تقریباً۱۸ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل لیبیا ۱۸ لاکھ بیرل پٹرول روزانہ برآمد کرتا ہے۔ نائیجیریا، الجزائر اور انگولا کے بعد، تیل برآمد کرنے والے افریقی ملکوں میں لیبیا چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ لیبیا سے نکلنے والا تیل دنیا میں شفاف ترین تیل کے زمرے میں آتا ہے، جسے صاف کرنے کے لیے سب سے کم لاگت آتی ہے۔ عالمی اندازوں کے مطابق لیبیا میں ۴۲ ارب بیرل تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ تیل کے ساتھ ہی ساتھ لیبیا سالانہ ۱۰؍ ارب مکعب میٹر قدرتی گیس بھی برآمد کررہا ہے۔ وسیع و عریض ملک اور دولت کے ان انباروں کے مالک لیبیا کی آبادی صرف ۶۵لاکھ کے قریب ہے۔ لیبیا کو اگرچہ یورپی یا خلیجی ممالک کی طرح جدید سہولیات والا ملک تو نہیں بنایا گیا لیکن مجموعی طور پر لیبیا کی آبادی خوش حال سمجھی جاتی ہے۔ کوئی کمی تھی تو یہ کہ وہ خود کو اپنے ہی ملک میں قیدی تصور کرتی تھی۔ صدر قذافی جو اکثر کوئی نہ کوئی نیا فلسفہ یا نعرہ لگانے کے ماہر تھے، کسی شخص کو حق اختلاف دینے کے حق میں نہ تھے۔ خبطِ عظمت کا شکار خود تو قرآن کریم کی آیات، انبیاے کرام ؑکی ہستیوں اور اسلامی مقدسات کے بارے میں بھی عجیب عجیب تبصرے و انکشافات کرتا رہتا تھا، لیکن عوام میں سے اگر کسی نے آواز بلند کی تو سرعام لٹکا دیا گیا۔ راقم کو جب بھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے لیبیا جانے کا اتفاق ہوا تو لیبین عوام کے سپاٹ چہرے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار اس حیرت کا اظہار ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار سے بھی کیا کہ کسی چہرے پر سجی مسکراہٹ دکھائی نہیں دیتی؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔
تیونس اور مصر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لیبیا کے عوام نے بھی آزادی و حقوق کا نعرہ بلند کیا تو انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ انھیں اپنے دونوں پڑوسیوں سے کہیں زیادہ قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔ کرنل قذافی کا ماضی اور مزاج عوام کو ممکنہ نقصانات سے خبردار کررہا تھا، لیکن بالآخر سب پکار اُٹھے کہ اب یا کبھی نہیں۔ تحریک کا آغاز دار الحکومت سے دور چھوٹے شہروں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی سے ہوا تو معمر قذافی کی گرفت تصور سے بھی کمزور نکلی۔ پولیس، انتظامیہ، فوج، سب مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ کچھ مقامات پر جھڑپیں ہوئیں لیکن تمام مظاہرین بار بار نعرہ لگا رہے تھے: سِلمِیّہ سِلمِیّہ، ’’پُرامن پُرامن‘‘۔ ساتھ ہی عوام نے کرنل قذافی سے پہلے شاہ ادریس کے زمانے کا سرخ، سبز اور سیاہ قومی پرچم لہرانا شروع کردیا۔
لیبیا کی ایک بدقسمتی یہ بھی تھی کہ ۸۰ کی دہائی میں صدر قذافی کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد سے، ملک میں کوئی باقاعدہ فوج مضبوط نہ تھی۔ قومی فوج سے کہیں زیادہ مضبوط و مسلح، صدر قذافی اور اس کے بیٹوں کی ذاتی ملیشیا فورسز تھیں۔ انھیں خطرہ تھا کہ اگر ملک میں مضبوط فوج بنائی تو اس کا سب سے پہلا نشانہ خود انھی کو بننا پڑے گا۔ ملیشیا فورسز کے علاوہ انھوں نے بعض افریقی ممالک کو بڑی بڑی مالی امداد دے کر اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا کہ بوقت ضرورت ان سے بھی کرایے کے سپاہی حاصل کیے جاسکیں گے۔ انھی تین عوامل (معمر قذافی کا مزاج، ذاتی وفادار ملیشیا فورسز اور کرایے کے سپاہی) نے انقلابی عوام کے خلاف مسلح کارروائیوں کو زیادہ مہلک بنادیا ہے۔
بے تحاشا جانی نقصان کے باوجود عوامی تحریک ایک کے بعد دوسرے شہر کی طرف بڑھنے لگی، تو قذافی صاحب نے ’’چپے چپے گھر گھر، در در،فرد فرد اور ایک ایک گلی کوچے سے صفایا کردیں گے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان شہروں پر ناقابل بیان بم باری شروع کردی۔ ہاتھ سے نکل جانے والے شہروں میں ہی نہیں خود طرابلس میں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ دار الحکومت سے جان بچا کر واپس آنے والے مزدور و ملازمت پیشہ پاکستانی عینی شاہد بتاتے ہیں کہ وہاں بھی لاشوں کے انبار تھے، جنھیں بڑے بڑے ٹرالروں میں بھر بھر کر ٹھکانے لگادیا گیا۔ ہاتھ سے نکل جانے والے تیل کے کنوؤں اور تیل کے ذخائر کو اڑا دیا گیا۔ اس ساری تباہی و بربادی اور خوں ریزی کا ہدف صرف یہ تھا کہ ۴۲ سالہ اقتدار کو مزید طوالت دی جائے۔ اب ایک طرف یہ ساری تباہی اور تباہ کن حملے تھے اور دوسری طرف نہتے عوام اور ان کا ساتھ دینے والے فوجی دستے کہ جن کے پاس زیادہ سے زیادہ ہتھیار چند ٹینک اور طیارہ شکن توپیں تھیں۔ قذافی صاحب نے ایک کے بعد دوسرے قصبے اور شہر کو فتح کرنا شروع کردیا اور بالآخر بن غازی کا محاصرہ شروع کردیا۔ سب تجزیہ نگار اور لیبیا کے شہری جانتے تھے کہ اگر قذافی ملیشیا بن غازی میں داخل ہوگئی تو ۱۰لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ناقابلِ بیان قتل عام ہوگا۔
عالم عرب اور عالم اسلام نے اس ساری پیش رفت کو دم سادھے دیکھا اور چند بیانات پر اکتفا کیا۔ امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے تیل کے سمندر پر تیرنے والے ایک اہم مسلمان ملک پر اپنا تسلط جمانے کے لیے پہلے ہی دن سے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ پہلے تو مغربی ممالک میں قذافی اور اس کے خاندان کے اربوں ڈالر کے کھاتے منجمد کرتے ہوئے بیرون ملک اس کی ساری دولت پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ صرف امریکا میں ۳۰؍ارب ڈالر منجمد کردیے گئے۔ قذافی صاحب نے اپنی دولت کئی ممالک میں تقسیم کررکھی ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک نے ان کے اکاؤنٹ منجمد کردیے گئے اور تو اور تیونس نے بھی اپنے ہاں رکھے گئے اثاثے منجمد کردیے۔ قذافی نے قتل عام شروع کیا تو مغربی ممالک نے اسے جنگی مجرم قرار دینے کی بات کرتے ہوئے ملک سے باہر کہیں جانے کے راستے مسدود کردیے (ویسے قذافی صاحب سے اس کی توقع بھی کم تھی)، اور پھر اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا کو نو فلائی زون قرار دے دیا۔ ساتھ ہی بحر متوسط میں اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے لاکھڑے کیے۔ اگر اس موقع پر بھی صدر قذافی ۴۲سالہ شخصی اقتدار پر اکتفا کرتے ہوئے اقتدار اپنے عوام کے سپرد کردیتا، تو لیبیا کے گرد بنایا جانے والا یہ سارا جال، تار تار کیا جاسکتا تھا لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
امریکا اور مغربی ممالک کویت پر عراقی صدر صدام حسین کے قبضے کی طرح، معمر قذافی کی خوں ریزی سے بھی ہمہ پہلو فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔ لیبیا اور اس کے تیل پر قبضہ ان کی اولین ترجیح ہے۔ بدقسمتی سے وہ اپنا یہ ہدف لیبین عوام کے نجات دہندہ بن کر حاصل کررہے ہیں۔ کرنل قذافی اگر اپنی قوم کے لیے عذاب کی صورت اختیار کرگیا تھا تو اس سے نجات دلانے کے لیے اصل ٹارگٹ بھی اس کی ذات ہونا چاہیے تھی، دوسر ے نمبر پر اس کی جنگی مشینری ہوسکتی تھی لیکن صدر اوباما، اس کے جرنیلوں اور یورپی سربراہوں سمیت، سب دہرا چکے ہیں کہ صدر قذافی ہمارا ہدف نہیں ہے، ہم صرف اس کے جنگی جہازوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف قذافی ملیشیا تادم تحریر مختلف شہروں کا گھیرائو کرکے اس پر بم باری کررہی ہے۔ گویا قذافی کا رہا سہا اقتدار اور عوام پر اس کے حملوں کا فی الحال جاری رہنا، لیبیا پر مغربی ممالک کے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے ناگزیر اور ضروری ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج یہ نہیں چاہیں گی کہ دارالحکومت طرابلس سمیت پورے ملک میں امن قائم ہوجائے اور ایک جمہوری نظام کے مطابق وہاں کے شہری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہوجائیں کیونکہ ایسا ہونے کا مطلب ہے لیبیا کا ان کے شکنجے سے آزاد ہوجانا۔
۸۰ کی دہائی سے صدام حسین اور اس کے تباہ کن ہتھیاروں کا بھوت دکھا دکھا کر امریکا نے کردستان پر نوفلائی زون قائم کیا تھا اور آج عراق کے اندر رہتے ہوئے بھی کردستان عملاً ایک الگ ریاست ہے۔ اس کا صدر، پرچم اور کرنسی تک الگ ہوچکی ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اسے عراق کے رسمی نقشے سے بھی باہر کردیا جائے۔ اسی طرح لیبیا میں بھی امریکی اور یورپی ملکوں کی پوری کوشش ہوگی کہ لیبیا کو مشرقی اور مغربی لیبیا کی دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ فرانس نے قذافی کے اقتدار سے آزاد ہوجانے والے شہر بن غازی اور دیگر مشرقی شہروں میں قائم انقلابی نسل کا اقتدار، باقاعدہ تسلیم کرکے اس تقسیم کی جانب عملی قدم اٹھا دیا ہے۔
قذافی کے تشدد اور بیرونی افواج کی مداخلت کے ذریعے عالم عرب میں عوامی انقلابی تحریکوں کو بھی ایک سخت پیغام دیا گیا ہے۔ لیبیا کی اس صورت حال سے ایک بار تو سب عوامی تحریکوں کے سامنے یہ سوالیہ نشان آن کھڑا ہوا کہ کہیں ان پر بھی تو لیبیا جیسی آزمایش نہیں آجائے گی۔ خود عرب حکمرانوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ ہمیشہ کی طرح شاید اس بار بھی آہنی ہاتھ ہی اقتدار بچانے کا مؤثر ترین ہتھیا ر ہوگا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب عوام لیبیا کی صورت حال سے اپنی جدوجہد کے لیے مزید توانائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہوکر میدان میں آرہے ہیں۔ مصر میں عوامی احتجاج شروع ہوا تھا تو حسنی مبارک اور حواریوں نے کہا تھا: مصر کوئی تیونس نہیں ہے کہ یہاں بھی تبدیلی آجائے اور پھر حسنی مبارک چلا گیا۔ لیبیا میں تحریک کا آغاز ہوا تو قذافی اور اس کے بیٹوں نے کہا تھا: احنا مش تونس و مصر، ’’ہم تیونس اور مصر نہیں ہیں‘‘۔ آج جب دیگر عرب ملکوں میں عوامی تحریکیں شروع ہورہی ہیں تو اب عوام اپنے حکمرانوں کو کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم لیبیا نہیں ہیں کہ ہم پر جنگ مسلط کردو‘‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود لیبیا میں بھی حکمران نے ہزاروں بے گناہوں کا خون بھی اپنی گردن پر لے لیا، ملک بھی تباہ کردیا، ملک کا مستقبل بھی عوام کے بجاے استعماری قوتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا اور بالآخر کلی اقتدار سے یقینا ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
لیبیا کی اس اندوہناک صورت حال کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ عالم اسلام میں امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جانے کے باوجود عوام ’’سامنے آگ اور پیچھے کھائی‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ امریکی حملوں کی مخالفت کو قذافی اپنے لیے قتل کے اجازت نامے کے طور پر استعمال کررہا ہے ،اور قذافی کے قتل عام کے خلاف احتجاج کو امریکی اپنے لیے ایک کارڈ کی حیثیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں بہتر موقف وہی ہے جو الاخوان المسلمون نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے قذافی کے قتل عام اور امریکی حملوں کی یکساں اور شدید مذمت کی ہے، اور لیبیا کی عوامی تحریک کی بھرپور اور مکمل تائید و حمایت کی ہے۔ اس وقت بھی اخوان کی امدادی تنظیمیں لیبیا کے مختلف شہروں میں زخمی عوام کا علاج اور بھوک کے شکار لوگوں کو غذا فراہم کررہی ہیں۔ مصر سے آنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ قذافی انتظامیہ کی اکثریت عوام کے ساتھ مل جانے کے بعد مصر اور لیبیا کی سرحدیں کھل گئی ہیں، شہری بلا روک ٹوک ایک دوسرے سے یوں مل رہے ہیں، جیسے دو بچھڑے بھائی آن ملے ہوں۔ ایک ہی قوم کو حسنی اور قذافی جیسے حکمرانوں نے تقسیم کر رکھا تھا۔
یمن گہری قبائلی تقسیم رکھتا ہے۔ ہر قبیلہ اپنی روایات، اپنا اسلحہ اور اپنے مردان کار رکھتا ہے۔ خوب صورت کمر بند کے ساتھ چوڑے پھل کا خمدار خنجر یمن کے قومی لباس کا لازمی جزو ہے۔ یمنی صدر کو اس کے عوام ’لومڑ کی طرح عیار‘ کا لقب دیتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ طاقت سے یمنی عوامی تحریک کو کچلنا ممکن نہیں ہے۔ اب وہ اس حقیقت سے بھی یقینا آگاہ ہوچکا ہوگا کہ کئی مہینوں سے ملک کی سڑکوں پر دن رات گزارنے والے لاکھوں عوام، اس کا اقتدار کسی صورت مزید برداشت نہیں کریں گے، لیکن جسے اقتدار کا نشہ لگ جائے اس کے لیے اسے چھوڑنا، جان کنی کا عالم بن جاتا ہے۔ ریشے ریشے سے کھنچ کھنچ کر روح اقتدار رخصت ہورہی ہوتی ہے، لیکن کسی معجزے کا منتظر مریضِ اقتدار، دیدے پھاڑے کبھی اپنی کرسی اور کبھی اپنے انجام کو دیکھتا اور مزید تڑپنا شروع کردیتا ہے۔ اب یمن کے بڑے بڑے قبائل صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وزرا، سفرا، کئی فوجی جرنیل، قریبی دوست، سب میدان میں جمع مظاہرین میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس کا چہیتا داماد بھی عوام سے آن ملا ہے۔ مصری تجربے کی پیروی کرتے ہوئے، یمنی عوام بھی ہر جمعے تمام دنوں کی نسبت زیادہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ جمعہ ۲۵ مارچ کو یوم الرحیل (یومِ رخصت) منایا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس روز ۳۰ سے ۴۰ لاکھ لوگ مختلف شہروں کی سڑکوں پر ہوتے ہیں، لیکن جان کنی کا شکار صدر ابھی سیر نہیں ہوا۔ وہ بھی ملک بھر سے اپنے چندہزار حامیوں کو اکٹھا کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں عوامی ریفرنڈم قرار یتا ہے لیکن اب سب کو یقین ہے کہ دل کا جانا ٹھیر گیا ہے۔
یمن میں کسی حد تک جمہوریت پہلے سے موجود ہے۔ چند اپوزیشن جماعتیں بھی موجود ہیں۔ التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے اسلامی تحریک بھی ہمیشہ ۵۰ سے ۶۰ کے درمیان ارکان اسمبلی رکھتی ہے، لیکن حکمران پارٹی کی تقریباً دو تہائی اکثریت متاثر نہیں ہوئی ہے۔ آج یمن کی سڑکوں پر جمع عوام، اس ابدی اکثریت کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ صدر علی بھی حسنی مبارک کی طرح صاحب زادے کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا تھا، اب انجام بھی یکساں ہونے کو ہے۔
بشار انتظامیہ نے اس کا ادراک کرتے ہوئے، ملک میں فوری طور پر بنیادی اصلاحات کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات کے جائزے ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں کیسا نظام رائج ہے۔ بشار الاسد کی خصوصی مشیر بُثَینَہ شعبان نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ملک میں متعدد سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں ملک سے ایمرجنسی کے فوری خاتمے، شہریوں کو پرامن زندگی کے یکساں مواقع دینے، ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کے قانون، ذرائع ابلاغ کو مزید آزادیاں دینے اور تنخواہوں میں اضافے جیسی ’اصلاحات‘ شامل ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ ان پر عمل درآمد کب سے شروع ہوگا؟ بثینہ نے کہا: آج سے اور فوری طور پر۔ ذرا ان سابق الذکر اصلاحات پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ ان میں سے کون سی ایسی انوکھی چیز ہے جسے حکومت کا کوئی بڑا کارنامہ سمجھا جائے؟ تاہم شام کے تناظر میں یہ بھی بہت نمایاں اصلاحات ہیں، اور یہ بھی اس وقت کی جارہی ہیں جب عوامی تلوار حکومت کی گردن سے آن لگی۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اب بھی اس اعلان پر عمل کتنا ہوتا ہے؟
ایک وقت تھا کہ شام کے بہت سارے دوست حکومت اور اپوزیشن بالخصوص حکومت اور اخوان کے مابین گفت و شنید کے لیے جوتیاں چٹخاتے رہے۔ اس وقت مطالبات صرف یہ تھے کہ طویل عرصے سے گرفتار لوگوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔ ملک میں سیاسی آزادیاں دی جائیں اور حکومت اور عوام باہم اعتماد کی بنیاد پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ شامی حکومت کا جواب ہوتا تھا: ’’یہ وہ سرخ لکیر ہے جسے ہم عبور نہیں کرسکتے‘‘۔ شام کی عوامی تحریک کو ابھی کئی مشکل مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن تبدیل شدہ عرب دنیا میں اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ بشار حکومت اپنی متکبرانہ ڈکٹیٹر شپ اسی طرح جاری رکھ سکے۔ تمام ظالم حکمرانوں کو معلوم ہے کہ آج کی دنیا میں عوام پر ظلم ڈھانا اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنا خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔
گروہی ، مذہبی، علاقائی یا لسانی تعصبات، دین اسلام کی حقیقی روح اور بنیادی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو سب سے زیادہ نقصان اسی شیطانی ہتھکنڈے سے پہنچایا گیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے ’مشرق وسطی کے نئے نقشے‘ میں امریکی استعمار نے فارسی شیعہ ملک ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے بحرین، سعودی عرب کے مشرقی علاقوں اور عراق کے ایک علاقے پر مشتمل، ایک عرب شیعہ ریاست تشکیل دینے کا ابلیسی خواب دیکھا تھا۔ حالیہ عرب عوامی تحریکات اس پورے ابلیسی نقشے کو ناکام بنانے کا سب سے سنہری موقع ہیں۔ اگر اس اہم موقعے کو بھی تنگ نظری پر مشتمل تعصبات کی نذر کردیا گیا، تو یہ ایک بڑے خسارے کی بات ہوگی۔ بحرین کے حالیہ واقعات میں تمام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور سعودی عرب کو تمام تر تعصبات سے بالاتر رہنا ہوگا۔
حالیہ دستوری ترامیم میں پورا دستور معطل کرنے کے بجاے چند بنیادی اصلاحات منظور کی گئی ہیں۔ تا عمر عہدۂ صدارت پر براجمان رہنے کی راہ بند کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ دو صدارتی مدتوں کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اب آیندہ نومبر میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ منتخب پارلیمنٹ (سینٹ اور اسمبلی) ۱۰۰ رکنی تاسیسی دستوری کمیٹی منتخب کرے گی جو ملک کے لیے جامع دستور تشکیل دے گی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دستور کا مسودہ کوئی منتخب کمیٹی تیار کرے گی۔ انتخابات کے بعد چھے ماہ کے اندر اندر نیا دستوری مسودہ تیار ہوگا، پھر ۱۵روز کے اندر اس پر ریفرنڈم کرواتے ہوئے ایک متوازن اور شورائیت پر مبنی نظامِ حکومت تشکیل دیا جائے گا۔
الاخوان المسلمون نے اس ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا ہے اور اب ایک اور اہم ترین پیش رفت کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو بلاکر ایک مشترکہ انتخابی پروگرام پیش کیا ہے جس کے تقریباً تمام نکات متفق علیہ منشور کی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔ دنیا کے اکثر تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اخوان چاہے تو پارلیمنٹ میں بآسانی اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن اخوان نے دعوت دی ہے کہ اگر سب پارٹیاں اتفاق کریں تو ہم پورے ملک میں مشترک انتخابی پینل تشکیل دے سکتے ہیں۔ باہم لڑنے اور مقابلہ کرنے کے بجاے قومی مفاہمت سے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ اخوان کا نمایاں ترین نعرہ ہے: المشارکۃ لا المغالبۃ، ’’غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ہم تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے اور تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر متفق علیہ قومی ایجنڈے کی آبیاری کریں گے۔ اخوان کے اس بڑے پن کا خوش گوار اثر مرتب ہوا ہے اور کئی جماعتوں نے اس پیش کش کا مثبت جواب دیا ہے۔ تقریباً یہی نقشۂ کار تیونس میں تحریک نہضت اسلامی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی نے پیش کیا ہے۔ جس سے مصر اور تیونس میں معاشرے کو دینی جماعتوں کے اقتدار سے خوف زدہ کرنے کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے۔
عالمِ عرب میں رُوپذیر یہ سب تبدیلیاں اتنی دُور رس، اچانک اور ہمہ گیر ہیں کہ ان کے بارے میں اکثر لوگوں کو مختلف شکوک و شبہات نے آن گھیرا ہے۔ واقعات کی حدت اس تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک میں پہنچ رہی ہے کہ مسلسل چرکے سہنے والے اب اس فکرمندی کا شکار ہورہے ہیں کہ کہیں یہ سب کیا دھرا امریکا یا بیرونی طاقتوں ہی کا تو نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح کی تشویش خود امریکی مغربی اور اسرائیلی مراکز میں بھی اسی شدت سے پائی جاتی ہے۔ سب سوچ بچار کر رہے ہیں کہ ہمارے تھنک ٹینک اور جاسوسی ادارے ان تبدیلیوں کا ادراک پہلے کیوں نہیں کرسکے۔ حماس کے ایک اعلیٰ ترین ذمہ دار کہہ رہے تھے کہ: تبدیلیاں یقینا ساری دنیا کے لیے اچنبھا خیز تھیں، لیکن ہم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ انھوں نے ہر ممکنہ تبدیلی کی روشنی میں متبادل حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے اس مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اگر ہمارے نہ چاہنے کے باوجود بھی مصر میں اسرائیل دشمن حکومت آگئی تو متبادل پالیسی کیا ہوگی؟ کا جواب تیار کررکھا ہے۔ امریکا، مغربی ممالک اور صہیونی ریاست اب اسی تبدیل شدہ صورت حال سے اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ہرلمحے یہ سعی کریں گے کہ جہاں جہاں تبدیلی آرہی ہے وہاں اپنے خدمت گزار افراد اور من پسند نظام لاسکیں لیکن قربانیاں دینے والی عوام کی اکثریت مطمئن ہے کہ جس طرح تبدیلیوں کا آغاز مغرب کے نہ چاہنے کے باوجود اور اچانک ہوا ہے، اسی طرح ان تبدیلیوں کی تکمیل بھی ان کے لیے باعثِ راحت نہیں ہوگی۔ البتہ وہ اس میں سے کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ضرور حاصل کرلیں گے۔ میدانِ عمل میں موجود کارکنان کو یقین ہے کہ اگر وثوق و رسوخ اور ہمہ گیر جدوجہد کے ساتھ تبدیل شدہ صورت حال میں عرب عوام آگے بڑھتے گئے تو عرب دنیا میں یقینا ایک نیا اسٹیج ترتیب پائے گا۔ امریکا کے غلام، جابر فرعونوں اور بے تحاشا ملکی وسائل کو شیرِ مادر کی طرح ڈکار جانے والے کرپٹ حکمرانوں سے آزاد عرب ممالک اور خوفِ خدا سے سرشار اسلامی تحریکیں، اس نئی دنیا میں خدمت و اصلاح کی نئی تاریخ رقم کریں گی۔ وَلَیْسَ ذٰلِک عَلَی اللّٰہِ بِعْزِیْز، ’’اللہ کے لیے یہ کام یقینا کوئی مشکل نہیں‘‘۔
۶۲ سال پہلے، ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو کرایے کے غنڈوں نے قاہرہ میں اللہ کے ایک ولی حسن البنّا کو گولیاں مارکر شہید کردیا۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا خیال تھا کہ الاخوان المسلمون کے بانی اور قائد کو راستے سے ہٹا دیں گے تو پوری تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ ٹھیک ۶۲ سال بعد ۱۲ فروری ۲۰۱۱ء کا سورج طلوع ہورہا تھا تو کئی عشروں سے مصری قوم کی گردنوں پر سوار ڈکٹیٹر اپنی آمریت کی لاش اُٹھا رہا تھا، اور دوست دشمن سب کہہ رہے تھے کہ: ’’الاخوان المسلمون آج مصر کی سب سے بڑی قوت ہے۔ مصر کا مستقبل اب اخوان کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
برطانوی اشاروں پر حسن البنا کو شہید کرنے والا شاہ فاروق، ۱۹۵۲ء میں چلا گیا۔ اس کے بعد بریگیڈیئر نجیب نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۴ء میں اس کا تختہ اُلٹ کر کرنل جمال ناصر برسرِاقتدار آگیا۔ ۱۹۷۰ء میں اس کی موت کے بعد جنرل انور السادات نے حکومت سنبھالی اور ۱۹۷۹ء میں اس کے قتل کے وقت ساتھ والی کرسی پر براجمان مصری فضائیہ کا افسر اعلیٰ حسنی مبارک آگیا، اب وہ سب چلے گئے۔ فَمَا بَـکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَo (الدخان ۴۴:۲۹) ’’نہ زمین ان پرروئی اور نہ آسمان اور نہ انھیں باقی چھوڑا گیا‘‘۔ اگر باقی رہے تو کمزور سمجھے جانے والے اس کے مخلص بندے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ایک بار پھر مجسم حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا: کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ ط فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِط کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَo(الرعد ۱۳:۱۷) ’’اللہ حق اور باطل کے معاملے کو اسی طرح واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑجایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔
تین ہفتے پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ ۳۰ سال سے سیاہ و سفید کامالک بنا بیٹھا، فرعونِ مصر، نیل کی عوامی موجوں میں غرقاب ہونے والا ہے۔ اپنے فرار سے تقریباً ۱۹ گھنٹے پہلے، رات گئے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وہ خود بھی یہی کہہ رہا تھا ’’مصری قوم جانتی ہے کہ محمدحسنی مبارک کون ہے، مجھے کہیں نہیں جانا، مجھے یہیں (اقتدار ہی میں) جینا مرنا ہے‘‘۔ لیکن پھر شہرشہر اور قصبے قصبے میں سڑکوں پر جمع یہ کروڑوں افراد غصے سے پھٹ پڑے۔ پورا ملک چلّا چلّا کر ایک ہی لفظ دہرانے لگا: اِرحَل ۔۔اِرحَل ۔۔اِرحَل ۔۔ ’’چلے جاؤ --- چلے جاؤ --- چلے جاؤ‘‘۔ پھر صرف ۱۹گھنٹے بعد ہی اس کا نائب صدر اور انٹیلی جنس کا سربراہ عمر سلیمان پردۂ سکرین پر نمودار ہوا اور مختصر ترین خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا: ’’جناب صدر نے منصب صدارت سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ سب نے سُکھ اور آزادی کا سانس لیا۔ بندوق اور بندوق بردار شکست کھا گئے، مقہور و مظلوم عوام فتح یاب قرار پائے!
