عبد الغفار عزیز


نام نہاد عدالتی کارروائی کا ڈراما ختم ہوا اور عظیم مفسر قرآن سید قطب کو ناکردہ گناہ کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ سزا پر عمل درآمد بھی حتمی تھا، لیکن ظالم آخری لمحے بھی اپنے قدموں میں جھکانا اور اسلامی تحریک کے خلاف مزید سازشیں تیار کرنا چاہتے تھے۔ سیدصاحب سے کہا گیا: ’’اگر اعترافِ جرم کرلو اور معافی مانگ لو تو یہ سارا عذاب انعامات میں بدل جائے گا‘‘۔ مفسرِقرآن نے دوٹوک جواب دیا: ’’میری جو انگلی ہرنماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے وہ ایسا ایک حرف بھی لکھنے کو تیار نہیں جس سے ڈکٹیٹرکی حکمرانی تسلیم کرنے کا عندیہ ملتا ہو‘‘۔ کہا گیا: ’’تو پھر موت کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ جواب ملا: ’’الحمدللہ… میں نے شہادت حاصل کرنے کے لیے ہی تو گذشتہ ۱۵برس جدوجہد کی ہے‘‘۔

جب کوئی دبائو کارگر ہوتا دکھائی نہ دیا تو آخری ہتھکنڈے کے طور پر سیدقطب کی چھوٹی ہمشیرہ حمیدہ قطب سے رابطہ کرنے کا سوچا گیا، جو خود بھی جیل میں عذاب جھیل رہی تھیں۔ آیئے    اس کے بعد کی داستان خود حمیدہ قطب کی زبانی سنتے ہیں:

’’فوجی جیل کے سربراہ حمزہ البسیونی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور پھانسی کا حکم نامہ اور اس پر صدرِمملکت کی مہرتصدیق دکھاتے ہوئے کہا: ’’اگر تمھارا بھائی حکومت کی بات مان لے تو یہ یقینی موت اب بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ کچھ توقف کے بعد مزید کہا: ’’تمھارے بھائی کی موت صرف تمھارے لیے نہیں، پورے مصر کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگی۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم چند گھنٹوں بعد اس جیسی شخصیت کھو دیں گے۔ ہم کسی بھی طرح، کسی بھی حیلے وسیلے سے تمھارے بھائی جیسی   عظیم ہستی کو بچانا چاہتے ہیں… دیکھو اس کے چند الفاظ اسے یقینی موت سے بچا سکتے ہیں… اور اسے یہ الفاظ لکھنے پر صرف اور صرف تم آمادہ کرسکتی ہو… بنیادی طور پر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ اسے تمھارے علاوہ کوئی دوسرا قائل نہیں کرسکتا… بس چند الفاظ ہیں اور سارا معاملہ طے ہوجائے گا… اسے صرف یہ لکھنا ہے کہ ’’یہ تحریک (اخوان) کسی بیرونی طاقت سے منسلک تھی‘‘۔ بس اتنا لکھنے سے بات ختم ہوجائے گی اور سید قطب کو خرابیِ صحت کی بنا پر رہا  کردیا جائے گا۔

میں نے جواب دیا: ’’لیکن تم بھی جانتے ہو اور خود جمال عبدالناصر بھی جانتا ہے کہ اخوان کسی بیرونی طاقت سے وابستہ نہیں ہیں‘‘۔

حمزہ البسیونی نے جواب دیا: ’’بالکل، مَیں جانتا ہوں، بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مصر میں صرف آپ لوگوں کی تحریک ہی ہے جو خالصۃ للّٰہ اپنے دین کی خاطر کوشاں ہے۔ آپ لوگ مصر کے بہترین لوگ ہیں، ہم تو بس سید قطب کو پھانسی سے بچانے کے لیے ان سے یہ لکھوانا چاہتے ہیں‘‘۔

یہ کہتے ہوئے اور میری کسی بات کا انتظار کیے بغیر، وہ اپنے نائب صفوت الروبی سے مخاطب ہوا: ’’صفوت! اسے اس کے بھائی کے پاس لے جائو‘‘۔

میں بھائی جان کے پاس لے جائی گئی اور سلام دعا کے بعد ان لوگوں کا پیغام جوں کا توں پہنچا دیا۔ انھوں نے زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں، جیسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ کیا یہ صرف ان کا پیغام ہے یا میری راے بھی اس میں شامل ہے۔ الحمدللہ! میں نگاہوں کے اشارے سے انھیں یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ میری راے نہیں، صرف ان کا پیغام ہے۔

اس پر بھائی جان گویا ہوئے: خدا کی قسم! اگر اس بات میں کوئی بھی صداقت ہوتی تو پوری روے زمین پر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مجھے یہ بات لکھنے سے روک سکتی۔ لیکن آپ جانتی ہیں کہ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے اور میں ہرگز… ہرگز جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔

یہ جواب سن کر صفوت الروبی درمیان میں بولا: ’’تو گویا یہ تمھارا حتمی فیصلہ ہے؟ سیدصاحب نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل‘‘۔ صفوت یہ سن کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اچھا ٹھیک ہے… پھر تمھاری مرضی‘‘۔ قدرے توقف کے بعد کہا: ’’چلو تم دونوں بہن بھائی تھوڑی دیر ملاقات کرلو‘‘۔

صفوت کے چلے جانے پر میں نے بھائی کو ساری بات بتائی کہ کس طرح انھوں نے پھانسی کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے مجھے آپ کو قائل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ بھائی نے پھر پوچھا: کیا تم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہو۔ میں نے جواب دہرایا: نہیں۔ بھائی جان کہنے لگے: ’’زندگی کے فیصلے رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہیں۔ جو لوگ خود کو بھی کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہ میری مہلت حیات میں کوئی ادنیٰ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ ہرشے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے ان ظالموں کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔

دونوں قیدی بہن بھائیوں کے درمیان یہ آخری ملاقات تھی۔ دونوں کی اس سے پہلی ملاقات بھی جیل ہی میں ہوئی تھی۔ اس کا ذکر مرحومہ زینب الغزالی نے اپنی کتاب روداد قفس میں یوں کیا ہے۔ واضح رہے کہ زینب الغزالی اور حمیدہ قطب ایک ہی کوٹھڑی میں قید تھیں: ’’سیدقطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے پانچ روز بعد ہماری کوٹھڑی کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی، دروازہ کھلا تو سید قطب بھائی اندر آئے۔ ان کے ساتھ  جیل کے دو اعلیٰ افسر ابراہیم اور صفوت الروبی بھی تھے۔ ابراہیم تو انھیں ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا لیکن صفوت وہیں رہا۔ ہم نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: خوش آمدید۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لائے، آج تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوا۔ سیدقطب بیٹھ گئے اور زندگی کی حقیقت اور موت کے مقررہ وقت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے: ’’موت و حیات کافیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی طاقت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ہم ہرصورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں صرف اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے‘‘… ان کی یہ گفتگو سن کر صفوت غصے میں آگیا اور بھناتے، بڑبڑاتے ہماری ملاقات ختم کروا دی۔ امام قطب نے ایک نظر ہمیں دیکھا اور جاتے جاتے پھر دہرایا: ’’ہمیں کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا‘‘۔ بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات کی رات، ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کی صبح سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔

 حمیدہ چھے بہن بھائیوں میں سیدصاحب کی سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں  پیدا ہوئیں۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی کئی ادبی کاوشیں بھی شائع ہوئیں۔ بھائی اخوان سے وابستہ ہوا تو باقی پورا خاندان بھی تحریک سے وابستہ ہوگیا۔ حمیدہ نے اخوان کے رسالے الاخوان المسلمون میں کئی تحریریں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب رات کے جنگل میں سفر  بھی شائع ہوچکی ہے۔

 ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کے پہاڑ توڑے گئے تو وہ زینب الغزالی اور دیگرخواتین کے ساتھ مل کر گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔ حمیدہ اپنے اسیر بھائی سید قطب اور اخوان کی قیادت کے مابین رابطے کا ذریعہ بھی بنیں۔ سیدقطب کی شہرۂ آفاق کتاب معالم فی الطریق یعنی جادہ و منزل کا مسودہ بھی انھی کے ذریعے جیل سے باہر آسکا۔ سید قطب کی گرفتاری کے ان ۱۰ برسوں میں حمیدہ قطب نے ایک مخلص بہن اور مثالی کارکن کا فریضہ انجام دیا۔ دل کا شدید دورہ پڑنے پر سیدقطب کو مئی ۱۹۶۴ء میں رہا کردیا گیا لیکن ابھی تقریباً ایک سال ہی گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔اس بار صرف انھیں ہی نہیں، حمیدہ کو بھی قید کردیا گیا۔ جیل میں ان پر ناقابلِ بیان تشدد کیا گیا اور پھر ۱۰سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی لیکن پھرچھے سال چارماہ کی قید کے بعد ۱۹۷۲ء میں رہا کردی گئیں۔  حمیدہ پر چارالزامات عائد کیے گئے: lتم نے سید قطب اور زینب الغزالی کے مابین ہدایات اور معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے جادہ و منزل کا مسودہ جیل سے باہر منتقل کیا l تم نے اخوان کے ذمہ داران یوسف ھواش اور علی عشماوی کے درمیان معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک اسیرانِ تحریک کے خاندانوں کی مدد کی۔

سوے دار جانے والے بھائی کو کامل صبروثبات سے رخصت کرنے اور اس نازک موقع پر کسی طرح کی کمزوری کا اظہار نہ کرنے والی بہن نے ان سب الزامات کو قبول کیا اور بھائی کی شہادت کے بعد بھی پانچ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہیں۔ گرفتاری کے وقت ان کی عمر۲۹برس تھی اور وہ ابھی غیرشادی شدہ تھیں۔

عظیم مفسر قرآن بھائی کی یہ عظیم مجاہد بہن ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء بروز جمعہ قیدحیات سے بھی رہائی پاگئیں۔ یقینا شہیدبھائی نے جنت کی دہلیزوں پر استقبال کیا ہوگا۔  ع

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

کہنے کو تو یہ ایک لفظ تھا لیکن مصر میں یہ ایک مکمل پیغام اور ایک قومی تحریک بن گیا۔ فُلُول، یعنی شکست خوردہ اور فاسد ٹولے کی باقیات۔ اس وقت مصر میں کسی شخص یا گروہ کے لیے فُلُول  کا لیبل لگ جانے سے زیادہ معیوب اور باعثِ عار بات شاید کوئی نہ ہو۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس ایک لفظ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لَا لِلْفُلُول کا نعرہ اس قدر زباں زد عام ہوگیا کہ   اگر کہیں صرف ’لا‘ ہی لکھا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ ڈکٹیٹر کی باقیات کو مسترد کیا جارہا ہے۔  ۲۴جون ۲۰۱۲ء کو مصری تاریخ کے پہلے حقیقی صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہورہا تھا تو ملک کے ہر شہر اور قصبے کی طرح قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے اور پورے میدان میں ایک بڑے بینر پر صرف ’لا‘ ہی پڑھا جارہا تھا۔ کئی جملوں پر لکھی پوری عبارت پڑھنے کا تکلف کیے بغیر ہی ’لا‘ پورا پیغام واضح کررہا تھا۔

 مصری تاریخ میں یہ پہلے صدارتی انتخاب تھے کہ جس کے نتائج انتخاب سے پہلے ہی معلوم نہ تھے۔ مصر ہی نہیں اکثر عرب انتخابات میں حکمران ۹ئ۹۹ فی صدووٹ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے۔ عوامی انقلابات نے لوگوں کو پہلی بار اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا۔    یہ حقیقت ہر مخلص اور بے تعصب مسلمان کے لیے باعث طمانیت ہے کہ ان پہلے آزادانہ انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسلامی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

الاخوان المسلمون مصر کے اُمیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدر مملکت جیت، خطے میں دیگر تمام کامیابیوں کا تاج ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقینا پورے مشرق وسطیٰ میں مصر کی مرکزی حیثیت ہے۔ مصر میں فی الحال تمام تر اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ اخوان کے صدارتی اُمیدوار کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اندرون ملک مخالفین سے زیادہ مصر کے تمام بیرونی دشمن بے تاب تھے۔

صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۱۳ اُمیدوار تھے۔ حسنی مبارک کا آخری وزیراعظم اور ۱۰سال تک اس کا وزیر ہوا بازی رہنے والا لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق وہ اکلوتا اُمیدوار تھا جس پر انتخابی مہم کے دوران ملک کے اکثر اضلاع میں عملاً جوتوں کی بارش ہوئی۔حتیٰ کہ وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن کے باہر بھی ’ پُرجوش ‘جوتا باری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُمیدواروں میں اگرچہ طویل عرصے تک حسنی مبارک کا وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل رہنے والا عمروموسیٰ بھی تھا۔ ایک سابق انٹیلی جنس چیف حسام خیر اللہ بھی تھا۔ ناصری ذہن کا سرخیل حمدِین صبَّاحی اور بائیں بازو کے کئی دیگر اُمیدوار بھی تھے، لیکن ۱۳ اُمیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی نفرت کا سامنا جنرل شفیق ہی کو کرنا پڑا۔ اس سب کچھ کے باوجود جب پہلے مرحلے کے نتائج آئے تو جنرل صاحب سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرے مرحلے میں مقابلہ ان کے اور پہلے نمبر پر آنے والے اخوان کے اُمیدوار ڈاکٹر محمدمُرسی کے مابین ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ۵۰ فی صد  ووٹ حاصل کرنے کی شرط بھی نہیں ہے اور اگر فلول کا لیبل سجائے جنرل صاحب، ایک ووٹ بھی زیادہ لے گئے تو وہ مصر کے آیندہ صدر ہوں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق کا دوسرے نمبر پر آجانا، جہاں سب کے لیے باعث حیرت تھا وہیں مصر کے ازلی دشمن ’اسرائیل‘ کے لیے یہ اُمید کی اہم نوید تھی۔ اسرائیلی ذمہ داران حسنی مبارک کے دور کو اسرائیل کے لیے ’اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ احمد شفیق کا نام دوسرے مرحلے میں آگیا تو اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور حالیہ نائب وزیراعظم نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانے کی واپسی کی اُمیدیں جوان ہوگئی ہیں‘‘۔ سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف عاموس یادلین گویا ہوئے: ’’ سقوطِ مبارک کے بعد اسرائیل کے گردو نواح میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آسکتی تھی کہ ترکی یا ایران جیسی کسی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر مصر کوئی اسرائیل دشمن بلاک نہ تشکیل دے دے۔ احمد شفیق کی جیت کی صورت میں ایسا ہر امکا ن ختم کیا جاسکتاہے ‘‘ - اعلیٰ تعلیم کے اسرائیلی وزیر گدعون ساعر نے کہا: ’’مبارک نظام کے اہم رکن جنرل شفیق کی جیت سے عالمِ عرب کی اجتماعی سوچ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔اس جیت سے ان عرب حکومتوں کے خلاف عوامی انقلاب کی خواہش دم توڑ جائے گی کہ جن کا باقی رہنا ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ضامن ہے‘‘- سابق وزیر دفاع بنیامین الیعازر جو حسنی مبارک کے قریبی احباب میں شمار ہوتا تھا نے تبصرہ کیا: ’’شفیق کی جیت کا مطلب ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنا گیس سپلائی کا معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا۔ امریکا جنرل شفیق کو بآسانی قائل کرلے گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا تبصرہ تھا ’’مبارک کے بغیر مصر ہمارے لیے کسی ایٹمی خطرے سے بھی بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کم از کم چار بریگیڈ فوج مصری سرحدوں پر کھڑی کرنا پڑے گی۔ اب یہ خطرہ ٹلنے کی اُمید ہے‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں نے انقلاب مصر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں ۳۰؍ ارب ڈالر اضافے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ملک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔

 لبنان سے شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ الأمان نے اسرائیلی ذمہ داران کے  درج بالا تبصروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان بیانات میں ’’اسرائیلی قومی سلامتی کے تحقیقاتی ادارے کے رکن جنرل (ر) رون ٹیرا کا یہ فرمان بھی شامل ہے کہ ’’مبارک دور نے اسرائیل کو مثالی اسٹرے ٹیجک شراکت عطا کی۔ اس شراکت داری کی بنیاد پر ہم ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء غزہ پر   حملہ آور ہوسکے۔ اگر مصری انتخابات میں مبارک کے ساتھیوں کے بجاے کوئی،نیشنلسٹ، اسلامسٹ، حتیٰ کہ کوئی لبرل شخص بھی برسر اقتدار آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ عرب ملکوں پر حملے کی اسرائیلی صلاحیت انتہائی کمزور ہوجائے گی‘‘۔

ان تمام بیانات اور تبصروں کے مطالعے کے بعد اب اندازہ لگائیے کہ جنرل شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے ہوں گے۔ غریب اور اَن پڑھ ووٹروںکے ووٹ خریدنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خزانوں کے منہ کھل گئے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اخبارات نے اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کی شدید ترین یلغار کردی۔ اخوان کی طرف سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ جنرل شفیق کے حق میں فوج، پولیس اور مختلف ایجنسیوں کے تقریباً ۱۵ لاکھ ان افراد کے ووٹ بھی ڈلوائے گئے جنھیں ووٹ کا حق نہیں تھا۔

اخوان سے ان کی جیت چھیننے کے لیے جو دیگر ناپاک ، مہیب اور خطر ناک اقدامات اٹھائے گئے ان میںایک سرفہرست اقدام یہ تھا کہ پولنگ سے صرف ڈیڑھ دن پہلے، یعنی ۱۴ جون کی شام، چند ماہ پہلے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا ہر سیاسی کارکن اور ووٹر کو پیغام دیا گیا کہ اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہمیں جس آخری حد تک بھی جانا پڑا، ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹ ضائع نہ کرو، اخوان کواقتدار میں آنے کی اجازت کسی صورت نہ ملے گی۔ اسی دوران میں ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گذشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے سنے جانے والے مقدمے کا فیصلہ اچانک ۲ جون کو سنادیا گیا۔ ۳۰سال سے سیاہ و سفید کے مالک حکمران کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس مرحلے پر فیصلہ سنانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ حسنی مبارک کے خلاف پائی جانے والی گہری عوامی  نفرت کو تسکین پہنچاتے ہوئے ،اسے فوجی کونسل اور اس کے نمایندہ سمجھے جانے والے صدارتی اُمیدوار کے حق میں ہموار کیا جائے۔

صرف قرآن کریم کا فرمان ہی ازلی و ابدی سچی حقیقت ہے کہ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵:۴۳ ) ’’حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔   یہ تمام حکومتی چالیں بھی چلنے والوں کی گردن کا پھندا بن گئیں۔ اگر ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل    جنرل شفیق کے بجاے کوئی بھی اور اُمیدوار ہوتا،تو عوام کی اتنی اکثریت کبھی اخوان کے اُمیدوار کے گرد اکٹھی نہ ہوپاتی۔ جنرل شفیق کو سامنے دیکھ کر ابوالفتوح جیسے مضبوط اُمیدوار کو بھی مجبوراً اور  علانیہ طور پر ڈاکٹر مرسی کی حمایت کرنا پڑی اور بڑی تعداد میں حمدین صباحی کے ووٹرز بھی ان کے ساتھ آگئے۔ اگرچہ خود حمدین نے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عملاً جنرل شفیق کو فائدہ پہنچایا۔ اس دوران ایک دل چسپ اشتہار سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اخوان کے اُمیدوار کی جہازی سائز تصویر تھی اور اس پر لکھا تھا:أنا مش اخوان، ہأدعم دکتور مرسی، ’’میں اخوانی نہیں لیکن میں ڈاکٹرمرسی کو ووٹ دوں گا‘‘۔ اسی طرح حسنی مبارک کو سزا دینے کا ’اعزاز‘ بھی عوام کی نظر میں عبوری حکومت کا جرم ٹھیرا۔ فیصلہ سنتے ہی وسیع و عریض کمرۂ عدالت میں بیٹھے سیکڑوں وکلا اور شہداء کے ورثا نے نعرہ لگایا: الشعب یرید تغییر القضائ، عوام عدلیہ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور پھر ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع ہوگئے کہ سیکڑوں افراد کے قاتل  حسنی مبارک کوبا سہولت عمر قیدنہیں، پھانسی دو۔

رہا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو اگرچہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا لیکن اس نے بھی عوام کو مایوس کرنے اور اخوان کا ساتھ چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے کے بجاے انھیںاس بات پر یکسو کردیا کہ اگر عوامی فیصلے کی حفاظت کرنا ہے تو باقیات کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا پورا فیصلہ ہی  مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ قومی اسمبلی یعنی ’مجلس الشعب‘ کے انتخاب کے لیے ضابطہ کار، عسکری کونسل اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے طے پایا تھا۔ اس متفق علیہ ضابطے کے مطابق ۴۹۸سیٹوں پر مشتمل ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو تہائی سیٹیں  متناسب نمایندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے رکھی گئیں اور ایک تہائی براہِ راست انفرادی اُمیدواروں کے لیے۔ ووٹنگ تین مرحلوںمیںہوئی، ہر مرحلے کے دو اَدوار تھے۔ اس طرح کاغذات نامزدگی داخل کروانے، انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ مکمل ہونے کا عمل کئی ماہ جاری رہا۔ پھر ارکان اسمبلی کی باقاعدہ حلف برداری ہوئی اور دستور سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ لیکن اچانک دستوری عدالت میں ایک اعتراض داخل کیا گیا، کہ انفرادی نشستوں پر اُمیدواروں نے پارٹیوں کی طرف سے نہیں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا تھا۔ اور پھر پولنگ سے عین ڈیڑھ دن قبل،۳/۱ ارکان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے نومنتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان ہی دستوری عدالت کے سربراہ بھی ہیں۔ بالفرض اگر کچھ ارکان کا انتخاب واقعی خلاف ضابطہ تھا، تب بھی صرف ان ارکان کا انتخاب دوبارہ کروایا جاسکتا تھا۔ کروڑوں عوام کے ووٹ، اربوں روپے کے اخراجات اور پوری قوم کے کئی ماہ، یعنی کروڑوں گھنٹے صرف کرکے منتخب ہونے والی پہلی حقیقی اسمبلی تحلیل کرنے کا جواز بدنیتی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ساری بحث صرف قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے بارے میں تھی، لیکن بات پوری پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھیلائی جاتی رہی حالانکہ ۲۷۰؍ارکان پر مشتمل، عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی مجلس شوریٰ (یعنی سینٹ) جوں کی توں موجود، بحال اور فعال ہے اور اس میں بھی اکثریت اخوان اور حزب النور ہی کی ہے۔

اخوان نے اس نازک موقع پر انتہائی صبر و حکمت کا ثبوت دیا۔ ’پارلیمنٹ‘ تحلیل کردینے کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ ممکن تھا کہ لوگ فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجائیں۔ فوج انھیں کچلنے کے لیے قوت استعمال کرے اورپھر ان فسادات کی آڑ میں صدارتی انتخاب کا پورا عمل ہی لپیٹ دیا جائے۔ اخوان نے دستوری عدالت کا فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے ایک اصولی اعلان کیا کہ اس وقت کسی دستوری شق میں کسی بھی فرد یا ادارے کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہماری ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہنی چاہیے۔ لوگ میدان تحریر کی طرف ملین مارچ کرنے کے بجاے، پولنگ سٹیشنوںکی طرف لانگ مارچ کریں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔ پھر جیسے ہی ووٹنگ کا عمل تکمیل کو پہنچا اور پورے ملک کے پولنگ سٹیشنوں سے نتائج کی سرکاری دستاویزات جاری ہوگئیں، تو میدان التحریر سمیت ملک کے کونے کونے میں بڑے مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہم اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔

 گنتی کے پہلے روز ہی نتائج واضح ہوگئے تھے، متعدد بار جیل جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی تقریباً ۱۰ لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۳۰ہزار ایک سو ۳۱ووٹ (۷۳ئ۵۱)لے کر جیت گئے تھے۔ لیکن اچانک جنرل شفیق نے دعویٰ شروع کردیا کہ وہ ۵۲ فی صد ووٹ لے کر جیتے ہیں اور اصل نتیجہ سرکاری نتیجہ ہو گا۔ سرکاری نتائج ۲۱ جون کو آنا تھے، لیکن عین آخری لمحے چیف الیکشن کمشنرنے عذر پیش کیا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹوں پر اعتراضات سامنے آگئے ہیں،اور ان اعتراضات کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔ ’’فلول‘‘ کے دعوے اور سرکاری نتائج میں تاخیر سے عوام پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ الجزائر کے انتخابات یاد آنے لگے اور انقلاب کے ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دینے لگے، تو عوام مزید جوش و جذبے سے میدان التحریر میں      جمع ہونے لگے۔ ۱۸ جون سے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ۲۴جون کی شام تک نتائج کے انتظار نے، شرکا کی تعداد بلامبالغہ کئی ملین تک پہنچا دی۔

بالآخرڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا،اور مصر ہی میں نہیں، پورے خطے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ میدان التحریر میں نعروں کے ساتھ ہی ساتھ شرکا نے عید کی تکبیرات شروع کردیں۔ اللّٰہ اکبر ۔۔اللّٰہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر..... ان کا کہنا تھا کہ یہ عید الدیمقراطیۃ ،  ’’عید جمہوریت ہے‘‘۔خوشی کے ان تمام جذبات سے اہم بات یہ ہے کہ ان شرکا نے اپنا یہ دھرنا تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے کہ جب تک نومنتخب اسمبلی بحال کرنے اور فوجی کونسل کے بلاحدود اختیارات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

 واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے اسی ہنگامے میں، فوجی عبوری کونسل کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی نے ایک ’ضمنی دستوری اعلان‘ جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے اکثر اختیارات یا تو خود حاصل کرلیے ہیں یا انھیں فوجی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔اس اعلان کے مطابق فوجی عبوری کونسل کو اسمبلی کی عدم موجودگی میں مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔کونسل کو ہرطرح کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے فوجی افسروں کے تقرر و ترقی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔اسمبلی کی منتخب کردہ دستور ساز کمیٹی کے بجاے نئی کمیٹی مقرر کرنے اور اس کی سفارشات آجانے کے ۱۵روز کے اندر اندر ان پر عوامی ریفرنڈم کرواتے ہوئے ملک کا نیادستور بنا دینے کے لیے روڈمیپ دے دیا گیا ہے۔بندوق کے زور پر بننے والے   عبوری کونسل کے سربراہ کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر مملکت کے برابر  حقوق و اختیاردیتے ہوئے،کسی بھی دستوری شق پر اعتراض کرنے اور اسے واپس پارلیمنٹ بھجوانے کا حق دے دیا گیا ہے ۔ اور پارلیمنٹ کے اصرار کرنے کی صورت میں اس شق کو دستوری عدالت کو بھجوانے کا حکم جاری کیا گیاہے۔

اس وقت میدانوں میں بیٹھے لاکھوں عوام اس دستوری اعلان کی منسوخی اور اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر فوجی کونسل ملک کو پھر سے تباہی کے گڑھے میں پھینک دینے پر مصر نہ ہوئی، تو اسے بالآخر عوام کے مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ عوام کے لیے قوت واعتماد کا اصل سہارا    رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ا سی ذات نے ڈاکٹر مرسی کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچادیا ہے۔نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقع پر کہے جانے والے یہ الفاظ متعدد بار دہرائے: ـ’’لوگو مجھے تمھارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میںتم سے بہتر نہیںہوں ۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو‘‘ ۔انھوں نے قومی اوربین الاقوامی امور پر دوٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہا :’’ میں کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں پوری مصری قوم کا نمایندہ ہوں، تم سب میرے لیے برابر ہو۔میرے حامی ،میرے مخالف،مسلم ،مسیحی، سب میرے لیے یکساں ہیں۔

