عبد الغفار عزیز


جنوبی سوڈان کی بغاوت کے بعد اب مغربی سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ صوبہ دارفور میں ہنگاموں کا آغاز فروری ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک نے ان کا ذکر نہیں کیا‘ کیونکہ تب امریکا سوڈانی حکومت کے ساتھ جنوبی علیحدگی پسندوں کا معاہدہ کروانے میں مصروف تھا۔ اس اثنا میں متعدد بار امریکی ذمہ داران نے سوڈانی حکومت کی وسیع النظری اور حقیقت پسندی کی تعریف کی‘ سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بات آگے بڑھائی۔ یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ جنوبی باغیوں سے معاہدہ ہوجائے تو اس پر دستخط کرنے کے لیے فریقین واشنگٹن آجائیں تاکہ خود صدر بش اس معاہدے کو اپنی آشیرباد و ’’برکات‘‘ سے نوازیں۔ اس دوران باغیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ دھمکیاں‘ لالچ‘ تعریفیں سب دائو آزمائے گئے۔ پھر جیسے ہی کینیا میں دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد مئی ۲۰۰۴ء میں طرفین کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ تو دارفور دنیا کا خطرناک ترین مقام بن گیا۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ براے سوڈان موکایش کابیلا کے الفاظ میں: ’’دارفور میں حقوق انسانی کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہے‘‘۔

۲۹ جون کو امریکی وزیرخارجہ ۱۹ سال کے بعد پہلی بار سوڈان گیا تو اس نے بیان دیا: ’’اگر دارفور میں عرب ملیشیا کو نہ کچلا گیا تو سلامتی کونسل کے ذریعے کارروائی کریں گے‘‘۔ یعنی‘ سوڈان پر پابندیاں عائد کر دیں گے‘ فوج کشی کریں گے۔ امریکی مفادات کی محافظ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی اگلے روز خرطوم پہنچا اور اس نے بھی لَے میں لَے ملائی: ’’سوڈانی حکومت متاثرین تک مغربی امدادی ٹیمیں نہیں پہنچنے دے رہی‘‘۔

صوبہ دارفور سوڈان کے کل رقبے (۲۵ لاکھ کلومیٹر مربع) کا پانچواں حصہ ہے یعنی‘ ۵لاکھ ۱۰ہزار کلومیٹر مربع۔ سوڈان کے مغربی کنارے پر واقع ہونے کے باعث اس کی سرحدیں لیبیا‘ چاڈ اور جمہوریہ وسطی افریقا سے ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو افریقی النسل اور وہاں کی اصل آبادی اور کچھ کو عربی النسل اور بعد میں آنے والے کہا جاتا ہے۔ دارفور جنوبی سوڈان سے یوں مختلف ہے کہ صوبے کی ۹۹ فی صد آبادی مسلمان ہے اور ایک سروے کے مطابق آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دنیا میں حفاظ کرام کی سب سے زیادہ تعداد اس صوبے میںہے۔ صوبے کی زبوں حالی‘ فقر اور بھوک کے باعث تقریباً ہر موسم باراں میں قبائل کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ گلہ بانی وہاں کا بنیادی پیشہ ہے۔ سوڈان میں کثیر تعداد میں پائی جانے گائیوں کا ۲۸ فی صد حصہ دارفور میں ہے‘ جن کی تعداد دو کروڑ ۸۰ لاکھ گائیں بنتی ہے۔ بارش کے بعد چراگاہوں پر جھگڑا معمول کی بات ہے۔ دارفور کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک میں پوری کی پوری آبادی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی دارفور کو ہمیشہ مہدی خاندان اور ان کی پارٹی ’حزب الامۃ‘ کا گڑھ سمجھا گیا۔ لیکن صوبے کی کسمپرسی اور قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کے لیے     نہ صادق المہدی حکومت کچھ کر سکی اور نہ ان سے قبل یا ان کے بعد کی حکومتیں۔

اس دوران وہاں مختلف سیاسی قوتیں ظہور پذیر ہوتی گئیں۔ ’تحریک آزادی سوڈان‘ کے نام سے باغیانہ عناصررکھنے والے پارٹی منی ارکون بیناوی کی زیرقیادت وجود میں آئی۔ ’تحریک انصاف و مساوات‘ کے نام سے خلیل ابراہیم کی سربراہی میں ایک پارٹی بنی‘ جس کے بارے میں کہا گیا کہ صدر بشیر سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اس کی حمایت کر رہے ہیں اور خلیل ابراہیم ڈاکٹر ترابی کے شاگرد و معتقد ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروہ عرب قبائل سے متعلق ان لوگوں کا بنا جن کی شہرت ’جنجوید‘ کے نام سے ہوئی۔ یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے‘ جن: شخص‘ جاو: G3 سے مسلح‘وید: گھڑسوار یعنی‘ G3گن سے مسلح گھڑسوارآدمی۔ امریکا سمیت تمام عالمی قوتیں سوڈانی حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ:’ ’حکومت افریقی قبائل کے خاتمے کے لیے عرب جنجوید کو مسلح کر رہی ہے اور جنجوید نے بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے لاکھوں افریقی قبائل کو بے گھر کر دیا ہے‘ اور وہ اب چاڈ اور سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ کہا گیا کہ سوڈانی حکومت نے خود بھی جہازوں اور توپوں کے ذریعے بم باری کی ہے‘قتل عام کی مرتکب ہوئی ہے‘ اور اب عالمی امدادی تنظیموں کو امدادی سامان لے جانے سے روک رہی ہے اور یہ کہ جب تک جنجوید کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ یورپی امدادی تنظیموں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ ’فاشر‘ اور ’نیالا‘ (شمال دارفور اور جنوب دارفور کے دارالحکومت) کی تعمیر و ترقی نہیں کی جاتی۔ سوڈان کے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کی جاسکتی ہیں‘‘۔

سوڈانی صدر عمر حسن البشیر نے انقلاب کی پندرھویں سالگرہ پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’دارفور کا مسئلہ ہماری حکومت وجود میں آنے سے پہلے کا ہے اور ہم (جنوب کی جنگ میں جلتے رہنے اور اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کے باوجود) اس کے حل کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ’جنجوید‘ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک گروہ ہے اور حکومت ان سے بھی اسی طرح جنگ کرے گی جیسے کسی بھی دوسرے باغی سے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ’’لیکن ہمیں یہ نہ سمجھایا جائے کہ ہم صرف عرب قبائل کو تو اسلحے سے پاک کردیں اور دوسروں کو رہنے دیں۔ ہم بلااستثنا ہر قانون شکن سے ہتھیار چھین کر رہیں گے‘‘۔ انھوں نے اس بات کی بھی نفی کی کہ دارفور میں (امریکی دعوے کے مطابق) نسلی تطہیر کی کوئی کارروائی جاری ہے۔ صدربشیر نے نام لیے بغیریہ الزام بھی لگایا کہ ’’بیرونی ہاتھ اب سوڈان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور دارفور کے بہانے سوڈان میں وسیع تر مداخلت چاہتے ہیں‘‘۔

باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں جو اسلحہ برآمد ہوا ہے‘ وہ اسرائیل کا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل اس سے قبل جنوبی باغیوں اور پڑوسی ممالک کو بھی بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرچکا ہے۔ امریکا بھی دارفور کے ذریعے سوڈان میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔ مصری اخبارات نے بعض سوڈانی سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ کولن پاول نے اپنے دورہ خرطوم میں یہ ’’فراخ دلانہ‘ تجویز دی کہ’ ’دارفور میں امن قائم کرنے کے لیے امریکا اپنے ۲۵ ہزار فوجی سوڈان بھیجنا چاہتا ہے‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اس سے ایک طرف تو امریکا سوڈان کے حال ہی میں دریافت ہونے والے پٹرول میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ جس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کے باعث آیندہ پانچ سال میں اس کی روزانہ پیداوار ۲۰لاکھ بیرل ہوجائے گی۔ دوسری طرف عراق و افغانستان میں درپیش نقصانات سے توجہ ہٹانے میں مدد ملے گی اور آیندہ امریکی انتخابات میں بش کاایک یہ کارنامہ بھی بیان کیا جا سکے گا کہ اس نے سوڈان میں افریقی قبائل کو امن لے کر دیا‘ اس لیے اب امریکی سیاہ فام ووٹ کا حق دار ہے۔ کولن پاول کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سوڈانی وزیرخارجہ مصطفی عثمان اسماعیل نے بیان دیا کہ ’’اگر تو پاول کا دورہ دارفور میں ایک انسانی بحران میں قابو پانے میں مدد دینے کے لیے ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دورہ عالمی برادری کو ہمارے خلاف لاکھڑا کرنے یا امریکا کے انتخابی معرکے میں کامیابی کی خاطر ہے تو اس سے نہ تو دارفور کو کوئی فائدہ ہوگا اورنہ دوطرفہ تعلقات کو‘‘۔

امریکی پالیسی کے قطب نما معروف ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ ICG نے ۹مئی کو اپنی ایک رپورٹ میں سوڈانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’دارفور جنگ نہ صرف سوڈان اور چاڈ کی حکومتوں کے لیے بالواسطہ خطرہ ہے بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ      اس سے سوڈان کے باقی علاقوں میں بھی بغاوت بھڑک اٹھے… یہ بھی ممکن ہے کہ سوڈان کے       مشرق و مغرب میں ایسی مزید باغی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس ادارے نے   کچھ تجاویز سوڈان حکومت کو دی ہیں‘ جن میں سرفہرست عالمی نگرانی اور عالمی امدادی تنظیموں کو شورش زدہ علاقوں میں بلاروک ٹوک جانے کی ضمانت دینا اور جنجوید کا خاتمہ ہے۔ پھر سلامتی کونسل کے لیے سفارشات ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرے اور عالمی مذاکرات کا اہتمام کرے اور پھر امریکا ‘برطانیہ‘ اٹلی اور ناروے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مزید عالمی دبائو کے ذریعے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرے جو دارفور میں انسانی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی راہ میں آڑے آتی ہیں‘‘۔ ان ممالک سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ ’’فرانس اور چاڈ کو شامل مشورہ رکھیں‘‘۔

اگرچہ ان سفارشات‘ بیانات اور دھمکیوں کے ساتھ ہی ساتھ امریکا اور حواریوں نے اس وضاحت کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ سوڈان کے خلاف لشکرکشی نہیں چاہتے‘ لیکن یورپی یونین کی عسکری کمیٹی کے سربراہ فن لینڈ کے جنرل گوسٹاف ہاگلان نے یہ بیان دے کر ’غلط فہمی‘ دُور کردی کہ ’’یورپی فوجی قوت صوبہ دارفور میں داخل ہو سکتی ہے‘‘۔

اس طرح سوڈان کے خلاف اب ایک نیا خطرناک اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ’ ’اگر جنوبی حلیف معاہدے سے مطمئن نہ ہو سکے تو  حق خودارادی استعمال کرتے ہوئے چھے سال کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے سوڈان سے علیحدہ ہوسکیں گے‘‘۔ جنوبی سوڈان کا رقبہ سوڈان کا ایک چوتھائی ہے۔ یعنی دارفور اور جنوب مل کر سوڈان کا نصف رقبہ بنتے ہیں اور اس نصف کو  شورش زدہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ICG کے ’خدشات‘ کی روشنی میں مشرقی سوڈان کے ’البجا‘ اور شمالی سوڈان کے ’الکوش‘ قبائل کو بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ تم تو بہت مظلوم و محروم قبائل ہو‘ جب کہ خرطوم میں بیٹھے حکمران پٹرول کی   بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

سوڈان کے خلاف دن بدن تنگ کیا جانے والا گھیرا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن دو متضاد وجوہات نے اس کی سنگینی و اہمیت میں انتہائی اضافہ کر دیا ہے۔ ایک وجہ تو سوڈان کی کمزوری کا ہے کہ بدقسمتی سے انقلاب کی بانی قیادت صدر عمرحسن البشیر اورڈاکٹر حسن ترابی میں اختلافات حتمی قطع تعلقی اور جنگ کی کیفیت تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ اب بھی ڈاکٹر ترابی اپنے کئی ساتھیوں سمیت جیل میں محبوس ہیں اوران پر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔ سب اپنے پرائے اس پر متفق ہیں کہ اس لڑائی سے (اس میں خواہ کتنے ہی اصولی اختلافات ہوں) طرفین ہی نہیں سوڈان کمزور ہوا ہے اور دشمن اس پر جھپٹنا پہلے سے آسان سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان کی قوت کا باعث ہے کہ گذشتہ چند سال میں چین اور سوڈان کے تعاون سے دریافت ہونے والے پٹرول کی مقدار و معیارنے امریکا سمیت سب کی رال ٹپکا دی ہے۔ بھارتی بنیا بھی وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔

دارفور‘ جنوبی سوڈان اور قبائلی اختلافات کی آڑ میں امریکا و یورپ کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ تقسیم سوڈان کا ہوا دکھا کر وہاں زیادہ سے زیادہ رسوخ و مداخلت ممکن بنائی جائے  خواہ اس کے لیے فوج کشی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ انھیں سوڈان کے اندرونی حالات سے زیادہ شہ اس بات سے مل رہی ہے کہ ان حالات سے براہِ راست متاثر ہونے والے ملک مصر سمیت تمام  مسلم ممالک‘ اس ساری صورت حال سے لاتعلق بیٹھے ہیں۔

دونوں کا بچپن محرومی سے عبارت تھا۔ احمد ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوا۔ بمشکل چار برس کا تھا کہ والد یاسین اسماعیل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں سے احمد سب سے چھوٹا تھا۔ بڑے بھائی نے پڑھائی چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کی۔ بہنوں اور بھائی کو پڑھانا چاہا۔ احمد ابھی چوتھی کلاس میں تھا کہ اسرائیلی فوج نے آبائی گائوں ’الجورہ‘ سے نکال باہر کیا ۔لٹا پٹا خاندان غزہ میں ساحل سمندر پر واقع مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا اور غربت کے ساتھ ساتھ مہاجرت و آزمایش کا نیا دور شروع ہوگیا۔

عبدالعزیز ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پیدا ہوا۔ سات ماہ کا بھی نہیں ہوا تھا کہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی فوج نے عسقلان اور یافا کے درمیان واقع آبائی گائوں یبنا پر بم باری کر دی۔ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل آل رنتیسی کا کنبہ خانیونس مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا۔ پیٹ پالنے کے لیے بڑے بھائی نے حجام سے لے کر اینٹیں ڈھونے تک ہر طرح کی مزدوری کی اور عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے کسی کام میں عار نہیں سمجھی۔ گولر کے بے قیمت پھل بھی بیچے اور قریبی قصبے سے صابن بھی لاکر بیچا۔ ۱۵ برس کے تھے کہ یتیم ہوگئے۔ ساری ذمہ داری بڑے بھائی پر آن پڑی‘ عبدالعزیز نے بھی پوری طرح ہاتھ بٹایا۔

احمد اور عبدالعزیز دونوں بچے بیوہ ماں اور بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرتے تھے۔ لیکن قدرت دو مختلف مہاجر کیمپوں میں حالات کے تھپیڑے سہتے ان دو یتیموں کو اُمت کی قیادت کے لیے تیار کر رہی تھی۔ دونوں کے سرپرست ان کے بڑے بھائی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بچپن سے ہی ہمیں اندازہ ہوتا تھا کہ ’’مستقبل میں ان کا بڑا مقام ہوگا‘‘۔

احمد الشاطی مہاجر کیمپ کے اسکول بھی جانے لگا۔ ۱۶ سال کا تھا کہ ایک روز ساحل سمندر پر ورزش کرتے ہوئے سر کے بل گرا‘ گردن کے مہرے ٹوٹ گئے‘ ۴۵ دن تک پلستر میں جکڑا رہا۔ پلستر کھلا تو معلوم ہوا کہ نیم معذوری مستقلاً لاحق ہوگئی ہے۔ یہی نیم معذوری بعد میں بڑھتے بڑھتے گردن سے نچلے دھڑ کے مکمل فالج میں بدل گئی۔ احمد کو ساحل سے اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے ان کے دوست اور عم زاد کویت میں ہوتے ہیں۔ انھوں نے راقم کو بتایا کہ پلستر کھلنے کے بعد احمد یاسین پھدک پھدک کر اور ہاتھ قدرے پھیلا کر چلاکرتے تھے۔ ہم ہمجولی کبھی ان کا مذاق بھی اڑاتے‘ لیکن اس نے تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ۱۹۵۸ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پہلی پوزیشن سے پاس کر لیا۔

احمدیاسین کے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ اساتذہ کی بھرتی شروع ہوئی تو ۱۵۰۰ امیدوار پیش ہوئے۔ احمد یاسین نے بھی انٹرویو دیا‘ راستے میں ایک شخص نے کہا: تم اپاہج ہو‘ تدریس نہیں کر سکتے۔ احمد یاسین نے مسکرا کر کہا: ’’وفی السماء رزقکم وما توعدون‘ تمھارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمانوں میں ہے‘‘۔ انٹرویو لینے والے بورڈ نے توقع کے مطابق احمد یاسین کو ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ چند روز نہ گزرے تھے کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ ایک اجنبی نے آکر کہا: احمدیاسین فوراً فلسطین اسکول پہنچے۔ ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ غزہ کے گورنر نے احمد یاسین کی بطور مدرس تقرری کے احکامات جاری کیے ہیں۔

یتیم احمد اب استاد احمدیاسین تھا۔ تعلیمی و تربیتی دور شروع ہوا۔ ملازمت تو براے نام تھی۔ جو تنخواہ ملتی‘ احمد یاسین آدھی محتاجوں میں بانٹ دیتے اور آدھی گھر لے آتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی سائل آجاتا اور وہ باقی آدھی بھی انھیں دے دیتے۔ اہلیہ پوچھتیں: سب کچھ بانٹ دیا؟ ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچا؟ احمدیاسین مسکراتے ہوئے اپنا معروف جملہ کہہ دیتے: ’’اللّٰہ المستعان، اللہ ہمارے لیے بھی بھیج دے گا‘‘۔ تعلیم و تربیت اور معاشرے کی حقیقی خیرخواہی سے ہی احمد یاسین مدرس سے مربی اور مربی سے قائد بنتے چلے گئے۔

عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے ساتھ ہی ساتھ پڑھائی پر پوری توجہ دی۔ ۱۹۶۲ء میں والد کی وفات کے بعد بھائی نے حجام کا کام شروع کر دیا‘ لیکن گھر کا چولہا پھر بھی اکثر ٹھنڈا رہتا تھا۔ ۱۹۶۴ء میں بھائی مزدوری کرنے کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے‘ عبدالعزیز رنتیسی لکھتے ہیں: ’’نماز فجر کے بعد ہم والدہ کے ہمراہ بھائی جان کو خدا حافظ کہنے کے لیے مہاجرکیمپ سے غزہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے۔ میں اس وقت ہائی اسکول میں داخلہ لینے والا تھا۔ داخلے کی تیاری کے لیے میں نے چند ٹکے جمع کر کے استعمال شدہ بوٹ خریدے تھے۔ اس وقت بھی میں نے وہی بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اچانک امی کی آواز آئی: بیٹے! آپ کے بھائی جان ننگے پائوں سعودی عرب جا رہے ہیں‘ اپنے جوتے انھیں دے دو اور میں جوتے بھائی کو دے کر ننگے پائوں اسٹیشن سے کیمپ آگیا‘‘۔

عبدالعزیز کی والدہ بھی ایک باہمت‘ دبنگ خاتون تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد خود بھی کھیتوں میں مزدوری شروع کر دی اور بچوں کی تعلیم جا ری رکھی۔ عبدالعزیز نے بھی احمدیاسین کی طرح انٹرمیڈیٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسی بنیاد پر مہاجرین کی مدد کرنے والے ادارے اونروا نے ان کے لیے مصر سے اسکالرشپ حاصل کی اور عبدالعزیز فلسطین کے مہاجر کیمپ سے مصر کے شہر اسکندریہ کے میڈیکل کالج پہنچ گئے۔ ۱۹۷۶ء میں عبدالعزیز تعلیم مکمل کر کے واپس غزہ پہنچے تو وہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی تھے۔

سات ماہ کی عمر میں بے گھر ہونے کے بعد سے عبدالعزیز رنتیسی یہودی مظالم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ مصر میں قیام کے دوران‘ دکھ اور یہودیوں سے نفرت کا الائو‘ اخوان المسلمون کے نظام دعوت و تربیت کے باعث ایک مقصد اور تحریک میں ڈھل گیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے غزہ جاکر معاشرے کے ہر محتاج کی خدمت اپنا فرض گردانا۔ وہ بچوں کے خصوصی معالج تھے۔ مریضوں سے فیس لیے بغیر‘ کئی کئی کلومیٹر پیدل جاکربدوی قبائل کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر رنتیسی اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں: ’’میں بچپن ہی سے یہودیوں کے مظالم کا عینی شاہدہوں۔ آبائی گائوں سن ادراک پہلے ہی یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا۔ میں اب بھی اپنے گائوں سے گزرتے ہوئے وہ دو منزلہ گھر دیکھتا ہوں جس کے اردگرد میرے والد مرحوم کے ہاتھوں کے لگے مالٹے کے درخت اب پھل دے رہے ہیں‘ لیکن میں اپنے گھر میں نہیں جاسکتا۔ اس پر یمن سے لائے گئے ایک یہودی خاندان کا قبضہ ہے۔ پھر ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر اتحادی افواج نے حملہ کیا تو خانیونس کیمپ پر بھی حسب عادت دھاوا بولا گیا۔ میرے اکلوتے‘ سگے چچا حامد رنتیسی بھی اسی کیمپ میں ہمارے قریب رہتے تھے۔ یہودیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو ان کا نوسالہ بیٹا ابا‘ ابا چلاتے باپ سے لپٹ گیا۔ ظالم پھر بھی نہیں پسیجے اور دونوں پر فائر کھول دیا‘ چچاشہید ہوگئے اور نوسالہ موفق شدید زخمی۔ پھر دشمن ساتھ والے گھر گئے اور اہل خانہ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے شہید کردیا۔ اس ایک روز میں صہیونی فوجوں نے ۵۲۵ فلسطینی شہری شہید کیے‘ یہاں تک کہ سڑکوں پر لاشوں کا تعفن پھیل گیا‘‘۔

