مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ: ’’انھوں نے دعوت چھوڑ کر سیاست اپنا لی ہے‘‘۔ مغرب نے بھی اسلامی تحریکوں کے لیے ’سیاسی اسلام‘ کی اصطلاح گھڑرکھی ہے۔ اس کے بقول یہ اسلام کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے کارکن بھی عجیب ہیں، سنگین سیاسی بحران عروج پر ہے، خونیں فوجی انقلاب دن رات قتلِ عام کر رہا ہے، ۲۱ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں ہیں، نام نہاد عدالتیں آئے روز طویل قید کی سزائیں سنارہی ہیں لیکن مصر کی طالبات نے نئی مہم شروع کردی ہے۔ مہم کا عنوان ہے: صلاۃ الفجر بدایۃ النصر،’’نمازِ فجر آغازِ نصر‘‘۔
طالبات کے بقول: فرعون سیسی کے خلاف ہماری ساری تحریک اللہ کی خاطر ہے، اللہ کو منائے بغیر اس کی نصرت شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ طالبات ضد الانقلاب، نامی طالبات تحریک نے اپنی نئی مہم کے لیے مختلف اسٹکر، پٹیاں، پوسٹر اور پمفلٹ تیار کیے ہیں اور وہ فرداً فرداً تمام طالبات سے وعدہ لے رہی ہیں کہ نمازِ فجر کا خصوصی اہتمام کریں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقی نمازیں بدرجۂ اولیٰ ادا ہوں گی۔ اس مہم کی ایک ذمہ دار تسبیح السید کے بقول ہماری مہم توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہورہی ہے اور طالبات کے ذریعے ہمارا پیغام ان کے اہلِ خانہ تک بھی پہنچ رہا ہے۔
مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ایک سالہ اقتدار کے بعد ہی رخصت کرتے ہوئے، قابض خونیں جرنیلوں نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ مصری عوام کی اکثریت اس فوجی انقلاب کو مسترد کررہی ہے۔ گذشتہ تقریباً نوماہ میں کوئی ایک روز بھی ایسا نہیں گزرا جس میں انقلاب مخالف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ جنرل سیسی نے اپنے پیش رو مصری حکمرانوں کی طرح نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے ہرہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا ہے۔ لیکن ہرظلم اور ہرجبر عوامی تحریک کو مزید توانا کرنے کا ذریعہ ہی بن رہا ہے۔ سب تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ ۸ہزار کے قریب شہدا پیش کرکے بھی اخوان کیوں کر میدان میں کھڑے ہیں۔ صلاۃ الفجر بدایۃ النصر مہم اس حیرت و استفسار کا ایک واضح جواب ہے۔ یہی مہم نہیں، اخوان کی پوری تاریخ اور پوری تحریک ہی اس تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام حسن البنا کی یہ ہدایت کہ ہمارا ایک روز بھی اللہ کی کتاب سے ملاقات کیے بغیر نہ گزرے، ہر کارکن نے مضبوطی سے پلے باندھ رکھی ہے۔ اخوان کے کارکنان نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ قرآن کریم کو دل کی نگاہوں سے پڑھتے اور عمل میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر یہی قرآن ہر ظلم کے مقابلے میں ان کی ڈھال بن جاتا اور انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔
گذشتہ تین سالہ عرصے میں اخوان کے بیانات، مضامین، مظاہروں اور اجتماعات میں ہرطرف یہی قرآنی رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ ازہر کے طلبہ کا یہ بیان ملاحظہ فرمایئے۔ ۲۲مارچ کو جاری ہونے والے بیان کا عنوان ہے: سَنُحَاجِجُکُمْ بکل ما اقترفتموہ فی دنیاکم واخراکم ’’ہم دنیا و آخرت میں تم سے تمھارے جرائم کا حساب لیں گے‘‘۔ یہ بیان جامعہ ازہر کے ۱۶طلبہ کو تین تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان طلبہ پر الزام تھا کہ انھوں نے جامعہ میں مظاہرہ کیا۔ طلبہ اپنا مذکورہ بالا بیان دے کر گھر نہیں بیٹھ گئے۔ یہ بیان بھی ایک نئے مظاہرے کے دوران دیا گیا۔ اس دوران جامعہ ازہر طلبہ یونین کے قائم مقام صدر (صدر گرفتار ہے) نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھے کہ:
اذا جار الامیر وحاجباہ
وقاضی الارض أسرف فی القضاء
فویل ثم ویل ثم ویل
لقاضی الارض من قاضی السماء
(جب حکمران اور اس کے مصاحب ظلم ڈھانے لگیں، اور دنیا کے جج بے انصافی پر اُتر آئیں، تو پھر دنیا کے ججوں کے لیے منصف ِ کائنات کی طرف سے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔)
۲۱ہزار سے زائد جو بے گناہ کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت جھیل رہے ہیں وہ بھی اسی عزم و یقین سے سرشار ہیں۔ ذرا اخوان کے رکن اسمبلی حمدی اسماعیل کو دیکھیے۔ وہ خود بھی گرفتار ہیں اور ان کا بیٹا ایک دوسری جیل میں پابند سلاسل ہے۔ حال ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کرلیاگیا اور رہائی کے لیے ۸۰لاکھ پائونڈ (تقریباً سوا ارب روپے) تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حمدی اسماعیل نے اسی دوران کسی طرح اپنا تحریری پیغام اہلِ خانہ کو بھجوایا ہے، لکھتے ہیں: ’’عزیزرفیقۂ حیات! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دنیا ہی میں اس وعدے سے نواز رہا ہے کہ آخرت کی منزل بہت خوب ہوگی۔ پروردگار ہم بندوں پر خود ہم سے بھی زیادہ مہربان ہے وگرنہ وہ اپنے انبیاے کرام ؑ کو بھی آزمایشوں میں کیوں مبتلا کرتا۔ ذرا ان آیات کی تلاوت کر کے دیکھو: وَاذْکُرْ عَبْدَنَــآ اَیُّوبَم اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ…(صٓ ۳۸:۴۱-۴۹)۔ اب آپ بھی ارادوں کو مضبوط کرلیں اور جدوجہد مزید تیز کردیں تاکہ ہم اپنی آزمایش میں سرخرو ہوسکیں۔ یہ زندگی، اصل زندگی کا صرف ایک منظر ہے۔ اس میں ہمیں اپنی بہترین پونجی آخرت کے لیے پیش کرنا ہے۔ یقینا اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا،لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘۔
یہ کوئی اکلوتا خط یا اکلوتا اظہار نہیں، ہر کارکن اور ہر اسیر اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ایک اسیر کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے جو وہ اپنے معصوم بیٹے کے نام خط میں لکھ رہے ہیں: ’’جانِ پدر! ذرا سوچو اگر میں اس تحریک میں گرفتار نہ ہوتا اور خدانخواستہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوجاتا، یا کوئی بیماری مجھے آن لیتی، تو اس صورت میں بھی صبر ہی کرنا پڑتا۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرصورت اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی آخر ت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔ تمھیں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی نہ چُھوٹے۔ نماز باجماعت ادا ہو، اپنی والدہ کو خوش رکھیں اور اس آزمایش میں ان کے معاون بنیں۔ اصل مردانگی کردار واخلاق کا نام ہے۔ اگر اس کڑے وقت میں بہادری نہ دکھائی تو آخر کب اس کا موقع آئے گا۔ اللہ سے ہردم مدد طلب کرتے رہو اور کبھی کسی کمزوری کو قریب نہ پھٹکنے دو‘‘۔
ظلم و جبر کے مقابلے میں اخوان کی ثابت قدمی پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو ان کی قوت کا یہ اصل راز معلوم ہے، لیکن ہرفرعون کی طرح اقتدار کا نشہ انھیں بھی اس غلط فہمی کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ’’سب کو تہِ تیغ کردیں گے۔ میرا اقتدار ہی میری قوت رہے گا‘‘۔ اخوانی کارکنان کا موسوی کردار جب ان کی چالوں کو بودا ثابت کرتا ہے، تو ظلم و تشدد پاگل پن کی آخری حدیں جاچھوتا ہے۔ پہلے تو اخوان کو دہشت گرد اور غیرقانونی قرار دیا تھا، اب فلسطین کی تحریک حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ مصر کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ پر غصہ اُتارنے کی سعی لاحاصل میں تیزی آگئی ہے۔ ماہِ رواں کے دوران بھی غزہ کی حدود سے متصل کئی کلومیٹر کا علاقہ خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سر پرستوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پورے سرحدی علاقے کے رہایشی علاقوں کو بارود سے اُڑا کر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مصری انتظامیہ گذشتہ چند ماہ میں ۱۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کرچکی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی زندگی کی ڈور انھی سرنگوں سے بندھی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدالتی فرمان کے ذریعے مصر میں موجود حماس کے تمام ’اثاثہ جات‘ ضبط کرلینے کا اعلان کردیا گیا۔ حماس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سیسی انتظامیہ اب ذرا ان اثاثہ جات کا اعلان بھی کردے کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق وہاں ہمارے کوئی اثاثہ جات ہیں ہی نہیں‘‘۔ گویا کہ مصری فرمان کا اصل ہدف صہیونی ریاست کو خیرسگالی کا پیغام دینا ہی تھا۔
جنرل سیسی کے اقتدار کو استحکام و دوام بخشنے کے لیے ابتدائی ایام ہی سے ایک مہم یہ شروع کردی گئی تھی کہ اب اس مدارالمہام کو منصب ِصدارت بھی سنبھال لینا چاہیے۔ کئی بار تو ایسی فضا بنادی گئی کہ اعلانِ صدارت گویا اب چند روز کی بات ہے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر ابھی تک مصری عوام پر یہ احسانِ عظیم نہیں کیا جاسکا۔ مصری اور مغربی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان تجزیوں کا مشترک نکتہ یہی ہے کہ خود حکمران ٹولے میں بھی اس بارے میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے جنرل سیسی کو بھی وردی اُتارنا پڑے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے والے کو اپنے دائیں بائیں بیٹھے وردی والوں پر ابھی یہ بھروسا نہیں کہ وردی اُترتے ہی وہ اس کا کام تمام نہیں کردیں گے۔ رہی سہی کسر ایک ’نامعلوم‘ فون کال کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔سرکار کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر موصولہ یہ کال کسی ’وحید‘ نامی شخص کی ہے۔ مصر کے ایک معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حلمی القاعود کے مطابق گذشتہ تقریباً چاربرس میں ’وحید‘ کی یہ چوتھی فون کال تھی۔ اس کا نمبر یا ٹھکانا کبھی معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پہلی کال حسنی مبارک کے خلاف عوامی جذبات عروج پر پہنچ جانے کے دوران آئی تھی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جمال مبارک اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔ دوسری کال صدر محمد مرسی کے انتخاب کے بعد تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مرسی کا اقتدار جلدختم ہوجائے گا۔ تیسری کال جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تھی جس میں دعویٰ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ چوتھی کال چند ہفتے قبل آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا اصل اقتدار اس وقت منظرعام پر موجود فوجی قیادت کے ہاتھ میں نہیں، خفیہ قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل سیسی اس قیادت کا مجرد ایک آلۂ کار ہے۔ ملک کا آیندہ صدر وہ نہیں بلکہ اسی خفیہ فوجی قیادت میں سے کوئی شخص ہوگا جس کا نام ابھی کسی کے سامنے نہیں ہے۔ اسی چوتھی کال میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر محمد مرسی کو جیل سے رہا کردیا جائے گا، لیکن پھر اغوا کرکے زندگی سے محروم کردیا جائے گا۔ ڈاکٹر حلمی قاعودکے مطابق: ’وحید‘ کوئی نام نہاد نجومی یا علمِ غیب رکھنے والا کردار نہیں بلکہ اسی ’اصل خفیہ قیادت‘ کا کوئی ’خفیہ ترجمان‘ ہے جو ان پیغامات کے ذریعے ایک تیر سے کئی کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔
اسی عرصے میں فوج کے سابق سربراہ فیلڈمارشل طنطاوی جو ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۲ء تک کے طویل ۲۱برس تک فوجی سربراہ اور وزیردفاع رہے، بھی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے ملک کی اکلوتی جمہوری منتخب حکومت سے نجات پانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔جنرل سیسی نے بھی اپنے اس پیش رو کی خوشامد نُما تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ ڈاکٹر حلمی کے مطابق جنرل طنطاوی نے اپنے انٹرویو میں تقریباً ۲۰مرتبہ ایک لفظ استعمال کیا اور وہ تھا: ’مُخَطَّطْ: منصوبہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۱۳ء کو عوام بھی یہ منصوبہ سمجھ گئے اور صدرمرسی کے خلاف نکل آئے۔ جنرل طنطاوی نے جب بار بار ’منصوبے‘ کا ذکر اور اخوان سے نجات پر خوشی ظاہر کی تو انٹرویو کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ ’’پھر آخر آپ لوگوں نے اخوان کو اقتدار دیا ہی کیوں؟‘‘ جواب میں انھوں نے مصری لہجے میں بے اختیار تین بار کہا: ’’مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ، ’’میں نے انھیں اقتدار نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا‘‘۔ ہم نے عوام کے اصرارپر انتخابات کروائے اور عوام نے اخوان کو ملک پر قابض ہونے کا موقع دے دیا‘‘۔
ان تمام حقائق سے قرآن کریم کے الفاظ کے مصداق: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے‘‘،عوام کا یہ یقین مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ جابر فرعونی نظام سے نجات کے لیے قربانیوں کا یہی سفر ناگزیر ہے۔ اخوان کے کارکنان سیّدقطب شہیدؒ کے یہ الفاظ ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں کہ: ’’اللہ کی نصرت آنے میں دیر لگ سکتی ہے، کیونکہ قدرت یہ چاہتی ہے کہ باطل کا باطل ہونا دنیا کے سامنے کھل کر آجائے۔ اگر باطل پوری طرح کھوٹا ثابت ہوئے بغیر مغلوب ہوجائے، تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس سے پھر دھوکا کھاجائیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ باطل کو پوری مہلت ملے ،یہاں تک اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہہ نہ رہ جائے اور پھر اس کے زوال پر کسی کو کوئی افسوس نہ ہو‘‘۔
اخوان بھی یقینا انسان ہیں اور بلااستثنا ہر انسان قرآن کریم کی اطلاع کے مطابق کمزور بنایا گیا ہے، لیکن آزمایشوں کی بھٹی نے انھیں ایسا کندن بنادیا ہے کہ ہر عذاب و آزمایش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر اُبھرتے ہیں۔ گذشتہ تمام قتل و غارت سے شکستہ یا مایوس ہونے کے بجاے انھوں نے ۱۹مارچ سے تحریک کا مزید پُرجوش دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ مظاہرے تو پہلے بھی ایک دن کے لیے نہیں رُکے تھے، لیکن نئے مرحلے کے پہلے ہی روز ملک بھر میں ۳۵۰مظاہرے ہوئے۔ اس وقت فوجی انقلاب مخالف درجنوں تنظیمیں میدان میں ہیں۔ طلبہ، طالبات، خواتین، مزدور، ڈاکٹر، کسان، اساتذہ___ ہر میدان میں الگ تنظیم و تحریک ہے۔ سب ہی اپنے اپنے شہدا پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کے دوران ہی ایک۱۴سالہ بچے عمرو کی شہادت کی خبر بھی ملی ہے اور ایک صحافی خاتون کی بھی۔پھولوں جیسے معصوم عمرو کے والدین نے آنسو بہائے لیکن الحمدللہ کا ورد کرتے ہوئے یہی کہتے رہے: ’’لخت جگر چلا گیا… لیکن کچھ عرصے سے یقین ہوچلا تھا کہ اسے تو ضرور ہی شہادت ملے گی… کوئی جلوس یا مظاہرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عمرو کو اس کا پتا ہو اور وہ مظاہرین اور زخمیوں کو پانی پلانے کے لیے اس میں نہ چلا گیا ہو‘‘۔
خاتون صحافی رقیہ اسلام جامعہ ازہر کے ایک بڑے عالم دین جناب ہاشم اسلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی کی طالبہ بھی تھیں۔ ہاشم اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے میری رقیہ کو نہیں، مجھے سزا دی ہے کیوں کہ مَیں نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا… اگر مجھے اپنے فتوے اور مبنی بردلیل راے کی قیمت بیٹی کی میت سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تو وہ بھی ہیچ تھی۔ البتہ غم اس بات کا ہے کہ جن علماے کرام نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دیا تھا، رب کے دربار میں وہ بھی میری بیٹی کے قتل میں برابر کے مجرم قرار پائے‘‘۔
عمر نامی ایک اور نوجوان بھی کئی ماہ قبل اسی تحریک کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ دائیں پہلو سے جسم میں داخل ہونے والی گولی بائیں پہلو سے نکلی تو تمام اندرونی نظام کو کاٹتے ہوئے چلی گئی۔ تب سے علاج جاری ہے، لیکن اُمیدیں بار بار دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی والدہ کا ایک تفصیلی انٹرویو فریڈم اینڈ جسٹس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ وہ ایک تاریخی جملہ یہ کہتی ہیں: ’’اگر بیٹے کو شہادت نصیب ہوگئی تو یہ میری خوش بختی ہوگی۔ میرے لیے غم کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا جس روز خدانخواستہ میرا بیٹا اللہ کی اطاعت کی راہ سے ہٹ گیا ہوتا‘‘۔
صلاۃ الفجر تحریک، قرآن سے جڑے ہوئے، شہادت پر نازاں اخوان کو بھی اگر دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے، تو کیا ایسا کرنے والے رب کے حضور بھی کوئی جواز پیش کرسکیں گے…؟
کچھ عرصہ قبل علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا شریکِ سفر ہونے کا موقع ملا۔ دورانِ سفر عرض کیا کہ کوئی خاص نصیحت کیجیے۔ کہنے لگے: اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا جامع اور الہامی دعا ہے لیکن یہ دعا کئی حوالوں سے بہت اہم ہے کہ اللھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما، اے پروردگار! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ آیئے ہم بھی یہی دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دست دعا بلند کریں۔
_______________________________________________________
٭ شمارہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ فرعونِ مصر نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ مصری عدالت نے دو روز کی ’طویل‘ سماعت کے بعد ۵۲۹ بے گناہ قیدیوں کو ’سزاے موت‘ کی سزا سنادی ہے۔ سزا یافتگان میں اخوان کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع، قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر ڈاکٹرسعدالکتاتنی، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ملک کی نام وَر سیاسی، علمی اور قومی شخصیات شامل ہیں۔
یہ انوکھا فیصلہ اگرچہ ظلم و جبر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے لیکن ہرسننے والا انصاف پسند بلااختیارکہہ اُٹھتا ہے کہ یہ ظلم کی انتہا اور ظالموں کے خاتمے کا اعلان ہے، ان شاء اللہ!