تیونس کی تحریک کے نتیجہ خیز ہونے میں تقریباً ایک ماہ لگا تھا اور اس دوران ۷۸ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ مصر کا جابر حکمران سفاک بھی زیادہ تھا، اقتدار میں بھی زیادہ عرصے سے تھا، مشرق وسطیٰ میں اس کا کردار اہم ترین تھا۔ دنیا کے اکثر شیطان، بالخصوص اسرائیل اسے بچانے کے لیے بے تاب و متحرک بھی تھا۔ اس کے خلاف تحریک کو کامیابی حاصل کرنے میں ۱۸ روز لگے، اس دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۶۷؍ افراد شہید، ۵ہزار سے زائد زخمی ہوئے، لیکن عوام کو فتح حاصل ہوئی تو قوم نے یہ سارے دکھ مسکراتے ہوئے جھیل لیے۔ تیونس کے دُور دراز قصبے سیدی بوزید، میں ایک بے نوا ٹھیلہ بردار کا ٹھیلہ کیا الٹایا گیا کہ پورے عالم عرب میں تخت اُلٹنے کا آغاز ہوگیا۔ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ اور اہم ترین تبدیلیوں کے اثرات و نتائج بہت دور رس ہوں گے۔ آئیے اس عوامی تحریک کے کچھ حقائق اور اس کے نتائج کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
مصری ’مرکز براے اقتصادی و معاشرتی حقوق‘ نے محتسب اعلیٰ عبد المجید محمود کو ایک خط ارسال کیا ہے جس کے ساتھ ٹھوس دستاویزی ثبوت بھی لگائے گئے ہیں۔ ریفرنس نمبر ۱۶۲۲ کے ساتھ اس خط میں بتایا گیا ہے کہ ۱۱ فروری ۱۹۸۲ء کو محمد حسنی مبارک کے ذاتی نام پر ۱۹ ہزار ۴سوکلو قیمتی پلاٹینیم سوئٹزر لینڈ کے سوئز یونین بنک کے پاس رکھا گیا ہے تب اس کی مالیت ۱۴؍ارب ڈالر لگائی گئی تھی۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان دستاویزات کے مطابق حکومت مصر سوئس بنک سے یہ ثروت واپس لے۔ یہ سب اربوں ڈالر تو ابھی دیگ کے چند چاول ہیں، ابھی قوم کے غم میں گھلنے والے ان حکمرانوں کے مکروہ چہروں سے ایک ایک کرکے کئی نقاب اترنا ہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پہلے کھلتا ہے یا کفن کے پردے میں پہلے لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اقتدار سے جاتے ہی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ حسنی مبارک کومے میں چلا گیا۔
غربت کے مارے مسلم ممالک کے عوام میں اگر صرف حکمران طبقے کی یہی لوٹی ہوئی دولت ہی تقسیم کردی جائے تو وہ خوش حال ہوجائیں۔ لیکن دولت کا سارا ارتکاز چند لٹیرے لیڈروں اور ان کے حواریوں میں ہوکر رہ گیا ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی ۸۰ فی صد سے زائد آبادی کو غربت کے کانٹوں میں رگیدا جارہا ہے۔ یہ طبقاتی تفاوت تیسرا بنیادی سبب ہے کہ جس نے بالآخر پوری قوم کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔
جمعہ ۱۱ فروری کی شام مصر کو حسنی مبارک سے نجات ملی، لیکن ایک شخص کے چلے جانے سے قوم واپس گھروں میں جا کر نہیں بیٹھ گئی۔ مزید دو روز ایام تشکر منانے کے بعد اعلان کیا گیا کہ جمعہ ۱۸ فروری کو میدان آزادی میں دوبارہ ملین مارچ ہوگا۔ اسے جمعۃ النصرکا نام دیا گیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ کی امامت کرنے والے علامہ یوسف القرضاوی کو جمعۃ النصر کا خطبہ دینے کے لیے خصوصی طور پر قطر سے مصر آنے کی دعوت دی گئی۔ اس روز مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا۔ ۳۰ لاکھ مردو خواتین تاحد نگاہ صف آرا تھے۔ علامہ قرضاوی نے قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ کی تلاوت کرتے ہوئے خطبے کا آغاز کیا اور جامع خطبے میں مصری عوام اور اُمت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی۔ سبحان اللہ! ایک وقت تھا کہ یوسف القرضاوی صاحب پر سرزمینِ مصر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔ وہ پہلے مصری جیلوں میں قید رہے اور پھر مصر سے ہجرت کرجانے پر مجبور ہوئے، آج کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فوج، حکومت اور پوری قوم سے مخاطب ہورہے تھے۔ فوج نے بھی عوامی اکثریت کا فیصلہ دیکھتے ہوئے جمعۃ النصر کے اجتماع میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قومی پرچم تقسیم کیے۔
اس یومِ نصر کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ خطبہء جمعہ سے قبل اسی سٹیج سے مصری مسیحیوں نے بھی اپنی عبادت کی۔ واضح رہے کہ اسکندریہ شہر میں واقع ایک عیسائی چرچ کے باہر ایک دھماکہ کرواتے ہوئے مسیحی مسلم فسادات کروانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اپنے مسیحی ہم وطنوں کو عبادت کا پورا موقع دے کر ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خطبۂ جمعہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہماری تحریک صرف ایک شخص نہیں، بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کے لیے ہے۔ جب تک ہمارے بنیادی مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم میدان عمل میں رہیں گے اور یہ حالیہ عوامی تحریک کا ایک اور اہم پہلو ہے۔
اگلے ہی روز اعلان ہوا کہ آیندہ مظاہرہ پیر ۲۱ فروری کو مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں ہوگا۔ اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا اعلان جامع مسجد القائد ابراہیم کے ۸۶ سالہ امام احمد المحلاوی نے کیا تھا۔ جناب محلاوی کو ۱۵سال قبل حسنی انتظامیہ نے إخوان سے تعلق کی وجہ سے خطبۂ جمعہ دینے سے منع کردیا تھا۔ تحریک کے دوران پورا شہر مل کر انھیں واپس مسجد ابراہیم کی خطابت کے لیے لے آیا۔ ۸۶ سالہ بزرگ عالم دین نے پوری تحریک کے دوران میں لاکھوں لوگوں کی قیادت کی اور ۱۸ فروری کے جمعۃ النصر میں اعلان کیا کہ اسکندریہ شہر میں بھی ۲۱فروری بروز پیر یوم تشکر منایا جائے گا۔ تمام حضرات و خواتین اس میں بھی اسی جوش و خروش سے شریک ہوں اور چوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو عموماً روزہ رکھا کرتے تھے اس لیے ریلی کے شرکا بھی پیر کا نفلی روزہ رکھ کر آئیں۔ پیر کے مسنون روزے کا اعلان کوئی وقتی یا سطحی اقدام نہیں تھا۔ نفلی روزوں اور مسلسل تلاوت قرآن کا اہتمام، اخوان کے تربیتی نظام کا ایک مستقل حصہ ہے۔ ملک میں تبدیلی کے لیے قومی تحریک کے دوران بھی اس روحانی تربیت کا اہتمام کرنا، اس تحریک کا ایک اور انتہائی روشن اور سب کے لیے قابل تقلید گوشہ ہے۔ میدان التحریر میں اکثر ایسے مناظر دکھائی دیے کہ دو ہفتے سے زائد عرصے سے لوگ میدان میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔ آغاز میں پولیس اور کرایے کے غنڈوں کے ساتھ مڈبھیڑ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں شامل تھی۔ سخت سردی، زخموں کی تکلیف اور طویل کش مکش کے دوران بھی، جس کو جب موقع ملا، اس نے جیب سے اپنا قرآن نکالا اور اپنے رب سے گفتگو شروع کردی۔
میدان التحریر سے آنے والے ایک معروف نوجوان اسکالر ڈاکٹر وصفی عاشور سے ۹فروری کو ملاقات کا موقع ملا۔ وہ بتارہے تھے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ شہدا کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن لوگوں میں کوئی مایوسی، اضمحلال یا جھنجھلاہٹ نہیں ہے۔ وہاں مسلم مسیحی، بچے بوڑھے، مرد عورتیں، امیر غریب، سب شریک ہیں اور سب ایک کنبے کی طرح ہیں۔ ضرورت پڑے تو پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی جھاڑو اٹھا کر اپنے حصے کی صفائی میں حصہ لیتا ہے۔ لوگوں نے ڈیوٹیاں اور باریاں بانٹی ہوئی ہیں۔ خواتین گھروں سے کھانا تیار کرکے لاتی اور شرکا میں تقسیم کرتی ہیں۔ ہمیں تو بعض اوقات یقین نہیں آتا کہ یہ وہی مصری قوم اور یہ وہی مصر ہے جہاں ہم ۲۵ جنوری سے پہلے بھی رہتے تھے۔ پوری قوم محبت و اخوت کے گہرے رشتے میں پروئی گئی ہے۔ نوجوانوں کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ پوری تحریک کو بجاطور پر نوجوانوں ہی کی تحریک قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ گذشتہ سال انھی مصری نوجوانوں میں اخلاقی انحطاط کا بدترین واقعہ بھی اسی میدان التحریر کے ایک گوشے میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ جب حکومتی سرپرستی میں نئے سال کا جشن مناتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروہ نے آدھی رات کی تقریبات کے بعد سرراہ، ایک مسلمان خاتون کی آبروریزی کرڈالی تھی۔ آج وہی نوجوان یہاں اپنی ماؤں بہنوں کی عزت کے رکھوالے کے طور پر موجود تھے۔ حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد اب یہی نوجوان مختلف شہروں کے گلی محلوں میں جاکر گھروں میں اشتہارات اور اسٹکر تقسیم کررہے ہیں کہ ’’بنیادی اہداف حاصل ہونے تک تحریک جاری رہے گی‘‘۔ گویا تحریک انقلاب پیغام دے رہی ہے کہ امت خیر سے معمور ہے، اسے روشن خیالی کے نام پر تباہ کرنے والی قیادت کی بجاے روزہ و قرآن سے محبت رکھنے والی قیادت مل جائے تو دنیا کی کایا بدل دے۔
تحریک انقلاب کے ان تمام روشن پہلوؤں اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے گمبھیر اور سنگین چیلنج درپیش ہیں۔ ابھی کامیابی کا صرف پہلا ہدف حاصل ہوا ہے۔ فتنے کا سرکچلا جا چکا ہے لیکن باقی پورے کا پورا نظام جوں کا توں موجود ہے۔ عوامی تحریک کے دباؤ کے پیش نظر حکومت نے بعض وزرا کو جیلوں میں بند کردیا ہے۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے ہزاروں بے گناہ افراد کو موت و ہلاکت سے دوچار کرنے والے وزیر داخلہ سمیت، تین وفاقی وزرا کو مکافات عمل نے اخوان کے قیدیوں کے لیے معروف ’طرہ‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا ہے، لیکن سابق نظام کے تقریباً تمام کل پرزے جوں کے توں اپنی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ فوج نے عارضی طور پر اقتدار سنبھالتے ہوئے دستور اور پارلیمنٹ کو تو معطل کردیا، لیکن گذشتہ ۳۰ برس سے مسلط ایمرجنسی کو اب بھی نہیں ہٹایا گیا۔ سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ حسنی مبارک کا ذاتی دوست اور اسی کی طرف سے وزیراعظم مقرر کیا جانے والا فضائیہ کا سابق سربراہ احمد شفیق اب بھی حکومت چلا رہا ہے۔ سابق نظام ہی سے ۱۱؍ افراد کو وزیر مقرر کر دیا گیا ہے جسے ظاہر ہے عوام نے مسترد کردیا۔ فوج نے اگرچہ اخوان کے سابق رکن اسمبلی، معروف قانون دان صبحی صالح سمیت، جید ماہرین قانون پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے اور ایک معتدل، اسلام دوست اور معروف قانون دان ڈاکٹر طارق البِشری اس کے سربراہ ہیں۔ فوج کے سربراہ نے اس کمیٹی کی تجویز کردہ ترامیم پر دو ماہ کے اندر اندر ریفرنڈم کروانے اور چھے ماہ کے اندر قومی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے، لیکن یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ ۱۹۵۲ء سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان فوج اب بھی اقتدار کی راہ داریوں سے باہر آنے سے انکار کردے۔ ان کے پیش رو کرنل ناصر بھی انقلاب کے بعد بہت خوش نما دعوے اور وعدے کیا کرتے تھے۔ سادات نے آکر اخوان کے مرشدعام عمرتلمسانی اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو جیلوں سے رہا کیا۔ دستور میں یہ ترمیم شامل کی کہ ’’قرآن و سنت تمام قوانین کا اصل مآخذ ہوں گے‘‘، اور بھی کئی اقدامات کیے لیکن پھر جو پینترا بدلا تو اپنے سارے پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ گیا۔ حسنی مبارک نے بھی آکر اخوان سے مذاکرات کیے۔
مصری قوم کو یہ سارے تلخ حقائق یاد ہیں۔ اگر فوج اور سابق نظام کے فساد زدہ کل پرزوں نے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر، پوری تحریک انقلاب کے ثمرات اکارت کرنے کی کوشش کی ،تو یہ ایک بڑی بدقسمتی ہوگی جو عوام کو کسی صورت قبول نہ ہوگی۔ انھی خدشات کے پیش نظر عوام نے اپنی تحریک کو مسلسل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ہرجمعے کو بڑے بڑے اجتماعات، ریلیاں اور ملین مارچ جاری رہیں گے۔ تمام تجزیہ نگار اور سیاسی وقومی رہنما اس پر متفق ہیں کہ انقلاب کو لٹیروں سے محفوظ رکھنا انقلاب کی بڑی آزمایش ہوتی ہے۔ سب بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ کسی انقلاب کا آغاز کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن اسے کامیابی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانا اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ انقلاب کو ادھورا یا بے نتیجہ چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ دوبارہ کھڑے ہونا دشوار تر ہوتا ہے، بلکہ شہدا کے خون سے غداری آخرکار ہر طرف خون کی ندیاں بہا دیتی ہے۔
شیطانی ترکش میں ایک خطرناک اور زہریلا تیر یہ بھی ہے کہ مختلف غلط فہمیاں پھیلاکر اور اپنے گماشتوں کو مختلف نام دے کر اس عدیم النظیر عوامی اتحاد میں رخنہ اندازی کی جائے۔ تحریک کے دوران بھی وہ یہ ہتھکنڈا آزما چکا ہے۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی ناکامی کے بعد اس نے ان اداروں کے ملازمین کو سادہ کپڑوں میں ملبوس کرکے اور انھیں حسنی مبارک کے حامیوں کا نام دے کر مظاہرین پر حملہ کروادیا (ان میں سے اکثر پکڑے جانے والوں سے ملازمت کے کارڈ برآمد ہوئے)۔ حملہ آوروں کے پاس خنجر، بھالے، سریے اور ڈنڈے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھی۔ انھوں نے آتے ہی بھگدڑ مچادی۔ بڑی تعداد میں مظاہرین کو زخمی کردیا۔ ان کا اور انھیں بھیجنے والوں کا خیال تھا کہ یوں سراسیمگی پھیلانے سے مظاہرین چھٹ جائیں گے، اور دنیا میں بھی یہ تاثر دیا جاسکے گا کہ پوری قوم حکومت کی مخالف نہیں، اس کے حامی بھی شدید جذبات رکھتے ہیں۔ یہ گھٹیا ڈراما سراسر ناکام رہا۔ ایک ڈیڑھ روز کی ماردھاڑ کے بعد ہی ان حملہ آوروں کی ایک تعداد فرار ہوگئی اور ایک تعداد مظاہرین سے جاملی۔ اقتدار جاتا دیکھ کر ملک میں خانہ جنگی پھیلانے کی یہ ایک رذیل کوشش تھی، جسے اللہ نے ناکام بنا دیا۔ اقتدار میں بیٹھے لالچی اب بھی قوم میں اختلاف و انتشار پھیلانے کی کوئی اور سعی کرسکتے ہیں، لیکن مقام شکر ہے کہ اب تک تمام افراد نے بہت ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔
کچھ لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ یہ ساری تحریک امریکا، اس کے حواریوں اور خفیہ طاقتوں کی برپا کردہ تو نہیں؟ کیوں کہ یہ سب کچھ اچانک اور غیرمتوقع طور پر ہوا۔ اس کا کوئی ایک لیڈر نہیں ہے اور عملاً ابھی بہت سے سابق حکمران ہی براجمان ہیں۔ لیکن بہت سے حقائق کی روشنی میں یہ امر ایک واضح حقیقت ہے کہ تمام مغربی طاقتوں کے لیے بھی یہ ساری تحریک بالخصوص تیونس کی تحریک اتنی ہی اچانک اور غیرمتوقع تھی کہ جتنی خود بن علی کے لیے۔ تیونس اور مصر میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسی تحریک کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ آغاز میں سب نے یہی کہا کہ عوام پُرامن رہیں، حکمران ان سے گفت و شنید کریں۔ معاملات آگے بڑھے تو کہا کہ عوام اور حکمران تشدد سے گریز کریں اور جب واضح ہوگیا کہ اب ان کا رہنا ممکن نہیں تو مکمل طور پر آنکھیں پھیر لیں اور تبدیلی کی حمایت شروع کر دی۔ اب پھر مغرب آزمایش کی بھٹی پر ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ نیا نظام بھی انھی کی مرضی کا ہو، تابع فرمان رہے اور اسرائیلی مفادات کا محافظ ہو۔ کسی حد تک وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل بھی کرسکتے ہیں، لیکن اب عوام بھی اپنی قوت اور اپنی جدوجہد کی برکات سے آشنا ہوچکے ہیں۔ حکمت و تدبر، احتیاط لیکن سرگرمی اور جہدِمسلسل سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ ایک حقیقی تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخلص اُمتیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یکثرون عند الفزع ویقلون عند الطمع، خوف و آزمایش کے لمحات ہوں تو وہ سب کثیر تعداد میں آن موجود ہوتے ہیں، لیکن جب غنائم اور فوائد تقسیم ہورہے ہوں تو بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ حالیہ تحریک نے اخوان کا یہ تعارف بھی بدرجۂ اتم کروادیا۔ پوری تحریک کے دوران صدر اوباما سے لے کر صہیونی ذمہ داران تک اور میدان آزادی میں جمع ایک ایک فرد سے لے کر دنیا کا ہر تجزیہ نگار کہہ رہا تھا کہ اخوان مصر کی سب سے بڑی اور سب سے منظم طاقت ہیں۔ اخوان ہی اس تحریک کی اصل طاقت اور ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ مصری حکومت جب بار بار مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دے رہی تھی تو ایک روز وزیر دفاع (حالیہ فوجی صدر) خود میدان آزادی میں جا پہنچا اور وہاں جمع لوگوں سے کہنے لگا: اپنے مرشد عام سے کہو کہ عمر سلیمان سے مذاکرات کرلے۔ خود عمر سلیمان نے بھی ٹی وی پر آکر کہا اخوان مذاکرات کرلے، یہ اس کے لیے سنہری موقع ہے۔ اخوان نے اس سے انکار کردیا۔ لیکن بعدازاں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، میدان التحریر میں جمع دیگر افراد کے ساتھ مل کر ۱۰ رکنی وفد میں اپنے بھی دو ذمہ داران کو شامل کیا اور میدانِ عمل کے علاوہ میز پر بیٹھ کر بھی اپنے اسی مضبوط موقف کا اعادہ کیا جو عوام کے جذبات کا صحیح عکاس تھا۔
پوری تحریک کے دوران مرشد عام اور مرکزی ذمہ داران دن رات اخوان کے مرکز میں بیٹھ کر تحریک کی قیادت و رہنمائی کرتے رہے۔ لیکن چونکہ فیصلہ تھا کہ اخوان نے پوری تحریک کو خود سے موسوم نہیں کرنا ہے ان مرکزی ذمہ داران میں سے کوئی میدان التحریر میں نہیں آیا۔ وہاں ان میں سے کوئی ایک ذمہ دار بھی آجاتا تو پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ اس پر ٹوٹ پڑتے، اور عوامی اور قومی تحریک کو ایک بنیاد پرست تحریک ثابت کرکے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا۔ تحریک کے بعد مغربی میڈیا نے پھبتی کستے ہوئے کہا: ’’اخوان نے بہت کامیابی سے سیاسی تقیہ کیا‘‘۔
تحریک کے دوران اخوان کی طرف سے بہت نپے تلے الفاظ کے ساتھ گنتی کے چند بیانات جاری ہوئے۔ اس وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ مصر میں آتش فشاں پھٹنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اس ضمن میں مزید احتیاط کرتے ہوئے تحریک کے دوران اور حسنی مبارک کے فرار ہوجانے کے بعد یہ واضح اعلان کیا گیا کہ اخوان کی طرف سے صرف مرشد عام، نائب مرشدین عام اور اخوان کے تین ترجمانوں کے علاوہ کسی کا بیان، اخوان کا باقاعدہ موقف نہ سمجھا جائے۔ کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے کہ وہ محنت بھی کرے اور اس کی پارٹی کا کوئی نام یا تعارف تک بھی نہ ہو، لیکن نظم کی پابندی اور اپنی ذات کی نفی کا یہ شان دار مظہر تھا۔ مرشد عام نے فتح و نصرت کے بعد اپنے ایک تفصیلی بیان سے ھذہ مصر ، ’’یہ ہے مصر‘‘ میں مصری عوام بالخصوص نوجوانوں اور اپنے کارکنان کی حوصلہ افزائی اور تحدیث نعمت کرتے ہوئے خاص طور پر ذکر کیا کہ ’’جب ساری سیکورٹی فورسز بھاگ گئیں اور کچھ عناصر نے ملک میں کئی جگہ لوٹ مار شروع کردی تو انھی نوجوانوں نے ملک بھر میں امن کمیٹیاں بناتے ہوئے ملک و قوم کی حفاظت کی‘‘۔
میدان التحریر کے قریب ہی مصر کا قومی عجائب گھر واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے انتہائی نادر عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال پرانے اصل اور نایاب نوادرات محفوظ ہیں۔ فرعون کی ممی بھی یہیں ہے۔ یہاں لوٹ مار مچتی تو یہ یقینا ایک بڑا قومی خسارہ ہوتا۔ اس نازک موقع پر یہ اخوان ہی تھے کہ جنھوں نے پورے ملک میں قومی اثاثوں، سرکاری دفاتر اور رہایشی علاقوں کی حفاظت کی۔ سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کی، کرفیو لگنے کے باعث گھروں میں مقید ہوکر رہ جانے والوں تک کھانا پانی پہنچایا۔ صحت وصفائی کی کمیٹیوں نے شہریوں کی خدمت کی۔ میدانِ آزادی سے آنے والا ایک دوست بتارہا تھا کہ رات کے وقت دھرنے دینے والوں کی ایک بڑی تعداد، بالخصوص خواتین گھروں کو چلی جاتی ہیں۔ مظاہرین پر حکومتی گماشتوں کے مسلح حملے کے بعد وہاں رات گزارنے والے، رات بھر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ میدانِ آزادی بذاتِ خود ایک چھوٹے سے شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور اتنے بڑے میدان کا مسلسل پہرہ معمولی بات نہیں ہے۔ وہاں رات گزارنے والوں اور حفاظتی انتظام کرنے والوں کی بڑی اکثریت اخوان ہی کے ساتھیوں کی ہے جن کے دن کا آغاز میدان التحریر میں نمازِتہجد سے ہوتا ہے۔
ان تمام قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود اس پوری قربانی کا سہرا اپنے سر نہ سجانا، مستقبل کے سیاسی نقشے میں بھی خود کو مبالغہ آمیز طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرنا اخوان جیسی فنافی اللہ تحریک ہی کے لیے ممکن ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اخوان دنیا جہان سے بے خبر سادہ لوح درویشوں کا کوئی گروہ ہے۔ اخوان نے دورانِ تحریک ہی یہ اعلان کردیا کہ وہ آیندہ صدارتی انتخاب میں اپنا کوئی امیدوار نہیں لائیں گے، اس اعلان کے سیاسی فوائد اور دُوراندیشی کی داد ہر اپنے پرائے نے دی ہے۔ دوسری طرف اخوان کے مرشدعام نے اعلان کیا ہے کہ وہ الحریۃ والعدالۃ (آزادی و انصاف پارٹی - Freedom and Justice Party) کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دے رہے ہیں، جو انتخابات میں مصری عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک میں حقیقی انصاف و آزادی کا حصول یقینی بنائے گی۔ اخوان اپنی دعوتی،تربیتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے تعمیرواصلاحِ معاشرہ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ اس طرح اہم موڑ پر دو اہم سیاسی فیصلے کرتے ہوئے انھوں نے اپنی گہری سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ صدارتی اُمیدوار نہ لانے کے اعلان سے اخوان کے نام سے ڈرنے اور ڈرانے والوں کواطمینان دلایا اور ایک عوامی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کرکے ہرشہری کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ اخوان کی سرگرمیوں کی ایک اور مختصر جھلک دیکھنا چاہیں تو یہی دیکھ لیں کہ اس وقت اخوان کی مرکزی ویب سائٹ کے علاوہ ۳۲ شہروں اور شعبوں کی الگ الگ فعال ویب سائٹس کام کر رہی ہیں جو ہردم اپنے لوگوں کی رہنمائی کررہی ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اخوان کی ویب سائٹ پوری دنیا کی کروڑوں ویب سائٹس میں اُوپر کی چند ہزار سائٹس میں شمار ہونے لگی ہے۔
حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعدعالمی ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں مختلف غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اخوان میں اختلافات پیدا ہوگئے، انقلابی تحریک میں اخوان کا کوئی کردار نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اخوان کے لوگ کسی بحث میں نہیں اُلجھ رہے۔ خاموشی اور صبر سے کام میں لگے ہیں اور حسنی مبارک کی رخصتی نے ثابت کر دیا کہ بالآخر صبر ہی ثمربار ہوتا ہے۔ اپنے اور ملک و قوم کے مخالفین کے لیے اخوان کے مرشدعام نے اپنے ایک پیغام میں اسی آیت کو موضوع گفتگو بنایا ہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ (فاطر۳۵:۴۳) ’’بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ وہ اپنے ایک اور پیغام کا اختتام اس آیت سے کرتے ہیں: وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ o بِنَصْرِ اللّٰہِ ط یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآئُ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ o وَعْدَ اللّٰہِ ط لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم۳۰:۴-۶) ’’اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
مصر اور تیونس میں کامیابی کی خوشیاں ابھی تکمیل کی منتظر ہیں کہ بحرین، یمن اور پھر لیبیا میں بھی بڑی عوامی تحریکوں کا آغاز ہوگیا۔ بحرین اور یمن میں برپا تحریکوں کے پس منظر میں کچھ اور عوامل بھی اہم ہیں۔ اس لیے ان کی حیثیت فی الحال وہ نہیں ہوسکی جو دیگر عرب ممالک میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف پوری قوم کو اُٹھ کھڑا ہونے سے بنی اور بن رہی ہے۔ بحرین کی ساری کش مکش میں مذہبی (شیعہ سُنّی) تقسیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، جب کہ یمن میں حکومت مخالف مظاہرے زیادہ تر جنوبی یمن میں ہورہے ہیں جو کبھی الگ ملک ہوتا تھا۔ حالیہ مظاہروں میں بھی کبھی کبھار شمالی یمن سے علیحدگی کے نعرے شامل ہوجاتے ہیں، جو اس تحریک کے ایک قومی تحریک بننے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر اس علیحدگی پسندی کا خناس نکل گیا اور پوری قوم ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے، ملک میں حقیقی جمہوری و شورائی نظام، امریکی غلامی سے نجات اور کرپشن سے نجات جیسے بنیادی اہداف پر متفق ہوگئی تو پھر یقینا وہاں بھی تبدیلی ضرور آئے گی۔ وہاں کی اسلامی تحریک التجمع الیمنی لاصلاح ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔
لیبیا کی صورت حال انتہائی سنگین، افسوس ناک اور قیامت خیز ہے۔ وہاں کرنل معمرالقذافی ۱۹۶۹ء، یعنی گذشتہ ۴۲سال سے برسرِاقتدار ہے اور اپنے بعد اپنے بیٹے کو اقتدارکے لیے تیار کررہاتھا۔ لیبیا کے دونوں پڑوسیوں، تیونس اور مصر میں عوام نے ظالم ڈکٹیٹروں سے نجات حاصل کی تو سب سے افسوس ناک موقف قذافی ہی کا سامنے آیا۔ اس نے زین العابدین بن علی کے فرار کے بعد اس فیصلے پر اس کا مذاق اڑایا۔ ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے تیونسی عوام کو بھی لعنت ملامت کی کہ اس نے ایک قانونی صدر کی مخالفت کی۔ حسبِ عادت طویل تقریر میں اس نے تیونسی عوام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ معزول صدر کو عزت و تکریم سے واپس بلالو، وہ اب بھی تمھارا صدرہے۔ پھر جب مصر میں حسنی مبارک کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا تو قذافی صاحب نے باربار حسنی مبارک کو فون کرکے اور ٹی وی پر تقاریر کرکر کے عوام کے مقابل جمے رہنے پر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ۱۰فروری کو رات گئے اپنے آخری خطاب میں حسنی مبارک نے ڈھٹائی سے ڈٹے رہنے کا اعلان کیا تو پورا مصر مشتعل تھا۔ لیکن قذافی صاحب نے فوراً فون کرکے حسنی مبارک کو شاباش دی۔ اس نے مصری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حسنی مبارک پر ۷۰ ارب ڈالر کے اثاثوں کا الزام نرا الزام ہے۔ اسے تو اپنے کپڑوں کے لیے بھی ہم پیسے دیتے ہیں۔ قذافی صاحب خود کو شہنشاہِ افریقہ، مَلِکُ مُلوکِ اِفریقیا کہا کرتے تھے۔ مصری دیوار بھی ڈھے گئی تو قذافی صاحب کواپنی فکر پڑگئی۔ اگلے ہی روز صحافیوں کو بلا کر ڈرایا، دھمکایا اور ساتھ ہی یہ بزرجمہرانہ راے دی کہ اب دنیا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے مناسب مسئلہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں بھٹکنے والے فلسطینیوںکو بحری جہازوں میں بھر کر اسرائیلی پانیوں میں پہنچا دیا جائے۔ اسرائیلی انھیں فلسطین نہیں جانے دیں گے اور تشدد بھی کریں گے لیکن وہ اگر ان پر ایٹم بم بھی گرا دیں تب بھی دنیا میں ایک انسانی بحران پیدا ہوجائے گا۔ گویا عرب عوام کو جذبۂ آزادی سے ہٹانے کے لیے پاگل پن کا کوئی ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ لوگ اپنی آزادی و حقوق کی جنگ بھول جائیں۔