ڈاکٹر مرسی کی پوری تحریک کا شعار تھا: النہضۃ ارادۃ الشعب، نہضت عوام کا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی لکھا تھا: مصر کی تعمیرو ترقی،اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔واضح رہے کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اور عالمی یونی ورسٹیوں سے انجینیرنگ میں ڈاکٹریٹ بھی کی ہوئی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ ہم سب سے برابری اور انصاف کی بنیاد پر باہمی تعلقات مستحکم کریں گے۔ قومی مفادات کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔ پھر دوٹوک انداز میںکہا: ’’ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت نہیں کریں گے ، لیکن کسی کو بھی اپنے ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔ انھوں نے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا:’’ میرے عزیز ہم وطنو! میں تمھارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا‘‘۔تقریر ختم ہونے کے چند منٹ بعد صدر محمد مرسی کے بیٹے عبد اللہ محمد مرسی نے فیس بُک پر پیغام لکھتے ہوئے کہا : ’’ بابا! یقینا ہم صرف  اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے، اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریں گے‘‘۔

جب بیٹا بھی باپ اور صدر مملکت کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے مشروط کر دے، توپھر رب ذوالجلال کی رحمتیں اورنصرت بھی یقینا شامل حال ہوتی ہیں ۔ وہی تو ہے جو اقتدار دیتا اورچھینتا ہے ، عزت دیتا یا ذلت کے گڑھوں میںپھینک دیتا ہے ( قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط  اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ  ۔ اٰلِ عمران۳:۲۶)

سورج نصف النہار پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلچلاتی دھوپ میں گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے۔ انھوں نے دور سے آپؐ کو دیکھ کر کہا: ’’اس وقت آمد؟___ ضرور کوئی اہم بات ہے‘‘، اور پھر آگے بڑھ کر استقبال کرتے ہوئے اپنی چارپائی پر لابٹھایا۔ آپؐ نے کوئی بات کہنے سے پہلے فرمایا: ’’گھر میں کوئی اور ہے تو اسے رخصت کردیں‘‘۔ صدیق اکبر ؓ نے عرض کی ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ! اور تو کوئی نہیں، صرف میری دونوں صاحبزادیاں (حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہما) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے اہم ترین اطلاع دیتے ہوئے بتایا:اِنَّہٗ قَدْ أذِنَ لِی فِيْ الْخُرْوجِ وَ الْہِجْرَۃ، ’’مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے کوئی بھی مزید تفصیل پوچھنے کے بجاے فوراً عرض کیا: اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُولَ اللّٰہ؟،’’یا رسول اللہ رفاقت؟‘‘ آپ نے فرمایا:اَلصُّحْبَۃ، ’’ہاں رفاقت‘‘۔ مژدہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ بے اختیار رو دیے۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ’’اس سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی شخص خوشی کی انتہا پر بھی روسکتا ہے۔ اس روز ابوبکرؓ کو خوشی سے روتے دیکھا تو یہ راز کھلا‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاں نثار صحابہ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم دیا، تو حضرت ابوبکرؓ صدیق نے بھی حکم بجا لانے کی اجازت چاہی تھی۔ تب آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَعجَل، لَعَلَّ اللّہَ یَجعَلُ لَکَ صَاحِبا ’’جلدی نہ کریں، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے لیے رفیق سفر کا انتظام کردے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے فرمان نبویؐ سنتے ہی اپنے اور اپنے نامعلوم ساتھی کے سفر کی تیاری شروع کردی۔ دو اونٹنیاں خرید کر ان کی دیکھ بھال شروع کردی اور ممکنہ زاد راہ جمع کرنا شروع کردیا۔ چار ماہ کے انتظار کے بعد یہ موقع آیا تھااور اب کسی بھی لمحے سفر شروع ہوسکتا تھا۔  سفر بھی کیسا کہ جس میں ایک طرف محبوب ترین ہستی کی رفاقت نصیب تھی، تو دوسری طرف ہر قدم پر دشمن کا دھڑکا اور گرفتار یا قتل کیے جانے پر بیش قیمت انعام کے لالچ کا شکار ہونے والے افراد و قبائل تھے۔ مکہ ہی سے اس حال میں نکلے تھے کہ تقریبا تمام قبائل کے ماہر ترین شمشیر زن، تلواریں سونتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے لگے بیٹھے تھے کہ جیسے ہی باہر آئیں گے سب تلواریں اکٹھی لپکیں گی اور خدانخواستہ...

رات کی تاریکی گہری ہوگئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لٹا کر وَ جَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo(’’ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔   ہم نے انھیں ڈھانک دیا ہے، انھیں اب کچھ نہیں سوجھتا‘‘۔ یٰسٓ ۳۶:۹)کی تلاوت کرتے ہوئے، تلواروں کے درمیان سے گزر کر صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچ گئے۔ سفر کا ضروری سامان باندھا گیا اور دونوں مبارک ہستیاں گھر کے پچھواڑے سے نکل کر یثرب کی جانب والے راستے کی مخالف سمت میں واقع غار ثور کی طرف روانہ ہوگئیں۔ حکمت عملی یہ طے پائی تھی کہ تین روز تک اسی غار ثور میں قیام رہے گا، یہاں تک کہ پیچھا کرنے والے دشمن تھک ہار کر نامراد ہوجائیں۔

دوسری طرف جب دشمن کو معلوم ہوا کہ دروازے کی درزوں سے دکھائی دینے والے بستر پر دراز ہستی، محمد ابن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں، علی ابن طالب (کرم اللہ وجہہ) ہیں تو پاگل ہواُٹھے۔ چہار جانب ہرکارے جاسوس، ایلچی اور مسلح نوجوان دوڑادیے کہ ہر صورت یثرب جانے سے روکنا اور ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دینا ہے۔ کئی لوگ غار ثور کے دہانے تک بھی جاپہنچے۔ یارِغار نے بے قرار ہوکر سرگوشی کی: ’’یا رسولؐ اللہ! اگر دشمن کی نگاہ اپنے پاؤں کی جانب اُٹھ گئی تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین و سکون سے جواب دیا: مَا ظَنُّکَ یَااَبَابَکَر بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا؟ ’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسری ذات خود اللہ تعالیٰ کی ہے؟‘‘ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبۃ۹: ۴۰) ’’پریشان نہ ہوں اللہ یقینا ہمارے ہمراہ ہے‘‘۔ دشمن کا دھیان غار کی طرف گیا بھی، لیکن غار کے منہ پر تنے مکڑی کے جالے کو دیکھ کر، خود ہی وہاں آپؐ کی موجودگی کے امکان کو رد کردیا، کہ اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو یہ جالا نہ رہتا۔

سفرِ ھجرت اور حکمت عملی

اب غارِ ثور کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ کے قیمتی ترین تین روز شروع ہوتے ہیں۔ فداکار رفیق سفر نے غار کو صاف کیا اور دونوں قدسی نفوس اللہ سے مناجات، گذشتہ واقعات کے جائزے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں لگ گئے۔ آبادی سے دور اور مکہ کے پورے ماحول میں سخت اشتعال و کشیدگی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام فرمایا تھا کہ خوراک بھی پہنچتی رہے، مکہ میں ہونے والی سازشوں اور مشرکین کی بھنّاہٹ کا حال بھی معلوم ہوتا رہے، دشمن کو ان تمام سرگرمیوں کی ہوا تک بھی نہ لگ پائے اور یثرب تک سفر کے انتظام و عمل درآمد میں بھی کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ذرا یہ انتظامات ملاحظہ کیجیے:

  •  حضرت اسماء بنت صدیق غار ثور میں طعام و غذا پہنچاتی تھیں۔
  • حضرت عبد اللہؓ بن ابی بکر دن بھر مشرکین مکہ کے درمیان رہتے۔ ہر اہم بات کو ذہن میں محفوظ کرلیتے اور پھر رات کی تاریکی چھاتے ہی غار میں پہنچ کر بلاکم و کاست پوری صورت حال سے مطلع کردیتے۔ رات وہیں قیام کرتے اور اگلی صبح منہ اندھیرے مکہ واپس آجاتے۔ دیکھنے والے سمجھتے، انھوں نے رات مکہ ہی میں قیام کیا تھا۔
  • حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام عامر بن فہیرہ دن بھر بکریاں چراتے اور شام ہوتے ہی انھیں غار کے پاس لے جاتے۔ مسافرانِ ہجرت اپنی ضرورت کے مطابق دودھ حاصل کرلیتے، پھر جب عبد اللہ بن ابوبکرؓ  صبح ہی صبح غار سے مکہ واپس لوٹتے تو عامر بن فہیرہ بھی کچھ دیر بعد ان کے پیچھے پیچھے اپنا ریوڑ ہانکتے ہوئے مکہ پہنچ جاتے۔ اس طرح ایک تو ان کے بارے میں بھی کفار مکہ کو معلوم نہ ہوپاتا کہ رات کہاں اور کن کی مہمان داری میں لگے رہے اور دوسرے ریوڑ گزرنے سے عبد اللہ بن ابوبکرؓ کے قدموں کے نشان بھی چھپ جاتے، ورنہ صحرا نشین تو کسی ادنیٰ سے نشان کے ذریعے بھی ہدف تک پہنچ سکتے تھے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب جانے والے معروف راستے کے بجاے بالکل ایک سنسان و اجنبی علاقے سے جانے کا فیصلہ کیا اور راستے کی نشان دہی کے لیے اس پورے علاقے کو اپنی ہتھیلی کی طرح جاننے والے ایک بدو کی خدمات حاصل کیں۔ عبد اللہ بن أریقط نامی یہ شخص اگرچہ مشرک تھا، لیکن قابل اعتماد تھا۔ آپؐ سے ہونے والے معاہدے کی پوری پوری پابندی کرنے والا اور آپؐ کے راز کی حفاظت کرنے والا تھا۔ صدیق اکبرؓ جن دو اونٹنیوں کی پرورش کررہے تھے، وہ اسے سونپ دی گئیں اور طے پایا کہ تین روز بعد وہ انھیں لے کر جبل ثور کے قریب پہنچ جائے گا۔
  • یثرب، مکہ کے شمال، جب کہ جبل ثور، مکہ کے جنوب میں یمن کی جانب واقع ہے۔ ۷۲۸میٹر بلند اس پہاڑ کی چڑھائی بہت دشوار ہے۔ اب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے غار ثور تک پہنچنے کے لیے کئی پتھروں کو کسی نہ کسی طور زینوں کی صورت دے لی ہے، پہلے یہ بھی نہیں تھے۔ اب بھی راستہ اتنا دشوار گزار ہے کہ چڑھنے کی کوشش میں کئی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ پہاڑ پر کسی طور چڑھ بھی جائیں تو غار میں داخل ہونا ایک مشکل کام ہے۔ ’’غار‘‘ کے لفظ سے اگر کسی کمرہ نما جگہ کا تصور آتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ بس پتھروں کے مابین تھوڑی سی جگہ ہے اور اوپر ٹکی ایک بہت بڑی چٹان چھت بن گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دشوار ترین جگہ کا انتخاب کیا تاکہ کسی کا دھیان ہی اس طرف نہ جائے۔

اب آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک اور اہم سفر کا حال دیکھیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’عام الحزن‘ (یعنی اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور چچا ابوطالب کے انتقال کا سال)کے صدموں اور اہل طائف کی جفا سے دل گیر ہیں۔ رب کائنات اپنے حبیب کی دل جوئی اور تکریم کے لیے جبریل امین ؑ کو براق دے کر بھیجتے ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ کو چشم زدن میں مکہ سے بیت المقدس لے جایا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاے کرام ؑکو جمع کرتے ہوئے آپؐ کی امامت کا اعلان کیا جاتا ہے، پھر براق آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کہ اس کا ایک ایک قدم   یوں فاصلے طے کرتا تھا کہ تاحد نگاہ دکھائی دینے والے افلاک سمٹتے چلے جاتے تھے۔ ہرآسمان پر آپؐ کے لیے علم کے نئے ابواب وا کیے جاتے ہیں۔ جنت، دوزخ کے کئی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ خالق کائنات سے راز و نیاز ہوتے ہیں اور پھر بسلامت مسجد اقصیٰ سے ہوتے ہوئے مکہ واپس تشریف لاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کا سفر کہ جس کی مسافت کا اندازہ تک بھی نہیں کیا جاسکتا، اور جس میں کوئی دشمن جان کے درپے نہ تھا، وہ سارا سفر و مشاہدہ تو پل جھپکنے میں طے کروادیا گیا، لیکن سفر ہجرت میں جہاں قدم قدم پر خطرات منہ کھولے کھڑے تھے، اپنے حبیب بندے کو  وہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے لیے کہا گیا جو کسی بھی زیرک و بیدار ذہن اور جفاکش انسان کے بس میں ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالی یہاں بھی کوئی براق بھیج کر پلک جھپکنے میں آپؐ کو مسجد حرام سے یثرب پہنچا دیتا۔ سیرت طیبہ کے خوشہ چین لکھتے ہیں کہ اسراء و معراج میں مقصود اپنے نبی کی تکریم، پے درپے صدموں اور طائف کے زخموں پر ان کی دل جوئی اور اہل دنیا کو آپؐ کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ اعلان کرنا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے تمام گذشتہ شرائع کی جگہ لے لی ہے، جب کہ سفر ہجرت میں مقصود، دنیا کے سامنے ایک بہترین قائد و رہنما اور داعی و کارکن کا بہترین اسوہ پیش کرنا تھا۔ نبوت و رسالت کی نشانیاں بھی قدم بہ قدم ساتھ رہیں۔ تلواریں سونتے سورماؤں کے درمیان سے نکال لے جانا، غار کے منہ پر مکڑی کا جالا اور کبوتر کا گھونسلہ بننا، اُم معبد کے خیمے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بکری کو تازگی و برکت عطا کرنا ، سراقہ بن جعثم کے تیز رفتار گھوڑے کا دھنس جانا، معجزات نبویؐ ہی کا تسلسل تھا۔ لیکن اُمت کو تعلیم دینا تھی کہ کارِ دعوت اور اسلامی ریاست کی تشکیل کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے، تمھیں ہر وہ کوشش کرنا ہوگی جو کسی انسان کے بس میں ہوسکتی ہے۔ معجزات اور مافوق الفطرت اُمور کا انجام پانا انسانوں کے اصول نہیں،  رب ذو الجلال کی عطا ہے۔ انسان کے لیے سنت الٰہی یہ ہے کہ جو فرد یا قوم بھی اسباب فراہم کرے گی وہ اس کے نتائج حاصل کرے گی۔ ہاں، اگر عمل کی بنیاد ایمان پر رکھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شامل ہوجائے گی۔

ھجرت کے سبق

آیئے اب اس تناظر میں پورے سفر کا ازسرِنو مطالعہ کرتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں کہ  ہجرتِ نبویؐ سے ہمیں کیا کیا اسباق ملتے ہیں:

  • راز کی حفاظت: پہلے آپؐ ہمیشہ صبح یا شام کے وقت صدیق اکبرؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تھے، آج ایسے وقت میں آئے کہ جب سب راستے سنسان تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے چہرہ لپیٹا ہوا تھا کہ کوئی دیکھ بھی لے تو پہچان نہ پائے۔ گھر کے اندر پہنچ کر جب تک تسلی نہ کرلی کہ کوئی اجنبی نہیں ہے، بات شروع نہ کی۔
  • احتیاط اور دشمن کو اُلجہن میں ڈالنا: سفر شروع ہونے کی گھڑی آئی تو رات کی تاریکی گہری ہونے کا انتظار کیا۔ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا، شب بھر قاتل شمشیریں لیے گھر کے باہر منتظر اور اسی غلط فہمی میں رہیں کہ آپؐ ابھی گھر کے اندر ہی ہیں۔ صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچ کر انھیں ساتھ لیا اور ان کے گھر کے سامنے سے نہیں پچھواڑے سے باہر نکلے۔ پھر اپنا رُخ بھی یثرب کی جانب نہیں کیا، مخالف سمت میں تشریف لے گئے۔
  • امانت کی حفاظت: اس کڑے وقت میں بھی دشمن کی امانتیں انھیں واپس لوٹانے کا اہتمام کیا۔ علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اس اہم ذمہ داری کے امین ٹھیرے۔
  • صبر کا دامن ھاتھ سے نہ چہوڑنا: خون کا پیاسا دشمن تلواریں سونتے کھڑا تھا، پھر غار کے دھانے پر پہنچ گیا، انعام کے لالچ میں تیزرفتار گھڑسوار سر پر پہنچ گیا، لیکن آپؐ کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر مکمل اعتماد و بھروسے کے ساتھ فیصلے کرتے رہے اور ساری توجہ اپنے مقصد پر رکھی۔ اندرونی یا بیرونی دھمکیوں سے مرعوب ہوکر شکستہ اعصاب ہوجانا اور خود ہی دشمن کے مقاصد پورے کرنے میں لگ جانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ نہیں ہے۔ فرد، تحریک یا قوم میں سے جو بھی اس راہ پر چلتا ہے تباہ ہوجاتا ہے۔
  • دشمن سے باخبر رھنا اور اپنے راز کی ھوا تک نہ لگنے دینا:عبداللہ ابن ابوبکرؓ جیسا معاملہ فہم، امین اور مکمل ذمہ داری سے فرائض انجام دینے والا ساتھی، دن بھر مکہ کی مجالس میں شریک ہوتا اور رات کے وقت ہر اہم بات کمی بیشی کے بغیر بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیتا۔ اگر معاملہ اس حکمت ِ نبوی کے برعکس ہو، خود بھی دشمن کے لیے جاسوسی کرنا اور اسے بھی جاسوسی کے لیے اپنے نیٹ ورک بنانے کی کھلی چھٹی دے دینا پالیسی ٹھیرے، تو یقینا ہلاکت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
  • غیرمسلم کی خدمات سے استفادے کی حدود:کسی مخصوص شعبے میں مہارت رکھنے والے غیرمسلم کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ ایسی مہارت و صلاحیت رکھنے والا کوئی مسلمان دستیاب نہ ہو۔ پھر جس کی خدمات حاصل کی جائیں وہ قابلِ اعتماد اور معاہدے کی پاس داری کرنے والا ہو۔ وہ نہ خود دشمن ہو، نہ دشمن کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ وہ تابع رہے اور اپنے کام سے کام رکھے ، اور آقا نہ بن بیٹھے۔
  • بیانات اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط: دورانِ سفر ایک شخص ملتا ہے اور صدیق اکبرؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرتا ہے یہ کون ہیں؟ آپ جواب دیتے ہیں: ھَادٍ یَھْدِیْنِی، ’’رہنماہیں، میری رہنمائی کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر قافلۂ نبوت آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص ملتا ہے۔ آپؐ پہل کرتے ہوئے عرب روایات کے مطابق دریافت کرتے ہیں: مِمَّنْ، ’’کس قبیلے سے ہیں؟‘‘ وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد پوچھتا ہے: آپ کس سے ہیں؟ آپ مختصر جواب دیتے ہیں:مِنْ مَاء ، ’’ہم پانی سے ہیں‘‘ مراد تھی کہ ہم سب پانی سے تخلیق کیے گئے ہیں۔ وہ سمجھا: ماء بھی کوئی قبیلہ ہے اور حیرانی سے دہرانے لگتا ہے: من مائ..؟ من مائ..؟ لیکن آپ تب تک اپنی سواری آگے بڑھا چکے تھے۔
  • فداکاری اور احساسِ ذمہ داری سے سرشار ھونا: حضرت ابوبکر صدیقؓ بخوبی جانتے تھے کہ تمام سردارانِ قریش اور کفارِ مکہ آپؐ کی جان کے درپے ہیں، اس کڑے وقت میں بھی ایک لمحے کے لیے یہ سوچ نہیں آئی کہ اپنی جان بچانے کے لیے آپؐ کو تنہا چھوڑ دوں۔ جیسے ہی کان میں یہ الفاظ پڑے کہ ’’ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘ فوراً پکارے: اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُولَ اللّٰہ!’’آپؐ کی رفاقت یارسولؐ اللہ!‘‘۔ جاتے ہوئے گھر میں جو جمع پونجی تھی وہ ساتھ لے لی۔ آپؓ کے والد ابوقحافہ جو اُس وقت تک نعمت ِ اسلام سے محروم تھے، آپ کے جانے کے بعد ناراض ہوکر اپنی پوتیوں کو غصے سے کہنے لگے: ’’تمھارے باپ نے خود بھی تمھیں چھوڑ دیا اور سارا مال بھی ساتھ لے گیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا چند پتھر ایک روزن میں رکھ کر ان پر کپڑا ڈال دیتی ہیں اور کہتی ہیں: نہیں دادا ہمارے والد صاحب تو ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اپنے نابینا دادا کا ہاتھ پکڑ کر اس کپڑے کے اُوپر رکھ دیتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں سونے کی ڈلیاں ہیں، ہاتھ سے چھوتے اور مطمئن ہوتے ہوئے کہتے ہیں: اچھا! اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر کوئی بات نہیں۔ یثرب کی طرف سفر شروع ہوتا ہے تو ابوبکر صدیقؓ کبھی آپؐ کے آگے چلتے ہیں کبھی پیچھے چلنے لگتے ہیں اور کبھی دائیں یا بائیں۔ آپؐ سبب دریافت کرتے ہیں تو عرض کرتے ہیں: یارسولؐ اللہ! گھات لگاکر بیٹھے کسی دشمن کا خیال آتا ہے تو آگے آجاتا ہوں، پیچھا کرنے والے کسی شاہسوار کا سوچتا ہوں تو پیچھے آجاتا ہوں۔ دائیں یا بائیں سے حملے کا خدشہ دل میں آتا ہے تو دائیں یا بائیں آجاتا ہوں۔
  • اھل خانہ کو شریک کار کرنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد حضرت علیؓ بن ابی طالب کو اپنے پورے منصوبے میں شریک کرتے ہوئے اپنے بستر پر سُلایااور امانتوں کا   ذمہ دار بنایا۔ اہلِ خانہ کو شریکِ راز کرتے ہوئے انھیں خداحافظ کہا۔ صدیق اکبرؓ نے صاحب زادے، دونوں صاحب زادیوں اور غلام کو بھی شریکِ مقصد کیا اور سب نے اپنا اپنا فرض  ادا کیا۔
  • پُراُمید رھنا اور دوسروں کو پُراُمید رکہنا: لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، ہر کارکن اور ہرمسلمان کے لیے ہر حال میں اُمید کی مضبوط ترین بنیاد ہے۔ خون کا پیاسا سراقہ بن جعثم جب ایمان لے آیا تو آپؐ نے اس حالت مہاجرت و سفر میں اسے کسریٰ کے کنگنوں کی بشارت دی۔ نورِنبوت کی روشنی میں مستقبل کی اس حقیقت کا معلوم ہونا ایک بات ہے، لیکن صاحب ِ ایمان ساتھی کے دل میں اُمیدوں کے چراغ روشن کردینا ایک دوسری بات۔ جہاں دیدہ اور دُور اندیش    قائد و رہنما اور ہرصاحب ِ ایمان کارکن کے لیے اس میں بڑی رہنمائی ہے۔
  • اصل مقصد کو ھر حال میں یاد رکہنا: یثرب کی جانب منزلوں پر منزلیںطے ہورہی تھیں کہ راستے میں اسلم قبیلے کے سردار بریدہ بن حارث الاسلمی قبیلے کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ ملے۔ اس پُرخطر سفر میں بھی آپؐ نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔ حضرت بریدۃ بن حارث الاسلمی نے بعدازاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ۱۶غزوات میں حصہ لیا۔ آپؐ کے اسلوبِ تربیت کے ضمن میں یہ متفق علیہ حدیث بھی بہت قیمتی رہنمائی کرتی ہے کہ قبیلۂ اسلم اور قبیلۂ بنی غِفار کے قبولِ اسلام پر آپؐ نے فرمایا: اَسْلَمْ سَالَمَھَا اللّٰہُ وَغِفَار غَفَراللّٰہَ لَھَا أَمَا اِنِّی لَمْ أقُلْھَا وَلٰکِنْ قَالَھَا اللّٰہ ،’’قبیلہ اسلم کو اللہ نے سلامتی عطا کی اور قبیلہ غِفار کو اللہ نے بخش دیا۔ یہ میں نے نہیں کہا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے‘‘۔ دل جوئی ، بشارت اور حوصلہ افزائی ساتھیوں کی ہمت دوچند کردیتی ہے۔
  • نظافت و صفائی کا اھتمام:جس عالم میں مکہ سے نکلے اور پھر جس طرح غار و صحرا کی منزلیں طے ہوئیں، اس کے نتیجے میں جسمِ اطہر اور لباس گرد میں اَٹ گئے تھے۔ مدینہ سے نسبتاً قریب پہنچے تو آپ کے ایک جاں نثار صحابی حضرت زبیر بن العوامؓ ملے، وہ شام سے اپنا تجارتی قافلہ لے کر واپس آرہے تھے۔ انھوں نے دونوں جلیل القدر شخصیات کی خدمت میں نیا سفید لباس پیش کیا جو دونوں نے زیب تن کرلیا۔ قافلہ یثرب پہنچا تو لوگوں نے دیکھا کہ سیکڑوں میل کے  صحرائی سفر سے واپس تشریف لا رہے ہیں لیکن چہرہ و لباس گردوغبار سے پاک ہے۔
  • برابری اور مساوات:قباء پہنچے تو انصار جوق در جوق استقبال و زیارت کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ اکثریت آپؐ کو پہلی بار دیکھ رہی تھی، اس لیے پہچانتی نہ تھی ۔ کئی ساتھی حضرت ابوبکرؓ ہی کو جو آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے، رسولِؐ خدا سمجھ رہے تھے۔اسی اثنا میں دھوپ کی حدت میں اضافہ ہوگیا، یارِ غار نے فوراً اپنی چادر لی اور آپؐ پر سایہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ تب نئے آنے والوں کو پہچان ہوسکی کہ دونوں معزز مہمانوں میں سے رسولؐ اللہ کون ہیں۔
  • بلند مقصد کی خاطر ھر شے قربان کر دینا: ہجرت کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انسان کو اپنا گھربار، جان و مال، اہل و عیال اور قبیلہ و خاندان سمیت سب کچھ بھی چھوڑنا پڑے تو یہ نقصان نہیں، سعادت و شرف کی بات ہے۔ یہی ہجرت و قربانی یثرب کو مدینہ منورہ میں بدل دیتی ہے اور پھر مسلسل جدوجہد مدینہ منورہ کو   تاریخ کی بہترین اسلامی ریاست میں تبدیل کردیتی ہے۔ جس مکہ سے ہجرت پر مجبور کیے گئے، نوبرس کی قلیل مدت کے بعد آپؐ کی طرف سے امیرحج بنا کر بھیجے گئے، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور  ان کے ساتھی حضرت علی بن ابی طالبؓ میدانِ عرفات میں اعلان کر رہے تھے: ’’آج کے بعد قیامت تک کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا‘‘۔

جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)  حق آگیا اورباطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

عینی شاہد بیان نہ کرتے، تصاویر او رویڈیو نہ دکھا دیتے تو یقین نہ آتا۔ آپ خود ہی دیکھ کر بتادیجیے کہ کیا اشرف المخلوقات ایسا کرسکتا ہے؟ یہ کپڑے پر بنی بشار الاسد کی جہازی سائز کی ایک تصویر ہے ، جسے بیچ میدان کے زمین پر بچھا دیا گیا ہے، اس کے چاروں کناروں پر اس کے درجنوں حامی اور فوجی اس تصویر کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور درو دیوار پر لکھا ہے:لا الٰہ الا بشار۔ ایک اور منظر میں گھنی داڑھی والے ایک باریش نوجوان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں کی بارش ہورہی ہے اور ایک سورما، زمین پر گرے اس نوجوان کی گردن پر اس طرح پاؤںجمائے کھڑا ہے کہ سنت نبوی مکمل طور پر جوتے کے نیچے روندی جارہی ہے، اس عالم میں نوجوان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کہے: بالروح بالدم نفدیک یا بشار،’’میرا جسم و جان تم پر فدا یا بشار‘‘۔ اس طرف دیکھیں یہ ایک طویل قطار ہے۔ یہ صرف بچوں کی لاشوں کی قطارہے اور ان سب کو گولیاں مار کر نہیں، باقاعدہ گردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ ایک لمبی کھائی ہے، لیکن یہ کھائی نہیں ایک اجتماعی قبر ہے، جس میں درجنوں لاشیں دفن کی جارہی ہیں___ آخر کون کون سا منظر دیکھیں گے، نہ دیکھنے کا یارا ہے اور نہ بیان کرنے کا حوصلہ!

یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ئسے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، مسلمان شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان، اور تواور باغات، مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن ۴۹ برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع آیا ہے کہ قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ پہلی بار عوام نے خوف کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اب ان تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا گیا، تو پھروہ کبھی ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس نہ لے سکیں گے۔

شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گذشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ ۹مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئی۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔

۳۰مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر    تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ئ۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’ہر دل عزیز‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ اُلٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ۱۵نومبر ۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمران پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں  شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔

۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیردفاع بن بیٹھا، اور پھرنومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور  آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔

حافظ الاسد کی سفاکیت اور اسلام دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے:

  • جون ۱۹۷۹ء میں کسی فوجی افسر نے چند علوی فوجی افسروں پر فائرنگ کر دی۔     حافظ الاسد نے اس اندرونی شورش کا سارا الزام اخوان کے سر تھوپتے ہوئے، ایک ہی واقعے میں جسر الشغور نامی شہر میں ۹۷؍افراد شہید اور کئی گھر زمین بوس کردیے۔
  •  ۲۱ جون ۱۹۸۰ء کو ملک میں ایک انوکھا قانون نافذ کردیا گیا جس کے تحت اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی قرار دی گئی۔ آج تک یہ شق نمبر ۴۹ قانون کا فعال حصہ ہے۔
  •  ۲۵ جون ۱۹۸۰ء کو ایک سفارتی تقریب میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری بھی اخوان پر ڈال دی گئی۔ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۲۷جون کوتَدْمُْرْ جیل میں قید اخوان کے ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ نہ کوئی مقدمہ نہ عدالت، نہ منصف نہ گواہ، بس ایک الزام اور قصہ تمام۔
  •  ۲۵جولائی کو حلب شہرکے اتوار بازار میں پولیس فائرنگ کے ذریعے ۱۹۰ بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ حلب کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ یہاں اخوان کی تائید نمایاں ہے۔
  •  ۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو تَدْمُْرجیل میں ایک اور قتل عام ہوا۔ اس بار وہ خواتین نشانہبنیں جنھیں ان کے شوہر، باپ بیٹے یا بھائی کے نہ ملنے پر گھروں سے اٹھا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ ۱۲۰ خواتین لقمۂ اجل بن گئیں۔ یقینا ان سے روز حشر پوچھا جائے گا: بِاَیِّ ذَنْبٍم    قُتِلَتْ(التکویر۸۱:۹ ) ْ’’یہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟‘‘
  •  ۲ فروری ۱۹۸۲ء تو پوری مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی رفعت الاسد نے اپنی سربراہی میں قائم خصوصی سیکورٹی فورس کی مدد سے ’حماہ‘ نامی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اور پھر ۲۷ روز تک اس پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں سے بمباری کی جاتی رہی۔ ۳۵ سے ۴۰ ہزار بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ پورا شہر مقبرہ بن گیا کہ لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہاتھا۔ ’حماہ‘ کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کا گڑھ تھا۔

مکافات عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔

اس خاندان کے دور جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہونے والے درج بالا چند واقعات ۴۹ برس پر محیط درندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس قتل عام کے علاوہ اسد خاندان کا اصل ہدف اور اولین ترجیح ملک میں بعث ازم کی جڑیں گہری کرنا تھی۔ یہ نظریہ عرب قومیت اور اشتراکیت کا ملغوبہ ہے۔ بعث ازم کو (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھی بالاتر درجہ دے دیا گیا تھا۔ حافظ الاسد کا ایک شاعر ہرزہ سرائی کرتا ہے:

آمَنْتُ بِالْبَعْثِ رَبًا لَا شَرِیْکَ لَہٗ

وَبِالْعُرُوبَۃِ دِیْنًا مَالَہٗ ثَانِی

(میں بعث ازم کے رب لا شریک ہونے، اور عرب ازم کے لاثانی دین ہونے پر ایمان لایا)۔ بعث پارٹی کا شعار ہے: أمۃ عربیۃ واحدۃ ذات رسالۃ خالدہ ،’’ ابدی پیغام رکھنے والی عرب اُمت واحدہ‘‘۔ پورے ملک کا نظام اسی بعثی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق’’ بعث پارٹی ریاست اور معاشرے کی اکلوتی رہنما پارٹی ہے‘‘۔ کسی دوسرے کو پارٹی بنانے کی اجازت نہیں ۔ دستور کی دفعہ ۸۳ کے مطابق صدارتی انتخاب کا طریق کار یہ بتایا گیا ہے کہ ’’بعث پارٹی کے علاقائی ذمہ داران کسی ایک شخص کو صدارتی اُمیدوار نامزد کریں گے، پھر وہی صاحب خود عوامی ریفرنڈم منعقد کرواتے ہوئے منتخب صدر کہلائیں گے‘‘۔

جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں توفرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کا نظام بظاہربہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے: وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(الفاطر ۳۵:۴۳)،’’بُری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے‘‘۔ زین العابدین، حسنی، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔گذشتہ ۱۴ماہ میں بشارحکومت نے بھی عوامی تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجاے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتوں کی تعداد ’صرف‘ جی ہاں صرف ۱۵ ہزار افراد سے زائد ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ ہوتے تو اقتدار کی خاطر پوری قوم بھی موت کی نذر کرنا پڑتی، تو سفاک بعثی نظام دریغ نہ کرتا۔

شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پُرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاناچاہتا ہے۔ سفاک حکمران روز اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکا، لیکن ا ب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’الجیش الحر‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہا امریکا اور عالمی برادری تو اس کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن اس کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ بشار کے بعد بھی وہاں اپنی گرفت کیسے مضبوط کی جائے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قتل عام کو طول ملے یہاں تک کہ بشار کے بجاے بذات خود شیطان بھی آجائے تو شامی عوام اسے قبول کرلیں۔ ایک کے بعد دوسرے اجلاس اور مسلسل وفود ارسال کرنے کا نتیجہ مزید خوں ریزی کی صورت میں ہی نکل رہاہے۔ لاکھوں ڈالر کے خرچ اور ابلاغی طوفان کے بعد سیکورٹی کونسل نے ۲۱؍اپریل کو ۳۰۰ غیر مسلح فوجی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نگران تین مہینے تک اس امر کا جائزہ لیں گے کہ بشار انتظامیہ نے عوام کو کچلنے کے لیے کہیں بھاری اسلحہ تو استعمال نہیں کیا۔ گویا مزید تین مہینے تک تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اسی طرح کے نگران ۱۹۴۸ء سے کشمیری عوام کے ’تحفظ‘ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ اس کا واضح اندازہ ۲۲؍ اپریل کے صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت سے ہوتاہے ۔ وہ اپنے ادارتی نوٹ میںلکھتا ہے کہ شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں، ایک دینی جنگ ہے۔ اس کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوںتک دبا رہا ،اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فی صداہل سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اخبار یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’اب ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۰۰سال سے کم عرصے پر محیط جھگڑا، ساتویں صدی عیسوی سے جاری شیعہ سنی جھگڑے کی نسبت کس قدر ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا اب ہمارے سامنے صرف شام کاکوئی اندرونی نزاع نہیں، جیسا کہ بعض اسرائیلی سمجھتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا دینی انتشار ہے۔ اس تنازعے کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں اور یہی سب سے اچھی بات ہے‘‘۔

اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشارانتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بد تر ڈکٹیٹر ہیں ۔ ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجاے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔ یہ دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں عوامی تحریکات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تیونس اور مصر میں بھی ان کی پالیسی یہی تھی۔ لیکن کوئی صہیونی اور امریکی تجزیہ نگار  روس اور چین کی مدد کے باعث شام کی تحریک کو، کمیونزم یا سوشلزم کے خلاف تحریک نہیں کہہ رہا، کیونکہ وہ شیعہ سنی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ یہ طوفان اب عراق اور خلیج تک محدود نہیں رہا، شام اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اسی جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے۔ اس طوفان کو اسی صورت روکا جاسکتا ہے کہ اُمت کی توجہ اصل مسائل پر مرکوز رہے۔ اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o(الشعراء ۲۶:۲۲۷)’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

حسن البنا شہیدؒ اپنی ڈائری میں بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری ایک سرگرمی یہ بھی ہوتی کہ ہم تین ساتھی ’محمودیہ‘ کے محلوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہوئے، فجر کی نماز سے پہلے وہاں جاکر لوگوں کو جگایا کرتے۔ میں جب کسی مؤذن کو اذان کے لیے جگاتا تو ایک پُرکیف لذت محسوس کرتا۔ میں انھیں جگانے کے بعد اسی جادو اثر اور جذباتی کیفیت میں دریاے نیل کے کنارے جاکھڑا ہوتا۔ ’محمودیہ‘ کی مساجد قریب قریب واقع تھیں، جب اذانیں شروع ہوتیں تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک ہی اذان، مختلف مؤذنوں کے گلے سے نکل کر فضا میں رَس گھول رہی ہے۔ ایسے میں میرا دل کہتا: ان سارے مؤذنوں کو مَیں نے جگایا ہے، اب اتنی  بڑی تعداد میں جو بھی نمازی جاگیں گے، ان کی عبادت میں، مَیں بھی برابر کا شریک ٹھیروں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مجھے اپنے لطیف حصار میں لے لیتا: ’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی۔ پھر اسی لذت و سعادت سے سرشار مَیں جب مسجد پہنچتا اور دیکھتا کہ ان تمام نمازیوں میں سے مَیں سب سے کم عمر ہوں، تو سراپا حمدوسپاس بن جاتا کہ تمام تر توفیق اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

 مذکرات الداعیۃ (داعی کی ڈائری) کے عنوان سے شائع اس کتاب کی یہ سطور امام حسن البنا کی شہادت کے ۶۳برس بعد بھی قاری کو اسی کیفیت سے آشنا کردیتی ہیں جو حسن البنا نامی بچہ محسوس کیا کرتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت کہ: ’’یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہنا ہے‘‘۔ آج ہرصاحب ِ ایمان کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ حسن البنا بچپن میں مؤذنوں کو جگاتے رہے اور ۴۳برس کی مختصر عمر ختم ہونے سے پہلے، پوری دنیا میں تکبیر بلند کرنے والی نسلوں کی فصلیں بوگئے۔ آج دنیا تغیر پذیر ہے، اور جہاں بھی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے سب تسلیم کرتے ہیں کہ بیداری کے پیچھے اصل ’اذان‘ اسلامی تحریک کے کارکنان کی ہے۔

  • تیونس، مصر اور مراکش کے بعد ۲فروری ۲۰۱۲ء کو کویت میں بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ نتائج آئے تو سب نے کہا: اخوان جیت گئے، اسلامی پارٹیاں جیت گئیں۔ خلیج کی اس مال دار ترین ریاست میں گذشتہ تقریباً اڑھائی صدیوں سے آلِ صباح خاندان مقتدر ہے، لیکن خلیج میں سب سے پہلے، یعنی ۱۹۶۳ء میں انتخابی عمل بھی کویت ہی میں شروع ہوا۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا کردار محدود ہوتا ہے، حکومت بنانے کا اختیار بھی امیرکویت ہی کو حاصل ہے، لیکن منتخب پارلیمنٹ نہ صرف عوام کے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے کویتی اسمبلی اکثر اپنی عمر پوری نہیں کرپاتی۔ ابھی ۲۰۰۹ء میں انتخابات ہوئے تھے، اس سے پہلے بالترتیب ۲۰۰۸ئ، ۲۰۰۶ئ، ۲۰۰۳ئ، ۱۹۹۹ء اور ۱۹۹۶ء میں بھی انتخاب ہوئے، لیکن عرب انقلابات کے بعد حالیہ انتخابات کی اہمیت کئی حوالوں سے زیادہ تھی۔

 تیونس اور مصر کی عوامی تحریکوں کے بعد کویت میں بھی حکومتی کرپشن پر تنقید کی لَے بہت بلند ہوگئی اور نومبر ۲۰۱۱ء میں تو مظاہرین نے  اسمبلی ہائوس پر باقاعدہ دھاوا بول دیا۔ وزیراعظم کے خلاف مواخذے کی تحریک آگئی۔ اس تناظر میں امیرکویت نے اسمبلی توڑتے ہوئے نئے انتخاہات کروانے کے اعلان کردیا۔ کویت کی پارلیمانی تاریخ میں  پہلی بار ۵۰؍ارکان کے ایوان میں اسلام پسند ارکان کو ۳۴ نشستیں ملی ہیں۔ اخوان کی سیاسی پارٹی کا نام ’دستوری تحریک‘ ہے۔ اسے ۵۰ میں سے پانچ نشستیں ملیں (چار ان کے اپنے اور ایک حمایت یافتہ) اخوان، سلفی، تحریک، آزاد ارکان اور دیگر اسلامی گروپوںکو ملا کر دیکھیں تو انھیں ۲۲نشستیں ملی ہیں۔ سات شیعہ ارکان اسمبلی ان کے علاوہ ہیں۔ اس طرح اگر اسلام پسند ارکان اسمبلی مل کر اور مؤثر حکمت عملی سے فعال کردار ادا کریں تو مخصوص قبائلی اور خاندانی نظام کے باوجود، کویت میں ایک  نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ انتخابات میں اسلامی رجحانات رکھنے والے تجزیہ نگار بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومتی کرپشن کے مقابلے میں عوام کے پاس ایک ہی راہ بچتی ہے کہ وہ اسلامی قیادت منتخب کریں۔

  • نومنتخب ارکان اسمبلی کو بھی اپنی اس ذمہ داری کا بخوبی ادراک ہے۔ کویت کے ارکان اسمبلی ہی نہیں مصر، تیونس اور مراکش کی حکومتیں بھی اس آزمایش پر پورا اُترنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہیں۔ حال ہی میں الاخوان المسلمون کے نائب مرشدعام جمعہ امین سے ملاقات ہوئی تو بتا رہے تھے کہ نومنتخب ارکان اسمبلی کے لیے پارلیمانی امور کے خصوصی ٹریننگ کورس شروع کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اخوان کے نظم نے اسرہ جاتی نظام کے تحت خصوصی تربیت گاہوں کا بھی مستقل نظام بنادیا ہے۔ ان تربیت گاہوں میں کسی بھی اور موضوع کے بجاے تعلق باللہ میں اضافے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مختلف حلقوں کی طرف سے گاہے بگاہے ایسے اقدام و بیانات سامنے آجاتے ہیں کہ قوم کے حقیقی مسائل ان کی گرد میں کھو جاتے ہیں۔

۴فروری کو مصر کے بڑے شہر بورسعید (پورٹ سعید) میں دو مصری ٹیموں ’المصری فٹ بال کلب‘ اور ’الاھلی فٹ بال کلب‘ کے میچ کے دوران بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے سے ۷۷؍افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔ اس دوران انتظامیہ نے لڑائی کی آگ بجھانے کے بجاے اس پر مزید تیل چھڑکا، اسٹیڈیم کے دروازے بند کردیے گئے، روشنیاں بجھا دی گئیں، لوگوں کے پاس اچانک ہتھیار بھی آگئے۔ پارلیمنٹ نے فوری تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی، پتا چلا کہ خود وزارتِ داخلہ کے لوگ اس پوری خوں ریزی میں ملوث تھے۔ ہنگاموں کی اس آگ کو جلد ہی ملک کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلا دیا گیا اور کئی روز تک ملک میں فسادات جاری رہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔ اس دوران میں عبوری حکومت کے وزیرداخلہ میجر جرنل محمد ابراہیم کا بیان آیا بھی تو یہ کہ وزارتِ داخلہ کے قوانین کے مطابق پولیس والوں کی داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، جو لوگ بھی اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بیان کے بعد ایک اور بحث اور مناقشت شروع ہوگئی۔ اخوان کے ذمہ دار ڈاکٹر البلتاجی نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب وزیرداخلہ! حیرت ہے، آپ کو غنڈا گردی اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی تو کوئی فکر نہیں لیکن آپ نے داڑھی کی بنیاد پر معرکہ آرائی شروع کردی ہے۔ اصل کام پر توجہ دیں، قوم کو غیرضروری بحثوں میں نہ اُلجھائیں۔

مصر میں انتخابی عمل ابھی جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد اب مجلسِ شوریٰ (سینیٹ) کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے ہیں۔ ۲۷۰ کے ایوان میں سے دوتہائی، یعنی ۱۸۰؍ارکان براہِ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، جب کہ باقی ۹۰؍ارکان آیندہ منتخب ہونے والا صدر    نامزد کرے گا۔ سینیٹ انتخابات کے باقاعدہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے، لیکن اندازہ یہی ہے کہ ایوانِ بالا میں بھی قومی اسمبلی کی طرح اخوان کی الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت) پارٹی ہی سب سے بڑی پارٹی ہوگی اور اسے تقریباً اسمبلی جتنی نشستیں یہاں بھی مل جائیں گی۔ انتخابی عمل میں اب اہم ترین مرحلہ صدرمملکت کا انتخاب ہے۔ ۱۰مارچ سے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حسنی مبارک نے صدارتی اُمیدوار کی نامزدگی ہی جوے شیر نکال لانے کی طرح ناممکن بنا دی تھی۔ اُمیدوار کے لیے سب سے اہم شرط یہ قرار دی گئی تھی کہ اسے کم از کم ۲۵۰؍ارکانِ پارلیمنٹ نامزد کریں۔ واضح رہے کہ دسمبر ۲۰۱۰ء کے آخری انتخاب میں ’ہردل عزیز‘ حسنی مبارک کے علاوہ کسی پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں حاصل ہوئی تھی، یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ صدر مملکت چھے سال کے لیے منتخب ہوتا تھا اور وہ تاحیات اُمیدوار بن سکتا تھا۔ انقلاب کے بعد مارچ ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے ذریعے ۷۷ فی صد عوام کی تائید سے بننے والے عبوری دستور میں کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے کم از کم ۳۰؍ارکان اسمبلی کی تائید کافی ہے۔ صدرمملکت چارسال کے لیے منتخب ہوگا اور وہ مسلسل صرف دوبار منتخب ہوسکتا ہے۔ یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ اس کے پاس مصری شہریت کے علاوہ کوئی دوسری شہریت نہ ہو۔ حسنی مبارک نے فردِ واحد کا اقتدار یقینی بنانے کے لیے کبھی اپنا کوئی نائب نہیں بنایا تھا، اب شرط لگادی گئی ہے کہ صدرِمملکت زیادہ سے زیادہ ۶۰روز میں اپنا نائب صدر متعین کردے گا۔

الاخوان المسلمون کے لیے اس وقت اپنا صدر مملکت منتخب کروانا انتہائی آسان ہے، لیکن ملک میں قومی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنے اس اعلان پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ اخوانی صدر نہیں لائیں گے، قوم کے لیے قابلِ قبول کوئی بھی اچھا شہری ہمارا اُمیدوار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی اعلان ہے کہ اگرچہ ہم اکیلے بھی بآسانی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں لیکن حالیہ عبوری حکومت کی مدت (جون میں) ختم ہونے پر ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دیں گے۔ اسپیکراسمبلی کے انتخابات کے موقع پر بھی انھوں نے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملاتے ہوئے انھیں مختلف کمیٹیوں میں برابر کا حصہ دیا۔ کئی مواقع پر اخوان اور سلفی حضرات کے مابین اختلافات کھڑے کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اخوان کے کارکنان کا نعرہ ہے: السلفیۃ والاخوان اِید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفیت ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔

اخوان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ان کے بارے میں پھیلائے جانے والے خدشات اور خوف کے باوجود ہرطبقے سے ان کے حق میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ اخوان کی جیت کے تناظر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات فن و ثقافت کے دشمن ہیں۔ جواباً ایک معروف قومی گلوکار شعبان عبدالرحیم (المعروف: الشعبولا) نے اپنا تازہ نغمہ پیش کیا: یامھاجم الاخوان ھتروح من ربک فین، ’’اخوان پر اعتراضات کرنے والو! اپنے رب سے بچ کر کہاں جائو گے‘‘۔ فین ملقوش فی الزھرۃ عیب  - قالوا أحمر الخدین، ’’انھیں پھول میں کوئی عیب نہ ملا تو کہنے لگے: اس کے گال سرخ کیوں ہیں؟‘‘۔ سبحان اللہ اُوپر تبدیلی آجائے تو نغمہ و لحن بھی اللہ کی یاد دلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

اخوان کے ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ہم لا صِدَام ، یعنی عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کسی سے بھی تصادم کے بجاے ، قوم کے تمام صالح افراد  سے تعاون چاہتے ہیں۔ اس وقت اسلام پسند عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہی نہیں، ملک ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ پوری قوم کو متحد کیے بغیرچارہ نہیں ہے۔ قاہرہ کے اِلیٹ اسٹڈیز سنٹر (Elite Studies Centre) کے سربراہ احمد فودہ لکھتے ہیں: ’’۸۰ کی دہائی کے آغاز میں امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے معروف صہیونی دانش ور برنارڈ لویئس کو ذمہ داری سونپی تھی کہ عالمِ اسلام کو مزید ٹکڑے کرنے کے لیے جامع منصوبہ تیار کرے۔ اس نے ایک مسودہ تیار کیا، جسے امریکی کانگریس نے ۱۹۸۳ء میں اپنے ایک خفیہ اجلاس کے دوران منظور کیا اور تب ہی سے اس پر عمل درآمدشروع ہے۔ احمد فودہ مزید لکھتے ہیں کہ حسنی مبارک کے دور میں مصر کو توڑنے کے لیے جتنا کام ہوا،      وہ ہماری پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ میں انتخابی مہم کی انچارج مصری خاتون دولت عیسیٰ نے اس وقت اپنے عہدے سے استعفا دے دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ انسٹی ٹیوٹ کے تمام بیرونی فنڈ براہِ راست امریکی کانگریس سے آتے ہیں، اور ادارے کی سرگرمیوں کا اصل ہدف یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک مصر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ احمد فودہ کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک کے اقتدار کے بعد ملک میں مذہبی، علاقائی اور قبائلی بنیادوں پر جتنے بھی فسادات شروع کروائے گئے ہیں ان کے پیچھے ملک توڑنے کی یہی امریکی سازش کارفرما ہے۔

  • کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے آنے والی قرارداد کے تناظر میں اہلِ پاکستان کے لیے ان سازشوں کی حقیقت سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ تقریباً ہرمسلم ملک میں انھی بیرونی سازشوں کے تانے بانے دکھائی دے رہے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے محب ِ وطن دانش ور حضرات نے بھی قوم کے سامنے دہائی دی ہے کہ عوامی لیگ حکومت میں تمام حدیں پھلانگتا ہوا بھارتی اثرونفوذ  ملکی سلامتی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ نمایاں بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی کے رہنما کھلم کھلا مطالبہ کرتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوئوں کو واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے۔ ان کے لیے اور بنگلہ دیش کی دوسری ہندو آبادی کے لیے، بنگلہ دیش کے ۶۵ میں سے ۱۹؍اضلاع کو ایک آزاد ہندو ریاست کی حیثیت دی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہرجانب سے ہندستان کی گرفت میں پھنسی اس ریاست کی آزاد حیثیت کچھ بھی نہ ہوگی، لیکن بنگلہ دیش کو بتدریج ہڑپ کرنے کا آغاز ہوجائے گا۔

اسی طرح بنگلہ دیش کا ۱۱/۱ علاقہ چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، جہاں مقامی قبائل اور بنگالی آبادی نصف نصف تناسب رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور متعدد مغربی غیرسرکاری تنظیمیں یہ مہم بھی چلا رہی ہیں کہ بھارت کی دو ریاستوں منی پور اور میزورام کے علاوہ بنگلہ دیش کے اس ۱۱/۱ علاقے کو بھی ایک الگ ملک کی حیثیت دی جائے۔ اسرائیل کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے یہ مقامی قبائل بنیادی طور پر یہودی تھے۔ دوسری طرف دونوں ہندستانی ریاستوں میں بھی ۵۰ہزار یہودی رہتے ہیں، جن کی اکثریت اسرائیلی پاسپورٹ رکھتی ہے۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی قبائلی آبادی کو بھی دھڑادھڑ اسرائیلی دورے کروانا شروع کردیے ہیں۔ بنگلہ دیشی دانش وروں کے مطابق منصوبہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں پیوست صہیونی ریاست کی طرح جنوب مغربی ایشیا میں بھی ایک صہیونی ریاست کاخنجر گھونپ دیا جائے۔ انڈونیشیا      سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کو کاٹ پھینکنے کی مہم سرانجام دینے والے لارڈ ابورر (Lord Abburir) کو چٹاگانگ ہل ٹریکٹس کمیشن (Chitagong Hill Tracts Commission) کا سربراہ بناکر میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو بھی ان ساری سازشوں کا ادراک تو یقینا ہوگا، لیکن مکمل بھارت نوازی نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔

اب ایک طرف یہ ساری سازشیں ہیں اور دوسری طرف عالمِ عرب سے آنے والی خوش گوار بہار کے جھونکے۔ یمن میں بھی ۳۳سال کے بعد پہلی بار ایسے صدارتی انتخاب ہوئے کہ جس میں سابق صدر علی عبداللہ شریک نہیں تھا۔ عبدہ منصور ہادی سب کا مشترک اُمیدوار تھا۔ اخوان نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور اب سابقہ ڈکٹیٹر کے اقتدار کا حتمی خاتمہ ہوگیا۔ یہ تمام تبدیلیاں دشمن کے تمام منصوبوں کے علی الرغم اور لاتعداد قربانیوں کے بعد وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ اہلِ ایمان کو یقینِ کامل ہے کہ ان شاء اللہ جیت حق ہی کو ملنا ہے۔ بیرونی دشمن بھی نامراد ہوگا اور اندرونِ ملک ان کے غلام بھی۔

چلتے چلتے یہ خوش گوار خبر بھی سن لیجیے کہ ۱۰فروری کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کے سنہالی زبان میں ترجمے کی پُروقار تقریب منعقد ہوئی۔ سری لنکن وزیراعظم تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے اور امیرجماعت اسلامی سری لنکا رشید حج الاکبر صدرمجلس۔ عرب انقلابات کے بعد دنیا اسلام اور اسلامی تحریک کو نئی روح سے سمجھنا چاہتی ہے۔ تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ اس تقریب کی اطلاع سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کی مٹھاس پھر عود کرآئی کہ:’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی کہ جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی‘‘۔ امام حسن البنا شہید اور سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور ان جیسے لاتعداد بزرگوں کی تاقیامت جاری رہنے والی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے آیئے ہم بھی سوچیں، بلکہ فیصلہ کریں کہ ہمیں پیچھے کیا چھوڑنا ہے۔

