۲۰۱۸ءکئی مسلم ممالک میں انتخابات کا سال ہے۔ ۲۴ جون کو ترکی میں اور گذشتہ مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے تیونس کے بلدیاتی انتخابات، تحریک نہضت کی واضح کامیابی کی خوش خبری لائے۔ عراق کے عام انتخابات میں حکمران اتحاد کے بجاے ایک دوسرے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر بڑی قوت بن کر اُبھرے۔ یہی عالم لبنان کے عام انتخابات کا ہے۔ وہاں حسب توقع حزب اللہ اور اس کے حلیفوں نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن شیعہ سُنّی اور مسیحی آبادی میں تقسیم اقتدار کے فارمولے پر عمل اب بھی مشکل تر دکھائی دیتا ہے۔
اب ۲۵ جولائی کو پاکستانی عام انتخابات کے علاوہ اسی سال کے اختتام پر بنگلہ دیش میں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ حسینہ واجد اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے، جب کہ خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کی پوری قیادت، ہزاروں بے گناہ کارکنوں کے ساتھ جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ تمام انتخابات اہم ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے، اس لیے یہاں ان دونوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اب ترکی میں پارلیمانی نظام کے بجاے براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات پر مبنی صدارتی نظام نافذ ہوگا۔ ۶۰۰ ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ یقینا ایک مؤثر دستور ساز ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گی، لیکن سربراہِ حکومت، حکومت سازی کے لیے ایوان میں کی جانے والی جو ڑ توڑ کی فکر سے آزاد ہوکر اُمور سلطنت انجام دے سکے گا۔ ضرورت ہوگی تو پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے باصلاحیت افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرسکے گا۔ عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہونے والا سربراہِ حکومت کسی فوجی انقلاب کے خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہے گا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہ کر تعمیر ملک و ملت میں شریک کرسکے گا۔ فوجی عدالتیں کالعدم قرار پائیں گی اور عدلیہ میں ججوں کا تعین مزید بہتر انداز سے ہوسکے گا۔
مخالفین کے لیے جب صدر طیب اردوان اور ان کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو طیب پر آمر بننے کا الزام لگایا جانے لگا۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً ساری مغربی دنیا کے علاوہ ہزاروں بے گناہوں کے خون کا پیاسا مصری جنرل سیسی بھی صدر اردوان پر آمر کا الزام لگاتے دکھائی دیا۔ ۲۴جون سے قبل تقریباً ہر اہم عالمی جریدے کے سرورق پر آمر کی سرخی کے ساتھ صدر اردوان کی تصاویر شائع کروائی گئیں۔ جرمنی کے سب سے معروف رسالے دیر شپیگل نے تو انتہا کردی۔ اس نے پورے صفحے پر اردوان کی تصویر کے پس منظر میں بڑی مسجد کی تصویر لگائی اور اس کے سربفلک میناروں میں سے دو میناروں کو میزائلوں میں ڈھالتے ہوئے، انھیںنامعلوم دشمن کے خلاف چلادیا۔ ترک وزیر خارجہ سمیت کئی ذمہ داران نے یہ واضح بیانات بھی دیے کہ بعض ممالک ترک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ جھونک رہے ہیں۔ کئی ملکوں کے سوشل میڈیا سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کی حکومتیں کسی بھی ’قیمت‘ پر اردوان کو ہرانا چاہتی ہیں۔
حالیہ ترک انتخابات، اتحادوں کے انتخابات تھے۔ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود میدان میں تنہا نہیں اُتری۔ اس نے ترک قومیت پر مبنی جماعت (MHP) کے ساتھ ’اتحاد جمہور‘ تشکیل دیا۔ یہ جماعت پہلے تقریباً ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کیا کرتی تھی، اب بھی اسے پارلیمانی سیٹوں کے لیے ۱۱فی صد ووٹ ملے۔ خود جسٹس پارٹی کے ووٹ بعض حلقوں میں کم ہوئے، لیکن دونوں جماعتوں کے اتحاد سے صدارتی انتخابات میں کامیابی ۶ء ۵۲ فی صد تک جاپہنچی۔ مقابل حزب مخالف نے بھی اتحاد ہی کی راہ اختیار کی۔ ’اتحاد ملت‘ کے نام سے قائم اس اتحاد میں باہم شدید نظریاتی مخالف جماعتیں یک جا تھیں۔ سب سے بڑی سیکولر جماعت CHP اور سعادت پارٹی کا اتحاد آگ اور پانی کے ملاپ کی صورت میں سامنے آیا۔ اردوان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب کے لیے حکمت عملی یہ بنائی گئی کہ سب اتحادی پارٹیاں اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتاریں گی، تاکہ ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہونے کے باعث طیب اردوان کو پہلے مرحلے میں جیت کے لیے مطلوب ۵۰ فی صد ووٹ حاصل نہ ہوسکیں۔البتہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں اتحاد کے نام سے حصہ لیا جائے۔ تاہم، کھلی بیرونی مداخلت و ’سرمایہ کاری‘ اورمختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد کے باوجود الحمدللہ، رجب طیب اردوان پہلے ہی مرحلے میں صدر منتخب ہوگئے۔ جیت کے بعد اردوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری جیت کسی ایک فرد یا جماعت کی جیت نہیں ہرترک شہری اور دنیا کے ہر مظلوم کی جیت ہے‘‘۔ یقینا اس جیت کے پیچھے ان لاکھوں مظلوموں اور اسلام کے چاہنے والوں کی دُعائیں بھی تھیں، اردوان حکومت نےجن کے زخموںپر مرہم رکھا۔ انتخابی مہم میں محرّم اینجے کہہ رہے تھے: ’’کامیاب ہوکر ۴۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو نکال باہر کروں گا‘‘، جب کہ اردوان کہہ رہے تھے: ’’یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے مہمان ہیں۔ ہم شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف مزید قوت سے لڑیں گے، تاکہ ہمارے یہ مہمان عزت سے اپنے گھر واپس جاسکیں‘‘۔بالآخر افلا ک سے ان تمام مظلوموں کے نالوں کا جواب آیا۔
طیب اردوان نے اپنے وطن عزیز کومعاشی طورپر مضبوط تر بنانے کے لیے وہ کارکردگی دکھائی ہے جو جدید ترکی کی تاریخ میں کبھی ممکن نہ ہوئی تھی۔ اردوان حکومت سے پہلے ترکی اقتصادی لحاظ سے دُنیا کا ایک سو گیارھواں ملک تھا، اب سولھواں ہے۔پہلے فی کس سالانہ آمدنی ۲ہزار ڈالر کے قریب تھی، اب ۱۱ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بے روزگاری کا تناسب ۳۸ فی صد سے کم ہوکر ۲فی صد رہ گیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں ۳۰۰ فی صد بڑھاتے ہوئے کم سے کم تنخواہ ۳۴۰ لیرے سے بڑھا کر ۹۵۷ لیرے (تقریباً ۲۴ہزار روپے) کردی گئی ہے۔ اردوان کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء تک ترکی کو دنیا کی پہلی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنا ہے۔
حالیہ انتخابات میں ترکی سے ملنے والا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ باہمی اختلافات کو کبھی اس انتہا پر نہیں لے جانا چاہیے کہ دوبارہ ملنا ممکن نہ رہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کی غالب اکثریت (بالخصوص فیصلہ ساز افراد) مرحوم اربکان ہی کے ساتھی اور ایک عالمی اسلامی فکر (جسے انھوں نے ’ملی گوروش‘ کا نام دیا ہوا ہے) کا حصہ ہیں۔ آج ترک ایوان صدر میں جائیں تو کئی دفاتر میں سجی ذاتی تصاویر میں صدر طیب اردوان کے ساتھ ساتھ پروفیسر نجم الدین اربکان اور سیّد مودودی کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف سعادت پارٹی اپنے کٹڑ نظریاتی مخالفین کے ساتھ اتحاد پر تو راضی ہوگئی، مگر حکمران پارٹی کے ہم خیال اپنے سابق ساتھیوں سے نہ مل سکی۔حالیہ انتخابات سے چند روز قبل سعادت پارٹی کے مزید کئی اہم ذمہ داران بھی جسٹس پارٹی میں شامل ہوگئے۔
ملائیشیا بظاہر ایک الگ تھلگ مسلم ریاست ہے، لیکن اپنی آبادی اور اپنے اقتصادی مقام کے باعث جنوبی ایشیا میں ملائیشیا انڈونیشیا، سنگاپور اور برونائی سمیت ان سب ممالک کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا وجود دنیا کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا عملی جواب ہے کہ دین اسلام بزور تلوار پھیلایا گیا۔ اس پورے علاقے میں اسلام کا تعارف مسلمان علماے کرام، مسلمان طلبہ اور تاجروں کے ذریعے پہنچا اور الحمدللہ مختلف اَدوار اور مختلف آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود عوام کے دلوں میں اسلام کی محبت ان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملائیشیا کی آزادی کا فیصلہ ہوا اور ۳۱؍اگست ۱۹۵۷ء کو گیارہ صوبوں پر مشتمل ریاست کو آزادی ملی۔ تاہم، ۱۹۶۵ میں سنگاپور الگ ہوگیا۔ آج کا ملائیشیا انھی ۱۳ صوبوں پر مشتمل ہے۔ملائیشیا میں مسلمان آبادی کا تناسب ۸۰ فی صد سے زائد تھا۔ برطانوی تسلط کے دوران ایک منصوبے کے تحت چین اور ہندستان سے ایک بڑی آبادی وہاں منتقل کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مالے نسل آبادی کا تناسب ۵۵ فی صد رہ گیا جو اَب ۶۰ فی صد ہے۔ سب کے سب مسلمان اور امام شافعی کے پیروکار ہیں۔ ۳۰فی صد آبادی چینی النسل ہے اور ۱۰ فی صد ہندستانی نسل کے لوگ ہیں۔ اصل باشندوں کی اکثریت کا پیشہ زراعت اور کھیتی باڑی تھا۔ چین سے آنے والے اکثر لوگ تجارت و صنعت میں جت گئے۔ اکثر ہندستانی جنگلات، تجارت اور مختلف کانوں سے معدنیات کے کام میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح مقامی آبادی کے مقابلے میں دیگر باشندوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر قرار پائی۔
۱۹۵۷ء ہی میں برطانوی سامراج کی اجازت سے ’مالے‘ نسل کی آبادی کے لیے ’یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن‘ (UMNO) تشکیل دی گئی۔ MCA کے نام سے چینی اور MIC کے نام سے ہندستانی آبادی کے لیے بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔
دوسری جانب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی ایک ملائیشین عالم دین ڈاکٹر برہان الدین حلمی کی صدارت میں ایک تنظیم مالاوین قومی پارٹی تشکیل پاچکی تھی۔ ڈاکٹر حلمی نے ہندستان میں تعلیم حاصل کی تھی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک نے آزادی کا پرچم بلند کیا اور اپنے پیش نظر ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام رکھا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے اس تحریک سمیت دیگر تمام تنظیموں پر پابندی لگادی تو ان کے ذمہ داران و کارکنان بھی UMNO میں شامل ہوکر اس پلیٹ فارم سے کام کرنے لگے۔اسی زمانے میں اسلامی تحریک کی شروعات علماے کرام کی ایک تنظیم سے ہوئی، جو بعد میں پاس (PAS) کے نام سے جماعت کی بنیاد بنی۔ ۱۹۵۵ء میں ملک کے پہلے انتخابات ہوئے تو ۵۲؍ارکان پر مشتمل اسمبلی میں ’پاس‘ کو ایک سیٹ ملی۔ آزادی کے بعد پہلے ہی انتخابات میں ’پاس‘ نے صوبہ کلنتان کی ۳۰ میں سے ۲۸ اور صوبہ ترنگانو کی ۲۴ میں سے ۱۳ نشستیں جیت کر دوصوبائی حکومتیں بنا لیں۔
۱۹۵۹ء کے بعد سے آج تک یہی چار بنیادی گروہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کبھی حلیف اور کبھی حریف بنتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوران کئی نئی جماعتیں اور اتحاد بھی وجود میں آتے رہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کے لیے ABIM نامی پلیٹ فارم بہت مؤثر ثابت ہوا۔ انورابراہیم جیسے فعال اور ذہین افراد اس کے کارکن اور پھر سربراہ بنے۔ اس میں بنیادی طور پہ ایک قومی اور اسلامی سوچ رکھنے والے باصلاحیت نوجوان جمع ہوتے آئے ہیں۔ انور ابراہیم نے ABIM کے ساتھ ساتھ ’امنو‘ میں بھی اہم مقام حاصل کیا۔ انھیں مہاتیر محمد کا اعتماد حاصل ہوا۔ وزیرخزانہ اور ڈپٹی وزیراعظم بنے۔ سب انھیں مہاتیر کا جانشین قرار دینے لگے۔ لیکن پھر ۱۹۹۸ء میں ایک اچانک ایسا لمحہ آیا کہ دونوں میں بداعتمادی جڑپکڑنے لگی۔ اسی وقت ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی جب وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان پر شرم ناک الزام لگاتے ہوئے انھیں جیل بھجوا دیا اور کرپشن کے الزامات پر ۶ سال کی سزا سنادی گئی۔ انورابراہیم نے نہ صرف ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا بلکہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۸ میں اپنی نئی سیاسی جماعت (جسٹس پارٹی) بناکے عوامی عدالت میں جانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے ’پاس‘ (PAS) اور چینی نسل کے گروہوں سے بھی رابطہ کیا۔ اس اتحاد کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر مقام حاصل ہوتا رہا۔ ایک وقت میں اس اتحاد کی چار صوبائی حکومتیں بنیں۔ ’پاس‘ کے سربراہ عبدالہادی اوانگ مرکز میں اپوزیشن لیڈر اور تیل سے مالامال صوبہ ترنگانو کے وزیراعلی بھی بنے۔
۲۰۰۳ء میں مہاتیر محمد نے اپنی ۲۲ سالہ وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت عبداللہ بداوی کے سپرد کردی۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۹ء میں نجیب عبدالرزاق وزیراعظم بنے۔ ان کے والد عبدالرزاق حسین ۱۹۷۰ء میں ملک کے دوسرے وزیراعظم بنے تھے۔ اب حالات نے ایک نیا پلٹا کھایا۔ ۹۳ سالہ مہاتیر محمد نے نجیب پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا شروع کردیے۔ ادھر ’پاس‘ اور انور ابراہیم کے مابین غلط فہمیاں جنم لینے لگیں۔ خود ’پاس‘ کے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ نظریاتی ارکان اسمبلی کا جھکاؤ بھی انور ابراہیم کی جانب ہونے لگا اور بالآخر انھوں نے الگ ہوکر ایک نئی جماعت ’امانۃ پارٹی‘ بنالی۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات سے پہلے ’پاس‘ اور’ امنو‘ دونوں تقسیم ہوچکی تھیں۔
وہی مہاتیر محمد جنھوں نے انور ابراہیم کے ساتھ انتقامی سلوک کیا تھا، ’امنو‘ کے بجاے جسٹس پارٹی کے قریب آنے لگے، جسے جیل میں قید انور ابراہیم کی اہلیہ و ان عزیزہ اور صاحبزادی نورالعزہ چلّا رہی تھیں۔ انھوںنے اعلان کیا کہ وہ انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ اب جسٹس پارٹی، مہاتیر کی نئی پارٹی اور ’پاس‘ سے الگ ہونے والی امانۃ پارٹی کا اتحاد بن گیا۔ چینی جماعت بھی ساتھ آن ملی اور اس اتحاد نے ۹ مئی ۲۰۱۸ء کو ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔اسے ۲۲۲ کے ایوان میں ۱۲۲ سیٹیں ملیں۔ ’امنو‘ کو ۱۹۵۹ء کے بعد پہلی بار شکست ہوئی لیکن اس نے پُرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا۔ کامیاب ہونے والے اتحاد کے مابین معاہدہ طے پایا کہ چارسالہ اقتدار کے پہلے دو سال مہاتیر وزیراعظم رہیں گے۔ ان کے ساتھ وان عزیزہ نائب وزیراعظم ہوں گی اور پھر باقی دو سال کے لیے انور ابراہیم وزیراعظم بنیں گے۔ ۹۳ سالہ مہاتیر نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی وسیع پیمانے پر اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ نجیب عبدالرزاق پر ملک سے باہر جانے کی پابندی ہے اور ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جارہے ہیں۔ ان کے گھر سے ۱۲۰ ملین رنگٹ کی نقد کرنسی اور قیمتی جواہرات ضبط کرلیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ’پاس‘ (PAS) نے تمام تر اندرونی تقسیم اور انتہائی کڑے مقابلے کے باوجود کلنتان اور ترنگانو میں واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کے ۱۸ ؍ارکان پہنچ گئے ہیں اور دو مزید صوبوں میں ان کے ارکان کا کردار اہم ترین ہے۔ مجموعی طور پر ۱۳ صوبائی اسمبلیوں میں اس کے ارکان کی تعداد ۹۰ سے متجاوز ہے، انھیں ۱۷ فی صد ووٹ ملے۔ نئی حکومتیں تشکیل پانے کے بعد پاس کے سربراہ نے صوبہ ترنگانو میں اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ وزیراعظم مہاتیر سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دی اور ہر مثبت اقدام میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
ملائیشیا کے حالیہ انتخابات اور حکومت سازی کا سب سے اُمید افزا پہلو حکومت میں انورابراہیم کو اہم مقام حاصل ہونا ہے،جو تحریک ِ اسلامی کے حلیف اور جانے پہچانے رہنما ہیں۔ اپوزیشن میں بھی ’پاس‘ جیسی فعال جماعت ہے جو دو صوبوں میں مکمل اور دو میں جزوی اختیار و نفوذ رکھتی ہے۔ انتخابات سے قبل پائے جانے والے اختلافات و تناؤ کی شدت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ترک انتخابات سے دو دن قبل ۲۲ جون کو انور ابراہیم ترکی گئے۔ نمازِ جمعہ صدر طیب اردوان کے ساتھ ادا کی اور دنیا کو دونوں اہم برادر ملکوں کے شانہ بشانہ ہونے کا پیغام دیا۔ پاکستان کے بارے میں بھی دونوں ملکوں کی قیادت کے جذبات یکساں طور پر مثبت ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک منصوبہ، فتنہ سازوں کا ہے جو مسلم اُمت کی تقسیم در تقسیم کا ہدف رکھتا ہے۔ مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنارہا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ اللہ کی توفیق سے مسلم اُمت کا ہے، جو اہم مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کا پشتیبان بنارہا ہے: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ (یوسف ۱۲:۲۱)’’اور اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے‘‘۔
ذرہ برابر عدل و انصاف اور رتی بھر انسانیت بھی باقی ہو تو ۱۴ مئی ۲۰۱۸ء سرزمین فلسطین پر غاصبانہ صہیونی قبضہ بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب ایک ہی دن میں درجنوں لاشے تڑپا کر اور ہزاروں شہری زخمی کرتے ہوئے بیت المقدس پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کا پیغام دیا جارہا تھا۔ گذشتہ ۷۰برس سے اسی طرح ایک ایک قدم اُٹھاتے ہوئے فلسطین کی سرزمین ہڑپ اور قوم کو موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ فلسطین کی جگہ نام نہاد اسرائیلی ریاست کے قیام کی ۷۰ویں ’برسی‘ کے موقعےپر امریکی صدر نے ایک ارب ۷۰کروڑ مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا۔
اہل فلسطین اس منحوس اعلان کے بعد سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔۳۰ مارچ سے انھوں نے مسیرۃ العودۃ (واپسی کا سفر) کی حالیہ تحریک شروع کردی۔ صہیونی افواج نے نہتے فلسطینیوں کے ان جلوسوں پر تباہ کن فائرنگ اور زہریلی گیسوں کی بارش کر دی۔ صرف گذشتہ دو ماہ میں ۲۰۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہری شہید اور ۱۰ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ لیکن صدآفرین کہ اہلِ فلسطین کی ’واپسی کا سفر‘ جاری ہے۔ مسلسل جنازے بھی اُٹھ رہے ہیں۔ خوف زدہ ہونے کے بجاے وہ جنازوں کو بڑے جلوسوں میں بدل دیتے ہیں۔ اللہ اکبر اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ پسندیدہ ترین نعرہ یہ ہوتا ہے: عَلْقُدْس رَایحِین، شُہَدَاء بِالْمَلَایِینِ ہم القدس جارہے ہیں خواہ لاکھوں شہید ہوجائیں اور: لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ ، الشہید حبیب اللہ۔ یہ صرف نعرے نہیں دنیا کے سامنے یہ حقیقت بیان کی جارہی ہے کہ گھر کا مالک کوئی اور ہے۔ قتل و غارت، غنڈا گردی اور امریکی سرپرستی میں کوئی دوسرا اس پر قبضہ جمانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
۱- دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کا قائل اور ضرورت پڑنے پر مجبور کیا جائے۔
۲- دنیا کے تمام یہودیوں کو مختلف مقامی اور عالمی تنظیموں کے تحت متحد اور منظم کیا جائے۔
۳- یہودیوں کے دل میں اپنی قومیت اور وطنیت کے جذبات اُجاگر کیے جائیں۔
۴- اس صہیونی ہدف کے لیے ہر ممکن عالمی تائید و سرپرستی حاصل کی جائے۔
واضح رہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد بنیادی طور پر جرمنی کے شہر میونخ میں ہونا طے پایا تھا۔ وہاں بہت مؤثر اور متمول یہودی آبادی مقیم تھی۔ لیکن خود اس یہودی آبادی نے ہی وہاں کانفرنس کا انعقاد مسترد کردیا۔ بالآخر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی حدود پر واقع شہر میں یہ پہلی کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس سے پہلے اور بعد میں کئی مواقع پر یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ مجوزہ صہیونی ریاست ارجنٹائن یا یوگنڈا میں قائم کی جائے۔ ایک موقعے پر یہ برطانوی پیش کش بھی سامنے آئی کہ وہ یوگنڈا میں اپنے زیرتسلط ۹ہزار مربع کلومیٹررقبہ اس ریاست کے لیے دینے کو تیار ہے۔ لیکن یہ تمام تجاویز مسترد کردی گئیں کہ فلسطین کے علاوہ کسی بھی جگہ یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے مذہبی بنیاد نہ ملتی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلسل کانفرنسوں کے انعقاد، چار نکاتی ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد اور برطانوی، فرانسیسی اور پھر کامل امریکی سرپرستی کے نتیجے میں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اُمت مسلمہ کے قلب میں اس صہیونی ریاست کا مسموم خنجر گھونپ دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن لاکھوں فلسطینی عوام مختلف کیمپوں میں یا بے مروت معاشروں اور ملکوں میں مہاجرت کی خاک چھان رہے ہیں۔ سرزمینِ فلسطین پر ہزاروں سال سے بسنے والے اصل باشندے دہشت گرد اور انھیں مسلسل شہید و زخمی یا بے گھر کرنے والے قاتل اور مالک قرار دیے جارہے ہیں۔
سرزمین فلسطین پر قبضے کی اس داستان الم میں سب سے زیادہ حساس اور اہم حیثیت مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی ہے۔ تقریباً سواسو سال پر محیط اس پورے عرصے میں جتنے بھی عالمی منصوبے، تقسیم کے فارمولے اور صلح کے معاہدے ہوئے، ان تمام معاہدوں اور نقشوں میں بیت المقدس کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا رہا۔ ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ صہیونیت کے علَم بردار اور ان کے سرپرست جانتے ہیں کہ اپنے نبی کے قبلۂ اول کا مسئلہ پوری اُمت مسلمہ کے لیے کیا مقام رکھتا ہے۔ اگرچہ عملاً تو اس وقت بھی پورا بیت المقدس صہیونی افواج کے نرغے میں ہے۔ وہاں ہزاروں جدید ترین یہودی بستیاں تعمیر کرکے لاکھوں یہودیوں کو آباد کیا جاچکا ہے۔ مزید بستیوں کی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے، لیکن آج بھی تمام عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے ضابطوں اور عالمی طاقتوں کے اعلانات کے مطابق یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔
اپنے مزاج، کردار، بیانات اور اقدامات کی وجہ سے متنازعے ترین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سرخ لکیر بھی عبور کرچکے ہیں۔ ان کا یہودی داماد جیرڈ کشنر اور اس سے شادی کی خاطر عیسائیت چھوڑ کر یہودیت اختیار کرنے والی بیٹی ایوانکا ٹرمپ ان اقدامات کے نفاذ میں پیش پیش ہیں۔ وہ براہِ راست صہیونی رہنماؤں سے ہدایات لیتے او رعلانیہ ان کا اظہار و اقرار کرتے ہیں۔ اس پورے منصوبے میں وہی مختلف ممالک کے دورے اور مختلف حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کررہے ہیں۔ ۱۴؍اگست کو بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کا افتتاح بھی انھوں نے اور ان کے ہمراہ آنے والے ۵۵؍امریکی سرکاری ذمہ داران نے کیا۔ یہ امر یقینا اتفاقیہ نہیں کہ اس اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے سب ارکان یہودی تھے۔ امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی سے بظاہر کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ وہاں امریکی قونصل خانہ پہلے بھی کام کررہا تھا۔ اسی عمارت پر اب سفارت خانے کی تختی اور پرچم لگا دیا گیا ہے۔ شہر میں جابجا امریکی سفارت خانے کی راہ دکھانے والے بورڈ لگا دیے گئے ہیں اور بس۔ لیکن اگر اس اقدام کا اصل ہدف اور اہمیت جاننا ہو تو وہ قدآدم تصویر ملاحظہ فرمالیجیے، جو سفارت خانہ قائم ہونے کے ۹روز بعد ۲۳مئی کو بعض یہودی تنظیموں کی طرف سے اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فرائڈ مین (جو خود بھی یہودی ہے) کو پیش کی گئی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سنیے کہ قہقہوں کے شور میں وصول کی جانے والی اس تصویر میں کہیں مسجد اقصیٰ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ کی جگہ نام نہاد یہودی ہیکل سلیمانی کی شان دار عمارت دکھائی گئی ہے۔ یہی وہ اصل خدشہ ہے جو اہل فلسطین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر واقفِ حال اُمتی کے لیے سوہانِ رُوح بنا ہوا ہے۔
معروف اسرائیلی ویب سائٹ ’i24 ‘ نے صہیونی خفیہ اداروں کے حوالے سے اس ’جامع حل‘ کے جو خدوخال بتائے ہیں، ان کے مطابق فلسطینیوں کے لیے محدود اختیارات کی حامل ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا جائے گا ۔اسرائیل اس فلسطینی ریاست کے امن و امان کا ذمہ دار ہوگا۔ بیت المقدس شہر کے کچھ عرب علاقے فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گے، لیکن پرانا شہر (یعنی حرم اقصیٰ کا علاقہ) ’اسرائیلی بیت المقدس‘ کا حصہ ہوگا۔ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت (مسجد اقصیٰ سے دو کلومیٹر دور) ابودیس نامی علاقہ ہوگا۔ غزہ کو بتدریج اس فلسطینی ریاست کا حصہ بنایا جائے گا بشرطیکہ حماس اپنا اسلحہ (بالخصوص میزائل) حکومت کے حوالے کردے۔ ان اسرائیلی ذرائع کے مطابق اس حتمی حل میں فلسطین سے بے گھر کرکے اپنے ملک سے نکال دیے جانے والے فلسطینیوں کی واپسی کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں کی جائے گی۔واضح رہے کہ معروف فلسطینی ’مرکزِدانش‘ (Think Tank) الزیتونہ کے مطابق اس وقت فلسطینیوں کی کُل آبادی ۱۲ء۷ملین (ایک کروڑ ۲۷ لاکھ)، ہے جن میں سے ۸ء۴۹ ملین (۸۴ لاکھ ۹۰ ہزار) مختلف ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے جی رہے ہیں۔ یہ کسی بھی ملک کے پناہ گزینوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے، یعنی ۶۶ء۸ فی صد۔ دنیا کا کوئی باضمیر انسان بتائے یہ کیسا منصفانہ حل ہے کہ جس میں لاکھوں انسانوں اور ان کی نسلوں سے ان کی شناخت ہمیشہ کے لیے چھین لی جائے!
