۷جون ۲۰۱۵ء کو ترکی میں ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ حسب سابق حکمران جسٹس پارٹی(AKP) ہی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسے ۵۵۰ میں سے ۲۵۸ نشستیں حاصل ہوئیں، لیکن یہ نشستیں تنہا حکومت بنانے کے لیے درکار تعداد سے ۱۶ نشستیں کم ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کے لیے بس یہی بات شادیانوں کا پیغام لائی ہے۔ وگرنہ پارلیمنٹ میں آنے والی باقی تین پارٹیاں اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہیں۔ کمال اتاترک کی جماعت CHP صرف ۱۳۲، جب کہ ترک نیشنلسٹ(MHP)اور کرد نیشنلسٹ(HDP) صرف ۸۰،۸۰سیٹیں حاصل کرسکی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سازی کے لیے درکار تعداد سے ۱۶نشستیں کم ہونے پر بغلیں بجانے والے جانتے ہیں کہ اس کامطلب ملک میں مخلوط حکومت کا قیام ہے۔
حالیہ نتائج آنے کے اگلے ہی روز سے ترکی میں سٹاک مارکیٹ بیٹھنا اور کرنسی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ۲۰۰۲ء میں طیب اردوان کی پہلی بار جیت سے پہلے، ملک میں لوٹ مار کا جو طویل سفر جاری رہا، اس کا ایک اہم سبب یہ مخلوط حکومتیں ہی ہوتی تھیں۔ ترک تاریخ میں تقریباً ۶۰ مخلوط حکومتوں کا سارا عرصہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور کرپشن ہی میں ختم ہوجاتا۔ یہ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو ان دونوںلعنتوں سے نجات دلائی اور ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہوا۔ ترکی جہاں طیب حکومت آنے سے پہلے ترقی کی شرح منفی ۹تک گر چکی تھی، اب اسی ترکی میں ترقی کی شرح ۹ فی صد سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی اب دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک بار وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے اس کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر دو لفظی جواب دیا:’’امانت و دیانت‘‘۔ طیب اردوان اور ان کے استاد پروفیسر نجم الدین اربکان نے اللہ کی توفیق سے ہمیشہ امانت اور محنت ہی کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترکی کو دوبارہ اسی سیاست کی دلدل میں دھنس جانے پر جہاں اسرائیلی اور صہیونی لابی نے جشن منایا، وہاں بعض مسلم ممالک کے حاکموں نے بھی خوب بغلیں بجائیں۔ ایران اور متعدد عرب ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا کے اخبارات، تقریباً سب کی سرخیاں یکساں تھیں:’عثمانی خلافت کا خواب بکھر گیا‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں بھی کسی پر ظلم ڈھایا گیا طیب حکومت وہاں پہنچی۔ میانمار برما سے جان بچاکر نکلنے والے ہزاروں افراد کو پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش نے تو گولیاں برساکر شہید کردیا یا واپس دھکیل دیا لیکن ترک بحری جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ طیب اردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کئی ترک اداروں کو لے کر خود برما پہنچے اور زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ صومالیہ تقریباً نصف صدی سے خانہ جنگی اور قتل و غارت کا شکار ہے، وہاں نہ صرف ترک حکومت کی رفاہی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بلکہ وہ وہاں مصالحتی کاوشوں کے علاوہ ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر بنانے کی دوررس کوششیں کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر چڑھائے جانے والے بے گناہ ہوں یا مصر میں منتخب حکومت کے خلاف برپا ہونے والا بدترین خونی فوجی انقلاب، صرف ترکی ہی ان کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر صداے احتجاج بلند کررہا ہے۔
گذشتہ آٹھ برس سے محصور غزہ کے لیے فریڈم فلوٹیلا ترک تنظیمیں ہی لے کر نکلی تھیں، جس میں ۱۱شہری شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اہل غزہ کی مسلسل پشتیبانی کررہے ہیں۔ اس وقت، یعنی دمِ تحریر ایک اور امدادی قافلہ یورپ سے روانہ ہو کر ترکی آرہا ہے، جہاں سے اس ماہ کے اختتام تک وہ دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے۔شام کے ۴۰لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ عالمی امدادی ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ پورے کا پورا بوجھ ترکی پر آن پڑا ہے، اور وہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر ان کی مدد کررہاہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں، ترکی کی مدد کے بجاے اس انتظار میں ہیں کہ ترکی کب اس مالی بوجھ سے گرجاتا ہے۔ لیکن طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔
اخوت اور اسلامی یک جہتی کے ساتھ ساتھ طیب حکومت اپنے ملک اور قوم کی ترقی سے بھی قطعاً غافل نہیں۔ انتخابات سے دو روز بعد عالمی بنک کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ۲۰۱۴ئمیں ترکی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا ہے۔
ایک طرف ہر مظلوم کی مدد کے لیے لپکنے والا یہ غیرت مند ترکی ہے، اور دوسری طرف اپنے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے سفاک حکمران ہیں جو ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ڈکارتے جارہے ہیں۔ ۱۸ جون کو سوئٹزر لینڈ کے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجیے کہ صرف ۲۰۱۴ء کے دوران سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں اپنی دولت کے ڈھیر لگانے والوں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے بھوک سے بلکتے ملک سے آنے والے سرمایے میں صرف ایک سال (۲۰۱۴ئ) کے دوران ۵۵ئ۳۶ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا پیسہ لوٹ مار ہی کا پیسہ ہوگا۔ بفرض محال لوٹ مار کا نہ بھی ہو تب بھی اس کا اصل مقام سوئٹزر لینڈ کے بنک نہیں،اپنے دیس کے مظلوم عوام ہونے چاہییں۔
لوٹ مار کرنے والے ان حکمرانوں کے مقابلے میں اور ترکی کو ۲۰۲۳ء تک دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے اردوان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جس کے باعث ایک جہان ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ طیب اردوان یا ان کی جماعت سے یقینا غلطیاں ہوئی ہیں اور مزید ہوسکتی ہیں، لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی یقینا بہت مبالغہ آرائی ہے۔ طیب اردوان چند ماہ پیش تر ہی نئے صدارتی محل میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے کئی بہی خواہ اس محل کی تعمیر کو اسراف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ طیب اردوان کا کہنا یہ ہے کہ اس کے سیکڑوں کمروں میں علمی تحقیق کے درجنوں مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ محل، ترقی یافتہ مضبوط ترکی کی علمی، فکری، تہذیبی اور تحقیقاتی ترقی کی ایک علامت بنے گا، لیکن یہ بات پوری طرح منتقل نہ ہوسکی۔
اگرچہ طیب اردوان اور ان کی ٹیم کی بنیادی صفت ہی کرپشن سے محفوظ رہنا ہے، تاہم ان پر کرپشن کے الزامات نے انھیں بعض مواقع پر مشتعل بھی کیا ہے۔ وہ کرپشن کے بے سروپا الزامات لگانے والے کئی صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر صحافت دشمنی کے طعنے بھی کسے گئے ہیں۔ حالیہ نتائج کے بعد پورے نظام اور بالخصوص اپنے ساتھیوں کی کڑی نگرانی، جائزے اور خود احتسابی مستقبل کے کئی طوفانوں کا سدباب کرے گی۔
۲۴ جون کو طیب اردوان نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کو باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دی ہے۔ اس کے ۴۵ روز کے اندر اندر انھیں دوسروں کے ساتھ مل کر یا پھر اقلیتی حکومت بنانا ہوگی۔ اقلیتی حکومت کا مطلب ہے کہ حکومت سازی کے لیے مطلوب مزید ۱۶ ووٹ انھیں مل جائیں لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو پھر ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ بعض تجزیہ نگار تو بہرصورت آیندہ سال کو نئے انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کمزوریوں کا خود جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب رہی تو یقینا آیندہ نتائج حالیہ سے مختلف اور بہتر ہوں گے۔
جسٹس پارٹی کی چند سیٹیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ پہلی بار کسی کرد پارٹی کا پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ کرد کئی عشروں سے ناانصافیوں کا موقف لیے مسلح کارروائیوں میںملوث ہوگئے تھے۔ اتاترک نے ان پر ترک قوم پرستی کے کئی طوق مسلط کررکھے تھے۔ بالآخر وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب رہے۔ پہلے کرد ووٹ کا تقریباً ۴۰ فی صد جسٹس پارٹی کو ملتا تھا، اس بار وہ سب کرد لہر میں بہ گیا۔ گویا جسٹس پارٹی نے سیاسی حکمت عملی سے کردوں میں اپنی اکثریت کی قربانی دے کر باغی مسلح عناصر کو پرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرلیا۔
کرد قوم پرستی کی لہر کتنی شدید ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے: جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ جب ایک روز ایک ترک خاتون پریشان حالت میں اپنی تین نوجوان بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت پاکستان آئی۔ وہ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوئی، اسلام اور اسلامی جماعت کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے انھیں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر پہنچا دیا۔ وہاں کے ساتھیوں نے ان کی بات سن کر ایک ذمہ دار کو ہمراہ بھیجا اور وہ انھیں لے کر مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور آن پہنچا۔ ہم نے ان کی بپتا سنی تو معلوم ہوا کہ خاتون اور ان کی تینوں بیٹیاں حجاب، یعنی سر پر سکارف رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ترک سیکولر قوانین میں اس کی گنجایش نہیں۔ حجاب کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد ان تینوں پر ایسے جھوٹے مقدمات قائم کردیے گئے کہ جن کی سزا موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ خاندان جس کے سر پر کوئی مرد نہیں بچا، اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے مشاورت و رہنمائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے کے لیے انتظامات کردیے گئے۔ مختلف مشکلات و مسائل کے باوجود یہ خاندان تقریباً ڈیڑھ سال پاکستان رہا اور بالآخر ترکی واپس چلا گیا۔ واپس جاتے ہی ماں اور بچیاں گرفتار کرکے جیل بھیج دی گئیں۔ ایک بیٹی اسی دوران اللہ کو پیاری ہوگئی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کچھ عرصے بعد ماں اور باقی دونوں بیٹیاں رہا ہوگئیں اور اب خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طیب اردوان اب ان اور ان جیسی کروڑوں خواتین کے حجاب پر سے پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کی اس داستان کے کئی مزید پہلو بہت اہم ہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہماری یہ باحجاب بہن ہدی کایا حالیہ انتخابات میں رکن پارلیمنٹ بن گئی ہیں اور اصل خبر یہ ہے کہ وہ جسٹس پارٹی نہیں کرد نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے رکن بنی ہیں۔ یہ پارٹی یقینا اسلامی شناخت نہیں رکھتی لیکن اگر ہدی کایا جیسی مجاہد خاتون جو حجاب کی خاطر ہجرت اور اسیری تک برداشت کرتی رہی، جسٹس پارٹی کے بجاے کرد پارٹی میں چلی گئی ہے، تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جسٹس پارٹی کی کم سیٹوں کے پیچھے شیطانی دنیا کے ابلاغیاتی نظام اور دولت کے ڈھیروں کے علاوہ بھی کون کون سے اندرونی عوامل اثر انداز ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر بلکہ باعث شکر ہے کہ وہی اسمبلی جہاں کبھی ایک باحجاب خاتون مروہ قاوقچی کے منتخب ہوجانے پر بھونچال آگیا تھا، اب وہاں ہدی کایا اور مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی جیسی ۱۹ خواتین اپنی اسلامی شناخت، یعنی باوقار حجاب کے ساتھ موجود ہیں۔
۱۶ مئی کو قاہرہ کا ایک جج، صدر محمد مرسی سمیت ۱۲۴؍افراد کو سزاے موت سناچکا ،تو وکیل کی آواز آئی: جناب ان میں سے کئی افراد تو کئی سال پہلے وفات پاچکے ہیں۔جج نے جواب دیا: ’’تو مجھے کیا لگے‘‘ اور عدالت برخاست کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ججوں کے تین گروہ ہوں گے۔ دو گروہ جہنم اور ایک جنت میں جائے گا۔ جس نے حق جان کر بھی باطل فیصلہ کیا یا باطل ہی کو حق قرار یا وہ جہنم میں اور حق کے مطابق فیصلے کرنے والا جنت میں جائے گا‘‘۔
ڈیڑھ سال کی نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد اس حیرت ناک فیصلے میں ۱۰۶؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ جنوری ۲۰۱۱ء میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف جاری تحریک کے دوران انھوں نے ایک جیل پر حملہ کرکے قیدی رہا کروائے تھے، جب کہ ۱۸؍ افراد کو اس الزام میں سزاے موت سنائی گئی کہ انھوں نے فلسطینی تحریک حماس کے ساتھ خفیہ رابطے کرکے ملک کو نقصان پہنچایا۔ اس ’جرم‘ کی سزا پانے والوں میں معروف فلسطینی الصایغ شہیدحسام بھی شامل ہیں، جو حسنی مبارک کے خلاف تحریک سے تین سال پہلے ۲۰۰۸ء میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ تیسیر ابو سمیہ بھی ہیں جو ۲۰۰۹ء میں صہیونی بمباری سے شہید ہوگئے تھے، رائد الطیار اور دوسرے دو فلسطینی مجاہد بھی ہیں جو ۲۰۱۴ء میں شہید ہوگئے تھے۔ ایک اور حیرت انگیز نام فلسطینی ہیرو حسن سلامہ کا ہے جو ۱۹ سال پہلے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ایک کامیاب کارروائی کے دوران گرفتار ہوگئے اور صہیونی عدالت نے انھیں ۴۸بار عمر قید کی سزا سناائی۔ مصری عدالت نے ۱۹ سال سے اسرائیلی جیل میں قید اس مجاہد کو بھی ۲۰۱۱ئمیں مصر کی وادی النطرون نامی ’جیل توڑنے‘ کا مجرم قرار دے دیا۔
دیگر سزا یافتہ افراد میں حالیہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی بھی شامل ہیں، جنھیں چند ہفتے قبل ایک اور بے بنیاد مقدمے میں ۲۰ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔اخوان کے مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع بھی شامل ہیں، جنھیں اس سے قبل چار مقدمات میں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے ایک فیصلے کے تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد انھیں ان قیدیوں کا سرخ لباس پہنادیا گیا ہے، جنھیں کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ وہ اب یہی سرخ لباس پہنے، ہنستے مسکراتے عدالت آتے ہیں۔ مصر کی پہلی منتخب اسمبلی کے منتخب سپیکر پروفیسر ڈاکٹر سعد الکتاتنی بھی انھی سزا یافتہ افراد میں شامل ہیں۔ اخوان کے نائب مرشد عام انجینیر خیرت الشاطر اور ۱۶ سالہ شہید بیٹی اور نوجوان اسیر بیٹے کے والد، ملک کے معروف سرجن ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ۱۲۴ بے گناہوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مثالی کردار رکھنے والی شخصیات پر مشتمل ہے۔ حافظ قرآن تو یہ سب ہی ہیں اور دن رات قرآن کے سایے میں گزارتے ہیں۔ سزاے موت پانے والوں میں ۱۹ سالہ صحافی سندس عاصم بھی شامل ہیں، جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب کے وقت ایوان صدر کے میڈیا سیل میں ملازم تھیں۔ وہ اس وقت اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کررہی ہیں۔
سزاؤں کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کردیا کہ جدید فرعون جنرل سیسی اپنے ہر مخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ جیل توڑنے کا الزام اُمت مسلمہ کے عظیم اسکالر، ۱۵۰سے زائد شہرۂ آفاق دینی کتب کے مصنف ۸۹سالہ علامہ یوسف القرضاوی پر لگاتے ہوئے انھیں بھی سزاے موت سنادی گئی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نصف صدی سے زائد عرصہ ہوا قطر میں مقیم ہیں۔ المعہد الدینی اور مرکز براے دراسات سیرت و سنت کی تاسیس کرنے اور قطر یونی ورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ اب اپنا زیادہ وقت علمی اور دعوتی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے انھوں نے ۱۱برس پہلے ایک انٹرنیشنل یونین براے مسلم اسکالرز بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ دنیا بھر میں جس کے ہزاروں ارکان ہیں۔
ان تمام بزرگ اور عظیم ہستیوں پر جو من گھڑت الزام لگائے گئے ہیں، وہ اس قدر بے بنیاد ہیں کہ ان کا جواب دینا یا وضاحت کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن یہاں اخوان کی امن پسندی اور احترام قانون کی عملی مثال سب کے سامنے رہنا چاہیے۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، تو حکومت نے متعدد جیلوں میں خطرناک قیدیوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہوئے متعدد جیلوں سے فرار کروادیا۔ انھیں یہ ہدف دیا گیا کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں میں جاکر غنڈا گردی کا ارتکاب کریں۔ وادی النطرون نامی جیل میں اس وقت ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدی بند تھے، جن میں محمد مرسی سمیت اخوان کے کئی قائدین بھی شامل تھے۔ اچانک ایک سہ پہر جیل کی ساری انتظامیہ غائب ہوگئی۔ قیدیوں کے جو اہل خانہ اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے آئے ہوئے تھے، وہ بھی جیل کے دروازے کھول کر اپنے رشتہ دار رہا کرواکے لے گئے۔اخوان کی قیادت اس موقعے پر بھی سب سے مختلف نظر آئی۔قیدیوں او ران کے اہل خانہ کی یلغار اور جیل ٹوٹ جانے کے باوجود انھوں نے وہاں سے فرار ہونے سے انکار کردیا۔ وہ اور ان کے اہل خانہ خود وزارت داخلہ اور جیل انتظامیہ کو تلاش کرتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی نہ ملا تو ڈاکٹر مرسی نے الجزیرہ سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کو فون کرکے بتایا کہ: ’’جیل کی ساری انتظامیہ غائب اور سارے قیدی جاچکے ہیں۔ ہم اس وقت جیل کے باہر کھڑے ہیں اور بغیر قانونی کارروائی کے یہاں سے جانا نہیں چاہتے‘‘۔کئی ٹی وی چینلوں نے وہاں پہنچ کر اس کی فوٹیج بھی بنائی۔ کئی گھنٹے تک جب کوئی نہ آیا تو بالآخر وہ اور ان کے ساتھی بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہی قیدی محمد مرسی ملک کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔ ایوانِ صدارت میں ایک روز ان کے سامنے ۸۵۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ وادی النطرون جیل سے فرار کی واقعے کی پیش کی گئی۔ صدر محمد مرسی نے رپورٹ کا ایک بھی صفحہ پڑھے بغیر پوری فائل متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو اس نوٹ کے ساتھ بھجوادی کہ اس کی مبنی برحقیقت، شفاف اور مکمل تحقیق کی جائے۔
ایک جانب تو اخوان کے ان رہنماؤں کی اتنی احتیاط اور قانون کی پاس داری لیکن دوسری طرف آج فرعون بنے حکمرانوں کی ذہنیت ملاحظہ ہو کہ انھیں ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدیوں میں سے صرف اخوان کی قیادت ہی ملی کہ جن پر مقدمہ چلاکر سزاے موت کا حق دار قرار دیا گیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی ۳۰ جولائی ۲۰۱۳ء کو صدر مرسی کے خلاف خونی انقلاب لانے کے بعد بلامبالغہ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کرچکا ہے۔ نام نہاد عدالتوں کے ذریعے بھی سیکڑوں افراد کو چند منٹ کی کارروائی کے بعد سزاے موت سنائی گئی ہے۔ گذشتہ تقریباً دوسال میں اب تک ان نام نہاد عدالتوں کے ذریعے ۱۷۰۷ بے گناہ شہری سزاے موت کا عدالتی ’اعزاز‘ پاچکے ہیں۔ اس وقت مصر کے حالات حسنی مبارک کے تاریک دور سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔
وہ درجنوں دانش ور، صحافی اور سیاسی و دینی رہنما، جو اخوان دشمنی میں کبھی سیسی کی مدح سرائی کے لیے بے تاب رہتے تھے، اب خود بھی اس کے مظالم کا شکار ہیں۔عبد الفتاح السیسی نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹتے ہوئے اس وقت ملک میں جتنے بھی بحران گنوائے، بلکہ خود پیدا کیے تھے، اب وہ سب بحران پہلے سے کہیں سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔
منتخب حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے جنرل سیسی کو سب سے بڑا سہارا امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کی پشتیبانی اور بعض عرب ریاستوں کی طرف سے خطیر مالی تعاون کی صورت میں ملاتھا۔ اب امریکا و یورپی یونین ہی نہیں خود خلیجی ریاستوں کی طرف سے بھی سیسی انتظامیہ کے بارے میں گہرے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سیاہ واقعے سے لے کر گذشتہ مارچ تک سیسی انتظامیہ کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کی طرف سے ۵ئ۳۹؍ ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی ہے۔ اس مادی مدد کا ایک ہی ہدف تھا کہ عوام کی معاشی حالت بہتر بناتے ہوئے، انھیں اخوان کے بجاے سیسی حکومت کا حامی و ہمدرد بنایا جائے۔ اگر اس نقد امداد کے ساتھ تیل اور گیس وغیرہ کی مدد بھی شامل کی جائے تو کل امداد ۵۰؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ لیکن ساری دنیا گواہ ہے کہ حالات بہتر نہیں بدتر، بلکہ بدترین ہورہے ہیں۔ اس امر کے بھی واضح ثبوت ملے ہیں کہ اس مالی امداد کا بڑا حصہ ملکی خزانے کے بجاے، حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس بڑی امداد کے راز کاانکشاف بھی خود جنرل سیسی کی اپنے قریبی جرنیلوں کے ساتھ گفتگو کی خفیہ ٹیپ کے ذریعے ہوا ہے، جس میں جنرل سیسی ان خلیجی ریاستوں سے ملنے والی امداد کا ذکر کرتے ہوئے شکر گزار ہونے کے بجاے ان کا شکوہ اور ان کی بدخوئی کرتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ان حکمرانوں کے پاس ڈالروں اور ریالوں کے انبار ایسے لگے ہوئے ہیں، جیسے کسی گودام میں چاولوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ انھیں کہو کہ ہمیں اتنے ارب ڈالر کی فوری امداد مزید دیں، وگرنہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔ یہ خفیہ ٹیپ سامنے آنے اور عالمی اداروں سے اس کی تحقیق ہوجانے کے بعد کہ وہ واقعی جنرل سیسی ہی کی آواز تھی، خلیجی عوام میں سیسی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔
احسان فراموشی کا عالم دیکھیے کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد، جنرل سیسی کے بارے نئے سعودی حاکم شاہ سلمان کی پالیسی میں کچھ گرم جوشی کم ہوئی تو سیسی نے اپنے سفاک ابلاغیاتی کارندے اور ادارے شاہ سلمان پر تنقید کے لیے آزادکردیے۔ اب ایک طرف وہ سعودی عرب سے امداد بٹورنا چاہتا ہے، یمن میں سعودی حملے کا حصہ بھی(بظاہر) بنا ہوا، اور اپنے میڈیا کے ذریعے شاہ سلمان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آنے والا وقت سعودی عرب کو جنرل سیسی کا واضح مخالف اور ترکی اور قطر کا عملی حلیف بنادے۔
’فرعون مصر‘ اور اس کے ساتھیوں کی رعونت ملاحظہ ہو کہ چند ہفتے قبل ایک محنتی لیکن غریب خاکروب کا بیٹا، مقابلے کے امتحان میںکامیاب ہوکر جج کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سیسی کے وزیر انصاف محفوظ صابر نے اسے اس عہدے تک پہنچنے سے روکتے ہوئے بیان دیا: ’’اب ہم اپنی ججوں کی اتنی توہین کریں کہ ایک خاکروب کا بیٹا بھی جج بنالیں؟ میں کسی صورت ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘۔یہ بیان جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر بلکہ پورے عالم عرب میں پھیل گیا اور وزیر انصاف کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ جنرل سیسی نے اس کی جگہ حسنی مبارک کے زمانے کے ایک بدنام زمانہ جج احمد الزند کو وزیر انصاف بنادیا۔ صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدارمیں اس شخص نے عدلیہ کے محاذ پر انھیں سب سے زیادہ تنگ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے خلاف مالی بدعنوانی کے درجنوں مقدمات اس وقت بھی عدالتوں میں ہیں، جن میںایک مقدمے کے مطابق اس نے سرکاری خزانے کے ۲۰ملین پاؤنڈچرائے تھے۔ یہ وہی جج ہے، جس نے ایک بار مصری عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا: نحن السادۃ و غیرنا عبید ’’ہاں ہم آقا اور باقی لوگ ہمارے غلام ہیں‘‘۔
اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ کیا صدر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کو دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کیا جاسکے گا؟ غیب کا علم اللہ کو ہے، لیکن اس سوال کا ایک جواب ان سزاؤں کا اعلان ہونے پر عالمی ردعمل کے آئینے میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی انصاف پسند شہری ایسا ہو کہ جس نے اس فیصلے پر سیسی اور اس کی عدالتوں کی ملامت و مذمت نہ کی ہو۔ مغربی ممالک اور عالمی صحافت کو بھی اس ملامت میں شامل ہونا پڑا ہے۔تاہم، ایک اسرائیلی اخبار نے اس سزا پر عمل درآمد کی مخالفت کرتے ہوئے تاویل کی: ’’مرسی کو پھانسی نہیںدینا چاہیے وگرنہ وہ مصری قوم کے بجاے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ہیرو بن جائے گا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دی گئی تھی اور وہ بھی آج تک بہت سے لوگوں کا ہیرو ہے اور اس کی فکر و فلسفہ عام ہورہا ہے‘‘۔ لیکن ایک دوسرے اسرائیلی اخبار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ’’مرسی اور اس کے ساتھیوں کی سزا نافذ کردینا چاہیے‘‘۔