  •  مصر: ۵۵ روز جاری رہنے والے طویل انتخابی عمل کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو    حتمی نتائج آئے تو اخوان المسلمون کو ۴۹۸ میں سے ۲۳۵، یعنی ۱۲ئ۴۷فی صد نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسے ایک کروڑ ایک لاکھ ۳۸ ہزار ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے تین جماعتی سلفی اتحاد ’حزب النور‘ کو۱۲۳ نشستیں ملیں، جب کہ دیگر پارٹیاں اس سے بھی پیچھے تھیں۔ اخوان نے پہلے دومرحلوں میں ہی اپنی اس قوت کا اندازہ کرلیا تھا۔ ذمہ داریوں کے حوالے سے مشاورت میں ایک راے یہ آئی کہ یہ سنہری موقع ہے، لہٰذا اب ہمیں صدر مملکت بھی اپنا لانا چاہیے، وزیر اعظم اور اسپیکر بھی اور تمام اہم وزرا بھی۔ لیکن طویل غوروخوض کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہم نہ تو صدارت کے لیے اپنا  کوئی اُمیدوار لائیں گے اور نہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے، البتہ اسپیکر ہم اپنا لائیں گے۔ اعتراض کرنے والے تو اس اعلان کو منفی رنگ دے رہے ہیں۔ کوئی اسے راہِ فرار کہہ رہا ہے اور کوئی فوج سے گٹھ جوڑ، لیکن اخوان یکسو ہیں کہ ہمیں بہرصورت اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھنا ہے۔ ٹھیک ہے کہ تاریخی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد سب مناصب حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن اس دستور ساز اسمبلی کا اصل فریضہ ملک کو ایک جامع اور تمام بنیادی حقوق کا ضامن پہلا دستور دینا ہے، اس لیے ہماری تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رہنا چاہیے۔ انقلاب کے بعد امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کی قیادت میں مصر جانے والے وفد کو مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے: ملک طویل عرصے تک ظالم اور کرپٹ ڈکٹیٹرشپ کے پنجوں میں جکڑا رہا۔ ہمارا معاشرہ اسلامی نظام کی برکات سے پوری طرح آگاہ ہی نہیں ہے۔ ہماری کوشش اور حکمت عملی یہ ہوگی کہ آیندہ انتخاب میں پارلیمنٹ کے اندر زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کریں، حکومت سازی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں، لیکن فی الحال اپنی ساری توجہ معاشرے کو بابرکت اسلامی نظام سے متعارف کروانے اور ملک کے لیے جامع دستور وضع کرنے پر مرکوز رکھیں۔

۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو حتمی نتائج کا اعلان ہوا اور انقلاب کی پہلی سالگرہ سے دو روز پہلے، ۲۳جنوری کو اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ ۴۹۸ منتخب ارکان کے علاوہ ۱۰ نامزد کردہ کا اعلان کیا گیا، حلف برداری ہوئی اور پھر اسپیکر کا انتخاب عمل میں آیا۔ درست قرار دیے جانے والے ۴۹۶ ووٹوں میں سے اخوان کے اہم رہنما ڈاکٹر محمد سعد الکتاتنی ۳۹۹  ووٹ لے کر پہلی آزاد اسمبلی کے اسپیکر   چُن لیے گئے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ گذشتہ سال ڈاکٹر سعد ’لیمان‘ جیل میں تھے اور آج  پارلیمنٹ کے اسپیکر بنادیے گئے۔ دوسری جانب عین اسی روز، فرعون صفت سابقہ حکمران حسنی مبارک اپنے دونوں بیٹوں اور ظلم ڈھانے کے ذمہ دار وزیر داخلہ سمیت عدالت کے کٹہرے میں نشانِ عبرت بنا کھڑا تھا۔
 ڈاکٹر سعد کی کامیابی کا اعلان ہوا تو وہ مبارک بادیں جمع کرتے ، اسپیکر کے لیے مخصوص نشست پر آئے اور حمدوثنا کے بعد یہ آیت پڑھی: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸)’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر محمد سعد اکتوبر۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پارک میں    منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ دھیما مزاج لیکن اپنے فرائض کی ادایگی کے لیے ہردم چوکنا و بیدار رہنے والے ڈاکٹر سعد کے انتخاب کو مصر کے ہرمخلص شخص نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یوں جیسے عمارت کی پہلی مضبوط اینٹ، ٹھیک اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہو۔
اب ۲۹ جنوری سے مجلس شوریٰ، یعنی سینیٹ کے انتخاب شروع ہونا ہیں۔ یہ بھی تین مراحل میں اور عام انتخابات کے ذریعے مکمل ہوں گے۔ پھر دونوں ایوان مل کر ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی منتخب کریں گے۔ کمیٹی زیادہ سے زیادہ چھے ماہ کے دوران دستور کا مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور دستور پیش ہونے کے ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر عوامی ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اسی دوران صدارتی انتخابات کا اہم ترین مرحلہ بھی آئے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ موجودہ عبوری صدر،  جرنل حسین الطنطاوی کو یہ عہدہ بہرصورت ۳۰ جون سے پہلے پہلے نومنتخب صدر کے سپرد کرنا ہوگا۔ فوجی حکومت سے اس تاریخ کا اعلان کروانا بھی عوامی تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔آیندہ مراحل میں جو چند بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں سے ایک فوج کے کردار کا تعین بھی ہے۔  فوجی عبوری مجلس کی یقینا یہ کوشش ہوگی کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی اور اس کی سفارشات میں اس کا کردار بھرپور رہے۔ انتخابات کے دوران اس نے قومی مجلس مشاورت کی تشکیل بھی اسی نقطۂ نظر سے کی تھی لیکن اخوان کی طرف سے اس میں شرکت سے معذرت اور مجلس مشاورت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کے بعد وہ خود ہی مرجھا کر رہ گئی تھی۔ اب اسمبلی وجود میں آجانے کے بعد اس کی حیثیت مزید کم ہوگئی ہے اور اس کے کئی ارکان مستعفی بھی ہو چکے ہیں۔
اخوان اور دیگر کئی جماعتیں یہ نہیں چاہتیں کہ فوج کے ساتھ خواہ مخواہ کا تصادم مول لیا جائے،لیکن وہ یقینا یہ بھی نہیں چاہتیں کہ اصل اقتدار و اختیار فوج ہی کے ہاتھ میں رہے۔ نومنتخب اسپیکر محمد سعد الکتاتنی نے اپنے افتتاحی خطاب میں شفاف انتخابات کی نگرانی کرنے والے ججوں کے علاوہ فوج کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے وعدے کے مطابق، مقررہ وقت پر پہلے  حقیقی اور شفاف انتخابات کروادیے۔  یار لوگوں نے اس بات کو فوج اور اخوان کے مابین گٹھ جوڑ قرار دینا شروع کردیا ہے۔ کچھ بزر جمہروں نے تو اخوان کو خود امریکا کے ساتھ ہی نتھی کردیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اخوان صرف اور صرف اللہ پر بھروسے اور عوام کی تائید سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ کسی بھی گٹھ جوڑ اور سازش کو اللہ کے ساتھ بدعہدی اور شہدا کے خون سے غداری سمجھتے ہیں۔
ذرا ایک نظر اسرائیلی ذرائع ابلاغ کو بھی دیکھ لیجیے۔ اس الزام کی قلعی کھل جائے گی۔  وہاں ایک قیامت برپا ہے۔ حکومتی ذمہ داران، فوجی جرنیلوں اور دانش وروں سے لے کر عام  شہری تک ہر کوئی واویلا کررہا ہے کہ اسرائیل کا مستقبل سنگین خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔  روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے ایک مضمون ’’مشرق وسطیٰ مسلمانوں کی جنت یہودیوں کا جہنم‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے: ’’تیونس میں اسلامسٹس ۴۰فی صد  ووٹ لے گئے ہیں، مراکش میں تقریباً ۳۰فی صد، جب کہ مصر میں اخوان اور سلفی تحریک نے مل کر ۷۰فی صد  ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔ لیبیا میں قذافی کے قتل کے بعد اسلامی شریعت چاہنے والے اقتدارکے ایوانوں میں ہیں۔ شام کی عبوری قومی کونسل کے ۱۹؍ ارکان میں سے ۱۵ اسلامی ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھتا ہے: ’’سیکولرازم لیکن کرپشن سے بھرپور چھے دہائیوں کے بعد مشرق وسطیٰ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظام میں ڈھل رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب یہ خطہ تمام یہودیوں اور بے دین عناصر کے لیے جہنم بن کر رہ جائے گا‘‘۔
 یروشلم پوسٹ دھمکی آمیز لہجے میں لکھتا ہے:’’اسرائیلی فوج کے منصوبہ بندی کمیشن نے فوری طور پر نئے فوجی دستے ترتیب دینے کی سفارش کی ہے۔ جلد یا بدیر ہمیں یقینا مزید فوج کی ضرورت پڑے گی‘‘۔  وزیر اعظم اسحق رابن کا دست راست ایتن ہاپر لکھتا ہے: ’’اسرائیل کی سلامتی بلکہ اس کے وجود کو اس وقت تین بڑے خطرات لاحق ہیں اور وہ ہیں: عالم عرب میں انقلاب کی بہار، اسرائیل سے اس کا حقِ وجود سلب کرنے کی کوششیں، اور ڈیموگرافک (یعنی ہماری مخالف آبادی کے بڑھتے چلے جانے کا) خطرہ‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’عرب ممالک میں ریڈیکل اسلامی طاقتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے گرد ایسی طاقتوں کا حصار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا جو اس کے وجود ہی کے خلاف ہیں‘‘ (روزنامہ معاریف، ۲۷ نومبر ۲۰۱۱ئ)۔ جنرل بنیامین الیعازر ۱۵نومبر اور پھر ۳دسمبر کو اسرائیلی سرکاری ریڈیو پر کہتا ہے: حالات تبدیل ہوگئے، مستقبل غیرواضح اور تاریک ہوچلا ہے‘‘۔اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک بھی دہائی دیتا ہے: ’’مصری انتخابات کے نتائج انتہائی پریشان کن اور ہوش اڑا دینے والے ہیں‘‘۔ یہ اور اس طرح کے لاتعداد تبصرے اور تحریریں ہیں جو اسرائیل کی پریشان خیالی کا پرتو ہیں۔ اس کیفیت میں امریکا اسلامی تحریکات کی کامیابی کو کیسے دیکھتا ہوگا، اندازہ مشکل نہیں ہے۔ عالمِ عرب میں تبدیلی کا آغاز امریکا، اسرائیل اور ان کے حواریوں کے لیے ایک کڑوی حقیقت تھی۔ امریکا اگر ان تمام ممالک اور ان کے عوام سے دشمنی مول لے لیتا تو اس وقت عالمِ اسلام میں اس کے خلاف جتنی نفرت پائی جاتی ہے اس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ ظالم ڈکٹیٹروں کے خلاف غصے کا عوامی لاوا، امریکا کی رہی سہی ساکھ کو بھی راکھ بنا دیتا۔ عرب انقلابات کی حمایت میں بیان جاری کردینے کا مطلب کسی بھی صورت یہ نہیں ہے، کہ وہ عوام کی حقیقی نمایندہ منتخب حکومتوں کو دل سے قبول کرلے گا۔ 
تیونس ، مراکش اور مصر کی نومنتخب حکومتوں کے سامنے بیرونی خطرات ہی اصل آزمایش نہیں ہیں، اندرونی خطرات اس سے بھی زیادہ مہیب ہیں۔ بیرونی طاقتیں بھی مختلف اندرونی عناصر ہی کو آلۂ کار بناتی ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کھلم کھلا اعلان کرچکی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران عالمِ عرب کی لبرل طاقتوں کی مدد کے لیے انھیں کروڑوں ڈالر دے چکی ہے۔ مصر کے نیم سرکاری اخبار الاہرام کے مطابق مصری پولیس نے ۳۰دسمبر کو سول سوسائٹی کے نام پر کام کرنے والی بعض تنظیموں کے دفاتر پر چھاپہ مارا، تو وہاں سے لاکھوں ڈالر اور اہم دستاویزات برآمد ہوئیں۔
l یمن: مصر کی طرح یمنی عوام کے لیے بھی جنوری ۲۰۱۲ء کا آخری عشرہ تاریخی لمحات لے کر آیا۔ ۲۲جنوری کو اس وقت عوام کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا جب جنرل علی عبداللہ صالح نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’میں علاج کے لیے امریکا جا رہا ہوں۔ ۳۳سالہ اقتدار میں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں‘‘۔ علی عبداللہ بھی ڈکٹیٹر تھا، لیکن یمن کی قبائلی روایات کے باعث وہ عوام پر صرف ایک حد تک ہی ظلم ڈھا سکتا تھا۔ ہرشخص روایتی خنجر اور کلاشنکوف کے علاوہ مضبوط قبائلی حصار کا تحفظ رکھتا تھا، لیکن چال بازیوں اور کہہ مکرنیوں میں یمنی صدر نے سب کو مات دے دی ہے۔ گذشتہ تقریباً ۱۱ ماہ کی عوامی تحریک میں پوری قوم سڑکوں پر اُمڈ آئی تھی۔ صدر نے باربار مذاکرات کیے، معاہدے کیے، اعلانات کیے لیکن ہربار اپنا ہرعہدوپیمان شوقِ اقتدار کی نذر کر دیا۔ خطرناک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، اہم حکومتی عہدے داران مارے گئے، خود بھی شدید زخمی ہوگیا، علاج کے لیے سعودیہ لے جایا گیا، کئی روزہ افواہ گرم رہی کہ دنیا سے چلا گیا لیکن موقع ملتے ہی جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوکر کہا کہ میں بدستور صدر ہوں۔ پھر اعلان کیا کہ اقتدار چھوڑ رہا ہوں، لیکن رات کی تاریکی میں ایک روز خاموشی سے یمنی دارالحکومت صنعا کے ایئرپورٹ اور وہاں سے ہیلی کاپٹر میں سیدھا ایوانِ صدر میں جا اُترا۔ آمد اتنی خفیہ تھی کہ ایئرپورٹ اتھارٹی اور ذاتی محافظوں کو بھی چند لمحے پہلے اطلاع دی گئی۔
یمنی عوامی تحریک کو مصر، تیونس یا لیبیا و شام کی طرح بہت زیادہ میڈیا کوریج نہیں ملی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنے بڑے بڑے عوامی اجتماع یمن میں ہوئے ہیں، ان میں سے کسی بھی ملک میں نہیں ہوئے۔ ۱۱ ماہ کی تحریک کے دوران کوئی جمعہ ایسا نہیں تھا کہ جب ہربڑے شہر میں کئی کئی لاکھ لوگ جمع نہ ہوئے ہوں۔ ایک مارچ تو ایسا انوکھا تھا کہ لاکھوں افراد نے جنوبی شہر تعز سے دارالحکومت تک ۲۵۰کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ پانچ روزہ پیدل سفر کے دوران یہ کاررواں جہاں سے بھی گزرا مزید افراد شریک ہوتے گئے، لیکن ’مضبوط کرسی‘ کے جنون میں مبتلا صدر نے دارالحکومت کے باہر ہی شرکا کو کچلنے کی ناکام کوشش کی۔ ۱۲شہید اور ۳۰۰سے زائد افراد زخمی ہوئے لیکن عوام کو قصرِصدارت پہنچنا تھا، وہ بڑی تعداد میں پہنچ گئے۔ امریکا جانے سے پہلے علی عبداللہ نے اپنی آخری سیاسی جنگ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ و رفقاے کار کے لیے استثنا حاصل کرنے کے لیے لڑی۔ وہ بضد رہا کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد مجھ پر مظاہرین کو قتل کرنے سمیت کسی بھی طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ عوام نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا لیکن صدر خود ہی اسمبلی سے قرارداد منظور کروا کے بزعمِ خود تمام مقدمات سے بَری ہوگیا۔ علی عبداللہ صالح سمیت کوئی حکمران اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ دامن اگر واقعی پاک ہے، تو عدالت سے کیوں گھبراتے ہو، اور اگر جرائم کیے ہیںتو کوئی عارضی استثنا ’اصل عدالت‘ اور اس کی سزا سے کیوں کر بچائے گا۔ وہ سزا تو خالدین فیھا کا اعلان بھی  سناتی ہے۔
علی عبداللہ کے خلاف تحریک کے آغاز ہی سے مغربی تجزیہ نگاروں نے لکھنا شروع کردیا تھا کہ یمن میں تبدیلی آئی تو یہاں بھی اخوان المسلمون برسرِاقتدار آجائے گی۔ اب اتنی تبدیلی تو آگئی کہ ۳۳سال سے انا ولاغیری کا نعرہ لگانے والا رخصت ہوگیا۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ تیونس اور مصر کی صورت حال سے بچنے کے لیے ۲۱فروری کو صدارتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دو سال کے عہدصدارت کے بعد پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوں گے۔ یمن میں اسلامی تحریک التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے بے شمار ہتھکنڈوں کے باوجود، الاصلاح پارلیمنٹ میں دوسرے نمبر پر آجاتی تھی۔ حالیہ وسیع تر عوامی تحریک کے دوران تو اس کا کردار مرکزی رہا۔ وہ نہ تو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور نہ  اس کے لیے کوشاں ہی ہیں کہ علی عبداللہ جیسا راندۂ درگاہ کردینے والا اقتدار انھیں مل جائے۔   البتہ ایک حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ عوام کو ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی اور اب عوام آزادانہ مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں گے۔ مراکش، تیونس اور مصر کی طرح یمن کے عوام بھی اپنا فیصلہ بہرصورت اسلام ہی کے حق میں دیں گے کہ یہی عالمِ عرب میں تبدیلیوں کا اصل عنوان ہے۔
l شام: عالمِ عرب میں جاری حالیہ تحریکوں میں اب شام کی عوامی تحریک رہ گئی ہے جو ڈکٹیٹر سے نجات کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ نصف صدی سے حکمران اسد خاندان، دن رات قتلِ عام میں مصروف ہے۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق اب تک شہدا کی تعداد ساڑھے چھے ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ لیکن شامی عوام میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا دائرہ ایک کے بعد دوسرے شہر تک وسیع ہو رہا ہے۔ بشارالاسد اقتدار کی ناکام جنگ میں کسی بھی دشمن فوج سے زیادہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ عرب لیگ نے شرماتے لجاتے ایک جائزہ وفد شام بھیجا، لیکن قتل عام ان کی موجودگی میں بھی جاری رہا۔ اب ایک اور وفد بھیجا جا رہا ہے۔ مظالم تو بشار بھی دیگر ڈکٹیٹر حکمرانوں کی طرح ڈھا رہا ہے، لیکن ایک بات میں اس کی ظالم افواج سب سے بازی لے گئی ہیں۔ وہ ظلم کے آخری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے گرفتار شدہ شہریوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ بشارالاسد کی تصویر کو سجدہ کریں۔ وہ انھیں بشار پر دل و جان نچھاور کردینے کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ انھوں نے درودیوار پر یہ کفریہ نعرے لکھ دیے ہیں: لا الٰہ الا الوطن ولا رسول الا البعث، ’’وطن کے علاوہ کوئی معبود اور بعث پارٹی کے علاوہ کوئی رسول نہیں‘‘۔یہ تشدد اور نعرے اپنی تمام تر تصاویر اور وڈیوز کے ساتھ دنیا کے سامنے ہیں۔ دوسری طرف عوام کا نعرہ ہے: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، الشہید حبیب اللّٰہ، (شہید اللہ کا محبوب ہے)___ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ بالآخر غالب کس کلمے کو ہوکر رہنا ہے۔
_______________

علی سخیری جو خود بھی آٹھ سال تک جیل میں گزار چکا ہے، اس بار ملا تو ہمراہ ایک اور ساتھی بھی تھا۔ علی نے تعارف کروایا: یہ عبد اللہ ہیں ۱۴سال صرف اس جرم کی پاداش میں جیل میں رہے کہ تعلق اخوان سے ہے۔ میں نے احترام و محبت سے پوچھا: ۱۴ سال کا پہاڑ سا عرصہ کیسے گزارا؟ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے صرف ان تین لفظوں میں جواب دیا: ’’الحمد للہ گزر گیا‘‘۔ میں نے اجروجزا کی دُعا دیتے ہوئے، تفصیل معلوم کرنے کے لیے دوبارہ اصرار کیا تو کہنے لگا: اب اس تلخ حقیقت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے زبان پر لانا مشکل ہے۔ تیسری بار میرے اصرار پر کہنے لگا:   وہ انسان سے اس کا فخر انسانیت چھین لیتے ہیں۔ تم صرف اسی بات سے اندازہ لگالو کہ ایک بار   ہم ۱۰ساتھیوں نے تمام تر پابندیوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے باجماعت نماز ادا کی، لیکن      اس حالت میں کہ ہم میں سے کسی کے بدن پر کپڑے کی دھجی تک نہ تھی۔ اس صورت حال پر کوئی احتجاج کرتا تو اسے کئی کئی مہینوں کے لیے صرف ڈیڑھ میٹر لمبی چوڑی کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا، جہاں صرف وہ ہوتا اور پتھریلی دیواریں۔ علی اور عبد اللہ جیسے ایک دو نہیں ہزاروں افراد ہیں۔ مرد ہی نہیں خواتین بھی گذشتہ ۶۴ برس سے اسی چکی میں پس رہی تھیں۔ ۲۰۱۱ء کا جنوری شروع ہوا تو دنیا کا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چھلنی روح اور زخمی جسموں والے ان لاکھوں افراد کو اس بدترین ظلم و استبداد سے نجات مل جائے گی، لیکن ۲۰۱۱ء کا سال ختم ہونے سے پہلے پہلے اس قماش کے کئی جابر حکمران عبرت کا نشان بن گئے، جیلوں کی کوٹھڑیوں میں روندے جانے والوں کو قوم نے اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کا اعلان کردیا۔ ظالم حکمرانوں کے سرپرست واویلا کرنے لگے اسلامسٹ آگئے۔ رب ذوالجلال کا فیصلہ غالب آیا: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵) ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔

مراکش، تیونس اور مصر کے حالیہ انتخابات صرف اس حوالے سے ہی اہم ترین نہیں قرار پائے کہ ان میں اسلامی تحریک نے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ ان ملکوں میں پہلی بار اس طرح کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخاب منعقد ہوئے۔ معروف تجزیہ نگار رابرٹ فِسک بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ ’’صبح سویرے ایک ایک کلومیٹر لمبی لائنوں میں لگے مصری عوام کے سامنے مغربی جمہوریت شرما اور گہنا کر رہ گئی ہے۔ پولنگ کی رات ہونے والی بارش نے سردی میں مزید اضافہ کردیا تھا، لیکن مصری عوام کے جوش و خروش اور صبروتحمل میں کوئی سردمہری پیدا نہ ہوئی ‘‘۔

  • انتخابی نظام: مصر کے انتخابی نتائج اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ایک نظر اس کے انتخابی نظام پر بھی ڈال لیں۔ حسنی مبارک کے بعد بننے والے عبوری نظام کے مطابق انتخابات کو متناسب نمایندگی اور انفرادی اُمیدواروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۴۹۸ نشستوں میں سے ایک تہائی انفرادی اُمیدواروں کے لیے اور دوتہائی متناسب نمایندگی کی بنیاد پر پارٹیوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ ہر ووٹر دو پرچیاں ڈالتا ہے، ایک پارٹی کے نشان کو اور دوسری افراد اور ان کے نشان کو (واضح رہے کہ الاخوان المسلمون کی سیاسی جماعت الحریۃ والعدالۃ ’آزادی و انصاف پارٹی‘ کا نشان ترازو ہے)۔ انفرادی طور پر جیتنے کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کا ۵۰ فی صد +۱،    یعنی نصف ووٹوں سے ایک ووٹ زیادہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں فیصلہ نہ ہوسکے تو ان نشستوں پر دوبارہ ووٹنگ کروائی جاتی ہے۔ اس طرح انفرادی نشستوں پر جیتنے والے کے سامنے ایک مشکل ہدف ہوتا ہے۔ ان کے حلقے کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ پہلے مرحلے میں اخوان کے دو اُمیدوار کامیاب ہوئے۔ ان میں سے ایک نے ۴ لاکھ ۳۰ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

پورے مصر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے مرحلہ وار انتخاب کروائے جارہے ہیں۔ ووٹنگ  دو روز تک جاری رہتی ہے، جب کہ گنتی عموماً تین چار روز تک جاری رہتی ہے۔ اس طرح ایک حصے کے انتخاب کا عمل مکمل ہونے میں ۱۰،۱۲ روز لگ جاتے ہیں۔ پورا انتخابی عمل عدلیہ کی زیر نگرانی ہورہا ہے۔ ہزاروں جج تینوں مرحلوں میں ملک کے مختلف اضلاع میں جاکر انتخابات کروارہے ہیں۔ اب تک دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات کے لیے ۱۹ جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ۲۳دسمبر کو ہونے والے مظاہروں کے بعد اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ۲۳ جنوری کو منعقد ہوگا۔ قومی اسمبلی کو ’مجلس الشعب‘ اور سینیٹ کو ’مجلس الشوریٰ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سینیٹ کے لیے بھی عام انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات ۲۹ جنوری سے شروع ہونا ہیں جو  ۱۱مارچ تک مکمل ہوں گے اور پھر ۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے پہلے پہلے صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ اس طرح ۲۸نومبر ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والا انتخابی عمل اگلے سال کے وسط میں مکمل ہوگا۔

  • خطرات:مصری عوام کو ان کی بے مثال قربانیوں کے ثمرات سے محروم کرنے کے لیے مہیب سازشیں بھی اول روز سے ہورہی ہیں۔ حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد عبوری عسکری کونسل نے تمام سیاسی جماعتوںاور دستوری کمیٹی کے مشورے سے عبوری دستور اور انتخابات کا روڈ میپ پیش کیا اور ۱۹ مارچ ۲۰۱۱ء کو اس پر عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا۔ کچھ عناصر نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پہلے دستور بنانے کا مطالبہ کردیا تاکہ ایک آمر کے جانے کے بعد دوسرا فوجی جنرل حسب سابق اور حسب خواہش دستور سازی اور انتخابات کا ڈراما بھی رچالے۔ لیکن الحمد للہ ایک کامیاب ریفرنڈم تکمیل کو پہنچا، عوام نے نہ صرف بھرپور شرکت کی بلکہ ۷۷ فی صد ووٹ اس کے حق میں پڑے۔

عبوری دستور اور انتخابی طریق کار کے بارے میں مطمئن ہوکر عوام انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئے، لیکن پھر ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے والے عناصر نے انتخابات سے پہلے دستور بنانے کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کردی ۔ اس مطالبے میں محمد البرادعی اور عمر و موسی جیسے صدارتی اُمیدوار بھی شامل ہوگئے اور اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵ ملین دستخط جمع کرکے محضرنامہ تیار کریںگے کہ انتخاب ملتوی کرکے پہلے دستور بنایا جائے۔ اخوان نے کسی تصادم میں پڑے بغیر درجنوں دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھرپور عوامی ریفرنڈم نے روڈمیپ طے کردیا ہے، اب کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی شخص یا ادارے کو عوامی فیصلہ تبدیل کرنے کا    حق نہیں۔ انتخابات چند ماہ ملتوی تو کیے گئے لیکن بالآخر انتخابی عمل شروع ہوگیا۔ سازشی عناصر بھی  باز آنے والے نہیں ہیں۔ پہلے دستور کی رٹ کام نہ آئی تو ملک میں اچانک مسلم مسیحی فسادات شروع کروا دیے گئے۔ توڑ پھوڑ اور قتل و غارت ہوئی لیکن بالآخر فتنے کی یہ آگ بھی بجھ گئی۔ کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا (المائدہ ۵:۶۴) ،’’جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے‘‘۔ پھر میدان التحریر میں دوبارہ دھرنا اور ہنگامے شروع کردیے گئے۔ اخوان اس تحریک میں شامل نہ ہوئے اور انتخابات ہی کو اصل علاج قرار دیا لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ عسکری کونسل کی طرف سے ایسے بیانات اور اعلان آنے لگے کہ انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ بے وقعت لگنے لگی۔ ایک جرنل نے بیان دیا: ہوسکتا ہے کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی کے لیے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کے حجم کا لحاظ کیے بغیر ہرچھوٹی بڑی پارٹی سے پانچ پانچ ارکان لے لیے جائیں‘‘ (ریفرنڈم کے ذریعے منظور ہونے والے عبوری دستور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ کمیٹی منتخب کمیٹی ہوگی)۔ پھر نائب وزیراعظم ڈاکٹر علی السلمی نے کئی بنیادی دستوری شقوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں جو بھی آئے، دستور جو بھی بنائے یہ نکات بہرصورت جوں کے توں رہیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ عسکری سپریم کونسل کی وضع کردہ یہ دستوری شقیں انتخابات، پارلیمنٹ یا دستورسازی کے ہر نظام سے بالاتر ہیں اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