والدہ مکہ کی بڑی تاجر اور انتہائی محترم خاتون تھیں اور والد سراپا صدق و اخلاص۔ گویا پورا گھرانہ نازونعم اور مکارم اخلاق کا حسین امتزاج تھا۔ چار بیٹیوں میں سب سے بڑی زینب، سنِ زواج کو پہنچیں تو کئی اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے لیکن اللہ کو منظور نہ ہوا، معذرت ہوتی گئی۔ ایک روز ابو العاص بن الربیع عرب روایات کے مطابق خود آئے اور درخواست پیش کی: أرید أن أتزوج زینب ابنتک الکبریٰ، ’’میں آپ کی بڑی صاحبزادی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ جواب ملا: لا أفعل حتی استأذنہا،’’میں جب تک خود ان سے نہ پوچھ لوں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اس مبارک گھرانے کا ذکر ہے جسے خانہء نبوت کا مقام حاصل ہونے والا تھا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر جاکر بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ابن خالتک جاء نی وقد ذکر اسمک فہل ترضینہ زوجاً لک؟ آپ کے خالہ زاد آئے ہیں اور آپ کا ذکر کررہے ہیں، کیا بطور شوہر وہ آپ کو قبول ہیں؟ حیا کی سرخی اور مسکراہٹ کی ہلکی سی لہر چہرے پر دوڑ گئی۔ آپؐ نے آنے والے کو ہاں کردی۔
ابو العاص بھی مکہ کے ایک کامیاب تاجر تھے۔ ہر موسم گرما و سرما میں ان کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جایا کرتا تھا (رحلۃ الشتاء و الصیف)۔ ہر قافلے میں سو اونٹ ہوتے اور ہر اونٹ کے ساتھ دو ملازم۔ مکہ کے دیگر کئی لوگ بھی انھیں ہی اپنی رقوم دے دیا کرتے تھے کہ تجارت میں شریک کرلیں۔ ان کی خالہ خدیجہ بنت خویلدؓ کو ویسے بھی اپنے بھانجے سے خصوصی اُنس تھا ، تجارتی اُمور پر بھی تبادلۂ خیال رہتا۔ اب چھوٹی بہن ہالہ بنت خویلد کے گھر سے یہ بندھن بھی بندھ گیا، تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔ جلد ہی بیٹی کی رخصتی ہوگئی اور وجود میں آنے والا نیا کنبہ خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ چند برس بعد دونوں چھوٹی بیٹیوں رقیہ اور اُم کلثوم کے نکاح بھی چچا ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوگئے، لیکن رخصتی نہ ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد ہی اس مبارک خانوادے کو نورِ نبوت سے نواز دیا گیا۔ ابو العاص قافلہ لے کر گئے ہوئے تھے۔ سفر سے واپس آئے تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ مکہ داخل ہوتے ہی باپ دادا کے دین سے مختلف کسی نئے دین کی خبریں ملنے لگیں۔ گھر پہنچے تو پیار کرنے والی اہلیہ نے آغاز میں کچھ نہ بتایا۔ شوہر آرام کرچکا تو کہا: عندی لک خبر عظیم، میرے پاس آپ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ اور پھر جب تفصیل بتائی تو ابو العاص قدرے ناراض ہوگئے۔ اور یہ کہتے ہوئے گھر سے جانے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اہلیہ پیچھے لپکیں اور کہا:’’ آپ تو خود جانتے ہیں کہ میرے والد صاحب صادق و امین ہیں، وہ کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ انھوں نے جب ہمیں نبوت اور وحی کا بتایا تو ہم نے فوراً ان کی تصدیق کردی۔ صرف میں ہی نہیں، امی بھی ایمان لے آئی ہیں۔ میری تینوں بہنیں، آپ کے پھوپھی زاد عثمان بن عفان، میرے چچا زاد علی ابن طالب اور آپ کے گہرے دوست ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہم جمیعا)۔ سب ایمان لے آئے ہیں۔ ابوالعاص نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا: لیکن میں اپنی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ لوگ کہیں گے کہ کفر بآبائہ ارضائً لزوجتہ، بیوی کو خوش کرنے کے لیے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ بالآخر میاں بیوی کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے پر جبراً کوئی رائے مسلط نہیں کریں گے، افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
وقت گزرنے لگا۔ میاں بیوی کا تعلق مثالی تھا لیکن ایمان وعقیدے کی بات ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہتی۔ کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ پہنچانے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے۔ ایک روز اپنی مجلس میں کہنے لگے:’’ تم لوگوں نے محمد کی بیٹیاں بیاہ کر انھیں اس ذمہ داری سے فارغ کررکھا ہے۔ اگر اس کی بیٹیوں کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو تو یہی پریشانی اسے مصروف و مجبور کردے گی‘‘۔ سب کے چہرے کھل اُٹھے۔ اہل شر دوسروں کو دُکھ پہنچا کر اسی طرح خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ابولہب کے بیٹوں نے فوراً حضرت رقیہ اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہما کو طلاق دینے کا اعلان کردیا۔ پھر وہ سب ابوالعاص کے پاس گئے اور کہا: ’’اپنی بیوی کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو، مکہ کی جس لڑکی کی طرف اشارہ کرو گے تم سے بیاہ دی جائے گی‘‘۔ ابوالعاص نے ایک انصاف پسند اور صاحب نخوت ہونے کی حیثیت سے جواب دیا: اس کا بھلا کیا قصور ہے، لا واللّٰہ إنی لا أفارق صاحبتی: اللہ کی قسم میں اپنی شریک حیات کو طلاق نہیں دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصف و دانا داماد کا یہ حسن سلوک ہمیشہ یاد رکھا۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ آپؐ کو مکہ سے ہجرت کا حکم مل گیا۔ اس سے پہلے آپؐ کی صاحبزادی حضرت رقیہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی زوجیت میں آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے گزارش کی: اگر اللہ نے منع نہیں فرمایا اور اجازت ہے تو میں اپنے شوہر ہی کے ساتھ رُک جاؤں؟ آپؐ نے فرمایا: بالکل آپ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رُک سکتی ہیں۔ تب تک حضرت زینب کو پروردگار نے بیٹے (علی) اور بیٹی (اُمامہ) سے نوازا تھا۔
آپؐ کی ہجرت کے بعد چھوٹی بہن حضرت رقیہؓ اپنے شوہر حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ حبشہ سے مکہ واپس آئیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ دوسری بار شرف ہجرت حاصل کرتے ہوئے دونوں مدینہ چلے گئے۔ اب مکہ میں زینب تھیں اور دونوں چھوٹی بہنیں اُم کلثوم اور فاطمۃؓ تھیں۔ آں حضوؐر نے مدینہ سے حضرت زید بن حارثہؓ کو بھیجا اور وہ آپؐ کی دونوں چھوٹی صاحب زادیوں کو بھی مدینہ منورہ لے گئے۔ بنات مصطفی ؐمیں سے صرف حضرت زینب مکہ میں رہ گئیں۔ شوہر اور دونوں بچوں کا ساتھ کچھ غم ہلکا کرتا تھا کہ ایک اور بڑی آزمایش آن پڑی۔ میدان بدر میں نئی تاریخ رقم ہونے جارہی تھی۔ مکہ میں ایسا ماحول تھا کہ ہر اہم فرد کا لشکر کفار میں جانا ضروری قرار دے دیا گیا۔ ابوالعاص ایمان نہ لانے کے باوجود جنگ میں جانے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن معاشرتی دباؤ کے سامنے جھک گئے اور لشکر کے ساتھ چلے گئے۔ حضرت زینبؓ اعصاب شکن اندرونی جنگ کا شکار تھیں۔ محبت کرنے والا شوہر اور بچوں کا باپ، جان سے پیارے والد ، رحمۃ للعالمین ؐ اور آپؐ کے صحابہ کے مدمقابل ہونے جارہا تھا۔ روتے روتے حضرت زینب کے دل سے دُعا نکلی: اللہم إنی أخشی من یوم تشرق شمسہ فییتم ولدی أو أفقد أبی، ’’پروردگار مجھے اس دن کا سورج طلوع ہونے کا ڈر ہے کہ جس روز میرے بچے یتیم ہوجائیں، یا میں سایۂ پدری سے محروم ہوجاؤں‘‘۔
معرکہ بدر ختم ہوا، قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے۔ انھی اسیروں میںدامادِ نبی ابوالعاص بھی تھے، لیکن انصاف کا تقاضا تھا کہ اسے بھی دیگر قیدیوں کے ساتھ اور انھی کی طرح رکھا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو کمال حکمت و عدل پر مبنی جملہ فرمایا۔ ارشاد ہوا: واللّٰہ ما ذممناہ صہرًا، ’’و اللہ ہمیں بحیثیت داماد ان سے کوئی شکوہ نہیں‘‘۔ اس جملے میں حسنِ سلوک کا اعتراف بھی ہے، لیکن کفار کے ساتھ آنے پر بن کہے، بہت کچھ کہہ بھی دیا گیا۔ پھر طے پایا کہ اہل مکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر انھیں رہا کرواسکتے ہیں۔ ہر قیدی کے اہل خانہ نے فدیہ بھیج کر اپنے اسیر رہا کروانا شروع کردیے۔ حضرت زینبؓ کے پاس ان کی سب سے قیمتی متاع شادی کے موقعے پر حضرت خدیجہؓ کا دیا ہوا قیمتی ہار تھا۔یہ ہار خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھاجو انھوں نے آن حضوؐر سے شادی کے موقع پر پہنا تھا۔ بیٹوں کی طرح عزیز بھانجے ابوالعاص کے ساتھ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے ماں نے ممتا کی نشانی یہی پیش کر دی۔ مدینہ میں اسیروں کے فدیے کی رقوم و متاع دیکھتے دیکھتے اچانک اہلیہ اور صاحبزادی کی مشترک نشانی پر نگاہ پڑی تو دونوں کے ساتھ گزری ساری خوب صورت یادیں تازہ ہوگئیں۔ آنکھیں نم ہوگئیں، لیکن زبان سے کچھ نہیں فرمایا۔ آپؐ سربراہ ریاست ہی نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ چاہتے تو خود کوئی فیصلہ صادر فرماسکتے تھے۔ لیکن آپؐ نے مشورے کے انداز میں صحابۂ کرام سے فرمایا: إن زینب بعثت بہذا المال لافتداء أبی العاص، فإن رأیتم أن تطلقوا لہا أسیرہا و تردواعلیہا مالہا فافعلوا،’’یہ زینب نے ابوالعاص کا فدیہ اپنی یہ متاع بھیجی ہے۔ اگر آپ حضرات چاہیں تو ان کا اسیر بھی رہا کردیں اور ان کا ہار بھی واپس بھیج دیں‘‘۔ سب نے بیک زبان کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! کیوں نہیں۔ آں حضوؐر نے زوجہ مرحومہ اور بیٹی کی نشانی لوٹاتے ہوئے کہا: ابو العاص! زینب سے کہو اسے احتیاط سے رکھا کرے۔ اب ایک اور بڑی سنگین و کڑی آزمایش کا سامنا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسیر داماد کو رہا کرکے گھر بھیج رہے ہیں اور رب ذو الجلال کی طرف سے حکم آجاتا ہے کہ اب کوئی مسلم خاتون کسی مشرک اور غیر مسلم کی بیوی نہیں رہ سکتی۔ آپؐ نے ابوالعاص کو ایک جانب لے جاتے ہوئے فرمایا: إن اللّٰہ أمرنی أن أفرق بین مسلمۃ وکافر فہلا رددت إلی إبنتی؟ ’’اللہ نے مجھے مسلم خواتین اور کافر شوہروں میں علیحدگی کرنے کا حکم دیا ہے۔ میری بیٹی مجھے واپس دے دیں‘‘۔ ابو العاص نے بس اتنا جواب دیا: ٹھیک ہے۔
اسیر رہا ہو کر مکہ پہنچا۔ جان نچھاور کرنے والی اہلیہ نے اطلاع پاکر مکہ سے باہر آکر شوہر کا استقبال کیا۔ ابوالعاص نے فوراً کہا۔إنی راحل: میں جارہا ہوں؟ کہاں؟ انھوں نے دریافت کیا۔ نہیں، میں نہیں آپ لوگ جارہے ہیں۔ پھر آپؐ کا پیغام اور اللہ کا حکم سنایا تو ایمان محبت پر غالب رہا۔ حضرت زینب نے حسین یادوں سے معمور گھر، چاہنے والا شوہر اور سب کو عزیز مکہ چھوڑنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ابوالعاص ابن الربیع نے اپنے چھوٹے بھائی عمروبن الربیع سے کہا کہ زینب اور بچوں کو مکہ سے باہر چھوڑ آؤ وہاں ان کے والد صاحب کے ارسال کردہ زید بن ثابت اور ساتھی انتظار کررہے ہیں۔ عمرو نے حضرت زینب اور بچوں کو سواری پر بٹھایا۔ اپنی تیر کمان کمر سے سجائی اور دن دہاڑے مکہ سے چل نکلا۔ کفار مکہ کو میدان بدر میں لگنے والے کاری زخم ابھی تازہ تھے۔ اپنے جانی دشمن کی بیٹی اور نواسے نواسی کو یوں سکون سے جاتے دیکھا تو مشتعل ہوکر پیچھے دوڑے اور دونوں کی سواریوں کو جالیا۔ عمرو نے بھی بآواز بلند للکارا، خبردار! تم جانتے ہو میرے تیر کبھی خطا نہیں گئے۔ تم میں سے کوئی ہمارے قریب پھٹکا تو میرا تیر اپنی گردن میں پیوست پائے گا۔ اتنی دیر میں ابو سفیان بھی پہنچ گیا اور مسئلے کی سنگینی بھانپ لی۔ دانا تو تھا ہی، عمرو بن الربیع کے قریب جاکر سرگوشی کی۔ بھتیجے اپنے تیر سمیٹ رکھو، اصل میں غلطی تمھاری ہے۔ زینب بنت محمد کو یوں دن دہاڑے لے کر جانے کا مطلب ہے، تم زخمی قریش کو للکار رہے ہو۔ اگر اس ماحول میں ہم نے انھیں جانے دیا تو سارے عرب ہمیں بزدلی کا طعنہ دے گا۔ یوں کرو اب انھیں واپس گھر لے چلو۔ عرب کہیں گے قریش نے دشمن کی بیٹی کو روک لیا۔ چند روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے لے کر نکل جاؤ۔ عمرو کو بھی بات سمجھ آگئی۔ واپس چلے گئے اور پھر ایک رات اپنی سابقہ بھابھی اور بچوں کو لے کر مکہ سے نکلے اور مدینہ سے آئے ہوئے وفد کے سپرد کردیا۔
زینب ؓ مدینہ پہنچیں تو چھوٹی بہن رقیہؓ اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ ان کے شوہر حضرت عثمانؓ اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے ذوالنورین کا لقب پاچکے تھے۔ اب منجھلی بہن اُم کلثوم ان کے گھر میں آباد تھیں۔ سب سے چھوٹی بہن فاطمۃ الزہرؓا پہلے ہی سے حضرت علیؓ ابن طالب کے ہاں تھیں۔ بحکم الٰہی ہونے والی اس علیحدگی کو چھے طویل سال گزر گئے۔ ابو العاص اس دوران مکہ ہی میں رہے۔ فتح مکہ سے کچھ پہلے پھر تجارتی قافلہ لے کر شام کے لیے روانہ ہوئے۔ خریدوفروخت کرنے کے بعد مکہ واپسی کے لیے لوٹے تو راستہ وہی تھا مدینہ کے قریب سے گزرتا ہوا۔ مسلم دستے نے مکہ جانے والا قافلہ روکنا چاہا کہ بدر و اُحد اور اَحزاب و حدیبیہ کے بعد یہی دفاعی تقاضا تھا۔ قافلے کا سامان پکڑا گیا، ساتھ جانے والے ۱۷۰ ملازمین گرفتار ہوگئے، لیکن قافلے کا مالک ابوالعاص بچ نکلا اور بچتا بچاتا رات کی تاریکی میں مدینہ داخل ہوگیا۔ اگلی صبح آپؐ نمازِ فجر کی امامت کروا رہے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے نسوانی آواز گونجی: أیہا الناس! أنا زینب بنت محمد و قد أجرت ابالعاص فأجیروہ، ’’لوگو! میں زینب بنت محمد ہوں اور میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے، آپ بھی انھیں پناہ دے دیں۔ نماز ختم ہونے پر آپؐ نے پیچھے مُڑ کر پوچھا: ھل سمعتم ما سمعت؟ جو کچھ میں نے سنا ہے کیا آپ نے بھی سنا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: والذی نفسی بیدہ ما علمت بشيء من ذلک حتی سمعت ما سمعتموہ و إنہ یجیر من المسلمین أدناھم، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! مجھے بھی اس پورے معاملے کا کچھ علم نہ تھا۔ میں نے بھی بس وہی سنا ہے جو آپ لوگوں نے سنا ہے اور دیکھو مسلمانوں میں سے کوئی ادنیٰ شخص بھی کسی کو پنا ہ دے دے تو وہ سب کی طرف سے پناہ ہوتی ہے۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی ابو العاص کی مہمان داری کرو لیکن یاد رہے کہ آپ ان کے لیے حلال نہیں ہیں‘‘۔ پھر جو صحابہ ابوالعاص کا تجارتی قافلہ پکڑ کر لائے تھے، انھیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’آپ ان صاحب کو بخوبی جانتے ہیں۔ اگر آپ ان سے حسن سلوک کرتے ہوئے ان کا سامان لوٹا دیں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ لیکن اگر آپ واپس نہ کرنا چاہیں تو وہ اللہ کی طرف سے تمھیں عطا ہونے والا سامان غنیمت ہے اور آپؐ لوگ اس کے حق دار ہیں۔ تمام صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسولؐ اللہ! ہم ان کا سامان انھیں لوٹاتے ہیں۔ پھر انھوں نے ابوالعاص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: آپؐ قریش کے ایک انتہائی باعزت انسان ہیں۔ آپ رسول اکرمؐکے چچا زاد بھی ہیں اور ان کے داماد بھی، کیایہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اسلام قبول کرلیں اور یہیں رہ جائیں؟ شرعی حکم کے مطابق یہ سارا مال بھی آپ کا ہوجائے گا۔ ابوالعاص نے جواب دیا: آپ نے مجھے بہت برا مشورہ دیا۔ کیا میں اسلام کا آغاز ہی بدعہدی سے کروں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قافلہ تیار کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔
آں حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اب مکہ پہنچنے والا ابوالعاص اب ایک مختلف انسان تھا۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر تمام تجارتی شرکا کو ان کا حصہ ادا کیا اور پھر اعلان کیا کہ اب جب کہ مجھ پر آپ میں سے کسی کا کوئی حق باقی نہیں رہ گیا تو سن لو کہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ و أشہد أن محمدًا عبدہ و رسولہ۔ مجھے مدینہ میں اسی بات نے اسلام لانے سے منع کیا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ میں نے تمھارا مال ہڑپ کرنے کے لیے دین بدل لیا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ واپس مدینہ آئے اور دست نبوت پر اسلام سے سرفراز ہوگئے۔ آپ نے بھی ان کی عزت و تکریم کی اور سراپا ایمان و وفا حضرت زینب کا گھر دوبارہ آباد ہوگیا۔
یہ ایک انتہائی ادھورا اور آمرانہ دستور ہے جس پر ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ء کو جعلی ریفرنڈم کروا کے عوام کے گلے ڈال دیا جائے گا۔ دستور کسی بھی ریاستی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مصر کا مجوزہ دستور یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جو اسمبلی قانون سازی کرے گی وہ کیسے منتخب ہوگی، کب منتخب ہوگی؟ وزیراعظم کیسے اور کب منتخب ہوگا؟ ملک کے معروف اور بزرگ قانون دان ڈاکٹر طارق البشری، جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے کے بقول: ’’یہ اس بچے کا نکاح پڑھا یا جارہا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ حکومتی پراپیگنڈا اسی غیر مولود دستور کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے۔
صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں مصر کو پہلا جمہوری دستور نصیب ہوا تھا۔ ۶۱سالہ فوجی آمریت اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے زیرسایہ بادشاہت خود ہی قانون بھی تھی اور دستور بھی۔ صدر مرسی کے دور میں ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ سے ۱۰۰ رکنی دستور ساز کونسل منتخب کی گئی۔ مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی، اسلامی ہی نہیں سیکولر ماہرین قانون بھی اس کونسل کا حصہ تھے۔ طویل مشاورت اور ایک ایک شق کی کئی کئی بار خواندگی کے بعد اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدا میں اس پر کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی بالآخر اس میں بھرپور حصہ لیا۔ مکمل طور پر شفاف ووٹنگ میں ۶۷ فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ۶۴ فی صد عوام نے ہاں کہا اور ملک کو ایسا دستور مل گیا، جسے عوام کے حقیقی نمایندوں نے تیار کیا تھا۔ یہ پہلا دستور تھا جس کے بنوانے والے صدر نے اپنے اختیارات میں اضافہ نہیں کمی کی تھی۔ خود کو پارلیمنٹ ہی کا نہیں وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں کا بھی پابند بنایا تھا، تاکہ آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مصر کے اس حقیقی دستور کی شق ۱۴۱ واضح طور پر بیان کرتی ہے: ’’صدر جمہوریہ اپنے اختیارات، وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کے ذریعے سنبھالے گا‘‘۔ دفاع، خارجہ اور قومی سلامتی کے بعض اُمور، دیگر کئی شقوں کے پابند بناتے ہوئے مستثنیٰ بھی رکھے گئے تھے، لیکن ان کی مجموعی اور اصل روح یہی تھی کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا صدر بھی جواب دہ اور تقسیمِ کار کا پابند بنایا جاسکے۔
اس دستور میں ترمیم کے لیے بھی ایک کڑا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ کسی ڈکٹیٹر کے لیے اسے موم کی ناک بنانا ممکن نہ ہوسکے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۷اور۱۱۸ کے مطابق دستوری ترمیم کے لیے صدر جمہوریہ یا قومی اسمبلی کے ۵/۱ ارکان ترمیم پیش کرسکتے تھے۔ ۳۰ روز کے اندر اندر، قومی اسمبلی اور سینیٹ الگ الگ کثرت راے کے ذریعے، اسے بحث کے لیے منظور یا مسترد کرسکتی تھی۔ اس کے بعد دونوں ایوان ۶۰ دن کے اندر اندر بحث کرکے دو تہائی ووٹوں سے اسے منظور کرتے تو ۳۰روز کے اندر اندر اس پر عام ریفرنڈم کرواکے منظور یا مسترد کیا جاسکتا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ جنرل کی وردی میں ایک لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم پورے دستور کو معطل کردیا۔ اسے ایک خود ساختہ ۵۰رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا، جس نے پانچ ماہ میں ترمیم کے نام پر، ایک نیا دستور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، جو ۱۴ اور ۱۵جنوری کو ریفرنڈم کے ذریعے ملک پر تھوپ دیا جائے گا۔
یہ ایک ایسا دستور ہے جس میں اصل اختیارات فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کے ہاتھ میں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع بھی جنرل عبد الفتاح سیسی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی وہی ہیں۔صدر مملکت یا پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی وہ دوام و اختیارات نہیں رکھتا جو وزیر دفاع صاحب رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے یا مدت صدارت ختم ہوجانے پر بھی وزیر دفاع کا عہدہ برقرا رہے گا۔ اس کی تعیناتی بھی حکومت یا صدر جمہوریہ نہیں، فوج خود ہی کرے گی۔ حالیہ مسودے کی شق ۲۳۴ کہتی ہے ’’وزیر دفاع کا تعین مسلح افواج کی سپریم کونسل کی منظوری سے کیا جائے گا اور اس کایہ عہدہ دو مکمل صدارتی مدتوں کے لیے ہوگا‘‘۔ یعنی سربراہ ریاست تمام سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ تو ایک آئینی مدت مکمل ہونے پر ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے، جب کہ وزیر دفاع صاحب وہی رہیں گے۔ یہ سوال بھی بلا جواب ہے کہ اگر بالفرض کوئی صدر صاحب اپنی دو مدتیں مکمل نہ کرپائیں، یا انھیں پوری نہ کرنے دی جائیں تو کیا وزیر دفاع کی مدت از سرِ نو شروع ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ پھر ’’شیر کی مرضی ہوگی، انڈا دے یا بچہ دے‘‘۔ نئے دستور کے مطابق فوج کے لیے الگ فوجی عدالت قائم کی گئی ہے لیکن اس میں عام شہریوں پر بھی مقدمات چلائے جاسکیں گے، جب کہ فوج پر جو قوم ہی کا حصہ ہوتی ہے، کسی عام عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔ فوج کے بار ے میں کوئی قانون سازی یا فوجی بجٹ کی منظوری و بحث بھی پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ نہیں، قومی دفاعی کونسل ہی کرسکے گی جو چھے سو یلین (صدر مملکت سمیت) اور آٹھ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوگی۔
مصر کے حقیقی اور اصل دستور میں ملک و قوم کی دینی و نظریاتی شناخت کی حفاظت اور تمام قوانین کو دائرۂ شریعت میں محفوظ کرنے کا محکم انتظام تھا۔ حالیہ مسودے میں اس طرح کی تمام شقیں ہی نہیں، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تمام شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں توہین رب العالمین اور توہین رسالت کی سزا بھی حذف کردی گئی ہے۔ شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے جامعۃ الازہر کی سپریم علما کونسل کو دستوری حق دیا گیا تھا۔ اب شریعت کی وضاحت بھی دستوری عدالت کرے گی۔ جی ہاں، وہی دستوری عدالت جس نے ہر قدم پر صدر مرسی کی راہ میں روڑے اٹکائے، جس نے نو منتخب قومی اسمبلی چند ہفتے بعد ہی تحلیل کر دی اور جو سینیٹ تحلیل کرنے جارہی تھی۔ جس کے ججوں کی اکثریت واضح طور پر سیکولر بلکہ دین دشمن افراد پر مشتمل ہے۔ مساوات مردوزن کے حوالے سے ایسی ملفوف عبارت لکھی گئی ہے جس سے وراثت میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر قرار پائے گا۔ نئے دستور میں قرآن کریم، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تو کوئی ایک سطر یا جملہ بھی نہیں درج ہونے دیا گیا، لیکن قبطی مسیحی پیشوا ’ شنودہ‘ کا معروف جملہ اصل متن کے ساتھ دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ: ’’مصرہمارا وطن ہے ہم اس میں بستے ہیں اور وہ ہم میں رہتا ہے‘‘۔ اصل دستور میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کا ذکر تھا، اسے بھی حذف کردیا گیا ہے۔ ایک شق میں کہا گیا تھا کہ ’’بچوں کی صحت اور تعلیم کے علاوہ دینی تعلیمات اور قومی روایات کی روشنی میں ان کی تربیت ریاست اور معاشرے کی مشترک ذمہ داری ہوگی‘‘۔ گویا اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ ماحول کی فراہمی حکومت اور معاشرے کا دستوری تقاضا ٹھیری تھی۔ اب اسے حذف کردیا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال کے اندر اندر پانچ انتخابات میں مصری عوام نے اخوان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی عام انتخابات کے ان تمام نتائج کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں نے روند ڈالا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو سند جواز بخشنے کے لیے ۳۰ جون کو فوج اور سیکورٹی اداروں کی زیرسرپرستی میدان التحریر میںایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جنرل سیسی نے اسی عوامی مظاہرے کو اپنے قبیح جرائم کی بنیاد بنایا تھا۔ اب دستور میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ صدر جمہوریہ کو ہٹانے کے کسی عوامی مظاہرے یا جلسے جلوس کو وجۂ جواز نہیں بنایا جاسکے گا۔ بھلا اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ جنرل صاحب کو تو کسی قانون یا اخلاق کیا پورے پورے دستور کی بھی پروا نہیں، یہ نئی دستوری شق بھی ان کے ارادوںمیں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن دوسروں کے لیے وہ سب کچھ حرام ہے جو ہمارے لیے حلال تھا۔ ویسے اگر وہ سمجھ سکیںتو یہ تازہ شق کھلم کھلا اعترافِ جرم بھی ہے کہ ہم نے ۳۰ جون کو جو کچھ کیا، وہ باطل تھا۔ اس لیے اب دستور میں اسے باقاعدہ باطل قرار دے رہے ہیں۔ انسان اگر اپنی ڈاکا زنی کا اعتراف کرلے تو اس کی تلافی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس نے جو کچھ لُوٹا اور غصب کیا تھا وہ واپس کردے۔ لیکن اس اعتراف اور اس عظمت کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہے۔
دستور تازہ کے بارے میںآخری اور اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی پسند پر مبنی اس ۵۰رکنی کمیٹی میں سے صرف پانچ افراد پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقی ۴۵ میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا منشیات استعمال کرتے ہیں، یا کورے جاہل ہیں یا پورے ملک میں واضح طور پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ عمرو موسیٰ تھے جو طویل عرصے تک حسنی مبارک کے وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ خط کا یہ عنوان بھی اس کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہے۔
اخوان ہی نہیں آغاز میں فوجی انقلاب کا ساتھ دینے والے کئی اخوان مخالف گروہ اس مضحکہ خیز دستوری تماشے کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ کرنل جمال ناصر ، کرنل انور سادات اور ایئرکموڈور حسنی مبارک کے دور میں بھی کئی بار فوجی سنگینوں تلے ریفرنڈم ہوئے۔ پانچ بار ہونے والے ہر فوجی ریفرنڈم میں ۹۹ فی صد عوام کی ہاں والا نتیجہ برآمد ہوا۔ اب بھی اسی طرح کے نتائج کا پوراپورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے تناسب کچھ کم دکھایا جائے، کیونکہ صدرمرسی کے جمہوری دور میں ہونے والے اکلوتے ریفرنڈم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ووٹ ڈالے گئے، تب بھی ووٹوں کاتناسب ۷ء۶۶ فی صد ہوسکا تھا۔ آیندہ دستوری ریفرنڈم میں مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ سٹیشن پر ہی کرنے کے بجاے، بیلٹ باکس الیکشن کمیشن لے جائیں گے اور وہاں ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِل‘‘ کی مثال تازہ کی جائے گی۔ ریفرنڈم کے لیے ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی تاریخیں رکھی گئی ہیں۔ میدان رابعہ میں ۱۴؍ اگست کو قیامت صغریٰ برپا کرنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یہ دستوری نمک پاشی کسی طور فوجی حکمرانوں کے حق میں نہیں جائے گی، لیکن جب حماقت ہونا ہو، تو قدرت اسی طرح مت مار دیتی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور سنگین حماقت اخوان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ جنرل سیسی کے متعین کردہ وزیراعظم حازم السیلاوی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا: ’’اخوان کو دہشت گرد قرار دینا کابینہ کا کام نہیں۔ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اگر ایسا ہونا بھی ہے تو یہ کام عدالتوں کے ذریعے ہوگا وگرنہ ہم ایک بے قانون ریاست شمار ہوں گے‘‘۔ پھر اچانک دقہلیہ شہر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکا کروایا گیا اور اسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ نے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ۱۰۵۵؍ رفاہی اداروں پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ منجمد کردیے حالانکہ ان سب کا تعلق اخوان سے نہیں ہے۔ اس فیصلے سے گویا لاکھوں غریب اور محتاج موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارہ ۵لاکھ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کر رہا تھا۔
اسکندریہ یونی ورسٹی میں فزکس کی لائق ترین طالبہ ’’روضہ شلبی‘‘ بھی انھی سزا یافتہ پھولوں میں شامل تھی۔ اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ میں نے سزاؤں کے اعلان کے بعد روضہ کو عدالتی پنجرے میں ہنستے ہوئے دیکھا تو سمجھی کہ میری معصوم بیٹی کو شاید معلوم ہی نہیںہوسکا کہ کتنی خوف ناک سزا سنادی گئی ہے۔ رہائی کے بعد میںنے پوچھا: روضہ! کیا تمھیں پتا تھا کہ جج نے کتنی سزا سنادی ہے؟ ہاں، امی معلوم تھا۔ تو پھر ہنس کیوں رہی تھیں؟ امی بس عدالت اور پولیس کے سامنے بے اختیار ہنس دی۔ مجھے محسوس ہوا ہنسی میرے دل سے نکل رہی ہے کیونکہ اس سے دل کا سارا بوجھ اُترگیا۔ یہ یقین بھی مزید مضبوط ہوگیاکہ اللہ کا ارادہ ان سب پر غالب ہوگا ،ان شاء اللہ۔ لیکن امی جیل میںتنہا ہو ئی تو، آنسوؤں کا دھارا بے اختیار بہہ نکلا تھا۔ مجھے اپنے ملک میں ظلم کی انتہا پر رونا آیا کہ یہ مظالم کب تک اور کیوں کر ہوتے رہیں گے‘‘!