جنرل سیسی کے بیرونی آقاؤں کی ہدایات کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے کہ جنرل سیسی اور اس کے ساتھیوں کا انجام مصر کے سابق فرعونوں کی طرح عبرت ناک ہوگا۔ دوسال سے ظلم کے پہاڑ توڑے جانے کے باوجود مصری عوام کی تحریک ایک دن کے لیے بھی نہیں رکی۔ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول: ’’صدر محمد مرسی کے خلاف سزاے موت کا فیصلہ سنانے والے بہت جلد تاریخ کے کوڑے کے ڈھیر پر دکھائی دیں گے‘‘۔ ترکی اب سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک کو ساتھ لے کر ان مظالم کے خلاف عالمی جدوجہد کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں، دنیا کے باضمیر شہری اور مسلم حکومتیں اس ضمن میں اپنا کردار مسلسل ادا کرتی رہیں۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ اس سیاہ فیصلے کے تین روز بعد امریکی کانگریس کی اُمورِخارجہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس نے اس انسانیت کش فیصلے سے ’صرفِ نظر‘ کرنے اور خطے میں ’اپنے اہداف‘ کو مقدم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
مصر اپنے فرعونوں کے لیے جہنم کب بنے گا؟ اس کا علم تو صرف پروردگار کو ہے، لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی پھانسی کا حکم سن کر قرآن کا فرمان دہرایا ہے:قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَیْدِیْنَا فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَo(التوبہ ۹:۵۲)’’ان سے کہو ’’تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزادیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمھارے ساتھ منتظر ہیں!‘‘
یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان بے مثال ہے۔ آپؐ کی عطا کردہ دُعاؤں سے بہتر اور جامع دُعا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فرمان نے ہر بحران سے نجات کی راہ دکھا دی، جس میں آپؐ فرماتے ہیں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ، پروردگار ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ زندگی کے جس فیصلے پر اس سنہری اصول کا اطلاق کریں ہمارے لیے دوجہاں کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔
خلیج کے حالیہ بحران ہی کو دیکھ لیجیے، دونوں طرف اتنی شدت اور سختی ہے کہ درست راے کا اظہار تک ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ یمن کے حالات پر، ٹھوس حقائق کی روشنی میں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ چند گزارشات پیش کیں تو دونوں طرف سے جان لیوا دشنام و الزامات سننے کو ملے: ’’کتنے ڈالر لیے ہیں؟‘‘، ’’تم لوگوں نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے‘‘، ’’تمھیں ایران نے خرید لیا ہے‘‘، ’’تم سعودیہ کے غلام ہو‘‘۔ الحمد للہ، ان میں سے کسی گالی کا جواب نہیں دیا، معاملہ کائنات کے رب کے سپرد ہے، وہ یقینا دوجہاں میں حق کو حق اور باطل کو باطل کرنے والا ہے۔
آئیے، ایک بار پھر کامل غیرجانبداری سے یمن کے سارے معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں چار بنیادی فریق ہیں: وہاں کے باغی حُوثی قبائل، ۳۳سال تک حاکم مطلق بنا رہنے والا آمر علی عبد اللہ صالح اور اس کی حامی فوج، قومی اتفاق راے سے وجود میں آنے والی عبوری حکومت کے سربراہ عبد ربہ منصور ہادی اور اس کی حامی فوج، اور یمن کی الاخوان المسلمون سمیت دیگر اہم سیاسی جماعتیں، لیکن اس وقت ان چاروں فریقوں سے زیادہ اہم کردار سعودی عرب اور ایران کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔
باغی حُوثی قبائل یمن کے شمال میں سعودی عرب سرحدوں پر رہتے ہیں اور صعدہ نامی شہر ان کا اہم مرکز ہے۔ یہ قبائل گذشتہ تقریباً ۱۰ برس سے مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔ سابق آمر نے بھی اپنے اقتدار کے آخری چھے سالوں میں ان کی ساتھ چھے اہم جنگیں لڑیں۔ لڑائی چونکہ سعودی سرحدوں پر ہورہی تھی، اس لیے اس نے سعودی عرب سے بھی بھرپور تعاون حاصل کیا۔ یہی سبب، یعنی لڑائی کا سعودی سرحدوں پر ہونا، حُوثی قبائل کے لیے ایرانی تعاون کا دروازہ کھولنے کا سبب بناہے۔ دوسری طرف یہ راز بھی کھلا کہ ایران نے بالخصوص بحری راستوں سے ان قبائل تک اسلحہ اور وسائل بھی پہنچائے اور باغی حُوثی قبائل کے نوجوانوں کو ایران اور حزب اللہ کے مختلف کیمپوں میں لے جاکر ان کی عسکری تربیت بھی کی۔
۲۰۱۱ء میں جب بعض عرب ممالک سے ’عرب بہار‘ کا جھونکا آیا، تو یمنی عوام بھی ۳۳سالہ آمریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ دیا۔ دوران تحریک اس پر ایک انتہائی شدید قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں اس کے کئی قریبی ساتھی مارے گئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر بھی اس کی مکمل سرپرستی کی، اسے ریاض لے جایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد اسے واپس یمنی دارالحکومت صنعاء میں لابٹھایا۔ لیکن جب عوامی تحریک، اس کے حامی اور مخالف عناصر کے مابین باہم مسلح جنگ میں بدل گئی اور اس کا اقتدار میں رہنا، ناممکن دکھائی دینے لگا، تو سعودی عرب نے دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر علی عبد اللہ صالح کو اقتدار سے دست بردار ہونے اور گذشتہ ۱۶سال سے اس کے نائب صدر چلے آنے والے عبد ربہ منصور ہادی کو عبوری صدر بنانے پر آمادہ کرلیا۔ اس موقعے پر وہاں بھی ایک NRO وجود میں آیا اور انتقال اقتدار کی شرائط میں یہ بات شامل کروادی گئی کہ علی صالح صنعاء ہی میں رہے گا، اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، اور اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
علی صالح کو یمنی عوام ’عیار لومڑ‘ کے لقب سے پکارتے ہیں۔ اس عیاری کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف ۲۹ مارچ کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’جب اس کے خلاف یمنی عوام کی تحریک عروج پر تھی تو اس نے امریکی افواج کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ڈرون حملوں اور زمینی کارروائیوں کے ذریعے القاعدہ عناصر کا صفایا کردیں۔ لیکن عین اسی روز اس نے قصر صدارت میں یمن میں القاعدہ کے سربراہ سامی دیان کے ساتھ خفیہ ملاقات کی اور اسے کہا کہ ہم ضلع ابین سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں آپ لوگ وہاں اپنا اثر و نفوذ بڑھا لیں۔ اخبار کے مطابق یہ واقعہ اقوام متحدہ کے علم میں بھی آچکا ہے‘‘۔ اس نے اپنے ۳۳ سالہ دور اقتدار میں ریاست کو اپنی باندی اور عوام کو غلام بنائے رکھا۔ ہر اہم ادارہ بالخصوص فوج اپنے بیٹے احمد، دیگر رشتہ داروں اور اپنے قبیلے کے سپرد کردی اور غریب عوام کی دولت سے ذاتی تجوریاں بھرلیں۔ اس نے مجبوراً مسندصدارت سے معزولی تو قبول کرلی، لیکن اقتدار پھر بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر رہا۔ فوج تقسیم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ صاحبزادے اور قبیلے کے دیگر وفادار جرنیلوں نے زیادہ تر اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس نے دوسرا خطرناک ترین اقدام یہ کیا کہ انھی باغی حُوثی قبائل جن کے ساتھ وہ گذشتہ چھے برس سے برسرِپیکار تھا، سازباز کرلی۔ اب یہ حُوثی قبائل صعدہ سے نکل کر دیگر شہروں کی طرف بھی پیش قدمی کرنے لگے اور پھر دیکھتے، دیکھتے وہ ایک روز دارالحکومت صنعاء پر آن قابض ہوئے۔ علی صالح کی وفادار فوج نے ہر جگہ ان کے لیے ہراول دستے کا کام کیا۔
صنعاء پر قبضے کے ساتھ ہی ایران بھی اس پوری لڑائی کے ایک اہم ترین فریق کی صورت میں کھل کر سامنے آنے لگا۔ دارالحکومت پر قبضے کے تیسرے روز صنعاء اور تہران کے مابین روزانہ دو باقاعدہ پروازیں شروع ہوگئیں۔ اس رُوٹ پر مسافر نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن روزانہ ایران ایئر کے دو بڑے جہاز آتے جاتے رہے۔ کیوں؟جواب جاننے کے لیے عسکری ذہن ہونا ضروری نہیں۔
اب ذرا یمن کی چھوٹی تصویر کے بجاے شرقِ اوسط کی بڑی تصویر سامنے لائیے۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے لے کر پورا ملک شیعہ سُنّی اور کرد ، عرب تضاد بلکہ ٹکرائو کی دلدل میں دھنسا دیا گیا۔ صدام حسین جیسے آمر سے نجات دلانے کے نام پر عوام کو باہم ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا گیا۔ امریکی قبضے کے بعد عوامی مزاحمت کے باعث امریکیوں کو دانتوں پسینہ آنے لگا، تو اس نے انتہائی عیاری سے اس مزاحمت کا رُخ اپنی بجاے، شیعہ سنی آگ کی طرف موڑ دیا۔ اس خوں ریزی کے نتیجے میں بلامبالغہ لاکھوں عراقی شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہاں ایک عجیب تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ ’شیطان بزرگ‘ امریکا نے صدام کے بعد آج تک عراق میں انھی افراد کو حکومت سونپی جو مکمل طور پر ایران کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ عالم عرب میں اس تضاد کو ’ایران امریکا خفیہ گٹھ جوڑ‘ کا نام دیا گیا، لیکن یہ درحقیقت عراقی خانہ جنگی کی آگ پر چھڑکا جانے والا امریکی تیل ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ اس بارے میں بہت زیادہ حساسیت کا شکار ہیں۔ کئی لاکھ ایرانی شہری عراق میں لا بسانے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ عراق میں اصل مقتدر ایران ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایران پر کڑی اقتصادی پابندیوں کے خفیہ علاج کے ڈانڈے بھی عراقی سرزمین سے ملائے جاتے ہیں۔
ادھر ’عرب بہار‘ کو خزاں میں بدلنے کی آمرانہ کوششوں کے نتیجے میں شام ایک کھنڈر اور کسی ویران قبرستان کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ بشار الاسد اور اس کے بعثی آمر باپ حافظ الاسد نے اپنے عوام اور علاقائی قوتوں کو دکھانے کے لیے اپنے ہاتھ میں ایک کارڈ اسرائیل کے سامنے مزاحمت کا بھی اٹھا رکھا تھا۔ اسی بنیاد پر پڑوسی ملک لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ دونوں کے مضبوط قریبی تعلقات تھے۔ بشار کو اپنے عوام کے ہاتھوں سنگین خطرات لاحق ہوئے تو اس نے حزب اللہ اور ایران سے بھی کھلم کھلا معاونت حاصل کی۔ پہلے تو یہ ایک الزام سمجھا جاتا تھا لیکن اب خود حزب اللہ اور ایران کے ذمہ داران اعلان کرتے ہیں کہ ان کے ’رضا کار‘ شام میں بشار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شام میں مارے جانے والے اپنے افراد کو، لبنان اور ایران لاکر ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ اب اگر ان تمام کڑیوں کو ملا کر دیکھیں، تو یمن کی حالیہ جنگ کی اصل سنگینی سامنے آئے گی۔ یمن ہی نہیں بدقسمتی سے پورا شرقِ اوسط لہو لہو ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور باہم کئی اختلافات کا شکار خلیجی ریاستیں ہیں، تو دوسری جانب ایران جو شمال میں عراق، شام اور لبنان کے راستے بحیرۂ روم تک جا پہنچا ہے اور اب جنوب میں یمن کے باغی حُوثی قبائل اور سابق صدر علی صالح کی پشتیبانی کررہا ہے۔ ایسے عالم میں نہ صرف خلیجی ریاستیں خود کو شمال و جنوب سے ایک بڑے شکنجے میں جکڑا دیکھتی ہیں، بلکہ خود بعض ایرانی ذمہ داران نے بھی انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر ان کے اس احساس کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں ایرانی خفیہ ادارے کے سربراہ حیدر مصلحی اور اور تہران سے قومی اسمبلی کے رکن علی رضا زاکانی سمیت کئی افراد کے بیانات خود ایرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم چار عرب دارالحکومتوں (بغداد، دمشق، بیروت، صنعائ) میں حکومت کررہے ہیں اور عنقریب اب پانچویں دارالحکومت کی طرف بڑھیں گے۔ زاکانی صاحب نے تو ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اس امر پر اظہار تشکر کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں قدس بریگیڈ نے عراق و شام کو بچا لیا۔
اس گمبھیر صورت حال میں صنعاء پر حُوثی قبائل کے قبضے، انھیں فضائی اور بحری راستوں سے اسلحے کی مسلسل ترسیل اور ان قبائل کی طرف سے سعودی سرحدوں پر وسیع عسکری نقل و حرکت نے وہ دن دکھایا کہ ۲۶ مارچ کو سعودی عرب کی طرف سے ’’فیصلہ کن طوفان: عَاصِفَۃُ الحَزَم‘‘ کے نام سے یمن پر فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ اگرچہ ۲۶ روز کے ان حملوں کے بعد ’فیصلہ کن طوفان‘ روکنے اور: ’’اُمیدوں کی بحالی: اِعَادَۃُ الأَمَل‘‘ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن یہ جنگ تاحال رُکی نہیں، اور تب تک جاری رہے گی جب تک یمن میں باغی قبائل کے قبضے کی بجاے، قومی اتفاق راے سے کوئی حکومت وجود میں نہیں آجاتی۔
بدقسمتی سے شرقِ اوسط میں جاری یہ تہ در تہ لڑائیاں صرف جغرافیائی اور علاقائی نفوذ کی لڑائیاں نہیں رہیں۔ نہ یہ اختلافات صرف شیعہ و سُنّی اختلاف تک ہی محدود ہیں۔ اب اس میں خودشیعہ ملیشیا کے مقابل مختلف شیعہ گروہ اُٹھائے جارہے ہیں۔ بالخصوص عراق میں موجود کئی گروہ خود بنیادی شیعہ عقائد ہی کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ اہل سنت کے خلاف خود اہل سنت مسلح گروہ (داعش) اُٹھائے جارہے ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مصر میں الاخوان المسلمون کے خلاف کی جانے والی بدترین کارروائی کا دائرہ خود سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ریاستوں تک بڑھادیا گیا تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس پوری لڑائی میں طرفین سے چوٹی کے ذمہ داران اس آگ کو بجھانے کے بجاے اسے مزید بھڑکانے کی بات کررہے ہیں۔ رہبر قوم آیۃ اللہ العظمیٰ جناب علی خامنہ ای صاحب سے بلند مقام کس ہستی کا ہوگا۔ انھوں نے بھی ۹؍اپریل کو تہران میں منعقدہ ایک اہم دینی تقریب میں سعوی عرب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا: ’’ یمن میں سعودیوں کی جیت کا امکان صفر ہی نہیں، منفی صفر ہے۔ یقینا وہاں سعودیوں کی ناک مٹی میں رگڑ دی جائے گی‘‘۔ جناب علی خامنہ ای صاحب نے اپنے اسی خطاب میں امریکا ایران ایٹمی معاہدے پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں نہ اس معاہدے کی تائید کرتا ہوں نہ مخالفت کیوں کہ ابھی تک یہ معاہدہ کچھ ہے ہی نہیں‘‘ واضح رہے کہ معاہدے پر حتمی دستخط جون میں ہونا ہیں۔ ان کا یہ جملہ ایرانی ڈپلومیسی کا بین ثبوت ہے، لیکن افسوس کہ معاملہ ایک مسلمان ملک کا تھا تو وہ شمشیر برہنہ بن کر برسے۔ ادھر حزب اللہ کے سربراہ جناب حسن نصر اللہ صاحب نے بیروت میں اپنی ۴۵ منٹ کی براہِ راست نشر ہونے والی دھواں دھار تقریر میں سعودی عرب اور ’وہابیت‘ کے خوب خوب لتے لیے۔ اور تیسری جانب امام کعبہ جناب عبد الرحمن السدیس صاحب نے خطبۂ جمعہ میں اسے صفویت و شیعیت اور اہلسنت کے مابین فیصلہ کن معرکہ قرار دے دیا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جلتی پر تیل کا کام مسلسل کررہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان اور ترکی کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں طرفین کے حق اور طرفین کے خلاف شعلہ بار تجزیے اور بیانات کے بعد پارلیمنٹ کی جو قرار داد آئی، اسے عالمِ عرب نے اپنے خلاف اور ایران نے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ حسن نصر اللہ صاحب نے سعودی عرب کے خلاف اپنے انتہائی جارحانہ خطاب میں اس قرار داد کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ اس نے سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کے اس خطاب نے بھی عرب عوام میں پھیلایا جانے والا یہ احساس گہرا کیا کہ ہمارا فطری حلیف پاکستان ہمیں درپیش خطرات کے وقت ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔
یقینا پاکستان اور ترکی کو اس جنگ میں اضافے کا سبب نہیں بننا چاہیے لیکن اس وقت سعودی عرب میں یہ خطرہ و احساس حقیقی اور گہرا ہے کہ اسے چہار اطراف سے گھیرا اور تنہا کیا جارہا ہے۔ ایسے عالم میں پاکستان یمن میں اپنی افواج اتارے بغیر بھی سعودی عرب کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ پاکستان اس کی سلامتی کو درپیش خطرات سے لاتعلق نہیں۔ عالم عرب میں یہ تجزیہ و اظہار شدومد سے کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان جیسا ایٹمی ملک اس موقعے پر اپنی افواج سعودی عرب بھجوا دیتا ہے، تو خطے میں ایک نفسیاتی احساس اجاگر ہوگا کہ اس کا دفاع مضبوط ہے، اور اب جنگ کو مزید وسعت دینا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اگر پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک باہم مل کر سفارت کاری کا ایسا عمل شروع کریں کہ جس میں ایران و سعودی عرب کو ساتھ لے کر یمن میں حتمی جنگ بندی، قومی اتفاق راے سے قائم حکومت کی بحالی اور شفاف انتخابات کے ذریعے آیندہ حکومت کا قیام یقینی بنایا جاسکے، تو یہ اقدام نہ صرف یمن میں استحکام و ترقی لائے گا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثبت نظیر ثابت ہوگا۔ رب ذو الجلال کے ارشاد کے مطابق کہ: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، آج سعودی عرب اور دیگر ریاستوں میں احساس اجاگر ہوا ہے کہ ہمیں بالآخر اپنے عوام سے صلح کرنا ہوگی۔ سینئر سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی جو خود سعودی قیادت سے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ’’اخوان کو کچلنے کی ہوس نے خلیج کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے‘‘۔موجودہ سعودی قیادت کے سامنے یہ سوال کئی اطراف سے سامنے آیا ہے کہ کل تک صدر محمد مرسی جیسے منتخب آئینی صدر کے خلاف کارروائی کرنے والے آج یمن کے آئینی صدر کو بچانے کا دعویٰ کیوں کر کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر میں کی جانے والی غلطی کو بنیاد بنا کر اس کا اعادہ یمن میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بالآخر سب کو مل کر مصر میں ہونے والی غلطی کے مداوے کی سبیل نکالنا ہوگی۔
آج یمن اور شرقِ اوسط کے ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حالیہ اسلامی تاریخ کے وہ تمام زخم تازہ ہورہے ہیں کہ جب سب فریق جانتے اور مانتے تھے کہ وہ امریکی و صہیونی منصوبوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دشمن کی ناپاک چالوں اور مہلک جال سے آزاد نہیں کرواسکے۔ستمبر ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک عراق و ایران کے مابین تباہ کن جنگ کے وقت بھی یہی ہوا۔ افغان سرزمین نے بھی یہی تلخ حقیقت دیکھی۔ اہل فلسطین بھی اسی زہر خورانی کا شکار ہوئے (یاسر عرفات کو بالآخر صہیونی گماشتوں نے ہی زہر دے کر مارا)، اور آج ایران و سعودی عرب کو بھی اسی جال میں پھانسا جارہا ہے۔ یمن، عراق، شام، لبنان، مصر، لیبیا، صومالیہ، ہر جگہ وہی نسخہ ہے اور وہی ہلاکتیں۔ آج سب سے مطمئن، محفوظ اور شاداں صہیونی ریاست اور امریکا ہے۔ وہ ہمیں ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ذبح کروا رہے ہیں۔ آئیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر، اخلاص و زاری سے پکاریں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ۔
فرانسیسی رسالہ ہو یا کوئی اور بدنصیب، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لیے اللہ کا فیصلہ ازلی و ابدی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ قف فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِo (الرعد۱۳:۳۲) ’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرِ کار ان کو پکڑلیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی‘‘۔گویا اگر یہ لوگ تائب نہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کے لیے عذاب و عتاب اب بھی یقینی ہے، بس ذرا سی مہلت ملی ہے جسے وہ اپنی جیت اور غلبہ سمجھ رہے ہیں۔
چارلی ایبڈو نے پہلی بار نہیں، مسلسل گستاخیاں کی ہیں۔ ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ چار کارٹونسٹ اور آٹھ دیگر افراد کے مارے جانے کے باوجود بھی اپنا رویہ بدلنے پر تیار نہیں۔ اصرار و تکرار سے دوبارہ خاکے بنائے اور اعلان کیا ہے کہ وہ یہ گستاخیاں مسلسل جاری رکھے گا۔ ۷جنوری ۲۰۱۵ء کو رسالے کے دفتر پر حملے سے پہلے فرانس میں مقیم متعدد مسلمان تنظیموں نے فرانسیسی عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے کہ رسالے کو اس جسارت سے روکا جائے جس سے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی روح زخمی ہوتی ہے۔ عدالت نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے، کامل رعونت سے جواب دیا :’’ ہم آزادیِ اظہارِ راے پر قدغن نہیں لگاسکتے، اخبارات آزاد ہیں، جو چاہیں شائع کریں‘‘۔
نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے دہرے معیار ملاحظہ کیجیے۔ اسی رسالے نے سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال (۱۸۹۰ئ-۱۹۷۰ئ)کے انتقال کے بعد اس کا مذاق اڑایا تھا۔ تب اس کا نام ’ہارا کیری‘ ہوا کرتا تھا۔ آزادیِ اظہارِ راے کا دعوے دار پورا ملک اور حکومت اس پر چڑھ دوڑی اور اس پر پابندی لگادی گئی جس نے ایک ’قومی ہیرو‘ ڈیگال کی شان میں گستاخی کی تھی۔ ۱۹۷۰ء میں اس رسالے نے دوبارہ اور نئے نام سے کام شروع کیا۔ پھر ہر کسی کا استہزا اُڑانے لگا۔ لیکن اپنی حرکتوں کے باعث۱۹۸۱ء میں پھر بند ہوگیا اور ۱۹۹۲ء میں اپنے حالیہ نام سے جاری ہوا۔ پھر ایک بار سابق فرانسیسی صدر نیکولاسرکوزی کے بیٹے کا مذاق اُڑاتے ہوئے اس کے یہودی ہونے کا بھی ذکر کردیا۔ آزادیِ اظہارِ راے کی جگالی کرنے والوں نے اسے یہودیت کے خلاف نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے اس بار بھی اسے متعلقہ صحافی کو نکال باہر کرنے پر مجبور کردیا۔
معاملہ صرف ایک اخبار، رسالے یا چند توہین آمیز خاکوں کا نہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم کا ہے۔ صدر بش کے اس بیان کہ: ’’ہم ایک صلیبی جنگ شروع کرنے جارہے ہیں‘‘ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ نادانستگی میں کہے گئے الفاظ (Slip of Tongue) تھے، لیکن پیرس کے واقعے کے بعد رسالے اور اس کے مقتولین کے خلاف جو مظاہرہ ہوا اس میں بہت سے شرکا صلیبی جنگوں کے دوران استعمال کیا گیا، صلیبی سپاہیوں کا لباس پہن کر شریک ہوئے۔ اس کے بعد بھی کئی ملکوں میں کئی تنظیموں اور کئی اخباروں کے ذریعے وہی صلیبی جنگوں کے بگل بجاے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں صہیونی اخبارات پیش پیش ہیں۔
ہالینڈ کی ایک سیاسی جماعت کا سربراہ گیراتھ فلڈرز جو خود بھی متعدد گستاخانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرچکا ہے، گویا ہوا کہ ’’ہم طویل عرصے سے اسلام کے ساتھ جنگ لڑرہے ہیں‘‘۔ اسی طرح کے بیانات فرانس کے شدت پسند سیاسی رہنماؤں نے دیے۔ جن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک فرانسیسی دانش ور بوب ڈی رونر لکھتا ہے کہ : ’’طرفین (مسلمان اور مغرب) ایک ایسی جنگ میں کودنے کی تیاریاں کررہے ہیں، کہ جس میں تشدد کا کسی بھی حد تک چلے جانا بعید نہیں، اور میرے خیال میں طرفین کو اس ساری قیامت سے خسارے اور نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا‘‘۔
صہیونی اخبارات اس جلتی پر تیل ڈالنے میں سرفہرست ہیں۔ حکومتی اخبار اسرائیل ٹوڈے میں ڈان مرگلیت لکھتا ہے: ’’یورپ میں روزافزوں اسلامی دہشت گردی کے حقیقی خطرے سے وہاں کی حکومت اور ذرائع ابلاغ غافل ہیں۔ سیاسی اسلام اور دور جدید کے نازی پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنا غلام بنانا اور انسانوں کی آزادی و عزت کو قدموں تلے روند دینا چاہتے ہیں۔ شدت پسند اسلام، مغربی تہذیب، جمہوریت، مسیحیت اور یہودیت سے تصادم چاہتا ہے‘‘۔
اسرائیلی روزنامہ ھارٹز لکھتا ہے: ’’پیرس حملہ انتہائی اسٹرے ٹیجک کارروائی ہے جس کا ہدف صرف فرانس نہیں، ساری کی ساری آزاد دنیا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری اور صحافتی اداروں کو اس کارروائی سے متاثر ہوئے بغیر، پوری جرأت و عزم کے ساتھ آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے خلاف اس غلیظ کارروائی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا‘‘۔
ایک اور صہیونی ناسم ڈینا اسرائیل ٹوڈے میں لکھتا ہے: ’’اسلام جب سے آیا ہے، ساری دنیا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اب یورپ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے، یہ لوگ اپنے بچوں کو عیسائی اور یہود دشمنی سکھاتے ہیں۔ بالخصوص جمعے کے روز یہ اپنے عقیدہ و ایمان کی آبیاری کرتے ہوئے، اپنے لوگوں کو غیر مسلموں کے خلاف اُکساتے ہیں، لیکن مغربی ممالک ان کا کوئی علاج کرنے کے بجاے، حقوق انسانی اور جمہوریت جیسے اُصولوں پر مصر ہیں‘‘۔
صہیونی روزنامہ معاریف میں افشائی عبری یورپ کو مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن حملہ کرنے پر اُکساتے ہوئے لکھتا ہے: ’’دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پیچھے اصل ہاتھ اسلام کا ہے... اس خطرے کا ایک ہی اصل حل ہے اور وہ یہ کہ یورپ میں مقیم مسلمانوں کو ان بیرونی افواج کا ہراول دستہ سمجھا جائے جو یورپ پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں‘‘۔ مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’یورپ ابھی تک عالمی جنگوں کے صدمے سے نہیں نکل پایا، اور وہ جنگوں کو ایک انتہائی خوف ناک مصیبت سمجھتا ہے، لیکن اگر اس نے آج جنگوں کی ناگزیریت کو نہ سمجھا تو اسے جلد اس سے بھی زیادہ خوف ناک حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا، اور وہ ہے اس جنگ میں ہزیمت‘‘۔