ایک درفنطنی یہ چھوڑی گئی کہ صدارتی انتخابات اس وقت تک نہیں کروائے جائیں گے جب تک ملکی دستور وضع کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم نہیں کروالیا جاتا۔ گویا ایک تو سارا دستوری عمل موجودہ عبوری صدر فیلڈمارشل حسین طنطاوی کی زیر سرپرستی مکمل کیا جائے، اور دوسرے یہ کہ حالیہ عبوری فوجی حکومت کم از کم ۲۰۱۳ء تک جوں کی توں رہے۔ اس طرح کے بیانات و اعلانات کے دوران میدان التحریر میں فوجی کونسل کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔اخوان باقاعدہ طور پر اس میں شریک نہ ہوئے، البتہ ۱۸ نومبر کو ہونے والے عوامی دھرنے میں اخوان نے ایک بار پھر پوری قوت سے میدان التحریر میں اُترنے کا اعلان کیا اور فوجی کونسل کو خبردار کیا کہ وہ حقیقی جمہوریت کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ ساتھ ہی اخوان نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی کہ کسی طور بھی اس پروگرام کو مستقل دھرنے کی شکل نہ دی جائے، بلکہ شام پانچ بجے لوگ میدان التحریر کو خالی کردیں۔ لاکھوں افراد شریک ہوئے اور شام کو مظاہرین کی اکثریت گھروں کو واپس چلی گئی لیکن ابھی چند سو نوجوان باقی تھے کہ ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا، شدید تشدد کیا اور اس طرح انتخابات سے۱۰ روز قبل بدترین ہنگامے اور خوں ریزی شروع ہوگئی۔ تین روز میں ۴۵؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اخوان نے واضح کیا کہ یہ بلاجواز تشدد قوم کو انتخابات سے محروم کرنے اور فسادات کی طرف دھکیلنے کی سازش ہے، ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہنگاموں کی تپش فوج تک بھی پہنچنے لگی اور اصل ہدف (یعنی اخوان) میدان جنگ سے دور انتخابی تیاریوں میں مصروف رہے، تو مظاہرین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے عبوری وزیراعظم عصام شرف کو قربانی کا بکرا بناکر برطرف کردیا گیا، کمال جنزوری کو عبوری وزارت عظمیٰ اور نئی کابینہ دے دی گئی۔

  • جیتنے والی دینی جماعتیں اور مستقبل: اسی دوران انتخابات کا آغاز ہوگیا۔ سازشیں اور مکارانہ چالیں ہنوز عروج پر ہیں۔ منتخب اسمبلی پر بالادستی حاصل کرنے کے لیے انتخابی عمل کے دوران ہی میں، فوجی کونسل نے ایک ۴۰ رکنی دستوری مشاورتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اخوان کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ   ہم منتخب ایوان کو بائی پاس کرنے والی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوں گے۔ فوجی کونسل نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اس کی حیثیت دستوری نہیں صرف مشاورتی ہوگی مجلس قائم کر دی ہے۔ اخوان اور دیگر کئی جماعتوں نے تصادم کے بجاے اس بارے میں اپنا اصولی موقف واضح کردینے کے بعد  اپنی ساری توجہ انتخاب کے باقی مراحل پر ہی مرکوز رکھی ہے۔

انتخابات کے پہلے ہی روز لوگوں کی بے مثال شرکت اور پہلے مرحلے کے نتائج سے ہی قوم کا اصل رجحان و اعتماد پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ مختلف اسلامی تنظیموں کو ۶۵ فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ باقاعدہ سرکاری نتائج کے مطابق اخوان کو ۴۱ فی صد ووٹ ملے (اب کہا جارہا ہے کہ یہ ۳۷ فی صد ہیں)۔ دوسرے نمبر پر النور پارٹی کو ۲۴ فی صد (پہلے اعلان کے مطابق ۲۰فی صد)، اور تیسرے نمبر پر حزب الوسط کو ۶ فی صد ووٹ ملے ہیں۔

’النور‘ بنیادی طور پر تین دینی جماعتوں کا اتحاد ہے جس نے النور پارٹی کے بینر تلے انتخاب لڑ ا ہے۔ ان میں دو سلفی، یعنی اہل حدیث جماعتیں ہیں ’النور‘ اور ’الاصالۃ‘ اور تیسری البناء والتنمیۃ (تعمیر و ترقی پارٹی) ہے جو کہ سابقہ الجماعۃ الاسلامیۃ المسلحۃ کی نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت ہے۔ یہ جماعت پہلے مسلح جدوجہد کی طرف نکل گئی تھی لیکن اب ان کی اکثریت پُرامن دعوتی و سیاسی سرگرمیوں کی طرف واپس آگئی ہے۔ اس وقت سلفی جماعتوں میں ایسے دھڑے بھی ہیں جو پہلے حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو واجب القتل قرار دیتے تھے، ایسے بھی ہیں کہ جو حاکم کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کو بھی حرام قرار دیتے تھے، اور وہ بھی ہیں کہ جو پہلے جمہوریت اور انتخابات کو کفر قرار دیتے تھے۔ حسنی مبارک کے جانے اور آزادانہ سیاسی جدوجہد کی اجازت ملنے کے بعد اب یہ سب حضرات مجتمع ہیں اور خود کو وقت و حالات کے مطابق ڈھالنے کی سعی کررہے ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے سے ان کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ عمومی طور پر ان کے ذمہ داران نے اپنے بیانات میں احتیاط برتی ہے، لیکن دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں نے کئی ایسے بیانات بھی دیے ہیں، جنھیں ذرائع ابلاغ نے معاشرے کو اسلامی حکومت سے خوف زدہ کرنے کے لیے بہت اچھالا ہے۔

انتخاب جیتنے والی تیسری دینی جماعت ’الوسط پارٹی‘ ہے جسے۶ فی صد ووٹ ملے، بنیادی   طور پر اخوان ہی سے الگ ہونے والے بعض افراد پر مشتمل ہے۔ اخوان پر لگنے والی مسلسل پابندیوں کے تناظر میں بعض نوجوانوں نے، ابوالعلا ماضی کی سربراہی میں خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی۔ آغاز میں بعض لوگوں کا تاثر تھا کہ اخوان نے خود ہی اپنے لیے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے، لیکن اخوان نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ ان حضرات کا اخراج کردیا۔ حکومت نے بھی پارٹی رجسٹرڈ نہ کی اور اس طرح یہ حضرات نہ اخوان میں رہے اور اور نہ اپنی جماعت بناسکے۔ حسنی مبارک کے زوال کے بعد سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہونے لگیں، تو سب سے پہلے الوسط کی سابقہ درخواست منظور کی گئی۔

دینی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان کے مابین اختلافات نہ پیدا کردیے جائیں۔ معروف سیکولر اور متعدد مغربی تجزیہ نگاروں کی تحریروں کا اصل مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اخوان اور النور کا مزاج، طریق کار اور ترجیحات مختلف ہیں، دونوں میں جھگڑا ہوگا۔ اس تجزیے کے پیچھے  ان کی خواہش اور کوششیں بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ بعض عرب ممالک بھی اختلافات کی آگ پر ڈالروں کا تیل ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں، لیکن اخوان اور النور کی قیادت نے اسی  اُمید کو توانا کیا ہے کہ ان شاء اللہ لڑانے والوں کے خواب پورے نہیں ہوں گے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ کے دوران دونوں جماعتوں کے کارکنان نعرہ لگا رہے تھے: السلفیۃ والاخوان،   اید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفی ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔کئی اہم سلفی رسائل بھی  لکھ رہے ہیں کہ اس وقت معاملہ سیٹوں یاوزراتوں کا نہیں، اسلام اور اس کی صحیح تصویر  پیش کرنے کا ہے۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد اخوان نے ۱۸ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جو اتحاد قائم کیا تھا، ’النور‘ پارٹی بھی اس کا حصہ تھی۔ ان دنوں محترم سید منور حسن، امیرجماعت اسلامی پاکستان کی قیادت میں مصر جانے والے وفد کو اخوانی قائدین نے بتایا تھا کہ: سلفی احباب سمیت اتحاد کی اکثر جماعتوں کو اس سے پہلے عملی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عمل پروان چڑھے اور اس میں مضبوط سیاسی جماعتیں بھرپور حصہ لیں۔

تیونس میں حالیہ منتخب حکومت تشکیل پاجانے سے بھی اختلافات کی سازشیں کرنے والے عناصر کو مایوسی ہوئی ہے۔ وہاں بھی اسلامی تحریک النہضۃ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے، اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ان سے کہیں پیچھے ہے اور بائیں بازو کی قدیم قوم پرست شناخت رکھتی ہے۔ وہاں بھی طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد سیاسی جماعتوں کے مابین سرپھٹول کی  پیش گوئیاں کی جارہی تھیں، لیکن جس سہولت، کامیابی اور حسن انتظام سے النہضۃ نے اکثر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملایا ہے، اس پر اپنے حیران اور دشمن پریشان ہیں۔

اخوان کی یہ پالیسی طے شدہ ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کی سعی کریں گے۔ تیونس اور مراکش کی نومنتخب حکومت ہو یا مصر میں چند ماہ بعد تشکیل کی منتظر مخلوط حکومت، ان سب کے سامنے حقیقی چیلنج اپنی ترجیحات کا درست تعین اور ان پر عمل درآمد ہے۔ مصر کے ایک عالم دین عبدالسلام البسیونی سے ملاقات ہوئی تو کہہ رہے تھے ترجیحات کا تعین اہم ترین مرحلہ ہے۔ مصر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جیسے اُولو العزم صحابہ کبار کی خلافت میں شامل رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ جیسے صحابیِ رسولؐ نے نظامِ ریاست چلایا، لیکن ابو الہول اور دور فراعنہ کے سیکڑوں بت صدیوں سے موجود تھے اور آج تک موجود ہیں۔ خود ریاست رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پورے دور خلافت راشدہ میں رومانی دینار رائج رہا جس پر صلیب بھی کندہ تھی (پہلا اسلامی سکہ اُموی دور میں ڈھالا گیا)۔ بتوں اور صلیب کا انکار عقیدۂ توحید کی بنیادی اساس میں شامل تھا، اسلام کا تعارف ہی لا الٰہ الا اللہ سے ہوتا ہے، لیکن حکمت، تدریج اور ترجیحات کے لازوال اصولوں کے تحت ہر کام کا اپنا وقت تھا۔

اسلامی تحریکوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج شخصی نظام حکومت کو ایسی باقاعدہ دستوری ریاستوں میں تبدیل کرنا ہے، جس میں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں۔ لوٹ مار اور کرپشن کے دروازے بند ہوں، لوگوں کو باعزت روزگار فراہم ہو، اور ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل پیش کیا جائے۔نئی بننے والی حکومتوں کو درپیش اقتصادی چیلنج کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو صرف یہ جان لیجیے کہ مصری سٹیٹ بنک کے مطابق ملک میں دسمبر ۲۰۱۰ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ۳۶؍ ارب ڈالر تھے جو نومبر ۲۰۱۱ء میں ۲۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ عبوری عسکری کونسل میں مالی اُمور کے نگران بریگیڈیئر محمود نصر کے مطابق جنوری ۲۰۱۲ء تک یہ ذخائر صرف ۱۰؍ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ گویا حالات اتنے بگڑ جائیں گے یا بگاڑ دیے جائیں گے کہ آنے والی حکومت اس پر قابو نہ پاسکے۔

اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے فوراً بعد ذرائع ابلاغ نے عجیب و غریب سوالات کی دھول اڑانا شروع کردی ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا خواتین کو کسی مخصوص لباس کا پابند بنادیا جائے گا؟ کیا سیاحت کہ جس پر دونوں ملکوں کی اقتصادیات کا بنیادی انحصار ہے، کی حوصلہ شکنی کی جائے گی؟ اسلامی تحریکوں کی قیادت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔ان شاء اللہ ہر اقدام     اپنے اپنے وقت پر انجام پائے گا اور دنیا کو اسلام کا حقیقی اُجلا چہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ اخوان کے   ذمہ دار کہہ رہے تھے ہمارے بھائی ہمارے لیے سجدوں کے دوران دُعا کیا کریں کہ اللہ ہماری مدد فرمائے۔ ریاست چلانے کی آزمایش پھانسیوں پر جھول جانے کی آزمایش سے بھی کڑی ہے۔  اللہ کی خاطر جینا بعض اوقات اللہ کی راہ میں مرنے سے بھی  زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔

تیونس کے انتخابات کے نتائج

گندھے ہوئے سفید بالوں والے ایک ۷۰سالہ تونسی باباجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر کھڑے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’نوجوانو!  تیونس کو آج تم نے بچانا اور کامیاب بنانا ہے‘‘۔ پھر اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے:’’ہم تو اسی تاریخی لمحے کی خاطر بڑھاپے کی نذر ہوچکے ہیں‘‘۔ نوجوانوں نے اپنی تقریباً تین ہفتے کی تحریک اور سیکڑوں جانوں کی قربانیاں دے کرتیونسی ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ تقریباً ۱۰ماہ کے بعد تیونس کی تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے۔ ذرائع ابلاغ نے آج پھر اسی تیونسی باباجی کو تلاش کرڈالا۔ معلوم ہوا کہ بن علی کے مظالم سے تنگ آکر وہ سعودیہ چلے گئے تھے۔ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر زیادہ مشقت کے قابل نہ رہے تو تیونس واپس آکر آج کل ایک کیفے ٹیریا چلارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے انھیں ان کا وہ جملہ یاد دلایا جسے ذرائع ابلاغ نے تیونسی تحریک کا عنوان بنادیا تھا۔ باباجی بے اختیار کہنے لگے: ’’وہ لمحہ واقعی تاریخی لمحہ تھا۔ تیونس اب اپنی تاریخ کا بالکل نیا باب رقم کررہا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے گندھے ہوئے بالوں والا بابا زار و قطار رونے لگا۔ لیکن آج اس کے یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ آج وہ اپنے ملک میں آزاد تھا اور ہزاروں شہریوں کو جیل میں ڈالنے والا اور لاکھوں شہریوں کو ملک بدر کرنے والا بن علی خود سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے تھا۔

آج باباجی ہی نہیں تیونس کا ایک ایک نوجوان آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ،دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈال رہا تھا۔ الیکشن کا ڈھونگ تو بن علی بھی ہر چار پانچ سال بعد رچاتا تھا، لیکن اس کے نتائج پہلے سے طے اور معلوم ہوتے تھے۔ ۲۳؍اکتوبر۲۰۱۱ء کے انتخابات کو    عوام نے ’عید الانتخابات‘ (انتخابی عید) قرار دیا۔ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ  شام سات بجے پولنگ کا وقت ختم ہوجانے کے بعد جو ووٹر انتخابی سٹیشن کے احاطوں میں آگئے تھے وہ رات ۱۲ بجے تک ووٹ ڈالتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ووٹنگ کا تناسب ۸۰ فی صد اور   کئی علاقوں میں ۹۰ فی صدسے بھی زیادہ ہے۔ پورا انتخابی عمل پُرامن رہا۔ لوگ دن بھر طویل قطاروں میں لگے رہے لیکن کہیں کوئی تشدد آمیز واقعہ پیش نہیں آیا۔

۲۰ مارچ ۱۹۵۰ء کو فرانس سے آزادی حاصل ہونے کے بعد صرف بن علی اور اس کے  پیش رو حبیب بورقیبہ ہی تیونس کے حکمران رہے۔ دونوں کا سب سے بڑا ہدف بھی اسلام اور  اسلام پسند افراد ہی رہے۔ بورقیبہ نے ۱۹۸۱ء میں صدارتی فرمان نمبر ۱۰۸ جاری کرتے ہوئے  ’فرقہ وارانہ لباس‘ پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس قانون سے اصل مراد خواتین کے حجاب پر پابندی تھی۔ فرقہ واریت کا نام دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں جب بن علی نے اپنے گرو کا تختہ اُلٹا تو سب سے زیادہ سختی اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے برتی گئی۔ کسی بھی سرکاری دفتر، تعلیمی ادارے یا ہسپتال میں سر پر اسکارف لینے والی خواتین کا داخلہ سختی سے بند کردیا گیا۔ سیکڑوں طالبات صرف اسکارف کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہنے پر مجبور ہوگئیں۔ کئی خواتین ہسپتالوں کے دروازوں پر دم توڑ گئیں کہ وہ سکارف اتارنے پر تیار نہ تھیں۔ نمازوں کے لیے مسجد جانے والے نوجوانوں کو چن چن کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تیونس کی اسلامی تحریک کو کالعدم   قرار دے دیا گیا۔ اس کے ۳۰ہزار کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اسے عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے رہے۔ بن علی کے جانے کے بعد آج پہلے انتخابات ہوئے تو عوام نے اسی اسلامی تحریک کو سب سے زیادہ ووٹ ڈالے۔

تیونس کی آبادی ایک کروڑ ۷ لاکھ کے قریب ہے۔ ووٹروں کی تعداد ۴۱ لاکھ ہے۔    حالیہ انتخابات میں ۲۱۷ نشستوں پر چناؤ ہوا، جن کے لیے ۱۲ ہزار اُمیدوار میدان میں تھے لیکن انتخابات متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ بن علی کے دور میں صرف حکمران پارٹی کا تسلط تھا۔ باقی یا تو براے نام تھیں یا کالعدم قرار دے دی گئی تھیں۔ اب آزادی ملی تو ۱۵۰ سے زائد پارٹیاں وجود میں آگئیں۔ انتخابات سے پہلے ہی سب کہہ رہے تھے کہ اسلامی تحریک نہضت پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ ۹؍اکتوبر کو نہضت پارٹی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو وہ بھی بتارہے تھے کہ اگرچہ ہم گذشتہ ۲۰ برس سے ملک بدری اور کالعدم قرار دیے جانے کی قیمت چکا رہے تھے، ہماری مصروفیات بھی عملاً صرف یہ رہ گئی تھیں کہ اپنے گرفتار کارکنان کے   اہل خانہ کی کچھ نہ کچھ امداد کرتے رہیں، لیکن اب بحال ہوئے ہیں تو چند ماہ میں ہمارے تقریباً ۲۰ہزار ارکانِ جماعت نے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر عوامی تائید حاصل کرلی ہے۔ تحریک نہضت کے مقابل کوئی قابل ذکر پارٹی نہیںرہی۔ اگر ہم سے ہماری کامیابی زبردستی نہ چھین لی گئی تو ہم سب سے بڑی پارٹی بنیں گے۔ ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی پارٹی کے دروازے پوری قوم کے لیے کھولتے ہوئے اور دیگر پارٹیوں کو بھی ساتھ ملاتے ہوئے آیندہ نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کریں۔ ۲۴؍اکتوبر کو شیخ راشد غنوشی کے دفتر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تحریک نہضت کو ۵۲فی صد ووٹ اور ۲۱۷ میں سے ۱۱۵نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ سادہ اکثریت تو الحمد للہ مل گئی،  لیکن اب آیندہ مراحل مشکل تر ہیں۔

اب دستور ساز اسمبلی کو عبوری حکومت تشکیل کرنا اور ملک کو ایک نیا دستور دینا ہے۔ ایک سال کے بعد دستور پر ریفرنڈم اور پھر پارلیمانی و صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ یہ تمام مراحل مشکل تر ہیں۔ یورپ بالخصوص فرانس تیونس کے رگ و پے میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔  شیخ راشد غنوشی اور ان کے ساتھی بھی اللہ پر راسخ ایمان اور نظریات سے مکمل وابستگی کے ساتھ ساتھ حکمت اور وسعت قلبی سے پوری قوم کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ نتائج نے قوم کو مزید یکسو کیا ہے۔ عام شہری بھی کہہ رہے ہیں: ’’آج کا انتخاب اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے‘‘۔ فرمان خداوندی کی حقانیت دنیا دیکھ اور تسلیم کررہی ہے: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵)، ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔

۲۰۱۱ء کے آغاز میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عالم عرب میں جبر واستبداد کے نظام سے نجات مل سکتی ہے۔ تیونس کے اسلام دشمن حکمران سے نجات ابرِ رحمت کاپہلا قطرہ تھا۔ آج وہاں کے انتخابی نتائج نے تبدیلی کے ایک اور سفر کا آغازکردیا ہے ۔ ان شاء اللہ انتخابی کامیابیوں کا یہ قافلہ اگلے ماہ مصر پہنچے گااور اس کے چھے ماہ بعد لیبیا میں چار عشروںکے بعد، پہلے حقیقی انتخابات ہونا ہیں۔ آج وہاں بھی خوشی کے آنسو رواں ہیں۔

لیبیا میں قذافی کا زوال

لیبیا کے دوسرے بڑے شہربن غازی کے بڑے میدان میں لاکھوں لوگ جمع تھے ۔ عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس پیش کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اے اہل لیبیا ! ہمارے خون، ہمارے مال اور ہماری عزتیں ہم پر حرام کردی گئیں ہیں۔ ہمیں سب کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے۔ ‘‘انھوں نے گرفتاری کے بعد معمر القذافی اور اس کے بیٹے کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم قذافی پر مقدمہ چلاکر ظلم کا حساب لینا چاہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں ہمارا کوئی مفاد نہیں تھا، ہم تحقیقات کریں گے کہ انھیں کس نے اور کیوں قتل کیا۔ پھر جب انھوں نے اعلان کیا کہ اب ہم آزاد ہیں اور ہمیں ایک آزاد مسلمان شہری کی حیثیت سے فیصلے کرنا ہیں۔ گذشتہ حکومت نے ہم پر ظلم ڈھائے ہیں لیکن خبردار رہو کہ ہمیں کسی سے انتقام نہیں لینا، تو مجمع میں اکثر خواتین نے پہلے تو ہونٹوں پر ہاتھ کی کپی بناتے ہوئے عرب خواتین کا معروف اظہار مسرت بلند کیا اور ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جبر کا نظام لد گیالیکن خوشی کے آنسو ڈکٹیٹر سے نجات کا اعلان کررہے تھے۔

۴۲ سال تک بلا شرکت غیرے سیاہ وسفید کا مالک بنے رہنے والا معمر القذافی عجیب شخص تھا۔ وہ ایک طرف تو مغرب اور اس کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا تھا ۔پوری دنیا میں انقلابی قوتوں کی حمایت کا اعلان کرتا ۔ لیکن اپنے ملک میں لوگوں کی تمام تر آزادیاں سلب کیے ہوئے تھا۔ اگر اس کے ۴۲ سال اقتدار اور اس کے پورے نظام پر کوئی بات بھی نہ کریں، تب بھی گذشتہ فروری میں اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کے حوالے سے اس کی پالیسی ہی اس کا سب سے ناقابلِ معافی جرم قرار پاتا ہے۔ تحریک شروع ہوئی تو اسے القاعدہ اور دہشت گردوں کی تحریک قرار دیتے ہوئے سختی سے نمٹنے کا اعلان کردیا۔ مظاہرے پھر بھی نہ رُکے تو عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے انھیں فرمایا: ’’تم ہوتے کون ہو مجھ سے استعفا طلب کرنے والے___ میں اگر صرف تمھارے ملک کا سربراہ ہوتاتو استعفا تمھارے منہ پر دے مارتا___ میں شہنشاۂ افریقا ہوں اور دنیا کے کروڑوں عوام میرے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر فوجوں کو حکم دیتے ہوئے کہا: ’’یہ کاکروچ ہیں___ چوہے ہیں___ انھیں پٹرول چھڑک کر بھسم کردو‘‘۔ رمضان المبارک کے آخر میں جب طرابلس پر بھی عوا م کا قبضہ ہوگیا تب بھی قذافی نے آڈیو کیسٹ کے ذریعے تقاریر جاری رکھیںاور ہر بار لیبیا کے عوام کوــ’ جرذان‘ (چوہے) قرار دیتے ہوئے انھیں مارڈالنے کا حکم ہی سناتے رہے ___ آخر کار جب پکڑے گئے تو ہاتھ میں سونے کا پستول تھا لیکن نالے کے ایک پائپ میں چھپے ہوئے تھے___ گرفتار کرنے والے کئی جذباتی نوجوان چیخ کر کہہ رہے تھے: یاجرذ ___یا جرذ، سبحان اللہ! زندہ گرفتار کرنے کے بعد تشددکرنا اور قتل کردینا اسلام کی جنگی تعلیمات کے یقینا منافی ہے لیکن اُولی الابصار کے لیے اس میں بھی بڑی عبرت ہے۔

ناٹو افواج کی بھرپور اور ہمہ جہت موجودگی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان اور سنگین چیلنج ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر قذافی اتنا ظلم نہ ڈھاتا ، اپنے ہی ملک پر فوج کشی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کا قتل شروع نہ کردیتا تو کسی ناٹو کو مداخلت کا بہانہ نہ ملتا۔ آخر تیونس اورمصر میں بھی تو عوامی تحریک ہی کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے اور کوئی بیرونی فوج براہِ راست وہاں نہیں آسکی، حالانکہ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے مصر کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔

حماس اور اسرائیل میں قیدیوں کا تبادلہ

عالمِ عرب کے انقلابات میں امریکا اور یورپ کے لیے سب سے اہم سوال اسرائیل کا دفاع اور اس کا مستقبل ہی ہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے اس ماہ اہم ترین پیش رفت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔ پانچ برس پہلے اغوا ہونے والے اسرائیلی فوجی گلعاد شالیت کی رہائی کے مقابل حماس نے ۱۰۲۷ قیدی رہا کروانے کا معاہدہ کیاہے۔ ان میں سے ۴۷۷ قیدی رہا ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ آیندہ ماہ رہا ہوں گے۔ دنیا کے تمام تجزیہ نگار اسے حماس کی عسکری، سیاسی اور اخلاقی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔پانچ سال تک غزہ ہی میں رکھے جانے کے باوجود اسرائیل اپنے تمام تر جاسوسی اور عسکری جبروت کے باوجود اپنے فوجی کا سراغ نہیں لگا سکا۔ جنگ سمیت مختلف مراحل سے گزرنے کے باوجود حماس نے بے صبری نہیں دکھائی اور بالآخر زیادہ سے زیادہ تعداد میں قیدی رہا کروالیے۔ اخلاقی بلندی اتنی کہ حماس نے اپنے کارکنان سے زیادہ دوسری تنظیموں کے قیدی رہا کروائے۔ اس معاہدے میں مصر کا کردار بھی مثبت رہا ہے ۔ پہلے بھی کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن ہر بار حسنی مبارک انتظامیہ نے صرف اس وجہ سے کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی کہ قیدیوں کی رہائی کا تمام تر سہرا حماس کے سر بندھے گا۔

اہلِ فلسطین اس معاہدے کو عرب انقلاب کے اہم ثمر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ رہائی پانے والوں میں ایسے ایسے قیدی ہیں کہ جنھوں نے آزادی کا سوچنا تک چھوڑ دیا تھا۔ سب سے پرانے فلسطینی قیدی نائل البرغوثی ۳۳برس قید کے بعد باہر آئے ہیںتو پوری تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کا شیر خوار بیٹا اب خود بچوں کا باپ بن چکا ہے۔ ۳۱سالہ خاتون قیدی احلام التمیمی ۱۰سال سے قید تھی اور اسے ۱۶ بار عمر قید، یعنی تقریباً ۲۰۰سال قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ اسرائیل کی تاریخ میں اتنی لمبی سزا کسی کو نہیں سنائی گئی۔ وہ بھی رہا ہوکر اہل خانہ میں آچکی ہیں۔ احلام سمیت تمام قیدیوں نے ایک ہی بات کہی کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ حماس کے شکرگزار ہیں کہ وہ دشمن سے اس کی زبان میں بات کر رہی ہے۔ صحافی نے احلام سے پوچھا: ’’خود آپ نے یہ ساری مدت کیسے گزاری؟‘‘ فوراً کہنے لگی:’’ اپنے اللہ کے ساتھ رہ کر___ اگر ایمان کی دولت نہ ہوتی تو آج میں تمھارے سامنے نہ ہوتی‘‘ ۔ ایک اور قیدی حسن سلامہ کا استقبال کرنے کے لیے، اس کی بوڑھی والدہ خود سرحد پر آئی ہوئی تھی۔ ان سے پوچھا گیا:’’ اماں جی! کیا آپ کو امید تھی کہ بیٹا رہا ہوجائے گا؟ کہنے لگیں: ’’جب سے بیٹا جیل میں گیا تھا، ایک دن کے لیے بھی دل کی یہ امید نہیں ٹوٹی کہ بیٹا ضرور رہا ہوگا‘‘۔ واضح رہے کہ حسن ۳۰ سال بعد رہا ہوا تھا، گذشتہ پانچ سال تو مکمل قید تنہائی میں گزارے۔ اہل خانہ تو کجا جیل میں موجود قیدی بھی ملاقات نہ کرسکتے تھے۔ آج جب ماں کہہ رہی تھی ۳۰سال میں ایک دن بھی امید کی لڑی نہیں ٹوٹی تو ساتھ ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی___ خوشی کے آنسوؤں کی!