ڈاکٹر رنتیسی انھی زخموں کو دل میں سجائے غزہ کے ہر زخمی دل اور بیمار جسم کا علاج کرنے میں جُت گئے۔ ہر آنے والا دن ان سے محبت کرنے والوں اور سرزمین اقصیٰ پر قابض صہیونی افواج سے آزادی کے لیے ان کی جہادی پکار پر لبیک کہنے والوں میں اضافے کا دن ہوتا۔

دوسری طرف استاذ احمد یاسین بھی غزہ میں اخوان المسلمون سے سیکھا سبق‘ نئی نسل کو منتقل کر رہے تھے۔ صہیونی استعمار نے فلسطین پر قبضے کے بعد سب سے زیادہ توجہ فلسطینیوں میں دین بیزاری کی تحریک عام کرنے پر دی تھی۔ ۵۰کی دہائی میں کہ جب ناصریت کی لہر عروج پر تھی۔ دینی تعلیمات پر عمل کو عیب‘ قابل تضحیک اور باعث تذلیل بنا دیا گیا تھا۔ استاذ احمد یاسین نے اس طوفان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ہمارا اور یہودیوںکا اصل جھگڑا آیندہ نسلوں پر ہے۔ یا تو یہودی انھیں ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ہمیں شکست دے دیں گے‘ یا پھر ہم اپنی نسلوں کو یہودیوں کے پنجے سے چھین کر یہودیوں کو شکست سے دوچار کر دیں گے‘‘۔ اس محاذ پر استاذ احمد یاسین کو بہت سے معرکے پیش آئے۔ ایک بار استاذ کے پڑوس کے گھر سے چار جوان لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا کہ وہ غزہ کی سرکاری تقریبات میں رقص پیش کریں گی۔ استاذ ان کے اہل خانہ کے پاس گئے‘ تذکیر و نصیحت کی تو والدین نے فیصلہ کرلیا کہ بچیوں کو نہیں بھیجیں گے۔ اس پر انھیں کالج انتظامیہ کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ بچیاں نہ آئیں تو نام کاٹ دیا جائے گا۔ استاذ احمد یاسین نے بچیوں کے والدین اور اہل محلہ کے ہمراہ جاکر غزہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کہا کہ اگر ان طالبات کا نام خارج کیا گیا تو پورا الشاطی مہاجر کیمپ کل احتجاجی مظاہرہ کرے گا۔ نتیجتاً فوراً پرنسپل کی جواب طلبی کی گئی اور رقص کی تقریب منسوخ کر دی گئی۔

استاذ احمد یاسین نے اب غزہ کی مساجد میں خطابت کا محاذ بھی سنبھال لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دروس و خطبات کا سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ انھیں مردوں‘ خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پروگرام تشکیل دینا پڑے۔ ان کی یہ سرگرمیاں دیکھ کر ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں انھیں تدریس کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اب استاذ احمد یاسین‘ شیخ احمد یاسین بن چکے تھے۔ انھوں نے غزہ میں ایک ہمہ پہلو تحریک کھڑی کر دی۔ انھوں نے یہودی قبضے میں آنے والے مختلف شہروں اور آبادیوں میں جاکر بے آباد ہوجانے والی مساجد کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ مفلوک الحال گھرانوں کی مدد کے لیے کئی ایک رفاہی تنظیمیں کھڑی کر دیں‘ نئی نسل میں جہاد کی روح بیدار کرنا شروع کر دی۔ لوگ جب سنتے کہ ایک مفلوج شخص اسرائیلی درندوں کی موجودگی میں مسجد کے منبر سے یہ خطبہ دیتا ہے کہ ’’خواہ ہمارا ایک ہی فرد باقی بچے‘ خواہ ایک ہی پتھر‘ ایک ہی گولی‘ ایک ہی بندوق ہاتھ میں رہے‘ ہم اسرائیلی فوجوں کا مقابلہ کریں گے۔ ہم بہرصورت مقابلہ کریں گے اور بہرصورت فتح یاب ہوں گے کہ یہ رب کائنات کا اپنے مومن بندوں سے وعدہ ہے‘‘۔ تو ہر سننے والا جسم میں ایمانی قوت کی بجلیاں محسوس کرتا۔

شیخ احمد یاسین کی سب سے بڑی قوت لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے پائی جانے والی محبت اور عقیدت تھی‘ اور اس محبت کی بنیاد شیخ کے دل میں لوگوں کے لیے موجزن خلوص اور اللہ وحدہ لاشریک کے لیے اخلاص تھا۔ شیخ احمد یاسین صرف سیاسی قائد‘ روحانی پیشوا‘ مربی‘ مجاہد اور خطیب ہی نہیں تھے‘ بلکہ ہرفلسطینی گھر انھیں اپنا سرپرست سمجھتا تھا۔ شیخ کے پاس لوگ اپنے ذاتی مسائل لے کر آتے‘ میاں بیوی انھیں اپنے جھگڑوں میں فیصل مانتے اور روز مرہ ہونے والے کئی جھگڑوں‘اختلافات اورواقعات میں انھیں اپنا جج بناتے تھے۔ شیخ نے بھی کبھی کسی پر اپنا دربند نہیں کیا‘ کبھی پیشانی پر بل یا ناگواری نہیں آئی۔ ایک بار رمضان میں عین افطار کے وقت ایک سائل آیا اور شیخ سے ملنے پر مصر ہوا۔ ساتھیوں نے انھیں دروازے ہی سے پھر کبھی آنے کا کہہ کر لوٹانا چا ہا‘ لیکن شیخ کی نظر پڑگئی‘ سائل کو بلایا اور اپنے ساتھی کو سخت تنبیہہ کی: ’’آپ تھک گئے ہیں تو جایئے آرام کر لیں‘ میں نہیں تھکا‘‘۔ اور پھر پورا گھنٹہ اس کی بات سنی۔ اس کے جانے کے بعد اپنے اسی ساتھی کو بلا کر کہا:’’دعوت یوں دی جاتی ہے۔ داعی کے لیے صبربنیادی صفت ہے‘‘۔

ایک دولت مند شخص نے ایک خاتون سے نکاح کر کے اس کے سارے زیورات ہڑپ کر لیے‘ اس کو زدوکوب بھی کیا اور گھر سے نکال دیا۔ وہ شیخ کے پاس آئی‘ تو بذات خود وہیل چیئر پر شیخ اس شخص کے پاس گئے۔ وہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ میری بیٹی ہے‘ اس کے ساتھ انصاف کرو اور کبھی ظلم نہ کرو۔ وہ شخص بہت متاثر ہوا اور شیخ کے نیازمندوں میں ہوگیا۔

رام اللہ شہر کے بسام رباح (عیسائی) کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۸ء میں ایک فلسطینی نے دھوکے سے ہمارا مال لے لیا۔ اس نے جب ادایگی میں ٹال مٹول کیا تو میں بلاتکلف شیخ کے پاس گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیخ اس فلسطینی سے ہماری رقم دلوائیں گے۔ وہ بڑا دولت مند بھی تھا۔ پھر یہی ہوا کہ لاکھوں کی رقم چند گھنٹے میں مل گئی۔ ہم نے شکریہ اور احسان مندی کے جذبے سے اس میں سے ایک رقم غزہ میں مسجد کی تعمیر کے لیے دے دی۔

شیخ احمد یاسین ‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور ان کے کئی ساتھی جس تندہی سے تحریک جہاد کی نرسری اور لشکر تیار کر رہے تھے‘ دشمن بھی اس سے غافل نہ تھا۔ اس نے پہلے تو مختلف رکاوٹیں اور پابندیاں لگاکر انھیں روکنا چاہا لیکن بس نہ چلا تو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ہزاروں فلسطینی اور دسیوں قائدین کئی کئی بار اور کئی کئی سال جیل میں رہے۔ لیکن ہر بار جیل میں جانے کے بعد ایمان   مزید پختہ‘ ارادہ مزید مضبوط اور قوت کار کئی چند ہوجاتی۔

دنیا بھر نے جن فلسطینی مظلوموں سے منہ موڑ لیا تھا‘ پوری قوم کو مایوسی اور معاصی میں دھکیل دیا تھا‘ مساجد سے پھوٹنے والی اس تحریک نے انھیں پھر سے زندگی عطا کردی۔ ۹دسمبر ۱۹۸۷ء کو شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حماس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ ’حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ: اسلامی تحریک مزاحمت‘ کے پہلے حروف سے مل کر بننے والے لفظ حماس کا مطلب ہے جوش و جذبہ‘ ہمت و قوت۔ ’حماس‘ کے پرچم تلے باوضو بچے ہاتھوں میں غلیل اور پتھر لے کر ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے اور آج ۱۷ سال گزرجانے کے باوجود امریکی ٹینکوں پر سوار اسرائیلی فوجی اور امریکی میزائل ان کا خاتمہ نہیں کر سکے۔

رحمت و عنایت خداوندی کا سایہ ہمیشہ ان دونوں قائدین اور ان کے لاکھوں مجاہدین کے ساتھ دکھائی دیتا ہے‘ یتیمی کی گرد میں رل کر بھی یہ موتی رل نہ پائے۔ تعلیمی میدان میں سب ہمجولیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی شروع کر دی۔ اسی دوران دونوں کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کثیر اولاد دی۔ شیخ احمد یاسین کے ۳ بیٹے اور ۸بیٹیاں ہیں اور عبدالعزیز رنتیسی کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ دونوں کے بڑے بیٹوں کا نام محمد ہے۔ اس حوالے سے دونوں کو ابومحمد کہہ کر ہی پکارا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی کی اہلیہ رشاالعدلونی اپنی شادی کا ایک عجیب واقعہ بیان کرتی ہیں۔ کہتی ہیں: ۱۹۷۳ء میں ابومحمد کے گھر سے میرے لیے پیغام آیا۔ یہ پیغام نماز عشاء کے بعد میرے والد کو موصول ہوا۔ انھوں نے گھر میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا‘ میری والدہ سے بھی نہیں۔ اگلی صبح ہی صبح اچانک میری دادی آگئیں۔ انھوں نے آتے ہی امی سے کہا: کسی نے رشا کا ہاتھ مانگا ہے؟ امی نے کہا: نہیں۔ دادی کہنے لگیں: ناممکن۔ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ سبز پوشاک میں ملبوس ایک جوان ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں لا الٰہ کا پرچم اٹھائے‘ تیزی سے گھوڑے پر جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے لوگوں کا ایک جم غفیر ہے۔ اسی دوران مجھے آواز آئی۔ اگر اس جوان کی طرف سے پیغام ملے تو اسے اپنا بیٹابنا لو۔ دادی کی بات سن کر والد صاحب نے ابومحمد کے پیغام کا بتایا اور ہم نے ہاں کر دی۔ حالانکہ میں نے تب تک اسلامی تعلیمات کا زیادہ مطالعہ اور پابندی نہیں کی تھی‘‘۔

شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی کی شخصیت پر یتیمی سے تعلیم‘ تعلیم سے عملی اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی تک ہر جگہ اسی طرح ربانی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی اپنی یادداشت میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’شیخ احمد یاسین ہمارے لیے قائد‘ والد‘ مربی‘ استاد اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ پوری تاریخ میں ان جیسا باہمت شخص دکھائی نہیں دیتا کہ اس کے چاروں ہاتھ پائوں شل ہوچکے ہوں اور وہ عظیم جہادی تحریک کی قیادت کر رہا ہو۔ ان کی سب سے عجیب صفت یہ تھی کہ  وہ تنہا  دس آدمیوں جتنا کام کرتے تھے۔ پھر بھی نہ کبھی تھکن کی شکایت کی نہ کسی تکلیف کا ذکر کیا۔ وہ اپنی ہرمصیبت کا توڑ تلاوت قرآن کریم سے کرتے تھے۔ ہم ہمیشہ ان کے قریب رہ کر اس چشمہ ٔ صافی و شیریں سے سیراب ہونا چاہتے تھے۔ ایک بار ہم تمام ذمہ داران گرفتار تھے لیکن شیخ کو ہم سے دور کفاریونا جیل میں رکھا گیا تھا۔ میں ایک صبح‘ اور یہ رمضان کا آخری دن تھا‘ اٹھا اور میں نے دوستوں کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ میں شمال کی طرف جانے والی بس میں سوارہوں۔ ابھی میں نے خواب پورا نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا: ’’قیدی عبدالعزیز سامان باندھ کر جیل کے مرکزی احاطے میں حاضر ہو‘‘۔ پہنچتے ہی بس میں سوار کیا گیا اور شمال کی جانب رملہ جیل کی زیرزمین کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا۔ دودن رکھنے کے بعد کفاریونا جیل میں شیخ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ شیخ کی کوٹھڑی پر ایک نہیں تین تالے لگے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے سنتری سے کہا کہ شیخ تو ہاتھ کی جنبش تک نہیں کر سکتا‘ پھر اتنے تالے؟ اس نے روایتی جملہ کہا: اوپر سے حکم ہے۔

شیخ نے بہت محبت و بے تابی سے خوش آمدید کہا اور پھر میں اور ایک دوسرا ساتھی شیخ کی خدمت میں جُت گئے‘ انھیں کھلانے‘ نہلانے سے لے کر ان کی ہر ضرورت کا ہمیں ہی خیال رکھنا تھا۔ ایک روز شیخ کو لے کر کوٹھڑی میں سے نکل رہے تھے کہ سیڑھیوں میں ایک یہودی ڈاکو سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس نے لپک کر شیخ کا ہاتھ پکڑا اور چومتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ایک اور یہودی قیدی نے انگریزی میں پکار کر کہا: یہاں احتیاط سے رہو۔ یہ تمھیں یہاں اس لیے لائے ہیں کہ تم دونوں کی گفتگو ریکارڈ کر سکیں۔ ہم تو پہلے بھی محتاط تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود دشمن کے ذہن میں ہمیں یکجا کر دینے کی بات ڈال دی۔ اس قیدخانے میں شیخ سے جی بھر کے استفادے کا موقع ملا اور کئی عجیب و غریب واقعات کا مشاہدہ ہوا۔ ہر ہفتے ہمارے اہل خانہ کو آدھ گھنٹے کے لیے ملاقات کے لیے لایا جاتا تھا۔ ایک بار سب کے ملنے والے آگئے‘ میرے گھر والے نہ آئے۔ بے حد اداسی ہوئی‘ میں نے کوٹھڑی کے ایک کونے میں جاکر ہاتھ اٹھا دیے۔ پروردگار! میں تیرے بندے احمد یاسین کی جو خدمت کر رہا ہوں اگر تو اس سے راضی ہے تو مجھے میرے اہل خانہ کی طرف سے اطمینان نصیب فرما۔ اس ذات کی قسم جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا‘ ابھی میرے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ ایک سنتری نے پکارا: ’’عبدالعزیز رنتیسی تمھاری ملاقات آئی ہے‘‘۔ اس سنتری کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم ملاقات کے لیے جا رہے تھے کہ وہ میرے کان میں کہنے لگا: ’’شیخ کا خیال رکھا کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے شاید اس سے یہ الفاظ اس لیے کہلوائے تھے کہ مجھے شیخ کی خدمت کے قبول ہوجانے کی نوید مل جائے۔

حماس کے قائدین نے تمام اسلامی قائدین کی طرح جیلوںکو مؤثر ترین تربیت گاہوں میں بدل دیا تھا۔ ڈاکٹر رنتیسی کے الفاظ میں ’’جیل کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی صحبت میں زیادہ وقت گزرتا ہے‘‘۔ ایک بار انھیں اور دو دیگر قائدین کو تین ماہ کے لیے سخت ترین قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر رنتیسی کہتے ہیں: ’’ہمیں روزانہ صرف ایک گھنٹے کے لیے باری باری چہل قدمی اور بیت الخلا جانے کے لیے نکالا جاتا۔ ہفتے کے روز یہ وقفہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا سارا وقت قرآن کریم دہرانے میں ہی گزرتا۔ انجینیرابراہیم رضوان نے صرف ان تین مہینوں میں پورا قرآن حفظ کرلیا‘ جب کہ میں شیخ کے ساتھ کفاریونا جیل میں حفظ کرچکا تھا۔ یہاں دہرائی کرتا رہا۔

آزمایش کی ان بھٹیوں سے حماس کی قیادت ایسا کندن بن کر نکلی کہ سفاک ترین دشمن ہر ہتھکنڈے کے باوجود ان کی برپا کردہ تحریک جہاد کو مضبوط سے مضبوط تر ہونے سے نہیں روک سکا۔ ۱۹۸۷ء میں اعلان حماس کے بعد بنی صہیون نے یاسرعرفات کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو جلدی میں معاہدہ اوسلو تک پہنچا دیا‘ جس کے بعد اسرائیلی جیلوں کے علاوہ خود فلسطینی جیلیں بھی مجاہدین سے بھرنے لگیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ہر چال کو انھی پر لوٹا رہا ہے۔ نام نہاد امن معاہدے کا یہ ہتھکنڈہ‘ سیکڑوں شہید اور بالآخر ستمبر۲۰۰۰ء میں ارییل شارون کا مسجد اقصیٰ میں جاگھسنا‘ تحریکِ انتفاضہ کے اس بھرپور دوسرے مرحلے کا سبب بنا جو اب تک جاری ہے۔ سب تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اسے جاری رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

فرعون شارون نے بستیوں کی بستیاں خاکستر کر دینے کے باوجود‘ جہاد ختم کر دینے میں ناکامی پر فلسطینی قیادت کے قتل کا ظالمانہ منصوبہ بنایا۔ شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھے۔ صلاح شحادہ اور ابراہیم مقادمہ جیسے دسیوں لیڈر شہید کر دیے گئے۔ پھر ۲۲ مارچ کی صبح شیخ احمد یاسین اور ۱۷ اپریل کی شام ڈاکٹر رنتیسی پر امریکی ہیلی کاپٹراپاچی کے ذریعے راکٹ برساتے ہوئے دونوں کو ہمیشہ کے لیے جنت الخلد میں یکجا کر دیا گیا۔

دونوں کی شہادت پر پوری دنیا کے باشعور مسلمانوں اور عدل پسند انسانوں میں    صف ماتم بچھ گئی۔ شارون اور اس کے وزیردفاع موفاز نے خوشی سے معمور ہوتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ عبرانی ریاست کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے‘ ان کا خاتمہ ضروری تھا‘‘۔ لیکن کیا عبرانی ریاست کو لاحق خطرات ان دونوں کے خاتمے سے ختم ہوگئے؟ خود صہیونی اخبارات اس کا جواب دیتے ہیں۔

روزنامہ یدیعوت احرونوت کے ایک اہم ترین تجزیہ نگار عوفر شیلح نے لکھا: ’’شارون نے ان لوگوں کے قتل کے احکامات جاری کر کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں اسرائیلیوں کی موت کا پروانہ جاری کر دیا ہے۔ شارون نے یہ اقدام اپنے خلاف روز افزوں نفرت کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کیا‘ لیکن اسرائیلی عوام خود کو مزید غیرمحفوظ پاتے ہوئے شارون کو مکروہ سمجھنے میں مزید حق بجانب ہوں گے‘‘۔

اسرائیلی رکن کینٹ اور میرٹس تحریک کے سابق سربراہ یوسی سارید نے کہا: ’’تمام کے تمام ذمہ داران کو قتل کر کے بھی ہم حماس کا خاتمہ نہیں کرسکتے‘ بلکہ ہر لیڈر کے قتل کے بعد حماس پہلے سے زیادہ قوی تر ہوگی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ شارون کو ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجاے اسے سمجھنا چاہیے‘‘۔

اسرائیلی ٹی وی چینل ۲ کے مبصر اَمنون ابراموفتیش نے شیخ احمد یاسینؒ کی نماز جنازہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’کسی کو ہماری حکومت کے احمق ہونے اور وزیراعظم کے گھامڑ ہونے میں شک ہے تو اس جنازے کو دیکھ لے۔ احمد یاسین کے قتل سے حماس کو قوت کے سوا کچھ نہیں دیاجاسکا۔ اسے اب لاتعداد ایسے نوجوان ملیں گے جو انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا دفاعی پالیسیاں یونہی بنتی ہیں‘‘۔

روزنامہ ہآرٹسنے اپنے ۲۳مارچ ۲۰۰۴ء کے اداریے میںلکھا: ’’شارون کو اس اقدام سے پہلے اسرائیل کی طرف سے عباس موسوی کے قتل کے نتائج دیکھ لینے چاہییں تھے۔ اس کے بعد حسن نصراللہ حزب اللہ کا سربراہ بن گیا‘ جس کی قیادت میں حزب نے اسرائیلیوں کی نیندیں حرام کر دیں اور کسی عرب تنظیم کی طرف سے اسرائیل کو وہ شکست اٹھانا پڑی‘ جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی‘‘۔

یدیعوت احرونوت کے تجزیہ نگار الیکس فیشمان نے ایک بہت بڑی اور اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’’آج عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں کروڑوں نوجوان’اسرائیل مردہ باد‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے۔ احمدیاسین کا قتل ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ میں ایک اہم موڑ واقع ہوگا۔ اب اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس قتل سے ہماری جنگ اسرائیلی فلسطینی محدود محور سے نکل کر پورے عالمِ عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بن گئی ہے‘‘۔

شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کی شہادت کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط‘ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم‘ لبنان کے دارالحکومت بیروت اور کویت جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ پروگراموں میں سب سے زیادہ جوش و جذبہ شیخ احمد یاسین ؒاور ڈاکٹر رنتیسی کے نام پر پیدا ہوتا تھا۔ ہر جگہ ایک ہی نعرہ تھا: کُلنُّا احمد یاسین‘ کُلنُّا حماس، ہم سب احمد یاسین ہیں‘ ہم سب حماس ہیں۔یاشھید ارتاح ارتاح ، سنُو اصِلُ الکِفاح، اے شہید‘ اب  آرام و راحت سے رہو‘ جدوجہد و جہاد ہم جاری رکھیں گے۔

شارون کے خلاف نفرت میں سے برابر کا حصہ صدربش کے حصے میں بھی آیا کہ اس سے ملاقات و حوصلہ افزائی کے بعد ہی یہ جرمِ عظیم کیا گیا تھا۔ کویت میں منعقدہ تعزیتی اجتماع میں ایک کویتی نوجوان نے نظم پڑھی تو پورا مجمع شاملِ جذبات ہوگیا۔