ان چند مثالوں سے اس اصل خطرناک، نفرت آمیز اور تباہ کن ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو ان توہین آمیز خاکوں کے پیچھے کارفرما ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کسی براے نام مسلمان کے لیے بھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ وہ شاید سب کچھ برداشت کرلے، لیکن اپنے نبی محترمؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ دنیا کو یہ حقیقت بھی بخوبی معلوم ہے کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن کریم اور دلوں میں حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم باقی ہے، انھیں تباہی اور فنا کے گھاٹ نہیں اتارا جاسکتا۔ یہی وہ آخری حصار ہے جس میں آکر اُمت مسلمہ اپنے ہر اندرونی و بیرونی دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ اس لیے اب انھوں نے اس آخری حصار پر پے درپے حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ سلمان رُشدی یا تسلیمہ نسرین جیسے بدنصیب و ملعون ہوں، یا ڈنمارک کے اخبارات میں خاکے شائع کرنے والے، امریکی پادری ٹیری جونز کی طرف سے قرآن کریم جلانے کے اعلانات ہوں یا قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) فتنہ قرار دیتے ہوئے فلمیں تیار کرنے کی مکروہ حرکتیں، سب اسی ناپاک سلسلے کی غلیظ کڑیاں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خود نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے بھی آئے دن مختلف درفنطنیاں چھوڑی جاتی ہیں، تاکہ ان کے ذریعے خود مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا تقدس ختم ہوتا چلا جائے۔ کبھی مساوات مردوزن کے نام پر، کم لباس خواتین کو مردوں کی صفوں میں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑا کرکے، کسی بدنام زمانہ خاتون سے نماز کی امامت کروائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں، مخصوص خانہ ساز خبروں کی گردان کی جاتی ہے، مثلاً یہ کہ ’’دہشت گرد بے گناہوں کو قتل کرکے جنت میں جانا چاہتے تھے‘‘۔ اور پھر جنت اور قرآن کریم میں بیان کی گئی اس کی نعمتوں اور حوروں ہی کو اپنے زہریلے طنز و مزاح کا محور بنادیا جاتا ہے۔
یہ اور ایسی دیگر حقیر حرکتیں کوئی نئی بات نہیں۔ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان بعثت ہی سے ان کا آغاز ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ایسے آوازے کسے اور دشنام بازی کی گئی کہ اخلاق و تہذیب کی تمام حدیں مسمار ہوگئیں۔ آپؐ کے اہل خانہ اور ازواجِ مطہراتؓ کو بھی سب و شتم اور قذف و اتہام کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام آزمایشوں اور تکلیفوں کے باوجود، اپنے اصل مشن اور نصب العین کوایک لمحے کے لیے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ خود پروردگار عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی فرماتے ہوئے اطلاع دی کہ آپؐ کے پیغمبرِ برحق ہونے کی ایک نشانی، مخالفین و اعداء کا آپے سے باہر ہوجانا بھی ہے۔ آپؐ سے پہلے بھی جو انبیا مبعوث کیے گئے، انھfیں بھی ان تمام تکالیف کا سامنا کرنا پڑا:
وَ لَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَـ(الانعام۶:۱۰) ’’اے نبی ؐ ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلّط ہوکررہی جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے‘‘۔ وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ ْنَ (الحجر۱۵:۱۱)’’ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسُول آیا ہو اور انھوں نے اُس کا مذاق نہ اُڑایا ہو‘‘۔ یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ ج مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِؤُنَ (یٰسٓ: ۳۶:۳۰) ’’افسوس بندوں کے حال پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا، اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے‘‘۔وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِؤُنَ (الزخرف۴۳:۷) ’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی ؑان کے ہاں آیا ہو، اور انھوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو‘‘۔
تب سوال یہ بنتا تھا اور آج بھی بنتا ہے کہ ان تمام استہزائیہ جسارتوں کا سامنا کیسے کیا جائے؟ اس کا جواب بھی ربِّ کائنات ہی کی طرف سے عطا ہوتا ہے: فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا وَ مِنْ اٰنَآیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۳۰)’’ پس اے نبیؐ ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، سُورج نکلنے سے پہلے اور غرُوب ہونے سے پہلے ، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہوجاؤ‘‘۔ دشمن کی زبان سے ملنے والی ایذا رسانیوں کے جواب میں صبر اور تسبیح و تحمید کی بالکل یہی تعلیم سورئہ قٓ کی آیت ۳۹ میں بھی دی گئی۔ ایک موقعے پر یہ بھی ارشاد ہوا کہ اے میرے حبیب آپ اپنے کام میں لگے رہیے، ان مذاق اُڑانے والوں کے مقابلے میں ہم ہی آپ کے لیے کافی ہیں۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ o (الحجر۱۵:۹۴-۹۵) ’’پس اے نبی ؐ ، جس چیز کا تمھیں حکم دیا جا رہا ہے اُسے ہانکے پُکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمھاری طرف سے ہم اُن مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام اس دشنام و مذاق پر دل گرفتہ ہوئے تو مزید ارشاد ہوا: وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ o فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ o (الحجر۱۵:۹۷-۹۸) ’’ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پربناتے ہیں اُن سے تمھارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے ۔ (اُس کا علاج یہ ہے) کہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ‘‘۔
آپؐ کے صاحب زادے ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا، تو کم ظرف دشمن نے جڑیں کٹ جانے کا طعنہ دیا۔ رب ذو الجلال نے قیامت تک کے لیے فیصلہ کردیا کہ: اِِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ o (الکوثر۱۰۸:۳) ’’آپ کا مذاق اُڑانے والا ہی جڑ کٹا ہے‘‘۔ آپؐ کے مخالفین اور دشمنانِ دین نبی کا الْاَبْتَر ہونا اس قدر حتمی اور یقینی تھا کہ اہل ایمان سے پہلے خود دشمنوں کے دلوں نے اس کی گواہی دی۔ آپؐ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے کتنے ہی نامور سلاطین اور عالمی نظام ایسے طلوع ہوئے کہ ایک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، لیکن پھر یوں غروب ہوئے کہ اپنے گھروں کی دہلیزوں کے لیے بھی اجنبی ہوگئے۔ آج بھی سلمان رُشدی جیسے بدنصیب، گستاخیِ رسولؐ کے صلے میں خواہ درجنوں مغربی ایوارڈ اپنی کلغیوں پر سجائے پھریں، ان کا جڑ کٹا اور ناپید ہونا، خود ان کے اپنے وجود سے زیادہ یقینی ہے۔
اس سوال پر غور کرنے سے پہلے کہ نبی مہربان کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کے جواب میں، آج مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہو؟ آئیے ایک کوشش ان کے اسباب جاننے کی کرتے ہیں۔
اس شر و فساد کی سب سے بڑی وجہ تو یقینا شیطان اور اس کے چیلوں کی دین اسلام سے نفرت و عداوت ہے، جو مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں سامنے آتی رہتی ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار میں شائع شدہ سابق الذکر یہ جملہ اسی ازلی عداوت کی کہانی بیان کررہا ہے کہ ’’اسلام جب سے آیا ہے ساری دنیا سے برسرپیکار ہے‘‘۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے یہ شیطانی دشمنی اب اس لیے عروج پر ہے کہ عیسائیت خود یورپ میں سکڑتی جارہی ہے۔ ہزاروں چرچ بے آباد ہوکر فروخت ہوچکے ہیں۔ مذہب سے مغرب کا تعلق براے نام ہوتا چلا جارہا ہے۔ مذہب کو چند رسوم تک محدود کردینے سے پورے مغربی معاشرے کی تاروپودبکھر چکی ہے۔ کئی ممالک باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے شادی کے بندھن اور خاندانی نظام کی بجاے، مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادی کو تحفظ دے رہے ہیں۔ قومِ لوطؑ پر جب عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو رب ذوالجلال نے ان کی فرد جرم سناتے ہوئے فرمایا تھا: وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ o (العنکبوت۲۹: ۲۹) ’’اب تو تم کھلم کھلا مجالس میں اس فعل مکروہ کا ارتکاب کرنے لگے ہو‘‘۔ آج مغرب میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان انسان نما مخلوق، مجالس میں اس فعل شنیع پر فخر و مباہات کرتی ہے۔ اب تقریباً ہردستاویز میں باپ، شوہر یا بیگم کا نام پوچھنے کے بجاے، ماں اور ساتھی (partner) کا نام پوچھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاشرے کی ایک بڑی تعداد (بعض ممالک میں ۶۴فی صد) کو اپنے باپ کا نام یا تو معلوم نہیں، یا اس سے کسی طرح کا کوئی تعلق باقی نہیں۔ یورپی شماریات کے ادارے یوروسٹیٹ (Eurostat) کے مطابق فرانس میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب ۸ئ۵۲ فی صد اور برطانیہ میں تناسب ۴ئ۴۵ فی صد ہے۔ اس پر کسی بھی طرح کی شرمندگی تو کجا، اس مادر پدر آزادی پر فخر کیا جاتا ہے اور اسی کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اسی تعفن زدہ تہذیب میں رہنے کے باوجود، مسلمانوں کی اپنے دین سے وابستگی میںنہ صرف مضبوطی اور پختگی آرہی ہے، بلکہ ان کی تعداد میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ رب کی قدرت اور اِِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ کی حقانیت ملاحظہ کیجیے کہ جب سے بعض شیطانی ذہنوں نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں شروع کی ہیں، یورپ میں آپؐ کی سیرت کے مطالعے اور قبول اسلام کے تناسب میں حیرت انگیز اضافہ ہواہے۔
نائن الیون کے بعد یورپ میں اسلامی مراکز کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔ گذشتہ ۱۰ برس میں فرانس میں ۱۰ کیتھولک چرچوں کا اضافہ ہوا، جب کہ اسی عرصے میں ۶۰ چرچوں کو تالے لگ گئے۔ دوسری جانب اس عرصے میں صرف فرانس میں مساجد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اسلامی مراکز کی موجودہ تعداد آیندہ ۱۰ برس میں دُگنی ہوجائے گی۔ فرانس کے بڑے بڑے مشاہیر، کھلاڑی اور فنکار دائرۂ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمان اب اپنے آپ کو زیادہ منظم کرتے ہوئے، اپنے سیاسی نفوذ کو بھی زیادہ مؤثر و مفید بنارہے ہیں۔ فرانس میں ایک سروے ہوا تو ۳۹ فی صد فرانسیسی عوام نے اسلام کو ایک معتدل اور دوسروں سے درگزر کرنے والا دین قرار دیا۔ اس وقت فرانس میں مسلمانوں کا تناسب ۵ئ۸فی صد ہے جو ان کے نزدیک بہت خوف ناک تعداد ہے لیکن اس سے بھی خوف ناک امر یہ ہے کہ ان کے اندازوں کے مطابق ۲۰۲۵ء یعنی آج سے ۱۰سال بعد یہ تناسب ملکی آبادی کا ۲۵ فی صد ہوجائے گا۔ اس پورے پس منظر میں اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے کا سلسلہ تیز تر کیا جارہا ہے۔
یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ان مکروہ سرگرمیاں کرنے والوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ قرآن اور صاحب ِقرآن کی شان میں گستاخیاں، صرف یورپ میں مقیم چند لاکھ نفوس کا مسئلہ نہیں، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پونے دو اَرب کے قریب مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ ان سفیہانہ اقدامات سے پوری اُمت کی روح مجروح اور دل زخمی ہوتے ہیں۔ امریکا میں بننے والی ایک اخلاق باختہ توہین آمیز فلم کے نتیجے میں، اگر لیبیا میں امریکی سفیر مظاہرین کے غم و غصے کا شکار بنتا ہے، فرانس میں اُڑائے جانے والے ناقابل بیان خاکوں پر چیچنیا تک میں لاکھوں انسان سڑکوں پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، تو چاہیے تو یہ تھا کہ انسان دوستی کے دعوے دار اہل مغرب ان ناپاک ہاتھوں کوروکتے جو بار بار ان جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ترقی، تہذیب، قانون کی عمل داری اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار نہ صرف چپ سادھے بیٹھے ہیں، بلکہ مجرموں کی پشتیبانی کررہے ہیں۔ وہی مغرب جو خود کو پرندوں اور حیوانات سے محبت کرنے والا ثابت کرتے نہیں تھکتا، جہاں یہودیوں کے اس دعوے، کہ ہولوکاسٹ میں ان کے لاکھوں افراد جلا دیے گئے کے بارے میں کسی شک کا اظہار کرنا بھی نسلی تعصب قرار پاتا ہے،جہاں باقاعدہ قوانین بنادیے گئے ہیںکہ ہولوکاسٹ کے بارے میں یہودیوں کی روایت کردہ کہانی سے متصادم بات کرنے والے کو کڑی سزا دی جائے گی، اسی مغرب میں پونے دو اَرب انسانوں کے ایمان پر آرے چلانا، عین آزادی قراردیا جارہا ہے۔
مغرب کے ان دہرے معیارات کے خلاف اب خود مغرب سے آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے پیش رو مسیحی پوپ کے برعکس حالیہ پوپ فرانسس نے بھی آزادی کے اس تصور کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’اگر کوئی میری ماں کو گالی دے گا تو اسے بھی میرے گھونسے کا منتظر رہنا چاہیے‘‘۔ یہاں تو معاملہ کسی ماں کا نہیں، اس سراپا رحمت ہستی کا ہے، جس کے سامنے دنیا کی تمام ماؤں کی محبتیں ہیچ ہیں۔ فن لینڈ کے وزیر خارجہ نے بھی آواز اُٹھائی ہے کہ خواتین کے خلاف کوئی بات کرے تو اسے شوفینزم کہا جاتا ہے، سیاہ فاموں کے خلاف بات کی جائے تو نسلی تعصب کہا جاتا ہے یہودیوں کے خلاف بات کی جائے تو سامیت کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے، تو آخر مسلمانوں کے نبی کے بارے میں بات کرنا ہی کیوں آزادی اظہار کہلاتا ہے؟
ترک اخبار زمان میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار نے عہد عثمانی میں فرانس، برطانیہ اور امریکا میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا ڈرامے پیش کرنے کی مختلف کوششوں کا احاطہ کیاہے۔ سلطان عبد الحمید نے یہ ڈرامے پیش کیے جانے کی اطلاع ملتے ہی، ان تمام جسارتوں کو ناکام بنایا۔ اس ضمن میں کبھی تو فرانسیسی صدر نکولس ساری کارنٹ (۱۷۹۶ئ-۱۸۳۲ئ) کے نام مؤثر خط کام آیا، کبھی برطانوی وزیرخارجہ رابرٹ سالسبری (۱۸۹۵ئ-۱۹۰۲ئ) کے ساتھ ذاتی روابط کو استعمال کیا گیا، اور کبھی سلطان عبد الحمید نے برطانیہ بہادر کو دوٹوک انداز میں خط ارسال کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس گستاخی کو فوراً روکا جائے، وگرنہ میں خلیفۂ وقت کی حیثیت سے پوری اُمت مسلمہ کو تمھارے خلاف جہاد کاحکم جاری کردوں گا‘‘۔افسوس کہ آج نہ تو عالم اسلام میں کسی ملک کو عثمانی خلافت کی قوت و سطوت حاصل ہے اور نہ کوئی حکمران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر تڑپ کر اُٹھا اور ہر سفارتی، ذاتی اور حکومتی نفوذ استعمال میں لاتے ہوئے، اس فتنے کی سرکوبی کرنے کی کوشش کرکے سرخرو ہوسکا۔
اس پورے معاملے میں ایک اور پہلو بھی انتہائی اہم ہے، اور یہ نکتہ بھی خود بعض مغربی ذمہ داران کی طرف سے اُٹھایا گیا ہے۔ مختلف اخبارات میں، مختلف ذمہ داران اور باخبر ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فرانسیسی رسالے پر حملہ، غم و اندوہ کا شکار کسی مسلمان نے نہیں کیا، یہ امریکا اور اسرائیل کا مشترک منصوبہ تھا۔ برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ فرانس کی ایک سیاسی جماعت کے بانی Jean Marie Le Pen کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:’’حملہ امریکی یا اسرائیلی ایجنٹوں کا کام تھا جس کا مقصد اسلام اور مغرب کے درمیان خانہ جنگی کرواناتھا‘‘۔
روسی اخبار پراودا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’میرا نہیں خیال کہ فرانسیسی خفیہ ادارے بھی اس میں شریک تھے، لیکن انھوں نے بھی اس واقعے کو ہونے دیا‘‘۔
صدر ریگن کے دور میں نائب وزیر خزانہ اور معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے ڈپٹی ایڈیٹر ڈاکٹر پال کریج نے بھی اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایک جعلی جھنڈے تلے آپریشن تھا، تاکہ فرانس کو امریکا کی مرضی کے مطابق پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔
اس طرح کے دیگر بیانات و مضامین میں دعویٰ کیا گیا ہے، کہ فرانس کئی بین الاقوامی مسائل میں امریکی پالیسیوں سے آزاد دکھائی دے رہا تھا، اس لیے اسے سزا دینے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ اس ضمن میں سوال اُٹھانے والوں نے کئی واقعاتی حقائق پر بھی حیرت کا اظہار کیا۔ مثلاً یہ کہ:
یہ سوالات برمحل اور حقیقی ہیں یا قطعی بے جواز و بے بنیاد، وقت ان سوالات کا جواب ضرور دے گا، لیکن اُمت مسلمہ، بالخصوص غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ وہ آیندہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریں۔ پونے دواَرب کے قریب مسلمان، جن میں سے ۵۳ ملین مسلمان صرف براعظم یورپ میں رہتے ہیں (بحوالہ’دی انسٹی ٹیوٹ، جرمنی) ان گستاخیوں کا جواب کیا اور کیسے دیں؟
فرانس کے واقعے نے ایک بات تو یہ ثابت کردی کہ کسی رسالے کو تباہ کردینا یا گستاخوں کو قتل کردینا نہ صرف مؤثر نہیں ثابت ہوا، بلکہ اس کے منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ جس رسالے کی اشاعت ۵۵ سے ۷۰ ہزار تھی، اس ناپاک جسارت کے بعد اس نے دوبارہ خاکے شائع کیے اور اس کی اشاعت ۳۰ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ اس نے سیکڑوں مزید خاکے شائع کرنے اور کئی زبانوں میں رسالہ نکالنے کا اعلان کردیا۔ مغرب کے دہرے معیار کے باعث واقعے میں شریک دو افراد کو دین اسلام ، قرآن حکیم، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری اُمت مسلمہ کے خلاف دریدہ دہنی کا بہانہ بنالیا گیا۔ بلاتحقیق اور فوراً ہی واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف لاکھوں لوگ جمع کرلیے گئے۔ ۴۰سے زائد سربراہان مملکت بھی پہنچ گئے، جن میں سرفہرست دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کا قاتل صہیونی وزیراعظم نتن یاہو تھا۔ وہ خود کو امن اور سلامتی کا ہیرو قرار دیتے ہوئے اور دوسرے عالمی رہنماؤں کو (حقیقتاً) کہنیاں مارتے ہوئے خود کو سب سے نمایاں کرتا رہا۔ لیکن ان لاکھوں مظاہرین میں سے تمام عالمی سربراہوں اور دنیا کے کسی شخص نے یہ بتانے کا تکلف نہیں کیا کہ جو ۱۲؍ افراد حملے میں مارے گئے، ان میں احمد مرابط نامی ایک پولیس ملازم اور مصطفی اوراد نامی رسالے کا ایک ملازم بھی شامل تھے۔ اگر دو حملہ آوروں کے باعث پورا دین اور پوری اُمت مطعون کی جاسکتی ہے، تو دو مسلمان مقتولین کی وجہ سے پوری اُمت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اس لیے کہ ان دو مقتولین میں سے ایک کا نام احمد اور دوسرے کا نام مصطفی ہے، یعنی یہ دونوں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اُمتی اور عاشق تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کے اس دوہرے معیار کو بے نقاب کرتے ہوئے، خود مغرب میں مقیم انصاف پسند اکثریت کے دل و دماغ پر دستک دی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا یقینا موت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو توہین رسالت کا قانون بنانے کا اعزاز حاصل ہے (اگرچہ اس پر عمل درآمد کا طریقہء کار، مزید شفاف اور مامون و محفوظ بنانے کی ضرورت ہے) لیکن غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے، ہمارے لیے مکی دور کا وہ اسوۂ حسنہ انتہائی اہم ہے کہ جس میں فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ کی تعلیم دی گئی۔ توہین آمیز خاکے دیکھ کر جس طرح ہر مسلمان کرب محسوس کرتا ہے، اگر وہ اس کرب کے نتیجے میں رسول اکرمؐ کی سیرتِ مطہرہ اور اسلام کا روشن اُجلا چہرہ مؤثر انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردے، اور سب سے پہلے خود اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا اُمتی اور حقیقی مطیع فرمان بنانے کی سعی کرے، تو ایسا کرنا یقینا کسی بھی جلاؤ گھیراؤ اور مارو یا مرجاؤ سے زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔
اگر اُمت مسلمہ مل کر فیصلہ کرلے کہ جو ممالک اور کمپنیاں بھی حبیب کبریاؐ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوں گی، ان کی مصنوعات کا مؤثر بائیکاٹ کرنا ہے، تو دمڑی کے پجاری مغربی سوداگر، خود ان خاکوں کا راستہ روکنے کے لیے میدان میں آئیں گے، جیسا کہ اس سے پہلے ناروے اور ڈنمارک میں کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔
آج، جب کہ دنیا ایک بستی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ کسی بھی خطے میں رُوپذیر واقعے کی حرارت پلک جھپکنے میں پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے اور اسے متاثر کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شخص، گروہ، حکومت یا ملک کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ عدل و انصاف کی حدود سے تجاوز کرسکے۔عالمی سطح پر ایسی قانون سازی کی جائے کہ خود آیندہ ایسے فتنوں کا سدباب ہوسکے۔ چاہیے تو یہ تھا عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور اسلامی تنظیم براے تعاون (OIC) اس کام کا بیڑا اُٹھاتیں،لیکن دونوں کی حیثیت اس وقت کسی بے بس و بے کس مریض سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اگر اقوامِ عالم یا مسلم ممالک مخلصانہ سعی کریں، تو اس مریض کو شفا مل سکتی ہے۔
اگر عالم اسلام کا ہر باسی اپنی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالے کہ ان مکروہ واقعات پر وقتی ردعمل اور زبانی جمع خرچ کے بجاے وہ عالمی سطح پر ان کے خلاف قانون سازی کروائے تو خود پوپ اور لاتعداد مغربی دانش وروں اور سیاسی زعماء میں سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو تمام انبیاے کرام ؑ اور کتب ِمقدسہ کے احترام کے لیے یک جان ہوکر میدان میں آجائیں۔
حرارت ایمانی یقینا شب بھر میں مسجد تعمیر کرواسکتی ہے، لیکن خود کو مستقل اور حقیقی نمازی بنانا، زیادہ کڑی اور اصل آزمایش ہے۔ وگرنہ کیا اپنے نبی کی حرمت و ناموس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی حفاظت رب ذو الجلال کے لیے کوئی مشکل کام ہے؟ اہل طائف نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کردیا، اور آپ ایک باغیچے کی دیوار سے ٹیک لگاکر اپنے رب سے مناجات کرنے لگے، تو اللہ نے پہاڑوں کے منتظم فرشتے کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ ’’اگر آپؐ فرمائیں ، تو میں سب اہل طائف کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں‘‘؟ فرشتے نے عرض کی۔ آپؐ نے فوراً فرمایا: بَلْ أرجُو أن یُخرِجَ اللّٰہُ مِن أصلابِہِم مَن یَّعبُدُ اللّٰہ وَحدَہُ لا یُشرِکُ بِہ شَیئًا ،’’نہیں، مجھے اُمید ہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی بندگی کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرائیں گے‘‘۔ اللہ رب العزت نے رسولِ رحمتؐ کی یہ اُمیدیں پوری کردیں اور اہل طائف سمیت پورا جزیرۂ عرب مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
میدان اُحد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کردیے گئے تو کسی نے تڑپ کر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! أُدعُ اللّٰہَ عَلَیہِم، ’’یارسولؐ اللہ! ان کے لیے بددُعا کیجیے‘‘۔ آپؐ نے فوراً ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِی طَعَّاناً وَلَا لَعَّاناً وَ لٰکِنْ بَعَثَنِی دَاعِیَۃً وَرَحْمَۃً۔ اَللّٰہُمَّ اھْدِ قَوْمِی فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ، ’’اللہ نے مجھے لعن طعن کرنے والا بناکر نہیں بھیجا۔ اللہ نے مجھے داعی اور رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما یہ لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
آج مشرق و مغرب میں بسنے والے ہم سب گنہگار اُمتی، اسی دعوت و رحمت کے وارث ہیں۔ ہماری بعض کرتوتوں اور دشمن کی مکارانہ سازشوں کے باعث دنیا میں ہمارا تعارف ایک وحشی، خوں خوار ، جاہل و گنوار اُمت کی حیثیت سے کروایا جارہا ہے۔ ہمیں دوسرے گستاخوں کا منہ نوچنے سے پہلے، خود اپنے منہ پر لگی کالک بھی دھونا ہوگی۔ توہین و گستاخی صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی مردود آپؐ کے خاکے اُڑانے لگے۔ یہ بھی آپؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین و شریعت کی شان میں گستاخی ہے کہ ہماری زبان پر تو آپؐ کا نام نامی ہو اور ہمارے اعمال کفار و مشرکین سے بھی بدتر ہوں۔
آج اگر غیر مسلم ممالک کی اکثریت کا جائزہ لیں تو ایک تلخ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ وہ اسلامی معاشرت کی بہت سی خوبیوں کو اپناکر، ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ ان کی ایک غالب اکثریت، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کو جانتی ہی نہیںہے۔ یقینا کئی مخصوص لابیاں انھیں گمراہ کرنے، اور ان کے سامنے اُمت کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے میں مصروف ہیں، لیکن اب بھی ان کی غالب اکثریت اُمت کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں ہے۔ آج اگر ہمدردی، محبت اور مثبت انداز سے آپؐ کے اصل مشن ’دعوت و رحمت‘ کو اپنا لیا جائے تو یقینا پوری انسانیت راہِ نجات اختیار کرلے گی کہ یہی خالق کائنات کا فیصلہ ہے۔ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ، ’’تاکہ وہ (اسلام کو) تمام ادیان پر غالب کردے‘‘۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ ،’’ اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا‘‘۔
آئیے ہم سب اپنا اصل مشن پورا کرنے میں جت جائیں۔ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و حرمت و ناموس محفوظ ہوجائے۔ اگر ہم سب آج سے اپنی دُعا اور اپنا شعار یہ بنالیں کہ اَللّٰہُمَّ اھْدِ قَوْمَنَا فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘___ تو کامل یقین رہنا چاہیے کہ آج سے چندبرس بعد دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوگا!