رب کی رحمت و قدرت، جلادوں کی خواہش پر غالب آئی اور سیسی حکومت منہ کالا کروانے اور عوامی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کرپائی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوبارہ کوئی حرکت کی تو پھر گرفتار کرلیں گے اور آیندہ کوئی معافی نہیں ملے گی۔ جیل سے رہائی پاتے ہی سب معصوم بچیوں نے گروپ کی صورت میں چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بناتے ہوئے باآواز بلند اعلان کیا ہم نے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے تھے، آیندہ بھی ہمیںاس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بچی نے کہا: لَسْنَا نَادِمَاتٍ وَلَا خَائِفَاتِ لِأَنَّنَا عَلَی الْحَقِّ وَسَنَنْتَصِرْ فِي الْاَخِیْر اِنْ شَائَ اللّٰہِ، ’’ہم نہ تو نادم ہیں نہ خوف زدہ کیوں کہ ہم حق پر ہیں اور نصرت بالآخر ہمیں ہی ملنا ہے‘‘۔
وسطی ایشیا کی اہم مسلم ریاست تاجکستان میں ۶ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر امام علی رحمانوف ہی حسب سابق دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق انھیں ۸۳ فی صدسے زائد ووٹ ملے۔ جس طرح ہر انسان اپنے گناہوں کا سب سے اہم گواہ خود ہوتا ہے، اسی طرح ۸۳فی صد کی اصل حقیقت بھی سب سے زیادہ رحمانوف ہی کو معلوم ہے۔ انتخابات میں ان کی سب سے مضبوط حریف، انسانی حقوق کی فعال علم بردار، معروف وکیل خاتون نیکولا بابا نزارووا تھیں۔ انھیں تحریک اسلامی( تحریک نہضت)کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ تقریباً سب تجزیہ نگار متفق تھے کہ بے داغ شخصیت کی حامل ۶۵سالہ نزارووانہ صرف بھرپور مقابلہ کریں گی بلکہ وہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑسکتی ہیں۔بڑے پیمانے پر ان کے حامیوں کی گرفتاریوں اورووٹر لسٹوںمیں تحریف جیسے دھاندلی کے مختلف ہتھکنڈوںکے باوجود بھی صدر کو اپنی کامیابی کا یقین نہ ہوا، تو بالآخر ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیے گئے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ۲۱ہزار تائید کنندگان کے دستخط پیش نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ پھر رحمانوف ہی ’جنگل کا بادشاہ‘ تھا۔
تاجکستان میں تحریک بیداری۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، بلکہ سوویت یونین کے زیرتسلط تمام علاقوں میں اسلامی تحریک کا باقاعدہ زیر زمین آغاز تو ۱۹۷۸ء سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران بھی ایسے بہت سے ’گم نام سپاہیوں‘ نے کاردعوت و تربیت انجام دیا کہ جن کا علم صرف اللہ کو ہے یا اس کے ان بے نفس بندوں کو۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں سفر کرتے اور درندوں کے خونی پنجوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان مخلص نفوس نے روسی زبان میں تفہیم القرآن اور دیگر کتب کا ترجمہ ان تمام علاقوں تک پہنچایا اور بالآخر سوویت یونین کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان مسلم ریاستوں میں تحریک بیداری ساری دنیا کے سامنے آگئی۔
۱۹۹۰ء میں سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ قہار مخماکوف کو تاجکستان کے صدر کے طور پر مسلط کیا گیا تو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر نذر آتش کردیا اور پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی باقاعدہ تجہیز و تکفین ہوگئی تھی، لیکن تاجکستان سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی مداخلت و نفوذمسلسل جاری رہا، جو آج بھی جاری ہے۔تاجکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا ڈیم (روغون ڈیم) بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل در آمد کی راہ میں پڑوسی ریاست ازبکستان کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’نہیں بننے دیں گے، اس سے ہمارا پانی اور کپاس کی بنیادی فصل متاثر ہوتی ہے‘‘۔ روس نے تاجکستان کو اس یقین پر کہ وہ روغون ڈیم بنانے کے لیے اس کی حمایت کرے گا، وہاں اپنے عسکری اڈے بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق روس ۲۰۳۰ء تک تاجک سرزمین استعمال کرسکے گا۔
دوسری طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ ہی امریکا نے بھی افغانستان کی اس اہم پڑوسی ریاست میں اپنے لیے مزید جگہ بنانا شروع کر دی تھی۔ احمد آباد کا فوجی اڈا بحال کر تے ہوئے اسے ایک مستقل امریکی اڈے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ازبکستان، قرغیزستان اور تاجکستان کے سنگم پر ایک اورامریکی اڈا فعال ہے۔ امریکا نے اس علاقے کو ’دہشت کی تکون‘ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں، یعنی ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال بنائی جا رہی ہے جیسی آج سے تقریبا ایک صدی پہلے تھی۔ ۱۹۱۷ء میں سوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔اگرچہ ۱۹۲۹ء میں ازبکستان اور تاجکستان کو دو الگ الگ اور خودمختار ریاستوں کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا، لیکن پوری صدی کا اصل محور سوویت یونین کو سپریم طاقت بنانا اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی قرار پایا۔
گذشتہ صدی کی باقی تفصیلات کو فی الحال چھوڑتے ہوئے آیئے ذرا گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیں۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبویؐ کا پروگرام ختم ہوا، توعوام تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے کے وسط میں نصب لینن کے ۲۵ ٹن کے بت کے گرد جمع ہوگئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے انھوں نے یہ گرانڈیل بت گرا کر پاش پاش کردیا۔ مظاہرین ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا وہ معروف اور انقلابی فارسی ترانہ و الہانہ انداز سے گارہے تھے کہ جس میں انھوں نے پوری اُمت کو گہری نیند سے جاگنے اور اُٹھ کھڑا ہونے کی صدا لگائی تھی ؎
از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز
لیکن ان تمام عوامی جذبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے،۲۴نومبر کو ہونے والے ملک کے پہلے صدارتی انتخابات میں روس نوازرحمان نبیوف کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔ عوام نے ’لینن آباد‘ شہر سے تعلق رکھنے والے روس کے اس وفادار کا اقتدار بھی مسترد کردیا۔ ملک گیر مظاہرے عروج پر پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی اور روسی مداخلت کے ذریعے جیتنے والے کے خلاف یک آواز تھیں۔ پھر جب ایئرپورٹ سمیت اہم سرکاری عمارتیں اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئیں، تو مذاکرات کے دور چلے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۲ء کو ایک قومی حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اہم وزارتوں سمیت آٹھ وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا لیکن نیتوں میں فتور تھا، معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ اپوزیشن سڑکوں پر ہی رہی۔ کئی ماہ جاری رہنے والی اس عوامی تحریک کے بعد ستمبر ۱۹۹۲ء میں ازبکستان اور روس نے یہ کہتے ہوئے اپنی باقاعد افواج تاجکستان میں اُتار دیں کہ وہاں ’اسلامی قوتوں‘ کے اقتدار میںآنے کا خطرہ ہے۔ ساتھ ہی امام علی رحمانوف کو مسندصدارت سونپ دی گئی۔ موصوف نے آتے ہی اپوزیشن بالخصوص تمام اسلامی مراکز و شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں شہریوں کو تباہ حال افغانستان میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ بڑی تعداد کو ملک کے اندر ہی بے گھر کردیا گیا۔
۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک کا یہ سارا عرصہ عوامی تحریک کا عرصہ تھا۔ باقاعدہ جہادی کارروائیاں بھی شروع ہوگئیںاور اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں کسی نہ کسی طور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۲۳دسمبر ۱۹۹۶ء کو صدر رحمانوف اور متحدہ اپوزیشن لیڈر سید عبد اللہ نوری نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق عوام کو آزادیاں دینے اور تحریک نہضت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت میں شریک اپوزیشن لیڈروں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں اصلاحات اور مجاہدین کو تاجکستان کی باقاعدہ فوج میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاجکستان میں مسلم آبادی کا تناسب ۸۴ فی صد ہے، وعدہ کیا گیا کہ انھیں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔ آغازِ کار میں بعض فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مہاجرین کی واپسی شروع ہوگئی۔ بعض حکومتی مناصب اپوزیشن کو بھی دیے گئے، لیکن جلد ہی رحمانوف نے اپنا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ ہروعدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عام شہریوں سمیت ایک ایک کرکے اپوزیشن لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کی راہ اپنالی گئی۔ اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تحریک نہضت کے چوٹی کے کئی رہنما پراسرارطورپر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اور ایک قومی شخصیت کی حیثیت رکھنے والے سید عبد اللہ نوری اور ان کے نائب محمد شریف ہمت زادہ کے بارے میںتو یہ خدشہ زباں زدعام ہے کہ انھیں زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ رہی عوام کو حاصل آزادیاں، تو حالیہ انتخابات ہی ان کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہی کو صدر مملکت کے مقابلے میں لانے کا امکان پیدا ہوا، اسے بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ بظاہر پانچ اُمیدوار مخالفت کر رہے تھے لیکن سب مجہول و مغلوب افراد تھے۔ بنیادی طور پر اس لیے لائے گئے تاکہ مقابلے کا تاثر دیا جاسکے۔ سورما صدر تقریباً بلامقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔
روسی فوجوں کے ذریعے ۱۹۹۲ء میںصدر مملکت بننے والے امام علی رحمانوف، حالیہ ڈھکوسلا انتخابات جیسے ہتھکنڈوں اور دستور میں رسمی تبدیلیوں کے بعد خود کو قانونی صدر قرار دے رہے ہیں۔ عالی جناب نے اقتدار کے ۱۰ برس پورے ہونے پر۲۰۰۳ء میں دستوری ترمیم کروائی تھی کہ اب ایک شخص کو صرف دوبار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن ایک ٹرم ہی سات سال کی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ فرمان جاری ہوگیا کہ اس دستوری ترمیم پر عمل درآمدتین سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء سے شروع ہوگا۔ ۱۹۹۲ء سے جو صدارتی دور چلا آرہا ہے وہ بھی اس نئی مدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس طرح ۱۴ برس سے چلے آنے والے صدر صاحب ۲۰۰۶ میں پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور حالیہ نومبر میں وہ مزید سات برس (۲۰۲۰ء تک) کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ۱۴ برس تو یوں پکے ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔ اکلوتا خدشہ ملک الموت سے ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔
تاجکستان کو سوویت غلامی سے نجات کے بعد بھی بہت سے حقیقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ یورنیم اور دیگر قیمتی دھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالامال، ملک میں غربت تو پہلے بھی تھی، اب اس میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔ ملک میں پانی کے وافر ذخائر کے باوجود، توانائی کا بحران سنگین ترہے۔ موسم سرما میں بجلی اور گیس تقریبا ناپید ہوجاتی ہے۔ لاکھوں شہری ان بحرانوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجاے رحمانوف کی تمام تر توجہ مخالفین کو کچلنے پر مرکوز ہے۔بدقسمتی سے اپنے اقتدار کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھنے والی ہستی کو اصل خطرہ اسلام، اسلامی عناصر اور اسلامی مظاہر ہی سے محسوس ہوتا ہے۔عوام میں تحریک نہضت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ناقابل تردید وسیع حمایت کے باوجود، پارلیمنٹ میں ان کے ایک یا دو افراد سے زیادہ کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کا حجاب، مردوں کے چہرے پر سنت نبوی، اور تو اور سفید رنگ کا کھلا لمبا کُرتہ، سر پہ سجی ٹوپی، بیرون ملک (بالخصوص پاکستان میں) دینی تعلیم کا حصول، یہ وہ بڑے بڑے سنگین جرائم ہیں، جن کا مرتکب ’رحمانوف شریعت‘ کے مطابق دہشت گردہے اور اس کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔
روشن خیال قانون کے مطابق مسجد میں ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوان نہیں جاسکتے۔ مساجد سے باہر باجماعت نماز نہیں ادا کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں یا دفاتر میں تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی کسی سرکاری دفتر یا مسجد سے باہر باجماعت نمازکے جرم میں پکڑا جائے تو امام کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین ہنستے ہوئے بتارہے تھے کہ فقہ کی کتابوں میں امامت کی شرائط کے ضمن میں علمِ دین، بہتر تلاوت اور عمر جیسے مسائل زیربحث آتے ہیں۔ تاجک عوام کہتے ہیں کہ: ’’امامت وہ کروائے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں‘‘۔ قانون کے مطابق نمازباجماعت (مسجد سے باہر) جیسے سنگین جرم کی سزا امام صاحب کو دی جاتی ہے۔
ایک بار پھر ’نومنتخب‘ صدر صاحب ساتھ ہی ساتھ خود کو سب سے بہتر مسلمان ثابت کرنے پر بھی مصر ہیں۔ چونکہ ملک کی تقریباً ساری مسلم آبادی امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے اس لیے ان کا سال منانے کا اعلان کردیا گیا۔عالی جناب کے ادایگی حج کا خوب چرچا کیا گیا۔ کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قوم سے تقریباً ایک صدی تک کے سوشلزم مظالم، اس کی اسلامی شناخت نہیں چھین سکے، تو کوئی دوسرا بھی اسے دولت ِایمان سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں یہ حوالہ بھی بہت اہم اور دل چسپ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے خود ایک سرکاری سروے میں اس امر پر اظہارِحیرت کیا گیا کہ سوشلسٹ عہد میں جینے والے ۸۰ فی صد مسیحی اپنا عقیدہ چھوڑ کر اللہ کے انکاری اور ملحد ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان آبادی کے ۸۰ فی صد سے زائد افراد اپنے مذہب پر مضبوطی سے جمے رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں (ازبکستان، قازقستان، قرغیزستان ، ترکمانستان، تاجکستان) میں مسلمانوں کی تعداد ۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔
۱۹۹۲ء میں ایک ضعیف ولاغر باباجی منصورہ آئے تو شکستہ عربی بول رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا آپ کو تو قرآن کریم تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آپ نے ایمان ہی نہیں قرآن کی زبان تک کی حفاظت کیوں کر کی؟ ہم تہ خانوں میں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور آدھی رات کے بعد اپنے بچوں کو جگا جگا کر انھیں قرآن کریم کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی نسلوں کے دل میںبھی ایمان کی آبیاری کی ہے، اسلام سے محرومی نے دل کی پیاس مزید بڑھا دی تھی، باباجی نے جواب دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کی اکثر آبادی گھروں میں بھی عربی زبان بولتی ہے۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
تحریک نہضت تیونس کے سربراہ الشیخ راشد الغنوشی دار الحکومت کے اہم میدان ’قصبہ‘ میں ملین مارچ سے خطاب کررہے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے کہا کہ: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے‘‘ تو چند لمحے کی حیرت کے بعد پورا مجمع نعروں سے گونج اُٹھا۔ شور تھما تو انھوں نے اپنا جملہ دہراتے ہوئے کہا: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں ان کے دروازوں کے راستے آیا کرو‘‘۔ حکومت میں آنے کا دروازہ، انتخابات ہیں۔ ہم نے طویل جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کے بعد جابر ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کی ۔ پھر انتخابات میں عوام نے ہم پر اظہار اعتماد کیا۔ اب بھی اگر کوئی تبدیلی چاہتا ہے، تو انتخابات ہی راستہ ہے۔ تیونسی عوام اب دوبارہ کسی مہم جو کو امن و آزادی کی یہ راہ کھوٹی نہیںکرنے دیں گے۔ مجمع ایک بار پھر پُرجوش نعروں سے گونج اٹھا۔
مصر میں جمہوریت پر فوجی ڈاکا زنی کے بعد اب تیونس میں بھی اپوزیشن کو ہلہ شیری دی جارہی ہے۔ عرب سرمایہ، مغربی سرپرستی میںسازشیں اور مار دھاڑ پر مبنی تحریک ایک ایسے وقت حکومت گرانے کی کوششیں کررہی ہے کہ جب ٹھیک دو سال قبل (۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء) کو منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ تیونسی عوام کو ۵۴سالہ ڈکٹیٹرشپ سے جنوری ۲۰۱۱ء میں نجات حاصل ہوئی تھی۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی تحریک ’تحریک نہضت‘ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے منتخب ہوئی۔ اسے ۲۱۷ کے ایوان میں ۸۹ نشستیں حاصل ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی بائیں بازو کی پارٹی ’حزب المؤتمر‘ کو ۲۹، ایک تیسری پارٹی کو ۲۶ اور چوتھے نمبر پر آنے والی ’حزب التکتل‘ کو ۲۰ نشستیں ملیں۔ تحریک نہضت نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی نہ ہونے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جلا وطن رہنما منصف المرزوقی کی ’حزب المؤتمر‘ اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ المرزوقی کو صدر مملکت اور التکتل کے سربراہ مصطفی بن جعفر کو اسپیکر بنادیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور وضع کرنا، اور حکومت نے کرپشن کے خاتمے اور عوامی مسائل حل کرنے کی کچھ نہ کچھ مساعی شروع کردیں۔ لیکن مصر کی طرح یہاں بھی اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھوں نے مستقل اور مسلسل بحران کھڑے کیے۔ اب، جب کہ اسمبلی کی مدت میں تقریباً چھے ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، اور دستور کی ایک آدھ شق کے علاوہ باقی سب پر اتفاق راے ہوگیا ہے، اپوزیشن نے وہ تمام ہتھکنڈے آزمانا شروع کردیے ہیں، جن کا نتیجہ تباہی اور خوں ریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
چند ماہ پہلے بائیں بازو کے ایک اپوزیشن لیڈر شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کی آگ بھڑکا دی گئی۔ حکومت نے مذاکرات کیے۔ اپوزیشن کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے وزیراعظم، وزراے داخلہ، خارجہ اور انصاف کو تبدیل کردیا۔ عوام کو اُمید ہوئی کہ بحران ختم ہوا، اب حکومت اصل کام پر توجہ دے سکے گی۔ آگ قدرے ٹھنڈی ہونے لگی تو ۲۵ جولائی کو ایک اور اپوزیشن لیڈر، رکن اسمبلی محمد البراہمی کو قتل کردیا گیا۔ ساتھ ہی تقریباً ۶۰؍ارکان پر مشتمل اپوزیشن نے اسمبلی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے دیا۔ ۲۱ سے ۲۴؍ اگست تک بھرپور عوامی احتجاج کی کال دی گئی۔ مطالبہ پھر یہی تھا کہ حکومت ختم کی جائے اور اسمبلی کالعدم قرار دی جائے۔ کچھ افرادملک کی انتظامی عدالت میں بھی چلے گئے کہ جس طرح مصر کی دستوری عدالت نے اسمبلی توڑی تھی، یہاں بھی توڑ دی جائے۔
تحریک نہضت اور حکومت نے صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو پھر سے مذاکرات کی دعوت دی، اور یہ تجویز پیش کی کہ ملک میں جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے لیے اگراپوزیشن چاہے تواس کے مطالبات پرعوامی ریفرنڈم کروالیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے انکار کردیا۔ شاید اس لیے کہ اسے عوام میں اپنی حیثیت بخوبی معلوم ہے؟ وہ چاہتی ہے کہ ریفرنڈم یا منصفانہ عام انتخابات کے بجاے مار دھاڑ، خون خرابے، ٹارگٹ کلنگ، نام نہاد عدالتوں، اندر و نی خفیہ ہاتھوں اور بیرونی آقاؤں کے سرمایے اور سرپرستی کے ذریعے منتخب حکومت ختم کردی جائے۔ پھر عبوری حکومت کے ذریعے اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں۔اس تناظر میں آیندہ چند ہفتے، تیونس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کریں گے۔
اس نازک موڑ پر تحریک نہضت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ یہ تک تسلیم کرلیا کہ اگر حکومت گرانا ہی چاہتے ہو تو ہم خود حکومت چھوڑ دیتے ہیں۔ تمام پارٹیاں مل کر عبوری قومی حکومت تشکیل دے لیں، قومی الیکشن کمیشن تشکیل دے دیں اور فوری طور پر عام انتخابات کروالیں۔ حالیہ مذاکرات میں ایک طرف تحریک نہضت کی قیادت میں حکمران اتحاد ہے اور دوسری طرف مزدوروں اور حقوق انسانی کے نام پر قائم چار این جی اوز ہیں۔ بن علی کی باقیات اور بیرونی آقا انھی غیر سرکاری تنظیموں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ان عرب ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط و منظم نہیں ہوسکیں۔ تیونس میں سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی دی جاچکی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی تشکیل مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہے۔ تقریباً اڑھائی سال کے عرصے میں ۱۴۰سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی عوامی تائید نہیں رکھتی۔ میدان میں اگر کوئی حقیقی قوت باقی ہے، تو اللہ کی توفیق سے وہی اسلامی تحریکیں ہیں جنھیں نصف صدی تک کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اپوزیشن نے مذاکرات کی میز پر تو حکومت سے اتفاق کرلیا۔ لیکن پھر اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تاحال قومی حکومت اور قومی الیکشن کمیشن تشکیل نہیں دے سکیں۔ تحریک نہضت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ حکومت ایک امانت ہے کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ پر، مستقبل کا واضح نقشۂ کار طے کیے بغیر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں، اگر امانت سنبھالنے کا متبادل انتظام ہوجائے، تو حکومت میں ایک دن زیادہ نہیں رہنا چاہیں گے۔
سازشی عناصر اب بھی باز نہیں آئے ،ایک بار پھر خوں ریزی کا سہارا لے رہے ہیں۔پہلے ایک چوکی پر حملہ کرکے چھے فوجی شہید کردیے گئے، پھر پولیس کے دو سپاہی شہید کردیے گئے۔ عیدالاضحی کے بعد قتل ہونے والے ان پولیس والوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے صدر مملکت، وزیراعظم اورا سپیکر، یعنی حکومت کے تینوں ستون پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، لیکن ان کے خلاف مسلسل ۲۰منٹ تک نعرہ بازی کرکے انھیں نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ البتہ وزیر داخلہ نماز میں بھی شریک رہا اور تدفین میں بھی۔ واضح رہے کہ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جو شکری بلعید کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں لائے گئے تھے( نہ جانے اکثر مسلمان ممالک میں وزراے داخلہ پر ایک بڑا سوالیہ نشان کیوں لگ جاتا ہے) ۔ ماحول میں ابھی ان دو سپاہیوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی حدت باقی تھی، اسی دوران حکومت اپوزیشن مذاکرات بھی چل رہے تھے، ۲۳ اکتوبر کی شام وزیراعظم علی العریض ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان کرنے کے لیے پریس کانفرنس کرنے والے تھے کہ ہر طرف بریکنگ نیوز چلنے لگی: ’سیدی بوزید‘ میں چھے مزید پولیس والے قتل کردیے گئے۔ ’سیدی بوزید‘ ہی وہ قصبہ ہے جہاں بوعزیزی نامی نوجوان پر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج ہوا، جو بعدازاں پوری عرب بہار کا نقطۂ آغاز بن گیا تھا۔یہ سب قتل و غارت تحریکِ نہضت کی حکومت کو ناکام بنانے اور گرانے کے لیے کی جارہی ہے۔ قاتلوں نے ثابت کرنا ہے کہ اسلامی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔حکومت چلانا اس کے بس کی بات نہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ صدر مرسی ہوں یا تیونسی حکومت، دونوں پر کسی طرح کے جرم کا الزام نہیں ہے۔ دونوں جمہوریت کا دوام و استحکام چاہتے ہیں۔ دونوں نے ملک میں کرپشن کے خاتمے اور تعمیروترقی کا آغاز کیا۔ دونوں نے خواتین اور اقلیتوں کو ان کا اعلیٰ مقام عطا کیا۔ تیونس میں تو ۴۹خواتین ارکانِ پارلیمنٹ میں سے ۴۳ کا تعلق تحریکِ نہضت سے ہے۔ دونوں نے ترجیحات کا درست تعین کرتے ہوئے جبروتشدد پر مشتمل پالیسیاں اپنانے کے بجاے اصلاح و سدھار کے دُور رس اقدامات پر توجہ دی۔ ایسا دستور اور قوانین وضع کیے کہ جن پر عمل درآمد ازخود ملک و قوم کو خوش حالی اور دوجہاں کی کامیابی سے ہم کنار کردیتا۔ اب یہی اخلاص و عمل ان کا قصور ثابت کیا جا رہا ہے۔ خود قتل و غارت اور فتنہ و فساد کے مرتکب ان پر ناکام و مفلوج ہونے کا الزام تھونپ رہے ہیں۔