تبت یداک زعیم امیریکا وتب -  صدر امریکا تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹیں تو ہلاک ہو۔

تبت یدا شارون نمرود الشغب - دہشت گردی کے سرخیل نمرود عصرشارون کے ہاتھ ٹوٹیں

تبت یدا العملاء من کل العرب -  تمام عرب ایجنٹوں کے ہاتھ ٹوٹیں۔

احمد یاسینؒ اور عبدالعزیز رنتیسیؒ نے شہادت سے پہلے عجیب سرشاری کے دن گزارے۔ شیخ جو مجموعہ امراض بن چکے تھے‘کی حالت اس رات بے حد نازک تھی۔ سیکورٹی کے باعث نوجوان انھیں ہسپتال سے بھی لے گئے اور گھرسے بھی۔ عشاء کی نماز کا وقت ہوا تو شیخ نے  حسب معمول مسجد جانے پر اصرار کیا اور پھر کہا: آج رات یہیں اعتکاف کروں گا۔ سحری تک تلاوت و نوافل کا سلسلہ جاری رہا۔ پیرکے مسنون روزے کی نیت کی‘ نماز فجر ادا کی اور پھر مسجد سے باہر آتے ہی تین امریکی میزائلوں نے چہرے کے علاوہ باقی سارے جسم کے چیتھڑے اڑا دیے۔ قیامت برپا ہوگئی۔ الجزیرہ نے شہید کا ایک جملہ بار بار سنایا جو شہید کا تعارف اور خلقِ خدا کی ان سے محبت کی اصل وجہ بیان کرتا ہے: أمَلی أن یرضی اللّٰہ عَنِّی، میںامید کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے راضی ہوگا۔

ڈاکٹر رنتیسی پہلے ہر ہفتے دو تین روز گھر آجاتے تھے۔ شیخ کی شہادت کے بعد ہفتے میں دو تین گھنٹے کے لیے ہی آپاتے تھے‘ وہ بھی بہت رازداری سے۔ ۱۷ اپریل کو فجر سے کچھ پہلے گھر آگئے۔ سب اہلِ خانہ کو جمع کر لیااور دن بھر ان کے ساتھ رہے۔ نمازِ مغرب کے بعد غسل و عطر کا اہتمام کیا۔ چھوٹے بھائی نے شوخی سے پوچھا: آج کہاں کی تیاری ہے؟ اپنی عادت کے بغیر ایک ترانے کے بول دہرانے لگے: أنْ تُدخِلَنِی رَبِّی الجَنَّۃ ، ھذا أقصٰی ما أتَمَنَّی،میرے پروردگار تو مجھے جنت میں داخل کر دے‘ یہی میری سب سے بڑی تمنا ہے۔ گھر سے نکلے چند منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ امریکی ہیلی کاپٹر اپاچی حملہ آور ہوا‘ شہید کی تمنا ہی نہیں‘ فیصلہ بھی اللہ نے پورا کر دیا۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’موت تو ہر ذی روح کو آنا ہے۔ مجھے اگر ہارٹ اٹیک یا اپاچی میں سے کسی ایک کے ذریعے مرنے کا اختیار دیا جائے تو میرا انتخاب اپاچی ہوگا‘‘۔

’اسلام کی حقیقی تعلیمات ہماری بنیاد‘ انصاف ہمارا راستہ اور ترقی و کامیابی ہماری منزل ہے‘ اس جلی بینر تلے مراکش کی اسلامی جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کا پانچواں اجتماع عام ہوا۔ ہرچار سال بعد ہونے والے اس اجتماع میں پارٹی کے انتخابات بھی ہوتے ہیں اور اہم پالیسیوں کا اعلان بھی۔ ۱۱‘ ۱۲اپریل ۲۰۰۴ء کو رباط میں ہونے والے اس اجتماع میں پہلی بار عالمِ اسلام سے بھی قائدین کو مدعو کیاگیا۔ محترم قاضی حسین احمد مہمانِ خصوصی تھے۔

افتتاحی اجلاس میں بیرونی مہمانوں کے علاوہ ملک کی تمام پارٹیوں کی قیادت‘ تمام غیرملکی سفرا اور حکومتی ذمہ داران کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ اجتماع رباط کے مدخل پر واقع ایک       وسیع و عریض سپورٹس سنٹر میں ہوا۔ ملک بھر سے آئے شرکا کے قیام و طعام اور پروگرام کے لیے مختلف بڑے ہال اور خیمے سجائے گئے تھے۔

انصاف و ترقی پارٹی کے پہلے سربراہ عبدالکریم خطیب کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۲۱ء ہے۔ ان کا شمار مراکش کی تحریک آزادی کے اہم کارکنان و قائدین میں ہوتا ہے۔ اسلام کو  مکمل نظامِ حیات کے طور پر سمجھنے کے بعد وہ مسلسل اس نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے مؤسسین اور رہنمائوں سے ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں‘ سیدمودودی رحمہ اللہ‘ مراکش میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کے لیے رباط گئے‘ تو ان کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔

انھوں نے پہلے بھی پارٹی کی قیادت کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی جو کارکنان کو قبول نہ ہوئی۔ لیکن اب ۸۳ سال کی عمر میں قویٰ زیادہ مضمحل ہوگئے تو حالیہ اجلاس میں ان کی سرپرستی میں‘ ایک متحرک‘ دانش مند اور فعال نوجوان ڈاکٹر سعدالدین عثمانی کو پارٹی کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ انصاف و ترقی پارٹی کا طریق انتخاب بھی جماعت اسلامی پاکستان کے نظام سے بہت مشابہ ہے۔ کوئی شخض خود امیدوار نہیں بن سکتا۔ ارکان نے خفیہ ووٹنگ سے چار افراد کے نام تجویز کیے‘ چاروں نوجوان تھے۔ ان میں سے مصطفی رمیدنے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر باصرار معذرت کرلی۔ باقی تین کے انتخاب کے لیے ہال میں متعدد بیلٹ بکس رکھ دیے گئے۔ ارکان نے اپنے اپنے رکنیت کے کارڈ دکھا کر بیلٹ پیپر حاصل کیے اور چند گھنٹوں کے بعد نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ ۱۵۹۵ ارکان نے ووٹ ڈالا تھا۔ ۲۰ ووٹ منسوخ ہوگئے‘ باقی میں سے ڈاکٹر عثمانی کو ۱۲۶۸ ووٹ ملے۔ پاکستان کی طرح مراکش میں بھی انصاف و ترقی ہی اکلوتی اسلامی پارٹی ہے‘ جس میں پارٹی کسی لیڈر کی باجگزار نہیں‘ ارکان جماعت صالح تر اور موزوں ترین کو‘ شفاف انتخابات کے ذریعے اپنا قائد چنتے اور تسلیم کرتے ہیں۔

انصاف و ترقی پارلیمنٹ میں‘ بادشاہ کی پارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی ہے۔ سب قومی و عالمی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ پارٹی جب بھی فیصلہ کرلے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی بننا ہے‘ تو اس کا راستہ روکنا ممکن نہ ہوگا۔ مراکش کی تاریخ‘ اردگرد کے حالات اور ملک میں راسخ ملوکیت کے نظام میں پارٹی کا فیصلہ‘ خود حکومت سنبھالنے یا حکومت میں شریک ہونے کے بجاے‘ مثبت اپوزیشن کے طور پر کام کرنا ہے۔ اس پالیسی کا اظہار ڈاکٹر عثمانی نے اپنی افتتاحی تقریر میں ان الفاظ میں کیا:’ ’ہماری پارٹی نے پوری بصیرت اور ذمہ داری سے اپوزیشن کا کردار چنا ہے‘ ایک مثبت‘ ناصح اور فعال اپوزیشن کا کردار‘‘۔

مراکش میں ملوکیت کا نظام ہے۔ موجودہ شاہ محمد السادس ابن شاہ حسن الثانی بھی اپنے باپ دادا کی طرح خود کو امیرالمومنین کہلاتا ہے۔ امارۃ المؤمنین کو ایک تقدس اور دوام حاصل ہے۔ حسن الثانی تو باقاعدہ عالمِ دین تھے۔ اکثرخطبہ بھی دیتے تھے۔ امیرالمومنین کی بیعت کا نظام بھی وراثت سے چلا آ رہا ہے۔ عبدالکریم الخطیب نے اپنے مختصر خطاب میں اس امر کا اعلان و اظہار بھی کیا کہ ’’میں اوائل عمر ہی سے امارۃ المؤمنین کے ادارے کومضبوطی سے تھامے رکھنے کا قائل ہوں کہ یہ ہمارے عقیدے کی شناخت ہے۔ اسی شناخت کی وجہ سے مراکش کو اسلام سے دُور لے جانے کی تمام سیکولر کوششیں ناکام رہیں‘‘۔الخطیب کا یہ اعلان مراکش کے نظامِ ملوکیت میں نسبتاً آزادی سے کام کرنے کا سبب بیان کر رہا تھا۔

کانفرنس میںمراکش کی اسلامی شناخت‘ پارٹی کے جامع پروگرام اور اُمت مسلمہ کے مختلف مسائل پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے بہت جوش و خروش اور من موہ لینے والے انداز سے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ان کے نعروں کا اسٹائل پاکستان سے یوں مختلف تھا کہ جو بول نعرے لگوانے والا کہتا وہی بول اس کے تمام شرکا بھی دہراتے۔ اس وقت سب کا جوش و خروش دیدنی ہوتا‘ جب پوری قوت سے پورے کا پورا اسٹیڈیم کہہ رہا ہوتا: لا الٰہ الا اللّٰہ- علیھا نحیا- وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ۔ یہ ان صلاتی ونسکی کا خوب صورت بیان تھا۔ فلسطین‘ کشمیر اور فلوجہ کے لیے بھی بار بار پکارا گیا: کلنا فداء فداء - فلسطین الصامدہ‘ کلنا فداء فداء - کشمیر الصامدہ، اے ثابت قدم فلسطین ہم سب تم پر سو جان سے فدا‘ اے ثابت قدم کشمیر… درج ذیل نعرہ پارٹی کی شناخت اور اسلام کو بطور کامل نظامِ حیات ماننے کا اعلان تھا: اسلام یا حاضرین‘ دین و دولۃ مجتمعین- قولوھایا سامعین ‘ لدعاۃ العلمانیۃ‘ حاضرین کرام اسلام دین بھی ہے‘ ریاست بھی‘ سامعین کرام یہ بات سیکولرازم کے پرچارکوں کو واضح طور پر بتا دو۔ شیخ احمد یاسین کی تصاویر بہت عقیدت و احترام سے سجائی گئی تھیں اور یہ نعرہ بار بار گونجتا تھا: عھداللّٰہ لن ننسی - یاسین والاقصٰی‘ اللہ کی قسم یاسین اور اقصیٰ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے!

پارٹی کی قیادت کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی نمایندگی کے لیے استقلال پارٹی کے ایک بزرگ رہنما ابوبکر الکیلانی کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے بھی مکمل اسلامی تعلیمات‘ اُمت اسلامی کی وحدت‘ اُمت کے خلاف تیار کی جانے والی سازشوں اور ان کے مقابلے کے لیے دین کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مہمانِ خصوصی محترم قاضی حسین احمد کو دعوت دی گئی تو پورے مجمع نے کھڑے ہوکر بھرپور استقبال کیا۔ کشمیرالصامدہ والا نعرہ دیر تک لگایا اور پھر سراپا خاموشی  بن کر امیرجماعت کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب فرما رہے تھے: میں یہاں اسی مقدس رشتے کو مضبوط و تازہ کرنے آیا ہوں جو طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کے عہد سے ہمارے درمیان قائم ہے۔ جس رشتے کی وجہ سے ہم سب یک دل‘ یک زبان اور یک رنگ ہیں‘‘۔ انھوں نے اندلس کی تہذیب رفتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’علامہ اقبال جب یورپ میں سلسلۂ تعلیم مکمل کر کے بحری جہاز میں سوار صقلیہ سے گزر رہے تھے تو انھوں نے صقلیہ میں اسلامی تہذیب کے زوال کا مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر ہے    ؎

رو لے اب دل کھول کر اے دیدئہ خوننابہ بار

وہ نظر آتاہے تہذیب حجازی کا مزار

کچھ مدت بعد وہ ہسپانیہ کے سفر میں جامعہ قرطبہ کے جوار میں‘ دریاے کبیر کے کنارے‘ شان دار ماضی کے ذکر کے ساتھ‘ روشن مستقبل کی تصویر دکھا رہے تھے    ؎

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

انھیں یہ تو یقین تھا کہ قافلۂ سخت جان محوسفر ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کس وادی میں  ہے    ؎

کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منزل میں ہے

عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں

آج یہ قافلۂ سخت جاں پوری دنیا میں اپنی منزلیں طے کر رہا ہے۔ مشکلات و مصائب ہرجانب سے امڈے چلے آ رہے ہیں‘ لیکن یہ تندی باد مخالف‘ شاہین کو اونچا اڑانے کے لیے ہے۔ امیر جماعت نے ۱۱ستمبر کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان اور عراق پر کی جانے والی جارحیت اور فلسطین و کشمیر سمیت مختلف خطوں میں ریاستی دہشت گردی کے شکار اعضاے اُمت کا بھی ذکر کیا اور اتحاد‘ تعلیم‘ حصول ٹکنالوجی‘ بھرپور محنت اور انصاف وترقی اور اس سب کچھ سے پہلے ایمان و تقویٰ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

دیگر کئی ممالک سے بھی اسلامی تحریکوں کے قائدین آئے ہوئے تھے جن میں حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے سیف الاسلام‘ اُردن سے اسلامی فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور‘ لبنان سے جماعت اسلامی کے رہنما اسعد ہرموش‘ فلوجہ سے عراقی علما کے نمایندے ڈاکٹرکبیسی اور تیونس‘ الجزائر‘ موریتانیا‘ ترکی سمیت کئی ممالک سے آئے رہنما نمایاں تھے۔ ایک اور نمایاں ترین شخصیت برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے تھے۔ عراق میں امریکی جارحیت اور جنگ کے خلاف‘ ایک ہی دن پوری دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے پیچھے قوت محرکہ کے طور پر کام کرنے والی ٹیم کے نمایاں ترین رکن جارج گیلوے ہی ہیں۔ جنگ مخالف تحریک (anti war movement)کی نمایندگی کرتے ہوئے انھوں نے مختصر لیکن جان دار خطاب کیا۔ انھوں نے امریکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: تمھیں عراق سے بالآخر نکلنا ہے‘ کئی خونیں شامیں دیکھ کر نکلنے سے پہلے آج ہی عراق سے نکل جانا چاہیے‘‘۔ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’مشرق وسطیٰ میں ایک ہی ملک ایسا ہے کہ جس کے ہتھیاروں کی وجہ سے پوری دنیا کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس ریاست کو اسرائیل کہا جاتا ہے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ میں نے جنین کیمپ پر ہونے والی جارحیت کے بعد وہاں کا دورہ کیا۔ وہاں شہریوں کے پاس سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ گھربار‘ کھانا پینا۔ صرف ایک ہی چیز باقی تھی اور وہ تھی: ’’حصول آزادی تک مزاحمت کا جذبہ‘‘۔ پورا مجمع پکار اُٹھا: الشعوب تقاوم- الانظمۃ تساوم‘عوام مزاحمت کر رہے ہیں لیکن حکومت سودے بازیاں۔ جارج گیلوے کی جامع‘ جذباتی اور مختصر تقریر ختم ہوئی‘ تو اسٹیڈیم دیر تک ایک ہی لَے سے گونجتا رہا: یکفینا یکفینا یکفینا الحروب - امریکا امریکا عدوۃ الشعوب‘قوموں کے دشمن امریکا‘ بس بس بہت جنگیں ہوچکیں۔

انصاف و ترقی پارٹی کو مراکش کی اسلامی تحریک کا سیاسی بازو کہا جاسکتا ہے۔ دعوتی اور تربیتی سرگرمیوں کے لیے بنیادی تحریک اسلامی ’تحریک توحید و اصلاح‘ کے نام سے کام کر رہی ہے۔ توحید و اصلاح کی علیحدہ سے منتخب قیادت‘ مجلس شوریٰ اور مکمل تنظیمی ڈھانچا ہے۔ یہ تحریک ۶۰کی دہائی سے کام کر رہی ہے۔ آغاز میں اس کا نام سید مودودیؒ اور ان کی تحریک کی نسبت سے‘جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد ۱۹۹۶ء میں دو تنظیموں: الاصلاح والتجدید اور رابطہ المستقبل الاسلامی کے انضمام کے بعد اس کا نام ’تحریک توحید وا صلاح‘ رکھا گیا۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر احمد الریسونی تھے جو بڑے اسکالر اور مفکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘ لیکن ملوکیت کے بارے میں ان کے ایک انٹرویو کو فرانسیسی اخبارات کی  طرف سے بہت زیادہ اچھالے جانے پر‘ پارٹی کی مشاورت سے ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو محمدالحمداوی کو سربراہِ تحریک چنا گیا۔ تحریک توحید واصلاح اور انصاف و ترقی پارٹی کو مختصر الفاظ میں ’یک جان دو قالب‘ کہاجا سکتا ہے۔ تحریک کے مرکز میں تمام مہمانوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ اور عصرانہ دیا گیا۔ اس دوران‘ اُمت کے مختلف مسائل پر سیرحاصل گفتگو بھی ہوئی۔

اس اجتماع کے بارے میں تفصیلات کے بعد‘ مراکش کی ایک اور اسلامی تحریک کا مختصر ذکر مناسب ہوگا۔ مراکش کی اس اسلامی تحریک کا نام ’تحریک عدل وا حسان‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک درویش خدامست‘ شیخ عبدالسلام یاسین ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق تعداد کے اعتبار سے یہ مراکش کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ لیکن شیخ عبدالسلام کو نظامِ ملوکیت پر بہت سخت اعتراض ہے۔ وہ کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس لیے ان کی پارٹی خلافِ قانون قرار دی جاچکی ہے اور شیخ سالہا سال کی قید اور نظربندی کی سزا بھگت چکے ہیں۔’العدل والاحسان‘ کے کارکنان بھی دنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور خاموش و پُرامن جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں۔ انصاف و ترقی پارٹی کے اجتماع عام میں وہ بھی موجود تھے اور   باقی سب شرکا کے ساتھ مل کروہ بھی بآواز بلند کہہ رہے تھے: لا الٰہ الا اللّٰہ - علیھا نحیا - وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ ، لا الٰہ الا اللہ‘ اسی پر جییں گے‘ اسی پر مریں گے‘ اسی کی خاطر جہاد کریں گے‘ اسی پر خدا سے ملیں گے!

۱۰ سے ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام قطر کی وزارتِ خارجہ نے واشنگٹن کے ایک فکری مرکز بروکنگز (Brookings) کے تعاون سے کیا تھا۔ اخراجات و وسائل قطرکے اور زیادہ تر پروگرام و افکار بروکنگز کے۔ طرفین نے آج سے ایک سال پہلے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا تھا۔ یہ اس فورم کی دوسری سالانہ سرگرمی تھی۔ اس برس کی کانفرنس‘ سابقہ سے یوں ممتاز تھی کہ اس میں دونوں طرف سے نمایندگی بھرپور تھی۔ امریکہ سے سابق صدر بل کلنٹن سمیت متعدد ذمہ داران اور سابق سفرا و دانش ور موجود تھے اور عالمِ اسلام کی ترجمانی کا حق علامہ یوسف قرضاوی اور محترم قاضی حسین احمد ادا کر رہے تھے۔

افتتاحی سیشن ہی سے پوری کانفرنس کا مزاج طے ہوگیا۔ امیرقطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے افتتاحی کلمات میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔ قطر میں اس کے لیے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے مستقل سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم ختم ہوئے بغیر خطے میں امن و امان ممکن نہیں۔ انھوں نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور عراق میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

افتتاحی خطاب کے بعد سب سے پہلے محترم قاضی حسین احمد کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انھوں نے اپنے جامع اور مؤثر خطاب میں حالات کی مکمل تصویرکشی‘ تباہ کن امریکی پالیسیوں اورمطلوبہ اقدامات کا احاطہ کیا (خطاب کا مکمل متن اسی شمارے میں دیکھیے)۔ ان کے بعد   علامہ قرضاوی نے بھی زوردار انداز میں کفار سے تعلقات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اہلِ کتاب میں سے غیرمتحارب عناصر کے ساتھ حسنِ سلوک کے قرآنی احکام واضح کیے اور پھر کہا کہ امریکہ اور ہمارے اختلافات کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ۱- اسرائیلی ریاست کی اندھی تائید و حمایت‘ ۲- امریکی دانش وروں اور پالیسی سازوں کا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام کو اپنا متبادل حریف قرار دے دینا۔ علامہ قرضاوی نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی جہاں بھی ہوئی ہے‘ ہم نے سب سے پہلے اس کی مذمت کی ہے‘ لیکن پھر بھی ہم ہی پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ امریکی پالیسی ۱۱ستمبر سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ۱۱ستمبر کے واقعات کو آگ پر پٹرول کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم باہم بہتر تعلقات اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل چاہتے ہیں‘ لیکن مقابل میں چاہتے یہ ہیں کہ ہمیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے دی جائے۔

علامہ قرضاوی کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر ہولبروک نے خطاب کیا۔ وہ مراکش میں بھی سفیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بوسنیا کے مسئلے میں امریکی کردار کے حوالے سے اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ تجربہ کار سفارت کار ہونے کے باوجود انھوں نے بہت جارحانہ اسلوب اختیار کیا۔ انھوں نے ایک طرف تو اس بات پر زور دیا کہ  مشرق وسطیٰ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے‘ اس لیے اس پر زیادہ گفتگو نہ کی جائے وگرنہ ساری کانفرنس میں یہی گفتگو ختم نہ ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی درشت الفاظ میں کہا کہ ’’ہم کبھی بھی اسرائیل کی مدد سے پیٹھ نہیں پھیریں گے‘‘۔ ’’اسرائیل ایک جمہوری‘ آزاد اور اقوامِ متحدہ کا رکن ملک ہے۔ ہم اس پر اپنی پالیسیاں ٹھونس نہیں سکتے‘‘۔