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور
۲۰۱۱ء میں عالم عرب کے کئی ممالک میں آمریت سے نجات کی لہر اُٹھی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام اور یمن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ہر ملک کے حالات مختلف اور تفصیل طلب ہیں۔ اس لیے اختصار کی خاطر صرف شام ہی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شامی عوام ۱۹۶۵ء سے حافظ الاسد اور پھر بشار الاسد کے جابرانہ قہر و تسلط کا شکار ہیں۔ اس دوران وہاں ان پر وہ مظالم توڑے گئے کہ بیان کرتے ہوئے پتھر سے پتھر دل بھی تھرا جائیں، لیکن عوام نے مسلسل صبر سے کام لیا۔ تیونس اور مصر میں عوام کو عارضی رہائی ملی، تو شامی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ لیبیا کے سفاک حکمران کی طرح بشار الاسد نے بھی پُرامن مظاہرین پر بارود کی بارش کردی۔ لیبیا تیل کے سمندر پر واقع ایک بڑا ملک تھا۔ ناٹو افواج میدان میں کود پڑیں اور قذافی پر پل پڑیں۔ وہاں کھیل ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ اسلامی قوتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ملک کے ایک حصے کو مسلسل انتشار کا شکار رکھا جارہا ہے۔ لیکن ملک کا ایک بڑا علاقہ جنگ سے محفوظ ہے۔
شام مقبوضہ فلسطین کے پڑوس میں واقع ایک اہم تاریخی ملک ہے۔ اس کے ایک حصے جولان (گولان) پر صہیونی ریاست نے قبضہ کررکھا ہے۔ شامی حکومت نے ایک سیاسی کارڈ کے طور پر ہی سہی مختلف فلسطینی تنظیموں کو وہاں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اور اس حقیقت سے بھی سب آشنا ہیں کہ صہیونی ریاست کو جب بھی حقیقی خطرہ لاحق ہوگا، اس میں شام کا کردار بہت اہم ہوگا۔ اس لیے بشار الاسد کو تحفظ دیتے ہوئے شام کو مکمل تباہی کا نشانہ بنادیا گیا۔
گذشتہ چار سال سے جاری شام کی خانہ جنگی نہ صرف اب ایک علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرگئی ہے، بلکہ اس آگ میں فرقہ واریت اور علاقائی نفوذ کی دوڑکا تیل بھی چھڑکا جارہا ہے۔لیبیا میں قذافی کے خاتمے کے لیے ناٹو افواج آن دھمکی تھیں۔ بدقسمتی سے شام میں بشار کو بچانے کے لیے ایرانی افواج میدان میں ہیں۔ پہلے اسے ایک الزام کہا جاتا تھا، اب اس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جارہا ہے۔ روس بھی اپنے اسلحے اور کامل سیاسی سرپرستی کے ساتھ بشار کی پشت پر کھڑا ہے۔ امریکا اور سعودی عرب بشار کی مخالفت کررہے ہیں، لیکن عملاً شامی عوام کی ایسی کوئی مدد نہیں کررہے کہ وہ بشار سے نجات حاصل کرسکیں۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ترکی پر لاکھوں شامی مہاجرین کا اتنا بوجھ آن پڑا ہے کہ شامی عوام کی کوئی عسکری معاونت اس کے بس میں نہیں رہی، اور نہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا ارادہ ہے کہ بشار کے مقابل لڑتے لڑتے بالآخر ایران کے مقابل ہی آن کھڑا ہو۔ اس ساری صورت حال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ گذشتہ چار برس میں شام عملاً کھنڈرات کی شکل اختیار کر گیاہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ عوام جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ تقریباً ۲ کروڑ عوام دربدری پر مجبور ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود بشار انتظامیہ، اب بھی ان پر یوں بمباری کرتی ہے، جیسے شاید کسی جنگ کے دوران میں بھی نہ کی جاتی ہو۔
سفاکی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے تباہ کن بموں کی بارش سے تسکین نہیں ہوتی تو بارود سے بھرے ٹینکر فضا میں لے جا کر اپنے مخالف عوام پر برسادیے جاتے ہیں۔ نام نہاد مہذب دنیا اس سارے ظلم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔امریکا ایک بار اور صرف اس وقت کچھ حرکت میں آیا جب بشار انتظامیہ نے کیمیائی بم پھینک کر سیکڑوں معصوم بچے شہید کردیے۔ اس وقت چند روز میں ایسی فضا بنادی گئی کہ گویا اگلے ہی روز ساری دنیا بشار پر پل پڑے گی اور عوام کو سُکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ لیکن امریکا کا اصل ہدف عوام کی مدد یا خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں، شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ تھا جو مستقبل میں کسی بھی وقت اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن عالمی تفتیش کار ان کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش و تدفین میں مصروف ہیں۔ بشار بھی وہیں، ا س کے مظالم بھی وہی اور مظلوم عوام کی بربادی بھی اسی طرح جاری و ساری۔
اس ماحول میں گذشتہ سال، یعنی ۲۰۱۳ئمیں اچانک وہاں ایک مسلح گروہ سامنے آیااور تین سالہ قربانیوں کے بعد بشار انتظامیہ سے آزاد ہوجانے والے علاقوں میں اپنی اسلامی ریاست: الدولیۃ اسلامیۃ کے قیام کا اعلان کردیا۔ پھر ۲۰۱۴ء کے وسط میں اس کی کارروائیوں کا دائرہ عراق کے کئی علاقوں تک پھیل گیا اور ریاست، ریاست اسلامی در عراق و شام: الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام (داعش) میں بدل گئی۔ حیرت انگیز طور پر اس کی کارروائیوں کے سامنے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں موجود عراقی فوج، جن کا ۹۹ فی صد شیعہ مذہب کا پیروکار تھا، بلاادنیٰ مزاحمت اپنا جدید ترین اسلحہ چھوڑتے ہوئے پسپا ہوگئی۔
بدقسمتی سے عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد وہاں عرب کرد اور شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی ہے کہ نوری المالکی کی شیعہ افواج کے مقابلے میں ایک سُنّی مسلح گروہ کا کامیاب ہونا، آغاز کار میں سنی عوام کو اپنی فتح یابی محسوس ہوا۔ قبائلی سرداروں، ان کے مسلح جتھوں اور صدام حسین کے سابق فوجیوں نے بھی داعش کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق چند ہفتوں میں ہی داعش نے سب سے اپنی بیعت پر اصرار کرتے ہوئے اپنے ہرمخالف کی گردن اُڑانا شروع کردی۔ عمومی احکام شریعت کے بارے میں بھی کوئی دوسری راے رکھنے والوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
عراق میں الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ رہنما، اخوان کی سیاسی تنظیم ’حزب اسلامی‘ کے سابق سربراہ اور بغداد یونی ورسٹی کے علاوہ عالم عرب کی کئی جامعات میں شریعت اسلامی کے سابق پروفیسر، ڈاکٹر محسن عبدالحمید نے راقم سے ایک حالیہ ملاقات میں بتایا کہ داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کا نام ایاد السامرائی ہے اور وہ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ کسی نے جنابِ بغدادی سے پوچھا کہ آپ کے استاد ڈاکٹر محسن عبد الحمید نے آپ کی بیعت نہیں کی، اگر وہ آپ کے ہاتھ آگئے تو کیا آپ انھیں بھی ذبح کردیں گے؟ خلیفہ صاحب نے جواب دیا: بہرحال وہ میرے استاد ہیں، میں خود تو انھیں ذبح نہیں کروں گا، لیکن اگر میرے کسی ساتھی نے ایسا کردیا تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ داعش کا فکر و فلسفہ جاننے کے لیے شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
اس سب پر مستزاد یہ کہ شام اور عراق میں داعش کی ۸۰ فی صد کارروائیوں کا نشانہ وہی عوام بنے اور بن رہے ہیں، جو پہلے ہی بشار الاسد اور مذہبی منافرت کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار تھے۔ داعش بشار کے خلاف کارروائیوں کا اعلان بھی کرتی ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ کارروائیاں خود بشار کے خلاف برسرپیکار مختلف جہادی تنظیموں ہی کے خلاف ہورہی ہیں۔ المناک حقیقت یہ ہے کہ داعش عراق اور شام میں اخوان اور اس کی برادر تنظیموں کو بالخصوص کارروائیوں کا نشانہ بنارہی ہے۔ دونوں جگہ اس کے ہاتھ ایسے ایسے قیمتی، باصلاحیت اور اللہ کے رنگ میں رنگے نوجوانوں کے خون سے رنگے ہیں کہ کسی کلمہ گو انسان کے ہاتھوں ان کی شہادت کا سنیں، تو کانوں کو یقین نہ آئے۔
عراق اور شام کی اس صورت حال نے کئی اہم سوال اور نکات پیدا کردیے ہیں:
l ۴۰ممالک کے داعش مخالف بلاک اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کے بجٹ کے بعد بھی داعش کے خلاف فوجی کارروائیاں صرف فضائی حملوں تک محدود ہیں۔ خود امریکی عسری ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جب تک زمینی کارروائیاں نہ کی گئیں یہ فضائی حملے بے ہدف اور بے مقصد رہیں گے۔ لیکن اس فوجی حکمت عملی کی بلی بھی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب امریکا بہادر دُہائیاں دینے لگا کہ زمینی کارروائیاں ناگزیر ہوگئیں۔ ہم بوجوہ یہ کارروائیاں نہیں کرسکتے، پڑوس میں واقع ترکی اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ہے تو اپنی زمینی افواج شام میں اتارے۔ گویا اصل مقصد ترکی کو پرائی آگ میں جھونکتے ہوئے اس کا خون بھی مسلسل نچوڑنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی اس پھندے میں نہیں پھنسا۔
یہ اور اس طرح کے کئی بنیادی پہلو ہر واقف حال کو اصل حقائق سے قریب تر پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن ان سوالات و حقائق کا مطلب یہ بھی نہیں کہ داعش یا مماثل مسلح تنظیموں کے سب افراد کسی کے ایجنٹ یا کارندے ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان تنظیموں کے وابستگان کی غالب اکثریت مخلص، نیکوکار اور حصول جنت کی خاطر جان پر کھیل جانے والوں پر مشتمل ہے۔ البتہ ان تمام مخلص و فداکار افراد کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف اخلاص کا ہونا حقانیت کی دلیل نہیں ہوتا۔ خوارج کی اکثریت مخلصین پر مشتمل تھی لیکن تاقیامت فتنے کاشت کرگئی۔ انھیں یہ چند سوال بھی ضرور اپنے سامنے رکھنا چاہییں:
دوسری جانب خود امریکا اور عالمی برادری کو بھی یہ ضرور بتانا ہوگا کہ:
دنیا اب ایک عالمی بستی ہے۔ اس کی کوئی بھی روش اب یک طرفہ اور بلا ردعمل نہیں رہتی۔ اس عالمی بستی کے سب باسی ایک دوسرے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اگر ہم اپنا اور دنیا کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک فریق بھی ظلم، ہٹ دھرمی اور قتل و غارت پر بضد رہا تو یقینا وہ خود بھی اس کا نشانہ بن کر رہے گا۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے حقیقی ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم خود بھی حق شناس بنیں اور ظلم و ہلاکت پر تلی دنیا کو بھی حق سے آشنا کرتے رہیں۔ آج کی دنیا میں جان پر کھیل جانا یا دوسروں کی جان لے لینا کوئی بڑا کمال نہیں، اصل کمال یہ ہے کہ ہم اسلام کا روشن اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔
بحیثیت مسلمان ہمیں ہر دم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خالق اپنے بندوں کی کمزوریاں بھی جانتا ہے اور ان کی ضروریات و مشکلات بھی۔ دلوں کے راز اور ذہنوں کے خیالات سے باخبر ہستی جانتی ہے کہ راہ ہدایت انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہدایت نصیب ہوجائے تو تیروں سے چھلنی اور تختۂ دار پر جھول جانے والا بھی پکار اٹھتا ہے کہ فزت برب الکعبۃ ، ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ اور ہدایت نصیب میں نہ ہو تو خدائی کے دعوے دار کو بھی سب سے پہلے اس کا اپنا دل ملامت کررہا ہوتا ہے کہ تم جھوٹے ہو، فریبی ہو، نامراد ہو۔
ہدایت عطا ہوجانا دوجہاں کی سعادت ہے۔ لیکن ہدایت کا مل جانا ہی کافی نہیں، اس پر ثابت قدم رہنا بھی ناگزیر ہے۔ خاتم النبیینؐ، رحمۃ للعالمینؐ بھی ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے: اللّٰہُمَّ یَامُقَلِّبَ القُلُوبِ وِ الاَبصَارِ ثَبِّت قَلبِی عَلَی دِینِکَ، ’’دل و نگاہ کو پھیرنے والے میرے معبود! میرے دل کو اپنے دین پر جمادے‘‘۔ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے حیرت سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ بھی یہ دُعا کرتے رہتے ہیں..؟ آپؐ نے فرمایا: بندوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں ہیں، وہ جب چاہیں انھیں پھیر دیتا ہے۔ ہدایت اور اس پر ثبات پروردگار کی توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مہربان ہستی نے بندے کونماز کی معراج سے نوازدیا۔ ہر نماز ہی میں نہیں، نماز کی ہر رکعت میں صراطِ مستقیم کی دُعا لازمی قرار دے دی: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ... اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ!
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی دعوت پر ۳۰ سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ۵۵ تحریکی قائدین ، علماے کرام اور سکالرز نے جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام میں شرکت کی۔ اس موقعے پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ۲۴نومبر۲۰۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ ستمبر ۲۰۱۳ء میں بھی اسی طرح کی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سیّدمنورحسن کی زیر صدارت لاہور ہی میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکا نے دو روز تک اُمت کے اہم مسائل پر تبادلۂ خیال اور غوروخوض کرنے کے بعد تقریباً انھی الفاظ میں اپنے موقف اور اسلامی تحریکوں کے موقف کی ترجمانی کی تھی۔ الحمدللہ اس اجلاس میں کیے جانے والے متعدد فیصلوں پر دورانِ سال عمل درآمد ہوا۔ حالیہ اجتماعِ عام نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ایک بار پھر مل بیٹھنے کا موقع دیا۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق کی زیرصدارت ’’ایک اُمت، مشترک منزل‘‘ کے عنوان سے دن بھر مشاورت جاری رہی۔ اختتامِ اجلاس پر کامل اتفاق راے سے منظور کیے جانے والے اعلامیے میں تمام اہم مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
دنیا کو اس وقت جن گمبھیر مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے ان کی بنیادی وجہ عدل وانصاف کا پس پشت ڈالا جانا ہے ۔ ہر وہ شخص یا گروہ اور ملک جو اپنے ہاتھ میں طاقت رکھتا ہے وہ دوسروں کو کچلنے پر تلا ہوا ہے۔ عالمی اقتصادی نظام اور سائنس اور ٹکنالوجی پر دسترس رکھنے والی قوتوں نے باقی دنیا کے لیے اپنی مرضی کے قوانین گھڑ رکھے ہیں۔ ہر طرف دہرے معیار برتے جارہے ہیں۔
شرکاے اجلاس عرب حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بے گناہوں اور سیاسی حریفوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند کریں اور اظہار راے کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے انھیں ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو انسانیت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو زبردست عوامی احتجاجات نے برادر مسلمان ملک تیونس پرتین دہائیوں سے مسلط سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدارچھوڑ کرملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاتھا۔ اسی سال۲۱۷رکنی دستورساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات تھے، اس سے پہلے صرف صدر مملکت اور ان کی پارٹی ہی انتخابات’لڑنے اور جیتنے‘ کی اہل تھی۔ ان انتخابات میںراشد الغنوشی کی سربراہی میں اسلامی تحریک ’ تحریک نہضت‘دوسری تمام پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ۵۰ فی صد نشستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نہضت کی قیادت میںمخلوط حکومت تشکیل پائی۔
پہلی منتخب حکومت کے سامنے متعدد بحرانات اور پیچیدہ قسم کے مسائل تھے جن سے نپٹنے کے لیے دو چار سال ہرگز کافی نہ تھے۔ملک میں جبر سے آزاد نئے سیاسی ماحول کا آغازہی نہیں، سیکولر اور بے دین قوتوں کا اسلام سے خوف بھی ایک مسئلہ تھا۔ بورقیبہ اور بن علی کی حکومتوں کی طرف سے ملک کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور فرانسیسی اور مغربی تہذیب کو رواج دینے کے لیے کئی دہائیوںپر محیط کوششوں کے اثرات کو مٹانا انتہائی کٹھن اور محنت طلب کام تھا۔نصف صدی سے زائد عرصے سے ملک میں صرف طاقت، خوف اور ظلم کاراج تھا۔ حکمران طبقہ ہرقانون سے بالاتر تھا۔ اب، جب کہ ایک جمہوری حکومت عوام کو نصیب ہوئی تو ایک طرف عوام کو آزادیِ اظہار راے کا موقع ملا، تو دوسری جانب نو منتخب حکومت نے بھی خود کو قانون کا پابند بناتے ہوئے طے کر لیا کہ وہ ضابطے اور قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔ انقلاب کے بعد عموماً حکومتیں کمزور ہوا کرتی ہیں۔ یہی حال نہضت کی قیادت میں مخلوط حکومت کا تھا۔ایک طرف ۵۰ سالہ آمریت کی باقیات کا احتساب مطلوب تھا اور دوسری طرف متعصب سیکولر سیاسی پارٹیوں کی دشمنی کا سامنا تھا۔ اچانک اُٹھ کھڑے ہونے والے مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی انتہائی حکمت، صبر وتحمل اور جہدمسلسل کی ضرورت تھی۔ حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ عوام نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ہر قسم کے مسائل کے خاتمے کے مطالبات شروع کر دیے تھے۔
لیکن ان سب مسائل کے باوجود اپنے دور حکومت میںنہضت کی قیادت نے داخلی اور خارجی مسائل اور سازشوں کے مقابلے میں انتہائی عقل مندی، تدبر، سیاسی بصیرت اور طویل المدت حکمت عملی کامظاہرہ کیا۔ آنے والے مہ وسال ثابت کریں گے کہ تحریک نہضت کی یہ صابرانہ و حکیمانہ پالیسی سب تحریکات اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
تحریک نہضت نے ملک کے سیکولر اور لادین عناصر سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے، وسیع تر ملکی مفاد میں تنگ نظری اور اَنا پرستی کو ترک کرتے ہوئے مخاصمت اور تصادم کے بجاے وسعت قلبی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ ہرچیلنج ، سازش اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ تحمل، رواداری اور نرم گوئی سے کیا۔راشد غنوشی کی قیادت میں نہضت نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کے حقیقی علَم بردار ہیں۔وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام شہریوں کومساوی بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔تمام شعبہ ہاے زندگی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ہر فرد اور پارٹی کو ملک کی خدمت کے لیے برابر مواقع میسر ہوں،اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ متعدد عرب ممالک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے چارسال بعد آج ان ممالک میں سے تیونس وہ واحد ملک ہے ، جہاں جمہوری اقدار قدرے مضبوط نظر آتی ہیں۔انتہائی کٹھن اور دشوار مراحل سے گزرتے ہوئے دوبرس کی سخت محنت کے نتیجے میں ۲۶جنوری ۲۰۱۴ء کونیا آئین منظور ہوا۔ اور ۲۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر عوام نے پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ اظہار راے کا حق استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ملک پُرامن انتقالِ اقتدار کے حتمی مراحل کی جانب گام زن ہے۔
واضح بیرونی مداخلت، نیز اسلامی تحریکات سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے بعض عرب ممالک کی طرف سے نہضت کے خلاف اربوں ڈالر جھونک دیے جانے کے باوجود حالیہ پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔اگرچہ سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم اور صدر بورقیبہ کے دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے الباجی قائد السبسی کی سربراہی میںسیکولر پارٹی ’نداے تیونس‘ ۸۶سیٹیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہی لیکن وہ مختلف النوع، مختلف الخیال گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جسے صرف ’نہضت‘ دشمنی میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ تحریک نہضت ۶۹نشستوں پر کامیاب ہو کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔یکسو اورمضبوط نظریاتی بنیادوں والی جماعت کی حیثیت سے تحریک نہضت ہی نومنتخب ایوان کی اصل قوت ثابت ہوگی۔ نہضت چاہے تو جوڑ توڑ کی سیاست کرکے اب بھی کوئی کمزور حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کی تمام تر توجہ حصولِ اقتدار نہیں، مستحکم اور آزاد ملکی نظام کی تشکیل و استحکام پر مرکوز ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے نتیجے میں ملک میں عبوری سیاسی مرحلے کا اختتام ہوا، اوراس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے کہ یہ انقلاب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک اعصاب شکن سیاسی معرکہ تھا ۔
تحریک نہضت کی قیادت نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی کو مبارک باد دی ہے، ساتھ ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی حکومت تشکیل دینے کا مشورہ بھی دیاہے۔ تیونس کے قانون کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سونپی جاتی ہے ، لیکن ۵۰فی صد نشستوں پر کامیاب نہ ہوپانے کے باعث سب سے بڑی پارٹی نداے تیونس کو بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل دینا پڑے گی۔نداے تیونس کی قیادت نے کہا تھا کہ ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ان کی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے۔اہم بات یہ ہے کہ نہضت کے پاس بھی اتنی نشستیں ہیں کہ اس کے بغیرکوئی بھی بل پاس نہیں ہوسکے گا۔
پارلیمانی انتخابات کے بعدایک اہم مرحلہ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات تھے۔ نہضت نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ انتخابات سے پہلے انھوں نے کسی متعین صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انھو ں نے اپنے ووٹرز کو اختیار دیا کہ وہ جسے زیادہ اہل سمجھیں اسے ووٹ دیں۔ میدان میں ۲۵صدارتی امیدوار تھے لیکن اصل مقابلہ دو بڑے امیدواروں : نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی اور موجودہ صدر منصف المرزوقی کے درمیان رہا۔ السبسی نے۴۶ء۳۹ فی صد اور منصف المرزوقی نے۴۳ء۳۳ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ باقی امیدوار بہت نیچے تھے۔ اب دونوں بڑے اُمیدواروں کے مابین ۲۸دسمبر کو دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ ووٹ تقسیم سے بچیں گے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ صدر منصف کو حاصل ہوگا۔ نہضت بھی شاید کسی نہ کسی صورت اس کی واضح تائید کر دے۔ لیکن تحریک نہضت کا فیصلہ ہے کہ فی الحال وہ خود اقتدار میں نہیں آئے گی۔ معاشرے کے ایک ایک فرد کے سامنے اپنی دعوت پیش کرے گی۔ نو منتخب حکومت کی کارکردگی بھی بہت جلد اپنا چہرہ عوام کو دکھا دے گی اور ان شاء اللہ جلد یا بدیر تیونس کے حالیہ سیاسی نقشے پر خیر غالب ہوکر رہے گا۔واضح رہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منصف المرزوقی صرف تحریک نہضت کی تائید و حمایت کی بدولت ہی گذشتہ تین برس سے منصب صدارت پر فائز تھے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اعلان نہ کرنے کے باوجود تحریک نہضت کے اکثریتی ووٹ منصف المرزوقی کے پلڑے میں پڑے، جب کہ انقلاب کے مخالفین، متشدد سیکولر اور سابق صدر زین العابدین کے دور میں اہم حکومتی عہدے داروں کی تمام تر تائید نداے تیونس کو حاصل ہوئی۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے ذرائع ابلاغ پر تیونس کے مستقبل کے بارے میں مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی اسلامی تحریک ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں آخر کیوں دوسرے نمبر پر آگئی؟اس کے جواب میں مخالفین اپنا پورا زوریہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ ناکام ہوگیا۔ آج کے دور میں اسلام کا نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام عصر حاضر کے گمبھیرمسائل کا حل نہیں دے سکتا، لیکن یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہے کہ وہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں تحریک نہضت کے خلاف مکمل طور پر میدان میں تھیں جنھوں نے اس سے قبل مصر میں منتخب حکومت اور عوامی راے کو کچل ڈالا۔ یہ سب قوتیں مصر کی طرح تیونس میں خون کے دریا تو نہیں بہا سکیں لیکن دولت، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے طاقت ور افراد کے بل بوتے پر انھوں نے سب اسلام دشمنوں کو یک جا کردیا۔
گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک میں آمریت اور فوجی ظلم وستم کا راج رہا۔ حکمرانوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد اور تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔بڑے بڑے علما اوراسلامی فکر کے علَم برداروں کو بیڑیاں ڈال کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔معاشرے میںفکری، اخلاقی ، معاشی او ر معاشرتی زوال کو فروغ دیا۔۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد مختصر عرصے میںقوم کو اپنا مکمل ہم نوا بنانا نہضت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ملک میں بنیادی آزادیاں اور جمہوریت بحال کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس کے لیے دسیوں سالوں کی محنت درکار تھی ۔ الحمد للہ تین سال کے عرصے میںعوام کو ایک متفقہ آئین اورآزادی مہیا کرنا نہضت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔بعض لوگوں کی راے ہے کہ نہضت کے دوسرے نمبر پرآنے سے ایک طرف ملک میں انقلاب دَر انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ جن سے خطرہ تھا وہی اب حکومت میں ہیں۔ دوسری طرف تحریک نہضت کو اپوزیشن میں رہ کر حکومتی غلطیوں سے سیکھنے اور اسے ان سے روکنے کا موقع ملے گا۔ اپنی تنظیم نو اور دعوت کو پھیلانے کا وقت ملے گا۔سماجی اور دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کی فرصت ملے گی، اور ان شاء اللہ آیندہ انتخابات کو ہدف بنا کر مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ گویا تحریک نہضت اکثریت حاصل نہ کر کے بھی کامیاب رہی۔
۲۳ سے ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک سوڈان کے دارالحکومت میں حکمران جماعت ’قومی کانگریس‘ کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ۱۵برس قبل اس سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنالینے والے اس کے بانی سربراہ جناب ڈاکٹر حسن الترابی بھی نہ صرف اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جب کہا کہ نہ تو یہ پارٹی، اس کا نظام، اس کے اہداف و مقاصد میرے لیے نئے ہیں اور نہ آپ میں سے اکثر شرکا ہی ، تو پورے اجتماع میں آنسوئوں اور نعروں کا ملاپ دکھائی دیا۔ ۱۵برس کی دُوری اور اختلافات کے بعد اکثر شرکا کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ۸۲سالہ ترابی صاحب کو براہِ راست دیکھ اور سن پارہے تھے۔ ترابی صاحب نے بھی اس عرصے کا اکثر حصہ یا تو جیل میں گزارا یا پھر حکومت اور حکومتی جماعت کی شدید مخالفت میں۔
حالیہ اجتماعِ عام کی سب سے اہم اور خوش کن حقیقت یہی تھی کہ نہ صرف ترابی صاحب بلکہ اِکا دکا کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے مابین ایک قومی یک جہتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ گذشتہ جنوری میں شروع ہونے والے اس قومی مذاکراتی عمل کا سہرا، صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کے سرجاتا ہے۔ اس دوران کُل جماعتی اور دو جماعتی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مختلف اُمورپر اختلافات رکھنے کے باوجود اب تمام جماعتوں کے مابین تعاون اور مثبت و تعمیری اپوزیشن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ اس وقت صرف ایک مؤثر جماعت نے خود کو اس عمل سے خارج رکھا ہوا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم صادق المہدی صاحب کی جماعت ’حزب الامۃ‘۔ خود صادق المہدی صاحب ناراض ہوکر قاہرہ جابیٹھے ہیں۔ جنرل سیسی کے زیرسایہ جابیٹھنا بذاتِ خود ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔
حکمران جماعت ’المؤتمر الوطنی‘یا قومی کانگریس،تحریکِ اسلامی سوڈان کا سیاسی بازو ہے۔ تحریک اسلامی کی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں الحرکۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہی جاری ہیں۔ المؤتمرالوطنی میں شرکت و شمولیت نسبتاً آسان عمل ہے۔ تقریباً پونے چار کروڑ کی آبادی میں اس کے ارکان کی تعداد اس وقت تقریباً پونے سات لاکھ ہے۔ پارٹی دستور کے مطابق ہرپانچ سال بعد اس کا تین روزہ اجتماع عام ہوتا ہے۔ اسی میں خفیہ راے دہی کے ذریعے پارٹی کے صدر اور ۴۰۰ رکنی مجلس شوریٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ تین روزہ اجتماع عام بنیادی طور پر نمایندگان کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تقریباً چھے ماہ کے دوران بنیادی یونٹس کے ۱۸ہزار اجتماع عام ہوتے ہیں۔ ان میں نمایندگان منتخب ہونے والے ارکان۱۲ہزار مقامی اجتماعات منعقد کرتے ہیں، پھر ۱۰۷ ضلعی اجتماع عام ہوتے ہیں، اور بعدازاں ۱۸ صوبائی اجتماع مرکزی اجتماع عام کے لیے نمایندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سات اجتماع شعبہ جاتی بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین، نوجوان، مزدور، کسان اپنے نمایندگان منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح بالآخر ۶ہزار نمایندگان کا یہ اجتماع عام حتمی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا ایک اہم ترین فیصلہ نئی مجلس شوریٰ ، پارٹی سربراہ کے انتخاب کے علاوہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا نمایندہ منتخب کرنا بھی تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ذرائع ابلاغ کی بات نہیں بلکہ بعض معاملات میں صدر عمرالبشیر سے اختلاف رکھنے والے اہم پارٹی رہنمائوں نے بھی بتایا کہ صدر عمرالبشیر کسی صورت آیندہ صدارتی اُمیدوار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے حتمی معذرت کردی تھی۔ شوریٰ نے بھی ان کی بات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا، لیکن پھر اس نتیجے تک پہنچی کہ موجودہ علاقائی، بین الاقوامی اور ملکی حالات میں ان کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی۔ خفیہ راے دہی ہوئی اور مجلس شوریٰ نے عمرحسن البشیرہی کو آیندہ صدارتی اُمیدوار قرار دیا۔ شوریٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص علاقائی ذرائع ابلاغ نے اس فیصلے پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پارٹی کے اندر سنگین اختلافات کی خبریں چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اجتماع عام کے دوران جماعت ۱۵برس بعد ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گی۔ خود صدر عمرالبشیر نے تین روزہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں ان خبروں اور پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ اجتماعِ عام منسوخ کردیں۔ اجتماع ہوا تو اختلافات پھوٹ پڑیں گے اور شوریٰ کے فیصلوں سے بغاوت کردی جائے گی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اختلافات کی آرزو رکھنے والوں کی خواہش کے برعکس ہم پہلے سے بھی زیادہ یکسو ہوکر جارہے ہیں‘‘۔ ان کے خطاب سے قبل کانفرنس سیکرٹریٹ کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ خفیہ راے دہی کے ذریعے ۹۳ فی صد نمایندگان نے صدرعمرالبشیر ہی کو پارٹی کا آیندہ سربراہ اور صدارتی اُمیدوار منتخب کیا ہے۔
صدربشیر کو اپنے دورِ اقتدار میں سنگین خطرات اور چیلنجوں کاسامنا رہا ہے۔ خود پارٹی کے بانی صدر اور اصل فکری رہنما ڈاکٹر حسن الترابی سے اختلافات اب بھی سنگین تر ہیں۔ جنوبی سوڈان میں ۲۲سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی تقریباً تمام ملکی وسائل ہڑپ کرتی رہی۔ کئی بار دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے فوج کشی کروائی گئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے قطع تعلق بلکہ محاصرہ کیے رکھا۔ جنوبی شورش سے نجات کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہوئے غالب اکثریت کی راے کے مطابق جنوب کو الگ کردیا، تو کچھ ہی عرصے بعد مغربی علاقے دارفور میں بغاوت اور پڑوسی ممالک سے براہِ راست مداخلت کروا دی گئی۔ چین کی مدد سے طویل جدوجہد کے بعد ملک میں پٹرول دریافت کیا گیا تھا، لیکن جنوبی علیحدگی کے بعد پٹرول کے سب کنویں انھیں دینا پڑے۔ اقتصادی حالت جو قدرے سنبھلنے لگی تھی، ایک بار پھر ڈھلوان پر آگئی۔ بین الاقوامی عدالتوں میں سوڈان اور اس کے صدر پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ عمرالبشیر کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ کسی بھی بین الاقوامی سفر کے دوران انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں، جو آج بھی جاری ہیں۔ کئی عالمی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی مالی معاملات نہیں کرسکتے۔ متعدد بار فوج کے اندر سے بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور الشفا نامی ادویات بنانے کے کارخانے میں کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر خود امریکا حملہ آور ہوگیا۔ لیکن ایسے خطرات اور الزامات کے باوجود المؤتمر الوطنی اور عمرالبشیر کا تعمیری سفر جاری رہا۔
اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں آنے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کرپشن کی ایک پائی کے قریب بھی نہ پھٹکے، چہار جانب اشارۂ ابرو کے منتظر رہنے والے جان نثار ساتھیوں کے جلو میں رہنے کے باوجود، دل و دماغ میں تکبرکا خناس اپنی جگہ نہ بناسکے، تو ایسا شخص یقینا آج کا ولی اللہ کہلانے کا حق دار ہے۔ عمرالبشیر ہی نہیں، ان کی جماعت کی غالب اکثریت نے خود کو ان دونوں آزمایشوں میں سرخرو ثابت کیا ہے۔ ویسے تو سوڈانی معاشرہ دیگر تمام عرب ملکوں کی نسبت انتہائی ملنسار، متواضع، بے تکلف اور باہم مربوط معاشرہ ہے، لیکن بالخصوص حکومتی ذمہ داران ہرشخص کی دسترس میں اور تقریباً ہرپروٹوکول سے بے نیاز ہیں۔ اب بھی صدرعمرالبشیر ہی نہیں، ان کے کئی قریبی اور اہم ذمہ داران نے بذاتِ خود وزارتیں اور مناصب چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد جماعت کے فکری رہنما سمجھے جانے والے علی عثمان طٰہٰ طویل عرصے سے ملک کے نائب صدر اول تھے، خود انھوں نے اصرار کرکے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلی ملاقات میں اس پارٹی اجلاس کا حال سنا رہے تھے جس میں انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کہنے لگے کہ صدرالبشیر نے جب مجلس کو میرے فیصلے سے آگاہ کیا، تو دیر تک میرے بارے میں بہت جذباتی انداز میں کلمات خیروتحسین کہتے رہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ایک خاتون رکن کھڑی ہوکر کہنے لگیں: برادرم صدرصاحب! (صدر البشیر کو اسی طرح مخاطب کیا جاتاہے: الاخ الرئیس) آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اسی طرح ہے، تو پھر بھلا الشیخ علی کو جانے ہی کیوں دیا؟ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی اور صدرصاحب نے کہا: یہ بات خود الشیخ علی ہی سے پوچھیں۔
مناصب کو امانت و امتحان سمجھے جانے کی یہ ایمانی روح، ربِ ذوالجلال کی طرف سے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ایک عظیم انعام ہے۔ اجتماعِ عام کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود صدرالبشیر کا جملہ بھی ملاحظہ کیجیے: اَلْمَنَاصِبُ فِی أَعْیُنِنَا أَمَانَۃٌ وَ اِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃ ’’ہماری نگاہ میں عہدے اور مناصب ایک امانت ہیں اور یہ عہدے قیامت کے روز رُسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِمبارک ہی سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اِلَّا مَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (یہ عہدے روزِ قیامت رُسوائی اور ندامت ہیں) الا یہ کہ ان پر فائز ذمہ داران ان مناصب کا حق اور ان کے مکمل تقاضے پورے کریں۔
اندازہ یہی ہے کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں عمرحسن البشیر دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے۔خود ان کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترمیم کے بعد اب یہ ان کی آخری ٹرم ہوگی۔ پارٹی اور ملکی دستور میں انھوں نے ترمیم کروا دی ہے کہ کوئی بھی صدر دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اصل سوال سوڈان کو درپیش خطرات و مسائل کا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں اُس کی نصرت اپنے اِن مخلص بندوں کے شاملِ حال رہی ہے ۔ ایک اہم ذمہ دار بتا رہے تھے کہ جنوبی سوڈان کا پٹرول چلے جانے کے بعد اللہ نے ملک میں برکتوں کے کئی نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ زمین سونا اُگلنے لگی ہے، فصلیں کئی گنا زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں۔ اصل سونا بھی بڑی مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ عام لوگ تھوڑی سی کھدائی کے بعدسونا نکال رہے ہیں۔ صرف گذشتہ برس میں ریاست نے اپنے عوام سے ۱۲؍ارب ڈالر کا سونا خریدا ہے۔ ان کے بقول: ہمیں رزق کے بارے میں کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں صرف اخلاص کے ساتھ درست راستے پر چلنا اور کوشش کرنا ہے، رزق کا مالک تو رب العالمین ہے جس نے اپنی ایک صفت ’’الرزاق‘‘ بتائی ہے اور اپنی ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔
اجتماعِ عام کے دوسرے روز شام کے سیشن میں بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں کا خطاب تھا۔ اس میں ۴۵ ممالک سے درجنوں ذمہ داران شریک تھے۔ چین، شمالی کوریا، مراکش اور موریطانیہ کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی شریک تھے۔ کئی اسلامی تحریکات کے ذمہ داران بھی شریک تھے۔ اکثر نے اپنے ملکی حالات کے علاوہ تحریکی صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعد ۲۶؍اکتوبرکو ہونے والے پہلے عام انتخابات سب کی توجہ اور دُعائیں حاصل کر رہے تھے۔ افریقی ممالک سے آنے والے مہمان زیادہ تھے۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق اپنے اکثر عرب احباب کی بے رُخی کے باعث ہم نے بھی اپنی توجہ افریقی ممالک پر مرکوز کردی ہے۔ ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی ریاستی تعلقات بحال و مستحکم کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسی ماہ صدربشیرنے سعودی عرب اور مصر کا دورہ کیا ہے اور اُمید ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
مجھے بھی اس سیشن میں گفتگو کا موقع دیا گیا تو کشمیر، پاکستان، جماعت، تحریکی فکر اور دیگر اُمور کے علاوہ بنگلہ دیش کا تفصیلی ذکر کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کی گرفتاری کا بتایا۔ الحمدللہ شرکا نے جواب میں انتہائی گرم جوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ اس سیشن سے واپس آتے ہی بنگلہ دیش سے محترم پروفیسر صاحب کی حالت نازک ہونے اور پھر دنیا کے دکھوں سے ان کے آزاد ہوجانے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بے اختیار آنسو اور دعائیں اُمڈ آئیں۔ اپنے سوڈانی میزبانوں کے علاوہ دنیابھر کی تحریکوں سے روابط کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے اگلے روز جمعہ تھا اور اکثر عرب ممالک میں سفارت خانے بند تھے وگرنہ ہماری بھرپور کوشش اور خواہش تھی کہ نمازِجنازہ میں تحریکاتِ اسلامی کی نمایندگی ہوسکے۔
تقریباً ہر ملک میں مرحوم کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ خرطوم کے اجتماعِ عام میں موریطانیہ سے آئے ہوئے عالمِ ربانی علامہ محمدالحسن الدد نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جب کہ تحریکِ اسلامی سوڈان کے سربراہ الزبیر الحسن نے نماز سے قبل پروفیسر صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مجھے خرطوم کی مرکزی جامع مسجد جانے کا حکم ملا۔ خطبۂ جمعہ میں معروف اسکالر ڈاکٹر عصام البشیر نے بھی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پھر غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں اظہارِ خیال کا کہا گیا۔ مسجد میں کئی مسلم سفرا سمیت عوام کی بڑی تعداد تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔باقی دو روز کا قیامِ سوڈان بھی عملاً پروفیسرصاحب کے ذکرخیر ، اس سلسلے میں بیرونی احباب سے روابط اور تعزیتی کلمات ہی کے لیے وقف ہوگیا۔ سب اس پر متفق تھے کہ ڈھاکہ میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کی نمازِ جنازہ اور دنیابھر میں غائبانہ نماز ان کی مظلومیت و براء ت اور ظالم حسینہ واجد حکومت کے جرائم کے خلاف واضح عوامی ریفرنڈم ہے۔ کئی احباب نے امام ابن تیمیہؒ کا یہ جملہ یاد دلایا کہ ’’ہم میں سے کون غلطی پر ہے اور کون حق پر؟ اس بات کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔ سوڈانی عوام نے بھی اس موقعے پر اپنا فیصلہ شہیدِ زندان پروفیسر غلام اعظم صاحب کے حق میں دیا ہے۔
چند سال قبل یمن جانا ہوا۔ یمنی تحریک اسلامی التجمع الیمنی للإصلاح کے ذمہ داران نمازِ مغرب کے لیے دار الحکومت صنعاء کے قلب میں واقع ایک تاریخی مسجد لے گئے۔ نماز میں حاضری غیر معمولی محسوس ہوئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حاضری معمول کے مطابق ہے، ہمیں زیادہ اس لیے لگ رہی تھی کہ یمن میں ’زیدی‘ فرقے سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور اہلسنت اکٹھے باجماعت نمازِ مغرب ادا کرتے ہیں۔ شافعی عقیدہ رکھنے والے اہل سنت حضرات سنتیں اور نوافل ادا کرکے چلے جاتے ہیں، جب کہ زیدی حضرات کے مطابق نمازِ عشاء کا وقت مغرب سے آدھ گھنٹے بعد ہوتا ہے، وہ وہیں انتظار کرتے ہیں اور عشاء باجماعت ادا کرکے جاتے ہیں۔ مزید تقریباً ایک گھنٹے بعد انھی مساجد میں اہل سنت آبادی کے لیے باقاعدہ اذان اور نماز عشاء ہوتی ہے۔ یہی رواداری اور اخوت رکھنے والا یمن، گذشتہ کئی سال سے ’زیدی‘ عقیدہ رکھنے والے حُوثی قبائل اور ریاست کے مابین باقاعدہ جنگوں کا شکار ہوچکاہے۔
حالیہ ۲۱ ستمبر ان جنگوں کا عروج تھا۔ اس روز ’عبد الملک الحُوثی‘ کی سرپرستی میں خلیجی ممالک کی ایک قدرے نئی مسلح تنظیم ’انصار اللہ‘ نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر دارالحکومت صنعاء کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ عالم عرب کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی، اور کہا جارہاہے کہ آج سقوط یمن کا سانحہ ہوگیا۔ اسی شام قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بنعمر (مشکوک ماضی رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی عبوری صدر عبد ربہ ھادی منصور، حوثی نمایندوں اور دیگر یمنی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو اتفاقیۃ السلم والشراکۃ (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور اب چند روز میں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونا ہے جس کا وزیراعظم حُوثی ہوگا۔ حُوثیوں نے اگرچہ امن معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، لیکن فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول نہیں کیا۔ دارالحکومت پر قبضے کے اگلے روز ۲۲ ستمبر کی شب زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلاب آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا اور وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام حساس علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ اسی اثنا میں اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے، شمال میں واقع اپنے فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے ذرا حُوثیوں اور زیدی فرقے کا تھوڑا سا مزید تعارف حاصل کرلیں۔
یہ اہم شیعہ فرقہ، حضرت زید بن علی زین العابدینؒ ]ولادت ۸۰ہجری- شہادت ۱۲۲ ہجری [ سے منسوب ہے۔زیدی اپنے عقائد کے اعتبار سے اہل سنت سے انتہائی قریب ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو درست تسلیم کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’افضل‘ کی موجودگی کے باوجود ’مفضول‘ کی امامت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ کا احترام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی پر تبرا بھیجنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ۱۲۲ ہجری میں اہل کوفہ نے جناب زید بن علی زین العابدین کو اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کے لیے قائل کرلیا، لیکن عین میدان میں یہ کہتے ہوئے تنہا چھوڑ گئے کہ آپ ابوبکرؓ اور عمرؓ پر تبرا نہیں بھیجتے۔ آپ اپنے باقی ماندہ ۵۰۰ جاں نثاروں کے ہمراہ میدان میں اُترے اور پیشانی پر تیر لگنے سے شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے صاحبزادے جناب یحی بن زیدؒ اور پیروکار مختلف ممالک میں مقیم رہے اور بالآخر یمن میںمستقل سکونت اختیار کی۔ مختلف اَدوار میں اقتدار بھی قائم ہوا جس کی آخری کڑی عثمانی خلافت کے خلاف امام یحیٰ بن منصور کی بغاوت تھی۔ یہ آخری زیدی ریاست گذشتہ صدی میں ۱۹۶۲ء تک قائم رہی۔
تقریباً ۲۸ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمہوریہ یمن، سعودی عرب کے جنوب اور سلطنت عمان کے مغرب میں واقع ہے۔ اڑھائی کروڑ پر نفوس مشتمل آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ اس لیے سعودیہ کا وسیع جنوبی علاقہ اس سے براہِ راست متأثر ہوتا ہے۔ بحیرۂ احمر کی اہم گزرگاہ باب المندب بھی یمنی ساحل ہے۔ ملک کی ۸۵فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے اور تقریباً ہر شخص مسلح ہے۔ آبادی کا ۷۰ فی صد اہل سنت (امام شافعی کے پیروکار) ہیں اور ۳۰ فی صد زیدی شیعہ ہیں۔ براے نام تعداد میں اسماعیلی بھی ہیں۔۲۰۱۱ء میں عالم عرب میں طویل آمریت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں کا اثر یمن بھی پہنچا اور علی عبد اللہ صالح کا ۳۳سالہ اقتدار ختم ہوا۔ نائب صدر عبدربہ ھادی منصور کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی، جس میں الاصلاح تحریک (اخوان) سمیت تقریباً تمام پارٹیوں کو حصہ ملا۔ عبوری فارمولے کے مطابق ۲۰۱۵ء میں نئے دستور پر ریفرنڈم اور پھر عام انتخابات ہونا تھے، لیکن اب سارا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔
شمالی یمن میں واقع زیدی اکثریت کے پہاڑی علاقے ’صعدہ‘ میں ایک مسلح دینی تحریک ’تحریک مؤمن نوجوانان‘ کے نام سے فعال تھی۔ ۱۹۹۲ء میں اسے ’انصار اللہ‘ کا نام دے دیا گیا۔ بانی کا نام حسین بدر الدین الحوثی تھا۔ انھی کی نسبت سے پوری تحریک کو حوثیوں کی تحریک کہا جاتا ہے۔ تحریک نے آغاز ہی سے اپنے مذہبی تشخص اور مسلح تربیت پر زیادہ توجہ دی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے زیدیوں کے حقوق سلب کررکھے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں صدر علی عبد اللہ حکومت کے ساتھ ان کی باقاعدہ مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تحریک کا بانی حسین الحوثی ایک لڑائی میں مارا گیا تو اس کے بھائی عبدالملک حوثی نے سربراہی سنبھال لی، جو تاحال جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء تک یمنی حکومت اور انصار اللہ کے مابین چھے باقاعدہ جنگیں ہوئیں۔ ۲۰۰۹ء میں ایک جنگ خود سعودی عرب سے بھی ہوگئی۔ اسی اثنا میں حوثیوں کے کئی ذمہ داران زیدی شیعہ سے اثنا عشری عقیدے کی طرف منتقل ہوگئے اور کئی حوالوں سے شدید تعصب کا شکار بھی۔