مصر ہو یا تیونس، لیکن مخالفین کے یہ اوچھے ہتھکنڈے انھی پر اُلٹ رہے ہیں۔ مصر میں بھی تمام تر سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مغربی اور صہیونی اخبارات تک بھی اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب ناکام ہوگیا۔ ہزاروں بے گناہ قتل کردیے جانے کے باوجود فوج مخالف مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خونی جنرل سیسی کا تشخص سنوارنے اور اس کا اقتدار بچانے کے لیے ابلاغیاتی جنگ عروج پر ہے۔ جنرل سیسی کو صدارتی اُمیدوار بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ نعرہ لگایا جارہا ہے: کَمِّلْ جَمِیْلَکَ، ’’اپنی حسن کارکردگی مکمل کیجیے‘‘، گویا شہریوں کا قتل کوئی احسان ہے۔ لیکن عوام نے اپنے لہجے میں جواب دیا ہے: اَلسَّیسِی بَیُہِیِّسْ، عَایِزْ یَبْقٰی رَیِّسْ،’’ سیسی پاگل پن کا شکار ہوگیا، صدر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے‘‘۔ عوام ہی نہیں بیرونی دنیا سے بھی صدر مرسی کی تائید کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔ برازیل کی خاتون صدر ڈیلما روزیف نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور برازیل کے مابین ایسے کئی اہم ترین معاہدے طے پاچکے تھے کہ جن سے دونوں ملک اور ان کے عوام بے پناہ فوائد حاصل کرسکتے تھے۔ مصر اور برازیل ترکی کے تعاون سے کئی بڑے زرعی اور صنعتی منصوبوں کا آغاز کرنے والے تھے جن میں جدید ترین طیارے اور متوسط طبقے کے لیے گاڑیاں بنانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل آج بھی صدر مرسی ہی کو مصر کا اصل اور حقیقی سربراہ قرار دیتا ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ء میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ کا افتتاح کرنے کی دعوت بھی حال ہی میں صدر محمد مرسی کے نام بھیجی ہے، جنرل سیسی یا اس کے کسی گماشتے کے نام نہیں۔
مصر میں فوجی انقلاب کا سامنا کرنے والی فقید المثال عوامی تحریک نے تیونس میں تبدیلی کی خواہاں طاقتوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ وہاں فی الحال مصر جیسے کسی ایسے فوجی انقلاب کا خطرہ مول نہیں لیں گی، جسے عوام مسترد کردیں اور تیونس بھی مصر کی طرح مسلسل انتشار کا شکار ہوجائے۔ تیونس میں کسی انتشار اور اسلامی تحریک کی قیادت میں عوامی احتجاجی تحریک سے یورپ بھی خوف زدہ ہے ۔کیونکہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر واقع تمام یورپی ممالک، شمال مغربی افریقہ میں پیدا ہونے والی اضطراب کی ہر لہر سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اگرچہ تیونس کی ڈکٹیٹر شپ مصری فرعونوں سے بھی بدتر تھی، لیکن وہاں کے عوام اور فوج مصری عوام اور فوج سے قدرے مختلف ہے۔ مصر میں ہمیشہ فوج ہی برسر اقتدار رہی ہے، جب کہ تیونس میں فوج نے کبھی بھی اقتدار نہیں سنبھالا۔ مصری عوام میں تعلیم کا تناسب ۷۱فی صد ہے اور ان میں سختی کا رجحان نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے۔ تیونس میں تعلیم کا تناسب ۸۱فی صد ہے اور عوام مجموعی طور پر مہذب اور شائستہ ہیں۔ مصر اور تیونس میں ایک اہم بنیادی فرق ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی ہے۔ سرزمین فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کا پڑوسی ہونا کسی خوفناک عذاب سے کم نہیں ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کے بانیوں نے اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیاد ہی پڑوسی ممالک کو اپنا دست نگر اور کمزور رکھنا قرار دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کا مستحکم اور مضبوط ہونا صہیونی ریاست میںخطرات کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے۔
جنرل سیسی کے بدترین خونی انقلاب پر بغلیں بجانے والے صہیونی ذمہ داران، اخوان کی کامیابی کے پہلے روز ہی سے یہ جان چکے تھے کہ یہ بے نفس لوگ مصر کو ایک ناقابل شکست فلاحی ریاست بنادیں گے۔ اس لیے انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر مصر سے جمہوریت کے خاتمے کی جدوجہد شروع کردی۔لیکن مصر میں جاری شان دار عوامی تحریک کے بعد، اسلام مخالف عناصر دوہری پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگراسلامی تحریکیں برسرِ اقتدار رہتی ہیں تو اس سے مسلم ممالک بھی مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں اور اسلامی تحریکیں بھی۔ اور اگر عوام کی منتخب کردہ حکومتیں گرانے کے لیے مصر والا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ اسلام مخالف عناصر کے لیے مثالی صورت حال تو مصر جیسا خونی فوجی انقلاب ،یا بشار جیسے درندے کے ہاتھوں ملک و قوم کی تباہی و بربادی ہی ہے، لیکن وہ ان تمام ہتھکنڈوں کے کڑوے پھل چکھ کر بدمزا بھی ہوچکے ہیں۔ یہ سازشی عناصر اپنی فتنہ جوئی تو کرتے ہی رہیں گے، لیکن حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔
عین ممکن ہے کہ تیونس میں تحریک نہضت کی حکومت آیندہ چند ہفتوں میں ختم ہوجائے ، لیکن بالآخروہاں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ منصفانہ انتخابات جب بھی ہوئے وہاں ایک مستحکم اور خداخوف حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن تر ہوں گے ان شاء اللہ۔ آیئے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کے الفاظ بھی پڑھ لیجیے، انھوں نے یہ گفتگو امریکا کی کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کی: ’’اب تمام تر حالات و واقعات کا رخ ایک ہی جانب ہے اور وہ ہے مصر میں ایک جائز اور منتخب حکومت کی واپسی۔صدر مرسی کی واپسی ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اب تمام تر کوششوں اور مذاکرات کا اصل محور یہ ہے کہ قتل عام کرنے والے جرنیلوں میں سے کس کس کو اور کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے میرے ذمہ دار امریکی دوست طعنہ دیتے ہیں کہ تم مرسی کو پسند کرتے ہو۔ میں جواب دیتا ہوں، ہاں میں ایک منتخب صدر کو پسند کرتا ہوں جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا داغ بھی نہیں۔ میں اخوانی نہیں ہوں بلکہ میں تو مسلمان بھی نہیں ہوں لیکن مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ مجھے جنرل سیسی کے حامی اور معروف مصری صحافی حسنین ہیکل کا فون آیا کہ میں کس طرح اتنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صدرمرسی واپس آئیں گے؟ میں نے کہا کہ اخوان کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش تو آپ لوگ اب بھی کررہے ہیں، جسے وہ مسترد کرتے ہوئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد کون سا عہدہ رہ جاتا ہے؟ میری نظر میں اس وقت مصر میں صدارت کا عہدہ خالی ہے اور ایک حقیقی منتخب صدر کی واپسی تک خالی رہے گا، خواہ فوج ہزاروں نہیں لاکھوں شہریوں کو بھی قتل کرڈالے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی اُمور کے بارے میں اپنی راے دے چکا ہوں ، جو الحمدللہ درست ثابت ہوئی ۔ اب میںاسی ہال میں کہ جس میں صدر مرسی خود پڑھاتے رہے ہیں، کہہ رہا ہوں کہ مصری صدر محمدمرسی ایک لیڈر کی حیثیت سے واپس آئے گا اور مصر پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ملک کی حیثیت سے اُبھرے گا۔ ۱۰کروڑ آبادی کا ملک بچانے کے لیے، رابعہ میدان میں دی جانے والی اخوان کی قربانیاں، عوام کی طرف سے اداکی جانے والی آزادی کی قیمت ہے۔ عوام کی یہ تحریک بہرصورت کامیاب ہوگی اور اگر میری یہ بات غلط ثابت ہوئی توآپ مجھ سے میری اس بات کا حساب لے سکتے ہیں‘‘۔
مصر کے بارے میں، امریکی دانش ور کا تازہ خطاب پڑھتے ہوئے جرأت مند اور انصاف پسند تحریک نہضت کا ترانہ پوری قوت سے کانوں میں گونج رہا ہے، کہ جسے سب کارکنان بآواز بلند پڑھتے ہیں تو ہوائیں اور فضائیں بھی دم سادھ کر ہمہ تن گوش ہوجاتی ہیں:
فِی حِمَاکَ رَبَّنَا
فِیْ سَبِیْلِ دِیْنِنَا
لَا یَروعُنَا الْفَنَا
فَــتَوَلَّ نَـــصْرَنَا
وَاھْدِنَا اِلَی السَّنَنْ
تیری پناہ میں اے ہمارے پروردگار،تیرے دین کی خاطر نکلے ہیں۔ ہمیں فنا کا کوئی خوف نہیں، تو ہماری نصرت کا ذمہ لے لے۔ ہمیں راہ( فتوحات) دکھا۔
’’ہمارا ملک مسلمان ہے، لیکن پابندیاں ایسی کہ غیرمسلموں کے ہاں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ۱۸برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان مسجد میں نہیں جاسکتا۔ سرکاری اداروں یا تعلیم گاہوں میں نہ کوئی شخص چہرے پہ سنت نبویؐ سجاسکتا ہے، نہ کوئی خاتون یا بچی سرپہ اسکارف رکھ سکتی ہے۔ خواتین کو پردے کی آزادی ہے، لیکن صرف گھر کے اندر۔ گھروں میں ماں باپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم یا دیگر دینی علوم کی تعلیم نہیں دے سکتے، اگر والدین اس ’جرم‘ کا ارتکاب کرتے پکڑے جائیں، تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا مسجد کے علاوہ کہیں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ’سنگین جرم‘ بھی بھاری جرمانے کا موجب بنتا ہے‘‘___ شہروں میں نمازِ جمعہ کی اجازت ملنے کے لیے ۳۰ سے ۵۰ہزار تک اور دیہات میں ۱۰سے ۱۵ہزار تک نمازی دستیاب ہونے کا ثبوت ہو تو نمازِ جمعہ ادا ہوسکتی ہے وگرنہ نہیں۔ دینی مدارس پر پابندی ہے، صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ مدارس ہی متعین علوم پڑھا سکتے ہیں اور ۷۰اضلاع پر مشتمل ملک میں صرف ۱۷ رجسٹرڈ مدارس ہیں‘‘۔ تاجکستان میں تحریک نہضت کے صدر اور رکن اسمبلی محی الدین کبیری عالمی کانفرنس براے مسلم قائدین میں اپنا حال سنا رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ آج: حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، آزادیِ اظہار اور نہ جانے کن کن نعروں کا ورد کرنے والی دنیا میں ہورہا ہے۔
تاجکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام کے یہ مسلم رہنما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین ۲۵،۲۶ستمبر کو دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّد منورحسن کی دعوت پر مختصر وقت میں ۲۰ممالک سے ۴۰ سے زائد رہنما اور پارٹی سربراہ تشریف لائے اور اُمت محمدؐ کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ان سے نکلنے کی راہیں تلاش کیں۔ بدقسمتی سے اُمت صرف مسائل ہی کا شکار نہیں، ایک دوسرے سے لاتعلق اور دُور بھی کردی گئی ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ۱۳۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی تقریباً اسلام آباد، کراچی جتنا، لیکن وہاں سے آنے والے مہمانوں نے بتایا کہ: ’’ہم تین روز میں لاہور پہنچے ہیں۔ دوشنبے سے کابل، کابل سے دبئی اور دبئی سے لاہور‘‘۔یہی حال موریتانیا سے تشریف لانے والے علامہ محمدالحسن الدیدو کا تھا۔ وہ دارالحکومت نواکشوط سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم، وہاں سے استنبول، وہاں سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ علامہ محمدالحسن موریتانیا ہی نہیں، عالمِ عرب کے انتہائی قابلِ احترام عالمِ دین ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث کے متون (texts)، پوری پوری اسناد کے ساتھ حفظ ہیں۔ یہ بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں حدیث اس بندۂ فقیر نے اپنے استاد فلاں، انھوں نے فلاں اور انھوں نے فلاں سے سنی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ خود رسول اکرمؐ تک پہنچ جاتا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تعریف نہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں کتنی اہم شخصیات، اپنے اخراجات پر، طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائی تھیں۔
الاخوان المسلمون مصر کے رہنما آخری وقت تک ویزے کے لیے کوشاں رہے، لیکن انھیں ویزا ملا تو کانفرنس کا پہلا روز گزرجانے کے بعد۔ اسی طرح الاخوان المسلمون شام کے سربراہ بھی آخری لمحے تک ویزا حاصل نہ کر سکے۔ یہاں پر ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے دیگر تمام مہمانوں کو ویزا دینے میں پورا تعاون کیا اور اکثر ویزے بلاتاخیر مل گئے۔
کانفرنس میں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، اراکان کے حالیہ بحرانوں کے علاوہ اُمت کو درپیش دیگر سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ امیرجماعت سیّدمنورحسن نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مہمانوں کو دعوتِ مشاورت دی۔ الاخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مصر کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’اگرچہ قتل و غارت اور گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں، لیکن باعث ِا طمینان امر یہ ہے کہ مصری عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کو مسترد کردیا ہے۔ اب بھی روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہفتے میں کم از کم دوبار ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے یونی ورسٹیاں کھل جانے کے بعد اس تحریک میں ایک نئی روح دوڑگئی ہے۔ حکومت نے جابرانہ آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے بلانوٹس گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، لیکن طلبہ خوف زدہ ہونے کے بجاے مزید فعال ہورہے ہیں۔
اخوان کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلینے کے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’اس سے پہلے بھی ۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۴ء بھی اخوان کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن الحمدللہ ان کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکی‘‘۔ جنرل سیسی کے مضحکہ خیز اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’’عجیب منطق ہے۔ پہلے اخوان کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پھر اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب ان گرفتارشدگان پر یہ مقدمات چلائے جارہے ہیں کہ ان کا تعلق ایک غیرقانونی تنظیم سے ہے‘‘۔
شام کی صورت حال پر بھی سب نے تفصیلی بات کی۔ ۱۹۷۰ء سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسدخاندان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے گذشتہ پونے تین سال کے عرصے میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد بے گناہ انسان تہِ تیغ کردیے ہیں۔ بظاہر شام کے مسئلے پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن عملاً دونوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے شام کی مزید تباہی، اور شام کو اس کی قوت کے تمام مظاہر سے محروم کردینا۔ ۲۱؍اگست کو ڈکٹیٹر بشارالاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ڈیڑھ ہزار افراد کے قتلِ عام کے بعد، پورے خطے میں عالمی جنگ کا ایک ماحول بنا دیا گیا۔ امریکا اور روس بھی آمنے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دیے۔ پھر بالآخر جو مقاصد، امریکا جنگ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا، روس نے مذاکرات کے ذریعے حاصل کروا دیے اور اب اقوامِ متحدہ نے بھی کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد بشار جیسے درندے کا خاتمہ نہیں، شام کو اس کی کیمیائی صلاحیتوں سے محروم کرنا تھا، کیونکہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شام کی صورت حال دنیا کے دوہرے معیار بھی مزید بے نقاب کررہی ہے۔ وہی دنیا جس نے ڈیڑھ ہزار افراد کے قتل کو بنیاد بناکر پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل پر صرف بیان بازی کررہی ہے۔ سنگین ترین بات یہ ہے کہ اس وقت یہی عالمی قوتیں شام کی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی ۱۹۱۶ء کے سایکس، پیکو (فرانسیسی اور برطانوی وزیرخارجہ) معاہدے کی طرح کیری،لافروف (امریکی اور روسی وزیرخارجہ) معاہدہ بھی مسلم خطے کو تقسیم کرتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ باب بنادے ۔
تیونس سے تحریک نہضت کے بزرگ رہنما اور نائب صدر عبدالفتاح مورو اپنے وفد کے ساتھ شریک تھے۔ انھوں نے جہاں دعوت و تربیت کے میدان میں تحریکات کو درپیش مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا، وہیں تیونس کی منتخب حکومت ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کی ماردھاڑ پر مبنی تحریک کا خلاصہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ: ’’گذشتہ چند ماہ میں مختلف اپوزیشن رہنمائوں کو قتل کرکے اس کی آڑ میں سیاسی بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن صرف ۶۰ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اپنی ہی برپا کی ہوئی اس قتل و غارت کو بنیاد بناکر اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے گذشتہ تقریباً دوماہ سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دستور کا مسودہ بھی تقریباً تیار ہے، لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کے زیرسایہ حقیقی انتخاب ہوگئے، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تیونس میں فوجی انقلاب کا امکان تو ان شاء اللہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تحریک نہضت کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ شیخ راشد الغنوشی کی قیادت میں تحریک نہضت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات بھی کررہی ہے اور کوشش ہے کہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے بحران سے نکلا جائے یا پھر تحریکِ نہضت حکومت چھوڑ دے اور انتخابات کو ان کے نظام الاوقات کے مطابق اور منصفانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے‘‘۔
۷۲سالہ عبدالفتاح مورو نے ایک واقعہ سناکر تحریکات کو متوجہ کیا کہ ہمیں معاشرے کے کسی بھی فرد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس سے خیر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بتانے لگے کہ: ’’گذشتہ دور میں حکومت نے ہرطرف شراب نوشی اور فحاشی و تباہی کا دور دورہ کردیا۔ ہم ایک بار مسجد گئے تو وہاں ایک شرابی بھی صف میں آکر کھڑا ہوگیا۔ نشے میں دھت اور منہ سے بدبوکے بھبھکے… ہم نے کوشش کی کہ وہ مسجد سے نکل جائے تاکہ ہم سکون سے نماز ادا کرسکیں، لیکن وہ اڑ گیا کہ نہیں، میں نے بھی نماز پڑھنا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ چلیں اسے چھوڑیں اور اس سے چند گز دُور جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز شروع ہوئی، وہ نشئی بھی نماز پڑھنے لگا۔ ہم سب نے سلام پھیر لیا، لیکن وہ سجدے ہی میں پڑا رہا۔ معلوم ہوا کہ تیسری رکعت کے سجدے میں اس کی روح پرواز کرگئی تھی۔ ہم سب کے دل سے دعا نکلی کہ پروردگار اسے معاف فرما، آخری لمحے تو تیرے دربار میں حاضر ہوگیا تھا‘‘۔
بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سب شرکا تشویش و الم کا شکار تھے۔ سب نے وہاں جاری مظالم اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر پوزیشن رہنمائوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کی مذمت کی۔ اب تک اس ضمن میں جو صداے احتجاج انھوںنے بلند کی تھی اس کے بارے میں بھی آگاہی دی اور آیندہ کے لیے حکمت عملی بھی۔ سب کو تشویش تھی کہ اگر حال ہی میں عبدالقادر مُلّا کی عمرقید کو سزاے موت میں بدلنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا، تو برادر اسلامی ملک میں بھڑکتی ہوئی احتجاجی آگ مزید پھیل جائے گی۔ یہ انتقامی سیاست نہ صرف ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردے گی، بلکہ قوم کو بھی مزید بُری طرح تقسیم کردے گی۔
کانفرنس میں اراکان [برما] کے بے نوا مسلمانوں کی زبوں حالی، اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں، مسئلۂ کشمیر، افغانستان و عراق پر امریکی قبضے اور تہذیبی یلغار کے حوالے سے بھی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی استعماری قبضے کے خاتمے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی اور عبادت گاہوں اور معصوم شہریوں کو دھماکوں کا نشانہ بنانے پر بھی۔ اللہ تعالی کا انعام تھا کہ تمام تحریکات ان تمام موضوعات پر یک آواز اور یک سُو تھیں۔
افتتاحی خطابات اور پھر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی پہلا نکتہ یہی رکھا گیا کہ: ’’تمام اسلامی تحریکیں اپنے یومِ تاسیس ہی سے پُرامن جدوجہد پر استوار ہوئی تھیں۔ تقریباً ایک صدی کی جدوجہد کے دوران (اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی) اسلامی تحریکوں پر ابتلا و عذاب کے پہاڑ توڑے گئے، کالعدم قرار دیا گیا، پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اسی پُرامن راستے سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ آج مصر اور تیونس میں ان کی کامیابیوں پر ڈاکازنی کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر میں خون کی ندیاں رواں ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سب اسلامی تحریکیں اپنی پُرامن جدوجہد کے بارے میں مزید یک سُو ہوئی ہیں اور وہ اسی راہ پر چلتے رہنے کا عزم رکھتی ہیں‘‘۔
حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خصوصی نمایندہ ڈاکٹر محمد نزال اور مقبوضہ کشمیر سے غلام محمد صفی اور قائم مقام امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر نورالباری کی موجودگی میں سب نے اس پر بھی اتفاق راے کا اظہار کیا کہ جہاں استعماری قوتیں قابض ہوں وہاں ہرممکن طریقے سے مزاحمت و جہاد، ان عوام کا قانونی و دینی فریضہ ہے۔ پوری اُمت کو ان کی مکمل پشتیبانی کرتے رہنا چاہیے۔
قیم جماعت لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا۔ اس میں تمام نکات کا احاطہ کرلیا گیا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسلامی تحریکوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو یک جا اور یک جان کرنے کے لیے ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جو ان شاء اللہ مسلسل اور مستقل و مربوط مساعی منظم کرے گا۔
الحمدللہ! ملایشیا اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور موریتانیا تک کی یہ تحریکیں جو کئی ممالک میں حکومتوں کا حصہ ہیں، اُمت اور بالخصوص پاکستان کی پشتی بان بن کر شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اسی جانب مراکش میں اسلامی تحریک کے سربراہ محمد الحمداوی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ: ’’یہ صرف چند افراد کا اجتماع نہیں، یہاں آج گویا اُمت کے کروڑوں عوام جمع ہیں۔ میں مراکشی بھی ہوں اور اب خود کو پاکستانی بھی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔
ہرحوالے سے اس کامیاب عالمی کانفرنس نے مصرو شام کے علاوہ بھی ہرجگہ مظلوم عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں، لیکن بدقسمتی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مصری اور بعض عرب ممالک کے میڈیا نے اس کانفرنس کے بارے میں وہ جھوٹ گھڑے کہ خود جھوٹ بھی ان سے پناہ مانگ رہا ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو، جسے کئی عالمی ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا، مصری ذرائع ابلاغ نے ایک خفیہ کانفرنس بنادیا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس کو اخوان کی ایک کانفرنس کہا، اور اسے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کے خفیہ منصوبے بنانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس قرار دے دیا۔ ایک چینل نے تو اسے پاکستانی حکومت و مقتدرہ کا شاخسانہ قرار دے دیا جو مصر میں مسلح تحریکیں برپا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی پوری عرب دنیا میں اُمت کی اس اہم کانفرنس کی خبر پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اب اصل پیغام بھی مسلسل پہنچ رہا ہے۔
ذرا مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ انھوں نے یہ بیان گذشتہ مصری انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے عوام کی لمبی لمبی لائنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مصری عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ۱۵،۱۵ گھنٹے بھی لائنوں میں لگنا پڑے تو یہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے زیادہ بہتر ہے کہ جس سے مصر ایک بار پھر ۳۰ سے ۴۰ سال پیچھے چلا جائے‘‘۔ الجیش المصری أسد بجد و الأسد ما بیأکلش أولادہ، ’’مصری فوج حقیقی شیر ہے اور شیر کبھی اپنے بچے نہیں کھاتا‘‘۔ جمہوری نظام کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرمایا: ’’مصری عوام کے سر پہ آج تک کسی نے شفقت کا ہاتھ ہی نہیں رکھا تھا___ ہم کبھی بدعہدی یا خیانت نہیں کریں گے‘‘۔ سچ فرمایا آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘‘۔
جنرل سیسی کے یہ ’ارشادات‘ اخوان المسلمون کے اس بیان میں بھی نقل کیے گئے ہیں جو ۱۴؍ اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان میں لاکھوں عوام کے پُرامن دھرنوں کے خلاف سفاکانہ فوجی کارروائی کے بعد جاری ہوا ہے۔ یہ دھرنے دورِحاضر کا ایک نیا ریکارڈ تھے۔ بلامبالغہ لاکھوں مردوزن مسلسل ۴۸ روز تک سخت گرمی اور حبس کے عالم میں، دن رات سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ پورا ماہ رمضان یہیں بیٹھ کر اللہ سے مناجات کیں۔ عید بھی یہیں گزاری۔ اسی دوران جنرل سیسی کے شیر جوانوں نے فائرنگ کرکے سیکڑوں افراد شہید کردیے، جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں۔ کارتوسوں اور گولیوں سے دو ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے، لیکن عوام نے دھرنا ختم نہیں کیا۔
اگر اس موقع پر فوجی ڈکٹیٹر کا تسلط قبول کرکے گھر بیٹھ جاتے تو ملک ایک بار پھر ۶۰،۷۰سال کے لیے فرعونی پنجوں میں چلا جاتا۔ مصری عوام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور صرف قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان ہی میں نہیں، پورے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ دھرنا طویل، موسم دشوار تر اور جلاد حکمرانوں کی سفاکیت بڑھی تو کچھ افراد دھرنا چھوڑ کر گھروں کو بھی لوٹ گئے۔ اگلے ہی روز سیکورٹی فورسز نے انھیں گرفتار کرتے ہوئے اور ان پر قتل اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات قائم کرتے ہوئے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا۔ مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ ۳ جولائی کو منتخب صدر کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد سے جاری ہے۔ صدر محمد مرسی، حریت و عدالت پارٹی کے سربراہ اور منتخب سپیکر ڈاکٹر سعد الکتاتنی، نائب مرشد عام انجینئر خیرت الشاطر اور دوسرے نائب مرشد عام ڈاکٹر رشاد البیومی سمیت بہت سے اسیر اسی روز سے گرفتار ہیں۔
دھرنے کے دوران بیرونی سفارت کاری کا ڈراما بھی رچایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ، یورپی یونین کی وزیر خارجہ اور بعض خلیجی ریاستوں کے ذمہ دار قاہرہ پہنچے۔ جان کیری قاہرہ جانے سے پہلے اسلام آباد میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران یہ بیان دے گئے تھے کہ مصری فوج نے ملک میں جمہوریت بحال کردی ہے۔ اسی بیان سے اندازہ لگا لیجیے کہ انھوں نے وہاں کیا سفارت کاری اور کیا مذاکرات کیے ہوں گے۔ واضح طور پر جانب دار مصالحت کاروں کا تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مظاہرین دھرنا ختم کردیں اور فوجی انقلاب تسلیم کرلیں۔ رہے عوام کے یہ مطالبات کہ ۶۵ سالہ فوجی اقتدار کے بعد منتخب ہونے والا صدر بحال ہو، ۶۴فی صد عوام کی تائید سے بنایا جانے والا دستور بحال کیا جائے، انقلاب کے وقت تحلیل کی جانے والی منتخب سینیٹ بحال کی جائے___ تو یہ تینوں مطالبات شاید اتنے ’نامعقول‘ تھے کہ فوجی جنرل اور مصالحت کار ان پر کوئی بات ہی کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر بیرونی سفارت کار واپس چلے گئے اور فوجی حکومت نے اعلان کردیا کہ ’اخوان‘ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے اور حکومت نے قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گویا یہ دھمکی دینے سے پہلے تو فوجی حکومت عوام پر پھول برسا رہی تھی اور اب قوت استعمال کی جائے گی۔
اس روز صرف رابعہ میدان کے ۲۶۰۰ شہدا کی فہرستیں بنیں، زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز تھی، گرفتار شدگان بھی ہزاروں میں ہیں۔ اس قیامت صغریٰ کے خلاف دو ہی روز بعد ۱۶؍اگست کو پورے ملک میں پھر مظاہرے ہوئے۔ شہر کی ۲۸ مساجد سے عوامی جلوس آکر قاہرہ کے میدانِ رعمسیس میں جمع ہوئے۔سیسی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر اسی فرعونیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مزید شہادیتں ہوئیں سیکڑوں مردو خواتین نے زخمی حالت میں لاشیں اٹھا کر قریبی تاریخی مسجد الفتح میں پناہ لی، تو انھیں ہر جانب سے محصور کردیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے کے محاصرے کے بعد لال مسجد اسلام آباد جیسی کارروائی کرتے ہوئے مزید بے گناہوں کا خون سر لے لیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے سے جن کے حلق سے پانی کا قطرہ تک نہیں اُترا تھا، انھیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے خواتین سمیت بڑی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا۔ پھر اگلی ہی صبح گرفتار شدگان سے بھری ایک پولیس بس پر گولیاں اور جلا دینے والی گیس پھینک کر ۳۸قیدیوں کو شہید کردیا گیا۔ کس قیامت در قیامت کا ذکر کیا جائے۔ مصر کی حالیہ تاریخ میں ایسی درندگی اور سفاکیت کی مثال نہیں ملتی۔
ان انوکھے دہشت گردوں سے البتہ ایک خطرناک اسلحہ بڑی تعداد میں ضرور برآمد ہوا۔ ان میں سے ہر ایک نے سینے سے قرآن لگا رکھا تھا۔ کتنے ہی ایسے شہدا کی میتیںملیں کہ جان دے دی، لیکن قرآن سینوں سے الگ نہیں ہوا۔ انوکھے دہشت گرد تھے کہ جن کے نوجوان بیٹے ہنستے مسکراتے اپنے بازوؤں پر اپنے نام اور وارثوں کے فون نمبر لکھ رہے تھے، تاکہ شہادت کے بعد میت تلاش کرنے میں دشواری نہ ہو۔ کتنے ہی ایسے تھے کہ پورا رمضان میدان میں گزارا، ضروری سامان پر مشتمل ساتھ اٹھائے اپنے تھیلے میں اپنا کفن بھی اٹھا رکھا تھا۔ اس پر اپنامکمل نام پتا بھی لکھ رکھا تھا۔ یہی ان دہشت گردوں کی عید کی تیاری تھی۔ کتنی ہی مائیں ایسی ہیں کہ جیسے ہی اطلاع ملی’بیٹا شہادت کی مراد پاگیا‘ فوراً سجدے میں گرگئیں کہ پروردگار! اپنی سب سے قیمتی متاع پیش کردی، قبول فرمالے۔ عجیب دہشت گرد تھے کہ تحریک کے ساتھ وابستگی کے پہلے روز سے دہرانا شروع کردیتے تھے کہ : ’’اللہ ہمارا مقصود رسول ؐ ہمارے رہنما، قرآن ہمارا دستور، جہاد ہمارا راستہ، و الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ أسمی أمانینا، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلند پایہ آرزو ہے۔ رابعہ بصری اور مصر کے دیگر میدانوں میں ان دہشت گردوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ خالی خولی نعرے نہیں لگاتے، مخلصانہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا اور ان پر الزام لگانے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے، آئیے بعض دیگر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔
۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی حلف اٹھا لینے کے بعد مشکلات و مصائب کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ پہلا جھٹکا تو حلف کے وقت ہی دیا گیا۔ منتخب صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھانے کے بجاے، اسی دستوری عدالت کے سامنے جا کر حلف اٹھائے جس نے چند ہفتے قبل قومی اسمبلی توڑی تھی۔ ماہرین قانون چیختے رہے کہ قومی اسمبلی ناجائز طور پر تحلیل کردی گئی، لیکن سینیٹ تو موجود ہے، اس کے سامنے حلف ہوجائے۔ لیکن منتخب صدر کو اس کی حیثیت باور کروانا تھی۔ حلف اٹھانے کے لیے قاتل ججوں کے سامنے ہی لاکھڑا کیا گیا (صرف عدالت کے سربراہ نہیں تمام ۱۵ ججوں کے سامنے)۔ پھر آئے روز نئے سے نیا بحران سنگین ہوتا چلاگیا۔ مصر جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا، اچانک دار الحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔ منتخب حکومت نوٹس لیتی تو جواباً وہی حساب کتاب سنایا جاتا کہ ملک میں ۲۲ہزار۳سو میگا واٹ بجلی بن رہی ہے، جب کہ کھپت ۲۴ہزار ایک سو میگاوٹ ہے اور اس طرح ۱۸۰۰میگاواٹ کی کمی ہے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن پھر وہی انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی کہ جیسے ہی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا، تیسرے روز نہ صرف لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوگئی بلکہ کہا جانے لگا ہمارے پاس ۲۱۰ میگا واٹ بجلی فالتو ہوگئی ہے۔ یہی عالم پٹرول اور گیس کا تھا۔ منتخب حکومت آنے کے چند ہفتے بعد ہی پٹرول پمپوں پر طویل طویل قطاریں لگنے لگیں اور پٹرول نہ ملتا۔ حکومت آئے روز چوری شدہ پٹرول پکڑتی۔ لاکھوں گیلن پٹرول برآمد کرکے بازار میں لاتی اور چند ہی روز بعد غائب ہوجاتا۔
اب خبریں چل رہی ہیں کہ پٹرول پمپ والے گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ امن و امان ناپید ہوتا چلا گیا۔ وزیر داخلہ خود ہی جرائم کے لیے تاویلیں ڈھونڈ کر لاتا، وہی پولیس اور خفیہ ادارے جو آج ملک بھر کے کونے کونے سے حکومت مخالفین کو گرفتار کرکرکے لارہے ہیں اس وقت کہیں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہ دیتے۔ ایک فٹ بال میچ کے دوران تماشائیوں کے مابین جھگڑا ہوگیا اور پھر حیرت انگیز طور پر دونوں طرف سے ۸۴ افراد جاں بحق ہوگئے، پھر اسی بنیاد پر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے___ بعد ازاں انھی عدالتوں نے جن کے سامنے حسنی مبارک اور اس کے گماشتوں کے خلاف سیکڑوں مقدمات سماعت کے منتظر ہیں، چند ماہ میں میچ کے جھگڑے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک فریق کو پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ کمرہء عدالت سے براہِ راست نشر ہونے والے فیصلے سے پہلے ہی تیاری مکمل تھی۔ جیسے ہی فیصلہ آیا، اس کے خلاف پہلے ایک شہر اور پھر پورے ملک میں خونی مظاہرے شروع کروادیے گئے۔ ملک کے رگ و ریشے پر گذشتہ ۶۴ سال سے قابض مقتدر قوتیں خود ہی یہ سب بحران پیدا کرتیں اور پھر اپنے درجنوں ٹی وی چینلوں سے پروپیگنڈا کرتیں کہ حکومت نااہل ہے، ملک نہیں چلاسکتی۔
ان خود ساختہ بحرانوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ حکومت کو سازشی عناصر کا علم بھی تھا اور اسے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ تھا کہ ۶۴ سالہ اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ کر یہ عناصر یہی کچھ کریں گے۔ صدرمحمد مرسی نے عوام کی مدد سے خرابیوں کا مداوا کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ شخصی اقتدار مستحکم کرنے کے بجاے اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی۔ تمام بحرانوں کے باوجودملک میں پہلا آزادانہ دستور بنوایا۔ دستور ساز اسمبلی میں خود اپنے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے اپنے مخالفین کو منتخب کروایا، تاکہ متفق علیہ دستور بنے جس میں فرد واحد کے بجاے ریاست کا اقتدار مستحکم کیاجائے۔ اس موقع پر بھی اصل حکمرانوں اور بیرونی آقاؤں کی ہلہ شیری سے کیا کیا اعتراضات اور احتجاج نہیں کیے گئے۔ قصر صدارت تک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخر ریفرنڈم ہوا اور ۶۴ فی صد عوام نے دستور کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملک کو پہلا جمہوری دستور قرار دے دیا۔ دستور بن گیا تو اُمید کی جارہی تھی کہ مشکلات کے باوجود سب بے مہار مقتدر طبقات کو دستوری دائرے میں لانا ممکن ہوجائے گا۔
منتخب حکومت نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے بھی دور رس اقدامات اٹھائے۔ بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانے والی اور عالمی اقتصادی نظام میں شہ رگ کی حیثیت اختیار کرجانے والی نہر سویز اور اس کے ملحق علاقوں کے لیے مختصر عرصے میں ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کروایا گیا کہ آج بھی مکمل ہوجائے تو ملک کو سالانہ ۱۰۰ ارب ڈالر دینے کے علاوہ پورے علاقے کا تجارتی و مواصلاتی مرکز بن جائے۔ سوڈان کے ساتھ مل کر ایک ایسے زرعی منصوبے کی بنیاد رکھ دی کہ مکمل ہوجائے تو ۲۰لاکھ ایکڑ بے آباد سوڈانی زمین، مصر کے لیے غلہ اُگانے لگے۔ ۶ لاکھ ۶۰ہزار ایکڑ کا ایک اور ۳لاکھ ۶۶ ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا گیا، جس کے تحت بے زمین کاشت کاروں کو ۵ سے ۱۰ ایکڑ زمین مل جاتی۔ اس طرح کے درجنوں منصوبے ایسے تھے کہ جن کے لیے بیرونی سرمایہ کار بھی آنا شروع ہوگئے تھے اور کئی ایک پر کام بھی شروع ہوگیا تھا لیکن مخالفین کے لیے شاید یہی امر سوہان رُوح تھا کہ اگر چار سال کا عرصہ کام کرنے کے لیے مل گیا تو مصر اپنے عوام ہی نہیں خطے کے لیے ایک ایسی مثال بن جائے گا کہ پھر منتخب حکومت کو ہرانا یا ہٹانا ممکن نہ رہے گا۔
کہا گیا کہ حکومت نے حکمت کے بجاے ضرورت سے زیادہ عجلت برتی،ہر جگہ اپنے لوگ لا بٹھانے کی کوشش کی۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجاے ملک میں اخوانائزیشن شروع کردی۔ ویسے اگر منتخب صدر اپنے منشور کے نفاذ کی خاطر ہرجگہ اپنے لوگ لے بھی آتے تو انھیں اس کا حق تھا اور جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن حقائق بالکل برعکس ہیں۔ منتخب صدر نے قومی یکجہتی کی خاطر نائب صدر، وزیر اعظم اور صدارتی مشیروں سے لے کر وزیرداخلہ، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر توانائی، ۲۷ صوبوں میں سے ۲۳ صوبوں کے گورنروں اور عدلیہ کے تمام ذمہ داران تک تمام افراد یا تو وہی رہنے دیے یا پھر ان معروف قومی شخصیات میں سے لیے جن کا اخوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ذرا موجودہ حکومت کے پہلے دو ماہ بھی ملاحظہ ہوں۔ ۲۷ میں سے ۲۰ گورنر تبدیل کردیے جن میں سے ۱۷ حسنی مبارک کے دور کے فوجی جنرل ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ مصر میں اپنے صوبے کے تمام اُمور گورنر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔اسی طرح جنرل سیسی کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صدرمحمد مرسی سینیر افسروں کو نظرانداز کرتے ہوئے انھیں نیچے سے اُوپر لائے حالانکہ صدر نے صرف یہ کیا تھا کہ حسنی مبارک دور سے چلے آنے والے جرنیلوں کی توسیع ختم کر کے جس کی باری تھی، اسے فوج کی قیادت سونپ دی۔ لیکن بدقسمتی سے سیسی نے ’’ربِ عظیم کی قسم کھاکر اقرار کرتا ہوں کہ میں دستور کا پابند رہوںگا‘‘ والے اپنے عہد سے خیانت کی۔ آج پورا مصر اسے ’خائن‘ کے لقب سے جانتا ہے۔
الزام لگایا گیا کہ صدر مرسی نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرلی۔ مصری قوانین کے مطابق تمام رسائل و جرائد کے مدیران کا تعین سینیٹ کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ اس بہانے حکومت ہمیشہ اپنی مرضی کے صحافی مسلط کردیتی ہے۔ اتفاق سے صدر محمد مرسی کے دور میں مدیران کا انتخاب کیا جانا تھا۔ انھوں نے سینیٹ کے ذریعے ۱۰۰ فی صد انھی افراد کو متعین کیا جن کی تجویز خود جرائد و رسائل کی طرف سے دی گئی تھی۔ اپنی مرضی یا پسند کا ایک بھی فرد مقرر نہیں کیا۔ صدر مرسی کے ایک سالہ عہد میں صرف ایک ٹی وی چینل کو عارضی طور پر بند کیا گیا اور تین صحافیوں پر مقدمات چلائے گئے جنھوں نے ٹی وی پر ننگی گالیاں دی تھیں اور صدر کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس چینل کو بھی جلد بحال اور صحافیوں کو جلد رہا کردیا گیا۔ لیکن اب جنرل سیسی نے آتے ہی ۱۲ ٹی وی چینل بند کردیے جن کا قصور صرف یہ بتایا گیا کہ وہ صدر محمد مرسی کے حامی تھے۔ صدر مرسی پر تنقید کرنے والے صحافی حضرات ذرا جگر تھام کر یہ واقعہ بھی سن لیں کہ میدان رابعہ کے قتل عام کے بعد سرکاری اخبارات الاھرام اور الجمہوریہ کے دو سینئر صحافی ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ فوجی چیک پوسٹ تھی۔ افسر نے دونوں کو گاڑی سے اتارا، شناختی کارڈ دیکھے اور حکم دیا کہ آگے نہیں جاسکتے واپس جاؤ۔دونوں صحافی ہزاروں افراد کا قتل عام دیکھ چکے تھے، ایک لفظ بولے بغیر واپس چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ پیچھے سے فائرنگ کردی گئی، ایک صحافی شہید اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔ بعد ازاں زخمی کو ہسپتال لے جایا گیا۔ اس نے ہوش آنے پر یہ داستان سنائی جو وہاں موجود ایک دوسرے صحافی نے ریکارڈ کرکے ایک عرب ٹی وی پر نشر کروادی۔ جیسے ہی اس کا یہ بیان نشر ہوا اسے ہسپتال سے گرفتار کرکے غائب کردیا گیا اور الزام لگا دیا گیا کہ اس نے حکومت پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اب کسی کو آزادیِ اظہار یاد نہیں آتی۔ یہ تو دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔
ایک طرف تو یہ زخمی صحافی ہزاروں قیدیوں کی طرح لاپتا ہوگیا لیکن دوسری طرف ۱۴؍اگست کی قیامت صغریٰ کے دوہفتے کے اندر اندر حسنی مبارک کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ عدالت کے اس فیصلے کو کسی جگہ چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال حفاظتی نقطۂ نظر سے ایک پنج ستارہ ہسپتال میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ جنرل سیسی اور ججوں نے حقِ نمک ادا کیا اور قدرت نے یہ حقیقت طشت ازبام کروا دی کہ حسنی مبارک دور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آیا ہے۔
الزامات کا شرم ناک سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قتلِ عام کے بعد سینا کے ایک علاقے میں ۲۶ رضاکاروں کے قتل کا افسوس ناک واقعہ ہوا اور پھر ملک بھر میں درجنوں گرجاگھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ ان دونوں واقعات کا الزام بھی اخوان پر لگایا جا رہا ہے۔ رضاکاروں کے بارے میں خود وزیرداخلہ نے تین بیان بدلے ہیں۔ پہلے کہا کہ فوجی قتل ہوئے۔ یاد دلایا گیا کہ ایمرجنسی کے باعث فوجیوں کی تمام چھٹیاں منسوخ ہیں تو بیان دیا کہ نہیں، رضاکار تھے، چھٹی پر جارہے تھے۔ پوچھا گیا کہ رضاکاروں کو مکمل سیکورٹی میں رخصت کیا جاتا ہے، یہ اکیلی گاڑی میں کیسے سوار تھے؟ تو کہا کہ نہیں، چھٹیوں سے واپس آرہے تھے اور اتفاقاً سب ایک دن پہلے آگئے، اس لیے سیکورٹی کا انتظام نہیں ہوسکا۔ اس مسلسل جھوٹ سے آخر کیا فرق پڑتا ہے۔ اخوان پر الزام تو لگ گیا اور وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ رہے گرجاگھر تو خودمسیحی لیڈر بیان دے رہے ہیں کہ اخوان کے کارکنان گرجاگھروں پر پہرے دے رہے ہیں۔
رب ذوالجلال کی حکمت دیکھیے کہ اخوان یہ تحریک اکیلے نہیں ایک قومی اتحاد کی صورت چلارہے ہیں۔ التحالف الوطنی لدعم الشرعیۃ (National Alliance to Support The Legitimacy) کے نام سے کئی اہم جماعتیں یک آواز تھیں۔ اب حسنی مبارک کی رہائی نے مزید عوام اور کئی گروپوں کو سیسی انقلاب کی حقیقت سے آشنا کردیا ہے۔ البرادعی جیسے مغرب کے گماشتے بھی ملک کو آگ و خون کی دلدل میں دھکیلنے کے بعد اپنا کردار کھوچکے اور اب فوجی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک سے فرار نہ ہوتے تو اب تک یقینا گرفتار ہوچکے ہوتے۔ فوجی سرپرستی میں صدرمرسی کے خلاف ’تمرد‘ (بغاوت) تحریک چلانے والا نوجوانوں کا اہم گروہ ’۶؍اپریل‘ بھی اب حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کرنے پر مجبور ہے۔ گویا ہر گزرنے والا دن مصری عوام کو فوجی انقلاب کے خلاف یک سُو کر رہا ہے۔
اسی ضمن میںایک اہم ترین اور جامع تجزیہ ایک ممتاز تحریکی عالمِ دین اور اسکالر ڈاکٹر محمداحمد الراشد کا بھی ہے۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنے ۱۰۴ صفحات پر مشتمل یہ تجزیہ ۲۰ رمضان کو کیا تھا، یعنی میدان رابعہ بصری میں وقوع پذیر قیامت سے دو ہفتے پہلے۔ لکھتے ہیں: ’’میں جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی فوری ناکامی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رابعہ میدان میں بیٹھے لاکھوں اہل ایمان کو کچل ڈالے، جیلوں میں ٹھونس دے، عوام کی مکمل زباں بندی کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ وہ اپنے پیش رو ڈکٹیٹروں کی طرح اپنے اقتدار کو ہرگز طول نہیں دے سکے گا۔ اب عوام نے عرب بہار کے ذریعے ایک بار آزادی کی جھلک دیکھ لی ہے‘‘۔ اسی تحریر میں وہ اپنے ایک سابقہ تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تحریف شدہ تلمود کے جو چند حصے اپنی اصل حالت میں باقی رہ گئے ہیں، ان کے مطابق اسرائیل کی ’ناجائز‘ ریاست اپنے قیام کے ۷۶قمری سال بعد زوال پذیر ہو جائے گی۔ اس حساب سے یہ تاریخ ۲۰۲۲ عیسوی بنتی ہے‘‘۔ انھوں نے اس ضمن میں بسام جرار کی کتاب زوالُ اسرائیل ( اسرائیل کا زوال) اور سفر الحوالی کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے خود اسرائیل میں کی جانے والی ان بحثوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ کیا اسرائیل اپنا وجود باقی رکھ سکے گا؟ محمد الراشد نے غیب دانی کے دعوے کی بار بار نفی اور اللہ أعلم کی تکرار کے ساتھ بہت سے حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ مصر میں وقوع پذیر حالیہ واقعات پورے خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس عرصے میں اہل فلسطین بالخصوص اہل غزہ پر بھی مصائب کے مزید پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے جہاد اور اہل مصر اپنی ملک گیر پُرامن تحریک اور قربانیوں کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ سرخرو ہوں گے۔ معزول صدر محمدمرسی پر ابھی تک کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ الزام ہے تو صرف یہ کہ انھوں نے حماس کے ساتھ خفیہ بات چیت کی ہے۔ یہ الزام اور بات بے بات اہلِ غزہ پر الزامات، کیا اسی اسٹیج کی تیاری ہے؟
ایک اور مجاہد صفت عالم دین اور مصر کی سپریم کونسل براے دینی اُمور کے سابق سربراہ ڈاکٹر صلاح سلطان جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے، قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں کہ حَتّٰیٓ اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ نَصْرُنَا (یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔یوسف ۱۲:۱۱۰)، اہل ایمان کو یاد دلارہے ہیں کہ بعض اوقات مصائب اور تکالیف اس درجے کی ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کے مطابق خود رسول ؑ مایوس ہونے لگے اور سمجھے کہ وہ اور ان کی دعوت جھٹلا دی گئی، لیکن جب جبر و جور اور تکالیف عروج تک جا پہنچیں تو اللہ کی نصرت آن پہنچی۔