انھوں نے ۱۱ستمبر کے واقعات کی سنگینی پر بھی زور دیا اور اس امر پر بھی کہ ’’ہمیں اس کانفرنس میں صحت‘ تعلیم اور غربت جیسے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں بھی ایڈز بہت پھیل چکی ہے‘ ہمیں اس پر بات کرنا چاہیے‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں امریکی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتا‘ میں تو آرزو کرتا ہوں کہ اختتامِ سال سے پہلے پہلے یہ حکومت تبدیل ہو جائے (اس پر اکثر شرکاے کانفرنس نے انھیں تالیوں اور قہقہے سے داد دی)۔ بعد میں امریکی سیاست سے باخبر لوگوں نے بتایا کہ ہولبروک بش انتظامیہ کے سخت نقاد ہیں۔اگر ڈیموکریٹس جیت گئے تو انھیں ان کی حکومت میں اعلیٰ عہدہ مل سکتا ہے۔ اگرچہ تقریر میں ان کا لہجہ کرخت تھا لیکن بعد میں وہ محترم قاضی حسین احمد سے کہتے رہے کہ ’’کاش! صدر بش بھی آپ کی تقریر اور یہاں ہونے والی گفتگو سن سکتا۔

ہولبروک کے بعد اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈک نے بھی تقریباً انھی خطوط پر گفتگو کی۔ افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا تو اکثر شرکا کی زبان پر محترم امیرجماعت کی متوازن‘ جامع‘ جرأت مندانہ اور مسلم اُمت کی ترجمان تقریر کا ذکر تھا۔ افتتاحی سیشن کے اختتام پر عشایئے کا انتظام تھا اور اسی میں مزید سوال و جواب کے لیے افتتاحی سیشن والا چار رکنی پینل موجود تھا۔

محترم قاضی حسین احمد اور علامہ قرضاوی نے وہاں ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا کہ صحت‘ تعلیم‘ غربت‘ یقینا اہم مسائل ہیں اور ان کے لیے بلاتفریق و تعصب پوری دنیا کو جدوجہد کرنا چاہیے‘ لیکن یہاں جس مکالمے اور مذاکرات کی بات ہو رہی ہے وہ سیاسی اختلافات کے حوالے سے ہے۔ ان پالیسیوں اور سیاسی اختلافات کو جرأت سے زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔

اگلے دو روز گروپ ڈسکشن کے لیے وقف تھے جن میں ۱۲ مختلف موضوعات زیربحث آئے۔ ان میں جمہوری اقدار‘ امریکہ عالمِ اسلام کے تعلقات کا مستقبل‘ دونوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے وسیلے‘ ذرائع ابلاغ کا کردار‘ اسلام اور امریکہ کے متعلق پایا جانے والا عمومی تاثر‘ نمایاں تھے۔ ان اور دیگر موضوعات پر ۱۵۰ کے قریب امریکی و مسلم دانش وروں نے چھ مختلف اجلاسوں اور ۱۲ گروپوں میں بات کی۔ شرکا میں سابق و حالیہ کئی وزرا بھی تھے‘ جیسے عراق کے وزیر پٹرولیم‘ اُردن کے وزیرخارجہ‘ فلسطین کے وزیر اطلاعات اور سابق وزیرداخلہ۔ امریکی شرکا میں بڑی تعداد سابق سفرا اور بروکنگزکے دانش وروں کی تھی۔ اکثر شرکا امریکی نقطۂ نظر سے قریب سمجھ کر بلائے گئے تھے‘ جب کہ جماعت اسلامی‘ علامہ یوسف قرضاوی اور اسلامی پارٹی ملائشیا کے وفود کو شاید کانفرنس کی ساکھ کی خاطر اور ان سے ان کی حقیقی سوچ براہِ راست سننے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے بھی باہم اور بیرونِ ملک بعض احباب سے مشورے کے بعد اسی ارادے سے شرکت کی کہ صحیح موقف براہِ راست سنایا جائے‘ ان کا موقف سنا جائے۔ پاکستان سے بلائے جانے والے دیگر شرکا کی فہرست دیکھ کر آپ کو عالمِ اسلام کے دیگر شرکا کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہاں سے محترم امیر جماعت ‘ جنرل (ر) طلعت مسعود‘  فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر اعجاز حیدر‘ معروف صحافی ایازمیر‘ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین‘ جماعت کے شعبہ امورخارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف لقمان اور راقم نے شرکت کی۔ ان مختلف الخیال اور   ’’مختلف المشرب‘‘ ‘افراد نے موقع ملنے پر قومی اور ملّی موقف کی اچھی ترجمانی کی۔

علامہ یوسف قرضاوی‘ کانفرنس کے بعد ایک نجی نشست میں فرما رہے تھے کہ افتتاحی سیشن میں ہونے والی زوردار تقاریر سے تمام شرکا کی ایک جہت کا تعین ہوگیا‘ اور بظاہر دین اور دینی تعلیمات سے بہت دُور نظر آنے والے بعض افراد نے بھی حق بات کہی۔

اگرچہ اکثر منتظمین بار بار کہہ رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ اور عرب اسرائیل مسئلے کو چھوڑ کر صحت اور تعلیم جیسے مسائل پر بات کی جائے لیکن کانفرنس کے دوسرے روز ظہرانے پر ہونے والی گفتگو کا عنوان ہی ’’مشرق وسطیٰ کا مسئلہ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کے تمام شرکا بہت سوچ سمجھ کر رکھے گئے تھے۔ پینل میں کوئی بھی مکمل حق کہنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اُردنی وزیرخارجہ مروان المعشر‘ فلسطینی  سابق وزیراطلاعات یاسر عبدربہ‘ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک اور سابق اسرائیلی نائب وزیراعظم امنون شاحاک‘ سب نے وہی بات کی جس کی ان سے توقع تھی۔ فلسطینی نمایندہ اس قدر بودا تھا کہ ان کی اسٹیج پر موجودگی کے دوران ایک مقرر نے ان کے سربراہ یاسرعرفات کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ کہہ دیے‘ لیکن وہ اس پر مؤدبانہ احتجاج بھی نہ کرسکے یا کرنا ہی نہیں چاہا۔ کئی شرکا نے آرزو کی کہ کاش! اس سیشن میں علامہ قرضاوی یا قاضی صاحب بھی شریک ہوتے۔

آخری سیشن میں صرف قطری وزیرخارجہ اور صدر بل کلنٹن کا خطاب تھا۔ ایک امریکی سیاست دان اور سابق صدر کی حیثیت سے انھوں نے بہت اچھی تقریر کی اور اپنے تمام اصولی و قومی موقفوں پر مضبوطی سے جمے رہنے کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بھی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمان علما کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اسلام کو اور عالمِ اسلام کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۱۱ستمبر کے بعد صدربش کا سب سے اچھا اقدام واشنگٹن میں اسلامی مراکز و مساجد کا دورہ کرنا تھا۔ انھوں نے اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ دنیا میں امریکہ سے نفرت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے‘ حالانکہ ان کے بقول امریکہ عالمی امن و سلامتی کے لیے کوشاں ہے۔

مشرق وسطیٰ اورفلسطین کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوامِ متحدہ نے وجود بخشا ہے۔ اس کے لیے ہماری مدد جاری رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دو اچھے پڑوسی ریاستوں کی حیثیت سے جیئیں۔ انھوں نے اس امر پر بھی اصرار کیا کہ مسلم دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں نہ دیکھے۔ ہمارے اور آپ کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ شاید اس لیے کہ اگر دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں دیکھے گی تو ہمارا ناانصافی اور دوہرے معیار کھل کر سامنے آجائیں گے۔ ہمارے خلاف اس کی نفرت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ’’ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظرمیں نہ دیکھیں‘‘۔

صدر کلنٹن کے خطاب کے بعد دو تین سوالات کا بھی موقع دیا گیا۔ مشاہد حسین نے سوال کیا: ’’۱۱ستمبرکے بعد امریکہ نے ایک بے نام‘ بے وطن اور بلاچہرہ دشمن کے خلاف بڑی جنگ شروع کر دی ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس جنگ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اگر صدر بش کے بجاے آپ وائٹ ہائوس میں ہوتے تو کیا آپ بھی وہی کرتے جو صدر بش کر رہے ہیں؟‘‘

بہت تردد اور بوجھل ہوتی ہوئی خاموشی کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہاں‘ میں بھی یہی کرتا اور پھر دہشت گردی کی سنگینی کے تناظر میں اپنے اس موقف کی وضاحت کرنے کی مختصر کوشش کی‘‘۔

اختتام پر ہولبروک محترم قاضی حسین احمد کے پاس آئے اور انھیں ساتھ لے جا کر صدرکلنٹن سے ان کا تعارف کروایا۔ دونوں کے درمیان مختصر جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس طرح     یہ کانفرنس امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان رابطے اور مذاکرات کی اچھی کوشش ثابت ہوئی۔ اگر تعصب اور مفادات سے بالاتر ہوکر اس کوشش کو جاری رکھا گیا تو ٹھوس بنیادوں پر       باہمی مذاکرات ناممکن نہیں رہیں گے۔

فرانس کو روشنیوں‘ خوشبوئوں‘ فنون اور آزادی کا ملک کہا جاتا ہے۔ عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا کر‘ عالمی سیاست میں بھی فرانس اور جرمنی نے اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ میں مقیم ۲ کروڑ مسلمانوں میں سے ۶۰لاکھ صرف فرانس میں رہتے ہیں‘ ۳۰ لاکھ جرمنی میں اور تقریباً ۲۰ لاکھ برطانیہ میں۔ فرانس میں زیادہ تر مسلم آبادی شمال مغربی افریقی ممالک الجزائر‘ تیونس‘ مراکش اور چنددیگر افریقی ممالک سے آکر بسی ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پندرھویں اور سولھویں صدی میں ہی فرانس منتقل ہوگئی تھی۔ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد اندلس میں ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا تو۳لاکھ افراد ملک بدری پرمجبورہوگئے‘ جب کہ اس سے کئی گنابڑی آبادی شہید کر دی گئی۔گذشتہ صدی کے آغاز میں سمندر پار پڑوسی ممالک پر فرانسیسی استعمار‘منظم ثقافتی حملوں اور قرب مکانی کی وجہ سے بھی ان ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ فرانس جا بسے۔ عالمی جنگوں کے خاتمے کے بعد فرانس کی تعمیرنو کے لیے مطلوب افرادی قوت بھی زیادہ تر یہیں سے حاصل کی گئی۔

دورِحاضرمیں فرانسیسی مسلمانوں کی اکثریت وہاں صرف مہاجرت نہیں بلکہ شہریت اور برابری کی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۹۱۷ء میں فرانس میں پہلی باقاعدہ اسلامی کونسل بنی۔ ۱۹۲۶ء میں اس نے بڑی پیرس مسجد بنائی۔ ۱۹۸۲ء میں ایک قانون کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی تنظیمیں اور ادارے رجسٹرڈ کروانے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی اور اب وہاں بڑی تعداد میں مسلم ادارے تعلیمی‘ ثقافتی‘ علمی اور تربیتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔

مسلمانوں اورفرانس کے تعلقات کی پوری تاریخ میں یہ پہلو اہم ترین رہا ہے کہ انھیں کیونکر فرانسیسی تہذیب و ثقافت میں ڈھالا جائے۔ عہداستعمار میں الجزائر اور پڑوسی ممالک ان کوششوں کا بنیادی ہدف رہے۔ عربی زبان کو عرب ممالک میں اجنبی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لباس و طعام یکساں کر دیے گئے اور ہر طرف فرانسیسی تہذیب غالب ہوتی چلی گئی۔ فرانس کے اندر بھی یہ کش مکش جاری رہی لیکن نرمی اور خاموشی سے۔ اکثریت اس بات کو اپنا فطری حق سمجھتی ہے کہ اپنی تہذیب وثقافت اقلیت کی زندگی میں غالب کر دے۔

فرانسیسی مسلمانوں نے پورے اخلاص و محنت سے فرانس کی تعمیرمیں حصہ لیا‘ فرانس کے قوانین کا احترام کیا اور فرانس کے قومی مفادات کو اپنے مفادات سمجھا۔ فرانس کے سیکولر قوانین نے ہر شہری کو دین و اعتقادی آزادی کی ضمانت دی۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی فرد یا ادارے نے کسی مسلم فرانسیسی کی آزادی مذہب کو مقید کرنا چاہا تو خود اعلیٰ سطحی حکومتی ذمہ داروں نے مداخلت کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کو دُور کر دیا۔ ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۲ء میں جب بعض طالبات کو حجاب‘ یعنی اسکارف سے منع کرنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے اسٹیٹ کونسل نے یہ فیصلہ دیا کہ ’’دینی شعائر کا التزام ریاست کے سیکولر نظام سے متصادم نہیںہے‘‘۔

حال ہی میں سابق فرانسیسی وزیر برنرسٹازے کی زیرصدارت تشکیل پانے والی کمیٹی نے یہ کہتے ہوئے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے کہ ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر مدارس میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح مسلم طالبات کے حجاب‘ عیسائیوں کے صلیب کے نشان اور یہودیوں کی مختصر ٹوپی کیپا‘ تعلیمی اداروں میں ممنوع قرار  دے دیے گئے ہیں۔ صدر شیراک نے تیونس کے ایک مدرسے کا دورہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ’’مکمل سیکولر فرانسیسی حکومت طالبات کواجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں۔ حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’فرانس میں مسلمانوں کی اکثریت سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے اور ہماری حکومت فرانس ہجرت کرجانے والوں کواپنے ماحول و معاشرے میں ڈھالنے کی پوری سعی کر رہی ہے۔ لیکن ظاہری دینی علامتوں اور دوسروں کو کھلم کھلا اپنے دین کی طرف بلانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ اس سے پہلے فرانسیسی وزیراعظم جان پیررافاران بھی کہہ چکے تھے کہ ’’سرکاری اسکولوں میں حجاب کو بہرصورت مسترد کر دینا چاہیے‘‘۔

برنرسٹازے کمیٹی نے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں ایک طرف تو دینی ’’علامت‘‘ قرار دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا۔ ساتھ ہی مسلمان کمیونٹی کے لیے عیدالاضحی اور مسیحیوں کے لیے عیدغفران کو سرکاری چھٹی قرار دینے کی سفارش کی تاکہ مذاہب کی آزادی کا تاثر باقی رہے۔

یہ سفارشات تیار کرتے اور حکومت کی طرف سے انھیں منظور کرتے ہوئے جس    بڑی حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی وہ اسلام میں حجاب کی حیثیت و اہمیت ہے۔  فرانسیسی حکمران یقینا جانتے ہوں گے کہ اسلامی حجاب‘ مسیحی صلیب یا یہودی کیپا کی طرح کوئی علامت نہیں‘ خالق کی طرف سے قرآنِ کریم و سنت نبویؐ میں دیا جانے والا صریح حکم ہے۔ مسلمانوں میں یہ فقہی اختلاف تو رہا ہے کہ حجاب کی کیفیت و حدود کیا ہوں‘ چہرے کو ڈھانپا جائے یا چہرہ و ہاتھ کھلے رکھتے ہوئے باقی پورا جسم ڈھانپا جائے‘ لیکن کوئی بھی مسلمان اس امرِقرآنی کا انکار نہیں کرسکتا کہ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص (النور۲۴: ۳۱)‘خواتین اپنی چادریں (سر کے علاوہ) اپنے سینوں پر بھی ڈالے رکھیں۔

اس حیرت ناک فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مختلف فرانسیسی ذمہ داران کی طرف سے مختلف مضحکہ خیز تاویلات سامنے آئیں۔ کبھی کہا گیا: ’’طالبات کو ان کے گھر والوں کی طرف سے حجاب پر مجبور کیا جاتا تھا‘ انھیں اس جبر سے نجات دلانا مقصود ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’خواتین و مرد برابر ہیں۔ حجاب سے مرد و زن میں تفرقہ رواج پاتا ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’مذہبی تفریق کو بلاتفریق ختم کر دیا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی پابندی عائد ہوئی ہے‘‘۔ لیکن ان تمام تاویلوں کا بودا پن خود یہ تاویلیں پیش کرنے والوں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔ اگر صلیب و کیپا کے ساتھ ہلال و ٹوپی کا تقابل ہوتا تو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی لیکن یہاں تو سارے کا سارا ہدف ہی مسلمان ٹھیرے کہ وہ اپنے رب کا حکم مانیں یا فرانسیسی حکومت کا۔

سابق وزیرتعلیم کلوڈ الاجر نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیکولرازم کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھلنا‘ اسلام کو فرانسیسی سیکولرازم کے مطابق ڈھلنا ہوگا‘‘۔ اسی طرح کی ایک بات ۱۶۰۰ عیسوی میں پیڈروفرانکیزا نے اپنے آقا شاہ فلپ سوم سے اپنی سفارشات میں کہی تھی۔ اس نے کہا تھا: ’’ہمیں ہرممکنہ اقدامات کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس بات سے روکنا ہوگا کہ وہ اپنے مُردوں کو اپنے دینی رواج کے مطابق دفن کریں۔ ہمیں ان کی زبان‘ ان کا مذہبی لباس‘ حلال گوشت پر ان کا اصرار‘ ختم کرنا ہوگا۔ ان کی مساجد و مدارس اور حمام ڈھا دینا ہوں گے‘‘۔ لیکن جب ان سفارشات پر عمل درآمد کروانے کی ہرممکن کوشش کرنے کے بعد بھی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اسی فرانکیزا نے دوبارہ لکھا: ’’ان مسلمانوں سے خیر کی اُمید نہیں۔ یہ موت قبول کرلیں گے‘ اپنی دینی روایات نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

حالیہ فرانسیسی فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے لاتعداد تجزیے لکھے گئے ہیں لیکن ہالینڈ سے ایک عرب تجزیہ نگار یحییٰ ابوزکریا کا یہ تبصرہ اہم ہے کہ ’’فرانس میں اتنی بڑی مسلم آبادی ہے کہ ان کی خواتین کے مقدس و عفیف حجاب نے فرانس کے عریاں و فحش کلچر کو خطرے میں ڈالنا شروع کر دیا تھا‘‘۔ جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ ان میں اور خود غیرمسلموں میں بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہی کا شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں خود مغرب میں جنم لینے اور پرورش پانے والے مغربی مسلمان نوجوان مغرب کے لیے بڑا   سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ یہ نوجوان انھی کی زبان‘ انھی کی اٹھان رکھتے ہیں۔ اپنے قانونی و اخلاقی حقوق و فرائض سے آگاہ ہیں‘ شراب و شباب کی غلاظت سے محفوظ ہیں اور اپنے دین کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی و مقدس سمجھتے ہیں۔ اس نسل کو اس ’’متشدد دینی سوچ‘‘ سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس عجیب فرانسیسی فیصلے پر مختلف اطراف کا ردعمل بھی عجیب تھا۔ صدربش نے جو مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے سرخیل ہیں‘ اسکارف کے حق میں بات کی اور کہا کہ مسلم خواتین کو یہ حق ملنا چاہیے کہ اپنے مذہب کے مطابق سر پر اسکارف رکھ سکیں۔ امریکہ میں بھی اس کی آزادی ہے۔ دوسری طرف عالمِ اسلام کے تاریخی مرجع جامعہ الازھر کے سربراہ محمد سیدطنطاوی نے ارشاد فرمایا: ’’اسکارف کے خلاف احکامات فرانس کا اندرونی مسئلہ ہے‘ ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ فرانس کو اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کا حق ہے۔ جو مسلمان خواتین فرانس میں رہتی ہیں وہ اضطرار کی حالت میں اسکارف چھوڑ سکتی ہیں‘‘۔ البتہ جامعہ الازھر کے باقی علماے کرام اور خود مفتی مصر نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’حجاب صریح حکم خداوندی ہے۔ کوئی علامت یا اختیاری امر نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ خالق کے حکم سے متصادم احکام جاری کرے‘ یا ان پر عمل درآمد کرے۔ یہی موقف مغرب ومشرق میں مسلم اکثریت کا ہے۔ ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو یورپ کے اکثر اور لبنان‘مصر‘ اُردن‘ ترکی‘عراق سمیت متعدد ممالک میں ہزاروں خواتین کے مظاہروں اور اجتماعات میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا۔

۱۱ دسمبر کو برنر سٹازے کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے پہلے صدرشیراک نے ۳ سے ۵دسمبر کو تیونس کا دورہ کیا اور تیونس میں حجاب پر پابندی کی توصیف و ستایش کی۔ فرانسیسی اخبارات نے ’’بے پردہ تیونس‘‘ کے عنوان سے بڑی بڑی سرخیاں سجاتے ہوئے فرانس کے کئی علاقوں میں یہ اخبار مفت تقسیم کیا۔ واضح رہے کہ تیونس ایسا اکلوتا مسلم ملک ہے جہاں کے دستور میں اسکارف پر پابندی (شق ۱۰۸) ہے۔ سر پر اسکارف رکھنے والی خواتین کو تعلیم‘ ملازمت‘   حتیٰ کہ علاج کے حق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ترکی میں بھی یہ مسئلہ گمبھیر ہے لیکن وہاں یہ پابندی دستور میں نہیں‘ اعلیٰ تعلیمی کونسل کے احکامات کے طور پر لاگو ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر پابندیوں‘ تعذیب اور سزائوں کے باوجود ان دونوں ممالک میں بھی اسکارف رکھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکمران اس اضافے پر حیران و ششدر ہیں۔ فرانس میں یہ پابندی لگنے کے بعد وہاں بھی اس تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ عام مسلمانوں کے دل میں یہ احساس قوی تر ہوا ہے کہ فرانس میں لگنے والی اس پابندی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا‘ تو یہ وبا دیگر مغربی ممالک میں بھی پھیلتی چلی جائے گی۔ اب بلجیم سے بھی یہ صدا اٹھی ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈوں کی تصویر میں تمام خواتین کا ننگے سر ہونا ضروری ہے۔ فرانس میں اس پابندی پر احتجاج اس متعدی مرض کو پھیلنے سے روکنے کی ایک لازمی تدبیر بھی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ: ’’دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی روشن چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اصولی طور پر ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ: ’’پاکستان کو ایک ماڈرن ترقی پسند معتدل اسلامی ریاست بنانا چاہیے‘‘۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ اسلام کے جدید تصور اور ماڈرن اسلامی ریاست کے نام پر کمال اتاترک اور متعدد حکمرانوں نے جو گل کھلائے ہیں اور پرویز مشرف نے جس طرح انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے‘ اس سے یہ سوال ایک گہری تشویش میں بدل جاتا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام دورئہ امریکہ سے واپسی کے فوراً بعد ان کے دورئہ تیونس نے کیا ہے جہاں انھوں نے تیونس کے ساتھ یہ انوکھا معاہدہ کیا کہ ’’دونوں مسلم ممالک مل کر اسلام کا جدید ماڈل پیش کریں گے‘‘۔ اس سے پہلے اس نوعیت کا معاہدہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا ہوگا۔