علی عبد اللہ صالح کی حکومت ختم ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی تو حوثی اس کا حصہ نہ بنے۔ البتہ جب حکومت نے ’’قومی مذاکرات‘‘ کے نام سے تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت شروع کی تو حُوثی بھی اس میں شریک ہوئے۔ مذاکرات ابھی تکمیل کو نہ پہنچے تھے، کہ حُوثیوں نے پھر سے مسلح کارروائیاں شروع کردیں اور ایک ایک کرکے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے دار الحکومت صنعاء کے قریب آن پہنچے۔ مالی مشکلات کی شکار حکومت کو گذشتہ جولائی میں وہ مشکل قدم بھی اٹھانا پڑا، جس کے بارے میں وہ شدید تردد کا شکار تھی۔ پٹرول اور اس کی مصنوعات کو دی گئی سرکاری سب سڈی کا ۵۰ فی صد ختم کردیا گیا۔ عسکری لحاظ سے مضبوط تر اور فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم جماعت نے موقع غنیمت جانا، اپنی تحریک کا فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے تین مطالبات کا نعرہ لگادیا: ۱- حکومت مستعفی ہو اور ٹیکنو کریٹ حکومت بنائی جائے۔۲- سب سڈی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے ۳- قومی مذاکرات کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے (حالانکہ اس کی سفارشات پر دستخط ہی نہیں ہوئے)۔ چند ہفتوں کی مزید فوجی کارروائیوں، وزیراعظم ہاؤس کے سامنے خوں ریز جھڑپوں، اور سیاسی مطالبات کی تشہیر کے بعد ۱۷؍ اگست کو دار الحکومت کے چاروں اطراف میں دھرنا دے دیا گیا۔ بالآخر یہی دھرنا اور خوں ریز جھڑپیں ۲۱ ستمبر کو دارالحکومت پر ’انصار اللہ‘ کے قبضے، حکومت کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدے پر منتج ہوا۔
یہ امر اب ایک کھلا راز ہے کہ حُوثیوں کو پہلے روز سے ایران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ یمنی افواج سے چھے اور سعودی عرب سے ایک جنگ کے دوران اسے سمندری راستے سے ایرانی اسلحے کی مسلسل ترسیل جاری رہی اور اسے زیادہ چھپایا بھی نہیں گیا۔ ادھر سعودی عرب نے بھی اپنے گھوڑے صدر علی عبد اللہ صالح کی بھرپور پشتیبانی کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ۳۳ سالہ بانجھ دورِاقتدار کے بعد، اسے یمنی عوام کی غالب اکثریت مسترد کرچکی ہے، اسی کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر جب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو سعودی عرب نے یمن کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود، وہاں وہ دل چسپی نہ لی جس کے حالات متقاضی تھے۔ خود علی عبداللہ صالح جس نے حوثیوں سے کئی جنگیں لڑی تھیں، موجودہ یمنی حکومت سے انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے حوثیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ فوج اور بیوروکریسی میں موجود اپنے سب نمک خواروں کو بھی یہی پالیسی اختیار کرنے کا کہا۔
یہ تلخ حقیقت یقینا اپنی جگہ درست ہے کہ حوثیوں نے دارالحکومت کو اسلحے، بیرونی سرپرستی اور اندرونی سازشوں کے بل بوتے پر زیر کیا ہے لیکن بعض اہم ترین حقائق اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یمن کی عبوری حکومت میں مؤثر ترین عوامی حکومت وہاں کے ’اخوان‘ ہیں۔ مصر میں اخوان کی منتخب حکومت کے خاتمے اور لیبیا میں اخوان کی ممکنہ کامیابی کو خانہ جنگی کی نذر کردینے کے بعد یمن سے بھی ان کا اقتدار ختم کرنا بعض عرب ممالک کے لیے تمام اہداف سے زیادہ اہم ہدف ٹھیرا۔ یمن میں نہ صرف الاصلاح (یعنی اخوان) کا اقتدار ختم کرنا اصل مقصود قرار پایا، بلکہ نقشہ یوں بنایا گیا کہ اپنی قیادت کے ایک اشارے پر جان تک قربان کرنے کے لیے تیار لاکھوں اخوانی کارکنان کو براہِ راست مسلح حُوثیوں کے سامنے لاکھڑا کیاجائے۔ دارالحکومت صنعاء سے پہلے جہاں جہاں حُوثیوں نے قبضہ کیا، وہاں الاصلاح کے ذمہ داران اور ان کے مختلف اداروں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔ دارالحکومت کا محاصرہ کیا گیا تو الاصلاح کے وزرا اور ذمہ داران کو دھمکیاں ہی نہیں دی گئیں، ان کے بعض نوجوان قائدین کو شہید بھی کردیا گیا۔ صنعاء میں قائم ان کی بین الاقوامی یونی ورسٹی (الایمان یونی ورسٹی) جہاں ہزاروں ملکی و غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم تھے پر قبضے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور مختلف اطراف سے ایسے بیانات آنے لگے کہ حکومت ریاست اور فوج تو بہت کمزور ہوگئے ہیں، اب اگر یمن کو حوثی خطرے سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ’الاصلاح‘ ہے۔ یہ مہم اتنی وسیع تر تھی کہ ہمیں پاکستان میں بھی اس طرح کے ایس ایم ایس موصول ہونے لگے کہ: ’’آج یمنی اسلامی تحریک کے فلاں ذمہ دار شہید کردیے گئے، الاصلاح کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟‘‘ خدا کا شکر ہے کہ الاصلاح کسی اشتعال انگیز مہم کا شکار نہیں ہوئی۔ اس نے مسلسل یہی کہا کہ حکومت اور فوج کی ذمہ داریاں، ہم اپنے سر نہیں لیں گے۔ ہم کسی مسلح تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے خواہ حوثی ہمارے گھروں پر ہی کیوں نہ قابض ہوجائیں۔ پھر جیسے ہی دارالحکومت پر چڑھائی شروع کی گئی تو حیرت انگیز طور پر کہیں کسی ریاستی ادارے فوج، پولیس، پیرا ملٹری فورسز نے حوثیوں کے سامنے مزاحمت نہ کی۔ منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ یمن جیسے مسلح معاشرے میں خانہ جنگی شروع کرواتے ہوئے، جہاں ایک طرف ایک مستقل شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کردیا جائے وہیں سب سی بڑی عوامی قوت الاصلاح کو حوثیوں کے مہیب اسلحے کے ذریعے کچل دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تب بھی انھیں حکومت سے تو بے دخل کر ہی دیا جائے۔ فی الوقت یہ دوسرا ہدف حاصل کیا جاچکا ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یمن میں ’انصار اللہ‘ اور حوثیوں کا اقتدار بنیادی طور پر ایران کا اقتدار ہے۔ ایرانی اخبارات ہی نہیں، ذمہ داران بھی اس کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ تہران سے منتخب رکن اسمبلی علی رضازاکانی کا یہ بیان عالم عرب میں بہت نمایاں ہورہا ہے کہ ’’ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔ بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعاء‘‘۔ اگر یہ بیان حکومتی کارپردازان کے دل کی آواز سمجھا جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ تمام خلیجی ریاستیں تین اطراف سے ایرانی گھیرے میں آگئی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نفوذ کی اس لڑائی پر فرقہ وارانہ تیل کی بارش بھی کی جارہی ہے۔ طرفین کے ذرائع ابلاغ اشتعال انگیز سرخیاں جمارہے ہیں: ’’انقلابیونِ یمن پاکسازی تکفیری ھا را آغاز کردند‘‘ (ایرانی روزنامہ کیہان)، یمنی انقلابیوں نے تکفیریوں کا صفایا شروع کردیا۔ ’’حوثیوں کی صفوی یلغار کو ناکام کرنا، یمن کا ہی نہیں، مکہ اور مدینہ کا دفاع ہے‘‘ (معروف کویتی دانشور ڈاکٹر عبداللہ نفیسی)۔
اگرچہ سرکاری سطح پر کئی عرب ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن معاہدے کی تائید کی ہے، لیکن عوامی سطح پر اسی معاہدے سے مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ متعدد مسلم ممالک کی طرح یمن میں کوئی نامعلوم بم دھماکے نہیں، حوثی بھاری اسلحہ لیے پھرتے ہیں، لیکن کسی مغربی ملک کو ’دہشت گردی‘ یا ’’داعش‘‘ جیسے نام یاد نہیں آرہے۔ کسی مغربی ملک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نہیں نکالا۔ جامعہ الایمان ہی نہیں اس کے ہاسٹل میں مقیم طلبہ تک کا سامان لوٹ لیا گیا۔ لیکن قریب ہی واقع امریکی سفارتخانہ بلاخوف و خطر حسب معمول کام کرتا رہا۔ معاہدہء امن پر دستخط کرنے کے ۴۸گھنٹے بعد یمنی صدر عبدربہ کے اس بیان نے عوام کے ان شکوک شبہات کو زبان دی ہے کہ ’’یمن میں جو کچھ ہورہاہے وہ ایک خوف ناک عالمی سازش اور ملک کے اندر سے کئی عناصر کی خیانت کا نتیجہ ہے‘‘۔
یہ تحریر آپ تک پہنچنے تک یمن میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہوگی، لیکن لگتا ہے کہ خطے میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ تھمنے کے بجاے، مزید تیز تر ہوجائے گا۔ یمن کی تبدیلی مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک کی تبدیلیوں سے الگ نہیں دیکھی جاسکتی۔ عراق اور شام میں ’داعش‘ جیسے پراسرار دیو کے خلاف امریکی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس ڈرامے کا اصل راز اسی بات سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں چند روز کے اندر اندر عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرلینے والی اس تحریک کے خلاف جنگ کے لیے، امریکی وزیر دفاع چک ہیگل (Chuck Hagel) نے پانچ سو پچاس ارب ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ یقین نہیں آرہا تو رقم دوبارہ پڑھ لیجیے، اتنی ہی رہے گی۔ صاحب بہادر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ یہ جنگ تین سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ کچھ دیگر ذرائع ۱۰ سال کی مدت بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ باعثِ حیرت نہیں کہ گذشتہ تین سال میں ۳لاکھ سے زائد بے گناہ شامی عوام کے قتل پر تو خالی خولی بیانات، اور اب دومغویوں کے قتل کے بعد اتنی بڑی جنگ ...؟ قتل ہونے والے برطانوی شہری کے اہلِ خانہ نے تو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم کئی بار اغواکاروں سے معاہدے کے قریب پہنچے لیکن برطانوی حکومت رکاوٹ بنتی رہی۔اکثر مسلمان ممالک اس جنگ کے ’بجٹ شریک‘ حصہ بن گئے ہیں۔ ترکی پر بھی مسلسل اور شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس نے کسی زمینی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا، تو اس پر ’داعش‘ اور ’دہشت گردی‘ کی امداد کے الزامات عائد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
عرب ممالک سے شام کا جلاد بشار الاسد قبول کروانے کے لیے ایک پتّا یہ بھی پھینکا جارہا ہے کہ ’’یمن سے حوثیوں کااقتدار ختم کروانے کے بدلے، شام میں بشار کی تائید کرو‘‘۔ ۷۰ فی صد آبادی اور مسلح قبائل پر ویسے بھی حُوثی کتنی دیر تک مسلط رہ سکیں گے؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ پورے خطے پر مسلط کیا جانے والا مسلح گروہوں کا منصوبہ تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔ اس نازک موقعے پر ہر صاحب خرد کو اپنی اپنی جگہ اس آگ کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ امریکی، اسرائیلی یا بھارتی استعمار کے خلاف جہاد پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔مسلمانوں کو مسلمانوںکے خون کا پیاسا بنا دینے کے انوکھے فارمولے کا اکلوتا فائدہ ، صرف اور صرف امریکا اور صہیونی ریاست اور بے گناہ عوام کی گردنوں پر مسلط ظالم درندوں ہی کو پہنچے گا۔
’داعش‘ ہی کو دیکھ لیجیے، نام تو ریاست اسلامی رکھا ہے لیکن اب تک کی سب سے کامیاب کارروائی گذشتہ تین برس سے بشارالاسد کے خلاف برسرِپیکار مخلص مجاہدین ہی کے خلاف کی ہے۔ ’احرار الشام‘ کی مجلس شوریٰ کا خفیہ اجلاس شام کے اِدلب میں ایک زیرزمین خفیہ مقام پر ہورہا تھا کہ ان پر حملہ کر کے تحریک کے سربراہ سمیت مجلس شوریٰ کے ۴۵ مخلص ترین ارکان شہید کردیے۔ سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ اور جنگ کی طویل مدت کا اعلان ہی بتا رہا ہے کہ اس کے خلاف جنگ کرنے والے ہی اسے باقی رکھیں گے۔
دنیا میں جو بھی آیا، آزمایا گیا۔ کسی کی آزمایش اقتدار و اختیار، تاج و تخت او رمال و دولت کے انباروں سے ہوئی اور کسی کی بھوک، افلاس، ظلم و ستم اور پھانسی کے پھندوں سے۔ کامیاب وہی ٹھیرا جس نے ہر دو صورتوں میں اپنے رب کی سچی اطاعت و بندگی اختیار کی۔ اپنا اصل ہدف، ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کو رکھا۔
آج کے قومی یا عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے، تو آزمایشوں کی یہ سنت الٰہی نقطۂ عروج تک پہنچی دکھائی دیتی ہے۔ خون مسلم ہر جگہ پانی سے بھی ارزاں ہے۔ پہلے صرف کشمیر و فلسطین اور افغانستان کے مظلوم اہل ایمان کے لیے دُعاے رحم ہوتی تھی، اب مصر، شام، عراق، یمن، لیبیا، بنگلہ دیش، اراکان، سری لنکا، وسطی افریقا، صومالیہ اور ماوراے قفقاز ، یعنی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف اغیار کے قبضے اور استعمار کے مظالم کے خلاف دُعائیں ہوتی تھی، اب خود مسلمان حکمران اور ان کے مسلح لشکر، کفار کے مظالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔
گذشتہ صدی کے آغاز میں بھی عالم اسلام کی بندر بانٹ کی گئی تھی، تقریباً ۱۰۰ سال گزرنے کے بعد اب منقسم کو مزید تقسیم کرنے کا عمل تیز تر کیا جارہا ہے۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۱۶ء کے درمیان فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسوا جارج پیکو اور برطانوی وزیر خارجہ مارک سائکس نے مشرق وسطیٰ کو ذاتی جاگیر کی طرح بانٹ لیا۔ شام اور لبنان پر فرانسیسی، عراق اور خلیج پر برطانوی قبضہ ہوگیا۔ مشرقی اردن اور فلسطین بھی برطانوی نگہداری میں دیے گئے، لیکن چونکہ فلسطین کو اسرائیل میں بدلنا تھا، اس لیے ساتھ ہی وضاحت کی گئی کہ اس ضمن میں اعلان بالفور( Balfour Declaration) پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری ہونے والے اس منحوس ڈکلریشن میں پوری ڈھٹائی سے لکھا تھا:
His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine home for the Jewish people. شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے وطن بنانے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور تقسیم و تسلط کے بعد خود تو ان استعماری طاقتوں کو جانا ہی تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، لیکن جاتے جاتے اکثر مسلم ممالک میں فوجی آمر اور اپنے غلام حکمران بٹھا گئے۔ ایسے حکمران کہ جنھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے، جہاں اور جیسے چاہا استعمال کیا جاسکے۔ گذشتہ پوری صدی اُمت مسلمہ نے استعماری طاقتوں کے کاشت کردہ ان زہریلے بیجوں کی تلخ فصلیں کاٹی ہیں۔وسائل کے انبار ہونے کے باوجود عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہے ہیں۔ ۳۰،۳۰ اور ۴۰،۴۰ سال مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد جب بعض حکمرانوں سے نجات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ، قوم کے اَربوں ڈالر خود ہڑپ کیے بیٹھے تھے یا پھر ان قیمتی وسائل کا تمام تر فائدہ استعمار اور اس کی پالتو ریاست اسرائیل کو پہنچا رہے تھے۔
توانائی کے سنگین بحران سے دوچار ملک مصر نے، صرف ۲۰۰۸ء سے فوجی آمر حسنی مبارک کی برطرفی تک تین سالہ مدت میں اسرائیل کو صرف ڈیڑھ ڈالر فی یونٹ کی قیمت پر گیس فروخت کی۔ اسی عرصے میں گیس کی عالمی قیمت ۱۲ سے ۱۶ ڈالر فی یونٹ رہی۔ حسنی مبارک نے اپنے ایک نمک خوار حسین سالم کے ذریعے EMG نامی کمپنی کے ذریعے مصر کو اس ایک سودے میں صرف ۱۱؍اَرب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔صدرمحمد مرسی کے ایک سالہ دور میں اس نام نہاد کمپنی اور حسین سالم پر مقدمہ چلا اور کمپنی پر پابندی لگائی گئی۔ حالیہ فوجی انقلاب کے بعد حسین سالم اور کمپنی دوبارہ فعال ہوگئے ہیں۔ اب انھوں نے اُلٹا ریاست کے خلاف مقدمہ قائم کرتے ہوئے ۸؍ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
تیونس کو ہمیشہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی روشن مثال قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تیونس میں اقتصادی ترقی ثابت کرنے کے لیے عالمی رپورٹیں جاری کروائی گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس کا پورا اقتصادی ڈھانچا زین العابدین بن علی اور ان کی اہلیہ کے رشتہ داروں کے ہاتھوں جکڑا ہوا تھا۔ خوش نما عالمی رپورٹوں کی تیاری میں شریک ایک عالمی ماہر اقتصاد، بوب ریکرز نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ساری عالمی رپورٹیں جعلی اور نام نہاد ترقی ایک سراب تھی۔ بن علی کے دور اقتدار کے صرف آخری ۱۰ برسوں میں سرمایہ کاری کے قانون میں ۲۵ مرتبہ ترمیم کی گئی۔ ان سب ترامیم کا اکلوتا مقصد، اقتصادی ڈھانچے پر خاندانی اجارہ داری کا استحکام تھا۔ بن علی کو رخصت ہوئے تین برس سے زائد عرصہ گزر گیا اور جاتے ہوئے دولت کے انبار ساتھ بھی لے گیا، لیکن اب بھی آئے روز ذاتی دولت و کاروبار کے نئے سراغ مل رہے ہیں۔ ۳۷۶ بنک اکاؤنٹ اور ۵۵۰ ذاتی جایدادیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کئی خفیہ ذاتی گھروں میں ڈالروں کے ڈھیر گننے میں کئی ماہ کا عرصہ لگا۔ ابھی کرپشن کے سارے راز افشاں نہیں ہوسکے، اور اب ایک بار پھر سابقہ حکمران ٹولے کا اقتدار بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مصر میں جنرل سیسی کے خونی انقلاب کے فوراً بعد تیونس میں بھی سابقہ نظام کے کل پرزوں نے عالمی سرپرستی میں واپسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے قتل، مسلح اسلامی دھڑوں کی اچانک تیز ہوتی ہوئی کارروائیوں اور دستور ساز اسمبلی کے اندر مسلسل بحرانوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اگر اس موقعے پر تحریک نہضت سیاسی بصیرت سے کام نہ لیتی، تو اب تک تیونس کو بھی خون میں نہلایا جاچکا ہوتا۔یہاں ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ایک پراپیگنڈے کی صورت میں الاخوان المسلمون مصر اور تحریک نہضت تیونس کے بارے میں اکثر پھیلائی جاتی ہیں:
اخوان کے بارے میں یہ کہ انھوں نے ضرورت سے زیادہ سختی اور عجلت دکھائی اور تحریک نہضت کے بارے میں یہ کہ انھوں نے بہت سستی دکھائی اور اقتدار کی خاطر مداہنت برتتے ہوئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کرلیا اور شریعت ہی سے دست بردار ہوگئے۔
یہ دونوں الزامات محض تہمت ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ دونوں تحریکیں حکمت، احتیاط اور ثابت قدمی سے چلیں۔ دونوں کے خلاف پہلے روز سے سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ لیکن ایک تو تیونس کے پڑوس میں کوئی اسرائیلی ناسور نہیں تھا اور دوسرے وہاں کی فوج کو ابھی براہِ راست اقتدار کا چسکا نہیں لگا، اس لیے اسے مصر نہ بنایا جاسکا۔ تحریک نہضت کو حاصل وسیع عوامی تائید اور دستور ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود، انھیں اپنے دو وزراے اعظم اور بالآخر حکومت سے تو دست بردار ہونا پڑا، لیکن جناب راشد الغنوشی کے الفاظ میں: ’’ہم نے اقتدار کھو دیا لیکن ملک کو پہلا متفق علیہ دستور دے کر ملک و قوم کو جیت لیا‘‘۔ تیونسی دستور یقینا کوئی مثالی دستور نہیں، لیکن اس سے ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم ہوگئی ہے جس پر ایک ’’خوش حال، آزاد، اسلامی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اب آیندہ نومبر میں وہاں پہلے پارلیمانی انتخاب ہونا ہیں اور دسمبر میں صدارتی۔ بعض اندرونی و بیرونی قوتیں، انتخاب کا التوا اور عبوری حکومت کاامتداد چاہتی ہیں، لیکن اب تک کے واقعات کی روشنی میں یہ توقع بجا طور کی جاسکتی ہے کہ سازشی عناصر ان شاء اللہ ناکام رہیں گے۔
تیونس میں مصری تجربہ دہرائے جانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ پورا ایک سال گزر جانے اور بدترین سفاکیت کی باوجود، مصری فوجی انقلاب کامیاب نہیں ہوسکا۔ بظاہر تو وہ اپنا دستور بھی لے آئے، جنرل سیسی کو نیا حسنی مبارک بھی بنادیا گیا، لیکن مصر میں طلوع ہونے والا ہردن اس کے لیے ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ اخوان کے ۸ہزار سے زائد شہدا، ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار اور اتنی ہی تعداد میں کارکنان روپوش یا لاپتا ہیں۔ مصر کی نام نہاد عدالتیں، درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں پھانسی کی سزائیں سنا رہی ہیں، لیکن یہ بات حلفیہ دعوے اور کامل یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خونی انقلاب کے خلاف عوامی تحریک میں ایک دن کا توقف بھی نہیں آیا۔ اخوان کے کارکنان ہی نہیں، امریکی اور مغربی تجزیہ نگار بھی مسلسل اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب کو بالآخر رخصت ہونا ہوگا۔
سیسی حکومت سے عوامی بیزاری کا تازہ ترین مظہر وہاں کا حالیہ صدارتی انتخابی ڈراما بھی ہے۔ بھرپور ابلاغیاتی مہم اور پوری سرکاری مشینری استعمال کرلینے کے باوجود، دو روز تک جاری رہنے والی پولنگ ختم ہوئی، تو حکومتوں صفوں میں ہر طرف صفِ ماتم بچھ گئی۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر بیٹھے رنگ برنگے تجزیہ کار، عوام کو بالفعل گالیاں دینے لگ گئے کہ وہ اپنے ’’نجات دہندہ‘‘ سیسی کو ووٹ دینے کیوں نہیں نکلے۔ ذرا غیر جانبدار میڈیا کا معیار ثقاہت ملاحظہ کیجیے: ’’عوام جوتوں کے قابل ہیں‘‘، ’’پہلے انھیں کمر پر پڑتے تھے، اب ان کے سروں پر جوتے برسانے چاہییں‘‘، ’’جو لوگ فیلڈ مارشل عبدالفتاح سیسی کو ووٹ ڈالنے نہیں نکلے، ان کی ماؤں نے انھیںتمیز ہی نہیں سکھائی‘‘، ’’اگر جنرل سیسی کو ووٹ دینے نہ نکلے تو تاریخ کی بدترین خوں ریزی ہوگی‘‘۔پھر اسی دوران میں اچانک اعلان ہوا کہ ووٹنگ کے لیے ایک روز مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ وہی میڈیا جو آہ و بکا کررہا تھا، اگلی شام خوشی کے شادیانے بجانے لگا کہ ۴۶ فی صد ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے ۹۷فی صد نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کرلیا۔ مصری عوام نے اس موقعے پر معرکۃ الصَّنَادِیقِ الخَاوِیَۃ (خالی صندوقچیوں کا معرکہ لڑا) اس معرکے میں وہی غالب رہے اور ووٹوں کا تناسب زیادہ سے زیادہ ۱۲ سے ۱۵ فی صد رہا۔
انتخاب کی طرح ان کے جشن فتح کی مثال بھی نہیں ملتی۔ نتائج کا اعلان کرنے کے بعد میدان تحریر میں رات بھر رقص و شراب نوشی جاری رہی۔ اس دوران خواتین اور بچیوں سے بدسلوکی ہی نہیں، عصمت دری تک کی گئی۔ ایک خاتون صحافی کو جو اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے وہاں تھیں، پورے مجمعے میں مادر زاد عریاں کردیا گیا۔ یہ واقعہ اتنا بدنما داغ ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد جنرل سیسی نے خود ہسپتال جاکر متأثرہ خاتون کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے، سانحے کی شدت کم کرنے کی ناکام کوشش کی۔لیکن خواتین سے بدسلوکی اور انھیں ہراساں کرنا اب مصر کی بدترین شناخت بنتی جارہی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘۔
یہ سانحات و جرائم حکمرانوں کا تعارف تو کروا ہی رہے ہیں، ان کی وجہ سے عالمی طاقتیں بھی مسلسل بے نقاب ہورہی ہے۔ مصر اور شام میں صدارتی انتخابی ڈرامہ ہو یا بنگلہ دیش کے ڈھکوسلا انتخابات، جمہوری اقدار کی دعوے دار قوتوں نے ان کی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود آنکھیں موند لی ہیں اور زبانیں گنگ کررکھی ہیں۔ یہی عالم اور پالیسی حقوق انسانی کی توہین کے بارے میں ہے۔ میدانِ تحریر میں خواتین کی بے حرمتی ہو، شامی مہاجر کیمپوں میں دم توڑتی بچیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی درجنوں طالبات کی اس الزام میں گرفتاریاں ہوں، کہ ان سے حکومت مخالف سٹکر برآمد ہوئے ہیں، دنیا کی کسی ’ملالہ فین‘ این جی او یا حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائے۔
نام نہاد مصری عدالتوں نے چند منٹ کی کارروائی کے بعد ۲۴ مارچ کو ۵۲۹؍ افراد کو سزائے موت سنادی، ’مہذب‘ دنیا نے خاموش رہ کر اس جرم میں شرکت کا ارتکاب کیا۔ عالمی رویے نے قاتل نظام کی حوصلہ افزائی کی، عدالتوں نے ۲۸؍ اپریل کو دوبارہ غضب الٰہی کو دعوت دیتے ہوئے ۷۰۰ مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنادی۔ ۱۹جون کو مجرم جج پھر گویا ہوا، اخوان کے مرشد عام سمیت ۱۴مرکزی قائدین کو سزاے موت سنادی۔ ۲۱جون کو مرشد عام سمیت ۱۵۰؍ افراد کو دوبارہ سزاے موت سنا دی۔ لیکن دنیا یوں اندھی بہری گونگی بنی ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کوپھانسیاں نہیں دی جارہیں، کیڑے مکوڑوں سے نجات حاصل کی جارہی ہے۔
پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کی فہرست طویل ہے اور مزید طویل ہوتی جارہی ہے۔ جس طرح یہ قائدین اور کارکنان سزا سنانے والے ججوں کے فیصلے سن کر ہنستے مسکراتے انھیں کائنات کے حاکم اور منصف مطلق کی عدالت میں جمع کروادیتے ہیں، بہت ممکن ہے کسی روز اسی طرح ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندے چومتے دربار خداوندی میں بھی جاپہنچیں، لیکن وہ حقوق انسانی کے دعوے .... اَربوں کے بجٹ ... مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے... ؟ امریکی وزیر خارجہ نے ۲۱ جون کو قاہرہ جاکر جنرل سیسی حکومت کے لیے ۷۶۰ ملین ڈالر امداد بحال کرکے شاید اسی سوال کا عملی جواب دیا ہے۔ لیکن اصل جواب کائنات کے رب کی عدالت سے آنا ہے اور یقیناً آنا ہے، فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ o (اعراف ۷:۷۱)، ’’اب تم انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کررہا ہوں‘‘۔
اگست ۱۹۹۰ء میں عراقی آمرِ مطلق صدام حسین کی حماقت کی آڑ میں خلیج میں در آنے کا قدیم امریکی منصوبہ مکمل ہوا، تو امریکی صدر بش کے باپ صدر بش نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’’اب خاکِ دجلہ و فرات سے ایک نئی تہذیب، نیا عالمی نظام جنم لے گا‘‘۔ تعلیمی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں سے، اس نئی تہذیب اور نئے عالمی نظام کے کئی تعارف ہیں، یہاں صرف ایک مثال دی جارہی ہے۔
۱۹۹۱ء میں امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عراق کے پورے کرد علاقے کو ’خصوصی حیثیت‘ دے دی گئی۔ قرارداد بظاہر بڑی معصومانہ ہے، تاثر یہ دیا گیا کہ کرد آبادی کو احساس محرومی سے نجات دینے اور صدام حسین کی عرب قوم پرستانہ پالیسیوں سے محفوظ کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے عظیم خدمت انجام دی ہے۔ لیکن اس ’بے ضرر قرارداد‘ کے اصل زہریلے پھل اب پک کر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی علاقے پر مشتمل عراق کا کرد علاقہ، اب تقریباً الگ ریاست کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تیاری مکمل، فضا سازگار اور سب متعلقہ فریق ہمہ تن گوش ہیں کہ کسی بھی لمحے علیحدگی کا بگل بجادیا جائے گا۔ ۲۵جون کو امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے موقع پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ذمہ داران نے بھی اسے ’اطلاع‘ دے دی ہے کہ کردستان ریاست کا اعلان کسی بھی گھڑی ہوسکتا ہے اور یہ کہ اسرائیل اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولیں ممالک میں سے ہوگا۔کردستان کا الگ ریاست بنادیا جانا، صرف عراقی کردستان تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ ایران، شام اور ترکی میں موجود کرد آبادی کو بھی طویل عرصے سے اسی بخار کا شکار کیا جارہا ہے۔ توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کا یہ مکروہ کھیل وہاں بھی کھیلا جائے گا، خواہ اس کھیل کے لیے ان ممالک کو کتنا ہی عرصہ حالت ِ جنگ میں رکھنا پڑے۔
عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد جو عبوری حکومت تشکیل دی گئی، اسی میں عراق کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ حکومت کی تشکیل، ایک ملک کے شہریوں کی حیثیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں، مختلف مذہبی، علاقائی اور نسلی گروہوں کے لیے تناسب کی بنیاد پر کی گئی۔ شیعہ، سُنّی اور عرب، کرد اور ترکمان کی تعصباتی تقسیم گہری کرتے ہوئے، عراق میں خون کے وہ دریا بہائے گئے کہ الأمان الحفیظ۔ٹیکس گزار امریکی شہریوں کے اَربوں ڈالر اور ہزاروں امریکی شہریوں کی جانیں، عراقی الاؤ میں جھونکنے کے بعد بظاہر تو امریکی افواج عراق سے بھاگ گئیں، لیکن امریکا عملاً اب بھی وہاں موجود ہے اور اب بھی اسی کاایجنڈا نافذ ہورہا ہے۔ تیل کی بندربانٹ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ صوبہ کردستان اور مرکزی حکومت میں ایک جھگڑا تیل سے مالامال ’کرکوک‘ شہر پر قبضے کا بھی تھا۔ حالیہ واقعات کے فوراً بعد کرد فوج ’بیشمرکہ‘ نے یہ کہتے ہوئے کرکوک پرقبضہ کرلیا کہ اسے ’داعش‘ سے خطرہ ہے۔ دوسری طرف ’بیجی‘ میں واقع عراق کی سب سے اہم آئل ریفائنری پر اہلِ سنت فورسز کا قبضہ مکمل ہوگیا۔ اس طرح ایک ملک کے بجاے اب عراقی تیل تین قوتوں کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ تین نسبتاً کمزور مالکوں کے ساتھ سودے بازی میں عالمی قوتوں کو آسانی ہوگی۔
عراقیوں کو باہم قتل و غارت کی دلدل میں اتارنے کا سب سے مہلک ہتھیار شیعہ سنی کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں طرفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن حکومت و اقتدار میں ہونے کے باعث شیعہ آبادی کا پلّہ بھاری رہا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران جیسے پڑوسی ملک کا کردار بہت مؤثر ہوسکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیںہوسکا بلکہ عراقی عوام نے ہر قدم پر محسوس کیا کہ ایران جیسے اَہم ملک کا تمام تر و زن و نفوذ، ان کے بجائے متعصب عراقی حکومت کے پلڑے میں ہے۔ کہنے والوں نے تو اس ضمن میں بہت ساری دستاویزات و حقائق پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عراق کی اصل حکومت تہران سے چلائی جارہی ہے۔
انتہائی مسموم ابلاغی یلغار اور گہرے احساس محرومی کی وجہ سے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے پُرامن عوامی احتجاج جاری تھا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں کسی ایک جگہ مشترک نماز جمعہ ادا کی جاتی اور پھر دھرنوں، ریلیوں کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا کہ ’’اہلسنت آبادی کو جینے کا حق دیا جائے‘‘۔ ادھر بغداد سمیت مختلف عراقی شہروں میں بم دھماکوں، اندھا دھند فائرنگ اور آتش زنی کے واقعات کے ذریعے وسیع پیمانے پر شیعہ اور سنی آبادی کے قتل عام میں تیزی پیدا کردی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف حالیہ ماہ جون کے دوران، عراق میں ۲ہزار سے زائد شہری قتل یا زخمی ہوئے (اصل تعداد یقینا زیادہ ہے)۔ اس پوری فضا میں اچانک اہل سنت اکثریتی علاقوں میں بعض مسلح گروہ اٹھے اور انھوں نے وہاں سے عراقی افواج کو بھگاتے ہوئے وسیع و عریض علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے اس پوری کارروائی کو ’داعش‘ نامی تنظیم سے منسوب کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ اس علاقے کی پوری آبادی کا مشترک ردعمل ہے، جس کا سامنا کرنا نوری المالکی انتظامیہ کے بس میںنہیں۔ اگرچہ اس پوری کارروائی میں نمایاں حصہ ’داعش‘ کا دکھائی دیتا ہے، لیکن کرد صدر مسعود بارزانی کے بقول اس میں داعش کا حصہ ۱۰فی صد سے زیادہ نہیںہے۔ صدام فوج کی سابق افواج، مسلح قبائلی لشکر اور عام آبادی سب ان واقعات میں شریک ہیں۔ عراقی فوج کو نکالنے کے بعد پہلے ہی دن صدام حسین کی تصاویر اُٹھا کر مظاہرے، اور پھر صدام کو سزاے موت سنانے والے جج کو پھانسی ’داعش‘ کی نہیں انھی دیگر گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔باقی تمام، عناصر کو چھوڑ کر صرف ’داعش‘ کا نام نمایاں کرنے کے اپنے مقاصد ہیں۔
الدولۃ الإسلامیہ فی العراق و الشام، (داع ش) یا Islamic State in Iraq & Syria (ISIS) کی حقیقت ایک معما ہے۔ یہ مسلح تنظیم گذشتہ کئی ماہ سے شام میں کارروائیاں کررہی ہے۔ اسے آغاز میں وہاں کی ’القاعدہ‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن خود ایمن الظواہری سمیت القاعدہ قیادت نے اس سے اپنی برأت کا اعلان کردیا۔ اب اس کے بارے میں مختلف متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ اس کے پیچھے سعودی عرب، امریکا، ترکی حتیٰ کہ خود ایران کا ہاتھ ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ ’داعش‘ کو سب ممالک اپنا دشمن اور خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار بھی دیتے ہیں، لیکن اس کی کارروائیوں اور کامیابیوں پر ان کی غیر علانیہ طمانیت بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ ’داعش‘ اگر عراق میں نوری المالکی فورسز سے برسرِ پیکار نظر آتی ہے، تو شام میں نوری المالکی کے ہم زاد بشار الاسد کے مخالف مزاحمتی گروہوں سے بھی جنگ کررہی ہے۔
اس غبار آلود منظر کا سب سے خطرناک پہلو عراق ہی نہیں پورے خطے میں سنی شیعہ تقسیم کا گہرا اور سنگین تر ہوجانا ہے۔ تعصب فرقہ وارانہ ہو یا نسلی، علاقائی اور لسانی، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدبودار مُردار قرار دیتے ہوئے، اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ الحمدللہ، عالمی اسلامی تحریکات ان سارے بتوں کی پرستش سے پاک ہیں۔ یہاں بیان کردہ حقائق بھی صرف تصویر کو مکمل طور پر دیکھ سکنے کے مقصد سے پیش کیے جارہے ہیں۔
اسی بنیاد پر الاخوان المسلمون سمیت اکثر تحریکات نے اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ حالیہ صورت حال کے بعد عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کی طرف سے شیعہ آبادی کے لیے نفیر عام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے بھی غالب شیعہ اکثریت رکھنے والی عراقی فوج کے ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کو فارغ کرتے ہوئے ’متبادل فوج‘ کے نام سے فرقہ ورانہ ملیشیا تیار کرکے دشمن ہی کاکام آسان کیا ہے۔ فریقین کو یہ حقیقت بخوبی معلوم بھی ہے اور یاد بھی رکھنا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو صفحہء ہستی سے نہیں مٹا سکتے، لیکن اس کے باوجود کوشش اور اعلانات دونوں کے یہی ہیں۔
ٹھیک ۱۰۰ برس قبل اور آج رُونما ہونے والے واقعات پر غور کریں تو حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کی چالیں اور ہتھکنڈے بھی وہی ہیں اور اپنوں کی حماقتیں اور جرائم بھی وہی۔ تب بھی مغربی استعمار کا ہدف عالم اسلام کو تقسیم و تباہ کرنا تھا۔ تب بھی اس کے اصل آلہ کار، حرص اقتدار کے شکار حکمران تھے، اب بھی اس کا ہدف اور آلۂ کار یکساں ہے۔ رابطے کے تیز رفتار وسائل، ذرائع ابلاغ کے مہیب جال اور ہتھیاروں کے مزید مہلک پن نے اسے اور اس کے غلاموں کو مزید غرور و سفاکیت میں مبتلا کردیا ہے۔ گویا تاریکی اور شدائد عروج کو جاپہنچے ہیں۔
کامیابی کا حتمی تعین کرنے والی کائنات کی سب سے سچی اوراللہ کی آخری کتاب کا مطالعہ کریں تو گاہے حیرت ہونے لگتی ہے،ظلم و ستم اور عذاب و آزمایش کے سنگین ترین لمحات ہی نصرت و نجات کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ ابتلا کے عروج پر بھی خالق نے اپنے سچے پیروکاروں کو اُمید اور عطا کی ہی بشارت دی ہے۔ تنگی اور عسر کے بعد نہیں، تنگی اور عسر کے ساتھ لگی ہوئی یسراور آسانی کی نوید سنائی ہے۔ انسان کو اس نے چونکہ کمزور (ضعیفًا) اور گھبرا جانے والا (ھلوعا) بنایا، اس لیے ایک بار نہیں، دو بار فرمایا: فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶ )’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔اس کے عملی مشاہدے قرآن کریم میں جابجا دکھائی دیتے ہیں:
پوری سیرت انبیاء اور تاریخ انسانی ایسی ہی مثالوں سے معمور ہے۔ یہی نہیں خالق نے پورے کارخانۂ قدرت میں بھی اسی سنت کو نافذ کیا ہوا ہے۔ تاریکی عروج پر پہنچتی ہے تو سپیدۂ سحر طلوع ہونے لگتا ہے۔ حبس انتہا کو پہنچے، تو ابر کرم جھوم کے آتا ہے، کٹھالی میں جتنا کھولایا جائے، آلایشوں سے اتنی ہی نجات ملتی ہے۔
آج بھی رحمت خداوندی کے علاوہ سب در بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اُمید کی کرن تعصبات سے پاک، بے لوث و مخلص اہل دین اور انھی اسلامی تحریکات کو بننا ہے، جنھوں نے گذشتہ صدی میں تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دیا۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی، آج وہ لاکھوں میں ہیں۔حلقۂ یاراں ہو، یعنی اپنے ہم وطن مسلمانوں میں کام کرنا ہو تو یہ تحریکات ہزاروں شہدا اور اسیر پیش کرکے بھی پُرامن رہتی ہیں۔ دعوت و تربیت اور پُرامن سرگرمیوں پر اکتفا و انحصار کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرح استعمار قابض ہوجائے، تو جہاد اور فداکاری کی ناقابل یقین تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ حقائق اور خود اغیار کی اپنی دستاویزات ثابت کررہی ہیں کہ آیندہ ۱۰ سے ۱۵ برس انتہائی اہم ہیں۔ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کا ایک اہم ہدف اسرائیلی ناجائز ریاست کا دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ اب خود اسرائیلی دانش ور سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ہم آیندہ عشرے کے اختتام تک اپنا وجود باقی رکھ سکیں گے؟غیب کا علم صرف پروردگار عالم کو ہے، لیکن آزمایشیں جتنی بڑھتی جاتی ہیں، ألَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی ملکوتی ندا بلند تر ہوتی جارہی ہے۔
’’ایف ایس سی کے امتحان میں قومی سطح پر میری چھٹی پوزیشن تھی۔ ایم بی بی ایس کے امتحان میں ہر سال میں ملک بھر میں اول آتا رہا۔ پھر میرا شمار اپنے شعبے میں ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا۔ جامعہ الازہر کے میڈیکل کالج میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ میں نے اپنی نگرانی میں ایک کلینک قائم کیا جو ملک کے بہترین طبی مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ پھر دو ماہ کے عرصے میں مجھ پر ملک کے ۲۵؍ اضلاع میں ۲۵ خطرناک مقدمات قائم کردیے گئے۔ مقدمات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں ملک کا ایک معروف اور قابل ڈاکٹر نہیں کسی خطرناک مافیا کا سرغنہ ہوں .... آپ لوگوں نے میرا کلینک جلا کر راکھ کردیا… کالج میں زیر تعلیم میری بیٹی اسما کو قتل کردیا .. میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا ... میری اہلیہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں...... لیکن جج صاحب! آپ کا خیال ہے کہ میں عدالت کے کٹہرے میں قیدیوں کا لباس پہنے اپنے دفاع میں کوئی دلیل پیش کروں گا..... رب ذوالجلال کی قسم! میرے لیے پھانسی کے پھندے پر جھول جانا یا ان تمام الزامات سے بری الذمہ ہوجانا یکساں حیثیت رکھتا ہے ..... جج صاحب ! میں آج یہاں صرف اس لیے کھڑا ہوں کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیندہ نسلیں تک جان لیں کہ کون حق پر تھا اور اہل حق کے ساتھ کھڑا تھا، اور کون باطل پر تھا اور اہل باطل کی صف میں کھڑا تھا‘‘۔
یہ الفاظ اخوان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر محمد البلتاجی کے ہیں جو انھوں نے چند روز قبل جیل سے ایک عدالتی پنجرے میں لائے جانے پر جج کے سامنے کھڑے ہوکر کہے۔ ڈاکٹر بلتاجی کو معلوم تھا کہ یہی عدالتیں چند منٹ کی کارروائیوں کے بعد سیکڑوں افراد کو سزاے موت سنا رہی ہیں۔ خودان کے خلاف کسی بھی وقت اور کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ لیکن لگتا تھا کہ جج بھی سکتے میں آگیا ہو ... ہر دیکھنے اور سننے والے نے تبصرہ کیا: ’’لگتا ہے جج کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ملزم ان پر فرد جرم عائد کررہا ہے‘‘۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ اخوان کے تمام گرفتار شدگان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل اسی جرأت و عزیمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ۱۱ ماہ کا عرصہ گزر گیا، خونی فوجی انقلاب مسلسل خوں ریزی کررہا ہے، لیکن اس پورے عرصے کا کوئی ایک دن... جی ہاں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب ملک کے طول و عرض میں مصری عوام سراپا احتجاج نہ ہوں۔ ۸ ہزار سے زائد شہدا اور ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار شدگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ابھی جمعہ ۲۳ مئی کو پانچ مزید بے گناہ شہید ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جمعے کو بھی آٹھ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ دوران ہفتہ بھی شہدا کا قافلہ مسلسل گامزن رہتا ہے۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ شہدا کی اس روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد سے عوام میں خوف یا مایوسی نہیں، ان کے عزم و استقامت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذرا عین الشمس یونی ورسٹی کے طالب علم محمد ایمن کا پیغام پڑھیے، جو اس کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس کا آخری پیغام ثابت ہوا۔ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں تمھیں جنت کی طرف لے جا کر رہوں گا۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ اکیلے اکیلے جنت میں چلے جائیں گے..؟ ہرگز نہیں ... ہم ان کے شانہ بشانہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوں گے تاکہ انھیں بھی معلوم ہوجائے کہ انھوں نے اپنے پیچھے حقیقی مردانِ کار چھوڑے ہیں‘‘۔ ۷مئی کی رات ۵۵:۸ پر اس کا یہ پیغام نشر ہوا اور کچھ ہی دیر میں وہ شہدا کی صف میں شامل ہوگیا۔ تصویر دیکھیں تو مصریوں کا روایتی جمال آنکھوں اور چہرے سے واضح چھلک رہا ہے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ ۲۳مئی کو پھر ایسا ہی واقعہ سامنے آتا ہے۔ یونی ورسٹی کا طالب علم ابراہیم عبد الحمید ٹویٹر پر اپنا پیغام لکھتا ہے: النصر الحقیقی ھو الشہادۃ’’حقیقی فتح، شہادت ہے‘‘ ،اور پھر یہی آخری پیغام چہرے پر سجائے رب کے دربار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اِکا دکا نہیں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں اور اللہ کے عطا کردہ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے جاری، جنرل سیسی مخالف تحریک کی آب و تاب میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب دیکھیں تو جلاد سیسی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ صرف قتل و غارت ہی نہیں اب وہ خود کو منتخب صدر کی حیثیت سے ملک و قوم پر تھوپنا چاہتا ہے۔ جنرل سیسی نے ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کے خونی انقلاب کے بعد درجنوں بار کہا کہ ’’وہ اقتدار نہیں چاہتے‘‘، ’’صدارت کا اُمیدوار نہیں ہوں‘‘، ’’فوج سیاست سے بالاتر رہے گی‘‘ لیکن پھر ’’عوام کے پُرزور اصرار‘‘ پر انھوں نے فوج کی سربراہی اپنے ایک قریبی رشتے دار کے سپرد کرتے ہوئے وردی اتاری اور صدارتی اُمیدوار بن بیٹھے۔صدر جنرل سیسی کی مہم شروع ہوتے ہی، عوام کی طرف سے ایسی نفرت کا اظہار کیا گیا کہ کوئی صاحب ِغیرت ہوتا، تو اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیتا۔ عوام نے ایک ایسا ناقابل بیان نعرہ ایجاد کیا کہ جس میں نفرت کی شدت بھی تھی اور استہزا کی انتہا بھی۔ ’’انتخبوا...... کو منتخب کرو‘‘کا یہ نعرہ اتنا معروف ہوا کہ اس میں سے گالی نما لفظ نکال کر بھی اگر کہیں صرف اتنا ہی لکھا ہوتا ہے کہ ’’...... کو منتخب کرو‘‘ تو یہ بدنما لفظ بھی خود ہی ادا سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی آبادی ۸ کروڑ ہے اور اس میں سے یقینا ایک حصہ بالخصوص مسیحی آبادی سیسی کا ساتھ دے رہی ہے، لیکن غیر مصری عوام نے بھی یہ نعرہ ایک دوسرے سے شیئر کیا۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ’’..... کو ووٹ دو‘‘ کا یہ نعرہ سوشل میڈیا پر ساڑھے ۹ کروڑ سے زائد افراد نے ارسال کیا۔
انتخابی ڈرامے کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے متعدد صدارتی اُمیدوار میدان میں اتارنے کے لیے کئی جتن کیے گئے۔ لیکن جہاں صدر محمد مرسی کے انتخاب کے وقت ۱۳؍ اہم قومی شخصیات میدان میں تھیں، حالیہ انتخابی ڈرامے میں سو پاپڑبیلنے کے بعد بھی صرف ایک اُمیدوار حمدِین صبَّاحی کو میدان میں لایا جاسکا۔ حمدِین صبَّاحی گذشتہ اصل انتخاب میں بھی صدارتی اُمیدوار تھے اور بائیں بازو کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انتخاب کے دوسرے مرحلے میں انھوں نے بھی فوج کے اُمیدوار جنرل شفیق کی بھرپور مدد کی تھی۔ خود جنرل شفیق جو حسنی مبارک کے زوال کے بعد سے آج تک ابوظبی میں مقیم ہیں، کی طرف سے بھی نہ صرف صدارتی اُمیدوار بننے سے معذرت کی گئی بلکہ انھوں نے جنرل سیسی کی مخالفت کرتے ہوئے بیانات بھی دیے۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس نے فوج کو متنازع بنادیا ہے‘‘ اور ’’میں ایسے انتخاب میں کیوں حصہ لوں کہ جس کے نتائج پہلے سے معلوم ہیں‘‘۔
خود جنرل سیسی نے بھی ایک ایسی انوکھی انتخابی مہم چلائی ہے کہ خود مسلسل روپوش ہیں۔ پوری مہم کے دوران میں ایک بار بھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔ ایک بھی ریلی، جلسے یا اجتماع سے خطاب نہیں کیا۔ ہاں، ذرائع ابلاغ اور اشتہار بازی کے ذریعے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی.وی چینل کے ذریعے اپنے دو پسندیدہ صحافیوں کو چار گھنٹے طویل انٹرویو دیا۔ صحافیوں کے اس جوڑے میں سے بھی جب مرد اینکر پرسن نے تھوڑا سا تیکھا سوال کرنے کی کوشش کی، تو جنرل صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے۔ کہنے لگے کہ ’’میں تمھیں یہ سوال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا‘‘۔ جنرل سیسی کے ۱۱ ماہ کے دور اقتدار میں دو درجن کے قریب صحافیوں کا قتل دیکھ لینے والا یہ ’چہیتا‘ صحافی بھی فوراً چاپلوسانہ دائرے میں واپس چلا گیا۔ جنرل سیسی کو عوام میں اپنی ’مقبولیت‘ کا ہی ادراک نہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عافیت زیر زمین چھپے رہنے ہی میں ہے۔ خود یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ ’’مجھے بھی انور سادات کی طرح قتل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے باوجود بھی غرور و تکبر کا یہ عالم ہے کہ اسی چار گھنٹے کے اکلوتے انٹرویو میں دعویٰ کرڈالا کہ ’’میں اخوان کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالوں گا‘‘.... ’’میں انھیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں گا‘‘۔ یہ متکبرانہ، فرعونی دھمکیاں سننے والے اکثر لوگ بے اختیار کہہ اُٹھے کہ جنرل سیسی نے خود اپنے خلاف حجت تمام کر ڈالی۔ رہیں دھمکیاں تو فرعون نے بھی اپنے اقتدار کے منکر اہلِ ایمان سے کہا تھا ’’میں تمھیں پھانسی چڑھا دوں گا‘‘۔ ’’اُلٹی سمت سے تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا‘‘۔ اہل ایمان کا جواب اس وقت بھی یہی تھا اور آج بھی یہی کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ ۲۰: ۷۲) ’’تم جو فیصلہ کرنا چاہو کرلو، یہ تو اسی حیات دنیا کی فیصلے ہیں‘‘۔ پھر رب ذو الجلال نے ابدی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لَا یَحْیٰی(طٰہٰ ۲۰: ۷۴) ’’ جو اپنے رب کے حضور مجرم بن کر آئے گا، اس کے لیے ایسی جہنم ہے جس میں نہ اسے موت آئے گی اور نہ وہ جی ہی پائے گا‘‘۔