 

تیونس سے شروع ہونے والے سفر آزادی کو انقلابات کی بہار کہا جاتا ہے۔ تیونس اور مصر میں جلاد صفت حکمرانوں کا شکنجہ بہت مضبوط اور ہولناک تھا لیکن اچانک رونما ہونے والی عوامی تحریکیں دو سے اڑھائی ہفتوں میں فرعون حکمرانوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئیں۔

ادھر لیبیا کے عوام بھی قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ ۱۸رمضان المبارک کو لیبیا کے عوامی لشکر نے اچانک اعلان کیا کہ ہم فتح مکہ کے تاریخی اور بابرکت دن دنیا کو قذافی سے نجات کی خوش خبری سنائیں گے۔ ایک طرف یہ عوامی افواج دارالحکومت طرابلس میں داخل ہورہی تھیں اور دوسری طرف سرکاری ٹی وی پسرِ قذافی کی ایک روز پرانی طویل تقریر سنا رہا تھا۔ سٹیج پر ایک بڑا بینر لگا تھا ’’اللہ - معمر - لیبیا و بس‘‘ یہ بینر۴۲ سالہ اقتدار مطلق کا خلاصہ ہے لیکن آج لیبیا کا چپہ چپہ اعلان کررہا ہے کہ:وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (الرحمن۵۵:۲۷)’’اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘

جن پانچ عرب ممالک میں عوامی انقلاب کی لہر عروج پر ہے ان میں سے لیبیا ہی سب سے زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے۔ اعلی ترین معیار کا پٹرول وافر ہے۔ ۴۲ سال میں قذافی چاہتا تو ملک کا ذرہ ذرہ چمک اٹھتا، لیکن سارا عرصہ مختلف لا یعنی مہم جوئیوں میں گزرگیا۔ اس وقت دولت کے انبار تقریباً ہراہم مغربی ملک کے بنکوں میں منجمد پڑے ہیں۔۳۰ ارب ڈالر تو صرف امریکی بنکوں میں ہیں۔ قذافی کا آخری اور سنگین ترین جرم یہ ہے کہ جب عوام نے مزید غلامی برداشت کرنے سے انکار کردیا تو اس نے ان پر چہار جانب سے موت مسلط کردی اور یوں بیرونی طاقتوں کو لیبیا میں در آنے کا بہانہ فراہم کردیا۔ عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قذافی نے اقتدار بچانے کی جنگ میں ۵۰ ہزار سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ سرت اور بنی ولید میں جاری جھڑپوں سے یہ تعداد یقینا مزید بڑھ جائے گی۔جب ایک کے بعد دوسرے شہر میں موت کا بازار گرم کرتے ہوئے، قذافی نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کا بھی محاصرہ کرلیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ میرا اقتدار نہ مانا تو پورے شہر کو بھسم کردوں۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب ہر طرف سے عوام چلا اٹھے کہ دنیا مدد کو پہنچے، ہم اس جنونی قاتل کا مزید سامنا نہیں کرسکتے۔ مغرب کو بھی اسی لمحے کا انتظار تھا، اقوام متحدہ سے قرارداد جاری ہوگئی اور ناٹو افواج لیبیا کی فضاؤں اور پانیوں پر قابض ہوگئیں۔ یہ عوامی تحریک اور پھر خوں ریز لڑائی ۱۷ فروری سے جاری ہے۔ ناٹو نے اس عرصے میں نہ صرف اپنی عسکری گرفت مضبوط کی ہے بلکہ اس نے عبوری مجلس میں بھی اثر و نفوذ حاصل کرلیا ہے۔ یقینا اس بیرونی قبضے کے لیے قذافی نے اسباب فراہم کیے، اگرچہ ۴۴ ارب بیرل پیٹرول کے زیرزمین ذخیروں پر تسلط کا مغربی خواب بھی اس کے لیے قوت متحرکہ ہے۔

اس وقت اُمید کی سب سے بڑی بنیاد تو یقینا رب ذوالجلال کی رحمت پر ایمان ہی ہے۔ جس ذات نے بے نوا عوام کو ظالم حکمرانوں سے نجات دی ہے وہ آیندہ بھی اپنی رحمت شامل حال رکھے گا۔ خود عوام بھی اپنی تمام قربانیوں اور جدوجہد آزادی کے ثمرات سے محرومی کے لیے کسی طور آمادہ نہیں ہیں۔ یہ عوام کی بیداری، جذبۂ آزادی اور مسلسل قربانیاں ہی ہیں، کہ سنہری موقع ملنے کے باوجود لیبیا پر فوج کشی کے لیے امریکا خود کھل کر سامنے نہیں آیا۔ عراق اور افغانستان کی دلدل جس طرح اسے مسلسل نگل رہی ہے، وہ خود اس کے لیے ہی نہیں، ناٹو بالخصوص فرانس برطانیہ اور اٹلی کے لیے بھی باعث عبرت ہے۔ وہ کوشش تو ضرور کریں گے کہ آیندہ حکومت میں ان کا نفوذ زیادہ سے زیادہ ہو، لیکن زمینی حقائق سے بھی آنکھیں بند نہ کرسکیں گے۔

عبوری مجلس کے سربراہ مصطفی عبد الجلیل کا یہ بیان اس تناظر میں بہت اہم ہے کہ: ’’ہم بہرصورت دین اسلام کی مبنی بر اعتدال تعلیمات پر چلیں گے‘‘۔ قذافی کی جیلوں میں طویل عرصے تک قید رہنے والے ڈاکٹر علی محمد الصلابی اور ان کے ساتھی بھی میدان میں ہیں اور اخوان کے   ذمہ داران بھی مکمل طور پر شریک عمل ہیں۔ ڈاکٹر علی صلابی تقریباً گزشتہ تین سال کے عرصے میں اس وقت اچانک سامنے آئے، جب سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کے علاوہ کئی موضوعات پر ان کی درجنوں بے مثال کتب، تازہ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی طرح عرب قارئین کو نصیب ہوئیں۔ میں نے ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ جناب یہ پورا چمنستان اچانک کیسے ترتیب پا گیا؟ کہنے لگے: جیل میں ان ساری کتب کی تیاری ہوگئی تھیں۔ مسوّدہ جات تیار تھے، اب انھیں ایک بار دیکھ کر شائع کروارہا ہوں۔ ڈاکٹر صلابی نے بھی اپنے حالیہ بیان میں قذافی کے سابق وزرا اور مغرب سے لائے گئے کئی چہروں کے بارے میں واضح بیان دیا ہے کہ انھیں مستقبل کے انتظام میں قبول نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ عوام انھیں منتخب کرلیں۔ اب عبوری دستور کے مطابق آٹھ ماہ کے اندر اندر دستوری مجلس کے انتخابات ہونا ہیں۔ یہ مجلس ایک عبوری حکومت اورعبوری صدر بھی منتخب کرے گی اور پھر ۲۰ ماہ کے اندر اندر پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے کہ جن کے بعد لیبیا کو کسی ایک شخص یا خاندان کی ملکیت ہونے کے بجاے شورائیت و جمہوریت پر مبنی ایک نئی آزاد ریاست کے روپ میں سامنے آنا ہے۔ ان شاء اللہ


تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کی طرح شام میں بھی کئی عشروں سے مسلط جابر آمریت کو مسترد کرنے کے لیے ۱۵ مارچ سے عوامی مظاہرے شروع ہوئے تو بشار انتظامیہ نے خوںریزی کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کردی۔ بدقسمتی سے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب شام سے مظلوم عوام کی شہادتوں اور ان پر ہونے والے مجرمانہ تشدد کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ حقوق انسان کے ایک ادارے (شہداء سوریا) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۵ مارچ سے ۹ ستمبر تک ۳ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، جن میں ۱۹۸ بچے اور ۱۴۳ خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریباً ۱۰ہزار افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ جان بچاکر ترکی اور لبنان ہجرت کرجانے والوں کی تعداد بھی ۱۵ہزار سے متجاوز ہے، جو کبھی اپنے اپنے گھروں میں معزز و مکرم تھے اب مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

قذافی کے بعد سب سے زیادہ خوں ریز مظالم شام کی بشار حکومت ڈھا رہی ہے۔ ۱۵مارچ کے بعد سے کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوا اور کوئی سورج ایسا غروب نہیں ہوا کہ جو معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے شامی فوجیوں کی سفاکی کا گواہ نہ بنا ہو۔ ہر لمحے ظلم کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ انسانوں کو قتل کرنا تو کوئی کارنامہ ہی نہیں سمجھا جاتا، اصل بہادری یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت کیسے دی جائے۔ بچوں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پیدا ہو۔ کسانوں کی فصلیں تک جلائی جارہی ہیں، مال مویشی کو ہلاک کیا جارہا ہے۔

مظالم کی تفصیل اپنی جگہ اہم ہے، لیکن اصل قابل ذکر بلکہ قابل فخر بات یہ ہے کہ ان تمام مظالم نے شامی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کے بجاے مزید توانا کیا ہے۔ درعا نامی ایک سرحدی قصبے سے شروع ہونے والے مظاہرے دارالحکومت دمشق کے قلب تک پہنچ چکے ہیں۔ مظاہرے صرف دن کے اوقات ہی میں نہیں، رات کو بھی ہوتے ہیں۔ روزانہ ہونے والے مظاہرے ہر جمعے کے روز اپنے عروج کو پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم ہونے کے باوجود کہ مظاہرے کے لیے نکلنا شہادت کے سفر پر نکلنا ہے، عوام بڑی تعداد میں نکلتے، شہید ہوتے اور جابر اقتدار سے آزادی کا کارواں آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر جمعے کو ایک نیا عنوان دیا جاتا ہے اور پھر پورے ملک میں یہی عنوان چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بعض عنوان ملاحظہ کیجیے:اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے)، التحدی (چیلنج)، الحرائر (آزاد و باعزت خواتین کا جمعہ)،الصمود حتی اسقاط النظام (حکومت کے خاتمے تک ڈٹے رہنا)، ایک خطرناک عنوان یہ بھی تھا: الحمایۃ الدولیۃ (عالمی حفاظت)۔ بالکل وہی بن غازی کے محاصرے والی صورت۔ مظالم کے سامنے بے بس عوام چلا اٹھے کہ عالمی برادری کہاں ہے۔۔؟ بیرونی طاقتوں کے لیے مداخلت کا یہ ایک سنہری موقع ہوسکتا ہے۔

مظالم کا شکار عوام اس مطالبے کی سنگینی کے باوجود اپنی مجبوریاں رکھتے ہیں لیکن شام کا محل وقوع بھی بہت نازک حیثیت رکھتا ہے۔ شام میں آنے والی تبدیلی یقینا تمام پڑوسی ممالک پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ معروف امریکی رسالے فارن پالیسی سمیت کئی رسائل و اخبارات اہم عالمی اور علاقائی تجزیہ نگار تو یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے لیے بشار الاسد سے زیادہ مفید اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کئی عشروں سے گولان کا پورا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے لیکن اسد حکومت نے اس کی خاطر ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ لبنانی، اردنی اور مصری سرحدوں سے تو صہیونی ریاست کو کچھ نہ کچھ پریشانی لاحق رہی ہے لیکن شامی حکومت نے اسرائیل کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی شام کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو صرف یہ کہ اس نے صہیونی ریاست کے مقابلے کے لیے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کا کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ حماس اور الجہاد الاسلامی سمیت کئی فلسطینی تحریکوں کی قیادت شام ہی میں قیام پذیر ہے، اگرچہ انھیں وہاں سے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لیے کسی عسکری تیاری یا کارروائی کی اجازت نہیں ہے۔ انھیں پناہ دینا بہرحال ایک کارنامہ ہے۔

لیبیا کی طرح شام میں بھی یہی نعرہ عقیدہ بنادیا گیا ہے اللہ- الاسد- الوطنہر طرف یہی لکھا ملے گا الاسد الی الأبد( ہمیشہ کے لیے اسد)۔ شامی دستور کی آٹھویں شق میں حکمران بعث پارٹی کو شام کا ابدی حکمران قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں یا اپوزیشن کوئی وجود نہیں رکھتی۔ شامی قانون کی شق ۴۹ کے مطابق الاخوان المسلمون سے تعلق کی سزا پھانسی ہے۔ جب بھی کسی نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی اسے تہ خاک کردیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں شام کے دو تاریخی شہروں ’حماۃ‘ اور’حلب‘ میں جب اخوان کی قوت یکجا اور برسر زمین دکھائی دی تو سابق صدر حافظ الاسد نے دونوں شہروں کو ٹینکوں، توپوں اور جہازوں سے بم باری کرکے ملیا میٹ کردیا۔  لیکن کیا ۳۰سال پہلے  کام دینے والا فارمولاآج بھی کام دے گا؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔

اس حقیقت کو خود بشار اور اس کے حواری بھی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ایک طرف تو مظاہرین کو وحشیانہ تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اصلاحات کے نام پر بعض لالچ بھی دیے۔ ۱۹۸۲ء سے لے کر اب تک ہزاروں کی تعداد میں خاندان ملک بدری کی زندگی پر مجبور تھے۔ ان کی نسلوں کی نسلیں گزر گئیں لیکن گھر واپسی کی اجازت نہ ملی۔ حالیہ تحریک شروع ہوئی تو بشار نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تمام شامی شہریوں کو واپسی کی اجازت دے دی، لیکن اب اس اعلان پر بھروسا کون کرتا۔ تحریک ختم کرنے کے لیے سیاسی اور صحافتی آزادیوں کا اعلان کردیا گیا، تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردیا گیا لیکن ’روم کے جلنے کے بعد‘ اب کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہورہی۔

شام اب دنیا میں تنہائی کا شکار ہے۔ترک وزیر اعظم چند سال سے شام کے ساتھ مضبوط تر تعلقات کی خصوصی کاوشیں کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور عسکری تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی ختم کردی گئی تھی۔ لیکن ہزاروں افراد کے قتل اور روز مرہ تعذیب و تشدد کے بعد یہ تعلقات بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اردوگان نے بشار کو بے تکلفی سے مشورہ دیا کہ عوام کو ساتھ نہ لیا تو کوئی تدبیر بھی کام نہ آئے گی لیکن بشار حکومت ناراض ہوگئی۔ اب مسلمان ملکوں میں سے صرف ایران بشار کا کھلم کھلا ساتھ دے رہا ہے لیکن اس کا بھی فائدے کے بجاے نقصان ہورہا ہے۔ عرب بالخصوص خلیجی ممالک میں اس وقت شیعہ سنی اختلافات کی جنگ سنگین حدوں کو چھورہی ہے، ایران کا شام سے تعلق شام پر شیعہ کنٹرول کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ جو ممالک اور افراد ایران کے بارے میں مذہبی حساسیت نہیں رکھتے وہ بعث پارٹی اور اس کے مظالم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھ کر ایران سے ناراض ہورہے ہیں۔ البتہ عالمی برادری میں روس اور چین شام کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے مزید پابندیوں کی بوجوہ مخالفت کررہے ہیں۔

صورتحال کو سمجھنے کے لیے شام میں آبادی کا تناسب دیکھیں تو یہ ایک واضح سنی اکثریت کا ملک ہے۔ ۷۰ فی صد سے زائد آبادی سنی العقیدہ ہے۔ ۱۰ سے ۱۲ فی صد علوی ہیں، حکمران پارٹی کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اگرچہ کئی نمایاں علوی رہنما بھی اس تحریک میں بشار حکومت کے بجاے عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ۲ فی صد اسماعیلی اور ۳ فی صد دروزی ہیں، شیعہ آبادی ۵.۰ فی صد ہے، جب کہ معمولی تعداد میں مسیحی، ارمنی اور مجوسی بھی ہیں۔ نسلی اعتبار سے دیکھیں تو ۹۰ فی صد عرب اور ۱۰ فی صد کرد ہیں۔ اس کثیر المذہبی ملک میں نظریاتی لحاظ سے بعثی اور مذہبی لحاظ سے علوی شناخت رکھنے والا اسد خاندان ۱۹۶۳ء سے اقتدار میں ہے۔ انقلابات کی لہر اعلان کر رہی ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کا دور ختم ہوگیا۔

شام میں تحریک کا آغاز ہوا تو عوام کا نعرہ تھا: الشعب یرید اصلاح النظام (عوام نظام کی اصلاح چاہتے ہیں)۔ حکومت نے اس نعرے کا جواب خوں ریزی اور قتل عام سے دیا۔ اب عوام بیک زبان ایک ہی مطالبے پر مصر ہیں الشعب یرید اسقاط النظام: (عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں)۔ گذشتہ دنوں ایک شامی رکن پارلیمنٹ سے تفصیلی گفتگو رہی۔ حکومت کی وکالت کرتے ہوئے بار بار کہہ رہا تھا کہ حکومت خود بھی اصلاحات چاہتی ہے، پورے نظام میں تبدیلیاں لے آئے گی لیکن یہ لوگ بیرونی ایجنٹ ہیں، مذاکرات پر ہی آمادہ نہیں۔ عرض کی جب موقع تھا حکومت سنتی نہ تھی۔ اب قذافی جیسا سفاک بھی ۵۰ ہزار مزید جانوں کا بوجھ اٹھا کر ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا ہے اور بشار حکومت بھی خوں ریزی کی انتہا کرچکی ہے۔ تو اس وقت کون بات کرے اور کیوں کرے ۔ اب تو پورا نقشہ تبدیل ہوکر رہنا ہے۔ بے گناہ معصوم عوام کا خون بڑے سے بڑے تاجداروں کو بھی اوندھے منہ گرا دیتا ہے۔ یہ تاجدار کوئی فرد ہو، تنظیم ہو، ریاست ہو یا بزعم خود کوئی سپر پاور۔ اس وقت تو اصل سوال ان ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے والے آپ جیسے اصحاب جبہ و دستار کا ہے کہ دنیا و آخرت میں ان کا انجام کا کیا ہوگا___ یہی سوال اہل پاکستان سمیت ان تمام لوگوں سے بھی ہے جو ان مظالم پر خاموش اور لا تعلق بیٹھے ہیں!


اہم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)

جمعہ ۲۴ جون ہمارے دورۂ مصر کا آخری روز تھا۔ ہم نے قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر، یعنی میدان آزادی کے ایک گوشے میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ ادا کی۔

خطیب صاحب نے حسنی مبارک دور پر کھل کر تنقید کی۔ حسنی مبارک ۳۰ سال تک مصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، اس سے پہلے انورسادات اور جمال عبد الناصر بھی شخصی اقتدار کی بدترین مثالیں تھیں۔ تینوں نے اپنے ۶۱سالہ اقتدار میں لوٹ مار ہی نہیں، ظلم و جبر کی بھی انتہا کردی۔  خطبۂ جمعہ کے بعد بھی لوگ کہہ رہے تھے کہ سابقہ دور میں کوئی شخص منبر پر کجا ،نجی محفل میں بھی یہ باتیں کہنے کا تصور تک نہیں کرسکتا تھا۔ آج ہر شخص گویا ایک نئی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ پہلے ہر دوسرا شخص کسی دشمن جاسوسی ادارے کا نمایندہ لگتا تھا، اب وردی پوش بھی اپنے بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں عملاً فوج کی عمل داری ہے۔ ہر اہم فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر ایک غیر فوجی شخصیت ڈاکٹر عصام شرف وزیراعظم ہیں اور ان کی ایک کابینہ بھی ہے لیکن ان کی حیثیت جمالی یا جونیجو حکومت سے بھی کمزور ہے۔ اگرچہ پوری قوم نے ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کرنے پر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ہے لیکن  اب بھی ہر شہری حقیقی تبدیلی کا منتظر ہے۔ لوگوں کو پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے مظالم سے رہائی   مل گئی، آزادی اظہار و اجتماع بھی حاصل ہوگئی لیکن ملک میں ایک عادلانہ حقیقی جمہوری نظام کا خواب تاحال تعبیر کا منتظر ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے عوام میں اضطراب و تشویش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کئی بار تو احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید کوئی مخفی طاقت اس عوامی مایوسی میں اضافہ چاہتی ہے۔ ظالم حکومت سے نجات پر شکر کے احساسات قدم قدم پر سننے کو ملتے ہیں لیکن بعض اوقات اظہار مایوسی بھی ہونے لگتا ہے۔

ہماری خواہش تھی کہ اخوان کے کسی اشاعتی ادارے کو دیکھنے کا موقع بھی مل جائے تاکہ تحریکی بالخصوص اخوان کا لٹریچر خریدا جاسکے۔ ایک روز اس کا موقع مل گیا۔ اخوان کے مرکز میں  ذمہ داران سے تفصیلی ملاقاتوں کے بعد محترم امیر جماعت اور محترم قیم جماعت کو کمرے میں پہنچا کر اخوان کے ایک ساتھی کے ہمراہ، اخوان کے اشاعتی ادارے دار النشر و التوزیع جانے کا پروگرام  بن گیا۔ اخوانی ساتھی کا نام بدر تھا جو خود بھی ایک کامیاب تجارتی ادارہ چلا رہا ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ وہ بہت مصروف علاقہ ہے، رش سے بچنے کے لیے ٹیکسی پر چلا جائے تو مناسب ہوگا اور  آتے جاتے ٹیکسی کی سواری میں بھی ملک میں آنے والی بڑی تبدیلی، لیکن روز بروز بڑھتی عوامی پریشانی کا عملی مشاہدہ ہوا۔ جاتے ہوئے ٹیکسی میں سوار ہوئے تو ڈرائیور نے دونوں اگلی سیٹوں کی پشت پر دو جاذب نظر پردے لٹکائے ہوئے تھے، جن پر چار بڑے سائز کی جیبیں بنی ہوئی تھیں اور ان چاروں میں ایک اشاعتی ادارے کی طرف سے مختلف کتابیں رکھی تھیں۔ ہر کتاب میں ایک کارڈ رکھا تھا۔ جس پر ایک سروے کے مختصر سوالات تھے کہ آپ کو دوران سفر کتنے وقت کے لیے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا؟ کتاب کیسی لگی؟ وغیرہ۔ ہم نے ڈرائیور اور اس اشاعتی ادارے کی تحسین کی اور کہا:کوشش کریں کہ اچھی اور معیاری کتابیں رکھیں۔ ڈرائیور نظامِ جبر سے نجات ملنے پر اظہارِ خوشی کرتے ہوئے کہنے لگا جس نے بھی یہ کتب اور یہ اسلوب دیکھا ہے اس نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ہم نے مکتبے میں تقریباً چار گھنٹے گزارے۔ درجنوں نئی کتب مل گئیں۔

ساتھ ہی ایک اور حیرت انگیز منظر بھی ملاحظہ کرتے جائیے۔ اخوان کے مکتبے کے بارے میں بدر نے بتایا تھا کہ حسنی مبارک انتظامیہ نے گزشتہ کئی سال سے اخوان کی کتب اور اس کے اشاعتی ادارے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چند روز قبل ہی اس سے پابندی ختم ہوئی ہے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو تین کمروں میں فرش سے چھت تک لگی الماریوں میں لاتعداد کتب سجی تھیں۔ کچھ بالکل   نئی تھیں اور اکثر قدرے پرانی لگ رہی تھیں۔ کتابیں دیکھتے اور گوہرِ مقصود تلاش کرتے کرتے نماز کا وقت ہوگیا۔ مکتبے کے ساتھی نے ایک گوشے میں واقع چھوٹے سے کچن ہی سے وضو تازہ کرنے کا کہا۔ وہاں پانی فرش پر بہہ رہا تھا۔ اخوانی ساتھی بدر نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کم از کم پانی کی نکاسی کا انتظام تو درست ہونا چاہیے۔ مکتبے کا ذمہ دار معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا: حکومت نے  ہم پر پابندی لگاتے ہوئے یہ مکتبہ اپنی تمام کتب سمیت گذشتہ کئی سال سے سیل بند کردیا تھا۔ اس دوران چوہے اس باورچی خانے کے پائپ تک کتر گئے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ اللہ کا یہ فضل و کرم دیکھیے کہ سالہا سال بند پڑے رہنے کے دوران چوہے کئی چیزیں کتر گئے لیکن ہماری ہزاروں کتابوں میں سے کسی ایک بھی کتاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، دیمک تک نے بھی کچھ نہیں چاٹا۔ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہتے ہوئے وہاں موجود سب افراد نے یہ سن کر اللہ پر ایمان بڑھتا ہوا محسوس کیا۔

اخوان کے نائب مرشدین عام نے اخوان کے نظامِ دعوت و تربیت کے بارے میں تفاصیل بتائیں تو امام حسن البنا کے صدقہ جاریہ اور اخوان کے کام کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ اخوان کے سب سے بزرگ نائب مرشدعام جمعہ امین خواتین کے کام کی تفصیل بتا رہے تھے کہ الحمدللہ ہماری بہنیں الاخوات المسلمات مردوں سے بھی زیادہ فعالیت سے کام کرتی ہیں۔ ان کی الگ سے کوئی تنظیم نہیں ہے۔ مرد حضرات پورے کام کی نگرانی کرتے ہیں، لیکن اپنی تمام تر سرگرمیاں وہ خود کرتی ہیں۔ جناب جمعہ امین کہہ رہے تھے کہ حسنی مبارک کے جابرانہ نظام میں اخوان سے وابستگی کی کم از کم سزا کئی سال کی قید ہوتی تھی، لیکن ہم نے تہیہ کیے رکھا کہ اپنی کسی بہن کو گرفتار نہیں ہونے دینا ہے اور الحمدللہ ہم مجموعی طور پر اس میں کامیاب رہے۔

دوسرے نائب مرشدعام محمود عزت نے بتایا کہ بچوں، بچیوں، نوجوانون، خواتین اور مردوں کے لیے ایک مربوط تحریکی نصاب طے ہے۔ بعدازاں اخوان کے مکتبے سے جو بہت سی قیمتی کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں اہم ترین کتب ان کے نصاب سے متعلق تھیں۔ علما و محققین کی مختلف ٹیموں نے یہ نصاب بہت محنت سے تیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر فی نورالاسلام کتاب ملاحظہ کیجیے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ان کے کارکنان کے لیے اولیں مرحلہ ہے۔ ہر جِلد کا پہلا نصف قرآن کریم اور دوسرا احادیث نبویؐ پر مشتمل ہے۔ اس کا اسلوب خالصتاً تدریسی و تربیتی ہے۔ آیات کی مختصر تشریح کے علاوہ ہر آیت سے حاصل ہونے والے اسباق اور اس کی روشنی میں عمل کی راہیں واضح کی گئی ہیں۔ کتاب تیار کرنے والوں نے استاد و مربی اور طالب علم یا زیرتربیت افراد کے لیے بھی الگ ہدایات دی ہیں کہ وہ کیسے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکتے ہیں۔      فی ریاض الجنۃ کے عنوان سے آٹھ جِلدوں اور مسلم خاتون کی ایمانی و دعوتی تربیت کے نام سے دو جِلدوں پر مشتمل لٹریچر خصوصی طور پر خواتین کے لیے تیار کیاگیا ہے۔ اپنی اصلاح، بچوں کی تربیت اور اہلِ خانہ کے حقوق و فرائض سمیت ہر گوشۂ حیات میں رہنمائی کرتا ہے۔ الرشاد کے نام سے گیارہ اجزا پر مشتمل نصاب بچوں کے لیے ہے۔ رنگوں، تصاویر اور اہم واقعات کی مدد سے تیار کتابچے بچوں کو بھی آغازِ حیات ہی سے اپنے رب کی پہچان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، جنت کے شوق اور قرآن کریم کی تعلیمات سے روشناس کر دیتے ہیں۔

