بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔
ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔
وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ
اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ
اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔
ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔
فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔
اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ ع
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔
شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔
مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔
مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔
ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔
۱- حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔
۲- تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)
۳- انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔
۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔
۵- یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔
یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:
۱- اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)
۲- اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)
۳- تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)
۴- اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)
ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔
اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)
دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔
۶- یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
۷- اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:
اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)
اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔
ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔
ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔
سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔
سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔
پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔
میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:
ا - اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
ب- قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔
فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔
ج- اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔
ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔
د- اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔
ہ- اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔
یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔
سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:
مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔
یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔
اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:
جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔
اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔
عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
۱- اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔
ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۲- مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔
دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
۳- پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔
۳- ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔
۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔
۶- اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con) سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔
یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔
آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط مزاحمت کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔
۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم
۲- ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش
۳- پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔
یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔
اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔
عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔
اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔
مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔
دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔
مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔
اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔
ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔
ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے ؎
شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا
یہ بات میرے لیے باعث صد مسرت و امتنان ہے کہ ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کے حصہ اول کے بعد اس کا دوسرا حصہ بھی تیار ہے ۔اللہ تعالیٰ‘ آپ اور اس سلسلے کے دوسرے اہل قلم کو اس کار خیر کے لیے اجر عظیم عطا فرمائے ‘ اور آپ سب کے علم و فضل اور قابلیت میں روز افزوں خیروبرکت عطا فرمائے ۔
آپ نے مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کرنے کی فرمایش کی ہے ۔اس بارے میں گزارش ہے کہ میں نے مولانا مرحوم سے ۱۹۴۴ء سے ۱۹۷۹ء تک ۳۵ سالہ دن رات کی رفاقت کے باوجود ‘ ان کے بارے میں اس سے زائد کچھ نہیں کہا ہے جو مشاہدات میں عرض کیا گیا ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ کیسے تھے ؟ تو انھوں نے فرمایا: حضورؐ چلتا پھرتا قرآن تھے ۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
میں نے ۳۵ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت ‘ اسلام اور اسوہ رسولؐ سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میراان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘ خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا ۔ چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۸ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا‘ پھر ۲۰ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔
شہر لاہور میں‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب ‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب ‘ سید نقی علی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا ۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میںمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ‘ سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا ۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایا (dictate) تھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا ۔
۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلااور ۱۴‘۱۵ فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے ۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا :’’فرمایئے‘ کیا حکم ہے‘‘ ۔ایک فوجی افسر نے کہا: ’’آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں‘‘۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا:’’ مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟‘‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا:’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘، تواس نے کہا: ’’آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے ۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:’’ آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔
اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا :’’نقی علی کون ہے؟‘‘ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال سید نقی علی صاحب نے عرض کیا :’’میں ہوں نقی علی ‘‘۔ اس افسر نے کہا:’’تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میںنو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے‘‘۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا:’’آپ کا شکریہ‘‘۔
اس کے بعد اس افسر نے پوچھا :’’ نصراللہ خان عزیز کون ہے؟‘‘ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا:’’میں ہوں نصر اللہ خان عزیز‘‘۔ افسر نے کہا :’’آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میںتین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ ملک صاحب نے جواب دیا:’’آپ کا شکریہ ‘‘۔
یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا ‘اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزاے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا ۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:’’مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے ۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔
اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:’’ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں ۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب کواور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا ‘ پاجامہ ‘ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں ۔ ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے ۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانامودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے ‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘ ۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا جس خدا کے سامنے اس کے رسولؐ کے نواسے امام حسین ؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کر دیا‘ اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے ۔ جس خدا کی زمین پر رات دن لاکھوں کروڑوں نہایت حسین پھو ل کھلتے اور مر جھا جاتے ہیں اور کوئی آنکھ ان کو دیکھنے والی بھی نہیںہوتی‘ اسے ایک مودودی کی کیا پروا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں ساری رات گزر گئی ۔
اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔
مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ’’پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے‘‘۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘ چنانچہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے ۔مولانا کا سارا سامان چونکہ گھر بھیج دیا گیا تھا‘ اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ‘ لٹھے کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے ۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کُرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا ۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی ۔
چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انھیں میانوالی جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا‘ جہاں ان کو ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا‘ جو جون‘ جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود مولانا نے نہ کبھی کوئی شکایت کی اور نہ اس پر کوئی احتجاج فرمایا۔ اس سے اہل حکومت کو اور پریشانی ہوئی کہ ان کا کوئی حربہ بھی مولانامودودی صاحب کو ان سے فریاد کرنے پرمجبور کرنے کے لیے کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر رہے تھے اور کبھی ہم سے بھی انھوں نے اپنی کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہیںفر مایا ۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزائوں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا تھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں ۔
ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حکومت مولانا مودودی صاحب کو ۱۴ سال قید با مشقت کی سزا دے کر مطمئن ہو گئی کہ ان کی مولانا مودودی صاحب اوران کی اسلامی دستور کی تحریک سے جان چھوٹ گئی اور اب وہ اپنا من مانا سیاسی نظامِ حکومت ‘پاکستان پر مسلط کر سکیں گے ۔ لیکن کارساز مابکارِ کارِما۔ہوا یہ کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ مولوی تمیز الدین خاں صاحب پہلی دستور ساز اسمبلی جو ملک کی پارلیمنٹ بھی تھی اس کے صدر تھے‘ ان کا موقف یہ تھا: ’’سلطنت بر طانیہ نے اقتدار مجلس دستور سازکو منتقل کر کے اس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے دستور مملکت وضع کر کے اقتدار باشندگان پاکستان کو منتقل کرے‘ اس لیے اب جو دستور اور قانون بھی یہ مجلس دستور ساز کی حیثیت سے بنائے اس کے لیے گورنر جنرل جو ملکہ بر طانیہ کا نمایندہ ہے اس کی منظوری اور دستخطوں کی ضرورت نہیںہے۔ وہ مجلس دستور ساز کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کی منظوری اوردستخطوں سے قانون اورملک کا دستور بن جائے گا‘‘۔ چنانچہ لاہور کے مار شل لا اٹھنے کے بعد جو انڈ منٹی ایکٹ ‘مجلس نے پاس کیا تھا اس پر گورنر جنرل ملک غلام محمد صاحب کے نہیں‘ بلکہ مولوی تمیز الدین صاحب کے دستخط کرائے گئے تھے اور مار شل لا اٹھ جانے کے بعد اس کی کارروائیوں اور فیصلوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی تھی ۔ لیکن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کے مجلس دستور ساز اور پارلیمنٹ کو توڑنے کے حکم کے خلاف مولوی تمیز الدین صاحب کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پاکستا ن کی پارلیمنٹ خواہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے یا مجلس دستور ساز کی حیثیت سے کوئی کارروائی کرے‘ اس کا کوئی فیصلہ گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر قانونی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مجلس کا پاس کر دہ انڈمنٹی ایکٹ بے اثر اور کالعدم ہو گیا‘ کیونکہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔اس لیے جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔
مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:’’میاںصاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟‘‘چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا ۔
Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.
اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!
مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب گردے میں پتھری کے لیے ۴۳-۱۹۴۲ء سے ہی مریض تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں امرتسر کے سول ہسپتال میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد بلوچ صاحب نے ان کے گردے سے چھ پتھریاں نکالیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پھر بننا شروع ہوگئیں ۔ پہلے یہ مسلسل تکلیف کی موجب رہیں اور مو لانا اسی حال میں اپنے سارے کام کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آخر کار ۱۹۶۸ء میں لندن میں ڈاکٹروں نے یہ گردہ ہی نکال دیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد انھوں نے اپنا قائم مقام بھی بنانا شروع کر دیا ‘اور آخر کار ۱۹۷۲ء میں امارت کابارمزید اٹھانے سے بالکل ہی معذرت فر ما دی ۔ واللّٰٰہ المستعان!
بعض لوگ اپنی ذات میں اک انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ اک شجرثمردار کی مانند کہ جن کے سائے میں اپنے پرائے‘ امیر غریب‘ بچے بوڑھے‘ سب پناہ لیتے ہیں اور ان کا پھل کھاتے ہیں۔ ان کی چھائوں سب کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی چھائوں اور اپنے پھل سے کسی کوبھی محروم نہیں کرتے۔
ہماری اماں جان (بیگم مودودیؒ) بالکل ایسی ہی تھیں۔ وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھیں۔ ہمارے والدمحترم کے حوالے سے ہمارا گھر ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا‘ باہر مرد حضرات اور اندر خواتین۔
ہم نے بچپن سے اپنے گھر میں ’جمعہ‘ ہوتا دیکھا تھا۔ ۱۱ بجے سے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دری‘ چاندنی کا فرش بچھ جاتا تھا اور ہماری اماں جان نہادھو کر صلوٰۃ التسبیح پڑھنے میں مشغول ہو جاتی تھیں۔ اسی اثنا میں دُور و نزدیک سے خواتین کی آمد شروع ہوجاتی تھی۔چونکہ یہ انفرادی عبادت ہے اس لیے ہمارے گھر میں صلوٰۃ التسبیح کبھی باجماعت نہیں ہوئی۔ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا تو کمرہ تقریباً خواتین سے بھرجاتا تھا اور ہماری اماں جان نماز باجماعت پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد بہت لمبی اجتماعی دعا ہوتی تھی اور اس کے بعد درس قرآن و حدیث ہوتا تھا۔ درس کے بعد دوبارہ دعا ہوتی تھی جس کے بعد یہ اجتماع ختم ہو جاتا تھا۔
اسی طرح عیدین کی نمازیں ہمارے گھرمیں ادا ہوتی تھیں۔ ہماری والدہ فجر کی نماز کے بعد تلبیہ پڑھتی جاتی تھیں اور عید کی نماز کے لیے تیاری کرواتی تھیں۔ ابھی ہم دری‘ چاندنی کا فرش بچھا کر فارغ بھی نہیں ہوتے تھے کہ نمازعید کے لیے خواتین کی آمدشروع ہو جاتی تھی‘ جوآکر خاموشی کے ساتھ صفیں باندھ کر بیٹھتی جاتی تھیں۔ پھر سب مل کر تلبیہ پڑھتے تھے۔ سورج نکلتے ہی خواتین کو تکبیروں کے بارے میں ہدایات دی جاتی تھیں اور پھر اماں جان بڑی خوش الحانی سے سب کو نماز پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد خطبہ ہوتا تھا۔ دعا کے بعدسب کو سویاں کھلائی جاتی تھیں اور خود سب سے گلے ملتی تھیں اور عید کی مبارک باد دیتی تھیں۔
رات کا وقت ہے اور اماں جان اپنے بچوں کو اپنے سے لگائے کھڑی ہیں۔ دو لیڈی کانسٹیبل آگے بڑھتی ہیں۔ وہ اماں جان‘ ہماری اور پورے گھر کی تلاشی لے رہی ہیں۔ اباجان کے کپڑے ایک سوٹ کیس میں رکھے ہیں اور وہ تیار ہوکر کہیں جانے کو کھڑے ہیں۔ پھر یکدم اباجان نے پیچھے مڑ کر ہماری طرف دیکھے بغیر قدرے بلند آواز میں: ’’السلام علیکم‘ خدا حافظ‘ فی امان اللہ‘‘ کہا اور پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی گرفتاری تھی جو ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔
بعد میں‘ میں نے اماں جان سے پوچھا :’’اباجان نے ہماری طرف مڑ کر دیکھا کیوں نہیں تھا؟‘‘ تو انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا :’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مکے سے جاتے وقت حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا--- پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمزوری آجاتی ہے‘‘۔ وہ چونکہ ہمیں انبیا علیہم السلام کے قصے سناتی رہتی تھیں اس لیے اتنا اشارہ ہی کافی تھا۔
جب اباجان گرفتار ہوئے تو اس وقت گھر میں بہت تھوڑے سے پیسے تھے۔ ہماری اماں جان نے زندگی کے تمام معمولات بدل دیے۔ دھوبی کو کپڑے دینے بند کر کے‘ انھوں نے خود کپڑے دھونے شروع کر دیے‘ جب کہ ان کا تعلق دہلی کے ایسے متمول گھرانے سے تھا جہاں بلامبالغہ ایک رومال بھی خود نہیں دھویا جاتا تھا--- ملازم کو فارغ کر کے کھانا خود پکانا شروع کردیا۔ اس وقت ایک مائی جو اچھرہ سے جمعہ پڑھنے ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور ایک ٹانگے والے کی بیوہ بہن تھی ‘ضد کر کے ہمارے ہاں آگئی اور سارے کام سنبھال لیے اور اماں جان سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے کام کریں گھر کے کام میں کروں گی۔اس کا نام ’بھاگ بھری‘ ]قسمت والی[ تھا۔ یہ نام ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا‘ اس لیے ہم اسے ’رس بھری‘کہتے تھے جس کا اس نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔
اس زمانے میں ہماری اماں جان ہر وقت یَاحیّ یَا قیّوم بِرَحمَتِکَ استغیث کا ورد کرتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ بہت شدید دمے کا دورہ پڑگیا تو بس اتنا کہا :’’میرے میاں جیل میں ہیں‘ مجھے کچھ ہوگیاتو میرے بچے روئیں گے اور انھیں کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں ہوگا‘‘۔ اس پر ہماری دادی اماں جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں سخت ناراض ہوئیں کہ: ’’کیوں مایوسی کی باتیں کرتی ہو‘ حوصلہ کرو‘ کیا ہوا جو ذرا سا سانس اوپر نیچے ہوگیا‘‘۔
ہماری دادی اماں بڑی حوصلے والی خاتون تھیں۔ وہ ہماری اماں جان کو نصیحت کیا کرتی تھیں:’’بچوں کو ایسی عادت ڈالو کہ سرد و گرم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وقت سونے کا نوالہ کھلائو‘ موتی کوٹ کر کھلائو لیکن دوسرے وقت دال سے روٹی کھلائو‘ چٹنی سے روٹی کھلائو۔ بچوں کو کبھی ایک طرح کی عادت نہ ڈالو اور نہ ہر وقت ان کی منہ مانگی مراد پوری کرو۔ ماں باپ تو آسانی سے اولاد کی عادتیں خراب کردیتے ہیں لیکن دنیا لحاظ نہیں کرتی۔ یہ تو بڑے بڑوں کوسیدھا کردیتی ہے‘‘۔ اور پھر کہتی تھیں:’’میں نے اپنے بچوں کو اسی طرح پالا ہے۔ ایک وقت اچھے سے اچھا کھلایا تو دوسرے وقت دال چٹنی سے روٹی کھلائی‘‘۔--- شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے اباجان ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے بڑی ثابت قدمی کے ساتھ گزر گئے اور ہر سختی اپنی جان پر جھیل گئے۔ ان کے اعصاب فولاد کے بنے ہوئے تھے۔ وہ اپنا ٹوٹا ہوا بٹن خود ٹانک لیتے تھے۔ اپنا پھٹا ہوا کرتہ خود رفو کر لیتے تھے۔ ان کی ’جیل کٹ‘ (jail kit) جو بعد میں ہر وقت تیار رہتی تھی‘ اس میں سوئی دھاگا اور ہر سائز کے بٹن بھی ہوتے تھے۔
ہماری دادی اماں ولی اللہ تھیں۔ وہ جب بیمار ہوتی تھیں توآسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر بڑے جذبے کے ساتھ کہتی تھیں: مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْ--- اور پھر وہ ٹھیک ہوجاتی تھیں۔ کبھی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ کبھی دوا پی۔ اگر کبھی پھوڑا پھنسی نکل آتا تو اس جگہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھیں: ’’اے دنبل بزرگ مشو‘ خدائے ما بزرگ تر است‘‘] اے پھوڑے زیادہ نہ بڑھ‘ ہمارا خدا سب سے بڑا ہے[۔ یہ کہنے سے وہ پھوڑا ٹھیک ہوجاتا تھا۔ وہ فارسی زبان و ادب کی بہت زبردست اسکالر تھیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ فارسی اشعار میں بات کا جواب دیتیں۔
ہماری اماں جان کہتی تھیں :’’میں نے اپنی پوری زندگی میں تمھاری دادی اماں جیسی کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی کہ جس میں سرے سے ’نفس‘ ہی نہ ہو۔ انھیں کسی چیز کی طلب نہیں تھی۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ:’’صوفیا کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی کو منع نہیں کرتے‘ طمع نہیں کرتے اور جمع نہیں کرتے‘‘۔ اتفاق سے یہ تینوں صفات ہماری دادی اماں ‘ اباجان اور اماں جان میں تھیں۔ رضا بقضا اور صبر جیسی صفات کی ان تینوں ہستیوں نے اپنے اندر اس طرح سے پرورش کی تھی کہ وہ نفس مطمئنہ کا بہترین نمونہ بن گئے تھے۔ اماں جان کہا کرتی تھیں:’’میں نے جینے کا سلیقہ تمھاری دادی اماں سے سیکھا ہے‘‘۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ساس بہو‘دونوں ہمیشہ ایک رائے رکھتی تھیں اور کبھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔
جب ابا جان پہلی مرتبہ جیل گئے اور ہاتھ بالکل تنگ ہوگیا تو اماں جان نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے بچوں کی تعلیم جاری رہنی چاہیے۔ ہماری اماں جان کی ایک نہایت مخلص دوست خورشید خالہ‘ جب ان سے ملنے آئیں تو اماں جان نے اپنا کچھ زیور انھیں دیا کہ اسے فروخت کر لائو۔ اس طرح وہ بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ بڑی جز رسی کے ساتھ بہت سنبھل کر خرچ کرتی تھیں۔ اماں جان کہا کرتی تھیں :’’دنیا میں ہر چیز کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے۔ گزارا ہوتا نہیں بلکہ ’کیا‘جاتا ہے‘‘۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مشکل وقت بھی گزر ہی گیا اور ۲۸ مئی ۱۹۵۰ء کو ۱۹ ماہ اور ۲۵ دن کی نظربندی کے بعد اباجان پھولوں کے ہاروں سے لدے رِہا ہوکر گھر آگئے اور سارا گھر مبارک باد دینے والوں سے بھرگیا۔
۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو ابا جان دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ پھر وہی گنے چنے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ‘ انتہائی کمزور صحت والی ہماری اماں جان تھیں‘ جنھوں نے بڑے حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا (یہ کام خورشید خالہ مرحومہ انجام دیتی تھیں)۔ حسب سابق پھر خود کھانا پکانا اور گھر کے سارے کام کرنے شروع کر دیے۔ اس مرتبہ مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں اباجان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ ۹مئی کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ یہ مقدمہ ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے کے سلسلے میں چل رہا تھا۔ ۱۱مئی کی صبح اماں جان ناشتا بنا رہی تھیںاور ہم سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوکر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکدم ہمارے سب سے بڑے بھائی عمر فاروق ہاتھ میں اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور اماں جان کو ایک طرف لے جاکر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد ہوگیا اور دوسرے ہی لمحے انھوں نے اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے پکانے شروع کر دیے۔ ہم سب کو ناشتا کروا کر اسکول روانہ کر دیا اور اندر جاکر آکا بھائی ] سید عمرفاروق[کو بھی اسکول جانے کو کہا۔ ان کی اندر سے آواز آئی: ’’نہیں اماں‘ مجھ سے اسکول نہیں جایا جائے گا‘‘--- دوسرے بڑے بھائی احمد فاروق گھرسے کچھ دُور ہی گئے تھے کہ ایک ہاکر زور زور سے اعلان کر رہا تھا:’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا‘ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک بچہ جو یونی فارم پہنے سائیکل پر اپنے اسکول جا رہا ہے‘ یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے۔ غرض احمد فاروق بھائی آدھے راستے سے ہی واپس آگئے۔
میں اور اسما‘ جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے‘ تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں: ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ آکا بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑگیا تھا--- لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں۔
ہم ۶۰ فیروز پور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں۔ اسکول میں ہمیں جو دیکھتا حیران رہ جاتا تھا۔ ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیں۔ انھوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا:’’دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیںکہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پُرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں‘ اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقعے پر بھی اپنی بچیوں کو صاف کپڑے پہنا کر‘ بال بنا کر‘ کھلا پلا کر اسکول روانہ کر دیا۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقعے پر بھی انھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا۔ کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کرکر کے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا‘‘۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا: ’’عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے‘‘۔ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسما ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ ہیڈمسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کر رہی تھیں ‘ جب کہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں‘ کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے یہ تو غدار ہیں‘ پاکستان کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں۔ یہ سب ایکٹنگ ہے‘ چالاک ماں کی چالاک لڑکیاں!
پوری گلی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ دُور دُور تک بسیں کھڑی تھیں جن میں سوار ہو کر لوگ دوسرے شہروں سے آگئے تھے‘ ہم دونوں بہنیں گلی سے گزر کر گھر کے دروازے تک بمشکل پہنچ پائیں۔ پھر دروازے سے گھر کے اندر داخل ہونا مشکل ترہوگیا۔ کچھ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور کچھ خاموشی سے آنسوبہا رہے تھے۔ ایسے میں جب انھوں نے ہمیں خاموشی سے بستے اٹھائے اسکول سے گھر آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ انھوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا: ’’جب مولانا کے بچے نہیں رو رہے اور صبروسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم روتے اور بے صبرے ہوتے کیا اچھے لگتے ہیں‘‘۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔ بڑی مشکل سے ہجوم میں سے گزر کر جب ہم گھر کے اندر پہنچے تو پورا گھرخواتین سے پٹا پڑا تھا۔ جو خواتین اس دن ہمارے گھر اظہار ہمدردی کے لیے محبت سے آئی تھیں‘ رو رہی تھیں--- اماں جان ان کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں‘ اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا۔ جب ہمیں دیکھا تواماں جان نے بس اتنا کہا : ’’بیٹا گھبرانا نہیں‘ صبر کرنا‘‘۔ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا کھلایا اور جا کر خواتین میں بیٹھ گئیں۔
اس روز ایک خاتون نے اماں جان سے کہا تھا کہ بیگم صاحبہ‘ آج رات آپ ۱۰۰ نفل حاجت کے لیے پڑھیں اور پھر تہجد کے نفل پڑھ کر مولانا کی زندگی‘ سلامتی اور بقا کے لیے دعا کر کے یہ منت مانیں کہ جب سلامتی‘ خیروعافیت سے گھر واپس آئیں گے تو پھر میں اسی طرح ۱۰۰نفل شکرانے کے ادا کروں گی--- غرض وہ ساری رات اماں جان نے نفل پڑھتے ہوئے گزاری۔ رات کو جب بھی دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کسے آنی تھی) انھیں نفل پڑھتے ہوئے پایا۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ فجرکی نمازکے بعد اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں پڑھنا شروع کیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ سورۂ بقرہ کی جو آیت ان کے سامنے آئی وہ یہ تھی:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللّٰہط اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں وہ ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں‘ اللہ کی مدد قریب ہے۔
اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں--- پھر مجھے بلایا اور یہ آیت دکھائی‘ کہنے لگیں:’’دیکھو‘ یہ زندہ کتاب ہے‘ یہ انسان کی دکھتی رگ پکڑتی ہے۔ یہ دل کا چور پکڑتی ہے۔ یہ دکھی انسان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ تم اس سے دوستی کرلو! پھر یہ تمھارے حالات کے مطابق‘ تمھاری دلی کیفیت کے مطابق‘ تم سے معاملہ کرے گی‘ تمھیں مشورہ دے گی‘ تمھیں تسلی دے گی‘ اب دیکھو عین ہمارے حالات اور ہماری دلی کیفیت کے مطابق ہمیں کیسے تسلی دے رہی ہے‘ کیسے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے!‘‘
بس پھر سارا دن اماں جان مطمئن رہیں--- وہ بار بار اس آیت کا ورد کرتی رہیں اور کہتی رہیں:’’ویسے تو سارے قرآن پر ہی اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے ایسی زندہ کتاب ہم کو عطا فرمائی‘ لیکن اس آیت کا ہم سب پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ایسے نازک وقت میں ہمیں حوصلہ دیا‘ بشارت دی اور ہماری دست گیری کی‘‘--- دوسری رات بھی آئی اور گزر گئی۔ اماں جان مطمئن رہیں‘ باہر مردوں سے اور اندر عورتوں سے گھر بھرا رہا۔ عورتیں روتی ہوئی آتی تھیں‘ مگر اندر آکر جب اماں جان اور دادی اماں کا صبر دیکھتی تھیں تو خاموش ہوجاتی تھیں اور ایک دوسری سے کہتی تھیں’’اس کو کہتے ہیں صبر!‘‘
اباجان کی سزاے موت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں‘ ہڑتالوں اور سزا کی منسوخی کے مطالبات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ دوسرے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ بہت سے غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل اور وزیراعظم کے نام تار بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ردعمل انتہائی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔
۱۳ مئی کو اماں جان نمازِ عصر سے فارغ ہی ہوئی تھیں کہ جماعت کے ایک صاحب اندر آئے اور انھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائو۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے؟ اماں جان بھی بڑی گھبرائی ہوئی آئیں کہ یکدم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی: ’’بیگم صاحبہ مبارک ہو! مولانا کی سزاے موت ۱۴ سال قیدبامشقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ایک بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال مزید قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی ہے‘‘۔ وہ صاحب تو اپنی کہے جا رہے تھے‘ ادھر اماں جان کھڑے قد سے سجدے میں گرگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی سجدے میں گرگئے۔
اب تو گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔ سب طرف سے مبارک‘ سلامت شروع ہوگئی۔ یہ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ آگے ۲۱ سال کی قید ہے! اماں جان بار بار کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ‘‘۔ پھر کہتیں:’’دیکھو ‘آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ اُٹھ کر اپنا مطلب ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم ایسے ہی حالات کے لیے ہیں اور یہ ہمارا مطلب ہے ‘‘---
اس وقت اماں جان نے ہم کو اپنا ایک خواب سنایا جواباجان کی کورٹ مارشل سے سزاے موت سے صرف ایک دن پہلے انھوں نے دیکھا تھا۔کہنے لگیں: کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ہوائی جہاز آکر اترا ہے اور اس میں تمھارے اباجان ہم سب کو لے کر سوار ہو گئے ہیں--- جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتار کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کر رہا ہے۔ مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ ہورہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ پھر یک لخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمھارے ابا جان میرا ہاتھ پکڑ کر‘ سہارا دے کر جہاز سے اُتار رہے ہیں۔ ادھر میری جان پر بنی ہوئی ہے اور ادھر تمھارے اباجان کی آواز آتی ہے: ’’ذرا کھڑی ہو کر نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آگئی ہو‘‘--- پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آرہے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظرآرہی ہیں--- اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ خواب سناکر کہنے لگیںکہ اب اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو تو صرف اپنے بندوں کے درجات بلند کرنے تھے! اس بھاری آزمایش میں سے بخیروخوبی گزار کر ہمیں بلندیوں تک پہنچانا تھا!
اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش و خرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔ ہماری اماں جان کہتی تھیں:’’انسان کا بچپن خوشیوں سے بھرپور ہونا چاہیے اور اسے کبھی عدمِ تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آدمی کو ڈس لے تو یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں--- یہ تلخ یادیں پھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں‘‘--- انھیں یہ فکر پریشان کرتی تھی کہ میرے بچے بچپن ہی میں بوڑھے ہوگئے ہیں اوران کا بچپنا چھن گیا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے انھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا۔
آخرکار ۲۹ اپریل ۱۹۵۵ء کو قانونی سقم کی بنا پر اباجان ۲۵ ماہ کی قیدوبند کے بعد رِہا ہوکر گھر آگئے۔ وہ بڑا ہی خوشیوں والا مبارک دن تھا۔ ہمارا گھر پھولوں‘ ہاروں اور مٹھائیوں سے بھرگیا۔ ہر طرف سے مبارک‘ سلامت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سارا دن خوشیوں میں گزر گیا۔ جب رات ہوئی تو ہم سب سونے کے لیے لیٹ گئے۔ خوشی اور تھکاوٹ کے مارے عشاء بھی نہیں پڑھی کہ یکدم اماں جان کی آواز کانوں میں پڑی: ’’ذرا دیکھوکتنی بے شرمی کی بات ہے‘ بجاے شکرانے کے نفل پڑھنے کے انھوں نے فرض نماز بھی نہیں پڑھی۔ جب باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو یہ کیسے نفل پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ بس نکل گیا مطلب! ، اب تھوڑی کبھی اللہ سے واسطہ پڑنا ہے!‘‘ یہ سنتے ہی ہم اٹھے اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے۔
اس پوری رات اماں جان شکرانے کے نفل پڑھتی رہیں‘ یعنی انھوں نے سزاے موت والی رات جو منت مانی تھی (کہ جب میاں خیریت کے ساتھ گھر واپس آئیں گے تو جس طرح آج حاجت کے ۱۰۰ نفل پڑھے ہیں اسی طرح شکرانے کے ۱۰۰ نفل پڑھوں گی) اس کو پورا کر رہی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ انھوں نے چائے کا تھرموس اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چائے پیتی تھیں‘ جب کہ سزاے موت کی خبر سننے کی اس ہولناک رات میں بالکل چائے نہیں پی تھی--- سخت گرمی کا موسم تھا۔ صبح کو اماں جان بہت ہنسیں اور کہنے لگیں: ’’انسان بھی کتنا ناشکرا ہے۔ جب میاں کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی تو یہ سو نفل بہت ہلکے تھے۔ نہ نیند آئی‘ نہ تھکاوٹ محسوس ہوئی‘ نہ طبیعت بوجھل ہوئی اور نہ دھیان ہی اِدھر اُدھر ہوا۔ جو الفاظ زبان سے نکل رہے تھے وہی دل سے بھی نکل رہے تھے۔ کمربعد میں جھکتی تھی‘ دل پہلے جھک جاتا تھا۔ لیکن کل رات کبھی نیند آتی تھی‘ کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی اورکبھی سرمیں درد ہوتا تھا۔ وہ ’’جذب اندرون‘‘ سرے سے نصیب ہی نہ ہوا جو اس مرتبہ ملا تھا‘‘۔ وہ ساتھ میں توبہ اور استغفار بھی کر رہی تھیں:’’سچ ہے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرسکتے چاہے ساری عمر سجدے میں گرے رہیں‘‘۔
ایک روز ابا جان نے ہمیں جیل کے حالات بتائے کہ جب لاہور سے انھیں ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کے وقت وہاں پہنچے‘ جو کمرہ ابا جان کو دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈپمپ تھا۔ وہ اے کلاس کے قیدی کے کمرے میں پہنچے توسی کلاس کا ایک مشقتی جو انھیں خدمت کے لیے دیا گیا تھا‘ بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ تقریباً ۴۰سال کا خوب مضبوط جسم کا تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے اباجان کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا۔ پھرہینڈپمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگا:’’ میاں جی نہا لیجیے‘‘--- ابا جان غسل خانے سے جو نکلے توکیا دیکھتے ہیں کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر ان کے لیے چارپائی بچھاکر بستر کر دیا گیا ہے۔ پوچھا :’’پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی۔ یہ کیوں بچھائی ہے؟‘‘ تو وہ کہنے لگا:’’گرمی بہت ہے‘ میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا‘ تاکہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کرسکیں‘‘--- جتنی دیر میں اباجان نے ظہرکی نماز پڑھی اتنی دیر میں اس نے کھانا تیارکرلیا اور بڑے سلیقے سے لاکر ابا جان کے سامنے رکھا۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے۔ بس جلدی میں جو ہوسکا کرلیا ہے۔
پھر اس نے نوٹ کر لیا کہ اباجان کس وقت کون سی دوائیاں کھاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی‘ دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح دوائیاں ان کے سامنے رکھتا تھا۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوائی نہیں رکھی ہے۔ ابا جان نے بتایا:’’اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا تھا‘‘۔
ایک دن اس قیدی نے یہ بتایا :’’جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامے پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے‘ بس تمھارا کام اسے ہر طرح سے تنگ کرنا ہے۔ کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ بس جی‘ میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں کہ آج کیسے شخص سے پالا پڑتا ہے ؟آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں‘ کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچتا رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کسی کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ میاں جی‘ آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا‘‘---
پھر اباجان نے بتایا:’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہوتا تھا‘ یا جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بس بیٹھا ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے کہ بقرعید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل سے دیا جاتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں‘ یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہوچکا تھا۔ ملازم سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں‘ اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ میں نے اس سے کہا کہ رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کرکے لے آئو۔ کہنے لگا: وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا! بھلا عید کے دن کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میںنے اسے سمجھایا کہ تم میری فکر نہ کرو‘ میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھا لوں گا‘‘(چونکہ ابا جان صبح آٹھ بجے ناشتا کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے‘ اس لیے انھوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتا کرلیا۔ یہاں پردادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انھیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی)۔ جس وقت میں ناشتا کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھربھر کر رونے کی آواز آئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ملازم بیٹھا رو رہا تھا۔ پوچھا کہ کیا بال بچے یاد آ رہے ہیں؟کہنے لگا کہ میں تو آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں‘آپ نے بھلا کہاں کھائی ہوگی؟--- میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی‘ یہ راستہ میںنے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں۔ اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو میں آرام سے رہ لوں گا۔ تم میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو‘‘۔
’’میں تو ناشتا کرکے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا تھا‘ لیکن ملازم بے چارے نے احتجاجاً ناشتا نہ کیا (اگرچہ اس کے لیے دال روٹی بچی ہوئی رکھی تھی)۔ اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری کئی ناشتے دان‘ بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا تھا کہ مولانا صاحب‘ آپ کے چاہنے والے تو فجرکے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے‘ لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کی نماز کے بعد کھلا۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لیے دیر لگ گئی۔ اب جو ملازم نے وہ پیکٹ‘ ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں تھیں۔ میںنے اپنے جیل کے ساتھی سے کہا ‘دیکھو یہ سب تمھارے لیے آیا ہے ‘ کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے تھے‘ اب خوب جی بھر کر کھائو اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آئو۔ مگر ملازم کفِ افسوس مل رہا تھا کہ کاش! وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے کے بجاے کوئوں کو کھلادی ہوتی۔ میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتا کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا کہ میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی تھیں۔ انھوں نے تمھیں بھجوائی ہیں!
عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں۔ ایسے ایسے کھانے آئے کہ ملازم تو حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آگیا۔ الغرض عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے عش عش کر اٹھے‘‘۔
ادھر ابا جان ہمیں یہ سب کچھ بتا رہے تھے‘ ادھرہماری اماں جان نے ہمیں کہا :’’دیکھو‘ سورئہ مریم کی آخری آیات میں بھی یہی بات کہی گئی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاo (۱۹:۹۶)،’’کہ جو اہل ایمان نیک اعمال کرتے ہیں رحمن ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے‘‘۔ وہ اسی طرح زندگی کے واقعات کو آیات اور احادیث کے ساتھ منطبق کر کے ہمیں ان کا مطلب سمجھایا کرتی تھیں۔ آج اخبار پڑھتے اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھتے ہوئے قرآن کی آیات اور احادیث یاد آتی ہیں۔ ساتھ ہی اماں جان کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں:’’تم عمل تو کرکے دیکھو‘ پھر آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ کر تم کو اپنا مطلب سمجھائیں گی‘‘۔
اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی کہ آپ کسی کو بددعا نہ دیں۔ آپ کی دعا اور بددعا دونوں حرف بہ حرف لگتی ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ء میں اباجان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا کہ:’’جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے‘ یااللہ! تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے‘‘--- اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہو گیا۔ یہ خبر پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ دادی اماں کی بددعا غلام محمد کو کیسی لگی۔
ان دنوں جب کبھی اباجان کو تفہیم القرآن لکھنے کا موقع نہ ملتا اور وہ دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے تو کہا کرتے تھے :’’دیکھو تم لوگ مجھے تفہیم القرآن لکھنے نہیں دے رہے ہو‘ اب میں جیل جانے ہی والا ہوں۔ جب بھی میں مصروفیت کی وجہ سے تفہیم نہیں لکھ پاتا تو اللہ تعالیٰ مجھے لے جا کر جیل میں بٹھا دیتے ہیں اور میں وہاں اطمینان سے لکھتا رہتا ہوں‘‘۔ ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ’’ تفہیم القرآن مکمل کرلوں تو اسی اسلوب میں تفہیم الحدیث بھی لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں‘‘۔
اسی لیے اماں جان ہم بچوں پر بہت زور دیتی تھیں:’’اپنے ابا جان کو تنگ نہ کیا کرو‘‘۔ جب کبھی بچے کسی چیز کے لیے تقاضا کرتے تو اماں جان ہمیں سمجھاتی تھیں:’’اگر میں ہر وقت تمھارے والد کی جان کھاتی رہتی کہ اب مجھے یہ اور یہ چاہیے اور میرے بچوں کو ایسی ایسی چیزیں درکار ہیں تو یہ ساری کتابیں جو انھوں نے لکھی ہیں‘ وہ نہ لکھ سکتے۔ تمھارے باپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں‘ ایک مصنف اور محقق ہیں۔ ان کو خاموشی‘ سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ تم ان سے کوئی مطالبہ نہ کیا کرو اور نہ ان کے سامنے اپنے تعلیمی مسائل بیان کیا کرو۔ ان کو اپنی باتوں میں بھی نہ الجھایا کرو‘‘--- غرض اماں جان نے اباجان کو ایسا سکون اور اطمینان مہیا کیا کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے‘ ذہنی طور پر پوری طرح یکسو ہو کر اور جم کر لکھتے تھے۔
ابا جان نے سورۂ یوسف کی جو تفسیر لکھی ہے اسے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت وہیں کہیں موجود تھے اور اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں۔ سورئہ کہف یا سورئہ فیل کی تفسیر پڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ دراصل وہ ذہنی طور پر اسی زمان و مکان (time and space)میں منتقل ہوجاتے تھے۔ برسوں بعد جدہ میں‘ شعبۂ عربی کی سربراہ جو شامی النسل تھیں‘ مجھے کہنے لگیں کہ ایک فقرے میں اپنے والد کی صفت بیان کرو تو میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ اِنَّہٗ کَانَ یَعِیشُ فِی عَالَمِ الثَّانِیْ (کہ وہ ایک اور ہی دنیا میں رہتے تھے)۔ وہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں:’’امام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی صفت تھی‘‘۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر اباجان کی شادی کسی جاہل اور خواہ مخواہ مطالبے کرنے والی جھگڑالو قسم کی عورت سے ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا۔ اماں جان کو تو شایداللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اباجان کے لیے تھا--- اماں جان کا اعلیٰ ادبی ذوق‘ بلندپایہ علمی رجحان‘ اپنی ذات کی نفی‘بے نفسی‘ خودداری اور اباجان کی دلداری کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے ’البنات عود‘کہ خواتین خوشبو ہوتی ہیں‘ جو خود تو پردے میں رہتی ہیں‘ مگر ان کا سلیقہ اور تھوڑے سے پیسوں میں بنائی ہوئی بہت ساری عزت اور بچوں کی تعلیم و تربیت سب کو نظرآتی ہے۔
۶ جنوری ۱۹۶۴ء کو اباجان پھر جیل چلے گئے اور بڑے بڑے کتابوں سے بھرے صندوق جیل جانے شروع ہو گئے۔ جیل والے بھی حیران ہوتے تھے کہ اے کلاس کے دوسرے قیدیوں کے لیے حلوے اور انواع و اقسام کے کھانے آتے ہیں‘ جب کہ مولانا صاحب کے لیے صرف کتابیں آتی ہیں۔ اس وقت اباجان لاہور جیل میں تھے جہاں اب شادمان کالونی ہے۔ یہیں کہیں وہ جگہ تھی جہاں تفہیم القرآن لکھی گئی۔ ہر ہفتے ہم ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ اس پورے عرصے اماں جان کافی بیمار رہیں۔ مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْکہہ کر شفایاب ہونے والی دادی اماں بھی نہیں رہی تھیں (۱۹۵۸ء میں دادی اماں کا انتقال ہو چکا تھا‘ ان کی موجودگی اماں جان کے لیے بہت بڑا اخلاقی سہارا ہوتی تھی)۔
ہم لوگ اس وقت اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں پہنچ چکے تھے۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا۔ اباجان کے خلاف پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی۔ اخبارات میں سرخیاں لگتیں کہ مولانا مودودی غدار ہیں‘ وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ لاہور کالج براے خواتین میں قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی طرف سے یہ آوازے ضرور کسے جاتے: ’مردودی مردودی ۔ایک مودودی سو یہودی۔ ٹھاہ مودودی ٹھاہ‘ وغیرہ۔ بلاشبہہ ہمارے لیے یہ باتیں سخت تکلیف دہ تھیں۔ تاہم‘ جب بھی ہم اس بات کا تذکرہ کرتے‘ ان سب باتوں کے جواب میں اباجان اکثر یہ شعر پڑھتے تھے ؎
در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ داند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
]نیک نامی کے کوچے میں ہمیں (وہ) گزرنے نہیں دیتے یعنی سچے عاشق ہمیشہ ہی بدنام ہوتے ہیں[
لیکن ہماری اماں جان نے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ: ’’اگر پڑھنا ہے تو انھی حالات میں اور انھی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو‘ ورنہ جاہل رہ جائو گے--- اپنے آپ کو صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنالو کہ بڑے بڑے طوفان آکر اس سے ٹکراتے ہیں‘ لیکن وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتا وہیں کھڑا رہتا ہے--- اپنے اندر سمندر جیسا ظرف پیدا کر لو کہ بڑے بڑے دریا آکر اس میں گرتے ہیں ‘وہ انھیں اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن کبھی کنارے توڑ کر باہر نہیں نکلتا‘‘۔
ابا جان میری بیٹی رابعہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک بار ہم اسے لے کر انارکلی گئے تو سامنے سے پیپلز پارٹی کا جلوس آگیا۔ جلوس میں اباجان کو گالیاں سن کر میں گھر واپس آگئی۔ گھر کھانے پر‘ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر بیٹی رابعہ کہنے لگی: ’’نانا ابا‘ مولانا مودودی آپ ہی ہیں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں بیٹی میں ہی ہوں‘‘۔ اس پر رابعہ بولی: ’’انارکلی میں تو آپ کو گالیاں مل رہی تھیں‘‘۔ ابا جان مسکرا کر اس کی بات دہرانے لگے۔ ہم نے کہا: ’’خوش تو ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی دولت مل گئی ہے‘‘۔ ابا نے کہا: ’’بیٹی‘ اللہ کے راستے میں گالیاں کھانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے‘‘۔
اباجان کے کردار کی جو خوبی مجھے بہت زیادہ یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلامبالغہ وہ اپنے بچوں کی اتنی عزت کیا کرتے تھے جتنی دوسرے لوگ ماں باپ کی کرتے ہیں۔ عام حالات میں وہ ہمیں بیٹی کہا کرتے تھے۔ ذرا رنجیدہ ہوتے تو صاحبزادی کہا کرتے‘ اور اگر بہت ہی زیادہ ناراض ہوتے تو پھر ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہتے۔ بس‘ پکارنے کا یہ انداز ہی ایک تازیانہ ہوتا تھا ‘اور ہماری کوشش ہوتی کہ ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
ابا جان ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ انھوں نے اتنا کام کیا‘ اس قدر سنجیدہ کام کیا جو دوسرے لوگوں کے نزدیک خشک اور بوجھل ہوتا‘ مگر وہ اپنی زندگی میں نہایت باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ میرے آئیڈیل میرے ابا تھے۔
بار بار جیل جانے کی وجہ سے اباجان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو گئی‘ لہٰذا اماں جان نے اپنے درس کافی کم کر دیے۔ وہ ماڈل ٹائون لیڈیز کلب میں پچھلے ۲۵ سال سے درس دے رہی تھیں۔ وہاں انھوں نے شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی۔ آخرکار درس کا معاملہ اپنی شاگردوں کے حوالے کردیا اور سارا وقت اباجان کی خدمت میں گزارنے لگیں۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ نے کتنے مضامین میں ایم اے کیا ہے؟ تو کہنے لگیں: ’’بیٹی ‘ایم اے‘ بی اے تو آپ لوگ ہیں۔ میں نے تو دہلی کے کوئین میری اسکول سے مڈل تک پڑھا ہے‘‘۔ انھوں پوچھا کہ پھر آپ کے پاس اتنا علم کیسے ہے؟ اس سوال کااماں جان نے ایسا تاریخی جواب دیا جو میں کبھی بھلائے نہیں بھول سکتی۔ کہا:’’میں نے زندگی ایک ایسے عالمِ دین کے ساتھ گزاری ہے جن کی ایک گھنٹے کی بات چیت سن کر آدمی کو وہ علم حاصل ہو جاتا ہے جو لوگوں کو رات رات بھر کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ملتا!‘‘
اباجان کی بیماری بڑھتی ہی گئی اور پھر امریکہ سے ڈاکٹراحمد فاروق آئے اور اباجان کو اماں جان سمیت امریکہ لے گئے‘ تاکہ وہاں یکسوئی سے ان کا علاج کروایا جائے۔ وہیں شدید بیمار رہ کر اباجان کا ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو بفیلو کے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ یہ دہشت ناک خبر لے کر جب احمد فاروق ہسپتال سے آئے تو وہ غم کے مارے نڈھال تھے۔ اماں جان نے ساری رات کے جاگے ہوئے بھوکے پیاسے غم زدہ بیٹے کو چائے پلائی‘ بسکٹ کھلائے اور دلاسا دیا:’’شکر کرو تم نے اپنے باپ کو دیکھا‘ ان کے سائے میں اتنا وقت گزارا‘ ورنہ وہ تو۱۹۵۳ء ہی میں پھانسی چڑھنے کو تیار ہوگئے تھے۔ اگر اس وقت انھیں پھانسی دے دی گئی ہوتی تو تمھیں یہ یاد بھی نہ ہوتا کہ تمھارے باپ کی شکل کیسی تھی!‘‘ اللہ اکبر‘ ایسا حوصلہ اور ایسا توکل۔
اماں جان نے پھر سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا :’’اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھو اور باتیں نہ کرو‘‘۔ اس پر سب اکٹھے ہونے والے مرد و خواتین ان کے صبر و حوصلے پر حیران رہ گئے۔ اسی حیرانی کا اظہار میرے ماموں ڈاکٹر جلال شمسی نے بھی کیا۔ وہ ٹورنٹو سے گاڑی چلا کرجب اماں جان کے پاس آئے تو شدتِ غم سے نڈھال تھے۔ وہ اماں جان کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہنے لگے: ’’آپا جان‘ میں ٹورنٹو سے بفیلو تک روتا ہوا آیا ہوں۔ سوچتا تھا کہ آپ کا سامنا کیسے کروں گا؟ آپ سے کیا کہوں گا؟ لیکن آپ کو دیکھ کر تو میرے آنسو خشک ہوگئے۔ ایسی ہی حیرانی مجھے اس وقت ہوتی تھی جب بھائی صاحب جیل جاتے تھے اور آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے اطمینان سے بیٹھی رہتی تھیں۔ مجھے بتایئے کہ آپ کے پاس کون سی روحانی طاقت ہے؟ آپ یہ سب کیسے کرلیتی ہیں؟‘‘
اماں جان نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان‘ توکل اور صبر وہ صفات ہیں جن کی مدد سے آدمی مشکل ترین حالات سے بخیروخوبی گزرسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر احمد فاروق نے جہاز چارٹر کرکے میت کو نیویارک پہنچایا۔ اسی اثنا میں پورے امریکہ میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے اباجان کے انتقال کی خبر نشر کی جا چکی تھی۔ اس لیے نیویارک ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں مسلمان جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ احمدفاروق نے اماں جان کو پسنجرلائونج میں لے جاکر بٹھا دیا۔ ابھی وہ وہاں بیٹھی ہی تھیں کہ بہت ساری پاکستانی ’ہندستانی‘ ترک اور عرب ممالک کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک کی خواتین وہاں آگئیں۔ ان کے مرد باہر جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے تھے۔ کچھ پاکستانی خواتین نے جو اماں جان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں آپس میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ بفیلو سے body ]یعنی میت[آنی ہے پتا نہیں باڈی پہنچی یا نہیں؟ اماں جان نے کہا کہ باڈی پہنچ گئی ہے! ان عورتوں نے چونک کر اماں جان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ باڈی پہنچ گئی ہے۔ انھوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ میں باڈی کے ساتھ آئی ہوں۔ عورتوں نے پوچھا کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق ہے؟ جواب ملا ’’وہ میرے شوہر تھے‘‘۔ وہ عورتیں چیخ پڑیں: ’’ہیں بیگم صاحبہ آپ اتنے اطمینان سے اتنے سکون سے اتنا بڑا صدمہ دل میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہم اور ہمارے مرد سارا راستہ روتے آئے ہیں۔ آپ کو دیکھ کر تو اللہ یاد آگیا! اور پھر آہستہ آہستہ ان ساری ترک‘ انڈونیشی‘ عرب اور افریقی خواتین کو بھی پتا چل گیا کہ یہ خاتون مولانا مودودی کی بیگم ہیں۔ ان سب نے اماں جان سے تعزیت کی اور سب نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔یہ جنازہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے چھ مرتبہ ہوا۔
جب میت لے کر لاہور پہنچیں تو سب بچوں کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی۔ وہ بڑے حوصلے کے ساتھ اس صدمے کو جھیل گئیں‘ لیکن پھر افسردگی کا شکار ہو گئیں۔ میں ان دنوں جدہ سے گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور آئی ہوئی تھی۔ میں وہاں لڑکیوں کے سعودی کالج کلیۃ البنات میں انگریزی ادب پڑھاتی تھی۔ ان کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے‘ میں انھیں اصرار کر کے اپنے ساتھ جدہ لے گئی۔ پہلے تو وہ میرے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوئیں اور کہا :’’بیٹی کے گھر بھلا کیسے جا سکتی ہوں‘‘۔ میں نے بہت سمجھایا: ’’آپ نے بیٹوں کی طرح پالا پوسا‘ بیٹوں کی طرح پڑھایا‘ اب میں بیٹوں کی طرح کماتی ہوں‘ اس لیے آپ مجھے بیٹی نہیں بیٹا سمجھیے! آپ کی افسردگی کا علاج دوائیوں میں نہیں مکے اور مدینے کی ہوائوں میں ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ چلنے پر راضی ہو گئیں۔ وہاں پہنچ کر میں نے ان کا اقامہ بنوا لیا‘ تاکہ آنے جانے میں کوئی دشواری نہ رہے۔ پہلا ہی عمرہ کرکے آئیں تو تمام دوائیاں اٹھا کر الماری میں رکھ دیں کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔
رمضان میں کئی عمرے کیے اور آخری عشرے میں ہم ان کو لے کر مدینہ چلے گئے۔ پاکستان ہائوس میں قیام تھا اور وہ ان دنوں مسجدنبوی ؐکے باب النسا کے بالمقابل تھا۔ اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ سب سے اگلی صف میں جگہ لینی ہے۔ اس لیے بھاگم بھاگ مسجد میں پہنچ کر تراویح کے لیے اگلی صف میں جگہ لیتے تھے۔ پھر ایسا ہوا ‘انتیسویں رات تھی اور یہ ختم قرآن کی رات تھی۔ پورے مدینے میں اور خصوصاً مسجد نبویؐ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی‘ اسی لیے ہم بھی بہت پہلے سے عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں پہلی صف میں جا بیٹھے تھے۔ یکایک اقامت سے ذرا پہلے مسجد کی دو منتظم سعودی عورتیں اور ایک شرطہ آموجود ہوئے اور بڑے کرخت لہجے میں زور زور سے حکم صادر کرنا شروع کیا: ارجعوا وراء اِرجعوا وراء (پیچھے ہٹو‘ پیچھے ہٹو)۔ ہم جب پیچھے دیکھتے تھے تو پوری جگہ اس طرح بھری ہوئی تھی کہ تھال پھینکو تو سروں کے اوپر ہی اوپر سے جائے! آخر میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اور اسی طرح ڈانٹ کر پوچھا: یش نرجع ورائ؟ (ہم پیچھے کیوں ہٹیں؟) تو انھوں نے مجھے سعودی سمجھتے ہوئے جواب دیا: فیوف خاص جائو امن بحرین ، (بحرین سے خاص مہمان آئے ہیں)۔ میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اتنے ہی زور سے ڈانٹ کر کہا: احنا کلنا فیوف خاص وھذہ مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم واحنا فیوف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم! ھذہٖ مسجدوموقصر ابوھم (ہم سب خاص مہمان ہیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ یہ مسجد نبوی ؐہے ان کا محل نہیں ہے!)
میرے یہ کہتے ہی ساری سعودی خواتین جو نماز پڑھنے کے لیے بیٹھی تھیں یک زبان ہوکر بول اٹھیں: صحح صحح کلام مضبوط! واللّٰہِ کلام مضبوط! اتنی دیر میں اقامت کی آواز بلند ہو گئی اور ہم اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ شرطہ اور شرطیاں وہاں سے چلے گئے۔ لیکن جب ہم نے فرضوں کا سلام پھیرا اور سعودی خواتین نے میرا پاکستانی لباس دیکھا تو حیران ہوکر پوچھا: واللّٰہِ انت پاکستانیہ؟ من این تعلمت عربی؟ تو میں نے اماں جان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ من امّی وا بی۔ ان خواتین نے یہ سن کر اماں جان کے ہاتھ چوم لیے۔ عید کی نماز پڑھ کر ہم جدہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ واپس آکر میں نے اماں جان سے پوچھا کہ آپ اپنی مدینے کی عبادت سے خوش تو ہیں نا؟ تو بس ٹھنڈا سانس بھر کر اتنا ہی کہا ع
روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شُد!
ان کی خواہش تھی کہ مکے میں بھی اسی طرح ایک دو ہفتہ رہ کر عبادت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر حافظ عبدالحق صاحب کی بیگم فرحانہ بہن سے بات کی۔ مکے میں ان کی رشتے داریاں اور تعلقات ہیں۔ انھوں نے انتظام کر دیا اور خود ان کے ساتھ دو ہفتے رہیں۔ اماں جان کی عادت تھی کہ وہ کئی بار بات کا جواب شعر میں دیتی تھیں۔ جب مکّے سے واپس آئیں تو میں نے پوچھا کہ آپ کی وہاں عبادت کیسی رہی؟ جواب ملا:
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
خدا خود میر محفل بود شب جائے کہ من بودم
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس جواب پر یقینا امیرخسرو کی روح بھی وجد میں آگئی ہوگی کہ اماں جان کی طرف سے ایک شعر حضرت داغ دہلوی کا عنایت ہوا ؎
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
پھر مسکرا کر کہنے لگیں:’’حضرت داغ کے اس شعر کا اصل مطلب تو حرم شریف میں جاکر کھلا‘ جب خانۂ کعبہ کی طرف دیکھتی تھی تو لوگ پروانہ وار طواف کر رہے ہوتے تھے اور انھیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا۔ جب صفا و مروہ کی طرف دیکھتی تھی تو سعی کرنے والے دیوانہ وار سعی کررہے ہوتے تھے اور پھر جب حرم شریف سے واپس اپنے فلیٹ کی طرف آرہی ہوتی تھی تو دکانوں میں خریداروں کا رش ہوتا تھا۔ وہاں بھی پروانے دیوانہ وار سونا‘کپڑا‘ ٹرانسسٹر‘ گھڑیاں خریدنے کے لیے چکر لگا رہے ہوتے تھے۔ طالبانِ آخرت تو اپنی طلب میں دیوانے ہوکر پروانہ وار طواف و سعی کر رہے ہوتے تھے اور طالبانِ دنیا کو ان کی طلب پاگل کیے دیتی تھی!‘‘
جب پاکستان میں ان کے چھوٹے بچوں اسما‘ خالد اور عائشہ نے بہت اصرار کیا تو وہ واپس لاہور آگئیں‘ لیکن اُن دنوں کو کبھی نہ بھولیں جو انھوں نے مکے اور مدینے میں گزارے تھے۔ آخری عمر میں ہر وقت اباجان کو یاد کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ سخت گرمی تھی اور حبس تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی اور دیر تک نہ آئی۔ اماں جان چونکہ دمے کی مریضہ تھیں ‘اس لیے گرمی اور حبس سے ان کا برا حال ہوگیا۔ بجلی تھی کہ کسی طرح آتی نہ تھی‘ اسی حالت میں ذرا سی آنکھ لگ گئی۔ جب بیدار ہوئیں تو کہا: ’’ابھی تمھارے اباجان کی آواز آئی ہے کہ تم وہاں گرمی میں کیوں بیٹھی ہو۔ اوپر آجائو نا۔ دیکھو یہاں کیسی اچھی ہوا چل رہی ہے!‘‘ پھر بڑی حسرت سے کہنے لگیں: ’’بھلا میںخود کیسے جا سکتی ہوں؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آنا ہے‘‘۔
جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو چھوٹی بہن اسما انھیں اپنے گھر لے گئی‘ جو اباجان کے گھر کے بالکل ساتھ ہے۔ جب ایک مرتبہ میں گئی تو ملازمہ نے بتایا کہ آج بیگم صاحبہ نہ بات کرتی ہیں اور نہ کچھ کھا رہی ہیں۔ میں نے ان کے پاس جاکر بس اتنا کہا ع
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے
میں نے کہا: اماں جان کون کہتا ہے کہ آپ بیمار ہیں۔ آپ تو بالکل تندرست ہیں۔ لیجیے کھانا کھا لیجیے۔ وہ پھر دلی کی باتیں کرتی گئیں اور بڑی خوشی سے کھانا کھالیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ بہت بیمار تھیں اور کسی کو پہچان بھی نہیں رہی تھیں۔ بس یہی کہہ رہی تھی کہ کوچہ پنڈت جانا ہے۔ جب میں گئی تو اسما نے پوچھا کہ کوچہ پنڈت کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دہلی کا مشہور محلہ ہے اور کوچہ پنڈت میں ان کا سسرال تھا‘ یعنی اباجان کا گھر تھا۔ اس کے بعد میں نے دہلی کے کئی محلوں کے نام لیے۔ بہت خوش ہوئیں لیکن کھانا کھانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ میں نے پھر بس اتنا کہا ع
سوداگری نہیں‘ یہ عبادت خدا کی ہے
او بے خبر‘ جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک میں ملتی ہے یاں مراد
دنیا بھی چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
اور پھر میرے ہاتھ سے سوپ پی لیا۔
آخری دنوں میں وہ کسی کو نہیں پہچانتی تھیں۔ ایک دن مغرب کے وقت کہنے لگیں: ’’روزہ کھولو! جلدی کرو مسجد نبوی ؐمیں تراویح پڑھنی ہے‘ آج ختم قرآن ہے‘ جلدی کرو۔ اگلی صف میں جگہ لینی ہے!‘‘ پھر کہنے لگیں: ’’اتنی مشکل سے پہلی صف میں جگہ ملی ہے اب کہتے ہیں پیچھے ہٹو خاص مہمان آئے ہیں۔ یہ رسولؐ اللہ کی مسجد ہے کسی کا محل نہیں‘‘۔ آس پاس سب لوگ حیران تھے کہ اماں جان کیا کہہ رہی ہیں لیکن میں سمجھ گئی کہ ان کی روح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوکر اس وقت مسجدنبویؐ میں موجود ہے اوروہ اس رات کو رمضان المبارک کی ۲۹ویں رات سمجھ رہی ہیں--- یہ آخری بات تھی جو انھوں نے کہی۔ اس کے بعد بالکل خاموش ہوگئیں۔
مجھے اکثر اباجان کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے‘ جو انھوں نے میرے ماموں خواجہ محمدشفیع مرحوم سے کہی تھی۔ اس وقت اماں جان بہت بیمار تھیں اور ماموں ان کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ ابا جان نے کہا:’’جب لوگ نعرے لگاتے ہیں مولانا مودودی زندہ باد! جماعت اسلامی زندہ باد! تو میں اپنے دل میں کہتا ہوں ’’محمودہ بیگم زندہ باد‘‘۔ جب کوئی فوج فتح مند ہوتی ہے اور اس کے سپہ سالار کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو اس وقت اس گمنام سپاہی کو کوئی یاد نہیں کرتا جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر فتح کو ممکن بنایا ہوتا ہے۔ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں میں کسی کی بے نفسی‘ خودداری‘ وفاداری‘ دلداری اور اپنی ذات کی نفی کس کو یاد رہتی ہے‘‘۔
ان کی یہ ادا مجھے کبھی نہیںبھولتی کہ انھوں نے اپنے عظیم شوہر کے عظیم نام کو کبھی ’جنس بازار‘ نہیں بنایا۔ اباجان کے انتقال کے بعد جنرل ضیا الحق صاحب نے اماں جان کو سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن بننے کی پیش کش کی۔ اس مقصد کے لیے پہلے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو اور بعد میں آپا نثار فاطمہ کو بھیجا۔ اماں جان نے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو تو پیار سے ٹال دیا‘ لیکن جب آپا نثار فاطمہ آئیں تو انھیں اپنا وہی پسندیدہ شعر سنایا جو میں اوپر لکھ چکی ہوں:’’سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے‘‘۔ یہ قرآن و حدیث کا علم دنیا کمانے اور دنیاوی عہدے حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو آخرت کمانے کا ذریعہ ہے‘‘۔ پھر کہا:’’میں اپنے خاوند کے نام اور کام کو کیش کرانے کے لیے وہاں نہیں جا سکتی۔ لوگ اپنے اور اپنی اولاد کی دنیا بنانے کے لیے جیتے ہیں لیکن مولانا نہ اپنے لیے اور نہ اپنی اولاد کے لیے جیئے۔ وہ تو بس اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور خدمت کے لیے جیتے تھے! ایسے نیک نفس شوہر کے نام کو میں ’جنس بازار‘ نہیں بناسکتی۔ اماں جان کے انکار کے بعد ضیاء الحق صاحب نے یہی عہدہ محترمہ نورجہاں پانیزئی کو پیش کیا تھا جو انھوں نے منظور کر لیا۔
روایت ہے کہ مولانا رومؒ کے مرض الموت میں ایک عالمِ دین ان کی عیادت کو آئے اور کہنے لگے کہ فکر نہ کیجیے‘ ان شاء اللہ شفا ہوگی! مولانا رومؒ نے جواب دیا: ’’اب شفا آپ کو مبارک ہو‘ بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ پھر نور نور میں شامل ہو جائے گا اور مٹی مٹی میں چلی جائے گی‘‘۔
اباجان نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو رحلت فرمائی اور اماں جان ۴؍اپریل ۲۰۰۳ء کو بروز جمعہ رات ۸ بج کر ۲۰ منٹ پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں اور اگلے دن بروز ہفتہ سوا گیارہ بجے مٹی میں جاملیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ میں ان کے پسندیدہ شعر پر یہ سرگزشت ختم کرتی ہوں ؎
سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوچکے
بار امانت غم ہستی اتار کے
l ]قیام پاکستان سے قبل[ میں جمعیت علماے ہند کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی جا رہا تھا‘ کہ مجھے مولانا مودودی کی طرف سے ارسال کردہ کتاب مسلمان اور موجو دہ سیاسی کش مکش کے دو حصے موصول ہوئے۔ میں نے اس وقت یہ سمجھا کہ جس طرح غلام احمد پرویز ایک اچھا لکھنے والا سرکاری آدمی ہے‘ اسی طرح یہ بھی اچھا لکھنے والا کوئی سرکاری آدمی ہو گا۔ اس لیے میں نے اس وقت تو یہ کتابیں نہ پڑھیں‘ البتہ اپنے ساتھ لے گیا۔ واپسی پر جب میں بٹھنڈہ لائن دہلی سے آیا تو راستے میں انھیں پڑھا۔ ان کتابوں نے کانگریس سے میرا دل کھٹا کر دیا۔
ایک بار جواہر لال نہرو یہاں گوجرانوالہ بڑے ریلوے اسٹیشن پر تقریر کے لیے آئے۔ میں اور میرے دوست مولانا محمد اسماعیل سلفی (ہم دونوں اس وقت کانگریسی تھے) تقریر سننے جا رہے تھے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے تذکرے پر مولانا محمد اسماعیل صاحب فرمانے لگے: ’’مودودی نے کانگریس سے ہمارا وضو تو توڑ دیا ہے‘ لیکن ابھی میں کانگریس کے ساتھ ہوں علٰی علاتہ (خرابیوں کے باوجود)‘‘۔
اس کے بعد جب ڈیرہ غازی خان میں قادیانیوں کے خلاف ایک مقدمے میں مسلمانوں کی طرف سے احمد خان پتافی مرحوم مقدمے کی پیروی کر رہے تھے‘ تو میں نے وہاں احمد خان پتافی مرحوم کے پاس رسالہ ترجمان القرآن دیکھا۔ اسے میں نے پڑھا تو محسوس کیا کہ یہ تو اچھا بھلا دین دار آدمی ہے۔ یہ رسالہ مجھے بہت پسند آیا۔
چنانچہ میں نے گوجرانوالہ آکر مولانا مودودی کو لکھا کہ آپ کے پاس ترجمان القرآن کے سابقہ جتنے شمارے ہیں‘ مجھے بھیج دیں۔ انھوں نے جلد آٹھ سے لے کر مابعد تک تمام شمارے مجھے بھیج دیے۔ اس سے قبل کے شمارے ان کے پاس بھی نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے اس سے پہلے کے شمارے چودھری علی احمد مرحوم کے ہاں دیکھے۔ ان رسالوں کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ ایک صاحبِ ایمان‘ صاحبِ بصیرت اور صاحبِ عزیمت انسان ہے۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا مودودی نے پاکستان کے دورے شروع کیے تو میں نے منڈھیالہ وڑائچ (نزد گوجرانوالہ شہر) میں مولوی نور حسین کے ہاں قیام کیا۔ وہاںخواب میں دیکھتا ہوں کہ: مودودی صاحب کی داڑھی سرخ ہے۔ وہی کھلا سا پاجامہ پہنا ہوا ہے۔ سر پر سفید ٹوپی ہے اور تغاری اٹھائے غریب اکیلا ہی شاہی مسجد کی مرمت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس خواب کے بعد مجھے مولانا سے ایک محبت اور عقیدت سی ہو گئی۔
مولانا کی مختلف تحریروں پر جب اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران میں جب کہیں چھوٹے بڑے سفر پر جاتا تو مولانا کی کتب کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اس پر بعض لوگ مجھے کہتے کہ یہ کتابیں ساتھ کیوں اٹھائے رکھتے ہو؟ میں کہتا: ’’میں اسے ایک مظلوم انسان سمجھتا ہوں اور اس کی حمایت کے لیے چل رہا ہوں‘‘۔
چار سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے مولانا سے کہا: ’’بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو مولانا کی مدافعت کرتا ہے‘ حالانکہ مولانا کہتے ہیں کہ میری مدافعت کوئی نہ کرے۔ میں (اپنی مدافعت) خود ہی کروں گا۔ میں انھیں جواب دیا کرتا ہوں کہ مولانا میرے امام نہیں ہیں‘ نہ وہ میرے مقتدی ہیں۔ پھر میں جماعت اسلامی کا باقاعدہ متفق نہیں ہوں اور نہ رکن‘ تاہم مولانا مودودی میرے دوست ہیں اور میں انھیں مظلوم سمجھتے ہوئے ان کی مدافعت کرتا ہوں‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ ہمارے کوئی رکن وغیرہ تو نہیں ہیں‘‘۔
ایک بار وہ اپنے دورے کے دوران یہاں جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) میں آئے اور تقریر کی۔ ان دنوں یہاں (گوجوانوالہ) میں ایک کشمیری ہوا کرتا تھا۔ وہ مولانا سے کہنے لگا: ’’آپ انھیں اپنا ممبر کیوں نہیں بناتے‘‘؟ تو مولانا کہنے لگے: ’’میں کسی کو نہیں کہتا کہ وہ ضرور ممبر بنے‘ حتیٰ کہ میں نے تو اپنی بیوی کو بھی نہیں کہا کہ وہ لازماً رکن بنے‘‘۔
انّہی والے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ولی اﷲ رحمۃ اﷲ کو مولوی غلام اﷲ صاحب وغیرہ ابھارتے رہتے‘ لیکن وہ کسی کی باتوں میں نہیں آتے تھے‘ بلکہ وہ میری تائید بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبداﷲ صاحب رحمۃ اﷲ ضلع گجرات والے میرے استاذ تو نہیں البتہ بزرگ تھے۔ وہ بڑے عالم اور ہر فن مولا تھے‘ علم الافلاک‘ علم المیراث‘ اور علم عروض میں انھیں خصوصی درک تھا۔ انھوں نے علم عروض میں ایک دو ورقہ بنایا ہوا تھا۔ مفتی خلیل احمد صاحب‘ چونترہ (ضلع جہلم) والے جب ہمارے پاس [مدرسہ عربیہ میں] ہوتے تو ہم انھیں یہاں بلایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ جہلم گئے تو میں نے انھیں بتایا کہ دیکھیں لوگ مولانا مودودی کے ذمے کیا کیا لگا رہے ہیں؟ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ کسی موقع پر مفتی محمد حسن مرحوم و مغفور ]بانی جامعہ اشرفیہ[ کے پاس چلیں گے اور ان سے بات کریں گے۔ مگر یہ موقع نہ مل سکا۔
کراچی میں کاکاخیل کے مولانا عزیز گل جو حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ علیہ کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے‘ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس وقت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے مدرسے میں مدرس تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی‘ مگر اس دوران مولانا بنوری خاموش بیٹھے رہے۔ کسی بات پر ہاں یا نہ نہیں کی۔
بعض لوگوں نے اعتراض کیا تفہیم القرآن میں مولانا نے لکھا ہے کہ طلوع فجر ہوجائے تب بھی بیشک کھا پی لو۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص کے اسی طرح کے اقوال ہیں۔ ابوبکر اعمش کا قول بھی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی نے کافی قول نقل کیے ہیں۔ میں نے اپنی کاپی میں کافی اقوال نقل کیے ہیں۔ حتیٰ کہ امام ترمذی باب باندھتے ہیں باب ماجاء فی بیان الفجر الحمر اور فجر احمر کی روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ علیہ عامۃ اہل العلم (اکثر اہل علم کا یہی خیال ہے)۔ پھر نسائی میں غالباً حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ کی روایت اس کی تائید میں ہے اور ابوالمنذر بیان کرتے ہیں کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: صبح وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھی ہوئی ہے‘ بلکہ صبح وہ ہے جو درختوں اور مکانوں پر نظر آتی ہے۔ اس طرح میں نے اپنی کاپی میں دیگر بہت سے اہل علم کے اقوال جمع کیے ہیں۔ لیکن لوگ مولانا مودودی کی رائے کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ بالکل خلاف شرع ہے۔ غالباً ۱۹۳۶ء کی بات ہے جب کلکتہ میں فسادات شروع ہوئے‘ میں مولانا عبدالعلیم‘ عبدالحلیم وغیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا۔ حافظ خلیل احمد صاحب جو‘ انگہ (ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے‘ میرے دوست تھے اور ان کے بھائی حافظ اسماعیل میرے شاگرد تھے۔ انھوں نے سحری پر میری دعوت کی۔ کھانے پر میرے علاوہ حافظ خلیل‘ حافظ اسماعیل اور مولانا عبدالحلیم بھی تھے ]گاؤں کی کھلی فضا میں افق نظر آ رہا تھا[۔ میں نے کہا بتاؤ‘ کیا صبح صادق ہو گئی ہے اور ہمیں کھانا بند کر دینا چاہیے یا نہیں ]ہم چاروں‘ طبقہ علما میں سے تھے‘ لیکن[ اس سلسلے میں دو قول ہو گئے۔ دو ایک طرف اور دو دوسری طرف۔ دو کہہ رہے تھے صبح صادق ہوگئی ہے‘ دو کہہ رہے تھے‘ نہیں -- میں نے کہا ایسی چیز جس میں علما اختلاف کر رہے ہیں‘ عوام الناس کو اس کا پابند کرنا کیا آسان ہے؟
اعتراض کرنے والے بعض لوگ عجیب اعتراض کرتے ہیں۔ ایک حافظ صاحب (مرحوم) میرے دوست لاہور چھاؤنی میں خطیب تھے‘ کہنے لگے: ’’یہ ابوالاعلیٰ تو خدا کا باپ بن گیا نا (نعوذ باﷲ)‘کیونکہ الاعلیٰ تو خدا کو کہتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’حافظ صاحب آپ کا سوال واقعی بڑا اعلیٰ ہے اور اس کا جواب بھی اعلیٰ ہونا چاہیے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ سوال و جواب دونوں خدا ہیں‘‘۔
ایک مولانا صاحب نے اعتراض کیا کہ: انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا ہے کہ قرآن کا مصنف یوں کہتا ہے‘ گویا انھوں نے خدا کو مصنف لکھا ہے‘ اس طرح تو خدا حادث ہو جاتا ہے -- اب یہ بھی کوئی باتیں ہیں۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا: ’’وہ اپنے پیشروؤں کی جمیع صفات کے حامل نہیں تھے --- مگر انھوں نے سر دے دیا‘‘۔اب بعض نسخوں میں غلطی سے لفظ جمیع نہ چھپ سکا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا: ’’یہ دیکھیں‘ کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں تھے‘‘۔ میں ان سے کہتا: ’’خدا کے بندو آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ اول ابوبکر صدیق‘ پھر فاروق اعظم‘ پھر عثمان غنی‘ اور پھر علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنھم اور وہ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کے اندر اپنے پیشروؤں کی تمام صفات نہیں پائی جاتی تھیں‘‘۔
ایک دفعہ جب وہ تفسیر لکھ رہے تھے‘ انھوں نے متعہ کے بارے میں یہ لکھا کہ متعہ کے جواز کے بارے میں فلاں فلاں کا یہ مسلک تھا۔ ان دنوں کراچی میں علما کا ایک اجلاس تھا۔ وہاں شاید مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے اس پر اعتراض کیا۔ میں نے کہا: جی‘ کیا آپ کی کتابوں میں مختلف مسائل کے بارے میں مختلف علما کے اقوال درج نہیں ہوتے؟ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ ان اقوال کے قائل ہیں۔ پھر آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ یہ اس کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ خود اس کے قائل ہیں‘ تاہم مولانا نے یہ مضمون درمیان سے نکال ہی دیا۔
مخالفین ظلم یہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی ایک صحابی کے متعلق کوئی بات کہتے ہیں‘ تو وہ سب پر ٹھونس دیتے ہیں کہ صحابہ کو یہ کہا گیا‘ یہ کہا گیا۔
پھر میں نے ۴۱ ایسے اقوال اور حوالے جمع کیے تھے‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا مودودی پر اعتراض کے لیے جن اقوال کو بنیاد بنایا گیا ہے‘ وہ سرے سے ہی غلط ہیں اور مولانا مودودی کی طرف ان کی نسبت درست نہیں۔ میں نے یہ مواد چودھری محمد اسلم (سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ) کو دیا تھا کہ وہ اس کو مرتب کر کے شائع کریں۔
سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب (مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ) کے دروس اور تقریروں سے میرا (مولانا محمد چراغ) کا ذہن بنا کہ سارے ائمہ ٹھیک ہیں۔ وہ بھی حق پر ہیں ہم بھی حق پر ہیں۔ اس کے بعد شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کی کتب دیکھیں تو ذہن میں مزید وسعت پیدا ہوئی‘ کہ شاہ صاحب نے حنفی ہونے کے باوجود بعض مقامات پر حنفیہ کے مؤقف سے اختلاف کیا ہے۔ پھر سید صاحب (مولانا مودودی) کی کتب سے مزید وسعت پیدا ہوئی۔ اب میرا یہ خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح خیال ہے کہ ائمہ کے اختلافات کے سلسلے میں اگر کوئی آدمی اپنے امام کو چھوڑ کر دوسرے امام کی طرف جائے (بشرطیکہ محض سہولتوں کی طلب اور خواہش پرستی نہ ہو) تو اﷲ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کا قول حجۃ اﷲ البالغہ میں ہے‘ الاصل المرضی (پسندیدہ قول یہ ہے کہ) قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ عقل بھی یہ کہتی ہے کہ آخر یہ سب اﷲ تعالیٰ کے پیارے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے تحت کہتے ہیں۔ ججوں کے اختلاف پر کوئی حکومت گرفت نہیں کرتی‘ یا کوئی مقدمے میں کسی جج کے فیصلے کی پابندی کر رہا ہو تو حکومت اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتی اور گرفت نہیں کرتی۔
میں کہا کرتا ہوں کہ یہ اکیلا شخص ہے‘ جس کی زندگی میں اس کے مداح اور ناقد اس کثرت کے ساتھ ہیں اور زندگی میں اس کی تشہیر ساری دنیا تک ہو گئی ہے۔
بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم مولانا مودودی کے مقلد ہو۔ میں انھیں کہا کرتا ہوں کہ میں مودودی صاحب کا مقلد نہیں ہوں‘ میں نے مولانا مودودی کی کئی تحریروں پر گرفت کی ہے اور کسی کو معلوم کرنا ہو تو اسے مولانا عاصم نعمانی کی مرتب کردہ کتاب مکاتیب مودودی دیکھنی چاہیے‘ جس میں مولانا کے خطوط ہیں۔
مولانا نے مجھے خط لکھا کہ میری بیٹی اسماء کانکاح آپ پڑھائیں۔ میں نے اس موقعے پر مولانا سے کہا: ’’مولانا‘ اجازت ہے نکاح پڑھانے کی‘‘‘ انھوں نے کہا: ’’اس کے ماموں سے پوچھیں‘‘--- وہ چاہتے تھے کہ نکاح کے رجسٹر میں ان کا نام نہ آئے۔ وہ رسم و رواج کی شرارتوں (اور ایوب دور کے وضع کردہ بعض خلاف شریعت عائلی قوانین) کی وجہ سے ان رجسٹروں میں اپنا نام آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ایک آدمی نے ان سے نکاح پڑھوانے کے لیے کہا‘ تو مولاناکہنے لگے: ’’دستخط نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے کہا جی! آپ بے شک نہ کریں۔
تفہیم القرآن کی ہر جلد مولانا نے یہ لکھ کر مجھے بھیجی کہ وہ مجھے یہ کتاب ہدیۃً بھیج رہے ہیں۔ چنانچہ اب اگر کوئی مجھے کہے کہ آپ یہ عمدہ عمدہ کتابیں لے لیں اور یہ جلدیں مجھے دے دیں‘ تو میں کبھی یہ جلدیں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گا کیونکہ ان پر مولانا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے: ہدیہ محمدچراغ کی طرف۔
جب پاکستان بنا تو یہاں گوجرانوالہ میں محمد عاصم الحداد‘ مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی پڑھتے تھے۔ اس وقت مولانا مسعود عالم ندوی کا دفتر دارالعروبہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس دفتر میں ایک دفعہ بیٹھے تھے کہ مولانا مودودی کہنے لگے ’’میری بعض کتابیں اور تفاسیر وہیں دارالاسلام (پٹھان کوٹ) میں رہ گئی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: تفسیر روح المعانیتو میرے پاس ہے‘ اگر آپ کو چاہیے تو میں عاریۃً دے سکتا ہوں‘‘۔ چنانچہ مولانا نے روح المعانیمجھ سے لے لی۔
پھر ایک دفعہ میں نے ان کی بعض باتوں سے سمجھا کہ انھیں حضرت اشرف علی تھانوی مرحوم و مغفور کی کتاب تفسیر بیان القرآن کی ضرورت ہے۔ میں نے وہ بھی انھیں بھیج دی۔ سالہا سال تک یہ کتابیں ان کے پاس رہیں۔ میں نے انھیں اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ ان کتابوں کی عبارت پر جہاں چاہیں خط کھینچ سکتے ہیں اور نوٹس لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے روح المعانی کی بہت سی عبارتوں کو زیر خط (under line) کیا ہوا تھا۔ تین چار سال پہلے انھوں نے مجھے کہا: ’’میں آپ کو ملتان کی چھپی ہوئی نئی روح المعانی خرید کر بھیج دیتا ہوں۔ آپ اپنی روح المعانی میرے پاس رہنے دیں کیونکہ میں نے اس کی بعض عبارتوں کو under line کیا ہوا ہے‘ اور بعض نوٹس بھی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’آپ نئی روح المعانی پر بھی اپنے نوٹس اور لکیریں لگا کر بھیج دیں تو ٹھیک ہے‘‘۔ پھر وہ کہنے لگے: ’’اس پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے کہ آپ نے یہ کتاب اتنے کی خریدی ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’میں اس کتاب پر آپ کا نام لکھ دیتا ہوں‘ اور آپ نئی کتاب پر میرا نام لکھ دیں‘‘۔ چنانچہ انھوں نے میرے لیے لکھ دیا کہ میں ہدیہ دے رہا ہوں محمد چراغ کو‘ اور میں نے اس پر لکھ دیا کہ میں یہ ہدیہ مودت مولانا مودودی کو دے رہا ہوں۔
پھر بیان القرآن کے متعلق مجھے لکھنے لگے: ’’ایک یہ رکھی ہے بیان القرآن‘ اور ایک وہ رکھی ہے۔ آپ اپنی دیکھ لیں کون سی ہے‘‘۔ چنانچہ میں اپنی کتاب لے آیا۔
سید صاحب (مولانا مودودی) اور شاہ صاحب ( مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ) کو میں نے دیکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کی نماز میں انتہائی خشوع و خضوع تھا‘ اور عجز کا کمال نمونہ تھی۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قیام پاکستان سے قبل مظفر گڑھ تشریف لائے تو وہاں ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تھی۔ پھر ۱۹۵۰ء میں اچھرہ (لاہور) میں‘ میں اور آغا شورش کاشمیری ]م: اکتوبر ۱۹۷۵ئ[اکثر ملنے جاتے تھے۔ یوں ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے اکٹھے مل کر ملکی سیاسی جدوجہد میں کام کیا‘ اکٹھے دورے کیے‘ اکٹھے جلسے کیے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران بہت ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت پایا۔ وہ ممتاز عالم دین بھی تھے‘ مفکر بھی تھے اور ان کے اندر اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت بھی تھی۔ قدرت نے انھیں بے شمار صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔
برطانوی استعماری حکومت کے خلاف انھوں نے بہت جدوجہد کی۔ جب برطانوی حکومت مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کے اقدامات کے ذریعے ظلم و ستم کر رہی تھی‘ تو انھوں نے مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل تک آزادی کا پیغام پہنچایا۔ مولانا مودودیؒ نے انتہائی مدلل انداز میں اسلامی نظام حیات پر بحث کی اور لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ انھوں نے اپنی تصانیف میں بڑے مدلل‘ مدبرانہ اور ساینٹی فک انداز سے اسلام کو پیش کیا۔ ایک وقت تھا‘ جب نوجوان نسل الحاد‘ لادینی اور سیکولر تہذیب کے اثرات قبول کر رہی تھی۔ دور دور تک اس طوفان کا کوئی مدمقابل دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس ماحول میں مولانا مودودیؒ نے بڑی جرأت‘ عزم‘ جواں مردی سے ان لادینی قوتوں کا مقابلہ کیا ۔ میرے خیال میں یہ ان کا ناقابلِ فراموش حد تک تاریخی کارنامہ ہے۔
اسلام کی نشات جدید میں علامہ محمد اقبال ؒنے بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایک دفعہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کو دعوت دی گئی۔ علامہ اقبال بیمار تھے‘ اس لیے وہ اجلاس میں نہ جا سکے‘ تاہم انھوں نے ایک قطعہ بھیج دیا ؎
یقیں‘ مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں اﷲ مستی‘ خود گزینی
سن‘ اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد سیفٹی ایکٹ اور اظہار رائے پر پابندی کے خلاف مولانا مودودی نے تاریخی جدوجہد کی اور قید و بند کے مرحلوں سے گزرے۔ انھوں نے برملا کہا کہ اظہار رائے ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے‘ جو ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے حکومت وقت کی مخالفت بھی مول لی اور کسی بھی چیز کی پروا تک نہ کی۔ مولانا مودودیؒ نے علما کے ۲۲ نکات پر مشتمل دستاویز بنیادی طور پر خود مرتب کی۔ اس ضمن میں مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم نے جو تفصیلات بتائیں‘ وہ مولانا مودودی کی دُوراندیشی دین سے محبت کی دلیل ہیں۔ ان کی یہ ایک ایسی بے مثال خدمت ہے‘ افسوس کہ جسے خود دینی حلقوں میں بھی محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر سراہا نہیں جاتا۔ اس سے قبل قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم و مغفور کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے جو خدمت سرانجام دی‘ میرے نزدیک ان کے تمام کارناموں سے بڑھ کر یہ اعلیٰ ترین کارنامہ ہے۔ انھوں نے قرارداد مقاصد میں اﷲ کی اصل حاکمیت کا تصور دیا۔عوام کو بنیادی حقوق اور عدلِ اجتماعی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ قرارداد مقاصد آج بھی ہمارے آئین کا حصہ ہے اور اسلامی علم سیاسیات و اجتماعیات کی نہایت اہم دستاویز۔
۱۹۵۳ء کی تحریک تحفظ ختم نبوتؐ میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں انھیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ لیکن ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی پھانسی کی سزا سن کر بھی جس حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ کسی اور میں نہیں پایا جاتا۔ وہ ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و سلم کے سلسلے میں اپنی پھانسی کی سزا کو بہت کم سزا سمجھتے تھے‘ اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پھانسی کی سزا کے حوالے سے کسی اپیل کو مناسب نہیں سمجھا‘ اور کہتے تھے کہ میری اپیل اﷲ سے ہے اور اگر اﷲ نے میری موت لکھ دی ہے تو اسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔
اﷲ پر توکل اور شجاعت و عزیمت کا ایک بے مثال واقعہ وہ بھی ہے کہ جب ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع پر سرکاری غنڈوں نے فائرنگ کی‘ اور اس فائرنگ کے نتیجے میں جماعت کا ایک رکن بھی شہید ہو گیا۔ ان برستی گولیوں میں لوگوں نے مولانا سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں‘ فائرنگ ہو رہی ہے‘ گولی نہ لگ جائے۔ اس موقع پر مولانا مودودی ؒنے ایک تاریخی جملہ بولا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔
۱۹۶۲ء میں آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف اور ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف ہم نے جدوجہد شروع کی۔ آمرمطلق فیلڈمارشل ایوب خان کے ’بیسک ڈیموکریسی سسٹم‘ اور اس کے نام نہاد ریفرنڈم کے خلاف بھی بہت کام کیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس جمہوری جدوجہد کے دوران مشرقی پاکستان میں ’’نو قائدین کا بیان‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس میں نو پارٹیوں کے قائدین نے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بڑا خوش آئند اعلان تھا۔
میں نے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کر کے تجویز پیش کی کہ یہ تحریک مشرقی پاکستان میں علیحدہ چل رہی ہے اور مغربی پاکستان میں الگ‘ اگر ہم مل کر دونوں کو اکٹھا کر کے چلائیں تو حکومت پر زیادہ دباؤ پڑے گا‘ اور ویسے بھی اتنی بڑی تحریک کو اکٹھا کرنے میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ مولانا نے مجھے مشرقی پاکستان روانہ کیا‘ وہاں میں ان نو قائدین سے ملا‘ انھیں مغربی پاکستان کے دورہ جات پر آمادہ کیا اور پیش آمدہ آئینی مسائل کے بارے میں ایک قومی سوچ سامنے لانے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے فوائد اجاگر کیے۔ بہرحال حسین شہید سہروردی جیل سے رہا ہو گئے تو وہ نورہنمائوں کو ساتھ لے کر لاہورآئے۔ یہاں بڑے بڑے جلسے کیے گئے‘ جن سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنما خطاب کرتے تھے۔ لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ بعد ازاں ہماری ملاقاتیں بیرسٹر محمود علی قصوری مرحوم کے گھر ہوتی رہیں۔ ان چند ملاقاتوں میں مولانا مودودیؒ بھی شریک رہے اور مکالمے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب ہم لوگ کراچی میں اکٹھے ہوئے۔ میں نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کروائی‘ جس پر ہمارے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیا گیا۔ اس مقدمے میں میاں طفیل محمد‘ محمود علی قصوری‘ مولانا عبدالستار خان نیازی وغیرہ بھی تھے۔ ہمیں ملتان جیل میں بند رکھا گیا۔
مولانا مودودی نے ان معاملات میں ہماری مکمل رہنمائی کی اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی۔ مولانا مودودیؒ اور میں‘ ایوب خان کے مارشل لا سے قبل کشمیر کمیٹی میں مشترکہ طور پر جدوجہد کرتے رہے۔ کشمیر کے مسئلے پر مولانا کا مؤقف ہمیشہ دو ٹوک اور اصولی رہا۔ مولانا مودودی ڈائیلاگ کے ذریعے اپنا مؤقف بڑے احسن انداز سے پیش کرتے تھے۔
اﷲ نے انھیں جہاں تحریری صلاحیت سے مالا مال کیا تھا‘ وہاں انھیں تقریری صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ اگر وہ لکھتے تو دلائل کے ساتھ لکھتے اور بولتے تو دلائل کے ساتھ بولتے۔ ان کی بات کو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ بڑے نازک ادوار میں مل کر اکٹھے کام کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے جتنی سیاسی بصیرت ان کے اندر دیکھی اپنے کسی دوسرے سیاسی حلیف میں نہیں پائی۔
میری یادداشت میں مولانا کی بے شمار یادیں ہیں۔ ۱۹۶۲ء کے آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف جدوجہد میں ان کا مثالی کردار ہے۔ اس تاریخ ساز جدوجہد میں ڈیمو کریٹک فرنٹ‘ سی او پی ]کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز[ اور پی ڈی ایم ]پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ[ اور ڈی اے سی ]ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی[ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد میں‘ مجھے ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ پھر ایوب خان مرحوم کی گول میز کانفرنس میں شرکت وغیرہ ایسے مواقع ہیں‘ جب میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ وہ بڑے دل جگرے والے انسان‘ منطقی ذہن اور دُوراندیش شخصیت کے مالک تھے۔ لاریب‘ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے علمی کارنامے اور دینی خدمات پر دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ان کی ہمہ پہلو زندگی میں باقی تمام خوبیوں کے ساتھ سیاسی بصیرت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
ہر فرد کی شخصیت مختلف عناصر اور اجزا سے مل کر بنتی ہے۔ ان میں سے بعض اجزا اور عناصر‘ پیدایشی یا وہبی ہوتے ہیں اور بعض انسان خود اپنی محنت‘ جستجو اور تگ و دو سے خود اپنی ذات میں پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ماحول اور معاشرے میں پائے جانے والے حالات اور واقعات بھی اس کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں‘ کیونکہ انسان اپنے ماحول‘ معاشرے اور ملک کے حالات سے آزاد یا لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے شخصی اجزاے ترکیبی کا جائزہ لیں گے۔
فالج کے اسی مرض میں ان کے والد سید احمد حسن صاحب کے انتقال کے بعد ابوالاعلیٰ کو فکرمعاش اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ایسے میں یہ ۱۵ سال یا ۱۷ سال کا لڑکا اپنے بڑے بھائی ابوالخیر کے ساتھ بجنور کا رخ کرتا ہے‘ جہاں یہ دونوں بھائی ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ اخبار مدینہ‘ بجنور میں نہیں نباہ سکے(ایضًا‘ ص ۱۲۶-۱۲۷)۔ یہ شاید ۱۹۱۸ء کی بات ہے(ایضًا‘ ص ۱۲۷)۔ غالباً ۱۹۱۹ء میں جب پہلی بار تاج الدین صاحب نے جبل پور سے تاج (ہفتہ وار) جاری کیا‘ اس کی ادارت کی ذمہ داری بقول ابوالاعلیٰ: ’’ہم دونوں بھائیوں کے سپرد کی۔ چند مہینے سے زیادہ تاج نہ نکل سکا اور ہم جبل پور سے بھوپال اور بھوپال سے دہلی چلے گئے۔۱۹۲۰ئ-۱۹۲۴ء میں تاج الدین صاحب نے جبل پور سے پھر تاج نکالا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے --- مگر جبل پور کی زندگی بھی زیادہ مدت تک جاری نہ رہ سکی‘‘۔ یہ کل مدت ۱۹۱۸ء - ۱۹۲۰ء تک دو سال ہوتی ہے اور: ’’۱۹۲۰ء کے خاتمے پر میں دہلی واپس ہوا اور ۱۹۲۱ء کا ابتدائی زمانہ تھا جب میری ملاقات مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب صدر و ناظم جمعیت علماے ہند سے ہوئی۔ اسی سال انھوں نے جمعیت علماے ہند کی طرف سے اخبارمسلم نکالا اور مجھے اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ یہ اخبار ۱۹۲۳ء تک جاری رہا اور آخر تک میں اس کا ایڈیٹر رہا‘‘(ایضًا‘ ص ۱۲۸)۔ خیال رہے کہ مسلمیکم نومبر ۱۹۲۱ء سے شروع ہوا اور اس نے ۸ اپریل ۱۹۲۳ء کو دم توڑ دیا۔ اس طرح اس کی عمر ایک سال پانچ ماہ ۸۰ دن بنتی ہے۔ یہ گویا مولانا مودودیؒ کے مسلسل کمانے کا پہلا موقع ہے۔ اس سے پہلے خدا معلوم کیسے گزارا کیا‘ کچھ پتا نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھوپال اور دہلی میں موجود اہل خانہ کی اس عرصے میں ان کو مدد رہی ہو گی۔
دونوں بھائیوں نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں اپنی خانہ بدوشی اور مالی پریشانیوں کی طرف دور یا قریب سے اشارہ تک نہیں کیا۔ مولانا مودودیؒ اپنی فکر معاش کے ساتھ ۱۸ اپریل ۱۹۲۳ء سے ۱۴ جون ۱۹۲۵ء (یعنی دو سال ایک ماہ ۲۷ دن) تک کس طرح وقت گزارتے ہیں‘ معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ پھر ۱۴ مئی ۱۹۲۸ء تک الجمعیۃ کے مدیر مسئول (محرر خصوصی) کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ جون ۱۹۲۵ء سے لے کر دسمبر۱۹۲۹ء تک جو مدت انھوں نے حیدر آباد دکن پہنچنے سے پہلے بھوپال میں گزاری ہے (ایضًا‘ ص۱۲۸)‘ اور جس کو انھوں نے ہر قسم کے علوم و فنون کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اس مدت میں شاید انھوں نے الجمعیۃ کی آمدنی کی بچت پر گزارا کیا ہو گا۔ ایک یہ امکان ہے کہ بھوپال میں ان کے سب سے بڑے بھائی ابو محمد مودودیؒ نے ان کی دست گیری بھی کی ہو۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ان کتابوں کی آمدنی سے بھی مستفید ہوئے ہوں گے جو علی الترتیب اس طرح شائع ہوئیں:
۱- دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ‘ سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (اکتوبر۱۹۲۸ئ‘ دہلی)
۲- دکن کی سیاسی تاریخ‘ غالباً ۱۹۳۰ء ( حیدر آباد دکن) (ایضًا‘ ص ۱۲۹)
۳- سلاجقہ‘ جون ۱۹۲۹ء (حیدر آباد دکن)
۴- رسالۂ دینیات‘ ۱۹۳۲ء (حیدر آباد دکن)
۵- ]غیرمطبوعہ[ ترجمہ اسفار اربعہ حصہ دوم اور حصہ سوم از علامہ صدر الدین شیرازی (دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن)(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۳۱۳- ۳۱۹)
اس آخری کام --- یعنی‘ اسفار اربعہ کے ترجمے --- کی آمدنی سے مولانا نے ابن خلکان کے ان حصوں کا ترجمہ‘ جو مصر کے فاطمی خلفا سے تعلق رکھتے ہیں (جون ۱۹۲۹ئ) خریدا‘ بلکہ اسی آمدنی سے ترجمان القرآن بھی مولانا ابو مصلح سے خریدا (ایضًا‘ ص ۳۱۹)۔ اسی ترجمان القرآنکی خریداری اور ادارت ہی وہ مرحلہ تھا‘ جس سے ترجمان القرآن کے مالک و مدیر کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآن کی دعوت کو اپنا مقصد حیات اور اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اس کے بعد زندگی میں راحت و آرام بہت کم (شاید ۲۰ فی صد یا اس سے بھی کم) اور ہر قسم کی تکلیفیں‘ جن میں مالی اور معاشی پریشانیاں بھی شامل ہیں‘ زیادہ تھیں (شاید ۸۰ فی صد یا اس سے بھی زیادہ)۔ تفاصیل کے طالب حضرات اس خاکسار کا مقالہ ’’مولانا مودودیؒ - زندگی کا ایک پرآشوب دور‘‘(ترجمان القرآن،ستمبر۲۰۰۲ئ)‘ بیگم مودودی ؒکا انٹرویو(تذکرہ سید مودودیج۳‘ ص ۳۲۱-۳۲۲) اور میاں طفیل محمد کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں۔۱؎ خیال رہے کہ جہاں بیگم مودودیؒ، اپنے رفیق حیات کی نجی زندگی پر گواہ ہیں‘ وہیں میرے کرم فرما‘ میاں طفیل محمد ان کی سماجی زندگی پر گواہ ہیں‘ کیونکہ دعوت اسلامی کے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھان کوٹ سے لے کر ان کی وفات تک کے لمبے سفرمیں‘ یہ ہروقت اور ہر دم ساتھ رہے ہیں۔ ان دونوں کی گواہیاں بہت کافی ہیں۔
یہ تذکرہ ناقص رہے گا‘ اگر معاش اور فکر معاش کے جھمیلوں کے سلسلے میں اُن حضرات کی روش پر ایک نظر نہ ڈالی جائے جو مولانا مودودیؒ کے معیار زندگی کو نشانۂ ملامت اور ان کے ذرائع آمدنی کو ہدفِ تنقید بنا کر جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ میری مراد مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ ہیں۔۲؎
معاش کے بارے میں اپنے اندیشے اور خدشات مولانا محمد منظور نعمانی ؒ یوں بیان کرتے ہیں: ’’نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت‘ آپ کے نظریات اور آپ کی تعبیرات سے مکمل طور پر اتفاق و اتحاد ہے بلکہ یہ یکسانی فکر و نظر اکثر مجھے مجبور کرتی ہے کہ الفرقان کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دوں۔ لیکن کسی وقت خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں رسالے کی اشاعت متاثر نہ ہو جائے اور اس سے معاش کے مسئلے میں دشواریاں لاحق نہ ہو جائیں‘ کیونکہ اس رسالے میں اب تک ایک مخصوص حلقے کے مذاق کا لحاظ رکھا گیا ہے‘‘۔
اس پر مولانا مودودیؒ نے جو کچھ فرمایا وہ بہت چشم کشا ہے: ’’رزق کا معاملہ تو بالکل اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے حالات اگر آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آگئے تو امید ہے کہ اللہ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ان حالات کا تذکرہ فرمایا جن سے دوچار ہو کر ان کا ماضی گزرا ہے۔
--- جب وہ تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں اور آپ کے وسائل کیا ہیں؟ معلوم ہوا ضروریات غیر معین ہیں اور وسائل تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ ۵۰ روپے کی حد تک مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بِلاکرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑ کر آ جائیے اور یہاں نہ صرف دعوت کا کام کیجیے‘ بلکہ اس کے ساتھ چودھری نیاز علی خان کا رسالہ دارالاسلام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیجیے (یہ رسالہ جس کی اشاعت ۵۰۰ کے قریب ہے‘ چودھری صاحب بلا معاوضہ ان کی ملکیت میں دینے کے لیے تیار تھے)۔ اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے --- تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی ---
بالفاظ دیگر فکر معاش وہ بلَا ہے جو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے لوٹانے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو مولانا مودودیؒ سے اپنے دین کی خدمت لینا تھی‘ اس لیے ان کو اندیشہ ٔ معاش سے یکسر آزاد کر دیا۔
اب رہی کھانے پینے کی بات تو اس کی شہادت مولانا محمد ناظم ندوی مرحوم سے بہتر کون دے سکتا ہے: ’’البتہ مولانا کے ہاں کبھی کبھی ناشتے کے لیے چلا جاتا --- مجھے مولانا کے ہاں کھانے میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے‘ ان کا دسترخوان اتنا سادہ تھا کہ ہم بھی اس وقت ان سے بہتر کھانا کھاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ جو کچھ ہوتا تھا‘ وہ سادہ اور لذیذ ہوتا تھا‘‘۔۳؎
کھانے پینے کی بات چل نکلی ہے تو ذوقِ طعام کے بارے میں اپنا تجربہ بتاتا چلوں۔ جدہ میں ہمارے گھر پر مولانا محترم کو دوپہر کا کھانا کھلانے کا موقع ملا۔ ہم نے حیدر آبادی مذاق کا لحاظ کر کے دہی کی کڑھی‘ شکمپور اور ڈبل کا میٹھا (شاہی ٹکڑے) پیش کیے۔ مولانا بہت خوش ہوئے مگر جب دہی کی کڑھی چکھی تو کہنے لگے: ’’چاؤش! (حیدر آباد میں عربوں کو چائوش کہتے ہیں) آپ پکے حیدر آبادی نہیں ہیں۔ یہ دہی کی کڑھی آج کی بھگاری ہوئی ہے‘ جب کہ یہ دوسرے دن کھائی جاتی ہے‘‘۔
میں ایک دن ترجمان القرآنکے دفتر واقع بچلرس کوارٹرز‘ معظم مارکیٹ گیا۔ عمارت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ میں نے کہا: مولانا یہ ہے کیا؟ جواب میں بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتا ہوں اور اس امت کی خونِ جگر سے آبیاری کرتا ہوں‘‘
اس پر ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ رحمت سے نوازے اور جنت الفردوس میں ان کو انبیاے کرامؑ اور شہداے عظام ؒ کی رفاقت سے سرفراز کرے!
مالی قربانیوں کے ضمن میں مولانا محمد ناظم ندویؒ کی شہادت بھی بہت قیمتی ہے: ’’اور یہ بات بھی ان کی بے نفسی پر ایک قوی دلیل ہے کہ انھوں نے جماعت بنائی تو اپنی تصانیف کا بیش تر حصہ جماعت کے سپرد کر دیا۔ ان کا یہ اقدام ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہوا ایک غیر جذباتی اقدام تھا۔ یہ آخری جملہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ مولانا کے اس فیصلے کو وقتی جذبے کے تحت ایک جذباتی اقدام قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنی اس سوچ اور عملی زندگی میں ہوس دنیا سے بے نیاز رویے ہی سے عام لوگوں بلکہ ہم عصر علما تک میں ممتاز ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۸۹۴-۸۹۵)
مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سرکار آصفیہ ۳۰۰ سے زیادہ پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں (لائبریریوں) میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصر سے مخالف گروہ نے امور مذہبی پر اثر ڈال کر رسالے کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے --- مولانا کے استغنا اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے جاکر اس کے اجراے ثانی کی کوشش کی اور نہ کسی کی چوکھٹ پر دستک دی اور نہ کسی سے سفارش کروائی --- (ایضًا‘ ص ۳۲۸)
حیدر آباد دکن سے دارالاسلام ’جمال پور‘ پٹھان کوٹ منتقل ہونے سے رقم کی کمی ہوئی تو مولانا نے اس کا ذکر مولانا اعجاز الحق قدوسیؒ سے کیا۔ انھوں نے مولانا کی اس مشکل کا تذکرہ سرور خان صاحب سے کیا تو وہ: مسکراتے ہوئے کہنے لگے‘ اتنے ان کے قدر داں ہیں۔ کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ ان کو قرض دے سکے۔ میں نے کہا کہ اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے ---(ایضًا‘ ص ۳۰۱)
یہ وہی ایک ہزار روپے کا قرض حسنہ ہے جس کو زادِ راہ بنا کر مولانا مودودیؒ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک انجان اور نامعلوم و نامانوس مقام اور غیر مانوس لوگوں کی طرف علامہ اقبالؒ کی دعوت پر‘ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ پنجاب کی طرف‘ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر گئے۔ اس سے مولانا مودودیؒ کی مفلسی اور ناداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مگر خودداری اور عزت نفس کی برقراری کے ساتھ۔
خودداری اور خود اعتمادی کا ایک واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ شاید یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ آخری بار مولانا مودودیؒ جدہ تشریف لائے۔ اتفاقاً مجھے بھی نماز جمعہ حرم مکی میں باب الملک عبدالعزیز میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ مولانا بہت کمزور اور ناتواں ہو چکے تھے۔ میں نے سہارا دینے کی کوشش کی۔ کہنے لگے: ’’چاؤش! سہارا نہ دیں۔ میں ساری زندگی کسی کے سہارے کے بغیر جیتا رہا ہوں۔ ان شاء اﷲ آیندہ بھی کسی کے سہارے کی نوبت نہیں آئے گی‘‘۔ میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ خود آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کار میں سوار ہو گئے۔ یہ خود داری اور خود اعتمادی کی بہترین مثال ہے۔
کیا یہ ہمت شکن حالات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی ناؤ کھیئے جا رہے تھے‘ بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے --- چنانچہ اگست‘ ستمبر۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:
ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادران اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میں اب تک ۴۰۰روپے مالی اور ۵۰روپے کلدار]ریاست حیدر آباد کا سکّہ[‘ دفتر کو وصول ہوئے اور مزید ۵۰ روپے کلدار کا وعدہ ہے ---
یعنی ‘جملہ ’حالی‘ رقم ۵ئ۵۱۲ روپے بنی‘ جس سے ’مکتبہ ترجمان القرآن‘ کا آغاز ہوا‘ حالانکہ خود ترجمان اب اور تب پر تھا۔ ایسی ہمت کو ہمت مرداں مددِ خدا کہتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں: (ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۸)
اگرچہ یہ رقم اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کر کے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘ اگست - ستمبر ۱۹۳۷ئ)
یہ نہ صرف مولانا مودودیؒ کا اعلان ہے بلکہ لوگوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے: --- پوری طرح سے ظاہری اسباب ہمت شکن ہو گئے۔ کاغذ‘ کتابت اور طباعت کی گرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معیار کے رسالے کو ۳۵۰ خریداروں ]صحیح عدد ۲۹۸ ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے[ سے چلانا کتنا مشکل کام تھا ]اس پر نقل مکانی مستزاد[۔ لیکن اﷲ پر اعتماد اور توکل نے مولانا مودودیؒ کو ان حالات سے لڑنا سیکھا دیا تھا ---(ایضًا، ص ۳۲۰)
اسی توکل علیٰ اﷲ کی تلقین انھوں نے مولانا منظور نعمانیؒ کو ان الفا ظ میں کی:’’--- رزق کا معاملہ تو بالکل اﷲ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے اگر حالات آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آ گئے تو امید ہے کہ اﷲ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔
مولانا جعفر شاہ صاحب پھلواریؒ سے انھوں نے یہ کہا: ’’اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائیے اور اﷲ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے‘ اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے‘‘۔
آپ کوقادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے‘ اور علما کی گرفتاری پر بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ مارشل لا کے تحت سزاؤں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے‘ آپ چاہیں تو اپنی موت کی سزا کے خلاف سات دن کے اندر مسلح افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔
مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔(ایضًا‘ ص ۵۲‘ ۵۳ اور مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد)
دیکھا آپ نے اس شخص کا تقدیر الٰہی پر اٹل ایمان۔ ایسے مواقع پر لوگ رو پڑتے اور بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں‘ گڑ گڑاتے اور منت سماجت کرتے ہیں مگر تقدیر خداوندی پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والا یہ بندہ‘ اﷲ تعالیٰ کی قوت کے بل بوتے پر فوجی افسر سے زیادہ سخت لہجے میں دو ٹوک‘ مگر لاجواب کر دینے والا جواب دیتا ہے۔ سبحان اﷲ الخلاق العظیم۔
اس سے ملتی جلتی بات‘ اختلافِ الفاظ کے ساتھ‘ انھوں نے اپنے صاحبزادے سے کہی جب وہ سزاے موت کی خبر سن کر ان سے ملاقات کے لیے اپنے تایا جناب سید ابوالخیر مودودیؒ کے ساتھ جیل گئے تھے۔ یہ سید عمرفاروق مودودی ہیں۔ سنیے وہ بات جو ایک باپ نے اپنے بیٹے سے ان نازک مگر صبرآزما اور ہمت شکن حالات میں کہی:
بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھرشہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے‘ اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے۔ (ایضًا‘ ص ۱۹۴)
میاں! مولانا صاحب تو بڑی چیز ہیں‘ یہ کم بخت مجھے بھی پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے۔
یہاں انگریز حکام کی فراست بینی کی داد دینی ہو گی۔ انھوں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ اگر مودودیؒ اسی طرح اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچر دیتا رہا تو محرّک اسلام پر پروانہ وارفدا ہونے والوں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہو جائے گی‘ جو ایسے نایاب جملے اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت سے مزین ہو گی۔ انھوں نے کالج کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا اور مولانا مودودیؒ کو کالج سے نکال کر باہر کیا۔ (ایضًا‘ ص ۲۱۸-۲۲۰)
اگلے روز وارڈن وغیرہ کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھر گئے‘ پھانسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے‘ کوٹھری کے جنگلے سے باہر رکھے ہوئے پانی کے گھڑے سے وضو کیا‘ عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دو فٹ اور ساڑھے پانچ فٹ کے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے پہرے دار حیرت میں ڈوبے دیکھتے رہے کہ یا اللہ! یہ عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پا کر ایسا مدہوش سویا ہے‘ گویا اس کے سارے فکر اور تردد دور ہو گئے۔ گویا اسے من کی مراد مل گئی۔
وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا والمرسلینؐ ثابت کرنے کے جرم میں پھانسی پانا سب سے بڑی خوش بختی کی علامت تھی۔ اس لیے یہ خوش بخت بندۂ خدا مدہوش ہو کر صبح تک سویا رہا کہ شہادت پکی ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات اور صحبت خاتم الانبیا و المرسلینؐ بھی پکی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مودودیؒ ایک چلتا پھرتا زندہ ولی اللہ تھا۔
یہ پہلا موقع نہ تھا کہ مولانا مودودیؒ نے معافی مانگنے یا اپیل کرنے یا رحم کی درخواست کرنے سے ببانگ دہل انکار کیا ہو۔ وہ ایک دبنگ شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ڈر اور خوف سے وہ نا آشنا تھے۔ چنانچہ جب جنگ عظیم دوم [ستمبر ۱۹۳۹ئ] شروع ہوئی‘ تب ہندستان برطانوی استعمار کے زیر تسلط تھا۔ برطانیہ نے اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مولانا نے ’’اشارات‘‘ ]ادارتی مقالے[ میں برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں اور ظالمانہ رویے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اس وجہ سے یہ ’’اشارات‘‘ سنسر ہو گئے اور اس ماہ کا ترجمان القرآن(ستمبر ۱۹۳۹ئ) سادہ اور غیر مطبوعہ صفحات کے ساتھ شائع ہوا۔ صرف یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:
ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘ تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا‘ شاید کہ وہ باز آئیں۔
اس سنسر کی داستان اس زمانے کے سنسر افسر نے‘ جو بعد میں میاں عبدالحمید ایڈیٹر پاکستان ریویوکی حیثیت سے مشہور ہوئے‘ یوں بیان کی ہے کہ جب مولانا مودودی سے معافی --- حتیٰ کہ صرف زبانی معافی -- چاہنے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے کہا:
میں نے قرآنی تعلیم‘ تاریخ اسلام اور تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھ کر اظہار خیال کیا ہے --- رہی بات مجھے وارننگ کی تو میں اسے پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے قرآن کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوڑا ہے اور نہ چھوڑوں گا --- آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں معافی مانگوں‘ یہ ناممکن ہے۔ آپ کی حکومت مجھے تختۂ دار پر لٹکا دے‘ عمر قید کردے‘ میں کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔(قومی ڈائجسٹ، لاہور‘جنوری ۱۹۸۰ئ‘ ص۲۲۴)
پھر بھی مولانا خاموش نہ رہے۔ انھوں نے اپنے ایک دیرینہ دوست نصراللہ خان عزیز ایڈیٹر مدینہ‘ بجنور کو ایک فصیح و بلیغ خط لکھا اور حکومتِ پنجاب اور ا س کے وزیراعظم سرسکندر حیات اور ۱۳اکتوبر ۱۹۳۷ء کے’’ سکندر جناح پیکٹ‘‘ پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور بعض حقائق اور مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کیا اورملک نصراللہ خان عزیز سے خواہش ظاہر کی کہ ان ’’اشارات‘‘ کو مدینہ میں شائع کریں۔ چنانچہ یہ چشم کشا اور حقائق سے بھرپور خط -- اور شاید ’’اشارات‘‘ بھی -- یکم نومبر ۱۹۳۹ء کی مدینہ‘ بجنور کی اشاعت میں شائع ہوا۔(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۴۷۶)
ہم نے اب تک جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت مزید ٹھوس دلیل کی ہے تو پھر سنیے: یہ شہادت ایک ایسے چشم دید گواہ کی ہے جو اس موقع پر بذاتِ خود موجود تھے۔ یہ پروفیسر غلام اعظم سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی گواہی ہے۔ یہ سننے اور سمجھنے کے لائق ہے کیونکہ یہ موت سے دُو بدُو اور دو چار ہونے کے وقت کی بات ہے جب لوگ چھپنے‘ بھاگنے‘ مدد مانگنے لگتے ہیں اور بدحواس ہو کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس سے ان کی شخصیت کے ڈھکے گوشے عیاں ہوجاتے ہیں ورنہ اس وقت تک لوگ ان کو نڈر‘ شیر دل اور بہادر اور خدا معلوم کیا کیا گردانتے رہتے ہیں۔
یہ اکتوبر ۱۹۶۳ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کو ناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ بہتر ہے کہ اس وقت ایوب انتظامیہ میں شامل ایک شخص کی گواہی پہلے سن لی جائے۔ یہ الطاف گوہر صاحب ہیں:
جب جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک کنونشن منعقد کیا تو ایوب خان نے حکم دیا کہ اجتماع میں بعض ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو وہاں لیڈروں اور مقرروں سے بعض خاص سوالات پوچھیں۔ جب یہ ہدایات براستہ گورنر [نواب آف کالا باغ] ہوم سیکرٹری تک پہنچیں تو بڑی مکروہ صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یہ کام چیف سیکرٹری کے حوالے کیا گیا جس نے علاقے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ضروری کارروائی کرے۔ متعلقہ تھانے کے افسر انچارج نے چند غنڈوں کو اس کام پر متعین کر دیا جو شراب کے نشے میں دھت وہاں پہنچے‘ ہلڑ بازی اور مار دھاڑ شروع کر دی۔ گولیاں چلائی گئیں اور ایک پرامن مندوب جاں بحق ہو گیا۔(ایضًا‘ ص ۸۴)
پروفیسر غلام اعظم بتاتے ہیں: ایسی حالت میں مولانا مودودی کی بے باکی اور جرأت مندانہ لیڈرشپ کا جو ثبوت ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ مولانا نے اعلان کیا کہ ’’رضاکاروں کے سوا سب کے سب بیٹھ کر تقریر سنتے رہیں۔ کوئی نہ اٹھے‘ نہ کوئی گھبرائے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رضاکاروں کو کام کرنے دیں۔ دوسرے سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں تو غنڈے کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔
میں مولانا کے پیچھے اسٹیج ہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ مولانا نے تقریر جاری رکھی۔ غنڈوں کی جو ٹولی ڈائیس کی طرف بڑھ رہی تھی‘ رضاکاروں نے اسے گھیر لیا۔ اب وہ ہتھیار بلند کر کے مولانا کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ایک ذمہ دار نے بلند آواز میں مولانا سے بیٹھ جانے کی درخواست کی کہ گولی چل رہی ہے۔ مولانا نے پرزور لہجے میں کہا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘ اور تقریر جاری رکھی۔ (ایضًا‘ ص ۲۷۶)
یہاں پر یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جماعت کے اجتماعات کو غنڈوں کے ذریعے منتشر کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ اس سے پہلے‘ تقسیم ہند سے عین قبل‘ جماعت کے اجتماع منعقدہ مدراس کو وہاں پر مقامی مسلم لیگی حملہ آوروں نے منشتر کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ شامیانوں کو آگ لگا دی تھی‘ لیکن نظم و ضبط اور صبروتحمل کے آگے ان کی کچھ بھی نہ چلی اور وہ ناکام رہے۔ الحمدللہ! (روداد جماعت اسلامی‘ پنجم)
لاہور میں رسالہ ترجمان القرآن اور مکتبے کے انچارج محمد شاہ تھے۔ اس زمانے میں مولانا کا قیام دارالاسلام میں تھا۔ شاہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مکتبے کی مطبوعات کے سلسلے میں خرد برد کر رہے ہیں اور بہت سی کتابیں دوسرے اداروں کے ہاتھ بیچ کر ذاتی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا نے ایک دن مجھے دارالاسلام میں حکم دیا کہ میرے ساتھ لاہور چلنا ہے۔ وہاں پہنچ کر شاہ صاحب کو مولانا نے مکتبے اور رسالے کا پورا چارج حوالے کرنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب نے اس موقع پر بھی ایک الماری کھولنے سے انکار کر دیا اور بتایا کہ اس میں میری ذاتی کتابیں ہیں اور پھر چارج دینے کے بعد اُسے اٹھا لے گئے۔ معلوم ہوا کہ الماری میں مولانا کی بہت سی کتابیںتھیں‘ جو انھوں نے ایک کتب فروش کے ہاتھ فروخت کیں۔ مولانا نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ظرفی سے کام لیا۔ معاملے کو عدالت تک نہیں لے گئے‘ اور نہ احباب کے مشورے کے باوجود شاہ صاحب کے ساتھ ہی کوئی سخت رویہ اختیار کیا بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ ان سے گلو خلاصی کر لی۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۲‘ ص ۳۱۲)
--- ویسے بھی میں نے کئی معاملات میں دیکھا ہے کہ مولانا کردار کی کس بلندی پر تھے۔ سید محمد شاہ ]کی[ بدمعاملگی پر مولانا نے ان کو اپنے ادارے سے الگ کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے ان کا خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں‘ میری کچھ مدد کریں۔ مولانا نے فوراً کچھ پیسے بھجوا دیے۔ کچھ دن گزرے تو پھر خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں اور وہ پیسے خرچ ہو گئے ہیں‘ کچھ مزید تعاون فرمائیں۔ مولانا نے فرمایا اور بھیج دو۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو بڑی عجیب صورت حال ہے کہ ہم اس طریقے سے پیسے بھیجتے رہیں۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۳‘ص ۲۳۴)
ایک دن ایک صاحب مولانا سے ملنے آئے۔ جب وہ چلے گئے تو معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مالی دشواریوں کی وجہ سے دُبئی یا ابوظہبی جانا چاہتے ہیں۔ مولانا سے سفارشی خط لینے آئے تھے۔ حسبِ عادت مولانا نے سفارشی خط دیا جو کام آیا اور ان کو وہاں اچھی نوکری مل گئی۔
یہ کون حضرت تھے؟ یہ وہی فوجی افسر جیلانی صاحب تھے جنھوں نے مولانا کو پھانسی کی سزا سنائی اور جن کے دستخط انگریزی میں لکھے اس فیصلے پر ثبت ہیں جس کو تذکرۂ مودودی ، جلد اول میں ’تعارف عکس‘ کے ضمن میں صفحہ ۹۴۳ پر اخبارات میں پھانسی کی سزا کی خبر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
دیکھا آپ نے؟ خرد برد کرنے والے پہلے شخص کو مزید مالی امداد‘ اور پھانسی کی سزا سنانے والے کے مسائل حل کرنے کے لیے سفارش--- اسے کہتے ہیں عالی ظرفی اور اونچا کردار! فجزاہ اللّٰہ خیراً
غالباً یہ ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ ہم چند نوجوانوں نے حیدر آباد دکن میں حلقۂ طلبہ جماعت اسلامی‘ حیدر آباد کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت ایک لائبریری کے قیام کا ارادہ کیا۔ میں اس کا سیکرٹری تھا۔ میں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور ایک خط لکھا‘ جس میں حلقۂ طلبہ اور ان کی لائبریری کے قیام کی اطلاع دی اور ترجمان القرآن مفت روانہ کرنے کی درخواست کی۔ چند ہی دن میں ترجمان آیا اور آتا ہی رہا۔ جب تک میں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی رام پور منتقل نہیں ہوا اس وقت تک تو پابندی سے ترجمان آتا ہی رہا۔ بعد کا مجھے علم نہیں ہے۔ شاید آتا رہا ہو یہی امکانِ غالب ہے۔
جب میں عدن پہنچا اور وہاں ڈاکٹر محمد علی البار اور محمد الخادم الوجیہ اور عمر سالم طرموم اور عبدالرحمن العمودی کے تعاون سے ’’المرکز الثقافی الاجتماعی الاسلامی‘‘ کی بنیاد ڈالی‘ تو میں نے اس مرکز کے دستور کے ساتھ جو عربی میں تھا‘ ایک خط مولانا کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ اس کی لائبریری کے لیے ترجمان القرآن روانہ کریں تو ترجمان آنا شروع ہوگیا۔ خیال رہے کہ اس وقت تک میری مولانا سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف خدمت ِ اسلام کی خاطر مولانا نے ہمت افزائی کے طور پر مفت ترجمان روانہ کیا۔ مخبراللہ عنا خبراً
جولائی ۱۹۶۷ء میں یا اس کے آس پاس جب میں جدہ منتقل ہو گیا تو وہاں مولانا سے پہلی بار شرف تعارف حاصل ہوا۔ میں اور استاذ محترم مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ نے جدہ ایئرپورٹ پر مولانا کا استقبال کیا۔ کار میں بیٹھنے کے بعد بن محفوظ نے کہا کہ مولانا یہ وہی سید حامد الکاف ہیں جنھوں نے آپ کی خدمت میں سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق کا ترجمہ روانہ کیا ہے۔ ہمارے دوست خلیل احمد حامدی بھی ساتھ تھے۔ مولانا نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ’’جی ہاں‘ آپ کا ترجمہ تو ملا ہے مگر اس میں عربیت زیادہ تھی۔ اس لیے میں نے اس کو ’’اردو وانے‘‘ کے لیے خلیل حامدی صاحب کو دیا ہے‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ نہیں معلوم اس معالم فی الطریق کے پہلے ترجمے کا کیا ہوا؟ اتنا ضرور ہے کہ اس کی دو چار قسطیں سہ روزہ دعوت دہلی میں چھپی تھیں۔
میں نے مولانا سے عرض کیا تھا:’’میں رابطۃ العالم الاسلامی میں مترجم کی حیثیت سے کام کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ کل آپ سے وہیں ملاقات ہو گی‘‘۔ دوسرے دن تقریباً ۱۱ بجے رابطہ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ احوال کے تبادلے میں پوچھا: ’’کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’۵۰۰ سعودی ریال‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ تو بہت کم ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’خدمتِ اسلام کا ادارہ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ پھر اتنی کم تنخواہ کیوں؟ فوراً استعفا دیجیے ‘‘۔ اور واقعی اسی روز میں نے استعفا دے دیا اور عصر کی نماز میں مولانا کو بتا بھی دیا۔ کچھ بھی نہ کہا‘ خاموش رہے۔
جب گھر واپس ہوا تو کہا گیا :’’تمھیں حسن بن عبداللہ بن عجران بن محفوظ تلاش کر رہے تھے‘‘۔ میں ان سے ملا تو کہا کہ آج گھانا کونسلیٹ جنرل کے لوگ میری دوکان پر آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مترجم کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور ماہانہ ایک ہزار سعودی ریال دینے کو تیار ہیں۔ یہ ان کا ٹیلی فون ہے ان سے بات کر لو۔ دوسرے دن ضروری کارروائی کے بعد مجھے ایک ہزار سعودی ریال کی نوکری مل چکی تھی۔ الحمدللّٰہ!
یہ مولانا کی طرف سے یہ درس تھا کہ آدمی کو کسی وجہ سے بلا وجہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو سستے داموں نہیںبیچنا چاہیے۔
اس کے بعد مولانا پھر رابطہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جمعرات کا دن تھا۔ میں اور استاد محترم عمر بن محفوظ مغرب کے بعد مکہ مکرمہ کے شبرہ ہوٹل پہنچے جہاں مولانا کا قیام تھا۔ کچھ دیر بعد مکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ الندوہ کا نمایندہ حاضر ہوا۔ مولانا خلیل حامدی موجود نہیں تھے۔ مترجم کی خدمت میں نے انجام دی۔ دوسرے دن‘ یعنی جمعہ کو یہ انٹرویو الندوہ میں شائع ہو گیا۔
مکہ مکرمہ میں طے پایا تھا کہ میں اور عمر بن محفوظ دوسرے دن جمعہ کو صبح جدہ پیلس ہوٹل پہنچ جائیں گے جہاں مولانا‘ میاں طفیل محمد صاحب اور مولانا خلیل حامدی کے ہمراہ مقیم تھے۔ ہم دونوں حسب وعدہ کوئی ساڑھے آٹھ یا نو بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھ کر مولانا خوش ہوئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’چائوش! میں نے مسجد دہلوی‘ مکہ مکرمہ میں نوجوانوں سے جو خطاب کیا ہے اس کو عربی میں آپ نے منتقل کرنا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’مولانا میں کوئی کہنہ مشق مترجم نہیں ہوں۔ تھوڑا بہت ترجمہ کر لیتا ہوں لیکن آپ کے خطاب کا صحیح اور دقیق ترجمہ میرے بس کا روگ نہیں ہے‘‘۔ مولانا خلیل حامدی نے حامی بھر لی تو مولانا‘ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’خلیل صاحب! عربی زبان ان کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ یہ جو کہہ دیں فصیح ہے اور جو لکھ دیں بلیغ ہے‘‘۔
میں سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’چائوش! شروع ہو جائیں۔ آج رات انھیں (یعنی الندوہ والوں کو) دینے کا وعدہ ہے‘‘۔
میں نے ترجمہ کر دیا۔ دوسرے دن یہ تقریر الندوہ میں چھپ گئی۔ الحمدللہ
اس واقعے کے میاں طفیل محمد صاحب عینی گواہ ہیں۔ وہ خاموش بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ مولانا کے ان الفاظ نے مجھے اتنی ہمت بخشی کہ کبھی بھی مجھے اپنی عربی/ اردو/ انگریزی زبانوں کے معیار کے بارے میں شک و شبہہ پیدا نہ ہوا‘کیونکہ یہ مولانا مودودیؒ کا وہ ادبی ذوق تھا جس کی نفاست اور بلندمعیار ہونے کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اس وقت دراصل مولانا مودودیؒ دلی کرب اور رنجیدگی کی حالت میں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رابطہ کے اجلاس میں مولانا نے احمد آباد میں وحشیانہ اور خون ریز مسلم کش فسادات پر کوئی قرارداد منظور کروائی‘ مگر شاہ فیصل نے اس کو روک لیا‘ یعنی اس کا اعلان کرنے سے منع کر دیا۔
مولانا نے فرمایا :’’ابھی ابھی گردے کے آپریشن سے لوٹا تھا۔ فسادات کی خبریں سن کر محض ان کی شنوائی کی خاطر ایک گردے کے ساتھ یہاں چلا آیا۔ بڑی مشکل سے تو قرارداد پاس ہوئی۔ اس کو بھی روک لیا گیا۔ اب ریاض جا کر کیا کروں؟‘‘
بہرحال وہ جدہ ہی سے لاہور واپس ہو گئے۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ اللّٰھُمَّ اغفِرہُ والرحمہ یارب ۔ یہ واقعہ پہلی بار بیان کر رہا ہوں۔ الحمدللہ‘ میاں طفیل محمدصاحب بقیدحیات ہیں۔ وہ اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔
اس سلسلے میں جسٹس غلام علی مرحوم کہتے ہیں: مولانا کے کردار کے حوالے سے اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ مولانا عبیداللہ انور مرحوم پر ایک مرتبہ پولیس نے انتہائی تشدد کیا۔ مولانا انور کے شاگرد اور اہل خانہ ان کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ مولانا مودودی کو جب یہ معلوم ہوا تو سخت افسوس ہوا۔ مولانا کو یہ بھی پتا چلا کہ ان کو گھر لے گئے ہیں‘ ہسپتال نہیں لے گئے‘ تو مولانا نے اپنے لڑکے کو غالباً صفدر حسن صدیقی کے ہمراہ بھیجا کہ میری طرف سے عیادت کریں اور مولانا کو ہسپتال بھی لے جائیں۔ انھیں کہیں کہ میں خود حاضر ہوتا ‘لیکن میری طبیعت چونکہ اس قابل نہیں ہے کہ کہیں آ جا سکوں‘ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔ چنانچہ مولانا کے مشورے پر ہی ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔
ایک دفعہ سعودی عرب میں کوئی کانفرنس تھی۔ مولانا محمد دائود غزنوی مرحوم بھی اس میں شامل تھے۔ ان کو کچھ تکلیف ہو گئی تو مولانا مودودیؒ رات بھر ان کے پاس بیٹھے رہے‘ حالانکہ مولانا مودودیؒ کی اپنی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ مولانا ابوبکر غزنوی‘ مولانا مودودی کے اس طرزِ عمل سے بڑے متاثر ہوئے اور بعد میں اس کا ذکر بھی کرتے تھے کہ مولانا کے دل میں محبت و انس کا کتناجذبہ ہے۔(ایضًا‘ ص ۲۳۴)
اس سوال کے جواب میں کہ کوئی ایسا واقعہ یا واقعات جن پر مولانا کو سخت صدمہ پہنچا ہو؟ میاں طفیل محمدصاحب نے فرمایا: ’’چودھری غلام جیلانی مرحوم نے بتایا تھا کہ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں‘وہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پر محترم سید قطب کی شہادت کی خبر سننے کے بعد میں اچھرہ جا رہا تھا کہ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری مل گئے۔ میں نے ان کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ ہم ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے تو مولانا کو بے حد ملول اور افسردہ پایا۔ ان کے چہرے پر خلافِ معمول زردی چھائی ہوئی تھی۔ اظہارِ تعزیت کرنے لگا تو مولانا خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر ایک گہرا سانس لیا اور جذبات بھرے لہجے میں فر مانے لگے (اور یہ میری ۴۰ سالہ رفاقت میں پہلا تجربہ تھا کہ مولانا مودودی کو میں نے یوں جذبات میں ڈوب کر بات کرتے دیکھا) کہ کل رات مجھ پر مسلسل ڈپریشن طاری رہا۔ ہزار کوشش کے باوجود پڑھنے لکھنے کا کوئی کام نہیں ہو رہا تھا‘ آخر میں کام چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اور فی الحقیقت میں بالکل نڈھال ہو گیا۔ خیال رہے کہ یہ عین وہی وقت ہو گا جب سیدقطب کو پھانسی دی جا رہی تھی‘‘ (چودھری غلام جیلانی کا کلام یہاں ختم ہوا)۔
میاں صاحب نے فرمایا: جہاں روحانی تعلق ہو وہاں ایسی کیفیت کا طاری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں کہ بیٹے کو کوئی حادثہ پیش آیا اور کوسوں دور ماں کا دل ڈوبنے لگا اور بلا کسی ظاہری سبب کے وہ سخت پریشان ہو گئی۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں سقوط حیدر آباد اور ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ بھی مولانا محترم کے لیے انتہائی صدمے کے موجب واقعات تھے اور علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم کی وفات کے سلسلے میں تو مولانا محترم کے جذبات کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۷۳)
کیوں نہ ہو۔ ان کا سید قطبؒ سے روحانی تعلق انتہائی گہرا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ سیدقطب شہیدؒنے مولانا کی چار بنیادی اصطلاحوں (الہ‘ رب‘ عبادت‘ دین) کو نہ صرف اپنا یا‘ بلکہ ان پر حاکمیت اور سلطان وغیرہ کی اصطلاحوں کا اضافہ کیا۔ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں دو جگہ ان کو ’’المسلم العظیم‘‘ کے لقب سے یا د کیا۔ علاوہ ازیں بغیر علم اور لا شعوری طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح مقوّمات الشعور الاسلامی (اسلامی تصور کی بنیادیں) دو ضخیم جلدوں میں لکھی۔ یہ سب کچھ غائبانہ تعارف کے تحت ہوا۔
مزید یہ کہ ان میں اور مولانا مودودی میں توارد فکری بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں میں نے اپنے مضمون:تفہیم القرآن اور صاحبِ تفہیم القرآنمیں دی ہیں۔ ان میں اضافے کی اچھی خاصی گنجایش ہے۔ مسئلہ سود پر انھوں نے دل کھول کر مولانا کے افکار کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ نور کی تفسیر میں بھی انھوں نے مولانا کی ترجمہ شدہ کتاب تفسیر سورۃالنور سے بھرپور استفادہ کیا اور فخر کے ساتھ ان سب مقامات پر اپنے فکری مصادر اور اپنے ممدوح سید مودودی کا ذکر کیا ہے۔
ان کی شہادت کے وقت مولانا مودودیؒ کو ان تفاصیل کا علم نہیں تھا۔ اس وقت تک صرف معالم فی الطریق معروف ہوئی تھی اور اس پر مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا ہوئی۔ فی ظلال القرآنکا نظرثانی شدہ ایڈیشن بعد میں پھیلا اور عام ہوا۔ اس وجہ سے یہ روحانی اور تعلق خاطر حیرت انگیز امر ہے۔
میں تو بار بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ سید قطبؒ نے اپنی فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی ہوئی تفسیر کے ذریعے مودودیؒ اور فکر مودویؒ کو آسمان خلود کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔ فجز راھما اﷲ عنا خیر الخیرائ۔ یہ تفسیر تا قیامت جہاں جہاں اور جب جب پڑھی جائے گی‘ مودودیؒ اور فکر مودودیؒ کو زندہ اور تاب ناک کرتی رہے گی۔
اس سانحے سے ان پر کیا گزری اس کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں دل کا دورہ تبھی پڑا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا‘ اسے تو یوں سمجھئے کہ مغربی پاکستان والوں نے دھکے دے کر الگ کیا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۲۰۰)
یہی کچھ سقوط حیدر آباد دکن کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ ان کو حیدر آباد سے بے پناہ محبت تھی اس محبت کو ان مقالات کے عنوانات میں دیکھا جا سکتا ہے جو انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے تھے (ایضًا‘ ص ۳۱۵-۳۱۶)۔ اور ان کتابوں میں ان کا عکس ہے جو انھوں نے دکن کی سیاسی تاریخ اور سلطنت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقاتکے عنوانوں کے تحت لکھیں۔ (ایضًا‘ ص ۳۱۷‘ ۶۹۲‘ ۷۶۶)
انھوں نے حیدر آباد کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی اس خط کے ذریعے کی جو میرے محسن اور کرم فرما جناب محمد یونس کے ہاتھوں جناب قاسم رضوی کو لکھا تھا مگر یہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے تھے اور ایک پوری ریاست بھی کھو دی۔ (ایضًا‘ ص ۳۱-۳۲)
گورداسپور مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ تھا مگر دھوکا دہی سے ہندستان میں شامل کر دیا گیا۔ وہ دن ہم پر بڑے بھاری گزرے ---یہ اﷲ کا بڑا کرم تھا کہ سکھوں پر دارالاسلام کا بڑا رعب تھا۔ دارالاسلام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا --- حالانکہ اہل دارالاسلام کے پاس ایک آدھ بندوق کے سوا کچھ نہ تھا۔ کتنی راتیں ہم نے وہاں اس طرح گزاریں کہ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو جاتیں اور مرد مورچوں میں بیٹھے رہتے۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹتے پھر غازی (عبدالجبار) صاحب نے ایک کانوائے بھیجا‘ ایک ٹرک ہم نے چوہدری نیاز علی خان کو دے دیا۔ ہم صرف عورتیں اور بچے پاکستان آئے تھے۔ مودودی صاحب نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ان پناہ گزینوں کو مسلمان ملٹری آ کر اپنی حفاظت میں نہ لے لے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۱)
--- ایک مہینے تک نہ ہمیں مولانا صاحب کی خبر تھی کہ وہ زندہ سلامت ہیں کہ نہیں اور نہ انھیں ہماری کچھ خبر تھی۔ کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد مسلمان ملٹری نے دارالاسلام کے پناہ گزینوں کو جب اپنی تحویل میں لے لیا تب مووددی صاحب نے وہاں سے پاکستان کا رخ کیا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۰)
پاکستان آتے ہی مولانا نے کئی مہاجر کیمپ قائم کیے۔ نقد اور اشیا جمع کیں۔ سال ڈیڑھ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں سیلاب زدگان کی خدمت میں لگ گئے۔ چندہ‘ روپے پیسے‘ کپڑے وغیرہ جمع کیے۔
یہ واقعہ چودھری غلام محمد مرحوم نے مجھ سے ذاتی طور پر بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کے ایک سفر کے دوران جدہ کا ایک بہت بڑا تاجر جو مولانا سے ملاقات کی غرض سے آیا۔ وہ مولانا کی اسلام کے لیے خدمات اور ان کا دلی طور پر معترف تھا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اس نے ایک سادہ دستخط شدہ چیک بڑی عقیدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا: ’’مولانا اشاعت اسلام کے لیے جنتی رقم مطلوب ہو وہ آپ اپنے قلم سے لکھ لیجیے گا‘‘!! --- مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر چیک واپس کر دیا اور فرمایا: ’’آپ کابہت بہت شکریہ۔ جب ضرورت ہو گی لے لیں گے‘‘۔ اس تاجر نے یہ سنا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ایضًا‘ ص ۲۴۰-۲۴۱)
اسی ابہام کو دور کرنے کی خاطر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تاجر عبداﷲ شرتبلی تھے۔ بعد میں انھوں نے لسٹر (برطانیہ)کانو (نائجیریا) اور نیروبی (کینیا) میں اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالنے میں بڑھ چڑھ کر مالی لحاظ سے حصہ لیا۔ اس عظیم منصوبے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کئی سالوں تک چودھری غلام محمد کرتے رہے ہیں۔ اسی غرض سے وہ عدن سے ہو کر مشرقی افریقہ گئے تھے اور عدن ہی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہمارے دوست عمر سالم طرسوم کے واسطے سے ہوئی تھی۔ جدہ میں جب چودھری صاحب تشریف لاتے تو اکثر راؤ محمد اختر صاحب کے گھر پر ٹھیرا کرتے تھے۔ بعض اوقات میں بھی ترجمہ کر کے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جایا کرتا تھا۔ برادرم راؤ اختر‘ چودھری صاحب کے دست وبازو تھے۔ آگے چل کر وہ اس منصوبے کے افریقہ کی حد تک روح رواں ہوگئے۔
میں صرف ان ۱۱ شخصی عناصر ترکیبی کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا‘ جن سے مودودی صاحب کی شخصیت کا خمیربنا تھا اور جس نے نہ صرف ہند و پاک بلکہ عالمی پیمانے پر احیاے اسلام کی تحریک کو فکری اور عملی سطحوں پر زبردست فائدہ پہنچایا۔
۱- تذکرہ سید مودودی ‘ج ۳‘ مرتبہ: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد‘ ص ۳۲۵۔ یہ حوالہ صرف ترجمان کی ’ملکیت‘ کے بارے میں ہے۔ باقی باتیں میں نے حافظے کے بل پر کہی ہیں - حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ مولانا ابومصلح کی سیرت کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرۂ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۳۲۴ - ۳۲۶
۲- ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۷ - ۴۷۔ تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷ - ۱۷۷۔ مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔
۳- تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷۸ - ۲۱۰‘ بیگم مودودی ؒ کا انٹرویو
اس سلسلے میں دوسرے رفقا اور معاصرین کے مشاہدات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میاں طفیل محمد صاحب فرماتے ہیں: ’’ہم لوگوں کی معاشی زندگی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دارالاسلام میں تو بعض دنوں خود مولانا مودودی ؒکے ہاں چولھا نہیں جلتا تھا لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒصاحب جیسے بزرگ ان کے سفید کرتے اور پاجامے اور دوپلی ٹوپی سے یہی اندازہ کرتے تھے کہ وہ کوئی رئیسانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ (تذکرۂ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۱۱۶)
مولانا مودودیؒ کا یہ معمول تھا کہ آپ صبح آٹھ بجے ناشتہ کرتے اور دفتر تشریف لے آتے۔ جواب طلب خطوط اگر ہوتے تو ان کے جوابات لکھتے۔ جب تک آپ امیر جماعت رہے تو اس دوران میں امیر جماعت کی حیثیت سے جو ڈاک آتی اسے بھی نمٹاتے۔
دفتری اوقات میں ملاقات کے لیے بھی لوگ آتے رہتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان، وکلا، علما و دانش ور اور دیگر معززین تشریف لاتے۔ نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ایک بجے نماز ظہر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر کھانے کی میز پر کھانا تیار ملتا۔ اہل خانہ مولانا صاحب کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ اس انتظارکا وقت چند منٹوں تک محدود رہتا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد اندر ہی کمرے میں لیٹ کر اخبار کا مطالعہ فرماتے۔ قومی جملہ اردو، انگریزی اخبارات دیکھتے۔ انگریزی بیرونی رسائل بھی دیکھے جاتے اور ضرورت کی اہم چیزوں پر نشان لگا دیے جاتے۔ اسی دوران میں اگر نیند غلبہ کرتی تو کچھ دیر کے لیے نیند کر لیتے۔ اردو انگریزی جتنے اخبار اندر ساتھ لے جاتے تھے وہ سب عصر کے وقت جب دفتر میں تشریف لاتے تو واپس لے آتے۔ انھیں ایک متعین جگہ پر رکھوا دیا جاتا۔پھر نماز عصر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر تشریف لے جاتے اور ایک کپ چائے نوش فرماتے۔ نماز عصر کے بعد چائے لازماً پیتے تھے یہ ان کا معمول تھا۔ باقی دن میں کسی مہمان کے لیے چائے تیار کروائی جاتی تو مہمان کے ساتھ شریک ہوجاتے۔ ناشتے کی چائے کے علاوہ یہ چائے ہوتی جو مہمان کے ساتھ پیا کرتے تھے۔
نماز عصر کی چائے کے بعد اپنی قیام گاہ کے صحن میں تشریف لاتے۔ حاضرین بھی اور باہر سے آنے والے بھی اور مقامی حضرات بھی آ جاتے۔ اخبارات کی سیاسی خبروں اور تبصروں پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی۔ دیگر ہر طرح کے سوال بھی پیش کیے جاتے اور بہت مختصر سے جوابات دیے جاتے۔ سائل اپنے جواب پر مطمئن ہو جاتے تھے۔
مغرب کی اذان سے کچھ قبل یہ خوش گوار مجلس ختم ہو جاتی۔ مولاناؒ نماز مغرب کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھ جاتے۔ اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔
رات کے کھانے اور نماز عشاء کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ جاتے اور دیر تک کام کرتے تھے۔ تفہیم القرآن کا آخری حصہ بھی انھی اوقات میں مکمل کیا گیا۔ رات کو بھی کم ہی سوتے تھے۔ بسااوقات صبح کی اذان ہو جاتی تھی۔ رمضان المبارک میں ۲۰ تراویح ادا کرنے کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ کر کام شروع کر دیتے تاآنکہ گھر والے سحری کھانے کے لیے بلاتے۔ نماز فجر کے بعد آرام کی غرض سے کچھ دیر سوتے تھے۔ رمضان کے مہینہ کے علاوہ بھی سونے کا یہی وقت تھا۔
۱۹۴۲ء میں جب ہندستان Quit India کی کانگریسی تحریک کی لپیٹ میں تھا‘ راقم اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلما میں زیرِ تعلیم تھا ۔ ندوہ کے اکثر طلبہ مولانا ابوالکلامؒ آزاد کے دلدادہ اور جمعیت علماے ہند کے زیر اثر تھے ۔ مگر طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد قائدِ اعظم محمد علی جناح اورآل انڈیا مسلم لیگ کی ہم خیال اور پر زور مؤید بھی تھی ۔ دونوں گروہوں میں پر جوش مباحثے ہوتے‘ جب کہ کانگریس کے طرف دارطلبہ انگریزوں کے خلاف توڑ پھوڑ کے پروگرام بھی بناتے۔ اس انتہائی تنائو کے ماحول میں‘ تنہا میں ‘مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی دعوت ’’حکومت الٰہیہ کی تاسیس کی دعوتــ‘‘ کو نہایت اعتماد کے ساتھ پیش کرتا اور دونوں کیمپوں کے پرجوش حامیوں کے مقابلے پر ڈٹا رہتا ۔
میرے اندریہ حوصلہ دراصل مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور ان مضامین کو پڑھنے سے پیدا ہوا تھا‘ جو مسلمان اور مو جودہ سیاسی کش مکش (سوم) میں شامل کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ با لخصوص اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟کے عنوان سے مولانا کی وہ تقریر جو انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کی تھی اس کو پڑھ کر تو دل میں ا یسا ایمان و ایقان اور جوش پیدا ہو گیا‘ جس کو ظاہری شعلہ زنی سے بے نیاز ‘مگر کبھی ٹھنڈی نہ ہونے والی آگ سے مشابہ قرار دینا صورت حال کی واقعی تعبیر ہو گی -
جب مسلمانوں کے تمام ممالک اور ملت میں شامل تمام اقوام‘ مغربی استعمار کا صید زبوں بنی ہوئی تھیں اور مغرب کی مادی برتری نے اس کی فکری بر تری کی بھی دھاک بٹھا رکھی تھی ‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت برعظیم کے مسلمانوں کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے نصب العین کی طرف دعوت دی ۔ یہ دعوت اس وقت دی گئی جب برعظیم کے وہ مسلمان لیڈر جو مغربی تہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے ان کو تو چھوڑیے‘ بڑی بڑی دینی درس گاہوں کے سکہ بند بلکہ سکہ ساز علماے کرام بھی وطنی قومیت ‘ آزادی اور جمہوریت کے خالص مغربی تصورات کے مبلغ اور انھی تصورات کو سر بلند کرنے کی جد و جہد میں ’جہادی جذبے‘ کے ساتھ سر گرم عمل تھے ۔ حالت یہ تھی کہ اسی طبقہ علما سے تعلق رکھنے والے ایک محقق‘ مصنف اور شہرہ آفاق خطیب نے ’اسلام کے اقتصادی نظام‘ پر اپنی ایک محققانہ تصنیف میں اس رائے کا اظہار فرمایا : چونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اس وقت بر سر کار لانا ممکن نہیں اس لیے اس ’’ قریب تر ‘‘ اشتراکی نظام کو قائم کرنے کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ یہ وہ وقت تھا جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ کرنے و الے ‘ عربی رسم الخط کو ممنوع ‘ اسلامی قوانین کو منسوخ اور عربی میں اذان دینے پر پابندی لگانے والے کمال کو برعظیم کے مسلمان ’’ غازی مصطفی کمال ‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔
۱۹۴۲ء میں مولانا مودودیؒکی ایمان پرور اور انقلابی تحریریں پڑھ کرمیں اپنے طلبہ ساتھوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اگر مجھے ایک چپراسی کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع نصیب ہو جائے تو میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہو گا ۔
میں اپنے ساتھیوں کو تحریروں کے اقتباسات پڑھ پڑھ کر سنا تا تھا‘ مثلاً: ’’مسلمان کو صرف اس چیز سے بحث ہے کہ یہاں انسان کا سر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے یا حکم الناس کے آگے ۔ اگر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے تب تو’’ ہندستان ‘‘ کو اور زیادہ وسیع کیجیے‘ ہمالیہ کی دیوار کو بیچ سے ہٹایئے اور سمندر کو بھی نظر انداز کر دیجیے تاکہ ایشیا ‘ افریقہ ‘ یورپ اور امریکہ‘ سب ہندستا ن میں شامل ہو سکیں‘ اور اگر یہ حکم الناس کے آگے جھکتا ہے توجہنم میں جائے ہندستان اور اس کی خاک کا پرستار ‘‘ --- اور یہ کہ: ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اس مسئلے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں ہے کہ ہندستان میں جہاں مسلمان کثیرالتعداد ہیں وہاں ان کی حکومت قائم ہو جائے ۔میرے نزدیک جو سوال سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ کے اس پاکستان میں نظام حکومت کی اساس خدا کی حاکمیت پر رکھی جائے گی یا مغربی جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت پر ؟اگر پہلی صورت ہے تو یہ یقینا پاکستا ن ہو گا‘ ورنہ بصورت دیگر یہ ویسا ہی ’نا پاکستان‘ ہو گا جیسا ملک کا وہ حصہ ہو گا جہاں آپ کی اسکیم کے مطا بق غیرمسلم حکومت کریں گے‘‘۔
مولانا مودودیؒنے دلوںمیں نہ بجھنے والی جو آگ روشن کی تھی وہ محض اس قسم کی پر جوش عبارتوں سے روشن نہیں کی تھی‘ جس کی عمر ’’اگر ماند شبے دیگر نمی ماند‘‘ کی طرح بہت مختصر ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک تیار ہونے والا وہ فکری اور علمی لٹریچر تھا‘ جس نے اس زمانے میں اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا تارو پود بکھیر دیا تھا۔ الجہادفی الا سلام ‘ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘ تفہیمات‘ تنقیحات‘ مسئلہ جبرو قدر ‘ پردہ ‘ حقوق الزوجین اور تجدید و احیاے دین جیسی بلند پایہ کتب میں ان مسائل پر بھی مفصل بحث کی گئی تھی جو مغربی تہذیب کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام زندگی کے ہر پہلو کو بھی نہایت دل نشیں انداز میں مثبت طور پر سامنے لایا گیا تھا ۔
اس لٹریچر سے ہندستان کے طول و عرض میں بکھرے ایسے بہت سے افراد پیدا ہو گئے تھے‘ جو اسلام کی صداقت اور دور حاضر میں ممکن العمل سب سے بہتر نظام ہونے پر قلبی اطمینان اور ذہنی یکسوئی رکھتے تھے ۔ انھی بکھرے ہوئے لوگوں میں سے چند با ہمت افراد نے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جمع ہو کر جماعت اسلامی قائم کر دی ۔
جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد مولانا مودودیؒکی علمی اور تحقیقی کتب جو محض اپنی قوت سے مسلم ہندستان کے اہل فکر کے حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہی تھیں‘ ان کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ۔ کیونکہ جماعت سے وابستہ ہر شخص ان کتابوں کی اچھی خا صی تعداد اپنے پاس رکھتا اور معاشرے میں ہمہ وقت ایسے اصحابِ ذوق کی تلاش میں رہتا جن کویہ کتب مطالعے کے لیے دی جا سکیں۔ اس سلسلے میں’’پہلے کون سی کتاب مناسب ہو گی‘‘، کا انتخاب مشکل کام ہوتا تھا۔ مگر دعوت کے جذبے سے سرشار جماعت کے کارکن اپنے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہر شخص کے ذہن کے مطابق کتاب کے انتخاب میں خا صی مہارت کا ثبوت دیتے تھے۔
۱۹۴۶ء میں جب کانگریس کی طرف میلان رکھنے والے مسلمانوں اور مسلم لیگی فکر رکھنے والوں کے درمیان گرما گرم مباحثے ہر سطح پر برپا رہتے تھے‘ لکھنؤ میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے بڑے بھائی کانگریس کے بہت زیادہ طرف دار تھے۔ ہندئووں اور کانگریسیوں کے بعض متعصبانہ کاموں کے باعث وہ کانگریس سے بیزار ہوئے تو ان کے برادر خورد میرے پاس آئے کہ ان کو اس موقع کی مناسبت سے کوئی کتاب مطا لعے کو دی جائے۔ ابتداً میں نے کانگریس کے خلاف ان کے جذبات کو پختہ تر کرنے کے لیے مسلمان اور موجودہ سیا سی کش مکشحصہ دوم دی‘ مگر تھوڑی ہی دیر میں میری رائے تبدیل ہوئی‘ چنا نچہ میں نے ان کو حصہ دوم کی بجاے سیاسی کش مکش ‘ حصہ سوم دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حصہ دوم پڑھ کر ان کی کانگریس کے خلاف نفرت تو یقینا پختہ تر ہو جاتی‘ مگر شائد وہ جماعت کے کام کے لیے آگے نہ بڑھتے۔ چنانچہ حصہ سوم پڑھ کر میرے اندازے کے عین مطابق وہ جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے۔
ان کتب کے انگریزی تراجم‘ نیز جنوبی ہندستان کی بعض علاقائی زبانوں میں بھی تراجم تیار ہو گئے‘ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا بڑا علمی فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے جماعت کے خلاف اور با لخصوص مولانا مودودیؒکی فکر کے خلاف زبردست طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ ہر طرف سے جماعت پر اعتراضات کی بو چھاڑ شروع ہو گئی ‘ مذہب اور بالخصوص اسلام دشمن حلقے اسلام اور مذہب کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے گمراہ کن سوالات اٹھانے لگے۔ اس فضا میں بھلا قادیانی اور منکرین حدیث کیوں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ’’ علم کلام ‘‘ کے پٹاخوں سے فضا کو دھواں دھار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں اٹھائے گئے ان اعتراضات کے مدلل جواب دینے کی ضرورت پیش آئی جو شاید عام حالات میں اس طرح سے سامنے نہ آتی۔ یوںاسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے علمی کام کا ایک موقع میسر آگیا۔
چنانچہ مولانا مودودیؒاس علمی چیلنج کا سامنے کرنے کے لیے کم ازکم۱۹۴۵ء تک با لکل تن تنہا اور اس کے بعد بھی ‘ جب کہ ان کو مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی کمک میسر آ گئی تھی‘ زیادہ تر خود ہی تمام سوالات و اعتراضات کے جوابات اپنے مضامین کے ذریعے اور ترجمان القرآن میں ’’رسائل و مسائل‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت بڑے اعتماد اور جی داری سے لکھتے رہے۔
مولانا مودودیؒ کے یہ جوابات رسائل مسائل کے نام سے پانچ حصوں میں شائع ہوچکے ہیں‘ حقیقتاً ایک با لکل نئے طرز تحریر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ ان کے اندر علمی وضاحت‘ تحقیقی متانت‘ منطقی استدلال اور ادبی جمال کے ساتھ لطیف مزاح اور ایسے طنز و تعریض کی آمیزش بھی ہے جس کا نشانہ بننے والا کبھی تو خود بھی لطف لیتا ہے اورکبھی اس کی کسک برسوں بلکہ زندگی بھر نہیں بھول پاتا ۔
ایک صاحب کو شکایت تھی کہ ان کی غیر شادی شدہ بہن مولانا مودودیؒکی کتب پڑھ کر اس درجہ اسلامی احکام اور پردے کی پابند ہو گئی ہے کہ وہ ایسی معاشرتی تقریبات سے بھی دور رہتی ہے‘ جو اس کے خیال میں اسلام کے خلاف ہیں اور اپنے لباس و معاشرت کے لحاظ سے وہ خاندانی روایات کو یکسر ترک کر چکی ہے‘ تو بتائیے کہ اب اس کا رشتہ آئے گا تو کہاں سے آئے گا؟ اس پر اپنی ’’ فریاد ‘‘ بیان کرنے کے بعد انھوں نے مولانا مودودیؒسے درخواست کی کہ وہ ان کی بہن کو سمجھائیں‘ تاکہ وہ کسی طرح اس طرز زندگی سے باز آ جائے۔ اس طویل فریاد کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے صرف یہ لکھا :ــ ’’اس معاملے میں ‘ میں خود بھی بے بس ہو ں۔ آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کر لیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۴۲۷)
اس خوش گوار اور مقصدی طنز و تعریض کے ساتھ ساتھ جب کوئی علمی مسئلہ زیرِ بحث ہو‘ خواہ اسلام کے کسی حکم کے حوالے سے یا جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے‘ تو زور استدلال کے ساتھ ایسا اجمال جس سے بات سمجھنے میں خلل واقع نہ ہو اور ایسی تفصیل جس کا کوئی حصہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو‘ اس کی مثالیں رسائل و مسائل کے ہر صفحے پر مل جائیں گی۔ ایک جگہ الجامع الصحیح کی ایک حدیث پر ایک صاحب کے اعتراض کے جواب میں مولانا مودودیؒنے لکھا ہے: ’’اس (حدیث) میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سورج ہر آن اللہ کے حکم کا تابع ہے ۔ اس کا طلوع بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کا غروب بھی ۔ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں‘ بلکہ وہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سر بسجود قرار دیتا ہے‘ یعنی کلیتاً تابع امرِ رب ہونا ۔ پھر سورج کا مغرب ایک نہیں بلکہ قرآن کی رو سے بہت سے مغرب ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر آن ایک خطۂ زمین میں غروب اور ہرآن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے اجازت مانگ کر طلوع و غروب ہونے کا مطلب ہرآن امر الٰہی کے تحت ہونا ہے‘‘۔
حدیث سے زمین کے ساکن اور سورج کے گردش کرنے کا جو تاثر ملتا ہے‘ اس پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ان (انبیا) کا کام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج‘ ان کا کام تو یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین و سورج کا مالک و فرماںروا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کر رہی ہے‘‘۔
ایک دوسری مثال میں مولانا مودودیؒنے ذیل کی اس مختصر عبارت میں’’زکوٰۃ‘‘کی شرعی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعلیٰ مقاصد اور فرد و معاشرے پر اس کے تعمیری اثرات کو بیان فرمایا ہے: ’’زکوٰۃ‘‘ کے لغوی معنی طہارت اور نمو کے ہیں۔ انھی دونوں صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی عبادت کو کہتے ہیں جو ہر صاحب ِنصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کر کے اس کا مال پاک ہو جائے اور اس کا نفس ‘ نیز وہ سو سائٹی جس میں وہ رہتا ہے بخل ‘ خود غرضی ‘ بغض وغیرہ جذبات و رویے سے پاک ہو اور اس میں محبت و احسان‘ فراخ دلی اور باہمی تعاون و مواساۃ کے اوصاف نشو و نما پائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴)
برعظیم کی حدود سے نکل کر مولانا مودودی ؒ کی تحریر عالم اسلام کے افق پر اس وقت طلوع ہوئی جب عرب دنیا میں بالعموم اور مصر میں با لخصوص اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا دور شباب تھا ۔ ترکی میں بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک اور دیگر اسلامی تحریکیں زیر زمین سر گرمِ عمل تھیں اور ایران میں شاہ کے ظالمانہ دور حکومت میں علما اور مجتہدین نہایت خاموشی سے اسلامی فکر کی آبیاری کر رہے تھے ۔
یہی وہ وقت تھا جب استادِ محترم جناب مولانا مسعود عالم ندوی ؒ نے مرکز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’دار العروبہ‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ مولانا ندوی مرحوم سے عالم عرب کے ادیب‘ علما اور صحا فی پہلے ہی سے اچھی طرح آشنا تھے ۔ وہ عرب دنیا میں ’’ عین العروبہ ‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ۔ مر حوم کو اپنی صحت اور برعظیم کے پرا گندہ سیاسی حالات کی وجہ سے یکسوئی سے کام کا موقع کم ہی مل سکا‘ تاہم انھوں نے جالندھر میں تقسیم ہند سے ذرا قبل کام شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ کے بعض اہم مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ انھوں نے وسیع پیمانے پر خط و کتابت کے ذریعے عالم اسلام کی ممتاز شخصیات سے رابطہ کر کے ان کو جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ سے متعا رف کرایا۔ جالندھر میں ابھی کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں آگئی اور مولانا ندویؒ اپنے رفیق کار عاصم الحداد مرحوم کے ساتھ نہایت بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آ گئے۔ یہاں اپنے کام کو جلد از جلد منظم کرنے کے بعد وہ عاصم الحدادؒ کے ساتھ عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ یہاں علما اور ادیبوں سے براہ راست طویل مذاکرات کیے ۔ اسی ز مانے میں مولانا مودودیؒ کے متعدد اہم مضامین اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ ، اسلام کا نظریۂ سیاسی اوردین حقوغیر ہ کا تر جمہ عربی زبان میں شائع ہو چکا تھا ۔ ان تراجم کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اخوان المسلمون کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ سیدقطب ‘ ان کے بھائی محمد قطب ‘ محمد الغزالی ‘ شیخ محمد محمود صواف‘ ڈاکٹر مصطفی سباعی اور بے شمار علما اور رہنما ان سے متاثر ہوئے ۔ اس کے بعد جب مولانا مودودی کی دیگر اہم کتب کا تر جمہ عربی میں شائع ہوا تو عرب دنیا میں مو لانا مودودی کی فکری قیادت با لخصوص اسلامی حلقوں میں مسلّم ہو گئی ۔
انھی عربی تراجم کی مدد سے چند اہم مضامین کے تر جمے فارسی میں ایران کے دینی مرکز ’’قم‘‘ سے شائع ہوئے ۔ انگریزی تراجم اور عربی تراجم کی مدد سے کئی مضامین کے ترجمے ترکی زبان میں بھی شائع ہوئے ۔ اس کام کے لیے چودھری غلام محمد مرحوم اور جناب خلیل احمد حامدی مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھر خود مولانا مودودیؒ کے دوروں سے ‘ جو حج و عمرے کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی ‘ مدینہ یونی ورسٹی اور دیگر علمی و دعوتی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے‘ ان سے مولانا مودودیؒ کو عالم اسلام کے فکری قائد کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا ۔
راقم کو ۱۹۷۱ء سے لے کر اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ۔ بالخصوص شرق اوسط کے ممالک: بحرین‘ کویت ‘ قطر ‘ متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب تو بار بار جانا ہوا اور الحمدللہ عوام کے ساتھ ساتھ علما ‘ مشائخ ‘ صحافی‘ وزرا اور حکومت کے ذمہ داروں سے تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ میں نے ان میں بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی پائی ‘جو نہ صرف یہ کہ مولانا مودودیؒ کو اچھی طرح جانتے تھے‘ بلکہ ان کے علمی ‘ فکری اور تحریکی جد و جہد کے معترف اور قدر دان بھی تھے ۔
میری اس بات کو ہر گزمبالغہ نہ سمجھا جائے کہ اس وقت پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے جد و جہد ہو رہی ہے‘ میرے مشاہدے کے مطابق‘ اس جدو جہد میںبلا واسطہ یا با لواسطہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کا پر تو اور ان کی فکر کے اثرات واضح طور پر مو جود ہیں ‘ بلکہ جو افرا دیا تنظیمیں زبان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی مخالفت کرنے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پرمولانا مودودی ؒ کی بتائی ہوئی راہ پر ہی چل رہے ہیں ۔ انھی کی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر میں مولانا مودودیؒ کی ہی فکر سے رہنمائی حا صل کر رہے ہیں ۔
تصویر کا یہ ایک دل کش پہلو ہے ‘ جس کی دل کشی کو میں کماحقہ بیان نہیں کر سکا‘ جس کی اصل وجہ توخود اپنی علمی اور فکری نا رسائی ہے‘ مگر اس کی دوسری وجہ یہاں (کینیڈا میں) ضروری کتب کا دستیاب نہ ہونا ہے ۔ مگر تصویر کا دوسرا دل فگار ر خ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے جس ’’رخ دوست‘‘ کو دکھا کر کچھ ’’دیوانے ‘‘ یا ’’ نیم دیوانے ‘‘ جمع کیے تھے ‘ جو افتاں و خیزاں منزلِ محبوب کی طرف سر گرم سفر بھی ہو گئے تھے ‘ افسوس کہ]اب مجھے[ نہ تو کوئی اس دیوانہ بنانے والے ’’حَسن ‘‘کا جلوہ عام کرنے والا نظر آتا ہے‘ نہ اس ’’ حسن ‘‘ کے طالب عشاق کا قافلہ گرمِ سفر دکھائی دیتا ہے۔
پچھلی صدی اختتام پذیر ہوئی اور کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کو اچھا لگے یا برا‘ اسلام کو زندہ اور تابندہ کرنے کے حوالے سے یہ صدی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی صدی تھی!
میرا خیال ہے کہ تقاریر اور تحریروں سے زیادہ ان کی تصویر‘ ان کا چہرہ ۔ بڑی بڑی سوچتی ہوئی‘ تھکی تھکی آنکھیں‘ بے پناہ عزم اور ذرا سا حزن۔چہرے پر سرخی اور سفیدی گھل گئی تھی۔ ایک ایسا آدمی جو کبھی اور کسی قیمت پر بھی ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھا۔ سیدؒ صاحب مسکراتے تومعاًحزن اور تکان رخصت ہوجاتی‘ تب چہرہ ہی نہیں پورا پیکرکِھل اُٹھتا۔ گویا چودھویں کا چاند بدلیوں سے نکلے اور مسکرانے لگے اور ‘مسکراتا رہے ‘ حتیٰ کہ پورا ماحول بشاشت سے بھر جائے۔
سید صاحبؒ کو تصنّع اور ریا سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ ریا‘ تصنع اور احساس کمتری برصغیر کے امراض ہیں۔ میں نے رجال اور اکابر میں بھی کم لوگوں کو ان امراض سے پوری طرح آزاد پایا ہے۔ سید صاحبؒ آزاد تھے‘سر سے پاؤں تک مردِ آزاد۔یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ وہ کبھی کسی سے متاثر نہ ہوئے کہ کسی بھی عہد کا کوئی فرزند اپنے عصرسے یکسربے نیاز نہیں ہوتا‘ لیکن ابوالاعلیؒ ان نادر و نایاب انسانوں میں سے ایک تھے جو زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ البتہ رہن سہن‘ خوردو نوش‘ گفتگو کے انداز میں وہ دہلی کے طبقۂ شرفا میں سے تھے اوراس پر قانع بھی۔
اورنگ آباد میں ہوش کی آنکھ کھولنے والے لڑکے نے‘ جس کا خاندان عسرت اور امتحان میں مبتلا تھا مگر شرافت ‘ علم‘ روایات اور وضع داری کا اثاثہ رکھتا تھا ‘ آنکھ اٹھا کر دنیا کو دیکھا تو وہ کیا سوچتا تھا ؟ ایک مختصر سی عبارت میں ہم اس موضوع پر زیا دہ کلام نہیں کر سکتے۔ یہ بہت جلد واضح ہو گیا کہ وہ چیزوں کو چھاننے اور پھٹکنے کا قائل ہے۔ مرعو بیت نام کی کوئی چیز اسے چھو کر بھی نہیںگزری۔ خاندانی مقام اور افتخار اگر عُجب کی صورت اختیار نہ کرے تو گاہے مددگار بھی ہوتا ہے ‘اور ہم اللہ کی سنت سے واقف ہیں کہ وہ جنھیں مشعل عطا کرتا ہے‘ ان کے خاندان اکثر اجلے اور صورتیں زیبا ہوتی ہیں‘ تہمت سے پاک ‘ پاکیزگی کا ہالہ لیے۔ ثمربار ہونے والے شجر‘ زر خیز زمینوں اور موزوں موسموں میں اگتے ہیں‘ جہاں آسمان ابرِ رحمت کے لیے فیاض ہوتا ہے۔
کھجورکے باغوں سے بھرے اس خنک شہر میں ختم المرسلینؐ سے ان کے صحابی ؓنے پوچھا : ’یارسولؐ اللہ! کیا ہم آپؐ کے بھائی نہیں ؟‘۔ فرمایا : ’تم تو میرے رفیق ہو ‘ میرے بھائی تو میرے بعد آئیں گے‘۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا :’میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا ؑ کی مانند ہیں‘۔
مؤرخین‘ امام ابن تیمیہ ؒکا حلیہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لفظ کم پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا : ’زیبا صورت‘ چراغوں کی طرح دمکتی آنکھیں اور بارعب ‘ بے ریا‘ اجلی آواز کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے‘۔ سید صاحبؒ کو ابن تیمیہؒ سے ایک نسبت یہ بھی تھی کہ اپنے عہد کی ساری جہالتوں کے خلاف کمال بے خوفی کے ساتھ انھوں نے آواز بلند کی۔
۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہو جانے والے بزرگوں میں سے ایک ‘ میاں محمد حفیظ سے میں نے پوچھا : ’کیا اخوان المسلمون پر ناصر کی یلغار کے بعد سید صاحبؒ اس خوف کا شکار ہوئے کہ کہیں جماعت اسلامی اسی انجام سے دوچار نہ ہو جائے‘ اور کیا اسی لیے وہ قانون کی پابندی پر ضرورت سے زیادہ زور نہ دینے لگے تھے؟‘۔سوال مکمل نہ ہوا تھا کہ بے ساختہ انھوں نے کہا : ’ـکیا کہتے ہو ‘ خوف اس شخص کی کھال میں کبھی داخل نہ ہوسکاـ‘ ۔
ابن تیمیہؒ سے ایک مشابہت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے ہر علمی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ۔ـ الجہاد فی الاسلام ‘ پـردہ‘ تفہیمات اورـسود ایسی تصانیف آج بھی ان موضوعات پر حتمی حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں اور پون صدی پہلے لکھی گئی ان کتب میں آج بھی کوئی اضافہ نہ ہوسکا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بہت سے پیروکار بھی ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ چشمہ آج بھی رواں ہے لیکن فیض پانے والے کم ہیں۔کہتے ہیں مطالعے اور تحقیق کا ذوق جاتا رہا اور سیاست غالب آ گئی ۔ زندگی کے آخری ایام میں ابوالاعلیٰؒ نے ملال کے ساتھ کہا تھا:’ علمی تحقیق کی روایت ان کے ساتھ قبر میں اتر جائے گی‘۔
جذبات کی غالب ہوتی لہر کو تھامنے کے لیے میں ایک پل کو رکتاہوں کہ جناب عبداللہ بن مسعودؓ یاد آتے ہیں۔ فاروق اعظمؓ کو مدینہ منورہ کی مٹی کے سپرد کیا جا چکا تو انھوں نے کہا تھا : ’آج علم کے دس میں سے نو حصے اٹھ گئے‘۔ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سلامت تھے اور خود عبداللہ بن مسعودؓ سلامت تھے ۔جن کے لیے سرکار ؐ نے فہم دین کی دعا فرمائی تھی ۔ لیکن عمر ابن خطابؓ کا امتیاز اور ہی تھا !
فاروق اعظمؓ علم و عمل کا حسین امتزاج تھے ۔ وہ خیال کو فکر اور فکر کو ادارے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے ۔ لہٰذا ‘وہ سرکارؐ کے بعد انسانی تاریخ کے تیوروں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ثابت ہوئے۔ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ جناب ابو بکر صدیقؓ ،انبیا علیہم السلام کے بعد بزرگ ترین شخصیت ہیں ‘ تقویٰ کے طفیل ‘ پاکیزگی کے سبب اور ختم المرسلینؐ کی ہم نشینی ‘ مزاج شناسی اور کامل پیروی کی بنا پر‘ لیکن یہ تو خود سرکارؐ نے فرمایا تھا کہ ’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘۔ سیدابوالاعلیؒ ،حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی اولاد ہیں‘ لیکن اپنے مزاج میں وہ‘ فاروق اعظمؓ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ۔ یہ محض اتفاق تو نہیں کہ ـفاروق ـان کے سب صاحبزادوں کے نام کا ایک جزوہے ۔
سید صاحبؒ ادارے تشکیل دینے میں یقین رکھتے تھے اور انھوں نے ایسے کئی ادارے تشکیل دیے‘ زمانہ جن سے سیکھ سکتا ہے اور اکتساب نور کر سکتاہے ۔ مثال کے طور پر احتساب کا ادارہ ۔ امیر جماعت اسلامی سے لے کر صوبوں ‘اضلاع اور حلقوں تک ہر صاحب منصب کا خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا۔ میں نہیں جانتا کہ کسی دوسری مذہبی یا سیاسی جماعت میں احتساب کا ایسا نظام موجود ہو ‘ ان سے پہلے‘ ان کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی‘ مشرق سے لے کرمغرب تک۔ خوے غلامی کے مارے معاشرے کے اذہان استفادہ نہ کرسکیں تو یہ ایک الگ المیہ ہے۔
چار سال ہوتے ہیں ‘ اسلام ا ٓباد کے ایک ممتاز اسکالر سے سوال کیا کہ کیا ’آپ دیو بند کے فلاں بزرگؒ اور سید صاحبؒ کا تقابل کرنا پسند کریں گے؟‘ قدرے ناراضی کے ساتھ انھوں نے کہا: ’کیسا موازنہ ؟‘ پھر اس مفہوم کا جملہ کہا: ’چراغ کو سورج سے کیا نسبت!‘۔اتفاق دیکھیے کہ ٹھیک ۷۰برس پہلے سیدصاحبؒ نے کسرنفسی کی بنا پر یہی بات کہی تھی۔ البتہ بڑے احترام کے ساتھ ان کی قدامت پسندی کا ذکر کیا تھا ۔ ان اسکالر کے تبصرے نے مجھے موصوف کی تصنیفات کی طرف مائل کیا۔ دینی امور میں ان کی دوررس نگاہ اور انسان کی نفسیاتی کیفیات کے ادراک نے طالب علم کو مبہوت کر دیا؟۔تب ایک سوال ذہن میں ابھرا کہ ابوالاعلیٰ ؒسے فیض پانے والوں کی تعداد کتنی ہے‘ اور اس پورے مکتب فکر نے کتنے لوگوں کو دین کا رستہ دکھایا جن سے ان بزرگ کا تعلق تھا؟ حیرت سے میں نے دیکھا کہ صرف تفہیم القرآنکا مطالعہ کرنے والے کئی ملین ہوں گے۔ پاکستان میں ‘ بھارت ‘بنگلہ دیش‘سری لنکا‘ کشمیر‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ وسط ایشیا اور شرق اوسط ہی نہیں‘ بلکہ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے ۵۱ ملین مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد۔
اس لیے کہ سید صاحبؒ موضوع سے انصاف کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ۴۰برس ہوتے ہیں‘ رحیم یار خاں میں کوئی صاحب‘ سید صاحبؒ کے خلاف چیخ رہے تھے۔ بڑھاپے کی وادی اترتا ہوا ایک نیک نام اخباری نامہ نگار ان کا ہدف تھا ۔ بہت دیر وہ خاموشی سے سنتا رہا ‘ پھر اس نے یہ کہا : ’میں آپ کی بات ماننا چاہتا ہوں مگر میں کیا کروں ‘ جب میں سیدمودودیؒ کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو میری حالت ایک بچے کی سی ہو جاتی ہے‘ جو کسی مہربان بزرگ کی انگلی تھامے کشادہ راستے پر چلاجاتا ہو‘۔
لگ بھگ انھی دنوں کا قصہ ہے کہ میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم‘ فاطمہ جناح کی حمایت کے سوال پرجماعت اسلامی سے الگ ہوگئے ۔ وہ دبنگ لہجے‘ راست گفتاری اور قرآن کریم سے اپنی محبت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بحث مباحثے اور بد گمانیوں کا سلسلہ اٹھ کھڑا ہوا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے مزاج کے مطابق اپنی دھن میں مگن رہے۔ انھی دنوں اکابر پرست طبقے کا ایک گروہ ان سے ملنے آیا۔ ممکن ہے وہ گمان کرتے ہوں کہ عوامی زندگی کا عادی بہت دن الگ تھلگ نہ رہ سکے گا۔ شاید وہ ان کا ذہن ٹٹولنے آئے ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب ان کی بات سنتے رہے‘ لیکن جب اپنے مکتب فکر کے بزرگوں کی ستایش میں وہ مبالغے کی آخری حدود سے گزر گئے تو اس آزاد منش آدمی نے یہ کہا :’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مجھے اختلاف ہوا اور میں ان سے الگ ہوگیا‘ لیکن اس اختلاف کے باوجود ‘ یہ بات میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اگر اس زمانے کا کوئی امام ہے تو وہ ابوالاعلیٰ کے سوا کوئی اور نہیں‘۔ ڈاکٹر صاحب نے سید صاحبؒ سے محبت کا رشتہ استوار رکھا۔ میاں طفیل محمد نے ایک بار خوش گوار حیرت سے کہا : ’سید صاحبؒ تفہیم القرآن میں مصروف ہوں‘ تب بھی آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔ میاں طفیل محمد سے زیادہ ابوالاعلیٰ کو کون جانتا تھا کہ اس یکسو اور نیک طینت آدمی نے اپنی پوری زندگی ان کی نذر کر دی ؎
حاصل عمر نثار رہ یارے کر دم
شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم
ٰؒلیکن سید صاحبؒ کی شایستگی اور وضع داری تو کبھی کبھی انھیں بہت قریب سے جاننے والوں کو بھی حیران کر دیتی۔
میں ایک درویش کی خدمت میں حاضر تھا ۔ سیرت رسول ؐ کے رموز سے آشنا وہ تصوف کے ایک نئے مکتب فکر کے بانی ہیں ۔ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں افراد ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مسنون دعائیں پڑھتے اور اسماے ربانی کا ورد کرتے ہیں ۔ وہ اللہ سے محبت ‘ سنت کی پیروی اور مخلوق خدا سے خیر خواہی کے علاوہ ‘ توازن ‘ اعتدال اور فرقہ پرستی سے گریز پر زور دیتے ہیں ۔ حیرت انگیز فراست کے اس آدمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک نظر میں آدمی کو پہچان لیتے اور فوراً ہی اس کی عادات و خصائل کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ میں‘ اپنے سوالات کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور وہ کمال شفقت سے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ تین ماہ ہوتے ہیں ‘ میں نے بعضـ داعیان کے بارے میں پوچھا ۔ ایک آدھ سوال کا جواب دینے کے بعد انھوں نے کہا: ’ندی نالوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو‘ دریا کے بارے میں سوال کرو‘ ۔ عرض کیا:’ـ دریـا؟‘ فرمایا :’ سـید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ہم ان کی فکر سے متفق نہیں‘ مگر وہ اپنے عہد کے شایستہ ترین آدمی تھیـ‘۔ باباے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا: ’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اردو زبان کو شایستگی عطا کی‘۔
کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں شایستگی اور شجاعت اس طرح گھل مل جائیں جیسے سید صاحبؒ کی شخصیت میں ۔ کم ہی کسی شخص کی ذات میں اتنے اوصاف یکجا ہوتے ہیں ۔ اپنے عہد میں سب سے بڑی تعداد کو متاثر کرنے والا عالم دین ‘ سیاست کی آلودگیوں سے پاک ایک ممتاز سیاست دان ‘ ایک منفرد منتظم اور اپنے دور کا بے مثال نثر نگار اور خطابت میں ایک نئے انداز کا بانی۔ دو آدمی ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو زبان کو مالا مال کردیا: علامہ اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔
اقبالؒ پوری انسانی تاریخ میں کسی عصر پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شاعر ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ انھوں نے ایسے موضوعات کو شعر کا قالب عطاکیا‘ کہ ان موضوعات پر کلام کی کبھی کسی کو جرأت نہ ہو سکی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انھی کے علم‘قوت متخیلہ اور وجدان کا آدمی یہ کارنامہ انجام دے سکتا تھا ۔
سید صاحبؒ اپنے دور کے عظیم ترین نثر نگار تھے اور خود اقبالؒ نے ۳۵سالہ ابوالاعلیٰ ؒسے امید استوار کی‘ حالانکہ ابھی ان کا چرچا محدود تھا۔ اس کے باوجود ان سے مل کر ایک نیا اور منفرد ادارہ تخلیق کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ یہ سید صاحب کے علم کا اعتراف تھا ‘ حسن نیت اورہنر کا بھی۔ اقبالؒ کی طرح ابوالاعلیٰ ؒکا اعجاز ان کے لہجے کا مردانہ پن ہے۔ ایک سچا‘ کھرا اور دوٹوک انداز۔ ان کے حسن کلام کا جادو یوں تو ہر کہیں نظر آتا ہے‘ لیکن سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن میں۔ دوسرے تراجم سے موازنہ کیا جائے تو فوراً ہی آشکار ہوتا ہے کہ قلم پہ جیسی قدرت اورابلاغ کا جیساحُسن سیدؒ کو عطا ہوا تھا‘ کسی اور کو نہ ہوا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ ہیں‘ جن سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن ‘ حدیث ‘تاریخ اور عصری علوم میں وہ یگانہ اور ممتاز مانے جاتے تھے اور جوشِ کردار کا ایک نمونہ بھی۔ مداحوں کی ایک بڑی تعداد انھوں نے پیدا کی‘ دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر ان کے ذکر سے گونجنے لگا۔ ابوالکلامؒ اور ابو الاعلیٰ ؒکے ترجمۂ قرآن کا بیک وقت مطالعہ کیجیے تو تعین آسان ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ بھی کہ ساری عظمت کے باوجود ابوالکلامؒ کی تحریر تصنّع اور اہتمام سے کم ہی پاک ہوتی ہے۔ ابوالاعلیؒ کے ہاں بلاغت زیادہ ہے اور تصنع کا نام و نشان تک نہیں ۔ ایک عالم ان کی زبان دانی کا اعتراف کرے گا اور ایک عامی مفہوم کو پوری طرح پالے گا۔
ادب کی تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ممتاز اہل قلم کی جولانیِ طبع تا دیر قائم نہیں رہتی ۔ امیرتیمور کے ذکر میںہیرالڈلیم کا قلم تصاویر بناتا ہے اورالفاظ موتیوں کی طرح جڑتا ہے۔ لیکن جب اس نے صلاح الدین ایوبی اور اس کے عہد کی کہانی لکھی تو اپنے موضوع سے انصاف کر سکا اور نہ اس دور کے تاریخی کرداروں سے عدل۔ ناول نگاری میں انیسویں اور بیسویں صدی کے روسیوں کا کوئی ہم سر نہیں۔ لیکن دوستوفسکی اور ٹالسٹائی کی سب تحریروں کا معیار یکساں نہیں ۔ خود ابوالکلامؒ کا حال بھی مختلف نہیں ۔
سید صاحبؒ کا عجیب و غریب امتیاز یہ ہے کہ معیار کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہزاروں صفحات ‘ ان گنت موضوعات اور نصف صدی کا سفر‘ مگر شہسوار کے تیور ہمیشہ ایک سے رہے۔ اردو زبان اور ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات میں پورے وثوق سے عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص صرف سید صاحبؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرے تو وہ زبان و بیان پر دسترس کے لیے اپنے مقصود کو پالے گا۔ سید صاحبؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دل سے زیادہ دماغٖ کو پکارتے ہیں۔ دلیل ان کی تلوار ہے اور اس شمشیر سے انھوں نے لاکھوں دلوں کو شکار کیا۔ کوئی تعجب نہیں کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کرنے والوں کی اکثریت ان کے قلم سے دعوت و تزکیے کے دائرے میں داخل ہوئی ۔ کیا کسی دوسرے ادیب کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟
برصغیر کی تاریخ میں ابوالاعلیٰ ؒسے بڑھ کے شاید ہی کسی شخص کی کردار کشی کی گئی ہو اور یہ کارنامہ علماے کرام کے ایک طبقے نے انجام دیا‘ اور پھر سبھی مکاتب فکر نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ غزالیؒنے سوال کیا تھا : ’جب قرآن مجید کا ایک درس دینے والا دوسرے کو دیکھتا ہے تو نا خوش کیوں ہوتا ہے؟ اسے تو خوش ہونا چاہیے کہ روشنی کے فروغ میں کوئی اور بھی مددگار ہے‘۔ پھر خود ہی جواب دیا : ’اس لیے کہ دل حب جاہ سے بھرے ہوتے ہیں۔ مقصود مقبولیت ہوتی ہے اور اپنے گروہ کا فروغ‘۔
ابوالاعلیٰ ؒفرشتے نہ تھے کہ ان سے اختلاف نہ کیا جاتا اور پیغمبر نہ تھے کہ ان پر ایمان لازم ہوتا لیکن علمی اختلاف شایستگی اور قرینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ افسوس کہ ابو الاعلیؒ کے مخالفین کی عظیم اکثریت ان تقاضوں کا ادراک نہ کر سکی اور سب سے بڑا سبب وہ تعصب تھا‘ جس نے دلوں کو زنگ لگا دیا‘ دماغوں کو جکڑ لیا اور تناظر کو محدود کر دیا تھا‘ یا حسد کہ جو پہاڑ جیسے آدمی کے مقابل انھیں کمتری کے احساس میں مبتلا کرتا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ ایک آدھ نہیں ‘ بہت سے علماے کرام نے ابوالاعلیٰؒ کو عالم دین تسلیم کرنے سے انکار کردیا ‘اور ان میں سے ایک نے پھبتی کسی کہ وہ کسی دارالعلوم کے فارغ ا لتحصیل ہیں اور نہ کسی یونی ورسٹی کے گریجویٹ۔
یہ۱۹۲۴ء کی بات ہے ۔ ایک اخبار نویس ‘صاحب ِطرز ادیب اور ایک عالم دین کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کے چرچے کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن رات کے تیسرے پہر وہ جاگتے اور شاہجہان کے دور سے آباد دلی کے قدیم گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے مولانا عبدالسلام نیازیؒ کے دروازے پر جا دستک دیتے ۔ بوڑھا استاد ایک الگ ہی مزاج کا آدمی تھا۔ عمر بھر اسے کسی دارالعلوم سے واسطہ رہا اور نہ مکتب فکر سے کوئی علاقہ۔ وہ عطر بنا کے رزق کماتا اور اسے خانقاہوں میں قوالیاں سنتے ہوئے دیکھا جاتا۔ ایک زاہد شب زندہ دار ‘ من موجی اور آزاد۔ کہا جاتا تھا کہ اس عہد کے ہندستان میں کوئی شخص قدیم علوم میں اس کا ہمسر نہ تھا۔ وہ تعلیم و تدریس کا ایک الگ دبستان اور تدریس کا منفرد اسلوب رکھتا تھا ۔ قرآن مجید کے منفرد مفسر مولانا حمید الدین فراہیؒ کی طرح وہ ایک ایک سطر پڑھانے کے بجاے ‘ طالب علموں کو خود سے پڑھنے پر مائل کرتا ۔ مشکل مقامات میں وہ ان کی مدد کرتا اور قرینہ یہ تھا کہ کسی بھی مضمون میں وہ صرف ایک کتاب کا درس دیتا۔ باقی تمام مباحث وہ اسی کتاب پر بحث کے دوران سمیٹ دیتا ۔ وہ تعلیم و تدریس کا کوئی معاوضہ قبول نہ کرتا اور صرف غیر معمولی طالب علم ہی اس کے ہاں بار پا سکتے تھے۔ سید صاحبؒ نے اپنے بڑے بھائی سید ابوالخیرؒکے ساتھ بچپن میں اسی عظیم استاد سے تعلیم پائی تھی۔
سید صاحبؒ کی اپنی روایت یہ ہے : ’مولانا عبدالسلام صاحب فلسفہ و معقولات کے ماہر تھے۔ نہایت شیوہ بیان اور طلیق اللسان کہ گھنٹوں ان کی تقریر سن کر بھی آدمی سیر نہیں ہوتا تھا۔ میرے والدماجد کے بہت عقیدت مند تھے۔ والد صاحب مرحوم نے میرے بچپن ہی میں ان سے کہہ دیا تھا کہ اسے عربی پڑھانا۔ چنانچہ بچپن میں بھی میں نے ان سے پڑھا۔ پھر الجمعیۃ ‘دہلی کی ادارت کے زمانے میں جب ان سے عرض کیا کہ کچھ کتابیں رہ گئی ہیں‘ انھیں پڑھنا چاہتاہوں‘ تو فوراً مان گئے۔ فرمایا: صبح کی اذان کے وقت میرے مکان پر آجایا کرو۔ ان کا مکان ہمارے مکان سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں باقاعدگی سے صبح کی اذان کے ساتھ ہی ان کے دروازے پر موجود ہوتا۔ کسی روز اگر ان کی طبیعت آمادہ نہ ہوتی تو اندر ہی سے فرما دیا کرتے: ’سید بادشاہ‘ آج طبیعت حاضر نہیں ہے‘۔ مرحوم سلسلۂ چشتیہ سے وابستگی رکھتے تھے۔ ’نیازی‘ کی نسبت بھی ایک بزرگ نیازاحمد بریلوی سے عقیدت کی بنا پر تھی۔ وہ بزرگ چشتی تھے۔ ہمارا خاندان‘ہندستان میں سلسلۂ چشتیہ کا پیش رو ہے۔ اس بنا پر وہ سن رسیدگی اور استاد ہونے کے باوجود میری بہت عزت کرتے اور اسی بنا پر مجھے ’سید بادشاہ‘ کہہ کر پکارتے‘۔
آخر شب کا یہ منظر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے ۔ ۲۲سالہ ابوالاعلیٰؒ اردو‘ انگریزی اور عربی زبان پہ دسترس رکھتے تھے ۔ وہ ایک بڑے اخبار کے مدیر تھے ۔ ایک عالم اور منفرد انشا پرداز کی حیثیت سے ابھررہے تھے۔ اگر ان کے ذہن میں قیادت کا سودا ہوتا تو آخر شب کی اس ریاضت کے بجاے کیا وہ اظہارکی راہ اختیار نہ کرتے ۔ غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور اہل تعصب کی آنکھوں اور کانوں کے لیے پردے۔
کبھی کبھی طالب علم یہ سوچتا ہے کہ کیا قدرت کاملہ نے اس منفرد استاد عبدالسلام نیازیؒ کو صرف اس لیے جہان آب و گل میں بھیجا تھا کہ طلب علم میں ابوالاعلیؒ کی رہنمائی کرے کہ جسے دیوبند اور علی گڑھ میں سے کسی ادارے کا رخ نہ کرنا تھا ۔ اپنے نو دریافت شدہ مذہبی احساس کی وجہ سے ان کے والد علی گڑھ سے دور جا چکے تھے‘ جہاں کبھی انھوں نے تعلیم پائی تھی اور ذاتی مجبوریوں یا معاشرتی رجحانات کی بناپر وہ دیوبند سے بھی دُور تھے ۔ دیوبند حریت کیش تھا لیکن اپنی حدود میں مقید‘ اور پھر استعمار کے خلاف حد سے بڑھی ہوئی نفرت اسے گانگریس کے اتنا قریب لے گئی کہ وہ مسلمانوں کے قومی مفادات سے بیگانہ ہو گیا۔ اقبالؒ کو اسی لیے دیوبند سے اختلاف تھا ۔ اسی لیے وہ قائد اعظمؒ کو اس پر ترجیح دیتے ‘ حالانکہ مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ سے انھیں ایک گونہ تعلق تھا اور پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم کے سوال پر انھیں محمد علی جناحؒ سے رنج بھی پہنچا‘ لیکن دور تک دیکھنے والا آدمی نا خوش ہونے کے باوجود ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ طالب علم کا گمان یہ ہے کہ سید صاحبؒ کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار کرنے میں یہ پہلو اقبال ؒکے مد نظر تھا ۔ وہ الجہاد فی الاسلام اور ترجمان القرآن کی تحریروں سے متوجہ اور متاثر ہوئے اور انھیں پنجاب منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔
اقبالؒ اور ابوالاعلیؒ کے تعلق میں ‘ ہم سید صاحبؒ کی بے ریا ‘سیر چشم اور بے باک شخصیت کی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔ لاہور میں وہ اقبالؒ سے ملے اور ـدارالاسلامـ کے منصوبے پر اتفاق رائے ہوچکا تو ان سے عرض کیا:’میری ایک بات آپ مان لیجیے‘ سـرکا خطاب واپس کردیجیے کہ یہ آپ کو جچتا نہیں‘۔ بعد میں ایک ذاتی دوست کو ابوالاعلیؒ نے بتایا کہ یہ بات سن کر اقبالؒ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں ۔ سیدؒ کو ملال ہوا کہ انھوں نے اقبالؒ کو رنجیدہ کر دیا۔ کیا اقبالؒ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ ۳۴سالہ ا سکالر نے‘ جسے انھوں نے معنوی پدر کی نگاہ سے دیکھا تھا اس کمزوری کا ذکر کیا‘ یا اس پر کہ انھیں اس خطاب کو قبول کرنے کی یاد نے دل گرفتہ کر دیا تھا؟
اہل تعصب طعنہ زن رہے لیکن ابوالاعلیؒ کی زندگی ہی میں ان کے علم کا اعتراف کر لیا گیا۔ وہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک نمونۂ عمل تھے اور درحقیقت ایک اعتبار سے ان سب کے رہنما۔ ۱۳ برس ہوتے ہیں ‘ ٹھیک یہی دن تھے جب برف سے ڈھکے ایک پہاڑ کی چوٹی پر میں نے گلبدین حکمت یار کے مطالعے کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی ۔ حکمت یار کے جواب کا ایک حصہ یہ تھا : ’ـمیں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تمام آثار کا مطالعہ کیا ہے‘۔ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد انھوں نے کہا: ’زـندگی کے سب اسرار میں نے قرآن سے سیکھے ہیںـ‘۔ سارے زمانے سے برسر جنگ اس جاںباز نے تفہیم القرآن کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا ۔
مصر ‘ شام ‘ سعودی عرب ‘لبنان‘ امارات میں اخوان المسلمون کے قارئین کا وسیع حلقہ موجود تھا۔ ایران میں ان کی کتابیں شائع کرنے والوں میں ایران کے موجودہ ولایت فقیہ خامنہ ای بھی شامل تھے ۔ انڈونیشیا سے ترکی تک‘ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے ان سے فیض پایا۔ اس سارے معاملے کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ سید صاحبؒ نے عالم اسلام میں اپنی حیرت انگیز مقبولیت کا کبھی حوالہ نہ دیا۔ جو لوگ اپنے مقاصد کے لیے جیتے ہیں وہ ان چیزوں سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ خیرہ کردے۔
۱۹۷۴ء کی ایک شام اتفاق سے میں ۵اے ذیلدار پارک میں موجود تھا‘ جب اردن کے فرماں روا شاہ حسین نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔ اگلی شام کسی نے پوچھا تو قدرے بیزاری کے ساتھ انھوں نے جواب دیا: ’ان لوگوں کو زیادہ اہمیت نہ دیا کیجیے‘۔ میری اخباری زندگی کے ۳۵ برس سیاست دانوں کے درمیان گزرے ہیں ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ موقع پرستی کے معاملے میں سیاست دان تاجروں سے بھی زیادہ حریص ہوتے ہیں ۔ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اخبار میں خبر چھپوانے کا اہتمام کرتا لیکن سید صاحبؒ کو یہ ذکر تک گوارا نہ تھا۔ جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک شخص برسراقتدار آیا‘ جوترجمان القرآن کا قاری تھا اور جس نے تفہیم القرآنسمیت ان کے لٹریچر کے بڑے حصے کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔ ابوالاعلیؒ اس سے بھی بے نیاز رہے۔ وہ حکومت اور حکمرانوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے‘ سیاسی موقع پرستی سے وہ بہت بلند تھے۔
سیاست دان کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ سیاست کی آلایشوں سے پاک رہے۔ انھوں نے زمانے کی رو میں بہنے سے انکار کر دیا اور ہنگامی عوامی رجحانات سے فائدہ اٹھانے کی کبھی کوشش نہ کی ۔ ان کے مختلف اور منفرد انداز خطابت کا راز یہی ہے۔ جس برصغیر میں انھوں نے ہوش کی آنکھ کھولی‘ وہ ابوالکلامؒ ‘ محمد علی جوہرؒاور بعد ازاں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آگ بھڑکا دینے والی خطابت سے گونج رہا تھا ۔ ایک اعتبار سے تحریک آزادی کو اس انداز خطابت کی ضرورت بھی بہت تھی۔ ابوالکلامؒ تو خیر کانگریس سے متاثر تھے اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ دیوبند کی طرف مائل تھے‘ لیکن محمد علی جوہرؒ کے تو وہ بہت مداح بھی تھے‘ اس کے باوجود ابوالاعلیؒ کے غور و فکر نے انھیں قائل کر دیا کہ آخری تجربے میں جذبات سے اپیل کرنے والی خطابت اُمت اور اسلام کے مفاد میں نہیں؛لہٰذا سوچ سمجھ کر انھوں نے تحریر اور تقریر کا ایک الگ اسلوب اختیار کیا جو دل نہیں‘ دماغ سے خطاب کرتا ہے ۔ وہ قاری کو اپنی دلیل سے فتح کرتے اور اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اس گمان میں کبھی مبتلا نہ ہوئے کہ انھیں اپنے زمانے کی قیادت کرنی ہے ۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ دارالاسلام پہنچے اور ان کا سامان تانگے سے اتارا جا رہا تھا ۔ جذبات سے مغلوب نہ ہونے والے ابوالاعلیؒ اس منظر کو دیکھتے رہے‘ معاً ان کی آنکھوں میں نمی آگئی اور انھوں نے کہا: ’’آج تک میں ایک تھا اور اب دو ہو گیا ہوں‘‘۔ ادھر مولانا امین احسنؒ کا مزاج یہ تھا کہ دارالاسلام میں ان کے درس قرآن کے دوران ایک بار جب کسی نے یہ کہا کہ ابوالاعلیؒ کی رائے اس باب میں مختلف ہے‘۔ تو ان کا جواب یہ تھا : ’’اـنھیں کیا پتا؟‘‘ـ ابوالاعلیؒ اس پر مسکرا دیے۔ انھی برسوں میں سید صاحبؒ نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا تو ایک روایت کے مطابق مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے انھیں اس کا م میں ہاتھ نہ ڈالنے کا مشورہ دیا ۔ مولانا امین احسنؒ یقینا ایک بڑے عالم تھے اور انھوں نے قرآن کریم پر غوروفکر اور تدبر کا سلیقہ اپنے عہد کے عظیم اسکالر مولانا حمیدالدین فراہیؒ سے سیکھا تھا۔ لیکن ایک بات وہ سمجھ نہ سکے کہ ابوالاعلیؒ کتنی ریاضت کے آدمی ہیں اور اللہ نے انھیں کیسا دماغ عطا کیا ہے ۔ مسلمانوں نے سرور عالم ؐ کے اس ارشاد پر بہت کم غور کیا ہے کہ اگر آدمی زہد اختیار کرے تو اسے یوں علم عطا کیا جائے گا جس طرح کنویں سے پانی نکلتا ہے ۔
سیاست دان کے طور پر میں سید صاحبؒ کے کردار پہ گفتگو کرنا چاہتا ہوں لیکن بات بھٹک کر دور نکل جاتی ہے ۔ ہثت پہلو ہیرا ہے ‘ جو نگاہ خیرہ کیے رکھتا ہے۔ دارالاسلام سے لاہور پہنچنے کے ایک دو روز بعد ہی انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب افتخار حسین ممدوٹ سے کہا کہ صرف ایک بٹالین فوج کو حرکت دے کر مشرقی پنجاب سے کشمیر جانے والا راستہ بندکیا جا سکتا ہے۔ اقتدار کے نشے سے سرشار وزیراعلیٰ کا جواب تھا :’مولوی صاحب‘ آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے‘۔ـ مولوی صاحب ـتو خیر اپنا کام کرتے رہے لیکن مسلم لیگ کی قیادت اس باب میں ناکام ہو گئی ۔ قائداعظم علیہ الرحمہ نے انگریز کمانڈر انچیف کوجب کشمیر میں پاکستانی فوج کی پیش رفت کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا ۔ باقی کہانی تاریخ کا حصہ ہے ۔ قائد اعظمؒ دل پر کشمیر کا زخم لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
اگلے ۳۲سال ہم سید صاحبؒ کو پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا مقدمہ لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ لیکن ایک منفرد طرز سیاست اور طے شدہ ترجیحات کے ساتھ ۔ یہ طرز سیاست ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے اور نہ ان کی ترجیحات۔ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل اس سیاست دان کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ مسلسل سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ نہ صرف اپنے علمی کام میں محو رہا‘ بلکہ اپنے عصر کے کسی بھی عالم دین سے بڑھ کر لکھا۔شورش کاشمیری نے تعجب کے ساتھ لکھا تھا : صفحات کی تعداد عمر کے دنوں سے زیادہ ہے۔سید صاحبؒ کی سب سے بڑی ترجیح تو ظاہر ہے ریاست میں اسلام کا فروغ ہی تھا۔ اسی لیے ان کے ناقد یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ تاہم‘ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے حوالے سے ان کا کردار کسی بھی پاکستانی سیاست دان سے زیادہ ہے ۔ اس لیے عتاب بھی سب سے زیادہ انھی پر آیا۔ ان کے لیے پھانسی کی سزا کا اعلان ہوا اور طویل عرصہ انھوں نے زندان میں گزار دیا۔ لیاقت علی خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک ہر حکومت درپے آزار رہی ۔ ۱۹۷۲ء میں سید صاحبؒ جماعت اسلامی کی امارت سے الگ ہوچکے تھے‘ لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے پرچم تلے بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلانے والے طلبہ پر‘جاوید ہاشمی جن کے سرخیل تھے ‘ پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا تو سید صاحبؒ کو میں نے مضطرب پایا ۔ وہ بوڑھے اور بیمار تھے اور درد کُش ادویہ نے ان کی توانائی چاٹ لی تھی‘ لیکن اس مرحلے پر انھوں نے کہہ دیا : ’طلبہ کے ساتھ اگر یہی سلوک جاری رہا تو میں جلوس لے کر شاہراہ قائداعظم کا رخ کروں گا‘۔
سیاست میں ان کے امتیازات ہیں‘ مثلاً یہ کہ انھوں نے ہر حال میں قانون کی پابندی کو اختیار کیا ۔ ماضی مرحوم کی سیاسی تحریکوں پر بہت گہرائی میں غور و خوض کرنے والے شخص کو یقین تھا کہ قانون کی پاسداری ہی بہترین راستہ ہے‘ اور یہ کہ تشدد اور خفیہ انداز کار سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے‘ بلکہ غیر صحت مند رویے پرورش پاتے ہیں ۔ وہ اس امر پر یقین رکھتے اور اعلان کرتے تھے کہ معاشرہ سدھر نہیں سکتا‘جب تک کہ حکومت زاہد اور متقی گروہ کے ہاتھ میں نہ ہو‘ مگر اس نیک کام کے لیے بھی وہ جوڑ توڑ یا تشدد سے حکومت کے حصول کے کبھی قائل نہ تھے ۔
یہ ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء تھا‘ وہ رحیم یار خان تشریف لائے اور ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ میرے خالہ زاد بھائی محمد طارق نے جو بعد ازاں ۱۲ برس تک سینیٹر رہے ‘ اصرار کے ساتھ مجھے ان سے ایک سوال پوچھنے کو کہا :’’وہ جمہوری جدوجہد کی بے نتیجہ کھکھیڑمیں کیوں پڑے ہیں ‘کیا اسلام کے لیے بزور شمشیر اقتدار حاصل کرنا نامناسب ہے؟‘‘مجھے سید صاحبؒ سے یہ سوال پوچھنے میں تامّل تھا لیکن طارق کے اصرار کو ٹالنا آسان نہ تھا ۔چنانچہ جیسا کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات کا قرینہ ہے‘ میں نے ایک کاغذ پر استفسار لکھ دیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ‘ ان کا جواب مختصر تھا‘ فرمایا: ’یہ پرانے خواب ہیں جو دن کودیکھے جاتے ہیں۔ جو اقتدار طاقت کے بل بوتے پر آتا ہے وہ سخت ناپایدار ہوتا ہے۔ راے عامہ کا راستہ بلاشبہہ بڑا صبرآزما ہے‘ لیکن اگر اسے حکمت کے ساتھ اختیار کیا جائے اور حماقتیں نہ کی جائیں تو اس میں صد فی صد کامیابی ہے‘۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ایسے صاحب الرائے داعی اسلام تھے‘ جن سے نہ صرف ان کے عہد کی تمام اسلامی تحریکوں نے استفادہ کیا‘ بلکہ دعوت دین کے پھیلائو کے لیے آپ کی حکمت عملی کو بھی اختیار کیا۔ علاوہ ازیں متعدد حکومتوں نے قانون سازی کے لیے بھی آپ سے رہنمائی حاصل کی۔
میرے نزدیک سیدمودودیؒ صرف موجودہ زمانے کی اسلامی شخصیت نہ تھے ‘ بلکہ گذشتہ ادوار کی شخصیات میں بھی انھیں بڑا امتیازی مقام حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ برعظیم جنوبی ایشیا میں آپ جیسا کوئی صاحب علم وفضل شخص نہیں پایا گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں پر کوئی بڑے لوگ پیدا نہیں ہوئے‘ بلاشبہہ یہاں پر بڑے عظیم علماے دین‘ نہایت متقی بزرگ اور عظیم دانش ور اور اسلامی جذبے سے سرشار مجاہد پیدا ہوئے اور ان کی خدمات بھی بے پناہ ہیں۔ تاہم میری بحث کا دائرہ یہ ہے کہ سیدمودودیؒ کے کام کی وسعت‘اثرات کی گہرائی‘ سوچ اور تربیت میں ندرت اور اپنے وطن سے باہر کی دنیا کو متاثر کرنے کی مقناطیسی طاقت میں بہرحال اس علاقے کی کوئی شخصیت ان کی ہمسرنہیں۔ اس میں کیا شک کہ یہاں پر دوسرے جلیل القدر بزرگوں نے قیمتی کتب لکھیں یا افراد کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کی دینی تربیت کی‘ جو بذات خود بڑی سعادت کی بات ہے۔ البتہ علم و فکر اور عمل وجہد کے دائروں میں بیک وقت پیش رفت کرنا ایک امتیازی اور مہتم بالشان کارنامہ ہے۔ سید مودودیؒ کی دعوت کا میدانِ کار مکمل اسلام اور مخاطب دنیا بھر کے لوگ ہیں۔ وہ کسی ایک قوم کے عالم‘ کسی ایک گروہ کے قائد‘ کسی ایک قبیلے کے شیخ اور کسی ایک مکتب فکر کے فقیہہ نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ایک ایسے عالم گیر عالم دین اور قائد ہیں‘ جو زمانے کی قید اور ملکی حدود کے پابند نہیں۔
سید مودودیؒ کے ہاں رضاے الٰہی کے حصول‘ شہادت حق کے فریضے کی بجاآوری‘ تزکیہ و تعمیر کردار کی مرکزیت اور اقتدار و اختیار کے سرچشموں کو امرربی کا تابع بنانے کی کوششیں اس قدر مربوط اور اس درجہ مسلسل تھیں کہ انھیں کوئی حکومتی دہشت پسندی یا معاصرین کی غوغا آرائی روک نہ سکی۔ بلاشبہہ جو بھی اس راہ پر چلتا ہے اسے لازماً ایسے مصائب و مشکلات اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں ان کے پہلو میں بیٹھا تھا‘ عرض کیا: ’یاشیخ‘ مولانا مودودیؒ نے آخر ایسا کیا جرم کیا ہے جو آپ اتنے سخت الفاظ میں ان کا تذکرہ کر رہے ہیں؟‘ شیخ طریقت نے جواب دیا: ’وہ کہتا ہے کہ صرف آنحضورؐ ہی معیارِ حق ہیں۔ اس طرح کی بات کہہ کر دراصل وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ میں سے کسی کو معیارحق ماننے سے انکار کرتا ہے‘۔ میں نے عرض کیا: ’یہ بات تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کی وجہ سے کہی جاسکتی ہے کہ صرف وہی معیارِ حق ہیں۔ بلاشبہہ دوسرے عظیم الشان صحابہ اور ائمہ سے بھی رہنمائی لینی چاہیے لیکن سبھوں کو درجۂ معصومیت پر فائز اور آخری معیار قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔ یہ بات سن کر وہ کسی اور کام میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں کچھ اور عقیدت مند کمرے میں داخل ہوئے تو موضوع بدل گیا۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سوال کیا: ’یاشیخ‘ ابن عربی اور ان کے اقوال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘ شیخ طریقت نے فرمایا: ’علماے حق نے متفقہ طور پر انھیں بڑے لوگوں میں تسلیم کیا ہے اور محتاط لوگوں نے ان کے اقوال کے بارے میں کچھ کہنے سے اجتناب کیا ہے۔ ابن عربی کے اقوال کے بارے میں صرف وہی کچھ کہنا چاہیے جو اچھا ہو‘ بلکہ ان کے کلام کی دو طرح سے تاویل کرنی چاہیے۔ پہلی یہ کہ ہم اُن کی مراد نہیں جانتے کہ ان کا یہ بات کہنے سے کیا مقصود تھا۔ دوسرا یہ کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ مذہب نہیں‘ بلکہ مذہب کی تاویل ہے‘۔ فرمان شیخ کے فوراً بعد میں نے کہا: ’اگر یہی اصول ہم سید مودودی کے بارے میں اختیار کریں تو پھر آپ کی کیا رائے ہوگی؟‘ یہ سوال سنتے ہی غصے سے شیخ طریقت کے چہرے کا رنگ بدل ہوگیا۔ میری طرف غضب سے دیکھا اور خادم سے کہا: ’نماز کی اقامت پڑھو‘۔
ایک ملاقات میں‘ میں نے مولانا مودودیؒ سے اتحاد و اشتراک کے مسئلے پر گفتگو کی۔ انھوں نے فرمایا: ’عدد اکٹھا کرنے سے نہ کوئی اتحاد بنتا ہے اور نہ اس ہجوم سے کوئی وزن پیداہوتا ہے۔ فکر اور دعوت میں بنیادی حیثیت تعداد کو نہیں بلکہ اصول اور خلوص کو حاصل ہوتی ہے‘۔ ایک ثانیے کے توقف کے بعد وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’بے مقصد لشکر کو جمع کرنا دراصل بائیں جانب صفروں کو جمع کرنا ہے‘ لیکن جب صحیح فکر اور واضح ہدف کے ساتھ اشتراک عمل ہو تو اس وقت صفر دائیں جانب منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں حقیقی وزن اور مؤثر اپیل پیدا ہوتی ہے‘۔
مولانا مودودی ؒنے ظاہری اور سطحی مظاہر کے لیے واقعی اتحاد سے انکار کیا۔ وہ زندگی کو تصنع اور بے مقصدیت کی بھینٹ چڑھانے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ یہ ان کی خداداد حکمت اور دُوراندیشی تھی کہ انھوں نے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکات کے باہم اتحاد کی تحریک پر زور نہ دیا‘ البتہ مسلم ممالک کے اتحاد و اتفاق پر ضرور زور دیا۔ آج کے حالات میں مولانا مودودیؒ کی اس بصیرت کی معنویت سمجھ میں آتی ہے۔
اسی طرح مولانا مودودیؒ کسی سنجیدہ مقصد کے بغیر ہونے والی بین الاقوامی یا قومی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے پُرجوش نہ تھے۔ خصوصاً حکومتی سرپرستی میں ہونے والی کانفرنسوں کو وہ زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے‘ کیونکہ سرکاری مقتدرہ‘ ایسی کانفرنسوں کو رسمی طور پر نبھاتی ہے۔ رابطے کے اجلاسوں میں ان کی شرکت علامتی سطح پر تھی جس کا ایک پہلو افراد کے درمیان تبادلۂ خیال بھی تھا۔
۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا ملکی سطح کا اجلاس طے کرکے لاہور کی انتظامیہ سے جگہ اور لائوڈاسپیکر کے لیے حسب ضابطہ درخواست گزاری۔ سالانہ اجتماع کے فیصلے کی خبر اخبارات کے ذریعے ملک کے طول و عرض کے علاوہ بیرونِ ملک بھی پھیل چکی تھی۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی حکومت اس جلسے کے انعقاد کے حق میں نہ تھی اور اسے روکنے کا ’’ٹاسک‘‘ گورنر ملک امیرمحمدخان کے سپرد تھا۔
ضلعی انتظامیہ اس درخواست کو حیلے بہانوں سے ٹال رہی تھی اور جماعت کے ذمہ داران ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے چکرلگاتے‘ امن و امان کے حوالے سے اُنھیں تسلیاں دیتے تھک گئے تو بہ امرمجبوری موچی دروازے کے باہر بلااستعمال لائوڈاسپیکر جلسے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔
گورنر ملک امیر محمدخان نے ایس پی لاہور‘ جن کا نام غالباً سکندر تھا‘ کے ذمے لگایا کہ اجازت تو بہ امر مجبوری (کہ کالک سرکار کے منہ نہ لگے) دے دی گئی ہے مگر جلسہ ہر قیمت پر روکنا ہے۔ اب نواب آف کالاباغ کا حکم ہو اور ایس پی نے نوکری کرنی ہو تو انکار کی گنجایش کہاں۔ لہٰذا وفاداری ثابت کرنے کے لیے یہی ’’ٹاسک‘‘ ایس پی نے اچھا شوکر والا نامی بیڈن روڈ کے بستہ ب کے غنڈے کے ذمے لگایا‘ جس کا خاصا گروہ تھا۔ کہنے کو تو پولیس ریکارڈ میں اچھا شوکر والا بدمعاش اور غنڈا تھا مگر اس کے اندر بھی ضمیر نام کی چیز ابھی زندہ تھی۔ ایک طرف پولیس کا شکنجہ اور دبائو اور دوسری طرف بے گناہوں پر حملہ‘ ایک ’’بدمعاش‘‘ کا زندہ ضمیر اس پر آمادہ نہ ہو رہا تھا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی اور وہ خاموشی سے ایڈیٹر چٹان آغا شورش کاشمیری ؒکے پاس پہنچا اور حکومتی حکم کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کی خلش سے آگاہ کیا۔ آغا صاحب نے یہ خبر مولانا مودودی کو پہنچائی۔
مولانا مودودیؒ نے آغا صاحب کی بات سن کر اُن سے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ: میری خواہش اور دعوت پر پاکستان کے کونے کونے سے مردوزن موچی دروازے پہنچیں اور میں موت کے خوف سے گھر بیٹھ جائوں۔ کیا یہ وطیرہ کسی بھی بھلے آدمی کو زیب دیتا ہے؟ موت کا وقت معین ہے اور اگر یہ موچی دروازے کی سٹیج پر ہی لکھی ہے تو میں اس شہادت سے فرار کیوں اختیار کروں؟ وہ اپنا کام کریں‘ ہم اپنا کام کریں گے۔
مولانا مودودیؒ کی اس جرأت مندانہ گفتگو سے متاثر ہوکر شورش کاشمیری ؒنے چٹان میں ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا:’’شاید تیری قسمت میں بھی کوئی بالاکوٹ ہے‘‘۔ چٹان کی اس اشاعت کے دو ایک دن بعد موچی دروازے میں جلسۂ عام طے پا چکا تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن آنے والے طوفان سے بے خبر‘ جلسے کی تیاریوں میں صبح شام‘ ہمہ تن مصروف تھے اور تخریب کار اپنی جگہ۔
بالآخر وہ دن آگیا جب موچی دروازے کے پنڈال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ باہر سڑک تک پھیل چکے تھے۔ لائوڈاسپیکر پر پابندی کے سبب بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے پرانے طریقے پر نقیب اپنی اپنی جگہ مقرر کیے جا چکے تھے‘ اور اُدھر سرکاری منصوبہ بندی کے مطابق ہر خیمے کی طنابیں کاٹنے کے لیے‘ ہرکِلّے کے ساتھ چاقو لیے ایک ایک بدمعاش بیٹھا تھا کہ جونہی بڑا بدمعاش پہلا فائر کرے ڈیوٹی پر موجود ہر بدمعاش شامیانوں کی رسیاں کاٹ دے۔
چنانچہ اُدھر مولانا مودودیؒ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور ابھی دوچار منٹ تقریر کی ہی تھی کہ پروگرام کے مطابق بڑے بدمعاش نے پستول سے فائر کر کے کارروائی کے آغاز کا سگنل دیا۔ اسٹیج کی طرف فائرنگ ہوئی‘ شامیانوں کی رسیاں کٹ گئیں‘ مگر وائے حسرتا وہ بھگدڑ نہ مچی جو بدمعاشوں کے ہاتھوں مچتی دیکھ کر ’خفیہ والے‘ اُوپر پہنچانے کے لیے اپنے اپنے مچان پر انتہائی بے چین بیٹھے تھے۔ ایس پی اپنے ’کنٹرول روم‘ میں خبر سن کر’آگے‘ سنانے کے لیے بے قرار بیٹھا تھا۔
یہی لمحہ تھا جب مولانا سے برستی گولیوںمیں بیٹھنے کی استدعا کی گئی۔ مولانا اپنے جاںنثاروں کے حصار میںتھے۔ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ظلم کے خلاف آج میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟ ظلم کی آندھی‘ گوجرہ سے آئے پروانے اللہ بخش کی قربانی اور مکتبے میں قرآنِ حکیم کی بے حرمتی کے بعد تھم گئی۔
جلسہ درہم برہم نہ کیا جا سکا‘ بارہ پندرہ ہزار کے مجمع عام کو مشتعل نہ کیا جا سکا‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہر تدبیر کو ناکام کر دیا کہ اہلِ لاہور اس ظلم و درندگی پر جماعت اسلامی کے ہم نوا بن گئے۔ اس حال میں کہ رفیقِ سفر کی میت خون میں لت پت سامنے تھی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ دعا کر رہے تھے اور ہزاروں کا مجمع آمین کہہ رہا تھا۔ یہ منظر پتھردلوں کو بھی موم کر رہا تھا۔ سید محترم نے اپنا مقدمہ عادلِ حقیقی کی عدالت میں درج کرا دیا۔
نواب آف کالاباغ اور اُس کے کارندے اوپر والی سرکار کو وہ خبر نہ سنا سکے جس کے لیے کئی ہفتوں سے تیاری کی گئی تھی‘ البتہ کالک کالاباغ کا مقدر ضرور بنی کہ ہرباشعور نے اس ظلم کی مذمت کی۔ عوام نے‘ خواص نے‘ دانش وروںنے‘ صحافیوں نے‘ وکلا نے‘ قرآن حکیم کے فیصلے کے مطابق کہ: ’’ممکن ہے تمھیں کوئی چیز ناپسند ہو مگر اس میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔اللہ بخش شہیدؒ کے خون نے جماعت اسلامی کو ملک کے کونے کونے سے مزید گرم خون مہیا کیا۔
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بارگاہِ رب العزت میں صدر محمد ایوب خان‘ گورنر امیرمحمد خان‘ ایس پی لاہور اور اس کے غنڈوں کے خلاف جو مقدمہ درج کرایا تھا‘ اس کی کارروائی سید کی زندگی ہی میں شروع ہوگئی اور عادلِ مطلق نے مرحوم اللہ بخش کے خون کا حساب یوں چکایا کہ اس ظلم سے آگاہی رکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔
مذکورہ کارروائی کے ذریعے پولیس کے چہیتے اچھا شوکر والا اور اُس کے چند ساتھی اُسی ایس پی کے حکم سے دن دیہاڑے بیڈن روڈ پر پولیس مقابلے میں‘ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے اور علاقے کے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئے۔ پولیس نے انھیں استعمال کیا تو وہ سمجھے کہ اب ’سیّاں بھیّے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘ مگر سرکار کی اپنی مصلحتیں اور اللہ تعالیٰ کا قانون اپنی جگہ مسلّم ٹھیرے۔ بقول شورش کاشمیری ایس پی سکندر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا کہ بیماری کی شدت کے آخری مرحلے میں اس کے گلے سے نکلنے والی آواز کتّے کے بھونکنے سے مشابہ تھی اور وہ اسی عالمِ بے بسی میں میوہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈمیں خالقِ حقیقی کے سامنے پیش ہوگیا۔ یوں سیّد کی زندگی میں اللہ بخش شہیدؒ کا دوسرا قاتل اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ اپنی منزل کو سدھارا۔
نواب آف کالا باغ میں خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی تھیں۔ اپنے خودساختہ اور بعض دینی اور معاشرتی اصولوں میں اُس کے ہاں کوئی لچک نہ تھی‘ مثلاً وہ نواب ہوتے ہوئے بھی زانی‘ شرابی اور رشوت خور نہ تھا مگر جسے دشمن قرار دیتا اسے برداشت نہ کرتا تھا۔ گھر میں پردے کا سخت پابند تھا۔ باہراور اندر ہر جگہ حاکم رہنا اُسے پسند تھا۔ اسی حاکمیت کا نتیجہ تھا کہ نواب صاحب کا بیٹا مدِّمقابل آگیا۔ بیٹا لمحے بھرکو چوک جاتا تو باپ کے پستول کی گولی اسے چاٹ جاتی مگر اس نے ’جابرباپ‘ کو مہلت ہی نہ دی اور اسٹین گن کا برسٹ مار کر چہرہ اور اوپر کا دھڑ بالکل مسخ کردیا۔ اپنے خون نے اپنا ہی خون بہایا۔
سیّد ہی کی زندگی میں جنرل محمد ایوب خان‘ اقتدار سے اس حال میں الگ ہوئے کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور اُن کے خلاف غلیظ ترین نعرہ بازی ہوئی۔ اُن کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان نے اسمبلی کے اندر ’’ہرشاخ پہ اُلّوبیٹھا ہے‘‘کہا اور آخری وقت اُن کے چہیتے وزرا تک ساتھ چھوڑ گئے‘ اور آخری وقت چارپائی پر فالج کے سبب بے بسی اور بے کسی کی مثال بن گئے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!
o
جس سیّد کو ۱۹۶۳ء میں ختم کرانے کی سازش کی گئی وہ ۱۹۷۹ء تک بقیدِ حیات رہے اور تمام سازشی یکے بعد دیگرے اُن کی زندگی ہی میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ سیّد کا فرمان درست تھا کہ زندگی اور موت کے فیصلے بندے نہیں کرتے‘ کہیں اور ہوتے ہیں۔ خالق کا طے شدہ لمحہ نہ آگے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے۔ مگر اس اٹل حقیقت کو سمجھنے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ شاید موت سے بے خوفی تھی کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ انتہائی ٹھنڈے دل و دماغ والے راہنما تھے اور یہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ پا پر چلنے کے عزم کے سبب ممکن تھا۔ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو جذباتی ہوکر دوسرے کے میدان میں پٹنے کے بجاے دوسروں کو اپنے من پسند میدان میں لاکر شکست دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی ملاقات سے آخری ملاقات تک راقم نے صرف ایک بارسیّد محترم کے جذبات کو متلاطم دیکھا۔
بھٹو صاحب کے دور حکومت میں محترم میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کو ’اوپر والوں‘ کے اشارے کے سبب کوٹ لکھپت جیل میں پریشان کیا گیا تو مولانا میاں صاحب سے محبت کے سبب بے چین ہوگئے۔ چنانچہ ۵-اے‘ ذیلدار پارک میں ایک مذمتی جلسہ ہوا۔ راقم الحروف اس جلسے میں شامل تھا۔
اُس روز مولانا کے ’کَھولتے ہوئے جذبات کا بہائو‘ پہلی بار دیکھا‘ مگر یہ کھولتا لاوا بھی کناروں سے باہر نہ نکل رہا تھا۔ مولانا فرما رہے تھے: ’’ہر فرعون نے اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر‘ خطرے والا ہر دروازہ اپنے ظلم کے ذریعے بند کرنے کی کوشش کی۔ زمانے نے بڑے بڑے فرعون دیکھے اور ان فرعونوں نے اپنے فرار یا تحفظ کے لیے جو دروازہ محفوظ جانا‘ اُن پر وبال اُسی دروازے سے داخل ہوا‘ وہ بچ نہ سکے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کا راستہ روکنے والوں نے کیا کیا جتن نہ کیے‘ کبھی سزاے موت سے ڈرایا تو کبھی جلسے میں گولیاں چلاکر کارکن شہید کر کے راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ اب جماعت اسلامی کے انتہائی محترم امیر کو جیل میں پریشان کرنے کی گھٹیا حرکت کی گئی ہے جو ہرلحاظ سے قابلِ مذمت ہے‘‘۔ مولانا محترم نے اپنے بھرپور جذبات کے ساتھ اس صورتِ حال کی مذمت کی۔
اس جلسے میں خفیہ والوں کو راقم نے باتیں کرتے خود سنا جو اپنی پریشانی کا ایک دوسرے سے اظہار کر رہے تھے‘ کہ مولانا نے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ حکمرانوں کو خوب سنائیں مگر کوئی جملہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی انتقامی کارروائی کے لیے جواز بنائیں۔ مولانا کی تقریر و تحریر کی یہ خوبی تھی کہ اخلاق و کردار کی ہروسعت اس میں سموئی گئی ہوتی تھی۔ راقم کے سرمایۂ حیات میں ان تقاریر کے ٹیپ بھی محفوظ ہیں۔
عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
یوں تو سید مودودی ؒ کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت گونا گوں اوصاف جمع کر دیے تھے‘ لیکن ان پر دین کی محبت ہر چیز سے زیادہ غالب تھی‘ اور عمر بھر مختلف انداز سے اُنھوں نے اس کی خدمت کی۔ سید مودودیؒ اپنے عہد میں اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف تھے۔ اُنھوں نے مختلف موضوعات پر متعدد ضخیم کتابیں لکھیں‘ اور ایک زمانے سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ سید صاحب نے مستقل تصانیف کے علاوہ‘ مختلف موضوعات پرسیکڑوں محققانہ علمی‘ ادبی‘ دینی‘ تاریخی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو ترجمان القرآن کے ہزاروں اوراق پر پھیلے ہوئے ہیں۔
سید مودودی ؒنے ہوش سنبھالا تو ان کی تعلیم کا سلسلہ ان کے والد گرامی نے خود اپنی نگرانی میں شروع کیا اور انھیں کسی مکتب یا مدرسے میں بھیجنا گوارا نہ کیا۔ گھر میں اتالیق کا انتظام کیا‘ جو سیدصاحب کو عربی ادب اور علوم دینیہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ۱۹۱۴ء میں جب سید صاحب کی عمر ۱۱ سال کی تھی‘ انھوں نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا۔
۱۹۱۸ء میں آپ نے صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف اوقات میں مدینہ‘ بجنور‘ تاج‘ جبل پور اور مسلم دہلی سے وابستگی رکھنے کے بعد ۱۹۲۳ء میں بھوپال تشریف لے گئے۔ بھوپال میں آپ کا قیام تقریباً ڈیڑھ سال تک رہا۔ اس بارے میں سیدصاحب نے خود لکھا ہے: ’’اس ڈیڑھ سال کو میں نے بالکلیہ پڑھنے اور سوچنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ علوم قدیمہ و جدیدہ کے جتنے ذخائر تک میری رسائی ممکن تھی‘ میں نے ان سے استفادہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ غور و فکر اور مطالعے کو میں نے اتنی شدت اور تسلسل سے جاری رکھا کہ آخرکار میرے اعصاب پر تکان کے آثار ہویدا ہونے شروع ہو گئے‘‘۔
۱۹۲۴ء میں سید صاحب بھوپال سے دہلی واپس آ گئے تو انھیں مولانا محمد علی جوہرؒ کی طرف سے ان کے اخبار ہمدرد اور جمعیت العلما کی طرف سے جمعیت کے ترجمان الجمعیۃ کی ادارت کی پیش کش کی گئی۔ سید صاحب نے الجمعیۃ کو ترجیح دی اور آپ تقریباً چار سال تک‘ یعنی ۱۹۲۸ء تک اس اخبار کے ایڈیٹر رہے۔
اس دور کا ذکر کرتے ہوئے سید مودودی نے خود بیان کیا ہے: یہ غوغا آرائی ایک مدت تک بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ان بہتان تراشیوں سے تنگ آکر جامع مسجد دہلی میں ایک تقریر کی‘ اور آبدیدہ ہو کر کہا کہ کاش! کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرتا۔ تقریر سننے والوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں۔
ہندوئوں کی غوغا آرائی اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی اس اپیل نے سید مودودی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کی مدافعت کے لیے قلم سنبھالیں۔ اگرچہ اخبار نویسی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی علمی یا تحقیقی کام کیا جائے۔ لیکن سید صاحب نے ۱۹۲۷ء کے شروع میں الجمعیۃ کے کالموں میں اس مبسوط بحث کا آغاز کر دیا۔ جب یہ مقالے اخبار الجمعیۃ میں شائع ہو رہے تھے اس وقت سید صاحب کی عمر ۲۴ سال کی تھی۔ پھریہ مقالے کتابی صورت میں الجہاد فی الاسلام کے نام سے شائع ہو کر منظرعام پر آئے تو ان کو پڑھ کر علامہ محمد اقبال ؒنے فرمایا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔ اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔
یہ رسالہ آج جس مرحلے میں قدم رکھ رہا ہے وہ بہت کٹھن اور دشوار ہے۔ کٹھن اور دشوار اس معنی میں نہیں کہ اس کے پیش نظر اب پہلے سے زیادہ مشکل کام ہے‘ بلکہ اس معنی میں بھی کہ جن ہاتھوں میں وہ منتقل ہو رہا ہے وہ پہلے کام کرنے والے ہاتھوں سے زیادہ کمزور ہیں۔ ایک طرف یہ ضعیف و ناتواں ہے اور دوسری طرف پیش نظر کام یہ ہے کہ اسلام کو اس اصلی روشنی میں پیش کیا جائے جس میں قرآن کریم نے اس کو پیش کیا ہے۔ کہنے کو یہ کام بہت آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے بُعد‘ علم صحیح کی کمی‘ سلامت قلب و استعداد نظر کے فقدان‘ یونانی تفلسف‘ عجمی موشگافی‘ مغربی تشکیک اور سب سے بڑھ کر خود پرستی اور ہواے نفس کے اتباع نے ہمارے اور معارف قرآنی کے درمیان ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ جس قرآن کو آسان کہا گیا تھا‘ وہ اب سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے۔
تفہیم القرآن وہ تفسیر قرآن ہے جس نے ایک کٹھن اور فیصلہ کن دور میں قرآن کے زیرسایہ ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے‘ اور یہ انقلابی دور ابھی جاری ہے۔ بلاشبہہ جو خدمت تفہیم القرآن نے انجام دی ہے اور دے رہی ہے‘ وہ بڑی اہم اور تاریخی ہے۔ خالص علمی نقطۂ نظر سے تفہیم القرآن کا مقام بہت بلند ہے۔ تفہیم القرآن میں جس نقطۂ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب صحیفہ ہدایت ہے۔ کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کریم ہر فرد میں اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعہ و نظر کا ایک خاص انداز پیدا کرتا ہے۔
تفہیم القرآن کے اساسی نقطۂ نظر کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید محض ایک الہامی کتاب یا ایک تاریخی کتاب یا ایک عظیم کتاب نہیں۔ اس کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت ہے جو ایک دعوت کی طرف بلانے والی اور ایک جدوجہد کو برپا کرنے والی ہے۔ یہ ایک دعوت اور ایک تحریک ہے۔ قرآن کریم ایک پیغام کا علم بردار اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملت کی تعمیر کرتا ہے اور پھر اسے ایک مشن سونپ دیتا ہے۔ اس دعوت اور اس جدوجہد کے لیے مقصد‘ اصول‘ اقدار اور ضابطے فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے کام کرنے والے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ متعین کرتا ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے جن صفات‘ محرکات‘ جذبات اور احساسات کی ضرورت ہے‘ وہ اسے پیدا کرتا ہے۔ یہ کتاب فرد کی زندگی میں بھی اور معاشرے اور آخرکار پوری دنیا میں بھی ایک کش مکش کو جنم دیتی ہے‘ حق و باطل کے درمیان کش مکش تاکہ زندگی کا نظام حق کے مطابق چل سکے اور باطل کو بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑیں۔ یہ کتاب کائنات‘ انسان اور زندگی کا ایک خاص تصور پیش کرتی ہے۔ جو لوگ اس تصور حیات کو قبول کر لیں‘ یہ ان کی زندگی کی تعمیر ایک خاص نقشے کے مطابق کرتی ہے‘ اور جو اسے قبول نہ کریں ان سے مسلسل جہد و مقابلہ اور دعوت تبلیغ کا معاملہ کرتی ہے۔
قرآن مجید کے ایک دعوت کی کتاب ہونے کا تصور وہ مثالی کلید ہے جس سے فہم قرآن کی راہ کی تمام مشکلات دُور ہو جاتی ہیں۔ پھر قرآن کریم کا اسلوب‘ اس کا طریق استدلال‘ اس کا نظم‘ اس کا ادب‘ اس کے موضوعات کا تنوع‘ اس کے مضامین کی تکرار‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کے قانونی احکام‘ اس کے تاریخی مواعظ‘ غرض اس کی ہر بات سمجھ میں آ جاتی ہے‘ اور یہ کار زار حیات میں مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص اس تصور کے ساتھ قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی اور دوسرے انسانوں کی زندگی بدلنے کی جدوجہد کرتا ہے تو پھر قرآن کی آیات اس کے لیے محض کتاب میں لکھی ہوئی آیات نہیں رہیں گی‘ بلکہ آیاتِ زندگی بن جائیں گی‘ اور اسے محسوس ہو گا کہ قرآن کریم زندگی کے ہر قدم پر اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔ بقول علامہ اقبال: ’’قرآن کو اس طرح پڑھو گویا یہ تمھارے قلب پر نازل ہو رہا ہے‘‘۔
تفہیم القرآن نے نظم قرآن کا ایک منفرد تصور پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید صاحب نے ہر سورہ کے تاریخی پس منظر اور اس کے مرکزی مضمون اور موضوعات کا تعین بھی کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں فقہی احکام کی تشریح اور فقہی مکاتب فکر کا نقطۂ نظر اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیمات اور قرآن کے بتائے ہوے نظامِ اخلاق و تمدن کے مجموعی خاکے کی روشنی میں احکام کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلام اور دوسرے ادیان‘ یعنی یہودیت و عیسائیت کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور ان اعتراضات کا بھی کافی و شافی جواب دیا گیا ہے‘ جو مسیحی اہل قلم اور مغربی مستشرقین نے قرآن کریم پر کیے ہیں۔
سید مودودی نے جب تفہیم القرآن کا آغاز کیا تو جلد اول کے دیباچے میں لکھا :میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جس غرض کے لیے میں نے یہ محنت کی ہے وہ پوری ہو‘ اوریہ کتاب قرآن مجید کے فہم میں بندگانِ خدا کے لیے واقعی کچھ مددگار ثابت ہو سکے۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ العلی العظیم!
۱۹۷۲ئ‘ یعنی ۳۰ سال میں تفہیم القرآن مکمل ہوئی ہے۔ سید مودودی فرماتے ہیں: بندہ اپنے رب کے حضور عاجزی کے ساتھ چند اوراق لیے کھڑا ہے اور ایک زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ محنت دین حق کے لیے تھی۔ یہ تفسیر‘ تفہیمِ حق کے لیے ہے۔ اور یہ زندگی‘ شہادت حق کے سوا کسی کام کے لیے وقف نہیں رہی اور یہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کو اس کی توفیق دیتا ہے جس طرح کہ اس نے اپنے اس بندے کو توفیق دی ہے۔
بارِ الٰہا‘ تیری کتاب کی خدمت کرنے کے لیے میں نے جو بھی کوشش کی‘ وہ صرف تیری خوشنودی کے لیے کی اور اس لیے کی کہ وہ تیرے بندوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ بنے۔ اس کام میں جو کچھ صحیح ہے وہ تیری رہبری اور رہنمائی کا نتیجہ ہے‘ اور جو کچھ غلط ہے وہ میری غلطی اور تاویل کا نتیجہ ہے۔ مجھے اس کی توفیق عطا فرما کہ اس میں جو غلطی ہو اس کی اصلاح کر سکوں‘ اور اپنے بندوں کو بھی توفیق عطا فرما کہ جہاں جہاں بھی مجھ سے غلطی ہوئی وہ مجھے دلیل سے سمجھائیں‘ میں ان شاء اللہ اس کی اصلاح کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو اپنے بندوں کی ہدایت کا ذریعہ اور میری مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
یا اللہ! ہم تیرے نام کی عظمت و سربلندی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تیرے علم میں ہے کہ کون مفسد ہے اور کون مصلح‘ اے اللہ! جو مصلح ہیں‘ تو ان کی مدد فرما اور جو مفسد ہیں ان کے شر سے مصلحین کو بچا۔
۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر کے مولانا مودودی کو ان کے قریبی رفقا سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان سے دو آئینی مطالبات منوانے کے لیے گول میز کانفرنس میں شرکت کی‘ اور اسی سال مراکش میں اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC)کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کی۔ یکم نومبر ۱۹۷۲ء کو ۲۲ سال تک تحریک اسلامی کی رہنمائی کرنے کے بعد مسلسل علالت اور کمزوری صحت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہوگئے‘ البتہ علمی و تحقیقی کاموں میں تادمِ آخر مصروف رہے۔
۲۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ان کی دینی و علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جسے آپ کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی نے ریاض (سعودی عرب) جا کر وصول کیا۔ سید صاحب اس ایوارڈ سے حاصل کردہ تمام رقم ادارہ معارف اسلامی کو دے دی‘ تاکہ علمی کاموں میں وسعت کے کام آئے۔
۲۶ ستمبر کو آپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور اچھرہ لاہور میں آپ کی قیام گاہ کے سامنے لان میں سپرد خاک کیا گیا۔
اسی مطالعہ و تحقیق کے نتیجے میں‘ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک براہ راست قرآن سے اسے نہ سمجھا جائے۔ میں نے قرآن مجید کی تفسیر سیرت پاک سے اس کا ربط جوڑتے اور جگہ جگہ آیتوں اور سورتوں کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ نزول قرآن اور سیرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات و واقعات کسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ اسی طرح میں نے جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات اور احکام کی تشریح میں معتبر احادیث نقل کی ہیں جن سے احادیث اور قرآن کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اس غلطی فہمی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے‘ بلکہ پڑھنے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے بکثرت ارشادات و احکام کو آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
۱- اسلام ایک انسان میں کس قدر عظیم الشان انقلاب برپا کرتاہے‘اور وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے کام کرنے کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں دور کر دیتا ہے‘ اس کی ایک مثال اس زمانے میں ہمارے سامنے مولانا مودودی ؒہیں۔
۲- اس میں رائی برابر مبالغہ نہیں ہے کہ سید مودودی مرحوم نے دین اسلام کی خاطر بہت سی مصیبتیں مول لے کر اپنے راحت و آرام کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس شخص نے بیمار رہ کر وہ کام کیا جو بہت سے لوگ تندرست اور صحت مند رہ کر نہیں کر سکتے۔
۳- جو شخص سید مرحوم کی تحریروں کو پڑھے گا اسے معلوم ہو گا کہ ان کے ایمان میں کس قدر قوت تھی اور ان کا ادب کس قدر بلند اور شستہ تھا۔ ان کی تحریر ایک فنی انداز میں تہذیب و ادب کی تحریر تھی‘ جس سے ان کے گہرے مطالعے‘ باریک بینی‘ دینی تڑپ‘ رقت قلب اور زندگی کے وجدان کا اندازہ ہوتا ہے۔
۴- سید مودودیؒ قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے روشن فکر‘ درد مند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ ذہن و ذکاوت کے ساتھ قوت حافظہ بھی قوی تھا۔
۵- سید مودودیؒ ان معدودے چند خوش قسمت افراد میں سے تھے‘ جنھوں نے زبان کو صحیح طریقے پر استعمال کیا۔ اپنے فطری ذوق اور وہبی صلاحیتوں سے ان کے فن کو جلابخشی۔ قدیم ماخذ کے گہرے مطالعے اور جدید لٹریچر سے براہ راست استفادہ کیا ۔ایک مناسب اور معقول طرز میں ادبیت کو ڈھال دیا۔
۶- سید مودودیؒ اوقات کے بڑے منضبط تھے۔ وہ اصولی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ نظم و ضبط پر اتنا زور دیتے تھے کہ جیسے زندگی کو مشن بنا دینا چاہتے تھے۔ اگر سید صاحب اوقات میں ضبط و نظم کا اتنا اہتمام نہ کرتے تو وہ علم و ادب کی خدمت نہ کر سکتے تھے۔ بے قاعدگی اور بد نظمی سے ان کو سخت نفرت تھی۔
۷- سید مودودیؒ ٹھوس مطالعے کے عادی تھے۔ عربی ادب و انشائ‘ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ اشتراکیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘ ان کے خاص موضوع تھے۔ اس لیے ان فنون میں ان کا مطالعہ بہت ٹھوس اور تنقیدی تھا۔
۸- سید مودودیؒ عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ علوم اسلامیہ میں تبحرعلمی کے علاوہ سیاست‘ فلسفہ‘ سائنس اور جغرافیہ وغیرہ سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔
تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان آ کر حیدر آباد (سندھ)میں قیام کیا‘ تو میں اپنے ہم عمر لڑکوں سے تین باتوں میں مختلف تھا: پہلی چیز ہمہ وقت سر پر رہنے والی سیاہ رام پوری ٹوپی‘ دوسری پانچ وقت مسجد کی حاضری‘ اور تیسری ناشائستہ ہنسی مذاق سے خود کو نشانۂ مذاق بنوا دینے سے شدید اجتناب۔ غالباً انھی علامات کی بنا پر بڑے بھائی کے ایک ہم عمر دوست نے مجھے ’’مولانا مودودی‘‘ کا خطاب دیا ہوا تھا۔ میں تو کیا وہ خود بھی مولانا کی شخصیت اور جماعت اسلامی سے کہیں ایک عرصے بعد متعارف ہوئے‘ لیکن یہ واقعہ اس بات کی بہرحال دلیل ہے کہ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا نام ایک دین دار شخصیت کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔
مولانا مرحوم و مغفور سے پہلا باقاعدہ تعارف اسلامی جمعیت طلبہ کی رفاقت کے نتیجے میں‘ کچھ جمعیت کے سابقون الاولون اور کچھ ان کتابچوں سے ہوا‘ جو جمعیت کی رفاقت کے نصاب میں پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن مولانا کی عظمت کا نقش دل پر اس وقت مرتسم ہوا‘ جب مولانا کو قادیانی مسئلے کے حوالے سے پھانسی کی سزا سنائی گئی اور مولانا نے معافی مانگ کر رہا ہو جانے سے صاف انکار کردیا۔ اس واقعے پر احتجاجی جلوس میں شرکت بھی کی۔ ان امور نے تعلق کو عقیدت میں تبدیل کر دیا اور دل میں مولانا سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی۔
پھر اپنے عربی کے استاد نسیم اللہ صاحب اور مولانا وصی مظہر ندوی صاحب جیسے بزرگوں سے مولانا مرحوم کی ذہانت و بصیرت‘ اخلاص اور للٰہیت کے واقعات سن سن کر اس آتشِ شوق میں اور اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ جمعیت میں شمولیت کے ۱۰‘ ۱۱ سال بعد اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا تو وہاں ایک سسرالی عزیز کے ہاں قیام کے دوران اخبار میں پڑھا کہ مولانا مودودیؒ فلاں مسجد میں درس قرآن دیں گے۔ اس موقعے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر پتا پوچھتا ہوا مذکورہ مسجد جاپہنچا۔ مولانا‘ مسجد کے برآمدے میں تشریف فرما تھے‘ برآمدے اور صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکے تھے۔ دیر سے آنے والوں کے ساتھ دوسری منزل کی گیلری میں جگہ ملی‘ جہاں لائوڈ سپیکر کے ذریعے آواز تو صاف آ رہی تھی‘ لیکن مولانا پر نظر کھڑے ہو نے پر ہی پڑتی تھی۔ مستقل کھڑا رہنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھ کر مولانا کو دیکھتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ موضوعِ تقریر ’’دعا کی اہمیت‘‘ تھا۔ مولانا کا ٹھیرا ہوا پروقار لہجہ اور تکلف سے پاک اندازِ بیان‘ دل میں گھرکر رہا تھا۔ جتنی بار اٹھ کر مولانا کو دیکھتا ہربار فرطِ مسرت سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ درس کے اختتام پر ہجوم کے سبب ہاتھ ملانے کی خواہش تشنۂ تکمیل رہی‘ لیکن مولانا کو دیکھنے اور سننے کا نشہ تادیر قائم رہا۔
اس واقعے کے کئی سال بعد ۱۹۷۰ء کے قومی و صوبائی انتخابات کا اعلان ہوا۔ مجھے ایک سال قبل جماعت کے رفقا کیڈٹ کالج پٹارو ]سندھ[ سے تعمیرنو اسکول‘ سکھر لے جاچکے تھے۔ کہا یہ گیا تھا کہ تعمیرنو کے ہیڈ ماسٹر حافظ وحید اﷲ‘ تنظیم اساتذہ کی تشکیل کے سلسلے میں سکھر سے لاہور منتقل ہو گئے ہیں اور مولانا کی خواہش ہے کہ میں ان کی جگہ تعمیرنو اسکول سنبھالوں۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے لیے نامزدگیاں شروع ہوئیں تو حیدر آباد جماعت نے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے میرا نام طے کیا۔
انتخابی مہم کے دوران میرے ایک شاگرد اپنے پیپلز پارٹی سے منسلک دوستوں کی ناراضی کی قیمت پر میرا سیاسی کام کر رہے تھے‘ اور اس انداز سے کر رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں کو کام کا ہدف پورا کرنے پر تفریح کے لیے لے جاتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی نکلے‘ آپ مجھے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کرانے لاہور لے کر جائیں گے۔ ان دنوں مولانا مرحوم و مغفور کی صحت اس حد تک خراب تھی کہ معالجین نے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا‘ اور مولانا نے یہ پابندی اپنی شدید خواہش کے علی الرغم قبول کر رکھی تھی۔ ان نوجوان کا کہنا تھا: ’’مولانا سفر کرنے سے قاصر ہیں‘ اور میں ان سے بالمشافہہ ملنا چاہتا ہوں۔ اس لیے وعدہ کریں کہ انتخابی مہم کے بعد لاہور چلیں گے اور مجھے مولانا سے ملوائیں گے‘‘۔
اس وعدے کی تکمیل نے مولانا مرحوم و مغفور سے بالمشافہہ ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ لاہور پہنچ کر میں نے چودھری رحمت الٰہی صاحب ] سیکرٹیری جنرل جماعت اسلامی پاکستان[ سے اپنا اور نوجوان کا تعارف کرایا‘ اور ان کی خواہش کی اس شدت کا ذکر کیا کہ وہ مجھے اپنے خرچ پر لاہور لائے ہیں اور اب ہوٹل میں مقیم ہیں۔ چودھری صاحب نے ذرا تکلف و جرح کے بعد ہماری درخواست منظور کر لی۔ پھر دونوں سراپا اشتیاق مولانا کے کمرۂ مطالعہ و ملاقات میں داخل ہوئے۔ مولانا نے کمال شفقت سے سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا۔ اپنی آئیڈیل شخصیت سے اس قربت کا احساس اور مولانا کے ہاتھ کے لمس نے کچھ دیر کے لیے تو ہم دونوں کو مبہوت رکھا۔ نوجوان تو آخر تک شخصیت کے محبوبانہ طلسم سے آزاد نہ ہو سکے۔ میں نے مختصراً اپنا تعارف کرایا تو مولانا نے کیڈٹ کالج‘ پٹارو سے سکھر اور سکھر سے نوکری چھڑوا کر حیدر آباد بلوانے پر معترضانہ انداز اور تشویش بھرے لہجے میں صرف: ’’اچھا!‘‘ کہا اور پھر دریافت فرمایا: ’’اب آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’فی الحال توبے کار ہوں‘‘۔ مولانا نے زبان سے کچھ نہیں کہا‘ لیکن ان کے چہرے پر جو تشویش کے آثار نظر آئے‘ انھیں مجھ سے زیادہ میرے ساتھی نے نوٹ کیا۔
پھر میں نے اس نوجوان کا تعارف کرایا: ’’یوں تو یہ ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بزرگوں سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن ان کے بزرگ کھائو پیر نہیں بلکہ مریدوں کی ہر طرح خبر گیری کرتے ہیں اور یہ خود انگریزی میں ایم اے کر رہے ہیں‘‘۔ مولانا نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا: ’’جماعت اسلامی کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے‘ جو کہیں کہ ہماری ذہانت دین کی راہ میں کھپا دیجیے‘‘۔
میں چاہتا تھا کہ اپنے تعارف کے بعد‘ میرے ساتھ جو شاگرد شدید چاہت سے مولانا سے ملنے آئے ہیں‘ وہ خود مولانا سے ہم کلام ہوں۔ لیکن ان پر نظر پڑی تو انھیں اسی طرح مبہوت پایا۔ اب میں تو محض ان کی خواہش پر آیا تھا‘ خالی الذہن اور خود وہ بھی خاموش بیٹھے تھے۔ مولانا گویا ہماری جانب سے کسی سوال کے منتظر تھے۔
چند ثانیے کی خاموشی کی بعد میرے ذہن میں ایک خیال آیا‘ جس کے اظہار کے ذریعے یہ سلسلۂ سکوت توڑا۔ میں نے عرض کیا:میرے شیعہ دوست ہیں جو پروفیسر کرار حسین صاحب اور پروفیسر حسن عسکری کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ مذکورہ دو اساتذہ کی خدمت میں حاضر تھے‘ اور وہ دونوں اسلام کے حوالے سے کسی نظری بحث میں مصروف تھے۔ میں نے نہایت ادب سے یہ سوال کیا کہ جناب یہ نظری بحث اپنی جگہ‘ لیکن یہ نوجوان نسل جو اسلام سے دور ہوتی جا رہی ہے اس بارے میں بھی آپ حضرات نے کچھ سوچا؟ اس پر پروفیسر حسن عسکری نے کہا: ’’نادر صاحب‘ جب آپ شاگرد تھے تو کوئی بھی شخص بال بڑھائے مذہب پر تنقید کرنے کھڑا ہو جاتا اور کمیونزم کے بارے میں دلائل دے کر مرعوب و متاثر کر سکتا تھا‘ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ آج کے طالب علم خود کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ نوجوان بھرپور استدلال سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘‘۔ عسکری صاحب نے مزید کہا: ’’مولانا مودودی نے اگر اپنی زندگی میں اور کوئی کام بھی نہ کیا ہوتا ‘ صرف اسلامی جمعیت طلبہ ہی کی تشکیل کی ہوتی تو ان کی بخشش کے لیے یہی ایک چیز کافی تھی‘‘۔
میں نے یہ واقعہ اس تمہید کے ساتھ گوش گزار کیا : ’’میں منہ پر تعریف نہیں کر رہا‘ بلکہ تحدیث ِ نعمت کے طور پر یہ واقعہ سنا رہا ہوں‘‘۔ میں نے دیکھا ‘مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا چہرہ کسی قسم کے جذبۂ فخر سے بیگانہ تھا۔ پھر نہایت سادہ لہجے میں مولانانے یہ فرمایا: ’’ہاں‘ یہ بات بعض مواقع پر اے کے بروہی صاحب اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے بھی کہی ہے‘‘۔ پھر ذرا سے توقف کے بعد فرمایا: ’’تقسیم ملک کے بعد بعض طالب علم میرے پاس آئے اور کہا ہمیں جماعت اسلامی میں شامل کر لیں‘تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی اور میں نے انھیں مشورہ دیا کہ دعوت دین کا جو کام جماعت اسلامی عوام میں کر رہی ہے وہی کام وہ آزادانہ طور پر طالب علموں کے دائرے میں رہ کر کریں‘‘۔پھر مربیانہ انداز میں فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ بندے سے کوئی خدمت لے تو بندے کو اس پر شکر کرنا چاہیے کہ یہ خدمت اس سے لی گئی۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں نے یہ کام کیا ہے‘‘۔
اب مولانا کا قیمتی وقت لینے کا کیا جواز تھا؟ لیکن اپنے شاگرد کے شوقِ ملاقات کی تسکین ہی کی خاطر ایک عام سا سوال کر ڈالا: ’’مولانا! یہ ہم جماعت کے لوگوں نے ایک خاص وضع کی چھوٹی داڑھی رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اور جسے ہمارا ٹریڈ مارک سمجھ لیا گیا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
مولانا نے بزرگانہ بے تکلفی سے جواب دیا: ’’دیکھیے‘ داڑھی کے بارے میں یہ بات نظر میں رکھیے کہ داڑھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مجبوری کی اور دوسری اختیار کی۔ مجبوری کی داڑھی وہ ہے جو نہ رکھی جائے تو مسجد کی موذنی نہ ملے‘ مدرسے کا وظیفہ نہ ملے‘ یہ داڑھی تو آپ جتنی لمبی چاہیں رکھوا لیں۔ لیکن جہاں تک اختیار کی داڑھی کا تعلق ہے ‘جس کے لیے کوئی مجبور نہیں کر رہا اور محض دین داری کی وجہ سے رکھی جارہی ہے‘ وہ ایک قسم کا جہاد ہے۔ ایسی داڑھی رکھنے والوں کو کالجوں اوریونی ورسٹیوں اور دفتروں میں فقرے بازی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میرے علم میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں کہ کسی نوجوان نے داڑھی رکھ لی تو اس کی منگنی ٹوٹ گئی۔ اس لیے میرے نزدیک تو ان لوگوں کی یہ چھوٹی داڑھی بھی جہاد سے کم نہیں ہے۔ اب ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ نہیں اتنی رکھو‘ یہ نامناسب ہے‘‘۔
میں چونکہ داڑھی کی شرعی حیثیت کے بارے میں مولانا کا موقف پڑھ چکا تھا اور یہ مقولہ بھی سن چکا تھا کہ: ’’اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں‘‘، نیز یہ کہ ’’داڑھی پہلے اندر جڑ پکڑ کر باہر آئے تو داڑھی معتبر ہوتی ہے ورنہ سکھوں کی داڑھی تو مسلمانوں سے کہیں بڑی ہوتی ہے‘‘۔
یہ بات بھی پوری ہوئی‘ لیکن لذت کلام ہی کے لیے سلسلۂ کلام جاری رکھنا ضروری تھا۔ اس لیے ایک اور سوال پیش کر دیا: ’’مولانا‘ آپ نے صحیح فرمایا۔ میں خود اس قسم کے طنز کاشکار رہا ہوں۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حلقۂ احباب کے حلق سے داڑھی اتر جاتی ہے بلکہ میرے بعض احباب نے تو یہ بھی کہا کہ یار! اب اسے کٹوانا مت۔ جب طنز و تشنیع کا مرحلہ گزر جائے تو پھر داڑھی بڑھانے میں کیا قباحت ہے؟‘‘ (میرے ذہن میں خود مولانا کا طرز عمل تھا)۔
مولانا نے شگفتگی سے فرمایا: ’’ایک یہ بات بھی ہے کہ جہاں یہ لمبی داڑھی ناکام رہتی ہے‘ وہاں یہ چھوٹی کام نکال لے جاتی ہے‘‘۔ اس وقت تو یہ جواب سن کر ہنس کر رہ گیا لیکن بعد میں اس بلیغ جملے پر غور کیا تو اس کی صداقت واضح ہوتی گئی۔
میں نے اپنے ساتھی کو کنکھیوں سے دیکھا تو وہ اسی طرح نظریں نیچے کیے مؤدب بیٹھے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ ان کی تسکینِ خاطر کے لیے اتنا وقت لے لینا ہی کافی‘ بلکہ بہت زیادہ تھا۔ اب ہمیں مولانا کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں۔ چنانچہ مولانا سے اجازت چاہی‘ مولانا نے ازراہ شفقت دوبارہ مصافحہ فرمایا‘ اور ہم دونوں اس قیمتی لمحۂ حیات کے نشے میں سرشار باہر آگئے۔
میرا خیال تھا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہو جانے پر شاگرد صاحب خوش اور میرے ممنون ہوں گے‘ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ دروازے سے باہر آتے ہی بولے: ’’سر‘ آپ نے اپنی بیکاری کا تذکرہ مولانا سے کیوں کیا؟ آپ نے مولانا کو پریشان کر دیا‘‘ --- ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ بو لے: ’’آپ کو اپنی بے کاری کا تذکرہ مولانا سے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ نے دیکھا تھا‘ مولانا آپ کی بات سن کر پریشان ہو گئے تھے۔ سر‘ اچھا نہیں کیا آپ نے۔ مولانا کو بڑے بڑے مسائل سوچنے پڑتے ہیں۔ آپ نے ان کے ذہن پر ایک اور بوجھ ڈال دیا‘‘۔ میں نے کہا: ’’چلیے‘ ابھی تو ہم لاہور میں ہیں نا۔ کل عصر کی نشست میں‘ میں اطمینان دلادوں گا کہ حیدر آباد میں غزالی کالج میں جگہ نکلنے والی ہے‘ وہاں مصروف ہو جائوں گا‘‘۔
دوسرے روز اسی مقصد سے عصری نشست میں شریک ہوئے۔ محفل کا واحد موضوع ]دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں[ جماعت کے امیدواروں کی ناکامی تھا اور اس ضمن میں جمعیت علماے پاکستان کے معاندانہ پروپیگنڈے کا بطورخاص ذکر تھا۔ ایک صاحب نے کہا: ’’مولانا! یہ علماے پاکستان والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی ۲۵‘ ۳۰ سال سے کام رہی ہے۔ ہم ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ہیں‘ لیکن ہم نے جماعت اسلامی کو ایسے شکست دی ہے جیسے کوئی بچہ کسی پہلوان کو پچھاڑ دے‘‘۔
مولانا نے فرمایا: ’’یہ نادان لوگ ہمیں اپنا حریف سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ ہم ان کی فصیل تھے۔ دین کے خلاف اب جو طوفان آنے والا ہے (اشارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی طرف تھا) اُسے یہ نہیں روک سکیں گے۔ ہم شاید روک لیتے‘‘۔ پھر ذرا توقف کے بعد فرمایا: ’’سیاسی جماعتوں کا کام عوام کو سیاسی طور پر ایجوکیٹ educate]‘یعنی رہنمائی[کرنا ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے عوام کو ڈس ایجوکیٹ diseducate] ‘یعنی گمراہ[کیا ہے۔ کسی نے روٹی کے نام پرایکسپلایٹ ] exploit - استحصال[کیا ہے ‘کسی نے روضے کے نام پر‘‘۔
ایک صاحب نے کہا: ’’جی ہاں مولانا‘ کہا یہ جاتا تھا کہ دیکھ جنت کی چابی کو اور رسولؐ اللہ کے روضے کو (مراد تھی وہ جھنڈا جس پر گنبد خضرا بنا ہوا تھا) ووٹ دینا ہے‘ باوضو آنا ورنہ ووٹ قبول نہیں ہو گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے گرہ لگائی: ’’جی مولانا‘ یہ کہتے تھے کہ جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ ملک میں سوشلزم آ گیا تو روسی ترکستان کی طرح مساجد میں تالے پڑ جائیں گے۔ پڑ جائیں تالے‘ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے صدقے میں پوری زمین ہمارے لیے مسجد بنا دی گئی ہے‘ ہم جہاں چاہیں گے سجدہ کر لیں گے۔ لیکن یہ وہابی ہمارے بزرگوں کے مقبرے ڈھادیں گے تو وہ ہم کہاں سے لائیں گے‘‘۔ ایک اور صاحب نے لَے میں لَے ملائی: ’’مولانا‘ شبرات کا موقع تھا‘ ان کے مقررین کہتے تھے: لوگو‘ اس سال اپنے بزرگوں کی روحوں کو ایصال ثواب کر دو۔ اگر اگلے سال یہ وہابی آ گئے تو تمھارے بزرگ قبروں میں ایصال ثواب کو ترسیں گے‘‘۔
’’جی ہاں!‘‘ مولانا نے تینوں حضرات کے بیان پر مسکرا کر پنجابی کا صرف ایک فقرہ فرمایا: ’’ہور‘ چوپو‘‘۔ اب جن لوگوں نے سکھوں کا وہ لطیفہ سنا ہوا تھا جو اس جملے پر ختم ہوتا تھا‘ وہ اس فقرے سے ایسے محظوظ ہوئے کہ ذرا دیر کے لیے تشویش و اضطراب کی فضا خوشگوار ہو گئی۔ میں نے سوچا اگر اس وقت کسی اور سیاسی پارٹی کا سربراہ مولانا کی جگہ بیٹھا ہوتا تو کیا وہ بھی ایسی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرسکتا تھا؟ کیا دل کی یہ سکینت اللہ تعالیٰ کی خاص دین نہیں۔
جی نے چاہا کہ میں بھی کسی بہانے گفتگو میں شرکت کروں‘ چنانچہ میں نے بھی ایک سوال داغ دیا: ’’مولانا! اگر ]صدر جنرل [یحییٰ خان کے دیے ہوئے پلان پر عمل کیا گیا تو کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکے گا؟‘‘ مولانا نے اب تک کے اپنے انداز گفتگو کے برعکس ذرا تیز لہجے میں فرمایا: یحییٰ خان عوام کو کس برتے پر اعتماد میں لیں گے‘ ان کے پاس اب رہا کیا ہے؟ اب تو آپ انتظار کیجیے اور یہ دیکھیے کہ یحییٰ خان صاحب نے جو گڑھا کھودا ہے اس میں وہ خود پہلے گرتے ہیں یا قوم گرتی ہے‘‘۔ مولانا کی یہ تشویش کس قدر مبنی برحقیقت تھی۔ اس کا ثبوت ذوالفقار علی بھٹو کی ہوس اقتدار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور وہاں خون ریزی اور بھارت کی یلغار کی شکل میں ملا۔
عصری نشست سے اٹھ کر مولانا اپنے کمرے میں جانے لگے تو میں نے آگے بڑھ کر سلام اور مصافحہ کیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’اچھا‘ آپ لوگ ابھی لاہور ہی میں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’مولانا‘ یہ میرے شاگرد مجھے ڈانٹ رہے ہیں کہ تم نے کل اپنی بے کاری و بے روزگاری کا ذکر کرکے مولانا کو پریشان کر دیا ہے‘ تو عرض ہے کہ ان شاء اللہ چند روز میں مجھے غزالی کالج میں ملازمت مل جائے گی‘‘۔ مولانا نے تشفی طلب انداز میں سوال کیا: ’’ہوجائے گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘ ان شاء اللہ ہو جائے گی‘ آپ دعا فرمایئے گا‘‘۔ مولانا آگے بڑھ گئے تو میں نے اپنے شاگرد سے کہا: ’’اب تو آپ کی تسلی ہو گئی‘‘۔ وہ بولے: ’’ہاں سر‘ یہ ضروری تھا‘‘۔
لاہور سے واپسی پر اکثر احباب کو میں یہ روداد سناتا رہا کہ ’ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے‘ یہاں تک کہ تنظیم اساتذہ سندھ کے ذمہ دار کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ کل پاکستان اجتماع میں شرکت کے موقع پر تین چار افراد کے ساتھ مولانا سے ملاقات کا موقع ملا۔ اس وقت تک مولانا کی صحت خاصی گر چکی تھی۔ ہم کمرۂ ملاقات میں اسی تشویش کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مولانا کوئی ۱۵‘ ۲۰منٹ بعد اندرونی دروازے سے کمرے میں واکر کے سہارے داخل ہوئے۔ حافظ وحید اللہ خان نے آگے بڑھ کر سہارا دینا چاہا تو فرمایا: ’’نہیں نہیں‘ آپ بیٹھیے‘ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں‘‘۔
اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی مولانا نے سوال کیا: ’’آپ لوگ کتنی دیر سے یہاں تشریف رکھتے ہیں؟‘‘ حافظ صاحب نے کہا: ’’کوئی ۱۵‘ ۲۰ منٹ ہوئے ہوں گے۔ معلوم ہوا تھا کہ آپ بیت الخلا میں ہیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’نہیں صاحب‘ میں اتنی دیر بیت الخلا میں نہیں بیٹھتا۔ مجھے تو آپ لوگوں کے آنے کی خبر ابھی ملی۔ بیٹی آئی ہوئی تھی‘ میں اس سے بات کر رہا تھا۔ افسوس کہ آپ لوگوں کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی‘‘۔ حافظ صاحب نے کہا: ’’مولانا سنا ہے دو چار ماہ سے آپ کی طبیعت زیادہ ناساز ہے‘‘۔ فرمایا: ’’دوچار نہیں پورے چھ ماہ سے‘‘۔ میں نے اپنی طبیعت کے مطابق بات سے بات پیدا کی: ’’مولانا‘ حافظ صاحب بھی تو دو چار ماہ کہہ رہے ہیں۔ دو چار چھ ہی تو ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن مولانا اپنی طبیعت کے اضمحلال کے تحت اس فقرے سے محظوظ نہیں ہو سکے۔ حافظ صاحب نے اپنا مدعا بیان کیا: ’’الحمدللہ! تنظیم اساتذہ کا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے ہزاروں افراد جامعہ پنجاب میں جمع ہیں‘‘۔ مولانا نے اس اطلاع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے اپنے معاونین سے کہا ہے کہ میں اپنی صحت کی مجبوری کی بنا پر اجتماع گاہ نہیں جا سکتا۔ یہیں کرسیوں کا اہتمام کر دیں تاکہ میں جملہ مندوبین سے گفتگو کر سکوں‘‘۔ سرحد سے آئے ہوئے جناب عبدالعزیز نیازی نے اپنے صوبے میں پھیلے ہوئے نسلی تعصب کے مسئلے کو چھیڑا تو مولانا نے فرمایا: ’’لوگوں کو یہ احساس دلایے کہ تعصب ایسی لعنت ہے کہ ایک مرتبہ یہ بیماری لگ جائے تو اس کادائرہ مسلسل محدود سے محدود تر ہوتا جاتا ہے‘ اور خود ایک فرد بھی اس تقسیم کا شکار ہوکر split personality ]منقسم شخصیت[کی طرح دو لخت ہو جاتا ہے‘‘۔
اس سے قبل اجتماع کے بعض شرکا عصری نشست میں بھی مولانا سے مل چکے تھے۔ اس موقع پر مولانا نے فرمایا تھا: ’’آپ حکومت سے تو نظام تعلیم میں بہتری لانے اور نصابات کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ بھی جاری رکھیں‘ لیکن اپنے طور پر بھی یہ کام مستقلاً کرتے رہیں‘ تاکہ جب اس کے نفاذ کا موقع آئے تو آپ تہی دست نہ ہوں‘‘۔
نظام امتحان کی خرابیوں کے حوالے سے فرمایا: ’’ایک بار ایک تعلیمی ادارے نے ایک امتحانی پرچہ مجھ سے بھی مرتب کرایا تھا۔ میں نے جو پرچہ بنایا تھا اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی کر دی کہ طلبہ دورانِ امتحان کتب خانے سے جو کتاب چاہیں طلب کر کے اس کی مدد سے جواب لکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ پرچہ ایسا تھا کہ نقل کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔
تنظیم اساتذہ کے مندوبین کو یہ مژدہ ملا کہ مولانا ان سے خطاب کریں گے تو لوگ جوق درجوق جامعہ پنجاب کے نئے کیمپس سے مولانا کے مکان پر اچھرہ پہنچے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں پہلے اس بات پر معذرت چاہی کہ خرابی صحت کی بنا پر وہ اجتماع گاہ نہیں پہنچ سکے اور مندوبین کو اچھرہ آنے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعداستاد کے منصب اور بطور خاص ایک تحریکی استاد کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور اپنی ۱۵‘۲۰منٹ کی گفتگو کا اختتام اس اہم نکتے پر کیا‘ کہ ایک نصاب وہ ہوتا ہے جو نصابی کتب میں لکھا ہوتا ہے‘ اور ایک وہ ہوتا ہے جو ایک استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اصل اہمیت اس نصاب کی ہے جو استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ مقصد سے لگن رکھنے والا استاد گیتا سے قرآن پڑھا سکتا ہے۔
اساتذہ ساکت وصامت مولانا کے ایک ایک لفظ کو انتہائی عقیدت سے دل میں اتار اور جز و فکر بنا رہے تھے۔ آخر میںمولانا نے فرمایا: حضرات! اب میری توانائی جواب دے رہی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی سعی کو مشکور فرمائے۔ پھر مسنون دعا پر اپنی زندگی کے اس آخری عمومی خطاب کو ختم فرمایا ]دسمبر ۱۹۷۸ئ[۔ مجمع کے ہر فرد کا روشن چہرہ اس فخر کا غماز تھاکہ اسے اپنے محبوب رہنما اور عالم اسلام کے منفرد بطلِ جلیل کا مخاطب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدید دور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو اچھی طرح سے ثابت کر دیا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی‘ بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظام رحمت کو جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی ریاست کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے اعتماد‘ یقین‘ مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے عصرِحاضر کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر اپنی اجتہادی بصیرت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اسلام کے اصول حکمرانی‘ اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ‘ اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ‘ اسلامی قانون کے ماخذ اورعصرحاضر میں اسلامی قوانین کے قابل نفاذ ہونے کے امور پر بحث کی اور واضح لائحہ عمل دیا۔ ان امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر‘ مضامین اور کتب میں پورے شرح وبسط کے ساتھ کی۔
میں ان دنوں قصور میں وکالت کرتا تھا۔ اس کلوکیم کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر میں نے عالم اسلام کے نامور اسکالروں کے بلند پایہ مقالات سے استفادہ کیا تھا۔
دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلسِ مذاکرہ میں مولانا مودودیؒ نے ۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو ’’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا تھا‘ جو بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما نے بہت داد دی تھی۔
اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے‘ اس علمی تحقیق اور عقلی کاوش کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزادانہ اجتہاد کی بھی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں‘ وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے‘ وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ بھی تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یہ چار صورتیں بیان کیں: l یہ کہ تمام امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہو۔ l یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے۔ l یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے۔ l چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔
مولانا مودودیؒ نے اسٹوڈنٹس یونین لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو امور کی اچھی طرح وضاحت تک مرکوز رکھا۔ اور فرمایا: ’’اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے‘ جو انھی الفاظ میں محفوظ ہے‘ جن میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (latest edition) ہے۔ مسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے‘‘۔
اسلامی قانون میں سنت کے مقام و مرتبے کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے وضاحت فرمائی: ’’اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ سنت رسولؐ ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا۔ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی اور اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا۔ اس طرح سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایا: ’’افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ سنت کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کر کے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے سنت کے حجت ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم‘ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی ہیں‘ جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اﷲ ہیں۔ اس بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح آنحضوؐرکے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا‘ اس کے نظائر اور روایات سے حدیث‘ تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جاسکتا ہے‘‘۔
چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’یہ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں‘ جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں‘‘۔
اسلامی قانون کے چاروں ماخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور ریاست کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔
مولانا مودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا۔ بعض لوگوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ قیام پاکستان کے چند ماہ بعدہی مولانا مودودیؒ‘ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے‘ تب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انھیں یونی ورسٹی لا کالج میں اسلامی قانون کے حوالے سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت‘ اس کی روح‘ اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول وضاحت سے بیان کیے تھے۔ اس کے بعد ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ’’پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر یونی ورسٹی لا کالج لاہور میں ایک اور لیکچر دیا تھا۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ: میں ملاقات کے لیے آپ کے ہاں آنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ‘ بھٹو صاحب سے گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں ملاقات کر لیں۔ اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ عالم اسلام کے نام ور عالمِ دین ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلب گار ہوں‘ کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’بھٹو صاحب‘ آپ نے عام انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پھر معروف سوشلسٹ اور دین سے بے زار افراد آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں‘ ہم کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟‘‘
۱۹۶۹ء تک میں‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔یہ صدر ایوب مرحوم کی حکومت کے آخری دور کی بات ہے جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ صدر صاحب نے حزبِ اختلاف کو دعوت دی تھی کہ وہ ان سے مل کر آئینی معاملات طے کریں۔ کئی سیاست دانوں نے اس دعوت نامے کو رد کر دیا۔ حزبِ اختلاف میں چند قائدین کے مسلسل انکار کی وجہ سے حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے تھے۔ اسی دوران سیدمودودیؒ کا ایک بیان اخبار میں پڑھا جس کا ایک فقرہ اب بھی یاد ہے: ’’ملک کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ جب یہ فقرہ پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اگر بات چیت سے معاملات طے ہو سکتے ہیں تو پھر ہنگامہ آرائی اور ملک کو دوسرے مارشل لا کی طرف دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یوں لگا کہ یہ کوئی خاصا سمجھ دار انسان ہے جس کو موقع کی نزاکت کا پورا پورا ادراک ہے‘ اور اگر یہ راستہ اختیار نہ کیا گیا تو معاملہ مزید بگڑسکتا ہے اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ مجھے یہ بیان اس لیے بھی اچھا لگا کہ چلو ہمارے مولوی صاحبان میں سے کسی ایک مولوی صاحب کو تو سیاسی بصیرت حاصل ہے۔ اس وقت تک میں جماعت اسلامی یا دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے حدود اربع کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ بہرحال ایوب صاحب جاتے جاتے اقتدار ایک فوجی جرنیل کے حوالے کرگئے۔ اس موقع پر مجھے مولانا مودودیؒ کا وہ بیان یاد آیا کہ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ اس شخص کی بات مان لی جاتی اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔
اسی دوران ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ عجب عالم تھا۔ پیپلز پارٹی ایک آندھی کی طرح آئی اور عام آدمی میں بہت مقبول بھی ہوئی۔ اس کا نشانہ بھی جماعت اسلامی اور مولانا مرحوم کی ذات تھی۔ کئی قسم کے نعرے ایجاد ہوئے۔ ان میں ایک نعرہ تھا جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں مولانا مودودیؒ کو دیکھوں اور وہ نعرہ تھا: ’’سو یہودی‘ ایک …‘‘جب میں نے یہ نعرہ سنا تو مجھے بہت اشتیاق ہوا کہ اس شخص کو ضرور دیکھوں جسے یہ لوگ اس نام سے ’سرفراز‘ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ خیال بھی آتا کہ اگر یہ شخص اتنا ہی بُراہے تو پھر اس کا وجود کیوں برداشت کیا جا رہا ہے۔ میں نے مولانا کو اسی نعرے کی وجہ سے دیکھنے اور جاننے کا ارادہ کیا۔
میں نے مولانا کے گھر کا پتا لیا اور ان کی رہایش گاہ پر پہنچا۔ راستے میں طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں آئے اور جوں جوں میں اچھرہ کی حدود کے قریب پہنچتا گیا‘ مجھ میں بے چینی بڑھتی گئی۔ میں عصرکی نماز کے بعد وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں پر کچھ لوگ کرسیوں پر اور کچھ نیچے صفوں پربیٹھے ہوئے تھے۔ ایک چھوٹی سی میز اور ایک کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جو اس بات کا پتادیتی تھی کہ کسی نے آکر یہاں بیٹھنا ہے۔ وہاں ایک فرد سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہاں مولانا مودودیؒ بیٹھیں گے۔ یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوا کہ چلو مولانا کو دیکھ لیں گے کیونکہ میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ مولانا کو ملنے کے لیے ان کے سیکرٹری کو ملنا ہوگا۔ ملاقات کا وقت لیا جائے گا اور معلوم نہیں کتنا وقت ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ مولانا تشریف لائے اور کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ ان کے آنے اور بیٹھنے کی عاجزی کو دیکھ کر میرے دل نے گواہی دی کہ یہ شخص ایسا تو نہیں ہو سکتا‘ جس طرح اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ میری موجودگی میں کئی ایک حضرات نے اُلٹے سیدھے سوالات پوچھے۔ مولانا نے بڑے تحمل اور بردباری سے ان سوالات کے نہایت معقول جوابات دیے۔ کچھ لوگوں نے ایسے ایسے سوال بھی کیے کہ میں سمجھتا تھا کہ ان کے جوابات بہت مشکل ہیں اور مولانا کیا جواب دیں گے۔ لیکن مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مولانانے ان کے مختصر اور بہت ہی صحیح جواب دیے۔ ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا جیسے ان کو جواب دینے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی۔
ان سوالوں میں دینی مسائل بھی تھے اور سیاسی باتیں بھی۔ ان دنوں مولانا عصر سے لے کر مغرب تک باہر لان میں عصری نشست کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے بھی کبھی کبھار وہاں جانا شروع کر دیا۔ جتنی دفعہ بھی گیا اچھی چیز ہی دیکھی اور میرے اندر ان کی ذات کے بارے میں جو نقشہ لوگوں کی غلط باتوں سے بنا ہوا تھا وہ ریت کے گھروندے کی مانند مسمار ہوتا گیا۔
کچھ عرصے بعد میں نے بھی ہمت کر کے سوالات پوچھنے شروع کیے۔ ان سوالوں کا سلسلہ کچھ اس طرح ہوگیا کہ وہاں پر موجود لوگوں نے مجھے جاننا شروع کر دیا اور مولاناؒ نے بھی۔ وہ اس لیے کہ مجھے اونچی آواز میں ذرا جلدی جلدی بولنے کی عادت تھی۔ ایک دفعہ میں نے مولاناؒ سے جب یہ پوچھا: ’’لوگ آپ کے بارے میں بہت ہی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں‘‘۔ ابھی میرا سوال پورا ہی نہیں ہوا تھاکہ مولانا خلافِ معمول میرا سوال کاٹ کر فرمانے لگے: ’’اور آپ کو اس پر غصہ آتا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا: بالکل آتا ہے‘وہ اس لیے کہ جب کوئی شخص کسی کا احترام کرتا ہوتواس کے بارے میں غلط بات سننے پر غصہ آتا ہے‘‘۔مولانا نے فرمایا: ’’لگتا ہے کہ آپ نے تاریخِ اسلام کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو آپ مجھ سے یہ سوال نہ پوچھتے۔ آپ تاریخِ اسلام اٹھا کر دیکھیے ہمارے بزرگوں کے ساتھ تو بہت کچھ ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں میرے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہوا‘‘۔ ان کا یہ جواب سن کر میرے دل نے کہا کہ مولانا آپ کی عظمت کو سلام!
یہ تو محض ایک سنجیدہ سوال تھا۔ یہاں میں چند ایک غیر مہذب سوالوں کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو‘ مولانا کتنے صابر اور بردبار انسان تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات ایک عجیب و غریب دور کی علامت تھے۔ اسی دوران ایک شخص نے مولانا سے کہا: ’’مولانا‘ مخالف لوگ آپ کی داڑھی کو نقلی داڑھی کہتے ہیں‘‘۔ مولانا فرمانے لگے: ’’آپ میرے پاس آئیں اور خود دیکھ لیں کہ نقلی ہے یا اصلی‘‘۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک شخض نے کہا: ’’آپ ۱۰۰ روپے والا پان کھاتے ہیں‘‘۔ مولانا مسکرا کر کہنے لگے کہ: ’’آپ آئیں اور میرے پان دان میں جتنے پان ہیں اٹھا لیں اور مجھے صرف ۱۰ روپے دے دیں‘‘۔کسی نے کہا: ’’مولانا سنا ہے آپ آدھا قرآن مجید مانتے ہیں اور آدھا نہیں مانتے‘‘۔مولانا نے کہا :’’میں نے ۲۸ پاروں تک اس کا ترجمہ تحریر کر دیا ہے‘ پھر بھلا میں کیسے آدھے قرآن کو مانتا ہوں اور آدھے کو نہیں‘‘۔
ان بھولے بسرے واقعات کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ قارئین جان سکیں کہ مولاناؒ کی ذات کیسی تھی۔ اس لیے بھی کہ بعض حلقوں میں مولانا کے بارے میں یہ غلط تاثر تھا کہ مولانا بہت مغرور آدمی ہیں اور لوگوں سے باتیں کرتے وقت ان کا مزاج روکھا ہوتا ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر حضرات‘ چرب زبان آدمی کو بہت اچھا اور عقل مند سمجھتے ہیں‘ حالانکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا کم سخن تھے۔
ایک دفعہ ان کے ڈرائیور کو جو غالباً فیصل آباد (اُس وقت لائل پورتھا) کا رہنے والا تھا‘ چند دنوں کی رخصت چاہیے تھی۔ لیکن مولانا کی مصروفیات ان دنوں کچھ ایسی تھیں کہ ڈرائیور کا ہونا لازمی تھا۔ میری موجودگی میں مولانا نے جب ڈرائیور سے پوچھا: ’’کیا یہ چھٹیاں کم نہیں ہوسکتیں یا چند دن بعد نہیں لی جا سکتیں؟‘‘ تو اس نے کہا: ’’جی نہیں‘ مجھے بہت ضروری کام ہے‘‘۔ مولانا نے مسکرا کر صرف یہ کہا: ’’سب لوگوں کو ضروری کام ہیں۔ بس صرف میں ہی ہوں جسے کوئی کام نہیں‘‘۔مجھے نزدیک بیٹھا دیکھ کر فرمانے لگے: ’’آپ سن رہے ہیں‘‘ اور ساتھ ہی فرمایا: ’’آپ کسی اچھے سے اپنے اعتماد والے ڈرائیور کا بندوبست کر دیں‘‘۔ میں وعدہ کر کے لوٹ آیا۔ چونکہ میری کسی ڈرائیور تک کوئی رسائی نہ تھی‘ اس لیے میں بندوبست نہ کرسکا اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں کافی دنوں تک مولانا کے ہاں بھی نہ جا سکا اور بات ان کے ذہن سے اتر گئی۔ آج ندامت ہوتی ہے کہ کم از کم مولاناکو جواب ہی دے دیا ہوتا‘ نہ جانے انھوں نے میرا کب تک انتظار کیا ہوگا۔
ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا‘ وہاں پر موجود لوگوں کو کھجور اور سموسے افطاری کے لیے دیے جا رہے تھے۔ اتفاق سے میں اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے مولانا اپنے گھر کے لان سے اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے اپنا کھجور اور سموسے والا لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے مولانا سے کہا: ’’آپ بھی افطار کے لیے لیجیے‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’شکریہ‘ یہ چیزیں زیادہ سخت ہیں۔ میں تو چائے وغیرہ سے افطار کرتا ہوں‘ آپ میرے ساتھ آجایئے‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ یہ شخص مجھے جانتا تک نہیں‘ صرف عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرگفتگو سنی ہے اور چند ایک سوال کیے ہیں اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں‘ لیکن اس شخص نے مجھ پر کتنا اعتماد کیا ہے کہ ایک بار اس نے مجھے ڈرائیور لانے کو کہا جو میں نہ کر سکا اور انھوں نے مجھ سے وجہ تک دریافت نہیں کی۔ پھر میں نے روزہ افطار کرنے کی پیش کش کی تو انھوں نے کتنی محبت سے مجھے اپنے ساتھ روزہ افطار کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ اس شخص کی اعلیٰ ظرفی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہاں میں معذرت کے ساتھ لکھنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے اور بعد بھی اکثر دینی رہنمائوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کی آن بان‘ جبہ ودستار‘ رعب داب اور اپنے مریدین کے ساتھ حسن سلوک کو بھی دیکھا ہے۔ لیکن مولاناؒ کے نزدیک ان چیزوں کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ایک دفعہ مولانا محترم‘ شادباغ لاہور میں ایک جلسے میں خطاب کے لیے تشریف لائے۔ کسی شخص نے نعرہ لگایا: ’’پیر مودودی زندہ باد‘‘۔ مولاناؒ نے فوراً اس نعرہ کو روکا اور کہا: ’’میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا‘ آپ میرے لیے یہ نعرہ نہ لگائیں‘‘۔
کچھ لوگوں نے جو کہ اب مرحوم ہوچکے ہیں‘ مولاناؒ کی ذات تو کیا ان کی بیٹیوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ چند علما حضرات کی طرف سے مولانا مودودیؒ کی فیملی کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا تھا کہ ان کا گھرالٹرا ماڈرن ہے۔ گھر کے کچھ افراد صوم و صلوٰۃ تک کے پابند نہیں‘ پردے کی پابندی بھی بطور خاص نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ (یہ الفاظ تو میں بڑے محتاط انداز سے تحریر کر رہا ہوں‘ جب کہ اصل الفاظ تو تہذیب سے گرے ہوئے تھے)۔ میں نے صرف اپنے اطمینان کے لیے ایک دن اپنی والدہ محترمہ کو ساتھ لیا اور ذیلدار پارک مولانا کے گھر گیا۔ میں خود تو عصری نشست میں بیٹھ گیا اور والدہ محترمہ کو مولانا کے گھر بھجوا دیا۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگ واپس آئے۔ والدہ محترمہ نے مجھے بتایا: ’’میں نے تو وہاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں دیکھی‘ بس عام سا سادا سا گھر ہے لیکن خوب صاف ستھرا۔ گھر کے بچے خاصے شایستہ ہیں۔ گھر میں سب نے باقاعدہ نماز عصر اورمغرب پڑھی۔ مولانا صاحب کی بیگم اور ان کی بیٹیاں بہت ملنسار ہیں‘‘۔ انھوں نے والدہ محترمہ کی سکنجبین سے تواضع کی۔ جب وہ گھر کے اندر داخل ہوئیں تو اس وقت مولانا کی بیگم اور بچیاں چاول اور مونگ کی دال پکانے کے لیے صاف کر رہی تھیں۔اس واقعے کے بعد خود مجھے اپنے آپ پر ندامت ہوئی کہ میں نے والدہ کو بھیج کر ایسا کیوں کیا؟ ان ذاتی تجربات کے بعد مجھے مولاناؒ کی ذات پر بہت ترس آیا کہ ایک شریف النفس آدمی پر کیسا کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے اور وہ شریف آدمی کسی بات کا نوٹس نہیں لے رہا۔
دو ایک روز کے بعد میں پھر عصر کے بعد ان کی روزانہ کی نشست میں شامل ہوا اور مولاناؒ سے سوال کیا:’مولانا محترم‘ یہ کوثرنیازی آپ کی جماعت میں تھے اور اب اتنی دُوری کیوں؟‘‘ مولانا کہنے لگے:’’وہ اچھے آدمی تھے جو وہ چاہتے تھے میرے پاس نہیں تھا۔ جہاں سے ان کو مل گیا وہاں وہ چلے گئے‘‘۔ ایسا جواب سننے کے بعد مزید سوال کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ انھی دنوں کی بات ہے کہ ہمارے حلقۂ انتخاب میں جماعت اسلامی کے چودھری غلام جیلانی صاحب قومی اسمبلی اور شیخ محمد رفیق اشرفی صاحب صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ چودھری غلام جیلانی شاید گلے کی پُرانی خرابی کی وجہ سے بہت ہی آہستہ بولتے تھے اور شیخ محمد رفیق اشرفی ذرا اٹک اٹک کر بولتے تھے۔ ان کے مقابلے میں دوسری سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بڑی گرج دار آواز اور آستینیں چڑھا چڑھا کر بولتے تھے اور ان لوگوں کے جلسے بھی خوب جمتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے جلسوں میں حاضری بہت کم ہوتی تھی اور سونے پر سہاگہ ان دوحضرات کی آواز۔ دوایک دفعہ ان کے جلسوں کی یہ کیفیت دیکھ کر میں نے مولانا سے سوال کیا: ’’مولانا کسی اچھے مقرر کاانتخاب کیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’کیا آپ چرب زبانی کو اچھا سمجھتے ہیں؟‘‘ پھر کہا: ’’ہمارے پاس چرب زبان نہیں ہیں‘ اچھے ورکر ضرور ہیں‘‘۔
انھی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ غلام غوث ہزاروی صاحب نے مولانا کے بارے میں بڑے جذباتی انداز میں ایک ناخوش گوار‘ سخت تکلیف دہ بیان دیا۔ میں نے مولانا سے کہا: مولانا‘ آپ ان کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘مولانا نے کہا: ’’کس کس کا جواب دوں‘ میرا یہ مزاج نہیں کہ میں ان سوال و جواب میں الجھوں۔ لیکن میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ جس مقام پر مولانا ہزاروی صاحب بول رہے ہیں‘ میں اس مقام پر نہیں جا سکتا اور جس مقام پر میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں وہ ان کے بس کی بات نہیں‘ اور اگر ہم نے انھی کا طرزخطابت اپنانا ہے تو پھر ہمیں اپنی علیحدہ جماعت بنانے کا کیا فائدہ‘ ہم کیوں نہ ان کی جماعت میں ضم ہوجائیں‘‘۔
مولاناؒ صاحب کا لباس جو میں نے اکثر دیکھا وہ سفید رنگ کا کُرتا اور سفید رنگ کا کھلے پائنچے والا پاجامہ ہوتا۔ ایک دن مولانا سے پوچھا:’’مولانا‘ آپ کا جی نہیں چاہتاکہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح رواج کے مطابق اپنے لباس کو تبدیل کیا کریں جو کہ اکثر غیرشایستہ نہیں ہوتا‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’اس میں کوئی مضائقہ تو نہیں لیکن دنیا والے تو بڑی تیزی سے آئے دن رواج بدلتے ہیں‘ کسی جگہ رکتے ہی نہیں۔ آدمی اس شخص کا پیچھا کرے جس نے کسی ایک جگہ ٹھیرنا ہو‘ مسلسل پیچھا کرنے سے تو آدمی تھک جائے گا اس سے یہ بہتر نہیں کہ آدمی اپنی چال چلے‘‘۔
مولانا نے اپنی کسی تحریر میں قیامت کے ظہورپذیر ہونے کو سائنسی لحاظ سے ثابت کیا تھا۔ یہ تحریر پڑھ کر ایک طالب علم نے جس کا تعلق لاہور سے باہر کسی شہر سے تھا‘ سوال کیا: ’’مولانا‘ میرے سائنس کے استاد نے آپ کی تحریر پڑھی ہے اور آپ کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ التماس کروں کہ آپ اپنی تحریروں میں اسی طرح سائنسی حوالے دیا کریں‘‘۔ مولانا فرمانے لگے: ’’جہاں ضروری سمجھتا ہوں وہاں پر حوالہ دے دیتا ہوں لیکن آپ اپنے استاد محترم سے کہہ دیجیے کہ میں قرآن مجید کو سائنس کی کتاب نہیں بنانا چاہتا‘‘۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات کے زمانے میں ایک روز کسی نے مولانا صاحب نے سوال کیا: ’’مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے‘ ان حالات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ مولانا کہنے لگے: ’’اگر مشرقی پاکستان میں شیخ صاحب اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کامیاب ہوگئے تو پاکستان کا خدا ہی حافظ ہوگا‘‘ (پھرانتخابی نتائج بھی ایسے ہی آئے اور سال بھر میں پاکستان دولخت ہوگیا)۔
پہلے عام انتخابات کے اگلے روز مولانا کے گھر پر کافی لوگ جمع تھے اور مولانا اپنے گھر کے لان کے بجاے برآمدے سے ذرا آگے بیٹھے تھے۔ قریب کھڑی ایک کار کے ساتھ ٹیک لگاکر میاں طفیل محمد صاحب کھڑے تھے۔ عجیب اداسی کا سماں تھا۔ کارکن خاصے بددل نظر آرہے تھے‘ کیوں کہ نتیجہ مایوس کن تھا۔ کسی صاحب نے سکوت توڑتے ہوئے سوال کیا: مولانا‘ کیا یہ نتیجہ ہمارے کارکنوں کی کاوش میں کوتاہی کی وجہ سے تو نہیں ہوا‘‘۔ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر‘ قدرے بلند آواز اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا: ’’نہیں‘ نہیں ایسا نہیں ہے‘ بلکہ جماعت کے ان مخلص اور تنگ دست کارکنوں نے تو بھوکے رہ کر اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے سخت مشکل حالات میں کام کیا ہے‘‘۔ اسی مجلس میں مجیب الرحمن شامی صاحب نے سوال کیا: ’’مولانا‘ موجودہ نتائج کی روشنی میں آپ لوگوں کے مزاج کے بارے میں کیا کہیں گے؟‘‘ مولانا نے برجستہ کہا: ’’اگر لوگوں کا مزاج اچھا ہوتا تو وہاں مجیب صاحب اور یہاں بھٹو صاحب اس قوم کے گلے نہ پڑتے‘‘۔
۱۹۷۴ء میں مجھے اومان کے ایک کیڈٹ اسکول میں ملازمت مل گئی۔اس اسکول میں کچھ فوجی افسران جن کا تعلق درس و تدریس سے تھا‘ اُردن سے آئے ہوئے تھے۔ ایک دن موسیٰ نامی ایک کپتان میرے دفتر میں کسی کام سے آئے۔ باتوں باتوں میں ان کپتان صاحب کو پتاچل گیا کہ میرا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ وہ کہنے لگے: ’’کیا آپ نے مولانا مودودیؒ کو دیکھا ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا‘ تو کہنے لگے: ’’میں نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر پڑھا ہے‘ لیکن ان کو دیکھا نہیں‘‘۔اس کے ساتھ وہ مجھے اپنے ساتھ اسکول کی لائبریری میں لے گئے اور مولانا مودودیؒ کی کچھ کتابیں دکھائیں اور پوچھنے لگے: ’’آپ رخصت پر کب لاہور جا رہے ہیں؟‘‘میں نے جب جانے کی تاریخ بتائی تو فرطِ جذبات میں کہنے لگے:
" Please Muhammad, when you go this time to Lahore, please see Maulana Maududi with my eyes".
میں نے اس کی فرمایش پوری کی اور جب دوبارہ مسقط گیا اور اس کو بتایا تو اس نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: "You are a lucky man that you live in the city where a great Muslim scholar lives".
یہ نومبر ۱۹۷۵ء کا واقعہ ہے۔ میرے ایک مہربان دوست پنجاب سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میں اُن سے ملاقات کے لیے اپنے ایک عزیز دوست کے گھر گیا۔ اثناے گفتگو میں مہمان دوست نے مخصوص رازدارانہ لہجے میں ہم دونوں سے کہا:’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی نے ابھی حال ہی میں اپنی بیٹی کی شادی میں دولہا کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک دیا تھا‘‘۔ مجھے اس پر تردّد ہوا کہ ایک تو شادی کے موقع پر کسی تقریب میں اس طرح کوئی معقول آدمی چیک یا رقم نہیں دیا کرتا‘ دوسرے یہ کہ مولانا مودودیؒ کے ذوق سے تو یہ بہت ہی بعید بات ہے۔
میں نے اُن سے عرض کیا: ’’اول تو شادی کے موقع پر اس طرح چیک دینے کی کوئی رسم نہیں ہوتی اور وہ بھی ۸۰ ہزار روپے کا چیک‘ اور نہ مولانا مودودی کی مالی حالت ہی ایسی ہے کہ شادی کے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا کوئی چیک دیں (واضح رہے کہ آج سے ۲۸ سال قبل یہ واقعی بہت بڑی رقم تھی) ‘‘۔اُن صاحبِ کشف و اسرار نے فرمایا :’’مولانا کی مالی حالت پہلے ضرور کمزور تھی لیکن اب بہت بہتر ہوگئی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس روایت کی تحقیق کرلی ہے؟ فرمانے لگے :’’راوی خود اس محفل میں شریک تھا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں‘ جو لوگ شادی کی محفل میں شریک تھے اُن سب کے علم میں ہے کیونکہ یہ چیک سب کے سامنے دیا گیا تھا‘‘۔
چند روز قبل ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر ۸۰ ہزار روپے کا چیک پیش فرمایا تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کی مالی حالت ایسی نہیں کہ آپ شادی کے دوسرے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا چیک بھی پیش فرمائیں‘ لیکن وہ صاحب اپنی بات پر مصر تھے‘ بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو حضرات شادی میں شریک تھے اُن سب کو اس بات کا پتا ہے کیونکہ چیک علی الاعلان پیش کیا گیا تھا۔ براہِ کرم آپ مجھے واپسی ڈاک مطلع فرمائیں کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوا اور ظاہر ہے کہ نہیں ہوا ہوگا (حالانکہ اس کا ہونا کوئی غیرشرعی بات نہیں) تو میں اُن صاحب کو بتا سکوں تاکہ ایک غلط بات وہ آگے دوسروں کو نہ کہہ سکیں۔
اس سلسلے میں ملک غلام علی صاحب یا کسی اور کے ذریعے نہیں‘ بلکہ آپ خود ہی دو سطریں تحریر فرما کر وضاحت فرمائیں تو ازحد ممنون ہوں گا۔ والسلام!
اچھرہ‘ لاہور
۴ دسمبر ۱۹۷۵ء
عنایت نامہ مورخہ ۲۹ نومبر ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ مجھ پر اتنے مہربان ہیں کہ میرے اوپر بہتان لگا لگا کر اپنے سارے نماز‘ روزے اور نیک اعمال آخرت میں میری طرف منتقل کرا دینا چاہتے ہیں۔
جن صاحب کا یہ قول ہے اُن سے پوچھیے کہ میری تین لڑکیوں کی شادیاں چند سال کے وقفوں سے ہوئی ہیں‘ اُن میں سے کس کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک میں نے دیا تھا؟ ہر ایک شادی کے موقع پر جو لوگ مدعو تھے اُن کی فہرست میں آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ خود سب کو خطوط لکھ کر پوچھ لیجیے کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط۔ خطوط پر جو کچھ صَرف ہوگا وہ میں ادا کروں گا۔
۱- اُن صاحب کا نام کیا ہے جنھوں نے آپ سے یہ بات کہی؟
۲- اگر آپ راوی کا نام نہیں بتانا چاہتے تو اتنا تو بتا دیں کہ کیا آپ کے نزدیک راوی ثقہ ہے اور خود شادی میں شریک تھا؟
۳- مولانا مودودیؒ کی کون سی بیٹی کی شادی میں یہ چیک دیا گیا کیونکہ اُن کی تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ اگر اُن صاحب کو یہ یاد نہ ہو تو کم از کم اتنا تو معلوم کر کے بتا دیں کہ یہ شادی کس سنہ/ ماہ میں ہوئی تھی۔
۱۳ دسمبر ۱۹۷۵ء کو ہمارے مہربان دوست کا جواب آیا جس میں انھوں نے تحریر فرمایا: ’’یہ روایت پروفیسر محمد یوسف سلیم چشتی کی ہے اور یہ اُن کے الفاظ تھے: ’’مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا ہے جو خود مجلس نکاح میں شریک تھا‘‘۔ مولانا کی ایک صاحبزادی کا نکاح ابھی غالباً ایک ماہ ہونے کو آیا ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے لڑکے سے ہوا ہے اور یہ معاملہ اُسی سے متعلق ہے۔ چشتی صاحب اب کراچی جاچکے ہیں لہٰذا تحقیق مزید فی الوقت میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہفتے عشرے بعد کراچی آنا ہوگا تو اُن سے دریافت حال کرلیں گے--- یا اس سے قبل اگر آپ چاہیں تو اُن کی ہمشیرہ کے پتے پر چشتی صاحب سے مل لیں‘‘۔
میں چشتی صاحب سے خود کیوں ملتا۔ محترم و مہربان دوست کا انتظار کیا۔ جب وہ کراچی تشریف لائے تو خاموشی سے اُن کے آگے مولانا مودودی صاحب کا جواب رکھ دیا۔ جس کو پڑھ کر اُن کے تو جیسے ہوش اُڑ گئے‘ پھر کہنے لگے: ’’چلو ابھی پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب سے جاکر ملتے ہیں‘‘۔ اُن کی ہمشیرہ کے گھر پہنچے تو پتا چلا کہ موصوف چند ہی روز قبل لاہور واپس جاچکے ہیں۔ پھر ہمارے محترم دوست بھی واپس لاہور چلے گئے۔ وہاں سے اس موضوع پر پھر کچھ نہ لکھا کہ چشتی صاحب سے کیا بات ہوئی۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب ‘جو اب مرحوم ہوچکے ہیں نہ جانے کتنی ہی روایتیں اُن کی طرف منقول ہیں۔ ’’مستند‘‘راوی مانے جاتے ہیں اور بہت سی تحریر شدہ ہیں۔ اب کوئی بتائے کہ ان کی روایتوں پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
مولانا محترم اپنا یہ خط ستمبر ۱۹۷۷ء میں تحریر فرماتے ہیں اور ٹھیک دو سال کے بعد‘ یعنی ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء میں دُنیاے فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف انتقال فرما جاتے ہیں۔ اب ملاحظہ فرمایئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا گرامی نامہ مرقومہ ۶ستمبر ۱۹۷۷ئ:
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میرے متعلق آپ جانتے ہیں کہ ۱۹۶۸ء سے مسلسل انحطاط نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ کوئی کام اپنی ذمہ داری پر ہاتھ میں لے کر چلا سکوں۔ آپریشن کے بعد مجھے ایک دن بھی آرام لینے کا موقع نہیں ملا۔ ۶۹ء اور ۷۰ء میں شدید محنت نے میری قوت کو گھن لگا دیا ہے۔ ۷۱ء میں وجع المفاصل اور ۷۲ء میں وجع الفواد کے سخت حملے ہوئے اور آخرکار مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب اس نظام اور تحریک کو چلانا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس وقت سے صحت کا بگاڑ پیہم بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس حالت میں اصلاح احوال محض میرے کچھ لکھ دینے اور کہہ دینے سے نہیں ہو سکتی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ جو کام نیک نیتی کے ساتھ خدا کے دین کی برتری کے لیے شروع کیا گیا تھا‘ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو سیدھے راستے پر قائم کردے اور جو لوگ جماعت کوچلانے والے ہیں ان کی رہنمائی فرمائے۔ میری زندگی اب آخری مراحل میں ہے۔ بہت جیا تو سال دو سال اور جی لوں گا۔ آگے کام تو انھی لوگوں کو کرنا ہے…
میں نے اپنے بچپن میں کئی بار مولانا مودودیؒ کو دیکھا تھا۔ جب کبھی مولانا کراچی آتے تھے تو میرے والد شیخ محمد حسین صاحب کو طلب فرماکر انھیںہدایت فرماتے کہ محمدمیاں کو کل میرے پاس بھیج دیں۔ محمد میاں حلقہ گلبہار میں رہایش پذیر تھے اور مولانا جب بھی کراچی تشریف لاتے تو محمدمیاں ہی مولانا کے بال تراشنے اور خط بنانے کے لیے جاتے تھے۔
کراچی میں راقم کو کئی مرتبہ ان کے پانوں کی حفاظت کا شرف حاصل ہوا‘ جو حکیم محمد یوسف صاحب اپنے گھر سے کافی تعداد میں لگوا کر لاتے تھے۔
۷ جولائی ۱۹۷۴ء کی یہ ایک سہانی شام تھی جب میں مولانا کی رہایش گاہ پر عصری نشست میں موجود تھا۔ میں مولانا کی کرسی کے پائے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور مولانا کو سلام کیا۔ مولانا نے جواب دیا تو میں نے کہا: ’’حسین صاحب نے سلام کہا ہے‘‘ تو فوراً کہنے لگے: ’’گولیمار والے‘‘۔ میں نے کہا:’’جی ہاں‘ میں انھی کا فرزند ہوں‘‘۔ تو کہنے لگے: ’’بھئی جماعت میں ایک ہی توحسین ہے انھیں میرا سلام کہیے گا‘‘۔ یادداشت غضب کی تھی۔ میرے خیال میں مولانا‘ جماعت کے اکثر ارکان کو نام کے ساتھ پہچانتے تھے۔ اس کے بعد میں نے مولانا سے استفسار کیا:’’مولانا‘ خواب اور خواب کی تعبیر کی کیا حقیقت ہے؟ کیا خواب کی تعبیرمعلوم کرنا جائز ہے؟ اور معلوم کی جائے تو کس سے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا:’’خواب کی تعبیر معلوم کرنا جائز ہے اور جو اس علم میں ماہر ہو اس سے تعبیر معلوم کرنا چاہیے‘‘۔ اس پر میں نے مولانا سے پوچھا :’’کیا آپ بھی یہ علم جانتے ہیں؟‘‘تو مولانا نے جواب دیا:’’نہیں‘ میں یہ علم نہیں جانتا‘‘۔ پھر میں نے مولانا سے کہا :’’ آپ اپنے خوابوں کے بارے میں بھی تو کچھ بتائیں‘‘ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ مولانا خود بھی مسکرا دیے اور فرمانے لگے:’’مجھے خواب نظر تو آتے ہیں مگر دھندلے ہوتے ہیں اور جو کچھ نظرآتا ہے صبح اٹھ کر بھول جاتا ہوں‘‘۔
اسی طرح کراچی میں جلسوں اور استقبالیوں کے مواقع پر مولانا سے کئی دفعہ ہاتھ ملانے کا موقع ملا۔ ان کا ہاتھ ملانے کا انداز اتنا مشفقانہ اور گرم جوش ہوتا تھا کہ میںآج تک اس گرم جوشی کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ ہاتھ ملاتے وقت نہ تو بیزاری کا اظہار کہ صرف مَس کرکے چھوڑ دیا اور نہ سختی کا اظہار کہ تکلیف پہنچے۔
مولانا سے ملنے کے بعد ایک فرحت کا احساس ہوتا ہے‘ جیسے آپ کسی خوشنما و معطر باغ میں داخل ہوگئے ہوں‘ جیسے ٹھنڈی ہوا کا معطر جھونکا! اللہ کا کتنا بڑاانعام ہے ان کی شخصیت! کوئی متعصب اور حاسد خواہ اس کو تسلیم نہ کرے‘ مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ نے مولانا کی شکل میں اُمت کو ایسا بطل جلیل عطا کیا کہ جس نے واقعی افکار کی دنیا میں انقلاب بپا کردیا۔
مولانا کا یہی عزم و ارادہ ہے جو ان کی تحریروں سے جماعت کی تشکیل اور اس کے پروگرام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے مشن کے لیے چومکھی نہیں بلکہ شش پہلو جنگ لڑی۔ ایک طرف صاحب ِ اقتدار گروہ تھا تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام‘ تیسری طرف انھیں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ چوتھی طرف مذہبی پیشوائوں کا ایک طبقہ تھا جس کو مولانا کی تحریک کے نتیجے میں اپنا مذہبی اقتدار اور اجارہ داری ڈانواں ڈول ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ پانچویں طرف مستشرقین کا طبقہ تھا کہ جس نے اسلام‘ قرآن اور صاحب ِ قرآن کے بارے میں بڑی دشنام طرازیاں کی تھیں اور جن کا ابطال ضروری تھا۔ مولانا نے اس طبقے سے متاثرہ افراد کے افکار میں بھی زلزلہ پیدا کیا۔ چھٹا محاذ ایک جماعت کا قیام‘ صالح افراد کی تلاش اور ان کو اپنا ہم نوا بنانا‘ ان کی اصلاح کی انفرادی خواہشوں اور کوششوں کو مربوط و منظم کرنا اور ان بکھرے دانوں کو ایک تسبیح میں پرونا‘ تاکہ دنیا کے سامنے ایک صالح گروہ اور متبادل قیادت کو پیش کیا جاسکے۔ یوں مولانا مودودیؒ نے ایک شش پہلو معرکہ سر کیا۔ یقینا مولانا نے جو کام تن تنہا انجام دیا وہ کئی اداروں کے کرنے کا کام تھا۔
مولانا کا طرزِ تحریر سہل اور عام فہم ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور کتابوں میں زندہ ہیں۔ زندگی میں جس طرح محبت اور گرم جوشی سے مصافحہ کر کے وہ کسی کو اپنا بنالیاکرتے تھے‘ بالکل اسی طرح آج بھی وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں‘ اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قاری چہار جانب سے ان کے دائرہ دعوت میں کھنچا چلاآتا ہے۔ دورانِ مطالعہ قاری نکل بھاگنے کے لیے اگر کوئی دلیل لاتا ہے تو اگلے ہی پیراگراف یا اگلے ہی صفحے میں اس کا جواب دے کر قاری کو پھر اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور پھر ذہن اس اُمتی کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا جاتا ہے : ’’دیکھو‘ اس شخص سے نہ ملنا‘ اس کی کوئی بات نہ سننا‘ کانوں میں روئی ٹھونس لینا کیونکہ اس کے پاس جو جاتا ہے یہ اس کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے فکر و عمل سے نہ صرف معاشرے‘ میں موجود جمود کو توڑا‘ بلکہ اسے ایک مثبت حرکت پذیری کے عمل میں تبدیل کر دیا۔ آج علم و ادب کا ہر شیدائی نہ صرف ان کی اصطلاحات سے واقف ہے‘ بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے تسلیم بھی کرتا ہے‘ جو صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں بلکہ انسانیت کے دین کے طور پر سامنے آئے‘ یہ مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ انھوں نے دین کو ایک تحریک میں بدل دیا۔
لیکن اُن کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں اجتماعیت کااحساس پیدا کیا‘ جو آخر کار اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام پر منتج ہوا۔ اس تنظیم نے اپنی دعوت‘ اپنی تنظیم اور اپنی تربیت کے حوالے سے ایک ہمہ جہت پروگرام ترتیب دیا۔ اس کام کے اثرات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برابر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بلامبالغہ آج جہاں جہاں بھی دین کے حوالے سے کوئی منظم کام ہو رہا ہے‘ اس کی پشت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کا جذبہ اور وژن کام کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ علم‘ دلیل اور حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے‘ لیکن اس سے کام لینے کا درس مولانا مودودی نے ہی اس دور میں دیا اور نوجوانوں نے اسے وظیفہ زندگی بنا لیا۔ یہ نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوئے تو ان میں سے کئی ایک نمک کی کان میں نمک بن گئے‘ لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں ‘جنھوں نے اپنی شناخت اور پہچان کو گم نہ ہونے دیا۔ جنھوں نے مقصد زندگی سے تعلق کو قائم رکھا۔ یہ علم کے حصول میں ایک سے دوسری جگہ پہنچے یا تلاش معاش نے انھیں آمادہ سفر کیا‘ ہر حال میں انھوں نے اپنا رنگ برقرار رکھا اور اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔
آج کوئی چاہے تو اپنے تعصب کے باعث اسلام کو کوئی بھی برا نام دے ڈالے‘ لیکن مولانا مودودیؒ کی طرف سے دی جانے والی علم‘ دلیل اور حکمت کی روشنی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔ مجھے کچھ عرصہ امریکہ اورکینیا میں رہنے کا اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں دین کی دعوت پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒ سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی دینیات کو دعوت کے ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ سمجھا اور اسے اپنایا۔ میں ایک مرتبہ مشی گن کے ایک نواحی علاقے میں گیا‘ جو اپنے جرائم کے حوالے سے کبھی بہت مشہو رتھا‘ لیکن اب وہاں کے کالوں کی اکثریت مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ جگہ جہاں دن کے اجالے میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا‘ اب وہاں رات کو بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہاں کی مسجد میں ایک نیگرو نوجوان نے جو امام تھا‘ مولانا مرحوم کی کتاب Towards Understanding Islam (دینیات) کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہا : ’’اس کتاب نے یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا ہے‘‘۔
یوں مولانا مودودیؒ کو نوجوان سفارت کار ملے‘ جنھوں نے دنیا کے کونے کونے تک اسے پہنچایا اور یہ وہی نوجوان تھے جن کی تربیت خود مولانامرحوم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔
بیسویں صدی نے تاریخ کے اوراق پر تباہی اور شکست و ریخت کے بڑے ہولناک نقوش ثبت کیے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ‘ فکری اور تعمیری حوالے سے بھی‘ اس کے دامن میں چند مثبت کارنامے اور بعض افادی پہلو نظرآتے ہیں۔
اُمت مسلمہ ایک طرف بدترین استحصال کا شکار ہوئی تو دوسری جانب اسے استعمار کی غلامی سے نجات بھی ملی اور تیسری جانب اس کے اندر ایسی تحریکیں برپا ہوئیں‘ جنھوں نے اُمت کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان تحریکوں کے بعض داعیوں اور رہنمائوں نے مسلمانوں کو بحیثیت اُمت سربلندی اورعظمت کی طرف لے جانے میںاہم کردارادا کیا۔ ایسی شخصیات میں ایک نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ہے۔
زیرنظر مضمون میں مولانا مودودیؒ کی زندگی کے فکری پہلوئوں پر جو معروضات پیش کی جارہی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کے فکری وعملی کارناموں کی روشنی میں ہم بھی ایمان‘ دانش اور عمل کی راہوں کو کشادہ کرتے ہوئے‘ اپنے زمانے کے درپیش چیلنجوں اوربحرانوں کا مقابلہ کریں۔ دورِ جدید کی تاریخ میں حق و باطل کی کش مکش کا جب بھی ذکر ہوگا‘ تو اس میں اس دور کی زمانہ ساز شخصیات اور تحریکوں کا بھی لازمی طور پر تذکرہ ہوگا۔ اس تذکرے میں مولانا مودودیؒ کی کاوشوں کو ایک مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
یہی زمانہ تھا جب ان کے ہم خیال‘ جاںنثار دوستوں‘ حلیفوں اور ہم سفروں پر مشتمل ان کے حلقۂ احباب میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ اسلامیانِ ہند (خصوصاً مسلم اُمہ اور بالعموم پوری نوعِ انسانی) کے مستقبل کے بارے میں جو تصور اور وژن (vision) رکھتے تھے اور جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ وہ تن تنہا بروے کار نہیں لائی جاسکتی۔ اس مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا تھا کہ ایک منظم اور مربوط اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ سید مودودیؒ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ بلاشبہہ دورِ جدید میں اسلام کے احیا کے لیے فکری کام بھی ضروری ہے‘ لیکن اس فکر کو بروے کار لانے کے لیے کسی عملی جدوجہد اور اجتماعی تحریک کے بغیر‘یہ عظیم کام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ تجدید و احیاے دین اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش جیسی تصانیف ان کے اس ذہنی سفر کی عکاس ہیں‘ جو بالآخر ایک صالح جماعت کی ضرورت پر منتج ہوا۔
ایک دل ہے اور ہنگام حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
اس طرح میں ان کی زندگی کو ان تین حصوں میں تقسیم کر کے غور کرتا ہوں۔
اولیں دورِ صحافت میں بالکل نوعمری ہی میں مولانا مودودیؒ نے بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور بحیثیت ایک وسیع النظر صحافی کے اپنی منفرد اور غیرمعمولی صلاحیتِ کار کا لوہا منوایا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انھوں نے تاج‘ مسلم اور جمعیت العلما کے پرچے الجمعیۃ میں لکھا‘ بلکہ اس کے ساتھ نگار ‘مدینہ‘ بجنور اور لاہور کے ہمایوں میں بھی مضامین لکھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۲۱‘۲۲ برس کے نوجوان کو مسلمانوں کی اس وقت کی ایک اہم تنظیم جمعیت العلما کے سرکاری ترجمان کی ادارت مکمل ذمہ داری کے ساتھ سونپی گئی جو مولانا مودودیؒ کی غیرمعمولی ذہانت اور ان کے کردار کی پختگی کے ساتھ جمعیت علماے ہند کے قائدین کی مردم شناسی کا مظہر بھی تھی۔ خصوصاً مفتی کفایتؒ اللہ اور مولانا احمدسعیدؒ اس نوجوان سے بے حد متاثر تھے۔ دوسری طرف مولانا محمدعلی جوہرؒ بھی چاہتے تھے کہ مولانا مودودی ؒان کے معاون کے طور پر‘ ان کے تاریخ ساز اخبار ہمدرد کے عملۂ ادارت میں شامل ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور صحافی کے‘ انھوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا نے ترجمے بھی کیے ہیں اور متعدد مضامین بھی لکھے ‘لیکن ان کا پہلا کارنامہ صحافت ہے۔
ان مضامین میں وہ پوری شرح وبسط سے بیان کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین اور انسانیت کے لیے ایک آفاقی پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی تحریک بھی ہے۔ ان مضامین میں مولانا کے ہاں زبان و بیان کی صحت اور اثرانگیزی کے ساتھ ساتھ فکر کی پختگی اور وسعت تہہ در تہہ نظرآتی ہے۔ ایک سہ روزہ اخبار میں خبروں کے انتخاب اور ترجمے کے ساتھ اداریہ نویسی اور کالم نویسی بذات خود بڑاجاںگسل کام تھا‘ جب کہ معاونت کے لیے اس کا عملہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس متفرق نویسی کے ساتھ وہ اعلیٰ درجے کے علمی وفکری مضامین بھی لکھتے رہے۔ یہ چیز تحریر وتصنیف پر ان کی ماہرانہ دسترس اور ان کی غیرمعمولی دماغی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔
مثال کے طور پر ہندستان کے صنعتی زوال اور اس کے اسباب ۱۶۰۰ئ-۱۹۲۴ء کے موضوع پر قومی نقطۂ نظر سے‘ مگر معتدل و متوازن انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ سیدمودودیؒ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’کسی ملک کی اقتصادی و تمدنی حالت پر غور کرتے وقت‘ سب سے زیادہ توجہ کے قابل یہ امر ہوتا ہے کہ اس کا نظامِ حکومت کیسا ہے؟ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ قوموں کے بننے بگڑنے میں بڑا حصہ حکومت کا ہوا کرتا ہے۔ کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کا نظامِ حکومت درست نہ ہو‘ اور اسی طرح کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی‘تاوقتیکہ اس کا نظام حکومت خراب نہ ہو‘‘(ماہ نامہ نگار‘ اکتوبر ۱۹۲۴ئ)۔ اس مضمون میں انھوں نے ہم وطنوں کی اقتصادی بدحالی کا مفصل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر محض ۲۱ برس تھی مگر اس مضمون میں انھوں نے ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصادیات کی سی پختہ فکر کے ساتھ خرابی کی اصل جڑ کی نشان دہی کی ہے۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں انھوں نے زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ مشہور جملہ لکھا:’’حکومت کی خرابی‘ تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیدمودودیؒ سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے۔
اسی زمانے کی شاہکار تصنیف الجہاد فی الاسلام ان کی علمیت‘ پُرزور استدلال اور توازنِ فکر کی دلیل ہے۔ اسی کتاب کی تصنیف کے دوران انھوں نے عملی صحافت کا میدان چھوڑ دیا۔ صحافت میں موضوع کا کینوس اور دائرہ تخاطب بالعموم محدود ہوتا ہے اور فطری طور پر اس میں وقتی ردعمل اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے مزاج کی مناسبت سے اس میں اپنا مستقبل نہیں دیکھا۔ وہ دل و دماغ کے اس امتزاج کی طرف جانا چاہتے تھے کہ جہاں قلب حرکت‘ جدوجہد اور ترغیب کا کام تو انجام دے‘ لیکن عقل اور فکر جس طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ کسی حیثیت سے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے یا اس کے اوپر کوئی پرچھائیں یا سایہ نہ پڑجائے۔ اس زمانے کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نظرآتا ہے کہ وہ ایک کش مکش سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتے تھے اور بالآخر انھوں نے ریل کا کانٹا بدلا اور جس پٹڑی پر چاہتے تھے‘ اسی پر وہ آگئے اور ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کو بھی لے آئے۔ اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن اقدام ان کی صحافتی زندگی میں ہمیں نمایاں نظر آتا ہے‘ جس کے تحت وہ ضمیر کی بیداری‘ خودداری اور حریت کو اولیت دیتے ہیں۔ گویا صحافی‘ صحافت کو محض قلم کاری نہ سمجھے بلکہ قلم کوفکر اور علم کی ترویج اور فروغ کے لیے ایک ایسا ہتھیار خیال کرے‘ جو دیانت کے ساتھ استعمال ہو تاکہ وہ دوسروں کی چاکری اور کاسہ لیسی کا آلۂ کار نہ بنے۔
جمعیت العلما‘ مسلمان علما کی ایک ایسی قابلِ قدر جماعت تھی‘ جو اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کوئی علمی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک عوامی تحریک تھی‘ جس کی قیادت چند جیّد علما کے پاس تھی۔ تاہم یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آہستہ آہستہ جمعیت کی اس وقت کی قیادت کا ایک بڑا حصہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہندستان میں مسلمان اُمت کو جو بنیادی مخمصہ (dilemma)درپیش تھا‘ اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور ان کے حقیقی کارنامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ جمعیت العلماء کی قیادت کے بڑے حصے نے وہ راستہ اختیار کرلیا‘ جس میں اسلام کی جگہ آزادی کو اولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں اس چیلنج کو سمجھنا چاہیے جو اس وقت اُمت مسلمہ کو درپیش تھا ‘اور تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پیش آتا رہا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی سے ہم علامہ اقبال اور سید مودودی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور برعظیم کے سیاسی منظرنامے ہی کو نہیں‘ بیسویں صدی کی پوری مسلم اُمت کی فکر اور سیاست کا بہتر فہم حاصل کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب اکیسویں صدی میں جن حالات‘ مسائل اور چیلنجوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ان کا صحیح ادراک اور ان کے مقابلے کے خطوط کار متعین کرنے میں بھی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔
اس میں پہلا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ وہ یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک‘ اسلام کا تہذیبی‘تاریخی اور عالمی کردار درحقیقت ایک تاریخ ساز اور عالمی طاقت کا کردار رہا ہے جس میں ایک طرف قلب کی اصلاح اور کردار کی تطہیر اور تزکیہ ہے‘ دوسری طرف معاشرے اور تاریخ و تہذیب کی تبدیلی کا عمل۔ اسلام کا مزاج پہلے دن ہی سے یہی رہا ہے کہ اس نے طاقت کو محض سیاسی اقتدار سے عبارت نہیں کیا‘تاہم سیاسی اقتدار‘ اس کی طاقت کا ایک اہم عنصر ضرور رہا ہے۔ اسلام نے ایمان‘ دین اور طاقت کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ اس تعلق کا اظہار صرف سیاسی طاقت ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے سارے اداروں میں ہوا‘چنانچہ خاندان سے لے کر ریاست تک‘ یعنی نظامِ قانون‘ نظامِ قضا اور نظامِ معیشت‘ سب کو اس کا حصہ بنایا۔
خلافت راشدہؓ کے فوراً بعد مسلمانوں کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ قوت تو اسلام کے پاس موجود تھی‘ لیکن اس کے لیے جو نظام اور جو ڈھانچا اسلام نے بنایا تھا‘ وہ متاثر ہونے لگا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اقتدار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون‘ اور فقہ کی تشکیل میں بھی بڑی محنت کی۔ فکرمودودی کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ فقہ کی تدوین اور نظام قضا پر علما کی دسترس‘ملوکیت کی انحرافی رو (deviationist wave) کے مدمقابل معاشرے میں ایک ایسے خودکار نظام کو فروغ دینا ایسا تاریخی کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں معاشرے اور تہذیب و تمدن پر اسلام غالب رہا اور ریاست بھی اسلام کی گرفت میں رہی۔ سید مودودیؒ نے اس تاریخی کارنامے کو خلافت و ملوکیت میں پیش کیا ہے اور اس میں ہماری تاریخ اور تدوین فقہ کی تحریک کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا ہے جسے مورخین اور مفکرین نے بالعموم نظرانداز کر دیا تھا۔ بلاشبہہ بارہ سو سالہ اس دور میں اتارچڑھائو بھی آتے رہے تھے ‘ لیکن اٹھارہویں کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی قیادت میں اب مسلمانوں کا کردار مضمحل بلکہ ختم ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان کا یہ کردار کم ہو کر بالکل نچلی سطح کو چھونے لگا۔
اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ صورت پیدا ہوئی کہ مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر بے وقعت ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر قوت کے طور پر عالمی سیاست کی بساط سے یکسر باہر ہوگئے۔ گویا اقتدار پر ان کی گرفت ختم ہوگئی اور عالمی قیادت میں ان کا مقام اور وقار سرنگوں ہوگیا۔ جب ترکوں نے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا‘ تو علامتی سطح پر بھی ان کی رہی سہی حیثیت کا خاتمہ ہوگیا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حضرات جذباتی ردعمل رکھتے تھے‘ ان کی ساری توجہ خلافت کو بچانے اور ساری قوت خلافت کو بحال کرنے میں صرف ہوئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور اسلامی تحریکات کی فکر کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے خلافت کے احیا کو اصل ایشو نہیں بنایا‘ بلکہ اسلام کے احیا‘ اسلامی سوسائٹی کے قیام‘ اور اسلامی ریاست کے حصول و قیام کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس طرح انھوں نے رسمی خلافت کے بجاے خلافت کے جوہر (essence) اور اس کے حقیقی مقصد اور ہدف کو اپنی منزل قرار دیا۔
اب ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قوت کے چھن جانے کے نتیجے میں مسلمان دوسروں کے غلام ہوگئے اور ایک دوسری تہذیب ان پر غالب ہوگئی۔ یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار تھی وہ اسلامی بنیادوں کی ضد تھی۔ اس طرح ایک تہذیبی کش مکش شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے تصورجہاں‘ اقدارِحیات‘ سماجی ادارات‘ انفرادی کیرکٹر اور اجتماعی مزاج کو متاثر کررہی تھی۔ اس تہذیبی کش مکش سے نکلنے کے لیے صرف جذباتی ردعمل کافی نہیں تھا‘ بلکہ ٹھوس فکر اور سوچے سمجھے انداز میں ایک متبادل لائحہ عمل‘ واضح نشانِ منزل اور ایک منظم و مربوط جدوجہد درکار تھی۔ ایک طبقے کے نزدیک اولین ہدف غیرملکی استعمارسے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس طبقے نے اصل ہدف سیاسی آزادی کو قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی احیا کے داعیوں کی سوچ یہ تھی کہ غیرملکی استعمار سے نجات کے لیے جتنی ضروری سیاسی جدوجہد اور آزادی ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے فکری اور تہذیبی غلبے کے خلاف پیکار ایک لازمی مرحلہ ہے۔ اوراگر استعمار کے اس فکری اور تہذیبی غلبے کو نظرانداز کیا گیا تو سیاسی جدوجہد بالآخر غیرموثر رہے گی۔ اس لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ اُمت کو دین حق کی بنیاد پر اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اسی جدوجہد کو استعمار کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔
اس سیاسی‘ تہذیبی اور فکری پس منظر میں برعظیم کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ برطانیہ نے چونکہ اقتدار ہم سے لیا ہے‘ اس لیے آزادی کے بعد بھی اقتدار ہمارا حق ہے۔ تحریک مجاہدین سے لے کر ہجرت اور ترکِ موالات کی تحریک تک اور جمعیت علماے ہند سے دیگر انگریز مخالف تحریکوں تک کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس تھی‘ اور وہی ان میں فعال اور فیصلہ کن حصہ لے رہے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دماغ میں یہی چیز تھی کہ آزادی ملنے پر فطری طور پر ہم اقتدار کے وارث ہوں گے۔ لیکن وہ اس جوہری فرق کو نظرانداز کر رہے تھے جو جمہوریت کے تصور پر مبنی اداروں کے قائم ہونے سے یہاں ووٹ کی قوت کے باعث متعارف ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو اس کھیل کو بڑی کامیابی سے کھیل رہا تھا۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے جمعیت العلماء نے جدوجہد آزادی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہی سمجھا کہ آزادی کا حصول ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے۔
دوسری جانب مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر یہ تھی کہ فقط مسلمانوں کی آزادی نہیں بلکہ اسلام کی آزادی اصل مسئلہ ہے‘ اور مسلمانوں کو آزادی اگر اسلام کی آزادی کے بغیر ملتی ہے تووہ غلامی ہی کی دوسری شکل ہوگی۔ اس لیے اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کی آزادی دو ہی طرح ممکن ہے۔ یا تو مسلمان اتنے قوی ہوں کہ پورے برعظیم کی باگ ڈور سنبھال سکیں‘ جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ پھر انھیں کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں وہ اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھ سکیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین کی منشا اور اپنی ثقافت کے تحفظ کا بھی ٹھیک ٹھیک حق ادا کر سکیں۔ جس بات کو عرفِ عام میں ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے‘ اس کی فکری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو جداگانہ نظریہ ہاے حیات کے علم بردار ہیں‘ اور آزادی کا وہی مفہوم انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے‘ جس میں ہر نظریے اور تہذیب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے سیاسی‘ قانونی‘ ثقافتی‘ غرض ہر میدان میں ایک نئے دروبست کی ضرورت ہوگی۔
مولانا مودودیؒ کی اس زمانے کی تحریروں میں آزادی‘ مسلمان اُمت اور ہندستان کے متعلق مسائل و معاملات پر مباحث ملتے ہیں۔ مولانا کا زاویۂ نگاہ اس وقت بھی بڑا واضح تھا کہ اسلام کی آزادی اور مسلمان اُمت کی آزادی اسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ اسلامی تشخص سے وابستگی کو شرط اول قرار دے۔ اس تشخص کی وضاحت اور اس کے حصول کے لیے مولانا ہرلمحے سرگرداں اور پریشان نظرآتے ہیں۔ برعظیم ان کی توجہ کا اولین مرکز ہے لیکن اس مرکز کا بیرونی حلقہ (circumference) بڑا وسیع اوردنیابھر کے مسلمانوں پر محیط ہے‘ چاہے وسط ایشیا میں کمیونسٹ زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے المناک واقعات ہوں‘ یا افریقی ممالک میں ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو‘ یا ہندستان میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کاشیطانی کھیل ہو‘ وہ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مغربی استعمار کے حلیف مسلمانوں کی فکری اور عملی حماقتوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن سے بھی زیادہ بدتر کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں جمعیت کانگرس کے ساتھ مل کر اس راستے کو اختیار کرچکی تھی جسے وہ ’سوراج‘ کہتے تھے۔ نتیجتاً علاقائی یا وطنی قوم پرستی ان کی نگاہ میں گوہرِمطلوب بن گیا تھا۔ بالکل یہی سوچ غیرمسلموں کی بھی تھی‘ اور مسلمان آزادی کی اس جدوجہد میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ وہ کش مکش تھی جس میں مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کی صحافت کا چوتھا امتیازی پہلو تھا۔
بحیثیت صحافی یہ امور مولانا مودودیؒ کے زمانۂ صحافت میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بھی اگرچہ مولاناؒ ان معنوں میں تو صحافی رہے کہ ایک ماہنامے کے مدیر تھے اور ایک ماہ نامے کا مدیر بھی صحافی ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو صحافی کہتے تھے‘ تاہم اب ان کی تحریر‘ ان کی سوچ‘ اور ان کے انداز میں ایک تبدیلی آئی اور ان کے اہداف‘ اب صحافت کے دائرے سے نکل کر ایک زیادہ اہم‘ مشکل اور کٹھن میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ میدان تھادین کی صحیح تعبیر‘ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور عالمی استعماری تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے کردار کی بازیافت کا۔ انسان سازی اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے جن عناصر اور قوتوں کی ضرورت ہے‘ ان کے لیے فکرمندی مولانا مودودیؒ کے طرزفکر اور اسلوبِ زندگی کا ایک مستقل حصہ بن گئی۔ اب وہ ایک مفکر‘مصلح‘ مدبر اور قائد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
مولانا کی نگارشات میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور کہیں کہیں ادب کی یہ جولانیاں شاعرانہ اسلوب کی حدوں کو بھی چھوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقیات اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ پر بھی لکھا۔ اسی زمانے میں مشہور مصری دانش ور مصطفی کامل پاشا کی کتاب المسئلۃ الشرقیہ کا ترجمہ کیا۔
ان تمام تحریروں میں وہ اپنے مزاج اور موضوع کی مناسبت سے ادبیت اور مقصدیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ابتدائی زمانے ہی سے ادب کی مٹھاس‘ صحتِ زبان‘ حسنِ بیان اور رعنائی خیال کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے‘ جو ان کے طرزِ نگارش کو ایک انفرادی آہنگ عطا کرتا ہے۔ اولین دور میں مولانا مودودی کے ہاں دو زیریں لہریں (under currents)ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نبردآزما بھی نظر آتی ہیں: ایک شبلی کا اسلوب تحریر‘ دوسرا ابوالکلام آزاد کا انداز نگارش۔ ایک کی خصوصیت گنگا جمنا کی میدانی علاقوں میں پُرسکون روانی ہے‘ اور دوسرے میں پہاڑی آبشار اور پتھروں کو بہا لے جانے والے پانی کے پُرشور دھاروں کا جوش و خروش۔ ان دونوں اسالیب سے مولانا نے استفادہ کیا ہے۔ دونوں کے کچھ نہ کچھ اثرات مولانا کے اسلوب پر نظرآتے ہیں۔ لیکن مولانا نے دونوں میں سے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ کسی ایک کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے خود نیا رنگ لیا‘‘۔ ان کا یہ اسلوب‘ دورصحافت میں تشکیل پا چکا تھا۔ اس لیے میری نگاہ میں الجھاد فی الاسلام مولانا مودودی کے بنیادی فکر ہی کا آئینہ ہے‘ بلکہ اس کتاب میں مولانا کے اندازِ تحریر اور اسلوبِ نگارش کی امتیازی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ الجھاد فی الاسلام کے لیے تحقیق اور اس کی تحریر وتسوید مولانا مودودی ؒکی زندگی میں ایک کلیدی موڑ اور امکانات کے وسیع افق روشن کرنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف تو انھیں اسلام کے تصورِ کائنات کو بالکل واضح حقیقت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقع ملا۔ دوسری طرف جو معذرت خواہانہ روایت مسلمانوں کی فکر میں جڑ پکڑ چکی تھی‘ اس کو انھوں نے بالکل ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا اور پوری متکلمانہ شان کے ساتھ اسلام پر اعتراضات کا دفاع کیا‘ان کا جواب دیا اور اس سے بڑھ کر مثبت طور پر اسلام کی ایک جامع تصویر پیش کی۔ اس عمل میں انھوں نے ایک نیا اسلوب بھی اختیار کیا۔ اس علمِ کلام کی اصل خود اسلام میں موجود ہے۔ الجھاد فی الاسلام‘ مولانا مودودی ؒکی زندگی کے رخ کو متعین کرنے والی کتاب ہے‘ اور یہ حسب ذیل تین حوالوں سے ہے:
اول: اسلام کے صحیح تصورِ حیات و کائنات کی بازیافت۔
دوم: یہ نکتہ کہ یہ تصورِ حیات فکری طور پر حق و باطل کی ایک عالم گیر کش مکش کی طرف لے جاتا ہے‘ جس میں اسلام کا تاریخی‘ بنیادی اور فطری کردار ہے۔ اس سے اسلام کا تحریکی تصور اُبھرتا ہے جو بالآخر بیسویں صدی میں اسلامی تحریکات کی صورت گری کا ذریعہ بنا ہے۔
سوم: یہ کہ اس تقاضاے دین کی بجاآوری اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ پر طاقت کے استعمال کا ایک متعین کردارہے‘ وہیں صرف طاقت یا جنگ اس کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ناگزیر پہلو ہے‘ لیکن ہر دور کے مسائل‘ معاملات اور زمینی حقائق کی روشنی میں غلبۂ اسلام کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنا ضروری ہے‘ جو اس مقصد کے لیے مددگار ثابت ہو اور اس میں مداہنت و پسپائی یا رخصت و دل شکنی کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ مکی دور میں بھی غلبۂ اسلام مقصود تھا‘لیکن یہ دور تیاری کا دور تھا۔ جس کی تکمیل اور تنفیذ ہجرت اور اس کے بعد ہوئی لیکن مکہ اور مدینہ دونوں اس تحریک کے لازمی مرحلے ہیں ‘جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ حرا سے لے کر شعب ابی طالب تک‘ معراج سے ہجرت تک‘ بدر سے حنین تک‘ حدیبیہ سے فتح مکہ تک‘ سب اس وسیع تر حکمت عملی کے پہلو ہیں اور اس نمونے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں حسبِ ضرورت ایک نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا دور ہی اصل اسلامی مثالیہ (paradigm )ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ زمانۂ خلافت کے بعد غلبۂ اسلام کی کیا حکمت عملی ہو؟ یہ کیسے ہونا چاہیے؟ کیونکر ہونا چاہیے؟ گو‘ اس پہلو کو مولانا مودودی ؒکتاب میں لے آئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت مولانا مودودیؒ پر یہ پوری طرح واضح نہیں تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے؟ ۱۹۲۸ء سے ۳۹-۱۹۳۸ء تک کا زمانہ مولانا کے فکر کے نکھار کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مستقبل کے لیے اُمت کے سامنے ایک حکمت عملی پیش کی اور پھر اسے بروے کار لانے کا آغاز کیا۔ ان سنگ ہاے میل اور پیش آمدہ چیلنجوں کے خدوخال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس دور کے بھی کئی حصے ہیں۔ ابتدائی چار سال تک تو انھوں نے خاموشی سے‘ مگر جم کر اور پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ اس عرصے میں کچھ کتابیں بھی لکھیں‘ اورمستقبل کے منصوبے بھی بنائے۔ ان کے اپنے عزائم کو پختگی حاصل ہوئی اور رجحانات کی واضح صورت گری ہوئی۔ پھر ۳۳-۱۹۳۲ء میں یکسو ہو کر وہ اپنی زندگی کے اصل مشن کے لیے جہاد زندگانی کے وسیع میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ میری نگاہ میں اس جہادِزندگانی کے شروعات کا بہترین اظہار ترجمان القرآن کے پہلے سات برسوں کے ’اشارات‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اظہار مولانا کی شخصیت‘ وژن اور فکرکے ارتقا اور مولانا کے مستقبل کے تاریخی کردار کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمان کی ادارت سنبھالتے ہی انھوں نے جو پہلی چیز لکھی وہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مضامین ہیں۔بعدازاں تنقیحات‘ سود‘ پردہ‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ تفہیمات کے مباحث ہیں۔مولانا کے دوسرے دورِ حیات تک کی یہ مختصر سی جھلک ہے۔
۱۹۳۰ء کے عشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلامی‘ الٰہیاتی اور سائنسی موضوعات پر کلام کرتے ہوئے وہ مضبوط منطقی استدلال اختیار کرتے ہیں‘ لیکن جب معاملہ آتا ہے احساسات کو اُبھارنے کا‘ تو بعض تحریروں میں انھوں نے جھنجھوڑنے والا انداز بھی اختیار کیا۔ اس زمانے کی تحریروں میں مولانا کے ہاں انگریزی اور عربی کے الفاظ نسبتاً زیادہ ملتے ہیں‘ لیکن ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ان کے اسلوب میں آسان زبان اور عام فہم انداز فروغ پذیرہوتا ہے۔ اس سادہ نویسی کا شاہکار تفہیم القرآن اور خطبات ہیں۔ پھر آخری زمانے تک مولانا کا یہی انداز رہا ہے۔ گویا کہ ادیب کی حیثیت سے بھی مولانا کے ہاں ہمیں ایک ارتقا نظر آتا ہے۔ زمانۂ صحافت میں انھوں نے دوسروں کے کچھ اثرات بھی قبول کیے‘ اور یہ بالکل فطری بات تھی‘ لیکن پھر ان کا اپنا طرزِنگارش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کے طرزِنگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برٹرینڈرسل ہے۔ اس کے ہاں بھی الٰہیاتی‘ سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے‘ جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی نثر میں پیش کرتا ہے‘ اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے ۔ بحیثیت ادیب‘ مولانا کی یہ بڑی قابلِ قدر خدمت ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو علمی‘ دینی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشرتی موضوعات سے مالا مال کرتے ہوئے اظہار کی ایک شان دار روایت قائم کی۔ ادب صرف افسانہ نگاری اور شاعری تک محدود نہیں‘ بلکہ وہ زندگی کے سارے سنجیدہ موضوعات کو مختلف ادبی پیرایہ ہاے اسالیب میں زیربحث لاتا ہے۔ مقالے اور الٰہیاتی مضامین بھی ادب کے دائرے میں آتے ہیں۔
مولانا مودودی لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب میں کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ وہ اپنی توجہ موضوع پر مرکوز کرتے ہیں‘ الفاظ خود بخود موزوں ہو جاتے ہیں۔ دینی فکر اور معاشرتی علوم کو انھوں نے نہایت خوب صورت زبان میں پیش کیا ہے۔ وہ صنائع اور بدائع کے استعمال میں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نثرکا تجزیہ کیا جائے تو وہ کلاسیکی زمرے میں آتی ہے۔ یہ چیزیں تو اظہرمن الشمس ہیں‘ اس کے ساتھ جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے قرآنی اصطلاحات‘ قرآنی محاورے اور قرآنی پیغامات کو اُردو زبان میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ یہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
مولانا مودودیؒ کی فکری اور ادبی تخلیقات روایتی مذہبی تحریروں سے بڑی مختلف ہیں۔ ان میںفکر کے عمق کے ساتھ زندگی کی حرارت اور ادب کی چاشنی ہے‘ جس نے ان تخلیقات کو بولتی ہوئی تحریریں بنا دیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان میں دعوت کی روح اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ وہ حرکت کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ وہ خود بھی بیدار ہیں اور دوسروں کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر عمل اور حرکت پر اکساتا ہے۔ مولانا نے طنزاور مزاح کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے‘ ان کی تحریر میں بلا کی شوخی ہے جو ان کی خوش ذوقی ہی کا ثبوت نہیں‘ بلکہ ادبی صنعت کاری کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔
آج کل مغرب کے زیراثر ’’اسلام کی اصلاح‘‘کرنے والوں کے لیے ترکی کے مصطفی کمال پاشا کا نام ایک رول ماڈل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۰ء میں اتاترک پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’]کتاب اتاترک کے[ مصنف نے ازراہ انکسار اس کتاب کو اتاترک کی سوانح عمری قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے ’’قصیدۂ نعتیہ درشانِ اتاترک علیہ السلام‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ترکی میں ایک نبی مبعوث ہوا تھا… یہ مبالغہ جس شخص کے حق میں کیا گیا ہے اسے مرے ہوئے ابھی کچھ بہت زیادہ دن بھی نہیں گزرے کہ ماضی کے دھندلکے سے فائدہ اُٹھا کر اسے دیوتا بنا ڈالا جائے۔ پرانے زمانے کے مچھر کو آج ہاتھی بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ہم عصروں کی آنکھوں میں کہاں تک خاک جھونکیں گے... ]کتاب کے مصنف کے بقول‘ اتاترک[ نے مذہب ]اسلام[ کی اصلی روح کو برقرار رکھتے ہوئے درویشوں اور مولویوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ مذہب اسلام میں دنیاوی ترقیوں کا ساتھ دینے کی پوری پوری صلاحیت ہے‘ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ درویشوں اور مولویوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت ترکی کی سرزمین کو اتاترک نے ملائوں کے وجود سے پاک کیا‘ اور فی الحقیقت اتاترک کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی اصلاح کی تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی--- بے معنی الفاظ کا کتنا عجیب مجموعہ ہے۔ ان لوگوں کے ’’لچک دار اسلام‘‘کی کیا تعریف کی جائے‘ ] ان کے نزدیک[ اس کم بخت میں اس غضب کی لچک موجود ہے کہ دنیاوی ’’ترقیوں‘‘ کی خاطر قرآن کا قانون منسوخ کردینے تک کی گنجایش اس میں نکل آتی ہے۔ اور اس ’’مذہب اسلام کی اصل روح‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ ملا اور درویش کو سامنے رکھ کر اس طرح ڈائنامائیٹ سے اڑایئے کہ قرآن و سنت بھی ساتھ ساتھ اڑ جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کا نام ’خالص روحِ اسلام‘ ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ مئی-جون ۱۹۴۰ئ‘ ص ۳۲۲-۳۲۷)
مولانا مودودیؒ مقصد سے لگن رکھنے والے ایک ایسے ادیب اور مفکر ہیں جنھیں اپنے مخاطبین کے دل میں پیغام اتارنے اور ان کی شخصیت کو بدلنے سے غرض ہے۔ مگر وہ اس غرض کے لیے زور زبردستی کا ویسا رویہ اختیار نہیں کرتے‘ جو عموماً سیاسی یا مذہبی عناصر کے طرزِ تخاطب کی پہچان اور ان کا عیب ہوتا ہے۔
ادب نام ہے اثرانگیزی کا اور یہ اثرانگیزی مولانا کی تحریر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروع کے دینی ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے علما نے تفسیر‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ اور تاریخ پر بڑی گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ لیکن ان کے اسلوب کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق اس دنیا سے نہیں ہے‘ جسے وہ مخاطب کر رہے ہیں۔ بعض مستثنیات کے سوا ان کی زبان اتنی ادق اور محاورے اتنے بوجھل اور مثالیں ایسی ہوش ربا ہیں کہ آپ ان میں سے کچھ مواعظ کو تو محفل میں بیٹھ کر بآواز بلند پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن اُس زمانے میں دینی کتابوں کا کلچر یہی تھا۔ تاریخ پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کتاب بڑی عمدہ ہے‘ لیکن اگر آپ جملے کی طوالت دیکھیں تواندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔ یہی صورت دوسرے علما کی تحریروں کی ہے حتیٰ کہ مولانا مناظراحسن گیلانی ؒتک کا طرزِ تحریر اس روایت سے جان نہ چھڑا سکا۔ اس فضا میں مولانا نے دینی موضوعات پر تحریر و نگارش کا اسلوب بدل کر رکھ دیا۔ صاف نظر آتا ہے کہ دینی ادب کی زبان اور اسلوبِ بیان پر مولانا مودودیؒ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور بحیثیت مجموعی علماے دین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوبِ تحریر میں ایک واضح تغیر واقع ہوا ہے‘ مثلاً تفسیر میں مولانا عبدالحقؒ کی تفسیرحقانی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجیے‘ اور پھر پیر کرم شاہ صاحبؒ کی ضیاء القرآن دیکھیے‘ ان کے اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس اسلوب نگارش اور اندازِ تحریر کو جس شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ بحیثیت ادیب مولانا کا یہ بڑا منفرد پہلو ہے‘ جس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اگر انصاف سے کوئی نقاد تحقیق و تجزیہ کرے تو وہ دواور دو چار کی طرح دکھا سکتا ہے کہ کیا فرق واقع ہوا ہے۔
ایک مفکر(thinker)‘ مصلح (reformer) اور مدبّر (statesman) کی حیثیت سے مولانا مودودی ؒکی شخصیت کو زیربحث لانا ایک اہم موضوع ہے۔
جب اسلامی فکریات کے وسیع ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی فکرپر سب سے زیادہ جس شخص نے نہایت گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہ مولانا مودودی ؒہیں۔ ان کی اثرپذیری کا دائرہ اپنی وسعت اور عمق کے اعتبار سے‘ اور اپنی اصابت فکر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔
بلاشبہہ دوسرے مفکرین اور خادمانِ دین نے بھی بیسویں صدی میں اسلامی فکر کو مالا مال (enrich) کرنے کے لیے بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور ان کی حیثیت کہکشاں کے روشن ستاروں کی سی ہے اور اس میں ان کے ہاں ایک دوسرے سے اثرپذیری بھی نظرآتی ہے ۔ تاہم میری نگاہ میں مولانا مودودیؒ کو جس بنا پر منفرد مقام حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ انھوں نے وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک اس وقت کے حالات کی روشنی میں اسلامی فکریات کے قائدین نے انجام دیا تھا۔(ملاحظہ ہو‘ میرا مضمون ’’دینی ادب‘‘ مشمولہ: تاریخ ادبیات پاک و ہند‘ ج ۱۰‘ ص ۲۶۱-۳۷۶‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور)
اس کی ایک مثال اسلام کے لیے ’تحریک‘ کے لفظ کا استعمال ہے‘ جو بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی علامت اور پہچان بن گیا۔ اس اصطلاح کی کچھ وہی حیثیت ہے جو دوسری صدی اور اس کے بعد کے زمانے میں ’شریعت‘ کی اصطلاح سارے دینی لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ قرآن پاک میں لفظ ’شریعت‘ راستے اور طریقے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ہماری فکری تاریخ میں لفظ ’شریعت‘ دوسری صدی میں داخل ہوتا ہے‘ جب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے پھیلائو اور نئے تہذیبی مسائل میں اسلام کی اُبھرتی ہوئی قوت کو پیش آمدہ مسائل کا کیسے جواب دینا ہے؟ اسلامی دعوت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی سوسائٹی‘ اسلامی اداروں کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی نظامِ زندگی کیسے پیش کیا جائے؟ اصول فقہ اور فقہ دونوں کی نشوونما‘ ترقی اور ارتقا دراصل اس ضرورت کو پورا کرنے کی بروقت‘ مؤثر اور کامیاب کوشش تھی۔ اس عظیم کارنامے نے اگلے ۱۲۰۰ برسوں میں اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت اور خود دین اسلام‘ اور اسلام کے سیاسی نظام کو ایک ایسا بنیادی ڈھانچا عطا کیا‘ جس سے وہ ہر طوفانی تھپیڑے اور ہر سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکا اور اس کے ذریعے وہ ہردور میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ کرسکا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ شریعت بحیثیت اصطلاح‘ اسلام کے فکری اثاثے میں شامل ہوئی۔
فقہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عبادات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلاشبہہ عبادات اس کا اولین موضوع ہیں‘پھر خاندان اور عائلی زندگی وغیرہ کے معاملات۔ یہ دونوں موضوعات فقہی کتب کے تقریباً دو تہائی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فقہ میں مالی معاملات‘ معاشی احکام‘ تجارتی احکام‘ پھر قانون صلح و جنگ‘معاہدات‘ سزائیں‘ تعزیر‘ حد اور سیر کے ابواب ہیں۔ سیر (قانون بین الاقوام) کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کس طرح معاملہ کریں اور غیرمسلموں کے حقوق کی کیا صورت ہے؟ یہ تمام ابواب فقہ کے ہیں اور فقہ کا یہ نشوونما اور شریعت کا یہ وسیع تر نظام‘ دراصل قرآن و سنت کی دعوت کا فطری مظہر تھا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت پیش کی گئی تھی‘ جس نے ایک سوسائٹی‘ ایک تحریک‘ ایک ریاست اور ایک تاریخی رو کو پروان چڑھایا تھا‘ اس چیلنج کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ قانونی اور اداراتی سطح پر ایک ہیکل اساسی (infra-structure)کی ضرورت تھی۔ ان فقہا نے اسے دو اور دو چار کی طرح واضح کیا تاکہ آنے والے کل کے مراحل کو طے کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہت کے باوجود قانون بادشاہوں کی مرضی کے تابع نہیں تھا بلکہ شریعت کا قانون تھا ۔ کم و بیش ہر بادشاہ شریعت کے قانون اور قاضی کے حکم کے تابع تھا۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تحریک ایک حقیقت تھی تو اس کے ماحصل کو محفوظ و مستحکم کرنے کے لیے فقہ اور شریعت کی تدوین کی ضرورت تھی اور اس تاریخی عمل نے شریعت کی مرکزیت کو برگ و بار عطا کیے۔
پہلی اور دوسری صدی میں درپیش حالات کی طرح کا چیلنج اُمت مسلمہ کو دوبارہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے شروع میں بڑی شدت کے ساتھ پیش آیا‘ لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ تب فقہ توموجود تھی لیکن وہ نظام باقی نہیں رہا جس کو چلانے کے لیے وہ فقہ مدون کی گئی تھی۔ شریعت کا وہ ڈھانچا تو موجود تھا لیکن شریعت کہیں بھی قانون ارضی (law of land) کے طور پر موجود نہیں تھی۔ مغربی سامراج نے مسلم ممالک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ممالک پر ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی‘ سیاسی نظام پر بھی‘ عدالتی نظام پر بھی‘ اجتماعی نظام پر بھی‘ معاشی نظام پر بھی‘ تعلیم پر بھی‘ حتیٰ کہ خاندان اور فرد پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس منظرنامے میں یہ ایک ادھوری بات تھی کہ بس ’’خلافت بحال کر دو‘‘۔ جو شخص بھی اسلام کے مزاج کو سمجھتا تھا اور وقت کے بحران اور اس کی اصلاح کا صحیح نقشۂ کار اس کے سامنے واضح تھا‘ اسے یہ بات بڑی سطحی اور غیرفطری لگتی تھی۔ ہم یہ دیکھتے ہیںاس موقع پر اُمت کے لیے ایک نقشۂ کار اور ایک واضح حکمتِ عملی متعین کرنے کا جو کام مولانا مودودیؒ نے کیا‘ وہ کم و بیش اسی نوعیت کا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ تب ہم ایک نئی اصطلاح سے روشناس ہوئے اور وہ ہے لفظ ’تحریک‘۔
جس طرح اولین دور میں لفظ ’شریعت‘ نہیں تھا لیکن اسلام کے منشا کو بیان کرنے کے لیے ’شریعت‘ کا جامع لفظ آیا۔ آج اگر کوئی سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟ تو اس کا فوراً جواب ملے گا ’’شریعت ِاسلامی‘‘۔ گویا شریعت‘ اسلام کے نظام کار کی مجسم کی صورت میں اس زمانے میں آئی‘ جب اسلام ایک غالب اور ایک تاریخ ساز قوت تھا۔ وہ قوت‘ اپنی اخلاقی اور تہذیبی برکت کے ساتھ دنیا کے شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب میں کارفرما نظر آرہی تھی۔ اس زمانے میں اس کی حرکت کے پہلو کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب حرکت اور پھیلائو کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ اور اُمت جمود ہی کا شکار نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے ایک دوسری تہذیب کے سانچے میں ڈھل جانے کی نوبت آگئی‘ تو نئی ضرورتیں اُبھریں۔ اب اسلام صرف اقتدار ہی سے محروم نہ تھا‘بلکہ وہ ادارے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت اور ریاست کے ستون تھے اور اس کی پوری عمارت کو تھامے ہوئے تھے‘ ایک ایک کر کے منہدم ہوگئے‘ اور ان کی جگہ ایک دوسری تہذیب سے درآمد شدہ اداروں کو مسلمانوں کی سرزمین پر مسلط کر دیا گیا تو ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اب شریعت کو دوبارہ زندگی کی رہنما قوت بنانے کے لیے ایک نئے وژن اور نئی اجتماعی تحریک اور نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کا صحیح وژن‘ایمانی دانش اور متوازن بصیرت کے ساتھ بیان کیا جائے‘ اس بصیرت کی وسعتیںاس کے اہداف کے ساتھ آشکارا کی جائیں ‘ اس کو بروے کار لانے کے لیے قوت عمل‘ اس کے نظامِ کار کی منہج اور اس کے لوازمات کی فکر کی جائے۔ اور پھر عملاً وہ جدوجہد برپا کی جائے جو دین کی اقامت کا ذریعہ بن سکے۔
یہی وہ چیز تھی جس کے اظہار کے لیے مولانا مودودی ؒنے دین و دعوت اور نظامِ زندگی اور قانونِ حیات کے تصورات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔ انھوں نے قوی دلائل کے ساتھ اسلام کا جو انقلابی تصور پیش کیا وہ ’تحریک‘ کے لفظ میں ڈھل گیا۔ ان کے فکر کا اصل آہنگ یہ پیغام ہے کہ: اسلام ایک دین‘ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون‘ ثقافت‘ طرزِمعاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسلام محض ایک نظری فلسفہ نہیں‘ بلکہ عقیدہ‘ اخلاق‘ قانون‘ معاشرت‘ تہذیب و تمدن اور اقدارحیات کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا صورت گر بھی ہے اور اس طرح وہ ایک تاریخی قوت ہے‘ جس کے داخلی وجود میں یہ صلاحیت کار ہے کہ وہ اپنے کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دے‘ انھیں متحرک اور منظم کر کے ایک جدوجہد کا موج در موج حصہ بنا دے۔ دوسرے یہ کہ اسلام‘ دین کے ساتھ ساتھ‘ ایک پیغام‘ ایک دعوت‘ ایک تبدیلی کا عمل ہے۔ جب دین کی ان تینوں جہتوں کے ساتھ‘ عقیدہ‘ عبادت‘ نظامِ زندگی اور قانون اور معاشرت اور پھر پیغام‘ دعوت‘ جدوجہد اور نفاذ کی منظم کوشش کی جائے تو سب مل کر اسلام کی حقیقی منشا بن جاتی ہے‘ جسے ’تحریک‘ کی اصطلاح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔
بعض علما نے مولانا مودودیؒ کی اس پکار کو ’بدعت‘ قرار دے کر ناگواری کا اظہار کیا‘کچھ نے بالکل ہی مسترد کر دیا‘ مگر ان افراد کے نامناسب ردعمل نے بہت جلد اپنی اپیل کھو دی۔ آج اُن پیشوائوں کے ارادت مند بھی انھی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں‘ جنھیں وہ کل مذموم قرار دے کر مولانا مودودیؒ کے خلاف فتووں کی بارش کر رہے تھے۔ گویا وقت اور حالات کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے اسلام کے اصل پیغام کو اس کے جوہر سے جوڑنے‘ بیان کرنے اور دل و دماغ اور قول و عمل میں انقلاب برپا کر کے اس کو ایک زندہ تحریک بنانے کا کام کیا۔ مولانا مودودی ؒاور اس دور میں احیائی فکر کے علم بردار مفکرین کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری میں اس وقت اُمت کے قائدین نے انجام دیا تھا۔ اس وقت ایک چلتے ہوئے نظام کو مستحکم کرنے اور انحراف کی یورش کے مقابلے کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ضابطے اور قانون کا پابند کرنا اصل ضرورت تھی‘ اور اب قانون اور ضابطے کا ایک مثالیہ تو موجود تھا مگر وہ قوتِ قاہرہ مفقود تھی‘ کہ جس کے ذریعے نظریات نظامِ حیات بن جاتے ہیں۔
اب اگر آپ اس کی تہ میں جانا چاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ خلافت و اسلامی ریاست دراصل اس تحریک ‘ اس جدوجہد اور تبدیلی کا نتیجہ ہوگی۔ اس کے لیے فکر کی تبدیلی‘ فکر کے ساتھ کردار کی تبدیلی اور کردار کے ذریعے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اس مقصدکے لیے منظم جدوجہد کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں‘ جو بالآخر اسلامی معاشرے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی ریاست اور حکومت الٰہیہ کے قیام پر منتج ہوگی۔ دیکھیے کہ خلافت کی اصطلاح جس نے ۱۹۲۴ء میں ایک خاص انداز میں پوری اُمت کو صدمے سے دوچار کیا تھا‘ اس کے زیادہ جان دار متبادل کے طور پر حکومت الٰہیہ‘اقامت دین‘ اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ اور پیاس اپنے نئے روپ اور نئے وژن کے ساتھ کس طرح اس مقام تک آپہنچی ہے۔
علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ کے سامنے دراصل یہ بنیادی ایشو تھا۔ علامہ نے اپنے انداز و اسلوب اور اپنے دائرے میں اور اشاروں میں اور مولانا مودودیؒ نے تفصیل‘ وضاحت اور تسلسل کے ساتھ اس کا جواب دیا۔مولانا مودودیؒ کی نگاہ میں اصل مسئلہ خلافت کے کسی روایتی ادارے یا symbolکا قائم ہوجانا نہیں‘بلکہ خلافت تو اس وژن اور اس نئے عمل اور اس تہذیب کی سرتاج ہے جس کے لیے ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے‘ یعنی استخلاف فی الارض کی ذمے داری کو پورے شعور کے ساتھ ادا کرنا۔
آج کے دور اور حالات میں خلافت اور اقامت دین کے لیے مطلوب بنیادوں اور لائحہ عمل کے جو خدوخال سیدمودودی ؒنے پیش کیے ہیں‘ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز فکر اور فکرمیں بھی اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ وقت کی غالب فکر پر گرفت‘ تنقید و تنقیح اور ایک نئے انسان کو تیار کرنا ہے۔ ایساانسان جس کا وژن‘ اخلاق‘ کردار‘ صلاحیت کار‘ تعلیم‘ وسائل اور اوقات کار کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے بعد دوسری چیز ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے۔ چونکہ یہ کام محض انفرادی طور پر انجام نہیں پاسکتا‘ اس کے لیے ایک منظم اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔ ایسے تمام اچھے انسانوں کو منظم کر کے اجتماعی جدوجہد میں لگا دینا‘ تاکہ اسلام وقت کی غالب قوت بن کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا سکے۔ اس مطلوبہ قوت کا جو وژن سامنے آتا ہے وہ ہے تبدیل شدہ انسان اور اس کے ذریعے ایک اچھے معاشرے کا قیام۔ اس کے ادارات میں تعلیم‘ معاشرت‘ معیشت شامل ہے اور جس کا موثر ترین پہلو انقلاب قیادت اور اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ صرف ایک خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسلام کو ایک کارفرما اور قائد کی حیثیت سے سامنے لانا ہے۔
سید مودودی کے علمی کارنامے کا احاطہ اور جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ مگر اس جائزے کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا بڑا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کسی قدر غوروفکر اور مزید تحقیق و تحلیل (analysis) کے طور پر چند نکات مرتب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:
سید مودودیؒ کے علمی کارنامے کی صحیح تفہیم کے لیے دو بنیادی باتوں کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے: اول یہ کہ ہماری تاریخ کی پہلی پانچ صدیاں اسلامی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی صورت گری اور استحکام اور ترقی کے باب میں اسلام کی اجتہادی اور انقلابی قوت کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج اور تاریخی کردار کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم عرض کریں گے کہ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ نہ صرف اسلام کے معیاری ادوار ہیں‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اسلامی مثالیے کے خدوخال متعین کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد کے ساڑھے چار سو سال کے سیاسی نشیب و فراز سے اگر صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ دور علوم اسلامی کی تدوین کا زریں زمانہ ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ تصوف‘ ان سب کے لیے یہ تعمیری اور تشکیلی دور ہے۔ اور امام غزالی ؒ
کی ذات اور کام میں اس دور کا حاصل دیکھا جا سکتا ہے۔
امام غزالی ؒنے فقہ‘ کلام اور تصوف کے تینوں دھاروں کو اپنے وقت کے فکری اور تہذیبی چیلنجوں کی روشنی میں اپنی مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ایک نامیاتی اکائی (organic whole)میں مرتب اور منضبط کرنے کی بڑی راہ کشا اور کامیاب کوشش کی۔ پھر ایسی ہی ایک کوشش بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ مرحوم و مغفور کے کام میں نظر آتی ہے۔
سید مودودیؒ کے کام کو بیسویں صدی کے فکری اور تہذیبی چیلنج کے پس منظرہی میں سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ فکری اعتبار سے ان کا کام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے کام کا تسلسل اور اس علمی روایت کے بیسویں صدی میں احیا کی ایک شان دار مثال ہے۔
دوسری چیز وہ فکری اور تہذیبی ماحول ہے جس میں سید مودودی ؒنے یہ کام انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ۲۰۰ سال کا فکری جمود‘ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(renaissance)‘ روشن خیالی (enlightenment) اور لبرل اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ‘ صنعتی انقلاب‘ مغربی استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار پوری دنیا بشمول مسلم دنیا پر ان تسلط تھا۔ اس پس منظر میں شروع شروع میں مسلمانوں میں دو رجحان رونما ہوئے۔ ایک تحفظ اور اپنی میراث کو بچانے کے لیے قدامت پسندی اور جدید سے عدمِ تعاون اور اجتناب کا رویہ تھا‘ اور دوسری جانب اپنے تشخص اور روایت سے بے نیاز ہوکر غالب قوت سے ہم آہنگی اور ہم رنگی اختیار کرنے اور لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر عملاً مغربی تہذیب‘ طرزفکروعمل‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں سے نئی ٹکنالوجی اور طرزمعیشت کو بلاتفریق وامتیاز (indiscriminately)اختیار کرنے کا۔
روایتی مذہبی طبقات پہلے راستے میں نجات دیکھ رہے تھے‘ اور جدید تعلیم یافتہ اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات دوسرے کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک وسیع خلیج تھی جسے پُر کرنے کے لیے کئی موثر کوششیں ہوئیں‘ جن میں سب سے اہم اسلام اور مسلم تہذیب و تاریخ پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی وہ کاوش تھی‘ جو سید امیرعلی‘ شبلی نعمانی اور ندوۃ العلما اور دارالمصنفین نے انجام دی۔
اس پس منظر کے ساتھ برعظیم پاک و ہند میں دو آوازیں اُبھریں جو اپنی تازگی‘ وسعت اور انفرادیت (originality) کے اعتبار سے بظاہر اپنے ماحول میں اجنبی‘ لیکن دراصل اسلام کے پہلے ۵۰۰سال کی روایت کے احیا کی نقیب تھیں---ایک‘ اقبال اور دوسرے ابوالکلام آزاد۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اسلام کی راہ وسط کو اجاگر کیا اور قدیم اور جدید کے درمیان راہِ صواب کی نشان دہی کی۔ لیکن صرف اس حد تک کہ جمود پر ضرب لگائی‘ مغربیت کے طلسم کو چیلنج کیا اور اسلام کے حقیقی پیغام اور مشن کی طرف مراجعت کی دعوت دی--- جس شخص نے اس نقشے میں رنگ بھرا اور اس دعوت کو فکروعمل دونوں میدانوں میں ایک حقیقی اور موثر تحریک بنانے کے لیے شب و رز وقف کر دیے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ جنھوں نے یہ کام روایت سے بغاوت کے ذریعے نہیں بلکہ روایت کو تجدید کے عمل کا حصہ بناکر‘ اور جدید کو نظرانداز کر کے نہیں‘ بلکہ جدید کو اپنی تہذیبی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر اور خذما صفا ودع ما کدر (جودرست ہے اس کو قبول کرلو اور جو نادرست ہے اس کو رد کر دو) کے اصول کے مطابق انجام دیا۔ ان کے اس کام کے تین اہم پہلو ہیں:
۱- فکر اسلامی کی تشکیلِ نو
۲- اُمت کی کمزوری اور زوال کے اسباب کی تعین و تشخیص اور اصلاح احوال کے خطوطِ کار کی نشان دہی۔
۳- اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرنو کی جدوجہد کا عملی آغاز
یہی وہ تین کام ہیں جس کے باعث بیسویں صدی کی تاریخ میں سید مودودیؒ ایک مفکر‘ ایک مصلح اور ایک مدبر کی حیثیت سے بڑا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں اپنی تصنیفی زندگی کے ۶۰برسوں میں سیدمودودیؒ نے تقریباً ڈیڑھ سوکتب کی تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت انجام دی۔ انھوں نے تفسیرقرآن‘ تشریح احادیث‘ تعلیم فقہ کے ساتھ اجتہادی بصیرت سے دورِحاضر کے جملہ اہم علوم اور مسائل کے بارے میں اسلامی فکر کے اساسی اصول پیش کیے۔ ان کے اجتہادی کام کا دائرہ چند گنے چنے مسائل تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اصل ماخذ اور تاریخی روایت کے ساتھ‘ پوری فکرِاسلامی کی روشنی اور تسلسل میں تعمیر اور تشکیلِ نو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس کام کی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق ہوگی اور اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔
اس سلسلے میں سید مودودیؒ کا سب سے بنیادی کام عقیدے کی تشریح اور توضیح ہے۔ سیدصاحبؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے سب سے کلیدی تصور‘ توحید کے عقیدے کی تشریح اور اس کے تقاضوں کی تعلیم ہے۔ قرآن نے الٰہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے‘ اس دور میں اس کی واضح ترین تعلیم سید مودودی ؒکا سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے۔ توحید کے تصور کو شرک کی تمام آلایشوں سے پاک کرنا اور اللہ کو الٰہ ماننے کے مضمرات کو جس طرح سیدمودودیؒ نے بیان کیا ہے‘ وہ اظہارمدعا کی دنیا میں ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اللہ صرف خالق اور پالنہار ہی نہیں ہے‘ بلکہ وہ حاکم‘ آقا‘ مطاع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کے معنی ایک طرف اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے دامن میں پناہ لینا ہے تو دوسری طرف اس سے عہداطاعت کرنا ہے کہ پھر زندگی کے ہر شعبے میں اس کی رضا کا حصول‘ اس کے احکام اور ہدایت کی اطاعت اپنے آپ کو اور اپنے پورے معاشرے کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لینا ہی کمال ترقی و کامیابی ہے۔
یہ تصور ایک طرف روایتی مذہبی جمود کو پارہ پارہ کر دیتا ہے تو دوسری طرف زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے اور الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر محض عقل‘ تاریخ اور تجربے کے سہارے زندگی گزارنے والے تمام طریقوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ عبادت صرف مخصوص اسلامی مظاہر (rituals) کا نام نہیں‘ بلکہ پوری زندگی کو منصوص عبادات کی ادایگی اور ان کی رمزیت اور اثرانگیزی کی قوت سے اللہ کی بندگی میں دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور اسلام ہے ہی وہ دین جو ایک طرف انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کو خالق کائنات کی مرضی سے ہم آہنگ (harmonize)کرنے کا وہ طریقہ ہے جس پر پوری کائنات عامل ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مسلم ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل پیرا ہے۔ جب انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو کر اللہ کے قانون کی اپنے ارادے سے پابندی کرتا ہے تو وہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے اسے حقیقی امن و سلامتی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے رب‘ اپنی ذات اور فطرت‘ اور پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اطمینان کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ اسلام کے معنی یہی سپردگی ہے جو اطمینان‘ امن اور سلامتی پر منتج ہوتی ہے (اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o الرعد ۱۳:۲۸)۔
توحید کے اس تصور کی وضاحت کے بعد سیدمودودیؒ اسی توحید کی بنیاد پر پوری انسانی فکر اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ قرآن و سنت اور اسوئہ رسولؐ سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرشعبے کے لیے کافی و شافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے ہرایک پہلو کو انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کیا نقشۂ کار ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتا ہے‘ اور ایک متوازن فکرانسانی اور علوم عمرانی کی تشکیلِ نو کس طرح ان بنیادوں کے اوپر انجام دی جا سکتی ہے۔ قانون‘ سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ تعلیم‘ حقوقِ انسانی‘ عالمی نظام‘ غرض ہر پہلو پر انھوں نے اخلاقی دیانت‘ اجتہادی بصیرت اور عمیق تحقیق کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی خدمت انجام دی ہے۔ فردِواحد نے وہ کام کردکھایا‘ جو بڑے بڑے ادارے اور محققین کی بڑی بڑی جماعتیں بھی بمشکل انجام دے پاتی ہیں۔
سید مودودیؒ نے تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کی تصویرکشی کے ذریعے انسانی زندگی کے اصل ایشوز کو مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ آفرینش کے آغاز سے تاریخ دو ہی قوتوں کی پیکار کی آماجگاہ ہے‘ ایک اسلام ہے اور دوسری جاہلیت (یعنی اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کا نقشہ بنانے کی کوشش خواہ اس کا نام اور آہنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو)۔ یہی وہ کش مکش ہے جس میں انسان کو استخلاف فی الارض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ جو اُمت مسلمہ کا مشن‘ یعنی شہادت حق اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور جس کے لیے نفس سے جنگ سے لے کر کارزارحیات میں شر‘ ظلم اور فساد کے خلاف جہاد ہی اللہ کے بندوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ تزکیہ نفس سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک‘ یہ سب اس نقشۂ راہ کے مراحل ہیں۔ حق کے غلبے کی جدوجہد ہی ایمان کا اصل تقاضا اور ثمرہے۔
سید مودودیؒ نے اسلام کے اس وژن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کام کیا‘ اس کے تجزیے سے ان کے علم الکلام کے خدوخال مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے اولین دور میں وژن کی صحت اور جدوجہد کی قوت کا سرچشمہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی اور سنت رسولؐ پر مضبوطی سے قائم رہنا تھا۔ بڑھتی ہوئی اسلامی قلمرو اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے پھیل جانے سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین اجتہاد اور اجتہادی فیصلوں کی تنفیذ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ فکر‘ تعلیم اور معاملات کا کچھ ایسا آہنگ بن گیا کہ فقہ اور روایت کو اولیت حاصل ہوگئی اور قرآن و سنت سے بلاواسطہ ربط و رہنمائی میں اضمحلال آگیا۔ جن نام نہاد مصلحین نے فقہ اور روایت سے بغاوت کی بات کی‘ وہ اسلام کی روح اور اس کے مشن سے ناواقف تھے۔ لیکن فقہ اور روایت سے رہنمائی اور تعلق کو منقطع کیے بغیر احیاے اسلام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت سے رشتہ استوار کیا جائے اور نئے حالات میں رہنمائی کے لیے ترتیب وہی قائم کی جائے جو دورِاول میں تھی--- یعنی قرآن‘ پھر سنت اور پھر اجتہاد۔ جس میں سلف کے اجتہاد اور اس کے نتیجے میں ظہورمیں آنے والی فقہ سے اصولوں کے مطابق استفادہ ہے۔ پھر جس طرح اصولین نے اپنے زمانے میں اپنے وقت کے علوم اور مسائل کو سامنے رکھ کر اسلام کی رہنمائی کو متعین کیا‘ اسی طرح آج کا ماحول اس پورے علمی اثاثے کو سامنے رکھ کر لیکن جدید علوم اور عصری مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے سائنس‘ عمرانی علوم اور دورِ جدید کے اس ’عرف‘ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے‘ جو مقاصد شریعت سے ہم آہنگ اور احکام اسلام سے متصادم نہ ہو۔
تحقیق‘تجزیے ‘ استنباط اور اطلاق کی یہ وہ حکمت عملی ہے جو سیدمودودیؒ نے اختیار کی۔ اسی طرح ان کے علم الکلام میں دورِ جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اسلامی علوم و افکار کی تشکیل جدید ہی نہیں بلکہ فکرِانسانی کی تشکیلِ نو کے اس عمل کو انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے خطوطِ کار کا تعین اور اس کے استعمال سے حاصل شدہ نتائج کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ گویا فکر اور فکری عمل کو آگے بڑھانے کے راستے اور طریقے بتاکر‘ ان دونوں میدانوں میں بھی سیدمودودی نے نئے چراغ روشن کیے اور مستقبل میں کام کرنے والوں کے لیے تابندہ نقوشِ راہ چھوڑے۔ ان کے سارے کام کا ہدف اللہ سے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا اور ان کے اندر اپنے رب سے مغفرت کی طلب بڑھانا تھا۔ لیکن فرد کی اصلاح‘ فکر کی تشکیلِ نو‘ وقت کے فتنوں اور چیلنجوں کا جواب‘ اسلامی زندگی‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست اور اسلام کے عالمی نظام کے خدوخال کی وضاحت کے ساتھ ان کی توجہ ایک اور کلیدی نکتے پر مرکوز رہی‘ اور وہ یہ کہ اچھے انسانوں کی تیاری کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ذریعے انقلابِ قیادت کا معرکہ کیونکر سر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملاً مربوط و منظم جدوجہد کی کہ دین کے قیام‘ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام اور ہرسطح پر قیادت کی تبدیلی اور فاسد قیادت سے زمامِ کار‘ صالح قیادت کی طرف منتقل کرکے انسانیت کی قیادت اہلِ خیر کے ہاتھوں میں لائی جاسکے۔ سیدمودودیؒ کی فکر کا مرکزی نکتہ توحید کے تصور کی وضاحت ہی نہیں ہے بلکہ توحید کے تصور کی بنیاد پر انسان سازی اور زمانہ سازی کا عمل ہے۔ یہ کام انھوں نے فکر کے میدان میں بھی انجام دیا اور پھر ایک مصلح کی حیثیت سے عملاً اس جدوجہد کو برپا کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ ایک دیدہ ور مفکر تھے‘ جن کے ہاں فکری ارتقا جاری رہا۔ وہ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر اپنی آرا پر نظرثانی کے لیے کھلا دل اور ضروری لچک رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ابتدا میں پہلے تحدید ملکیت زمین کے بارے میں مولانا کا کم و بیش وہی نقطۂ نظر تھا‘ جس پر فقہا عامل تھے۔ تاہم‘ جماعت اسلامی کا منشور تیار کرنے کے مختلف مراحل (۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ئ) میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لامحدود ملکیت زمین ظلم اور انسانی سماج میں شدید عدم توازن کا باعث بن جائے توزمین کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اس میں ناجائز ملکیتی زمینوں کو بحقِ سرکار ضبط کر کے ضرورت مند کاشت کاروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور جائز ملکیتوں میں زرعی اور بارانی زمینوں کو ایک حد سے زیادہ کی صورت میں‘ ریاست خرید کر مستحق افراد کو دے سکتی ہے۔ ان کے ہاں یہ تحدید کمیونسٹوں کے قومیانے والے تصور سے بالکل مختلف اور عدل پر مبنی ہے۔
مولانا مودودی کے ہاں جمود نہیں ہے‘ وہ سوچ کر رائے قائم کرتے تھے لیکن اپنی رائے پر قفل نہیں لگاتے تھے۔ شوریٰ میں تو میں نے دیکھا کہ مولانا نے لوگوں کو گھنٹوں بحث کرنے کا موقع بھی دیا ہے اور اپنی آرا کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ہم سب ان کے شاگردوں اور خوردوں میں سے ہیں لیکن وہ ہماری رائے کو بھی پوری توجہ سے سنتے تھے‘ نوٹس لیتے تھے‘ جواب میں دلیل دیتے تھے اور پھر قائل کرنے اور قائل ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایسے بلندپایہ انسان کا ایسے کھلے انداز میں شورائی آداب پر عمل کرنا‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ہی کا حصہ تھا۔
زندگی کے نئے مسائل اور نئی اُلجھنوں پر جب بھی سوچنے کا مرحلہ آتا تو مولانا اس پر ازسرنو غور کرتے تھے۔ جس چیز کے ایک سے زیادہ حل ہو سکتے تھے‘ ان میں ترجیح قائم کرتے تھے۔ مجھے مرکزی شوریٰ میں دو دن تک جاری رہنے والی وہ بحث اچھی طرح یاد ہے جس میں جداگانہ انتخابات کے مسئلے پر بات ہوئی تھی۔ یہ بحث محض نظریاتی نہیں تھی‘ بلکہ یہ اخلاقی اور اصولی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کے گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ اس پر شوریٰ میں دو آرا موجود تھیں۔ مولانا نے ایسے امور کو بڑی نزاکت سے نبھایا اور شوریٰ میں بالآخر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے (near consensus) کی کیفیت پیدا کی۔
مولانا مودودیؒ ایک مصلح کی حیثیت سے محض ایک نظریہ ساز (theorist) نہیں ہیں‘ بلکہ ایک عملی مصلح (active reformer) کی حیثیت سے ان کی نگاہیں ہمیشہ زمینی حقائق پر مرکوز رہتی ہیں۔ ایک ہمدرد معالج کے طور پر وہ مریض کو صحت یاب دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں اور مریض کی حالت کے مطابق نسخے میں ترمیم و تبدیلی بھی کرتے ہیں۔
عملیت پسند مولانا مودودیؒ میں خوداعتمادی تو بلا کی تھی‘ مگر خودپسندی کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی میں نہ تھا۔ وہ نئے حالات میں‘ دین کی روشنی میں‘ نئے تجربات اور نئے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور پورے عالمِ اسلام کی اصلاح کا انھوں نے بیڑا اٹھایا ‘اور اس عملی جدوجہد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے اور قیادت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جتنا بڑا کارنامہ انھوں نے فکری حیثیت میں انجام دیا‘ اتنا ہی بڑا کارنامہ انھوں نے عملی سطح پر بھی انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جماعت بنائی مگر جماعت اسلامی کا قیام بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے مترادف ثابت ہوا۔ جوں ہی انھوں نے جماعت بناکر دعوتِ عام دی تو وہ لوگ بھی جو ان کو ’ترجمانِ اسلام‘ کہتے تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے‘ بلکہ ان کے ناقد بن گئے۔ مولانا نے نئے حالات میں اسلامی فکر کے احیا اور تشکیلِ نو تک اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا‘ بلکہ دنیا کو بدلنے کی‘ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی‘ اُمت کو شہداء علی الناس کا کردار ادا کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھانے اور اقامت دین کی ذمے داری اٹھانے کے لیے سرگرم کر دیا۔ ان کی ذات میں مفکر اور مصلح‘ داعی اور منتظم‘ قائد اور مدبر کی صلاحیتوں کا اجتماع تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ان کے کردار کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔
l جدید خطوط پر تنظیم سازی :مولانا مودودیؒ نے اپنے عہدکی سرکردہ تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں اور نظاموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو ایک انقلابی تحریک کی ضرورت ہے جو محض ایک سیاسی تنظیم نہ ہو۔ اس تناظرمیں جماعت اسلامی کا وجود دراصل ایک نظریاتی تحریک کا روپ ہے۔ بنیادی پہلو یہ ہے کہ مولانا نے جماعت کے دستور میں پہلے ہی دن سے جو بنیادی چیز رکھی ہے‘ وہ اس کا وژن ہے‘ جس میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللہ کا تصور‘ اور اس کے تقاضے جماعت اسلامی کا محور ہیں۔ جماعت کے دستور کا سب سے اہم حصہ یہی ہے۔ اس میں پہلی بنیادی چیز اللہ کی حاکمیت‘ دین کی اقامت‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے پورے نظام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ازسرنو مرتب کرنے کا عزم اور سرگرم جدوجہد کا عہدہے۔ اس میں دوسری بنیادی چیزیہ ہے کہ ہرانسان قابلِ احترام ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معیارِ حق نہیں۔ اصل کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اسی میزان پر پرکھا جائے گا اور جو جتنا اس معیار سے قریب ہوگا ‘وہ اتنا ہی محترم ہوگا۔ جماعت کے قیام میں یہ اصول بھی کارفرما رہا کہ اس کی رکنیت بلاامتیاز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔ لیکن رکن وہ بنے گا جو شعوری طور پر اس ذمہ داری کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد کرے۔
مسلم تاریخ میں بیعت‘ امیر کے ہاتھ پر ہوتی تھی اور امیر کے مرجانے کے بعد دوسرے فرد سے بیعت ہوتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے نظامِ تنظیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: دعوت نہ تو امیر کی طرف ہے اور نہ بیعتِ امیر کی طرف‘ بلکہ دعوت بھی جماعت میں متعین کردہ نصب العین کی طرف ہے اور بیعت بھی جماعت کے ساتھ ہے‘ جسے حلفِ رکنیت کی شکل دی گئی۔ امیر پر نظام کو چلانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس کی قیادت تو کرے گا‘ اور بحیثیت امیر‘ نظام جماعت کے تحت اس کی اطاعت فی المعروف بھی ضروری ہے‘ لیکن امیر بھی اسی طرح دستور کا پابند ہے جس طرح ایک رکن۔ اسی طرح اطاعت نظام امر کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعوت امیر کی طرف نہیں‘ جماعت اوراس کے مشن کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا نظام معروف میں اطاعت اور منکر میں احتساب سے عبارت ہے۔ یہ جماعت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ میرے علم کی حد تک مسلمانوں کی اجتماعیت کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ نے پہلی مرتبہ تحریری دستور کے اندر احتساب کے حق کو حق ہی نہیں‘ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ہر رکن‘ شوریٰ اور پورا نظام امر‘ احتساب کے عمل میں شامل ہے۔ ہر رکن یہ عہد کرتا ہے کہ میں جہاں کہیں کوئی برائی دیکھوں گا ‘اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ مراد یہ ہے کہ رکنیت کے وجود میں احتساب کا حق ہی نہیں فرض بھی شامل ہے۔ دستور میں شوریٰ کے منصبی فرائض میں بھی احتساب شامل ہے۔ یہ اصول تو بڑی جمہوری پارٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے نظام کار کا جائزہ لیجیے‘ تو نظر آتا ہے کہ یا تو وراثت کا نظام کارفرما ہے‘ یا جس فرد کا وراثت‘ دولت اور اقتدار کے بل پر پارٹی پہ قبضہ ہے‘ وہی حرف اول ہے اور وہی حکم آخر۔
اس کے بعد ہے اختلاف راے کا حق۔ مولانا مودودیؒ نے اسے بھی ایک دستوری حق قرار دیا ہے‘ یعنی آپ پالیسی سے اختلاف رکھ سکتے ہیں‘ عقیدے سے نہیں۔ امیر سے اختلاف رکھ کر بھی آپ جماعت کے رکن رہ سکتے ہیں اور ایک وقت کی طے شدہ پالیسی کو بدلنے کے لیے افہام و تفہیم اور معروف شورائی ذرائع سے کوشش کرسکتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں بھی شورائی نظام کا ارتقا ہوا ہے‘ اورایک تدریجی عمل سے گزر کر جماعت نے ایک طرف امیر کو قیادت اور رہنمائی کا اختیار دیا ہے تو دوسری طرف پالیسی کو شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا ہے‘جب کہ آخری فیصلہ شوریٰ یا اجتماع ارکان کا استحقاق ہے۔ اس عمل سے شوریٰ کی برتری زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔
l نظام کی تبدیلی کا طریق کار اور حکمت عملی: مولانا مودودیؒ نے ملکی نظام میں تبدیلی کا جو طریق کار پیش کیا ہے‘ وہ افکار کی تبدیلی‘ کردار کی تعمیراور راے عامہ کی ہمواری کے لیے جمہوری‘ قانونی اور دستوری طریقے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں اس طریق کار کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا اور عملاً ملک کی سیاست میں دستوریت (constitutionalism) اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کی جدوجہد کی مثال قائم کی گئی۔ وہ سختی سے اس راستے پر کاربند رہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا: خفیہ جماعتوں کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں چونکہ یہ رجحان گڈمڈ تھا‘ اسی لیے عرب نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ میں آپ کوتلقین کرتا ہوں کہ آپ ان طریقوں کو اختیار نہ کریں جو فساد فی الارض کا ذریعہ بنتے ہیں۔ البتہ مسلمان جہاں پر محکوم ہیں اور غیروں کی غلامی میں ہیں‘ اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ جہادکی راہ اختیار کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ لیکن جن معاشروں میں آزادی ہے اور تبدیلی کے کچھ بھی جمہوری ذرائع موجود ہیں‘ وہاں آئینی اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا ہی مولانا کی نگاہ میں اور جماعت کے دستور کے تحت تبدیلی کا صحیح طریقہ ہے۔
یہاں ہمیں مولانا مودودیؒ مرحوم کی فکر کا یہ بڑا اہم نکتہ ملتا ہے‘ جسے علم السیاست میں ارتقائی عمل اور انقلابی عمل کہا جاتا ہے۔ مولانا نے بالکل ایک بیچ کا راستہ نکالا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ان کے تمام مقاصد تو انقلابی (revolutionary) ہیں‘ لیکن ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار ارتقائی (evolutionary) ہے۔ اسلامی انقلاب ہمارا مطلوب ہے‘ لیکن اس انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut)نہیں ہے اور نہ جبر کا کوئی طریقہ اس منزل کے حصول کے لیے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ذہنوں‘ معاشرے اور کردار کی تیاری کے ذریعے راے عامہ کو قائل کرتے اور اس طرح قیادت کی تبدیلی کا راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: قیادت کی تبدیلی کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ پہلے مولانا کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہییں۔ لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ اگر سیاسی پارٹیاں ان حدود کی پابندی کریں‘ جو شریعت نے اجتماعی زندگی کے لیے مرتب کی ہیں تو وہ اس ریاست کے نظام کار کو چلانے کے لیے نہ صرف معاون بلکہ ضروری ہیں۔ خاص طور پر سیاسی آزادی اور اختلاف راے کو اداراتی اور منظم شکل دینے کے لیے اس کو قبول کیا۔ اسی طرح ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص طرز پر جماعت کو تبدیلی کا صورت گربنایا۔ پھر انھوں نے جماعت کے ساتھ‘ معاشرے کے ہر طبقے کو فعال طور پر ساتھ لے کرچلنے کے لیے برادر تنظیموں کا ایک وسیع نظامِ کار وضع کیا۔
ایک اور مثال ہے‘ ان کا لیکچر : اسلام کا نظریۂ سیاسی ‘جو تقسیم ہند سے ۱۰برس قبل شائع ہوا تھا۔ اس میں مولانا نے امیر کے لیے زندگی بھر مامور رہنے اور شوریٰ کے مقابلے میں حق استرداد کو خلافت راشدہ کے تعامل سے لیا تھا۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ مولانا کے ہاں ہمیں دیانت اور علمی توسُّع کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بات کو ہمیشہ دلیل اور اعتماد سے پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی افہام و تفہیم اور دلیل سے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایسے ہر مشاہدے سے مولانا کی عظمت کا نقش گہرا ہوا ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین کا مرحلہ آیا اور میں نے مولانا کی اسلامی قانون کی تدوین والی تقریر کو Islamic Law & Constitution میں شامل کر کے اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کام شروع کیا تو اس موقع پر مولانا ظفراحمد انصاری‘ چودھری غلام محمد اور غلام حسین عباسی صاحب کے ہمراہ‘ مولانا مودودیؒ سے ان معاملات پر گفتگوئیں ہوئیں۔ مولانا بہت کھلے دل سے ہماری گزارشات پر غور فرمایا اور اس مکالمے کے نتیجے میں متعدد امور میں انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کی۔ مثال کے طور پر‘ امیر کے سلسلے میں مولانا نے رائے تبدیل کی اور کہا کہ دورِ امارت مقید ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خلفاے راشدینؓ توتقویٰ ‘ کردار اور اپنی خدمات کے اعتبار سے بہت اونچے مقام پر تھے‘ پھر وہ محض منتخب سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ستون اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور افضل ترین حضرات تھے‘ اس لیے ان کے اوپر یہ بھروسا کیا جا سکتا تھا لیکن‘ اگر آج ایک آدمی اختیار اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے ہٹانے کا راستہ کیا ہوگا۔