حریت و عدالت کے قائم مقام صدر محمد البلتاجی کی ۱۷ سالہ صاحبزادی اسماء بلتاجی بھی رابعہ میدان میں سینے پر گولی کھاکر شہید ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر محمد بلتاجی خود اس وقت روپوش رہ کر قیادت کر رہے ہیں، ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے۔ تدفین کے بعد شہید بیٹی کے نام اپنے طویل خط میں لکھتے ہیں: ’’عزیز از جان بیٹی! میں تمھیںخدا حافظ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ کل جنت میں ملیں گے۔ بیٹی، تم طاغوت کے سامنے سربلند کھڑی رہیں اور بالآخر اس اُمت کے احیا کے لیے جان قربان کردی۔ بیٹی! تمھیںہمیشہ شکوہ رہا کہ میں تمھیں وقت نہیں دے سکا___ میدان رابعہ میں آخری ملاقات کے دوران بھی تم کہہ رہی تھیں:’’ بابا ہمارے ساتھ رہ کر بھی آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ بیٹی یہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں باہم ملاقاتوں سے ہم سیر ہوہی نہیںسکتے۔ دُعا کرو ہم جنت میں اکٹھے ہوجائیں___ پھر جی بھر کے باتیں کریں گے۔ وہاں ہم کبھی نہیں بچھڑیں گے۔
جانِ پدر!میں نے تمھاری شہادت سے دو روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ تم نے دلہنوں کا لباس پہنا ہوا ہے، انتہائی نفیس اور انتہائی خوب صورت___ تم خاموشی سے آکر میرے پاس لیٹ گئیں۔ میں نے پوچھا کیا آج رات تمھاری شادی ہورہی ہے؟ تم نے جواب دیا: ’’نہیں بابا رات کو نہیں، دوپہر کو‘‘۔ پھر دو روز بعد جب مجھے تمھاری شہادت کی خبر دی گئی، تو معلوم ہوا تم ظہر کے وقت شہید ہوئی ہو۔ مجھے تمھاری شہادت کی قبولیت کا یقین ہوگیا اور میرا یہ یقین مزید راسخ ہوگیا کہ ہم حق پر ہیںاور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور حق یقینا غالب ہوکر رہے گا‘‘۔
مصر کے خونی حکمرانو! اس کی سرپرستی اور پشتیبانی کرنے والو! کیا اس جذبۂ ایمانی اور حق کی جدوجہد کو شکست دے سکو گے۔ پروردگار کا یہ فرمان بھی کان کھول کر سن لو: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس انجام کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘۔
مصر کے بارے میں تحریک مکمل ہوچکی تھی کہ شام میں بھی قتل عام کی نئی خبریں آنے لگیں۔ کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعے ۲ہزار سے زائد بے گناہ شہری شہید کردیے گئے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ شام کا خونی درندہ گذشتہ تقریباً اڑھائی سال میں ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں تہِ خاک کرچکا ہے۔ مصر میں ہزاروں جانوں کے قتل عام پر زبانی جمع خرچ کرنے والی مسلم اور عالمی برادری خون کی اس ہولی پر بھی گونگا شیطان بنی ہوئی ہے۔ بشار اور سیسی جیسے خوں خوار ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ بشار کا خاتمہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا لیکن دنیا کو اصل خطرہ یہ ہے کہ ’اسرائیل‘ کے پڑوس میں اس کے وجود کے لیے خطرہ بننے والی کوئی حکومت نہ آجائے۔ قرآنی صدا بلندتر ہورہی ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے، جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
وَ مَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o(الانعام ۶:۱۲۳) دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔
۱۵ جون کو انقرہ میںاور ۱۶ جون کو استنبول میں بلا مبالغہ لاکھوںافراد جمع تھے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوگان ان سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے یکم جون سے یہ ہنگامہ آرائی کیوں شروع کی...؟ اس لیے کہ ہم نے مئی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی تھیں.... ترکی اور ترک عوام کے دشمنوں کو یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہورہیں اور انھوں نے ایک بڑی سازش کے حصے کے طور پر میدان تقسیم سے شوروشغب کا آغاز کردیا۔ ہم نے مئی کے مہینے میں....، اور پھر وزیراعظم اردوگان نے اپنی تازہ کامیابیوں کی طویل فہرست بیان کرنا شروع کردی۔ لیکن اس فہرست کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا غور کیجیے کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکی میں لاکھوں افراد کے عظیم الشان پروگرام ہوئے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت دنیا میں ان کی کوئی خبر نمایاں نہیں کی گئی۔ کیا یہ امر بلا سبب ہے کہ استنبول کے میدان تقسیم میں چند سو افراد کی ہنگامہ آرائی اور پھر خیمے لگاکر بیٹھ جانے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اور تصویریں تو الیکٹرانک میڈیا بھی دے اور پرنٹ میڈیا بھی، لیکن لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور اس کی کوئی تصویر، کوئی خبر دکھائی، سنائی نہ دے۔ عین اسی روز کہ جب دار الحکومت انقرہ میں لاکھوں افراد طیب اردوگان کا خطاب سن رہے تھے، ایک پاکستانی ٹی وی چینل استنبول کے میدان تقسیم سے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس کی طرف سے واٹر گن استعمال کیے جانے کے مناظر دکھا رہا تھا، انقرہ مظاہرے کا نہ کوئی ذکر ہوا اور نہ کوئی جھلک دکھائی دی۔ ذرائع ابلاغ کا یہ بھینگا پن اتفاقیہ یا عارضی نہیں، قصداً اور مستقل ہے۔
آئیے اس کے اسباب کا ذکر کرنے سے پہلے طیب اردوگان کی بات مکمل کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے: انھوں نے یکم جون سے اس لیے ہنگامہ آرائی شروع کی کیوں کہ ہم نے مئی میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی آخری قسط (۴۱۲ ملین ڈالر) بھی ادا کردی۔ ہم جب برسراقتدار آئے تھے تو ترکی پر آئی ایم ایف کا ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر (تقریباً ساڑھے ۲۳ کھرب روپے) کا قرض تھا۔ ہم نے نہ صرف وہ تمام قرض چکا دیا، بلکہ اب آئی ایم ایف ہم سے قرضہ مانگ رہا ہے۔ ہم جب برسراقتدار آئے تو سود کی شرح ۶۳ فی صد ہوچکی تھی۔ اب یہ شرح ۶ء۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یہ تمام سود عوام کی جیب سے ادا ہوتا اور مخصوص سودی لابی کی جیبوں میں جاتا تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ان کے یہ ذرائع آمدن مسدود کردیے ہیں، تو ان سب کو تشویش اور تکلیف ہورہی ہے کہ ترکی ان کی گرفت سے آزاد ہوگیا ہے۔ ہم نے استنبول میں ۴۶ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک تیسرے اور عظیم الشان ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ ہم نے گذشتہ ماہ انقرہ میں جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق ترکی میں ۲۲ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا۔ ہم نے براعظم ایشیا اور یورپ کو ملانے کے لیے آبناے باسفورس کے اوپر ایک تیسرے پل کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے جس پر اڑھائی ارب ڈالر لاگت آئے گی، لیکن اس سے استنبول میں ٹریفک کا نظام مزید بہتر ہوجائے گا۔ اس پر پر سڑک کے علاوہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی۔ ترکی میں اقتصادی ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے گذشتہ ماہ استنبول اسٹاک ایکسچینج نے تجارت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب برسر اقتدار آئے تھے تو ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف لڑھک رہا تھا۔ تب ملکی خزانے میں صرف ۲۷ ارب ڈالر باقی رہ گئے تھے۔ ملک بھاری قرضوں تلے سسک رہا تھا۔ ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر تو صرف آئی ایم ایف ہی کے ادا کرنا تھے۔ اب ہم نے نہ صرف قرضوں سے نجات پالی ہے بلکہ گذشتہ ماہ ملکی خزانہ ۱۳۵؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ ہماری درآمدات کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے ملک میں قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی نئے اور حقیقی معاہدے کیے ہیں....‘‘۔
اردوگان اپنے تازہ کارناموں اور کارکردگی کی تفصیل سنا رہے تھے، لیکن باقی فہرست کو چھوڑ کر ذرا اسی آخری نکتے کا جائزہ لیجیے۔ ۸۰ ملین افراد پر مشتمل ترک آبادی میں سے کرد نسل سے تعلق رکھنے والے ۲۰فی صد بتائے جاتے ہیں۔ پوری ترک تاریخ میں کردی النسل اور ترکی النسل کا اختلاف شدت سے اٹھایا گیا ہے۔ ایک ہی ملک کے شہری اور مکمل دینی و تاریخی وحدت کے باوجود اقلیت کو ہمیشہ اکثریت سے شاکی رکھا گیا۔ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی تحریکیں اٹھانا اور انھیں ہوا دینا استعمار کا قدیم ہتھیار ہے۔ ’کرد‘ کا ایک لفظ دماغوں میں بٹھا دینے سے صرف ترکی ہی میں نہیں، چار اہم مسلم ممالک میں فتنے کی آبیاری ہوتی ہے۔ ترکی کے علاوہ شام، عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ کسی ایک ملک میں علیحدہ کرد ریاست کا وجود ان سب ممالک میں فتنہ جوئی کا ذریعہ اور سبب بنایا جاسکتا ہے۔ ان تمام پڑوسی ممالک میں کرد تحریک نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
ترکی میں پی کے کے (PKK) کے نام سے برسہا برس سے مسلح تحریک فعال تھی۔ اغوا، قتل، دھماکے اور مار دھاڑ ان کا اہم ہتھیار تھی۔ انھوں نے کم و بیش ہر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ طیب اردوگان نے اس چیلنج کو ہمہ پہلو انداز سے حل کرنے کا سفر شروع کیا۔ ۱۹۹۹ء میں پی کے کے، کے سربراہ عبداللہ اوجلان کو کینیا سے گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں ہے اور اس پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ہر دور میں نظر انداز کیے جانے والے کرد علاقوں میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع کردیا گیا۔ حال ہی میں ترکی، چین اور عراق کے مابین معاہدہ ہوا کہ عراق سے ایک تیل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ اگلے ماہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونا ہے، جس کے نتیجے میں روزانہ ۲۰ لاکھ بیرل تیل عراق سے کرد اکثریتی آبادی کے شہر دِیار بکر پہنچا کرے گا۔ خود اوجلان نے تین ماہ قبل ترکی کے خلاف تمام تر مسلح کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک حکومت نے ہتھیار رکھ دینے والے تمام افراد کے لیے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جو ہتھیار ڈالنے کے بجاے ملک سے نکل جانا چاہے، اسے نکل جانے کی بھی اجازت ہے۔ اس ساری پالیسی کے نتیجے میں صرف ترکی ہی میں نہیں ان چاروں ممالک میں کرد مسئلے کے حل کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ گویا کہنے کو تو یہ طیب اردوگان کی تقریر کا ایک جملہ ہے کہ ’’ہم نے وحدت اور قومی یک جہتی کی خاطر جنوب مشرقی علاقے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دوررس معاہدے کیے‘‘، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو یہ ترکی ہی نہیں پورے خطے سے اس نسلی اختلاف کا ناسور ختم کرنے کا آغاز ہے۔
یکم جون سے شروع ہونے والے مظاہروں کی بظاہر وجہ تو یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت استنبول کے قلب میں واقع معروف چوک ’تقسیم‘ کا نقشہ تبدیل کرکے وہاں واقع تاریخی غازی (یا جیزی Gezy) پارک ختم کررہی ہے اور اس کے پودے اُکھاڑ رہی ہے۔ پورے چوک کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کرکے وہاں ایک تجارتی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے۔ لیکن ان تمام ہنگاموں کی اصل وجہ حکومت کی یہی سابق الذکر دُوررس اور بتدریج اصلاحات ہیں۔ تقسیم چوک کے نئے منصوبے میں وہاں موجود اتاترک کلچرل سنٹر کے قریب ایک شان دار جامع مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اتاترک سنٹر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کمال اتاترک کی روح کو تازیانے لگانے کے مترادف ہے۔
طیب اردوگان پرایک الزام یہ لگایا جارہا ہے، خود کئی پاکستانی ’شہ دماغ‘ بھی اسے دہرا رہے ہیں کہ وہ ترک قوم کو تقسیم کررہا ہے۔ یہ طعنہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ ملک کو سیکولر اور بنیاد پرستوں میں تقسیم کررہا ہے۔ اب ذرا ایک نظر دوبارہ انقرہ و استنبول کے مظاہروں کو دیکھیے جن میں لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ان مظاہروں میں ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ اردوگان اس کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’آج اس مظاہرے میں پورے ترک معاشرے کی نمایندگی ہے۔ صرف مرد ہی نہیں بڑی تعداد میں خواتین بھی ہیں۔ صرف باحجاب ہی نہیں حجاب کے بغیر بھی ہیں اور سب شانہ بشانہ کھڑی ہیں‘‘۔ جسٹس پارٹی کو جن ۵۱فی صد عوام نے ووٹ دیے ہیں وہ سب بھی اسلام پسند نہیں۔ ان میں معاشرے کے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں لیکن کچھ لوگ آفتاب روشن کو انگلیوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔
بے انصاف ناقدین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اردوگان ڈکٹیٹر ہے، کسی کی نہیں سنتا، جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ طیب اردوگان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ اس کے کئی معاندین ہی نہیں بہت سارے دوستوں کا شکوہ بھی یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے۔ سیکولر دستور ختم کرنے اور ملک سے فحاشی ختم کرنے کے لیے جو کام دو ٹوک انداز سے پہلے ہی روز کرگزرنا چاہییں تھے وہ آج تک نہیں کیے۔ اردوگان ڈکٹیٹر ہوتا تو جس طرح اتاترک نے بیک جنبش قلم پردے، مسنون داڑھی، اذان اور قرآن کریم کا اصل متن تلاوت کرنے پر پابندی لگا دی تھی، وہ بھی سیکولر دستور ختم کردیتا۔ شراب پر مکمل پابندی لگا دیتا، پہلے ہی دن سکارف پر پابندی ختم کردیتا۔ لیکن وہ ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا کرتے ہوئے عوام کو ذہناً آمادہ کرتے ہوئے، انتہائی حکمت و احتیاط سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اقتدار کے بعد انھوں نے گذشتہ مئی ہی میں شراب پر چند پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت اب مساجد، تعلیمی اداروں، یوتھ ہاسٹلز کے قریب شراب فروشی اور علانیہ شراب نوشی پر پابندی ہوگی۔ رات ۱۰ بجے کے بعد اور شاہراہِ عام پر شراب نوشی ممنوع ہوگی۔ نوعمر بچوں کو شراب فروشی منع ہوگی۔
اردوگان لاکھوں افراد کے حالیہ مظاہروں سے خطاب میں کہہ رہے تھے:’’ہم نے مسلسل صبر کیا۔ تم نے ہماری بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا ... ہم نے صبر کیا، تم نے ہمیں گالیاں دیں .... ہم نے صبر کیا۔ تم نے مساجد کی بے حرمتی کی .... ان کے اندر غلاظت پھینک دی.... مسجدوں میں داخل ہوکر شراب نوشی کی، ہم نے صبر کیا... لیکن صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے .... اب ہم عدالت و قانون کے ذریعے ان زیادتیوں کا جواب دیں گے۔ ان کے ناقدین کی نگاہ میں شاید یہی بات ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اپنے اللہ کو منانے اور انسانیت کو بچانے کے لیے ۱۰سال کے صبروتدریج کے بعد اُٹھائے جانے والے یہ معمولی اقدامات بھی سیکولر لابی کو ہضم نہیں ہورہے ۔
طیب اردوگان، جسے بعض پاکستانی اخبارات میں بھی ڈکٹیٹر اور آمر کہا جارہا ہے، کی ڈکٹیٹر شپ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے پرتشدد مظاہرہ کرنے والوں کو بھی وزیراعظم ہاؤس بلاکر ان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر واقعی آپ لوگوں کے مطالبات مبنی برحقائق ہوئے تو وہ انھیں فوراً قبول کرلیں گے۔ ڈکٹیٹر اردوگان نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر تمھیں اپنے مطالبے پر اصرار ہے تو آؤ ہم استنبول کے شہریوں میں اس پر ریفرنڈم کروالیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔
تقریباً آٹھ ماہ بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اردوگان نے اس کی مہم انتخابات سے چند ہفتے پہلے چلانا تھی لیکن ہنگاموں کی حالیہ لہر کے بعد انھوں نے ابھی سے بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم شروع کردی ہے۔ انقرہ و استنبول کے بعدانھوں نے جمعہ ۲۱ جون سے ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پروگرامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ قرآن کریم کی حقانیت قدم قدم پر اپنی سچائی منواتی ہے: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، ’’ہوسکتا ہے کہ کوئی بات تمھیں بری لگ رہی ہو اور اسی میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔
حسنی مبارک کی باقیات اور ان کے عالمی سرپرستوں نے پورا سال مصر میں اُودھم مچائے رکھا۔ ’مرسی کا پہلا سال‘ کے عنوان سے قائم ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ایک سال میں اپوزیشن نے ۲۴ ملین مارچ کیے، یعنی اوسطاً ہرماہ دو۔ ۵ہزار سے زائد مظاہرے اور پُرتشدد ہنگامے کیے۔ ۵۰پروپیگنڈا مہمات چلائی گئیں اور ۷ہزار سے زائد احتجاجی دھرنے ہوئے۔ اور اب ۳۰جون کو کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا جا رہا ہے: تَمَرُّد (بغاوت) کے نام سے مظاہروں اور ہنگاموں کی تیاری ہورہی ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے مل کر ایسی فضا بنا دی ہے کہ گویا کوئی خطرناک آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اپوزیشن پُرامن مظاہرے کرنا چاہے تو خواہ روزانہ کرے لیکن اس کا اصل ہتھیار خوں ریزی اور جلائو گھیرائو ہے۔ ریہرسل کے طور پر ۱۹جون کو بھی اخوان کے مختلف دفاتر پر حملے کرتے ہوئے ۳۰۰کارکنان لہولہان کردیے گئے۔ اسی طوفان میں فوج کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دے۔ فوج کے سربراہ اور وزیردفاع عبدالفتاح سیسی نے ۲۳جون کو صدرمرسی سے ملاقات و مشورے کے بعد بیان کردیا کہ ’’فوج خاموش تماشائی نہیں رہے گی‘‘۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ’’ہنگامہ آرائی کے بجاے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائے‘‘ لیکن پاکستانی اخبارات سمیت پورے عرب اور عالمی میڈیا نے ان کا یہ بیان اس انداز سے نمایاں کیا کہ ’’فوج نے اخوان کو تنبیہہ کردی‘‘۔ دوسری طرف حسنی مبارک کے تعین کردہ جج ایک کے بعد دوسرا متنازعہ فیصلہ صادر کیے جارہے ہیں۔ تازہ ترین فیصلے میں دستور ساز اسمبلی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کا الیکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا ہے اور صدرمرسی پر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام لگاکر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ترکی اور مصر میں یہ سب اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہو رہا۔ بیرونی آقا، فرعونی دور کی باقیات بعض مسلمان ممالک اور عالمی سرمایہ سب اس الائو پر تیل چھڑک رہے ہیں۔
دوسری جانب اردوگان کی طرح اخوان اور اس کی حلیف جماعتوں نے بھی رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے۔ ۲۱جون کو قاہرہ میں لاکھوں افراد نے ’تشدد نامنظور‘ کے عنوان سے مظاہرہ کیا ہے۔ قاہرہ کے اس عظیم الشان مظاہرے کی کوئی تصویر، کوئی خبر بھی دنیا کو دکھائی نہیں دی لیکن اخوان پُرعزم ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ دکھائیں یا نہ دکھائیں، اگر اللہ کی رضا اور عوام کی تائید اسی طرح شاملِ حال رہی تو ’آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا‘۔
جب سے عرب بہار کا آغاز ہوا، پورے عالمِ اسلام میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ عرب ممالک ہی نہیں، مختلف خطوں میں تاریخ رقم کی جانے لگی۔ ہم یہاں ۱۲ ممالک کا تذکرہ کر کے حالات کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ
حالیہ حکومت نے قومی فوج کی تشکیل اور متحارب گروہوں میں مصالحت شروع کروادی ہے۔ جنگ میں جھونکے جانے والوں اربوں ڈالر کی نسبت تعمیر نو کے لیے درکار امداد کہیں کم ہے، لیکن عالمی ساہوکاروں کو اب بھی جنگ ہی زیادہ مرغوب ہے۔ ترک حکومت نے حالیہ صومالی حکومت سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔ طیب اردوگان خود بھی اسی جنگ زدہ ملک سے ہو کر آئے ہیں۔ کئی تعمیری منصوبے شروع کروائے ہیں۔ عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش کریںتو ان کا ملک بھی امن، اصلاح، تعمیر اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
اس اتحاد کی حکومت جن تین صوبوں میں ہے وہاں باقی پورے ملک کی نسبت جرائم، رشوت اور کرپشن میں نمایاں کمی ہے۔ بالخصوص صوبہ کلنتان میں کہ جہاں مسلسل تین بار حزب اسلامی کی حکومت بنی ہے اور درویش صفت نک عبد العزیز وزیر اعلیٰ ہیں، حالات بہت بہتر ہیں۔ کئی بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں اپنے دفاتر دار الحکومت کوالالمپور سے منتقل کرکے کلنتان جارہی ہیں کیوں کہ وہاں کرپشن نہیں ہے۔ملایشیا میں انتخابات کسی بھی وقت متوقع ہیں لیکن حکومت بلاوجہ لیت و لعل کررہی ہے۔ منصفانہ انتخاب ہوں تو اسلامی تحریک اور اتحادی یقینا پہلے سے بہتر نتائج دکھائیں گے۔
بلاشبہہ عالمِ اسلام میں بیداری کی یہ لہر اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔
یہ انجینیررضاسعیدی ہیں۔ ۱۷ سال مدرسہء یوسف علیہ السلام (یعنی جیل) میں رہے، اس وقت حکومت میں اقتصادی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ڈاکٹر منصف با سالم ہیں،۱۵ سال مدرسۂ یوسف میں گزارے اور اس وقت وزیر تعلیم عالی ہیں۔ یہ عبد الکریم ہارونی ہیں، ۱۷ سال جیل میں گزارے، اس وقت وزیر مواصلات ہیں۔ یہ فتحی العیادی ہیں، ۲۰ سال ملک بدری کی زندگی گزاری، اس وقت جماعت کی مجلس شوریٰ کے اسپیکر ہیں___ تحریک نہضت کا ایک کارکن تیونس میں ہمارے پانچ روزہ دورے کی اختتامی نشست میں اپنے اہم ذمہ داران کا تعارف کروا رہا تھا۔
پوری مجلس بالخصوص ہم مہمانوں پر سناٹا طاری تھا۔ سب حیران ہورہے تھے کہ آخر اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی باوقار و محترم شخصیت رکھنے والے یہ کیسے عجیب لوگ ہیں؟ کیا یہ دیوانے ہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی ساری تعلیم، اپنا مقام و مرتبہ، اپنے اہل و عیال اور دنیا کی ہر نعمت اپنے دین اور نظریے پر قربان کردیے۔ تحریک اسلامی سے براء ت کا اظہار کردیتے تو ساری کلفتیں دور ہوجاتیں، لیکن انھوں نے الٹ فیصلہ کیا۔ اللہ سے بغاوت اور اس کے دین سے دست برداری سے انکار کرتے رہے، اور نتیجتاً جیلوں میں مزید عذاب و تشدد جھیلتے رہے۔
ہماری اس حیرت اور مجلس میں تعارف کا سلسلہ جاری تھا:یہ ڈاکٹر رفیق عبد السلام ہیں ساری جوانی ملک بدری میں گزار دی، اب ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔ یہ عبد اللطیف مکی ہیں ۱۲ سال جیل میں رہے، اب وزیر صحت ہیں۔ یہ عبد الحمید ہیں ۱۷سال جیل میں رہے، اب تحریک میں تنظیمی اُمور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ نور الدین العرباوی ہیں ۱۷ سال جیل میں رہے، اب سیاسی جماعتوں سے روابط کے ذمہ دار ہیں۔ یہ محمد عکروب ہیں ۱۷سال جیل میں رہے۔ یہ ریاض الشعیلی ہیں پانچ سال جیل میں رہے..... بات کاٹتے ہوئے راشد غنوشی صاحب نے تبصرہ کیا: ’’صرف پانچ سال___ یعنی بھرپور دسترخوان پر بھی صرف سینڈوچ پر اکتفا___؟‘‘ پوری مجلس نے قہقہہ لگایا، لیکن ہم سب سننے والوں کا تعجب جوں کا توں تھا۔ یا پروردگار یہ تیرے کیسے پراسرار بندے ہیں۔ یہ کیسا ذوق خدائی، کیسی لذت آشنائی ہے؟ سالہا سال کی قید و بند بھی ان کے ارادوں، اور حوصلوں کو شکستہ نہ کرسکی۔ اس حیرت کے ساتھ ہی یہ امر بھی قدرت کی طرف سے ایک مکمل پیغام پہنچا رہا تھا کہ دیکھو ۱۷،۱۷ سال تشدد سہنے والے مظلوم آج ایوان اقتدار میں ہیں، جب کہ جلاد عبرت کا نشان!