صرف مطالعہ لٹریچر ہی نہیں، ہرمرحلے پر عملی تربیت اخوان سے وابستہ ہرشخص کو کندن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اخوان کے ذمہ داران نے بتایا کہ ہمارے تربیتی نظام میں اسرہ جات کو جو اہمیت حاصل ہے اس کے پیش نظر ہر کارکن خواہ وہ کسی بھی ذمہ داری پر پہنچ جائے، ہمیشہ ایک اسرے کا رکن رہتا ہے۔ ایک اسرے کے تمام افراد باہم محبت اور تعلق میں ماں جاے افراد خانہ سے بھی زیادہ آگے بڑھے ہوتے ہیں۔ ان اسرہ جات میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ان کے نقیب (ذمہ دار) میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کے مابین یگانگت پیدا ہوسکے۔

اخوان کے تیسرے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر جماعت کی اقتصادی سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی اپنی ذات میں ایک منفرد انسان ہیں۔ تجارت اور اقتصادیات کے بڑے ماہر، انتہائی منکسر المزاج ارب پتی ہستی۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں پورے مشرق وسطی میں سلسبیل کے نام سے پہلی کمپیوٹر کمپنی قائم کی۔ ۱۹۹۵ء میںان کی سات کمپنیاں تشکیل پاچکی تھیں اور یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ سلسبیل عالمی سطح کی کمپنی بن جائے گی۔ ۱۹۹۵ء میں انھیں گرفتار کرلیا گیا اور ان کی ساتوں کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ ارب پتی شخصیت مکمل طور پر قلاش ہوگئی۔ الزام صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کو مالی امداد دیتا ہے۔ پانچ سال جیل میں رہے، رہائی ملی تو دوبارہ کاروبار شروع کردیا۔  ۲۰۰۲ء میں پھر گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں رہائی ملی، کاروبار دوبارہ شروع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا، ساری جایداد ضبط کرلی گئی اور پھر حسنی مبارک کے بعد ہی رہائی نصیب ہوئی۔ خیرت الشاطر کی سات بیٹیاں ہیں، سب کی شادی ہوگئی، لیکن کسی بیٹی کو بھی رخصتی کے وقت باپ کے سینے سے لگنا نصیب نہ ہوا۔ جیل ہی سے دُعاؤں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بیٹیوں کو رخصت کیا۔ آپ انجینیر خیرت سے ملیں، تو آپ کو بڑھاپے کی سرحدوں کو چھوتے، لمبے تڑنگے، سابق ارب پتی سے زیادہ مطمئن اور شاداں شخص شاید کوئی نہ ملے۔

اسلامی تحریکوں کو اللہ تعالیٰ نے دین کے جس وسیع تر تصور سے روشناس کیا ہے اخوان کی سرگرمیاں اس کا بھرپور پرتو ہیں۔ مصری سیاست کے میدان میں وہ اس وقت سب سے بڑی قوت ہیں۔ ان کی قوت ہی سے خوف زدہ ہوکر کچھ طاقتیں انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ شب وروز ان کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے ایک ہوّا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ قاہرہ پہنچنے کے اگلے روز اخبارات خریدے تو ایک اخبار کی جلی سرخی تھی: ’’انتخاب اخوان کی جیب میں‘‘۔ ساتھ مرشدعام کی تصویر لگی تھی۔ دیکھنے والا پہلی نظر میں سمجھتا ہے کہ یہ شاید مرشدعام کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہر پڑھنے والے کے ذہن میں اخوان اور مرشدعام کے بارے میں منفی تاثر اُبھرتا ہے، لیکن درحقیقت یہ اخبار کا اپنا تبصرہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کو اخوان سے خوف زدہ کرنا مطلوب ہے۔ حسنی مبارک کے خلاف اخوان کے ۵۵؍ارکان نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان میں سے ہرکارکن کا واقعۂ شہادت ایک مکمل داستان ہے۔ اخوان کے ایک ذمہ دار بتا رہے تھے کہ  حسنی مبارک کے پورے دور میں ہم جب بھی کسی مظاہرے یا جلسے جلوس کے لیے گھر سے نکلتے تو دل میں یہ احساس لے کر نکلتے تھے کہ شاید آج آخری بار گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھ رہے ہیں۔ نکلنے سے پہلے اپنی آخری وصیت لکھ کر گھر میں چھوڑ کر آتے تھے۔ اس پورے عمل کا نمایاں ترین اثر ہر کارکن کی زندگی پر یہ ہوتا کہ وہ ہمیشہ اپنی آخرت پر نگاہ رکھتا۔

صرف دعوت وتربیت اورسیاست ہی نہیں، اصلاح و خدمت کا کوئی بھی پہلو اخوان کے دائرہ عمل سے خارج نہیں ہے۔ آیئے اخوان کی ویب سائٹ پر آج کی تاریخ میں نشر ہونے والی سرگرمیوں کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ استقبال رمضان کے متعدد پروگرام، مختلف علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ، ’آزادی کی راہ‘ کے شعار کے تحت شجرکاری کی مہم، پرانے کپڑوں اور رمضان کی ضروریات فروخت کرنے کے لیے اخوان کے زیراہتمام سستا بازار۔ طویل عرصے سے خراب پڑی علاقے کی سٹریٹ لائٹوں کی مرمت وغیرہ۔ ایک انتہائی منفرد سرگرمی یہ ملاحظہ کیجیے کہ اخوان نے معاشرے میں صلح کروانے اور اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان جنھیں آپ غیرسرکاری جج کہہ سکتے ہیں، متعین کرنے سے پہلے انھیں باقاعدہ دوسالہ کورس کروایا جاتا ہے۔ ’مدارس الصلح‘کے نام سے ان اسکولوں میں وراثت، شادی بیاہ کے مسائل، نکاح و طلاق کے احکام اور تعزیرات و قوانین جیسے ۱۶موضوعات باقاعدہ پڑھائے جاتے ہیں۔ ۳جولائی کو اخوان کے مرکز میں مدارس الصلح کا پانچواں جلسہ تقسیم اسناد تھا، جس میں۱۲۵؍افراد فارغ التحصیل ہوئے۔ اخوان کے ذمہ داران کااس بارے میں کہنا ہے کہ ملک میں ۸۰لاکھ مقدمات ایسے ہیں کہ ان کا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ۲کروڑ مقدمات تو ابھی تک سنے ہی نہیں جاسکے۔ ایسے میں یہ ایک اہم خدمت ہے کہ لوگوں کے اختلافات کو باہمی رضامندی سے عدالت سے باہر ہی مصالحت کے ذریعے طے ہوجائیں اور یہ مصالحتی نظام معاشرے کا حصہ بن جائے۔

اسی طرح کی ایک اور خدمت سے ہمیں اس وقت آگاہی ہوئی جب ہمارے میزبان ہمیں دریاے نیل میں کھڑے ایک بڑے سمندری جہاز میں قائم ریستوران میں کھانا کھلانے لے گئے۔ آرڈر دیتے ہوئے ہمارے میزبان نے بیرے سے پوچھا کیا آپ کا ریسٹورنٹ ’غذائی بنک‘ کا  رکن ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو میزبان نے بتایا کہ اگر خدانخواستہ کھانا بچ بھی گیا تو فکر نہ کریں۔ یہ اسے الگ الگ محفوظ کرلیں گے، بعد میں غذائی بنک والے ان سے لے کر، مختلف علاقوں میں مستحق ومحتاج افراد میں تقسیم کردیںگے۔

مصری معاشرے کی لاتعداد خوبیوں کے ساتھ ساتھ کئی پہلو تکلیف دہ بھی تھے۔ معاشرتی تفاوت تمام مسلم ملکوں کی طرح مصر میں بھی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ مصر کی آبادی ۸کروڑ ہے جس کی ایک چوتھائی صرف قاہرہ ہی میں رہتی ہے۔ ہمارا ڈرائیور بعض اوقات رش سے بچنے کے لیے قاہرہ کی تنگ گلیوں اور اندرونی علاقوں میں لے جاتا تو وہاں لوگوں کی غربت کے آثار بھی عروج پر دکھائی دیتے لیکن دوسری طرف قاہرہ کے مضافات ہی میں ایسی ایسی رہایشی اسکیمیں ہیں کہ وہ قاہرہ کے بجاے کسی یورپی ملک کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں داخلے کے لیے شناختی کارڈ کا اندراج کروانا پڑتا ہے۔

مصر میں قبطی مسیحیوں کا تناسب چھے سے آٹھ فی صد ہے۔ ۲۵، ۳۰ لاکھ ووٹوں کی طاقت رکھنے کے باوجود منتشر ہیں۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ میں مسیحیوں کی بھی مناسب نمایندگی ہوجائے تاکہ ملک میں مسلم مسیحی فسادات کا دروازہ بند کیا جاسکے۔ حسنی مبارک کے بعد لوگوں کے سامنے یہ حقائق بھی آچکے ہیں کہ حسنی مبارک کا وزیرداخلہ ایک چرچ کے باہردھماکے میںملوث تھا۔ اس وقت اسے خودکش حملہ اور القاعدہ کی کارروائی قرار دے کرمسیحی مسلم فسادات بھی شروع کراو دیے گئے تھے لیکن اب بلّی تھیلے سے باہر آچکی ہے، وزیرداخلہ ’اندر‘ جاچکا ہے۔ ایک مقدمے میں سزا بھی ہوچکی ہے، لیکن میدان التحریر میں قتلِ عام سمیت بہت سارے مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا ایک سبب حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں سمیت سابق وزرا اور سرکاری گماشتوں سمیت مجرموں کو سزا نہ ملنا بھی ہے۔

بہت سے لوگ اس بنیاد پر دوبارہ میدان التحریر میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کے ایک مظاہرے کے دوران بعض فتنہ پرور عناصر کے ذریعے ہنگامہ آرائی اور کشت و خون بھی کروایا گیا ہے۔ اخوان اور ان کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی ان پورے مظاہروں میں شریک نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج دوٹوک اور نقشۂ کار واضح ہے۔ ہم حکومت کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ پوری یکسوئی سے انتخاب کروائے۔ اس لیے ہم فی الحال کسی احتجاجی تحریک میں شریک نہیں ہوںگے۔ البتہ اگر حکومت نے اس پورے نقشۂ کار میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کی تو ہم پھرپوری قوت سے میدان التحریر میں اُتریں گے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہم جمعہ ۲۹جولائی کو پھر میدان التحریر میں ملین مارچ کی اپیل کرسکتے ہیں۔ اخوان کا تازہ بیان اور میدان التحریر کی فقید المثال تاریخ اس بات کا اعلان ہے کہ عوام نے اپنی بیش بہا قربانیوں سے جو آزادی حاصل کی ہے وہ اب کسی قیمت پر اس سے محرومی گوارا نہیں کریں گے۔

 

الاخوان المسلمون کے مرشد عام کی دعوت پر جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد جس کی قیادت محترم امیرجماعت سیدمنور حسن کر رہے تھے، اور جس میں قیم جماعت لیاقت بلوچ، نائب صدر الخدمت فائونڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور راقم الحروف شامل تھے، ۲۰جون کی شام قاہرہ پہنچا۔ ائیرپورٹ پر پاکستانی سفارت خانے کے ذمہ داران بھی تھے اور اخوان کے نمایندگان بھی۔ ۲۱جون کی صبح ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع سے تھی۔ یہ ملاقات قاہرہ کے سب سے بلندی پر واقع علاقے المُقَطَّم میں اخوان کے سات منزلہ نئے اور شان دار مرکز میں ہوئی۔  مرشدعام ڈاکٹر بدیع کے ہمراہ اخوان کے سیکریٹری جنرل محمود حسین اور مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے کئی ارکان بھی شریک محفل تھے۔

ڈاکٹر محمد بدیع مرشد عام منتخب ہونے سے پہلے نائب مرشد عام کی حیثیت سے تربیتی اُمور کے ذمہ دار تھے۔ ان کی بات بات سے یہی تربیتی پہلو اور قرآن و حدیث سے استدلال سامنے آتا تھا۔ ساری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ اخوان کی منظم قوت کی شرکت کے بغیر حسنی اقتدار سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن مرشد عام بار بار دہرا رہے تھے: دنیا کی کوئی طاقت کامیابی اس کا دعوی نہیں کرسکتی۔ نہ اخوان اور نہ کوئی دوسری عوامی قوت، یہ سراسر اللہ تعالی کی ایک نشانی اور معجزہ تھا۔ اپنی یہ بات کرتے ہوئے کہنے لگے ہر فرعون اپنی ہی قوم کو تقسیم کردیتا ہے۔ قرآن کریم اس چال کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتا ہے:’’بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی، اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا… فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘ (القصص ۲۸:۴)، لیکن بالآخرپھر پوری مصری قوم جسد واحد بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت عطا کردی۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ واضح کرتا ہے: ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل بناکر رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘۔

مرشد عام نے اپنی گفتگو میں کئی بار سابقہ اور حالیہ دور کا موازنہ کیا۔ فلسطین اور اس کی صورت حال کا ذکر ہوا تو کہنے لگے: کئی سال سے مختلف فلسطینی دھڑوں کو بھی باہم لڑایا جارہا تھا۔    حسنی مبارک کے بعد صرف چار گھنٹے میں الفتح اور حماس باہم اتفاق راے پر پہنچ گئے۔ ان کی اس صلح پر امریکا اور اسرائیل سمیت فلسطینیوں کے سب دشمن تنقید کررہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ شاید مسلم تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ حسنی مبارک کے بعد میدان التحریر میں ادا ہونے والے جمعے میں لاکھوں کی تعداد میں مسیحی بھی شریک تھے۔ خطبۂ جمعہ میں مسلمان ہی شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے خطاب بھی برادرانِ اسلام سے ہوتا ہے لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے خطبۂ جمعہ ان الفاظ سے شروع کیا: ’’میرے مسلمان اور مسیحی بھائیو‘‘۔

مرشد عام بتا رہے تھے کہ اسلامو فوبیا کی عالمی لہر عوام کو شریعت اسلامی اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ کرنے پر کمر بستہ ہے۔ مصر میں جاری پوری پراپیگنڈا مہم میں اخوان کو تنقید کا خصوصی ہدف بنایا جارہا ہے۔ اپنے اس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اخوان ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلے گی۔ پھر انھوں نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے آغاز ہی سے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم اس مرحلے میں اقتدار کے لیے کوشاں نہیں ہوں گے۔ ہم پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ آیندہ مرحلے میں اپنی تمام تر توجہ، قوم کی خدمت اور اسے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کرنے پر مرکوز رکھیں گے۔ گذشتہ دورِ جبر کے باعث عوام کی بڑی تعداد تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچنے ہی نہیں دی گئیں۔ صرف چند ظاہری رسوم و رواج کو دین کا نام دے دیا گیا ہے۔  ہم آیندہ مرحلے کو ’دور اخوان‘ ثابت کرنے کے بجاے معاشرے کو حقیقت اسلام سے آشنا کرنے کا مرحلہ بنائیں گے۔ اس کا مطلب پورے سیاسی عمل سے خود کو الگ تھلگ کرلینا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو اب بھی ذمہ داریوں اور خدمت میں برابر کے شریک ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت پورے ملک میں امتحانات ہورہے ہیں۔ ملکی سطح پر انٹر میڈیٹ کے ان امتحانات کی خصوصی اہمیت ہے۔ عبوری حکومت اس قابل نہیں تھی کہ امتحانی مراکز کی حفاظت کرسکے، اخوان نے ملک بھر میں عوام کے تعاون سے امن کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان امتحانی مراکز کی حفاظت کی۔ قوم کو اس وقت اور بھی کئی بحران درپیش ہیں اور اخوان کسی حکومت کا حصہ ہوئے بغیر بھی، اپنے کارکنان اور عوامی تائید کے ذریعے معاشرے کی خدمت کررہے ہیں، یہ سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

اخوان نے آیندہ صدارتی انتخاب میں اپنا اُمیدوار نہ لانے اور پارلیمانی انتخابات میں ۵۰فی صد نشستوں پر اُمیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر میدان التحریر میں دکھائی دینے اور کامیاب ہونے والی قومی وحدت کا ثبوت دیں۔ مرشدعام بتارہے تھے کہ عبوری فوجی سربراہ نے تمام سیاسی جماعتوں کو اجتماعی ملاقات کے لیے بلایا تھا، میں نے وہاں تمام پارٹی رہنماؤں کو دعوت دی، کہ آئیے سب مل کر دنیا کے سامنے وحدت کی ایک نئی مثال پیش کریں، ہم سب ایک ہی مشترک پینل کی صورت میں انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔

اگلے روز ایک اور تفصیلی نشست تھی۔ مرشد عام کے ساتھ اخوان کے چاروں نائب مرشدین عام، جمعہ امین (امام حسن البنا کے ساتھی رہے)، رشاد البیومی، انجینیر خیرت الشاطر اور ڈاکٹر محمود عزت بھی شریک تھے۔ اخوان کے تربیتی نظام، خواتین میں اخوان کے کام، نوجوانوں میں اخوان کی سرگرمیوں اور آیندہ انتخابات میں اخوان کی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہء خیال ہوا۔ ڈاکٹر جمعہ امین بتارہے تھے کہ اگرچہ گذشتہ دور ابتلا میں کام کرنا بہت دشوار تھا لیکن الحمد للہ خواتین میں ہمارا کام مردوں سے بھی زیادہ ہے۔ اپنے نظام کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہنے لگے نوجوانوں میں کام ہو، خواتین میں ہو یا معاشرے کے کسی بھی طبقے میں اس کے لیے ہماری الگ الگ برادر تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ شعبہ جات ہیں اور تمام شعبہ جات الحمد للہ فعال اور باہم مربوط ہیں۔

مرشد عام نے بتایا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔ الحریۃ و العدالۃ (فریڈم اینڈ جسٹس) پارٹی اب ایک باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی بن چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی اس کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینار پاکستان پر ہونے والے اجتماع میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں) سیکریٹری جنرل ہیں اور ڈاکٹر عصام العریان نائب صدر۔ ملک میں چھے سے آٹھ فی صد آبادی آرتھوڈکس قبطی مسیحیوں کی ہے۔ ان کی نمایندگی کے لیے ایک مسیحی رہنما ڈاکٹر رفیق حبیب کو بھی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ محترم امیر جماعت کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ مسیحی برادری کو ساتھ شریک کرنا کوئی نئی پالیسی نہیں ہے، بلکہ    امام حسن البنا نے بھی مسیحی برادری کو مکمل طور پر اپنے ساتھ شریک کیا تھا۔ دنیا کو یہ منظر بھی نہیں بھولا ہوگاکہ جب امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا تو ان کے جنازے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔  تب صرف ایک مسیحی رہنما مَکْرَم عبید ہی ان کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انھوں نے خواتین خانہ کے ساتھ مل کر شہید کی میت قبر تک پہنچائی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں اخوان کی ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ ۱۹۸۶ء میں ہی کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں فریڈم پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ رجسٹریشن کے بعد تمام اضلاع میں پارٹی کے تنظیمی انتخابات مکمل ہوگئے ہیں اور ہم نے ۲۰سیاسی جماعتوں کو مدعو کرکے ان کے ساتھ ایک انتخابی اتحاد بنانے کا آغاز بھی کردیا ہے۔    قومی اسمبلی کی ۵۰۸ نشستیں ہیں۔ ۲۲۲حلقے ہیں۔ ہر حلقے سے دو ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ اس طرح ۴۴۴؍ارکان براہ راست ووٹنگ سے منتخب ہوتے ہیں۔ ۳۲ ضلعی حکومتوں سے ۶۴ خواتین ارکان اسمبلی منتخب ہوتی ہیں۔

پارٹی کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کے بارے میں کیے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتشار پھیلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لاتعداد جماعتیں رجسٹر کرلی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کے پاس کم از کم ۵ہزار تاسیسی ارکان ہونا ضروری ہیں۔ ان میں سے بہت سی جماعتوں کے پاس اتنے لوگ بھی نہیں ہیں لیکن انھیں رجسٹر کرلیا گیا ہے۔ انھیں بھاری مقدار میں بیرونی امداد دی جارہی ہے۔ امریکی سفیر کے بیان کے مطابق ’’امریکا مصر میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ۴کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے‘‘۔ ہیلری کلنٹن کہہ  رہی ہیں کہ مصر میں جمہوریت کے لیے امریکا ۱۶۰ ملین ڈالر، یعنی تقریباً ایک ارب مصری پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ تقریباً ۱۴روپے کا ہے) خرچ کرے گا۔ اس کے بقول اب تک ۶۰۰جماعتیں اور تنظیمیں یہ امداد لینے کے لیے درخواست دے چکی ہیں۔ اگلے ہی روز اخبارات میں اسرائیلی روزنامے ہآرٹز میں سابق صہیونی وزیر خارجہ سیبی لیونی کا تجزیہ چھپا ہوا تھا، جس میں اس نے کہا تھا: ’’آیندہ ستمبر اسرائیل کے لیے ایک سونامی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں الگ فلسطینی ریاست بنانے کے لیے قرارداد لائی جارہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے سر پر ایک تلوار یہ بھی لٹک رہی ہے کہ اس مہینے مصر میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ میدان التحریر کے انقلاب کے بعد تشکیل پانے والا نیا مصر کیسا ہوگا؟ کیا ان انتخابات کے بعد الاخوان المسلمون کی حکومت تو نہیں بن جائے گی؟ ہمیں انتخابات کے اس ماحول میں فلسطین کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ خالی خولی میڈیا وار اور چھیڑ چھاڑ کے بجاے اعتدال پر مبنی پالیسی پر چلنا ہوگا‘‘۔ گویا مصری انتخابات مصر میں نہیں، اسرائیل اور امریکا میں لڑے جانا ہیں۔

آیندہ مصری منظرنامے میں اخوان کی قوت سے یہ سب جو خطرہ محسوس کررہے ہیں، اس کا بنیادی سبب اخوان کی قرآن سے گہری وابستگی اور مضبوط تنظیم ہے۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ اخوان کے باقاعدہ ارکان کی تعداد الحمد للہ ساڑھے سات لاکھ سے متجاوز ہے اور اُمیدواران و رفقا کو ملا کر یہ تعداد ۲۰ لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ ان تمام افراد میں سے ہر رکن قرآن و سنت اور تحریکی لٹریچر کے ٹھوس مطالعے سے گزرتا ہے۔ ہر ساتھی اپنی کل آمدن کا ۹ فی صد اخوان کو اعانت کے طور پر جمع کرواتا ہے اور اپنی جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران اخوان کے ۵۵؍ ارکان اور سیکڑوں رفقا و کارکنان شہید ہوئے۔ صرف یہ دو ہفتے ہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ شہادتوں اور صعوبتوں کی داستان سے معمور ہے۔ گذشتہ اپریل میں د منہور شہر میں ایک جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ صرف حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دور کے دوران میں ہمارے ۴۰ہزار کارکنان گرفتار ہوئے۔ گرفتار شدگان کی کم سے کم سزا چھے ماہ قید تھی۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ، ڈاکٹروں اور انجینیروں کی واضح اکثریت پر مشتمل ان قیدیوں کو ملنے والی سزا کی کل مدت جمع کی جائے تو وہ ۲۰ ہزار سال___ جی ہاں ۲۰ ہزار سال بنتی ہے۔ مصر کے ایک سابق وزیراعظم ڈاکٹر عزیز صدقی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: افسوس کہ مصر میں اخوان کے پاس اتنے باصلاحیت کارکنان ہیں، لیکن ہم نے قوم کوان کی تمام خدمات سے محروم رکھا!،

اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف سے ملاقات ہوئی۔ دیگر تحریکی و عالمی مسائل کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ بتانے لگے کہ میری شادی ۴۷سال کی عمر میں ہوئی تھی، کیونکہ اس سے پہلے مسلسل ۲۰ سال جیل میں گزرے۔ لیاقت بلوچ صاحب نے دریافت کیا: جیل کے یہ ۲۰ سال کیسے گزرے؟ فوراً بولے: ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں ملی۔ درس و تدریس، مطالعہ، ورزش اور خالق سے مناجات کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ ۸۲سالہ محمدمہدی اپنی حالیہ مصروفیات کے بارے میں بتانے لگے کہ اب بھی روزانہ مرکز آتا ہوں۔ مختلف احباب سے ملاقاتیں رہتی ہیں یا پھر جو بھی خدمت مرشد عام ذمے لگائیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: ’’صرف اور صرف اللہ کی رضا پیش نظر نہ ہو تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ آپ پوری تحریک کا مرکز و محور بنے ہوئے ہوں اور آپ اس منصب سے ہٹ کر دیکھیں کہ اب تمام افراد و اُمور کسی اور طرف منتقل ہورہے ہیں، تو شیطان مسلسل حملہ آور رہتا ہے۔ یہ شرف صرف اسلامی تحریک ہی کو حاصل ہے کہ چونکہ مقصد صرف رضاے الٰہی کا حصول ہوتا ہے، اس لیے دنیا و آخرت کے بہت سے فتنوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ کارکنان کے دل میں بھی اسی باعث مزید محبت پیدا ہوتی ہے‘‘۔

  •  خطرات: حسنی مبارک کے زوال کے بعد ہر مصری شہری آزادی کی بالکل نئی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ لیکن اب بھی لاتعداد اندرونی و بیرونی خطرات اُفق پر موجود ہیں۔ اخوان کی کامیابی کے امکان اور قوت کو ہوّا بنا کر ذرائع ابلاغ میں مسلسل پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اخوان کے اندر اختلافات اور دھڑے بندیوں کے قصے گھڑے جارہے ہیں۔ مشکلات و مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن انھیں افسانوی انداز دیا جارہا ہے۔ سب سے نمایاں اختلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے پر سامنے آیا ہے۔ اخوان کے ایک نمایاں سابق رہنما ڈاکٹر عبد المنعم ابو الفتوح کی راے یہ تھی کہ صدارتی انتخاب میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ وہ خود اس کے مضبوط اُمیدوار کے طور پر بھی سامنے آگئے لیکن اخوان کا فیصلہ دو ٹوک ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ پارلیمانی انتخاب پر مرکوز رکھیں گے اور آیندہ مرحلے میں ملک کی مکمل باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ انھوں نے ابو الفتوح کو رجوع کا موقع دیا، لیکن اپنا فیصلہ تبدیل نہ کرنے پر اخوان سے ان کا اخراج کردیا۔ میڈیا کے لوگ ابو الفتوح کی علیحدگی کو بھی اخوان کی دو حصوں میں تقسیم قرار دے رہے ہیں۔ ۲۴ جون کے اخبارات نے تو وکی لیکس کے حوالے سے یہ بھی خبر اڑا دی کہ اخوان پانچ دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خبریں اڑانے والے جانتے ہیں کہ جو اپنا پورا مال اور اپنی جان تحریک کے لیے قربان کررہے ہوں، وہ اختلاف کے آداب بھی جانتے ہیں۔