اس کی نوبت نہیں آئی اور یہ جاننے کے باوجود کہ لیبیا میں کرنل قذافی کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے کا مطلب ہے ناقابلِ تصور جانی و مالی نقصانات، لیبیا کے عوام سڑکوںپر نکل آئے۔ ابھی تک تو نتیجہ وہی نکلا ہے کہ جس کا خدشہ تھا۔ پہلے ہی ہفتے میں ۹۹۵؍افراد شہید، ہزاروں زخمی اور ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لیکن ہمیشہ کی طرح اس ساری خون ریزی نے حکومت مخالف جذبات و تحریک میں کمی کے بجاے مزید تیزی پیدا کر دی ہے۔ قذافی صاحب اس کے نتیجے میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں، انھوں نے ٹی وی پر لمبی تقریر میں اپنے عوام کو چوہے، لال بیگ، نشئی، القاعدہ، امارت اسلامی تشکیل دینے والے (طالبان) اور نہ جانے کیا کیا قرار دے کر ان کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور ٹینکوں سے رہایشی آبادیوں کو ملیامیٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور یہی ان کے ۴۲سالہ اقتدار کا نقطۂ اختتام ہے۔ مظلوم عوام پر مزید آزمایش تو آسکتی ہے لیکن اب معمر قذافی کی رخصتی یقینی ہے۔ اب تک بیرونِ ملک درجنوں لیبین سفرا، ظلم کی چکّی کے اصل ذمہ دار وزیرداخلہ اور بہت سارے فوجی افسروں سمیت مملکت کے کئی اہم افراد نے قذافی کا ساتھ چھوڑ کر عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ابھی مصر میں شہید ہونے والے ۳۶۷ شہدا کا خون تازہ تھا کہ اب ہزاروں لیبین شہدا کے مقدس خون نے پوری اُمت کے دل خون خون کردیے، لیکن عالمِ اسلام یہ نوشتۂ دیوار پڑھ چکا ہے کہ اب ہماری دنیا کبھی محمدالبوعزیزی کا ٹھیلا اُلٹائے جانے سے پہلے کی دنیا نہیں ہوسکتی۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو بھی اس کا یہ پیغام بخوبی پہنچ چکا ہے کہ جو قوم اپنے لیے آزادی اور عزت و وقار کی زندگی کا انتخاب کرلے تو پھر خدا خود بندے کی رضا کے مطابق فیصلہ کردیتا ہے۔ ظلم و جبر، کرپشن اور امریکی غلامی کی تکون تیونس اور مصر میں بھی رزقِ خاک ہورہی ہے اور باقی مسلم دنیا میں بھی اس کے اثرات یقینا پہنچیں گے۔ اب اپنی قسمت کا فیصلہ عوام کو خود کرنا ہے۔ ظالم و جابر، امریکا کے غلام، کرپٹ اور فساد زدہ حکمران آج نہیں تو کل قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ باقی وہی بچے گا جو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ نظام کے سایے تلے اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ عوام سے بھی انصاف کرے گا اور خود اپنی ذات سے بھی انصاف کرے گا۔ اب ایک نیا عالمی اسٹیج تیار ہورہا ہے جس کی حتمی صورت بہت جلد پوری دنیا دیکھ لے گی۔ روحِ اقبال پکار پکار کر کہہ رہی ہے ع جہانِ نو ہورہا ہے پیدا،وہ عالمِ پیر مر رہا ہے! رب کا فرمان کسی صورت غلط نہیں ہوسکتا: وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ، ’’اللہ کا کلمہ ہی سربلند ہوکر رہنا ہے‘‘۔
۔
’’جیل میں ہم پر اکثر تشدد ہوا، لیکن سب سے زیادہ تشدد اس وقت ہوتا جب ہم میں سے کوئی وہاں نماز پڑھتے ہوئے پکڑا جاتا‘‘___ تیونس کی جیل سے رہائی پانے والا نوجوان راقم کو آپ بیتی سنا رہا تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’ایک مسلمان ملک میں نماز ادا کرنا کیوں کر جرم ٹھیرا؟‘‘ کہنے لگا: ’’مجموعی طور پر تو نماز جرم نہیں ہے، لیکن نماز چونکہ دین داری کی علامت بھی ہے اور اگر کسی نوجوان میں دین داری کی کوئی علامات پائی جائیں تو یہ اس کی ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی علامت ہے۔ اس لیے نوجوانوں کا نماز ادا کرنا جرم قرار پایا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ نماز کے وقت مساجد میں جماعت کھڑی ہوجاتی تو اچانک مساجد کے دروازوں کے باہر پولیس کی لاریاں کھڑی کردی جاتیںاور نمازیوں میں سے نوجوانوں کو الگ چھانٹ کر لاریوں میں ٹھونس کر لے جاتیں۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ فجر کے وقت رہایشی آبادیوں کا جائزہ لیا جاتا کہ کس کے گھر میں بتیاں روشن ہیں۔ اس وقت اگر کوئی اُٹھ کر نماز پڑھنے لگ جاتا ہے تو یقینا پکا بنیاد پرست ہے۔
جیل بیتی دوبارہ شروع کرتے ہوئے پوچھا کہ: پھر آپ لوگوں نے تشدد کے خوف سے نماز چھوڑ دی؟ ہنس کر کہنے لگا: ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے مختلف تدبیروں سے نماز پڑھنا شروع کردی، کبھی اشاروں سے، کبھی کوٹھڑی میں چھپ کر… لیکن جلاد بھی بضد تھا کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنا ہیں۔ انھوں نے کوٹھڑی کی چھت میں سوراخ کروا کے اُوپر عارضی تختے رکھ دیے۔ دن رات کے کسی وقت وہ کوٹھڑی کے پچھواڑے سے اُوپر چڑھتے اور اچانک تختہ ہٹاکر چھاپہ مارتے کہ کہیں کوئی ’دہشت گردی‘ کا ارتکاب تو نہیں کر رہا۔ ہم نے باری باری کمبل میں لیٹ کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ جلاد آتے تو حیرانی سے پوچھتے: یہ اتنی گرمی میں کمبل کیوں اوڑھ رکھا ہے؟ ہم بتاتے طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
تیونس میں دین کے خلاف مخاصمانہ روش کا آغاز صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں ہوا تھا۔ سابق صدر زین العابدین بن علی اس کا وزیرداخلہ تھا۔ ملک میں اسلامی عناصر کے خلاف اس ساری کارروائی کا ذمہ دار وہی تھا۔ صدر حبیب بورقیبہ اپنی یہ تمام تر کارروائیاں ’روشن خیالی‘ کے عنوان سے کر رہا تھا۔ اس نے حجاب (سر پر اسکارف رکھنے) کو جرم قراردیتے ہوئے کسی بھی باحجاب خاتون کو تعلیمی اداروں میں داخلے، سرکاری دفاتر میں ملازمت، یا ہسپتال سے علاج کروانے پر پابندی عائد کردی۔ اس کی ظالم پولیس اہل کار سر پر اسکارف رکھنے والی کسی بھی خاتون کا حجاب سرراہ نوچ ڈالتے۔ حبیب بورقیبہ نے ایک بار خود بھی اس روشن خیال کارروائی میں حصہ لیا۔ اس نے ایک ہال میں اجتماع منعقد کیا، جس میں کچھ خواتین کو سر پر اسکارف رکھ کر شریک کروایا گیا اور پھر صدر بورقیبہ نے دورانِ تقریب ان میں سے ایک خاتون کو اسٹیج پر بلایا اور اس کا اسکارف سر سے نوچ کر پائوں تلے روندتے ہوئے کہا: ’’آیندہ اس رجعت پسندی کا ارتکاب نہ کرنا‘‘۔
’روشن خیال‘ بورقیبہ اور اس کا وزیرداخلہ زین العابدین بن علی یہ تمام کارروائیاں ’اسلام کے حقیقی پیروکار بلکہ دینی پیشوا‘ ہونے کے دعوے کے ساتھ کرتے تھے۔ موسمِ گرما میں رمضان المبارک آیا تو ایک روز اعلان ہوا کہ صدر مملکت ریڈیو، ٹی وی پر قوم سے براہِ راست خطاب فرمائیں گے۔ دوپہر کے وقت صدر صاحب سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہوئے اور اعلان فرمایا: ’’میں صدر مملکت ہونے کے ناتے مسلمانوں اور ان کے تمام امور کا ذمہ دار اور ان کے مفادات کا محافظ ہوں، اور گرمی کی شدت کی وجہ سے چونکہ لوگوں کی قوتِ کار متاثر ہورہی ہے، اس لیے میں ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے ناتے اعلان کرتا ہوں کہ لوگ اس سال رمضان میں روزے نہ رکھیں۔ یہ کہنے کے بعد براہِ راست خطاب کے دوران کچھ نوش کرتے ہوئے روزہ چھوڑ دینے کا عملی مظاہرہ کیا۔
چند مزید مناظر بھی ملاحظہ کیجیے: ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے دعوے دار صدر مملکت نے اعلان فرمایا کہ قرآن میں وراثت کے اصولوں کے مطابق مرد کا حصہ خواتین سے دگنا بتایا گیا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں، اس وقت خواتین معاشی زندگی میں عملاً شریک نہیں تھیں، اس لیے یہ حصے رکھے گئے۔ آج ہماری خواتین ترقی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں، اس لیے اب وراثت میں مردوں اور خواتین کا حصہ برابر ہوگا۔ اب یہ وہاں کا باقاعدہ قانون ہے۔
’روشن خیال‘ بورقیبہ کے نزدیک عدم مساوات کا ایک یہ پہلو بھی بہت قابلِ اعتراض تھا کہ مرد کو تو چار بیویاں رکھنے کی اجازت دے دی گئی لیکن عورت کے ساتھ زیادتی ہوگئی کہ اسے چار شوہر رکھنے کی اجازت نہ ملی، اس لیے اس نے مردوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔ قانون بن گیا کہ مرد بھی صرف ایک ہی شادی کرسکتا ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو جیل جانا پڑے گا۔
حبیب بورقیبہ کی اس ’روشن خیالی‘ کے خلاف جس نے بھی آوازِ احتجاج بلند کی اسے ’لاپتا افراد‘ میں شامل کر دیا گیا۔ پھر ایک روز اچانک اعلان ہوا کہ وزیرداخلہ زین العابدین بن علی نے صدر بورقیبہ کا تختہ اُلٹ دیا ہے۔ کہا گیا: صدر اپنے بڑھاپے اور بیماری کے باعث امورِ مملکت انجام دینے کے قابل نہیں رہا، اور مزید چند برس گمنامی میںگزارکر، اسے بھی قبر میں اُترنا پڑا۔
زین العابدین نے اپنے آقا کا تختہ اُلٹا تو یہ ۷نومبر ۱۹۸۷ء کا دن تھا۔ مکمل اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ملک میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالیںگے۔ مگر کہاں؟ وہی جبر کا نظام قائم رہا۔ زین العابدین کے ۲۳ سالہ دورِ اقتدار میں پانچ بار انتخابات ہوئے اور ہرمرتبہ ہردل عزیز صدر کو ۹۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔ حجاب، داڑھی اور نماز روزے سمیت دینی شعائر کی اسی طرح تضحیک و توہین ہوتی رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳سالہ دورِاقتدار میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کو ان کے خیالات و نظریات کی سزا کے طور پر جیلوں کی ہوا کھانا پڑی۔ اسلامی تحریک ’تحریکِ نہضت‘ کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سمیت ہزاروں کی تعداد میں تیونسی شہری کسی نہ کسی طرح ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور گذشتہ تقریباً دو عشروں سے ملک بدری کی زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ ’تحریک نہضت‘ کے جن ہزاروں کارکنان اور قائدین کو گرفتار کیا گیا ان میں تحریکِ نہضت کے سابق صدر محمد عاشور بھی تھے۔ انھیں ۱۰برس کی قید کے بعد ڈیڑھ سال قبل رہا کیا گیا لیکن رہائی پانے کے چند ہی روز بعد ایک صحافی نے انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا: کیا آپ ۱۰برس کی اس قیدبامشقت کے بعد بھی ’تحریک نہضت‘ کا ساتھ دیں گے؟ پیرانہ سالی کا شکار ہوتے ہوئے محمدعاشور نے کہا: اسلامی تحریک میں شمولیت کا فیصلہ دنیا کی کسی جزا یا سزا سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ سودا تو خالق کائنات کے ساتھ کیا ہے۔ اگلے ہی روز محمدعاشور کو ’تحریک نہضت‘ سے وابستگی کے الزام میں اُٹھا کر پھر سے جیل میں بند کر دیا گیا۔ مزید ڈیڑھ سال، یعنی مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ برس کی قید کے بعد انھیں گذشتہ نومبرکو رہا کیا گیا تھا۔
ایک محمد عاشور ہی نہیں ضمیر کے ہزاروں قیدی، قلم بردار ہزاروں صحافی اور اپوزیشن قرار دیے جانے والے بے حساب شہری جیلوں میں سڑتے رہے۔ سیکڑوں افراد نے مسلسل بھوک ہڑتال کیے رکھی۔ بڑی تعداد میں قیدیوں کے اہلِ خانہ کو یہی معلوم نہ تھا کہ ان کے پیارے دنیا میں ہیں یا قیدِحیات سے ہی گزر چکے۔ اگرچہ کسی بھی غیر جانب دار صحافی یا تیونسی حکومت کی ’روشن خیالی‘ کے بارے میں منفی راے رکھنے والے کسی معروف شخص کے لیے تیونس کے دروازے بند تھے، لیکن گذشتہ کئی سال سے وہاں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ حجاب پر تمام تر پابندیوں کے باوجود حجاب کے تناسب میں واضح اضافہ ہو رہا تھا۔ نمازوں میں نوجوانوں کی شرکت کو جرم بنا دیا گیا تھا لیکن رمضان المبارک اور نمازِ جمعہ میں مساجد اتنی بارونق ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ نماز کے وقت سے کافی پہلے مساجد نہ پہنچ سکنے والوں کو باہر سڑک پر نماز پڑھنا پڑتی تھی۔
ایسے میں جب تیونس کے شہر میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان نے بھوک اور فاقوں سے تنگ آکر خودسوزی کرنے کی کوشش کی، اور وہ اس کوشش میں شدید زخمی ہوگیا، تو پورے شہر میں اس سے اظہارِ ہمدردی اور حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈکٹیٹر کی ملیشیا نے مظاہرین کے خلاف حسب ِ سابق طاقت کا استعمال کرنا چاہا تو عوام مزید بپھر گئے۔ موبائل فون کے کیمروں اور انٹرنیٹ کی مدد سے یہ مناظر مختلف عرب ٹی وی چینلوں بالخصوص الجزیرہ پر آنا شروع ہوگئے، اور پھر تیونس کے مظلوم و مقہور عوام نے ایک دنیا کو حیرت زدہ کر دینے والی تاریخ رقم کردی۔ سفاک حکمران سمجھتاتھا: ’’اس کی کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ لیکن نہتے عوام کے دو ہفتے کے مظاہروں کے بعد ہی سٹم گم ہونے لگی۔ پہلے اعلان کیا: بے روزگار نوجوان پریشان نہ ہوں، جلد ہی ان کے لیے ۳ لاکھ نوکریوں کا انتظام ہوجائے گا۔ یہ اعلان کرنے اور گولیاں چلانے کے باوجود مظاہرے جاری رہے تو حکومت کے تین وزرا کو فارغ کر دیا گیا۔ دوبارہ اعلان کیا بدعنوانی برداشت نہیں کروں گا، حالانکہ ملکی نظام میں بے تحاشا بدعنوانی کی کہانیاں بچے بچے کی زبان پر تھیں۔ مظاہرے پھر بھی جاری رہے تو اعلان کیا: عوام پریشان نہ ہوں چھے ماہ بعد عام انتخابات میں انھیںاپنی مرضی کی حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ مظاہروں کا سلسلہ قصرین اور سیدی بوزید سے باہر پھیلتے پھیلتے دارالحکومت تیونس تک پہنچ گیا۔ اب تک ۵۰ شہری شہید ہوچکے تھے، سیکڑوں زخمی تھے۔ سفاک ڈکٹیٹر نے اعلان کیا: آیندہ انتخاب میں چھٹی بار امیدوار بننے کا کوئی ارادہ نہیں، عوام چند ماہ صبر کرلیں۔ ترقی کا نیا دور شروع ہوجائے گا۔ لیکن مظاہروں کا ریلا تھا کہ کہیںتھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
ایک روز اچانک خبر آئی: صدر نے اپنی بیوی لیلیٰ اور باقی سب اہلِ خانہ کو بیرونِ ملک بھیج دیا۔ مظاہرے جاری تھے۔ صدر نے سختی سے نمٹنے اور فوج کو سڑکوں پر بلا کر گولی چلانے کا حکم دیا۔ ۷۷؍افراد پہلے ہی جاں بحق ہوچکے تھے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل رشیدعمار نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا پیش کردیا۔ حالات تیزی سے بدلنے لگے اور اچانک خبر آئی کہ صدر زین العابدین بن علی ملک سے فرار ہوگیا۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ فوج اور پولیس کے سپاہی عوام سے گلے ملنے لگے۔ لوگوں کو تو جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جو خود کو فرعون سمجھتا اور عوام کی جان کا مالک گردانتا تھا، اتنی جلد ڈھ گیا۔ صرف تقریباً تین ہفتے کی عوامی تحریک، جس میں عوام نے گولیاں برداشت تو کیں لیکن خود کوئی گولی نہیں چلائی، اور اتنی بڑی کامیابی تیونس ہی نہیں پوری دنیا میں لکھا اور پکارا جانے لگا: تیونسی جلاد چلا گیا، ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی، شاہِ تیونس بھاگ گیا، تیونسی مارکوس، تیونسی چائو شسکو… تیونسی دارالحکومت کی خالی سڑکوں پر ایک شخص دیوانہ وار چلّا رہا تھا:’’تیونس آزاد ہوگیا‘‘۔ آج اسے اپنے دل کی بات کہنے سے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ آج اسے اور اس کے ضمیر کو قید رکھنے والا خود سر چھپانے کو جگہ تلاش کر رہا تھا۔
سبحان اللّٰہ… تعز من تشاء وتذل من تشاء… وتلک الایام نداولھا بین الناس … ہم اس سلسلۂ ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ وہ جو نماز اور شعائر دین کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیتا تھا، اس کے جاتے ہی نماز کا وقت ہونے پر سرکاری ٹی وی پر پہلی بار باقاعدہ اذان کی آواز سنائی دی۔ لوگوں کے لیے یہ اسی طرح کے لمحات تھے جیسے کمال اتاترک کے جانے اور ترک زبان میں اذان کے بجاے پھر دوبارہ سے عربی زبان میں بلالی اذان بلند ہوئی تھی، اور لوگ بے اختیار سڑکوں پر ہی رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ آج تیونسی عوام سرکاری ٹی وی پر اذان سن کر اسے اپنا اعلان فتح قرار دے رہے تھے۔
اس کے بعد وزیراعظم محمدالغنوشی نے خود کو خود ہی عبوری صدر مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ اگلے ہی روز اسپیکر کو عبوری صدر قرار دے دیا۔ عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ ملک میں موجود براے نام چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ایک قومی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، جس کے اکثر وزرا پرانی کابینہ سے ہی تھے اور تین وزیر اپوزیشن جماعتوں سے، لیکن عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا اور اپنے مظاہرے جاری رکھے۔ اگلے ہی روز اپوزیشن جماعتوں نے اپنے وزرا واپس ہونے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں، سابق نظام کے باقی ماندہ کل پُرزوں سے زیادہ یہ فیصلہ کن اور حساس مرحلہ خود تیونسی عوام کا امتحان ہے۔ انھیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنی قربانیوں اور ادھوری کامیابی کو ہی اصل کامیابی سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں، یا پوری مسلم دنیا میں اُمید کے دیپ روشن کردینے کے بعد خود اپنی جدوجہد کو بھی اس کے منطقی نتیجے تک پہنچاتے ہیں اور عالمِ اسلام کو بھی مایوسی کے آسیب سے نجات دلانے کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں۔
تیونس میں عوامی جدوجہد کے پہلے مرحلے میں کامیابی کے اثرات فوراً ہی دیگر عرب ممالک میں بھی اپنا آپ منوانے لگے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں بھی عوامی مظاہروں کا دھیما دھیما آغاز ہونے لگا۔ تیونسی نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش اور احتجاج سے تیونس میں عوامی انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔ مختلف عرب ممالک میں اب تک کئی عرب ممالک میں نوجوانوں نے اسی کی تقلید شروع کر دی ہے۔ اب تک الجزائر میں چار، موریتانیا، مصر اور یمن میں ایک ایک نوجوان خودسوزی کرچکا ہے۔ ان کوششوں سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اصل بات خود سوزی میں نہیں۔ یہ تو محمد البوعزیزی کے غصے اور مایوسی کا ایک ایسا مظہر تھا کہ اسلامی تعلیمات جس سے سختی کے ساتھ روکتی اور خبردار کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ محمد البوعزیزی کے سبزی کے ٹھیلے کو بھی جب شہر کی انتظامیہ نے اُٹھاکر پھینک دیا تو اس نے دوبارہ ٹھیلا بنا لیا مگر اسے بھی اُٹھا لیا گیا اور البوعزیزی کو بھی پولیس اسٹیشن لے گئے۔ وہاں گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ خاتون کانسٹیبل نے اس کے منہ پر طمانچے بھی رسید کیے۔ اس توہین اور زیادتی پر احتجاج کرنے وہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچا۔ اس نے بھی بری طرح دھتکار دیا تو اس نے اس کے دفتر کے سامنے ہی خودسوزی کرلی۔ اس کی ماں ایک انٹرویو میں بتارہی تھی کہ محمد تین سال کی عمر میں یتیم ہوگیا تھا۔ لٹتے پٹتے، محنت کرتے اب وہ گھر سنبھالنے کے قابل ہوا تھا کہ اس کی ساری جمع پونجی لوٹ لینے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی توہین و بے عزتی بھی کی گئی۔ ظلم و جبر کے اس ماحول میں اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہ تھا، نہ انصاف فراہم کرنے کا کوئی ادارہ ہی باقی بچا تھا۔ وہ جان سے گزر گیا، لیکن اس کی یہ کوشش پوری قوم کی آزادی کی بنیاد بن گئی۔
عرب ممالک میں خود سوزی کرنے والے بلکہ پوری مسلم دنیا کے نوجوانوں کے سامنے اصل بات یہی رہنی چاہیے کہ پوری قوم کا اُٹھ کھڑے ہونا، بندوق اُٹھانے یا خود کش حملوں کے ذریعے انارکی پھیلانے کے بجاے گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا، لاشوں پہ لاشے گرتے چلے جانے کے باوجود اپنے احتجاج کو جاری رکھنا اور ثابت قدم رہنا ہی بالآخر انقلاب کی بنیاد بنتا ہے۔ تیونس میں انقلاب آنے کے بعد اب تمام عرب ممالک کے حکمرانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کہیں ان کے عوام بھی ڈکٹیٹرشپ، کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی اور حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ فوراً ہی کئی ممالک نے ’احتیاطی تدابیر‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں اشیاے خوردونوش کی قیمتیں فوراً آدھی کر دی گئی ہیں۔ شام میں فوراً تنخواہیں دگنی کردی گئی ہیں۔ مصر میں تیل کی قیمتوں میں مجوزہ اضافہ واپس لے لیا گیا ہے۔ کویت میں تو سارے کویتی شہریوں کو ایک ایک ہزار دینار (یعنی تقریباً تین لاکھ روپے) فی کس اور ۱۴ ماہ کے لیے غذائی اشیا مفت کردینے کا اعلان کر دیا ہے۔
روزنامہ لی مونڈ کے مطابق صدر زین العابدین بن علی کے فرار سے پہلے اس کی بیوی بیگم لیلی الطرابلسی نے اسٹیٹ بنک سے ڈیڑھ ٹن سونا نکلوایا اور پھر دیگر دولت کے ساتھ وہ سونا بھی ساتھ لے کر دبئی چلی گئی۔ تیونسی ذمہ دار بتا رہے تھے کہ بیگم صاحبہ کا حکم جب بنک کے گورنر کو پہنچا کہ ڈیڑھ ٹن سونا فوراً بھجوادو تو اس نے تصدیق کرنے کے لیے صدرمملکت کو فون کیا کہ خاتونِ اوّل کا یہ حکم موصول ہوا ہے کیا کروں؟ صدر مملکت نے جواب میں فرمایا: اگر تمھیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ حکم بیگم صاحبہ ہی کا ہے تو پھر دیر کیوں کی؟ مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ فوراً سونا بھجوا دو۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بیگم صاحبہ ۱۹۹۲ء میں بن علی سے شادی سے پہلے ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں، شادی کے بعد ملک چلانے لگ گئیں۔ صدر کی دولت کا ابتدائی اندازہ ۱۲ ارب ڈالر، یعنی ۱۰کھرب روپے سے بھی زائد کا لگایا جا رہا ہے۔ لیکن اب معلوم نہیں اس میں سے کتنی ہاتھ آتی ہے، سوئٹزرلینڈ کے بنکوں نے مظاہروں کا بہانا بناکر اپنے بنکوں میں موجود اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔
بن علی تو فرانس ہی میں زیرتعلیم رہا۔ اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکورٹی اور انٹیلی جنس میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے حاصل کی۔ مغرب کے نزدیک ان دونوں حکمرانوں کی سب سے اہم کارکردگی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام پسندی، یعنی رجعت پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ سختی سے نمٹا۔ اسلامی تعلیمات مسخ کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کو جیلوں میں بند کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں خود کو ڈکٹیٹر اور فرعون بنائے رکھا، لیکن جیسے ہی غریب عوام نے عزت و آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا، تمام مغربی آقائوں نے منہ موڑ لیا۔ ملک سے فرار کا بھی کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا، رات کی تاریکی میں لیبیا کے صدر قذافی نے گاڑیوں کے قافلے میں لیبیا آنے کا راستہ دیا، وہاں سے اٹلی پہنچا۔ مگر اٹلی، مالٹا اور فرانس سب نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ پھر مصری صدر کی وساطت سے سعودیہ میں پناہ ملی۔
تیونس میں عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو سب سے پہلے فرانسیسی وزیرخارجہ نے پیش کش کی تھی کہ اگر ملک میں’امن و استحکام‘ کے لیے خصوصی پولیس فورس کی ضرورت ہو تو فرانس بھجوا سکتا ہے۔ پھر جب آتش و آہن سے اپنے عوام کو کچلنے والا اچانک ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا تو اس کے لیے اپنے تمام در بند کرتے ہوئے اسی فرانسیسی وزیرخارجہ نے بیان دیا: ’’ہم تیونسی عوام کی راے کا احترام کرتے ہیں اور اسے کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں‘‘۔
عملاً دیکھا جائے تو فرانس نے اب بھی تیونسی عوام کی راے کا کوئی احترام نہیں کیا ہے۔ اس کی اب بھی پوری کوشش ہے کہ سابقہ نظام کے زیادہ سے زیادہ افراد ہی آیندہ بھی حکمران رہیں۔ اس وقت بھی سابق اسپیکر فواد المبزع کو صدر اور سابق وزیراعظم محمدالغنوشی کو پہلے صدر اور پھر وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تمام حکومتی ذمہ داران نے سابق حکمران پارٹی ’التجمع الدستوری‘ سے استعفا دے دیا ہے اور وزیراعظم نے بیان دیا ہے کہ ’’ماضی سے مکمل براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب تک ۱۸۰۰سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے لیکن بہت سے خاندان اب بھی اپنے گم شدہ افراد خانہ کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تیونس کے حالیہ عوامی انقلاب سے پہلے تیونس میں حالات بظاہر معمول پر تھے۔ ۱۴دسمبر کو لبنان سے شائع ہونے والے معروف پندرہ روزہ سیکولر سیاسی رسالے نے ’بن علی کے تیونس‘ کے عنوان سے ٹائٹل اسٹوری شائع کرتے ہوئے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے اور ساری عرب دنیا کو اس کی تقلید کی دعوت دی تھی۔ ان معمول کے حالات میں بھی اتنی بڑی تعداد میں سیاسی قیدی جیلوں میں بند تھے۔ اسی لیے عبوری حکومت کے تمام ظاہری اقدامات کے باوجود عوام نے اپنے مظاہرے بند نہیں کیے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سابقہ حکومت کے تمام افراد کو ایوانِ اقتدار سے نکال کر قرار واقعی سزا دی جائے۔
تحریکِ اسلامی تیونس بھی عوام کے شانہ بشانہ میدان میں ہے۔ اگرچہ عوامی تحریک کا کوئی قائد نہیں اور پوری قوم ہی یک جا ہوکر سڑک پر ہے، اب ملک بدر سیاسی قیادت واپس آرہی ہے۔ زیرزمین قیادت بھی سامنے آرہی ہے۔ سیکولر رجحانات والے اپوزیشن لیڈر منصف المرزوقی آچکے ہیں اور اسلامی تحریک، تحریکِ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی بھی جلد واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف تین بار عمرقید کے عدالتی احکامات بھی موجود ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جلاد کے ساتھ اس کے سارے جائرانہ احکامات کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے، اس لیے وہ بہرصورت ملک جائیں گے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ راشد الغنوشی خمینی کی طرح واپس آنا چاہتے ہیں۔ شیخ راشد کا کہنا ہے کہ نہیں، ہر شہری کی طرح انھیں بھی ایک آزاد ملک میں سانس لینے کا حق ہے۔ میں خمینی بننے یا کسی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے نہیں جا رہا۔ تحریک کی قیادت بھی تحریک کے سپرد کر دوں گا اور اپنے عوام کے ساتھ مل کر قوم کی کشتی کو منزل تک پہنچانے میں سعی کرکے انقلابی جدوجہد میں دیگر بہت سے عوامی نعروں کے علاوہ نوجوان معروف تیونسی شاعر ابوالقاسم الشابی کی نظم بآواز بلند گا رہے ہیں:
اذا الشعب یوماً أراد الحیاۃ
فلا بد أن یستجیب القدر
ولا بد للیل أن ینجلی
ولا بد لقید أن ینکسر
(جب قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلے تو پھر تقدیر بھی ضرور اس کا ساتھ دیتی ہے۔ پھر (ظلم کی) تاریک رات چھٹ جاتی ہے اور قید کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔)
تیونس کے عوام نے ثابت کر دیا کہ پورے عالمِ اسلام کے عوام کی تقدیر خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
پہلے افغانستان کے بارے میں امریکی خفیہ دستاویزات سے پردہ اٹھایا گیا، پھر عراق کے بارے میں پنڈورا باکس کھولا گیا، اور طوفان کے تیسرے تھپیڑے نے تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی امریکی سفارت خانے ہیں، وہاں ایک بھونچال آگیا۔ نیویارک کی جڑواں عمارتوں پر حملے اور عالمی اقتصادی بحران کے بعد یہ نئی صدی کا تیسرا بڑا واقعہ ہے جس کے ، مستقبل کی سیاست و معیشت اور مجموعی عالمی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ ان دستاویزات میں بیان کیے گئے لاکھوں انکشافات میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جنھیں کھلا راز کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے بجا طور پر سفارتی نائن الیون قرار دیا جارہا ہے۔ اعتماد و اعتبار کسی بھی سفارت کار کا اصل ہتھیار ہوا کرتا ہے، لیکن اب دنیا میں ہر امریکی سفارت کار بے اعتبار ہو کر رہ گیا ہے۔ اب امریکا کے غلام، ایجنٹ اور زر خرید ’دوست‘ بھی اس سے کوئی بات کرتے ہوئے مستقبل کے وکی لیکس کو ضرور ذہن میں رکھا کریں گے۔ ان ’لِیکس‘ نے امریکی سفارت کاری کی زنبیل میں ایسا چھید کردیا ہے کہ طویل عرصے تک اسے رفو نہیں کیا جاسکتا۔ انکشافات نما دستاویزات کے مندرجات پر دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا، ہم یہاں اختصار کے ساتھ بعض اصولی نکات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں:
ہر انسان کے لیے سب سے بنیادی سبق یہ ہے کہ اس کا ہرقول، ہرعمل کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہا ہے۔ بعض انتہائی اہم افراد نے اپنے تئیں یہ سمجھ کر کچھ باتیں یا اقدامات کیے یا انھیں تحریر میں لے آئے کہ جو کچھ وہ خفیہ طور پر کررہے ہیں وہ خفیہ ہی رہے گا۔ پھر شاید وہ خود بھی بھول گئے کہ انھوں نے کبھی ایسی کوئی بات کہی تھی، لیکن کئی سال کے بعد اپنے ہی الفاظ اچانک ان کے سامنے آکر، انھیں آئینہ دکھانے لگے ہیں، اور وہ اس پر شرم سار ہورہے ہیں: ع آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے۔
کوئی انکار کررہا ہے اور کوئی اپنی بات کو ’’سیاق و سباق سے کٹی ہوئی ادھوری بات‘‘ قرار دے رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو، بہت ممکن ہے کہ کہے گئے الفاظ کو امریکی ’کاتبین‘ نے اپنی خواہشات کا تڑکا بھی لگا دیا ہو، لیکن کیا ہمیں اس موقع پر اپنے رب کی منادی سنائی دی:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ o مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ط ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ o (قٓ ۵۰:۱۶-۱۹) ہم نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا، جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔ پھر دیکھو وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی۔ یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
یہ دستاویزات تو انسانوں کا تیار کردہ ریکارڈ ہیں۔ انسانی وسائل ہی اس کا ثبوت ہیں، کہیں کوئی کمپیوٹر ڈسک، کوئی خفیہ کیمرہ، ٹیپ یا کاغذ کا کوئی ٹکڑا، لیکن جو ریکارڈ خالق تیار کررہا ہے اس میں تو دل میں بسے احساسات اور ذہنوں میں چھپے خیالات تک بلا کم و کاست محفوظ ہورہے ہیں۔ راز افشا ہوجانے پر دنیا میں ہونے والی جگ ہنسائی اور بدنامی تو دنیا ہی کی طرح عارضی اور وقتی ہے۔ کوئی تدبیر یا کوئی دھوکا و دجل شاید اس کا مداوا بھی کردے، لیکن اگر روز محشر بھی بدنامی و پردہ کشائی ہی حاصل ہوئی تو ہمیشہ ہمیشہ کی اس روسیاہی کا پھر کہیں کوئی علاج نہ ہوگا۔ ہاں، انسان اگر کاتب تقدیر ہی کو اپنا وکیل بنا لے تو دنیا و آخرت کی ہر عدالت میں ہمیشہ سرخ رو قرار پائے گا۔
ان انکشافات میں سب سے قابلِ رحم طبقہ عالم اسلام کے حکمرانوں کا سامنے آیا ہے، یا پھر ان سیاست دانوں کا جو صرف اقتدار کو اپنا اول و آخر اور اصل ایمان سمجھتا ہے۔ اپنے عوام کے لیے خوں خوار بھیڑیوں سے بھی زیادہ سفاک، تمام تر ملکی مفادات کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے کے لیے ہر دم مستعد حکمران اور سیاست دان، اصل ایمان یہ رکھتے ہیں کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ امریکی خوشنودی ہے۔ امریکا جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے۔ اپنے عوام اور اپنے کارکنان کے سامنے، فرعون کی طرح اکڑے یہ سب طرم خان، جب امریکی دربار میں حاضری دیتے یا کسی سفیر کبیر کے سامنے آتے ہیںتو آدابِ غلامی بجا لاتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر مطیع فرمان و فرماں بردار ہونے کا یقین دلاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔ بے گناہ اور معصوم شہریوں پر امریکی آقا کے ڈرون حملوں سے لے کر، براہ راست فوجی مداخلت اور عسکری آپریشن تک ہر ظلم کو عین انصاف اور حق قرار دیتے ہیں۔ پاکستان، یمن اور مصر کے حکمرانوں کے اس طرح کے بہت سے جملے ان دستاویزات میں ثبت ہیں کہ ’’آپ حملے کرتے رہیے، ہم کہیں گے یہ امریکا کی نہیں، دہشت گردوں کے خلاف ہماری اپنی کارروائی ہے‘‘۔ ’’آپ حملے کرتے رہیں، ہم مخالفانہ مذمتی بیان دے دیں گے، لیکن یقین رکھیں یہ صرف اپنے عوام کو بہلانے کے لیے ہوگا‘‘، ’’ہم اپنی اسمبلی سے آپ کے حملوں کے خلاف قرار داد منظور کروارہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، آپ کی کسی کارروائی میں کوئی خلل نہ آنے دیں گے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ اور جملے کہنے والے حکمران، اپنے ملک اور شہریوں کے دشمن نہ بھی ہوں لیکن سمجھتے یہی ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ امریکی خوشنودی کے بغیر کرسی نہیں ملتی اور اپنے لوگ مروائے بغیر امریکا راضی نہیں ہوتا۔
پاکستان کی موجودہ قیادت کی جو تصویر ان انکشافات میں سامنے آئی ہے وہ قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ زرداری صاحب کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی وجہ سے اقتدار میں آئے اور امریکا کے مشورے سے ساری پالیسیاں بنانے کا اطمینان دلاتے ہیں۔ موساد نے کہا: مشرف کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔ زرداری نے جوبائیڈن سے کہا: فوج مجھے اقتدار سے محروم کرسکتی ہے۔ زرداری صاحب امریکی سفیرہ کو دہائی دیتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنا جانشین اپنی بہن فریال تالپور کو مقرر فرماتے ہیں۔ جنرل کیانی نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے باب میں امریکی سفیرہ سے راز و نیاز فرماتے ہیں اور اسفندیار کو صدر بنانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ نواز شریف صاحب جنرل کیانی کو آرمی چیف بنوانے پر امریکا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی جو جو شکلیں سامنے آئی ہیں وہ پاکستان کے ایک آزاد، خودمختار اور باوقار ملک ہونے کی نفی کرتی ہیں اور اس کی سرتاسر ذمہ داری پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر آتی ہے۔ مسئلہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا ہو یا بھارت سے تعلقات کا یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان اور اس کی فوج کے کردار کا___ پرویز مشرف سے لے کر موجودہ قائدین تک ہرجگہ اس ملک کی قیادت امریکا کے اشارئہ چشم و ابرو پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ باربار یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکی اسپیشل دستے پاکستان میں موجود ہیں۔ ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے اور پاکستان کی قیادت کی ملی بھگت سے کیے جارہے ہیں۔ کم از کم ۱۶ امریکی فوجی قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ساتھ کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ امریکا چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے خلاف تھا، ڈاکٹر قدیر پر پابندیاں اس کے دبائو میں لگائی گئیں، سوات آپریشن امریکا کے ایما پر کیا گیا اور اس آپریشن میں فوج کی ماوراے قانون کارروائیوں پر پورے علم کے ساتھ امریکا پردہ ڈالتا رہا۔
کیا محکومی اور ذلت کی یہ شرم ناک داستان قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟
قرآن کریم کے الفاظ و آیات ہی نہیں ان کی ترتیب اور حرکات و سکنات بھی اپنے اندر ایک معنی و پیغام رکھتی ہے۔ ذرا ایک عجیب ترتیب ملاحظہ فرمائیے۔ سورہ آل عمران کی دو آیات میں انتہائی وضاحت و صراحت کے ساتھ اقتدار عطا ہونے اور چھین لیے جانے کے الٰہی اختیار و قدرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ طبِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ تُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بَغَیْرِ حِسَابٍ o (اٰل عمران ۳:۲۶-۲۷ ) کہو خدایا! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو، اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
پھر ان آیات کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے:
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً طوَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ o قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ ط وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِط وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَ بَیْنَہٗٓ اَمَدًا م بَعِیْدًا ط وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ طوَ اللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِ o (اٰل عمرٰن ۳:۲۸-۲۹) مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کرجاؤ، مگر اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمھیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اے نبی لوگوں کو خبردار کردو کہ تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔
اقتدار کی حرص میں گرفتار لوگوں کے لیے اس سے بہتر کوئی نصیحت اور اس سے سخت وعید کوئی اور ہوسکتی ہے؟ رب ذو الجلال کو علم تھا کہ اقتدار کے لالچ کا شکار ہوکر اہل ایمان بھی کفار سے خفیہ دوستیاں گانٹھیں گے، اس لیے واضح حکم بھی دے دیا اور خبردار بھی کردیا کہ انھیں رفیق و مددگار نہ بناؤ، وگرنہ اللہ سے تمھارا کوئی تعلق واسطہ نہ رہے گا‘‘ اور دیکھو اللہ تمھارے کھلے چھپے ہرحال سے آگاہ ہے، کسی سے چھپ چھپا کر بھی راز و نیاز، وعدہ، وعید اور عہدوپیمان کروگے تو اللہ ان سے باخبر ہوجائے گا۔ صاحب تفہیم القرآن ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نکل جائے، انسان حد سے حد تمھاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمھیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے… خبردار کفر اور کفار کی کوئی ایسی خدمت تمھارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے، جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہونے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو، یا اہل ایمان کی جماعت کو، یا کسی ایک فرد مومن کو بھی نقصان پہنچایا، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی، تو اللہ کے محاسبے سے ہرگز نہ بچ سکو گے۔ جاناتم کو بہرحال اسی کے پاس ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران حاشیہ ۲۶)
اس مضمون کو خالق کائنات نے قرآن کریم میں جا بجا بیان فرمایا ہے۔ کہیں کہا :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا طوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ط قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے بھی شدید تر ہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔
سورئہ مائدہ میں فرمایا:
وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمط فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ o (المائدہ ۵:۵۱-۵۲) ’’اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھیں میں ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط ضبط رکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ کش مکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جاے پناہ محفوظ رہے۔ معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کش مکش میں ہمہ تن ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت برسرپیکار ہے، تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطرناک ہوگا۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۸۰)
اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں انھیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے والے سورۃ الممتحنۃ کا مطالعہ بھی ضرور کرلیں۔ وہاں دیگرارشادات کے علاوہ یہ ارشاد ربانی بھی خصوصی توجہ چاہتا ہے:
تُسِرُّوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنتُمْ طوَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ (الممتحنہ ۶۰:۱) تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام دیتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں، جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔
کسی دنیاوی لالچ یا خوف کے باعث دشمن سے گٹھ جوڑ کرنا، اسے اپنی وفاداریوں کا یقین دلانا اور ذاتی مفاد کی خاطر ملک و ملت سے غداری کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ قرآن کریم میں مزید کئی مقامات پر اس سلسلے میں تفصیلی احکام و تنبیہات ملتی ہیں، لیکن یہاں مذکورہ بالا آیات و اقتباسات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ان سفارتی دستاویزات میں جہاں مسلمان حکمرانوں ، سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں، حکومتی کار پردازوں، اور دانشوروں کے ’اقوال زریں‘ درج کیے گئے ہیں، وہیں اپنے ان زرخرید دوستوں کے بارے میں امریکی آقاؤں کے ارشادات عالیہ بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی تمام تر وفاداریوں کا صلہ انھیں مکار، گھامڑ، بڈھا کھوسٹ، ازکار رفتہ، کرسی کا بھوکا، خرانٹ اور بعض ایسے ایسے القابات کی صورت میں دیا گیا ہے، کہ ایک مہذب انسان کے لیے انھیں زبان پر بھی لانا ممکن نہ ہو۔ امریکی ذمہ داران نے اپنے یہ سارے ادبی خزانے طشت ازبام ہوجانے پر بھی، کوئی ندامت یا شرمندگی محسوس نہ کی، نہ ہی ان پر کوئی معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ البتہ امریکی وزیر خارجہ یہ بیان دے کر اپنے تئیں فارغ ہوگئیں کہ سفارتی راز سامنے آنے سے ہمارے دوستوں کو جو شرمندگی ہوئی ہے، ہمیں اس پر افسوس ہے۔ پوری کوشش کریں گے کہ آیندہ ایسا نہ ہو۔ گویا صدمہ اگر ہے بھی تو اس بات پر کہ ’غلام اپنے غلاموں‘ کے سامنے بے نقاب ہوگئے وگرنہ، نہ تو ان کے بارے میں کہے گئے الفاظ و القاب غلط ہیں اور نہ خود ان کے اپنے بیانات میں کسی شک کی گنجایش ہے۔
اگرچہ دنیا کے صرف چند ممالک ہی ان لیکس کی زہرناکی سے محفوظ رہے یا رکھے گئے ہیں، لیکن ان کا غالب ترین حصہ مسلمان ممالک کے بارے میں ہے۔ اہل پاکستان کو لگتا ہے کہ وطن فروشی اور ضمیر کشی کی اس برہنہ دوڑ میں ان کے بڑے سب سے آگے ہیں، لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو الاماشاء اللہ ہر ملک کا عالم یہی ہے۔ اکثر مسلم ممالک کے بارے میں جاری کی گئی دستاویزات، امریکی خواہشات اور منصوبوں کی حقیقی عکاسی کرتی ہیں۔ مثلاً ایران پر حملہ کرنے کی بات ہی لے لیجیے، کون نہیں جانتا کہ امریکا اور اسرائیل ایک عرصے سے اسی آرزو میں گھلے جارہے ہیں۔ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں WMD's کے بعد ایرانی ایٹمی پروگرام کو اسی عالمی جوڑے نے ہو .ّا بنا کر پیش کیا ہے، لیکن اپنے سفارتی مراسلوں میں اپنے اس پورے خواب اور منصوبے کا ملبہ عرب حکمرانوں پر ڈال دیا۔ شیعہ سنی اختلاف اور خوں ریزی کی ساری آگ پر تیل تو خود چھڑک رہا ہے، لیکن کندھا عرب حکمرانوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ صرف عرب، عجم یا شیعہ و سنی ہی نہیں تقریباً تمام پڑوسی مسلمان ملکوں کو اسی طرح ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا ہے۔ الجزائری صدر بوتفلیقہ پڑوسی ملک مراکش کے بادشاہ کے بارے میں بیان دیتے ہوئے اسے استعمار کا چہیتا قرار دے رہا ہے اور خلیجی حکمران حزب اللہ اور شام کے حکمرانوں سے شاکی ہیں۔ امریکی سفارت کار اگر ان سارے لڑائی جھگڑوں کو اپنی وزارت خارجہ کے سامنے بغلیں بجاتے ہوئے پیش کررہے ہیں، تو خود امریکی ارادوں کو بھانپنے اور اُن کا مطلب و مفہوم سمجھنے کے لیے کسی کا عبقری ہونا ضروری نہیں۔ ہاں اس پورے شر میں سے اگر خیر کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو وہ یہی ہے کہ امریکی آرزوؤں کی بلی تھیلے سے باہر آجانے کے بعد، مسلمان حکمرانوں کے سامنے سنبھل جانے کا ایک اور موقع موجود ہے۔ کم از کم یہ ثابت کرنے کے لیے ہی وہ باہمی اختلافات کے الاؤ میں کودنے سے باز رہ سکتے ہیں کہ یہ دستاویزات ہماری نہیں امریکی خواہشات کا پرتو ہیں اور ہم ان سے اپنی برأت کا اظہار قولاً ہی نہیں عملاً بھی کرتے ہیں۔
مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کو یہاں یہ حقیقت بھی دوبارہ اور اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ وہ امریکی خوشنودی کے لیے اپنا سارا ملک بھی کھنڈرات میں بدل دیں اور اپنی ساری قوم کو بھی موت کے گھاٹ اتار ڈالیں، یہ حرافہ راضی ہونے والی نہیں ہے۔ اس کے مطالبات جہنم کے پیٹ کی طرح ہیں، انسانوں اور پتھروں کا جتنا بھی ایندھن ڈال دیں، اس میں سے یہی صدا آئے گی: ھَلْ مِنْ مَزِیْد۔ امریکی زبان میں اس کا ترجمہ یہی ہے Do More ۔ قرآن کریم نے واضح طور پر خبردار کردیا کہ ان یہود و نصاریٰ کی خوشنودی صرف ایک صورت میں حاصل ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کا دین چھوڑ کر ان کے دین میں داخل ہوجاؤ۔’ڈو مور‘ کی تابع داری کرتے حکمران، اقتدار کی کرسی بچاتے بچاتے اسی ھَلْ مِنْ مَزِیْد کے کنویں میں تو جاگریں گے، ’ڈومور‘ کا ڈھول بند نہیں ہوگا۔ جنوبی کے بعد شمالی وزیرستان، کوئٹہ اور پھر جنوبی پنجاب، کراچی اور پھر مریدکے… امریکا کہاں کہاں خون کی ہولی نہیں کھیلنا چاہتا۔
جواباً ہمارے ہاتھ میں کیا آتا ہے؟ لیکس کے مطابق ہالبروک اور دیگر امریکی ذمہ داران کی بھارت کو یہ یقین دہانیاں کہ وہ افغانستان میں مکمل آزادی سے کُھل کھیلے، ہم اس بارے میں کسی پاکستانی احتجاج یا مفاد کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آج افغانستان سے لگاتار یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بچے بچے کے دل میں پاکستان سے نفرت بٹھائی جارہی ہے، بھارت وہاں ہر شعبہ زندگی میں پاؤں جما رہا ہے، خود افغانستان میں افغانیوں کی تربیت کے علاوہ چار ہزار سے زائد افغان فوجیوں کو بھارت لے جا کر انھیں عسکری و فکری تربیت دے چکا ہے اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے۔ ساتھ ہی پختون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی مسلسل اکسایا اور مضبوط کیا جارہا ہے، اگر اب بھی ’ڈومور‘ کے مطالبے کو مسترد نہ کیا گیا تو ہم مشرق و مغرب سے ایسے شکنجے میں کَس دیے جائیں گے کہ ان سے نکلنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
امریکی سفارت کار اپنی دستاویزات میں یہ اعتراف و اظہار کرتے ہیں کہ بھارت مظلوم کشمیریوں پر ناقابل بیان ظلم ڈھارہا ہے۔ کشمیری عوام کو زندگی کے ہر عنوان سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پاناگ کو بدنامِ زمانہ سرب درندے، میلوسووچ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود، امریکی غلامی کے گذشتہ ۱۰برسوں میں کبھی بھی امریکا نے بھارت کو اپنی دہشت گردی سے باز آنے کا نہیں کہا۔ وکی لیکس کے مطابق، امریکی اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ہندو انتہا پسند طاقتیں بھارتی فوج اور ایجنسیوں سے مضبوط رشتہ رکھتی ہیں۔ اور یہ ہندو تنظیمیں عالمی امن کے لیے ان تمام تنظیموں سے بڑا خطرہ ہیں جن کا نام پاکستان کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ بھارتی ایٹمی اثاثوں کا ۸۰ فی صد بھی بھارت کے منہ زور باغیوں کے علاقے میں اور ان کی ممکنہ دسترس میں ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ۱۰ برسوں میں کسی نے اس بارے میں بات نہیں کی۔ ان ۰ابرسوں میں امریکی صدور سمیت جو امریکی ذمہ دار بھی بھارت گیا، اس نے دلی میں حکمرانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر، پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی ٹیپ چلانا اپنا فرض منصبی سمجھا۔ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے بھارتی ڈراموں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے بند کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن کشمیر، بھارتی مظالم، انسانی حقوق، کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی قراردادوں جیسے کسی بے کار لفظ کو قابل التفات نہیں سمجھا۔ لیکس نے واضح کیا کہ امریکا اور عالمی برادری کور چشمی کے مریض نہیں۔ کشمیر ی عوام کی خوں ریزی انھیں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی طرح امریکی بھی مجبور ہیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ کشمیری عوام نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ پاکستان سے محبت کا جرم بھی کرتے ہیں۔
وکی لیکس نے دنیا کے تقریباً ہر ملک کی خفیہ کہانیاں سرعام بیان کر دی ہیں، لیکن ان انکشافات کا ایک نہایت اہم پہلو، جس کی طرف مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی بہت کم توجہ گئی ہے، یہ ہے کہ فی الوقت دنیا پر اصل قبضہ یہودیوں کا ہے لیکن وکی لیکس میں کہیں بھی صہیونی حکمرانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جن برسوں کی یہ یادداشتیں ہیں، انھی برسوں میں اسرائیلی درندوں نے سفاکیت کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ لبنان کی تباہ کن جنگ کے علاوہ، غزہ میں قیامت خیز تباہی برپا کی ہے۔ یاسر عرفات سے کام نکل جانے کے بعد انھیں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ لیکن ان تمام صہیونی کارناموں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اب ہوسکتا ہے کہ اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے صہیونی ریاست کے راز و نیاز سے بھی کچھ پردہ سرکا دیا جائے لیکن یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ لاکھوں دستاویزات میں اب تک کیوں اسے کوئی جگہ نہ مل سکی؟ اس طرح کے دیگر کئی اہم سوالیہ نشانات کی روشنی میں بعض تجزیہ نگاروں کی راے میں ان لیکس میں ایک ڈرامے اور سازش کے سارے رنگ موجود ہیں۔ اس بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں لیکن اتنی بات بہرحال اظہر من الشمس ہے کہ تمام دستاویزات میں سے صہیونی ریاست سے متعلق تمام منفی چیزیں حذف کردی گئیں یا انھیں پردۂ اخفا میں رکھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔
اس چابک دستی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان انکشافات کا وہ حصہ باقی رکھا گیا ہے جو ہے تو صہیونی جرائم کے بارے میں، لیکن اس میں کچھ کردار عرب حکمرانوں کا بھی ہے۔ عرب حکمرانوں کا پردہ چاک والی یہ دستاویزات باقی رہنے دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے لیے پڑوسی عرب حکمرانوں بالخصوص مصری اور الفتح کے ذمہ داران نے نہ صرف اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی تھی، بلکہ انھوں نے اس آرزو اور خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، کہ غزہ سے حماس کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں محمود عباس کے سیکورٹی مشیر محمد دحلان کا اقتدار قائم کیا جائے۔ یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ مصری حکومت نے نہ صرف اسرائیلی احکام کی پیروی کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کیا بلکہ غزہ کا ہر راستہ بند ہوجانے کے بعد، اہل غزہ کی طرف سے مصری بارڈر پر کھودی جانے والی سرنگوں کی نشان دہی بھی کی، جنھیں اسرائیلی حملوںکے ذریعے تباہ کردیا گیا۔ ان لیکس میں ان کئی حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں، یہ سب کچھ بتانے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر مسلمان حکمرانوں کو بھی اس طرح کے روابط کے لیے حجت فراہم کی جائے۔ اس صورت حال کے تناظر میں بعض اسرائیلی صحافتی ذرائع نے اب باقاعدہ دعویٰ کردیا ہے کہ ولی لیکس انتظامیہ نے صہیونی ذمہ داران سے معاہدہ کیا تھا، کہ ان کے بارے میں تمام مراسلات پردئہ اخفا میں رکھے جائیں گے۔
کثرت اور تنوع کے ساتھ ساتھ ان دستاویزات سے یہ امر بھی پوری طرح مترشح ہوتا ہے کہ امریکی سفارت کار دنیا کے ہر ملک میں اور اس کے تمام اُمور میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی ملک کے نچلے سے نچلے طبقے تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ سیاست دان، صحافتی، تعلیمی اور عسکری حلقے ان کی سرگرمیوں اور توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ معاشرتی دائروں میںبھی وہ تمام طبقوں بالخصوص خواتین اور نوجوانوں میں گہری رسائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ ہر طبقے کے افراد کو ڈالروں، عیاشیوں، بیرونی دوروں یا دیگر مفادات کے گرداب میں پھانسنے اور پھر انھیں بلیک میل کرتے رہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ معروف اور طے شدہ سفارتی اصول و ضوابط کے مطابق، غیر ملکوں میں موجود سفارت کار، ان ممالک کے محدود علاقوں اور محدود افراد و اداروں تک ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ دیگر افراد اور علاقوں تک پہنچنے کے لیے اس ملک کی وزارتِ خارجہ کے ذریعے، متعین ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہے لیکن امریکا بہادر خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا۔