ایک سے زیادہ ذرائع سے جاری کیے جانے والے اس منصوبے پر پہلی نظر ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ سابقہ نام نہاد امن منصوبوں ہی کا چربہ ہے۔ ایسے ہر منصوبے، معاہدے اور اعلان کے بعد اہل فلسطین پر ظلم کے مزید پہاڑ توڑے گئے۔ اسرائیلی مظالم کے ساتھ ساتھ خود اہلِ فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے، انھیں ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا۔ مسلم عوام کو یہ دھوکا دیا گیا کہ خود فلسطینیوں نے اسے تسلیم کرلیا ہے تو ہم اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟
ان سب اُمور سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ کئی مسلم ممالک اور مسلم عوام کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا گیا ہے۔ شام میں لاکھوں بے گناہوں کی شہادت اور پورے ملک کی تباہی، اور اسے عملاً پانچ ٹکڑیوں میں تقسیم کردینے کے بعد وہاں مزید قتل و غارت جاری ہے۔ مصر میں داروگیر اور بے گناہوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ پورا ملک ایک جیل خانے میں بدلا جاچکا اور معاشی لحاظ سے بدترین تباہ حالی کا شکار کردیا گیا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مصری شہری یا تو زیر زمین رہنے پر مجبور ہیں یا ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یمن میں باغی حوثی قبائل کے ساتھ جاری جنگ ایک خوف ناک دلدل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ آئے دن سعودی عرب کے مختلف شہروں پر بھی میزائلوں سے حملے کیے جارہے ہیں۔ یمن کے کئی تاریخی علاقوں کو ملک سے کاٹ کر مختلف طاقتوں کی جانب سے ان پر قبضے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔ عراق تباہ حال ہے اور لیبیا میں قتل و غارت سنگین تر ہے۔ چار عرب ممالک کی قطر سے قطع تعلقی اور حصار کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات و دشنام طرازی اب عوام اور قبائل کی حد تک سرایت کر چکی ہے۔ جو ممالک اب تک جنگ و جدال اور خوں ریزی سے بچے ہوئے ہیں، وہاں بھی سیاسی اختلافات، مختلف لسانی، قومی اور علاقائی تعصبات کی آنچ تیزی سے بھڑکائی جارہی ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کو ان داخلی معرکوں سے اٹھ کر قومی وملّی اُمور پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملے۔
یہی وہ منظرنامہ ہے جو صہیونی ریاست اور اس کی سرپرست عالمی طاقتوں کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح گاہے گاہے پاکستان میں یہ شوشے چھوڑے جاتے ہیں کہ ہمارا دشمن تو ہندستان ہے، اس سے مقابلے اور اپنی مشکلات کے حل اور عالمی حمایت میں اضافے کے لیے اسرائیل کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح عرب ممالک اور ایران کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل اور خوف زدہ کرتے ہوئے اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ خود صہیونی ریاست بھی مختلف ممالک اور ان کے حکمرانوں کو یہی خواب بیچ رہی ہے۔
اس خوف ناک صہیونی اور مصری حصار کے علاوہ خود فلسطینی اتھارٹی اور اس کے صدر محمود عباس کی جانب سے بھی غزہ کا مکمل بائیکاٹ ہے۔ ۲۰۰۶ء میں حماس کی قائم ہونے والی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ پورا کردیا گیا تو اپنے مقرر کردہ وزیراعظم عبداللہ کو وہاں نہیں بھیجا گیا۔ ایک روز اچانک ان کی آمد کا اعلان کیا گیااور راستے ہی میں ان پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچاکر واپس بلالیا گیا۔ اس پورے عرصے میں کئی سال سے ۲۰لاکھ انسانوں پر مشتمل اس آبادی کے کسی سرکاری ملازم کو تنخواہ نہیں دی گئی۔ شرط یہ لگائی جارہی ہے کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے اندر بغاوت کردیں۔ حماس سے بھی ان کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہتھیار بھی آپ لوگوں نے تیار یا فراہم کیے ہیں، وہ فوراً ہمارے حوالے کیے جائیں… پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت شروع کرنے والوں نے اللہ کی توفیق سے اور سرفروشی کی نئی مثال قائم کرتے اور وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جو تھوڑی بہت قوت فراہم کی ہے، بجاے اس کے کہ اس میں اضافے کی فکر کی جاتی، اسے تباہ کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اس مطالبے اور صہیونی ریاست کے مطالبات میں آخر کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔
صہیونی دشمن کی کارروائیوں کا دائرہ صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہا۔ حالیہ تحریک کے دوران انھوںنے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک نوجوان فلسطینی پروفیسر فادی البطش کو نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے شہید کردیا۔ موساد نے اس کی شہادت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ فادی کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ فلسطینی اور تحریک حماس کا رکن تھا، ساتھ ہی ایک ہونہار و کامیاب سائنس دان بھی۔ اس کی کئی ایجادات عالمی سطح پر رجسٹرد کی جاچکی ہیں۔ موساد کا کہنا ہے کہ وہ اہلِ غزہ کے میزائل پروگرام کو مزید بہتر بنانے میں معاونت کررہا تھا۔ اس سے پہلے اسی طرح تیونس کے ایک نوجوان محمدالزواوی کو اس کے گاؤں جاکر شہید کردیا گیا۔ اس کا گناہ بھی یہ بتایا گیا کہ وہ اہلِ غزہ کو ڈرون ٹکنالوجی فراہم کررہا تھا۔
صہیونی دشمنوں کی سفاکی اور اپنوں کی نادانی و مخالفت کے باوجود اہل غزہ کے پاے استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ۳۰ مارچ سے شروع ہونے والے ’واپسی کے سفر‘ کا بنیادی مرکز بھی غزہ ہے۔ فلسطین پر قابض صہیونی افواج نے ۴۰کلومیٹر لمبی آہنی باڑھ کھڑی کرتے ہوئے، اس کے ساتھ ٹینکوں اور جدید اسلحے کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ دوسری جانب نہتے فلسطینی عوام ہیں، جو دشمن کی فائرنگ اور زہریلی گیسوں سے بچنے کے لیے ٹائر جلا کر اور غلیلوں کے ذریعے ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دو ماہ سے جاری اس تحریک کے دوران سیکڑوں ایمان افروز واقعات رونما رہورہے ہیں۔ شدید آنسو گیس سے بچنے کے لیے سات سال کے ایک بچے نے انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے ناک اور سرپر کپڑا لپیٹتے ہوئے ناک کے سامنے ایک پیاز باندھ لیا۔ کہیں سے سن رکھا تھا کہ پیاز سے زہریلی گیس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ لمبی ڈنٹھل والی سبز پیاز باندھ کر، یہودی فوجیوں کے عین سامنے جابیٹھنے والا یہ بچہ صحافیوں کی نگاہ میں بھی آگیا۔ انھوں نے بعد میں اس سے پوچھا: ’’آپ کو ڈر نہیں لگ رہا تھا؟‘‘ بچے کی آنکھوں میں ایک عجیب روشنی چمکی۔ بلاتوقف فوراً بولا: ’’میں نہیں وہ فوجی خوف زدہ تھے۔ میں کیوں ڈرتا میں تو اپنی سرزمین پر کھڑا تھا۔ وہ غاصب ہیں اس لیے ڈر بھی رہے تھے‘‘۔
خوش قسمتی سے اس وقت مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی سربراہی ترکی کے پاس ہے۔ صدر طیب ایردوان نے ٹرمپ کے اعلان دسمبر اور اب مئی میں اس پر عملی اقدام کے فوراً بعد مسلم ممالک کا سربراہی اجلاس بلایا۔ پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں ہونے والے دو سربراہی اجلاسوں نے بھی بیک آواز ٹرمپ پالیسی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ مسلم ممالک نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لیے وہاں حفاظتی افواج بھیجے۔ اختتامی اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ: ’’فلسطین پر قابض صہیونی افواج ان تمام وحشیانہ جرائم کا ارتکاب امریکی حکومت کی پشت پناہی سے کررہی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو سیکورٹی کونسل میں بھی جواب دہی سے بچایا اور اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی غنڈا گردی کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔
یہ درست ہے کہ اس اہم کانفرنس میں مذمت اور غم و غصّے کے اظہار کے علاوہ امریکی حکومت سمیت سب شریک جرم طاقتوں کے خلاف کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ صرف ترکی یا مزید ایک آدھ ملک نے نہیں اجتماعی طور پر ہی کیا جانا تھا۔ مسلم حکومتوں کے رویے کااندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ قبلۂ اول جیسی مقدس امانت خطرے میں ہے اور اس کے لیے بلائی گئی یک نکاتی کانفرنس میں ۵۷میں سے ۴۰ ملک شریک ہوئے، جن میں سے صرف ۱۳ سربراہان تھے، جب کہ تین نائب سربراہان تھے۔ ۱۲ممالک کی نمایندگی ان کے وزراے خارجہ نے کی اور گیارہ کی مزید کم درجے کے نمایندوں نے۔ یہی نہیں امریکا اور اسرائیل کے ان اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے والے ملک ترکی کے بارے میں منفی پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی۔ کہا گیا کہ ترکی منافقت کررہا ہے: ایک طرف یہ بیان بازی، کانفرنسیں اور بڑے عوامی پروگرام کررہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہے۔ اسے تیل اور سامانِ تجارت کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ اعتراض یقینا حقیقت پر مبنی ہے۔ ترکی میں مصطفےٰ کمال پاشا کے وارثوں نے باقی سب مسلم ممالک سے پہلے ۱۹۴۹ء ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرلیاتھا۔ تب سے اب تک دونوں ممالک کے مابین تجارت و تعاون کے کئی راستے کھلے ہیں۔ لیکن یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ طیب ایردوان حکومت کے دوران یہ دو طرفہ تعلقات اپنی بدترین صورت تک جاپہنچے۔ ۲۰۱۰ءمیں ترک سفینے ’مرمرہ‘ کے ذریعے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران کئی ترک شہری شہید کردیے گئے۔ تین سال تک تعلقات منقطع رہے۔ بالآخر اسرائیل کو معذرت کرتے ہوئے تمام شہدا کی کامل دیت اور جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ حالیہ امریکی اقدامات اور اسرائیلی افواج کے ذریعے قتل عام کے بعد بھی ترکی نے اسرائیلی سفیر کو تمام تر سفارتی حقوق سے محروم کرکے ذلت کے ساتھ ملک بدر کردیا۔ یقینا ترکی کو اس سے بھی زیادہ اقدامات کرنا چاہییں، لیکن آپ ذرا کئی دیگر مسلم حکمرانوں سے موازنہ کرکے دیکھیے۔ ایک طرف ترکی ہے، جس کی حکومت تمام تر اندرونی و بیرونی خطرات کے باوجود، اسرائیل سے دُوری اور لمحہ بہ لمحہ تعلقات ختم کرنے کی جانب آگے بڑھ رہی ہے، اور دوسری طرف کئی مسلم حکمران ہیں کہ صرف لیلاے اقتدار ملنے کے لالچ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جانب دوڑے چلے جارہے ہیں۔
اُمت مسلمہ کے ہرفرد کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنا ہوگی کہ فلسطین اور عالمِ اسلام میں وقوع پذیر حالیہ تمام تبدیلیوں کا اصل ہدف وسیع تر اسرائیلی ریاست کا قیام ہے۔ جس کی سرحدیں دریاے فرات سے لے کر دریاے نیل تک اور جنوب میں (خاکم بدہن) مدینہ منورہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِ مبارک سے جامِ کوثر حاصل کرنے کی تمنا حقیقی اور سچی ہے تو یہ سچائی عمل سے ثابت کرنا ہوگی۔ ایسے حکمران منتخب کرنا ہوںگے اور ان حکمرانوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ جو قبلۂ اوّل کے بارے میں ہرسودے بازی اور منصوبے کو مسترد کر دیں۔ ربِ ذوالجلال کا اعلان، دعوتِ عمل دیتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہا ہے:
اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ (محمد۴۷:۷) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا۔
وہ کون سا ظلم ہے جو گذشتہ سات سال کے دوران میں بشار الاسد اور اس کے حواریوں نے نہ ڈھایا ہو۔ شام اور اس کے عوام کو اپنے نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنالیا گیا ہے۔ صرف روس وہاں اب تک اپنے ۱۲۰ نئے ہتھیاروں کا تجربہ کرچکا ہے۔ ان تجربات کے بعد وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ عالمی منڈی میں ان ہتھیاروں کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال امریکا اور اس کے حلیفوں کا ہے۔ شام کے ایک ایک شہر اور ایک ایک بستی کو کھنڈرات میں بدلا جاچکا ہے۔ شہید ہوجانے والے عوام کی تعداد ۸ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ترک صدر طیب ایردوان کے بقول یہ تعداد ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے۔ ایک جانب یہ سب مظالم اور دوسری جانب ملاحظہ فرمایئے کہ بے گناہ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا جلاد ابن جلاد، بشار الاسد اُمت مسلمہ کے حقیقی دشمن اسرائیل کے سامنے کیسے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔
۱۶مارچ ۲۰۱۸ء،یعنی شامی عوام پر مظالم کے سات سال پورے ہونے کے اگلے روز، صہیونی ذرائع ابلاغ نے ایک خوف ناک انکشاف کیا۔ صہیونی حکومت نے اعلان کیا کہ شام نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا۔ لیکن آج سے دس سال اور سات ماہ پہلے، یعنی ۵ستمبر۲۰۰۷ء کو اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں ملیا میٹ کردیا۔ کسی ملک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردینا بھلا کوئی اتنا معمولی واقعہ تھا کہ کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے؟ لیکن ذرا اس وقت (۵ ستمبر۲۰۰۷ء) کو شامی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری نیوز ایجنسی سانا کی خبر کا متن ملاحظہ کیجیے: ’’گذشتہ رات مخالف فضائیہ نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ ہماری فضائیہ نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے انھیں واپسی پر مجبور کردیا۔ اس دوران انھوں نے اپنے ہمراہ لایا جانے والا گولہ بارود ہماری سرزمین پر پھینک دیا، لیکن اس سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا‘‘۔ جواب میں اسرائیلی حکومت نے بھی مختصر بیان جاری کیا: ’’ہم ایسی خبروں اور بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کرتے‘‘۔
یہ سارا ماجرا آخر ہے کیا؟ تقریباً پونے گیارہ سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی تفصیلات اس سے پردہ اُٹھاتی ہیں۔ ان کے مطابق اس پوری کاروائی کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء سے ہوا جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کے ایجنٹ، شام کے ایٹمی راز چرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انھیں یہ راز ایک یورپی ملک آسٹریا میں ایٹمی توانائی کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں شریک، شامی ایٹمی پروگرام کے انچارج ابراہیم عثمان کے کمپیوٹر سے اپنی پوری تفصیلات اور تصاویر کے ساتھ ملے تھے۔ اسرائیلی ذمہ داران کے بقول: ’’ہمیں خدشات تو تھے لیکن ہم اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمیں اس پروگرام کی کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی تھیں۔ تصدیق ہوجانے کے بعد ۱۸؍اپریل۲۰۰۷ء کو موساد کے سربراہ مائیرداگان نے امریکی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ان تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں تباہ کردے۔ صدر جارج بش نے اپنے عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے طویل مشاورت کے بعد جون میں ہمیں جواب دیا کہ امریکا یہ حملہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد ہم نے خود حملے کا منصوبہ بنایا۔ ۵اور ۶ستمبر کی درمیانی شب۳۰:۱۰ بجے ہمارے آٹھ جنگی جہاز ’رامون‘ اور ’حٹسریم‘ نامی دو مختلف جنگی ہوائی اڈوں سے شام کی مخالف سمت میں اُڑے۔ قبرص کے قریب پہنچ کر ان جہازوں نے اچانک اپنا رُخ موڑا اور شام کی حدود میں گھس گئے۔ دیر الزور کے قریب واقع ان تنصیبات پر ۱۷ٹن بارود برساتے ہوئے یہ تسلی کرلی گئی کہ یہاں پائی جانے والی ہر چیز تباہ ہوگئی ہے۔ چار گھنٹے کی اس ساری کارروائی کے بعد رات۳۰:۲ بجے یہ تمام جہاز بخیریت اپنے اڈوں پر واپس اُتر گئے‘‘۔
اسرائیلی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں خطرہ تھا کہ اس کاروائی کے ردعمل میںشام کوئی جوابی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہم نے فوج کو چوکنا رہنے کے احکام دیے ہوئے تھے۔ شام نے جواب دینے کے بجاے یہ ساری کارروائی وقوع پزیر ہونے ہی سے انکار کردیا تو ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ ہم نے بھی اپنی اس بڑی کامیابی کا دعویٰ کرنے اور باتصویر ثبوت نشر کرنے کے بجاے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو شامی حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کی خاطر ہی کوئی جوابی کارروائی کرنا پڑسکتی تھی۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ تھا۔ تقریبا گیارہ برس کے بعد بشار الاسد کی اصل ’بہادری‘ سے پردہ اُٹھادیا گیا ہے تواب اولمرٹ بھی اس کی پوری تفصیل اپنی آیندہ کتاب میں شامل کررہا ہے۔ اس کی وزیرخارجہ سیپی لیفنی نے بھی اسرائیلی ریڈیو پر تفصیلی انٹرویو دیا ہے اور اس وقت کے عسکری ذمہ داران بھی اپنے اپنے کارنامے بیان کررہے ہیں۔
اس ضمن میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ تقریباً گیارہ سال بعد اب آخر اس پوری ہوش رُبا داستان سے پردہ اُٹھایا کیوں گیا؟ صہیونی وزیر سیکورٹی اویگدور لیبر مین کا بیان اس سوال کا جواب دے دیتا ہے: ’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات کی تباہی ہمارے ہر دشمن کے لیے ایک واضح پیغام ہے، جو آج بھی اسی طرح مؤثر ہے‘‘۔ صہیونی وزیر انٹیلی جنس یسرائیل کاٹس کا بیان زیادہ واضح ہے۔ وہ اپنی ٹویٹ (Tweet ) میں کہتا ہے:’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا جرأت مندانہ اقدام اس بات کا واضح پیغام ہے کہ اسرائیل ایران سمیت کسی بھی ایسے ملک کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دے گا جو ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ ایران ہی نہیں یہ دھمکی ہر اہم مسلمان ملک کے لیے یکساں سنگین ہے۔ متعدد بار اسرائیلی بیانات میں پاکستان کا نام بھی لیا جاچکا ہے۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں سے پہلے کہوٹہ پر بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائیوں کی کوششوں کی خبریں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
یہ خوف ناک انکشافات، زہریلے بیانات اور تلخ حقائق درحقیقت آج کی مسلم دنیا کا مرثیہ کہہ رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر قابض ناجائز ریاست پوری دیدہ دلیری سے اپنا ایک کے بعد دوسرا ہدف حاصل کرتی چلی جارہی ہے۔ دنیا کی سب بڑی طاقتوں کی مکمل سرپرستی تو پہلے ہی حاصل تھی، اب خود مسلم دنیا بھی اس کے وضع کردہ منصوبوں کی تکمیل میں جتی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ ۱۲سال سے جاری غزہ کا محاصرہ مزید سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فلسطینی رہنمائوں پر قاتلانہ حملوں کے ڈرامے رچا کر اس کا سارا ملبہ غزہ کے بے بس عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔عراق اور شام میں خاک و خون کے نئے دریا بہائے جارہے ہیں۔ یمن میں باغی حوثی قبائل کے ذریعے بھڑکائی جانے والی جنگ اب ایک قاتل دلدل کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مصر، لیبیا اور تیونس کے بعد ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشیں بھی عروج پر ہیں۔ مصر سے جاری ہونے والے اس بیان نے ہر باشعور مسلمان کے دل پر آرے چلادیے ہیں کہ ’’اس وقت ہمارے اصل دشمن تین ہیں۔ نئے عثمانی حکمران (یعنی موجودہ ترک حکومت)، ایران، اور دہشت گرد تنظیمیں جن میں سرفہرست الاخوان المسلمون ہے‘‘۔ گویا قبلہء اول پر قابض، لاکھوں فلسطینیوں کے قاتل اور مسلم دنیا کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے والا اسرائیل اب دشمن ہی نہیں رہا۔
ایران کی پالیسیاں یقینا تکلیف دہ ہیں۔ اسلامی انقلاب کے دعوے دار اب خطے میں شیعہ امپائر قائم کرنے کے کھلے دعوے کررہے ہیں۔ باقی سب باتیں چھوڑ بھی دی جائیں، تب بھی بشار الاسد کے قیامت خیز جرائم میں اس کی برابر کی شرکت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں ایرانی سپریم لیڈر اور اصل حکمران آیۃ اللہ خامنہ ای کے دست راست علی اکبر ولایتی کا یہ بیان کہ: ’’اگر ایران کی مدد اور عملاً شرکت نہ ہوتی تو بشار الاسد حکومت چند ہفتے سے زیادہ نہ نکال پاتی‘‘ زخموں پر مزید نمک پاشی کررہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ نتیجہ نکالنا ہرگز درست نہ ہوگا کہ مسلم ممالک اپنے اصل دشمن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہیں۔ آج اگر اسرائیلی ذمہ داران گیارہ سال قبل کیے جانے والے اپنے جرائم اور جارحیت کو ایک کارنامے کی صورت میں بیان کرتے ہوئے مزید دھمکیاں دے رہے ہیں، تو ایران ہی نہیں سب مسلم ملکوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں۔ ایران اگر شامی درندے کی پشتیبانی کرتا چلا آرہا ہے تو اب بھی موقع ہے کہ وہ اس ساری پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ آج بھی وقت ہے کہ تمام مذہبی یا علاقائی جنگوں کی آگ بجھاتے ہوئے ایران، ترکی، پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام اہم مسلم ممالک مل کر اپنے مستقبل کا تحفظ یقینی بنائیں۔
اس ضمن میں ترکی کا کردار مؤثر ترین ہوسکتا ہے۔ ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر عِفرین اور اس کے گردو نواح میں چند ہفتوں کے اندر اس نے ایک بڑی کامیابی رقم کی ہے۔ صہیونی ریاست کے تحفظ اور وسیع تر اسرائیل کے قیام کے لیے برسرِ پیکار عالمی قوتیں خطے کی بندر بانٹ کے لیے جو مختلف چالیں چل رہی ہیں، ان میں سے ایک کارڈ لسانی تعصبات اُجاگر کرنا بھی ہے۔ عراق میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوشش کے بعد، اب شام میں بھی اسی زہریلے پودے کی آب یاری کی جارہی ہے۔ عفرین اور گردونواح میں بڑی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ امریکی امداد سے ان کرد عناصر کو مسلح کرد تنظیموں PKK اور PYK کے گرد اکٹھا کیا جانے لگا۔ وہاں اسلحے کے انبار بھی جمع ہونے لگے اور پوری آبادی کو یرغمال بناکر ترکی کے اندر بھی کارروائیاں کی جانے لگیں۔ ترکی نے ان تنظیموں اور ان کے عالمی سرپرستوں کو کئی بار خبردار کرنے کے بعد بشارالاسد کا ساتھ چھوڑ کر آنے والوں کی تشکیل کردہ ’آزاد شامی فوج‘ (Free Syrian Army) کے ساتھ مل کر ۲۰ جنوری ۲۰۱۸ء سے وہاں ’شاخ زیتون‘ کے نام سے بڑی فوجی کارروائی شروع کردی۔ امریکا سمیت کئی ممالک نے ترکی کی اس کارروائی کے خلاف مہمات چلائیں، لیکن اس نے انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا اور بالآخر ۱۸ مارچ کو عفرین کے پورے علاقے سے ان عناصر کا قلع قمع کردیا۔
اس پوری کارروائی کے نتیجے میں ترک سرحد پر مسلسل سنگین صورت اختیار کرنے والے خطرے کا ازالہ بھی ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا کے سامنے دو بالکل مختلف کردار بھی نمایاں ہوئے۔ ایک کردار بشار الاسد اور اس کا ساتھ دینے والی روسی و ایرانی افواج کا تھا جو دسمبر۲۰۱۶ء میں حلب میں سامنے آیا۔ حلب فتح کرتے ہوئے پورا شہر ملبے اور تباہی کے ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا۔بے گناہ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیے گئے تھے۔ شہر ’فتح‘ کرنے کے بعد وہاں کے باقی ماندہ باسی بھی بے خانماں کرکے شہر سے نکال دیے گئے۔ لیکن اب عِفرین میں ترک اور آزاد شامی فوج کو کامیابی ملی تو اکا دُکا عمارتوں کے علاوہ پورا شہر صحیح سالم تھا۔ دہشت گرد عناصر نکلتے نکلتے بھی وہاں لاتعداد بارودی سرنگیں نصب کرگئے تھے۔ نتیجتاً کئی مزید عمارتیں بھی تباہ ہوگئیں، لیکن ان بارودی سرنگوں کے خاتمے کے بعد وہاں بھی لُٹے پٹے شہریوں کی قطاریں دکھائی دیں۔ یہ قطاریں شہر سے فرار ہونے والوں کی نہیں، واپس آنے والوں کی تھیں۔ درجنوں شامی اور ترک رفاہی اداروں نے شہر کے مختلف حصوں میں پکا پکایا کھانا تقسیم کرنے کے مراکز قائم کردیے ہیں اور عوام بڑی تعداد میں واپس آکر اپنا اپنا گھر بار آباد کرنے کی کوششیںکرنے لگے ہیں۔
عِفرین میں اس ترک کارروائی نے گذشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ کا پردہ بھی چاک کردیا۔ ایک تو اس پہلو سے کہ عفرین میں پائے جانے والے ان سب دہشت گردوں کے پاس جو جدید اسلحہ بڑی مقدار میں پکڑا گیا وہ امریکا ہی کا فراہم کردہ تھا (شاید اسی لیے ان کے خلاف کارروائی سے روکا جارہا تھا)۔ دوسرے یہ کہ ترکی نے اپنی سرحدوں کے دونوں طرف جہاں بھی فوجی کارروائی کی وہ چند روز میں دہشت گردوں کے خاتمے پر مکمل ہوئی۔ عِفرین میں ۲۰ جنوری کو کارروائی شروع ہوئی اور۵۶ روز بعد ۱۸ مارچ کو مکمل ہوگئی۔ اہم سوال یہ سامنے آیا کہ آخر دہشت گردی کے خلاف جاری یہ امریکی جنگ کیسی ہے کہ سالہا سال جاری رہنے کے بعد بھی وہاں نہ صرف دہشت گرد اور ان کی دہشت گردی باقی رہتی ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے؟ ترک صدر طیب ایردوان نے ۲۵مارچ کو یہ بیان دہرایا ہے کہ ترکی کے خلاف سازشیں بند نہ ہوئیں تو ہم عِفرین کے بعد اپنی یہ کارروائیاں ملحقہ شہر منبج اور دیگر شہروں میں بھی جاری رکھیں گے۔ یقینا اب تک اس پالیسی نے مشکلات کے باوجود ترکی کو سرخرو کیا ہے۔ لیکن یہ کارروائیاں دودھاری تلوار ہیں۔ پہلے کی طرح اس کا مفید استعمال رہا، تو ترکی کو درپیش خطرات کا قلع قمع کرے گی۔ البتہ یہ خطرہ بھی درپیش رہے گا کہ کہیں خدانخواستہ ترکی کو بھی شام اور یمن میں جاری جنگ کی طرح کسی ایسی جنگ میں نہ اُلجھا دیا جائے کہ پھر اس سے باہر آنا سوہانِ روح بن جائے۔
۲۰مارچ کو استنبول میں الاخوان المسلمون شام کے سربراہ محمدحکمت ولید سے پوری صورتِ حال پر مفصل گفتگو ہوئی۔ ۷۴ سالہ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر محمد حکمت شام کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ۷۰کی دہائی سے اسد خاندان کے مظالم کا شکار رہی۔ عِفرین میں حاصل کامیابی اور الغُوطۃ الشرقیۃ میں جاری بدترین بمباری کا تجزیہ بھی کیا گیا۔ میں نے سوال کیا کہ آخر الغوطۃ الشرقیۃ میں تباہی کی حالیہ لہر کا اصل سبب ہے کیا؟ دکھی دل سے کہنے لگے: ’’بشار اور ان کے حلیفوں کا کہنا ہے کہ وہاں مسلح دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے‘‘۔ پھر بتانے لگے کہ ’الغُوطۃ‘ کے نام سے یہ علاقہ دمشق کے گردونواح میں واقع ہے جو مغربی اور مشرقی غوطہ کہلاتا ہے۔ صرف مشرقی علاقے میں کئی قصبے اور دیہات واقع ہیں، جن کی کل آبادی ۲۰ لاکھ کے قریب تھی۔ گذشتہ سات برس کی بمباری کی وجہ سے اب یہ تعداد چار لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ بشار کی حالیہ بمباری جس مسلح دھڑے کے نام پر کی جارہی ہے، اس کا نام جبہۃ النصرۃ ہے جو یہاں القاعدہ کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ حقیقت تمام اطراف کو معلوم ہے کہ مشرقی غُوطہ میں موجود یہ گروہ صرف ۲۴۰؍ افراد پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی فوج چاہتی تو بآسانی اور کسی بڑے جانی نقصان اور تباہی کے بغیر ان پر قابو پاسکتی تھی، لیکن ہرآنے والا دن یہ ثابت کررہا ہے کہ ان کا خاتمہ نہیں، اس پورے علاقے کی مکمل تباہی مقصود ہے۔ غُوطہ کا یہ علاقہ بشار الاسد کے محل سے صرف ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بشار اور ایران کے نفوذ کے علاوہ یہاں روس اور امریکا کے نفوذ کا مقابلہ بھی ہورہا ہے۔ خطے کی تقسیم اور اپنے مستقل قیام کی خاطر دونوں فریق مختلف مشکوک اور سفاک مسلح گروہوں کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں اور شامی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے بشار الاسد کو بھی۔ بالآخر اس پوری جنگ کا ہدف اسرائیل کا تحفظ اور اس کی سرحدوں میں توسیع ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے میں مسلم ملکوں کی باقی ماندہ قوت خاک میں ملاتے ہوئے ،ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔
اخوان کے سربراہ سے ملاقات کے بعد ترکی اور شام کی سرحد پر واقع مختلف مہاجر کیمپوں اور یتیم خانوں میں جانا ہوا تو پھولوں جیسے بچوں کی معصومیت نے خون کے آنسو رُلادیے۔ ان بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو اور ان بے سہارا خواتین کی جگہ اپنی خواتین کو رکھ کر دیکھیں، تو پتّہ پانی ہونے لگتا ہے۔ لیکن معصوم بچوں کی آنکھوں میں روشن قندیلیں اُمید کی شمع روشن کرتی ہیں۔ چوتھی کلاس کے ایک طالب علم کے ساتھ بیٹھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں پر یہ سب آزمایش کیوں آئی ہے؟ فوراً اپنے شامی لہجے میں بولا: مشان بشار، بِدَّو یبرُک علی الکرسی أحرق البلد کلہ بس بیروح قریب ھو واللی معہ، بشار کی وجہ سے، وہ کسی اُونٹ کی طرح کرسی سے چمٹے رہنا چاہتا ہے۔ اس نے سارا ملک راکھ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسے اور جو اس کے ساتھ ہیں بہرحال یہاں سے جانا ہے۔ میرے ذہن میں بشار کے حامیوں کا نعرہ گونجا جو انھوں نے سات سال پہلے لگایا تھا کہ: الاسد الی الأبد والانحرق البلد اسد تا ابد ، وگرنہ سارا ملک بھسم کر دیں گے۔ اللہ عزیز و قدیر نے ان ظالموں کی رسی دراز کی ہوئی ہے، لیکن انھیں خبردار کرتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ بھی سنا دیا ہے کہ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷ۧ (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاOجو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا‘‘۔(۱۹:۹۶)
دنیا میں اللہ کے لاتعداد بندے ایسے آئے اور آتے رہیں گے کہ اخلاص اور صبر و محنت سے اپنا فرض انجام دیتے رہے۔ انھیں نہ کسی ستایش کی فکر تھی اور نہ کسی ملامت کی۔ فکرمندی تھی تو بس یہ کہ آپؐ کا اُمتی ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا ہو، آخرت سنور جائے، اور اپنے بعد علم و عمل صالح کا صدقۂ جاریہ چھوڑ جائیں۔ رب کی جناب میں جن بندوں کی یہ ادا قبول ہوگئی، وہ پھانسی کے پھندے پر بھی یہی پکارتے سنائی دیے کہ: فُزتُ بِرَبِّ الکَعبَۃ، ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘۔ ان کی دشمنی میںاندھے ہوجانے والوں کے دل بھی بالآخر گواہی دیتے رہے کہ وہ حق پر تھے اور ہم غلطی پر۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اس ابدی حقیقت کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بلاکر کہتا ہے: جبریلؑ! میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اہل آسمان میں منادی کرکے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، آپ لوگ بھی اس سے محبت کریں۔ اہل آسمان بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین پر بھی اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے‘‘۔ (مسند احمد)
۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو بھی اللہ کا ایک ایسا ہی بندہ، اللہ کے حضور حاضر ہوگیا۔ محمد مصطفےٰ الاعظمی دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے نمایاں ترین اہلِ علم نے ان کے فراق کا دُکھ محسوس کیا۔ ۱۹۳۲ء میں اعظم گڑھ، ہندستان میں پیدا ہونے والے کے والدین نے محمد مصطفےٰ نام رکھتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا، کہ اس نومولود کی ساری زندگی دامنِ مصطفےٰ سے وابستہ ہوجائے گی۔ دورِ جدید کی سہولیات اور ٹکنالوجی کو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے جناب اعظمی نے اس طور وقف کیا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے خیر کے وسیع ابواب کھل گئے۔
قطر میں دوران تعلیم اعظمی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا، لیکن بہتر ہے کہ خود کچھ عرض کرنے کے بجاے ان کے بارے میں دو جلیل القدر ہستیوں کی تحریریں من و عن پیش کردی جائیں۔ ان میں سے ایک تو ہیں ان کے ہم عصر اور رفیق و ہم دم علامہ یوسف القرضاوی اور دوسرے ہیں ان کے براہِ راست شاگرد اور گذشتہ ۳۵ سال سے امام کعبہ جناب شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمید۔
’اعظمی‘ کا نام ان کی جاے ولادت ہندستان کے اعظم گڑھ سے منسوب ہے۔ اس شہر سے کئی علماے ہند منسوب ہیں۔ واضح رہے کہ اعظمی کہلانے والی کئی شخصیات بغداد کے علاقے ’اعظمیہ‘ سے بھی منسوب ہیں۔یہ بغداد کا وہ علاقہ ہے جہاں امام ابو حنیفہ کی جامع مسجد ہے۔ اس علاقے اور جامع مسجد کو ان کے جلیل القدر شاگرد علماے کرام نے اپنے امام اعظم سے منسوب کرتے ہوئے ’اعظمیہ‘ کا نام دے دیا۔ اس کے مقابل ایک دوسرا علاقہ ہے، جہاں امام موسیٰ کاظم کی قبر ہے، وہ علاقہ ان کی نسبت سے ’کاظمیہ‘ کہلاتا ہے۔
اپنے بھائی ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی سے جامعہ ازہر میں میرا تعارف وہاں ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔ ان کی گرفتاری پر ہم سب کو حیرت ہوئی۔ اس گرفتاری کا اصل ماجرا یہ تھا کہ وہ جامعہ ازہر میں احمد العسال اور الصفطاوی، ہم اخوانی طلبہ سے اکثر ملا کرتے تھے۔ اس وقت وہاں موسم سرما کا آغاز تھا۔ اعظمی صاحب، ہندستانی علما کا معروف لباس شیروانی اور جناح کیپ پہنتے تھے۔ لمبی سیاہ شیروانی، سیاہ ٹوپی اور سیاہ داڑھی، حکومت کے شکاری کتوں نے سمجھا کہ یہ کوئی عیسائی پادری ہیں۔ وہ اخوان کے طلبہ اور کارکنان کو گرفتار کررہے تھے۔ ایک روز گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’کسی … کے بچو! تم مسلم نوجوانوں کو تو اخوان میں شامل کرہی رہے تھے اب عیسائیوں کو بھی نہیں بخشا؟ انھیں بھی اخوان میں شامل کرلیا ہے؟ انھوں نے اعظمی صاحب کو اُٹھا کر جیل میں بند کردیا۔ یاد نہیں وہ کتنا عرصہ گرفتار رہے، لیکن مختلف وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے وہ ہم سے پہلے رہا ہوگئے تھے۔
اس دور کے بعد اللہ نے ہمیں ایک خلیجی ریاست قطر میں اکٹھا کردیا۔ انھیں اس وقت قطر کے حکمران علی بن عبد اللہ آل ثانی کی ذاتی لائبریریوں کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں قطر کی ’نیشنل لائبریری دارالکتب‘ تعمیر ہوئی تو یہ سابق الذکر تمام لائبریریاں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔ اعظمی صاحب اس کے نگران اعلیٰ اور جناب عبدالبدیع صقر اس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔
میں جب دوحہ پہنچا تو اعظمی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں ہماری مستقل مجالس منعقد ہونے لگیں۔ جن میں جناب عبدالحلیم ابوشقہ، احمد العسال، ڈاکٹر حسن المعایرجی جیسے احباب شریک ہوتے تھے۔ ہم سب کا تعلق مصر سے تھا، جب کہ ازہر میں رہنے اور اخوان کے ساتھ جیل میں رہنے کے باعث، اعظمی صاحب بھی مصری ہوگئے تھے۔
ہمارے اہل خانہ بھی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آتے تو کہتے ’’آپ کا کھانا مزیدار تو ہے، لیکن ہے بے جان، بے روح‘‘۔ ہم نے پوچھا کہ اسے زندہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے صرف ایک چیز سے، اور وہ ہے مرچ مصالحہ، مرچوں کے بغیر کھانے کا بھلا کیا فائدہ۔ ہم نے کہا: بس ٹھیک ہے، کھانا ہم بنایا کریں گے، مرچ مصالحہ آپ لایا کریں گے۔ ایک قہقہہ لگا اور پھر یہ معمول ہوگیا کہ وہ آتے تو اپنے لیے بیگ میں سرخ مرچیں ہمراہ لاتے۔ برعظیم کے ہمارے بھائی اتنی مرچیں کھاتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے میٹھے میں بھی مرچیں ہوتی ہیں۔
مصر سے آنے والے ہم سب دوست اور اعظمی صاحب اکثر کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے، مختلف اُمور پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوتا۔ لندن سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے ڈاکٹر عزالدین ابراہیم ان مجالس کو ’راہِ سلوک‘ کی ابتدائی مجالس کہا کرتے تھے۔ پھر عبدالحلیم ابوشقہ صاحب تالیف و تصنیف میں مصروف ہوگئے اور جناب اعظمی صاحب سعودی جامعات میں تدریس کے لیے چلے گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
قطر میں مرکز بحث سنت و سیرت قائم کیا گیا اور امیر قطر نے مجھے اس کی ذمہ داری دے دی، تو میں نے کئی اُمور میں ڈاکٹر اعظمی صاحب سے مشورہ کیا۔ ان کے تعاون سے ہم نے دارالکتب اور دیگر لائبریریوں سے کئی اہم کتب اور ان کی کاپیاں حاصل کیں۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی نے ندوۃ العلما کی ۸۵ سالہ تقریبات منعقد کیں تو اس موقعے پر بھی ان سے مفصل ملاقاتیں رہیں۔
ہمارے بھائی ڈاکٹر عبدالعظیم الدیب نے ایک بار ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا: ’کمپیوٹر دورِ حاضر کا حافظ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دور گذشتہ کے طلبہ اپنے اساتذہ او رمشائخ کو ’حافظ‘ کا لقب دیا کرتے تھے، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ سیوطی .. تو آج کے دور میں یہ لقب کمپیوٹر کو دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اس ٹکنالوجی اور سہولت کو علوم حدیث و فقہ کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اعظمی صاحب اس میدان کے سرخیل تھے۔ ہم نے تقریباً ۳۰ سال قبل قطر میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس کا عنوان تھا: ’حدیث نبویؐ کا جامع انسائی کلوپیڈیا‘۔ اس وقت اعظمی صاحب نے ہمیں بتایا کہ انھوںنے سنت نبویؐ کی ۱۷ کتب جن میں ۳ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے، ایک مختصر ڈِسک میں محفوظ کرلی ہیں، اور وہ اس پر مزید کام کررہے ہیں۔
اعظمی صاحب کا زیادہ تر علمی کام حدیث ہی پر تھا۔ اگرچہ قرآن کریم کے دفاع اور ترویج کے لیے بھی انھوں نے اہم خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ان کے مقالے کو بھی اہل زبان نے بہت پسند کیا ہے۔ لیکن جس دور میں انھوں نے حدیث نبویؐ کو کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کا کام کیا، اس وقت ان کا کوئی اور ثانی نہ تھا۔
مجھے ذاتی طور پر کئی بار ان کی خدمات سے استفادے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے امام احمد کی بیان کردہ بعض احادیث پر بات کی جو مطبوعہ مسند احمد میں شامل نہیں ہیں۔ حافظ المنذری نے الترغیب و الترھیب میں ان کا حوالہ بھی دیا ہے اور ان کے بارے میں ائمہ حدیث کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے وہ احادیث کمپیوٹر پر موجود مسند سے نکال دیں۔ پھر ہم نے کئی بار تجربہ کیا اور ہر بار نتائج بالکل درست برآمد ہوئے۔ انھوں نے چار جلدوں میں سنن ابن ماجہ کی تخریج کی۔ اغلاط کی نشان دہی کی اور بحث و تمحیص کے بعد علما و مفکرین کے سامنے اپنی راے پیش کی۔ ان کی ایک اور عظیم خدمت یہ ہے کہ انھوں نے احادیث کا وہ مجموعہ دریافت کیا، جو بعض علما کے نزدیک کئی صدیوں سے مفقود ہوچکاتھا۔ یہ مجموعہ تھا:صحیح ابن خزیمہ۔ اس کتاب کا شمار حدیث کی معروف اور صحیح کتب میں ہوتا ہے۔ کئی اہل اختصاص علما کے نزدیک وہ صحیح ابن حِبَّان سے زیادہ بہتر سند و منہج کی حامل ہے۔ علامہ اعظمی صاحب صحیح ابن خزیمہ کا ایک حصہ دریافت کرگئے۔ اللہ کرے کوئی اور اللہ کا بندہ اس کا باقی حصہ بھی ڈھونڈ نکالے اور وہ مکمل صورت میں شائع کردی جائے۔
کئی سال قبل و ہ قطر کے دورے پر آئے، ملاقاتوں کی تجدید ہوئی، لیکن اب طویل عرصے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ یا ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ اچانک ان کی رحلت کی اطلاع ملی تو ہم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ ان کی تمام نیکیاں قبول فرمائے، ان کا بہترین صلہ عطا فرمائے، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ اُمید ہے کہ ان کے صاحبزادے بالخصوص عزیزم ڈاکٹر عقیل محمد الاعظمی اپنے والد کے علمی ذخیرے کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور ان کے چھوڑے ہوئے علم سے سب کو مستفید کرنے کی عملی سبیل نکالیں گے، کیونکہ علم نافع ہی دنیا سے جانے والوں کے لیے سب سے عظیم ورثہ ہوسکتا ہے۔
سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم علم کے عظیم ترین میدانوں میں سے اہم ترین میدان ہے۔ قدیم ہی نہیں اس بارے میں جدید ابحاث بھی بہت اہم ہیں۔ اس میدان کی اہم علمی شخصیات میں جلیل القدر عالم دین، ہر حوالے سے قابل اعتماد محقق و محدث ہمارے شیخ اور ہمارے استاد علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کا شمار ہوتا ہے۔ تمام تر علمی رعنائی کے باوجود وہ خود کو نمایاں و مشتہر کرنے سے بچتے تھے۔ انھوں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم دی، اور سنت نبویؐ کا دفاع کیا۔ ان کا شمار دورِ حاضر میں علم حدیث کے بلند پایہ علما میں ہوتا ہے۔ وہ اسلاف کے بعد آنے والے ان علما میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے مدون احادیث کو نیا جمال بخشا۔ اس ضمن میں ان کی نمایاں ترین خدمت صحیح ابن خزیمۃ کے مخطوطے کی تلاش و تحقیق اور اشاعت و تعلیق تھی۔
آپ ہندستان کے صوبہ اترپردیش کے علاقے میو میں ۱۳۵۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۷۰ ہجری میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں جامعہ ازہر سے تدریس کی اجازت ملی اور ۱۹۶۶ء میں کیمبرج سےپی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۸ء تک قطر کے دارالکتب کے ذمہ دار رہے اور اس دوران کئی قیمتی مخطوطات حاصل کیے۔ ۱۳۸۸ھ ہجری میں مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے جہاں۱۳۸۸ھ سے ۱۳۹۳ھ ہجری تک کلیہ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۳۹۳ ہجری میں ریاض منتقل ہوگئے۔ ۱۴۱۲ ہجری تک شاہ سعود یونی ورسٹی میں مصطلحات حدیث کی تعلیم دی۔ اس دوران وہ حدیث فیکلٹی کے سربراہ بھی بنادیے گئے اور انھوں نے مکہ مکرمہ اور ریاض میں پی ایچ ڈی کے کئی مقالوں کی نگرانی کی۔ ۱۹۸۱ء میں ایک سال کے لیے امریکا کی مشی گن کی یونی ورسٹی میں تدریس کے لیے چلے گئے۔ ۱۹۹۱ء میں کولو راڈو یونی ورسٹی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔
اپنے موضوع پر انھوں نے کئی اہم کتب سپرد قلم کیں۔ دراسات فی الحدیث النبویؐ، تاریخ تدوین حدیث اور معاصر محدثین کی منہج پر تنقید ان کی معروف کتاب ہے۔ موطأ امام مالک بروایت یحییٰ بن یحییٰ اللیثی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ کے ایک حصے کی تحقیق و تخریج بھی اہم ہے۔ انھوں نے انگریزی میں تاریخ تدوین قرآن پر ایک شاہکار کتاب لکھی، جس کے ذریعے مستشرقین کے ان الزامات کا مسکت جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نعوذ باللہ تحریف ہوچکی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین حدیث کے بارے میں اور معروف مستشرق شاخت کی کتاب شریعت محمدی کے اصول پر بھی انھوں نے اہم تنقیدی کتاب لکھی۔ عروہ بن الزبیر کی غزوات الرسولؐ جیسی کئی اہم کتب پر ان کا مطالعہ بحث و تحقیق کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان تمام علمی خدمات کے نتیجے میں ۱۴۰۰ ہجری میں انھیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، جس کی خطیر رقم انھوںنے مستحق اور ذہین مسلم طلبہ کے لیے وقف کردی۔
علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی اسلامی آداب اور شرعی اصولوں کی کڑی پابندی کرتے تھے۔ جو بھی ان کے ساتھ رہا، اسے ان کی ان عادات کا بخوبی علم ہے۔ آخری عمر میں وہ مختلف امراض کا شکار رہے۔ یقینا یہ بھی ان کی بلندیِ درجات کاسبب بنا ہوگا۔ لیکن بیماری و کمزوری کے باوجود وہ اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیاں اور اپنے معمولات جاری رکھے رہے۔ آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میں نے ان کے محلے کی مسجد میں نماز پڑھی، وہ بھی مسجد میں تھے اور نماز کے بعد اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے انتہائی مشقت سے چل رہے تھے۔ بیماری کے باعث ان کے لیے لکھنا ممکن نہ رہا تو بیٹے کو املا کروانا شروع کردیا۔ جب ان کے لیے بولنا بھی ممکن نہ رہا، تب بھی وہ اشاروں اور کمپیوٹر کی جدید صلاحیتوں کے ذریعے کام کرتے رہے۔ قرآن و سنت کے بارے میں مستشرقین کے مغالطوں کا جواب دینا ان کی اولین ترجیح رہی۔
رہا ان سے میرا ذاتی تعلق، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مکہ مکرمہ میں کلیۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ کے تیسرے سال میں لائبریری سائنس کا مضمون ان سے پڑھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں یہ ایک نیا مضمون تھا۔ طلبہ بھی اس سے زیادہ متعارف نہیں تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک بہترین استاد ثابت ہوئے۔ انھوںنے ہمارے لیے بحث و تحقیق اور علمی مصادر سے براہِ راست استفادے کے نئے دروازے کھول دیے۔ انھوں نے کارڈوں اور مختصر نوٹسز کے ذریعے تحقیق کرنے کا جدید طریقہ سکھایا ۔ استاذ مرحوم نظم و ضبط اور دوران تعلیم سنجیدگی کا بے مثال نمونہ تھے۔ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے اور غیر مفید کاموں میں ان کا وقت ضائع ہونے سے انھیں بچانے میں، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے اپنے طلبہ کو تصنیف و ترتیب اور براہِ راست علمی مصادر بلکہ ثانوی ذرائع سے استفادہ کرنے کا گر سکھادیا۔ اللہ ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔
مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ ایک عرصے سے میں ان کے ساتھ وہ ملاقاتیں نہیں کرسکا، جو ایک شاگرد کو اپنے استاذ سے کرتے رہنا چاہییں۔ شاید اس کی ایک وجہ خود ان کا زہد اور شہرت سے دُور رہنے کی عادت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی اس وجہ سے بعض اوقات ان سے غافل ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اب انھیں بہترین اجر و جزا سے نوازے اور درجات بلند فرمائے، آمین!
یہاں ان کے بچوں کا ذکر کرنا بھی مفید ہوگا۔ استاذ محترم کی حسن تربیت، حصولِ علم کی تڑپ اور نظم و ضبط کی پابندی کا عکس ان کے تینوں بچوں پر بھی واضح ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے کمپیوٹر میں تخصص کیا ہے اور اس وقت شاہ سعود یونی ورسٹی میں کمپیوٹر کی تدریس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ریاضیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ پہلے شاہ سعود یونی ورسٹی ریاض اور پھر دبئی کی زاید یونی ورسٹی میں پڑھاتی رہیں، جب کہ ڈاکٹر انس کا تخصص جینیاتی سائنس ہے اور وہ شاہ فیصل ہسپتال کے تحقیقاتی سنٹر میں کلیدی ذمہ داری پر ہیں۔ پروردگار ہمارے استاد جلیل علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ نبیوں، صدیقین شہدا اور صالحین کا بہترین ساتھ نصیب فرمائے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاO (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا۔
پروردگار! ہم سب کو بھی اپنے ان بندوں میں شامل فرما، آمین!
اگرچہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق کسی خاص مہینے، دن یا واقعے کا محتاج نہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ہر دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے زیر سایہ گزرتا ہے،لیکن بعض لمحات اور بعض دنوں میں سیرتِ اطہر کی خوش بُو چہار جانب چھائی محسوس ہوتی ہے۔
اُمتیوں کا یہ معاملہ البتہ عجیب ہے کہ ہم میں سے اکثر نے حیاتِ طیبہ کے صرف کسی ایک گوشے پر اکتفا کر رکھا ہے۔ کہیں چند اذکار اور کہیں صرف وقتی ذکر شہِ ابرار۔ کہیں اطاعت ِرسولؐ کی روح سے عاری مجالس نعت، اور کہیں صرف مخصوص وضع قطع پر اکتفا۔ پھر کھلا تضاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سراپا رحمت و محبت تھے، جنھوں نے بدترین منافق کو بھی بے نقاب نہیں فرمایا، اور ہم گاہے عشق و محبت کے زعم میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی واجب القتل قرار دینے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے کبھی کسی نے وقار سے گرا ہوا لفظ تک نہ سنا تھا اور ہم ایک سانس میں آپؐ پر فدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور دوسرے سانس میں غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔ آپؐ نے خون کے پیاسے قبائل کو، ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بنادیا تھا اور ہم کسی جزوی اختلاف پر بھی اپنے بھائیوں سے جینے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوری اُمت کو جسدِ واحد قرار دیتے ہوئے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کا حکم دیا، ایسا نہ کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ، اور ہم اُمت کی بات کرنے والوں پر پھبتیاں کستے ہیں۔
سیرتِ طیبہ کا یہی باب دیکھ لیجیے ہم میں سے کتنوں کو اور کتنا یاد رہتا ہے، اور سوچیے جب ایک جانب مشرکینِ مکہ کے مظالم تھے اور دوسری جانب، پہلے جناب ابو طالب اور پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سانحہ، جب پورا سال ہی غم کا سال قرار پایا۔ جب مشرکین مکہ کے بعد اہلِ طائف نے بھی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں ربِّ ذوالجلال نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کا اہتمام فرمایا۔ کائنات کا ایک ایسا منفرد واقعہ پیش آیا کہ جو نہ پہلے کبھی وقوع پذیر ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔
خالقِ کائنات اپنے بندے کو مکہ سے فلسطین اور وہاں سے سفرِ معراج پر لے گیا۔ اپنی نشانیاں دکھائیں، جنت و دوزخ کے مناظر دکھاتے ہوئے اُمتیوں کے لیے نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا تحفہ عطا فرمایا اور پھر اس واقعے کو اپنی آخری کتاب کا حصہ بنادیا، تاکہ تاقیامت سیرتِ طیبہ کے اس اہم باب کی تلاوت ہوتی رہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ O(بنی اسرائیل۱۷: ۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘۔
یہ حقیقت بھی اہم تر ہے کہ سرزمینِ اقصیٰ کے مبارک ہونے کا ذکر صرف اسی آیت ہی میں نہیں، قرآن کی پانچ آیات میں کیا گیا ہے۔ ابو الانبیا حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت لوط، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت صالح، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام سمیت تقریباً ۱۴ ؍انبیا اس مقدس سرزمین پر قیام پذیر رہے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی داخلے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن اس نے واضح حکم الٰہی سے کھلی بغاوت کردی۔ حضرت موسٰی اپنی قوم کی نافرمانی کے باوجود اسے چھوڑ کر نہ گئے اور خود بھی اس مبارک سرزمین میں داخل نہ ہوسکے، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس رات میں موسٰی کے پاس سے گزرا۔ و ہ سرخ ریت کے ڈھیر کے پاس اپنی قبر میں نماز ادا کررہے تھے۔ آپ لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں آپ کو راستے کے کنارے ان کی قبر دکھاتا۔ آپؐ کا مسجد اقصیٰ لے جایا جانا، تمام انبیا کا وہاں دوبارہ اتارا جانا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنا، اس بات کا اعلان بھی تھا کہ اب باقی تمام شریعتیں اختتام پذیر ہوئیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہی اب ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کا نقطۂ کمال ہے۔
مکہ میں رہتے اور مدینہ ہجرت کے ۱۷ ماہ بعد تک، اسی مبارک مسجد اقصیٰ ہی کو آپؐ اور آپؐ کے اُمتیوں کے لیے قبلہ بنائے رکھا گیا۔ اس مقدس دھرتی کی فضیلت و منزلت بتاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)،’’ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
صدیوں کے بعد گزرتی صدیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جارہی ہیں۔ باقی تمام اَدوار چھوڑ کر صرف گذشتہ صدی پر ہی غور کرلیجیے۔ اپنے نبی کی امانت، آپؐ کے قبلۂ اوّل اور آپؐ کے فرمان کے مطابق مکہ و مدینہ کے بعد اس مقدس ترین مقام کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں ہوئیں۔ ان پر کیا کیا مظالم نہیں توڑے گئے، لیکن اہل فلسطین کے دل سے اپنے نبی کی محبت اور ان کے قبلۂ اول کی آزادی کا جذبہ چھینا نہیں جاسکا۔ آج ان حقائق کی یاددہانی کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بار پھر سازشوں کے وہی جال بنے جارہے ہیں۔
۲ نومبر ۲۰۱۷ء کو اُس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور کے ۱۰۰ سال پورے ہوئے، جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۱۹۱۷ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۵ہزار تھی۔ اس منحوس اعلان سے قبل برطانیہ نے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جو مختلف اقدامات کیے، ان میں سرفہرست مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا۔ حجاز کے والی شریف حسین بن علی کو لالچ دیا گیا کہ وہ اگر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرتے ہوئے اس منصوبے کا ساتھ دے، تو اسے پورے جزیرۂ عرب، عراق اور شام سمیت عالم عرب کے اکثر علاقوں کا تاج دار بنادیا جائے گا۔ موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۱۶ء کو یہ اعلانِ انقلاب کردیا۔ مسلمانوں کی قوت تقسیم اور کمزور ہوئی تو دسمبر ۱۹۱۷ء تک سرزمین فلسطین پر برطانوی قبضہ مکمل ہوگیا۔ برطانوی افواج کا سربراہ جنرل ایلن بی (Allenby )سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس پہنچا اور اس پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا: ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ گویا یہ سارا منصوبہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی ۸۰۰ سالہ صلیبی جنگوں ہی کا تتمہ تھا۔
ایک طرف یہ سامراجی منصوبہ ساز اور شریف مکہ جیسے ان کے ہم نوا مسلم حکمران تھے، اور دوسری طرف اپنا سب کچھ بیت المقدس کی آزادی کی خاطر قربان کرتے ہوئے، جدوجہد کرنے والے اہل ایمان تھے۔ ۲۷ جنوری سے ۱۵ فروری ۱۹۱۹ء تک بیت المقدس میں پہلی فلسطینی کانفرنس ہوئی۔ شرکا نے بلاد الشام (موجودہ فلسطین، شام، لبنان، اُردن اور عراق) کی تقسیم اور اس پر قبضہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ موسیٰ الحسینی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، نئی فلسطینی قیادت کے طور پر اُبھرے۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں یہودیوں کے خلاف اپریل ۱۹۲۰ء میں پہلی عوامی تحریک شروع ہوئی۔
۱۹۲۱ء میں فلسطین کے شہر یافا میں تحریک کا دوسرا دور دیکھنے کو آیا اور اگست ۱۹۲۹ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوار بُراق کی بے حرمتی کرنے پر ایک طاقت ور ’تحریک بُراق‘ دیکھنے میں آئی۔جس دوران میں ۱۳۳ یہودی مارے گئے ۳۳۹ زخمی ہوئے جواب میں برطانوی افواج نے ۱۱۶ فلسطینی شہید اور ۲۳۲ زخمی کردیے۔ ان تین عوامی تحریکوں کے بعد بیت المقدس اور گردونواح کی عرب آبادی میں جہاد فلسطین کی نئی روح پیدا ہوئی۔ شام کے چوٹی کے عالم دین عزالدین القسام اور عبد القادر حسینی نے اپنی اپنی جہادی کوششوں سے قبلۂ اول آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔
مسئلۂ فلسطین صرف وہاں کے عرب عوام کا مسئلہ نہیں تھا،صرف اہلِ فلسطین یا عرب آبادی ہی اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوشاں نہیں تھی، پوری مسلم دنیا اس کار جہاد میں شریک تھی۔ ۷تا ۱۷دسمبر ۱۹۳۱ء کو مفتی اعظم امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۲۲ ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ برصغیر کی نمایندگی علامہ محمد اقبال اور مولانا شوکت علی نے کی۔ لبنان کے امیر شکیب ارسلان، مصر کے علامہ محمد رشید رضا، ایران کے ضیاء الدین طباطبائی اور تیونس کے عبد العزیز الثعالبی جیسی شخصیات اس کانفرنس کی روح رواں تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر پورے عالم اسلام میں فلسطین کمیٹیاں بنانے اور قبلہء اول کی حفاظت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کے علاوہ پرامن عوامی جدوجہد کے مختلف مراحل سامنے آئے۔ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۶ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمران ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو۱۷۸ روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔ برطانیہ نے صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے مطالبات کا جائزہ لینے کے بہانے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پِیل (Lord Peel) کی سربراہی میں رائل کمیشن بھیجا۔ کمیشن نے چھے ماہ بعد جو رپورٹ جاری کی، وہ فلسطین کی بندر بانٹ کا ایک خاکہ تھا جسے فلسطینی عوام نے فوراً مسترد کردیا۔ ایک مضبوط عوامی تحریک دوبارہ برپا ہوئی۔ اس دوران برطانوی گورنر لویس انڈریوز بھی قتل ہوگیا۔ برطانوی افواج نے یہودی ملیشیاؤںکے ساتھ مل کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ مفتی امین الحسینی لبنان جانے پر مجبور ہوگئے، لیکن دیگر کئی رہنما گرفتار کرکے براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اور بحرہند میں گھری برطانوی کالونی جزائر سیشل میں قید کردیے گئے۔ تحریکِ آزادی کا یہ مرحلہ مزید تقریباً دو سال جاری رہا۔ ایک مرحلے پر فلسطینی عوام نے کئی دیہات اور شہروں کے گردو نواح کا علاقہ آزاد کروالیا لیکن برطانیہ نے جنرل منٹگمری اور جنرل ویول سمیت چوٹی کے عسکری رہنماؤں کے ساتھ مزید کمک بھیجتے ہوئے لاتعداد فلسطینی شہری شہید کردیے۔
عوامی غیظ و غضب اور دوسری جنگ عظیم کے گہرے ہوتے ہوئے سایے کی وجہ سے برطانیہ کو مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ اس نے تقسیم کا منصوبہ معطل کردیا۔ گرفتار و ملک بدر رہنماؤں کو رہا کردیا۔ مسئلے کے حل کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس بلائی جو ناکام رہنا تھی، اور ناکام رہی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتا، عربوں اور یہودیوں کی مشترک حکومت بنانا چاہتا ہے۔ وعدہ کیا کہ وہ آیندہ دس برس کے اندر اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست تشکیل دے گا۔ فلسطینی عوام کو ان اعلانات کی صداقت پر یقین نہیں تھا، اس لیے انھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ اسی دوران میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ مفتی امین الحسینی کئی ملکوں سے ہوتے جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ نے بھی توقع کے عین مطابق اپنے وائٹ پیپر کی منسوخی کا اعلان واپس لے لیا۔ مسئلۂ فلسطین کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اینگلو امریکن مشترک کونسل تشکیل دے دی گئی۔ اب امریکا اس پورے قضیے میں باقاعدہ اور براہِ راست شریک تھا۔ ۲ ؍اپریل ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ایک قرارداد پیش کی، جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اسے منظور کرتے ہوئے، سرزمین فلسطین کے ۷ء۵۴ فی صد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
۲نومبر ۱۹۱۷ء کو کیے جانے والے برطانوی اعلان بالفور سے لے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی ریاست کے باقاعدہ قیام کے اعلان تک، زمینی حقائق کیسے تبدیل کیے گئے؟ اس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتاہے: ۱۹۱۸ء میں غیر یہودی فلسطینی آبادی ۶لاکھ سے متجاوز تھی، جب کہ باہر سے آکر بسنے والوں سمیت یہودیوں کی کل تعداد ۵۵ ہزار تھی جو آبادی کا ۴. ۸ فی صد تھے اور ان کے پاس فلسطین کا ۲ فی صد علاقہ تھا۔ ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد ۶لاکھ ۴۶ ہزار ہوچکی تھی، اور وہ کل آبادی کا ۷ء۳۱ فی صد تھے۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ۶ فی صد رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کی تعداد ۱۳ لاکھ ۹۰ ہزار تھی جو کل آبادی کا ۳ء۶۸ فی صد رہ گئے۔ لیکن اقوام متحدہ نے ۶ فی صد رقبہ رکھنے اور باہر سے آکر ایک پرائے ملک پر قابض ہونے والے ۷ء۳۱ فی صد یہودیوں کو تقریباً ۵۵ فی صد رقبہ عطا کردیا۔
تقسیم سرزمین اقصیٰ کا اعلان ہونے پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی پڑوسی عرب ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ سب نے بہانہ بنایا کہ جب اعلان کے مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانوی افواج یہاں سے نکل جائیں گی، تو اس وقت وہ فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ فلسطینی عوام نے خود ہی اپنے نبیؐ کی امانت کی حفاظت کا فیصلہ کیا۔ پڑوسی علاقوں (بالخصوص مصر سے) عوام ان کی جو مددکرسکتے تھے وہ انھوں نے کی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور ان کی جماعت، اہل فلسطین کی مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی۔ صرف ۲۰ سال بعد انھوں نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے پہلی کھیپ کے طور پر ۱۰ ہزار مجاہدین فلسطین بھیجنے کا اعلان کیا۔ مصری حکومت خود اہل فلسطین کی مدد تو کیا کرتی، اس نے اخوان کے ان فداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جو اہل ایمان جاسکے، انھیں بھی جنگ بندی کے بعد ملک واپسی سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی پورے مصر میں اخوان کے کارکنان جیلوں میں بند کیے جانے لگے۔ قبلہء اول کی آزادی کے لیے قربانیاں دینا اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہنا، اتنا سنگین جرم تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی ۱۱ فروری ۱۹۴۹ء کی شام اخوان کے بانی اور مرشد عام حسن البنا کو مصری دارالحکومت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر شہید کردیا گیا۔