جنرل سیسی اور مصری فوج کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران عجیب وغریب شعبدے بھی سامنے آئے۔ مقصد تو تھا سیسی اور فوج کا تاثر بہتر بنانا، لیکن بالآخر یہ انھی پر اوندھے آن پڑے۔ مثلاً کہا گیا: ـ’’فوج کے تحقیقی یونٹ نے ایڈز اور ہیپاٹائیٹس سی کا علاج دریافت کر لیا ہے‘‘ لیکن جب اس کی تفصیل سامنے آئی تو ایسا مضحکہ خیز دعویٰ کرنے والے خود ہی جھینپ کر رہ گئے۔ عذابِ الٰہی کا درجہ رکھنے والی اس خوف ناک بیماری کا علاج یہ بتایا گیا کہ ’’بیمار کے کچھ خلیے حاصل کر کے، کباب میں رکھ کر خود اسی بیمار کو کھلا دیے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ۱۶روز میں ایڈز / ہیپاٹائیٹس سی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
ہر مسئلے کا حل فراہم کرنے والے جنرل سیسی نے بدسے بدتر ہوتے بجلی کے بحران کا بھی یہ نادر حل دریافت کیا کہ پورے ملک سے پرانے بلب اور ٹیوب لائٹیں تبدیل کر کے نئی لگادی جائیں‘‘۔ صحافی نے حیرت سے ان کا جملہ دہرایا تو جنرل صاحب گویا ہوئے: ’’یہ علمی باتیں ہیں صرف تجربے سے سمجھ میں آسکتی ہیں‘‘۔ اپنی انتخابی مہم میں سیسی صاحب نے اس عبقری علاج پر ایک اور ردّا چڑھاتے ہوئے ۳کروڑ’ انرجی سیور ‘بلب مفت تقسیم کیے ہیں۔ ظاہر ہے قومی مفاد میں اس کے لیے درکار کروڑوں ڈالر قومی خزانے ہی سے حاصل کیے گئے۔ انتخابی مہم تو محض ایک اتفاق ہے۔
قتل وغارت ، خون کے دریا، اقتدار کا فرعونی تصوراور اجتماعی عقل و شعور کا مذاق اڑانے کے باوجود صدارتی انتخابات کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ تادم تحریر بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں نے ووٹ ڈال دیے ہیںاور دیگ کا یہی دانہ انتخابی نتائج کی تفصیل بتا رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں کی ۴ فی صد تعداد نے ووٹ ڈالا (صدر محمد مرسی کے انتخاب میں یہ تناسب ۴۴ فی صد تھا)۔ ان ۴ فی صد میں سے ۵ء۹۵فی صد ووٹروں نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کیا۔ اب سارا ابلاغیاتی زور ۴ فی صد پر نہیں ۵ء۹۵فی صد پر ہے۔ اپنے پیش رو مصری فوجی صدور کی طرح جنرل سیسی بھی ’بھاری اکثریت‘ سے صدر بننے کا دعویٰ کرے گا، لیکن مصری عوام سے پہلے خود جیتنے والے کا دل گواہی دے رہا ہوگا کہ یہ صرف ایک فریب ہے، دھوکا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مصری عوام کی غالب اکثریت نے اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی انتخابات میں اخوان اور صدر محمد مرسی کو ہی منتخب کیا ہے۔
جنرل سیسی کی خود فریبی سے بھی بڑا سانحہ ہے کہ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کی علَم بردار عالمی برادری بھی اس دھوکادہی میں اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہی امریکی انتظامیہ جو تھائی لینڈ میں تازہ فوجی انقلاب کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر رہی ہے، جنرل سیسی کی تمام قتل و غارت پر آنکھیں موندے، اس کے فراڈ انتخابات کو تسلیم کررہی ہے۔ جمعرات ۲۲مئی کو جب وزیرخارجہ جان کیری نے سخت بیان دیا کہ ’’انھیں تھائی فوجی انقلاب سے سخت مایوسی ہوئی ہے اور اس فوجی انقلاب کا کوئی جواز نہیں‘‘ تو خود امریکا میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ تھائی اور مصری فوجی انقلاب میں کیا جوہری فرق ہے؟ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار نے بھی سوال اُٹھایا کہ: ’’جس کیری نے اپنے دورئہ پاکستان کے دوران مصری خونیں فوجی انقلاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاکھوں مصری عوام فوجی مداخلت چاہتے تھے۔ آج مصر میں فوجی اقتدار نہیں حقیقتاً ایک سول حکومت ہے جو ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے اقدامات کر رہی ہے‘‘، وہ کیری آج کس منہ سے تھائی فوجی انقلاب کی مخالفت کر رہا ہے؟ اس ساری تنقید کے باوجود امریکا سمیت اکثر عالمی طاقتیں اور ان کے گماشتے سیسی اقتدار کو منتخب حکومت قرار دینے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔
’حمام کے سب ننگوں‘ کی طرح اسی علاقائی انتخابی، عسکری، انقلابی ماحول میں شام کا جلاد حکمران بشارالاسد بھی ایک نام نہاد انتخاب کروا رہا ہے۔ ماہِ جون ہی میں وہ بھی ایک بار پھر منتخب صدر ہونے کا دعویٰ دہرائے گا اور بظاہر اس کی مخالفت کرنے والے ممالک بھی اس کا اقتدار اسی طرح جاری و ساری رکھنے سے اتفاق کریں گے۔
مصر کے مغربی پڑوسی لیبیا میں بھی ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر نے ملک کے دوسرے بڑے شہر بنغازی سے فوجی انقلاب کا آغاز کردیا ہے۔ جنرل مفتر کرنل قذافی کا ساتھی تھا۔ شاہ ادریس کے خلاف قذافی انقلاب میں وہ اس کا ساتھی تھا۔ پھر قذافی سے اختلافات ہوگئے تو امریکا فرار ہوگیا۔ امریکی ریاست ورجینیا میں طویل عرصہ مقیم رہا اور اب امریکی شہریت رکھتا ہے۔ قذافی کے خاتمے اور پھر طویل ہوتی ہوئی قبائلی چپقلش کے بعد اچانک جنرل مفتر کا ظہور ہوا ہے۔ لیبیا میں متعین خاتون امریکی سفیر نے اگرچہ اس کے انقلاب اور بغاوت سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن اس طرح کہ سب اس تعلق کو جان بھی لیں۔ مفتر نے بھی عالمی برادری اور اس کی لے پالک صہیونی ریاست کو پیغام دینے کے لیے کہا ہے: ’’ملک سے اسلام پسندوں بالخصوص اخوان کا خاتمہ کردوں گا‘‘۔
اخوان کے زیرحراست مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ایک عدالتی حاضری کے دوران بیان دیتے ہوئے عالمی دوغلے پن کا اصل سبب بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۲۰۱۳ء میں ایک اسرائیلی فکری مرکز (تھنک ٹینک) نے اپنی مفصل رپورٹ میں کہا تھا: ’’الاخوان المسلمون اسرائیل کے سخت ترین دشمن ہیں‘‘۔ یہی وہ ہمارا بنیادی جرم ہے جس کی سزا دی جارہی ہے۔ لیکن ہم اسے اپنا بنیادی اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہم وہ اکلوتی جماعت ہیں کہ جس نے ۱۹۴۸ء میں قبلۂ اوّل پر قبضہ کرنے والی صہیونی افواج کے خلاف جہاد کیا۔ لیکن مرشدعام نے ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ آزادیِ مسجد اقصیٰ کے اس مقدس جہاد کے علاوہ ہم نے نہ کبھی کسی کے خلاف قوت استعمال کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایک آزاد ملک میں قوت کا استعمال کسی بھی طور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخوان کی ۸۶سالہ تاریخ میں ہم پر مسلسل ظلم ڈھائے گئے، ہمارے کارکنان کو دی جانے والی ساری سزائوں کو جمع کریں تو یہ ۱۵ہزار سال کی مدت بنتی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نے پُرامن جدوجہد جاری رکھی ہے اور جاری رکھیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت اخوان کے ۲۳ہزار قیدیوں میں ۲۵۷۴ انجینیر ہیں، ۱۲۳۲ ڈاکٹر ہیں اور ۹۲۲۱ طلبہ ہیں، جن میں سے ۵۳۴۲ کا تعلق جامعہ الازہر کے مختلف کالجوں سے ہے۔ حقوقِ نسواں کے سب دعوے دار جانتے ہیں کہ ان میں سے ۷۰۴ خواتین اور ۶۸۹بچوں پر کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو یہ ظلم دکھائی نہیں دیتا۔
خود ۷۱ سالہ مرشد عام جن کا شمار عالمِ عرب کے ۱۰۰ بہترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے، بھی طویل عرصہ جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ اس وقت بھی انھیں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے باصرار کہا کہ ’’ہم کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے ہمارے ۲۸دفاتر جلاکر اور ہزاروں کارکنان کو شہید کرکے الزام بھی ہمارے سر لگائے جارہے ہیں لیکن ہم وہ اہلِ ایمان ہیں جنھیں یقین ہے کہ اصل عدالت اللہ کی عدالت ہے اور اصل فیصلہ بھی وہیں ہونا ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ رب ذوالجلال دنیا میں بھی یقینا انصاف کرے گا اور آخرت میں بھی‘‘۔
جنرل سیسی کے مظالم، انتخابی ڈرامے اور مرشدعام کے عدالتی بیان کا مطالعہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی بار بار یاد آرہی ہے کہ مَنْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُسْلِمٍ بِشَطْرِ کَلِمْۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ : آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ، ’’جس نے کسی مسلمان کا قتل کرنے میں آدھی زبان سے بھی قاتل کی مدد کی، وہ قیامت کے روز اس عالم میں رب العزت سے ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) لکھا ہوگا: اپنے رب کی رحمت سے مایوس‘‘۔
صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؐ نے فرمایا: مَن طَالَ عُمرُہُ وَ حَسُنَ عَمَلُہُ،’’ جسے لمبی عمر ملی اور اس کے عمل نیک رہے‘‘۔ الحمدللہ ۳۵سے زائد شان دار کتابوں کے مصنف محمد قطب بھی انھی خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں۔ ۹۵برس کی عمر پائی اور آخری لمحہ تک اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزرا۔ ۴جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ، ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء کو رخصت بھی ہوئے تو یہ جمعۃ المبارک کی قیمتی گھڑیاں تھیں اور اللہ نے حرم مکہ میں لاکھوں نمازیوں کو ان کی نماز جنازہ میں شریک کردیا۔
محمد قطب، مفسر قرآن اور شہید ِاسلام سید قطب کے بھائی تھے۔ ان کی تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی بہن نفیسہ، سیّد قطب سے تین برس بڑی تھیں، پھر خود ان کا نمبر تھا۔ دوسری بہن امینہ ان سے چھوٹی تھیں اور پھر محمد قطب کا نمبر تھا، جو سیّد قطب سے ۱۳ سال چھوٹے تھے، اور ان کے بعد سب سے چھوٹی بہن حمیدہ تھیں۔ والد جناب قطب ابراہیم پورے خاندان کے بڑے سمجھے جاتے تھے، جنھیں خاندانی وجاہت اور دین داری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ بچپن سے ہی بچوں کو خوفِ آخرت کی گھٹی دی اور عبادات و فرائض کا خوگر بنایا۔ والدہ بھی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے دو بھائیوں نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی تھی۔
سیّد قطب سے ۱۳ برس چھوٹا ہونے کے باعث محمد قطب کو بھائی کی صورت میں والد کا پیار ملا اور اُستاد کی تربیت بھی۔ اپنی پہلی کتاب سخریات صغیرۃ کا انتساب انھوں نے سیّد بھائی ہی کے نام کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اپنے بھائی کے نام، جنھوں نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا، جنھوں نے بچپن سے ہی مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وہ میرے لیے والد کا مقام بھی رکھتے تھے، میرے بھائی بھی تھے اور انتہائی عزیز دوست بھی۔ میں اپنی کتاب انھی کے نام کرتا ہوں، شاید کہ مجھ پر عائد ان کے گراں قدر قرض میں سے کچھ ادا ہوجائے‘‘۔
سیّد قطب نے بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بہت اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ انھوں نے اپنا شعری دیوان الشاطئ المجہول (نامعلوم ساحل) شائع کیا تو اسے ان اشعار کے ساتھ بھائی سے وابستہ کیا:
أَخِی ذٰلِکَ اللَّفظُ الَّذِي فِی حُرُوفِہٖ
رُمُوزٌ وَ أَلغَازٌ لِشَتّٰی العَوَاطِفِ
أَخِي ذٰلِکَ اللَّحنُ الَّذِي فِی رَنِینِہٖ
تَرَانِیمُ اِخلَاصٍ وِ رَیَّا تَآلُفِ
(’میرا بھائی‘ ایک ایسا لفظ کہ جس کے حروف میں محبتوں کی تمام راز و رموز پنہاں ہیں۔ ’’میرا بھائی‘‘ لفظ ہی ایک ایسا نغمہ ہے کہ جس میں اخلاص و محبت کے تمام تر نم پوشیدہ ہیں۔ )
اسی منظوم انتساب میں سیّد قطب کہتے ہیں:
فَأَنتَ عَزَائِي فِي حَیَاۃٍ قَصِیرَۃٍ
وَ أَنتَ امتِدَادِي فِي الحَیَاۃِ وَ خَالِفِي
(تم میری اس مختصر زندگی کی ڈھارس ہو.. تم زندگی میں میرا تسلسل اور میرے بعد میرے اصل وارث ہو۔)
گویا سیّد قطب، بھائی میں صفات و خوبیاں ہی نہیںدیکھ رہے تھے، ان کی لمبی عمر کے لیے بھی دُعاگو تھے۔ مفسرِ قرآن کے دونوں اندازے درست نکلے۔ محمدقطب نے نہ صرف ۹۵ سالہ بابرکت زندگی پائی، بلکہ سیّد قطب کی حیات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک علم و تحقیق کے معرکے سر کرتے رہے۔
محمد پر بڑے بھائی سیّد کا اثر انتہائی گہرا تھا۔ وہ ایف اے کے بعد عربی ادب پڑھنا چاہتے تھے، لیکن خود کہتے ہیں کہ : ’’سیّد بھائی نے مشورہ دیا کہ انگریزی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرو اور میں نے ان کی بات مان لی‘‘۔ شاید ذہن میں ہوگا : ’’تاکہ تم اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں اور تشکیک و شبہات، کا جواب دے سکو‘‘۔ محمد قطب ۱۹۴۹ء میں تعلیم سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۱ئمیں ان کی پہلی اور انتہائی شان دار کتاب منظر عام پر آئی: الإنسان بین المادیۃ والإسلام (انسان مادیت اور اسلام کے مابین)۔ اس میں انھوں نے فرائڈ جیسے کٹر منکرین حق کے نام نہاد فلسفوں کا مسکت جواب دیا۔ اسی طرح اُنھوں نے اپنی کتاب مذاہب فکریۃ معاصرۃ (معاصر نظریاتی رحجانات)میں بھی مغربی فلسفیوں کا بخوبی محاکمہ کیا۔ اسی طرح جاھلیۃ القرن العشرین (بیسویں صدی کی جاہلیت) کے نام سے اُنھوں نے مغربی تہذیب کے تار وپود بکھیر کر رکھ دیے۔ اپنی کتاب التطور و الثبات فی حیاۃ البشریۃ (انسانی زندگی میں ترقی و ثبات) میں انھوں نے کارل مارکس اور سوشلسٹ نظریات کی حقیقت واضح کی۔
محمد قطب نے اپنے بھائی کی طرح ایک طرف تو باطل نظریات کا ابطال کیا اور دوسری جانب اسلامی تعلیمات کا روشن چہرہ اُجاگر کیا۔ اس دوسرے پہلو کے ضمن میں ان کی کتاب منہج التربیۃ الإسلامیۃ (اسلامی تربیت) بھی شہرہ آفاق کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اسی کتاب کی وجہ سے سعودی عرب نے انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اپنی کتاب منہج الفن الإسلامی میں اُنھوں نے واضح کیا کہ فن اسلامی کسی جامد فلسفے یا وعظ اور پندو ارشاد کا نہیں بلکہ وجود کائنات اور اس میں بکھرے حقائق، تلخیوں اور مظاہر جمال کو اسلامی تصورات کے آئینے میں دیکھنے کا نام ہے۔ مفاھیم ینبغی أن تصحح (بعض خیالات جن کی درستی ناگزیر ہے)۔ دراسات قرآنیۃ (قرآنی مطالعہ)، التفسیر الإسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تشریح)، واقعنا المعاصر (ہمارے موجودہ حالات)، ھل نحن مسلمون (کیا ہم مسلمان ہیں؟) شبہات حول الإسلام (اسلام کے بارے میں بعض شبہات)، لا الٰہ الا اللّٰہ، عقیدۃ وشریعۃ ومنھاج حیاۃ (لا الٰہ الا اللہ عقیدہ بھی ہے، شریعت بھی اور نظام حیات بھی) ، العلمانیون و الإسلام (سیکولر حضرات اور اسلام)، کیف ندعو الناس (دعوت کیسے دیں؟)، رکائز الإیمان (ایمان کی بنیادیں) بھی مرحوم کی وہ شان دار کتب ہیں جن سے ایک دنیا نے استفادہ کیا ہے اور رہتی دنیا تک یہ کتب زندہ رہیں گی۔
دونوں بھائیوں سیّد قطب شہید اور محمدقطب کی طرح تینوں بہنوں کو بھی علم و ادب سے گہرا شغف تھا اور سب ہی نے بہت سخت آزمایشیں جھیلیں۔ سبحان اللہ... پانچوں بھائی بہنوں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا گیا... پانچوں کا جرم صرف ایک کہ رب ذو الجلال کے سوا ہر خدا کا انکار کرتے تھے۔ پانچوں مبارک نفوس قرآن کریم کی دعوت لے کر اُٹھے اور اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے مرتکب پائے گئے۔ سیّد قطب کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تو کچھ عرصے بعد سب سے بڑی بہن نفیسہ کے جواں سال بیٹے رفعت کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے گرفتار ماموں اور اخوان کے مابین رابطہ کاری کرتا ہے۔ پھر اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ناتواں جسم تاب نہ لاسکا اور ماموں سے پہلے ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ پھر دوسرے بیٹے عزمی کو گرفتار کرلیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قریب المرگ ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔
دوسری بہن امینہ، سیّد قطب سے چھوٹی اور محمد قطب سے بڑی تھیں۔ انھوں نے عربی ادب کی شان دار خدمت انجام دی۔ اسلامی تحریک سے وابستگی کی پاداش میں ان کے شوہر کمال السنانیری پر تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے جیل ہی میں شہید کردیا گیا۔ راقم نے کمال السنانیری صاحب کا نام سب سے پہلے مرحوم و مغفور محترم قاضی حسین احمد صاحب سے سنا تھا۔ پشاور آکر رہنے والے مختلف عرب رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کمال السنانیری کا نام خصوصی عقیدت و محبت سے لیا کرتے تھے۔ دیگر اُمور کے علاوہ ایک بات یہ بھی بتاتے کہ سنانیری مرحوم کافی عرصہ پشاور میں ہمارے گھر رہے، لیکن ہمیں ایک روز کے لیے بھی ان کی مہمان داری بوجھ نہیں لگی۔ وہ اکثر روزے سے ہوتے۔ ہمیں بھی اچانک معلوم ہوتا کہ وہ روزے سے ہیں۔ ہمیشہ تلاوت و نوافل ان کا معمول ہوتا۔ امینہ قطب سے ان کی نسبت ۱۹۵۴ء میں طے ہوئی تھی۔ سنانیری صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ گرفتاری کا عرصہ طویل ہوگیا تو انھوں نے پیش کش کی کہ نہ جانے کب تک جیل میں رہنا پڑے، آپ اور آپ کے اہل خانہ چاہیں تو یہ نسبت ختم کردیتے ہیں۔ لیکن امینہ امانت دار ہی نہیں، وفا شعار بھی تھیں۔ انھوں نے اس موقعے پر ایک نظم کہی، جو ان کی ادبی زندگی کی پہلی نظم تھی۔ اپنے پہلے قصیدے میں، شان دار انداز سے، اپنے منگیتر کا حوصلہ بڑھایا۔ ۷۰کی دہائی میں کمال السنانیری کی رہائی ہوئی اور ۱۹۷۳ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس وقت اس باوفا ’دلہن‘کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔ ۱۹۸۱ء میں انور السادات نے دوبارہ اخوان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ سنانیری بھی ابتدائی اسیروں میں سے تھے۔ اس بار اس اللہ والے کے نصیب میں قید ہی نہیں شہادت کا رُتبہ بھی لکھا تھا۔ نومبر ۱۹۸۱ء میں جیل ہی میں تشدد کے نتیجے میں جان، جانِ آفریں کے سُپرد کردی۔ امینہ ہی نہیں محمد قطب سمیت تمام اہل خانہ نے اس شہادت کا صدمہ صبر و ثبات سے برداشت کیا۔
سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب بھی اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر افراد خانہ کی طرح جلادوں کے مظالم کا نشانہ بنیں۔ ۱۹۶۵ء میںسیّد قطب کے ہمراہ وہ بھی گرفتار ہوئیں، تو چھے سال چار ماہ جیل میں بند رہیں اور اس دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔
محمد قطب جیسی نابغہء روزگار علمی شخصیت کو بھی سیّد قطب کی طرح اسلام سے وابستگی کی سزائیں دی گئیں۔ پہلی بار ۱۹۵۴ئمیں اخوان کے ہزاروں کارکنان سمیت گرفتار کیے گئے اور بلا مقدمہ کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۶۵ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے، اس بار وہ سیّد قطب سے بھی پہلے گرفتار ہوئے۔ سیّد قطب نے اعلیٰ حکومتی ذمہ داران کے نام خط لکھ کر احتجاج کیا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ ہم اہلِ خانہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ برطانوی غلامی کے شکار حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ برطانوی دانش ور اور مفکر برٹرینڈ رسل کو بھی ان کے خیالات کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا تھا، لیکن اہلِ خانہ ان کے بارے میں پوری طرح باخبر رہتے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ رسّل بھی ایک دانش ور تھا اور میرا بھائی محمد بھی ایک دانش ور ہے۔ اس احتجاجی مراسلے کا جواب یہ ملا کہ ایک ہفتے بعد سیّد قطب بھی گرفتار کرلیے گئے۔ سیّد اور ان کے ساتھیوں پر تو ایک بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا اور ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ء کو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا، لیکن محمد قطب پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی انھیں سات برس تک قید رکھا گیا۔ اس دوران انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار تو جیل کے اندر باہر یہ افواہ پھیل گئی کہ محمد قطب تشدد کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے ہیں، لیکن بعد میں یہ خبر غلط نکلی۔ رہائی ملی تو دوست احباب نے ’زندہ شہید‘ کے لقب سے یاد کرنا شروع کردیا۔
سات سال قید کے بعد رہائی ملی تو ۱۹۷۲ء میں انھیں ملک عبد العزیز یونی ورسٹی مکہ مکرمہ، حالیہ ’اُم القریٰ‘ یونی ورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آخری سانس تک وہ جوار کعبہ ہی میں رہے۔ کئی بار انھیں دیگر کئی ممالک سے ملازمت اور شہریت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوںنے بیت اللہ کی قربت اور مصری شہریت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف تعلیم و تربیت اور بحث و تحقیق کی سرگرمی جاری رکھی بلکہ متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔ ان کے ایک یادگار سفر میں خاکسار بھی ان کا ہم رکاب رہا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار افغان مجاہدین کو باہم متحد کرنے کی درجنوں کوششوں میں شرکت کرنے کے لیے وہ بھی دیگر عرب زعما کے ساتھ پشاور آئے۔ کئی عرب مجاہدین سے ملاقات کی، کئی ایک سے وائرلیس پر رابطہ ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ تمام کاوشیں بے سود رہیں۔
دھیما مزاج رکھنے والے محمد قطب، اپنی تحریروں اور نظریات میں کامل یکسو اور مضبوط استدلال رکھتے تھے۔ حلقۂ یاراں میں اگر آرا کا اختلاف سامنے آتا تب بھی بریشم کی طرح نرم رہتے، لیکن رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن، کا حقیقی مصداق تھے۔ علامہ یوسف القرضاوی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سیّد قطب کے بعض خیالات سے علمی اختلاف کیا اور اس کے بارے میں مسلسل لکھا، لیکن کبھی نہیں ہوا کہ محمد قطب سے ملاقات ہونے پر انھوں نے اس اختلاف کا ذکر ہی کردیا ہو ... ہمیشہ اخوت کی حلاوت ہی گھولی۔
رب ذو الجلال ہمیشہ اپنی قدرت و حکمت دنیا کو دکھاتا ہے لیکن کم ہی لوگ عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ امام حسن البناء، سیّد قطب، محمد قطب اور ان کے ہزاروں ساتھیوں پر جن فرعون حکمرانوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے، وہ انھیں اور ان کی دعوت کو فنا کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے۔ اللہ نے ان جلاد حکمرانوں کو یوں فنا کیا کہ آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں بچا، جب کہ ان مخلص مصلحین کے افکار، دنیا کے چپے چپے میں اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اسلامی تحریک عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے ہر کونے میں کامل قوت کے ساتھ موجود ہے۔ سچی دعوت کی علم بردار اس تحریک کو آج بھی کئی فرعون اور ان کے حواری کچلنا چاہتے ہیں، لیکن کون ہے جو اللہ کے دین اور اسے غالب و کار فرما کرنے والی تحریکوں کو شکست دے سکے۔ قدرت ان ظالموں پر خنداں ہے ...پکار پکار کر کہہ رہی ہے: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ (الشعراء ۲۶: ۲۲۷)، عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!