اب تو سفارتی حلقوں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) بھی بہت بڑی تعداد میں میدان میں اُتار دی گئی ہیں، جو ہر جگہ اپنی پوری کی پوری سلطنتیں قائم کررہی ہیں۔ بالخصوص مسلم دنیا میں این جی اوز اور استعماری کارندوں کے ہراول دستے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال بنگلہ دیش کی نام نہاد این جی او براک (BRAC) ہے جس کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا مگر اس نے ۱۵برس کے اندر اندر بنگلہ دیش کے سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں اپنی گرفت مضبوط تر کرلی۔ ۱۹۹۲ء میں خالدہ ضیا کی حکومت نے اس کے معاملات اور مداخلت کاری کا جائزہ لینے کے لیے ایک باقاعدہ کمیشن بنایا۔ کمیشن نے یہ بات متعین اور واضح طور پر کہہ دی کہ یہ نام نہاد این جی او عملاً ایک مداخلت کار اور ریاست کے اندر ریاست ہے۔ لیکن پھر جونہی اس پر قدغن لگانے کی بات کی گئی تو اصل راز کھل گیا۔ یورپی یونین نے دھمکی دے دی کہ اگر براک پر بنگلہ دیشی حکومت نے ہاتھ ڈالا تو ہم اس سے سفارتی تعلقات توڑ لیں گے۔ آج اس تنظیم کے ۳۸ ہزار سے زائد غیر رسمی تعلیم کے اسکول اور ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے زیادہ تنخواہ دار کارندے، بنگلہ دیش کی تعلیمی ہی نہیں سیاسی، سماجی، معاشی حتیٰ کہ داخلہ پالیسی تک کے معاملات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اب اسی تجربے کو دیگر ممالک میں پھیلاتے ہوئے خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کو ہدف بنایاجارہا ہے۔ افغانستان میں تو ۲۰۰۲ء سے اس کو تقویت دینے کے لیے ۳۴ میں سے ۲۳ صوبوں میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کرنے کے مواقع دیے گئے ہیں، جب کہ پاکستان میں اس نے ۲۰۰۷ء سے کام کا آغاز کیا ہے اور ۸ اضلاع میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بنالیا ہے۔ کمپنی کی سابقہ مشہوری کے سبب یورپی اور امریکی پشت پناہی کے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے، لیکن اگر معاملہ یہی رہا تو آیندہ دو سال کے بعد خود پاکستان کے وہ حکمران جو اس کے لیے مدد کے دروازے کھول رہے ہیں اپنے کیے پر یقینا پچھتائیں گے۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
امریکی دستاویزات سامنے آنے کا ایک مفید پہلو یہ ہے کہ اس سے دنیا کے سامنے اسلامی تحریکوں کی شفافیت اور اصول پسندی مزید واضح اور اجاگر ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان سمیت دنیا کی کوئی ایک بھی اسلامی تحریک نہیں کہ جس کی قیادت نے امریکا کے ساتھ اپنے ایمان و ضمیر کا سودا کیا ہو۔ سفارتی روابط ان کے بھی ہیں اور کئی ممالک میں کئی دیگر جماعتوں اور پارٹیوں سے زیادہ مستحکم و مربوط بھی، لیکن یہ ان پر اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ ان کی قیادت براے فروخت نہیں ہے۔ وہ بند کمروں میں بھی امریکیوں سے وہی کہتے ہیں جو لاکھوں کے مجمعے میں۔ یقینا اللہ کی حفاظت نہ ہوتی، تو یہ کمزور انسان بھی امریکا کی پھیلائی آلایشوں سے محفوظ نہ رہتے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں امریکی رپورٹوں اور تبصروں کے جواب میں اب تک صرف دو حکمران ایسے سامنے آئے ہیں جنھوں نے خود پر لگائے گئے الزامات کا پوری شدومد اور مضبوطی سے جواب دیا ہے۔ ایک تو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان جن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے مالی بدعنوانی کی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں ان کے آٹھ اکاؤنٹس ہیں اور ان میں بھاری رقوم پڑی ہیں۔ طیب اردوگان نے فوراً پریس کانفرنس بلائی اور چیلنج کیا کہ سوئس بنکوں میں میرا ایک بھی اکاؤنٹ اور ایک بھی پیسہ ثابت کردو تو مَیں حکومت و سیاست سے ابھی استعفا دینے کو تیار ہوں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان امریکی سفارت کاروں کے خلاف عالمی اور امریکی عدالت میں مقدمہ درج کروائیں گے جنھوں نے الزامات پر مبنی یہ رپورٹس بھیجی ہیں۔ فوراً امریکی وزیرخارجہ نے رابطہ کیا اور ترک حکومت سے باضابطہ معذرت کی گئی۔ لیکن ترک حکومت پر اصل الزامات وہ ہیں جو دیگر سیکڑوں دستاویزات کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں اور جن میں ترک حکومت کو اسرائیل کا کھلا مخالف قرار دیتے ہوئے، ترکی اسرائیل تعلقات میں روز افزوں ابتری اور تناؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
دوسرے حکمران سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر ہیں ان پر بھی مالی بدعنوانی اور ۱۰ ارب ڈالر برطانیہ لے جانے کا الزام لگایا گیا۔ انھوں نے بھی اس کی شدید مذمت و تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ثابت کردو کہ میں نے یہ رقم اڑائی اور برطانیہ میں رکھی ہے، تو مَیں خود یہ ساری رقم الزام ثابت کرنے والے کی نذر کردوں گا۔ لیکن سوڈان چونکہ خود مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اس کے جنوبی حصے کی علیحدگی کا سورج سوا نیزے پر آگیا ہے، اس لیے ایسی مشکل میں گھرے ہوئے پریشان حال سوڈان سے معذرت کا تکلف نہیں کیا گیا۔
امریکی دستاویزات نے پوری دنیا میں پھیلے امریکی سفارت کاروں کو ان ممالک کے اصل حکمران ہونے کے زعم و خبط کا شکار دکھایا ہے۔ خود امریکی اعلیٰ عہدے دار بھی اسی خدائی دعوے کی پھنکاریں مارتے نظر آتے ہیں، لیکن خود امریکا ہی میں لاتعداد امریکی دانش ور اور تجزیہ نگار، دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدارا اس پاگل پن سے نجات حاصل کرلو۔ عالمی امپیریل پاور بننے کے جنون میں ہم نے خود کو تباہی کے مہیب دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ہمارے پاگل پن کا دورہ اسی شدت پر رہا، تو کوئی دن جاتا ہے کہ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ دیگ کے ایک دانے کے طور پر چند روز قبل انتقال پاجانے والے امریکی دانش ور چیلمرز جانسن Chalmers Jonson کا مفصل مقالہ بعنوان Blowback: The Costs and Consequences of American Empire ملاحظہ کرلیجیے۔ جانسن اپنی کئی تحریروں میں سابقہ استعماری اور عالمی طاقتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انھوں نے بھی دیگر اقوام و ممالک پر قبضے کو قدرت کا فیصلہ اور انتخاب قراردیا۔ اپنے اپنے زمانے کی یہ سوپر طاقتیں بھی باقی تمام اقوام کو کمزور، وحشی اور جاہل قراردیتے ہوئے، دنیا کو ترقی اور حقیقی امن و آزادی دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے، ان پر قابض ہوتی چلی گئیں لیکن اپنے گھر سے باہر پھلتے پھولتے اور پھیلتے، وہ بالآخر اپنے گھر میں بھی تباہ حالی کا شکار ہوگئیں اور باہر بھی شکست و نامرادی سے دوچار ہوگئیں۔
جانسن امریکی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کی روشنی میں بتاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں امریکا کے ۷۳۷ فوجی اڈے ہیں۔ دنیا کے ۱۳۰ ممالک میں اس کے تقریباً ۵ لاکھ فوجی، جاسوس یا ایجنٹ پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں بیٹھے لاکھوں فوجی جاسوس اور ایجنٹ اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اتنی بڑی عسکری قوت کے باوجود اس کی بیرونی فوجی ایمپائر بھی تیزی سے زوال اور ہلاکت کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور اندرونی جمہوری نظام کی بنیادیں بھی بتدریج بوسیدہ اور کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ایک دانش ور اپنی تحریروں میں بار بار امریکی ایمپائر کو اختتام (End) سے خبردار کرتے اور ’’تمھارے دن گنے جاچکے‘‘ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کیا وقت نہیں آیا کہ وکی لیکس کے لاکھوں صفحات میں بکھری داستانوں کو پڑھ کر، ان سے کچھ سیکھ کر، اور خدا توفیق دے تو کچھ عبرت پکڑ کر مسلمان حکمران (اور عوام بھی) ایک ڈوبتے ہوئے آقا کے در سے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے رب کے حضور جھک جائیں___؟
وہ یقین کریں کہ رب کے در پر سر جھکانے سے وہ اتنے سربلند ہوں گے کہ انھیں ساری دنیا اپنے سامنے جھکی ہوئی اور پست نظر آئے گی۔
قومی ترانہ کیا ہے، پورا اعلانِ بغاوت اور اعلانِ جہاد ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی اور ملک کے قومی ترانے میں استعماری ملک کا نام لے کر اسے چیلنج کیا ہوگا۔ الجزائر کے قومی ترانے میں دو مرتبہ فرانس کا نام لے کر اس سے نجات حاصل کرنے پر اظہارِ فخروانبساط کیا گیا ہے:
یَافَرنَسْا قَدْ مَضٰی وَقْتُ الْعِتَاب
وَطَوَیْنَاہ کَمَا یُطْوٰی الْکِتَاب
یَافَرنَسْا اِنَّ ذَا یَوْمُ الحِسَاب
فَاسْتَعِدِّی وَخُذِی مِنَّا الْجَوَاب
اِنَّ فِی ثَوْرَتِنَا فَصْلَ الخِطَاب
وَعَقَدْنَا الْعَزْمَ اَنْ تَحْیَا الْجَزَائر
(او فرانس! اب وقت عتاب لد چکا، ہم نے اس دور کو کسی کاغذ کی طرح لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اوفرانس! روزِ حساب آن پہنچا۔ اب تیار ہوجائو اور ہمارا جواب سن لو۔ بے شک ہمارے انقلاب میں دوٹوک پیغام ہے۔ ہم نے پختہ عزم کرلیا ہے کہ الجزائر ہمیشہ تابندہ رہے گا۔)
کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ، حتیٰ کہ فرانسیسی ایوان ہاے اقتدار میں بھی اگر کبھی الجزائر کا قومی ترانہ بجے گا تو وہاں بھی یہی لَے اور اس کی یہی شان ہوگی۔ الجزائر سمیت بہت سے افریقی ممالک فرانسیسی استعمار کے قبضے میں رہے ہیں۔ ہرجگہ فرانسیسی زبان اور فرانسیسی تسلط کے اثرات اب بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، لیکن الجزائری عوام میں فرانسیسی استعمار کے خلاف جذبات اس قدر گہرے اور ہمہ گیر ہوں گے، الجزائر خود جاکر دیکھنے سے پہلے اس کا یوں اندازہ نہ تھا۔
الجزائر جانے کا پروگرام پہلے بھی دو تین بار بنا، لیکن ہربار کسی نہ کسی ناگزیر مصروفیت کے باعث آخری لمحات میں منسوخ کرنا پڑا۔ بالآخر ۵ اور ۶ دسمبر کو الجزائر کے دارالحکومت الجزائر (ملک اور دارالحکومت کا نام ایک ہی ہے) میں استعماری جیلوں میں گرفتار قیدیوں سے یک جہتی کے لیے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کانفرنس حکمران پارٹی ’محاذ آزادی‘ اور فلسطینی تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔ دنیا بھر سے ۷۰۰ کے قریب شرکا مدعو تھے۔ میزبانوں کے اعلان کے مطابق نیلسن منڈیلا کی شرکت بھی متوقع تھی، وہ تو اپنی ضعیفی کے سبب نہ آسکے، لیکن کانفرنس میں کئی اور نیلسن منڈیلا شریک تھے۔ ایسے بہت سے افراد تھے جو صہیونی، فرانسیسی، عراقی جیلوں میں طویل قید کاٹ چکے تھے۔ حزب اللہ کے سمیرالقنطار بھی تھے جنھیں اسرائیل نے ۵۴۲ سال کی قید سنائی تھی اور بالآخر ۳۰سال بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کرنا پڑا۔ ایسی خواتین بھی تھیں جو ۱۰،۱۰سال سے بھی زائد عرصہ صہیونی درندوں کے نرغے میں رہیں۔ ایک ایسی خاتون بھی اپنے شوہر اور اڑھائی سالہ بچے کے ساتھ کانفرنس میں موجود تھیں جو اپنی شادی کے چند ماہ بعد گرفتار ہوگئیں۔ جیل ہی میں بچے کی ولادت ہوئی اور معصوم باغی، دنیا میں آمد کے پہلے ۲۰ماہ اپنی ماں کے ساتھ جیل ہی میں رہا۔ گویا قیدوبند اس کی گُھٹی میں شامل ہے۔ عبداللہ البرغوثی نام کے ایک قیدی کے ۷۰سالہ والد بھی موجود تھے۔ عبداللہ کو اسرائیل نے ۶۷بار عمرقید، یعنی ۱۶۷۵سال کی سزا سنائی ہے۔ ظاہر ہے نہ قیدی نے سیکڑوں سال تک جینا ہے، نہ جلادوں اور جیلروں نے، لیکن اپنی درندگی ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ صدیوں کی قید سنائی جائے۔ سفید ریش والد کی آنکھیں غمِ یعقوب کی جھلک دکھا رہی تھیں، لیکن اپنی گفتگو میں انھوں نے بیٹے سمیت آزادی و جہاد کے ہر اسیر کو یہی پیغام دیا کہ لاتحزن ان اللّٰہ معنا، ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
اسرائیلی جیل میں قید ۳۰ سالہ فلسطینی خاتون احلام التمیمی کے اہلِ خانہ بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ احلام کو ۱۶بار عمرقید (۴۰۰ سال) کی سزا سنائی گئی ہے۔ صہیونی ریاست کی تاریخ میں کسی خاتون کو دی جانے والی یہ سب سے لمبی سزا ہے۔ کانفرنس میں ایک فلسطینی قیدی نائل البرغوثی کا خط بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ نائل صہیونی جیلوں کا سب سے پرانا قیدی ہے۔ ذرا جگر تھام کر سنیے کہ وہ گذشتہ ۳۳سال سے جیل میں ہے۔ اس نے اپنے خط میں لکھا تھا: ’’ہمیں زنجیروں کی پروا نہیں ہے، لیکن اگر آپ مسئلۂ فلسطین اور قیدیوں سے اظہار یک جہتی میںکمزوری دکھاتے ہیں تو اس کا دکھ شدید ہوتا ہے‘‘۔ نائل اگر آج بیت المقدس پر قابض صہیونی دشمن کو لکھ کر دے دے کہ اسے جہادِ آزادی میں حصہ لینے پر افسوس ہے، اور وہ آیندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرے گا، تو وہ کل رہائی پاسکتا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ جہاں ۳۳ سال قید گزر گئی، شاید باقی عمر بھی وہیں گزر جائے گی۔ لیکن اگر آج اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے بے وفائی کرتے ہوئے، اس پر یہودی تسلط قبول کرلیا تو پھر جو قید شروع ہوگی وہ موت کے بعد بھی جاری رہے گی… ہمیشہ ہمیشہ کی قید… جہنم کی وادیوں کی قید!
عراق کے ابوغُرَیب جیل میں امریکی سورمائوں کی قید میں رہنے والی ۵۰سالہ خاتون بھی کانفرنس میں شریک تھیں، بتانے لگیں کہ آزادی، جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار امریکی درندوں نے، ہمیں کئی ماہ تک ایک تنگ بیت الخلا میں بند رکھا۔ ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویریں باہر آئیں، تذلیلِ انسانیت کی نئی تاریخ دنیا کے سامنے آئی، عالمی احتجاج ہوا، تو امریکا نے دنیا کو دکھانے کے لیے بعض عالمی تنظیموں کو ابوغُرَیب کا دورہ کروایا۔ اسی طرح کے ایک دورے کے موقع پر ہم درجنوں خواتین کو قیدخانے کی اُوپر والی منزل میں بند کر دیا گیا۔ نیچے ان زائرین کا وفد پہنچا، تو امریکی جیلر انھیں صاف ستھرے کمروں میں، نظم و ترتیب سے رکھے گئے قیدیوں کی بیرکیں دکھانے لگے۔ موقع غنیمت جان کر ہم سب خواتین نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ٹیم کے کچھ ارکان ہم تک آن پہنچے اور حقیقت ِ حال کھل جانے پر امریکیوں کو ہمیں رہا کرنا پڑا۔ اس ادھیڑعمر خاتون نے کانفرنس ہال کے باہر، دیگر تنظیموں کی طرح عراقی قیدیوں کے بارے میں بھی ایک تصویری نمایش لگا رکھی تھی۔ ناقابلِ بیان مناظر امریکی فوجیوں کے ’مہذب‘ ہونے کی دہائی دے رہے تھے۔
کانفرنس میں معروف برطانوی پارلیمنٹیرین جارج گیلوے بھی شریک تھے۔ وہ اب تک تین قافلے غزہ لے جاچکے ہیں۔ فریڈم فلوٹیلا کے بعد وہ پورے عالمِ عرب میں ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسٹیج پر آکر انھوں نے انگریزی لہجے میں ’السلامولیکم‘ سے گفتگو کا آغاز کیا تو ہر ایک نے اپنائیت کا ایک انداز محسوس کیا۔ کانفرنس کے اکثر شرکا اسے برادر جورج، جارج بھائی کہہ کر مخاطب ہورہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزہ کی کھلی جیل میں ۱۵لاکھ فلسطینی قیدیوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے اس پر اظہارِ افسوس کیا کہ وکی لیکس کے ہزاروں مراسلوں میں کسی عرب حکمران نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کی۔ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں انھوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دوبرسوں میں ۵۵ امریکی شہروں میں جاکر فلسطین کے حق میں تقاریر کی ہیں۔
کانفرنس میں شریک مغربی دانش وروں میں سے ایک بڑا نام سٹینلی کوہن کا تھا۔ یہ معروف یہودی امریکی وکیل، امریکی اور اسرائیلی عدالتوں میں فلسطین کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم تمام یہودی، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے یکساں ذمہ دار ہیں۔ ایک امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارا ملک صہیونی لابی کے نرغے میں گھرا ہوا ہے‘‘۔ انھوں نے مغربی حکمرانوں سے سوال کیا کہ وہ فلسطین کا دورہ کرتے بھی ہیں تو فلسطینی عوام کی منتخب حکومت سے کیوں نہیں ملتے؟ ہم تو جمہوریت کے چیمپئن ہیں۔ عیسائی جورج اور یہودی سٹینلی نے انصاف کی بات کی، تو پوری کانفرنس نے انھیں دل کھول کر داد دی۔ اس پذیرائی میں یہ اعلان شامل تھا کہ اصل دشمنی پالیسی اور اعمال سے ہے۔ یہودی اور عیسائی رہتے ہوئے بھی اگر کوئی حق کا ساتھ دے تو اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ قرآن کریم بھی دعوت دیتا ہے:
اے نبیؐ! کہو، ’’اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔ اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیںتو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔(اٰل عمران ۳:۶۴)
کانفرنس صبح ۱۰ بجے شروع ہوئی تھی۔ راقم کو بھی افتتاحی سیشن میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ اسٹیج پر پہنچا تو سوا گیارہ ہورہے تھے۔ پاکستان اور الجزائر میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ عین اس وقت، یعنی تقریباً سوا چار بجے سہ پہر، اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا اپنے عروج پر تھا۔ اندازہ لگایا کہ اب شاید محترم امیرجماعت کا خطاب شروع ہونے کو ہوگا۔ اللہ نے توفیق دی اور اسی بات سے گفتگو کا آغاز ہوگیا کہ آج جس لمحے ہم پوری دنیا سے اس کانفرنس ہال میں جمع ہیں، اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ کے ہزاروں بھائی اپنے امیر کی قیادت میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ وہ سب میدان میں آکر صرف صہیونی ہی نہیں، تمام استعماری جیلوں سے بے گناہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں… شرکاے کانفرنس نے تالیوں سے اس اعلان کا استقبال کیا اور وہ سب بھی دھرنے میں شریک ہوگئے۔ پھر چند منٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر امریکی ڈرون حملوں، پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشوں، کشمیر میںہندستانی استعمار کی چکّی تلے پسنے والے کشمیریوں کا ذکر کرتے ہوئے اجازت لی۔ متعدد بار شرکا بھی اپنی تالیوں سے شریکِ گفتگو رہے۔
اسی روز (۵ دسمبر) ہی کو مصر میں انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہورہی تھی۔ اس لیے وہاں سے زیادہ شرکا نہیں آئے تھے۔ ویسے بھی مصر اور الجزائر کے درمیان ان دنوں تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ بدقسمتی ملاحظہ فرمایئے کہ دونوں اہم برادر ملکوں کے درمیان جھگڑا ایک فٹ بال میچ کے دوران ہوا۔ لگتا تھا میچ دونوں بھائیوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ کئی ماہ قبل ہونے والے اس حادثے کی گرمی ابھی تک فضا میں موجود تھی۔ اب بھی الجزائر کے اخبارات لکھ رہے تھے: ’’مصر سے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے، اس نے ہمارے شہدا کی توہین کی ہے، اسے الجزائری قوم سے معافی مانگنا ہوگی‘‘۔ مصری دوستوں سے ان کے انتخابات کے بارے میں دریافت کیا تو غصے اور بے بسی کا مرقع بن گئے۔ کہنے لگے: کچھ نہ کچھ دھاندلی اور فراڈ تو شاید دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا ہے، لیکن ہر غیرجانب دار منصف، مصر میں انتخابی دھاندلی کو پوری دنیا میں پہلا نمبر دے گا۔
الیکشن سے کئی ماہ پہلے مصر کے تقریباً ہر شہری کو معلوم تھا، کہ اس بار الیکشن میں اپوزیشن کو ایک فی صد نمایندگی بھی نہیں لینے دی جائے گی۔ گذشتہ انتخابات پانچ مراحل میں مکمل ہوئے تھے۔ اگرچہ ان میں بھی دھاندلی اور ریاستی تشدد کی انتہا کر دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی الاخوان المسلمون کو ۸۸ نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ مرحلہ وار انتخاب میں اخوان کو جیتنے سے روکنے میں ناکامی پر اس بار پورے ملک میں ایک ہی روز ووٹنگ تھی۔ اخوان کا ایک بھی نمایندہ پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیا گیا۔ اپوزیشن وفد پارٹی کو تین سیٹیں دی گئی تھیں، حکومت نے پہلے ہی ہلے میں ۹۵فی صد سیٹیں جیت لیں، جب کہ ۲۰۰ سے زائد حلقوں میں حتمی فیصلہ نہ ہونے کے باعث، ایک ہفتے بعد دوبارہ پولنگ کروانے کا اعلان کیا گیا۔ ان میں اخوان کے بھی ۲۷ اُمیدواروں کے نام شامل کیے گئے۔ وفدپارٹی کے بھی چند اُمیدوار دوسرے مرحلے میں آگئے۔ وفدپارٹی نے اتوار کے روز ہونے والی پولنگ میں دھاندلی کے خلاف، منگل کے روز دوسرے مرحلے کے بائی کاٹ کا اعلان کردیا۔ اخوان کے مرشدعام نے پیر کے روز ایک تفصیلی اور پُرہجوم کانفرنس میں اپنے تفصیلی موقف کا اعلان کیا۔ انھوں نے مصری عوام اور اخوان کے اُمیدواروں اور کارکنان کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ تمام تر حکومتی جبروتشدد کے باوجود، انھوں نے میدان نہیں چھوڑا اور آج وہ ایک بھی سیٹ نہ ملنے کے باوجود دنیا میں کامیاب قرار دیے جارہے ہیں اور اللہ کے دربار میں کامیابی کا تو ادنیٰ شک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: انتخابات میں بے نظیر دھاندلی کی وجہ سے پوری دنیا میں مصر کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس عالمی توہین کی پوری ذمہ داری حکومت کے سر ہے۔ واضح رہے کہ مصری انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کا اعتراف خود حُسنی مبارک کے سرپرست امریکا و برطانیہ کے تقریباً تمام اخبارات نے بھی کیا۔ سب نے حُسنی ہی کی نہیں خود اس کے مغربی آقائوں کی بھی مذمت کی۔ کئی ایک نے کہا: اگر ہماری جمہوریت کی عملی مثال حُسنی مبارک، حامد کرزئی اور نوری المالکی ہی ہیں، تو اس جمہوریت کی کون تائید و حمایت کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے کا عنوان رکھا: ’مسٹر حُسنی بمقابلہ مسٹر اوباما‘۔ اس نے لکھا کہ ’’مصری انتخابات نے اوباما انتظامیہ کے ان تمام اعلانات کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے جو وہ خطے میں تبدیلی کے حوالے سے کرتے چلے آرہے تھے‘‘۔
اخوان کے مرشدعام نے انتخابی دھاندلی کی مذمت کے ساتھ ہی ساتھ اس پہلو پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی کہ ’’اس سارے ظلم و تعدی کے باوجود ہم اپنی پُرامن جدوجہد کے راستے کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں کوئی بھی قانون اور دستور سے متصادم راستے کی طرف نہیں دھکیل سکتا۔ ہمارا راستہ طے شدہ، واضح اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ ہے۔ ہم ان شاء اللہ اسی پُرامن، دستوری راستے پر چلتے ہوئے ہی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے‘‘۔ اخوان کے ایک تجزیہ نگار نے دل چسپ اور جامع بات کی۔ انھوں نے کہا: اگر ہمارے سامنے الیکشن لڑنے کے ۱۲؍ اہداف و مقاصد تھے،تو ہم نے ان میں سے ۱۱ حاصل کرلیے۔ الیکشن میں نشستیں حاصل کرنے کا بارہواں ہدف حاصل نہیں بھی ہوسکا تو کوئی پروا نہیں، اللہ کی رسی کو تھامے رہے تو ان شاء اللہ یہ ہدف بھی جلد اور ضرور حاصل کرلیں گے۔
ووٹنگ کے دوران جھڑپوں میں ۱۱؍افراد موت کی آغوش میں اُتار دیے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے، ۲ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے۔ بیرونی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کو مقید کر دیا گیا۔ کئی ٹی وی رپورٹوں کو درمیان ہی میں روک دیا گیا اور کسی عالمی مبصر کو مصر نہیں آنے دیا گیا۔ دھاندلی کی ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ کیا چوری اور سینہ زوری ہے: حلوان نامی شہر کے بوتھ نمبر ۲۳۴ میں پولنگ ریکارڈ کے مطابق، پولنگ بند ہونے کے وقت ۳۷۸ ووٹ ڈالے گئے، کوئی ووٹ کینسل نہیں ہوا۔ جب گنتی مکمل ہوئی تو حکومتی نمایندے سیدمشعل کو ۴۶۰ اور اخوان کے نمایندے کو کوئی بھی ووٹ نہیں ملا، جب کہ دیگر اُمیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کو جمع کریں تو ۳۷۸ کاسٹ ہونے والے بوتھ کے ڈبوں سے ۹۱۰ ووٹ برآمد ہوئے۔ نہ کسی بندے کا ڈر، نہ بندوں کے رب کا خوف۔
اس پورے تناظر میں پہلے وفد پارٹی نے اور پھر اخوان نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کر دیا۔ بائی کاٹ کے اعلان میں کہا گیا کہ انتخابات کے نتائج کا تو پہلے سے بھی اندازہ تھا، لیکن ہم شرکت کے جو اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے، کرلیے۔ اب ان انتخابات کو مزید بے نقاب کرنے کے لیے بائی کاٹ کر رہے ہیں۔ اب یہاں ایک مثال اُلٹی دھاندلی کی ملاحظہ ہو: جب سب نے بائی کاٹ کر دیا تو عالمی اور عرب ذرائع ابلاغ کہنے لگے کہ حکمران پارٹی کا مقابلہ حکمران پارٹی ہی سے ہورہا ہے۔ حکومت نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ نہیں، اخوان بھی انتخاب میں شریک ہے۔ بائی کاٹ کرنے والے اُمیدواروں میں سے ایک اُمیدوار کو کامیاب قرار دے دیا، یعنی پہلے ہروانے کے لیے دھاندلی اور اب جتوانے کے لیے دھاندلی۔ مصر میں آیندہ برس صدارتی انتخاب ہونا ہے، اس کا نتیجہ بھی ابھی سے معلوم ہے۔ وکی لیکس کی دستاویزات میں خود امریکی سفارت کار بھی کہہ رہے ہیں۔ ۸۲سالہ حُسنی مبارک مرتے دم تک جان نہیں چھوڑے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جب دنیا سے کوچ کرنا پڑا، تو اپنے بعد اپنے بیٹے جمال مبارک کے سر پر تاج رکھ کر جائے گا۔ امریکی سفارت کاروں نے اس آدھے سچ کے ساتھ باقی یہ سچ نہیں لکھا، کہ اس سارے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل رہے گی اور امریکا اس شان دار عوامی تائید کے حامل مصری صدر کو، سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد پیش کرتا رہے گا۔
الجزائر کانفرنس میں سوڈانی سفیر کے مشیر قطبی المہدی بھی شریک تھے۔ ان کے ساتھ ساری گفتگو ۹جنوری کو ہونے والے ریفرنڈم کے بارے میں رہی۔ چھے سال قبل ہونے والے معاہدے کے تحت ہونے والے اس ریفرنڈم میں، جنوبی سوڈان کی آبادی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سوڈان ہی میں شامل رہیں گے یا وہ الگ ہونا چاہتے ہیں؟ سوڈانی حکومت نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت جنوب میں امن قائم کرلے۔ پہلے ۱۹۵۵ء سے ۱۹۷۲ء تک کی گیارہ سالہ اور پھر ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۵ء تک کی ۲۲سالہ جنگ میں ۱۹ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ ۴۰لاکھ افراد بے گھر ہوچکے تھے، اب سوڈانی صدر مصر تھے کہ جنگ بند کرکے خطے میں امن کا سفر شروع کیا جائے۔ جنوری ۲۰۰۵ء میں صدر عمرالبشیر اور جنوبی باغی لیڈر جون گرنگ کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی کامیابی کے لیے جنوبی رہنمائوں نے جو مانگا، انھیں دیا گیا۔ انھوں نے معاہدے کے وقت تقاضا کیا کہ ’’اقتدار اور ثروت‘‘ میں برابر حصہ دیا جائے، حکومت نے مان لیا۔ سینیرنائب صدر کا عہدہ بھی دے دیا، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتیں بھی ان کے سپرد کر دیں۔ چند سال قبل برآمد ہونے والے تیل کی آمدنی میں سے بھی ایک بڑا حصہ انھیں دے دیا۔ جنوبی آبادی کی اکثریت اس حسنِ سلوک کا اعتراف واظہار بھی کرنے لگی، لیکن براہِ راست امریکی مداخلت، ڈالروں کی بارش اور خود اسرائیلی ذمہ داران کے جنوبی علاقوں میں براجمان ہوجانے سے، تالیفِ قلب کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔
ریفرنڈم ہونے اور باقاعدہ نتائج آنے میں ابھی چند ہفتے باقی ہیں، لیکن تمام تر شواہد اعلان کر رہے ہیں کہ جسدِ ملّی کے دو حصے کیے جارہے ہیں۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ جنوبی سوڈان کا لاکھوں کلومیٹر پر مشتمل رقبہ سوڈان کے جسد سے کاٹ کر، افریقہ میں اسرائیلی اور امریکی مداخلت کا ایک نیا اڈا بنا دیا جائے گا۔ الگ جنوبی ریاست کی تشکیل سے سوڈان ہی نہیں تمام پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ بحیرۂ احمر کے مختصر پاٹ کے دوسری جانب سعودی سرحدیں اور جدہ کی بندرگاہ ہے۔ جنوبی ریاست کے اسی علاقے سے دریاے نیل پھوٹتا ہے۔ اسرائیل امریکا اور ان کے غلام جنوبی حکمران، مل کر پورے خطے کا پانی اپنے کنٹرول و اختیار میں کرسکتے ہیں۔ یہاں موجود تیل کے وسیع ذخائر پر بھی پوری مغربی دنیا کی رال ٹپک رہی ہے۔
تاریخ اس موقع پر ایک اور عجیب و تلخ حقیقت یاد دلا رہی ہے۔ صدر عمرالبشیر نے اقتدار سنبھالا تو انھیں سب سے پہلی مزاحمت انھی پڑوسی ممالک کی طرف سے برداشت کرنا پڑی تھی۔ مصر سمیت تمام ممالک نے امریکی پابندیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سوڈان کا محاصرہ کرڈالا تھا۔ سوڈان سخت جاں نکلا، نہ صرف حصار کی سختی برداشت کرگیا، بلکہ چین کے ساتھ مل کر تیل بھی نکال لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوڈان کی تقدیر بدلنے لگی۔ بس یہی بات استعمار کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے سوڈان کے حصے بخرے کرنے کے علاوہ ہر راستہ مسدود کردیا۔
سوڈان کے حصار میں دشمنوں سے بھی زیادہ فعال مصر سوچے کہ آج وہ خود سوڈان سے بھی زیادہ خطرات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ مصر کو دریاے نیل کا عطیہ و ثمر کہا جاتا ہے۔ چند ہفتے بعد ریفرنڈم اور پھر چند ماہ بعد ہونے والے انتقالِ اقتدار سے، دریاے نیل کا منبع بھی مجہول مستقبل کا شکار ہوجائے گا۔ آج مصر سے آوازیں آرہی ہیں: کاش ہم نے آغاز میں اپنے بھائی کا گلا گھوٹنے کی حماقت نہ کی ہوتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں برادر پڑوسی اور مسلمان ملک ہیں۔ دونوں کا نقصان، بالآخر پوری اُمتِ محمدی کا نقصان بھی ہے۔ اب مستقبل کی کوکھ سے خود امریکا و اسرائیل کو اس جرم کی کیا سزا ملتی ہے… یہ ظاہر ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
سوڈانی صدر عمرالبشیر نے اعلان کیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے بھائی ہم سے الگ ہوں، لیکن اگر انھوں نے بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر علیحدگی ہی اختیار کی، تو ہم بھی اپنے ملک میں وہ تمام اصلاحات کرنے کے لیے آزاد ہوجائیںگے، جو ہم پہلے جنوب میں جنگ اور پھر جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے نہیں کرسکے۔
صدمے کے لمحات میں بھی سوڈانی صدر امید کے دیے جلا رہے ہیں۔ باغیوں کی خانہ جنگی میں ۱۹ لاکھ جانوں کا نقصان دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید سب سے بڑا نقصان ہے۔ وہ اس جنگ کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا کر سوڈان کی تشکیلِ نو کا عزم رکھتے ہیں۔
مسافر تباہ حال بستی سے گزرا تو پکار اٹھا: اب بھلا اس اوندھے منہ پڑی، کھنڈر بستی کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ خالق نے کہا: خود ہی مشاہدہ کرلو، فوراً اسے اور اس کی سواری کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ پورے ۱۰۰ سال مُردہ حالت میں گزر گئے۔ پھر خالق نے اپنی قدرت سے مُردہ جسم میں دوبارہ روح پھونکی اور پوچھا: کیا خیال ہے کتنا عرصہ گزر گیا؟ ۱۰۰ سال تک مردہ پڑے رہنے والے مسافر نے کہا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ خالق نے بتایا: تم نے پورے ۱۰۰ سال گزار دیے۔ اب میری قدرت کا ایک اور مظہر دیکھو۔ تمھارا گدھا بھی ۱۰۰ برسوں میں پیوند خاک ہوگیا ہے ،لیکن تم اپنے ساتھ جو کھانا لے کر جارہے تھے وہ جوں کا توں پڑا ہے، باسی تک نہیں ہونے دیا گیا۔ اور اب دیکھو ہم تمھارے گدھے کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ بنی ہڈیوں کا ڈھانچا کھڑا ہوگیا، پھر ان پر ماس اور چمڑا مڑھ دیا گیا، تازہ دم سواری پھر سے تیار تھی۔ مسافر پکار اٹھا: پروردگار! میں بخوبی جان گیا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
سورہء بقرہ میں تفصیل سے بیان کیے گئے اس واقعے سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں، لیکن ایک اہم حقیقت جو اس منظر کی طرح دیگر کئی قرآنی مناظر سے بھی واضح ہوتی ہے یہ ہے، کہ گزرا ہوا وقت جتنا بھی طویل کیوں نہ ہو، مختصر ہی محسوس ہوتا ہے۔ بندہ اس حقیقت کا مشاہدہ و اظہار آخرت میں بھی کرے گا اور قرآن کریم کے الفاظ میں یہی تکرار کرے گا: ’’پروردگار! ہم تو دنیا میں ایک آدھ روز ہی گزار کر آئے ہیں‘‘۔ ’’ہم تو بس اتنی دیر دنیا میں رہے کہ ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرسکے‘‘، ’’بس چند ساعتیں ہی گزاری ہیں‘‘، ’’صرف چاشت کی کچھ گھڑیاں گزریں‘‘۔ حالانکہ ان سب لوگوں نے معمول کی زندگی گزاری ہوگی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی پیٹھ پر گناہوں کا خوف ناک انبار لدا ہوگا۔
گزرا وقت مختصر لگنے اور گزرنے والا وقت تیز رفتار ہونے کا مشاہدہ ،انسان کو دنیا میں بھی ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ جتنی بھی عمر گزر جائے، آنکھیں بند کرکے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے۔ ابتدائی بچپن کی یادیں، بھولے بسرے مناظر، گاہے اچانک مجسم صورت میں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وقت کا حساب کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ --- اچھا --- اتنا عرصہ گزر گیا۔
تازہ مثال دیکھ لیجیے، ابھی کل ہی ساری دنیا میں نئی صدی کے آغاز کا غلغلہ تھا۔ نئے ہزاریے، نئے ملینیم اور اکیسویں صدی کے بارے میں مختلف تجزیے اور تبصرے کیے جارہے تھے۔ طرح طرح کے دعوے، خدشے اور منصوبے سامنے آرہے تھے۔ وقت کی ایک ہی کروٹ میں آج ہم اس صدی کے پہلے ۱۰ سال پورے کرچکے ہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۰ء میں موجود ہر شخص ،آج صدی کا پہلا عشرہ مکمل کرچکا ہے۔ پل جھپکنے میں گزرنے والے اس عرصے کا مطلب ہے، ہم میں سے ہرشخص نے نئے ہزاریے کے ۳ہزار ۶ سو ۵۲ دن گزار لیے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ سال مہینے کی طرح گزر جائے گا۔ مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ ایک دن اور ایک دن ایک ساعت کی طرح گزرتا دکھائی دے گا‘‘۔ (احمد، ترمذی)
تیزی سے گزرتا یہ وقت ہی انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے، لیکن انسان اسی قیمتی متاع کے بارے میں ہی سب سے زیادہ غافل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کے مطابق: ’’اللہ کی عطا کردہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میںاکثر لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ’’صحت اور وقت فرصت‘‘۔ صحت کی نعمت بھی اسی وقت قیمتی لگتی ہے، جب بندہ اس سے محروم ہونے لگے۔ ایک عرب محاورے کے مطابق صحت، صحت مندوں کے سر پر ایک ایسا تاج ہے جو صرف بیماروں کو دکھائی دیتا ہے۔ اور وقت کے بارے میں عرب شاعر کہتا ہے ؎
دقات قلب المرء قائلۃ لہ
إن الحیاۃ دقائق و ثوان
(دل کی دھڑکنیں بندے کو ہر دم یہی سمجھا رہی ہیں کہ زندگی تو فقط یہی منٹ اور ثانیے ہیں۔ ہر طلوع ہونے والا دن مخلوق میں منادی کرتا ہے۔)
یا ابن آدم أنا خلق جدید، و علي عملک شہید، فتزود مني، فانی اذا مضیت لا أعود الی یوم القیامۃ ’’اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں۔ میں تمھارے عمل پر گواہ بنایا گیا ہوں۔ تم مجھ سے جتنا استفادہ کرسکتے ہو کرلو۔ میں چلا جاؤں گا تو پھرقیامت تک واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتادیا کہ تیزی سے گزرنے والے ان لمحات کے بارے میںہر انسان جواب دہ ہوگا۔روز محشر کسی شخص کو تب تک قدم نہیں ہٹانے دیے جائیں گے جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ جو مہلت عمر تمھیں دی گئی تھی، وہ کہاں فنا کی؟ عرب شاعر پھر یاد دلاتا ہے:
یسر المرء ما ذھب اللیالی
و کان ذھابہن لہ ذھابا
(بندہ خوش ہوتا ہے کہ روز و شب گزرگئے حالانکہ ان کا گزرنا خود بندے کا اپنی ہستی سے گزرتے چلے جانا ہے۔)
نئی صدی کے پہلے ۱۰ برس پلک جھپکتے مکمل ہوگئے۔ لیکن اگرسرسری سا جائزہ بھی لیں تو اس دوران عالمی، علاقائی اور ملکی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں روپذیر ہوچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے۔ اس نئی دنیا میں الفاظ کے معانی، اصطلاحات کے مفہوم اور روایات و اقدار سے لے کر، مختلف عالمی بلاک، ملکوں کے نقشے اور اپنے عہد میں سیاہ و سفید کے مالک بہت سے اصحاب اقتدار تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ خود کو سپریم اور اکلوتی عالمی قوت سمجھنے والا امریکا، عراق اور افغانستان میں اپنا نشۂ قوت ہرن کروا چکا ہے۔ یہ اور بات کہ خود فریبی اورجھوٹی انا اب بھی اسے اعترافِ جرم و شکست سے روک رہی ہے، لیکن یہ حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ نے خدائی کے جھوٹے زعم سے نجات نہ پائی تو بہت جلد ریاست ہاے متحدہ امریکا بھی سلطنتوں کے قبرستان میں برطانیہ عظمیٰ اور آنجہانی سوویت یونین کی طرح ماضی کی علامت بنا دکھائی دے گا۔ معاملہ صرف امریکا ہی کا نہیں، خود یورپ اور ناٹو سے لے کر عراق اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں تک، سب بری طرح خاک و خون میں لتھڑ چکے ہیں۔ عالمی اقتصادی بحران کا کوڑا بھی سب کی کمر پر سڑاک سڑاک برس رہا ہے۔ پیٹرو ڈالر کے بلند مینار بنانے کی دوڑ میں لگی، کئی صحرائی ریاستیںسکتے کا شکار ہو گئی ہیں۔
مختلف معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کی فہرست طویل ہوسکتی ہے ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت اہم ہے۔ اسی عشرے میں مفلوک الحال افغانوں، بے نوا فلسطینیوں اور کس مپرسی کے شکار عراقیوں نے مزاحمت، جدوجہد اور جہاد کے الفاظ کو نئے مطالب عطا کیے ہیں۔ ۶۳ سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں نے بھی ثابت کردیاہے کہ جب اپنے بھی منہ موڑ لیں، تب بھی عزم و ارادے اور جذبۂ آزادی کی حفاظت کیوں کر کی جاتی ہے۔ غزہ میں محصور ۱۵ لاکھ فلسطینیوں نے حقوق انسانی کے جھوٹے دعویداروں کے مکروہ چہرے سے مکر و فریب کا پردہ نوچ ڈالا ہے ۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے بھی دنیا کو سکھادیا ہے کہ زندگی کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں، تب بھی صرف اور صرف اللہ کے سہارے کیسے جیا اور آگے بڑھا جاتا ہے۔ اسی عشرے میں پاکستان کو تباہ کن زلزلے اور صدی کے بدترین سیلاب سے بھی دوچار ہونا پڑا، لیکن قیامت کی ان گھڑیوں میں اہل پاکستان نے من حیث القوم زندگی اور اسلامی اخوت کا ثبوت دیا۔
تصویر کے یہ دونوں رخ ،اور ان کے بہت سارے مزید پہلو بہت اہم ہیں۔ لیکن ہم اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہمارا ملک، قوم اور امت سب سنگین بحرانوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہم ان بحرانوں کے اسباب کا جائزہ لے کر مختلف شخصیات حکومتوں اور سیاسی و دینی پارٹیوں میں سے ان کے ذمہ داران کا تعین بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ قوم، ملک اور امت آخر کیسے تشکیل پاتے ہیں___؟ کیا افراد کے بغیربھی کوئی قوم یا امت تشکیل پاسکتی ہے؟ تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کو ہمیشہ دوسروں کے سر ذمہ داری ڈالنے اور تباہی کا رونا رو کر بیٹھ جانے کے بجائے، فرداََ فرداََ میدان میں آنا ہوگا۔ فرد میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں، آپ کے اہل خانہ، دوست احباب، اہل محلہ، اہل علاقہ___ یہی سب افراد بالآخر قوم اور امت کی تشکیل کرتے ہیں۔
اگرہم میں سے ہرفرد سوچے، ہر فرد اس بات کاجائزہ لے کہ جتنی عمر گزر گئی، اس میں ایک فرد کی حیثیت سے اس نے اصلاح و نجات کی خاطر کیا کیا؟ حالیہ دس برس ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہم ذرا دیکھیں کہ ان ۳ ہزار ۶ سو ۵۲ دنوں میں ہم میں سے ہر فرد نے کیا کارنامہ انجام دیا؟___ اپنے اور اپنے اردگرد بسنے والے ’افراد‘ کے دل میں کتنا احساس زیاں پیدا کیا___؟ اسی سوال کے جواب میں ہماری بہت سی مصیبتوں کا علاج چُھپا ہوا ہے۔
آئیے ۱۰ سال کے اس عرصے کی اہمیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معروف حدیث میں فرمایا: کلمتان خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان، حبیبتان إلی الرحمن، تملآن ما بین السماء و الأرض، دو کلمے ایسے ہیں کہ ادا کرنے میں انتہائی آسان و مختصر، لیکن قیامت کے روز میزان میں انتہائی وزنی، رحمن کو انتہائی محبوب، اور اپنے اجر و ثواب سے زمین و آسمان کے مابین پوری فضا کو بھر دینے والے ہیں۔ اور وہ دو کلمے ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ خود کو اللہ کے سامنے کھڑا محسوس کرکے، سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تسبیح ادا کرنے میں زیادہ سے زیادہ چھے سیکنڈ لگتے ہیں۔ کیا ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ۱۰ سال میں ہم رب ذو الجلال سے کیا اور کتنا کچھ حاصل کرسکتے تھے۔
آج اتفاق سے ہجری اور عیسوی دونوں برسوں کا اختتام اور نئے برس بلکہ نئے عشرے کا آغاز ہورہا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے صرف اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے، اسے سب کی بھلائی چاہنا ہے، سب کے لیے سراسر خیر ثابت ہونا ہے، ہر حرام سے بچنا ہے، رب ذوالجلال، اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب مجید کی محبت کو دیگر تمام محبتوں پر غالب کردینا ہے، اس کو اپنی تمام ذمہ داریاں تن دہی اور جاں فشانی سے انجام دینا ہیں، خود ہی اس راہ پر نہیں چلنا، جہاں تک آواز پہنچتی ہے، خیر کی اس آواز کو پہنچانا اور عام کرنا ہے، اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت کا ایک ایک لمحہ رب کی قربت کا مستحق بننے کی سعی کرنا ہے___ اگر ہم میں سے ہرفرد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر شہری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی یہ پختہ فیصلہ کرلے___ پھر اللہ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ،اس پر عمل شروع کردے تو یقینا… یقینا… یقینا آیندہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا،اور آخرت کی سرخروئی اس سے بھی پہلے یقینی ہوجائے گی۔
آج سے ۶۱ سال پہلے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات اہلِ علاقہ بابری مسجد میں عشاء کی نماز ادا کرکے گھروں کو چلے گئے۔ ہر چیز حسب ِ معمول تھی لیکن اگلی صبح فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے تو عجیب منظر تھا۔ مسجد کے اندر ’رام‘، ’لکشمن‘ اور’ سیتا‘ کے بت رکھے تھے ۔ مسلح ہندو ان کا پہرا دیتے ہوئے اعلان کررہے تھے کہ رات یہاں ’رام‘ کا ظہور ہوگیا ہے اور اب یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ محلے کی مسلم آبادی نے قریب واقع تھانہ فیض آباد میں اس قبضے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، بدقسمتی سے کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ صدیوں سے قائم تاریخی مسجد پر اچانک ہندو قبضے سے علاقے میں اشتعال پھیلنے لگا، تو صوبائی اور مرکزی حکومت نے مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے عارضی طور پر منع کردیا۔ بعد ازاں یہ پروپیگنڈا پورے ملک میں پھیلایا جانے لگا کہ صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی یہ مسجد ’رام‘ کی جاے ولادت ہے۔ ظہیر الدین بابر نے رام مندر ڈھا کر مسجد تعمیر کردی تھی۔ مسجد کا گنبد عین اس جگہ کے اُوپر بنایا گیا ہے جہاں رام نے جنم لیا تھا۔ کئی عشرے تک یہ پروپیگنڈا کرنے کے بعد بالآخر ۱۹۹۲ء میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سورماؤں نے ملک بھر سے اپنے مسلح کارکنان کو جمع کرکے تاریخی مسجد پر دھاوا بولا اور اسے شہید کرتے ہوئے وہاں ایک چھولداری میں رام کا بت نصب کر دیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس گہرے گھائو کی ٹیسیں محسوس کیں۔ ہرطرف سے احتجاج سامنے آیا۔ ہندو بنیے نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے عدالت کے سردخانے میں ڈال دیا۔ ۱۸سال انتظار، تحقیقات اور بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ آیا تو یہ کہ ’’صدیوں پرانی جس مسجد کو جنونی ہندؤوں نے شہید کردیا تھا، اس کا ایک تہائی مسلمانوں کو دیا جائے باقی پر اب ان کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ وہاں اب باقاعدہ رام مندر تعمیر کردیا جائے‘‘۔ گویا ڈاکو آکر گھر پر قابض ہوگئے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست نے یہ فیصلہ صادر کیاکہ گھر کا صرف ایک تہائی اہل خانہ کو دے دیا جائے، باقی پر ڈاکوؤں کا قبضہ قانونی قراردیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد ہندستان سے موصول ہونے والے ایک مضمون میں بابری مسجد اور ہندوئوں کے دعوے کے بارے میں بہت سے دل چسپ حقائق یک جا کیے گئے ہیں۔ آیئے ان میں سے چند چشم کشا نکات کا جائزہ لیتے ہیں:
’راماین‘ کے مطابق رام نامی خدا دوسرے دور کے آخر میں ۸لاکھ ۶۹ہزار ایک سو ۱۰ سال قبل پیدا ہوا۔ یعنی تقریباً پونے نو لاکھ سال پہلے پیدا ہونے والے رام کی جاے پیدایش اس قدر دقیق انداز سے معلوم ہے کہ اس کا بابری مسجد کے گنبد تلے واقع ہونا بھی یقینی ہے۔
معاملہ صرف بابری مسجد کی شہادت پر ختم نہیں ہوا، اب یہی متعصب ٹولہ سیکڑوں دیگر مساجد کے بارے میں بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ سب رام جنم بھومیاں تھیں، انھیں بھی منہدم کرکے رام مندر تعمیر کریں گے۔ کچھ لوگ اس خدشے کی سنگینی کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے طے کردیا ہے کہ بابری مسجد کے عدالتی فیصلے کو اسی طرح کے کسی دوسرے مقدمے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں کیا اس سے پہلے کوئی ایسا قانون نہیں تھا کہ جو دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنے سے روکتا ہو؟ اگر پہلے ان قوانین نے تعصب کی آگ کو نہیں روکا تو آیندہ کوئی قانون اسی طرح کے جنونیوں کو کیسے روکے گا؟
بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے عدالتی فیصلے کا اگر کوئی ایک مثبت پہلو ہے تو وہ یہ کہ دنیا اب ہندوازم کا اصل چہرہ زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکے گی۔ دنیا دیکھ سکے گی کہ ۱۸کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود، مسلمان وہاں کس طرح بے سہارا اور ہندو تعصب کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس سے پہلے گجرات کے قتلِ عام کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی مکار ہندو کو بے نقاب کرچکی ہیں کہ خود سرکاری سرپرستی میں کچھ ہندوئوں کو قتل کیا گیا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے پہلے ایک اور سرکاری رپورٹ ’سچر رپورٹ‘ میں بھی واضح اعتراف کیا جا چکا ہے کہ اتنی بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہندستانی مسلمانوں کو معاشرے میں نکّو بناکر رکھا گیا ہے۔ نہ ملازمتوں میں مناسب حصہ اور نہ تعلیم و ترقی میں برابری کے مواقع۔ بابری مسجد فیصلے کے بعد اب ہندوئوں کا یہ مطالبہ زور و شور سے سامنے آیا ہے کہ اذانوں پر پابندی لگائی جائے، ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ نقاب پر پابندی لگائی جائے اس سے دہشت گردی پھیلتی ہے۔
انصاف اور انسانی حقوق کی اس واضح توہین کے باوجود ہندستان کے لیے امریکی اور عالمی سرپرستی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان ملکوں سے دوستی بڑھانے اور سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے وعدے، ایٹمی پروگرام میں مزید تعاون اور دہشت گردی کی جنگ میں اپنے حلیف اوّل پاکستان کو چھوڑ کر امریکی صدر کے طویل ہندستانی دورے، سب انھی مسلمان دشمن پالیسیوں کو مزید آگے بڑھانے کے پیغامات ہیں۔ اُمت مسلمہ صرف اس قرآنی آیت ’’تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائو گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالِم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرورِ نفس نہیں ہے‘‘ میں ’’اور جنھوں نے شرک کیا‘‘ پر غور کر لے، پوری حقیقت بے نقاب ہوجائے گی۔
۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کی صبح ریڈیو پاکستان سے خبریں سنیں تو میں بھاگم بھاگ ۵- اے ذیلدار پارک پہنچا اور بغیر اجازت سید مودودی رحمہ اللہ کے کمرے میں جاگھسا۔ مولانا میز پر کہنی ٹکائے لکھنے میں مصروف تھے۔ اچانک میرے آجانے پر قلم روکا، ہاتھ اٹھایا تو آستین سرک کر کہنیوں پر آٹکی۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مسلسل لکھتے رہنے اور میز پر ٹکے رہنے سے ان کی کہنی سے کلائی تک گٹے پڑ چکے تھے___ ۱۹۷۱ء کے ہنگاموں سے جان بچا کر مغربی پاکستان آنے والا ایک عزیز ساتھی ۳۵ سال بعد اس واقعے کی تفصیل سنا رہا تھا۔
مولانا نے اطمینان سے پوچھا:کیسے آنا ہوا؟ میری سانس پھولی ہوئی تھی، میں نے شدت جذبات سے کہا: مولانا! شیخ مجیب قتل ہوگیا۔ مولانا نے بغیر کوئی تبصرہ کیے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھیے‘۔ میں بیٹھ گیا تو مولانا نے تسلی سے پوچھا: اب بتائیے کیا ہوا؟ آپ کو کس نے بتایا؟ میں نے کہا: مولانا میں نے خود ابھی ریڈیو سے سنا۔ بنگلہ دیش میں فوج نے تختہ الٹ دیا ہے اور شیخ مجیب قتل ہوگیا ہے۔ مولانا نے کہا: کتنے بجے کی خبروں میں سنا؟ خبریں اُردو تھیں یا انگریزی میں؟ میں نے کہا: ’’مولانا ابھی ۱۰ بجے کی انگریزی خبروں میں سنا ہے۔ مولانا نے میری تصدیق کرتے ہوئے کہا:ہاں ۱۰ بجے انگریزی خبریں نشر ہوتی ہیں۔ مولانا نے خبر کے بارے میںاپنی تسلی کرلی اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔ میں نے مولانا کا سکوت دیکھ کر حیرت اور کسی حد تک جذبات سے پوچھا: مولانا! آپ کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی؟ مولانا مودودی نے جواب نفی میں دیا۔ میں نے مزید حیرت سے پوچھا: اس شخص نے ملک توڑا، ہمارے اتنے ساتھیوں پر ظلم ڈھائے، اتنی بڑی تعداد میں قتل کروائے، پھر بھی اس کے قتل پر آپ خوش نہیں ہوئے۔۔؟ مولانا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا: مجھے خدشہ ہے یہ قتل وہاں کا آخری قتل نہیں ہوگا۔ سیاسی قتل و غارت اور انتقام کا سلسلہ کئی نسلوں تک چل سکتا ہے۔ ہم سے الگ کردیے جانے والے ہمارے بھائیوں میں سے کسی بھی بنگالی یا غیر بنگالی کا قتل، خوں ریزی اور تمام تر نقصان، سراسر ہمارا ہی نقصان ہوگا۔
۳۵ برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد آج پھر مولانا مودودیؒ کی یہ بات حرف آخر ثابت ہورہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قتل، ایک کے بعد دوسرا انقلاب اور ایک کے بعد دوسری شورش اس عزیز اور برادر ملک کو مسلسل آبلہ پا کیے ہوئے ہے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں حسینہ شیخ مجیب الرحمن کی ’عوامی لیگ‘ کو اتنی ’بڑی اکثریت‘ ملی کہ خود پارٹی قیادت کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی۔ انتخاب سے پہلے تقریباً تین سالہ عبوری دور میں مسلح افواج اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر کلیدی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ انتخابات کے بعد عوامی لیگ کے پاس قیمتی موقع تھا کہ وہ ملک میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا باب شروع کرتی۔ مگر ایسا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نہ تھا، انتخابی مہم کے دوران ہی انتقام کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں ہونے والے کشت و خون کی تمام تر ذمہ داری ۴۰ سال بعد اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال دی گئی۔ انھیں جنگی مجرم قراردیتے ہوئے سزاے موت دینے کی گردان شروع کر دی گئی۔
برسر اقتدار آتے ہی ملکی اداروں کو باہم لڑوادیا گیا۔ بنگلہ دیش بارڈر فورس اور بنگلہ دیش فوج کے مابین جھڑپوں کی آڑ میں، بھارتی بارڈر فورس کے ذریعے فوج کے ۷۶ فوجی افسر قتل کروادیے گئے۔ ان افسروں کو فوج میں بھارت مخالف عناصر سمجھا جاتا تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے الزام میں ۱۵ فوجی افسروں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کردی گئی۔ ۳۵ سال پرانے اس مقدمے میں جو چھے افسر ہاتھ لگے، چند روز کی براے نام عدالتی کارروائی کے بعد انھیں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ نہ کوئی تحقیق نہ تفتیش اور نہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی موقع۔ دنیا میں بھی کہیں اس ’انصاف‘ کا چرچا نہیں ہوا۔ انسانی حقوق، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کی چیمپیئن عالمی قوتیں سب اس پر خاموش رہے۔ یہ واقعی انصاف تھا تو ان سب کو اس پر اظہار اطمینان کرنا چاہیے تھا اور اگر ظلم تھا تو اسے بے نقاب کرنا چاہیے تھا لیکن .....
اس انوکھے انصاف کے لاشے ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ پورے ملک میں وسیع تر محاذ آرائی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار ہدف دستور کی اسلامی دفعات، ملک کی اسلامی شناخت، اسلامی لٹریچر اور اسلامی جماعتیں تھیں۔ ملک کی اسلامی شناخت کا تعین کرنے والی دستوری شقیں تبدیل کرکے، سیکولر شناخت لازم کرنے والے الفاظ شامل کر دیے گئے۔ سرکاری لائبریریوں، مدارس اور دفاتر میں مولانا مودودی کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اسلام پسند عناصر بالخصوص جماعت اسلامی کے قائدین کو مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتار کرنا شروع کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، سیکریٹری جنرل علی احسن مجاہد، ملک کے مایہ ناز مفسر قرآن مولانا دلاور حسین سعیدی، اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل قمر الزمان اور عبد القادر ملا صاحب سمیت اب تک گرفتار شدگان کی تعداد کئی ہزار ہوچکی ہے۔ مزید کئی ہزار کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان حضرات بالخصوص نظامی صاحب کو جاننے والا ہر شخص ان کی شرافت، ایمان داری اور قانون کی پاس داری کی گواہی دے گا۔ لیکن ان حضرات پر الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ ۱۹۷۱ء میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بعض بنگلہ دیشی ذمہ داران سے ملاقات ہوئی۔ وفد میں شریک حکمران عوامی لیگ کے ایک اہم وزیر نے کھلم کھلا اعتراف کیا کہ ’’یہ سراسر ایک سیاسی مسئلہ ہے کوئی عدالتی مسئلہ نہیں۔ ۴۰سال بعد کسی پر کوئی سنگین الزام لگانا اور اسے ثابت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، لیکن---‘‘ اس لیکن کے بعد وزیر موصوف کچھ نہ کہہ پائے، لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے۔
حسینہ شیخ کی عوامی لیگ اپنے روز تاسیس ہی سے بھارت نواز جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ حالیہ دور حکومت میں یہ جادو خوب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی نظریاتی شناخت مسخ کرنے سے لے کر اسلامی عناصر کی سرکوبی تک اور بنگلہ دیش کے ریاستی اداروں میں جابجا بھارت نواز عناصر ٹھونس دینے سے لے کر، تمام ریاستی پالیسیوں میں بھارتی مفادات کی آب یاری تک، ہرقدم تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال جنوری میں حسینہ شیخ کے دورۂ بھارت کے دوران ہونے والے علانیہ اور خفیہ معاہدوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ ان میں سے ایک زمینی راستوں سے نقل و حمل کا معاہدہ، بھارت کے دیرینہ خواب کی تکمیل کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کا جغرافیائی محل وقوع، بھارتی مفادات کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بھارت کی تیل و معدنی وسائل سے مالا مال سات ریاستیں ایسی ہیں کہ ان کے اور باقی ہندستان کے درمیان بنگلہ دیش واقع ہے۔ اس وقت ان ساتوں ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت اپنی ان ریاستوں کے ساتھ صرف تقریباً ۳۳کلومیٹر چوڑی دشوار گزار پٹی کے ذریعے جڑا ہوا ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی سرحدوں کی لمبائی ۳ہزار ۴ سو ۶ کلومیٹر ہے۔ بھارت ہمیشہ خواہاں رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ خشکی کے راستوں کا ایسا معاہدہ کر لے کہ یہ سارا سرحدی علاقہ، اس کے لیے ایک گزرگاہ کی حیثیت اختیار کرجائے۔ اس سے نہ صرف اپنی ان ریاستوں تک اس کی رسائی آسان ہوجائے گی بلکہ بنگلہ دیش میں بھی ہر جانب پاؤں پھیلائے جاسکیں گے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو اس دام میں پھانسنے کے لیے ایک ارب ڈالر یعنی، ۸۴ارب روپے کا قرض دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اس معاہدے کے علاوہ، حسینہ شیخ نے کھلُنا اور چٹا گانگ کی بندر گاہ ہندستانی استعمال میں لانے کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ غیر قانونی سمگلنگ کے ذریعے ہندستانی مصنوعات کی یلغار اس کے علاوہ ہے، جس سے ملکی صنعت ٹھپ ہوتی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ہندستانی تسلط صرف اقتصادی میدان میں ہی نہیں، ملک کی تمام تر اندرونی و بیرونی پالیسیاں بھارتی شکنجے میں جکڑی جارہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں کا اصل سبب بھی ان جماعتوں کا ہندستانی تسلط کی سازش کی راہ میں مزاحم ہونا ہے۔
جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان کی گرفتاری، بزرگ قیادت پر جنگی جرائم کی تہمت، ہولناک ابلاغیاتی جنگ، پورے ملک پر پولیس راج اور سرکاری سرپرستی میں عوامی غنڈا گردی کے ذریعے، خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کے بعد اب بھارت مخالف سمجھی جانے والی خالدہ ضیاء کی سیاسی جماعت بی این پی سے بھی جھڑپیں شروع کردی گئی ہیں۔ ان کے کارکنان کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں میں شدت اس وقت آئی جب ۱۱؍اکتوبر کو سعید آباد ضلع سراج گنج میں بی این پی کی طلبہ تنظیم سابق صدر حسین محمد ارشاد کے عہد اقتدار میں قتل ہوجانے والے اپنے کارکن نذیر الدین جہاد کی یاد میں ’یومِ جہاد شہید‘ منارہی تھی۔ اس موقع پر رکھے گئے اجتماع سے سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو بھی خطاب کرنا تھا، جب کہ حکومت کی خواہش تھی کہ وہ یہاں خطاب نہ کریں۔ جلسے کا اعلان کرنے پر عوام کی اتنی بڑی تعداد اُمڈ آئی۔ لوگ جلسہ گاہ کے قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن پر بھی دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اس وقت وہاں سے ایک ٹرین گزرنے کا وقت تھا۔ یہ سہ پہر کے تین بجے کا وقت تھا۔ دن کی روشنی میں ریلوے لائن پر بڑا ہجوم دیکھ لینے کے باوجود ٹرین کے ہندو ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی اور وہاں جمع بہت سے افراد کو کچلتے ہوئے گزر گیا۔ چھاترودل کے چھے کارکنان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے اور پھر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہ واقعہ دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین ایک اور نزاع و تصادم کی بنیاد بن گیا۔ اس کے بعد سے مسلسل ہنگامے جاری ہیں اور خالدہ ضیاء کے درجنوں کارکنان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود اپنے روایتی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتی میڈیا نے مسلسل طعنہ زنی اور طنز و تشنیع کرتے ہوئے کارکنان کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ نظامی صاحب ، مجاہد صاحب، سعیدی صاحب جیسے بزرگ رہنماؤں کو بھاری پولیس نفری کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو دونوں طرف کھڑے اوباش ان پر آوازے کستے ہیں: ’’پاکستانی ایجنٹ --- پاکستانی دلال--- پاکستانی جاسوس--- لیکن جماعتی زعما یہ آیت پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں: وَّاِِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان ۲۵:۶۳)۔ گذشتہ دو ماہ میں تین بار ایسا ہوچکا ہے کہ اچانک مرکز جماعت کو ہرطرف سے گھیر کر چھاپے مارے، درجنوں سادہ اور وردی پوش افراد نے آکر ایک ایک کمرہ چھان مارا اور اپنے تئیں خوف و دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔ گرفتار شدہ رہنمائوں کو متعدد بار پولیس جیل سے تفتیشی مراکز لے جایا جاتا ہے، ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر آنے کے بجاے گھر گھر رابطے کا کام کررہے ہیں۔ عدالت میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ کائنات کا مالک خبیر و قدیر اللہ تعالیٰ اس آزمایش اور تندی باد مخالف کو بھی ان کے لیے بلندی پرواز اور مزید کامیابیوں کا ذریعہ بنائے گا۔ یہ مقدمہ ہر حوالے سے بے بنیاد، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام صرف بھارتی اشارے پر کیے جانے والے کسی ظالمانہ فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔
جنگی جرائم کے کئی مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ، اعلیٰ پائے کے برطانوی وکیل اسٹیون کولیس نے بھی ۱۳؍ اکتوبر کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سیمی نار سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہا ہے: یہ پورا مقدمہ، اس کے لیے بنایا جانے والا خصوصی ٹربیونل، اور کارروائی کا طریق کار، خود بنگلہ دستور، بین الاقوامی قوانین اور جنگی جرائم کے مقدمات کے لیے مطلوبہ کوائف و دستاویز سے متصادم ہے۔ ججوں کی تقرری اور ان کی واضح جانب داری سب پر عیاں ہے اور اس صورت میں ملزمین کے خلاف آنے والا عدالت کا ہر فیصلہ واضح انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔
بنگلہ دیش کی عمومی فضا بھارت مخالف ہے۔ بھارت کی متکبرانہ و سازشی ذہنیت کے باعث یہ بات یقینی ہے کہ بنگلہ دیش اس کی باج گزار ریاست کی حیثیت اختیار نہیں کرسکے گا۔ البتہ امریکی اور اسرائیلی سرپرستی میں پورے خطے میں مسائل پیدا کرتا رہے گا۔ امریکا بھارت کو بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں بھی مکمل طور پر حاوی اور مؤثر قوت بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی فلموں، گانوں اور بے حیائی کلچر کے ذریعے افغانوں کے دل و دماغ مسحور کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ بھارت وہاں تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کر رہا ہے۔ ان کی آڑ میں جاسوسی کا گہرا، وسیع اور مضبوط جال بھی بُن رہا ہے۔ مستقبل کی افغان فوج اور پولیس میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے لیکن یہ عجیب امر ہے کہ صرف بنگلہ دیش یا پاکستان ہی کو نہیں بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کو بھارتی تعلّی سے شکایات ہیں۔ چین، نیپال، سری لنکا، میانمار اور بھوٹان سب کے ساتھ بھارت کا کوئی نہ کوئی تنازع چلتا رہتا ہے۔ بھارت اگر انصاف، برابری اور احترامِ باہمی کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے خطے پر قبضے کے خواب دیکھنا نہیں چھوڑے گا تو نہ صرف پڑوسی ممالک کے لیے بحرانوں کا باعث بنتا رہے گا بلکہ خود بھی بہت جلد اور یقینا مکافاتِ عمل کا شکار ہوگا۔
امام حسن البنا شہید کے رفیق کار نے اپنے جھریوں بھرے رعشہ زدہ ہاتھوں سے سیلاب فنڈ میں رقم دیتے ہوئے کہا: ’’اس کی رسید کا انتظار کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے اپنے کفن میں ساتھ لے جائوں۔ پاکستان اسلام کی خاطر وجود میں آنے والا ہمارا برادر ملک ہے اور آج وہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہم سب کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے بچوں سے یہ رقم جمع کی ہے تاکہ ہم بھی سیلاب زدگان کی معاونت میں جماعت اسلامی کی کوششوں میں حصہ ڈال سکیں‘‘۔ ایک نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں۔ بڑی بڑی رقوم سے لے کر بچوں کے جمع کردہ جیب خرچ تک، جس کو جتنی توفیق نصیب ہوئی اس نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھجوانے کی سعی کی۔
ایک اور جگہ اسکول کے مدرس اور مسجد کے امام صاحب نے سیلاب زدگان کے لیے اپیل کی۔ ایک بچے نے بھی مٹھی میں دبا نصف ریال (تقریباً ۱۱ روپے) سیلاب زدگان کے لیے پیش کردیا۔ امام عبداللہ سمیت سب حاضرین کو اس پر بہت پیار آیا۔ امام صاحب نے وہ نصف ریال اُٹھایا اور کہا: یہ بہت قیمتی ہے۔ نہ جانے مالکِ کائنات کو کتنا پسند آیا ہوگا۔ کوئی ہے جو اس کو اپنے لیے پسند کرتے ہوئے خود رکھ لے اور جتنی توفیق ہے وہ پیش کردے…؟ ایک صاحب نے کہا: اس کے ۱۰ ریال دیتا ہوں، بڑھتے بڑھتے وہ ۲۰۰ ریال میں لے لیا گیا اور معصوم بچے سمیت سب کا اجر کئی گنا بڑھ گیا۔ ایک دو نہیں لاتعداد واقعات ہیں جو اُمت میں موجود خیرکثیر کی خبر دیتے ہیں۔
جذبۂ انفاق کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ تشویش اور افسوس بھی تھا کہ محدود امریکی طوفانوں اور کتوں، بلیوں کے لیے اربوں ڈالر کے انبار لگا دینے والی عالمی برادری اس قیامت ِصغریٰ پر لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔ ایک صاحب نے اس پریشانی کا اظہار بھی کیا کہ کئی اہلِ خیر مصیبت کے ان لمحات میں امداد دینا چاہتے ہیں لیکن انھیں یہ اعتماد نہیں ہے کہ ان کے صدقات و عطیات واقعی مستحقین تک پہنچ جائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مجلس میں نوجوان نے پوچھا: میں نے عمرے کے لیے ایک رقم جمع کررکھی ہے لیکن سیلاب آیا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ عمرے پر جائوں یا یہ رقم متاثرین سیلاب کے لیے بھجوا دوں؟ مجلس میں بیٹھے بزرگ نے فتویٰ دیا: عمرے پر چلے جائو۔ حاضرین نے اس جواب پر حیرت کا اظہار کیا تو بزرگ نے کہا: ’’سیلاب کے لیے دے بھی دو گے تو مستحقین تک پہنچنے کی اُمید نہیں ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس بے اعتمادی کے باوجود مجموعی طور پر عالمِ عرب نے سیلاب زدگان کی معاونت میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں عرب ذرائع ابلاغ نے بھی بہت مؤثر، مثبت اور بھرپور کردار ادا کیا۔ بالخصوص الجزیرہ چینل کی ٹیم نے بیک وقت تین مختلف مقامات سے بہت جاں فشانی سے رپورٹنگ کی، جس کے نتیجے میں اُن حکومتوں اور اداروں کو بھی متحرک ہونا پڑا جو اس قیامت سے لاتعلق بیٹھے تھے۔ غیرجانب داری سے کی جانے والی رپورٹنگ میں حکومت، فوج، دینی جذبے سے کام کرنے والی امدادی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی کارکردگی کے مطابق حصہ ملا۔ کاش! یہ اَنمول خدمت کسی ابلاغیاتی ادارے کے بجاے خود حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتی، لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ تھا۔ ذرائع ابلاغ رپورٹنگ کرنا چاہتے تھے اور حکومت رکاوٹیں ڈال رہی تھی۔ الجزیرہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ چینل نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں موجود اپنے بیورو کے علاوہ ۱۵ مزید افراد کو تمام جدید آلات و سہولیات دے کر سیلاب سے تباہ علاقوں میں بھیجا جائے اور وہاں سے براہِ راست رپورٹنگ کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ِ پاکستان نے ان افراد کو ویزے نہیں دیے۔ یہ امریقینی ہے کہ اگر انھیں ویزے دے دیے جاتے تو سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں اور وسائل میں کئی سو گنا اضافہ ہوجاتا۔
اپنے اور اپنے حبیبؐ کے حرم کو اللہ تعالیٰ نے بے حدوحساب برکات عطا کی ہیں۔ ہرلمحے مغفرت اور رحمتوں کی ہمہ پہلو بہاریں جلوہ افروز رہتی ہیں۔ رحمتوں کے اسی پرتو میں اجتماع و اتحاد اُمت کے بے مثال مناظر و مواقع بھی نصیب ہوتے ہیں۔ حالیہ سفر میں ایسے ایسے احباب سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
ہم نے زیرزمین سرنگوں کے ذریعے سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی سعی شروع کردی۔ میلوں لمبی سرنگوں کا پورا جال بچھ گیا۔ تھوڑی سی کوشش میں اللہ کی اتنی نصرت شامل ہوگئی کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روزمرہ کی کئی اشیا ایسی ہیں کہ جو غزہ میں تقریباً آدھی قیمت میں مل رہی ہیں، جب کہ مصر میں جہاں سے یہ اشیا لائی جارہی ہیں وہی چیزیں دگنی قیمت میں ملتی ہیں مثلاً چھوٹا گوشت یا تو ملتا ہی نہیں، ملے تو غزہ میں ۳۰ مصری پونڈ (۴۳۰ روپے) کلو ملتا ہے، جب کہ مصر میں ۶۰پونڈ میں، غزہ میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کیونکہ نایاب ہے تو قیمت بڑھا دو۔ غزہ میں ایک خدا خوف اور ہر دم بیدار قیادت آنے سے ہم فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار وہ امن و امان قائم ہوا کہ جس کا ذکر ہم صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں۔
میں نے سوال کیا لیکن اس ۹۰ فٹ گہری زیرزمین فولادی دیوار کا کیا بنا جو ان سرنگوں کو بند کرنے کے لیے مصر اور غزہ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ہے، اور اس کے لیے امریکا سے ایسی آہنی چادریں بھجوائی گئی تھیں کہ بم بھی جن پر اثر نہ کرسکے؟ کہنے لگا: یہاں ہم نے پھر قرآن کریم سے استفسار کیا۔ قرآن نے جواب دیا: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ(انفال ۸:۶۰) ’’ان سے مقابلے کے لیے ہر وہ طاقت فراہم کرو جو تمھارے بس میں ہے‘‘۔ ہم نے ان فولادی دیواروں کو کاٹنے کے لیے جو کچھ بھی انسانی ذہن میں تدبیر آسکتی تھی، اختیار کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت کا ورد اور اللہ سے مدد بھی طلب کرتے رہے۔ یقین کیجیے کہ بموں سے بھی نہ کٹ سکنے والی ان چادروں میں بھی ہم اتنے بڑے بڑے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے کہ اب وہاں سے گاڑیاں تک گزر سکتی ہیں۔ یہی نہیں قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ(البقرہ ۲:۲۱۶) ’’ہوسکتا ہے کوئی چیز تمھیں ناپسندیدہ لگ رہی ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر اور باعثِ خیر ہو‘‘۔ اس آہنی دیوار سے پہلے ہمارا ایک مسئلہ یہ تھا کہ طویل ہونے کی وجہ سے سرنگیں درمیان سے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ اب ان آہنی اور کنکریٹ کی دیواروں سے انھیں درمیان میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے۔
۹۰ روز میں مکمل حفظ قرآن کے معجزے کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا: زیادہ بڑی تعداد اب ۹۰ نہیں ۶۰روز میں پورا قرآن حفظ کرنے لگی ہے۔ اب بچوں کے علاوہ بچیوں اور خواتین کے لیے بھی حفظ قرآن کیمپ لگائے جارہے ہیں۔
انھی دنوں غزہ کی ایک ۵۹سالہ داعیہ صُبْحِیَّہ علی کا انٹرویو دیکھا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہماری نصرت کے تین مطلوبہ ستون ہیں: مسجد، قرآن اور ثابت قدمی‘‘۔ ہماری خواتین صرف رمضان یا جمعہ ہی کو مساجد نہیں جاتیں بلکہ ہفتے میں تین روز عصر سے عشاء تک مسجدیں آباد رکھتی ہیں۔ صرف نمازوں کی ادایگی ہی نہیں کرتیں، ایک مسلسل اور جامع تربیتی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں۔ اس دوران دروس بھی ہوتے ہیں۔ مختلف کورسز بھی اور تربیتی ثقافتی اور تفریحی مقابلے بھی۔ ہماری تربیتی سرگرمیوں میں ہر عمر کی بچیاں اور خواتین شریک ہوتی ہیں، لیکن ۱۰ سے ۱۴سال کی بچیاں ہماری خصوصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔
صُبْحِیَّہ کا کہنا تھا: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہم جب تک قرآنی اخلاق سے آراستہ نہیں ہوں گے، آزادی کی نعمت حاصل نہیں کرسکتے۔ دشمن نے بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ وہ اخلاقی بے راہ روی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے اور ہم قرآن کے سہارے اپنی اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں غزہ میں دارالقرآن والسنۃ نے ۶۰روز کے اندر اندر قرآن کریم حفظ کروانے کا آغاز کیا۔ ۴۰۰ بچوں اور بچیوں نے حفظ کیا۔ اگلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں پھر تباشیرالنصر (فتح و نصرت کی علامات) کے عنوان سے کیمپ لگائے گئے۔ اس سال ۳ہزار طلبہ و طالبات نے قرآن حفظ کیا۔ پھر تو غزہ میں جگہ جگہ حفظ قرآن کیمپ لگنے لگے۔حدیث کے مطابق حافظ قرآن کے والدین کو حشر میں وقار و مرتبت کا تاج پہنایا جائے گا۔ سورج کی روشنی اس کے سامنے ماند ہوگی۔ اب مخیمات تاج الوقار (تاج الوقار کیمپ) کے عنوان سے جگہ جگہ سرگرمی ہوتی ہے۔ بینر دکھائی دیتے ہیں: ھذا ھو جیل النصر ’’یہ ہے وہ نسل جسے اللہ کی نصرت ملنا ہے‘‘۔ تاج الوقار، للاقصٰی انتصار ’’تاجِ وقار، اقصیٰ کی نصرت ہے‘‘۔ صُبْحِیَّہ نے کہا تھا: میں نے حفظ قرآن کیمپ کی ایک تقریب تقسیم اسناد میں شرکت کی، ۱۶ہزار حفاظ جمع تھے، سب کے چہرے قرآنی نور سے دمک رہے تھے۔ غزہ سے آنے والا مسافر بتا رہا تھا۔ اس وقت غزہ میں ان نئے حفاظ کی تعداد ۹۰ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اب ہم قرآن اور بندوق، دونوں سے آراستہ ہورہے ہیں۔ اسی روز عالمی ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کی: غزہ میں نئے راکٹ کا کامیاب تجربہ، رینج دگنی ہوگئی۔ تل ابیب زد میں آگیا، امریکا اور اسرائیل کا اظہارِ تشویش!
یہی نہیں غزہ کی حکومت اور حماس کی قیادت نے عالمی روابط اور سفارت کاری میں بھی کئی منزلیں کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس ضمن میں آخری اہم پیش رفت ماسکو کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام کی ہے۔ حماس کے سربراہ خالدمشعل اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ روس کا دورہ کرچکے ہیں اور روسی وزیراعظم نے بھی دمشق آمد پر ان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی ہے۔ اللہ کے وجود سے انکاری ملحد روس اور بنیاد پرست حماس…؟ بظاہر نہ سمجھ میں آنے والا فارمولا ہے، لیکن اب یہ ایک اہم زمینی حقیقت ہے۔ یہی نہیں روس میں اور بھی کئی اہم تبدیلیاں روپذیر ہورہی ہیں۔
’روسی مجلس اسلامی‘ کے صدر صلاح الدینوف بتارہے تھے کہ اس وقت روس میں ۹۶دینی ادارے اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں۔ موجودہ صدر ڈیمٹری میڈیفڈیف نے مسلح افواج میں بھی دینی تعلیمات دینے اور دینی شعائر پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت ۲۱جولائی ۲۰۰۹ء کو دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرکاری طبقوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ روحانی خلا انسان کی قوتِ کار میں کمی اور شخصیت کے عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔
صلاح الدینوف کا کہنا تھا روس میں کبھی یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ ’’دین الگ، ریاست الگ‘‘۔ اب اس میں یہ ذومعنی ترمیم کی گئی ہے کہ ’’دین ریاست سے الگ، لیکن معاشرے سے نہیں‘‘۔ ساتھ ہی یہ بات بھی عام ہورہی ہے کہ ’’لوگوں کو دینی اور روحانی آزادی فراہم کرنے سے ریاست کے مفادات بھی وابستہ ہیں‘‘۔
صلاح الدینوف نے عربی زبان میں شائع کردہ جریدہ الاسلام فی روسیا (روس میں اسلام) کا ایک نسخہ بھی دیا۔ اس میں شائع شدہ ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجی چھائونیوں میں دینی مراکز کی تعداد ۵۳۰ ہوچکی ہے۔ خود کو مومن (believer) کہلانے والے فوجی افسران اور سپاہیوں کی تعداد ۷۰ فی صد ہوگئی ہے۔ان میں سے ۸۰ فی صد عیسائی ہیں، ۱۳فی صد مسلمان، ۳ فی صد بدھ مت کے پیروکار اور ۴ فی صد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اس سے قبل ایک کانفرنس میں صلاح الدینوف کے ہمراہ کئی روسی پارلیمنٹیرین اور اس وقت کے صدر فلامر ڈین پوٹن کے قریبی ساتھیوں سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ سب حضرات افغانستان میں امریکی مستقبل کے بارے میں گہری دل چسپی سے سوالات کر رہے تھے۔ روس نے ایران اور شام کے ساتھ مذاکرات و معاہدوں میں بھی کسی حد تک اپنی الگ شناخت قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ مذکورہ بالا تمام تر اشارات بہت اہم ہیں لیکن فی الحال روس کسی بڑی تبدیلی سے قدرے فاصلے پر ہے۔ آزاد ہوجانے والی ریاستوں پر بھی اس کی گرفت ڈھیلی تو ہوئی ہے لیکن وہاں اس کے نفوذ سے بھی کوئی غافل نہیں رہ سکتا۔ البتہ آج سے ۲۰ برس پہلے اور آج کے روس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مزید تبدیل ہوتے ہوئے روس اور عالمِ اسلام کے مابین، اپنے اپنے قومی و نظریاتی مفادات کو عزیز تر رکھتے ہوئے، دوستی کے بہت سے در وا ہورہے ہیں۔
مصری ساتھی بتا رہا تھا کہ اخوان کے خلاف پروپیگنڈا جنگ بھی عروج پر ہے۔ رمضان میں سرکاری ٹی وی پر اخوان کی تاریخ مسخ کرنے اور امام حسن البنا پر الزامات کے طومار باندھنے کے لیے ایک ڈراما سیریز چلائی جارہی ہے۔ روزانہ دکھائی جانے والی الجماعہ نامی اس سیریز میں اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امام البنا کے اہلِ خانہ کی طرف سے اس سیریز کے خلاف عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جارہے ہیں لیکن ظاہر ہے سیدقطب کو پھانسی پر لٹکا دینے والی عدالتوں سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اخوان کے ایک رکن پارلیمنٹ محسن راضی کا کہنا تھا کہ ’’میں نے مصری وزیر اطلاعات و نشریات سے سوال کیا کہ حکومت نے اخوان کے خلاف ایک گھٹیا ڈراما خریدنے کے لیے اڑھائی کروڑ مصری پائونڈ (۱۳ کروڑ ۷۵لاکھ روپے) کی خطیر رقم کیوں ضائع کی۔ خود مصری ٹی وی کے پروڈکشن ہائوس میں اس سے کہیں کم قیمت پر کوئی بھی ڈراما تیار کروایا جاسکتا تھا۔ وزیرموصوف نے اپنے تئیں میری معلومات درست کرتے ہوئے کہا: نہیں ہم نے یہ ڈراما سیریز اڑھائی کروڑ نہیں دو کروڑ ۲۰ لاکھ پائونڈ (۱۲کروڑ ۱۰لاکھ روپے) میں خریدی ہے۔ بعد میں جب ڈرامے کے پروڈیوسر وحید حامد سے پوچھا گیا کہ تم نے سرکاری خزانے سے اتنی خطیر رقم کیوں ضائع کی تو اس کا کہنا تھا کہ نہیں ہم نے تو صرف دو کروڑ پائونڈ میں ڈراما فروخت کیا ہے۔ محسن راضی کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ ڈراما کافی عرصے سے تیار کروایا ہوا ہے لیکن اسے خاص طور پر اس رمضان میں اس لیے پیش کیا گیا تاکہ رمضان کے بعد ہونے والے عام انتخابات پر اثرانداز ہوا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی ایک اور سیریز تین سال بعد ہونے والے سینیٹ اور بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی چلائی جائے گی۔ اخوان نے حالیہ انتخابات کے لیے بھی گذشتہ کی طرح ۱۵۰ اُمیدواروں کو انتخاب لڑوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن انتخابی عمل کو منصفانہ بنانے کے لیے IAEA کے سابق صدر محمد البرادعی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر سات نکاتی سفارشات بھی تیار کی ہیں۔ ان جماعتوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تو وہ ان ڈھکوسلا انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کرسکتی ہیں۔ اس وقت یہ ساری جماعتیں ان مطالبات کے حق میں عوامی دستخط مہم چلا رہی ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ دستخطی مہم ہزاروں تک جاپہنچی تھی، لیکن پھر جب اخوان نے بھی اس میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو یہ مہم اچانک لاکھوں سے تجاوز کرگئی۔
ترکی کے گذشتہ تقریباً سو برس کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ ۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد تک۔ اسلام اور اسلامی شناخت کو جڑ سے اُکھاڑ دینے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ اذان، نماز اور قرآن تک عربی زبان میں پڑھنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔ عدنان مندریس نے عربی زبان اور کئی بنیادی دینی سرگرمیاں تو بحال کر دیں لیکن مجموعی طور پر سیکولر جرنیلوں اور سیکولر ججوں کا قبضہ ہی مستحکم رہا۔ بدیع الزمان سعید نورسی کی اصلاحی تحریک نے روحِ ایمانی کو جلابخشی، تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کی اور سیکولرزم کے سامنے سد سکندری کی بنیاد مستحکم کی۔ ۱۹۷۰ء میں پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام اسلامی تحریک قائم کی، کچھ ہی عرصے بعد اس پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں انھوں نے ملّی سلامت پارٹی کے نئے نام سے کام کا آغاز کردیا، وہ ایک سیاسی اتحاد کے ذریعے نائب وزیراعظم بھی بن گئے لیکن ۱۹۸۰ء میں فوجی انقلاب کے ذریعے سیاسی جماعت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے رفاہ پارٹی بنانے کا اعلان کردیا اور ۱۹۹۶ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک جاپہنچے۔ تب عبداللہ گل ان کے دست راست اور پارٹی کے امورخارجہ کے ذمہ دار تھے اور طیب اردوگان استنبول کے لارڈ میئر۔ ۱۹۸۸ء میں رفاہ پارٹی اور اربکان کی وزارتِ عظمیٰ ختم کر دی گئی۔ میئر اردوگان کو بھی جیل بھجوا دیا گیا۔ ۲۰۰۰ء میں اربکان نے خود پر پابندی کے باعث اپنے ایک اور ساتھی رجائی قوطان کی سربراہی میں فضیلت پارٹی قائم کر دی۔ کچھ ہی عرصے بعد اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ شکست خوردگی، مایوسی یا کسی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اربکان نے ۲۰۰۳ء میں سعادت پارٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عبداللہ گل اور طیب اردوگان کو خدشہ تھا کہ بالآخر سعادت پارٹی کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔ انھوں نے ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کے نام سے الگ پارٹی بنا لی اور پارٹی کی رکنیت کا دروازہ سب کے سامنے کھول دیا۔
اس پورے عرصے میں اصل طاقت اور اختیار سیکولرزم کے محافظ فوجی جرنیلوں اور دستوری عدالت (constitutional court) کے ہاتھ میں رہا۔ فوجی دبائو اور جرنیلی تلوار نے ہی دستوری عدالت کے ذریعے ہر بار پابندیاں لگوائیں اور سزائیں دلوائیں۔ سابق صدر ڈیمرل، سیکولر جرنیلوں اور سیکولر ججوں کی یہی تثلیث تھی جس نے عبداللہ گل اور طیب اردوگان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اللہ کا فیصلہ ہی غالب آیا۔ اس نے اپنے بندوں کی محنت و ثابت قدمی قبول کی اور ایک کے بعد ایک رکاوٹ ختم ہوتی گئی۔ ایوانِ صدر میں اسلامی شعائر کی بہاریں دیکھی جانے لگیں اور اب ان دستوری ترامیم کے ذریعے ترکی اپنی تاریخ کے ایک نئے اور روشن تر باب کا آغاز کر رہا ہے۔
ترکی میں اب تک ۱۹۸۲ء کا دستور نافذ ہے۔ جسٹس پارٹی نے مئی ۲۰۱۰ء میں ۲۶ ترامیم کا ایک پیکج اسمبلی میں پیش کیا۔ سیکولرپارٹیوں کی مخالفت کے باوجود یہ ترامیم سادہ اکثریت سے منظور تو کروا لی گئیں لیکن دستور میں ترمیم کے لیے اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکار ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ۵۰ فی صد سے زیادہ ووٹوں کے ذریعے ترمیم ہوسکتی ہے۔ صدر عبداللہ گل نے سادہ اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے ریفرنڈم کا اعلان کردیا اور اس کے لیے ۱۲ستمبر تاریخ طے پائی۔
ان ترامیم کی اصل روح قانون کی بالادستی یقینی بنانا، کسی بھی ایک ادارے کی دوسروں پر بالادستی ختم کرنا اور فوج و عدالتوں کا قانون و احتساب سے بالاتر ہونا ختم کرنا تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے فوجی جرنیلوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ کسی عام شہری کو فوجی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا، کسی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دیے جانے پر ان کے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت ختم نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ دستوری عدالت میں ججوں کی ایک تعداد متعین کرسکے گی۔ کوئی عام شہری بھی دستوری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے گا۔ دستور کی شق۱۵ کو ختم کرتے ہوئے فوجی انقلاب لانے والے جرنیلوں پر مقدمہ چلایا جا سکے گا۔
عید کے اگلے روز ۱۲ستمبر کو ریفرنڈم ہوگیا۔ ترک زائرین حرم کی اطلاع درست ثابت ہوئی۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی ۷۸ فی صد نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور ان میں سے ۵۸ فی صد نے دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ تناسب صرف ترامیم ہی کے لیے نہیں جسٹس پارٹی کے لیے بھی تائید میں اضافے کا اعلان ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں اردوگان کو ۳۷ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ ریفرنڈم میں تمام اسلام پسند طاقتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اربکان کی سرپرستی اور ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی صدارت میں سعادت پارٹی نے بھی اور نورسی تحریک کے وارث فتح اللہ گولان نے بھی۔ گولان نے تو اپنے پیغام میں ترک عوام سے کہا: ’’ہرشخص ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالے، اس کے لیے اگر قبروں سے مُردوں کو بھی جگاکر لایا جاسکے تو لایا جائے‘‘۔ ۱۳ستمبر ۱۹۸۰ء کو اربکان اور حلیفوں کی حکومت کے خلاف فوجی انقلاب آیا تھا تو ’ترکیا‘ نامی اخبار نے سرخی لگائی تھی: ’’فوج نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔ ۱۲ستمبر کے حالیہ ریفرنڈم کے بعد ’سٹار‘ اخبار نے سرخی جمائی: ’’عوام نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔
اس عوامی انقلاب سے ترک تاریخ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ ریفرنڈم اور ترامیم بہت بنیادی اصلاحات کا نقطۂ آغاز ثابت ہوں گی۔ اردوگان کے الفاظ میں: ’’یہ ترامیم ایک کنجی ہیں۔ اس سے ترکی اپنے مکمل نئے دستور کا تالا کھولے گا‘‘۔ انھوں نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد تقریر میں کہا: ’’ہم کل سے نئے دستور کا مسودہ تیار کرنے کا کام شروع کر رہے ہیں‘‘۔
ترکی کے حالیہ ریفرنڈم اور سیاسی تبدیلیوں میں پوری دنیا کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ ہر اسلام دشمن کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب تک کرپشن سے پاک اور خدا خوف قیادت ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالتی ترقی و استحکام ممکن نہیں ہے۔ ترکی نے گذشتہ آٹھ سال میں جو اقتصادی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۲۰۰۲ء میں اس کی مجموعی سالانہ آمدن ۳۵۰ ارب ڈالر تھی۔ ۲۰۰۸ء میں ۷۵۰ ارب ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں فی کس سالانہ آمدن ۳۳۰۰ ڈالر تھی، ۲۰۰۹ء میں فی کس آمدن ۱۰ ہزار ڈالر ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں ترکی کی برآمدات ۳۳ ارب ڈالر تھیں، ۲۰۰۸ء میں یہ برآمدات ۱۳۰ ارب ڈالر ہوگئیں۔ اس ضمن میں اور بھی بہت سے پیمانے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
ترکی ہر اسلام پسند کو بھی یہ پیغام دے رہا ہے کہ بڑھتی ہوئی خرابی یا انتخابی نتائج سے مایوس ہوکر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنا، شکست خوردہ ہوکر بیٹھ جانا یا بندوق اور بارود اُٹھا کر اپنے ہی ملک میں خون ریزی شروع کر دینا کامیابی کا راستہ نہیں، اصل راستہ جدوجہد، محنت اور ہر ہم وطن کا دل جیتنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالیہ ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹروں کا اردوگان کے ساتھ کھڑے ہونا سب کو بتارہا ہے کہ آیندہ انتخابات بھی جسٹس پارٹی کے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپؐ تقریباً پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ (بخاری حدیث ۱۸۶۹، مسلم حدیث ۱۱۵۶)
آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے کئی ماہ پہلے رمضان کی برکات پانے کی خصوصی دعائیں شروع کردیتے، گویا مہمان مکرم کے انتظارمیں ہیں۔ جیسے جیسے رمضان قریب آتا، ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ہم بھی ذرا اپنا اپنا جائزہ لیں، دل میں انتظارِ رمضان کی کیا کیفیت ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ہم بھی حبیبؐ رب العالمین کی طرح رمضان کی تیاری نوافل و روزوں کی کثرت سے کررہے ہیں یا صرف نئے سے نئے پکوانوں کے اہتمام سے۔
o
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کو ایک بار احباب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا۔آپ نے فرمایا: بس مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو، آخرت میں سب سے زیادہ بھوکا رہنا پڑے گا‘‘۔ (ابن ماجہ ،حدیث ۳۳۵۱)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان مبارک کے مطابق: ’’انسان اپنے پیٹ سے بدتر کوئی اور برتن نہیں بھرتا۔ ابن آدم کے لیے وہ چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت سیدھی رہے‘‘۔ طبی تحقیقات بھی تقریباً ہر دور میں ثابت کرتی رہی ہیں کہ فاقہ کشی کے مقابلے میں پیٹ بھرا رہنے سے زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ رسولِؐ رحمت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ، جب تک بھوک خوب نہ چمک اٹھے کھایا نہ جائے اور جب کھائیں تو پیٹ نہ بھریں۔
یہ امر بھی رب ذو الجلال کی رحمتوں ہی کا حصہ ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی و اخروی برکات کے ساتھ ہی ساتھ، دنیوی اور جسمانی برکات کا بھی اہتمام فرمادیا۔ کارخانۂ قدرت میں اس رحمت کا پرتو اکثر مخلوقات میں ملتا ہے۔ تقریباً تمام نباتات و حیوانات بھی گاہے بگاہے فاقوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کھانے پینے سے یہی پرہیز ان کے لیے تجدید نشاط کا ذریعہ بنتا ہے۔ فصلوں کا پکنا اور پھلوں کا مٹھاس سے بھرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک مزید پانی روک نہ لیا جائے۔
حدیث میں مذکور رحمت نبویؐ جسمانی عافیت کو اصل فکر مندی سے وابستہ کردیتی ہے کہ دنیا میں پیٹ بھرنے کی دوڑ، آخرت کی بھوک سے دوچار نہ کردے۔ آخرت میں بھوک کے عذاب کا کوئی توڑ نہیں۔
o
حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے کہ غزوۂ بدر کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی جانب دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپؐ کے ساتھی ۳۱۹ تھے (کئی روایات میں ۳۱۳ ہے)۔ آپؐ قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوگئے اور اپنے رب سے سرگوشیاں کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھے (جو کامرانی) عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا، تو پھر روے زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔ (مسلم ۴۵۸۸)
خاتم النبیینؐ اپنی تمام جمع پونجی میدان بدر میں لے آئے۔ انسانی بس میں جو بھی تدابیر ہوسکتی تھیں کر ڈالیں، اور پھر رب علیم و قدیر کے آگے ہاتھ پھیلادیے۔ یہ یقین تھا کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا، لیکن احساس ذمہ داری، قافلہء حق اور دعوت دین کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی تھی کہ بے کل کیے دے رہی تھی۔ امت کو یہ تعلیم دینا بھی مقصود تھا کہ کامیابی کے دونوں ستون یکساں اہم ہیں: ہرممکن انسانی کوشش اور اللہ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتے ہوئے دعا۔
اہل ایمان اس جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن مشیت الٰہی نے تمام تر انتظامات اس طرح کردیے کہ عین نصف رمضان (۱۷ رمضان ۲ ہجری) میں فیصلہ کن غزوہ بدر رونما ہوجائے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ’’تاکہ اللہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردکھائے‘‘۔
فتح مکہ کی عظیم الشان کامیابی بھی رمضان المبارک میں عطا ہوئی (۲۰ رمضان ۸ ہجری)۔ دل دہلا دینے والا غزوۂ خندق شوال ۵ ہجری میں وقوع پذیر ہوا، لیکن اس کے لیے تیاری کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پورا مہینہ طویل و عریض خندق کھودنے میں لگے رہے۔
دیگر کئی عظیم معرکے اور فتوحات بھی ماہِ رمضان میں ہوئے۔ مثلا رمضان ۹۱ ہجری میں فتح اندلس۔ رمضان ۲۲۳ ہجری میں خلیفہ معتصم باللہ کی قیادت میں فتح عموریہ۔ ۲۵ رمضان ۶۵۸ ہجری میں سیف الدین قطز کی قیادت میں تاتاریوں کو شکست۔ کتنے ہی معرکے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ بتا رہا ہے کہ رمضان المبارک سستی و کسل مندی اور بے جان پڑے رہنے کا نہیں، ماہِ فتوحات و جہاد ہے۔
o
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپؐ سب سے زیادہ سخاوت رمضان میں کرتے، جب جبریل ؑامین آپؐ سے ملاقات کے لیے تشرف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبریل ؑرمضان کی ہر رات آپؐ کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا کرتے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش گوار بادِ نسیم سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ (بخاری، حدیث ۶، مسلم، حدیث ۲۳۰۸)
قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان میں قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور یہ رات لیلۃ القدر کہلائی، ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر۔ رمضان میں قرآن قلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ جبریل امین ؑ کو خصوصی طور پر آپؐ کے پاس تلاوت قرآن کے لیے بھیجتے۔ نبیوں کا سردار اور فرشتوں کا سردار مل کر پورا مہینہ تلاوت قرآن کرتے۔ جس سال آپؐ کا وصال ہونا تھا، اس سال ماہ رمضان میں دوبار قرآن مکمل کیا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ترغیب و تحریص ہوگی کہ ہم سب بھی رمضان المبارک کو اس طرح ماہ قرآن بنالیں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرنے والے کہلا سکیں۔
انفاق فی سبیل اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ آپؐ کے جاں نثار چچازاد اور عظیم مفسرقرآن گواہی دے رہے ہیں کہ جس طرح خوش گوار تیز ہوائیں بلا تفریق سب کو نفع پہنچاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت بھی بلا تقسیم و تفریق سب کو عطا ہوتی۔
o
حضرت عبادہ بن الصامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کے بارے بتانے کے لیے باہر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں میں سے دو افراد آپس میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس لیے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ لیلۃ القدر کب ہوتی ہے، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے اس لیے مجھ سے اس کا علم واپس لے لیا گیا۔ شاید یہ تمھارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو، اب تم اسے پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری، حدیث ۴۹)
رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق عبادت اور محنت وسعی اپنی معراج پر جا پہنچتے۔ آپؐ اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ خود بھی راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔، اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ ہر دنیاوی آرام و مصروفیتق تج دیتے۔ نیکیوں کی بہار عروج پر ہوتی۔
آج بدقسمتی سے انھی مبارک ترین راتوں کو خصوصی طور پر بازاروں اور خریداریوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ وقت سے پہلے عید کی تیاری ، ان اہم ترین لمحات کو آگ سے نجات کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔
لیلۃ القدر کی تلاش یقینا بندوں کے لیے بلندی درجات ہی کا سبب بنے گی۔ لیکن ذرا سوچیے اگر امت کو واضح طور پر لیلۃ القدر کا علم دے دیا جاتا تو یقینا ہزار سال کی عباد ت سے بہتر رات پالینا آسان تر ہوجاتا۔ دو ساتھیوں کا باہم الجھ جانا اس خیر کثیر سے محرومی کا سبب بنا۔ اُمت مسلمہ کا باہم خوں ریزی اور قتل و غارت کا شکار ہونا، تعصبات و تفرقوں میں بٹا رہنا، کس کس خیر سے محرومی کا سبب بن رہا ہوگا۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑا، اللہ کو اس شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، حدیث ۱۸۵۳)
آں حضوؐرنے قول الزُّور کا لفظ استعمال کیا ہے اور الزُور کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں جھوٹ کے علاوہ ہر غلط و ناجائز بات شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی سکہ، ڈگری یا دستاویز جعلی ہو تو اس کے لیے مُزَوَّر کا لفظ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح الزُّور میں ہر جھوٹ، دھوکا دہی، فحش و بے حیائی، گالم گلوچ، جھگڑا ور غیبت سب شامل ہیں۔ روزے میں انسان کھانے پینے جیسے حلال و طیب کاموں سے تو رُک جائے لیکن اصلاً حرام باتوں اور کاموں کا ارتکاب کرتا رہے، تو آخر کیسا روزہ اور کیسی نیکی؟
قرآن روزے ہی کا نہیں نماز، حج اور زکوٰۃ سمیت ہر عبادت کا مقصد بندے کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنا ہی بتاتا ہے۔ آپؐ نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے۔ یہ اس کے لیے ڈھال ثابت ہوں گے‘‘۔ ایک اور ارشاد مبارک میں آپؐ نے روزے کو عموماًڈھال سے تشبیہ دی کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے، روزہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
سٹیج سیکرٹری نے جب ترک رفاہی تنظیم IHH کے صدر بلند یلدرم کو خطاب کی دعوت دی تو ہال میں موجود سیکڑوں افراد پُرجوش استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور دیر تک انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔ یہ عالمی اتحاد العلما کی مجلس عمومی کی دوسری کانفرنس کا افتتاحی سیشن تھا۔ اتحادِ اُمت انتہائی خوب صورت لفظ اور کروڑوں مسلمانوں کا خواب ہے۔ لیکن آرزو اور دعوے کے باوجود اس جانب عملی اقدام بہت کم اُٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اتحادِ اُمت کے نام پر بھی افتراق اُمت ہی کے کارنامے انجام دیے جاتے ہیں۔
عیسائی پیشوا، پوپ کو اب عربی زبان میں ’بابا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح والد کو بھی ’بابا‘ کہا جاتا ہے، جب کہ ماں کو ’ماما‘ علامہ یوسف قرضاوی صاحب اکثر اپنی تقاریر اور گفتگوؤں میں ازراہ تفنن فرمایا کرتے ہیں کہ عیسائی تو پھر کسی ایک شخص کو ’بابا‘ کہتے اور مانتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا نہ ’بابا‘ ہے نہ ’ماما‘۔ قرضاوی صاحب ہمیشہ اس کی تگ و دو کرتے رہے کہ فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر تمام مسلمانوں کو کسی ایک چھتری تلے متحد کیا جائے۔ بالآخر ۱۹۹۸ء میں بہت کوششوں کے بعد اس جانب ایک مضبوط قدم اٹھایا گیا۔ علامہ یوسف القرضاوی نے تمام مسلمانوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان ملک اس طرح کی کانفرنس کی میزبانی پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر برطانوی دار الحکومت لندن میں کانفرنس کا پروگرام بنا۔ وہاں بھی صہیونی لابی نے بڑی مخالفت کی، لیکن اس وقت لندن کے ایک انصاف پسند میئر کین لیونگسٹن کے مضبوط موقف کے باعث یہ کانفرنس منعقد ہوگئی، اور ’’الاتحاد العالمی لعلما المسلمین‘‘ (مسلمان علما کا عالمی اتحاد) کی بنیاد رکھ دی گئی پاکستان سے اس کانفرنس میں محترم قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا عبد المالک، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور راقم شریک تھے۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ شیخ فیصل المولوی، تحریک نہضت تیونس کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی اور عالم اسلام کے تقریباً ۳۰۰ قائدین، علماے کرام اور اسکالرز پر مشتمل تأسیسی اجلاس سے اس کار جلیل کا آغاز کیا گیا۔ علامہ قرضاوی کو اس اتحاد کا صدر اور مصر کے ایک معروف اسکالر اور اعلیٰ پاے کے وکیل ڈاکٹر محمد سلیم العوّاء کو اس کا سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ اتحاد کا ایک مظہر یہ بھی سامنے آیا کہ صدر اتحاد کے ساتھ درج ذیل اصحاب نائب صدر کے طور پر چنے گئے۔ سعودی عرب میں مقیم معروف اور نمایاں سلفی عالم دین شیخ عبد اللہ بن بَیّہ (اصلا موریتانی ہیں) سلطنت آف عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد خلیلی اور معروف ایرانی عالم دین آیت اللہ علی تسخیری۔
۲۰۰۶ء میں استنبول ترکی میں اتحاد کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔ عملاً اتحاد کی فعالیت اور تنظیم سازی کا آغاز اسی اجلاس سے ہوسکا۔ ایک منتخب مجلس اُمَنَا Board of Trustees یا مجلس شوریٰ وجود میں آئی، ہر چھے ماہ بعد اس کا اجلاس طے ہوا۔ مختلف کمیٹیاں تشکیل پائیں اور اس عالمی اتحاد نے امت کے مختلف مسائل میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا۔
اس عالمی اتحاد نے تقریباً ہر اہم موقعے پر اپنے ایک واضح موقف کا اعلان کیا۔ پاکستان میں امریکی جارحیت اور خوں ریزی کی لہر کے خلاف بھی اتحاد نے متعدد بار اپنے واضح موقف کا اعلان کیا۔ افغانستان و عراق اور خطے پر امریکی قبضے کے خلاف بھی اتحاد نے بلا کسی رو رعایت مضبوط موقف کا اعادہ کیا۔ لیکن اس کا سب سے مضبوط، دوٹوک اور واضح موقف فلسطین کے بارے میں سامنے آیا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں غزہ پر جنگ مسلط کی گئی تو اتحاد کے اعلیٰ سطحی وفد نے سعودی عرب، ترکی، اُردن اور ایران سمیت علاقائی ممالک کے سربراہوں سے جاکر ملاقاتیں کیں اور انھیں صہیونی جارحیت کے خلاف کردار ادا کرنے پر ابھارا۔ اس وفد میں پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد کو بھی شریک ہونا تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہ جاسکے۔
۲۹ جون سے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کو استنبول ہی میں عالمی اتحاد العلما کی جنرل کونسل کا دوسرا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس دستور کے مطابق ہر چار سال بعد ہونا طے پایا ہے۔ پاکستان سے مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمن سمیت دس افراد کو مدعو کیا گیا تھا لیکن مولانا عبد المالک، ڈاکٹر انیس احمد اور راقم کے علاوہ کوئی شریک نہ ہوسکا۔
کانفرنس میں دنیا بھر سے ۴۰۰ کے لگ بھگ علماے کرام اور اسکالرز شریک تھے۔ کانفرنس کے عمومی اور اختتامی سیشن میں قرضاوی صاحب اور متعدد ترک ذمہ داران کی تقاریر کے علاوہ تین مرکزی سرگرمیاں تھیں۔ دستوری ترامیم کا ایک پیکج منظور کرنا، جس میں زیادہ ترامیم اتحاد کے انتخابات اور انتظامی ذمہ داران کے اختیارات کے متعلق تھیں۔ دوسری اتحاد کے مزید مؤثر و فعال بنانے کے لیے منصوبہء عمل پر گفتگو اور تیسری اتحاد کے بورڈ آف ٹرسٹیز (مجلس امنائ) کا انتخاب۔ سب سے زیادہ وقت اور بحث و تمحیص، اسی آخری سرگرمی کے دوران دکھائی دی۔
افتتاحی سیشن میں پہلے وزیر اعظم طیب اردوگان کا مختصر پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ پھر تقریباً تمام تقاریر کا مرکز و محور، اتحاد امت اور غزہ کی صورتحال رہا۔ علامہ یوسف قرضاوی نے اعلان کیا کہ عالمی اتحاد العلما ستمبر میں جانے والے نئے قافلے میں اپنے ایک سفینے کے ساتھ شریک ہوگا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک سفینے کی تصویر بھی دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ جہاز چھے لاکھ یورو مالیت کا خرید لیا گیا ہے اور یہ بھی مسلسل غزہ جایا کرے گا۔ اسی طرح ایک بری قافلہ لے جانے کا اعلان بھی کیا گیا کہ یہ براستہ مصر جائے گا۔
افتتاح کے بعد پہلے باقاعدہ سیشن میں راقم کو بھی گفتگو کا موقع دیا گیا، جس میں افغانستان پر علانیہ استعماری قبضے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر غیر علانیہ لیکن عملاً امریکی قبضے، بلیک واٹرز کی کاروائیوں، مختلف تعصبات کو ہوادیے جانے کے چیلنجوں پر مختصر روشنی ڈالنے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ غزہ اور مسجد اقصی کے لیے جدوجہد ہمارا جزو ایمان ہے، لیکن کشمیر کو بھی غزہ بنادیا گیا ہے۔ اس سنگین مسئلے، وہاں جاری مظالم اور کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاؤں پر بنائے جانے والے بھارتی ڈیموں سے صرف نظر نہ کریں۔ آپ میں سے کسی کو ہمارے موقف سے اختلاف ہے تو وہ جو چاہے اپنا موقف رکھ سکتا ہے، لیکن ایک اہم مسئلے کی حیثیت سے اسے مسلم امت کے ایجنڈے سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت سے اس کانفرنس میں پانچ افراد شریک تھے۔ تین رکنی وفد جماعت کا تھا جس میں نائب امیر جماعت صدیق حسن صاحب (ملیالم) گوہر اقبال اور عبدالسلام صاحب شامل تھے۔ ایک نمایاں سلفی عالم دین شریک تھے اور وحید الدین خان صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب بھی۔ سیشن کے بعد ڈاکٹر ظفر الاسلام نے میری کشمیر کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو غزہ کیوں کہا؟ چلو میں تمھیں وہاں لے جاتا ہوں۔ میں نے بنیادی گزارشات کے بعد، بحث سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ خصوصاً آپ جو چاہیں موقف رکھ سکتے ہیں، لیکن کشمیر کے مسئلے کو امت کے اہم مسائل کی فہرست سے حذف نہیں کرسکتے۔
بعد ازاں ۱۱ نکات پر مشتمل ایک منصوبۂ عمل پیش کرتے ہوئے شرکا کو تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا تاکہ اس پر مزید گفت و شنید کرسکیں، افسوس کہ مجموعی طور پر زیادہ افراد نے اس میں زیادہ دل چسپی نہ لی۔ جو لوگ شریک ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں زیادہ تر لفظی و اصطلاحی تبدیلیوں پر زور دیتے رہے۔ مولانا عبد المالک صاحب، اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے خطیب مولانا محبوب الرحمن صاحب اور راقم نے ایک گروپ میں شرکت کی، ڈاکٹر انیس احمد صاحب دوسرے میں شریک ہوئے۔ مولانا عبد المالک صاحب نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ عالمی اتحاد العلما کے پیش نظر سب سے بنیادی ہدف تو اپنے اپنے ممالک میں اقامت دین کا رہنا چاہیے۔
کانفرنس کا تیسرا روز انتخابات کے لیے وقف تھا۔ دستور کے مطابق مجلس امناء کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۵۰ ہوسکتی ہے۔ جنرل کونسل اس میں سے ۳۰ افراد کا انتخاب خفیہ راے دہی سے کرتی ہے، باقی ۲۰ ارکان کا تعین صدر اتحاد، مجلس کی منظوری سے کرسکتا ہے۔اس انتخاب میں اُمیدوار ہونے کے لیے دو طریق کار تھے۔ یا تو امیدوار خود اپنا نام پیش کرتا اور اتحاد کے ۱۰ ارکان اس کے فارم پر دستخط کرکے اس کی توثیق کرتے (اب ترمیم کرکے اس تعداد کو پانچ کردیا گیا ہے) یا پھر صدر اتحاد کسی کا نام اُمیدوار کے طور پر پیش کرتا۔ امیدوار بننے کے لیے پہلے ہی ایک تاریخ متعین کردی گئی تھی۔ ہم نے اپنا نام پیش نہیں کیا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ قرضاوی صاحب نے راقم کا نام شامل کیا ہوا ہے۔ تعارفی سیشن میں مختصر تعارف کرواتے ہوئے دس دس کے گروپ کو سٹیج پر بلاکر، امیدواروں کی ’رونمائی ‘ کروائی گئی۔
بعد مغرب شرکا کی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا۔ رات ۱۱ بجے نتائج کا اعلان ہوا۔ ۳۵۲افراد نے ووٹ ڈالے تھے۔ سب سے زیادہ (۲۵۲ ووٹ) قطر میں مقیم عراقی الاصل عالم دین ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی صاحب نے حاصل کیے۔ قرہ داغی صاحب جماعت اسلامی کے اضاخیل اجتماع عام میں شریک ہوچکے ہیں۔ اور اجتماع کے ایک روز نماز مغرب کی امامت بھی انھوں نے کروائی تھی۔ ۳۰ منتخب ارکان میں راقم کا نمبر چھٹا تھا ۲۴۰ ووٹ ملے۔ راشد غنوشی صاحب بھی رکن منتخب ہوئے اور کینیڈا کے ڈاکٹر جمال بدوی بھی۔
بعد ازاں (رات ایک بجے) نو منتخب مجلس کا پہلا تعارفی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں نئے سیکریٹری جنرل کا تعین ہوگیا اور کافی رد و کد کے بعد ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی صاحب کو سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ ڈاکٹر علی قرہ داغی صاحب اب علامہ قرضاوی صاحب کے نائب کی حیثیت سے متعارف ہورہے ہیں۔ قطر یونی ورسٹی میں فقہ کے استاد ہیں۔ اسلامی بنکاری بنیادی مضمون ہے، لیکن ان دنوں زیادہ توجہ اتحاد العلما پر ہی دے رہے ہیں۔
اس عالمی اتحاد اور عالمی کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی اور حاصل ہی یہ ہے کہ اس میں پوری اُمت کی نمایندگی ہے۔ سُنّی، شیعہ، حنفی، حنبلی، شافعی، مالکی تمام آئمہ کے پیروکار اور ہرعقیدے اور مدرسے کی شناخت سے بالاتر ہوکر اُمت کے نمایاں افراد اس میں شریک ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی عالم سے مراد بھی صرف عالمِ دین نہیں لیتے بلکہ کسی بھی میدان کا علم رکھنے والے نمایاں افراد اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے اس کا انگریزی ترجمہ International Union of Muslim Scholarsکیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف علماے دین اور مفتیانِ عظام ہی نہیں عالمِ اسلام کے نمایاں صحافی، دانش ور اور کئی طبیب بھی اس میں شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک نمایاں کنسلٹنٹ بھی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
پوری اُمت اس اتحاد سے مستفید ہوسکتی ہے۔ اُمت کے اہم مسائل میں مشترکہ موقف تک پہنچ سکتی ہے۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اتحاد و وحدت کے علاوہ بڑی تفصیل سے تمام مسائل کے بارے میں واضح موقف کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے اور کھلی امریکی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے پوری پاکستانی قوم سے اتحاد کی اپیل کی گئی۔ بھارتی ڈیموں کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کے مبنی برحق حل کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عالمی پلیٹ فارم سے کماحقہٗ استفادہ کیا جائے۔