۱۹۴۸ء کی اس خوفناک جنگ میں فلسطینی عوام نے عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ جنگ کے پہلے چھے ماہ تو وہ اکیلے ہی یہودی ملیشیاؤں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے مقابل ڈٹے رہے۔ انھوں نے سرزمین فلسطین کے ۸۲ فی صد علاقے کی حفاظت کیے رکھی۔ آخرکار سات عرب ممالک کی افواج نے اہل فلسطین کی مدد کا اعلان کیا، لیکن ان کا فلسطین جانا، ان کے وہاں نہ جانے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
ان افواج کی حقیقت اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے ایک ملک کی ارسال کردہ فوج کے اعلیٰ افسران میں سے ۴۵ افسر عرب نہیں برطانوی تھے۔ سات عرب ریاستوں کی افواج کی وہاں موجودگی کے دوران دسمبر ۱۹۴۸ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو فلسطین کا ۷۷ فی صد علاقہ یہودی افواج کے ہاتھ دیا جاچکا تھا۔ اس دوران ۱۳ لاکھ ۹۰ہزار فلسطینیوں میں سے ۸ لاکھ شہری زبردستی ملک بدر کردیے گئے۔ مزید ۳۰ ہزار سے زائد ملک کے اندر مہاجر ہوگئے۔ ساڑھے چار ہزار سال سے وہاں آباد ایک پوری قوم سے ان کے آباو اجداد کی سرزمین چھین لی گئی۔ مسلمانوں سے ان کا قبلۂ اول اور عیسائیوں سے ان کے مقدس مقامات چھین لیے گئے۔( ۱۹۲۲ء میں وہاں عیسائیوں کی تعداد ۷۱ ہزار ۶۴۶ تھی)۔ ان کے گھر اور بستیاں مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ ۱۴ نومبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اسرائیلی فوج کے سربراہ، اور وزیر دفاع موشے دایان (Moshe Dayan) نے اعتراف کیا کہ ’’اس ملک میں ایک بھی یہودی بستی ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی عرب آبادی کے اوپر تعمیر نہ کی گئی ہو‘‘۔
۱۹۴۸ء میں اہل فلسطین پر مسلط کی جانے والی جنگ آخری جنگ نہیں تھی۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر دوبارہ جنگ چھیڑ دی۔ غزہ کی پٹی اور مصری صحراے سینا پر قبضہ جمالیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سینا کا علاقہ خالی کردیا۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کی صبح اسرائیل نے مصر، اُردن اور شام پر ایک بار پھر بیک وقت اور اچانک حملہ کرتے ہوئے بچا کھچا فلسطینی علاقہ (مغربی کنارہ ۵۸۷۸ کلومیٹر اور غزہ کی پٹی ۳۶۳ کلومیٹر) مصری صحراے سینا (۶۱ ہزار ۱۹۸ مربع کلومیٹر) شامی گولان کی پہاڑیاں (۱۱۵۰ مربع کلومیٹر) بھی قبضے میں لے لیا۔ مصر، شام اور اُردن کی تقریباً ساری فضائی قوت ان کے ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کردی۔ ۱۰ ہزار سے زائد مصری، ۶ ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی مارے گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ۳لاکھ ۳۰ ہزار مزید فلسطینی شہری ملک بدر اور بے گھر کردیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں صہیونی ریاست سے شام اور مصر کی چوتھی جنگ ہوئی۔ آغاز میں مصر و شام کا پلہ بھاری رہا، لیکن پھر امریکی فضائی کمک کے نتیجے میں، صہیونی افواج نہر سویز کے مغربی علاقے اور شام کی کئی نئی بستیوں پر بھی قابض ہوگئیں لیکن مجموعی طور پر اس جنگ میں صہیونی ریاست اور اس کی افواج کو بڑا دھچکا لگا۔
یہ جنگ عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کی آخری کھلی جنگ تھی، لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس نئی جنگ میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عرب ممالک، اب سرزمین اقصیٰ پر صہیونی قبضہ اور ان کی ناجائز ریاست تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی جانب سے لڑنے لگے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مصر نے لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۸ء میں انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرتے ہوئے خطے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ وقتی طور پر عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن پھر نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ خود بھی اسی دوڑ میں شامل ہوگئی۔ اب جس حکمران کو بھی خود اپنے عوام یا کسی برادر ملک کے خلاف سہارے کی ضرورت ہوتی، وہ قبلۂ اول پر قابض دشمن سے دوستی کے رشتے قائم کرنا شروع کردیتا۔ پہلے اس کی آب یاری خلافت عثمانیہ کے قاتل مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے وارث کررہے تھے، اب خطے کا سب سے اہم ملک مصر بھی ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ بظاہر اس معاہدے کے نتیجے میں صحراے سینا سے صہیونی فوجوں کا انخلا ہوگیا، لیکن ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ کہ گویا وہاں موجود مختصر سی مصری افواج عملاً اسرائیلی افواج کے ماتحت کام کررہی ہوں۔ مصر کے بعد اُردن بھی اسی روسیاہی کا شکار ہوا۔
اگست ۱۹۹۳ء میںکئی سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسئلۂ فلسطین کے اکلوتے اور قانونی وارث ہونے کے دعوے دار یاسر عرفات نے امن کے نام پر ایک طویل معاہدہ کرلیا۔ اس گنجلک معاہدے کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر باقی ماندہ فلسطینی شہری، اسرائیلی ریاست کو اپنی اطاعت کا مرحلہ وار ثبوت دیتے چلے جائیں تو آخرکار غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بعض اختیارات دے دیے جائیں۔ اس معاہدے کا سب سے قبیح پہلو یہ تھا کہ اس میں مذکورہ چند موہوم وعدوں کی قیمت پر پہلے ہی ہلے میں سرزمینِ اقصیٰ کے ۷۷ فی صد سے زائد علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ سب سے اہم اور حساس معاملے، یعنی بیت المقدس کے مستقبل کو تمام مذاکرات سے خارج کرتے ہوئے، بعد کے کسی مرحلے کے لیے اُٹھا رکھا گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف یہ عہد کیا کہ وہ آیندہ کبھی اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال نہیں کرے گی، بلکہ یہ معاہدہ بھی کیا کہ اگر کوئی بھی فرد یا گروہ ایسا کرے گا، تو فلسطینی اتھارٹی اس کا قلع قمع کرے گی۔ مزید ذلت آمیز شرط یہ رکھی گئی کہ اسرائیلی افواج جب چاہیں گی فلسطینی علاقوں میں آکر کارروائیاں کرسکیں گی۔ ان کے آنے پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس یا فوج کے تمام افراد ان کے راستے سے روپوش ہوجائیں گے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ اسرائیلی فوجی اتنی اچانک آجائیں کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو فلسطینی سپاہی اپنا اسلحہ زمین پر رکھ کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں گے تاآنکہ اسرائیلی وہاں سے چلے جائیں۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور کردیے جانے والے فلسطینی مہاجرین (اب تک جن کی تعداد ۷۰ لاکھ تک پہنچ چکی ہے) کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ گویا وہ لاوارث اب اپنی سرزمین پر واپسی کا خواب تک بھی نہ دیکھیں۔ فلسطینی علاقوں میں مسلسل تعمیر کی جانے والی یہودی بستیوں کے بارے میں بھی چپ سادھے رکھی گئی۔
مکمل طور پر اسرائیلی رحم و کرم پر جینے والی اس اتھارٹی کا سب سے بنیادی مقصد فلسطینی عوام میں روز افزوں تحریک انتفاضہ کو کچلنا رہ گیا۔ یعنی جو کام خود صہیونی افواج انجام نہیں دے سکی تھیں، وہ اب خود فلسطینی عوام سے کروایا جانے لگا۔ اس ذمہ داری کے لیے محمد دحلان نامی شخص کا انتخاب بھی خود ہی کردیا گیا۔ موصوف نے مغربی کنارے اور غزہ میں جاسوسی، جیل خانوں اور اذیت گاہوں کا ایک وسیع نظام قائم کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تحریک مزاحمت و آزادی کے کئی اہم ترین رہنما شہید ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ یہ تمام جتن کرنے کے باوجود بھی اہل فلسطین کے دل سے سرزمین اقصیٰ آزاد کرنے کا جذبہ ختم نہ کیا جاسکا۔
سال ۲۰۰۰ء میں اس حقیقت کا بے مثال ثبوت ایک بار پھر پوری قوت سے ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ متعصب صہیونی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور ۱۹۸۲ء میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں صبر ا، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروانے والے سابق وزیر دفاع آرییل شارون نے اعلان کردیا کہ ’’اسرائیل ایک ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔ یروشلم (بیت المقدس) سمیت اس کی ساری سرزمین ہماری ہے اور میں اس حقیقت کا اعلان کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جاؤں گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس اعلان کی تائید کی اور شارون کی مدد کرنے کے لیے ۶۰۰ مسلح افراد اس کے ہمراہ بھیج دیے۔ اس نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا تو پوری فلسطینی قوم بپھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً ۵ برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کرکے دیکھ لیا۔ ساڑھے چار ہزار شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے لیکن ان جرائم کے نیتجے میں مسجد اقصیٰ سے اُمت مسلمہ کی محبت و تعلق تو کیا کم ہوتا، ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست امریکا کا اصل چہرہ ان کے سامنے مزید بے نقاب ہوگیا۔
اس دوران کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے۔ یاسر عرفات اب نہ صرف مزید کسی کام کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ اوسلو معاہدے میں زینت کے لیے رکھی گئی شقوں پر عمل بھی چاہتا تھا، علاج کے بہانے اسے فرانس لے جاکر زہر دے دیا گیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان سے پہلے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو تحریک حماس کے بانی اور فلسطین میں نسل نو کے روحانی رہنما، شیخ احمد یاسین کو بھی نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے سے شہید کردیا گیا۔ اگلے ہی ماہ ۱۷؍اپریل ۲۰۰۴ء کو ان کے جانشین ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی بھی ایسے ہی ایک حملے کی نذر ہوگئے۔ اسی سال دیگر کئی جماعتوں کے اہم قائدین بھی شہید کردیے گئے۔
یاسر عرفات کے بعد محمود عباس (ابو مازن) نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ان کا بنیادی فلسفہ ہی ’عسکریت‘ یعنی آزادیِ اقصیٰ کے لیے مسلح جہاد کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے ذمہ داری سنبھالتے ہی کئی دیگر اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ شہادتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ تحریک حماس (فلسطینی اخوان) جہاں اپنے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کی وجہ سے سب سے مؤثر جہادی گروہ ہے، وہیں وہ فلسطینی عوام کے اعتماد و حمایت کی حامل اہم ترین جماعت بھی ہے۔ مختلف مشاورتوں کے بعد انھوں نے ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی اور ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نتائج آئے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ۱۳۲ کے ایوان میں حماس کو ۷۸ اور محمود عباس کی جماعت الفتح کے تمام دھڑوں کے مشترکہ پینل کو ۴۵ نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی یہ جیت تحریک انتفاضہ سے بھی بڑا زلزلہ ثابت ہوئی۔ حماس نے اکیلے حکومت سازی کے بجائے ہر ممکن قربانی دے کر بھی قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ان کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں، بلکہ نومنتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔
انتخابات ہوجانے کے دو ہفتے بعد بھی اسی پرانی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اہم دستوری ترامیم کردی گئیں۔ تمام تر اختیارات منتخب حکومت کے بجاے صدر کو منتقل کردیے گئے۔ نومنتخب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے سپیکر سمیت کئی ارکان اسمبلی کو اسرائیلی افواج یا فلسطینی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا۔ ۲۰۰۷ء میں یہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
محمود عباس نے بھی منتخب حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے، مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ ایسے کڑے حصار اور پے در پے جنگوں کے بعد غزہ میں محصور ۸ لاکھ سے زائد انسانوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا۔ لیکن وہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ انھوں نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔
۲۰۱۶ء سے آج ۲۰۱۷ء تک یہ محاصرہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس دوران ۲۰۱۱ء میں عالم عرب کی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مصر سمیت کئی ملکوں سے آمریت کا عارضی خاتمہ ہوا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا ایک سالہ دور اقتدار (جون ۲۰۱۲ء - جولائی ۲۰۱۳ء) ہی ایسا گزرا کہ مصر نے اہل غزہ کے لیے سرحدوں اور دلوں کے دروازے کھول دیے۔ یہی اقدام صدر محمد مرسی کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور انھیں بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر جیل میں بند کردیا گیا۔ ان پر سب سے اہم الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اسے اہم راز پہنچائے۔
نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے ۱۰۰ سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑے کیے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ۱۰۰ سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری اُمت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
۱۰۰ برس قبل برطانیہ نے اعلان بالفور کیا تھا، اب امریکا اس صدی کا سب سے بڑا سودا مَفقَۃُ الْقَرنْ (Deal of the Century) کرنے جارہا ہے۔ مصر کے سرکاری اخبارات میں شائع شدہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
السیسی: ’’آپ مجھے مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کرنے کے لیے پوری قوت سے تیار و آمادہ پائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ: ’’یہ کام ہم سب مل کریں گے۔ ہم مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہماری دوستی طویل عرصے تک رہے گی‘‘۔
صدی کی سب سے بڑی یہ ڈیل کیا ہے؟ اس کی تفصیل ابھی خفیہ رکھی جارہی ہے۔ واقعات و عمل درآمد کی رفتار لیکن بہت تیز ہے۔
ابھی آپ نے پڑھا کہ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹنے کے بعد ان کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ قائم کیا گیا، وہ ’دہشت گرد تنظیم‘ حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کا تھا۔ قطر سے قطع تعلق کرتے ہوئے اس پر بھی حماس کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے اس کانام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسی دہشت گرد حماس اور محمود عباس کی الفتح کے درمیان نہ صرف صلح کروا دی گئی کہ بلکہ اسے ایک کارنامہ قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ جنرل سیسی ہی نے انجام دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال سے جاری غزہ کے محاصرے میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
حماس الفتح معاہدے کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حماس مکمل حصار اور خوفناک جنگوں کے باوجود گذشتہ گیارہ سال سے غزہ میں قائم اپنی عبوری حکومت سے دست بردار ہوگئی ہے۔ اس نے غزہ آنے جانے کے تمام راستوں سمیت امن و امان کا انتظام محمود عباس انتظامیہ کے سپرد کردیا ہے۔ البتہ اس نے جس بات سے کسی بھی صورت دست بردار نہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ زیر زمین پناہ گاہیں ہیں جہاں اس نے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا عسکری سازوسامان اور دستیاب ہتھیار رکھے ہیں۔ حماس کے اعلیٰ قائدین نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اگرچہ اس معاہدے کے بارے میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک تو ہم اس بارے میں یکسو اور مطمئن ہیں کہ آزادیِ اقصیٰ کے لیے حاصل اور تیار کیے جانے والے ہمارے یہ ہتھیار محفوظ و مامون ہیں، دوسرے ہم اور غزہ کے عوام اس بات پر مطمئن ہیں کہ گیارہ سالہ طویل و کڑی آزمایش میں اللہ کی توفیق سے سرخرو ہوئے۔ کوئی بڑی سے بڑی آفت و ابتلا ہمیں جھکا نہیں سکی۔ اور تیسری بات یہ کہ اگر غزہ کے محصور ۹ لاکھ عوام کے دکھ اور مصائب ختم یا کم کرنے کے لیے، اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہوئے بغیر کوئی آبرومندانہ موقع پیدا ہورہا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ یہ صلح کروانے بلکہ اس پر اصرار کرنے والوں کے اصل اہداف کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک حماس اب ایک اتنی بڑی زمینی حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی بھی حل اس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس میں شامل نہ ہو۔ لیکن دوسرا بلکہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سودا کرنے والے حماس کو بھی یقینا کسی سودے بازی یا بے دست و پا کرنے کی سازش کا شکار کرنا چاہیں گے۔ اس پورے تناظر میں ایک تیز رفتار اور اہم پیش رفت یہ ہورہی ہے کہ ایک دو نہیں، درجن بھر سے زائد مسلم ممالک، صہیونی ریاست کے ساتھ اس وقت خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی دانون کا ایک بیان ۲۶ نومبر کے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت اسرائیل ایسے ۱۲ مسلم ممالک سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’اس سے پہلے یہ مسلم سفرا اسرائیلیوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے، اب وہ ہم سے تقریباً ہفتہ وار ملاقاتوں میں مشترک منصوبوں پر گفت و شنید کرتے ہیں‘‘۔ دانون کے بقول: ’’اس وقت ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ہونے والے یہ مذاکرات منظر عام پر کیسے لائے جائیں‘‘۔ دانون کے علاوہ کئی اسرائیلی وزرا خود وزیراعظم نتن یاہو اور فوجی سربراہ گیڈی ایزنکوٹ بھی ایسے متعدد بیانات دیتے ہوئے خطے کے کئی اہم ترین مسلم ممالک کا نام لے چکے ہیں۔
پورے منصوبے کے بارے میں اب تک نشر کی جانے والی تجاویز میں سے اسرائیلی وزیر سوشل مساوات جیلا جملیل کے بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’کسی فلسطینی ریاست کے قیام کی اب ایک ہی صورت ہے کہ غزہ اور مصری صحراے سینا کے ایک حصے کو ملا کر وہاں یہ مجوزہ ریاست بنادی جائے‘‘۔ ۱۱؍ نومبر کو اپنا یہ بیان دینے کے دو ہفتے بعد موصوفہ مصر کے دورے پر آئیں۔ وہ مصر میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں اور یہ مصر میں کسی اسرائیلی وزیر کی پہلی علانیہ شرکت تھی۔
خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی اپنی تمام تر وفاداریوں کے بعد اب مختلف اطراف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ صدی کے اس اہم ترین فیصلے میں غیر مشروط تعاون کریں۔ محمود عباس کے ایک قریبی دوست سے ملاقات میںانھوںنے محمود عباس کا یہ جملہ دہراتے ہوئے صورتِ حال سے آگاہ کیا: ’’میں کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر الف سے یا تک عمل درآمد ہو اور آغاز الف سے کیا جائے لیکن ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کرو، ہم اس پر عمل بھی کریں گے لیکن اس پر عمل درآمد یا سے الف کی طرف شروع کیا جائے‘‘۔انھیں مزید دباؤ میں لانے کے لیے واشنگٹن میں ان کے دفتر کی تجدید کرنے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ۸۲ سالہ محمود عباس بھی اپنے پیش رو یاسر عرفات کے انجام کو پہنچا دیے جائیں۔ ان کی جگہ اب محمد دحلان کو آگے بڑھایا جائے، جو محمود عباس سے سنگین اختلافات کے بعد ایک عرصے سے ابوظبی میں فعال ہیں۔ حماس الفتح حالیہ مذاکرات کے موقعے پر بھی وہ بہت متحرک دکھائی دیے۔ مصری حکومت نے حماس کے بعض ذمہ داران سے بھی ان کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔
غیب کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہے لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گذشتہ ۱۰۰ برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ ۱۹۴۸ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم اُمت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ:’’ مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقینا بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
نفرت، تعصب، حسد اور لالچ، ہمارے ازلی دشمن شیطان کے بنیادی ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن اولاد آدم ہے کہ مسلسل انھی خطاؤں کی مرتکب ہوکر تباہی کے راستے پر چلی جارہی ہے۔ تعصب اور لالچ ،افراد و اقوام کی نامرادی کی بنیاد بن رہے ہیں۔ ابلیس ایک طرف ان کے زہریلے بیج بورہا ہے اور دوسری طرف ان فصلوں سے فائدہ سمیٹنے والے خناسوں کو شہ دیتے ہوئے، پہلے سے منقسم اُمت کو نت نئے تعصبات کی نذر کرتا چلا جارہا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی تنازعات کی بنا پر نفرت کے الاؤ مزید بھڑکائے جارہے ہیں۔ ایک ایک مسلک یا فقہ کے ماننے والوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی اختلافی بنیاد نہ ملے تو ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات ہی کو جنگوں کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس وقت کے بعض مسلم حکمرانوں کو شاہ بلکہ شہنشاہ بننے کا لالچ دے کر اپنے ناپاک منصوبے نافذ کیے گئے اور پھر وفادارانہ وابستگی کے وعدے پر پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کرنے والے چاہتے تو اس وقت خطے میں پائی جانے والی بڑی ’کرد‘ آبادی کا بھی ایک الگ ملک بنادیتے، لیکن اصل ہدف علاقے یا عوام کا مفاد نہیں، فتنے کاشت کرنا تھا۔ کرد علاقے کو چار ممالک ترکی، شام، عراق اور ایران میں بانٹ دیا گیا، اور پھر گذشتہ پوری صدی ان کے دلوں میں ’کرد‘ شناخت کی پرستش راسخ کی گئی۔ اس جذبۂ پرستش میں شدت پیداکرنے کے لیے، مختلف مراحل میں اور مختلف حکمرانوں کے ذریعے ان کے حقوق بھی سلب کروائے گئے، اور ترقی کے خواب دکھا کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔
ترکی میںکرد تحریک بظاہر ختم ہوگئی، لیکن کئی مراحل کے بعد ۱۹۷۸ء میں ۳۰ سالہ باغی رہنما عبداللہ اوجلان کی صدارت میں ’پارٹی کارکراں کردستان ‘ (PKK)کی صورت میں دوبارہ سامنے آئی۔ یہ جماعت ۸۰ کے عشرے میں خوفناک مسلح کارروائیوں کے ذریعے ترکی سے علیحدگی اور کردستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ ان مسلح کارروائیوں میں ۴۰ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ ترک دستاویزات کے مطابق اس بدامنی کے نتیجے میں۵۰۰ ؍ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصانات ہوئے۔ عبداللہ اوجلان نے لبنان اور شام میں مسلح تربیتی کیمپ قائم کیے، جو ۱۹۹۸ء میں ترکی کے دباؤ پر بالآخر ختم کرنا پڑے۔ فروری ۱۹۹۸ء میں ترک خفیہ ادارے اوجلان کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے گرفتار کرکے ترکی لے گئے۔ عدالت نے اسے سزاے موت سنائی جو بالآخر عمر قید میں بدل دی گئی۔
۲۰۱۴ء میں اوجلان نے جیل سے اپنے پیغام کے ذریعے ترکی کے ساتھ ۳۰ سالہ مسلح تصادم ختم کرنے اور اپنی جدوجہد پُرامن رکھنے کا اعلان کیا۔ملک میں نئی کرد سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایک جماعت پر عدالت نے پابندی لگادی تو دوسری وجود میں آگئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ لیکن بعض گروہ اب بھی مختلف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ’پی کےکے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
۱۹۷۹ء میں انقلابِ ایران کے بعد انھیں پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کچل دیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ۱۹۸۲ء تک جاری رہنے والی کارروائیوں کے ذریعے ان کی آواز تقریباً خاموش کرادی۔
عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم اور ملا مصطفےٰ البارزانی کے درمیان یہ گرم جوش تعلقات عراق میں امن و استحکام کی نوید سنانے لگے۔ لیکن دو برس کے اندر اندر ہی مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے غلط فہمیوں کی پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۶۱ء کو عبد الکریم قاسم نے عراقی وزارت دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ: ’’برطانوی سفارت خانے نے تخریبی کارروائیوں اور مفاد پرست عناصر کی پشتیبانی کرتے ہوئے فتنہ جوئی کے لیے تقریباً ۵ لاکھ دینار خرچ کیے ہیں‘‘۔ عراقی سوشلسٹ پارٹی نے بھی اپنے ایک دستاویزی بیان میں انکشاف کیا کہ: ’’جون ۱۹۶۱ء کے دوران ایران میں امریکی سفیر نے دیگر امریکی سفارت کاروں اور عسکری ماہرین کے ساتھ مل کر کرد علاقوں کے کئی دورے کیے ہیں‘‘۔ شاہِ ایران نے بھی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کیا۔
اس خانہ جنگی کے دوران ۸ فروری ۱۹۶۳ کو وزیراعظم عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ کردوں نے انقلاب کی حمایت کی اور کچھ عرصے کے لیے لڑائی رک گئی، لیکن جلد ہی دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ساری جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اس زمانے میں عراق کے ساتھ تیل کے معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا بھی تھا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۶۱ء سے شروع ہونے والی یہ لڑائی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ۱۹۷۰ء میں کردستان کی داخلی خود مختاری کے معاہدے پر آکر تھمی۔
کرد قوم پرستی کی راکھ تلے دبی چنگاریاں گاہے گاہے شعلہ جوالا بن کر لاتعداد انسانی جانیں بھسم کرتی رہیں۔ اس دوران مختلف انقلابات بھی آتے رہے۔ ۱۹۷۹ میں صدام حسین نے بعثی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے عراق کا اقتدار سنبھالا اور کئی مواقع پر کرد آبادی کے خلاف بے مہابا قوت استعمال کی۔ ایران عراق جنگ کے اختتامی مرحلے پر ایرانی سرحد پر واقع حلبچہ نامی قصبہ، ایرانی قبضے سے چھڑواتے ہوئے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی انھی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ جس سے بیک وقت ۵۵۰۰ سے زائد کرد شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ بعد کے برسوں میں ان کیمیائی اثرات کی وجہ سے مزید کئی ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صدام حکومت کا الزام تھا کہ یہ حملہ وہاں سے پسپا ہوتی ہوئی ایرانی افواج نے کیا ہے۔ حملہ جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کے نتیجے میں خطے کے تمام کردوں کے دل میں تعصب کی گرہ مزید مضبوط ہوگئی۔
۱۹۹۰ء میں عراقی صدر صدام حسین سے کویت پر چڑھائی کا ارتکاب کروایا گیا۔ اس کی آڑ میں عرب سرزمین پر امریکی افواج کی آمد کے بعد سے عراق میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل پانے لگا۔ تیل کی وافر دولت ہونے کے باوجود پورے ملک میں تباہی و بدحالی عروج کو چھونے لگی۔ پہلے کویت کی آزادی اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تیار کرنے کاالزام لگاتے ہوئے، عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اپریل ۱۹۹۱ء سے اقوام متحدہ کے ذریعے عراق کے وسیع علاقوں پر فضائی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کا بظاہر مقصد شمال میں کردوں اور جنوب میں شیعہ آبادی کا تحفظ قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ان فضائی پابندیوں کی آڑ میں برطانوی اور امریکی فضائیہ، عراقی فضائی حدود پر قابض ہوگئی۔ اسی عرصے میں کرد ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اربیل اور سلیمانیہ سے عراقی افواج کو بے دخل کرتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ پھر مئی ۱۹۹۱ء میں کرد پارلیمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کروادیے گئے۔ مسعود البارزانی کی جماعت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کو ۵۰ء۸فی صد اور جلال الطالبانی کے کرد قومی اتحاد PUK (Patriotic Union of Kurdistan) کو ۴۹ء۲ فی صد ووٹ ملے۔
۱۹۹۶ء میں اقوام متحدہ نے عراقی تیل کی قیمت کا ۱۳ فی صد حصہ کرد علاقوں کے لیے ضبط کرنے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے، ’تیل کے بدلے خوراک‘ کا منصوبہ نافذ کردیا۔ دونوں کرد رہنماؤں مسعود البارزانی اور جلال الطالبانی کے مابین اختلافات اور جھڑپوں کی طویل تاریخ تھی۔ ۱۹۹۸ء میں امریکا نے دونوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور ان کے مابین جامع امن معاہدہ طے کروادیا۔ عراق سے مسلسل جنگ، چہار اطراف سے محاصرہ، اس کے بیرونی اکاؤنٹس پر تسلط، تباہ کن اسلحے کا الزام، ایک کے بعد دوسری پابندی، مسلسل نگرانی و تلاشی، ساتھ ساتھ دہشت گردی کے کارروائیاں جاری تھیں، جب کہ دوسری جانب عراق ہی کے کرد علاقوں کی مکمل سرپرستی،وافر مالی امداد اور اس پورے عرصے میں تقریباً کامل امن و امان___ ایک ہی ملک میں دو مختلف ریاستوں کا نقشہ واضح کرتا چلا جارہا تھا۔
۲۰۰۳ء کے اوائل میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی افواج نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے کرد اور شیعہ آبادی کو اقتدار سونپ دیا۔ ۲۰۰۴ء میں دستور ساز اسمبلی اور ۲۰۰۵ء میں عام انتخابات بھی کروادیے۔ اہلِ سنت آبادی کے بڑے حصے نے دونوں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی سفیر پال بریمر نے ملک میں ’نیا نظام‘ متعارف کروایا، جس کے مطابق ملک کا صدر کردی النسل، وزیراعظم شیعہ اور سپیکر اہلِ سنت میں سے ہونا طے کیاگیا۔ عراق کی تمام مسلح افواج کو تحلیل کرتے ہوئے، نئی افواج ترتیب دینے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ کرد ملیشیا پیش مرگہ کے بارے میں طے پایا کہ اسے تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی کتاب: My Year in Iraq (عراق میں میرا سال) میں بریمر نے عراقی اور کرد رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے کہ انھوں نے کس طرح جلال الطالبانی کو عراق کی اور مسعود البارزانی کو کردستان کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔ بدقسمتی سے طالبانی کو صدر مملکت کا عہدہ دیا جانا یا دیگر کرد نمایندوں کو اہم مرکزی مناصب سونپنا، عراق کو متحد رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ اسی ہدف کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ سازی کے اہم مراکز میں بیٹھ کر کردستان کو الگ کرنے کا عمل تیز اور پھر مکمل کریں۔
۲۰۰۵ء میں منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے ذریعے عراق کا نیا دستور بنایا گیا اور اس کے مطابق کردستان کو داخلی خود مختاری کے درجے سے اُٹھا کر ’کردستان ریجن‘ قرار دے دیا گیا۔ دستور کی شق ۵۳ کے الفاظ ہیں کہ :’’ عراق، کردستان ریجن کی حکومت کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرتا ہے۔ یہ ریجن اس سرزمین پر واقع ہے، جو ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء سے پہلے دہوک، اربیل، سلیمانیہ، کرکوک، دیالی اور نینویٰ کے اضلاع پر مشتمل اور اسی حکومت کے زیر اختیار تھی‘‘۔ اب وہاں اپنے طور پر تیل کی تلاش کا کام مزید تیز کردیا گیا۔ اپنی الگ وزارت خارجہ کے ذریعے بیرونی دنیا سے تعلقات قائم اور معاہدے کیے جانے لگے۔ عراقی پرچم کے بجاے اور کہیں ساتھ ساتھ، کردستان کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ اپنا قومی ترانہ متعارف کروادیا گیا۔ اسی طرح کردستان کی الگ کرنسی اور پاسپورٹ کی تیاری شروع ہوگئی۔۲۰۰۷ء میں امریکی افواج نے کردستان کے دفاع اور امن و امان کی ذمہ داری مکمل طور پر کردستان ریجن کی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے وہ علاقہ خالی کردیا۔ ۲۰۰۹ء میں تیل برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں کردستان حکومت نے داعش کے قبضے سے بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے، عراق میں تیل کے اہم مرکزی شہر کرکوک کو بھی اپنے انتظام میں شامل کرلیا۔ اس طرح عراقی تیل کے تقریباً ایک تہائی ذخائر کردستان کے زیر اختیار آگئے۔
عالمی رپورٹیں اعتراف کرتی ہیں کہ یہ علاقہ تیل کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زمین کے اندر پائے جانے والے تیل کی مقدار کا اندازہ ۴۵ ؍ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔امریکا کی مشہور کاروباری شراکت دار کمپنی ’بلومبرگ‘ (Bloomberg) کے مطابق کردستان ریجن صرف کرکوک کے کنوئوں سے ۶ لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کررہا ہے۔ اس اثنا میں تیل کی معروف عالمی کمپنیوں: امریکی ’اکسن‘(Exxon) فرانسیسی ’ٹوٹل‘(Total ) ، امریکی ’شیورون‘( Chevron)، روسی ’گیس پروم‘ (Gas Prom) سمیت تیل کے سب اہم سوداگر کردستان میں آن براجمان ہوئے۔ شیورون نے گذشتہ دو برس سے وہاں اپنا کام بند کررکھا تھا، حالیہ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ قبل نئے معاہدے کے تحت پھر واپس آگئی۔ یہاں گیس کے ذخائر کا اندازہ ۶۶,۵ کھرب میٹر مکعب لگایا گیا ہے۔ روسی کمپنی ’گیس پروم‘ نے بھی اپنے سابقہ معاہدوں کے علاوہ حالیہ ریفرنڈم سے چند روز قبل، وہاں ۴؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔
اس تاریخی و سیاسی سفر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے ،کس قدر طویل مدتی سازشوں کے ذریعے بالآخر حقیقت بنادیے جاتے ہیں۔ ۲۵ستمبر کو کردستان میں کرایا جانے والا ریفرنڈم تو محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ البتہ ریفرنڈم کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ اپنوں کی منافقت اور دشمنوں کی سازشیں ایک طرف اور تدبیر الٰہی کا ایک اشارہ دوسری طرف۔ ۲۵ ستمبر کو یک طرفہ طور پر ریفرنڈم کروانے کی دیر تھی، کہ خطے میں سرد مہری کے شکار کئی مسلم ممالک میں تحرک پیدا ہوا۔
ایران کی جانب سے شام میں بشار الاسد کی بھرپور حمایت کیے جانے پر ترکی، ایران تعلقات میں بہت گرم جوشی نہ رہی تھی۔ کردستان ریفرنڈم کے بعد، پہلے ایرانی ذمہ داران نے ترکی کا دورہ کیا۔ پھر ترک افواج کے سربراہ خلوصی آکار اور ۴ ؍اکتوبر کو خود ترک صدر طیب ایردوان ایران آئے۔ عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے مفصل مذاکرات کیے اور اعلان کیا کہ: ’’دونوں ملک کسی صورت عراق کو تقسیم کرنے اور کردستان کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک کی جانب سے ریفرنڈم مسترد کردیے جانے پر عالمی قوتوں نے بھی بظاہر اس کی مخالفت کردی۔
تیل کے وسیع ذخائر، بڑی آبادی، وسیع رقبہ (۷۲ ہزار مربع کلومیٹر) دریائے دجلہ و فرات اور زرخیز سرزمین، کردستان کے مثبت و مضبوط پہلو ہیں۔ لیکن کمزور پہلوؤں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے کوئی سمندری ساحل میسر نہیں ہے۔ خشکی میں گھرے اس علاقے کو اپنا تیل بیچنے کے لیے عراق، شام یا ترکی کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب بھی جو تیل برآمد کررہا تھا، ترکی میں بچھائی گئی ’جیہان‘ نامی پائپ لائن کے ذریعے ہی بھیجا جا رہا تھا۔ ریفرنڈم کے فوراً بعد ترکی اور ایران نے، فضائی اور بری حدود بند کرتے ہوئے کردستان کے دونوں فعال ایئرپورٹ (اربیل، سلیمانیہ) مفلوج کردیے۔ زمینی راستوں سے بھی انسانی ضرورت کی انتہائی ناگزیر اشیا کے علاوہ ہر شے کی نقل و حمل روک دی۔اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عراقی فوج نے، ایرانی عسکری دستوں کے تعاون اور ایرانی القدس بریگیڈ کے جنرل قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں کارروائی کرتے ہوئے، کرکوک جیسا اہم علاقہ کردستان سے واپس لے لیا۔ جواب میں کرد مزاحمت تقریباً ناقابلِ ذکر تھی۔
ریفرنڈم کے اگلے ہفتے (۴ ؍اکتوبر۲۰۱۷ء) جلال الطالبانی، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعزیت کے بہانے ان کے وارثوں سے کئی عالمی ذمہ داران کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انھی ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات، عراق و شام میں نمایاں ترین عسکری کارروائیوں کے نگران ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی تھی۔ انھوں نے جلال الطالبانی کی بیوہ اور بیٹے سے ملتے ہوئے انھیں کرکوک شہر کے بارے میں اپنے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔مسعود بارزانی کرکوک میں شکست کا اصل ذمہ دار بھی جلال الطالبانی کے وارثوں کو قرار دے رہے ہیں۔ کرکوک ہاتھ سے نکل جانے، کردستان کے فضائی و زمینی راستے مسدود ہوجانے، بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے فرار ہوجانے اور عالمی سرپرستوں سمیت ساری بیرونی دنیا کی مخالفت کے بعد فی الحال کردستان کی علیحدگی آسان نہ ہوگی۔ مگر یہ خوش فہمی بھی درست نہ ہوگی کہ کرد مسئلہ ختم ہوگیا۔ خدشہ یہی ہے کہ تقریباً ایک صدی سے سازشیں کرنے والے آیندہ بھی فتنہ جوئی کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم موشے شیرٹ نے ۱۹۵۴ء میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔ ۱۸۹۷ء میں وجود میں آنے والی ’عالمی صہیونی تنظیم‘ WZO نے ۸۰ کے عشرے میں اپنی جو حکمت عملی شائع کی، اس میں خطے کے تمام ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا شامل تھا۔ اس میں واضح طو رپر لکھا گیا تھا کہ: ’’عراق، شام سے زیادہ طاقت ور ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ اور فوری خطرہ ہے، اس لیے پہلے عراق کو پارہ پارہ کرنا، شام کو تقسیم کرنے سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ ۱۹۹۲ء میں اسرائیل نے عرب اقلیتوں کے بارے میں ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کی سفارشات میں صراحت سے کہا گیا: ’’ایسی متحرک اور مضطرب اقلیتیں، اسرائیل کے محفوظ مستقبل کے لیے برابر کی شریکِ کار ہیں۔ اسلام اور عرب قومیت کے نظریات پر نظر ثانی کرنے کے عمل میں بھی ان اقلیتوں کا بنیادی کردار ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ اور اسلام کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف برطانوی نژاد امریکی دانش وَر برنارڈ لیوس سے منسوب عالم اسلام تقسیم کرنے کے منصوبے، امریکی لیفٹیننٹ کرنل رالف پیٹر کا Blood Borders (خونیں سرحدیں)کے عنوان سے پیش کردہ نیا علاقائی نقشہ، امریکی کانگریس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے حصے بخرے کرنے کی باز گشت، امریکی دفاعی اداروں میں پڑھائے جانے والے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے، کئی عالمی رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہونے والے مضامین، قبائلی علاقائی اور لسانی تعصبات کو اُجاگر کرنے کے لیے مسلسل لکھی جانے والی کتب، عالمی یونی ورسٹیوں میں تقسیم اُمت پر کروائی جانے والی لاتعداد تحقیقات، اور مہیب ابلاغیاتی مہم دیکھیں تو موجودہ صورتِ حال کی اصل سنگینی مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔
’کردستان‘ ریاست بنانے کی حالیہ کوشش سے پہلے یہی تجربہ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور میں کیا جاچکا ہے۔ حال یا مستقبل کی کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے لیے ان تجربات میں بڑی عبرت کا سامان پوشیدہ ہے۔ جنوبی سوڈان میں بھی کردستان کی طرح سالہا سال کی سازشوں، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے بعد ریفرنڈم اور اعلان آزادی کیا گیا۔ وہاں بھی تیل سے مالامال حصے کو الگ ملک بنایاگیا۔ وہاں کے عوام کو بھی اس کے نتیجے میں شان دار اقتصادی ترقی کے خواب دکھائے گئے۔ وہاں بھی شمالی سوڈان کی طرف سے جنوبی سوڈان پر مظالم اور وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ذہنوں میں راسخ کیے گئے۔ اسلحہ، مالی وسائل اور عسکری تربیت دی گئی۔
ایک طویل عرصے سے جاری ان کوششوں کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے بل پر علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد کا جنوبی سوڈان دیکھیں تو، اپنے قومی وقار کا بھرم رکھنے کی کوششیں کرتا ہوا متحدہ سوڈان، جنت نظیر دکھائی دیتا ہے۔ الگ ملک بنانے والے قبائل، شمالی سوڈان کے بعد، اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مختلف بغاوتوں، لڑائیوں اور سازشوں کے بعد اب وہاں قحط سالی سے بھی زیادہ تباہی اور مفلوک الحالی ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ، انتہائی زرخیز سرزمین اور دریائے نیل سے مالامال ہے، لیکن ا س وقت دس لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر کیمپوں میں جابسنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسلح قبیلہ مخالف قبائل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور عالمی سامراجی آقا، فریقین کو مزید اسلحے سے نوازتا ہے۔اس الم ناک صورتِ حال سے لاتعلق عالمی کمپنیاں دھڑا دھڑ تیل نکال رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق: ’’جنوبی سوڈان کو دنیا کے بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے‘‘۔
پھر صرف جنوبی سوڈان ہی کو الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا، سوڈان کے مغربی علاقے دار فور میں بھی شورش برپا کردی گئی۔ جنوبی سوڈان میں محرومیوں کا واویلا اور مسلم مسیحی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی تھی، دار فور میں عربی الاصل اور افریقی الاصل مسلمان قبائل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
ایک طرف افغانستان، مختلف بھارتی ایجنسیوں اور بے خبر بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے لیے قائم، تربیتی کیمپوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اور دوسری جانب پاکستان کے قریب ترین دوست اور برادر ممالک علی الاعلان بلوچستان الگ کرنے کی بات کر ر ہے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ ایران عرب مخاصمت اور شیعہ سُنّی تنازعات کا افسوس ناک عروج ہے۔ یہ ممالک کبھی کبھی اس سے پاکستان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اور ان کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ صرف ’ایرانی بلوچستان‘ کا نام ہی لیتے ہیں، لیکن اس تجاہلِ عارفانہ اور خودفریبی سے وہ عالمی منصوبے تبدیل نہیں ہوسکتے، جو پاکستان و ایران ہی نہیں ، خود افغانستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے نافذ کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم در تقسیم کیے جانے کے ان منصوبوں کی فہرست میں تقریباً تمام ہی عرب ممالک کا نام بھی شامل ہے، حتیٰ کہ مکہ و مدینہ کو الگ کرنا بھی انھی مکروہ عزائم میں شامل ہے۔
منافقین نے ریاست نبویؐ مستحکم ہوتے دیکھی تو باہم مشورہ کرتے ہوئے اوس و خزرج اور انصار و مہاجرین کا تعصب اُبھارنا چاہا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو فوراً تشریف لائے۔ چہرئہ مبارک ناراضی سے سُرخ تھا۔ آتے ہی فرمایا: مَا بَالُ دَعْوَی الجَاھِلِیَّۃ ’یہ کیسی جاہلانہ بات ہے؟‘ پھر فرمایا: دعوھا فَاِنَّھَا فِتْنَۃ ’یہ تعصبات چھوڑ دو یہ بدبُودار لاش ہے‘۔
معروف تابعی جناب شَہر بن حوشب نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ سے دریافت کیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دُعا سب سے زیادہ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اکثر فرماتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معروف فرمان پر جتنا بھی غور کریں، رہنمائی کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔
أَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ لَہَا الْجَسَد وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَ ہِیَ الْقَلْبُ ، خبردار رہو، جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہوجاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے۔ وہ فساد زدہ ہوجاتا ہے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے۔ خبردار رہو وہ دل ہے۔
یعنی دل ایمان، تقویٰ، عزیمت اور محبت کا مرکز بھی ہوسکتا ہے اور دل ہی کفر، عناد، تعصب، نفرت اور لالچ کی آماج گاہ بھی بن سکتا ہے۔ دلوں میں خیر و بھلائی کی شمع روشن ہوجائے، تو ایک فرد ہی نہیں، پوری قوم اور معاشرہ نجات و فلاح پاجاتا ہے۔ دل غفلت کا شکار ہوکر زنگ آلود ہوجائیں، گناہوں کے سیاہ نقطے بڑھتے بڑھتے پورے دل کو لپیٹ میں لے لیں تو افراد ہی نہیں، اقوام و ممالک تباہی و بربادی کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان رجیم بھی اپنے دل میں پائے جانے والے تکبر اور عناد کی وجہ سے تباہ ہوا۔ پھر آدم و حوا علیہما السلام پر بھی دل ہی کی راہ سے حملہ آور ہوا: فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ، (شیطان نے ان کے دل کو بہکایا)۔ آکر بڑے چاپلوسانہ انداز میں قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا: اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (میں آپ دونوں کا بڑا خیر خواہ ہوں)۔ پھر کائنات کا پہلا قتل بھی آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کے دل میں نفرت و حسد کی آگ بھڑکاتے ہوئے کروایا گیا۔ ایک کے اخلاص قلب اور تقویٰ کے باعث، اس کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کے دل میں کھوٹ تھا، عمل قبول نہ ہوا۔ بجاے اس کے، کہ وہ اپنی اصلاح کرتا، حسد اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے بھائی کے قتل کا ارادہ و اعلان کردیا۔ لَأَقْتُلَنَّکَ (میں تمھیں قتل کرکے چھوڑوں گا)۔
رب ذوالجلال نے نفرت و حسد پر مبنی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے دیا اور کسی ایک انسان کو بچالینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا قرار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل ہونے والا کوئی بے گناہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کو نہ پہنچتا ہو، کیوں کہ اس نے قتل متعارف کروایا۔ گویا اتنے خوفناک عذاب کا آغاز دل میں جلنے والی آتش حسد و نفرت سے ہوا۔ سب مل کر اسے بجھانے کی کوشش کریں گے تو ایک بار پھر باہم محبت و اخوت کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے گی:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَO( اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳ ) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔
ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۴۳۸ھ سال گزر گئے۔ صرف یہ عرصہ ہی نہیں، قیامت تک دنیا و آخرت میں کامرانی صرف اور صرف قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے عطا کردہ نظام کے لیے ہے۔ قیامت تک صرف وہی حق اور خیر ہے، جسے قرآن و سنت نے درست فرمادیا۔ ان سے متصادم ہر نظام، نظریے، افراد اور اقوام نے بالآخر نامراد ہونا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کبھی شر اس قدر غالب آجائے کہ ظلم و جبر، مکاری و منافقت اور خیانت و دھاندلی ہی کامیابی کی راہ قرار دی جانے لگے۔ ایک سے ایک بڑا قارون اُٹھے اور سب اسی جیسی دولت و شہرت کی تمنا کرنے لگیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فرعون اور نمرود سامنے آئیں، اور خود کو موت و حیات کا مالک اور ربِّ اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےأَنَا أَحْیِیْ وَ أُمِیْتُ اور أَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کی صدائیں لگانے لگیں لیکن بالآخر سب دعوے کھوکھلے اور ساری چکاچوند ماند پڑجائے گی۔
خود آپؐ کی بعثت اسی ابدی حقیقت کی ایک روشن مثال ہے۔آپ ایسے معاشرے میں تشریف لائے کہ جس میں صدیوں سے بیت اللہ تک کو اپنے تراشیدہ بتوں سے آراستہ کیا جارہا تھا۔ عریانی و بدکاری یوں مسلط تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی بے لباس ہوکر کیا جاتا تھا۔ دُعا و استغفار کے بجاے سیٹیاں اور تالیاں بجانا (مُکَاءً وَّتَصْدِیَۃ) عبادت قرار دیا جاتا تھا۔ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام اور ’عبد‘ بنالیتے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ’رب العالمین‘ کی بندگی کی دعوت دی تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو کیا کیا اذیت و عذاب نہ دیا گیا۔ آخر کار بیت اللہ کا سایہ اور آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر سیکڑوں میل دُور یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی لیکن ابتلا کا یہ مرحلہ، نجات و فتح مبین کا اولیں باب ثابت ہوا۔ پھر اس دور کی عالمی قوتیں (Super Powers) روم و فارس بھی زیر ہوئیں، کعبۃ اللہ سب بتوں اور بت گروں سے پاک ہوا اور مکہ میں قیامت تک کے لیے اعلان کردیا گیا کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا O (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
۲۳سال پر مشتمل عہد نبوت نے قیامت تک معیار حق بننے والا نظام حیات ہی عطا نہیں کیا بلکہ اس نظام کو عملاً نافذ کرتے ہوئے ایک شان دار اسلامی ریاست بھی تشکیل کرکے دکھائی۔ رب ذو الجلال چاہتا تو عظیم تبدیلی کے یہ تمام مراحل صرف ایک حکم اور اشارے ہی سے طے ہوجاتے، لیکن بندوں کو اصلاح و انقلاب کے اصول و ضوابط بتانا اور سکھانا مقصود تھا۔
یہ فرامینِ الٰہی سنتے ہی پوری زندگی کا دھارا بدل گیا۔ اب ایک ہی مقصد اور ایک ہی لگن تھی کہ ایک ایک فرد اور ایک ایک قبیلے کو رب کی طرف بلانا ہے۔ پھر مکہ آنے یا وہاں سے گزرنے والا کوئی فرد یا قافلہ ایسا نہ تھا کہ جس تک آپ نے دین کی دعوت اور اللہ کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو۔ اسی لگن کا مظہر وہ منظر تھا کہ جب ایک روز صبح سے شام تک کارِ نبوت انجام دیتے رہے۔ تاریکی چھانے لگی تو گھر لوٹے، کمر بستر سے نہ لگی تھی کہ کانوں میں آواز آئی کہ کسی نئے قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہے۔ فوراً اُٹھ کر دوبارہ باہر جانے لگے۔ اہل خانہ نے عرض کیا کہ کچھ آرام فرمالیجیے، صبح دم ملاقات کرلیجیے گا۔ چہرہ انور کا رنگ بدلا اور یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ: ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ قافلہ رات ہی کے کسی پہر کوچ نہ کرجائے گا؟
حج کا موقع ہو، سالانہ مجلس ادب و شاعری کا انعقاد یا کھیل کود کا میدان سجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دعوت دین اور تزکیہ و تربیت کا حق ادا کردیا۔ اس دوران میں آلِ یاسر کو شہید ہوتے، سیّدنا بلالؓ کو گرم ریت پر تڑپتے، شِعب ابی طالب میں بچوں کو بلکتے اور اپنی صاحب زادی سمیت کئی صحابہ کرامؓ کو ہجرت حبشہ پر مجبور ہوتے دیکھا۔ یہی نہیں اعلیٰ و ارفع مناصب، مال و دولت کے انباروں اور بتوں کی پوجا سے نہ روکنے کی شرط پر مفاہمت کی پیش کش بھی ہوئی لیکن آپؐ کا ایک ہی پیغام تھا کہ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط (الانعام ۶:۱۵۳) ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمھیں پراگندا کردیں گے‘‘۔
اس دوران دار ارقم کی تربیت گاہ میں اہل ایمان کی تعلیم و تزکیہ کا سفر بھی جاری رہا اور اللہ کے حضور دُعائیں بھی کہ پروردگار ،مکہ کے مؤثر ترین افراد کو بھی اس قافلۂ حق کا ساتھی بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب حمزہ و عمر رضی اللہ عنہما جیسی پُروقار ہستیاں بھی عطا کردیں۔ پھر مکہ ہی نہیں قریبی بستیوں کا رخ کیا، اس ضمن میں سفر طائف ایک مکمل داستان رکھتا ہے جس کا اختتام آپ کی اس دردبھری دُعا پہ ہوتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کی نظر میں بے وقعتی کا شکوہ صرف آپ ہی کی جناب میں کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے کن کے سپرد کیا جارہا ہے، ان غیروں کے جو مجھے پہچان ہی نہیں رہے؟ یا ان اپنوں کے کہ جو پہچان کر بھی نادانیوں پر اترے ہوئے ہیں… پروردگار، لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی تکلیف کی کوئی پروانہیں‘‘۔
عہد مکہ ہی نہیں، مدینہ پہنچ کر اور اولیں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی پے در پے آزمایشیں اور مہمات درپیش رہیں۔ کبھی مشرکین مکہ کے پے درپے حملے بدرو اُحد اور احزاب کا عنوان بنے۔ کبھی عمرے کی ادایگی کی نیت سے مکہ داخل ہونے سے روک دیا گیا اور کبھی خود مدینہ کے اندر بیٹھے منافقین نے بدترین الزامات، تہمتوں اور دشمن سے گٹھ جوڑ کرنے کی شرمناک مثالیں قائم کیں۔ مدینہ کے قرب و جوار میں بیٹھے یہودی قبائل نے بھی آپؐ کو شہید کرنے کی سازش کی اور آپؐ کے ہر دشمن کو شہ دی۔ جزیرۂ عرب کے منافق قبائل نے ایمان لانے کا ڈھونگ رچا کر ۷۰،۷۰ حفاظ کرام شہید کردیے۔ کبھی شمالی سرحدوں پر ایک سوپر پاور قیصر روم نے فوجیں جمع کردیں اور کبھی مشرق میں دوسری عالمی طاقت کسریٰ فارس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارسال کردہ مکتوب مبارک ٹکڑے ٹکڑے کرکے حقارت سے پاؤں میں روند دیا۔ صفحات سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ خالق کائنات کا محبوب، ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت، تمام انبیا کی جدوجہد کا نقطۂ کمال اور اسراء و معراج جیسے منفرد و بے مثال معجزات کا حامل، لیکن ایسی جہدمسلسل، ایسی پُرمشقت صبح و شام… سبحان اللہ۔
غزوۂ اُحد کے زخم اور سیّد الشہداء حضرت حمزہؓ سمیت ۷۰ شہدا کا غم دلوں میں لیے مغرب کے بعد مدینہ واپس لوٹتے ہیں۔ مدینہ کا کوئی گھر نہ تھا جہاں سے کوئی نہ کوئی شہید نہ ہوا ہو یا زخموں کا کوئی اعزاز نہ ملا ہو۔ اسی مدینے میں اگلی ہی صبح آپ کی طرف سے منادی کروائی جارہی تھی کہ ’’مشرکین کے لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے فوری طور پر نکلنا ہے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ فرمایا: لَا یَخْرُجَنَّ مَعَنَا أَحَدٌ اِلَّا مَنْ حَضَرَ یَوْمَنَا بِالْأَمْسِ (ہمارے ساتھ صرف وہی لوگ جائیں گے جو کل ہمارے ساتھ میدان میں لڑے تھے)۔ اپنوں اور پرایوں کے لیے پیغام تھا کہ ہم کل کے زخموں کی وجہ سے کمزور یا شکستہ خاطر اور پست ہمت نہیں ہوئے۔ رب ذو الجلال کو یہ عزم و عزیمت اتنی پسند آئی کہ پورا واقعہ قرآن کریم میں ثبت فرمادیا۔ لشکر حمراء الاسد پہنچا۔ تین روز وہاں قیام کیا، معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ کا لشکر اُحد کے اگلے ہی روز واپس پلٹ کر مدینے پر ہلہ بولنے کی تیاریاں کررہا تھا، آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلا۔
غزوۂ احزاب، ایک فیصلہ کن اور اس قدر خوف ناک معرکہ تھا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاO (احزاب۳۳: ۱۰) ’’جب دشمن اُوپرسے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔لیکن بالآخر اللہ کی نصرت آئی۔ طوفانی آندھیوں اور برفانی سردی نے دشمن کے لشکر اُلٹ دیے۔ تمام تر مہیب لمحات اور آزمایش کی گھڑیاں ختم ہوئیں، جزیرۂ عرب سے اکٹھے ہوکر آنے والے سب سفاک دشمن نامراد ہوکر لوٹ گئے۔
آپؐ اور صحابہ کرامؓ بھی ظہر کے بعد گھروں میں واپس پہنچے۔ آپؐ ابھی کمر کھول ہی رہے تھے کہ جبریل امینؑ تشریف لاتے اور فرماتے ہیں: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کے ساتھ غزوۂ احزاب میں شریک فرشتوں نے تو ابھی کمر نہیں کھولی اور آپؐ ہتھیار کھول رہے ہیں؟ معاہدہ ہونے کے باوجود دوران جنگ آپؐ کی مدد کرنے کے بجاے، حملہ آور فوجوں کی مدد کرنے والے بنوقریظہ سے بھی ابھی نجات حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فوراً منادی کروادی: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یُصَلِّیْنَّ الْعَصْرَ اِلَّا فِی بَنِیْ قُرَیْظَۃ،’’جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا نہ کرے‘‘۔ صحابہ کرامؓ فوراً پھر روانہ ہوئے اور اسلامی ریاست کو بنی قریظہ کے خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔
پھر فتح مکہ کی لازوال تاریخ رقم ہوتی ہے… لیکن اسے بھی آخری فتح یا حصول منزل نہیں قرار دیا، فوراً ہی غزوۂ حنین اور ساتھ ہی فتح طائف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مہم کے ساتھ ہی اگلی منزلوں کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے۔ تکمیل دین بھی انھی معرکوں اور میدانوں میں ہوتی ہے۔ احکامِ شریعت بھی ساتھ ساتھ صادر ہورہے ہیں۔ شراب و سود اور جوے کی حرمت ہوتی ہے۔ فتح مکہ کے بعد ۸ ہجری میں پہلی بار اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق اسلام کا پانچواں رکن حج ادا کیا جاتا ہے۔ ۹ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا جاتا ہے اور ۱۰ہجری کو آپؐ خود حج کی ادایگی کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی صورت میں حقوقِ انسانی کا جامع ترین اور ابدی چارٹر جاری کردیا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت اور اہمیت جاننے کے لیے آپؐ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ حج سے واپس جانے والا تمام گناہوں سے پاک ہو کر یوں واپس لوٹتا ہے، جیسے آج ہی جنم لیا ہو لیکن حکیم و خبیر ہستی نے اپنے حبیب کو زندگی کے آخری سال فریضۂ حج ادا کروایا۔ اُمتیوں کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ ترجیحات کے تعین میں اقامتِ دین، ریاست اسلامی کے قیام اور تبدیلی و انقلاب کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔
مدنی دور کے کئی اہم واقعات کے بعد فتح مکہ کے موقعے پر بھی یہی حکمت نبیؐ سامنے آئی اور آپؐ نے ۲۰ سالہ عتاب بن اُسید ؓکو مکہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہلِ عرب قریش مکہ کے بعد بنوثقیف کو سب سے معزز قبیلہ قرار دیتے تھے۔ پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر سایہ آنے لگا تو بنوثقیف نے بھی اپنا وفد مدینہ بھیجا۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کے باہر ان کے لیے خیمہ لگوادیا کہ اہل ایمان کو نماز پڑھتے دیکھتے اور قرآن کی تلاوت سنتے رہیں۔ وہ ظہر سے قبل مسجد میں آکر آپؐ سے مکالمہ و مذاکرات کرتے اور اپنے سامان کے پاس ایک نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو چھوڑ آتے۔ ظہر کے بعد واپس آتے تو جناب عثمان دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے پہنچ جاتے۔ آپ نہ ملتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے رجوع کرتے۔ جب بنوثقیف نے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر اسلام قبول کرلیا تو آپ نے اسی ۲۰سالہ نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو ان کا سربراہ مقرر فرما دیا کہ ان کے دل میں شوق ایمان اور سوالات میں حکمت و دانائی فراواں تھی۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپؐ نے اپنا آخری لشکر ۲۰ سالہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ہی ترتیب دیا، جس میں جناب صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما سمیت تمام جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ آپؐ بار بار لشکر اُسامہ کی روانگی کی بابت دریافت فرماتے رہے جو آپ کے مرض کو دیکھ کر تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔
بچوں اور نوجوانوں پر آپؐ کی خصوصی توجہ میں خود نوجوانوں کی لیے ایک پیغام عظیم ہے۔ آپؐ نے متعدد بار صرف نوجوانوں سے خطاب فرمایا۔ احادیث میں یَا مَعْشَرَ الشَّبَاب، اے نوجوانو! یَا بُنَّی، اے میرے مُنے! یَا غُلَام، اے بیٹے جیسے الفاظ نوجوانوں کو مسلسل ان فرمانات نبویؐ کی جانب بلارہے ہیں۔ آپؐ نے سات طرح کے افراد کو روز محشر اس وقت اللہ کے عرش کے سایے تلے جگہ ملنے کا ذکر فرمایا، جب اس کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان سات افراد کا ذکر بھی امام عادل، انصاف کرنے والے حکمران کے بعد دوسرے نمبر پر شَابٌّ نَشَأَ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، ’’وہ نوجوان جس نے اللہ کی اطاعت کے سایے میں پرورش پائی‘‘ سے کیا۔
ایک جانب یہ سایۂ رحمت اور دوسری جانب آج کی یا کسی بھی زمانے کی شیطانی دنیا کو دیکھیں، تو ان کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی نوجوان ہیں۔ دور رسالت میں قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کرنے کے لیے مشرکین مکہ دور دراز سے لونڈیاں، گویّے اور موسیقی کے آلات منگوایا کرتے تھے۔ قرآن میں بیان کیے گئے سابقہ اقوام کے عبرت ناک واقعات کے مقابلے میں قصہ گو مرد اور عورتیں بلایا کرتے تھے۔ آج ان سب شیطانی ہتھکنڈوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک راستے کھول دیے گئے ہیں۔ ایک ایک بچے اور بڑے کے ہاتھ میں، موبائل فون کے نام پر تباہی اور غلاظت کا بارود تھما دیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک سہولت، مفید ٹکنالوجی اور کسی حد تک ضرورت بھی ہے، لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف موبائل فون اور مختلف سروسز پیش کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ملاحظہ کرنا ہی کافی ہے۔ اشتہار کم اور کھلم کھلا بلکہ زبردستی دعوتِ گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ تیز رفتار دنیا سے پیچھے رہ جانا ممکن ہے، نہ دین کا تقاضا لیکن گزرجانے والے ۱۴۳۸ سال جہاں تیزی سے گزرتے وقت کی اہمیت یاد دلا رہے ہیں، وہیں آپؐ کے مبارک الفاظ میں راہ نجات بھی واضح کررہے ہیں۔ آپؐ نے دل کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے بار بار فرمایا کہ التقویٰ ھٰہُنا، ’’اصل تقویٰ تو یہا ں ہے‘‘۔ مزید فرمایا: الاِیْمَانُ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہٗ الْعَمَل،’’ حقیقی ایمان وہ ہے جو دل میں راسخ ہوگیا اور عمل نے اس کی تصدیق کردی‘‘۔ دل میں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جتنی سچی ہوگی، ہر شیطانی یلغار کا مقابلہ اتنا ہی آسان و ممکن ہوجائے گا۔
رب ذو الجلال نے اسی محبت اور ایمان کی تجدید کے لیے دن میں پانچ بار مسجد حاضری کا اہتمام کیا۔ نماز جمعہ کی صورت میں ہفت روزہ اجتماع کا شان دار انتظام کیا۔ رمضان اور روزوں کے ذریعے ایک ماہ کی سالانہ تربیت گاہ کا حکم نازل فرمایا اور حج کی صورت میں ایک عالمی مشاورت اور اجتماع اُمت کا حکم دیا۔ان عبادات کی اصل روح دلوں میں اسی صورت اتر سکتی ہے کہ بندہ ہر وقت آپؐ اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کے اصل ہدف سے وابستہ اور مخلص رہے۔
آپؐ کا مقصد ِبعثت ہی انسان کے لیے فائدہ مند، ہر پاکیزہ چیز کی حفاظت و نمو اور انسان کے لیے تباہ کن ہر بات اور ہر کا م کی بیخ کنی اور اس سے بچاؤ تھا۔ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط (اعراف۷: ۱۵۷)’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندش کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔
مغربی پالیسی ساز اداروں کے الفاظ میں آج کے ذرائع ابلاغ، ان کی خوفناک خفیہ جنگ کے خاموش ہتھیار ہیں، (Silent Weapons of a Quiet War)۔ یہ جنگ دل و دماغ کو مسحور و مقید کرنے والی جنگ ہے (War of Hearts and Minds) ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت دلوں میں جو پاکیزگی، مقصد حیات کی تازگی اور زندگی مابعد الموت میں ابدی جنتوں کی طلب پیدا کرتی ہے، جب کہ آج اپنے عروج پر پہنچی دل و دماغ کی جنگ اسی پاکیزہ دلی کو ہر نوع کے جرائم سے معمور کردینا چاہتی ہے۔ مغربی دنیا خود اس تباہی کو بری طرح بھگت رہی ہے۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ء کے دوران صرف امریکا میں زبردستی بدکاری کے ۹۵ہزار ۷سو۳۰ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور جو زبردستی بدکاری کے زمرے میں آتے ہیں، اپنی مرضی سے غلاظت پھانکنا تو ان کے ہاں جرم ہی نہیں قرار پاتا۔ اس عرصے کے دوران لوٹ مار کے ۸۰ لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے اور ۱۷ہزار ۲سو۵۰ افراد قتل ہوئے۔ یہ تو صرف ایک پہلو اور ایک جھلک ہے۔ اس تہذیب کے دیگر اثرات جس میں ایڈز جیسی ہلاکتوں، مختلف نفسیاتی بیماریوں ، منشیات کے پھیلاؤ، رشتوں اور خاندانوں کے بکھر جانے کے واقعات، ماں باپ کے جھگڑوں یا علیحدگی کے باعث تنہا رہ جانے والے بچوں کی تعداد جیسے اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ان تمام تباہیوں کی دلدل میں ڈوبتی بزعم خود مہذب دنیا، ان تباہیوں سے نجات پانے کے لیے سایۂ رحمت میں پناہ لینے کے بجاے ہم سب سے بھی یہ سایہ چھین لینا چاہتی ہے۔
۲۲ستمبر کو مصر کی ایک جیل میں اللہ کے ایک ولی ۸۹ سالہ محمد مہدی عاکف اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہونے والے جناب عاکف جوانی ہی سے دل میں حبیب خدا کی محبت بسائے ہوئے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں اہلِ مغرب نے قبلۂ اوّل پر صہیونی قبضہ کرواکے اسے اسرائیل بنانے کا اعلان کردیا تو نوجوان محمد عاکف بھی الاخوان المسلمون کے نوجوانوں کے ہمراہ، مصری افواج کے شانہ بشانہ جہاد کے لیے فلسطین چلا گیا۔ اس ’گناہ‘ کی پاداش میں واپسی پر گرفتار کرلیا گیا۔ تقریباً دوسال گرفتار رہا۔ ۱۹۵۴ء میں پھر گرفتار کیا اور پورے ۲۰ برس جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے اور تین برس بلاوجہ قید رکھے گئے۔ ۲۰۱۳ء میں جنرل سیسی کا خونیں انقلاب آیا تو پھر گرفتار کرلیے گئے اور ۲۲ ستمبر بروز جمعہ زندان ہی سے رب کے حضور پہنچ گئے۔ تدفین بھی رات کی تاریکی میں عمل میں لائی گئی۔ اہلیہ، صاحبزادی، داماد اور وکیل کے سوا کسی کو قبرستان تک نہ آنے دیا گیا، نہ نماز جنازہ ہی کی اجازت دی گئی۔ اور تو اور اگلے روز ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازہ پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اب اصل المیہ ملاحظہ فرمائیے۔ محمد مہدی عاکف کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ مصر میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام اور شریعت چاہتے تھے۔ وہ اپنے دل میں نبی رحمتؐ کی سچی محبت رکھتے تھے۔ لیکن جس وقت اس عاشق صادق کی نماز جنازہ تک پر پابندی تھی، عین اس وقت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر ’ہلا گلا نائٹ‘ مناتے ہوئے ہم جنس پرستوں کا ایک جشن ہورہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہم جنس پرستوں کے معروف پرچم لہراتے، سرعام خرمستیاں کرتے خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کررہے تھے۔ انھیں جنرل سیسی، عالمی ذرائع ابلاغ اور موبائل انٹرنیٹ فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
محمد مہدی عاکف کو جب سپردخاک کیا گیا تو یہ نئے ماہ کی دوسری شب تھی۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جب رات کے سناٹے میں شہید کا جسد ِ خاکی قبر میں اتارا جارہا تھا، مجھ سمیت سب حاضرین نے محسوس کیا کہ تاریک راتیں ہونے کے باوجود پورے ماحول پر جیسے چودھویں کے چاند کا نور چھایا ہوا ہے۔ میں نے محاصرہ کیے ہوئے پولیس اور فوج کو متوجہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ! یہ نور میرے مرحوم شوہر اور ہم سب کے لیے راحت و تشفی کا باعث بن رہا ہے‘‘۔ سنتے ہی پیچھے کھڑا ہوا ایک فوجی اپنے ضمیر پر طاری بوجھ کی تاب نہ لاتے ہوئے گرا اور بے ہوش ہوگیا۔
یہ نُور اللہ کی جانب سے ظالم نظام کے لیے کوئی پیغام اور استعارہ تھا ؟ اخوان کے بانی امام حسن البنا کو فروری ۱۹۴۹ء کی ایک شام شہید کیا گیا تھا، اس وقت مصر میں اسلامی تحریک کے ارکان کی تعداد چند ہزار تھی ۔ تقریباً سب گرفتار کر لیے گئے ۔ ۶۲برس بعد ڈکٹیٹرشپ سے نجات ملی تو صرف اس کے ارکان و امیدواران رکنیت کی تعداد ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی ۔ آج ایک بار پھر مصر ، بنگلہ دیش ، شام اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں تحریکات اسلامی کے لاکھوں کارکنان جیلوں میں ہیں اور قرآن و سیرت حتمی پیغام سنارہے ہیں کہ :
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’واضح رہے کہ اللہ کی نصرت بہت قریب ہے‘‘۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے صبرواستقامت سے اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔
جولائی ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی کے بعد سے لے کر نومبر ۱۹۸۷ تک حبیب بورقیبہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس دوران اپنے مخالفین پر ناقابل بیان مظالم کے پہاڑ توڑنے کے علاوہ، عالم اسلام کے کئی آمروں کی طرح موصوف نے خود اسلام کو بھی مشق ستم بنانے کی کوشش کی۔ فروری ۱۹۶۰ میں محنت کشوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ’فرمایا‘ کہ: ’’ہم ملک میں تعمیر و ترقی کے جہاد اکبر میں مصروف ہیں، اس لیے ہمیں روزہ ترک کردینا چاہیے۔ ہاں، ریٹائرمنٹ کے بعد یا کسی اور مناسب موقعے پر ان روزوں کی قضا ادا کی جاسکتی ہے‘‘۔ بعدازاں تیونس کے مفتی اعظم محمد العزیز جعیط سے اس حکم کے حق میں فتویٰ بھی جاری کروادیا۔ لیکن بات جب تیونس کے جلیل القدر عالم دین الطاہربن عاشور تک پہنچی تو انھوں نے قوم سے ایک مختصر ترین خطاب کیا۔ حمد و صلاۃ کے بعد فرضیت صیام کی قرآنی آیت تلاوت کی اور پھر تین بار فرمایا: صَدَقَ اللہُ وَ کَذَبَ بوُ رقیبہ، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور بورقیبہ نے کہاجھوٹ۔ اس ایک مختصر جملے نے بورقیبہ کا حکم شاہی خاک میں ملادیا۔
روزہ ساقط کرنے کی جسارت ہی نہیں، موصوف نے کئی واضح اسلامی تعلیمات کو بھی بدلنے کی ناکام کوشش کی۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے احکام وراثت کو قانوناً تبدیل کرتے ہوئے مرد و عورت کے حصے برابر قرار دے دیے۔ بزعم خود مساوات کا ثبوت دیتے ہوئے بہ امر مجبوری بھی مردوں کی ایک سے زیادہ شادی پر پابندی لگادی۔ حج پر جانے سے منع کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ ’’اس فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے۔ تیونس میں ابوزمعہ البلویؓ کی قبر پہ حاضری ہی کافی ہے‘‘۔ ایک روز ترنگ میں آکر کہنے لگا کہ ’’مجھے ذرا سرخ قلم دینا میں قرآن میں موجود اغلاط درست کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پھر اس ظالم شخص کا انجام یہ ہوا کہ ہر نافرمانی میں شریک اپنے ہی وزیراعظم نے اس کا تختہ الٹ کر نظربند کردیا۔ پھر ذرائع ابلاغ پر ایک ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی خبر چلنے لگی کہ ’’طوالت عمر کے باعث دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ بورقیبہ کا جانشین زین العابدین بن علی بھی اپنے سلف کے نقش قدم پر چلا اور بالآخر جنوری ۲۰۱۱ء میں عوام نے خوف کا بت توڑتے ہوئے اسے بھی ظالم حکمرانوں سے بھرے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
تیونس اور پھر مصر، لیبیا، یمن اور شام میں شروع ہونے والی تحریک ’عرب بہار‘ کو کس طرح خزاں میں بدلا گیا او رمسلسل بدلا جارہا ہے وہ ایک الگ المناک باب ہے، لیکن اُمت مسلمہ میں ایک بار پھر ’اسلام اکبری‘ کے نفاذ کا بھوت کئی حکمرانوں پر سوار ہے۔ ۱۳ اگست کو تیونس کے حالیہ صدر ۹۱ سالہ الباجی قائد السبسی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وراثت کوئی دینی مسئلہ نہیں، ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ آج کی خاتون کو وراثت میں برابر حصہ دینے کا قانون بنایا جائے۔ یہ قانون بھی بنایا جائے کہ مسلم خاتون کو غیر مسلم مرد سے شادی کی اجازت ہے۔ بدقسمتی سے تیونسی دارالافتاء نے بھی اس فرمان کی تائید کردی ہے، اور مصری صدر عبد الفتاح السیسی کے تابع مفتیان اور جامعہ ازہر کے بعض ذمہ داران نے بھی حمایت کردی ہے۔ اب تیونسی صدر نے ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ۲۰۱۴ء میں منظور ہونے والے دستور کی روشنی میں مزید قانون سازی کرے گی۔ لیکن عوام کی اکثریت نے نہ صرف اس بیان کو مسترد کردیا ہے، بلکہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ بورقیبہ کا یہ سابق دست راست کب اپنے پیش رو کے انجام کو پہنچتا ہے۔
روشن خیال ،معتدل، دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ، اور نہ جانے کن کن خوش نما پردوں میں چھپے یہ اقدامات صرف تیونس تک محدود نہیں، پورے عالم اسلام اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہی ایجنڈا زیر تکمیل ہے۔ آئیے اس پورے کھیل کے پالیسی ساز اور اصل عالمی حکمرانوں کے احکامات کی چند جھلکیاں دیکھیں۔
امریکا میں بحث و تحقیق اور پالیسی سازی کے لیے کے بہت سارے ادارے کام کرتے ہیں۔ برطانوی رسالے اکانومسٹ نے ایک بار لکھا تھا کہ یہ ادارے (Think Tanks) ہی امریکا کی اصل حکومت ہیں۔ اصل سیاسی فیصلے یہی ادارے کرتے ہیں، حکومتوں کا کام صرف ان پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔ ’رینڈ کارپوریشن‘ کا نام ان اداروں میں بہت نمایاں ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ ۱۵۰ ملین ڈالر (۱۵ کروڑ ڈالر) ہے، جب کہ اس کے بنائے گئے منصوبوں پر عمل درآمد کا بجٹ بعض اوقات اربوں ڈالر تک جاپہنچتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے ۲۰۰۷ء میں اس ادارے نے ۲۱۷ صفحات پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا جس کا عنوان تھا : Building Moderate Muslim Networks ’معتدل مسلمانوں کے نیٹ ورک کی تشکیل‘۔ اس دستاویز کے مطالعے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف مسلمانوں کو قابو میں لانے کی سفارشات ہیں بلکہ خود اسلام کی جڑیں کاٹنے کی ایک اور جسارت بھی ہے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا کہ جس طرح ہم نے سوشل ازم کا مقابلہ کرنے کے لیے خود ان کے اندر سے مختلف گروہ تشکیل دیے تھے، اسی طرح ان تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اب اسلام اور مسلمانوں کو اپنی ڈھب پہ لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان سفارشات کا ہدف صرف ’اسلام پسند‘ طبقہ ہی نہیں تمام مسلمان ہیں ۔ کیونکہ اب ہرمسلمان کو ایک امکانی خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان سفارشات میں جس طرح کے ’مسلمان‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے ان کی چند نمایاں خصوصیات ملاحظہ کیجیے:
ان سفارشات میں کئی ایسے سوالات بھی درج کیے گئے ہیں جن کے ذریعے یہ امر یقینی ہوسکتا ہے کہ فلاں شخص واقعی مطلوبہ معیار کا ’روشن خیال‘ ہوگیا یا نہیں۔ مثلاً اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہو کہ وہ چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کرلے؟ پھر اسی سوال کی آڑ میں اسلام میں مرتد کی سزا کو ’ظالمانہ‘ قرار دینے کا پورا ایجنڈا سامنے آجاتا ہے۔ مختلف مسلم ممالک سے مختلف شخصیات کا تعارف کرواتے ہوئے مطلوبہ ’روشن خیال‘ عناصر کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ یہ امر یقینا اتفاقیہ نہیں کہ ان میں سے اکثر افراد پر یا تو قرآن کریم کے بارے میں تشکیک کا الزام تھا، جیسے مصری نام نہاد دانش ور نصر ابوزید۔ اس کا قرآن کے بارے میں کہنا تھا کہ: Work of Litrature and a Text that should be subjected to Rational and Scholarly Analysis. ’’یہ ایک ادب پارہ اور ایک ایسا متن ہے جس کا عقلی جواز اور دانش ورانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ یا پھر اس رپورٹ کے ’مثالی روشن خیال‘ ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی نہ کسی حوالے سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے ڈاکٹر یونس شیخ کی مثال دی گئی ہے جو ۲۰۰۰ء میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ہوا اور پھر رہائی پاکر یورپ جاپہنچا۔ یا ایسے افراد ہیں جو اسلام کو صرف ایک معاشرتی یا انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے دین اور ریاست و حکومت کو جدا جدا رکھنے کا پرچار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ترک رہنما فتح اللہ گولان اور شامی ’روشن خیال اسکالر‘ محمدشحرور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ: چوںکہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے، اور دین کسی پر جبر نہیں کرتا، اس لیے ریاست و حکومت کا دین اور اس کی تعلیمات کے نفاذ میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان سفارشات میں ایسے تمام عناصر کو باہم مربوط کرنے کے لیے مختلف عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ انھیں مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں اکٹھے کرنے کا ذکر ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی تشہیر و تعریف کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی اخلاقی، سیاسی اور مالی مدد کرنے کا مطالبہ و منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
دیگر معاملات کے علاوہ مساوات مردوزن کا مسئلہ بھی خاص طور پر زیر بحث لایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ: The Issue of Women's right is a major battle ground in the war of ideas within Islam ’حقوق نسواں کا مسئلہ خود اسلام کے اندر چھیڑی جانے والی فکری جنگ کا ایک مرکزی میدان ہے‘۔ اسی ضمن میں خاتون کے حق وراثت اور ’اپنی مرضی کی ذاتی زندگی‘ گزارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ وراثت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بعینہ وہ دلائل دیے گئے ہیں کہ جو سابقہ و حالیہ تیونسی صدر یا ان کے ہم نواؤں کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں حالات کے تقاضے اور ضروریات مختلف تھیں، جب کہ آج کے حالات و ضروریات مختلف ہیں، کہ جب ہر خاتون معاشی زندگی کا فعال حصہ بن چکی ہے۔ نہ جانے ان عالمی پالیسی سازوں کو یہ کیوں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وقت بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی کامیاب تجارت کرنے والی عظیم خاتون موجود تھیں اور آج بھی کسی مسلم خاتون کی تجارت و محنت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ خالق کائنات کی خواتین پر رحمت تو یہ ہے کہ تب بھی کسی خاتون پر کسی طرح کا مالی و معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا اور آج بھی ایک خاتون کی زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے معاشی حقوق اس کے خاندان ہی کے ذمے ہیں۔ یہ تو مغربی تہذیب ہے کہ شوہر اپنی بیگم اور بیٹے اور اپنی ماں تک کی معاشی ذمہ داری اُٹھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ مقصد چوں کہ اسلام پر حملہ آور ہونا ہے، اس لیے خواتین پر ظلم جیسے یہ بے بنیاد الزامات مسلسل دہرائے جاتے رہیں گے۔
گذشتہ عرصے میں اس عالمی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کی باز گشت اس لیے بھی زیادہ رہی کہ ایک ہی طرح کی بات بیک وقت کئی ممالک سے سنائی دی جانے لگی۔ اس کا ایک اندازہ آپ کو معروف سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی کے کالم ’سیکولرزم کی دکان‘ سے لیے گئے ان چند جملوں سے ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جمال خاشقجی کا تعلق اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے رہتا ہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے جب اپنا بڑا ٹی وی چینل کھولنے کا ارادہ کیا تھا تو انھیں ہی اس کا سربراہ بنایا تھا۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے ترکی الفیصل نے جب افغانستان اور خطے کے بارے میں کئی قسطوں پر مشتمل اپنے تہلکہ خیز انٹرویو نشر کروائے تو وہ انٹرویو بھی جمال ہی نے کیے۔ اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں: ’’سیکولرزم کوئی دکان نہیں کہ ہم میں سے کوئی وہاں جائے، سامان کا جائزہ لے اور اپنی مرضی کی ایک دو چیزیں خرید کر باقی سب کچھ وہیں چھوڑ کر آجائے، لیکن ہمارے بعض ساتھی سیکولرزم کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں اچانک سیکولرزم کے فضائل و محاسن بیان کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگ سیکولرزم کو ہمارے اس نظام میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے مزاج و ترکیب کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ مملکت سعودی عرب اپنے اساسی نظام حکومت کے اعتبار سے ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس میں آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کی مزید کوشش کریں۔ لیکن اگر آپ اس کے وجود اور بقا و تسلسل کی بنیاد ہی تبدیل کرنا چاہیں تو یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہوگا‘‘۔
اس سے پہلے امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک امریکی ٹی وی PBS سے انٹرویو بہت مشہور ہوا جس میں اس نے قطر کے ساتھ اختلافات کے سبب بتاتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’اگر آپ امارات، سعودیہ، اُردن، مصر اور بحرین سے پوچھیں کہ وہ آج سے دس سال بعد کس طرح کا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں، تو ان کا جواب قطر کے جواب سے بالکل مختلف ہوگا۔ ہم علاقے میں ’سیکولر‘ اور ترقی یافتہ حکومتیں چاہتے ہیں۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۵ سال میں قطر کی پالیسیاں دیکھیں تو وہ الاخوان المسلمون، حماس، طالبان، شام کی مسلح تنظیموں اور لیبیا کی مسلح تنظیموں کی مدد کررہا ہے۔ یہ ہماری ان تمام پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے خطے کو ان کی طرف بڑھنا چاہیے‘‘۔ اب ایک طرف ان صدارتی فرمانوں، انٹرویووں، ابلاغیاتی جنگوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی لڑائیوں کو دیکھیں اور دوسری جانب امریکی پالیسی ساز اداروں میں ہونے والی بحثوں کو دیکھیں، جن میں مسلم ممالک کے نصاب تعلیم کے بارے میں اظہار تشویش کیا جارہا ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل امریکی کانگریس میں ہونے والی بحث کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہ: ’’سعودی عرب کا اپنے نصاب تعلیم میں سے وہ تمام حصے حذف کرنا کہ جو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے ہیں، صرف ایک درست اقدام ہی نہیں، ہماری قومی سلامتی کا جزو ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ گذشتہ مئی میں ہم نے انھیں ایک طویل فہرست ان عبارتوں کی پیش کی ہے، جو انتہا پسندی کی تعلیم دیتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سال ۱۷ -۲۰۱۶ءکی نصابی کتب میں بھی ان تمام اقدامات پر موت کی سزا کی تعلیم دی جارہی ہے جنھیں امریکی قانون شخصی آزادی قرار دیتا ہے۔ مثلاً زنا، اور اسلام کا مذہب ترک کرنا (مرتد ہونا) وغیرہ… اسی طرح یہ کتب مسیحیت اور یہودیت بالخصوص صہیونیت کے خلاف بات کرتی ہیں۔ ان میں لکھا گیا ہے کہ مسیحیت ایک تحریف شدہ دین ہے… ان کتابوں میں ایسی قرآنی آیات پڑھائی جاتی ہیں کہ (اے اہل ایمان یہود و نصاریٰ کو اپنے جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں)۔ ان تمام چیزوں کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا‘‘۔
امریکی کانگریس کے ایک اور سیشن میں سعودی خواتین میں تبدیلی کی ضرورت پر براہِ راست بحث کی گئی۔ سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب میں دینی آزادی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے پائی جانے والی صورت حال، حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے؟ کانگریس کمیٹی کے سامنے اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا: ’’سعودی عرب اور امریکا کی اقدار یقینا مختلف ہیں، لیکن خطے میں امریکی مفادات سعودیہ کو مسلسل اس بات پر اُبھار رہے ہیں کہ وہ ان انسانی حقوق کا احترام کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ گذشتہ عرصے میں اس سلسلے میں بہت سارا سفر طے ہوچکا ہے‘‘۔
یہی امریکی وزیر نصابی اور دینی کتب کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’ریاض کانفرنس کہ جس میں دہشت گردی کے خلاف مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کے بعد، نئی نصابی کتب تیار کی جارہی ہیں جو تمام مدارس اور دنیا بھر کی مساجد میں بھی عام کی جائیں گی۔ یہ کتب ان پرانی کتابوں کی جگہ لیں گی، جن میں ’متعصب وہابی‘ تعلیمات دی جاتی تھیں اور جن میں تشدد کا جواز فراہم کیا جاتا تھا۔ ہم نے صرف نئی کتب متعارف کروانے کا ہی نہیں، پرانی کتابیں اُٹھالینے کا بھی مطالبہ کیا ہے‘‘۔ وزیر موصوف کا مزید کہنا تھا کہ: ’’یہ تو صرف ایک مثال ہے وگرنہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ میڈیا او رسوشل میڈیا کے ذریعے بات کیسے پھیلانا ہے؟ نوجوان ائمہ مساجد کو کیسے اور کیا تربیت دینا ہے؟ یہ وہ تمام اُمور ہیں جو امریکی وزارت خارجہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ذریعے انجام دے رہی ہے اور جس پر ہم خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں‘‘۔
ایک طرف ان تمام عالمی منصوبوں، سازشوں اور ان پر عمل درآمد کو دیکھیں اور دوسری طرف اپنی غفلت کی جانب نگاہ دوڑائیں کہ ہم اپنی تباہی سامنے دیکھ کر بھی اس سے بچنے کی کوئی فکر نہیں کررہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن جو دام بچھانا چاہتے ہیں ہم خود آگے بڑھ کر اس کا کام آسان کرنے لگ جاتے ہیں۔ تاہم، ایک ابدی حقیقت جو اپنوں پرایوں سب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے اور قرآن و سنت پر مبنی دین حنیف نہ صرف قیامت تک ہر تحریف و ہزیمت سے پاک رہنا ہے بلکہ اسے بہرصورت غالب ہوکر رہنا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں: ’’عزت مندوں کی عزت میں اضافہ کرتے ہوئے اور ذلیلوں کو مزید ذلیل کرتے ہوئے‘‘۔
اپریل کے اختتام پر سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایشیائی ممالک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ شرکا نے بہت مفید گفتگو اور مشاورت کے بعد مستقبل کے لیے اہم فیصلے کیے۔ اللہ کی توفیق سے ان پر عمل درآمد ہوگیا تو یقینا مفید ہوگا۔ بالخصوص ان ممالک میں کہ جہاں مسلم اقلیت کو اکثریت کے ہاتھوں گمبھیر مشکلات کا سامنا ہے۔
خود سری لنکا میں اکثریتی آبادی کا تعلق بدھ مت سے ہے (تقریباً ۷۰ فی صد)، دوسرے نمبر پہ مسیحی، تیسرے نمبر پہ ہندو ہیں اور چوتھے نمبر پہ مسلمان۔ ماضی میں نسلی تعصبات کی آگ نے بہت نقصانات پہنچائے۔ تامل باغیوں نے ۲۰۰۹ء تک وہاں بہت خوں ریزی مچائی جسے بھارت کی واضح سرپرستی بھی حاصل تھی، بالآخر سری لنکن فوج نے باغیوں کا مکمل خاتمہ کردیا۔ اب الحمد للہ مجموعی طور پر تمام شہری باہم شیر و شکر ہیں۔ سیمی نار کا افتتاحی سیشن قصر صدارت میں ہوا۔ صدر مملکت، وزیراعظم،ا سپیکر، تین مسلمان وزرا، بھارت سے آئے ہوئے مولانا ارشد مدنی صاحب اور سعودی مشیر براے مذہبی اُمور نے خطاب کیا۔
سری لنکا اپنی تاریخ، جغرافیے، موسم اور تہذیب و عادات کے حوالے سے بہت دل چسپ اور اہم ملک ہے۔ اگرچہ سری لنکا تیسری بار جانا ہوا لیکن اس سفر میں کئی بہت دل چسپ انکشافات ہوئے۔ اتوار کے روز، سفر کے دوران میں پانچ اہم شہروں سے گزرہوا۔ ہرجگہ بچے یونیفارم پہنے اسکول جارہے تھے۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ چھٹی کے دن ہرمذہب کے بچے اپنے مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مذہبی تعلیم کے نمبر بعدازاں بچے کی مجموعی تعلیمی اسناد میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مسلمان بچوں اور بچیوں کے شان دار تعلیمی اداروں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی سری لنکا کے کارکنان سے بڑی تعداد میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد صرف ایک مختصر بات پہ غور کرنا پیش نظر ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر جناب کارو جے سوریا نے اپنے گھر پہ مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو اپنی استقبالیہ تقریر میں کہنے لگے: ’’سری لنکن عوام کی ایک نمایاں پہچان اور عادت یہ ہے کہ We are the nation of smiling face (ہم مسکراتے چہروں والی قوم ہیں)۔ ہمارے شہری آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ بعض اوقات دو افراد لڑ رہے ہوتے ہیں، تو اس وقت بھی مسکرا رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یقینا یہ بات ۱۰۰ فی صد اسی طرح نہیں ہوگی، لیکن اس دعوے کا جس سری لنکن شہری سے بھی ذکر ہوا، اس نے تائید کی۔
جب سے یہ دعویٰ سنا اور مشاہدہ کیا ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بار بار یاد آرہا ہے کہ: تَبَسُّمُکَ لِوَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃ ’’اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے سے تمھارا ملنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ذہن میں بار بار سوال اُٹھتا ہے کہ بدھ اکثریت پر مشتمل ایک پوری ریاست اور پوری قوم اگر مسکراہٹ کو اپنی شناخت اور عادت کے طور پر متعارف کروا سکتی ہے، تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کا باہم مسکرانا تو عین عبادت ہے، ہم اسے کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آپؐ کے فرمان ’صدقہ‘ پر غور فرمائیے۔ گویا ہم جب بھی مسکراتے ہیں تو کچھ بھی خرچ کیے بغیر، اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپؐ اس بارے میں ہماری مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَ لَو اَنْ تَلْقٰي اَخَاکَ بِوَجْہِ طَلْقٍ ’’کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو، خواہ وہ تمھارا کھِلے ہوئے چہرے اور خندہ پیشانی سے اپنے بھائی کو ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کَانَ رَسُولَ اللہ علیہ وسلم بَسَّامًا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرایا کرتے تھے‘‘۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب بھی آپؐ نے مجھے دیکھا، آپؐ مجھے دیکھ کر مسکرادیے: وَ لَا رآنی الا تَبَسَّمَ فِی وَجہِی (متفق علیہ)۔ اس کے باوجود ہم اسے اپنی پہچان کیوں نہیں بناسکے؟
آپؐ کی تعلیمات پر تھوڑا سا مزید غور کیا تو یاددہانی ہوئی، کہ آپؐ نے تو ہمیں ہر قدم پر نیکیاں سمیٹنے کی بشارت اور ترغیب دی ہے۔ خلق خدا کے لیے ہر ہر بھلائی کو صدقہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے:
تَسْلِیمَہ عَلٰی مَنْ لَقِیَہ صَدَقَۃٌ ،جو بھی ملے اسے سلام کہنا صدقہ ہے۔
رَدُّ الْمُسْلِم عَلَی الْمُسْلِمِ صَدَقَۃٌ، مسلمان کا مسلمان کے سلام کا جواب دینا صدقہ ہے۔
اِمَا طَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ، راستے سے کوئی بھی تکلیف دینے والی چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔
اِرْشَادُکَ الرَّجُلَ الطَّرِیْقَ صَدَقَۃٌ، کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے۔
مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہٗ کُلَّ یَوْمٍ مِثْلَہٗ صَدَقَۃٌ، تنگ دست مقروض کو مہلت دینا ہر روز قرض کے برابر صدقہ کرنا ہے۔
اِتَّبَاعُکَ الْجَنَازَۃَ صَدَقَۃٌ، کسی جنازے کے ساتھ تمھارا چلنا صدقہ ہے۔
اِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ، اپنے برتن سے اپنے بھائی کا برتن بھردینا صدقہ ہے۔
نَصْرُکَ الرَّجُلَ الرَّدِیَٔ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ، کمزور نگاہ والے کی مدد کردینا صدقہ ہے۔
تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، دو افراد کے درمیان صلح کروادینا صدقہ ہے۔
تُعِیْنُ الرَّجُلَ فِی دَابَتِہ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْہَا اَوْ تَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْہَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، کسی کو اس کی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا یا اس کا سامان رکھوانے میں مدد کرنا صدقہ ہے۔
اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃٌ صَدَقَۃٌ، کوئی بھی اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے۔
کُلُّ خُطْوَۃٍ تَمْشِیْہَا اِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے۔
کُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تسبیح صدقہ ہے۔
کُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ، اللہ کی ہر حمد بیان کرنا صدقہ ہے۔
کُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ، کلمۂ طیبہ پڑھنا صدقہ ہے۔
کُلَّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تکبیر صدقہ ہے۔
بُضْعَۃُ اَھْلِہٖ صَدَقَۃٌ، میاں بیوی کا ملنا صدقہ ہے۔
مَا اَطعْمَتْ نَفْسَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، تم جو (رزق حلال) خود کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔
مَا اَطعْمَتْ وَلَدَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنے بچوں کو کھلایا صدقہ ہے۔
مَا اَطعْمَتْ زَوْجَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنی اہلیہ / اپنے شوہر کو کھلایا وہ صدقہ ہے۔
مَا اَطعْمَتْ خَادِمَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ ،تم نے جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے۔
اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔
نَہْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، برائی سے روکنا صدقہ ہے۔
یُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَاِنَّہٗ لَہٗ صَدَقَۃٌ، شر سے اپنے آپ کو روک لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔
ان اور اس طرح کی دیگر صحیح احادیث کے آئینے میں دیکھیں تو کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر نیت خالص اور کوشش سچی ہو تو ایک صاحبِ ایمان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ، بہترین عبادت اور رب کی بندگی بن جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر نیت میں فتور، دل میں غرور، ذہن میں ریاکاری کا شائبہ یا زبان و نگاہ سے احسان جتلانے کا ارتکاب ہوجائے، تو بڑی سے بڑی نیکی بھی راکھ بناکر ہوا میں اڑا دی جاتی ہے (ھبائً منثوراً)۔ جن اعمال کو رحمۃ للعالمینؐ نے صدقہ قرار دیا ان پر غور کریں تو ان کی غالب اکثریت دوسروں سے حُسنِ سلوک، ان کا بھلا سوچنے اور ان سے بھلائی کرنے پر مشتمل ہے۔
ایک اور اصولی بات بھی بہت اہم ہے۔ ہم بعض اوقات حُسن معاشرت یا حُسن عمل کے بہت سارے پہلوئوں کو غیراہم سمجھ لیتے ہیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے بڑے بڑے ناسور، اقامت دین کا عظیم فریضہ، ظلم اور ظالموں سے نجات کی جاں گسل جدوجہد، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت جیسے کارِ نبوت ایک جانب رکھیں تو مسکرا کر ملنا، راستے سے اذیت ہٹا دینا، کھانا کھلادینا، عیادت و تعزیت کرلینا یا بعض تسبیحات و اذکار کرلینا، بہت چھوٹی باتیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اسی موقعے پر ایک مسلمان کی زندگی میں توازن کا امتحان ہوتا ہے۔ ہم میں سے کچھ افراد اذکار و اَوراد ہی پر اکتفا کرتے ہوئے صرف اسے ہی راہِ نجات سمجھ لیتے ہیں۔ بعض دوسرے ان مسنون اعمال کی استہزا تک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔حالاں کہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
اُمتِ مصطفویؐ کی کئی اہم عبادات جنھیں ہم نے فراموش کر دیا اور دوسروں نے اپنا لیا ہے کا شدید احساس جاپان جاکر بھی ہوا۔ وہاں موجود احباب نے جاپانی معاشرے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بتائی کہ : ’’کسی جاپانی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ آپ سے جھوٹ بولے گا، یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ سبحان اللہ ، ایک جاپانی صرف اس لیے جھوٹ نہیں بولے گا کہ وہ جاپانی ہے، اور اس کے معاشرے نے اسے جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم دی ہے۔ جھوٹ سے بچنے بلکہ جھوٹ کے بارے میں سوچنے سے بھی منع کرنے کے لیے وہاں کے نرسری اسکولوں ہی سے تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سچ ہی کی نہیں، محنت، خوداعتمادی، اور دوسروں کی مدد کرنے کی کئی مثالیں مشاہدہ کرنے کو ملیں گی۔ جاپان میں کسی سے راستہ پوچھ لیں تو مکمل تفصیل اور تسلی سے راہ بتائیں گے۔ بعض اوقات تو ساتھ ہی چل دیں گے کہ دشواری نہ ہو۔
صادق و امین ہستی کے اُمتی تو ہم ہیں…؟ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : اَ یَکُونُ المُؤمِنُ کَذَّابًـا؟ کیا کوئی مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔آپؐ نے سچ کو جنّت اور جھوٹ کو جہنّم کی راہ قرار دیا۔ نبی کاملؐ ، دین کامل لے کر آئے۔ ایک کامل اسلامی معاشرہ، اس دین کامل کو اپنا کر ہی وجود میں آسکتا ہے۔
ہم یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ذرہ برابر نیکی (مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) بھی اکارت نہیں جاتی۔ کویت کے ایک دوست کا سنایا ہوا، سچا واقعہ سن لیجیے۔ کہنے لگے کہ: ہماری مسجد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کرلیا سب بہت خوش ہوئے۔ نو مسلم بھائی سے قبولِ اسلام کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک خاکروب ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے مسجد کی قریبی سڑکوں پر جھاڑو دیتا ہے۔ فلاں سڑک پر جھاڑو دیتے ہوئے، اذان کی آواز آتی۔پھر فلاں گھر سے ایک صاحب باقاعدگی سے نماز کے لیے نکلتے۔ میرے پاس سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جیب سے عطر کی شیشی نکالتے، مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ کی پشت پر عطر لگاتے اور مسجد چلے جاتے… بس ان کا یہ خاموش پیغام ہی مجھے آج مسجد لے آیا ہے۔ مسکراہٹ اور خوشبو کا صدقہ یقینا دونوں کو جہنم کی آگ سے بچا گیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنت میں ایک چھوٹے پرندے ہُدہُد اور چھوٹی سی چیونٹی ہی کودیکھ لیجیے۔ ہُدہُد نے دیکھا کہ ملکہ اور اس کی رعایا، اللہ کے بجاے سورج کی پوجا کررہے ہیں، آنکھوں پر یقین نہ آیا، اور تڑپ کر دربار نبوت میں پہنچا۔ پورا ماجرا سنایا اور بالآخر ایک پوری قوم کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بن گیا۔
چیونٹی نے دیکھا کہ ساری چیونٹیاں اپنے کام کاج میں مگن ہیں اور سلیمان علیہ السلام کا لشکر سر پہ آن پہنچا ہے۔ تن کے کھڑی ہوگئی، پوری قوت سے چلّائی: یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْج لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ (النمل۲۷: ۱۸) ’’چیونٹیو! فوراً گھروں کے اندر چلی جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمھیں کچل کر رکھ دے‘‘۔ چیونٹی کی یہ دہائی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی سن لی، فوراً لشکر کو رکنے کا حکم دیا اور بے اختیار کلمات شکر زبان پر آگئے: رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o(النمل۲۷: ۱۹) ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ مَیں اُس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں، جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں، جو تجھے پسند آئے، اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ رب ذو الجلال کو یہ منظر اور اس میں پوشیدہ اسباق اتنے پسند آئے، کہ پورا واقعہ تا قیامت قرآن کریم میں ثبت کردیا۔ ہمیں تعلیم دینا مقصود تھا کہ ہُدہُد اور چیونٹی کے صدقے جتنا بھی صدقہ کروگے(نیکی کا حکم صدقہ ہے) تو پورا پورا اجر ملے گا۔
چیونٹی کی اس پکار میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور آپؑ کے لشکر کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا: وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ، یعنی یہ نہ ہو کہ وہ تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں پتا بھی نہ چلے۔ دوسروں سے حُسن ظن کی اس سے جامع مثال شاید کہیں اور نہ ملے۔
سری لنکا کی مسکراہٹ اور تعلیم کا اعلیٰ تناسب، جاپانیوں کی محنت اور سچائی، کویتی بھائی کی لگائی ہوئی خوشبو، ہُد ہُد کی زیرکی اور چیونٹی کی پکار، ہمیں بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین طے شدہ ہیں۔ جو ان کی پابندی کرے گا، کامیاب و کامران ہوگا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
’’الزام لگایا جا رہا ہے کہ طیب اردوان آمر بننا چاہتا ہے۔ اردوان ایک فانی انسان ہے، اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ۱۶؍اپریل تک زندہ بھی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم ملکی نظام میں دُور رس اصلاح لانا چاہتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آمر ووٹ کی پرچیوں اور عوام کی حقیقی راے کے ذریعے نہیں آیا کرتے‘‘___ ترک صدر رجب طیب اردوان ۱۶؍اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا جواب دے رہے تھے۔ یہ دن اب ترک تاریخ کے اہم ترین دنوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اس روز ۸۰ فی صد سے زائد عوام نے دستوری ترامیم کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے بالآخر پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان ترامیم کی تفصیل سے پہلے آیئے ذرا اس جوہری تبدیلی کا پس منظر تازہ کرلیں۔
۹۳سال قبل مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نے اذان، نماز اور قرآنِ کریم سمیت تمام دینی شعائر پر پابندی عائد کر دی۔ اس نے اپنی پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت بنانے پر بھی پابندی لگادی۔ اتاترک کے اس نظام اور پالیسیوں کے خلاف سب سے پہلی بغاوت اس کی اپنی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی عدنان مندریس اور اس کے ساتھیوں نے کی۔ انھوں نے اتاترک کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں اپنی الگ ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ (DP)بنا لی۔ ۱۹۵۰ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے اذان، نماز اور قرآن کی تلاوت پر لگی پابندی ختم کر دی اور ملکی تعمیروترقی کے سفر میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے ۱۰سالہ دورِاقتدار کے بعد ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ۳۸ فوجی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ۲۳۵ جرنیلوں سمیت ساڑھے پانچ ہزار فوجی افسر ملازمت سے فارغ کر دیے۔ صدر جلال بایار کو عمرقید اور وزیراعظم عدنان مندریس کو تین ساتھیوں سمیت دُوردراز جزیرے میں لے جاکر ۱۶ستمبر ۱۹۶۰ء کو پھانسی دے کر وہیں دفن کر دیا (۱۷؍اپریل ۱۹۹۰ء کو وزیراعظم ترگت اوزال نے ان کا جسد ِ خاکی وہاں سے لاکر استنبول میں دفن کیا۔ اسمبلی نے باقاعدہ قانون سازی کرتے ہوئے انھیں شہید ِ وطن قرار دیا اور انھیں دی گئی سزاے موت کو غلط قرار دیا)۔
ظلم و جبر، محلاتی سازشوں، پے درپے فوجی انقلابات اور اتاترک ذہنیت کے ہرمخالف پر رجعت پسندی و شخصی اقتدار کے الزامات پر مشتمل ترک تاریخ کے مزید کئی ابواب رقم کیے جانے لگے۔ اتاترک سے لے کر آج تک کے ۹۳سالہ عرصے میں ۶۵ حکومتیں بنائیں اور ختم کی گئیں، یعنی ہرحکومت کی اوسط عمر تقریباً ۱۷مہینے رہی۔ عدنان مندریس، ترگت اوزال اور طیب اردوان کے عہد ِ حکومت نکال دیے جائیں تو، فی حکومت یہ عرصہ ایک سال سے بھی کم رہ جائے۔ کئی بار دستوری ترامیم کی گئیں۔ ۱۹۶۱ء اور ۱۹۸۲ء میں ان ترامیم کے لیے عوامی ریفرنڈم بھی کروائے گئے لیکن ملک کو ہمیشہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا رہا۔ مختلف قائدین نے اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش و کوشش کی لیکن کسی کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ خود صدر طیب اردوان کو گذشتہ سال جولائی میں خونیں فوجی انقلاب کا نشانہ بنایا گیا۔ ۲۴۰ بے گناہ ترک شہری شہید اور سیکڑوں زخمی کر دیے گئے۔ ربِ ذوالجلال کی حفاظت نہ ہوتی تو اردوان بھی کسی صورت بچ نہ سکتے۔
اس تناظر میں صدر طیب اردوان نے اعلان کیا کہ وہ ترک جمہوریہ کے ۱۰۰سال پورے ہونے تک ترکی کو پھر سے دنیا کی کامیاب ریاست بنادیں گے۔ ان کے عہد ِ اقتدار میں ہونے والی بے پناہ ترقی اور حالیہ دستوری ترامیم ان کے اسی خواب کا حصہ ہیں۔ ان ترامیم میں ۱۸شقیں شامل ہیں۔ اس کا اہم ترین پہلو عوام کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے صدرِ مملکت کو سربراہِ حکومت بنانا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کے اصل کام، یعنی حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے اور قانون سازی کرنے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یہ جوہری تبدیلی ترکی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی تاریخی ربط کو واضح کرتے ہوئے ریفرنڈم کے اگلے روز صدر اردوان نے استنبول میں مدفون صحابیِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری کی روشنی میں فتح قسطنطنیہ کی کوششوں میں شریک ہوکر شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے۔ ان کے بعد وہ فاتح قسطنطنیہ اور خلافت عثمانیہ کے بانی محمد الفاتح کی قبر پر گئے۔ پھر پھانسی پانےوالے سابق وزیراعظم عدنان مندریس، سابق صدر ترگت اوزال اور سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قبر پر گئے۔ ان کی یہ فاتحہ خوانی اس بات کی علامت تھی کہ جس تبدیلی کے لیے آپ سب کوشاں رہے، آج ہم اس کا عملی آغاز کرچکے ہیں۔
حالیہ ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد ۵۵۰ سے بڑھا کر ۶۰۰ کردی گئی ہے۔ اس طرح ارکان اسمبلی کا حلقۂ انتخاب مختصر کرتے ہوئے انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ چوں کہ اب پارلیمنٹ کو تمام تر سیاسی جوڑتوڑ سے پاک کر دیا گیا ہے، اس لیے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بہتر کارکردگی کا موجب بنیں گی۔پارلیمنٹ صدر، اس کے نائبین اور وزرا کا احتساب کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے صدر کے مواخذے کے اعلان کے بعد صدرِ مملکت نئے انتخابات کا اعلان بھی نہیں کرسکے گا۔ انتہائی ناگزیر حالات میں اگر صدر اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہے گا، تو اسے صرف پارلیمانی انتخابات ہی نہیں، صدارتی انتخابات بھی دوبارہ کروانا ہوں گے، یعنی خود بھی جانا ہوگا۔ حالیہ ترامیم کے مطابق صدر اور پارلیمنٹ ایک ہی روز ہونے والے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوا کریں گے۔ واضح رہے کہ حالیہ پارلیمانی اور صدارتی مدت کو ۲۰۱۹ء میں ختم ہونا ہے اور ابھی سے آیندہ انتخابات کی تاریخ طے کردی گئی ہے جو ۳نومبر ۲۰۱۹ء کو ہوں گے۔ ان ترامیم کے ذریعے تمام فوجی عدالتیں ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسی عارضی عدالتوں کا قیام صرف حالت ِ جنگ میں کیا جاسکے گا۔
حالیہ ترامیم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی ۱۸ شقوں میں سے ۱۶شقیں ۳نومبر ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نافذالعمل ہوں گی۔ فی الحال صرف دو شقوں پر عمل درآمد ہوگا۔ ایک تو یہ کہ صدرِ مملکت اگر چاہے تو وہ کسی سیاسی پارٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ گویا یہ منافقت ختم کر دی گئی کہ صدرِ مملکت عملاً تو اپنی پارٹی کا مدار المہام تک رہتا ہے، لیکن بظاہر یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں۔ سیاسی وابستگی کی اجازت کا مطلب ہے کہ اب صدر اردوان اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رکن بلکہ سربراہ بھی بن سکیں گے۔ دوسری شق جس پر فوری عمل درآمد ہوگا وہ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ اس وقت بھی تمام ججوں کا تعین صدرِمملکت کی منظوری ہی سے ہوتا ہے، لیکن آیندہ صدر کو ۱۰ میں سے ۴ جج اپنی صواب دید پر مقررکرنے کا اختیار ہوگا۔
ایک طرف طیب اردوان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں ایک فانی انسان ہوں جسے اپنے کل کی خبر نہیں، دوسری طرف ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ اردوان نے ۲۰۲۹ء تک اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ حقیقت دیکھیں تو الزام لگانے والوں کی فہم و فراست پر شک ہونے لگتا ہے۔ صدرِمملکت کا عہدہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ حالیہ ترامیم کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ الزام لگانے والے گویا ابھی سے اعترافِ شکست کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ۳نومبر۲۰۱۹ء کو ہونے والے انتخابات میں طیب اردوان جیت جائیں گے اور پھر پانچ سال بعد ۲۰۲۴ء میں بھی وہی صدر منتخب ہوں گے، اور اس طرح ۲۰۲۹ء تک وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے۔
طیب اردوان فرشتہ نہیں، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے۔ غلطیاں کرتا بھی ہے اور کربھی سکتا ہے لیکن ان پر آمریت کا الزام لگانے والے مغرب کا حال ملاحظہ ہو۔ ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار اب بھی امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں براجمان ہیں۔ ترک حکومت کے مطابق فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد اب اندرونی خلفشار کی لہر کے پیچھے بھی ان کا واضح کردار ہے۔ مغرب جو خود کو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کا ہیرو سمجھتا ہے، حالیہ دستوری ریفرنڈم کے موقعے پر یورپ میں مقیم ترک عوام کو اس کے حق میں بات کرنے سے روک دیا گیا۔ خود ترک وزیرخارجہ کا جہاز ہالینڈ میں اُترنے سے روک دیا گیا تاکہ وہ اپنے شہریوں سے ریفرنڈم کے بارے میں بات نہ کرسکیں۔ ترک خاتون وزیر کار کے ذریعے ہالینڈ جانے میں کامیاب ہوگئیں، تو ترک قونصل خانے سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر انھیں روک کر زبردستی واپس بھجوا دیا گیا۔ یورپ میں تقریباً ۴۰لاکھ ترک شہری رہتے ہیں۔ خدا کی شان دیکھیے کہ یورپ کے تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بیرونِ ملک مقیم ترک شہریوں کی غالب اکثریت نے دستوری ترامیم کے حق میں راے دی۔
اب ایک بار پھر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت پر بحث کی جارہی ہے۔ ترکی ہی نہیں خود اسلام اور مسلمانوں کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یورپ کے کئی اہم ممالک میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے۔ تقریباً ہر جگہ انتہاپسند سیاسی جماعتیں شدومد سے اسلام پر الزام تراشی کرر ہی ہیں۔
جرمنی میں اپنے آپ کو ’متبادل‘ کے طور پر پیش کرنے والی جماعت کے رہنما بیاٹریکس فون شڑوگ کا فرمانا ہے کہ’’اسلام کوئی مسیحت کی طرح کا باقاعدہ دین نہیں بلکہ چند افکاروخیالات کا مجموعہ ہے جو ریاست کو زبردستی مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ اسلام جرمنی کے لیے ایک سنگین خطرہ اور جرمنی کے دستور سے متصادم ہے۔ فرانس کے سابق صدر نیکولا سرکوزی کا ارشاد ہے کہ ’’یورپ کسی طرح ایسے ملک کو اپنا حصہ نہیں بناسکتا جو ۷۰ملین مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘۔ جرمن چانسلر میرکل، گاہے مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کرتی دکھائی دیتی ہیں، یورپی یونین میں ترک رکنیت کے بارے فرماتی ہیں کہ ’’ہم ترکی کو رکنیت نہیں دیں گے لیکن اس سے مذاکرات بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔ گویا وہی پالیسی جو مقبوضہ فلسطین میں نیتن یاہو یا اس کے پیش رو صہیونی رہنمائوں کی رہی کہ فلسطینیوں کو لاحاصل مذاکرات میں اُلجھائے رکھو اور ان کا قتل عام بھی جاری رکھو۔
اپنے عوام کی تائید اور ملک میں ایک مستحکم و مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے کے بعد صدر طیب اردوان نے بھی دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی راے معلوم کرنے کے بعد ہم یورپی یونین کے ساتھ ان مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔ اس صورتِ حال پر کئی یورپی دانش وروں نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فرانس کے انسٹی ٹیوٹ براے عالمی تعلقات کے نائب صدر دیدیہ پیلیون کا کہنا ہے کہ ’’یورپی یونین ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے، کوئی مسیحی پلیٹ فارم نہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے ایسی آوازیں اُٹھنا کہ ہمیں ترکی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا چاہیے، یورپی ریاستوں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت ترکی نہیں بلکہ یورپ ایک ’مرد بیمار‘ کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ ایک مضبوط ترکی کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا یورپ کی سنگین سیاسی حماقت ہوگی‘‘۔
اسی تناظر میں صدر طیب اردوان کا یہ بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’معاہدۂ لوزان پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘‘۔واضح رہے کہ ۲۴جولائی ۱۹۲۳ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہونے والے اس معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا ترکہ تقسیم کرتے ہوئے ترکی کو اس کے بہت سارے اعصابی مراکز سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں ایک طرف ترکی تھا اور دوسری جانب برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یونان سمیت کئی ممالک۔ ۱۴۳ شقوں پر مشتمل معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا عملاً خاتمہ کرتے ہوئے اسے اس کی حالیہ سرحدوں میں مقید کر دیا گیا۔ اس کے اہم بحری راستوں اور سمندری علاقوں پر عملاً اس کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔ باسفورس اور مرمرہ جیسی انتہائی اہم بحری گزرگاہوں کو بہرصورت اور مفت کھلا رکھنے کا عہد کروا لیا گیا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا میں گردش کرنے والے ان دعوئوں کی تو کوئی تاریخی سند نہیں کہ معاہدۂ لوزان میں ترکی پر تیل کی تلاش اور کھدائی پر ۱۰۰سال کے لیے پابندی لگادی گئی تھی جو ۲۰۲۳ء میں ختم ہوجائے گی۔ لیکن صدر اردوان کے الفاظ میں ہمیں ۱۹۲۰ء کے معاہدہ ’سیفر‘ کی موت دکھلا کر ۱۹۲۳ء کے معاہدۂ لوزان کے دائمی اپاہج پن پر راضی کرلیا گیا۔ اردوان کی طرف سے اس معاہدے کا ذکر بنیادی طور پر اندرون و بیرون کے لیے ایک پیغام ہے کہ اس وقت ایک بار پھر خطے میں جو نئے ’معاہدہ ہاے لوزان‘ تیار اور نافذ کیے جارہے ہیں، عراق اور شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ترکی سے بھی کئی علاقے کاٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں، ہمیں خود کو مضبوط تر کرتے ہوئے، ایک مستحکم نظامِ حکومت تشکیل دیتے ہوئے اور اپنے دورِعروج کو یاد رکھتے ہوئے انھیں ناکام بنانا ہے۔ آخر میں ترک دستوری ریفرنڈم پر ایک عوامی تبصرہ جو خود ترکی میں بھی بہت معروف ہوا ہے اور عالمِ عرب میں بھی کہ ’’اتاترک کا انتقال تو ۷۹سال قبل ہوگیا تھا، لیکن اس کی تدفین اب ہوسکی‘‘۔
یہ امر بھی البتہ ایک حقیقت ہے کہ خود اتاترک کے بہت سے حامیوں نے بھی ’ہاں‘ میں ووٹ دیا۔ ترک قوم پرست جماعت نے تو باقاعدہ ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا، جب کہ دوسری جانب پروفیسر نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی نے کھل کر ان ترامیم کا ساتھ نہیں دیا۔ سعادت پارٹی کے صدر تمل کرم اللہ اوغلو کا ایک ملاقات میں کہنا ہے کہ کئی ترامیم اچھی ہیں، کچھ پر تحفظات بھی ہیں، لیکن اصل تشویش اس بات پر ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کررہے ہیں۔ ایک فریق ’ناں‘ کہنے والوں کو غدار کہتا ہے تو دوسرا ’ہاں‘ کہنے والوں کو۔ یہ خلیج خطرناک ہے۔ تاہم، اصل ضرورت ملک کا جمہوری نظام مضبوط کرنا ہے۔
یہ سطور ۲۵ جنوری کو سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ آج سے ٹھیک چھے سال قبل مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے ۳۰ سال سے جبر کی علامت بنے بیٹھے حسنی مبارک سے نجات کا سفر شروع کیا تھا۔ ۳۰ سال تک مصر اور مصری عوام کی قسمت کا تنہا مالک بنا بیٹھا ڈکٹیٹر ۱۸دن کے ملک گیر دھرنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اس دوران میں ۸۴۰بے گناہ شہری شہید کردیے،۶ہزار شہری زخمی ہوئے، لیکن عوام کے صبر و ثبات نے بالآخر اس کے تکبر کابت پاش پاش کردیا۔ وہی مصری ٹی وی جو دن رات ڈکٹیٹر کی عظمت کے گن گا رہے تھے، اسے ’مصر کا آخری فرعون‘قرار دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب یہاں کسی کو بے گناہ انسانوں کی کھوپڑیوں پر تخت اقتدار سجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس سے تین ہفتے پہلے تیونس کا اکلوتا حکمران زین العابدین بن علی بھی اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آٹھ ماہ بعد لیبیا کا کرنل معمر القذافی اور ایک سال بعد یمن کا کیپٹن علی صالح بھی عوامی طوفان کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ قریب تھا کہ۱۹۶۴ء سے شام میں برسرِاقتدار اسد خاندان کی آخری بدترین نشانی بشار الاسد بھی انھی کی طرح عبرت کی مثال اور کوڑے کے اسی ڈھیر کا حصہ بن جاتا، لیکن اسی دوران میں ’بہار‘ کا خواب دیکھنے والے مصری عوام کو ان کے اس جرم کا مزا چکھاتے ہوئے ان پر ایک اور ننگ انسانیت جنرل سیسی مسلط کردیا گیا۔
خونی حکمرانوں سے نجات کے بعد اورخزاں کے اس مسموم طوفان سے پہلے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام نے ایک نیا اور پُرامن نظام تشکیل دینے کا آغاز کردیا تھا۔ پہلی بار آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے، انتخابات کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنا شروع کردیا تھا۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد ہوئے۔ تیونس اور لیبیا میں دو (دستور ساز اور پھر مستقل اسمبلی) الیکشن ہوئے، جب کہ مصر میں پانچ بار عام چنائو ہوا۔ چشم عالم نے دیکھا کہ ان تمام انتخابات میں اسلامی تحریک ’الاخوان المسلمون‘ پورے عالمِ عرب کی سب سے بڑی قوت قرار پائی۔
اخوان کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہی خطرے کی وہ گھنٹی تھی کہ جس کے بعد ساری عالمی قوتیں اور کئی نادان دوست اس نوخیز بہار کو خوفناک خزاں میں بدلنے پر تل گئے۔ مصری پارلیمنٹ، منتخب صدر، قومی اتفاق راے اور ریفرنڈم کے ذریعے منظور دستور سب کچھ، ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق کے دریا میں غرق کردیا گیا۔ امریکا میں مقیم لیبیا کے ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر کو واپس بلاکر، منتخب حکومت پر فوج کشی کروادی گئی۔ تیونس میں ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرتے ہوئے اور کئی سیاسی رہنماؤں کا قتل کرکے نومنتخب حکومت کو مفلوج کردیا گیا۔ یمن میں سابق ڈکٹیٹر اور باغی حوثی قبائل کو ڈھیروں اسلحہ اور دولت دے کر دارالحکومت پر چڑھائی کروادی گئی۔ اسلامی تحریک کی کامیابی بظاہر ناکامی میں بدل گئی۔ صرف ان چار ممالک میں۶ ہزار سے زائد فرشتہ صفت کارکنان اور قائدین شہید کردیے گئے۔۵۰ ہزار سے زائد بے گناہ اس وقت بھی جیلوں میں بدترین تشدد کا شکار کیے جارہے ہیں۔ انصاف، حقیقت پسندی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو صرف اخوان یا عالم اسلام ہی نہیں، پوری دنیا کو اس مکروہ پالیسی کی قیمت مسلسل چکانا پڑرہی ہے۔
آئے روز عوام کو صبر کی تلقین اور اقتصادی خوشحالی کے سبز باغ دکھانے والے جنرل سیسی کے دور میں مصری عوام کو بد ترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اربوں ڈالر کی امداد چند مخصوص تجوریوں کی نذر ہو گئی۔ صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس وقت ملکی خزانے میں ۳۳ ؍ارب ڈالر تھے۔ جنرل سیسی کو ۴۰ ؍ارب ڈالر کی مزید امداد دی گئی۔ اس وقت خزانے میں ۱۳؍ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے ۱۲ ؍ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ۲ کروڑ ۱۰ لاکھ میں سے ایک کروڑ ۲۰لاکھ راشن کارڈ ختم کیے جارہے ہیں۔ ادویات کو حاصل سب سڈی ختم کی جارہی ہے۔ صدر مرسی کے دورِ اقتدار میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پائونڈ کا تھا اب ۱۹ پائونڈ سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ معروف مصری ماہر اقتصاد وائل النحاس نے خبر دار کیا ہے کہ ۲۰۱۷ء میں امریکی ڈالر ۲۴ اور ۲۰۱۸ء میں ۴۱ پائونڈ تک گر سکتا ہے۔ کرنسی کی اس بے وقعتی کے باعث ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات بالخصوص ادویات اور چینی ناپید ہو گئی ہے۔
اخوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دیں اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ جنرل سیسی کے ’عہد آزادی‘ میں مخالف ذرائع ابلاغ تو کجا وہ نمایاں ترین صحافی بھی قتل ، قید یا فارغ کر دیے گئے جنھوں نے اخوان پر الزامات کے طومار باندھتے ہوئے جنرل سیسی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ باسم یوسف ، ریم ماجد ، جابرالقرموطی، محمود سعد اور توفیق عکاشہ وہ چند نام ہیں، جن کی شکل ہی سے اخوان دشمنی ٹپکتی ہے۔ آج ان سب پر پابندیاں عائد ہیں۔ توفیق عکاشہ کو تو جنرل سیسی نے اپنی نام نہاد اسمبلی کا رکن بھی منتخب کروایا تھا، گذشتہ مارچ میں اس کی رکنیت بھی ارکان پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے ختم کروا دی گئی ۔ ایک اور نمایاں خاتون اینکر لمیس الحدیدی کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ اتنے دبائو کا سامناہے کہ صحافت چھوڑ کر سلائی شروع کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں‘‘۔ ان حضرات وخواتین کو ملنے والی اب تک کی سزا تو پھر عارضی و معمولی ہے۔ اپنے ملک وقوم اور خود اپنی ذات پر انھوں نے جو ظلم ڈھائے، اللہ کرے کہ انھیں آخرت میں اس کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔
ظلم وجبر ، معاشی بدحالی اور عمداً پھیلائی جانے والی اخلاقی تباہی کے جو گہرے اثرات معاشرتی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود جنرل سیسی کے اس خطاب سے لگا لیجیے کہ: ’’مصر میں ہر سال تقریباً ۹لاکھ افراد شادی کرتے ہیں۔ پانچ سال کے بعد ان میں سے ۴۰ فی صد جوڑوں میں طلاق ہو جاتی ہے ‘‘۔ پھر خرابی کی اصل جڑ اور اسباب دُور کرنے کے بجاے عبقری علاج تجویز کرتے ہوئے اور سامنے بیٹھے شیخ الازھر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم قانون بنا رہے ہیں کہ عقد نکاح کی طرح طلاق دینے کے لیے بھی نکاح خواں کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے‘‘۔ سبحان اللہ ... وہ بات جس کے بار ے میں صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اسے بھی بے لگام کیا اور مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل جنرل کو جواز بغاوت فراہم کرنے والے شیخ الازہر نے اس توہین شریعت پر بھی حسب توقع چپ سادھے رکھی۔
جنرل سیسی ، بشارالاسد ، باغی حوثی قبائل، فرقہ واریت یا دین کی قاتلانہ تعبیر کی بنیاد پر تشکیل دینے والے مسلح گروہوں کی سرپرست قوتیں خدارا اب تو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلیں۔ کیا صرف اخوان دشمنی اور تعصبات و مفادات کے نتیجے میں تشکیل پانے والا آج کا یہ منظرنامہ بہتر ہے یا ایک ایسی دنیا کہ جس میں تمام انسان حریتِ فکر، برابری اور انصاف کے سائے میں مل کر زندگی بسر کرسکتے ہوں؟ کیا بشار اور اس کا خاندان ہمیشہ حکمران اورباقی پوری قوم ان کی غلام رہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے ؟ کیا جنرل سیسی مصری فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے عوام کے منتخب نظام کے تحت عزت وکامیابی کی منزلیں طے کرتا، تو صرف مصر ہی نہیں پورے خطے کا مستقبل روشن نہ ہو جاتا؟ کیا ۳۳سالہ مکمل اقتدار کے بعد علی صالح اپنے ہی نائب صدر عبد ربہ منصور کی سربراہی میں بننے والی قومی حکومت کو اقتدار سونپ کر ، حوثیوں سمیت پوری قوم کے ساتھ امن وخوش حالی کی زندگی بسر کرتا، تو خود ان سب کی الگ الگ سرپرستی کرنے والے تمام ممالک کے لیے بھی خیر وبرکت کا سبب نہ بنتا؟
کہا جاتا ہے کہ اس ساری تباہی کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے۔ یقینا اغیار کا ہاتھ تو ہے، لیکن ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ توپوری دنیا پر اپنے غلام مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ صرف اخوان یا امت مسلمہ ہی نہیں، خود اسلام کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیسی ، بشاراور حوثی کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیسی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں امریکی کانگریس میں بحث ہوئی تو مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن (پاکستان میں بھی سفیر رہ چکی ) نے ۱۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو کانگریس میں بیان دیا کہ ’’جنرل سیسی پوری طرح امریکی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ پروٹسٹنٹ مسیحی مشنریزکے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ’’جنرل سیسی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ان کے لیے سب سے بہتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ مصری تجزیہ نگار محمدالہامی کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل مصر میں سعید پاشا نامی وہ حکمران آیا تھا کہ جسے انگریز نے براہ راست اپنی تربیت میں لے کر مصر کے حکمران کے طور پر تیار کیا تھا۔ اس نے وزارت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نمایاں پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بند کردیے۔ تمام تر وسائل پرائیویٹ مغربی تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیے ۔ اس کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’عوام پر حکمرانی کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے جاہل رکھا جائے ‘‘۔ اسی نے نہرسویز پر مغربی اجارہ داری کی راہ کھولی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ آج ۲۱ویں صدی میں جنرل سیسی کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ینفع بایہ التعلیم فی وطن ضائع ، ’’اس تباہ حال ملک میں حصول تعلیم بھلا کیا فائدہ دے گا‘‘ ۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کی عالمی رپورٹ براے معیار تعلیم میں شامل ۱۴۰ ممالک کی فہرست میں جنرل سیسی کا مصر ۱۳۹ ویں نمبر پر آیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں نئی یہودی بستیوں کی مذمت کے لیے لائی گئی قرار داد کو مصر کی جانب سے واپس لے لیے جانے کے بعد ہی نہیں ، اس سے پہلے بھی صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو، تمام اپوزیشن رہنما اور عسکری وفکری قیادت، جنرل سیسی کی تعریف میں درجنوں بیانات دے چکی ہے۔ ان کے بقول اس سورما نے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرے کا ازالہ کرتے ہوئے اخوان حکومت کا خاتمہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی حلف اُٹھاتے ہی جن پانچ عالمی سربراہان کو فون کیا ان میں جنرل سیسی اور بھارتی وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔ اس پر مصری سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں کہا گیا کہ’’جنرل سیسی نے دنیا کو اخوان کے خطرے سے بچانے کے لیے جو کام شروع کیا تھا، اللہ نے اب اس کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کو بھیجا ہے‘‘۔ ایک طرف اغیار کی طرف سے تعریف و ستایش کے ڈونگرے اور دوسری جانب اربوں ڈالر کے ڈھیر کیا اب بھی کسی کے لیے اصل حقائق جاننا مشکل ہے ؟۔
چھے طویل برس قربانیوں اور اذیت وابتلا میں گزر گئے ، لیکن کیا اسلامی تحریک اور اُمت مسلمہ کی منزل اس سے ہمیشہ کے لیے چھینی جا سکی؟ کیا ۲۰۰۷ء میں معروف امریکی فکری مرکز (RAND)کی یہ سفارشات کہ ’ سیاسی اسلام ‘ کا خاتمہ دنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے، خود ان پالیسی سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو راہِ نجات فراہم کر سکیں ؟ اور کیا اب صدر ٹرمپ کی طرف سے ’انتہاپسند اسلام‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ’بڑ ‘ دنیا کو امن وترقی سے ہم کنار کر سکے گی ؟ ان اور ان جیسے تمام سوالات کا جواب دو ٹوک نفی میں ہے۔ اکانومسٹ کا یہی اعتراف دیکھ لیجیے کہ’’ ان چھے سال میں عالمِ عرب مزید بدتر ہو گیا لیکن وہاں کے عوام اپنی تباہی کے اصل اسباب سے زیادہ بہتر طور پر باخبر ہو گئے ہیں‘‘۔ ۲۵ جنوری کو شروع ہونے والی تحریک کے چھے برس پورے ہونے پر بلجیم کا ’پولیٹیکو ‘ اعتراف کرتا ہے کہ عوامی انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ مصری عوام کی جدوجہد بھی منزل تک پہنچ کررہے گی۔ پھر وہ فرانسیسی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ۱۷۸۹ء میں شروع ہونے والا یہ انقلاب ۱۷۹۹ء میں نپولین کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا ۸۰ سال بعد ۱۸۷۰ ء میں ایک مستحکم جمہوری فرانس تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔
ذرا قرآن کریم کے ارشادات پر غور فرمائیے تمام ظالموں اور مظلوموں کا مستقبل واضح ہوجائے گا:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۴۲) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ(القصص ۲۸:۵) اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ جو لوگ زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے ان پر مہربانی کریں اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں۔
وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔
’’ہمیں اس سے غرض نہیں کہ بلی کا رنگ کالا ہے یا سفید، بس اگر وہ چوہے پکڑ سکتی ہے تو وہ اچھی بلی ہے‘‘___ سابق چینی صدر ڈینگ ژیاؤپنگ کا یہ جملہ بدلے ہوئے چین کا مکمل تعارف پیش کرتا ہے۔ اب وہاں کمیونسٹ نظریے کی بنیاد پر نہیں، صرف اور صرف اقتصادی مقاصد کی بنیاد پر پالیسیاں بنتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی چین (CPC) کے مضبوط نظام کی ملکی اُمور پر مکمل گرفت ہے۔ اگرچہ سابق صدر نے اسے بھی ایک خاص طرز کا یا چینی طرز کا کمیونزم قرار دیا تھا۔ موصوف نے ماؤزے تنگ کی بنائی ہوئی تقریباً تمام پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے کھلی منڈی اور کاروباری مقابلے پر مبنی پالیسی وضع کی۔ اس حوالے سے آج کا چین ایک مکمل تبدیل شدہ چین ہے۔ اب وہ دنیا میں مضبوط ترین اقتصادی قوت بننے کے لیے کوشاں اور اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ۲۰۳۰ء اس کے سامنے ایک بڑے اقتصادی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ’چین پاکستان اقتصادی راہ داری‘ (CPEC) جیسے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہوکر پوری دنیا سے جڑ جانا چاہتا ہے۔
۲۴؍اکتوبر سے ۲نومبر تک پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل وفد نے حکمران پارٹی کی دعوت پر چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ان جماعتوں کے نام ہمارے میزبانوں کی فراہم کردہ فہرست میں رکھی گئی ترتیب کے مطابق یہ ہیں: جمعیت علماے اسلام (ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، مولانا عبدالغفور حیدری وفد کے سربراہ تھے)، جماعت اسلامی پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ملّی عوامی پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف۔ دورے کا ایک مقصد چین میں ہونے والی ترقی، موجودہ رجحانات اور آیندہ منصوبوں کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ وفد کے اکثر شرکا کے لیے یہ امر بھی انتہائی دل چسپی کا باعث تھا کہ دورے کا آغاز مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ’اُرمچی‘ سے ہورہا تھا۔ اس دورے کے دوران میں دارالحکومت بیجنگ سمیت تین صوبوں کے پانچ شہروں میں جانا ہوا۔ بیجنگ تو پہلے جانے کا موقع مل چکا تھا، لیکن مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ اور اقتصادی ترقی کے اہم مرکز فیوجیان پہلی بار جانا ہوا۔
اُرمچی، سنکیانگ یا شنجیان کا دار الحکومت ہے۔ سنکیانگ کا مطلب ہی ’نیا صوبہ‘ ہے۔ یہ علاقہ کبھی مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ چینی انتظامی تقسیم کے مطابق اس کی دستوری حیثیت ایک ’خودمختار‘ علاقے کی ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کا تناسب انتہائی کم، یعنی اوسطاً صرف ۱۳؍افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ کم آبادی کا یہ تناسب صرف اسی صوبے میں نہیں، چین کے تمام مغربی صوبوں میں یہی کیفیت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی صوبوں میں جو چین کے رقبے کا ۵۰ فی صد سے زائدہیں، صرف ۶ فی صد آبادی بستی ہے،جب کہ مشرقی صوبوں میں ۹۴ فی صد آبادی ہے۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی زیادہ تر یہی مشرقی اور جنوب مشرقی صوبے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث اُرمچی اور کاشغر وغیرہ شہروں میں سب سے زیادہ مساجد دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان شہروں کی پہلی جھلک ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ علاقے میں وسیع و عریض تعمیر و ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور سڑکوں کے وسیع جال سے، ان کا اصل نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہاہے۔ یہاں ہماری پہلی باقاعدہ مصروفیت صوبے میں مذہبی اُمور کے ذمہ دار کی بریفنگ تھی۔ دارالحکومت بیجنگ سے آئے ہوئے حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بیٹھ کر انھوں نے اسی نکتے پر زور دیا کہ: ’’اگرچہ چین میں کسی مذہبی شناخت کو اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن تمام علاقوں کے لوگوں کو ان کے مذاہب و روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ: ’’علاقے کے مکینوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے اور ملک کے دیگر علاقوں سے سرمایہ کاروں اور ہنرمند افراد کو یہاں آکر بسنے کی ’ترغیب‘ و سہولت دی جاتی ہے‘‘۔ مقامی آبادی میں البتہ اس ’ترغیب‘ کو کئی دُور رس اور کثیر جہتی مقاصد سے تعبیر کیا جاتا ،اور مسلم اکثریتی آبادی کو بتدریج اقلیت میں تبدیل کرنے کا احساس پایا جاتا ہے۔
بریفنگ کے بعد جماعت اسلامی کے وفد(نائب امیر جماعت میں میاں محمد اسلم، نائب قیم جماعت محمد اصغر اور راقم) نے ملاقات میں ان خبروں کی حقیقت کے بارے واضح سوالات کیے، جو وہاں رمضان المبارک میں روزوں اور عمومی طور پر ۱۸سال سے کم عمر بچوں کے مسجد جانے پر پابندیوں کی باتوں پر مشتمل ہیں۔ توقع کے مطابق: ’’انھوں نے ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی‘‘۔ ہمارا مقصد بحث نہیں تھا، بلکہ متوجہ کرنا تھا کہ ایسی خبریں کسی طور بھی خود چین کے مفاد میں نہیں ہیں۔
اُرمچی پہنچنے کے پہلے روز ہی رات کے کھانے کے لیے شہر کے وسط میں واقع ایک ’مسلم ریسٹورنٹ‘ لے جایا گیا۔ انتہائی پُرتکلف اور پُرلطف کھانوں والا یہ کئی منزلہ وسیع و عریض ریسٹورنٹ، ایک جامع مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ ہم دوسری منزل پر بیٹھے ایک کے بعد دوسرے آنے والے پکوان سے محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک نچلی منزل سے پہلے موسیقی اور پھر بلند آواز میں ساز و سرود کے ساتھ رقص شروع ہوگیا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ: ’’ناچ گانے اور اس کے دیگر ’لوازمات‘ کی جتنی بھرمار اس مسلم اکثریتی علاقے میں ہے، شاید چین کے دوسرے علاقوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔ مقامی آبادی اور تجزیہ نگار تبصرہ کرتے ہیں کہ: ’’اس علاقے کی اصل شناخت ہی ناچ گانا اور دیگر خرافات کو بنایا جارہا ہے‘‘۔
اُرمچی میں وفد کی اہم ترین مصروفیت ’صوبائی اسمبلی‘کی عمارت میں ڈپٹی سپیکر اور چینی حکمران پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نعیم یاسین سے ملاقات اور ان کی جانب سے دی گئی ضیافت میں شرکت تھی۔ پاکستان، چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث انھوں نے باہم تعاون و ترقی کے وسیع تر امکانات پر زور دیا۔ بے تکلف مزاج کے حامل میزبان نے انتہائی سلیقے سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مسکراتے لیکن شرمندہ کردینے والے انداز سے کہا: ’’ہم یہاں عام طور پر کھانے کے ساتھ شراب پیش نہیں کرتے، لیکن مہمان وفد میں شریک بعض افراد کے تقاضے پر اس کی پیش کش بھی کی جائے گی‘‘۔
وفد میں شریک سب احباب اس بارے میں تو محتاط اور حساس تھے کہ گوشت اور دیگر کھانوں میں کہیں حرام کی آمیزش نہ ہوجائے۔ ہر کھانے میںمیزبانوں کی جانب سے حلال کھانے کے خصوصی انتظام کے باوجود سب شرکا کھانے کے ساتھ لکھے ناموں کو احتیاط سے پڑھتے تھے۔ کبھی یہ بھی ہو تاکہ صرف سلاد، روٹی، مکئی کے بھٹے اور شکرقندی وغیرہ پر ہی اکتفا کرلیا جاتا۔لیکن دوسری جانب شراب کے جام چڑھا لیے جاتے۔ زیادہ حیرت تو ان احباب پر ہوئی جو نمازوں اور طویل تسبیحات کا اہتمام بھی پورے جوش و جذبے سے کرتے، لیکن اس بدبودار، مہلک، صریح حرام اُم الخبائث کے عشق میں بھی گرفتار رہتے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ وفد میں شریک بعض احباب کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ بظاہر تو عام دنیادار انسان لگتے ہیں، لیکن ان کا شاید ہی کوئی لمحہ، دل ہی دل میں ذکر و تسبیح اور درود شریف کے بغیر گزرا ہوگا۔
اُرمچی سمیت یہ پورا علاقہ دنیا کے بہترین میوہ جات کا بھی مرکز ہے۔ اعلیٰ ترین معروف میوہ جات کے علاوہ جو پھل دنیا بھر سے منفرد دیکھا وہ انتہائی صحت مند اور شیریں عناب تھا۔ بڑے بیر کے سائز کا عناب پہلی بار کھایا۔ تازہ بیر بھی ہر جگہ میوہ جات میں شامل تھے، لیکن اُرمچی کے بیروں کی شیرینی انتہائی منفرد تھی۔ قدرتی جمال، شان دار تاریخی ورثہ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بے مثال، کمال کے مہمان نواز، قریب ترین ہمسایے، پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھنے والے یہ لوگ ___ سنکیانگ واقعی بہت سے امتیازات رکھتا ہے۔
اگلے روز ایک سفاری پارک دکھانے کااعلان کیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی تین تھا۔ اعلان ہوا کہ چونکہ کھلے علاقے میں جانا ہے، اس لیے گرم کپڑوں کا خصوصی انتظام کریں۔ گاڑیاں روانہ ہوئیں تو عین شہر کے وسط میں پُررونق بازاروں کا رخ کیا گیا۔ سفاری پارک اور پُررونق وسیع و عریض تجارتی مراکز؟ کوئی مطابقت سمجھ میں نہ آئی۔ ایک جگہ گاڑیاں رکیں، لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے جایا گیا، وہاں چند راہ داریوں سے گزر کر باہر نکلے تو دنیا بدل چکی تھی۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا رقبہ کئی ہزار سال پرانے آثار و اشجار محفوظ کیے ہوئے تھا۔ یہ سفاری پارک واقعی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ہزاروں سال پرانے درخت اب پتھر بن چکے ہیں۔ یہیں پر انتہائی اعلیٰ اور منفرد اقسام کے جانوروں کی پرورش کی جارہی ہے۔ نادر تصاویر اور پینٹنگز کا انتہائی قیمتی سرمایہ محفوظ ہے، جو جمال فطرت کے ساتھ ساتھ، انسانی تاریخ کے مراحل و مناظر بھی قلب و نگاہ پر ثبت کردیتا ہے۔
اُرمچی سے رخصت ہونے سے قبل وہاں کی ایک جامع مسجد اور دینی مدرسے کا دورہ بھی کروایا گیا۔ دراز قامت اور وجیہ صورت مولانا عبدالرقیب صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مرکزی دروازے پر وفد کا خیر مقدم کیا۔ استقبالیہ دروازے سے متصل ڈیوڑھی کی دیواروں پر لگے مدرسے کے نئے مجوزہ ماڈل اور موجودہ دروس و اسباق کی تفصیل بتائی۔ انھوںنے بتایا کہ معہد العلوم الشرعیۃ پورے علاقے کا اکلوتا دینی تعلیمی ادارہ ہے، جس میں۲۳۰ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ائمہ و خطبا کی تیاری ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نئی عمارت پر کئی کروڑ خرچ آئے گا، جو حکومت فراہم کررہی ہے۔ بریفنگ کے بعد مدرسے کی عمارت سے متصل مسجد میں گئے۔ کئی شرکا نے وہاں نوافل ادا کیے۔ دوبارہ مدرسے کی عمارت میں آکر ایک کمرئہ جماعت میں لے جایا گیا، جہاں ۳۰ کے قریب بچے تفسیر قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم نے بے حد خوش الحانی سے تلاوت سنائی اور دوسرے سے اس روز کا سبق سنا گیا۔ راقم نے مدرسے کے مہتمم کی اجازت سے، وفد کی نمایندگی کرتے ہوئے عربی میں چند کلمات کہے ،دُعائیں دیں اور یاددہانی کروائی کہ آپ سب نے یہاں کی پوری مسلم آبادی کی نمایندگی کرتے ہوئے، علم و کردار کی خوش بُو عام کرنے کا ذریعہ بننا ہے۔ آتے ہوئے سید مودودی علیہ الرحمۃ کی خطبات کا ترجمہ اور کشمیری شال جناب عبدالرقیب صاحب کو پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔
چین کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ اُرمچی سے صوبہ فیوجیان کے شہر فوژو گئے تو یہ مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز تھی۔لاہور سے لندن جائیں تو تقریباً سات گھنٹے کی پرواز ہوتی ہے۔ وہاں سے بیجنگ گئے تو مزید ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ اُرمچی میں درجۂ حرارت منفی ۳ تھا، جب کہ فیوجیان میں ۲۳ اور بیجنگ میں منفی ایک۔ فیوجیان چین کا اہم تجارتی، صنعتی، ساحلی علاقہ ہے۔ ایک اہمیت اس کی یہ ہے کہ گوادر اور وسطی ایشیا سے منسلک نئی راہ داریاں اور سڑکیں کاشغر اور اُرمچی سے ہوتی ہوئی اسی صوبے تک پہنچ رہی ہیں۔ یہاں بھی مختلف شہروں اور ان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں اور پُرتکلف ضیافتوں کے علاوہ چند اہم کمپنیوں کا دورہ کروایا گیا۔
مثال کے طور پر گوانزو شہر میں واقع ’سافٹ ویئر پارک‘ ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس میں ۲ لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں اس نے۹۲ء۵؍ ارب ڈالر کا کاروبار کیا ہے۔ منصوبے اور اندازے کے مطابق۲۰۲۰ء میں اسے ۲۵۰؍ ارب ڈالر کی آمدن ہوگی۔ معاشرتی اثرات اس کے تجارتی حجم سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہ کمپنی اپنے مختلف کمپیوٹر پروگراموں اور آلات کے ذریعے پورے معاشرے اور اس کے ہر فرد کی زندگی کنٹرول کرسکتی ہے۔لوگوں کے موبائل فون، ان میں لگے سم کارڈوں اور دیگر کئی طرح کے کارڈوں کے ذریعے یہ لوگ کسی بھی جگہ اور وہاں موجود کسی بھی فرد کے بارے میںمکمل معلومات رکھتے ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں مستقبل سازی کرتے ہیں۔ لوگوں کومختلف سہولتیں فراہم کرتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں (اور خدانخواستہ مشکلات) پیدا کرسکتے ہیں۔
سمارٹ فون اب سمارٹ ٹریفک، سمارٹ سیاحت اور سمارٹ تجارت سمیت ہر شعبۂ زندگی کو سمارٹ کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ: اس شہر میں نئے سال کے موقعے پر ایک ہفتے میں ۹۸لاکھ ۷۵ ہزار ۷سو ۹۷ افراد نے سفر کیا۔ انھوں نے سفر کیسے کیا، کب کیا، قیام کہاں ہوا، گاڑی کہاں پارک کی، سب معلومات اسی سمارٹ دنیا میں محفوظ ہیں۔ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی چائنا (CPC) کے ارکان کی تعداد ۸کروڑ ۸۰لاکھ ہے۔ ان تمام ارکان کا ریکارڈ، ان سے رابطہ، ان کے تبادلے بھی اسی سمارٹ دنیا کے ذمے ہے۔ یہ امر بھی دل چسپ تھا کہ ہررکن سے آمدنی کا ۲ء۴فی صداعانت لی جاتی ہے۔ خیال آیا کہ یہ تو ’زکوٰۃ‘ ہوگئی۔ لیکن یہ چندہ صرف صاحب ِ نصاب سے نہیں، ہر رکن سے لیا جاتا ہے۔ دینے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑتا، ’سمارٹ نظام‘ خود ہی منہا کرلیتا ہے۔
کونے میں لگا ایک کیمرا اور اس سے بنائی ویڈیوز کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’یہ ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر موجود شخص کی آنکھوں کی حرکت تک ریکارڈ کرسکتا ہے۔ سُبحان اللہ! انسانوں کا بنایا ہوا ایک کیمرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے، تو پوری کائنات کامالک کتنا سمیع و بصیر ہوگا۔ اس ذات نے اپنا ایک تعارف یہ کروایا: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج (الانعام۶:۱۰۳)’’ اسے کوئی آنکھ نہیں پاسکتی اور وہ ہر آنکھ کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘۔ گویا وہ تو آنکھوں میں بسے خواب اور دلوں میں جاگزیں خیالات سے بھی مکمل باخبر ہے۔ حیرت ہے دن رات اس کی قدرت کا مشاہدہ کرنے والے ہم انسان اس حقیقت سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ’’خبردار! کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘ پڑھ کر تو ہم چوکنا ہوجاتے ہیں لیکن ’’خبردار! اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘ کے اعلان پر کان نہیں دھرتے۔
گوانزو پہنچتے ہی تقریباً ایک ہزار سال قدیم، وسیع و عریض جامع مسجد جانے کا موقع ملا۔ پرانی عمارت کے باہر چینی اور انگریزی زبان میں لگی تختی پر لکھا تھا کہ: ’’اس مسجد کا نام مسجدالاصحاب یا مسجد صحابہ تھا جو ’محمدی‘ (ہجری)سال ۴۰۰ میں تعمیر کی گئی تھی‘‘۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ دارالحکومت بیجنگ سمیت چین کے تقریباً ہر شہر بلکہ قصبات میں بھی صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی مساجد پائی جاتی ہیں۔ اکثر و بیش تر مساجد اسی طرح ہزار سال یا اس سے بھی پرانی ہیں۔ انھیں تعمیر کرنے والے کتنے خوش قسمت تھے کہ خود صدیوں پہلے قبروں میں جا سوئے لیکن، ان کی حسنات آج بھی آباد ہیں۔ قیامت تک اس فصل گل و لالہ میں خوشحالی ہی آتی رہے گی۔ خدانخواستہ کوئی نمازی نہ ہونے کی صورت میں بھی اللہ اکبر کی صدائیں، بندوں سے خالق کا تعارف کرواتی رہیں گی۔
دارالحکومت بیجنگ میں بھی بے حد مصروف وقت گزرا۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ براے عالمی اسٹڈیز کے ذمہ داران نے CPEC پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اہل پاکستان کی اکثریت جسے صرف ایک سڑک یا بندرگاہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر پوری دنیا، بالخصوص جنوبی ایشیا کا اقتصادی نقشہ تبدیل کردینے کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے چین اور جنوبی ایشیا کے دیگر کئی ممالک، وسطی ایشیا، یورپ اور افریقہ سے براہِ راست منسلک ہوجائیں گے۔ اس پورے منصوبے میں بالآخر ۶۵ممالک شریک یا منسلک ہوجائیں گے۔
یہ صرف چین پاکستان اقتصادی راہ داری ہی نہیں، اس وقت اس طرح کے کئی اور منصوبوں پر بیک وقت عمل ہورہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت اُرمچی اور کاشغر سے چلنے والی مال گاڑی ۱۰ روز کے سفر کے بعد یورپ کا قلب چیرتے ہوئے گزر جائے گی۔ CPEC کے علاوہ ایک اور اقتصادی راہ داری BCIM کے نام سے تعمیر ہورہی ہے جو بنگلہ دیش، چین، بھارت اور میانمار کو باہم مربوط کرے گی۔ کئی راہ داریوں میں سے صرف گوادر بندرگاہ سے کاشغر تک تعمیر ہونے والی ۲ہزار کلومیٹر کی سڑک ہی وہ اکلوتا منصوبہ ہے، جس میں صرف دو ممالک (چین پاکستان) شریک ہیں۔ اس منصوبے میں صرف سڑک ہی نہیں، ریلوے لائنوں بندرگاہوں اور سمندری راستوں کا ایک پورا جال ہے۔ توانائی کے بہت سارے منصوبے مکمل ہونا ہیں۔ اس لیے اسے One Road One Belt کا نام دیا گیا ہے، یعنی ایک سڑک اور کئی راستوں کا جال اسے ایک علاقہ بنا دے گا۔
پاکستان کے لیے اس میں بہت سے اقتصادی مواقع اور امکانات ہیں، جب کہ بھارت اور امریکا پورے منصوبے بالخصوص CPEC کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔ گوادر بندرگاہ پر کام شروع ہوتے ہی اسے ناکام کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے بعد آج یہ بندرگاہ کام شروع کرچکی ہے۔ گوادر اور خطے کی دوسری بندرگاہوں میں موازنے کی ایک جھلک دیکھیے تو اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ گوادر سے ۷۲کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی گہرائی۱۱ میٹر ہے اور وہاں ۱۰جہاز بیک وقت لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایران کی دوسری قریبی بندرگاہ، بندرعباس ۹ میٹر گہری ہے اور وہاں ۲۴جہاز آسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ جبل علی ۹میٹر گہری ہے اور ۶۷ جہاز آسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی دمام بندرگاہ ۹ میٹر اور ۳۹جہاز، قطر کی دوحہ بندرگاہ ۱۱ میٹر اور ۲۹جہاز، سلطنت آف عمان کی صلالہ بندرگاہ ۱۰میٹر اور ۱۹جہاز، جب کہ گوادر کی بندرگاہ ۱۸میٹر گہری ہے اور یہاں بیک وقت ۱۲۰بحری جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔
اس حقیقت میں شک نہیں کہ اس سارے منصوبے کا زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ مثلاً اسے اپنا اقتصادی پہیہ چلانے کے لیے درکار تیل کا ۵۱فی صد خلیجی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ بحری جہاز یہ تیل لے کر بحیرۂ عرب، بحر ہند اور پھر تنگناے ملاکا سے ہوتے ہوئے سوا تین ماہ میں چین کے صنعتی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ CPEC کی تعمیر سے یہ تیل صرف ۲۸دن میں چین پہنچ سکے گا۔ یہی عالم دیگر درآمدی و برآمدی سامان کی نقل و حمل کا ہوگا۔ اپنے اس منصوبے اور ترقی میں چین اپنے تمام تجارتی حصہ داروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو وہ ان تمام شرکا میں سرفہرست سمجھتا ہے۔ یہی حقیقت کسی صورت بھارت سے ہضم نہیں ہورہی۔ اس کے دانش وَروں کے بقول اس سے کشمیر پر بھارت کا موقف کمزور پڑجائے گا۔ بھارت کی بنیادی سرمایہ کاری سے بننے والے چاہ بہار وسطی ایشیا تجارتی راستے کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ وہ علانیہ کہہ رہے ہیں کہ CPEC کو ناکام کرنے کے لیے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو مدد دینا ہوگی۔
چین جانے والے وفد میں شریک بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فعال قوم پرست جماعتوں کے ذمہ داران نے پورے دورے کے دوران میں صرف اسی ایک نکتے پر گفتگو کی: ’’ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ منصوبے میں شامل ترقی کے زیادہ تر منصوبے ان دو چھوٹے صوبوں کے بجاے پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔اس نکتے پر پورے وفد کا مکمل اتفاق تھا اور سبھی نے اس پر بات کی کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خصوصی فری تجارتی زون اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے کھولے جائیں تاکہ اس اہم منصوبے کے ثمرات عام شہریوں اور تمام علاقوں کو حاصل ہوسکیں۔گوادر بندرگاہ اور سڑک بنانے کے لیے وہاں سے اُٹھائے جانے والے غریب شہریوں کو متبادل روزگار اور معقول معاوضہ دیا جائے‘‘۔
اگرچہ اس ساری بحث کا زیادہ تر تعلق ہمارے میزبانوں سے نہیں تھا اور اسے ہماری مرکزی و صوبائی حکومتوں ہی کو باہم گفت و شنید اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حل کرنا ہوگا لیکن یہ موضوع پورے دورے کے دوران غالب رہا۔ آخری روز چین میں پاکستانی سفیر کی جانب سے وفد کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے دوران تو بعض احباب کی جانب سے یہ تلخی دوبدو بحث کی صورت اختیار کرگئی۔
یہاں تو پھر ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھے تھے، چینی میزبانوں کے سامنے اور ہر مجلس میں یہی بات کرنا بعض اوقات ماحول کو بہت بوجھل بنادیتا تھا۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حتمی طور پر اس بدنما بحث کو ختم کرنا ہوگا۔ محروم علاقوں کو مساویانہ ہی نہیں، زیادہ حصہ دینا ہوگا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بعض اوقات احساس محرومی، خود محرومی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے سب بیٹے برابر تھے۔ آخر ایک نبیؑ سے زیادہ انصاف بھلا کون کرسکتا تھا؟ لیکن احساس محرومی نے خود برادرانِ یوسفؑ سمیت سب کو ہلاکت و اذیت کی راہ پر ڈال دیا۔ اللہ کرے کہ ہم سب ان قرآنی تعلیمات و واقعات کی روشنی میں اپنا مستقبل اور اپنی دنیا و آخرت محفوظ بناسکیں۔