ہم ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے تیونس آئے تھے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ کانفرنس میں شریک تقریباً تمام مہمان شرکا پہلی بار تیونس آئے تھے۔ اس سے پہلے اس اہم اور برادر اسلامی ملک کے دروازے، مغربی سیاحوں اور ان کی آوارگی کے لیے تو کشادہ تھے، لیکن مسلم ممالک کے اکثر شہریوں بالخصوص اسلامی شناخت رکھنے والے ہر غیر تیونسی پر بند تھے۔ غیر تیونسی ہی کیا خود ایک کروڑ ۶ لاکھ نفوس پر مشتمل تیونس کی ساری آبادی بھی عملاً ایک قید خانے ہی میں بند تھی۔ گذشتہ دور حکومت میں ۳۰ ہزار کارکنان تو صرف تحریک نہضت کے گرفتار رہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والے ہزاروں افراد بھی گرفتارِ بلا رہے۔ بائیں بازو کی ایک جماعت کے سربراہ اور معروف دانش ور منصف المرزوقی جو اس وقت نہضت کے حلیف اور اس کے تعاون سے منتخب صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہیں، بھی گرفتار رہے۔ چونکہ ان کا تعلق اسلامی تحریک سے نہیں تھا، چار ماہ کی قید تنہائی کے بعد ہی مغربی دنیا اور نیلسن منڈیلا کی ذاتی مداخلت پر رہا کردیے گئے، پھر وہ فرانس چلے گئے۔ ان کے لیے بھی ملک واپسی کے دروازے ۱۰سال بعد بن علی کے زوال کے بعد ہی کھلے۔
تیونس شمالی افریقہ کا ایک انتہائی خوب صورت اور زرخیز ملک ہے۔ دار الحکومت کانام بھی تیونس ہی ہے۔ اگرچہ ایک لاکھ ۶۲ہزار ایک سو۵۵ مربع کلومیٹر کے کُل رقبے کا ۳۰ فی صد صحراے اعظم کا حصہ ہے، لیکن باقی سرزمین زرخیز ہے۔ بحیرۂ روم پر ۱۳۰۰ کلومیٹر لمبا ساحل خاص طور پر خوش گوار ہے۔ یہاں نورِ اسلام کی کرنیں حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کے زمانے ہی میں پہنچ گئی تھیں۔ یورپ کی جانب خلافت عثمانیہ کی پیش رفت میں بھی تیونس کا کردار نمایاں تھا۔ یہاں سے پھیلنے والی علم کی روشنی نے ساری مسلم دنیا کو منور کیا۔ یہاں واقع جامعۃ الزیتونہ ( الزیتونہ یونی ورسٹی) مصر کی معروف جامعۃ الازہر سے بھی پہلے قائم ہوئی تھی۔ جامعہ الازہر کے پہلے سربراہ جناب محمد الخضر حسین جامعۃ الزیتونہ ہی سے بھیجے گئے تھے۔ ابن خلدون اور علامہ الطاہر بن عاشور جیسے جلیل القدر علما کا تعلق بھی تیونس ہی سے ہے۔ الزیتونہ ان کی مادر علمی تھی۔ الجزائر کے مردِ حُر امام عبد الحمید ابن بادیس بھی الزیتونہ کے دروس علمی سے مستفید ہوئے۔ بدقسمتی سے سابق حکمرانوں نے الزیتونہ کے اس منارہء نور کو ایک بے جان جسم بنا دیا۔
کانفرنس کے تمام سیشن ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوئے تھے لیکن اختتامی سیشن تاریخی جامعۃ الزیتونہ کے ہال میں رکھا گیا تھا۔ طلبہ، اساتذہ اور شرکا کے جمگھٹے میں سے ہم بمشکل راستہ بناتے ہوئے یونی ورسٹی کے ’سب سے بڑے‘ ہال کے اندر پہنچے تو سخت حیرت ہوئی۔ ہال میں بارہ بارہ کرسیوں کی ۱۲ قطاریں تھیں، یعنی عظیم اور تاریخی یونی ورسٹی کے سب سے بڑے ہال میں کُل صرف ۱۴۴ نشستیں تھیں۔ راہ داریوں اور سیڑھیوں پر لوگ بیٹھے تھے، باقی طلبہ کھڑکیوں سے لگے بیٹھے تھے یا پھر باہر میدان میں کھڑے کارروائی سن رہے تھے۔ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالسلام جلیل بہت فعال، متحرک اور خوش گوار شخصیت کے مالک ہیں۔ خیر مقدمی کلمات میں بتایا کہ آپ کو ہوٹل کے ’تنگ‘ ہال سے اس ’بڑے‘ ہال میں اس لیے لائے ہیں کہ آپ خود گذشتہ دور کی علم دوستی کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس موقع پر جناب راشد غنوشی نے اعلان کیا کہ ان شاء اللہ ہم الزیتونہ کا اصل مقام بحال کرتے ہوئے اسے افریقہ کی سب سے اہم یونی ورسٹی بنائیں گے۔
جامعۃ الزیتونہ کی طرح دار الحکومت تیونس میں قائم جامع مسجد زیتونہ بھی عالم اسلام کا ایک روشن تارا ہے۔ ۵۰ ہجری میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن نافعؓ نے رومیوں کو شکست دیتے ہوئے شمالی افریقہ کے پہلے باقاعدہ شہر قیروان کی بنیاد رکھی تھی۔ قیروان اب تیونس کا اہم شہر ہے اور اس کی جامع مسجد عُقبہ بن نافعؓ ایک انتہائی اہم اور یادگار ثقافتی ورثہ۔ دونوں مساجد علم کا گہوارا ہوا کرتی تھیں۔ ہر دور میں ان کا یہ مقام مسلّمہ تھا۔ مساجد کے ساتھ عظیم الشان لائبریریاں بھی قائم تھیں جنھیں ’دار الحکمت‘کہا جاتا تھا۔ لیکن ۱۵۷۳ء میں ہسپانوی فوجوں نے اسے تاراج کردیا، اس کی نایاب لائبریریاں برباد کردیں، لیکن اصل بربادی ۱۹۵۶ء میں خود تیونس کے ایک سپوت اور خودکو ’ولی امرالمسلمین‘ قرار دینے والے، فرانسیسی استعمار کے غلام حبیب بورقیبہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس نے الزیتونہ یونی ورسٹی کی طرح جامع مسجد زیتونہ میں بھی تدریس کے دروازے بند کردیے۔ وہ مسجد جس کے درجنوں ستون اور ۱۲ دروازے دنیا بھر سے مشتاقان علم کے لیے اپنے بازو وا کیے رکھتے تھے۔ ہر ستون کے ساتھ کوئی نہ کوئی نابغۂ روزگار، علم کے خزانے لٹایا کرتا تھا۔ بورقیبہ نے اسے زنجیروں اور تالوں کی نذر کردیا۔ علماے کرام کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔
تیونس نے ۱۹۵۶ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ حبیب بورقیبہ پہلے صدر بنے۔ ۱۹۸۷ء میں وزیراعظم زین العابدین بن علی نے ڈاکٹروں سے یہ رپورٹ جاری کرواتے ہوئے اس کا تختہ الٹ دیا کہ’’ بورقیبہ کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔ پھر بن علی اس وقت تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا جب تک عوامی انقلاب نے دو سال قبل ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو اسے فرار ہونے بر مجبور نہ کردیا۔ آزادی کے ۵۵ برس تک پورا ملک ایک ہی ٹولے بلکہ دو افراد کی گرفت میں رہا۔ اس دوران ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ خود بھگتنے والوں کی زبان سے بھی سنیں تو اپنے کانوں پر یقین نہ آئے۔
بورقیبہ اور بن علی کی مشق ستم کا شکار رہنے والے علی سخیری اس وقت شیخ راشد الغنوشی کے مرافق خاص ہیں۔ میں نے جب ان سے باصرار پوچھا کہ آخر یہ طویل اسیری اور مظالم برداشت کیسے کرلیے؟ کہنے لگے: انھوں نے ہمیں عزتِ نفس سمیت ہر شے سے محروم کرنا چاہا، لیکن ہزار کوشش کے باوجود وہ ہمارے دلوں میں بسے ایمان کا خزانہ نہ لوٹ سکے۔ بس اسی ایمان کے سہارے ہم زندہ و سرخرو رہے۔ ہمارے جیلر سب سے زیادہ طیش میں اس وقت آتے تھے جب ہم میں سے کوئی ان کے سامنے نماز ادا کرلیتا۔ باجماعت نماز کی کوشش تو انھیں پاگل کردیتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ نماز سے روکنے کے لیے وہ ہمیں اجتماعی طور پر مکمل بے لباس کردیتے۔ قیدیوں کو ان کے باپ، دادا یا تحریکی قائدین کے ساتھ اکٹھے کسی تنگ کوٹھڑی میں اس حالت میں ٹھونس دیا جاتا کہ کسی کے بدن پر کپڑے کا چیتھڑا تک باقی نہ رہنے دیا جاتا۔ ایسا انسانیت سوز سلوک کرتے ہوئے عام طور پر یہ طعنہ بھی دیا جاتا: ’’لو ذرا اب باجماعت نماز ادا کرکے دکھاؤ‘‘۔
ایک اور سابق اسیر سعد بتارہے تھے کہ ’’شرفِ انسانیت سے محروم کردینے کی کوشش کرنا تو ان فرعون حکمرانوں کا سب سے پہلا اقدام ہوتا تھا۔ گرفتار شدگان خواتین ہوں یا مرد، بوڑھے ہوں یا بچے، عموماً اذیت کی سب سے پہلی ’خوراک‘ بے لباسی ہی کی صورت دی جاتی۔ ایک اور اسیر بتارہا تھا کہ انھوں نے ہماری کوٹھڑی کی چھت میں ایک سوراخ بنادیا تھا تاکہ وہاں سے اچانک جھانکتے ہوئے ’جرم نماز‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاسکے۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا: اب بھلا اپنے رب کے ساتھ ملاقات کرنے سے بھی کوئی کسی کو روک سکتا ہے۔ ہم الحمد للہ ہمیشہ فرائض ہی نہیں، نوافل کا اہتمام کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ہمیں ٹکٹکی میں کس دیا جاتا، چھت سے ٹانگ دیا جاتا، ہم اس حالت میں بھی اللہ کے حضور سجدۂ بندگی بجا لانے میں کامیاب ہوجاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک کہ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یا ’’نمازمومن کی معراج ہے‘‘، جتنا اس حالت میں سمجھ میں آتا تھا، اس سے پہلے کبھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔
فرعونی دور بالآخر لَد گیا۔ تیونس سمیت کئی ممالک میں عوام کو ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لینا نصیب ہوا۔ اب موجودہ دور میں نئے چیلنج اور خطرات درپیش ہیں۔ ایک طرف گذشتہ نصف صدی تک ملک لوٹنے والے اور اپنے اندرونی و بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام سے کھلم کھلا دشمنی رکھنے والے ہیں۔ ۵۷ سال تک ایک مخصوص ماحول اور یک طرفہ پروپیگنڈے کے سایے میں پلنے والی نئی نسلوں کا قابل لحاظ حصہ بھی نادانی، غفلت یا لاعلمی کے باعث گاہے ان کا ہم زباں بن جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا خطرناک ہتھیار بھی تاحال اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف عہد سابق سے اظہارِ براء ت کرنے والے عوام کی غالب اکثریت ہے۔ باہم منقسم ہونے اور ابلاغیاتی وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر کمزور ہوتی محسوس ہوتی ہے، لیکن شکر ہے کہ بن علی سے نجات کے بعد اکثر اہم مواقع پر یک جائی کا اظہار کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
ملک میں دستور سازی کا عمل آخری مراحل میں ہے۔ حالیہ دستور ساز اسمبلی آیندہ جون جولائی تک دستور بناکر تحلیل ہوجائے گی اور دوبارہ عام انتخابات ہوں گے۔ حالیہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی تحریک اسلامی نے ۵۷ سالہ غلاظت و فساد سے نجات پانے کے لیے صبروحکمت اور تدریج کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کی اس پالیسی کو کچھ لوگ پسپائی بلکہ بعض اوقات اقتدار کی خاطر اصول و نظریے سے دست برداری کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ یہ طعنے سن کر اپنی جوانیوں اور بڑھاپے کے طویل مہ و سال جیلوں کی نذر کردینے والوں کے ہونٹوں پر کڑوی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بعض اوقات بے اختیار کہہ بھی اٹھتے ہیں کہ پسپائی اور دست برداری اختیار کرنا ہوتی تو ’تلواروں کے سایے میں نماز عشق‘ کیونکر ادا کرتے ۔
اس ضمن میں شیخ راشد الغنوشی نے ایک بہت بنیادی اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل بات کہی۔ دستوری مسودے میں ’شریعت‘ اور ’حاکمیت اعلیٰ‘ جیسے الفاظ درج کرنے کے خلاف پروپیگنڈا اور محاذ آرائی عروج پر جاپہنچی، تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ انقلاب کے پہلے ہی مرحلے میں مکمل تبدیلی نہیں آسکتی اور جان رکھو کہ تغییر النفوس أولی من تغییر النصوص، نفس کی تبدیلی متن، (text) کی تبدیلی سے مقدم ہے۔ نفوس تبدیل ہوجائیں تو نصوص تبدیل کرنا بآسانی ممکن ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی گروہ اور افراد اس طریق کار سے اختلاف کرتے ہوئے فوری اور زبردستی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ تیونس کی حالیہ مخلوط حکومت کو بورقیبہ اور بن علی کی باقیات کی طرف سے جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بعض اوقات اسلامی گروہوں کی مخالفت اس سے بھی شدید ہوجاتی ہے۔ سابقہ دور میں حجاب کو تاریک خیالی قرار دیتے ہوئے قانوناً ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ عریانی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ شراب نوشی پانی کی طرح عام کردی گئی تھی۔ نسلوں کی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھیں۔ بعض اسلام پسند حضرات کا اصرار ہے کہ تبدیلی آگئی، اب بیک جنبش قلم تمام احکام نافذ کردیے جائیں۔ انھوں نے شراب کے رسیا، عریانی کے ماروں اور بے حجابی کے دل دادہ افراد کو دعوت کے ذریعے قائل کرنے اور حسن سلوک سے تبدیل کرنے کے بجاے شراب خانوں کو بموں سے اڑانے کا راستہ اختیار کرلیا۔ سیاحوں پر قاتلانہ حملے شروع کردیے اور پولیس تھانوں پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کارروائیوں کو مغربی اور عہد سابق کے وفادار ذرائع ابلاغ نے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے لیے خوب استعمال کیا، اور خود سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں بھی دین اور شریعت کے حوالے سے سنگین سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔
دعوت، محبت اور تربیت کے جاں گسل اور طویل راستے پر چلنے کے بجاے زبردستی اور عجلت کے راستے پر چلنے کا یہ رجحان کئی جگہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صہیونی حصار کے شکار غزہ میں حماس کی حکومت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اچانک ایک قصبے میں مسلح گروہ اٹھااور ایک مسجد پر قبضہ کرتے ہوئے اعلان کردیا، کہ حماس کی حکومت اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کررہی، ہم نفاذ شریعت کا اعلان کرتے ہیں۔ حماس کے ذمہ داران نے سمجھایا کہ اللہ کے بندو! کیا صہیونی مظالم، اس کا حصار، فوجی حملے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے والے فلسطینی دھڑوں کی مخالفت و عناد کچھ کم تھا، کہ اب آپ نے بھی ایک نیا بحران کھڑا کردیا ہے؟ لیکن وہ نہ صرف مصر رہے بلکہ ایک خود ساختہ عدالت سے احکامات جاری کرنے لگے، بالآخر انھیں زبردستی ہٹانا پڑا۔
یہی عالم لیبیا میں بھی جابجا دکھائی دیتا ہے۔ ۴۳ سال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہنے والے معمر قذافی نے اقتدار چھوڑنے کے بجاے اپنے ہی شہریوں کے خلاف مکمل جنگ شروع کردی۔ نتیجتاً مہلک ہتھیارایک بڑی آبادی کے ہاتھ آگئے۔ اگرچہ اکثر ہتھیار جمع کر لیے گئے ہیں لیکن کئی مسلح گروہ اور قبائل اپنی الگ مسلح شناخت پر مصر ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں دھماکے، حملے یا بغاوت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ الجزائر، موریتانیا اور مالی سمیت شمالی افریقہ کے کئی مسلم ممالک میں یہ مسلح رجحان اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ان تمام کارروائیوں کو القاعدہ اور طالبان کا نام دیتے ہیں، لیکن پروپیگنڈا اسلام کے خلاف کرتے ہیں۔
’مالی‘ کسی زمانے میں افریقہ میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن تارا ہوا کرتا تھا۔ وہاں حالیہ مسلح کارروائیوں نے پورے ملک کو باقاعدہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اگرچہ وہاں مسلح جدوجہد میں صرف اسلام پسند ہی نہیں سیکولر گروہ بھی شریک تھے، لیکن دنیا بھر میں ان کا نام کہیں نہیں آتا۔’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کی طرف سے موصولہ تفصیلی تجزیے کے مطابق، حکومت مخالف مسلح تنظیمیں دوطرح کی تھیں: (۱) ’قومی تحریک براے آزادیِ ازواد۔ یہ وہاں ازواد کے علاقے میں ایک خود مختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ (۲) نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں۔ جن میں تین گروہ نمایاں ہیں ’انصار الدین‘ یہ سب سے بڑا گروہ ہے، ’تحریک توحید و جہاد‘ اس میں مالی کے علاوہ موریتانیا کے کئی نوجوان شامل ہیں، ’القاعدہ‘ اس میں مالی کے علاوہ الجزائر کے نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں مالی کی آزادی کے بعد سے ’ازواد‘ کی علیحدگی کی یہ چوتھی اور بڑی کاوش ہے۔ اس کے آغاز ہی میں شمالی مالی کے تین صوبوں پر مسلح عناصر کا قبضہ ہوگیا، اور انھوں نے آزاد ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ تین صوبوں پر مشتمل یہ علاقہ ملک کے کُل رقبے کا دوتہائی ہے۔
بعد ازاں سیکولر اور اسلامی تنظیموں کے مابین لڑائی ہوئی۔ سیکولر گروہ کو شکست ہی ہونا تھی وہ بری طرح شکستہ بھی ہوگئے۔ اگر نئی اعلان کردہ ریاست کا قیام ہی ناگزیر تھا، اور اس میں حکمت سے کام لیا جاتا، تو شاید نقشہ مختلف ہوتا، لیکن بدقسمتی سے وہاں صرف چند ظاہری سزاؤں کا نفاذ کرتے ہوئے، ہاتھ کاٹنے، رجم کرنے اور خواتین پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دیا گیا۔ نتیجتاً پورے علاقے میں انتشار پھیل گیا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب شہری پڑوسی ممالک اور اڑھائی لاکھ کے قریب جنوبی صوبوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ اسی صورت حال کو ذرائع ابلاغ میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بالآخر فرانس نے اپنا تاریخی استعماری عہد زندہ کردیا۔ امریکا اور فرانس نے ہر ممکن کوشش کی کہ تیونس اور مصر سمیت دیگر مسلمان ممالک کو بھی اس فوج کشی میں شریک کرلیا جائے، لیکن انھوں نے صاف انکار کرتے ہوئے فرانس کو بھی اس مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ استعماری طاقتیں بنیادی طور پر مسائل حل کرنے نہیں، صورت حال کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لیے کارروائیاں کرتی ہیں۔ اسی لیے فرانس نے بھی مالی پر مکمل جنگ مسلط کردی۔ مسلح گروہوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، لیکن عوام کی مصیبتیں بھی دوچند ہوگئیں۔ مزید کئی لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوگئے اور افریقہ کو ایک بار پھر یورپی کالونی بنانے کا آغاز ہوگیا۔ یقینا فرانس کو اس فوج کشی کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ بعید نہیں کہ افغانستان کی طرح افریقہ میں ایک نئی دلدل وجود میں آجائے۔ فرانسیسی افواج کے قبضے اور موجودگی، مسلح افراد اور جماعتوں کے لیے مسلسل مہمیز کا باعث بنے گی۔ ریاست بنانے یا چلانے میں ناکام ہونے والے، گوریلا کارروائیوں میں یقینا کامیاب رہیں گے۔
مالی کا پورا مسئلہ بہت گنجلک اور اہم ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بات ہورہی تھی حکمت عملی طے کرنے کی۔ مسلح جدوجہد میں شریک مسلم نوجوان اُمت کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں۔ یہ قدسی نفوس نہ ہوں تو جہاد جیسا عظیم فریضہ پوری اُمت پر قرض بنتا چلا جائے۔ ایک کے بعد دوسری بلا اسے پھاڑ کھانے کے لیے امڈتی چلی آئے، لیکن مسلح جہاد اوردعوتی و تربیتی جہاد کے اپنے اپنے میدان ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق میں مسلح جہاد یقینا فرض عین ہے اور اس کی اعانت اُمت کا فریضہ ہے، لیکن مثال کے طور پر پاکستان، ترکی ، مصر یا تیونس کو دیکھیں، تو بانیان تحریک اسلامی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور شہید امام حسن البنا ؒنے آغاز ہی میں یہاں مسلح اور خفیہ سرگرمیوں سے احتراز کرکے نقشہء کار واضح کردیا ہے۔
تحریک نہضت تیونس کی کوشش ہے کہ عوام اور دین کی حقیقی تعلیمات کے درمیان کھڑی کردی جانے والی دیواریں گرا دی جائیں۔ عوام کو اسلامی تعلیمات کے چشمۂ صافی سے سیراب کیا جائے۔ شیخ راشد الغنوشی نے بعض متشدد گروہوں کے ساتھ بند دروازوں میں ہونے والی ایک نشست میں اپنا دل ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اصل مقابلہ سابقہ دین دشمن دور کی باقیات سے ہے۔ اسلام دشمنی کی آہنی دیواریں گر جانے کے بعد اب ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارا پورا معاشرہ عملاً سیکولر بنادیا گیا ہے۔ ہمیں کچے پھل توڑنے کے بجاے صبر کا دامن تھامنا ہوگا۔ قرآن و سنت کے پیغام میں اتنی قوت ہے کہ مثبت صورت میں عوام کے سامنے لایا جائے تو یقینا وہ سب اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اکثر حاضرین نے ان کی راے سے اتفاق کیا، لیکن بدقسمتی سے مجلس کی یہ پوری بات خفیہ طور پر ریکارڈ کرکے ذرائع ابلاغ کو دے دی گئی۔ پروپیگنڈے کا ایک نیا طوفان برپا کردیا گیا کہ ’’غنوشی شدت پسندوں کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کررہا ہے‘‘۔
تیسری جانب حلیف جماعتوں کے اندرونی معاملات و اختلافات بھی بچوں کو بوڑھا کردینے کے لیے کافی ہیں۔ آئے دن لگتا ہے کہ مخلوط حکومت گرنے والی ہے۔ گاہے بعض وزرا کے خلاف جھوٹے اسکینڈل بھی گھڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن رب ذو الجلال کی توفیق سے حکومت اور دستور ساز اسمبلی نے اکثر وبیش تر معاملات پر قابو پالیا ہے۔ تحریک نہضت اور اس کی قیادت کو یقین ہے کہ دستور کی تکمیل کے بعد انتخابات کا چیلنج بھی بخوبی گزر جائے گا اور دنیا کو ایک ایسی کامیاب، فلاحی ریاست کا حقیقی منظر دیکھنے کو ملے گا کہ جو شاید فی الحال ’اسلامی‘ نام نہ رکھتی ہو، لیکن قرآن و سنت کے نور کامل سے روشن راستوں پر گامزن ہو۔
ماں اپنے جوان بیٹے کے سرہانے کھڑی اس کے ساتھ ہونے والا اپنا آخری مکالمہ دہرا رہی تھی: ’’خالد دفتر سے آتے ہی ہمیں خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلنے لگا تو میں نے پوچھا اتنی کیا جلدی ہے۔۔؟ کہاں جارہے ہو۔۔؟ جاتے جاتے مسکراتے ہوئے شوخی سے کہنے لگا: ’’ماں تم مجھے شادی کرنے کا کہتی رہتی ہو، آج میں خود ہی حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگا کل رات صدر محمد مرسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوانِ صدر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بہت توڑ پھوڑ کی تھی___ آج اخوان کی طرف سے صدر کی حمایت میں، ایوانِ صدر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔ رات گئے اچانک معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دوبارہ ہنگامہ کیا ہے بلکہ اخوان کے مظاہرے پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو شہید و زخمی کردیا ہے۔ میرا خالد بھی زخمی ہوگیا تھا اور گذشتہ تین روز سے بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں داخل تھا۔ آج جب وہ چلاگیا ہے تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ سنائی دے رہا ہے ’’ماں! حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں۔ ماں! حوروں سے___ ‘‘ شہید کا غم زدہ باپ اور بھائی بھی قریب کھڑے تھے۔ والد نے ہاتھ میں خالد کا پیشہ ورانہ شناختی کارڈ تھام رکھا تھا۔ وہ وزارتِ داخلہ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ کارڈ پر تفصیلات درج تھیں: خالد طٰہٰ عبد المنعم رکن پروفیشنل کلب۔ کارڈ نمبر ۳۳۸۰۔ کارآمد: ۲۰۱۲ء کے اختتام تک۔ چند سال پہلے بننے والے اس کارڈ کا اندراج کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ ۲۰۱۲ء کا اختتام صرف کارڈ کی مدت ختم ہونے کی نہیں، خود خالد طٰہٰ کی مہلت حیات کا اختتام بھی ہوگا۔ خالد ٹھیک ۱۲/۱۲/۱۲ کو ’حوروں سے منگنی‘ کرنے چلا گیا وہ یقینا وہاں خوش و خرم ہوگا۔
احتجاج، مظاہرے، اعتراضات، تنقید ۔۔۔ یقینا اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔۔ لیکن دنگا فساد، گالم گلوچ اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد اس کی باقیات کو عوامی نمایندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہوئی۔ اب وہ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بظاہر تو حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر سے ہوا جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور متعین مدت کے لیے تھے۔اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن دو اسرائیلی ذرائع کچھ اور خبر دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اُمور کے اسرائیلی ماہر بنحاس عنباری نے غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک روسی ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے (Russia Today) پر کہا: ’’صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملہ، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا‘‘۔ سننے والوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔ ہرایک نے اپنی اپنی تاویل کی۔ چند روز بعد ایک معروف اسرائیلی ویب سائٹ نے اصل راز سے پردہ اُٹھادیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے سابق وزیرخارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیفنی سے ملے۔ لیفنی نے انھیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا: ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔ عمروموسیٰ اس ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کررہی تھی۔ انھوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جڑدیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’توتو مَیں مَیں‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس استعفے اور معترض علیہ شقوں کو بنیاد بناکر ملک میں ایک مناقشت شروع کردی۔ اسی اثنا میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔
انھی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کی وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعے دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا، یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰دسمبر سے پہلے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدرمرسی نے احتیاطی پیش رفت کرتے ہوئے ۲۲نومبر کا مشہور عالم (اپوزیشن کے بقول فرعونیت پر مبنی) صدارتی آرڈی ننس جاری کیا۔ اس کے چار نکات اہم ترین تھے: lدستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا، نہ دستوری کونسل ہی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔l حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں پر انقلابی تحریک کے دوران شہید کیے جانے والے افراد کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی l حسنی مبارک کے متعین کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود کو برطرف کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں کی جان بچانے کے لیے مقدمے کی قانونی بنیاد ہی کھوکھلی رکھی۔ lدستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
’خفیہ اجلاس‘ میں شریک افراد، تمام اسلام بیزار قوتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس صدارتی اعلان کی مخالفت اور تنقید کا طوفان برپا کردیا۔ پہلے ہی روز سے مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ خالد طٰہٰ جیسے ۱۱نوجوان شہید کردیے۔ اخوان کے ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف شہروں میں اخوان اور اس کی سیاسی پارٹی، حریت و عدالت کے ۴۸ دفاتر نذر آتش کردیے اور پورے ملک کو انتشار کا شکار کردیا۔
اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ الشہادۃ أسمی امانینا، ’’شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے‘‘، جیسے نعروں کی آغوش میں پلے خالد طٰہٰ جیسے لاکھوں نوجوان بھی تشدد پر اُتر آتے، تو ملک ایک ہمہ گیر خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پُرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق، ۱۵ ملین، یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد نے بیک وقت مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے اسے تقریباً نظر انداز کیا۔
صدر مرسی نے بھی بیک وقت دوٹوک موقف، لیکن لچکدار رویے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے ایک طرف تو دستوری عمل کو تیز تر کرنے کا کہا۔ ۱۰ دسمبر کا انتظار کیے بغیر ہی مسودہ مکمل کرنے کا کہا جس کے نتیجے میں دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر ووٹنگ کرتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ، ۳۰ نومبر کو صدر کی خدمت میں پیش کردیا۔ انھوں نے دستوری تقاضے کے مطابق ۱۵دسمبر کو اس پر ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد قانونی طور پر کسی کے لیے اسے منسوخ یا معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی صدر نے اپوزیشن، جج حضرات، دستوری ماہرین اور اہم دانشوروں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بعض نمایاں اپوزیشن لیڈروں سمیت ۵۰ کے لگ بھگ دستوری ماہرین نے دعوت قبول کی، لیکن ’خفیہ ملاقات‘ میں شریک تمام افراد نے دعوت مسترد کردی۔ صدر مرسی نے خیر سگالی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا افتتاح کرنے کے بعد کہا: اب آپ سب سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین باہم مشورے سے جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس کی صدارت نائب صدر جسٹس محمود مکی کے سپرد کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ طویل مشاورت کے بعد مجلس نے اتفاق راے سے فیصلہ کیا کہ ۲۲ نومبر کا صدارتی فرمان منسوخ کردیا جائے، ریفرنڈم اپنے مقرہ وقت پر ہو، صدارتی فرمان کی روح برقرار رہے اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں برقرار رہیں۔ ریفرنڈم کا فیصلہ مخالفت میں آئے تو صدر مملکت نئی دستوری کونسل تشکیل دیں جو دوبارہ چھے ماہ کا عرصہ لیتے ہوئے نیا دستوری مسودہ تیار کرے۔ فرعونیت کا طعنہ دینے والوں نے دیکھا کہ اگرچہ صدر اپنا صدارتی فرمان منسوخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، خود اخوان کے بعض رہنماؤں نے بھی یہ بیان دیا تھا، لیکن جب مذاکراتی مجلس نے منسوخی کا فیصلہ کرلیا تو صدر نے و أمرھم شوری بینہم کہتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔
اپوزیشن نے ماردھاڑ کی سیاست پھر بھی بدستور جاری رکھی، لیکن یہ صرف اپوزیشن کی پالیسی نہیں تھی۔ اخوان، صدر مرسی بلکہ اسلام اور شریعت نبوی کے تمام اندرونی و بیرونی مخالفین یک جان ہوگئے تھے۔ سیپی لیفنی کی بات تو میڈیا میں آگئی، مزید نہ جانے کس کس دشمن نے جلتی پر تیل ڈالا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی خوب خوب حق نمک ادا کیا۔ ایسی ایسی خبریں گھڑیں اور دنیا بھر میں پھیلائیں کہ صفحہء ہستی پر جن کا وجود تک نہ تھا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں یہ خبریں بلا تحقیق شائع ہوئیں اور ایک جھوٹ، اربوں جھوٹ کی شکل اختیار کرتے ہوئے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے نامہء اعمال میں ثبت ہوگئے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیا کیا نشر فرمایا: ’’صدر مرسی مسجد میں محصور‘‘۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کہا گیا: ’’مصر میں فوج سڑکوں پر آگئی‘‘۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قصر صدارت کے باہر اخوان کے نو افراد شہید کردیے گئے، تو حامی اور مخالفین دونوں سے میدان خالی کرواتے ہوئے قصر صدارت کے باہر صدارتی گارڈز کے چار ٹینک اور تین بکتر بند گاڑیاں کھڑی کردی گئیں۔ اسی ایک واقعے کو ’’فوج آگئی‘‘ کی سرخی دے کر گویا اپنی کسی خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا۔ ایک سرخی تھی: ’’مصر میں اسلامی دستور کے خلاف ہنگامے، کئی ہلاک، اپوزیشن کا احتجاج‘‘۔ گویا اسلامی دستور کے خلاف احتجاج میں اپوزیشن کے کارکنان ہلاک کردیے گئے جس پر مزید احتجاج ہورہا ہے، حالانکہ قتل کیے جانے والے تمام افراد اخوان ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اخوان نے سب کے نام پتے اور تنظیمی تعلق اور تعارف شائع کیا۔ اخوان نے ہی ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے۔ قاتلوں نے قتل بھی کیے اور پھر ’خون کا بدلہ لیں گے‘ کہتے ہوئے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ اس ابلاغیاتی یلغار کی تفصیل طویل ہوسکتی ہے لیکن صرف مزید جھلکیوں سے ہی اس کی شدت و دنائت کا اندازہ لگا لیجیے: ’’اخوان نے نہر سویز فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ ،’’اسلام پسندوں نے اہرامِ مصر کو مزار قرار دیتے ہوئے انھیں ڈھانے کا مطالبہ کردیا‘‘، ’’نئے دستور میں فوت شدہ بیوی کے ساتھ، تدفین سے پہلے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا فیصلہ‘‘، ’’صحراے سینا فلسطینیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘‘، ’’لونڈیاں رکھ سکنے کا قانون بنایا جارہا ہے، ’’دستور میں ہولو کاسٹ کی نفی‘‘۔
الزامات و تحریفات کا یہ سلسلہ ریفرنڈم کے آخری روز تک جاری رہا۔ اخوان کے مرشد عام ہر جمعرات کو اخوان کے نام ہفت روزہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ عموماً دعوتی و تربیتی موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کو مرشد عام نے مصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بیان کیں جن میں مصر کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ قرآن کریم میں ۲۴مقامات پر مصر کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں صراحتاً اور کہیں کنایتاً۔ پھر انھوںنے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بیان کیں جن میں مصر اور اہل مصر کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی نصیحت میںاہل مصر کو روے زمین کے بہترین سپاہی فرمایا ہے۔ گویا یہ لوگ فطرتاً تیار فوجیں ہیں جنھیں صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن جب قیادت ہی فاسد تھی تو اس کے سپاہیوں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس وقت مصر کو بھی حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی بہتر رہنمائی اور تربیت کی ‘‘۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کی شام یہ بیان جاری ہوا اور پھر ریفرنڈم سے ایک روز قبل جمعہ ۲۱دسمبر سے ہر طرف پروپیگنڈا شروع ہوگیا: ’’مصری فوج کی قیادت فاسد ہے: مرشد عام‘‘۔
الحمد للہ گذشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی اُمور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’النور‘ اور اخوان سے علیحدہ ہوکر الگ پارٹی (الوسط) بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتیبان بن گئے۔ اگرچہ مسیحیوں کی اکثریت نے حسنی مبارک کی باقیات کا ساتھ دیا، لیکن ان کی بڑی تعداد نے بھی دستور کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح دونوں مرحلوں کے نتائج ملا کر ۶۴ فی صد ووٹروں نے ملک کا پہلا جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اس دستور کی تیاری کے لیے چھے ماہ کی مدت طے کی گئی تھی۔ ۱۰۰ رکنی منتخب دستوری کونسل میں معاشرے کے تمام طبقات اور نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ۴۰ ہزار تجاویز موصول ہوئیں۔ کونسل کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے سب کا جائزہ لیا گیا۔ ان کمیٹیوں اور کونسل کے ۶۰۰ اجلاس ہوئے۔ مصر کے سابق دستور اور دساتیر عالم سے استفادہ کیا گیا اور ایک ایسا دستور پیش کیا گیا جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ (ان شاء اللہ)
دستور کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے لیکن تجزیہ کریں تو کہیں کوئی سنجیدہ اور حقیقی اعتراض نظر نہیں آتا۔ کوئی اعتراض ہوتا بھی تو یہ ایک فطری امر ہوتا۔ بہرحال یہ دستور کوئی وحی تو نہیں، ایک انسانی کاوش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ دستور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے، جب کہ مصر میں قبطی مسیحیوں کی بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ قبطی آبادی ۱۰فی صد ہے۔ اگر ۹۰ فی صد آبادی والے ملک کا دستور اسلامی ہو تو اس پر اعتراض بے جا ہے، لیکن دستور ساز کونسل، اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث میں الجھی ہی نہیں ہے۔ ملک کو خودمختاری، تعمیر و ترقی، خوش حالی اور کامیابی کی جانب لے جانے والا ایک دستور تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام اہداف اسلامی تعلیمات پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔
اسلام کے حوالے سے جو چند بنیادی نکات اس میں شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ شق (۱) میں پہلے صرف مصر کی عرب شناخت کا ذکر تھا، اب لکھا گیا ہے کہ ’’عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد، خودمختار، متحدہ اور ناقابلِ تقسیم ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہوگا۔ ’’مصری عوام اُمت عربی و اسلامی کا اہم جزو ہیں جنھیں وادی نیل اور براعظم افریقا سے اپنی نسبت اور ایشیا تک اپنی وسعت پر فخر ہے۔ وہ تہذیب انسانی کی تعمیر میں مثبت شرکت چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ عربی کے ساتھ اُمت اسلامیہ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔شق (۲) ’’ریاست کا مذہب اسلام اور سرکاری زبان عربی ہے۔ شریعت اسلامی قانون سازی کا بنیادی مصدر ہے‘‘۔ جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض کیا اور اودھم مچایا گیا وہ شق ۴ ہے جس میں تاریخی جامعہ الازھر کو باقاعدہ سرکاری اور دستوری حیثیت دیتے ہوئے ایک خود مختار ادارے کا مقام دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ’’اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں جامعۃ الازھر کی اعلیٰ علما کونسل سے راے لی جائے گی‘‘۔ پاکستان میں تو الحمد للہ اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک مستقل بالذات قومی ادارہ رہنمائی کرتا ہے۔ مصر میں جامعۃ الازھر کی علما کونسل سے راے لینے پر آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ اسی ضمن میں شق ۲۱۹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شریعت اسلامی کے اصول و مبادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’اسلامی شریعت کے کلی دلائل، فقہی اور اصولی قواعد اور مذاہب اہل سنت و الجماعت کے معتبر مصادر ہیں‘‘۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ شق مبہم ہے، جب کہ دستور وضع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی شریعت کے مآخذ متعین کردیے ہیں۔ لفظ ’مذاہب اہل سنت و الجماعت‘ پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مصر میں شیعہ آبادی براے نام سے بھی کم ہے، اس لیے یہ تعین کردیا گیا۔
ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ دستور میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ دستور کے دیباچے میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’فرد کی عزت و تکریم ریاست کی عزت و تکریم ہے۔ اُس ریاست کا کوئی عزت و مقام نہیں، جس میں خواتین کی تکریم نہیں کی جاتی۔ خواتین مردوں کی مثل ہیں اور وہ تمام قومی ذمہ داریوں اور حقوق میں برابر کی شریک ہیں‘‘۔ یہی نہیں دستور میں کئی مقامات پر مصری شہری کے حقوق، اس کی آزادیوں، اس کی حفاظت، اس کی کفالت اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے جامع شقیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر جگہ ’تمام شہری‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں یقینا مرد و زن دونوں شامل ہیں، لیکن نہ جانے کیوں خواتین کا نام الگ سے لکھنے پر اصرار ہے۔
نئے مصری دستور کے مطابق ریاست ان تمام شہریوں کی کفالت کرے گی جو خود کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دستور میں خاندان کی بہبود و بہتری کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں ہیں۔ ایک جمیل و جامع عبارت شق ۱۰ میں لکھی گئی ہے: ’’خاندان معاشرے کی بنیاد ہے۔ دین، اخلاق اور قومی وابستگی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ریاست اور معاشرہ مصری خاندان کی بنیادی ساخت، اس کی مضبوطی، استحکام اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔ ریاست بچے اور ماں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرے گی اور خاتون خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں اور عمومی سرگرمیوں میں توافق پیدا کرے گی۔ ریاست ملک کی بیواؤں، مطلقہ خواتین اور اپنے خاندان کی کفیل خواتین کی حفاظت و دیکھ بھال کا خصوصی اہتمام کرے گی‘‘۔ اس شق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک اسی بات کی اہمیت دیکھ لیجیے کہ’ریاست اور معاشرہ‘ مل کر استحکام خاندان اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔
مصر کے پہلے جمہوری دستور کا ایک انقلابی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اجیر کی اجرت کو پیداوار سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جا چھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔
جمہوری اقدار کی ترویج کے ضمن میں وہ تمام شقیں ملاحظہ کرلیجیے، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آیندہ کوئی سربراہ تاحیات نہیں رہ سکے گا،زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ صدر مرسی چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہو، لیکن دستوری کونسل نے صدارتی نظام ہی کو باقی رکھا ہے، البتہ صدر کے اختیارات ۴۰ فی صد کم کردیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۲۰۲ ملاحظہ کیجیے، لکھا ہے: ’’صدر مملکت مجلس شوریٰ (سینیٹ) کی منظوری کے بعد خود مختار اداروں اور نگران ایجنسیوں کے سربراہ مقرر کرے گا۔ یہ تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی، جس کی ایک بار تجدید ہوسکے گی۔ ان سربراہوں کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کی منظوری کے بغیر معزول بھی نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۰ء تک جمال عبد الناصر، ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۱ء تک انور السادات، اور ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک حسنی مبارک کے ظالمانہ، کرپٹ اور شخصی اقتدار کی ہوش ربا داستانیں دیکھیں، اور ہاتھ آئے اختیارات کو ایک ضابطے میں ڈھالنے والے حافظ قرآن، پی ایچ ڈی انجینیر اور تحریک اسلامی کے تربیت یافتہ صدرِ مملکت کو دیکھیں، تو اصل فرق اور احتجاج کی وجوہات واضح ہوجائیں گی۔
تمام تر ماردھاڑ اور قتل و غارت کے باوجود عوام کی اکثریت نے مصر کا پہلا حقیقی جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اب نئے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں جس کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت تشکیل دے گی۔ صدر محمد مرسی نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خیرسگالی کا ایک اور پیغام دیا ہے۔ صدرِ مملکت سینیٹ میں ۹۰؍ارکان کو خود نامزد کرتا ہے۔ صدرمرسی نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان کا تقرر کر دیا ہے۔ تقریباً ۷۵فی صد ارکان دیگر پارٹیوں سے لیے گئے ہیں۔ ملک کے اہم قانونی ماہرین، قبطی مسیحیوں اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔ اب فوری طور پر اپوزیشن کے پاس مخالفت کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں۔ اللہ کرے کہ صدارتی الیکشن اور دستوری ریفرنڈم میں اکٹھے رہنے والے سب محب وطن قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یک جا رہ سکیں، لیکن ایسا نہ بھی ہوسکا تو ملک بہرصورت جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ نئے دستور میں دستوری عدالت کے ۱۹ ججوں کی تعداد کم کر کے ۱۱ کردی گئی ہے۔ ۱۱ بھی دنیا کی دستوری عدالتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تعداد کم ہونے سے صدر مرسی اور جمہوریت کے کھلے دشمن تہانی جبالی جیسے افراد سے نجات مل گئی ہے۔ اب تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
مصری صدر محمد مرسی کے خلاف ساری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ انھوں نے مزید اختیارات سمیٹ لیے، فرعون بننا چاہتے ہیں، دوسرا حسنی بن بیٹھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے حاصل اختیارات سے بھی دست بردار ہورہے ہیں۔ اس وقت مصر میں ملکی تاریخ کا پہلا عوامی دستور وضع کیا جارہا ہے۔ مجوزہ دستور میں صدارتی نظام حکومت کے بجاے پارلیمانی نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔ اب اصل اختیارات صدر مملکت نہیں منتخب پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کردہ وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ یہ دستور سازی مصر میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز اور اہم کارنامہ ہوگا، مخالفین صدر مرسی کو یہ اعزاز لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔ دستور سازی کے ان آخری مراحل میں ایک بار پھر حسنی مبارک کی باقیات کے ذریعے دستوری عدالت کو متحرک کیا جارہا تھا۔ نو منتخب قومی اسمبلی کو چند ہفتوں کے اندر اندر تحلیل کردینے والی اس عدالت کے جج باقاعدہ بیانات دینے لگ گئے کہ نئے دستور کا مسودہ اور پارلیمنٹ کی منتخب کردہ دستوری کمیٹی غیر قانونی ہے۔ ملک میں سنگین دستوری بحران پیدا کرنے کی سازش کے واضح ثبوت مل جانے پر، صدر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ملک میں نیادستور نافذ ہوجانے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے ہیں جنھیں کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا۔ دستور کی راہ میں رکاوٹوں اور سازشوں کا سدباب صدر مرسی کا اصل جرم ہے۔
انگریز سے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مصر میں عوام کی حقیقی مرضی سے کوئی دستور نہیں بن سکا۔ پہلے ۱۹۲۳ء کا دستور نافذ رہا جو بادشاہت کا محافظ تھا۔ ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر اور ان کی فوجی انقلابی کونسل نے دستوری فرامین جاری کیے۔ ۱۹۵۶ء میں شام اور مصر کی متحدہ ریاست کا دستور جاری کردیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں دوسرے ڈکٹیٹر انور السادات نے اپنی مرضی کا دستور جاری کردیا۔ تیسرے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے بھی اپنے ۳۰ سالہ دورِ اقتدار میں یہی دستور مسلط کیے رکھا، البتہ گاہے بگاہے ترامیم کرکے اپنے لیے پانچویں بار منتخب ہونے اور اپنے بعد صاحب زادے جمال مبارک کے اقتدار کی راہ بھی ہموار کی۔ حسنی مبارک کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں کا دستور بھی رخصت ہوگیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے ۶۳ شقوں پر مشتمل ایک عبور ی دستور منظور کیا گیا جس میں پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک کو مستقل دستور تشکیل دینے کا طریق کار بھی طے کردیا گیا۔ طے پایا کہ منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل دستوری کمیٹی کا انتخاب کریں گے اور یہ کمیٹی چھے ماہ کے اندر اندر دستوری مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس پر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی راے لیتے ہوئے، یہ جامع دستور نافذ کردیا جائے گا۔
مصر میں قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کا بھی عام انتخابات کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کا انتخاب مکمل ہوتے ہی دستوری کمیٹی منتخب (متعین نہیں) کرلی گئی اور اس نے فوراً دستور سازی کا کام شروع کردیا۔ جمہوریت، مساوات، حقوق اور آزادی کے دعوے داروں نے تعاون کرنے کے بجاے قدم قدم پر بے ڈھنگے اعتراضات کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ سارا میڈیا چیخنے لگا کہ چوں کہ پارلیمنٹ پر ایک ہی رنگ، یعنی اسلامی ذہن چھایا ہوا ہے، اس لیے دستوری کمیٹی پوری قوم کی ترجمان نہیں ہوسکتی۔ ’’تنگ نظر اسلام پسندوں‘‘ نے نہ صرف دیگر پارٹیوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر طبقات کو بھی، اس دستوری کمیٹی میں منتخب کرکے سارے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود مختلف ارکان کمیٹی سے استعفے دینے کا اعلان کروایا گیا۔ بدقسمتی سے ان اعلانات کرنے والوں میں کئی دینی ذہن رکھنے والے اور خود جامعہ الازہر بھی شریک ہوگئی۔ کمیٹی نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا تو اکثر اعلان کرنے والے بھی واپس آگئے۔
مجوزہ دستور کی ایک ایک شق پر احتجاج و اعتراضات کی آندھیاں چلائی گئیں، لیکن بالآخر دستور کا ابتدائی مسودہ تیار ہوگیا۔ اب ایک ذیلی کمیٹی اس کی خواندگی کررہی ہے۔ ۱۰ دسمبر کو دستوری مسودہ تیار کرنے کے لیے مقررہ چھے ماہ کی مدت مکمل ہوجائے گی، لیکن ارکان کمیٹی کے بقول انھیں ابھی اس کے لیے کچھ مزید مہلت درکار ہے۔ اسی دوران میں دستوری عدالت کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ سازشی عناصر کی ویڈیوز اور دستاویزات نے ثابت کردیا کہ خدشات و خطرات حقیقت بن سکتے ہیں۔ جس طرح صدارتی انتخاب سے صرف ۱۲گھنٹے قبل نو منتخب قومی اسمبلی کو بلاجواز تحلیل کردیا گیاتھا، اب چھے ماہ کی ان تھک جدوجہد کے اختتام پر، صدر کے سامنے دستوری مسودہ لانے سے پہلے پہلے دستوری کمیٹی ہی کو تحلیل کیا جارہا تھا۔ صدر محمد مرسی نے سازشوں کا بروقت سدباب کرتے ہوئے، ایک عبوری حکم کے ذریعے دستور نافذ ہونے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ اب ان کے کسی فیصلے کو کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی دستور نافذ ہوجائے گا، یہ استثنائی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی عدالت اس دوران سینٹ یا دستوری کمیٹی کو تحلیل نہیں کرسکے گی۔
صدر کے حالیہ آرڈی ننس میں دوسری اہم بات صدر حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمۂ قتل کی تحقیقات و سماعت کا دوبارہ شروع کیا جانا ہے۔ حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ جابرانہ دور میں تو جو مظالم ہوئے سو ہوئے، اس کے خلاف صرف تین ہفتے کی احتجاجی تحریک کے دوران میں تقریباً ساڑھے نوسو افراد کو شہید کردیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی عدالتی تحقیقات کے بعدسیکڑوں افراد کے ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ اس بے انصافی کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کا اپنا نامزد کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود بھی تھا۔ جو نہ صرف قتل کے ان مقدمات بلکہ اپنے سابق آقاؤں کی کرپشن کے خلاف لاتعداد مقدمات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک اہم کڑی تھا۔ بعض افراد نے جب اس کی شخصیت کو بے نقاب کیا تو اس نے خود دھمکی آمیز فون کرکے انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔حسنی مبارک اور ہم نواؤں کے اپنی اصل سزا سے بچ نکلنے کے بعد سے عبدالمجید کے خلاف شہدا اور زخمیوں کے ورثا میں بھی اشتعال پایا جاتا تھا۔ صدر مرسی نے اب اس کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ایک جج جسٹس طلعت ابراہیم کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے۔
ان فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکی وزارت خارجہ اور یورپی یونین سے لے کر مصر کی تمام سیکولر طاقتوں نے صدر مرسی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اپنے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے حسنی مبارک کا اصل ہتھیار پیشہ ور غنڈوں کا ایک لشکر تھا۔ اچانک انھی جرائم پیشہ عناصر کو دوبارہ میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں اخوان کے دفاتر نذر آتش کرنا شروع کردیے ہیں۔ دمنہور شہر میں اخوان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے ایک کارکن اسلام مسعود کو شہید کردیا گیا ہے۔ ججوں کی ایک تنظیم سے عدالتوں کے بائی کاٹ کا اعلان کروادیا گیا ہے اور میدان التحریر میں کچھ لوگ خیمہ زن ہوگئے ہیں، کہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔
اعتراض اور احتجاج سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہ کر احتجاج، نہ صرف ایک مسلمہ حق ہے بلکہ اس سے فیصلوں اور آرا میں تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف تباہی اور سازشیں کرنا ہی رہ جائے تو پھر نتیجہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔ اخوان نے متشدد مخالفین کے مقابلے میں صبر و حکمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر مرسی نے ایک طرف تو تمام سیاسی طاقتوں اور عدلیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور دوسری طرف قانونی ماہرین کو معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ اخوان کے مدمقابل کھڑے ہیں، لیکن عوام کے جذبات و موقف کے اظہار کے لیے اخوان نے بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان بڑے عوامی مظاہروں میں اخوان نے تصادم سے بچتے ہوئے، پہلے تو میدان التحریر سمیت ان تمام جگہوں سے دور جاکر اپنے پروگرام کرنے کا اعلان کیا کہ جہاں فتنہ ُجو عناصر عوام کو باہم متصادم کرسکتے ہیں اور پھر عوامی قوت کا اپنا مظاہرہ ملتوی کردیا ۔ مصر کے کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ مخالفین کی سب کوششوں کے باوجود اخوان اپنے قدم مضبوط کرتے جارہے ہیں اس لیے اب ان کی آخری کوشش ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ لیکن اب تک کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ مخالفین کی تمام سازشیں خود انھی کے خلاف جاتی ہیں۔ رب ذو الجلال کا ارشاد بار بار اپنی حقانیت منوا رہاہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵: ۴۳)، ’’حالاں کہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔
حسنی مبارک کے جانے کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انتخابات میں تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے۔ فوجی جنتا کے اشارے پر اخوان کی بعض حلیف جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے اور اخوان کو سب نشستوں پر کاغذات جمع کروانا پڑے، وگرنہ سب کے سب کاغذات مسترد ہوجاتے۔ اللہ نے انھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت دے دی۔ lاخوان نے پہلے دن سے فیصلہ و اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نہیں لائیں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مدت ختم ہو نے کو تھی کہ سابق نظام کی باقیات نے حسنی مبارک کے دست راست عمر سلیمان یا احمد شفیق کو صدر بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، دونوں کو میدان میں اُتار دیا۔ اخوان کی مجلس شوریٰ نے بھی کئی روز کی طویل مشاورت کے بعد، چند ووٹوں کے فرق سے اکثریت راے کے ذریعے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اللہ نے اسی فیصلے میں برکت دی وگرنہ آج اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانِ صدر میں بھی کوئی دوسرا حسنی مبارک بیٹھا ہوتا۔
اب ایک بار پھر سیاسی بحران عروج پر ہے۔ حالیہ بحران کی ایک خاص بات اس کا وقت بھی ہے۔ اس سے ایک ہی روز قبل غزہ کے خلاف اسرائیل کی تازہ جارحیت اختتام پزیر ہوئی تھی۔ اسے خود فلسطینیوں کی اکثر شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کرنا پڑی تھی۔ اس لڑائی میں دوباتوں نے اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشان کیا۔ ایک تو یہ کہ جس فلسطینی تحریک مزاحمت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں پتھروں اور غلیلوں سے ہوا تھا اور جس نے فروری ۲۰۰۲ء میں پہلی بار خود ساختہ میزائل (قسام ۱) چلایا تھا، ۲۰۱۲ء میں اس کے تیار کردہ میزائل اسرائیل کے قلب تل ابیب تک جاپہنچے۔ اگر امریکا کا فراہم کردہ خود کار میزائلوں کا دفاعی نظام جسے ’فولادی ڈھال‘ کا نام دیا گیا ہے، جو حملہ آور میزائل کو فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے، نہ ہوتا تو اب تک یقیناً ہزاروں اسرائیلی تہ خاک جاچکے ہوتے۔ اسرائیلیوں کے لیے دوسری تلخ اور صدمہ خیز حقیقت یہ تھی کہ گذشتہ جنگ میں مصری حکومت مکمل طور پر اس کی پشتیبان تھی، غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان ہی قاہرہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا، لیکن اس بار مصری حکومت پوری قوت کی ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی تھی۔ وزیراعظم ہشام قندیل، عین جنگ کے درمیان غزہ جاپہنچے اور واضح اعلان کیا کہ مصر اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ درست ہے کہ اگلے ہی روز اسرائیل نے بم باری کرکے اس وزیراعظم ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، جہاں چند گھنٹے قبل مصر اور غزہ کے وزراے اعظم نے اکٹھے اعلان یک جہتی کیا تھا، لیکن تمام اسرائیلی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ مصر کے تعاون کے بغیر اور مصر میں اخوان کی حکومت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔
اس بار صدر مرسی کا راستہ روکنے کے لیے دستوری عدالت کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو عدالت بھی میدان میں ہے۔ اس نے صدارتی حکم کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ۴ دسمبر کی تاریخ، سماعت کے لیے طے کی ہے، لیکن اس پورے منظر نامے کے باوجود، اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والے یکسو ہو کر پکار رہے ہیں ؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے