‘ اس کی سرزمین پر اور مقدس مقامات پر استعماری قبضے کے خاتمے کی جدوجہد‘ اسی حق دفاع کا حصہ ہے اور ہمیں جہاد آزادی کے اس حق سے کوئی قوت محروم نہیں کرسکتی۔

۵- ہم نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تبدیلی اور اصلاح کا جو پروگرام پیش کیا تھا اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے جس کی تائید کی تھی‘ اس پروگرام پر عمل درآمد‘ کرپشن اور فساد کا خاتمہ اور ایک خداخوف‘ باصلاحیت و اہل قیادت کا کامیاب تجربہ پیش کرنا جو صرف اپنے رب کی رضا کو اپنے ہر عمل کی اساس سمجھتی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ آج ہمیں اپنے عوام کو ماہانہ تنخواہیں دینے سے بھی محروم کیا جا رہا ہے‘ لیکن تمام فلسطینی ملازمین جانتے ہیں کہ اگر انھیں تنخواہ نہیں ملی تو ان کے وزیراعظم کو بھی نہیں ملی۔ میں نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی وزیراعظم تنخواہ حاصل کرنے والا آخری شخص ہوگا اور جب بھی تنخواہ ملے گی تو میری پہلے ماہ کی تنخواہ ھدیل غبش نامی اس ۱۲سالہ شہید فلسطینی بچی کے خاندان کو دی جائے گی جسے ۱۱ اپریل کو صہیونی افواج نے بم باری کرکے شہید کردیا تھا۔وزیراعظم ھنیہ نے کہا کہ کچھ لوگ ہمیں ڈراتے ہیں کہ ہماری بات نہ مانی تو چار ماہ کے اندر اندر تمھاری حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہم انھیں کہتے ہیں کہ ’’اقتدار تو دنیا میں اللہ کی ایک امانت اور آخرت میں بڑی جواب دہی ہے‘‘۔ اس کی فکر نہیں لیکن زمینی حقائق تمھیں بھی بتا رہے ہیں کہ ہماری حکومت چار ماہ نہیں اپنی قانونی مدت یعنی چار برس تک ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی۔

وزیراعظم ھنیہ کے خطاب کے بعد ایک فلسطینی تجزیہ نگار عبدالرحمن فرحانہ کا ایک تجزیہ دیکھنے کو ملا جس میں انھوں نے مختلف اسرائیلی ذمہ داران اور صہیونی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مستقبل کے تین امکانات واضح کیے تھے۔

پہلا تو یہ کہ فلسطین میں انتشار و اضطراب میں اضافہ کیا جائے‘ اور اس مقصد کے لیے حماس کی حکومت کو ناکام بنایا جائے۔ مقامی سطح پر الفتح‘ علاقائی سطح پر اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک اور عالمی سطح پر مختلف اسلامی ممالک اور بڑی عالمی قوتوں کو حماس کے خلاف مزید متحرک اور مشتعل کیا جائے۔ یہ نقشہ امریکا و اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے لیکن اس میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے حماس کمزور نہیں مزید مضبوط ہوگی اور فلسطینی عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ انتظار کیا جائے‘ سیاسی و اقتصادی دبائو میں مسلسل اضافہ کیا جائے۔ کم از کم چھے ماہ سے ایک سال کے بعد اس صورت حال کے نتائج کی روشنی میں مزید کوئی فیصلہ کیا جائے‘ جب کہ تیسرا راستہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے‘ فلسطینی حکومت کو مشکلات کے بھنور میں پھنساتے ہوئے اور اس سے بے پروا ہوکر اسرائیلی ریاست اپنے طور پر انفرادی اور مستقل نوعیت کے فیصلے کرے اور جو بھی نتائج ہوں ان کا سامنا کرنے کے لیے عالمی برادری (اصل میں امریکا) کا سہارا حاصل کرے۔ اس ضمن میں صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کا یہ بیان اہم ہے کہ  ہم عنقریب اور یک طرفہ طور پر اپنی ابدی سرحدوں کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا کرنے سے فلسطینی آبادیوں کو مزید غتربود کا نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے گرد کھڑی کی جانے والی فصیل کو مزید وسیع اور بلند کرکے فلسطینیوں کو مزید محصور و مقید کردیاجائے گا۔

ان تینوں امکانات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام اور حماس سے زیادہ مشکل کا سامنا خود اسرائیل کو ہے۔ وہ حماس حکومت کا خاتمہ کرے تو خود بھی مزید پھنستا ہے اور اگر خاتمہ نہ کرے تو بھوک و حصار کاسامنا کرنے کے باوجود حماس کی مقبولیت کو ابدی استحکام حاصل ہوگا۔یکم مئی کو مشرق وسطیٰ میں چار رکنی عالمی اتحاد کے نمایندے جیمزولونسون نے کونڈولیزا رائس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کے اخراجات سے فلسطینیوں کے لیے قائم کیے جانے والے اپنے نظام کو بالآخر خود ہی تباہ و برباد کردیں گے؟‘‘ اور پھر یہ کہتے ہوئے ولونسون نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔

حماس اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے اس صورت حال میں یہی فیصلہ کیا ہے کہ قربانیوں کے کاروان کو آگے بڑھائیں گے۔ علامہ یوسف قرضاوی کہہ رہے تھے کہ صہیونی حکومت شاید اس عرب مقولے پر عمل کرنا چاہتی ہے کہ جَوِّعْ کَلْبَکَ یَتْبَعُکَ(اپنے کتے کو بھوکا رکھو تمھارے پیچھے پیچھے آئے گا) لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ فلسطینی قوم شیروں کی قوم ہے‘ جسے اگر بھوکا رکھا جائے تو پھر وہ ہرسامنے آنے والے کو چیرپھاڑ ڈالتا ہے۔

دوحہ کانفرنس نے اپنے اعلامیے میں اُمت مسلمہ کے اس فیصلے اور فتوے کا اعادہ کیا کہ پوری سرزمین فلسطین وقف سرزمین اور اُمت کی ملکیت ہے‘ اس کے بالشت بھر علاقے سے   دست برداری بھی شرعاً حرام ہے۔ کانفرنس نے یہ عہد بھی کیا کہ اگرچہ فلسطینی قوم نے اپنا شعار یہ چنا ہے کہ الجوع ولا الرکوع ، ’’ بھوکا رہ لیں گے دشمن کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘۔ لیکن اُمت کا عہد ہے کہ لا الجوع ولا الرکوع ، ’’نہ بھوکا چھوڑیں گے اور نہ جھکنے دیں گے‘‘۔ علامہ قرضاوی بتارہے تھے کہ فلسطین کی مدد کے لیے کی جانے والی اپیل کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایثاروقربانی کی   نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔ مصر اور اُردن میں اخوان کی اپیل پر شروع کی جانے والی امدادی مہم کے دوران چند گھنٹوں میں کروڑوں جمع ہوگئے ہیں۔ مصر میں مالی مدد کے علاوہ ۲۰کلو سونا بھی جمع ہوا ہے۔ مجھے ایک صاحب نے ایک پیٹی بھجوائی‘ کھولی تو اس میں ۵۰لاکھ ریال (تقریباً سوا آٹھ کروڑ روپے) تھے۔ بھجوانے والے نے اپنا نام نہیں بتایا اور کہا کہ یہ فلسطین بھجوا دیں۔

محترم قاضی صاحب نے بھی اپنے خطاب میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ فلسطینی قوم کی سب سے بڑی قوت اس کا حق پر ہونا ہے اور حق پر ثابت قدم رہ کر ہی کوئی قوم فلاح پاسکتی ہے۔ فلسطینی قوم نے اپنے حقوق سے دست بردار نہ ہوکر ثابت کیا ہے کہ اسے غلام نہیں بنایا جاسکتا۔

قاضی صاحب کی اس بات کی تائید نومنتخب فلسطینی حکومت میں وزیر براے امور اسیران انجینیر وصفی کبہا کے انٹرویو سے بھی ہوتی ہے جو خود بھی چھے سال سے زائد عرصے تک صہیونی جیلوں میں گرفتار رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان صہیونی جیلوں میں ۹ہزار۵ سو فلسطینی قیدی ہیں جن میں سے ۳۵۵ بچے اور ۱۴۰ خواتین ہیں۔ ان میں سے ۱۳ فی صد قیدی ایسے ہیں جنھیں ۵۰سال سے زیادہ کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن کسی قیدی کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

انجینیر وصفی سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے تمھیں بہت متاثر کیاہو‘ کہنے لگے: میں وزارت کی ذمہ داری ملنے کے بعد دفتر گیا تو ہماری وزارت میں ملنے والی ایک فلسطینی لڑکی    وفا حسن علی نے ملاقات کی اور بتایا کہ میں ۲ اگست ۱۹۸۲ء میں پیدا ہوئی تھی‘ جب کہ میرے والد صاحب کو ۸ اگست ۱۹۸۲ء کو گرفتار کرلیا گیا تھا یعنی کہ میری پیدایش کے چھے روز بعد۔ آج ۲۴ سال ہونے کو آئے ہیں اور میرے والد صہیونی جیل میں ہیں۔ اسی طرح ایک اور خاتون اُم شادی براستی آئیں اور انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے محمد کو تین بار عمرقید کی سزا ہوچکی ہے۔ دوسرا بیٹا رمزی بھی    صہیونی جیل میں ہے اور اسے بھی عمرقید کی سزا سنائی جاچکی ہے‘ تیسرے بیٹے شادی کو چارسال کی سزا دی گئی ہے اور پانچویں بیٹے سعید کو بھی چارسال کی سزا سنائی گئی ہے‘ جب کہ چھوٹا بیٹا صابر شہادت کی دہلیز عبور کرکے رب کے حضور پہنچ گیا ہے لیکن یہ ماں خود ہمیں ثابت قدمی کی تلقین کر رہی تھی۔ جب تک ایسی مائیں زندہ ہیں اور تمام قربانیوں کے باوجود اپنے حقوق اور قبلۂ اوّل سے دست بردار ہونے یا اسرائیل نامی کسی ناجائز وجود کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انھیں کون شکست دے سکتا ہے۔ ایسے قدسی نفوس کی وارث تحریک حماس کو کون شکست دے سکتا ہے!

۱۲ ربیع الاول کو دنیا بھر سے بڑی تعداد میں آنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ   وہ مغربی افریقہ کے ملک مالی کے ایک تاریخی شہر ٹمبکٹو میں جمع ہوں گے۔ صحراے اعظم کا وہ شہر جو دُوری و استغراب کے لیے ضرب المثل بن چکا ہے ‘کبھی پورے افریقہ میں تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہوتا تھا۔ سولہویں صدی کے اختتام پر صرف اس ایک شہر میں ۱۸۰ تعلیمی ادارے تھے جن میں دُوردراز سے آنے والے ہزاروں طلبہ زیرتعلیم تھے۔ پھر یہ شہر قبائلی ‘ خاندانی اور علاقائی جنگوں کی نذر بھی رہا لیکن کبھی اجنبی استعمار کے قبضے میں نہیں آیا۔ یورپی ممالک میں اس کی تہذیب و ثقافت اور وہاں پائے جانے والے سونے کے انباروں‘ ہاتھی دانت اور شترمرغوں کی کثرت کا ذکر آتا تو اکثر حکمرانوں کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔

اس تاریخی شہر کا دل چسپ سفر لیبیا کی طرف سے ملنے والی ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کے باعث اچانک ممکن ہوگیا۔ لیکن آیئے اس کی تفصیلات سے پہلے تہران میں ہونے والی القدس کانفرنس میں چلیں۔

تھران کانفرنس

۱۴ اپریل کو تہران میں تیسری عالمی القدس کانفرنس شروع ہونا تھی۔ اس میں شرکت کے لیے صبح اڑھائی بجے تہران کے نئے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ یہ نیا ایئرپورٹ جسے IKIA کا مخفف دیا گیا ہے تہران شہر سے ۳۵کلومیٹر کے فاصلے پر ساڑھے تیرہ ہزار ہیکٹر کے رقبے پر تعمیر ہونے والا جدید ترین ایئرپورٹ ہے۔ صحراے ٹمبکٹو سے نکل کر آنے سے اس کی جدت و خوب صورتی مزید بھلی لگ رہی تھی۔ ایئرپورٹ پر کانفرنس کی انتظامیہ شرکاے کانفرنس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ میں نے ملتے ہی ان سے معذرت کی کہ ہمارے باعث اتنی رات گئے آپ لوگوں کو زحمت ہوئی۔ مکمل ایرانی پردے میں ملبوس ایک خاتون شایستگی سے بولیں: یہ رات گئے تو نہیں   صبحِ نو کا آغاز ہے۔ اس جذبہ پرور جملے سے سفر کی تھکن قدرے کم ہوتی محسوس ہوئی۔

کانفرنس کا اصل جمال وجلال کانفرنس کے شرکا کی فہرست سے سامنے آیا۔ فلسطین کی پوری قیادت وہاں موجود تھی۔ خالد المشعل (سربراہ حماس) ان کے نائب ڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق سے لے کر ارکانِ پارلیمنٹ کی بڑی تعداد‘ ڈپٹی اسپیکر اور سب سے نورانی وجود شہداے فلسطین کی مائوں کا تھا۔قارئین کو یاد ہوگا فروری کے ترجمان میںحماس کی نومنتخب رکن پارلیمنٹ اُم نضال کا ذکر کیا تھا۔ اچانک انھیں اپنے کامل وقار و متانت اور روحانیت کے ہالے میں جس نے بھی اپنے درمیان دیکھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پایا۔ میں اُم نضال سے اہلِ پاکستان کا سلام کہتے ہوئے عرض کر رہا تھا کہ آپ نے کائنات کی تمام مائوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے‘ پوری اُمت کے بچے آپ کے بچے ہیں۔ آپ نے اپنے تین جوان بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے شہادت کے سفر پر روانہ کر کے حضرت خنسائؓ کی یاد تازہ کردی… اسی دوران جرمنی سے آنے والے ایک شریک کانفرنس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن آبدیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ کی عظمت کے سامنے ہماری زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی ان کے گرد جمع ہونے لگے تو اُم نضال گویا ہوئیں: ’’میرے بیٹو! اگر اللہ تعالیٰ مجھے کائنات کے تمام دولت و ثروت اور نعمتیں بھی عطا کردے اور میں ساری نعمتیں اس کی راہ میں قربان کر دوں‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر عائد حق تو ادا نہیں ہوگا‘‘… آنکھیں مزید نمناک ہوگئیں۔ دلوں میں اداے فرض کا احساس مزید جوان ہوگیا۔ شرکاے کانفرنس میں ایک اور بوڑھی خاتون اُم محمد بھی فلسطین سے آئی تھیں جن کا شوہر اور جوان بیٹا بھی شہید ہوچکا ہے۔

یہ تیسری عالمی کانفرنس براے القدس و حقوق انسان درفلسطین‘ ربیع الاول کے مبارک ایام میں منعقد ہورہی تھی۔ شیعہ تاریخ کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ۱۷ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ عین انھی دنوں میں ایران نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس طرح یہ تین اہم عناصر یکجا ہو رہے تھے۔ ۱۴ اپریل کو پہلے کانفرنس کے سب شرکا نمازِجمعہ کے لیے تہران یونی ورسٹی کے وسیع و عریض میدان میں گئے۔ آیت اللہ جنتی کے خطبہ جمعہ سے پہلے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ خطاب کر رہے تھے: ’’امریکا ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایران‘ افغانستان یا عراق نہیں ہے اور پھر اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ افغانستان و عراق میں ہم اس کی قوت و کمزوری کے تمام پہلوئوں کا بغور مطالعہ کرچکے ہیں اور ان کی روشنی میں اپنی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔ اب ہمیں چھیڑنے کی حماقت وہی کرسکتا ہے جو ہلاکت و خودکشی پر تلا ہو۔

سہ پہر پانچ بجے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کانفرنس سے ایک روز قبل استنبول میں   او آئی سی کے زیراہتمام ایک پارلیمانی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ تہران کانفرنس کے منتظمین کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہاں سے اکثر پارلیمانی وفود تہران بھی آجائیں اور یہاں پوری دنیا سے آئے ذمہ داران و عوامی نمایندگان سے مل کر فلسطین کے حوالے سے مضبوط موقف دنیا کے سامنے آجائے۔ ۱۶ممالک سے پارلیمانی وفود اپنے اپنے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں موجود تھے اور ان کے پرچم بھی کانفرنس ہال میں نمایاں تھے‘ لیکن پاکستان کی سرکاری نمایندگی نہیں تھی   اس لیے قومی پرچم بھی نہیں لہراسکا۔ البتہ سیاسی نمایندگی موثر تھی اور مولانا فضل الرحمن‘ مولانا خان محمد شیرانی‘ علامہ ساجد نقوی‘ پروفیسر محمد ابراہیم‘ جناب سراج الحق اور بلوچستان سے مولانا عبدالرحمن نورزئی اور علامہ سرمدی موجود تھے۔ خود قاضی حسین احمد صاحب کی شرکت بھی یقینی تھی۔ منتظمین کا اصرار بھی تھا۔ سابق وزیرخارجہ اور آیت اللہ تسخیری سمیت کئی شرکاے کانفرنس ان کے بارے میں بار بار دریافت بھی کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان کے اندرونی حالات و مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ ملایشیا سے چیئرمین سینیٹ بھی موجود تھے اور ان کا تعارف کرواتے ہوئے ملایشیا کے دیگر ذمہ داران نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور چیئرمین سینیٹ پاکستان محمد میاں سومرو کی اہلیہ دونوں بہنیں ہیں یعنی دونوں بہنوں کے شوہر اپنے اپنے ملک میں چیئرمین سینیٹ ہیں۔

کانفرنس کے آغاز میں تلاوت و قومی ترانے کے بعد ایران کے روحانی رہبر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا مفصل خطاب تھا۔ انھوں نے کہا کہ عصرحاضر اسلامی بیداری کا دور ہے اور فلسطین اس بیداری کا دل ہے… دوسری طرف مطلق العنان وحشی پن ہے جو نسلوں کو ہلاک کر رہا ہے‘ چہار جانب تباہی پھیلا رہا ہے‘ اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور فرات سے نیل تک اپنی سرحدیں پھیلانے کا علَم بلند کر رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی و اقتصادی ہلاکت آفرینی کی تکمیل کے لیے عالمِ اسلامی کے بعض حکمرانوں کی کمزوری اور خیانت سے فائدہ اٹھا     رہا ہے… لیکن اب اسے اچانک فلسطینی شیر کی بیداری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اسے ایک     پُرعزم و انقلابی تحریک انتفاضہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج عالمِ اسلامی بیدار ہو رہا ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا شعار اُمت مسلمہ کے فہمیدہ عناصر کی اکثریت کا شعار بن گیا ہے… امریکی ذرائع ابلاغ جس لبرل جمہوریت کو علاج شافی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے اس کے کڑوے اور زہریلے اثرات نے پوری اُمت کے جسد کو بھسم کردیا ہے۔ آج جو کچھ عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ گوانٹامو‘ ابوغریب اور دنیابھر میں پھیلے خفیہ امریکی عقوبت خانوں اور اس سے پہلے غزہ اور مغربی کنارے میں ہورہا ہے اس نے آزادی اور حقوقِ انسانی کے بارے میں مغربی پروپیگنڈے اور امریکی انتظامیہ کے غرور و کمینگی کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے…

آج پورے عالمِ اسلامی کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ بنا لے۔ یہ وہ پُرسحر کلید ہے جو اُمت کے سامنے نجات کا دروازہ کھول دینے کی ضامن ہے… ہمیں استعماری تسلط اور مداخلت و تکبر سے نجات پانے کے لیے ایک اور قسم کا جہاد بھی کرنا ہوگا۔ یہ علمی‘ سیاسی اور اخلاقی جہاد ہے۔ ایرانی قوم نے گذشتہ ۲۷سال میں اس کا عملی تجربہ کیا ہے اور اس کے بہت شیریں ثمرات حاصل کیے ہیں… جہاد فلسطین میں کامیابی کی اصل شرط اپنے اصول و مبادی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ دشمن جھوٹے وعدے کرکے‘ دھوکا اور دھمکیاںدے کر ہمیں ان اصولوں سے دستبردار کرنا چاہتا ہے۔ خود ہمارے اندر سے بھی کچھ لوگ حکمت و تدبیر کا نام لے کر ہمیں اپنا اصولی موقف چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سورہ مائدہ کی آیت ۲۵ کے مصداق دشمن سے کوئی نفع نہیں پائیں گے۔… امریکا اور مغرب نے ثابت کردیا ہے کہ وہ شکست تسلیم کرلینے والوں اور دست بردار ہوجانے والوں پر رحم نہیں کرتے‘ اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں… دشمن کی قوت کو بڑھاچڑھا کر پیش کر کے ہمیں ڈرانے والے دشمن ہی کی چالوں کی تکمیل کرتے ہیں… ایران‘ عراق‘ شام اور لبنان کے خلاف امریکی سازشوں کی کڑیاں پورے مشرق وسطیٰ پر صہیونی سرپرستی میں اپنا قبضہ جمانے کے لیے ہیں لیکن اگر امریکا اپنی عقل اور وجدان سے کام لے تو وہ جان لے گا کہ خود اسے بھی تباہ کن گھاٹے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا… آخر میں فلسطینی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا : اے بہادر و جاں باز فلسطینی قوم کے لوگو! تم نے اپنے جہاد‘ صبر اور شان دار مزاحمت کے ذریعے پورے عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔ آپ کے شہدا ہمارے شہدا ہیں‘ آپ کا رنج و غم ہمارا رنج و غم ہے اور آپ کی نصرت و کامیابی ہماری نصرت و کامیابی ہے۔

خامنہ ای کے خطاب کے دوران اسٹیج پر صرف وہی بیٹھے تھے۔ صدرمملکت‘  چیف جسٹس اور اسپیکر یعنی ملک کی انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے سربراہ سامنے رکھی تین کرسیوں پر بیٹھے تھے اور پھر دیگر ملکی و غیرملکی ذمہ داران‘ کہیں بھی فوجی قیادت کا تسلط نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پہلے نمازِ جمعہ کے دوران ایک اور دل چسپ منظر دیکھنے کو ملا۔ نمازِجمعہ میںتقریباً پوری مرکزی فوجی قیادت موجود تھی۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کا خطاب بھی تھا لیکن جمعے کے پنڈال میںداخل ہونے سے پہلے فوجی جرنیلوں کو بھی دیگر تمام شرکا کی طرح اپنے بوٹ اُتارنے پڑتے ہیں۔ ان کے بوٹ انتہائی سلیقے اور ترتیب سے قطار در قطار شیلفوں میں لگے تھے اور اصل منظر یہ تھا کہ ہر فوجی جرنل کی تاروں اور بیج لگی ٹوپیاں (ہیٹ) ان بوٹوں کے اُوپر سجی تھیں یعنی فوجی جاہ حشمت کی نشان ٹوپیاں اور بوٹ رہ گئے تھے اور ان کے درمیان سے بندہ نکل کر اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہوکر رب کے حضور پیش ہوجاتے تھے۔

خامنہ ای کے خطاب کے بعد صدر محمود احمد نژادی کا خطاب تھا۔ انھوں نے بھی حسب معمول اپنے مخصوص انداز سے گفتگو کی۔صہیونی مظالم کے نتیجے میں تذلیلِ انسانیت کے ذکر کے بعد اپنے ایٹمی پروگرام کا ذکر کیا اور کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی اقوام و ممالک کی ترقی کے لیے لازمی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہر ملک اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اور ضروری توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ٹکنالوجی کا محتاج ہوگا۔ انھوں نے ایک بار پھر ہولوکاسٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تو شک ہوسکتا ہے اورہے‘ لیکن فلسطینیوں کے خلاف ہولوکاسٹ سے تو کسی کو انکار نہیں ہے۔ یہ قتلِ عام گذشتہ ۶۰ سال سے جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض یورپی حکومتیں خود اپنے مالی‘ صنعتی‘ زراعتی اور سیاسی مفادات کو صہیونی قوتوں کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی آزادی اور عزتِ نفس کو صہیونیوں کے قدموں میں روند رہی ہیں۔ میں اس سلسلے میں یورپی اقوام سے جلد مخاطب ہوں گا۔

صہیونی ریاست کے بارے میں انھوں نے عزم و یقین سے کہا کہ دنیا مانے یا انکار کرے صہیونی ریاست اپنے خاتمے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی مزاحمت ایمان و آزادی سے سرشار تازہ و تناور درختوں میں بدل رہی ہے‘ جب کہ صہیونی ریاست ایک خشک و بوسیدہ     تنہا درخت ہے جو مزاحمت کی آندھی سے جلد اپنی جڑوں سے اکھڑنے کو ہے۔

دونوں رہنمائوں کے بعد فلسطینی پارلیمنٹ کے اسپیکر عبدلعزیز دویک کا غزہ سے سیٹلائٹ پر براہِ راست خطاب ہوا کیوں کہ صہیونی انتظامیہ نے انھیں فلسطین سے نکلنے سے منع کردیا تھا۔ ان کے خطاب میں حماس کا جو موقف تھا وہ تو تھا ہی‘ لیکن ان کے کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے سے فلسطینی اتھارٹی کی اصل حقیقت آشکار ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی مل رہا تھا کہ اگر عزم مصمم ہو تو کوئی طاقت راستے مسدود نہیں کرسکتی۔ اسپیکر بنفسِ نفیس نہیں آسکے تو اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی   براہِ راست خطاب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداللہ شلح کا خطاب تھا‘ خالد المشعل سمیت کئی فلسطینی دھڑوں کے سربراہوں کا خطاب تھا اور ونزویلا و کیوبا کے اسپیکرز کا بھی خطاب تھا۔ تقاریر کا یہ سلسلہ تین روز جاری رہا۔ اس دوران مختلف جانبی ملاقاتیں‘ نشستیں‘ انٹرویوز اور پروگرامات ہوئے۔ ایرانی ٹی وی کی اُردو سروس نے سراج الحق صاحب اور راقم کو اسٹوڈیو لے جاکر آدھ گھنٹے کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو براہِ راست نشر کیا۔ کئی عرب و اجنبی ذرائع ابلاغ سے گفتگو ہوئی۔

تیسرے روز صبح کا سیشن ختم ہوا تو حماس کے احباب نے اطلاع دی کہ کانفرنس میں مختلف اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران کی ایک ملاقات خالدالمشعل کی رہایش گاہ پر ہو رہی ہے۔ خالدمشعل اور دیگر کئی فلسطینی رہنمائوں کو صدارتی گیسٹ ہائوس میں رکھا گیا تھا جو اسلامی سربراہی کانفرنس سے چند روز قبل ہنگامی طور پر لیکن شان دار انداز سے تعمیر کیا گیا تھا۔

خالدالمشعل نے اس محدود نشست میں دنیابھر میں ہونے والے اپنے دوروں کے نتائج سے آگاہ کیا‘ نومنتخب فلسطینی حکومت کو درپیش چیلنجوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خود صدر محمود عباس کے ذریعے ہی ہماری راہ میں کانٹے بوے جارہے ہیں۔ سابق وزرا اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے اپنے دفاتر کا فرنیچر تک اُٹھا کر لے گئے ہیں‘ کاپی پنسل تک نہیں چھوڑ کر گئے اور کئی کئی کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔ فلسطینی حکومت کا خزانہ خالی ہی نہیں ایک ارب ۷۰کروڑ ڈالر کا مقروض ہے۔ مختلف کمپنیوں کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کے بلوں کی ادایگی نہیں کی گئی وہ بھی ہم سے تقاضا کر رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے ماہانہ اخراجات ۱۷ کروڑڈالر ہیں جن میں سے ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر صرف تنخواہوں پر اُٹھ جاتے ہیں۔ خزانے میں ابھی تک مارچ کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ صہیونی انتظامیہ تقریباً ۷کروڑ ڈالر‘ فلسطینی سامان تجارت پر ٹیکسوں کے ذریعے جمع کرتی ہے جو معاہدے کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کو ادا ہونا چاہییں جو گذشتہ حکومت کو ملتے رہے ہیں۔ اب وہ بھی روک لیے گئے ہیں۔ عالمی قوتوں کی طرف سے مدد بند کردی گئی ہے اور مسلم ممالک کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کو کچھ نہ دیں اور دیں بھی تو فلسطینی صدر کے ذریعے دیں۔ فلسطینی صدر کسی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے پر تو تیار نہیں‘ لیکن امدادی رقوم اور اختیارات اپنی ذات میں جمع کرنے پر مصر ہیں۔ ہم نے پوری کوشش کی‘ چار ہفتے مذاکرات کرتے رہے کہ الفتح ہمارے ساتھ شریک ہو‘ ایک قومی حکومت تشکیل پائے لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا ہے ۔وہ ہماری حکومت منتخب کرنے پر فلسطینی قوم کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اپنے بھائیوں کی مدد سے اپنی منزل بھی کھوٹی نہیں ہونے دیں گے اور نہ اپنے موقف اور حقوق سے دستبردار ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں اس مرحلے پر عوامی سطح پر بھی مالی امداد کی ضرورت ہے جو اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے لیکن بابرکت اور عالمی دبائو سے محفوظ ہوتی ہے۔ خالدالمشعل کی گفتگو پر تبصرے اور تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ راقم نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی عرض کیا کہ آپ اپنے صدر اور عالمی برادری کو یہ بھی باور کروا دیں کہ اگر ہمیں ناکام کرنے کی کوششیں اسی طرح جاری رہیں تو ہم یہ حکومت ناکام کرنے والوں کے منہ پر دے ماریںگے اور اپنی تمام تر توجہ جہاد و جہدِآزادی پر مرکوز کردیں گے۔

میں نے یہی گزارش کانفرنس میںگفتگو کے دوران بھی کی تو اکثر شرکا نے تجویز کی تائید تالیوں سے کی۔ کانفرنس میں شریک تمام فلسطینی تنظیموں نے باہم اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے افغانستان کے تجربے سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ ہمارے تمام افغان رہنما اتحاد کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے‘ اس کا تقاضا بھی کرتے تھے لیکن سب اپنے اپنے موقف پر بھی بضد رہے اور دشمن کی چالوں کا بھی شکار ہوتے رہے اور آج صورت حال سب کے سامنے ہے۔ فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کو بھی یاد کروانے کی کوشش کی کہ دونوں کے دشمن یک جان ہیں اور دونوں کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔

خالدالمشعل کی اس اپیل پر کہ اب وعدوں اور اقوال کو افعال میں بدلنے کی ضرورت ہے‘ ایرانی وزیرخارجہ منوچہرمتقی نے فلسطینی حکومت کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تو ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اسی طرح اسپیکر حداد عادل نے عوام سے عطیات دینے کی اپیل کرتے ہوئے ایک اکائونٹ نمبر کھول دیے جانے کی خبر سنائی تو اس پر بھی بھرپور تحسین کی گئی۔

کانفرنس میں فلسطین کے بعد سب سے نمایاں شرکت عراقی قیادت کی تھی جن میں سے اکثریت ان شیعہ لیڈروں کی تھی جو کسی نہ کسی طور حکومت عراق کا حصہ رہے ہیں یا ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ عراق کی اسلامی تحریک ’حزب اسلامی‘ کے سربراہ بھی تھے۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ عراق و امریکا کے حوالے سے گفتگو رہی۔ ایران امریکا تعلقات پر بھی تقریباً ہر شریکِ کانفرنس تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ کچھ کے بقول ایران پر امریکی حملہ قریب آن لگا ہے۔ ایک عراقی شیعہ لیڈر کے بقول امریکا تو شاید یہ حملہ نہ کرسکے لیکن اسرائیل کے ذریعے حملہ کروا سکتا ہے اور یہ سانحہ آیندہ دو تین ماہ میں بھی ممکن ہے۔ کچھ سفارتی حلقے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ ایران نے یورنییم کی افزودگی صرف ۵ئ۳ درجے تک کی ہے جو عالمی ضوابط کے مطابق قابل مواخذہ نہیں بلکہ پُرامن مقاصد کے لیے مفید و ضروری ہے اس لیے اس بنیاد پر حملے کا جواز آسان نہ ہوگا۔ یہ بات بھی زیرغور آئی کہ   روس اور چین ایران پر کسی امریکی بھی حملے کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنیں گے‘ کیونکہ اس حملے سے دنیا بھر میں پٹرول کی ترسیل اس بری طرح متاثر ہوگی کہ کوئی بھی ملک اسے برداشت نہ کر پائے گا۔ سب سے زیادہ وزن اس تجزیے کو دیا جا رہا تھا کہ ایک تو عراق میں روز افزوںامریکی مشکلات‘ دوسرے ایران کی جنگی و جہادی تیاریاں امریکا کو کسی طور اجازت نہیں دیں گی کہ وہ ایران پر حملے کی حماقت کرسکے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی گیا تو یہ امریکا کی آخری حماقت ہوگی جس کے بعد قدرت شاید اسے مزید مہلت نہ دے۔

ایران پر اقتصادی پابندیوں کا امکان قدرے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی ایرانی ذمہ داران خندہ لبی سے‘ امریکا ایران سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے پر امام خمینی کا تبصرہ دہراتے ہیں‘ انھوں نے کہا تھا: ’’اگر امریکا نے کبھی کوئی نیکی ہے تو وہ یہی ہے کہ اس نے   ہم سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے‘‘۔ اقتصادی پابندیوں کی صورت میں ہمیں زیادہ تیزی سے مکمل خودکفالت کی منزلیں طے کرنے کا موقع ملے گا۔

ایک تجزیہ نگار نے امریکا کے دہرے معیاروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کے زمانے میں امریکا خود چاہتا تھا کہ ایران کو ایٹمی توانائی حاصل ہو۔ ۱۹۷۵ء میں ہنری کسنجر نے قرار داد ۲۹۲ پر دستخط کیے جس کے مطابق تہران و واشنگٹن کے درمیان ایٹمی تعاون شروع ہوا۔ اس سے ایک برس بعد جیرالڈفورڈ نے پلوٹونیم علیحدہ کرنے کی تنصیبات لگانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے ایٹم بم بنانے کی راہ آسان تر ہوئی۔ اس وقت ڈک چینی اور رامزفیلڈ بھی اس ایرانی ایٹمی صلاحیت کے لیے بہت فعال تھے تاکہ اس کے ذریعے سردجنگ میں امریکا اپنے حلیف ایٹمی ممالک کی صف میں اسرائیل کے ساتھ ایران کو بھی شامل کرلے۔ یعنی مسئلہ ایٹمی توانائی حاصل ہونا یا نہ ہونا نہیں‘ اسرائیل اور بھارت کی طرح کے وفاداروں اور ہم مشربوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو پرویزمشرف جیسا خدمت گزار بھی بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے گا۔

خیر بات ہو رہی تھی امریکا اور ایران کی‘ لبنان کے ایک ہفت روزہ الامان نے پال روجرز کے ایک مقالے کا ترجمہ حال ہی میں شائع کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف بڑھتی ہوئی تلخی کا ایک سبب عراق میں بڑھتی ہوئی امریکی مصیبتیں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ایران اس ضمن میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس کے بقول امریکا ساڑھے سات کروڑ ڈالر ایرانی حکومت کے خلاف قائم مختلف فارسی ٹی وی چینلوں کے ذریعے ابلاغیاتی پروپیگنڈے پر خرچ کر رہا ہے۔

جنگ کے روز بروز گہرے ہوتے بادلوں کے باوجود ایرانی عوام اور ذمہ داران میں کہیں اس امر کا تاثر نہیں ملا کہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہیں‘ بلکہ سب اس بات پر یک زبان تھے کہ امریکا کو ایران پر حملے کا جواب صرف ایران اور خلیج ہی میں نہیں‘ دنیاکے ہراس خطے سے دیا جائے گا جہاں امریکی مفادات ہیں کیونکہ انقلاب کے ۲۷سالوں میں ایران نے اپنے ہزاروں نہیں لاکھوںبہی خواہ پانچوں براعظموں میں پیدا کیے ہیں۔ ۵۰ ہزار طلبہ تو ہر وقت صرف قم میں زیرتعلیم رہتے ہیں۔

ان تمام تجزیوں‘ ملاقاتوں اور تقاریر کے بعد دو جامع اعلامیے کیے گئے۔ ایک تو تمام فلسطینی گروپوں کی طرف سے باہم اتحاد و تعاون پر اتفاق کے بارے میں‘ اور دوسرا القدس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے قبلہ اوّل کے لیے مطلوبہ موقف پر مضبوطی سے ثابت قدم رہنے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی دامے درمے سخنے قدمے مدد کرنے کا عہد مصمم کرنے کے بارے میں۔ یہ پورا جامع اعلامیہ کانفرنس کی ویب سائٹ www.icpalestine.ir   پر دستیاب ہے۔

کابل میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جناب صبغت اللہ مجددی نے فرمایا: مجھ پر یہ حملہ پاکستان نے کروایا تھا۔ ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔ ہم اسے دشمنی کا مزا چکھائیں گے۔ یہ وہی صبغت اللہ مجددی ہیں جنھیں سب سے کمزور تنظیم کا سربراہ ہونے کے باوجود ۱۹۹۴ء میں معاہدۂ پشاور کے تحت پاکستان نے امریکا کے اشارے پر عبوری صدر مقرر کروایا تھا۔ یوں گلبدین حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کو اقتدار سے محروم اور باہم متصادم کرکے‘ غیرمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کو بھی جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا گیا۔

مجددی صاحب کی پارٹی کے ایک کارکن حامدکرزئی‘ جنھیں امریکا نے افغان صدارت سونپ رکھی ہے‘ انکشاف کرتے ہیں: ہمیں تین ماہ پہلے اطلاعات ملی تھیں کہ پاکستان نے مجھے اور دیگر افغان لیڈروں کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے ہیں۔ پاکستان طالبان کو منظم کررہا ہے اور طالبان القاعدہ سے مل کر افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا…

پاکستان نے سوویت جارحیت کے بعد مسلسل قربانیاں دیں۔ اب بھی اس نے لاکھوں افغان بھائیوں کے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا ہے۔ آج بھی افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو     اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تمام سابق مجاہدین لیڈر جو پاکستان کو اپنا بڑا بھائی اور سرپرست سمجھتے تھے ایک ایک کر کے پاکستانی حکمرانوں سے شدید ناراض ہوچکے ہیں۔ ان کا کمزور ترین فرد بھی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ان رہنمائوں کو ناراض‘ کمزور‘ بلکہ ختم کرنے کے لیے جن طالبان پہ تکیہ کیا گیا تھا‘ انھیں بھی بالآخر امریکا کی غلامی کی نذر کردیا گیا۔

اس صورت حال سے امریکا اور حلیف قوتیں جو فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن خود بھارت بھی تیزی سے وہاں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی دبائو بڑھانا بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ سوویت قبضے کے دوران اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے۔ اس سے پہلے سردار دائود کے ساتھ اس نے معاہدہ کیا کہ وہ افغان خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے افسران کو بھارت لے جاکر تربیت دے گا۔ جہاد اور پھرخانہ جنگی کے طویل ادوار کے بعد اب فوجی و جاسوسی تربیت کا یہ ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑچکا ہے۔ خود افغانستان کے تقریباً ہر صوبے میں بھارت اپنا وجود یقینی بنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جلال آباد اور قندھار میں قونصل خانے کھولنا تو معمول کا سفارتی عمل دکھائی دیتا ہے‘ ایسے دسیوں دفاتر ‘ مشاورتی ادارے‘ تجارتی و تعمیراتی کمپنیوں کے نمایندے بٹھا دیے گئے ہیں جو اعلان شدہ سرگرمیوں سے زیادہ غیرعلانیہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں ثقافتی یلغار پہلے سے کئی گنا زیادہ سفاک ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارائوں کے جہازی پوسٹر‘ فلموں کے اشتہارات اور گانوں کے بول‘ آنکھیں اور کان بند کر کے بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اصل محاذ میدان جنگ کو نہیں‘ ثقافت اور تعلیم کوقرار دیتا ہے۔ بھارت اس ’روشن خیالی‘ میں اسے تمام مطلوبہ ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کابل سے آنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ کسی کو لقمہ ملے یا نہ ملے‘ ٹی وی سے دسیوں عالمی چینل مفت دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں سے کئی مجرد فحاشی پر مبنی ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ صرف سال ۲۰۰۶ء میں افغان عوام کو موسیقی اور ثقافتی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر (۳کروڑ ۶۰ لاکھ روپے) صرف کرے گی۔ فلمی دنیا اور ’ثقافتی تجارت‘ کرنے والے سرمایہ کاروں کا پیسہ اس کے علاوہ ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس سال افغانستان سے ۵۰۰ اساتذہ اور ۵۰۰ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ہاں لے کر جائے گی تاکہ انھیں تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت اور ترجیحات کا سبق بھی دے سکے۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانا دونوں ممالک کا باہمی معاملہ قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس پورے عمل سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کرنا گذشتہ قومی جرائم سے کہیں بڑا جرم اور سانحہ ہوگا۔

امریکی ذمہ داران نے بارہا بیان دیا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے‘ وہ افغانوں کو نظام و تربیت دے کر چلے جائیں گے۔ لیکن اب دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ ان اڈوں کے لیے چنے گئے علاقوں پر ذرا غور فرمایئے: کابل‘ بلخ‘ ہرات‘پکتیکا‘ خوست‘ قندھار۔ ان میں سے ہرات کا امریکی فوجی اڈا ایرانی سرحد سے تقریباً ۳۰کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ جب کہ آخری تینوں اڈے پاکستانی سرحدوں پر واقع ہیں۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً ۲۰ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان میں اور دیگر اتحادی افواج میں کتنے اسرائیلی ‘ یہودی یا اسرائیل نواز ہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ امریکا نے ۱۳فروری ۲۰۰۵ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانوں کی مدد کے لیے ۱۴ اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹر خریدے گا‘ یعنی کہ ہیلی کاپٹر تو آنا ہی ہیں ان کی قیمت افغانوں کے نام پر لی جانے والی امداد سے چکائی جائے گی۔ یہ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات لانے اور ان کی تربیت دینے کے لیے اسرائیلی ماہرین درکار ہوں گے۔ ان کھلے اور چھپے اسرائیلی عناصر کا بھارت کے ساتھ کیا اور کیسا تعلق و تعاون رہے گا‘ یہ جاننے کے لیے غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ دونوں فطری حلیف پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی نہیں پاکستان کے وجود سے ناخوش ہیں۔ یہاں افغان وزیرخزانہ انور الحق کا یہ بیان بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کے قریب رقم امداد نہیں‘ قرضوں پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے بھی اسی طرح کے اسلحے کے سودوں اور باہر سے آنے والے مشیروں کی تنخواہوں پر اڑائے جارہے ہیں اور افغانستان جو تاریخ میں کبھی مقروض نہیں ہوا‘ اب قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا جاچکا ہے۔

امریکا کے فوجی قبضے میں تڑپتاافغانستان ہر روز نئے سے نئے بحران کا شکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج نے بگرام اور دیگر کئی مقامات پر اپنے غیرعلانیہ قیدخانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں صرف افغانستان ہی سے نہیں ‘پرویز مشرف کے ہاتھوں پکڑے گئے قیدیوں کوبھی ہربنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹم گولڈ (Tim Gold)کی رپورٹ کے مطابق کابل کے شمال میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام کے امریکی اڈے کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ گوانتانامو سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ گوانتانامو کا کچھ ذکر امریکی عدالتوں میں آجانے کے بعد اب بش انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ زیادہ قیدی بگرام ہی میں رکھے جائیں۔ یہاں ۶۰۰ کے قریب قیدیوں پر توڑی جانے والی قیامت سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک مصری نژاد شریف بسیونی کو افغانستان میں اپنا نمایندہ بناکر بھیجا ہوا تھا۔ ۴فروری ۲۰۰۶ء کو امریکا نے بسیونی کو واپس بھجوا دیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ واپسی کا سبب صرف یہ ہے کہ امریکا اپنے قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا شاہد کسی کو نہیں بننے دینا چاہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانِ خنجر چپ کروا دیے جانے کے باوجود‘ آستیں کا لہو پکارپکار کر امریکی و عالمی اقوام کو اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں ہمہ پہلوتباہی کا ایک اور سنگین پہلو وہاں افیون اور منشیات کے جِنّ کا دوبارہ بوتل سے نکل آنا ہے۔ اس وقت افیون و منشیات کی عالمی پیداوار کا ۹۰فی صد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ بلخ کے ایک کسان نے بی بی سی کے نمایندے سے کہا کہ: ’’مقامی پولیس کا سربراہ ان کی منشیات کی پیداوار سے اپنا حصہ زبردستی لے لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی کاشت جاری رکھنا چاہتے ہو تو ہر گھر مجھے جمع شدہ افیون میں سے ایک کلو بھتہ دیا کرے‘‘۔

قتل وغارت کا بازار الگ گرم ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق   گذشتہ برس مارے جانے والوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ افغان پولیس اگر افیون کے بھتے پر لگی ہو‘ افغان فوج تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد اور تربیت حاصل نہ کرسکی ہو‘ اور امریکی افواج‘ افغانستان کے امن و استحکام سے زیادہ اپنے طے شدہ اہداف اور دُور رس مقاصد کے لیے وقف ہوں‘ اور صدربش حامدکرزئی کے لرزتے ہونٹوں سے ادا ہوتے مطالبات کو یکسر مسترد کردے اور کہے کہ افغانستان کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک نقطۂ نظر اور اسٹرے ٹیجی ہے اور امریکی افواج صرف امریکی قیادت ہی میں کام کریں گی‘ حتیٰ کہ وہ افواج بھی جو خود کرزئی انتظامیہ کی حفاظت پر معمور ہیں‘ تو ایسے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے کون دستیاب ہوگا؟ بدامنی اور لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ملک اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار صبغت اللہ مجددی پر قاتلانہ حملے کو یونس قانونی کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں جو ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں اور بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر مجددی صاحب کو کچھ ہوجاتا‘ تو جناب قانونی جو اپنی پارٹی میں بھی برہان الدین ربانی کے ساتھ مختلف مواقع پر متضاد موقف رکھتے تھے‘ سینٹ کے چیئرمین قرار پاتے۔

اس منتشر و زخمی افغانستان میں بھی امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت پر تقریباً پوری قوم کا اجماع ہے۔ کرزئی سمیت جو سیاسی و عسکری عناصر کابل میں امریکا سے ہم آغوش ہیں‘ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں‘ افغان قوم کسی کا قبضہ تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن ابھی امریکا سے مسلح جنگ کا وقت نہیں آیا‘ جب کہ کئی عناصر جن میں طالبان کے بچ رہنے والے مجاہدین‘ حکمت یار کے مجاہدین اور متعدد جنگی سردار شامل ہیں‘ اوّل روز سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں کامیاب کارروائیاں کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارروائیوں میں نہ تو کمی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔ ان روزافزوں کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان پر بھی امریکی اور افغان دبائو میں مزیداضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے ہی بھائی بندوں پر جنگ مسلط کرکے اس بیرونی دبائو میں اضافے کے نئے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ بھارتی رہنمائوں کا بلوچستان اور کراچی کے قوم پرست عناصر سے روابط بڑھانا‘ ان عناصر کی مانگ میں سیندھور بھرنے کے لیے نہیں ہے‘ اور نہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا جانا ہی صرف بے وقت کی راگنی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

اس گمبھیر صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ‘ پاک فوج اور اس کے اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور ہرذی شعور شہری کا فرض ہے کہ‘ ملک میں عسکری تسلط کے بجاے حقیقی جمہوریت کے قیام‘ ایک فرد کے بجاے ملک کے استحکام‘ ذاتی مفاد کے بجاے ملّی مفادات کی آبیاری‘ اور سب سے اہم یہ کہ لالچ یا خوف کے بجاے صرف اللہ کی نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت و ہمت سے اپنا گھر بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جارہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اب بھی ملک کے بجاے اقتدار بچانے پر ہی توجہ رہی تو آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