تیونس کے حالات سے بے خبر پاکستانیوں کے لیے یہ شاید کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو‘ لیکن جو شخص تیونس اور اس کے ماڈرن اسلام کا حال جانتا ہے‘ اس کے لیے یہ معاہدہ کسی خوف ناک المیے سے کم نہیں کیونکہ سابق صدر بورقیبہ اور حالیہ صدر بن علی نے جدید اسلام کے نام پر تمام دینی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ روزہ تک ساقط کر دیا‘ نماز پڑھنا دہشت گردوں کی علامت قرار دے دیا گیا‘ عریانی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئی‘ ساحل سمندر پر مغربی ممالک جیسے نظارے عام ہوگئے۔ خواتین کے مساویانہ حقوق کے نام پر قرآن کریم کے وراثتی احکام کو منسوخ کرتے ہوئے ہر خاتون کو وراثت میں مرد کے مساوی حصہ دینے کا اعلان کیا‘ شراب جیسی اُم الخبائث کی ہر ممکنہ حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک طویل فہرست ہے جو ماڈرن اسلام کے نام پر مسلط کی گئی۔

’’جدید اسلام‘‘ پیش کرنے کی یہ کوئی پہلی یا آخری کوشش نہیں ہے۔ گذشتہ صدی میں ترکی اور مصر سمیت مسلم ممالک کے کئی حکمران یہ جنون پال چکے ہیں۔ اب بھی امریکی سائے تلے پلنے کی خواہش رکھنے والے حکمران اسی کینسرکا شکار ہیں۔ فلسطین میں تحریک مزاحمت ختم کرنے اور صہیونی ریاست سے دوستی کروانے کے لیے گذشتہ پوری دہائی ان کوششوں میں صرف ہوگئی کہ جہاد سے متعلقہ تمام قرآنی آیات‘ احادیث رسولؐ اور مضامین و تحریروں کو تمام تعلیمی نصابوں سے خارج کر دیا جائے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اب اسی راستے پر مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایک تیونسی ’’اسکالر‘‘ العفیف الاخضرنے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے ذرا دل تھام کر اس کا حال بھی سن لیں۔

۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اس نے کہا کہ ’’عالم اسلام میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا اصل سبب یہ ہے کہ مسلمان اب بھی زمانہ قدیم کی اسی فقہ کو درست سمجھتے ہیں جو غیرمسلموں کی تقلید کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔ ہماری دینی نرگسیت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اسلام آنے کے بعد تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فقہ اسلامی کی ڈکشنری سے لفظ ’’کفار‘‘ خارج کر دیا جائے‘‘۔الاخضر نے اس بات پر فخر کرتے ہوئے کہ ۱۹۵۶ء میں اسی کی تحریک پر جامعہ الزیتونہ بند کی گئی تھی۔ تجویز دی کہ ’’تمام مسلم دارالحکومت اپنے ہاں تیونس کے تجربات پر عمل کریں‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’تمام عرب ممالک کو زندگی کے ہر شعبے میں انسانی حقوق کی تعلیم دینا چاہیے جیسا کہ تیونس میں ہو رہا ہے تاکہ اس اسلامی شعور سے چھٹکارا پایا جا سکے جو حلال اور حرام کے چکروں میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔ اس نے مغربی دنیا کو عالمِ اسلام میں براہِ راست مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ’’دینی دہشت گردی کا خطرہ مغرب تک جاپہنچنے کے بعد اب یہ آپ کی اپنی ضرورت بھی ہے کہ آپ دینی تعلیم میں اصلاحات کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں‘‘۔

ایک اور نام نہاد مسلم دانش ور ڈاکٹر حیدر ابراہیم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مسلمانوں کی پستی کی وجہ ان کا اس اختلاف میں پڑے رہنا ہے کہ کیا نص ناقابلِ تبدیلی ہے یا اسے زندگی کے معاملات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے… مسلمان زندگی کے متعلق سوچنے سے زیادہ آخرت کے متعلق سوچتے ہیں‘‘۔ پھر مزید کھل کر کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس طرح کی آیاتِ قرآنی کے سحر سے نکل آنا چاہیے کہ ’’کنتم خیر اُمۃ اخرجت للناس… تم بہترین اُمت ہو‘ لوگوں کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘ کیونکہ اس آیت سے (نعوذباللہ) تکبر اور تعلّی پیدا ہوتی ہے۔

اسی کانفرنس میں ایک اور عرب دانش ور اڈوینس نے ان دونوں کی باتوں کو اپنی مسیحیت کے لبادے میں زیادہ وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس نے کہا: ’’معلوم نہیں ہم یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ کیا واقعی ثقافتی تجدید اور صراحت سے بات کرنے کے لیے یا اب بھی ممنوعات (taboos) پر سکوت اختیار کرنے کے لیے؟ تم لوگ بصراحت کیوں نہیں کہتے کہ ترقی کی راہ میں سب سے پہلی رکاوٹ وحیِ الٰہی اور اسلام ہے۔ اس بات کو پوری جرأت اور صراحت سے بیان کرنا ہوگا ورنہ ترقی نام کی کوئی چیز وجود میں نہیں آسکے گی‘‘۔

بدقسمتی سے اڈوینس نے یہ خرافات سرزمین ازھر پر مصری وزیرثقافت کی طرف سے بلائی گئی ایک کانفرنس میں کی۔ اس کے تمام شرکا اسی قبیل کے تھے‘ اور یہ سب کچھ تجدید کے نام پر ہو رہا تھا اور امریکی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہو رہا تھا۔ امریکی پیمانے کے مطابق یہ سب اقدامات ماڈرن اسلام کی ضروری بنیادیں ہیں۔ ان اقدامات اور دردیدہ دہنی کے بعد ہی کوئی شخص معتدل اور جدت پسند ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے سرگرم متحرک یہودی ڈینئل پائپس سے پوچھا گیا کہ ’’کیا عربوں اور مسلمانوں میں بھی کوئی معتدل افراد پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے شدت سے نفی کرتے ہوئے کہا: ہرگز نہیں۔ پھر کہا: ہاں البتہ سلمان رشدی اور تیونسی صدر زین العابدین  بن علی اعتدال پسند شخصیات ہیں‘‘۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۸۶‘ جنوری ۲۶- ۲۰۰۲ئ)

گذشتہ ۳۰ سال میں جنرل پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران ہیں جو تیونس کے دورے پر گئے اور وہاں تاریخ کا یہ منفرد معاہدہ کر آئے۔اس معاہدے کے بعد خود تیونس کے عوام نے پاکستان اور اس کے حکمران کے بارے میں کیا تصور قائم کیا ہوگا‘ جنرل صاحب اور ان کے کسی ساتھی کو اس کی کوئی پرواہ نہ ہو۔ لیکن جنرل صاحب کے سامنے یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ تیونسی صدر حبیب بورقیبہ کی سالہا سال کی کوششوں اور بن علی کے سولہ سالہ اقتدار میں دین کے تمام سوتے خشک کر دینے کے منصوبوں کے باوجود ان دنوں تیونسی حکمران پریشان ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے خواتین میں حجاب کا اور مساجد میں نمازیوں کا تناسب اچانک کیوں بڑھ گیا ہے۔ ’’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ کے مصداق ماڈرن تیونس کے حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُور رکھنے کے لیے کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہوا میں مچھلیاں پالنا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب حقائق جنرل پرویز مشرف سے مخفی تھے یا یہ کہ انھی حقائق کی وجہ سے انھیں تیونس کے ساتھ جدید اسلا م متعارف کروانے کے لیے معاہدوں کے سفرپر بھیجا گیا اور کیا واقعی جنرل مشرف رشدی‘ بن علی کے ساتھ ایک تیسرے مسلمان کا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وقت بہت جلد ان سوالات کا جواب دینے والا ہے۔ لیکن خود جنرل صاحب خالق کائنات اور پاکستانی قوم کو کیا جواب دیں گے؟ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کی امین پاکستانی قوم کو؟

مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست کا پرچم امن معاہدوں اور روڈمیپ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ سفیدپرچم کے وسط میں چھ کونوں والا دائودی تارہ ایک مذہبی صہیونی ریاست کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے اُوپر نیچے پرچم کے دونوں کناروں پر عمودی نیلی لکیریں اس صہیونی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرتی ہیں۔ صہیونی کرنسی شیکل اور صہیونی پارلیمنٹ کنیسٹ کی پیشانی پر کندہ الفاظ ان سرحدوں کا زیادہ واضح اظہار کرتے ہیں: ’’تیری سرحدیں اے اسرائیل از فرات تا نیل‘‘۔ گویا پرچم کی دو لکیروں میں سے ایک دریاے نیل ہے اور دوسری دریاے فرات۔

نام نہاد عظیم تر اسرائیل کی سرحدیں اب کوئی راز نہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۶۹ء میں سانحہ اقصیٰ پر خطاب کرتے ہوئے اس نقشے اور منصوبے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:

اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تمام اہم واقعات اسی صہیونی منصوبے کی تکمیل کا ایک حصہ ہیں۔ لایعنی امن مذاکرات اور سراب معاہدے اسی سفرکو مزید محفوظ بنانے کی عملی تدابیر ہیں۔ پہلی تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی ہوئی تو عراق کویت جنگ کے بعد یاسر عرفات سے اوسلو معاہدہ کیاگیا۔ اسے فلسطینی ریاست کا صدر بنانے کا خواب دکھاتے ہوئے اس کے وزیرداخلہ محمد دحلان کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار‘ زخمی اور شہیدکروایا گیا۔ پھر جب اس معاہدے کے اصل اہداف میں سے ایک اور ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں آرییل شارون مسجداقصیٰ میں جا گھسا تو تحریک انتفاضہ کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ نتن یاہو‘ ایہودباراک اور سو دن کے اندر اندر انتفاضہ کو کچل دینے کا اعلا ن کرنے والے شارون سمیت کسی سے شہادتوں کا سفر روکا نہ جاسکا۔

اب تیسری خلیجی جنگ کے بعد فلسطینیوں ہی کے ہاتھوں آزادی کی اس جدوجہد کو کچلنے کی نئی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلان یہ کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو علیحدہ آزاد ریاست دے دی جائے گی‘ اور تین مرحلوں میں ۲۰۰۵ء تک پورے روڈمیپ پر عمل کرلیا جائے گا۔ ہر مرحلے میں تاریخوں کے تعین کے ساتھ مخصوص ہدف حاصل کیے جائیں گے‘ لیکن سب سے اہم اور بنیادی ہدف‘ معاہدے کے نام ہی میں واضح کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کا نام ہے: A performance based road map to a permanent two state solution to the Israeli-Palestinian conflict ’’اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے دو مستقل مملکتوں کے قیام کے لیے‘ کارکردگی پر مبنی‘ روڈمیپ‘‘۔ اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: تنازعے کا حل اور اس کا کارکردگی پر مبنی ہونا۔ تنازعے کا صہیونی حل تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فلسطینیوں کا زن بچہ کولہو میں پیس دیا جائے گا۔ اب اس حل میں اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ یہ کارکردگی فلسطینیوں ہی کو دکھانا ہوگی۔ اس بات کا اعادہ ہر مرحلے میں نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔ مقدمے میں لکھا گیا کہ یہ ’’حل تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذریعے صرف اس صورت میں حاصل ہوگا جب فلسطینی عوام کو ایسی قیادت ملے جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے اور رواداری پر مبنی جمہوریت کے قیام کی خواہش اور اہلیت رکھتی ہو‘‘۔ یاسرعرفات امن کا نوبل انعام پانے کے باوجود یہ اہلیت ثابت نہیں کر سکے تو راستے کا آغاز ہی اسے ہٹانے اور بہائی مذہب کے ایک سپوت مرزا محمود عباس (ابومازن) کو قائد بنانے سے کیا گیا۔

پہلے مرحلے میں ۲۱ نکات پر مشتمل نقشۂ کار ہے۔ دیگ کے ایک دانے سے ہی اس کی حقیقت کھل جاتی ہے: ’’فلسطینی قیادت غیرمبہم اور بالکل واضح بیان جاری کرے گی جس میں اسرائیل کے امن و سلامتی سے زندہ رہنے کے حق کا اعادہ کیا جائے گا۔ (بھول جائیے کہ اسرائیل کبھی فلسطین تھا) اور اسرائیلیوں کے خلاف ہرجگہ فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور مسلح سرگرمیوں اور تشدد کے تمام اقدامات کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔ فلسطین کے تمام سرکاری ادارے اسرائیل کے خلاف ترغیب اور اُکسانے کا سلسلہ ختم کر دیںگے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کہیں بھی تشدد اور حملوں یا ان کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور گروپوں کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے واضح اور موثر کوشش کریں گے‘ دہشت گردی میں ملوث تمام لوگوں اور گروپوں کے خلاف مسلسل متعین اور موثراقدامات کا آغاز کریں گے اور دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کریں گے‘‘۔

۲۱ نکات پر مشتمل اس نقشۂ کار میں ’’اسرائیل‘‘ کے ذمے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ’’جب سیکورٹی کے شعبے میں جامع کارکردگی میں پیش رفت ہوگی (فلسطینیوں کے ذمے اصل کام کا ایک بار پھر اعادہ) تو اسرائیلی دفاعی فورسز بتدریج وہ علاقے خالی کر دیں گی جن پر انھوں نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو یا اس کے بعد قبضہ کر لیا تھا‘‘۔ گویا کہ نصف صدی سے قبلۂ اول اور پوری سرزمین اقصیٰ پر قبضہ توعین حق ہے۔ ستمبر۲۰۰۰ء میں شارون کے مسجداقصیٰ میں جاگھسنے اور دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہونے پر جن فلسطینی مہاجرکیمپوں اور جنین جیسی پناہ گزیں بستیوں پر صہیونی فوجوں نے چڑھائی کی تھی وہاں سے انھیں نکال لیا جائے گا۔

دوسرا مرحلہ جو تاریخوں کے اعتبار سے اب عملاً شروع ہو جانا چاہیے‘ نام نہاد خودمختاری کی حامل فلسطینی ریاست کے اعلان کرنے کا مرحلہ ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۳ء تک پورا ہو جانا ہے۔ اس میں فلسطینی ریاست کا اعلان تو کر دیا جائے گا لیکن اس کی سرحدیں ’’وقتی اور عارضی‘‘ ہوں گی۔ اس موہوم اعلان ریاست میں بھی اصل ہدف وہی رہے گا کہ ’’سلامتی کے شعبے میں مسلسل عمدہ کارکردگی اور موثر سیکورٹی تعاون‘‘ اور یہ کہ’’ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب فلسطینی عوام کی قیادت ایسے افرادکے ہاتھ میں ہو جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گے‘‘۔

۰۵-۲۰۰۴ء میں تیسرے مرحلے میں بھی فلسطینی انتظامیہ کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔ لکھا ہے: ’’تیسرے مرحلے کے مقاصد میں فلسطینی اداروں میں اصلاح‘ ان کے استحکام اور فلسطین سیکورٹی اداروں کی مسلسل موثر کارکردگی کے علاوہ یہ بات شامل ہوگی کہ اسرائیلی اورفلسطینی ۲۰۰۵ء میں مستقل حیثیت کے سمجھوتے کے متعلق مذاکرات کریں گے‘‘۔

فلسطینیوںکے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنے کی مسلسل و موثر کارکردگی کے نتیجے میں صہیونی ریاست ان علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کر دے گی جن پر ۱۹۶۷ء میں قابض ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ ۱۹۴۸ء اور پھر ۱۹۶۷ء میں فلسطین کے ۸۰ فی صد علاقے پر صہیونی قبضہ ہوگیا تھا۔ اب مغربی کنارے اور غزہ کے جن علاقوںمیں فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب دکھایاجا رہا ہے‘ اسے بھی یوں چیرپھاڑدیا گیا کہ وسیع ترصہیونی ریاست کے اندر ان علاقوں کی حیثیت محصور چھائونیوں سے زیادہ نہ ہو۔ کئی سال سے ایک صہیونی منصوبہ پوری یکسوئی سے جاری ہے کہ فلسطینی جانبازوں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے اور اپنے درمیان بلند‘ آہنی اور جدید آلات حرب و جاسوسی سے لیس دیوار کھینچ دی جائے۔ یہ آہنی دیوار فلسطینی آبادیوں کے گرد اس طور گھومتی ہے کہ ۳۵۰ کلومیٹر کی اصل مسافت بڑھ کر ایک ہزار کلومیٹر ہوگئی ہے۔ اس ایک ہزار کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر پر ۲ ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ یعنی ہر ایک کلومیٹر پر ۲۰ لاکھ ڈالر۔

ابومازن کے ذریعے کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اوسلو معاہدے کی نسبت تیز ترہے۔ تب پورے عمل کو ۱۰ سال پر پھیلا دیا گیا تھا‘ اب اڑھائی سال میں پورا کرنے پر زور ہے۔ تب مسجداقصیٰ میں جا گھسنے کی بات معاہدے کے سات سال بعد کی گئی تھی‘ اب سات ہفتے بھی نہیں گزرے کہ صہیونی سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے کہ حرم اقصیٰ کسی مخصوص مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہودیوں کو بھی وہاں جانے کی مکمل آزادی ہے۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج حماس کے رہنمائوں کو ہدف بناکر قتل کرنے کی پالیسی پر ببانگ دہل عمل پیرا ہے جس میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف مجاہدین کی شہادت طلب کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن کے جنازوں میں ہزاروں فلسطینی ایمان افروز نعروں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔

حماس الجہاد اور خود الفتح کے کئی شہادت طلب حملوں نے روڈمیپ کے سرپرستوں کو حقیقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ صہیونی ٹی وی چینل ’’۱‘‘ کے مراسلہ نگار ایٹان ریبورٹ نے شہادت طلب کارروائی کے بعد یہودی بستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اس علاقے میں حماس نے کرفیو لگا رکھا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ڈرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہاں ہر طرف خوف کا راج ہے‘‘۔ یہودی بستی کی ایک رہایشی فلونیٹ نے اپنے ٹی وی کو بتایا: ’’میں نے اور میرے شوہر نے ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا دفتر یہاں سے آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ ہم دونوں یہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی مشکل بات یہ ہے کہ بندہ اپنے دفتر جانے کی کوشش میں موت کی وادی میں جااُترے‘‘۔ صہیونی ملٹری انٹیلی جنس کے شعبۂ ریسرچ کے سابق سربراہ جنرل دانی روچیلڈ نے عبرانی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تمام تر فوجی کارروائیوں اور حملوں کے باوجود حماس کا شہادت طلب کارروائیوں میں کامیاب ہو جانا‘ مایوسی اور تشویش میں اضافے کا باعث ہے۔ اس صورت حال پر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اداروں کے تمام دعوے مبالغہ آمیز بلکہ مجرد خیال ہیں‘‘۔

خود وزیر امن تساحی ہنجبی نے کہا کہ ’’میں ہر لمحے فلسطینی فدائی کارروائیوں کی خبر سننے کے لیے خود کو تیار رکھتا ہوں‘‘۔ وزیرموصوف نے کہا کہ ہمارے ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ افسر نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ توقع کہ کل فدائی کارروائی ہوگی اتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ کل سورج طلوع ہوگا‘‘۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا کہ اب بھی ہم ۹۵ فی صد کارروائیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ روزنامہ معاریف لکھتا ہے: ’’وہ جب بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو کچلنے کی بات کرتے ہیں‘ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان دعووں کی زمینی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک ہر طریقہ آزمالیا۔ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ سمیت تمام علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے لیکن بے فائدہ۔

ستمبر ۲۰۰۰ء سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے دوران ۱۱۹ شہادت طلب کارروائیاں ہوئیں۔ ۷۸ کارروائیاں ناکام رہیں جن میں سے ۳۰ کارروائیاں فلسطینی خواتین کرنا چاہتی تھیں‘ جب کہ پانچ خواتین اپنے مشن میں کامیاب رہیں۔ (صہیونی اخبار یدیعوت احرونوت‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۳ئ)

گھنی فلسطینی آبادی کے علاقے خالی کرنا ان کی دفاعی ضرورت ہے۔ خود شارون کے سابق وزیردفاع جنرل بنیامین بن ایعازر نے حماس کی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بہت سے مسلمہ حقائق سے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے ہم ماضی میں سختی سے چپکے ہوئے تھے۔ ہم سڑکوں‘ کلبوں اور چائے خانوں میں اپنے شہریوں کا قتلِ عام صرف اس صورت روک سکتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے علاقے سے نکل آئیں اور ان کی ایسی حکومت منظور کرلیں جو مغربی کنارے اور غزہ میں اقتدار سنبھال لے۔ فلسطینیوں کا سامنا کرنے کے لیے فوجی حل کی بات اب بھی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے تمام انتظامات کے باوجود حماس کی کارروائیاں اس امر کی دلیل ہیں کہ فلسطینی عوام کے جذبۂ مزاحمت کا فوجی علاج حقیقت پسندانہ نہیں ہے‘ اور جو اب بھی اس پر  مصرہے وہ خود کو دھوکا دیتا ہے‘‘۔ (الامان‘ لبنان۶/۶)

ایک طرف تو یہ حقائق ہیں‘ فلسطینی عوام کے جذبۂ شہادت سے صہیونی درندے شکست خوردہ ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکمران روڈمیپ کے تیسرے مرحلے کے ان نکات پر عمل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جن کا حکم انھیں دیا گیا ہے۔ وہاں لکھا ہے: ’’عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ معمول کے مکمل تعلقات کا قیام تسلیم کریں گی‘‘۔ مصرکے شہر شرم الشیخ اور اُردن کے شہر عقبہ میں صدربش کی زیرسرپرستی ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں محمود عباس کی تقریب رونمائی کی گئی اور کھلے لفظوں میں فلسطینی جانبازوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔

روڈمیپ بظاہر چند فی صد فلسطینی علاقے خالی کرنے کا اعلان ہے لیکن حقیقت میں فلسطینی مزاحمت کو کچلتے ہوئے مزید توسیعی منصوبوں کا نقطۂ آغاز ہے۔ روڈمیپ کے چند روز بعد ہی صہیونی وزیر سیاحت بنی ایلون نے اعلان کیا کہ دریاے اُردن کے مشرقی کنارے (یعنی کہ اُردن میں) فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن تشکیل دیا جائے۔ اگر بنی ایلون کا اعلان کردہ یہ سات نکاتی منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھتا ہے تو یہ عظیم تر اسرائیلی ریاست کی جانب اگلا جارحانہ اقدام ہوگا۔

’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ لیکن عراق میں امریکہ کی فتح سے ہمارے لیے ایک نئی روشن صبح طلوع ہوئی ہے جس کے بعد دنیا کبھی دوبارہ اس طرح کی نہیں ہوسکتی جس طرح اس جنگ سے پہلے تھی۔ اسرائیل اس نئی اور بہتر دنیا کا ایک فعال ملک ہوگا‘‘--- یہ الفاظ ہیں صہیونی دانش ور موشیہ ایرنز کے جو بڑے صہیونی روزنامہ ہآرٹس میں ۱۵اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع ہوئے۔

وہ مزید لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے لیے امریکہ کی جیت ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ عالم عرب میں اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ‘ جس نے اسے کیمیائی اسلحے کی دھمکی دی اور ۱۹۹۱ء کی جنگ میں اس پر میزائل چلائے‘ شکست کھا گیا۔ اس کی شکست کے بعد عراق اسرائیل کے ساتھ صلح کے لیے واضح اور نمایاں قدم اٹھائے گا‘‘۔ یہ صرف موشیہ ایرنز ہی نہیں خود امریکی و صہیونی ذمہ داران آئے روز طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ شارون کہتا ہے: ’’اب ایک سنہری موقع ہاتھ لگا ہے اور میں اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گا‘‘۔

امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے اپنے صہیونی ہم منصب سلفان شالوم سے ملاقات کے دوران کہا: ’’ہماری کامیابی پورے خطے میں دہشت گرد اور شدت پسند طاقتوں کے خاتمے کا آغاز ہے‘ اور آپ بہت جلد‘ مختلف ممالک اور تنظیموں کی پالیسیوں سے اس کے آثار واضح طور پر دیکھ لیں گے‘‘۔ شارون نے اس موقع پر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’شام کی حکومت پرشدید ترین دبائو ڈالے تاکہ وہ شام میں موجود فلسطینی تنظیموں کا خاتمہ کر دے اور ایران سے اپنے تعلقات منقطع کر لے (صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت‘ ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ سابق روسی وزیراعظم پریماکوف نے اپنے ایک انٹرویو میں صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’’شارون اور اس کا احاطہ کیے ہوئے لوگ امریکہ کو بہرصورت شام کے مقابل لانا چاہتے ہیں کیونکہ شام پر حملہ درحقیقت انھی لوگوں کی جنگ ہے جو عسکری ذرائع سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘‘۔ (الشرق الاوسط‘ ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ئ)

اس ضمن میں اب تک شام پر مختلف الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ اس کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں امریکی ذمہ داران اپنے عراق والے بیانات متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہمارے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں‘‘۔ ’’شام نے یورپی ممالک سے اپنے نام پر عراق کے لیے ہتھیار خریدے‘‘۔ ان ہتھیاروں میں رات کے وقت دیکھ سکنے والی خطرناک دوربینیں بھی شامل ہیں۔ پھر کہا گیا کہ ’’دورانِ جنگ شام سے مجاہدین اور شامی فوجی عراق بھیجے‘‘۔ اب کہا جا رہا ہے: ’’عراق سے سائنس دان اور دیگر عراقی ذمہ داران شام میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘۔ وائٹ ہائو س کے ترجمان ایری فلیشر نے تو ہر گردن میں پورا آجانے والا پھندا پھینک دیا ہے کہ ’’شام دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے‘‘۔ یہی بات صہیونی تجزیہ نگار زائیف شیف لکھتا ہے: ’’شام حزب اللہ کے ساتھ مل کر عراق کو امریکی فوجیوں کے لیے لبنان بنانا چاہتا ہے‘‘۔ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیچ کا کہنا ہے: ’’حزب اللہ القاعدہ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے‘‘۔

۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کا صہیونی روزنامہ ہآرٹس لکھتا ہے: ’’لگتا ہے کہ اس بار امریکی کانگریس زیادہ موثر کردار ادا کرے گی۔ وہ اپنی وزارت خارجہ کے اس فیصلے کے انتظار میں نہیں رہے گی کہ وہ شام کو باقاعدہ برائی کا محور قرار دے۔ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اور شام و عراق کے مابین جو تعاون سامنے آچکا ہے‘ اس کے بعد بشارالاسد کے ساتھ کسی اور زبان میں ہی بات کرنا ہوگی۔ اب یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ دمشق میں بیٹھے فلسطینی جہادی لیڈر اسرائیلی شہروں میں بسیں اُڑانے کے احکام جاری کرتے رہیں اور دمشق و حلب محفوظ رہیں‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’اس وقت دنیا میں کسی اور ملک کے پاس اتنا قابلِ استعمال کیمیائی اسلحہ نہیں ہے جتنا شامیوں کے پاس ہے‘‘۔ البتہ صہیونی تجزیہ نگار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ کیمیائی اسلحہ (اگر ہے تو) اسرائیل کے پاس موجود ۱۹قسم کے مہلک کیمیائی و حیاتیاتی اسلحے سے بھی زیادہ ہے‘ خود امریکہ کے اسلحے سے بھی زیادہ ہے کہ جس کا دفاعی بجٹ اب ۴۲۲ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو دنیا بھر کے تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے متجاوز ہے۔ واضح رہے کہ روس کا دفاعی بجٹ ۶۵ارب ڈالر‘ چین کا ۴۷ ارب ڈالر‘ جاپان کا ۳.۴۰ ارب ڈالر‘ برطانیہ کا ۴.۳۵ ارب ڈالر‘فرانس کا ۶.۳۳ ارب ڈالر اور جرمنی کا ۵.۲۷ ارب ڈالر سالانہ ہے۔

ایک طرف تو شام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے دوسری طرف خود فلسطینی محاذ پر ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام پر بش (خورد) نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینیوں کو نئی قیادت منتخب کرنا ہوگی‘ حالیہ قیادت سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یاسرعرفات نے ایک آدھ بار یہ کہا کہ جیسے ہی انتخابات کے لیے مناسب حالات پیدا ہوئے انتخابات کروا کے نئی فلسطینی قیادت چن لی جائے گی‘ لیکن آخرکار ۸ مارچ کو دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نیا عہدہ تراش لیا گیا۔ محمود عباس (ابومازن) کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم چن لیا گیا۔ محمود عباس صہیونی و امریکی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں دونوں کے اعتماد پر پورے اُترے تھے۔ اوسلو معاہدے کے پیچھے اصل کردار ابومازن ہی کا تھا۔ اسے وزیراعظم بنوانے کا اصل مقصد یاسرعرفات کو نمایشی صدر بنا کر اس کے تمام اختیارات سلب کرلینا ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار ایلیکس فش مین یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’فلسطینیوں کے حملے اور شدت پسندی روکنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یاسرعرفات اور اس کے قریبی ساتھی ہیں۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)

ساری دنیا کو یاد ہے کہ ۱۹۸۷ء میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اسے کچلنے کے لیے یاسرعرفات کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی تشکیل دی گئی اور ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطین کے اڑھائی فی صد رقبے میں فلسطینی ریاست اور باقی ساڑھے ستانوے فی صد سرزمین پر اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یاسرعرفات کو عالمِ اسلام کے تمام حکمرانوں کے سامنے مثالی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ یاسرعرفات نے امریکی اور صہیونی امداد سے متعدد سیکورٹی فورسز تشکیل دیں اور ہر آزادی پسند لیڈر اور مجاہد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ غزہ میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا جواخانہ اور علاقے کی بڑی زیرزمین جیل تعمیر کی گئی۔ قومی سلامتی کی ذمہ داری محمد دحلان نامی ایک شخص کو سونپی گئی جس نے اپنے فلسطینی بھائی بندوں کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا‘ ۱۹۹۹ء کے اختتام پر تحریکِ انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی جانے لگی۔ شارون نے بھی بہیمیت کی انتہا کر دی۔ جنین اور دیگر فلسطینی علاقوں کو ٹینکوں سے روندا جانے لگا‘ میزائل برسنے لگے لیکن شہادتی کارروائیوں کو نہ روکا جا سکا۔ یاسرعرفات کو بھی اس کے ہیڈکوارٹر میں محصور ہونا پڑا۔ گولہ باری کا نشانہ بننا پڑا‘ اور اب اسے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

محمود عباس کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فلسطینی تحریک پر سے عسکری چھاپ ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی عسکری اور شہادتی کارروائیاں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یدیعوت احرونوت لکھتا ہے: ’’ابومازن کی کابینہ یاسرعرفات کی کابینہ سے یکسر مختلف اور فلسطینی تاریخ کا ایک حقیقی اہم موڑ ہے۔ اس میں پیشہ ور‘ صاحب اختصاص‘ صاف ستھری شخصیتیں شامل ہیں۔ اس میں شامل سب سے نمایاں شخصیت وزیرداخلہ محمد دحلان کی ہے جس نے حماس کی قیادت کو ابھی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اگراس نے نئی قیادت کے احکام نہ مانے تو وہ ان سے اسی طرح نمٹے گا جیسے ۱۹۹۶ء میں نمٹا تھا۔ دحلان ایسے پیغامات دے کر ان تنظیموں سے عملاً تصادم چاہتا ہے تاکہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سبق سکھا دے۔ اس ہفتے ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو اسرائیل کے لیے بڑی نیک فالی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے سامرہ کے علاقے میں ایک اہم جہادی لیڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ ابھی پٹرول دریافت نہیں ہوا لیکن اس کی موجودگی کے بڑے قوی امکانات و آثار ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل۲۰۰۳ئ)

واضح رہے کہ ابومازن نے اپنی کابینہ کے لیے جو نام پیش کیے ہیں ان میں سات افراد ایسے تھے جو یاسر عرفات سے کھلم کھلا بغاوت کرچکے ہیں۔ محمددحلان بھی ان میں سے ایک ہے جسے یاسرعرفات نے بڑی رشوت کھانے اور قومی مفادات سے غداری کے الزام میں نکال دیا تھا۔ اب اسی کا نام وزیرداخلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پہلے اسی کو وزیراعظم کے لیے لائے جانے کی افواہیں بھی تھیں۔ یاسرعرفات نے وزارتِ داخلہ کے لیے دحلان کا نام یکسر مسترد کر دیا ہے‘ لیکن صہیونی مشیرابومازن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم وزارت داخلہ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا اعلان کر دو اور دحلان کو وزیرمملکت بنا کر وزارتِ داخلہ عملاً اس کے سپرد کر دو۔

صہیونی منصوبہ یہ ہے کہ عراق پر امریکی تسلط‘ شام و ایران کے خلاف بلند بانگ دھمکیوں اور دنیا بھر پر امریکی جنگی مشنری کی دھاک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران ہی فلسطینی مسئلے سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اسی موقع پر بڑی تعداد میں فلسطینیوںکو عراق واُردن میں بسانے کے منصوبے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں ۔ بش عنقریب ایک روڈمیپ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس کا مسودہ کہیں سامنے نہیں آیا لیکن شارون نے اعلان کر دیا ہے کہ ہمیں اس پر ۱۴اعتراضات ہیں ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ملک بدر لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر بھی بات کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ ایک ایسا سرخ خط ہے جسے پار کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

صہیونی وزیرخارجہ شالوم کے الفاظ ہیں: ’’ہم یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی واپسی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ روڈمیپ میں اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ تل ابیب میں امریکی سفیر ڈینیل کیرٹزر نے فوراً ہی صہیونی حکمرانوں کے در پہ حاضری دیتے ہوئے انھیں تسلی دلائی اور کہا کہ ’’روڈ میپ اصل حل نہیں ہے یہ تو صرف مذاکرات شروع کرنے کا ایک بہانہ ہے‘‘۔ اسی دوران امریکی کانگریس کے ۲۳۵ اور امریکی سینیٹ کے ۷۰ ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت امریکہ کو شارون حکومت کے ساتھ کوئی تصادم مول نہیں لینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون کے کئی خطوط بش کی مشیرہ براے قومی سلامتی کونڈالیزا رائس کو متعدد صہیونی تنظیموں کی طرف سے موصول ہوئے۔ (صہیونی روزنامہ معاریف)

سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا: ’’القدس جانے کا راستہ بغداد سے گزرتا ہے‘‘۔ کیا اس کی بات اس معروف صہیونی ماٹو کی طرف اشارہ تھا کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے نیل تک ہیں‘‘ (حدودک یا اسرائیل من الفرات الی النیل)‘ یا اس نے پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون کے اس جملے کو عراق پر منطبق کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کی سلامتی صرف اس بات میں مضمر نہیں ہے کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر اس ایٹمی طاقت کو تباہ کر دیا جائے جو اس میدان میں اسرائیل کے مقابل ہو اور اس کے وجود اور علاقائی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہو‘‘۔ کسنجرکا یہ معروف جملہ آج کے حالات پر بھی پوری طرح درست بیٹھتا ہے۔

سقوطِ بغداد کے بعد اب القدس کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ عالمِ اسلام اس صہیونی امریکی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تو کیا اس میں شرکت کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ خود صہیونی نقشہ نویس اپنے اس نقشۂ کار کے متعلق شکوک کا شکار ہیں۔ ایلیکس فش مین لکھتا ہے: ’’اس پورے معاملے میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ابومازن یاسرعرفات کی جگہ تو لے لے لیکن وہ سیاسی اور امن و امان سے متعلقہ مقاصد حاصل نہ ہوں جو اسرائیل چاہتا ہے‘ دہشت گردی جاری رہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا‘ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری پوری کی پوری پالیسی ہی غلط تھی‘‘ (یدیعوت احرونوت‘ ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ لیکن پاکستانی وزیرخارجہ کا بیان ملاحظہ فرمایئے: ’’عراق کے بعد فلسطین اور پھر کشمیر کامسئلہ حل ہوگا‘‘، یعنی ہم نہ صرف سقوطِ بغداد اور فلسطین کا کانٹا نکل جانے کے لیے بھی ذہناً تیار بیٹھے ہیں بلکہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امریکہ ہی کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں۔

یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ فلسطین کے سربراہ موعود ابومازن کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ اپنے مجاہدین اور اپنی قوم کے بجائے دشمن کے کام آنے والا ہر بدقسمت عبرت کا نشان ضرور بنتا ہے‘ لیکن کیا پاکستان‘ اہل پاکستان‘ اور کارپردازانِ پاکستان کے لیے بھی اس میں کوئی پیغام‘ کوئی سبق ہے!

کربلا پھر خون خون ہے۔ ہلاکو پھر کشتوں کے پشتے لگانے کے درپے ہے۔امریکہ نے قانون‘ اخلاق‘ انسانیت ہر چیز کو وحشی درندے کی طرح روند ڈالا ہے۔ برائی کا محور‘ القاعدہ سے تعلق ‘ عام تباہی پھیلانے کے ہتھیار‘ اسلحہ انسپکٹروں کے کام میں رکاوٹ جیسے تمام الزامات عالمی برادری کی حمایت دلانے میں ناکام رہے تو امریکی بھیڑیے کا پانی اُوپر کی طرف بہ نکلا۔

متعدد امریکی دانش وروں نے سعودی عرب میں سابق امریکی سفیرجیمز آکنز کی یہ بات نقل کی ہے کہ جارج واکربش کی یہ جارحیت ۱۹۷۵ء میں بننے والے کسنجرمنصوبے کا ایک حصہ ہے۔ آکنز کہتا ہے: ’’میں سمجھتا تھا کہ یہ منصوبہ مرچکا ہے لیکن یہ منصوبہ پھر زندہ ہو گیا ہے جس کا ہدف دنیا میں تیل کے اہم ترین ذخائر پر قبضہ کیا جانا تھا‘‘۔ معروف تحقیقاتی رپورٹر رابرٹ ڈریفس کے بقول اس منصوبے پر سخت گیر‘ اسرائیل دوست امریکی ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے بھی پیش رفت کی اور اس وقت بھی وہی ٹولہ وائٹ ہائوس‘ پینٹاگون اور وزارتِ خارجہ کے درجنوں اہم مناصب پر فائز ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اگر ہم عراق پر قبضہ کر لیں تو قطروبحرین پر قبضہ آسان ترین ہدف ہوگا جس کے بعد صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بات ہے‘‘۔ رابرٹ ڈریفس نے Resource Warsکے مصنف مائیکل کلیر کی تحریروں کا خلاصہ بھی ان الفاظ میں نکالا ہے: ’’خلیج فارس پر قبضہ یورپ‘ جاپان اور چین کو اپنی مٹھی میں لے لینے کے مترادف ہے‘‘۔

تیل درآمد کرنے میں امریکہ پہلے‘جاپان دوسرے اور چین تیسرے نمبرپر ہے۔ چینی کسٹم حکام کے مطابق چین نے ۲۰۰۲ء میں ۴۱.۶۹ ملین ٹن خام تیل درآمد کیا تھا جو ۲۰۰۱ء سے ۱۵ فی صد زیادہ ہے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی (DOE) کے مطابق ۲۰۰۱ء خود امریکہ کو اپنی ضرورت کا ۵۵ فی صد تیل درآمد کرنا پڑا جو ان کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک ۶۸ فی صد ہو جائے گا۔ یہ بات تو پہلے بھی آچکی ہے کہ عراق میں سعودی عرب کے بعد دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں جن کی مقدار ۵.۱۱۲ ارب بیرل تو معلوم ہے لیکن یہ مقدار ۱۲۰۰ ارب بیرل بھی ہوسکتی ہے۔ عراقی پٹرول نکالنے پر دنیا میں سب سے کم اخراجات اُٹھتے ہیں‘ یعنی صرف ڈیڑھ ڈالر۔

افغانستان پرحملے سے امریکہ نے بنیادی طور پر وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ اب دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر پر قبضے کے لیے لاکھوں جانوں کا خون کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ صرف بغداد کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے اور جس طرح کی خون آشام بمباری کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے بڑی آبادی کا لقمۂ اجل بن جانا کسی طور بعید نہیں)۔ ساتھ ہی ساتھ بحراحمرکے کنارے دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر پر تسلط کا انتظام بھی شروع ہے۔ سوڈان میں دریافت ہونے والے تیل پر دسترس کے لیے پہلے متعدد حملے کروائے گئے اور اب جنوبی علیحدگی پسندوں کو کسی طور وہاں لانے کا بندوبست ہو رہا ہے۔

افغانستان اور عراق میں بنیادی کردار بش اور ڈک چینی کے تیل شریکوں کو دیا جا رہا ہے۔ بش کا خصوصی نمایندہ زلمای خلیل زادہ بھی اسی صنعت سے وابستہ رہا ہے۔ افغانستان کے بعد اب عراق میں ایک شمالی اتحاد کی ایجاد اور کرداروں کی تقسیم اسی کے ذمے ہیں۔ سنی‘ کرد‘ شیعہ کی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہوئے کٹھ پتلی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے‘ موصوف کئی پڑوسی ممالک میں مصروف ہیں۔ لیکن قبضے کے بعد اصل اقتدار کے لیے امریکی افواج کے سربراہ ٹومی فرینکس کے علاوہ جنرل (ر) جے گارنر کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ جے گارنر کا نام امریکی جنگ پسندوں کی فہرست میں نمایاںہے۔ ان کی اصل خوبی ان کے اسرائیلی لیکوڈ پارٹی میں گہرے اثرات ہیں۔ جے گارنر کا نام سیکرٹری وزارت دفاع براے سیاسی امور ڈوگ فتھ نے ۱۱ فروری ۲۰۰۳ء کو امریکی سینیٹ کی وزارتِ خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا ہے۔

ڈوگ فتھ نے عراق پر قبضہ کرنے سے حاصل ہونے والے اہداف کا بھی ذکر کیا جن میں اس بات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا کہ ’’عراق میں جمہوری اداروں کے قیام سے فلسطینیوں کو اس پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی کہ وہ اسرائیل سے سنجیدہ مذاکرات کریں‘‘۔ وزیرخارجہ کولن پاول بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’عراق میں جمہوریت سے پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ حکومتوں کے قیام میں مدد ملے گی‘‘۔

ایک امریکی دانش ور مائیکل کولنز نے ۱۱ مارچ کو دبئی میں ایک لیکچر کے دوران کہا: ’’عراق پرحملے کے دوران اسرائیل بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو ملک بدر کرسکتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ عظیم تر اسرائیل کی تشکیل ہی کا ایک حصہ ہے‘‘۔