جمعہ ۲۴ جون کو میدان التحریر میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ کے بعد امیر جماعت کی سربراہی میں ہمارا وفد مسجد سے نکلا تو سامنے میدان کے کنارے نوجوان جمع ہونا شروع ہورہے تھے۔ حسنی مبارک کی پھانسی، کرپٹ وزرا کے احتساب و مقدمات اور انقلاب کی حفاظت کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہم سب بھی ان کے ساتھ نعروں میں شریک ہوگئے۔ یہ عام نوجوان تھے، انھیں جب بتایا گیا کہ یہ جماعت اسلامی کا وفد ہے، پاکستانی قوم کی طرف سے مصری قوم کو انقلاب میں کامیابی پر مبارک باد دینے آیا ہے، تو جوش و ولولہ مزید بڑھ گیا۔ نعروں میں بھی حسنی مبارک،   سابق حکمران اور انقلاب کی حفاظت کے علاوہ امت مسلمہ اور عالم اسلامی کے بارے میں نعرے شامل ہوگئے۔ امریکا مردہ باد، صہیونی استعمار مردہ باد کہا جانے لگا اور پوری قوت سے پکارنے لگے:   قادم قادم یا اسلام حاکم حاکم بالقرآن، اسلام اب آگے بڑھو اور قرآن کو حکمران بنادو۔ عل الأقصی رایحین شہداء بالملایین، لاکھوں کی تعداد میں شہید ہونے کے لیے تیار  ہم اقصی (کی آزادی) کے لیے جارہے ہیں۔ ہمیں فوراً ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن شرکا مصر تھے کہ خطاب کریں۔ محترم امیرجماعت نے اپنا مختصر پیغام دیا کہ ان شاء اللہ آزادی کا یہ سفر میدان التحریر سے وادی کشمیر تک جاری رہے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ جس وحدت اور قربانی کے نتیجے میں آپ نے آمر سے نجات پائی ہے، اسی وحدت کے ذریعے آپ آیندہ مراحل میں بھی سرخرو ہوں گے۔

نوٹ: بہت مصروف پانچ روزہ دورے کے بعد پاکستان پہنچے تو پرچہ پریس میں جارہا تھا۔ عجلت میں کچھ اہم امور عرض کردیے ہیں۔ آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ چند مشاہدات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ مصر انسانی تہذیب و تاریخ کا اہم مرکز رہا ہے اور یہاں کا چپہ چپہ اہم واقعات کا امین ہے۔

 

۲ فروری کا دن حسنی مبارک کے خلاف تحریک کا ایک اہم دن تھا۔ قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں افراد جمع تھے۔ اکثر لوگوں نے میدان التحریر کو آنے والے مختلف راستوں پر باقاعدہ مورچے لگائے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے بھیجے گئے مسلح غنڈے مظاہرین پر حملہ آور ہوکر بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کرچکے تھے۔ ایک ’مورچے‘ پر مصر کے معروف عالمِ دین اور دانش ور صفوت حجازی بھی تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے ساری رات پہرہ دے کر گزاری۔ لوگ باری باری نیند اور تہجد و عبادت میں مصروف تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بار بار لگ رہا تھا کہ  آج مجھے بھی شہید ہوجانا ہے۔ نمازِ فجر کا وقت ہوا تو غنڈوں کے حملے کے خوف سے ہم نے نماز بھی باری باری ادا کی۔ میرے ساتھ ہی ایک نوجوان عبدالکریم بھی تھا۔ اس سے وہیں تعارف ہوا۔ وہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل تھا۔ ۲۵ پارے حفظ کیے ہوئے تھے اور زیادہ وقت تلاوت میں مصروف تھا۔ اس کی تلاوت میں ایک عجیب تاثیر تھی۔ میں نے اسے ہی امامت کے لیے کہہ دیا۔ نماز پڑھ کر وہ مجھے مخاطب ہوتے ہوئے بولا: میں اگر اس میدان میں ماراجائوں تو کیا شہادت کا درجہ ملے گا؟ میں نے کہا: ضرور ملے گا۔ کہنے لگا: دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سید الشھداء حمزہ ورجل قام اِلی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ ’’(حضرت) حمزہ سیدالشہدا ہیں اور ہر وہ شخص بھی کہ جو ظالم حکمران کے سامنے ڈٹ گیا اسے  (نیکی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا اور اس نے جواباً اسے قتل کر دیا‘‘۔

کچھ دیر مزید بات ہوئی جس میں، مَیں نے اپنا یہ احساس بھی بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے بھی شہادت کی سعادت ملے گی۔ عبدالکریم فوراً بولا: اگر مجھ سے پہلے چلے گئے تو سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کو میرا سلام کہیے گا۔ میں نے کہا: اور اگر آپ چلے گئے توآپ میرا سلام پہنچا دیجیے گا۔ عبدالکریم  یہ سنتے ہی اُٹھ کر چل دیا۔ میں نے پوچھا: کدھر چل دیے؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا: سیدالشہدا کو آپ کا سلام پہنچانے… ابھی عبدالکریم نے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہم نے دیکھا تو دُور گھات لگائے بیٹھے سرکاری غنڈے کی دُوربین لگی بندوق کی ایک گولی عبدالکریم کے سر میں چھید کرتی ہوئی نکل گئی تھی اور ہر طرف کستوری کی مہک پھیل رہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عبدالکریم کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔

تقریباً نصف صدی عذاب و اذیت میں تو گزر گئی، لیکن الاخوان المسلمون نے اس عرصے میں لاکھوں افراد پر مشتمل ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے کہ جو بلند مقاصد کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے ہرلمحے تیار رہتی ہے۔ اللہ ہمارا مقصود ہے،قرآن ہمارا دستور ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رہنما ہیں، کے بعد الجہاد سبیلنا، ’’جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ اور الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ اسمی امانینا، ’’اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلندپایہ آرزو ہے‘‘ کا شعار اس ربانی نسل کا پورا تعارف کروا دیتا ہے۔ تیونس اور مصر کے فرعونوں سے نجات کے لیے اس نوجوان نسل کی قربانیوں نے عالمِ عرب کے ہر نوجوان کو ایک نئی روح سے سرشار کر دیا ہے۔ اس کا ایک مظہر تو یمن، شام اور لیبیا میں دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس کا ایک تازہ اور حیران کن مظہر ۱۵مئی کو دکھائی دیا۔ لیکن آیئے پہلے ۱۵ مئی کا تھوڑا سا پس منظر ذہن میں تازہ کرلیجیے۔

آج سے ۶۳ سال پہلے، ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ فلسطینی شعبہ شماریات کے مطابق اس وقت فلسطینی عوام کی کُل تعداد ۱۴ لاکھ تھی۔ پورے فلسطین میں ان کے ۱۳۰۰ شہر، قصبے اور بستیاں آباد تھیں۔ یہودیوں نے برطانوی سرپرستی اور مسلمان حکمرانوں کی خیانت کے باعث فلسطینی عوام کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ ۷۷۴ شہروں اور بستیوں پر قبضہ کرلیا، ان میں سے ۵۳۱ شہر اور بستیاں مکمل طور پر تباہ کردیے۔ ۱۵ہزار فلسطینی قتل کردیے اور ۸لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر کے مہاجر کیمپوں اور پڑوسی ملکوں میں دھکیل دیا۔ تب سے ۱۵مئی کو یومِ نکبت کہا جاتا ہے۔ گذشتہ ۶۳برس سے ہرسال اس یومِ نکبت کی یاد منائی جاتی ہے۔

مصر اور تیونس میں عوامی جدوجہد کی کامیابی کے بعد یومِ نکبت قریب آنے لگا تو مصر سمیت فلسطین کے تمام پڑوسی ملکوں کے نوجوانوں نے اس دن کو ایک منفرد انداز میں منانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اس برس ہم یہ دن سرزمین انبیا فلسطین کی سرحدوں پر جاکر منائیں گے۔ اس اعلان نے مصر، فلسطین، اُردن، لبنان اور شام سمیت ہر جگہ نوجوانوں کو ایک نئے جذبے سے سرشار کردیا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات دیے جانے لگے اور ۱۵مئی ۲۰۱۱ء کا دن واقعی ایک تاریخی دن بن گیا۔ اس روز بوڑھے، بچے، مرد و زن سب بڑی تعداد میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اول اور اپنے آباواجداد کی سرزمین کی طرف دیوانہ وار چل نکلے۔ ۱۵مئی کو اتوار کا دن تھا لیکن مصر اور اُردن میں لوگ جمعے کے روز سے ہی جمع ہونے لگے۔ پھر اتوار کے روز لبنان کے علاقے مارون الراس اور شام کے مقبوضہ علاقے جولان کی سرحدی بستیوں القنیطرۃ اور مجدل الشمس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہونے لگے۔ ہرشخص جذبات سے اس طرح سرشار تھا کہ گویا یہ فلسطین کی آزادی کا دن ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی بنی ہوئی بڑی بڑی چابیاں اُٹھائی ہوئی تھیں۔ چابی کا نشان بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کے  حقِ واپسی کی علامت بن چکا ہے۔ مظاہرین سرحدوں پر ہی جمع ہوکر مظاہرے کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ صبح تقریباً ۱۰ بجے سے جمع ہونے والے مظاہرین کی تعداد جب ہزاروں میں ہوگئی تو انھوں نے سرحد پر بچھی بارودی سرنگوں اور گشت کرتی اسرائیلی فوجی گاڑیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے اور فلسطین کے مابین حائل خاردار تاروں اور آہنی جنگلوں کو روند ڈالا۔ بڑی تعداد میں لوگ فلسطینی دھرتی کی آغوش میں آنے اور وہاں سجدہ ریز ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے یہودیوں پر پتھرائو بھی شروع کر دیا۔

آیئے اس صورت حال کی مزید جھلک بڑے اسرائیلی روزنامے یدیعوت کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے: ’’اسرائیلی سرزمین میں گھس جانے والے فلسطینی پتھرائو کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے وہاں زیرتعمیر ایک گھر میںپناہ لے لی، اور وہاں سے پتھرائو شروع کر دیا۔ پتھروں کی بارش یہودیوں یا دُرزی قبیلے کے افراد میں کوئی تمیز نہیں کر رہی تھی، نہ ہی انھوں نے یہودی فوجیوں اور شہریوں میں کوئی تمیز کی۔ مجھے ایک اسرائیلی شہری نے ۱۶مئی کو بتایا کہ ’’میں اپنی پوری زندگی میں اتنا خوف زدہ نہیں ہوا جتنا کل ہوا تھا‘‘۔ ہم نے فلسطینیوں سے کہا کہ پتھرائو بندکر دو، وگرنہ فوج فائر کھول دے گی۔ انھوں نے جواب دیا: ’’پرواہ نہیں، ہم یہاں مرنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔ جو کچھ جولان میں ہوا، لبنانی سرحدوں پر بھی وہی ہوا۔ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے ٹی وی چینل ’المنار‘ کی بنائی ہوئی تصاویر میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ فلسطینی جوق در جوق مارون الراس کے ٹیلوں سے   اُتر کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان پر اسرائیلی فوج نے بھی فائرنگ کی اور خود لبنانی فوج نے بھی۔  کچھ افراد زخمیوں اور مرنے والوں کی لاشیں اُٹھا کر پیچھے جاتے لیکن ان سے زیادہ اور آگے آجاتے۔ یہ لوگ سرحد پر لگے آہنی جنگلے کی طرف یوں بڑھ رہے تھے، جیسے کسی نشے سے سرشار ہوں۔ ہم نے یہ مناظر گذشتہ مہینوں میں (قاہرہ کے) میدان التحریر، (لیبیا کے شہر)  بن غازی اور (شام کے شہر) درعا اور بانیاس میں تو دیکھے تھے لیکن اسرائیلی سرحدوں پر یہ مناظر اس ہفتے پہلی بار دیکھنے میں آئے۔ یہ لوگ حماس کے خودکش حملہ آور نہیں تھے بلکہ فیس بک کے حملہ آور تھے… یہ لوگ دوبارہ پھر آئیںگے اور یہ اس ہفتے کے واقعات سے سیکھا جاسکنے والا پہلا سبق ہے (مظاہرین کے مطابق) آیندہ ستمبر میں یہ مناظر دوبارہ دہرائے جاسکتے ہیں‘‘۔ (یدیعوت احرونوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)

لبنان اور شام کی سرحدوں پر اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہوگئے لیکن عرب بالخصوص فلسطینی عوام اس تازہ وجدان و روح سے سرشار ہوگئے ہیں کہ بالآخر ایک روز ہم ان خاردار اسرائیلی جنگلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روند ڈالیں گے۔ فیس بک کے ذریعے تحریک چلانے والے نوجوان اعلان کر رہے ہیں کہ ۶۳ سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ تین اطراف سے چار عرب ممالک کے عوام فلسطینی سرزمین کی جانب بڑھے۔ اس سال ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، لیکن شہادتوں اور قربانیوں کی پرواہ کیے بغیر اگر کئی ملین کی تعداد میں لوگ نکل آئے، خود فلسطین کے اندر سے بھی اتنی ہی تعداد میں فلسطینی باہر آگئے تو عرب عوام کے سمندر میں گِھرا صہیونی جزیرہ اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے گا۔ خود اسرائیلی تجزیہ نگار اور عسکری ماہرین ان واقعات کا مسلسل جائزہ   لے رہے ہیں۔ یہ بحث بھی عروج پر ہے کہ ہم ان واقعات کا اندازہ پہلے سے کیوں نہ لگا سکے؟ کیا یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے یا فوج صورت حال پر قابو نہیں پاسکی؟

اس بارے میں بھی ایک اہم ترین تبصرہ خود یدیعوت احرونوت کے الفاظ ہی میں ملاحظہ فرمایئے: ’’انٹیلی جنس کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لینا بھی اہم ہے لیکن اتوار کے روز ہونے والے واقعات کچھ اور اسباب کی بنا پر بھی بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل فلسطین تنازع اب دوبارہ پورے خطے کا تنازع بن چکا ہے۔ اب اسرائیل کی کوئی بھی سرحد محفوظ نہیں رہ گئی۔ نہ شام، نہ مصر اور نہ لبنان، کسی طرف سے بھی ہماری سرحد محفوظ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی فوج غیرمسلح شہریوں کی تحریک نافرمانی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس وقت کہ جب اس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہوں۔ تیسرا یہ کہ اب ہم عرب ممالک کی حکومتوں پر یہ بھروسا نہیں کرسکتے کہ وہ اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں گے۔ چوتھا (اہم ترین) سبب یہ ہے کہ خوف کے حصار سے نجات، ایک متعدی مرض ہے، جو عوام بشارالاسد کے ٹینکوں کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں، وہ اسرائیلی فوج کی بارودی سرنگوں سے بھی نہیں ڈریں گے‘‘ (یدیعوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کے یہ دونوں نکات پوری بحث کا خلاصہ بتا رہے ہیں کہ عرب حکمران اسرائیل کا مزیددفاع کرنے کے قابل نہیں رہے اور اگر عوام خوف کی دیوار ڈھا دیں تو پھر کوئی قوت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔

تھا تو یہ ایک روز کا مظاہرہ، لیکن چند ہزار افراد کے سرحدوں پر اُمڈ آنے سے چہار جانب خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ اسرائیل کے علاوہ خود امریکا میں اس پر بحث ہورہی ہے۔ کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے اہم یہودی رہنما ایرک کینٹر (Eric Cantor) نے گذشتہ دنوں معروف یہودی ادارے ’ایپاک‘ AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’’ہمارے خواب خطرات سے دوچار ہیں‘‘۔ ’’اسرائیل کی بقا کی ضمانت دینے کے لیے اب ہمیں ہرممکن کوشش کرنا ہوگی‘‘، ’’اسرائیل نہ رہا تو ہم میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے گا‘‘۔ امریکا میں یہودی لابی کے معروف ادارے جے سٹریٹ میں بھی دہائی دی جارہی ہے کہ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ فوری طور پر صلح کرلینی چاہیے، وگرنہ اسرائیل کا وجود خطرات سے دوچار ہوجائے گا۔ (اسرائیل ٹوڈے، ۲۵ مئی ۲۰۱۱ء)

مصر میں مسلم عیسائی فساد

یہ ساری تشویش صرف شام اور لبنان کے مظاہروں کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ اُردن میں، جس کی نصف آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے، ابھی بڑے پیمانے پر مظاہرے نہیں ہوسکے، جو مظاہرے ہوئے وہ بھی مخصوص علاقوں تک محدود رہے، جب کہ مصر میں عبوری دور کے باعث حکومت اور سیاسی جماعتوں نے انھیں ایک مختلف رُخ دے دیا۔ اس تحریک کو تیسری تحریک انتفاضہ کا نام دیا جا رہا ہے، اور اس کے اعلان و انتظام میں مصری نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، لیکن ۱۵مئی آنے سے پہلے مصر میں دو اہم واقعات رُوپذیر ہوگئے۔ ایک تو وہاں اچانک مسلمانوں اور(قبطی) مسیحیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ ان فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک مسیحی طالبہ عبیرطلعت نے اپنے وڈیو پیغام میں بتایا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، جس کی پاداش میں مسیحی پیشوائوں نے اسے اِمبابہ شہر کے ایک چرچ میں قید کر دیا اور اس پر دبائو ڈالا کہ وہ دوبارہ مسیحی ہونے کا اعلان کرے۔یہ سن کر بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان چرچ کے باہر جمع ہوگئے جس پر عبیر کو رِہا کردیا گیا، لیکن اسی اثنا میں فائرنگ اور خوں ریزی کے واقعات بھڑک اُٹھے۔   کئی جانوں کے ضیاع، توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے نتیجے میں بھاری نقصانات دیکھنے میں آئے۔ بعد میں وزیرداخلہ نے بتایا کہ سب سے پہلے حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کے ایک مسیحی تاجر نے  خود اِمبابہ چرچ کے باہر جمع مسلمان نوجوانوں پر فائرنگ کی اور پھر اپنے متعدد غنڈوں کے ذریعے  ہلہ بول دیا۔ ان سابق حکمرانوں کی کوشش تھی کہ پورے ملک میں مسلم مسیحی فسادات بھڑکا دیے جائیں، لیکن بالآخر سیاسی جماعتوں کی کوششوں سے ان فسادات کی آگ پر قابو پالیا گیا۔

الفتح اور حماس کی صلح

دوسرا اہم واقعہ یہ ہوا کہ دو اہم فلسطینی جماعتوں ’الفتح‘ اور ’حماس‘ کے درمیان ایک صلح نامہ طے پا گیا۔ حسنی مبارک کے اقتدار میں کئی بار دونوں جماعتوں کے مابین مذاکرات ہوئے، کئی بار  صلح نامے کے مسودے تیار ہوئے، لیکن ہربار صلح کی کوششیں ناکام رہیں۔ اس مرتبہ نہ لمبے چوڑے مذاکرات کے دور چلے، نہ ذرائع ابلاغ میں کوئی شور سنائی دیا۔ اچانک معلوم ہوا کہ ’حماس‘ اور ’الفتح‘ نے قاہرہ میں صلح کے جامع معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ مصری عوام نے اس مناسبت سے ۱۵مئی کویومِ نکبت یا یومِ وحدت ہی نہیں، بلکہ یوم الوحدۃ والمناصرۃ (یومِ وحدت و نصرت) کا عنوان دے دیا۔

قاہرہ کے میدان التحریر کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر جمع ہوئے۔ ’مسیحی مسلم بھائی بھائی‘ اور ’حماس الفتح بھائی بھائی‘ کے نعروں سے اپنے جذبات کا  اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ چونکہ مصر ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، بہت سی اندرونی و بیرونی طاقتیں اب بھی مصری عوام سے ان کی قربانیوں کا ثمر چھیننا چاہتی ہیں، اس لیے ہم کسی کو اس طرح کی سازش کا موقع نہیں دیں گے۔ اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵مئی کو رفح بارڈر پر جانے کے بجاے ۱۳، ۱۴ اور ۱۵مئی تینوں دن اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ملیونیۃ الفجر (ملین نمازِ فجر) کا اہتمام کریںگے۔ پھر بالفعل یہی ہوا۔ تینوں دن لاکھوں کی تعداد میں عوام قاہرہ کے میدان التحریر اور دیگر میدانوں اور پارکوں میں فجر کے وقت جمع ہوئے اور یومِ نکبت کی سرگرمیوں میں اپنی شرکت کا ایک نیا ایمان افروز رنگ پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے بھی جمع ہوئے۔ انھوں نے وہیں نمازِ فجر ادا کی اور  یومِ وحدت و نصرت منایا۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے کہ اگر کسی روز یہی لاکھوں عوام وادیِ سینا عبور کرتے ہوئے رفح بارڈر پر جمع ہوگئے تو تیسری تحریکِ انتفاضہ کیا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ اسرائیلی دانش ور اور بحث و تحقیق کے ادارے اپنے مستقبل کا جائزہ لینے کے لیے مصروشام کے مستقبل کا بھی گہرا مطالعہ کر رہے ہیں۔

مصر اور تیونس میں انتخابات

خود اخوان نے اس مرحلے پر بہت محتاط پالیسی اختیار کی ہے۔ اپنا صدارتی اُمیدوار اور  ۵۰ فی صد سے زائد نشستوں پر اپنے اُمیدوار نہ لانے کا اعلان اسی پالیسی کا حصہ ہے، لیکن اس   تمام تر احتیاط کے باوجود فلسطین کے بارے میں اپنا موقف پوری قوت و ثبات سے پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے اس موقع پر اپنے دوتفصیلی بیانات میں یومِ نکبت اور مسئلۂ فلسطین پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک بیان میں فلسطین کے بارے میں اخوان کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ۱۹۲۸ء میں الاخوان المسلمون کی تاسیس کے وقت ہی امام حسن البنا نے مسئلۂ فلسطین کو مرکزی حیثیت دی تھی۔ انھوں نے مئی ۱۹۴۸ء کو لبنان کے شہر عالیہ میں جمع عرب حکمرانوں کو   پیش کش کی تھی کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان شہادت کے لیے بے تاب اپنے ۱۰ہزار  نوجوان پیش کرنے کے لیے تیار ہیں…اخوان نے صہیونیوں کے خلاف جہاد میں باقاعدہ حصہ لیا۔ ۲۶مئی ۱۹۴۸ء کو ایک بہت مشہور معرکہ ’’رامات رحیل‘‘ کے مضبوط صہیونی قلعے پر ہواتھا۔ اخوان کے مجاہدین نے اس میں ۲۰۰؍اسرائیلی فوجی قتل کیے… لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود جنگ بند ہونے کے بعد، ۱۹۴۸ء ہی میں ایک فوجی حکم کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگادی گئی اور پھر ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البنا کو شہید کر دیا گیا‘‘۔ اخوان کی یہ تمام قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں لیکن اس اہم موقع پر اخوان کے مرشدعام کی طرف سے اس کا ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ احتیاط و حکمت مومن کی شان ہوتی ہے، لیکن اپنے اصولی موقف پر ثابت قدم رہنا بھی کامیابی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔ اب اسرائیلی تجزیہ نگار اپنے عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ الاخوان المسلمون کو    ۲۰ فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملیں گے۔ وہ اگر حکومت میں آئے بھی تو یہ ایک مخلوط حکومت ہوگی جس کی ساری پالیسیاں اخوان کے ہاتھ میں نہیں ہوں گی اس لیے خوف زدہ نہ ہوں۔

اس وقت مصر اور تیونس میں اسلامی تحریک کی تمام تر توجہ نئے مرحلے میں اپنا کام منظم و مربوط کرنے پر مرکوز ہے۔ گذشتہ تقریباً نصف صدی سے ان دونوں تحریکوں کو عذاب و ابتلا کا سامنا تھا۔ سارا تنظیمی ڈھانچا اور تمام دعوتی و تربیتی سرگرمیاں زیرزمیں چلی گئی تھیں۔ اب پورا کام دوبارہ برسرِزمین آرہا ہے۔ اخوان نے ۵۰سال کے بعد پہلی بار اپنی شوریٰ کا اجلاس علانیہ طور پر کیا ہے۔ اس تاریخی اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ اپنی سیاسی جماعت حزب الحریۃ والعدالۃ   ’آزادی و انصاف پارٹی‘ کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے۔

پہلے اخوان کا نام تک غیرقانونی تھا۔ اب انھوں نے قاہرہ کے قلب میںاپنے شان دار مرکز کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ جون میں الحریۃ والعدالۃ پارٹی بھی اپنے مرکز کا باقاعدہ افتتاح کردے گی۔ اخوان کی مجلس شوریٰ میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق یہ سیاسی پارٹی اپنی پالیسیوں اور سرگرمیوں میں مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہوگی لیکن اپنے اہم فیصلوں میں اخوان سے بھی رہنمائی لے گی۔ پارٹی کے ذمہ داران کا تعین بھی باہم مشاورت سے ہی کیا گیا ہے۔ اخوان کے ایک اہم رہنما محمد مرسی اس کے صدر اور گذشتہ سیشن میں اخوان کے پارلیمانی لیڈر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پر منعقدہ جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کے لیے آئے تھے) اس کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ ایک انقلابی اور دُوررس فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ ایک قبطی مسیحی سیاسی لیڈر رفیق حبیب کو بھی الحریۃ والعدالۃ کے نائب صدور میں شامل کیا گیا ہے جس سے عوام میں یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ یہ جماعت سب مصری عوام کے لیے ہے۔

ادھر تیونس میں بھی انتخابات کی تاریخ قریب تر آتی جارہی ہے۔ ۲۴جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں شرکت کے لیے اب تک ۶۳ سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں، لیکن ان میں نمایاں جماعتیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ تحریک نہضت ان میں سرفہرست ہے۔ بعض جائزہ کار آیندہ اسمبلی میں اس کا حصہ ۵۰ فی صد کے قریب بتارہے ہیں، جب کہ کم از کم بتانے والے بھی یہ تناسب ۲۰ فی صد بتاتے ہیں۔ تیونس میں فرانس اور مصر میں امریکا کی سربراہی میں بیرونی اثرورسوخ بھی نئے سرے سے اپنے پائوں جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ صدر اوباما نے اپنے حالیہ تاریخی خطاب میں تبدیل شدہ مصر کو بھی مالی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مختلف امریکی تحقیقی ادارے تسلسل سے لکھ رہے ہیں کہ عالمِ عرب کی اسلامی تحریکیں ایک حقیقت ہیں، ہمیں ان کے ساتھ تعاون کی راہ نکالنا ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ساری حقیقت پسندی اس وقت کافور ہوجاتی ہے جب معاملہ فلسطین یا اسرائیل کا ہو۔ اسی خطاب میں صدر اوباما نے حماس اور الفتح کی مصالحت پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جو تحریک اسرائیل کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی، الفتح نے اس کے ساتھ کیوں صلح کی۔ ایک مہم یہ بھی چلائی جارہی ہے کہ حماس نے اپنے پروگرام میں اسرائیل نام کی کوئی چیز تسلیم نہ کرنے کا جو اعلان کیا ہوا ہے وہ اسے حذف کر دے۔ گویا کہ خود گل ہی بوے گل سے براء ت کا اظہار کردے۔

۱۵مئی کے مظاہروں اور مصر و تیونس کے انقلابات نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ظلم کی طویل رات جس قدر بھی طویل ہوجائے اسے بالآخر چھٹنا ہے۔ خالق کائنات بھی ظالم کی رسی دراز تو کرتا ہے لیکن جب مقہور و مظلوم نہتے، پُرامن عوام، خوف کا پردہ چاک کرتے ہوئے قربانیوں کے سفر پہ چل نکلیں تو تمام فرعونی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جانب رہنمائی فرمائی تھی کہ وہن، یعنی ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘ تمھارا وتیرا ہوگا۔ تو جھاگ کی طرح کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ساری دنیا تم پر بھوکوں کی طرح پل پڑے گی۔ آج یہ حدیث نبوی مدرسۂ رسالت کی سچائی پر گواہی دینے کے ساتھ ساتھ مظلوم و مقہور قوم کے لیے راہ نجات بھی واضح کر رہی ہے۔