عراق پر امریکی جارحیت کے بنیادی طور پر یہی دو بڑے اہداف ہیں۔ تیل پر قبضہ‘ اس کے ذریعے پوری دنیا پر عملاً حکمرانی‘ اور اسرائیلی ریاست میں توسیع و استحکام۔ اس کے علاوہ کسی دلیل کو دنیا بھی مسترد کرتی ہے اور حقائق بھی۔ مثال کے طور پر اگر بات واقعی اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کی ہوتی تو خود امریکی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے پاس نہ صرف ۴۰۰ سے زائد ایٹم بم ہیں بلکہ وہ ۱۹۹۵ء میں نیوٹران اور ہائیڈروجن بم بھی بنا چکا ہے۔ ہائیڈروجن بم اپنے حجم کے اعتبار سے ایٹم بم کی نسبت ۱۰۰ سے ۱۰۰۰ گنا زیادہ تباہ کن ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے کے لیے اس کے پاس میزائلوں کی بڑی کھیپ اور ایف سیریز کے طیاروں کے علاوہ جرمنی کی بنی ہوئی ڈالفن آبدوز بھی ہے۔ ایٹمی اسلحے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے خود امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو سپرکمپیوٹر Gray2 کے ۱۰ جدید ترین پروگرام فراہم کیے ہیں‘ جن کے استعمال سے ایٹمی اسلحہ بنانے کے اخراجات براے نام رہ جاتے ہیں اور بین البراعظمی میزائلوں کی تیزی سے تیاری ممکن ہو جاتی ہے۔ عراق میں تباہ کن ہتھیار تباہ کرنے کے نام پر تباہی بانٹنے والے امریکہ کو نہ اپنی یہ صہیونیت نواز دلداریاں یاد ہیں‘ نہ اسے اسرائیل کے پاس ۱۸ اقسام کے مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ہی دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں بعض ایسے کیمیائی ہتھیار بھی شامل ہیں کہ جن سے پھیلنے والی آگ کا درجۂ حرارت ۲۸۰۰ سنٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔ رہا بدنام زمانہ انتھراکس  تو وہ بہت عرصہ پہلے اسے فراہم کیا جا چکا ہے۔

امریکہ کی اسی اسرائیل نوازی اور غنڈا گردی کے باعث پوری دنیا میں امریکہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ عراق کے بارے میں امریکی عزائم واضح ہو جانے  کے بعد شروع ہو گیا تھا اور دنیا کے گوشے گوشے میں ۳‘ ۴ کروڑ سے زیادہ افراد مظاہروں میں شریک رہے ہیں۔

۲۰ مارچ کو عراق پر حملہ شروع ہونے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ فزوں ہو گیا ہے۔ اوائل مارچ میں ایک امریکی سروے کے مطابق عرب ممالک میں امریکہ سے نفرت عروج پر تھی۔ جیمززغبی انٹرنیشنل کے اس سروے کے مطابق سعودی عرب کے ۹۷ فی صد عوام امریکہ کے خلاف ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تناسب ۸۵ فی صد ہے اور اُردن جیسی امریکہ نواز حکومت کے ۸۱ فی صد عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔

نفرت کا یہ لاوا زیادہ دیر تک زیرزمین نہیں رکھا جا سکے گا۔ فلسطین ‘ افغانستان ‘ عراق اور دیگر مسلم ممالک میں روز افزوں امریکی دراندازیاں اس لاوے کے لیے مختلف راستے پیدا کررہی ہیں۔ مصر اور یمن میں کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے اعلان کے بغیر ہی سڑکوں پر آکر عوام نے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں۔ سعودی عرب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق لوگوں نے خصوصی صلوٰۃ تہجد اور نفلی روزوں کی خاموش تحریک شروع کر دی ہے جس میں لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ ’’آج اپنی تمام تر دعائیں اپنے عراقی اور فلسطینی بھائیوں کے لیے مخصوص کردیں‘‘۔ امریکہ اور اسرائیل سے اظہارِ نفرت کے ساتھ ہی ساتھ تعلق باللہ کا یہ انوکھا انداز دلوں کی دنیا تبدیل کر رہا ہے۔

خود امریکہ بھی اس زیرزمین لاوے کی تپش محسوس کر رہا ہے اور ارنے بھینسے کی طرح جلد از جلد پوری خلیج پر عملاً قبضے کا منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے۔ بادی النظر میں اس راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی۔ فرانس‘ جرمنی اور دیگر ممالک نے سیکورٹی کونسل کی حد تک مخالفت کی ہے لیکن عملاً وہ بھی عراق ہی کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ گمان غالب یہی ہے کہ عراق میں جنگ کے مخصوص مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد فرانس و جرمنی سمیت یہ ممالک بھی تعمیرنو کے نام پر امریکہ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں گے۔ اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس قیامت کا انحصار آیندہ دنوں میں جنگ کے پانسے پر بھی ہے۔ عراق کی تمام تر کوشش یہ دکھائی دیتی ہے کہ باقی شہروں میں ممکنہ حد تک لیکن بغداد میں آخری سانس تک مزاحمت کی جائے۔ عراقی حکومت نے بغداد کی تقریباً پوری آبادی (۵۰ لاکھ) کو شہر کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا ہے۔ تقریباً ہر شہری کو ہتھیار اور خوراک پہنچانے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ عراق سے آنے والے ایک سیاسی رہنما کے بقول: ’’اگر بغداد کو کئی ماہ بھی محصوررہنا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے‘‘۔ ان کے بقول ’’آسمان سے آگ برسا کر وہ نہ ۱۹۹۱ء میں عراقی حکومت ختم کرسکے تھے نہ اب کر سکیں گے‘‘۔ پٹرول اور تسلط کے جنون کی اندھی آگ میں کودتے ہوئے امریکہ اس حقیقت کو فراموش کر گیا کہ کائنات کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والا ہر فرعون و نمرود مالکِ کائنات کے کوڑوں کی زد میں ضرور آیا ہے۔ جلد یا بدیر یہ سنت الٰہی ضرور پوری ہونا ہے۔

الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ o فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o  فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ o اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ o  (الفجر ۸۹:۱۱-۱۴)

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔ آخرکار تمھارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔

کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ایک بڑے سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہے: ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘۔ اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے لیکن اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس جنت کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد امریکہ سے اربوں ڈالر نکالے گئے۔ وہاں مسلم سرمایہ کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا تو اکثرافراد متبادل مواقع کی تلاش میں امریکہ چھوڑگئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے حقیقی جنت بنایا جا سکتا تھا۔ عرب سرمایہ کاروں کو خصوصی ترغیب دلائی جاتی‘ انھیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاکستان لا کر سہولتیں فراہم کی جاتیں تو پاکستان کی تعمیروترقی میں ان کا کردار یقینی تھا‘ لیکن عملاً کیا ہوا؟

افغانستان پر حملے کے دوران غیرملکی پاکستان آتے ویسے ہی گھبراتے تھے کہ جنگ زدہ علاقے میں پائوں بھی رکھا تو شاید موت کی وادی سے واسطہ پیش آئے گا۔ لیکن پھر ایف بی آئی کے دھڑا دھڑ چھاپوں اور خود حکومت ِ پاکستان کی طرف سے امریکی انتظامیہ کا دل جیتنے کی خام خیالی نے پاکستان کے تمام عرب دوستوں کو اس سے دُور کر دیا۔اب عالم یہ ہے کہ کسی عرب شہری کے سامنے نام لیں کہ آپ پاکستان آئیں تو وہ فوراً جواب دیتا ہے ’’کیا میں نے القاعدہ کی فہرست میں نام لکھوانا ہے؟‘‘ کئی عرب باشندے ایسے بھی ملے ہیں کہ کبھی تعلیم یا تجارت کے لیے آئے توپاسپورٹ پر پاکستانی ویزا لگ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویزے یا پاکستان میں داخلے کی مہر کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک میں اور مغربی ممالک میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں ہم اگر صرف ایئرپورٹ پر بورڈ لگا کر پاکستان کو سرمایہ کاری کی جنت ثابت کرنا چاہیں یا لاہور ٹرمینل کا افتتاح کرتے ہوئے صدرمملکت سرمایہ کاری کی دعوت دیں تو نتائج کا صفر ہونا یقینی ہے۔اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں اپنے دوستوں کا اعتماد بحال کیا جائے‘ انھیں تحفظ دیا جائے اور سرمایہ کاری کے لیے مواقع کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔

عالم یہ ہے کہ نہ صرف عرب باشندوں پر آئے دن دھاوا بولا جاتا ہے بلکہ خود پاکستانی عوام کو ان سے نتھی کیا جا رہا ہے۔ اور اب افراد ہی نہیں اس ضمن میں جماعتوں کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ گذشتہ ماہ خالد الشیخ کی گرفتاری کے بعد اہم حکومتی کارپردازان انھیں جماعت اسلامی پاکستان سے نتھی کرتے رہے حالانکہ حکومت ہی نہیں امریکہ بھی جانتا ہے کہ جماعت کا طریق کار اور راستہ کیا ہے۔ کسی حکومتی نمایندے نے اس موقع پر یہ نہیں سوچا کہ اس تہمت کے نتائج کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ جماعت تو الحمدللہ ہمیشہ اس طرح کے تہمتی طوفانوں سے سرخرو ہو کر نکلی ہے لیکن کیا یہ الزام لگاکر حکومت نے ان بھارتی اور صہیونی ایجنسیوں کی اس مہم کو تقویت نہیں دی جو عالمی ذرائع ابلاغ میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ ’’پاکستان کے تمام اسلام پسند عناصر دہشت گردی کو ترویج دیتے ہیں‘‘۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر ہم ہندو صہیونی لابی کی اس مہم کو مضبوط کرنے میں ارادی یا غیر ارادی طور پر شریک ہوگئے تو ان کے پروپیگنڈے کے اس عنصر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ’’پاکستان کی روگ آرمی دہشت گردی کی پشت پناہی کرتی ہے‘‘۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا صرف کارگل کے معرکے کے حوالے سے ہی نہیں اب بھی کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے جماعت اسلامی یا اسلام پسندوں کے خلاف کی جانے والی یہ مہم صرف پاکستان ہی تک محدود نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اسی نہج پر دینی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یمن کے معروف عالم دین اور قرآن و سائنس کے عنوان سے خصوصی شغف رکھنے والے تحریکی رہنما کے متعلق گذشتہ دنوں لاس اینجلس ٹائمز میں الزام لگایا گیا کہ یمنی ساحلوں پر تباہ ہونے والے امریکی بحری جہاز ’’کول‘‘ پر حملہ ان کی شہ پر کیا گیا۔ کئی خلیجی ریاستوں میں اس طرح کی فضا بنائی گئی کہ یہاں القاعدہ سے متعلق افراد کا بڑی تعداد میں سراغ ملا ہے اور مارچ کے دوسرے نصف میں ان کے خلاف بڑی کارروائی کی جائے گی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ فضا عراق پر امریکی جارحیت پر ممکنہ ردعمل کو روکنے کے لیے پیدا کی گئی۔

عالمی پروپیگنڈے اور ہندو صہیونی الزامات کو تو پہلے بھی کسی نے پرکاہ کی حیثیت نہیں دی‘ لیکن اگر باڑھ بھی کھیت کو کھانے لگے‘ ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘ کے امین خود اسے جہنم ثابت کرنے پر کمر کس لیں‘ تو خاکم بدہن ‘پھر دشمن سکھ کی نیند سو جائیں ہم خود ہی اپنی دشمنی کے لیے کافی ہیں۔

ہزاروں سال پہلے بھی فرعون نے یہی کہا تھا جو آج کہہ رہا ہے مَآ اُرِیْکُمْ اِلاَّ مَآ اَرٰی وَمَآ اَھْدِیْکُمْ اِلاَّسَبِیْلَ الرَّشَادِ o (المومن ۴۰:۲۹) ’’میں تمھیں بھی اسی نظر سے دکھائوں گا جس سے خود دیکھتا ہوں‘ میں تمھیں درست سمت ہی لے کر جائوں گا‘‘۔ میں نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے تو اب سب کو میرا ساتھ دینا ہوگا ورنہ سب دہشت گرد قرار دے دیے جائیں گے۔ میرے اعلانِ جنگ کے بعد دنیا بھر میں کروڑوں افراد کا "No War" (جنگ نہیں) کا نعرہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ انسانیت کی معلوم تاریخ میں اتنے بڑے عالمی مظاہروں کی مثال نہیں ملتی لیکن جمہوری اقدار کا نام نہاد محافظ امریکہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے بھی اہم اس واقعے کو معمولی حیثیت دینے پر بھی آمادہ نہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ عراق پر حملہ اور پورے خطے پر قبضہ جمہوریت کی ترویج کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ء کو واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے ایک ’’تاریخی‘‘ دستاویز پیش کی جس کا عنوان تھا: ’’امریکی شرق اوسطی شراکت براے جمہوریت و ترقی‘‘۔ اس منصوبے کو اگرچہ شراکت کا نام دیا گیا ہے اور ہدف جمہوریت و ترقی قرار دیا گیا ہے لیکن عملاً یہ پورے خطے کو امریکی استعمار کے تحت لانے کا منصوبہ ہے۔

کولن پاول کے بقول عالم عرب پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا مرکز بن چکا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’عرب ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ۸۰ کے عشرے سے دنیا بھر میں دہشت گردی کا اصل سرچشمہ بن گئے ہیں۔ ۸۲ فی صد دہشت گردوں کا تعلق عرب ممالک سے ہے (شاید باقی ۱۸ فی صد دہشت گرد وہ ہوں گے جن کے ہاتھوں کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا‘ بوسنیا‘کوسووا‘ فلپائن‘ برما‘ جنوبی سوڈان اور اریٹریا کے لاکھوں افراد کا خون ہو رہا ہے)۔ ان ۸۲ فی صد دہشت گردوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘‘۔ کچھ متوسط تعلیم کے حامل ہیں اور معمولی تعداد میں اَن پڑھ بھی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کے تعلیمی نصاب‘ تعلیمی اداروں کی بدانتظامی اور درست تعلیمی پالیسیوں کے فقدان نے ان دہشت گردوں سے درپیش خطرات کو دوچند کر دیا ہے‘‘۔

وہ اس خطرناک صورت حال کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہیں:

ا- اقتصادی عمل میں جمود‘ جمہوری اقدار کا فقدان‘ کرپشن‘ رشوت۔

۲- آبادی میں غیرمنظم اضافہ جو مزید اقتصادی بدحالی کا سبب بنا۔

۳- بے روزگاری۔

۴- فاسد نظام تعلیم۔

اپنے تئیں مرض اور اسباب بیان کرنے کے بعد علاج یہ تجویز ہوتا ہے کہ مختلف عرب ممالک میں امریکی تعلیمی ادارے کھولے جائیں جن میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی اقدار بھی سکھائی جائیں۔ تعلیمی ماہرین اور اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو تربیت دی جائے۔ امریکی نصاب تعلیم عام کیا جائے اور اس پورے عمل میں طلبہ و اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک کرنے کے لیے فیسیں کم رکھی جائیں۔ ان مدارس اور امریکی اداروں میں تعلیم پانے والوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر ملازمتیں مہیا کی جائیں۔ انھیں معاشرے میں بڑھاچڑھا کر پیش کیا جائے اور اہم سیاسی و حکومتی مناصب تک پہنچنے میں ان کی مدد کی جائے۔ یہ لوگ امریکہ کے ساتھ جذباتی لگائو کے حامل اور مستقبل میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے اصل    کل پرزے ہوں گے۔

علاج کا دوسرا اہم عنصر ان ممالک کے زیادہ سے زیادہ افراد کو سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشرتی اور تعلیمی تربیتی کورس کروانا ہے جس کے لیے ہمارے پاس طے شدہ پروگرام موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی کتب کا ترجمہ کر کے ان ممالک کے اہم اداروں‘ سرکاری محکموں‘ پارلیمنٹ‘ تعلیمی اداروں‘ اہم لائبریریوں اور افراد تک پہنچائی جائیں۔ ان میں سے اہم کتب کو ان ممالک کے نصابِ تعلیم کا لازمی جزو بنا دیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ تراجم کا یہ کام امریکی وزارتِ خارجہ کی زیرنگرانی ہو۔

تیسری جانب ان ممالک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کی تشکیل یقینی بنائی جائے۔ اس ضمن میں امریکی کانگریس سے خصوصی رہنمائی حاصل کی جائے۔

علاج کا چوتھا اہم عنصر عرب خواتین کی اپنے ملک کی سیاسی اور اقتصادی زندگی میں بھرپور شرکت ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایاں نمایندگی ہو اور خواتین کی بہبود کے لیے موثر کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

اس پورے پروگرام کے لیے ابتدائی طور پر ۲۹ ارب ڈالر کا بجٹ رکھا گیا ہے لیکن یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ضمنی اور تفصیلی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے مزید مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔ وزیرخارجہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ امریکہ جن ممالک کو بھی مالی امداد دیتا ہے آیندہ ان کی امداد اس پروگرام پر عمل درآمد کے تناسب سے مربوط کر دی جائے گی۔

اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے نظام الاوقات طے کیا جائے گا اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس پر عمل درآمد ۲۰۰۳ء میں شروع ہو کر ۲۰۰۶ء میں مکمل ہو جائے۔ امریکی وزیرخارجہ نے اس پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو چار گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱-  وہ ممالک جنھیں یہ اصلاحات خود نافذ کرناہیں ان میں سعودی عرب اور مصر جیسے اہم ممالک شامل ہیں۔ انھیں یہ یقین دہانی کروائی جائے گی کہ امریکہ ان کی حکومتیں تبدیل نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ امریکہ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی کرے گی۔ اگر ان ممالک کو پروگرام کی کسی جزئیات پر کوئی اعتراض ہو تو انھیں خود اس کا ایسا متبادل پیش کرنا ہوگا جو امریکی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

۲- وہ ممالک جہاں یہ اصلاحات عسکری قوت کے ذریعے نافذ کرنا ہیں‘ ان میں عراق‘ شام‘ لیبیا‘ ایران جیسے ممالک شامل ہیں۔ عراق پر حملہ خواہ القاعدہ سے تعلق کے الزام کی بنیاد پر ہو یا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے الزام میں‘ سب ایک کھلا جھوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عراق کو نئے امریکی استعمار کا نقطۂ آغاز بنانا مقصود ہے۔ یہ منصوبہ بھی کوئی راز نہیںرہا کہ تین سے پانچ سال تک کے لیے عراق پر قبضہ کرنا مقصود ہے تاکہ ایک تیر سے کئی شکار کیے جاسکیں۔

امریکی وزیرخارجہ کے مطابق عراق کے بعد لیبیا کی باری ہے‘ کیونکہ اس کے ساتھ مفاہمت کی کوئی ادنیٰ اُمید باقی نہیں رہی۔ ’’خطے کے ممالک کو ابھی سے اس ضمن میں ہمارا ساتھ دینا چاہیے اور اس ضمن میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیبیا کے خلاف یہ کارروائی ۲۰۰۳ء کے اواخر یا ۲۰۰۴ء کے اوائل میں ہو سکتی ہے‘ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ متبادل قیادت کی تیاری عمل میں آجائے‘‘۔

کولن پاول منصوبے کے مطابق اگرچہ شام بھی اسی گروپ میں شامل ہے لیکن اس کے خلاف عسکری قوت کا استعمال کچھ مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ پہلے اسے مختلف سیاسی ‘اقتصادی‘ علاقائی اور اندرونی دبائو کے ذریعے اصلاحات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ ایران کے متعلق مزید تفصیل منصوبے میں شامل نہیں ہے۔

۳-  وہ ممالک کہ جنھوں نے عملاً اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے۔ انھیں ہمارا پورا تعاون حاصل رہے گا۔ ان میں بحرین‘ کویت‘مراکش اور تیونس وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو دیگر ممالک کے لیے بہتر مثال بنانا ہوگا اور ان کے مؤثر افراد کو تربیتی کورس کرواتے ہوئے مختلف سیاسی‘ غیر سیاسی اور این جی اوز کے نیٹ ورک میں فعال بنانا ہوگا۔ ان ممالک میں مقامی و بلدیاتی حکومتوں کے نظام کو مستحکم کرتے ہوئے حکومتی مرکزیت کو کم سے کم کرنا ہوگا۔

۴-  وہ ممالک کہ جو امریکہ کے حلیف ہیں اور اس کے ساتھ عملی شراکت کا آغاز کرچکے ہیں ان میں قطر‘ اُردن اور یمن جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’مناسب اوقات میں جو بھی امریکی پروگرام دیے جائیں انھیں نافذ کرنا ہوگا۔ ان اصلاحات کے نفاذ کی ذمہ داری براہِ راست امریکی ذمہ داران پر ہوگی۔ ان حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اندرونی معاملات یا قومی خودمختاری جیسی اصطلاحوں کی آڑ میں امریکی مطالبات سے راہِ فرار اختیار کریں کیونکہ ان حکومتوں سے امریکی تعاون کا اصل مقصد وہاں مثالی حکومتی نظام تشکیل دینا ہے تاکہ تمام رکاوٹوں اور مشکلات سے بآسانی نمٹا جاسکے‘‘۔ اس منصوبے کے مکمل متن کا عربی ترجمہ اس ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں:  www.elosboa.com

اس امریکی نقشۂ کار میں پاکستان کا مقام کیا ہو سکتا ہے‘ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔


۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے پانچ روز بعد موجودہ عالمی صورت حال کے حوالے سے کچھ مزید بیانات قابل توجہ ہیں:

  • ۱۵ ستمبر۲۰۰۱ء کو وزیرخارجہ کولن پاول نے ان واقعات کی کڑیاں عراق سے ملانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے فرمایا: ’’صدام حسین کی طرف سے نیویارک اور واشنگٹن پر دہشت گردی کی واضح مذمت سامنے نہ آنا اپنے اندر بہت سے معانی رکھتا ہے‘‘۔
  • ۱۸ ستمبر کو سی آئی اے کے سابق سربراہ نے کہا کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات‘ اسامہ بن لادن کی بجائے صدام حسین کا منظم اور بہت محنت سے تیار کیا‘ منصوبہ لگتے ہیں۔
  • ۲۱ ستمبرکو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بعض اہم امریکی ذمہ داران جن میں نائب وزیردفاع پال وولوویٹس اور نائب صدر ڈیک چینی کے سٹاف آفیسرلوئس لیبی بھی شامل ہیں کوشش کر رہے ہیں کہ عراق کو بھی حملے کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ اخبار نے لکھا کہ متعدد ذمہ دار اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ صدام حسین کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر سے نہ بھی ثابت ہو پھر بھی اس سے چھٹکارا پا لیا جائے۔
  • ۲۵ ستمبر کو کولن پاول نے کہا: ’’ہم صدام حسین کے متعلق کسی وہم کا شکار نہیں۔ وہ ہمارے اور خطے کے بارے میں اچھے ارادے نہیں رکھتا۔ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا اسلحہ تیار کر رہا ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’ہم نے ۱۰ سال اسے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے اور مزید رکھیں گے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب بھی ضرورت ہوئی ہم اس پر حملہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔
  • ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۱ء اسرائیلی وزیرخارجہ پیریز نے نیوزویک کو انٹرویودیتے ہوئے کہا: ’’میرا خیال ہے عراق ان ممالک کی فہرست میں پوری طرح شامل ہے جن پر حملہ کیا جانا ہے لیکن یہ معاملہ محض عسکری تدبیر سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو محاذ کھولنا ہیں یا باری باری‘‘۔

بیانات‘ رپورٹوں اور تجزیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس میں امریکی ارادوں اور صہیونی خواہشات چھلکتی دکھائی دیتی ہیں۔ ۱۹۹۱ء کی امریکی عراقی جنگ کے بعد بڑے بش نے کہا تھا کہ ’’اب عراق کی راکھ پر ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی جائے گی‘‘۔ تب اعلان کیا گیا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ حل ہونے کے بعد دنیا ایک نیا مشرق وسطیٰ دیکھے گی۔ ۱۹۹۳ء میں دو سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد اوسلو معاہدہ سامنے آیا۔ ۲۰۰۰ء تک ہر ممکنہ طریقے سے اس معاہدے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کئی معاہدوںکو نافذ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تاآنکہ فلسطین میں تحریک انتفاضہ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو گیا جو تمام صہیونی امریکی ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے ابھی تک جاری ہے۔ صہیونی ریاست تمام تر امریکی و مغربی امداد کے باوجود اقتصادی لحاظ سے ۵۰سال پیچھے چلی گئی ہے۔ اعداد و شمار گواہی دے رہے ہیں کہ صہیونی ریاست میں ایسا اقتصادی بحران ۱۹۵۳ء کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اب ایک نئے زاویے سے ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ دہشت گردی‘ ۱۱ستمبرسے تعلق‘ تباہ کن اسلحہ‘ اسلحہ انسپکٹروں سے عدم تعاون‘ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا نافذ نہ کرنا‘ جمہوری اقدار کی نفی… سب تجارتی اشتہارات ہیں۔ اصل مقصد افغانستان کے بعد ایک نیا نشانِ عبرت وجود میں لانا ہے‘ جس کی لاٹھی لہرا کر پوری دنیا کو باور کروانا ہے کہ ’’أنا ربکم الاعلٰی‘‘۔

عراق میں سعودی عرب کے بعد دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ ہے۔ صدربش کے سابق اقتصادی مشیر لارنس لینڈسائی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’عراق کے خلاف فوجی کارروائی کا اصل ہدف تیل ہے‘‘۔عراق اس وقت پابندی کے باوجود بھی ’’تیل بمقابل غذا‘‘ فارمولے کے مطابق ۲۴ لاکھ بیرل تیل یومیہ نکالتا ہے جو تیل کی عالمی پیداوار کا ۳.۳ فی صد ہے‘ جب کہ زیرزمین ذخیرے کی مقدار ۵.۱۱۲ ارب بیرل ہے‘ جو دنیا کے مجموعی ذخیروں کی ۱۵فی صد ہے اور الاسکا سمیت امریکہ کے تمام ذخائر سے چار گنا زیادہ ہے۔ عراقی تیل نکالنے پر فی بیرل ایک سے ڈیڑھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ جب کہ شمالی امریکہ میں یہ لاگت ۲۱ ڈالر اور جنوبی امریکہ میں ۸۱ڈالر فی بیرل آتی ہے۔ عراقی تیل اپنے معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ تر ہے۔

اب اگر خاکم بدہن عراق پر امریکی قبضہ ہو جاتا ہے اور ڈیڑھ لاکھ امریکی و برطانوی فوجی وہاں تین سے پانچ سال تک کے عرصے کے لیے براجمان ہوجاتے ہیں (جیسا کہ اعلان کیا جا رہا ہے) تو اسے ’’پولوسٹپ‘‘ قراردیاجا رہاہے‘ یعنی ایسی بنیادی اور کاری ضرب کہ جس سے مضبوط مرکز زیر ہو جائے اور پھر تمام کمزور مراکز خود بخود شکست سے دوچار ہوتے چلے جائیں۔

اس جنگ میں کتنے وسائل جھونکے جائیں گے؟ مختلف اقتصادی ماہرین مختلف اندازے بتا رہے ہیں۔ ۵ دسمبر ۲۰۰۲ء کے نیویارک ریویو آف باکس میں کہا گیا کہ ’’اگر جنگ مختصر ہوئی تو اس پر ۵۰ ارب ڈالر خرچ ہوں گے جس کے بعد ۷۰ ارب ڈالر مزید درکار ہوں گے تاکہ جنگ کے نتائج پوری طرح حاصل کیے جاسکیں اور اگر جنگ طویل ہوئی تو اخراجات ۱۴۰ ارب ڈالر تک بڑھ سکتے ہیں جس کے بعد ڈیڑھ کھرب ڈالر مزید درکار ہوں گے۔ لیکن اگر امریکہ عراق اور خلیج کے تیل پر قبضہ مستحکم کر لیتا ہے تو ان اخراجات کی حیثیت‘ ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے مقابل کچھ بھی نہیں۔

تیل کی قیمت میں صرف ایک ڈالر کی کمی آ جائے تو ایک سال میں امریکہ کے اخراجات چار ارب ڈالر کم ہو جاتے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں ایک بیرل کی قیمت ۳.۱۲ ڈالر تھی جو ۱۹۹۹ء میں ۸.۱۷ ڈالر اور ۲۰۰۰ء میں ۶.۲۷ ڈالر فی بیرل ہوگیا تو تمام امریکی حسابات تلپٹ ہوکر رہ گئے۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۳ء کے دوران امریکہ کو صرف پٹرول کی تجارت میں تقریباً ۲۷ ارب ڈالر سالانہ بچت ہوتی تھی جو اب ۴۶ ارب ڈالر سالانہ خسارے میں بدل چکی ہے۔

یہ اعداد و شمار تو صرف جنگ کے امریکی اخراجات‘ عالمی تجارت اور خطے کے ممالک پر اس کے کیا بد اثرات مترتب ہوں گے اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ رہی لاکھوں انسانی جانیں‘تو ان کی کیا حیثیت‘ وہ کوئی نیلے خون والے امریکی تو نہیں کہ ان کی بھی فکر کی جائے۔

امریکہ تو اپنے ان اقتصادی‘ سیاسی‘عسکری‘ ثقافتی اور صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تیار‘ بلکہ باولا ہوا جا رہا ہے لیکن مسلم ممالک جو اس جارحیت کا اصل شکار ہیں انھیں دشمن ہی سے نہیں اپنے آپ سے بھی غافل کیا جا رہا ہے۔ جنوری اور فروری جنگی تیاریوں کے حوالے سے حساس ترین تھے اور پاکستان ہی میں بسنت کا جنون نہیں مراکش‘ لبنان‘اُردن‘ قطر‘ امارات اور مسقط عمان سمیت متعدد ممالک میں میلے‘ جشن اور ہاؤہو کا طوفان عروج پر تھا اور اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے جاری ہے۔ بسنت میں جب یہاں امریکی مشروب ساز اداروں کی طرف سے اشتہاری اور ہلاکتی مہم عروج پر تھی‘ عین انھی دنوں امریکہ میں یہ مہم چل رہی تھی کہ فورویل گاڑیاں بند کی جائیں کیونکہ ان میں پٹرول کی کھپت زیادہ ہوتی ہے۔ ہم پٹرول زیادہ کھپائیں تو دہشت گرد ممالک کو پیسہ زیادہ ملتا ہے ‘ جس سے وہ ہمارے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں‘‘۔ سعودی عرب کو اس مہم کا زیادہ نشانہ بنایا گیا۔

ایک طرف دشمن کی تیاری اور منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے‘ دوسری طرف اُمت مسلمہ نے صف بندی بھی نہیں کی ہے۔ ہمیں اس ربانی فیصلے میں تو ادنیٰ شک و شبہ نہیں ہے کہ: وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o(الصف ۶۱:۸)’’کافر کتنا ہی ناپسند کریں‘ اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا‘‘۔ لیکن اے قوم! اے سربراہانِ قوم!! غلبہ اور جیت تو ایمان و علم و عمل سے حاصل ہوتا ہے‘ کائنات کے رب پر ایمان اور کائنات میں ہر طرف بکھرے علوم تک رسائی اور پھر اجتماعی جدوجہد۔

حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین انتخابات تھے۔ اس کے مفصل تجزیوں‘ حکومت سازی کے مراحل اور آیندہ انتخابات پر ان کی تاثیر سے ان کی اہمیت مزید واضح ہو گی۔ لیکن لگتا ہے انتخابات پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر خطے میں ہو رہے ہیں۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو الجزائر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے‘ ۵-۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو بوسنیا کے عام انتخابات ہوئے‘  ۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو برازیل کے انتخابات ہوئے۔ جرمنی‘ لٹویا‘ اکواڈور‘ آئرلینڈ میں راے دہی ہوئی‘ بحرین میں عام انتخابات ہوئے اور ۲۷ ستمبر ۲۰۰۲ء کو مراکش میں وہاں کی تاریخ کے اہم انتخابات ہوئے۔

پاکستان کی طرح بوسنیا‘ بحرین اور مراکش کے انتخابات میں وہاں کی اسلامی تحریکوں نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ بوسنیا کے سابقہ انتخابات میں سابق صدر علی عزت بیگووچ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ ان کے اہم شریک‘ وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم حارث سلاجک کی علیحدگی سے لبرل اور سیکولر عناصر کو کامیابی ملی تھی‘ اور خدشہ یہ تھا کہ اس بار بھی وہی جیتیں گے لیکن تقسیم ہونے کے باوجود علی عزت بیگووچ جنھوں نے آزادی اور پھر جنگ کے ہر مرحلے میں اپنی قوم کی قیادت کی تھی‘ کی پارٹی پہلے نمبر پر رہی۔ لیکن دنیا کو اصل اچنبھا مراکش اور پاکستان کے نتائج پر ہوا۔

مراکش جو کبھی طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے نام سے پردئہ ذہن پر اُبھرتا تھا‘ سترھویں صدی کے وسط سے دستِ ملوکیت میں ہے۔ مولای الرشید اس مملکت کے پہلے بادشاہ بنے جن کا انتقال ۱۶۷۲ء میں ہوا (مراکش میں مولانا کے بجائے مولای بولااور لکھا جاتا ہے لیکن اس کا استعمال عام طور پر حکمرانوں کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ مراکش کے تمام شہنشاہوں نے اپنے اقتدار کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خانوادئہ رسولؐ سے منسوب کر رکھا ہے)۔ اس علوی مملکت پر مختلف ادوار آئے۔ جب ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی تشکیل ہوئی تو مراکش پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پھر فرانسیسی استعمار کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے اور علوی مملکت پر فرانسیسی زبان‘ ثقافت اور تہذیب کے نقوش نمایاں ہو گئے۔ ۵ نومبر ۱۹۵۵ء کو طویل جدوجہد کے بعد مراکش کو آزادی ملی تو محمد الخامس حکمران تھے۔ ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوا تو حسن الثانی بادشاہ بنے جن کا ۱۹۹۹ء میں انتقال ہوا۔ اب ان کا بیٹا محمد السادس شہنشاہ ہے جو اپنے خانوادے کا تیئسواں بادشاہ ہے۔

حسن الثانی نے اپنے ۳۸ سالہ اقتدار میں مراکش کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے۔ شہنشاہی کی حفاظت و تقدیس ہر تجربے کا مرکز و محور رہی۔ ۹۰ کے عشرے میں انھوں نے ملک بدر اپوزیشن رہنمائوں کو ملک میں واپس آکر حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ فرانس میں مقیم اکثر لیڈر لوٹ آئے اور عبدالرحمن الیوسفی وزیراعظم بنا دیے گئے۔ الیکشن بھی کروائے گئے‘ یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی پہلے نمبر پر رہی اور مخلوط حکومت وجود میں آئی۔ اعلان کر دیا گیا کہ اب جمہوری روایات کی آبیاری کی جائے گی اور عوام کو اپنی حکومتوں کے انتخاب کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر پانچ سال بعد ۲۷ ستمبر کو انتخابات ہوا کریں گے اور کسی کو اس تاریخ میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ووٹر کی عمر ۲۳ سال مقرر کر دی گئی اور پارٹی رجسٹریشن کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ سنہ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق مراکش کی آبادی ۳کروڑ سے متجاوز ہے۔

مراکش کے حالیہ انتخابات ۳۹ سالہ شاہ محمد السادس کے عہد کے پہلے انتخابات تھے اور ملکی تاریخ کے بھی پہلے انتخابات تھے جو متناسب نمایندگی کی بنیاد پر کروائے گئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی مہم اپنے پروگرام اور انتخابی نشان ہی کے لیے چلائی۔ کہیں پر بھی شخصیتوں کو سامنے نہیں لایا گیا۔ تمام شخصیات کے نام پارٹی کی فہرستوں میں شامل تھے جو الیکشن سے پہلے کمیشن کو جمع کروائی گئیں۔

اس بار ۲۶ پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا جو اب تک انتخابات میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ وزیراعظم عبدالرحمن یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی کے علاوہ دائیں بازو کی استقلال پارٹی اور اسلامی تحریک حزب العدالۃ والتنمیۃ ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘اہم پارٹیاں تھیں اور تینوں ہی بالترتیب پہلے‘ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔ ۳۲۵ کے ایوان میں یوسفی کو ۵۰‘ استقلال کو ۴۷ اور انصاف و ترقی کو ۴۲ نشستیں ملیں۔ ۳۰ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی گئیں جو اب تک سب سے زیادہ ہیں۔

اسلامی تحریک کو گذشتہ انتخابات میں نو نشستیں ملی تھیں جو بعد میں پانچ ضمنی نشستیں جیت کر ۱۴ ہوگئیں اور حالیہ الیکشن میں تین گنا ہو گئیں جس سے پوری غربی و عربی ذرائع ابلاغ میں کھد بھد مچ گئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ مراکش الجزائر کا پڑوسی ملک ہے اور اسی کی طرح فرانسیسی اثر و نفوذ میں ہے۔ پوری انتخابی مہم میں اسلامی تحریک کے مخالفین اس کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ اس کا انتخاب مراکش کو الجزائر کی طرح خون خرابے میں مبتلا کر دے گا۔ کہا گیا ’’عالمی اور علاقائی قوتیں مراکش میں اسلامی تحریک کو کبھی برداشت نہیں کریں گی‘‘۔ ’’اسلامی قوتوں کی جیت بہائو کے مخالف سمت تیرنے کی ناکام کوشش ہوگی‘‘۔ لیکن مراکش کے عوام نے کہا کہ ’’یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی‘‘ (انصاف و ترقی پارٹی کا نشان چراغ تھا)۔

انصاف و ترقی پارٹی مراکش میں اسلامی تحریکوں کے مختلف مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ آزادی کے بعد جب وہاں کارِ دعوت کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت و جماعت سے متاثر ہو کر اس کا نام جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر شہنشاہیت کے ماحول میں نام تبدیل کرنا پڑا۔ متعدد بار نام تبدیل کرنے اور مختلف افراد کے اشتراک و اجتماع کے بعد اس کا نام تحریک اصلاح و تجدید رکھا گیا‘ ادریس الریسونی اس کے سربراہ تھے۔ پھر ’’حزب التجدید الوطنی‘‘ کے نام سے اسے ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ پہلے سے موجود ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ جو اسلامی تشخص رکھتی ہے اور شیخ عبدالکریم الخطیب (۱۹۲۱ء) اس کے سربراہ ہیں‘ میں شمولیت اختیار کرلی جائے۔ شیخ الخطیب نے خوش آمدید کہا۔ لیکن شرط یہ رکھی کہ شمولیت پارٹی کی حیثیت سے نہیں انفرادی حیثیت سے کی جائے۔ یہ شرط پوری کر دی گئی‘ انضمام عمل میں آیا اور نئی روح سے جدوجہد کا آغازہوگیا۔

سابقہ حکومت میں ’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپوزیشن کی حیثیت سے شان دار کارکردگی دکھائی۔ ان کا موقف تھا کہ ہم ’’ناصحانہ اپوزیشن‘‘ المعارضۃ الناصحۃ کریں گے۔ سودی نظام‘ خواتین کے حقوق اور صہیونی ریاست سے تعلقات کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات و مسائل پارلیمانی جدوجہد کے خاص مراحل ٹھہرے اور عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپنے اور ملکی حالات کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ فی الحال خود کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنانے اور منوانے کی کوشش نہ کی جائے۔ الجزائر کی ہمسایگی‘ فرانسیسی عمل دخل اور شہنشاہی نظام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ ملک کے کل ۹۱ حلقوں میں سے ۵۵ حلقوں میں حصہ لیا جائے۔ اسی پالیسی کو انھوں نے ’’المشارکۃ لا المغالبۃ‘‘ کا نام دیا،’’یعنی غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ پارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم فی الحال ملک کی بڑی پارٹیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ نتائج آنے کے بعدبھی پارٹی نے یہی فیصلہ کیا کہ حکومت میں شرکت کی پیش کش قبول نہ کی جائے‘ اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے خود کو مضبوط تر اور عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔

’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ مراکش کی اکلوتی اسلامی تحریک نہیں ہے۔ ایک اور اہم بلکہ اہم تر اسلامی پارٹی، ’’جماعت عدل و احسان‘‘ ہے۔ اس کے سربراہ شیخ عبدالسلام یاسین بڑے حق گو رہنما ہیں۔ شیخ حسن البنا کی طرح شیخ عبدالسلام یاسین نے بھی عملی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا اور پھر وزارت تعلیم میں انسپکٹر کی ذمہ داری سے گزرتے ہوئے خود کو دعوت و اصلاح کے لیے وقف کر دیا۔ اس راہ میں انھیں لاتعداد مصائب جھیلنا پڑے۔ ۱۹۷۴ء میں گرفتار ہوئے تو چار سال بعد رہا ہوئے۔ پھر تقاریر پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں پھر گرفتار ہوئے۔ ۱۹۸۵ء میں رہا ہوئے اور پھر پورے ۱۰ سال کے لیے گھر میں نظربند کر دیے گئے۔ اس دوران ان کی صاحبزدی ان کے اور مراکشی عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنیں۔

۱۰ سال کے بعد رہائی ملتے ہی شاہ حسن الثانی کو ایک مفصل اور دو ٹوک خط لکھا کہ عوام کی دولت و ثروت پر ناجائز قبضہ تمھیں جہنم کی آگ سے دوچار کر سکتا ہے۔ اپنے آپ اور اپنے آبا و اجداد کی نجات کے لیے محلات اور لوٹی ہوئی دولت عوامی خزانے میں جمع کروا دو۔ لوگوں کو آزادیاں دینے کی بات کی‘ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ شاہ حسن الثانی نے اس نصیحت کو سنا لیکن قبول نہیں کیا۔ شیخ عبدالسلام کے لاکھوں عشاق کے باعث وہ انھیں اس جسارت کی سزا بھی نہ دے سکا اور گور میں جا پہنچا۔ شیخ عبدالسلام نے ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ صرف ایک فریب اور سراب ہے۔ اصل اور کلی اختیار ’’شاہ‘‘ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہم اس ڈرامے میں شریک نہیں ہوں گے۔ گویا شاہ محمد السادس کو پارلیمنٹ کے اندر بھی اسلامی تحریکوں کی توانا آواز کا سامنا کرنا پڑے گا اور باہر بھی۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں ایک گروہ ان قبائل کا بھی تھا جو یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ’’امازیغی‘‘ زبان کو بھی ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔

انتخابات کے بعد شاہ محمد السادس نے یوسفی کے وزیرداخلہ ادریس جطو کو وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ اس فیصلے پرسب سے زیادہ صدمہ یوسفی کو ہوا ہے کیونکہ سب نقاد اس پر یہی تنقید کرتے تھے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔ اس نے اپنے کئی مطالبات صرف شاہ کی رضامندی کی خاطر تج دیے۔ بہت سے کام اپنی رضا و رغبت سے ہٹ کر انجام دیے اور پھر پارٹی کو بھی سب سے بڑی پارٹی ثابت کیا‘ لیکن اس کے بجائے اس کے ایک وزیر کو حکومت سونپ دی گئی۔ دوسرا بڑا صدمہ ایک سابق سیکورٹی انچارج محمود عرشان کو ہوا جس نے اپنے بڑوں کی خاطر اپوزیشن اور حکومت مخالف عناصر پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان کے حلقے میں صرف ایک ہی بے ضرر نعرے نے انھیں شکست کا منہ دکھا دیا۔ ’’الجلاد لایبنی الدیمقراطیہ‘‘ جلاد جمہوریت نہیں دے سکتا۔ ایک اور صاحب سعید سعدی‘ وزیر امور خواتین تھے۔ انھوں نے عالمی دبائو کے پیش نظر خواتین کو ہر میدان اور پارلیمنٹ میں بھی غیر معمولی طور پر شریک کیا۔ ۳۰ خواتین ان کے فیصلوں کے باعث اسمبلی میں پہنچ گئیں لیکن سعدی خود نہ آ سکے۔

مراکش کے ان انتخابی نتائج کے بعد پوری دنیا میں مختلف تبصرے اور تجزیے سامنے آئے ہیں۔ کچھ نے کہا: ’’نئے بادشاہ نے تسلیم کروا لیا کہ وہ اپنے والد سے مختلف اور زیادہ جمہوری ہے۔ لوگوں کو آزادی راے اور نسبتاً شفاف انتخاب کروا کے اس نے اپنے والد کا کفارہ ادا کرنا چاہا ہے‘‘۔ ایک بڑے گروہ نے ان نتائج کو تاریکی میں اُمید کی کرن قرار دیا۔ معروف تجزیہ نگار فہمی ھویدی نے الشرق الاوسط میں لکھا کہ ایسی عرب دنیا میں کہ جب حکمران ۹.۹۹ فی صد ووٹ لے کر جیت رہے ہوں آزادانہ انتخاب کروا دینا اور پھر ان میں اسلام سے محبت رکھنے والوں کا کامیاب ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دل میں اُمید روشن رکھنا چاہتا ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے اصلاحی مقاصدمیں ضرور کامیاب ہوں گے۔ پاکستان کے انتخابات کے بعد اس سوچ کے حامل تبصروں میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