اسی طرح امیر یا لیڈر کو بھی شوریٰ کی رائے کا پابند ہونا چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کے ہاں اس میں بھی ایک ارتقا ہے‘ جس کا نقطۂ عروج تفہیم القرآن میں سورہ شوریٰ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص ( ۴۲:۳۸)پر تفسیری نوٹ ہے‘ جو پورے تفسیری لٹریچر میں منفرد شان کا حامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا ہے: ’’مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے‘ اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے… جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو‘ اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کر ڈالنا‘ اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظرانداز کر دینا زیادتی ہے… اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمدعلیہ نمایندوں کو شریک مشورہ کیا جائے… جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو‘ ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو‘ اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی‘ کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جوخدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں… اسلامی طرزِزندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انھیں بھی شریک مشورہ کیا جائے… خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راے لی جائے… ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے… اگروہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں‘ اور اصلاح نہ ہوتی دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے‘ اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر‘ اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۰۸-۵۰۹)۔ یہی چیز امیر اور لیڈر کے لیے ہے۔ اکثریت کی راے کو قبول کرنا اور اجماع پسندیدہ امر ہے۔ یہ آثار اپنے ارتقا کے ساتھ ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔
پھر جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے دستور کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں امیر کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم نے دستور میں سربراہ حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت تجویز کی تھی‘ جسے مولانا نے قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح جماعت کے پہلے دستور میں شوریٰ کا ادارہ موجود تھا‘ لیکن ان ارکان شوریٰ کو امیران افراد کی قابلیت‘ بصیرت‘ خدمات اور تقویٰ کی بنیاد پر نامزد کرتا تھا۔ اس کے بعد شوریٰ کو منتخب کرنے کا ضابطہ بنایا گیا۔ شوریٰ منتخب کرنے کے لیے بھی دو نوعیت کے حلقے بنائے گئے۔ ایک کل پاکستان سطح پر انتخاب رکھا گیا‘ جس میں پانچ افراد کا انتخاب تھا اور باقی تمام ارکان شوریٰ کو علاقائی حلقوں کی بنیاد پر منتخب کرنے کا ضابطہ مقرر کیا گیا تھا۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستورِ جماعت میں کل پاکستان بنیاد پر انتخاب کی الگ سے شق ختم کر دی گئی اور تمام علاقوں سے منتخب ارکان کی شوریٰ مقرر کی گئی۔ پھر۱۹۵۲ء کے دستور میں شوریٰ کے بارے میں یہ شق تھی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے۔ لیکن اگر شوریٰ اور امیر میں نزاع ہو تو کچھ امور میںشوریٰ‘ امیر کی رائے مان لے گی خصوصیت سے جن کا تعلق نصوص کی تعبیر سے ہو‘ اور کچھ امور میں امیر‘ شوریٰ کی رائے کو فوقیت دے گا خصوصاً انتظامی معاملات کے بارے میں۔ لیکن جب معاملات میں شوریٰ امیر کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر معاملہ ارکان میں بھیجا جائے گا اور اگر ارکان جماعت‘ شوریٰ کی رائے کو مان لیں تو پھر امیرمستعفی ہوجائے گا‘ اور اگر ارکان امیر کی رائے کو مان لیں توشوریٰ مستعفی ہوجائے گی۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستور جماعت میں یہ بات لائی گئی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے لیکن اگر اختلاف ہو تو امیر کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایک سیشن کے لیے فیصلے کو موخر کر دے‘ اور اگلے سیشن میں شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے اسے امیر مان لے۔ یہاں بھی وہی مشاورت‘ افہام و تفہیم اور شوریٰ کی بالادستی کا ارتقا ہے۔
اسی طرح مولانا کی رائے تھی کہ عورتوں کی شوریٰ الگ ہونی چاہیے اور مردوں کی الگ۔ لیکن جب عملی مشکلات اور بعض مختلف فیہ امور پر افہام و تفہیم کے پہلو پر مولانا سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورتیں بھی شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلموں کے بارے میں مولانا کی پہلے رائے یہ تھی کہ انھیں انتظامی امور میں مشورے میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی شوریٰ الگ بنائی جائے۔ لیکن جب مولانا سے اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی تو اس میں مولانا نے غوروفکر کے لیے خاصا وقت لیا۔ بالآخر وہ خود اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف نہ ہو‘ اور اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو ایسی صورت میں غیرمسلم بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں جہاں وہ سارے معاملات میں رائے دیں گے اور راے دہی میں بھی شریک ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
اُمت کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒؒ نے وسعت اور کشادہ روی کا انقلابی‘ جمہوری اور شورائی راستہ دکھایا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ایک ملک میں تبدیلی آنی چاہیے ‘پھر وہی ملک دوسرے ممالک میں تبدیلی لانے کے لیے ماڈل بنے گا۔ ان کی دعوت کا اولین ہدف اپنا وطن ہے‘ لیکن روے سخن پوری دنیا کی طرف ہے۔ عربی اور انگریزی میں اہم تصانیف اور تحریروں کے تراجم کا کام مولانا نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی شروع کروا دیا تھا۔ جماعت کی رودادوں میں ایک لمبی فہرست ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی بات اور اپنی آواز دنیا کے مختلف خطّوں اور علاقوں تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے گویا کہ پورا عالم (global reach) ابتدا ہی سے ان کے پیش نظر رہا ہے۔
اس طرح تحریک وتنظیم کے مابین ایک فرق بھی ہمارے سامنے آیا کہ اسلامی انقلاب کے لیے تحریکات تو ساری دنیا میں برپا ہوں‘ لیکن تنظیم ہر جگہ وہاں کے حالات کے مطابق الگ‘ آزاد اور اپنے قول و فعل کے لیے خود جواب دہ ہو۔ دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں گویا کہ وسیع ترعالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے نظم کا اور قانونی اور دستوری تعلق (link) نہیں ہے۔ آج بھارت‘ کشمیر‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جماعت کے نام سے کام ہو رہا ہے‘ فکر کی یکسانیت بھی ہے‘ لیکن طریق کار‘ حالات‘ ضروریات‘ دستور اور قیادت ہر مقام نے اپنے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ یہ مولانا کی عملیت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مولانا مودودیؒ ہی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغازکیا۔ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ئ) کے وقت بلاشبہہ مولانا مودودیؒ، سنٹرل جیل ملتان میں تھے‘ لیکن اگر مولانا نے اسلامی قانون کے موضوع پر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج‘ میں تقریر نہ کی ہوتی‘ اور وہ چار نکاتی پروگرام پوری قوم کے سامنے پیش نہ کیاہوتا تو قرارداد مقاصدکبھی پاس نہ ہوتی۔ یہ مولانا کی فکر‘ وژن اور جدوجہد تھی‘ جسے قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم‘ مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کی کوشش سے ’قرارداد مقاصد‘ کا جو مسودہ پہلی دستورساز اسمبلی نے منظور کیا‘ یہ مسودہ اسمبلی میں پاس ہونے سے قبل ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کو دکھایا گیا اور ان کی رضامندی کے بعد ہی وہ اسمبلی کے فلور پر پیش اور پھر منظور ہوا تھا۔
۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری کے تاریخی لمحات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس سلسلے میں علما کی جو نشست ہو رہی تھی‘ اس میں راجہبھائی ]ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری[ ‘خرم بھائی اور میں ان بزرگوں کے خادم کی حیثیت سے شریک تھے۔ جب پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ مگر کسی کے سامنے یہ بات واضح نہیں تھی کہ ہم نتیجے پر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ان دھواں دھار تقاریر کے آخر میں مولانا ظفراحمد انصاری صاحب نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ اس طرح کی تقریروں میں تو ہم کئی دن صرف کر دیں گے اور کچھ نتیجہ نہیںنکل سکے گا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس اجلاس کو موخر کردیتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا میں سے ہر شخص تحریر کر دے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے سربراہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒہوں‘ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے میں ان تجاویز کی روشنی میں ایک مسودہ تیار کرلیتا ہوں‘ اور پھر اس مسودے پر بحث کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل کو منظور کرلیں گے‘‘۔ سب نے اس تجویز کو بڑا پسند کیا۔
ہر ایک عالم دین کو سادہ کاغذدے دیے گئے‘ بیش ترنے لکھا۔ سب سے طویل مضمون مولانا راغب احسن مرحوم نے لکھا‘ لیکن وہ مضمون لفاظی اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ ان سب کے برعکس مولانا مودودیؒ نے پنسل سے فل اسکیپ کا ڈیڑھ صفحہ لکھا‘ جس میں انھوں نے منطقی ربط کے ساتھ‘ بڑے اختصار اور جامعیت سے بھرپور نکات بنا کر دیے کہ یہ اور یہ چیزیں ہونی چاہییں۔ چنانچہ علما کے ۲۲نکات کی بنیاد وہی مسودہ بنا‘ تاہم آخری مسودہ مولانا ظفراحمد انصاریؒ نے اپنے قلم سے لکھا۔ مولانا انصاری مرحوم کا مسودہ کم و بیش مولانا مودودیؒ کی تحریرہی پر مبنی تھا۔ اس دوران مولانا سلیمان ندویؒ استراحت فرما رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انھوں نے دوتین جگہ جزوی ترمیم و اضافہ کیا۔ پھر اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں سب سے پہلے اس کو پورا پڑھا گیا‘ پھر ایک ایک نکتے کی خواندگی ہوئی اور بالکل جس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے سربراہوں کو حجراسود اٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب کرنے میں شریک کر لیا تھا‘ اس طرح اس شرکت سے الحمدللہ یہ نکات متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی مولانا مودودیؒ اور مولانا انصاریؒکا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
جب علما کی دستوری ترامیم اور سفارشات آئیں تو اس میں متفقہ طورپر جو چیزیں مرتب ہوئیں ان میں بھی مولانا مودودیؒ کا سب سے زیادہ تعمیری اور تحریری حصہ تھا‘ تاہم اس میں دو‘تین اختلافی نوٹ بھی تھے اور وہ بہت معمولی نوعیت کے تھے۔ پھر جب ۱۹۶۱ء میں فیلڈمارشل صدر ایوب خاں کے زمانے میں متنازع فیہ عائلی قوانین کا آرڈی ننس (MFLO) آیا تو مولانا مودودیؒؒ ہی نے اس پر تنقید لکھی اور اس تنقید پر علما نے دستخط کیے‘ اور سب کی طرف سے وہ تنقید قوم کے سامنے آئی۔ اسی طرح ایوب خان کے دستوری کمیشن کے سوال نامے کا جواب بھی مولانا مودودیؒ نے لکھا‘ اور پھر تمام علما اور سیاست دانوں نے اس کو دیکھا اور اس کو اپنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی صلاحیت دی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کے مختلف سنگ میل ہیں اور ان میں سے ہرسنگ میل پر مولانا مودودیؒ کا نام اور کام ثبت ہے۔
اس کے بعد دستور میں درج مستقل نظام کے تحت متعین وقت پر انتخاب امیر کے لیے انتخابات منعقد کرائے۔ پھر جب ۱۹۷۲ء میں انھوں نے محسوس کیا کہ اب صحت اس ذمے داری کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی توانھوں نے رفقا ے جماعت سے کہا: اب آپ میری زندگی میں اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں جماعت نئے امیر پر مجتمع ہوجائے‘‘۔ یہ ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ جس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی جاگیر قائم کرنا چاہتا ہو‘ گدی قائم کرنا چاہتا ہو‘ یا سیاست میں اس کا کوئی ذاتی مشن ہو‘ وہ کبھی ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتا۔ سچی بات ہے کہ جماعت کے لیے زندگی‘ تطہیر‘ قیادت‘ شورائیت اور صحیح راستے پر قائم رہنے کے لیے اس مثال میں بڑی عظیم رہنمائی موجود ہے جسے سید مودودیؒکی تاریخ ساز اور عہدآفریں شخصیت نے پیش کیا۔
علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مولانا مودودیؒ بھی اس میں بہت گہرائی تک گئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے عصری تجربات‘ خصوصیت سے پارلیمنٹ کے وجود‘ انتخابی عمل‘ دستوری انداز‘ قانون سازی کے اسلوب‘ عدلیہ کی آزادی اور افراد کی آزادی اور حقوق--- غرض ان تمام چیزوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر اسلامی راسخ العقیدگی اور قرآن و سنت سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے نہ صرف دوسروں کو ان پر کاربند ہونے کا نہ صرف راستہ دکھایا‘ بلکہ خود بھی انھیں قبول کر کے دکھایا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا یہ حرکی اور لچک دار رویہ‘ عصرحاضرکے مسائل و معاملات میں ہوا کا تازہ جھونکا اور فکرودانش کے گلستان کا بہار آفریں منظر پیش کرتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایک منفرد علم الکلام دیا ہے۔ اسی ذیل میں مولانا مودودیؒ نے مسلم تاریخ کا محاکمہ (critique) لکھا ہے جو محض محاکمہ نہیں ہے‘ بلکہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک منفرد اسلوب اور زاویہ ہے۔ مولانا مودودیؒ تجدید و احیاے دین‘ خلافت و ملوکیت‘ سلاجقہ اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے علاوہ تفہیم القرآن کے اوراق میں ہمیں رہنمائی دیتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کو کیسے دیکھنا چاہیے اور ہم اس کی تعبیر کیسے کریں؟ ہم محبت یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہونے کے بجاے اپنے اندر عدل کی حس کو بیدار کریں۔ تاریخ کے اوراق اور ادوار میں تعمیروتخریب‘ اطاعت و انحراف‘ ظلم اور عدل‘ سنت اور بدعت کی موجودگی ہمیں نظرآئے‘ تاکہ ہر موقع پر کھلے ذہن کے ساتھ قوسِ قزح کے سب رنگ دیکھے جا سکیں۔ جہاں کہیں بنیادی اصول میں کوئی ایسا انحراف نظرآئے جو محل نظر ہو‘ یا قرآن و سنت کے مزاج سے مناسبت نہ رکھتا ہو‘ تو پھر اس پر تنقید بھی ہوسکے اور اس کی تصحیح بھی۔ اس کو مولانا مودودیؒ کے علم الکلام کا ایک حصہ تصور کیا جائے‘ یااپنی جگہ ایک مستقل علمی کارنامہ‘ بہرحال یہ بھی مولانا کی ایک بڑی شان دار اور ناقابلِ فراموش خدمت ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فکر بھی دی اور فکر کے ساتھ سوچنے کا اسلوبِ بھی دیا۔انھوں نے اُمت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کا مشن متعین کیا‘ اس کے لیے اسے بیدار کیا اور آگاہ کیا کہ ہم محض معاشی ترقی حاصل کرنے والی ایک قوم نہیں ہیں‘ بلکہ ہم ایک صاحبِ مشن اور صاحب شریعت قوم ہیں۔ اس صاحبِ مشن قوم کو ملکی اور پھر عالم گیر سطح پر کامیاب کرانے کے لیے حکمت کاراور حکمتِ عملی کو پیش کیا۔ اسی حکمت کار کا ایک حصہ جماعت اسلامی کا قیام ہے جس میں فکر ہے‘ اور عمل کا وسیع دائرہ ہے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کا بالکل نیا ماڈل دیا‘ اور نہ صرف ماڈل دیا‘ بلکہ اس کے اوپر عمل کرکے بھی دکھایا۔
مولانا کے علمی کام میں سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن ہے۔ تجدید و احیاے دین کے تصور میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات خود مولانا نے مجھ سے فرمائی ہے: ’’جب جماعت قائم ہوئی تو اس کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس جماعت کا تعلق قرآن سے قائم کروں اور جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا ہے‘ اسے اس طریقے سے بیان کروں کہ جماعت اور پوری قوم قرآن کی روشنی کے دائرے میں آجائے‘ اور وہ قرآن سے تعلق قائم کرکے اس میں شریک ہو سکے‘ تاکہ جو تبدیلی میرے پیشِ نظر ہے اور جس کا ماخذ‘ جڑ اور بنیاد قرآن ہے اس تک رسائی حاصل کی جاسکے‘‘۔ یہ وہی کام ہے جو شاہ ولی اللہ مرحوم نے اپنے دور میں کیا۔ اس طرح مولانا کی احیائی فکر کے اندر تفہیم ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیم کی شکل میں جتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کے ذریعے اس دور میں اس اُمت کو دی ہے‘ اس پر اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ تفہیم القرآنمولانا کے فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدابہار کارنامہ (ever-lasting) ہے۔ یہ مولانا کے علم الکلام کا بھی بہترین مرقع ہے۔ اس میں مولانا کی چند اوّلیات بھی ہیں جن میں ترجمے کی جگہ ترجمانی‘ ہر سورہ کا مقدمہ اور پھر ترجمے میں پیراگراف بندی قابلِ ذکر ہیں۔۱؎
مولانا کے فکری اور علمی اثاثے میں ایک اور چیز ان کے ہاں پائی جانے والی تازگی اور تخلیقیت (originality) ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اور ماضی کے لکھنے والوں سے بھی استفادہ کیا‘ لیکن وہ دوسروں کے خیالات کے اسیر نہیں بنے‘ بلکہ جس طرح ایک صحت مند انسانی جسم‘ غذا کو ہضم کر کے نیا خون بناتا ہے‘اسی طرح اپنے دور اور ماقبل کے افکار سے استفادہ کر کے انھوں نے قرآن و سنت کے فہم کی روشنی میں خود تشکیلِ نو کا کام انجام دیا ہے۔
اس سلسلے میں ان کا ایک اور منفرد کارنامہ اسلام اور جاہلیت کے مابین فرق کو واضح کرنا ہے جس کے آئینے میں وہ انسانیت کی پوری تاریخ میں برپا معرکے کو پرکھتے ہیں۔ دورحاضر میں جن مفکرین نے بھی ’جاہلیت‘ کے تصور پر کلام کیا ہے‘ انھوں نے یہ کام مولانا مودودیؒ ہی کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں کیا ہے۔ مولانا کی فکر میں جاہلیت ‘علم کے معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسانی زندگی--- فکروعمل کو منظم و مرتب کرنے کے مثالیہ(paradigm) سے عبارت ہے۔ اسلامی فکر کی تفہیم اور حق و باطل کی تاریخی کش مکش کو سمجھنے کے لیے مولانا کا یہ تصور ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ان کی ایک نہایت بنیادی کتاب ہے جس میں انھوں نے قرآن کی بنیادی اصطلاحات الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین کا صحیح مفہوم اخذ اور متعین کرکے ایک قسم کی شاہ کلید فراہم کردی ہے‘ جس سے پوری اسلامی فکر کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ہمیں قرآن فہمی کے لیے ایک روشن اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کے بارے میں بھی بڑا متوازن رویہ اختیار کیا۔ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں اگر ایک طرف مغرب کے مکمل استرداد (rejection) کا رویہ پایا جاتا تھا تو دوسری جانب عملاً آنکھیں بند کر کے سپرڈالنے اور معذرت خواہانہ انداز میں دین کی توجیہہ کرنے والے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب‘ اس کے اصولوں‘ اس کی بنیادوں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا اور تقلید یورپ اور اندھی غلامانہ ذہنیت کو مسترد کر دیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ مغرب میں ہر چیز غلط نہیں اور اس کی ترقی کے کچھ حقیقی (genuine) اسباب ہیں۔ ان اسباب سے صرفِ نظر کر کے محض اندھی مخالفت کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ مغرب سے مرعوبیت‘ اس کی فکری بنیادوں کو بلاتنقید قبول کر لینا اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا رویہ نہ عادلانہ ہے اور نہ عاقلانہ۔ مولانا مودودیؒ نے درمیان کا راستہ نکالا۔ دیگر علما اور مولانا مودودیؒ میں یہی بنیادی فرق ہے۔
مولانا کے ہاں جو بالغ نظری‘ مغربی تہذیب کا فہم اور حقیقت پسندانہ طریق کار ہے‘ اسی وجہ سے عصرِحاضر میں تحریک اسلامی نے مسائل کو حل کرنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ رویہ صرف مغربی تہذیب کے بارے میں اختیار نہیں کیا‘ بلکہ مسلمانوں کی فکریات کے بارے میں بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی انھوں نے حنفی مکتب فکر کو ترجیح دی اور قبول کیا ہے۔ عبادات میں اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ معاملات کی حد تک ان کا ذہن یہی تھا کہ چاروں مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور خصوصیت کے ساتھ جدید معاملات اور مسائل کا حل نکالنے کے لیے ان کے دائرے کے اندر جو رہنمائی جہاں سے بھی میسر آئے‘ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ان مسلمہ مکاتب فکر میں سے کسی کو مسترد یا باطل قرار نہیں دیا‘ بلکہ اِن کے ہاں اس علمی اور عملی اختلاف راے کو محترم تصور کرنے کا رویہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے شیعہ مکتب فکر سے بھی تہذیبی حد تک ربط رکھا اور اُمت کی وحدت کے لیے کوشاں رہے۔
اسی تسلسل میں اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے ان کے ہاں ایک خاص انداز فکر پایا جاتا ہے‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد بہرحال اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کے مفادات کی بنیاد پر اگر آپ یہ کوشش کریں گے توکامیابی محال ہے۔ مفادات کا ایک جائز مقام ہے‘ لیکن مفادات‘ اسلامی مفاد اور تشخص کے تابع ہونے چاہییں۔ اس اتحادکی کوئی ایک لگی بندھی شکل نہیں ہے۔ جیساکہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ایک قسم کی مسلم دولت مشترکہ ہوسکتی ہے جس میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھتا رہے اور بالآخر کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم چیز بن سکے۔ اس سلسلے میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم کی ’تضامن اسلامی‘ کی تحریک اور پہلے مسلم سربراہی اجتماع ]رباط‘مراکش -۱۹۶۹ئ[ کے موقع پر اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جو نقشۂ کار انھوں نے پیش کیا‘ وہ ایک تاریخی دستاویزہے‘ جس میں نظریاتی اتحاد اور عملی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے موثر تدابیر اور انتظامات کی نشان دہی کی گئی۔
اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے‘ بلکہ عملی اور فکری سطح پر اُن کی نگاہ‘ بلاتخصیصِ رنگ و نسل اور بلاتفریق مشرق و مغرب‘ تمام انسانوںپر رہی ہے۔ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے‘ تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے اور دنیا بھر کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جہانی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تہذیبی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر مولانا مودودیؒ کے مثالی اسلوبِ کار کا تجزیہ کریں تو اسے عالم گیریت یا آفاقیت پر مبنی اسلوبِ کار کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی فوزوفلاح‘ بہبود اور ان کی نجات ہے۔ اسی طرح اللہ سے انسانوں کے رشتے کو جوڑنا اور انسانوں کے درمیان انصاف اور اخوت کی بنیاد پر معاشرتی‘ معاشی اور بین الاقوامی معاملات کوحل کرنا ہے۔ جو افراد مولانا مودودیؒ کے افکار کے صرف کسی ایک جزو کو لیتے ہیں‘ تو ان کے ہاں الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر مولانا کی پوری فکر کو لیا جائے تواس کی حیثیت ایک ایسے گلدستے کی سی ہے جس کے سارے پھول اپنے اپنے مقام پر ہیں‘ اور اس گلدستے کی تصویر اُبھرتی ہی اس کے مجموعی (macro) وجود سے ہے۔
مولانا مودودیؒؒ بہرحال ایک انسان تھے اور ماسوا انبیاے کرام‘ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒؒ نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس زعم میں رہے کہ ان کی راے ہی صحیح ہے۔ اس کے برعکس ہمیشہ انھوں نے مکالمے اور بحث کو پسند کیا‘ اختلاف کو دبایا نہیں۔ اس بات کا نہ صرف اظہار کیا‘ بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا۔ کسی موقع پر اگر ان کی کسی غلطی یا دلیل کی کوئی کمزوری سامنے لائی گئی تو انھوں نے کھلے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا۔ ان کی کتاب رسائل و مسائلکا مطالعہ کریں تو اس میں ایک نہیں‘ دسیوں مقامات ہیں جہاں مولانا نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ کسی صاحبِ علم کے متوجہ کرنے پر انھوں نے مسئلے یا معاملے کو چھپایا نہیں‘اس کی تصحیح کی ہے اور اس تبدیلی کو خود ریکارڈ کیا ہے۔
مولانا مودودیؒ اپنے فکری ارتقا میں‘ دورِصحافت سے دورِ تصنیف کی طرف اور پھر دورِ اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے‘ جن کی مناسبت سے انھوں نے غورو فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر‘ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت‘ علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی کی بنا پر‘ برسوں نہیں‘ صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی---!
اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو شرفِ قبولیت اور فیضانِ عام بخشے اور ہمیں ان کے مشن کو صحیح خطوط پر آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین!
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں: مفسرِقرآن‘ سیرت نگار‘ دینی اسکالر ‘ اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور اسلامی تہذیب و تمدن کے شارح‘ برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد‘ ایک نام ور صحافی اور اعلیٰ پاے کے انشاپرداز--- فکری اعتبار سے وہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے متکلمِ اسلام تھے۔
بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جوت جگائی۔ مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولولے کو اپنی نثر کے ذریعے آگے بڑھایا اور علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات کو سمیٹ کر احیاے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی‘ پھر اپنے گہربار قلم کی قوت اور غیرمعمولی تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس تحریک کوپروان چڑھایا۔ اقبال اور مودودی دونوں پر پروفیسر رشیداحمدصدیقی کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا‘ اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔
سید مودودیؒ اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ ’’سب سے بڑے‘‘ ان معنوں میںکہ کثیرالتصانیف مصنف تو اور بھی ہیں مگر اُردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں انھیں سب سے زیادہ چھپنے والے مصنّف کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا حلقۂ قارئین‘ بلاشائبۂ تردید‘ اُردو کے ہرمصنّف سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہم انھیں اُردو کا مقبول ترین مصنّف بھی کہہ سکتے ہیں۔
سید مودودیؒ کی شخصیت‘ افکار و نظریات اور ان کی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کم از کم ۴۳ زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں--- ان کے ذخیرئہ علمی کا مطالعہ‘ ایک بے حد وسیع اور بڑا موضوع ہے۔ دنیا کی مختلف جامعات میں ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں‘ اور بعض پہلوئوں پر مزیدتحقیقی کام ہو رہا ہے۔
ذیل میں ہم نے تصانیفِ مودودی کی ایک فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ موصوف کا علمی کام کس قدر وسیع الاطراف ‘ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘ عقائد‘ عبادات‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ تہذیب‘ تمدن‘ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اجتماعیت‘ اخلاقیات‘ مغربی فکر وغیرہ--- اُردو زبان میں کوئی اور مصنّف اس تنوع اور کثیرالجہتی میں‘ سیّدموصوف کا ہم پلّہ نظرنہیں آتا۔
۱- پہلا حصہ تفسیرِقرآن اور سیرت النبیؐ کی کتابوں پر مشتمل ہے‘ اور یہ ان کی قلمی کاوشوں کا اہم ترین سرمایہ ہے۔
۲- یہ حصہ ایسی کتابوں پر مشتمل ہے جنھیں مولانا نے خود تصنیف و مرتب کر کے شائع کیا یا بعض ان کی نگرانی میں اور ان کی تائید و اجازت سے مرتب ہو کر شائع ہوئیں۔ یہ حصہ بھی‘ سید موصوف کے مستند متن میں شمار ہوگا۔
۳- یہ حصہ مولانا کے مکاتیب کے مجموعوں پر مشتمل ہے۔
۴- اس حصے میں ایسی کتابوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سے چند ایک تو ان کی زندگی میں شائع ہوئیں‘ مگر بیش تر ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔ یہ کتابیں‘سید مرحوم کی نہیں‘ بلکہ دوسروں کی مرتب کردہ ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسی کتابوں اور مجموعوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ ان کے بعض حصوں پر نظرثانی کرتے اور شاید کسی قدر ترمیم و حذف سے بھی کام لیتے‘ کیوں کہ وہ زبان و بیان‘مضمون اور نفسِ مضمون کی نزاکت اور احتیاط کے بارے میں سخت حسّاس تھے۔ اس حصے کی بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں مرتبہ صورت میں مولانا نے دیکھا اور پسند فرمایا بلکہ کہیں کہیں قلم بھی لگایا‘ جیسے:تصریحات یا ۵ اے ذیلدار پارک‘ اول وغیرہ۔
اس حصے میں مولانا کی ترجمہ کردہ ایک کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس فہرست میں مولانا مرحوم کی تحریروں کا پوری طرح احاطہ نہیںہو سکا۔ ان کی بہت سی تحریریں اور تقریریں‘ رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں اور چند ایک کتابچوں کی صورت میں شائع کی گئی ہیں۔
اس فہرست میں شامل ہرکتاب کی نوعیت واضح کرنے کے لیے‘ قوسین میں اس کی مختصر توضیح (annotation) بھی دی گئی ہے۔ ہر حصے میں حوالوں کی ترتیب الفبائی ہے۔
۱
۱- ترجمہ قرآن مجید‘ مع مختصر حواشی: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۱۵۸۰ ص۔ (یہ ترجمہ اور حواشی تفہیم القرآن ہی سے ماخوذ ہیں لیکن ترجمے پر مولانا نے نظرثانی کر کے بعض ترامیم کیں۔ اس نسخے کی اس اہمیت اور استناد کے سبب اس کا ذکر ابتدا میں کیا جا رہا ہے)
٭ قرآن مجید‘ مترجم (بین السطّور): ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۹۲۷ ص۔ (اس نسخے میں حواشی شامل نہیں۔ ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ (بین السطّور) دیا گیا ہے۔ دیباچہ از ملک غلام علی‘ ۲۰ اگست ۱۹۹۰ئ)
۲- تفہیم القرآن‘ جلد اول: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۶۶۳ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ فاتحہ تا سورہ الانعام۔ آغاز تحریر: فروری ۱۹۴۲ئ)
۳- تفہیم القرآن‘ جلد دوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۴ئ‘ ۷۱۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الاعراف تا بنی اسرائیل)
۴- تفہیم القرآن‘ جلد سوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۸۲۱ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الکہف تا سورہ الروم)
۵- تفہیم القرآن‘ جلد چہارم: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘۱۹۶۶ئ‘۶۸۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ لقمان تا سورہ الاحقاف)
۶- تفہیم القرآن‘ جلد پنجم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۱ء ‘ ۶۳۲ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ محمد تا سورہ الطلاق)
۷- تفہیم القرآن‘ جلد ششم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۲ء ‘ ۶۵۹ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ التحریم تا سورہ الناس--- تکمیل: ۷ جون ۱۹۷۲ئ)
۸- سیرتِ سرورِعالمؐ،جلداول: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۴ص۔ (نبوت‘ رسالت‘ دعوت وغیرہ کے مباحث۔ سیرت النبیؐ کا پس منظر۔ مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)
۹- سیرتِ سرورِعالمؐ،جلددوم: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۳ص۔ (سیرت النبیؐ کامکی دور۔مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)
۲
۱۰- اسلام اور جدید معاشی نظریات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۵۹ئ‘ ۱۶۷ ص۔ (کتاب سود کے ان ابواب کا مجموعہ‘ جن کا براہ راست تعلق مسئلہ سود‘ سے نہیں ہے)
۱۱- اسلام اور ضبطِ ولادت: ادارہ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۶۹ ص۔ (تحریک ضبطِ ولادت کی تاریخ)
۱۲- اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ‘ لاہور‘ ۱۹۵۵ء ۳۲۰ ص۔ (۳۳-۱۹۳۲ء کے وہ مضامین‘ جو پہلے پہل ترجمان القرآنمیں شائع ہوئے)
۱۳- اسلامی ریاست: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۶۲۰ ص۔ (اسلام کے تصور ریاست اور اس کے سیاسی نظام پر مختلف تحریریں۔ ترتیب و تدوین: پروفیسر خورشیداحمد)
۱۴- اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر: اقبال اکیڈمی‘ لاہور‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۷۸ ص۔ (نماز اور روزے پر دو مقالات)
۱۵- اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۴۹۳+۴۸ ص۔ (مختلف مضامین اور تقاریر کا مجموعہ)
۱۶- الجہاد فی الاسلام: ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ‘ ۱۹۳۰ئ‘ ۵۰۴ ص۔ (الجمعیت دہلی میں یہ سلسلہ مضامین‘ ۲ فروری ۱۹۲۷ء کو شروع ہوا اور ۱۵ جون ۱۹۲۷ء کو جملہ مباحث مکمل ہوئے)
۱۷- انتخابی تقاریر: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی حلقہ لاہور ] ۱۹۴۲ء [ ۹۶ ص۔ (صدارتی انتخاب ایوب خاں بمقابلہ فاطمہ جناح کے موقع پر لاہور‘ پشاور‘ سرگودھا‘ کراچی میں تقاریر)
۱۸- پردہ: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۶۰ ص۔ (پردے سے متعلق مضامین و مباحث۔ آغاز: ۱۹۳۶ئ)
۱۹- تجدید و احیاے دین: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۸۰ ص۔ (یہ مقالہ پہلے پہل رسالہ الفرقان بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبرکے لیے لکھا گیا تھا)
۲۰- تحریکِ آزادیِ اور مسلمان‘ جلد اول: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۴ئ‘ ۴۸۴ص۔ (یہ مجموعہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش،اول‘دوم‘ اور مسئلہ قومیت پر مشتمل ہے۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)
۲۱- تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ جلد دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۴۰۸ ص۔ (مشتمل بر: مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم‘ اور اسی موضوع سے متعلق ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۸ء تک کے زمانے میں لکھے گئے مزید سولہ مضامین)
۲۲- تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۸ئ‘ ۲۳۹ ص۔ (جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ ارکان‘ منعقدہ ماچھی گوٹھ‘ فروری ۱۹۵۷ء میں پیش کردہ قرارداد اور اس کی توضیح میں ایک مفصل تحریر)
۲۳- تحریکِ جمہوریت ‘ اس کے اسباب اور اس کا مقصد : شعبہ نشرواشاعت تحریک جمہوریت مغربی پاکستان لاہور‘ ] ۱۹۶۸ئ[ ۸۹ ص۔ (تقاریر :کراچی‘ سکھر‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ مرتب: جیلانی بی اے‘ نظرثانی و تصویب: سیّدمودودی)
۲۴- تعلیمات: دارالاشاعت نشاتِ ثانیہ‘ حیدر آباد دکن‘ ۱۹۴۵ئ‘ ۱۲۲ ص۔ (تعلیم کے موضوع پر مختلف تحریریں اور لیکچر۔ مابعد اشاعتوں میںمتعدد اضافے کیے گئے)
۲۵- تفہیمات: جلد اول: دفتر رسالہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۳۵۰ ص۔ (سرورق: ’’بعض معرکہ آرا مسائل اسلامی کی تشریح و توضیح‘‘ ۔ ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۶ئ)
۲۶- تفہیمات: جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں ۱۹۳۸ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)
۲۷- تفہیمات: جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۳ ص۔ (حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں ۱۹۶۴ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)
۲۸- تنقیحات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۲۴۰ ص۔ (سرورق: ’’اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر مختصر تبصرے‘‘)
۲۹- ٹرکی میں عیسائیوں کی حالت: دارالاشاعت سیاسیاتِ شرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۲ئ‘ ۳۵ص۔ (سلطنت عثمانیہ میں عیسائیوں کے حالات اور ان کے ملکی حقوق)
۳۰- جماعت اسلامی‘ اس کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ص ۱۱۱۔ (ترجمان القرآن میں شائع شدہ ایک سلسلۂ مضامین)
۳۱- جماعت اسلامی کے ۲۹ سال: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۸۰ ص (۲۶ اگست ۱۹۷۰ء کی تقریر)
۳۲- حقوق الزوجین: دفتر ترجمان القرآن دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ص ۱۴۸۔ (اسلامی قانون ازدواج کے مقاصد اور نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث)
۳۳- حوادث سمرنا، اتحادی کمیشن کی رپورٹ : دارالاشاعت سیاسیاست مشرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۱ئ‘ ۱۶ ص۔ (اتحادی حکومتوں یعنی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی کے مقرر کردہ کمیشن کی تحقیق۔ واقعاتِ مظالم کی رپورٹ)
۳۴- خطبات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۴۸ ص۔ (عام فہم انداز میں اسلام‘ کلمہ طیبہ‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور جہاد کی تشریح)
۳۵- خطباتِ حرم: دارالعروبہ‘ منصورہ لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۹۲ص۔(۱۹۶۳ء کے ایامِ حج میں حرم شریف میں کی جانے والی تقریریں)
۳۶- خلافت وملوکیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۶ئ‘ ۳۵۱ ص۔ (اسلام میں خلافت کا تصور‘ خلافت کی ملوکیت میں تبدیلی کے اسباب اور نتائج پر ایک علمی بحث)
۳۷- دکن کی سیاسی تاریخ: دارالاشاعت سیاسیہ‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۳۰۰ ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)
۳۸- دولت آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیدعلی شبرحاتمی‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۲۸ئ‘ ۲۱۹ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)
۳۹- دینیات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۱۳۶ ص۔(ناظم تعلیمات حیدرآباد دکن کی فرمایش پر تحریر کردہ میٹرک کے لیے نصابی کتاب۔ اسلامی عقائد و اعمال کی تشریح و توضیح)
۴۰- رسائل و مسائل: جلداول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۵۲۸ ص۔ (قرآن‘ حدیث‘ تاریخ‘ فقہ‘ معیشت‘ کاروبار‘ سیاست‘ جماعت اسلامی اور بعض دیگر موضوعات پرترجمان القرآن میں شائع شدہ سوالات و جوابات کا مجموعہ)
۴۱- رسـائل ومسـائل: جلد دوم‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۴ء ۶۲۲ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔ دیباچہ از مولانا امین احسن اصلاحی)
۴۲- رسـائل و مسـائل:جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۴۶۸ ص ۔ (ماسبق دو جلدوں کے تسلسل میں تیسرا حصہ)
۴۳- رسائل ومسائل: جلدچہارم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۵ ص۔ (مزید سوالات و جوابات کا مجموعہ)
۴۴- رسـائل و مسـائل: جلد پنجم: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۳۶۸ ص۔ (مصنف کی وفات کے بعد ملک غلام علی صاحب کی رہنمائی میں حافظ عبدالحمید کا مرتبہ مجموعہ۔ مقدمہ از خلیل احمد حامدی)
۴۵- سانحہ مسجدِ اقصٰی: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۲۰ ص۔ (۲۴ اگست ۱۹۶۹ء کی ایک تقریر۔ یہودی عزائم اور ان کی منصوبہ بندی۔ قیام اسرائیل کا پس منظر وغیرہ)
۴۶- سلاجقہ: ناشر: ابوالخیر مودودی‘ لاہور‘ ۱۹۵۴ء ‘ ۲۶۷ ص۔ (سلجوقی حکمرانوں خصوصاً طغرل بک‘ الپ ارسلان اور ملک شاہ کے عہد کی تاریخ)
۴۷- سنت کی آئینی حیثیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۳۹۲ ص۔ (نظامِ دین میں حدیث اور سنت کی حیثیت اور مقام۔ منکرین حدیث کے دلائل پر تنقید۔ ترجمان القرآن کے ’’منصب رسالت نمبر‘‘ کی کتابی اشاعت)
۴۸- سود‘ جلد اول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۴۸ئ‘ ۱۶۸ ص۔ (سود اور اس سے متعلقہ مباحث‘ اشتراکیت اور سرمایہ داری پر تنقید‘ اسلام کا معاشی نظام وغیرہ)
۴۹- سود‘ جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۲ئ‘ ۱۵۰ ص۔ (حصہ اول کے بعض تشنہ مباحث کی تکمیل۔ جدید بنک کاری وغیرہ)
۵۰- سود‘ اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۴۱۰ ص۔ (سود‘ اول و دوم کو ازسرِنو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ زیرنظر کتاب ایک حصہ ہے‘ باقی مباحث اسلام اور جدید معاشی نظریات میں شامل کیے گئے ہیں۔)
۵۱- قادیانی مسئلہ اور اُس کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی پہلو: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۴۲۳ ص۔ (اس موضوع پر مصنف کی تحریریں اور بیانات۔ قادیانیت پر اقبال کی تحریریں‘ چند عدالتی فیصلے۔)
۵۲- قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۵۳ئ‘ ۹۵ص ۔ (الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین پر ایک علمی بحث)
۵۳- مُرتد کی سزا: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۸۶ ص۔ (اسلامی قانون میں مرتد کی سزا پر ایک علمی بحث۔ شائع شدہ: ترجمان القرآن ۱۹۴۲ء -۱۹۴۳ئ)
۵۴- مسئلہ جبر و قدر: دفتر ترجمان القرآن پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۸۴ ص ۔ (چودھری غلام احمد پرویز کا طویل خط اور اس کا جواب۔ ایک علمی بحث۔ اسی موضوع پر مصنف کی ایک نشری تقریر بھی شامل ہے۔)
۵۵- مسئلہ قومیت: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۶۴ ص۔(قومیت کے مسئلے پر چند مضامین و مباحث کا مجموعہ۔ مابعداشاعتوں میں اضافہ کیا گیا)
۵۶- مسئلہ ملکیتِ زمین: مکتبہ جماعتِ اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۰ئ‘ ۸۶ ص۔ (۱۹۳۴ء کی ایک بحث‘ شائع شدہ: ترجمان القرآن۔ زمین کی شخصی ملکیت اور مزارعت پر ایک علمی بحث)
۵۷- مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش: جلد اول: دفتر ترجمان القرآن پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۱۳۵ ص ۔ (اسلامی ہند کی گذشتہ تاریخ اور موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات پر ۸ مضامین کا مجموعہ)
۵۸- مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد دوم: دفتر ترجمان القرآن‘ پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۲۴۰ ص۔(سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں پر تنقید ‘ جنگِ آزادی کی نوعیت وغیرہ۔ ۱۲ مضامین کا مجموعہ)
۵۹- مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد سوم:دفتر ترجمان القرآن‘ لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۱۷۶ص۔ (پہلے دوحصوں کے تسلسل میں مزید ۱۲ مضامین۔ مصنف کے بقول: یہ کتاب جماعت اسلامی کاسنگِ بنیاد ہے)
۶۰- مشرقی پاکستان کے حالات و مسائل کا جائزہ اور اصلاح کی تدبیر: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۶ئ‘ ۳۵ ص ۔ (ڈھاکا میں ۲ مارچ ۱۹۵۶ء کی ایک تقریر)
۶۱- معاشیات اسلام: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۲۹ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (اسلام کے معاشی اصول و احکام کی توضیح۔ مصنف کی مختلف کتابوں سے ماخوذ مباحث پر مبنی تحریروں کا مجموعہ۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد۔ دیباچہ از مصنف)
۶۲- نشری تقریریں: اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۱۲۴ ص۔ (سیرتِ پاکؐ ، معراج‘ شب برات‘ روزہ ‘ عیدقربان‘ زندگی بعد موت اور پاکستان ایک مذہبی ریاست پر ریڈیو سے نشرشدہ تقریریں۔)
۳
۶۳- خطوط مودودی‘ جلد اول: (مرتب: رفیع الدین ہاشمی۔ سلیم منصور خالد) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۲۶۴ ص۔ (مسعود عالم ندوی کے نام ۵۰خطوط کا مجموعہ مع مفصل تعارف‘ مکتوب الیہ اور متن پر حواشی و تعلیقات)
۶۴- خطوط مودودی‘ جلد دوم: منشورات‘ لاہور‘ ۱۹۹۵ئ‘ ۵۵۸ ص۔ (مختلف اصحاب کے نام ۱۵۰ خطوط مع حواشی و تعلیقات۔ ۵۲ خطوں کے عکس بھی شامل ہیں)
۶۵- مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اول :(مرتب: عاصم نعمانی) ایوان ادب‘ لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۲۵۶ ص۔ (۱۶۴ خطوط‘ جو مراسلہ نگاروں کے استفسارات کے جواب میں لکھے گئے)
۶۶- مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ جلد دوم: (مرتب: عاصم نعمانی)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۳۹۲ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید ۲۶۶ مکاتیب کا مجموعہ)
۶۷- مکتوبات: (مرتب: حکیم محمد شریف) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۶ئ‘ ۲۷۲ ص۔ (مرتب کے نام ۱۰۹ خطوط کا مجموعہ۔ ضمیمے میں بعض دیگر اصحاب کے نام ۶ خطوط۔ پیش لفظ از اسرار احمد سہاوری)
۶۸- مکتوباتِ مودودی: (مرتب وناشر: اشرف بخاری) پشاور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۷۴ص۔ (صوبہ سرحد کے احباب اور نیازمندوں کے نام ۹۲ خطوط کا مجموعہ)
۶۹- مکتوباتِ مودودی بنام مولانا محمد چراغ: (مرتب: عبدالغنی عثمان) الانصاری پبلشرز‘ فیصل آباد‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۸۰ ص۔ (مکتوب الیہ کے نام ۳۶ خطوط کا مجموعہ مع مختصر حواشی۔ مقدمہ از مفتی سیاح الدین کاکاخیل)
۷۰- مولانا مودودی کے خطوط: (مرتب: سید امین الحسن رضوی) مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۱۰۲ص ۔ (مرتب کے نام سید مودودی کے ۱۹ خطوط۔ مرتب نے ابتدا میں‘ سید مرحوم کے ساتھ اپنے مراسم اور ملاقاتوں کی تفصیل بھی بیان کی ہے)
۷۱- یادوں کے خطوط: (مرتب: محمد یونس) اسلامی مکتبہ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۲۸ص۔ (زیادہ تر حیدرآباد دکن کے احباب واصحاب کے نام ۴۹ خطوط ۔ مجموعے میں میاں طفیل محمد‘ابوالخیر مودودی اور چودھری نیاز علی خاں وغیرہ کے ۱۵ خطوط بھی شامل ہیں)
۷۲- Correspondence between Maulana Maudoodi and Maryam Jameelah ] مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی باہمی مراسلت[ ۔ محمد یوسف خاں‘ لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۸۳ ص۔(مریم جمیلہ کے گیارہ اور سیدموصوف کے بارہ خطوط کا مجموعہ)
۴
۷۳- آفتابِ تازہ: (مرتب : خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۵۶ ص۔ (الجمعیت دہلی کے ۱۹۲۷ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)
۷۴- ادبیاتِ مودودی: (مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۴۴۷ص۔ (حصہ اول میں سید مودودی کی انشاپردازی پر ضیااحمد بدایونی‘ ابواللیث صدیقی‘ ماہر القادری‘ احسن فاروقی‘ ابوالخیرکشفی اور سیدمحمد یوسف کے مضامین ہیں۔ حصہ دوم میں ۷۴کتابوں پر سید موصوف کے تبصرے اور مقدمے شامل ہیں۔ ۸۷ صفحات کا سیرحاصل مقدمہ از مرتب )
۷۵- ادب اور ادیب ،سید مودودی کی نظرمیں: (مرتب: سفیراختر) دارالمعارف واہ کینٹ‘ ۱۹۹۸ئ‘ ۱۷۶ ص۔ (ادب ادیب کے حوالے سے سید موصوف کی متداول اور بعض نادر تحریروں کا مجموعہ)
۷۶- اخلاقیاتِ اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ: (مرتب: محمد خالد فاروقی) الاخوان پبلی کیشنز کراچی‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۸۸ص ۔ (ماہ نامہ ہمایوں لاہور‘ فروری ۱۹۴۲ء میں مطبوعہ ایک مقالہ‘ جو مصنف نے بیس سال کی عمر میں تحریر کیا)
۷۷- استفسارات: جلد اول (مرتب:اختر حجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۴۴۸ص۔ (بعض رسائل: آئین‘ ایشیا‘ تجلّی میں مطبوعہ مذہبی‘ فقہی‘ سیاسی اور قانونی سوالات کے جوابات۔اس مجموعے کی تدوین مناسب طریقے پر نہیں کی گئی)
۷۸- استفسارات: جلد دوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۲ئ‘ ۴۰۰ص۔ (مختلف جرائد میں شائع شدہ بعض تقریریں‘ مصاحبے‘ سوالوں کے جواب)
۷۹- استفسارات: جلد سوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۴۲۴ص۔ (جلد اول اور دوم کے تسلسل میں مزید لوازمہ)
۸۰- اسلام کا سرچشمۂ قوت: (مرتب: شہیرنیازی)۔ ایوان ادب لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۱۱۲ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت ۲۵-۱۹۲۴ء کا ایک سلسلۂ مضامین۔ اشاعتِ اسلام کے اسباب پر بحث)
۸۱- افاداتِ مودودی: (مرتبین: میاں خورشیداحمدانور+ بدرالدّجٰی خان) ناشرکا نام درج نہیں۔ ۱۹۹۷ئ‘ ۳۷۵ ص ۔ (نماز کے متعلق احادیث مشکوٰۃ شریف کی تشریحات‘ سید موصوف کے دروسِ حدیث سے ماخوذ)
۸۲- اقبال نے کیا چاہا؟: ]مرتب: سلیم منصورخالد[ پنجاب یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین لاہور۔ ۱۹۷۷ئ‘ ۴۰ ص۔ (علامہ اقبال سے متعلق مصنف کی تحریریں اور تقاریر‘ شذرات وغیرہ)
۸۳- بانگِ سحر: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۴۳ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت ۱۹۲۶ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)
۸۴- ۵-اے ذیلدار پارک: حصہ اول (مرتب:مظفربیگ) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۲۹۵ص۔ (نمازِعصر کے بعد سید مودودی سے سوالات و جوابات کی نشستوں کی روداد)
۸۵- ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ دوم (مرتب: رفیع الدین ہاشمی) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۲۸۰ ص ۔ (حصہ اول کے تسلسل میںمزید سوالات و جوابات کا مجموعہ۔)
۸۶- ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ سوم (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۹۱ئ‘ ۲۱۵ ص۔(حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔)
۸۷- تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ: (مرتبین: نعیم صدیقی+سعیداحمدملک) مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۲۰۸ ص۔ (قادیانی مخالف تحریک ۱۹۵۳ء پر عدلیہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ)۔] ادارہ معارف اسلامی لاہور کے شائع کردہ‘ دوسرے ایڈیشن (۱۹۹۴ئ) پر بطور مصنّف‘ سید صاحب کا نام موجود ہے۔ اس اشاعت کے دیباچے میں جناب نعیم صدیقی نے وضاحت کی ہے کہ یہ سید صاحب ہی کی تحریر ہے‘ طبع اول پر بوجوہ‘ مصنف کا نام نہیں آسکا تھا۔[
۸۸- تصریحات: (مرتب: سلیم منصور خالد) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۳۱۸ ص۔ (طلبہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات کے مختلف اجتماعات میں سوالات کے جوابات اور انٹرویو)
۸۹- تفہیمات‘ حصہ چہارم: (مرتب اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۵ئ‘ ۳۹۲ص۔ (سید موصوف کی متفرق تحریروں کا ایک ناقص مجموعہ۔ اس میں شامل مضمون ’’افادات شاہ ولی اللہ‘‘ سیدصاحب کا نہیں‘ صدرالدین اصلاحی کا ہے)
۹۰- تفہیمات‘ حصہ پنجم: (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۴۸۰ ص۔ (مزید مختلف النوع تحریریں۔ واضح رہے کہ جلد چہارم اور پنجم کی استنادی حیثیت وہ نہیں‘ جو تفہیمات کے پہلے تین مجموعوں کی ہے۔ یہ دونوں جلدیں خاصی بے توجہی اور تساہل سے مرتب کی گئی ہیں اس لیے نہ صرف ان دونوں پر نظرثانی ہونی چاہیے بلکہ ان دونوں مجموعوں کا نام بھی تفہیمات نہیں‘کچھ اور ہونا چاہیے۔ تفہیمات‘ سیدموصوف کی اپنی مستقل تصانیف ہیں۔ کسی اورشخص کی مرتبہ کتاب کو وہی نام دینے سے التباس پیدا ہوتا ہے)
۹۱- جلوۂ نور: (مرتب: خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۲۱۳ ص۔ (الجمعیت دہلی میں ۱۹۲۸ء میں شائع شدہ مضامین اور اداریے)
۹۲- خطباتِ یورپ: (مرتب: اخترحجازی) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ س ن‘ ۲۵۴ ص۔ (مصنف کے اسفارِ برطانیہ و یورپ کی تقریریں اور سوالات و جوابات کی رودادیں)
۹۳- صدائے رستاخیز: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۵۴۱ص۔ (الجمعیت دہلی کے بعض اداریے اور مضامین )
۹۴- فضائل قرآن:(مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۷ئ‘ ۱۵۵ ص۔ (سید موصوف کے دروسِ حدیث کا تحریری روپ۔ مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز ’’فضائل قرآن‘‘ سے منتخب احادیث کی تشریح)
۹۵- کتاب الصّوم: (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) مکتبہ آئین‘ لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۲۸۰ ص۔ (دروسِ حدیث۔ مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز’’کتاب الصوم‘‘ کی ۱۴۷‘ احادیث کا متن‘ اُردو ترجمہ اور مختصر تشریح)
۹۶- مسئلہ کشمیر اور اس کا حل: (مرتب: سلیم منصورخالد) اسلامی جمعیت طلبہ لاہور‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۱۲۸ ص۔ (مسئلہ کشمیرپر سید موصوف کی تقاریر اور تحریروں کا مجموعہ)
۹۷- مولانا مودودی کی تقاریر‘ اول: (مرتبہ: ثروت صولت) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (مختلف نوعیت کی ۲۶ تقاریر‘ زیادہ تر جماعت اسلامی کی رودادوں سے اخذ کردہ)
۹۸- مولانا مودودی کی تقاریر‘ دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۴۶۳ ص۔ (مزید ۵۱ تقاریر۔ زیادہ ترتسنیم، قاصد اور ترجمان القرآن سے ماخوذ)
۹۹- مولانا مودودی کے انٹرویو‘ اول: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (سیدموصوف سے مختلف اہل قلم اور صحافیوں کے مصاحبے)
۱۰۰- مولانا مودودی کے انٹرویو‘ دوم: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۳۳۶ ص۔ (مزید ۳۲ مصاحبے۔ ابوطارق‘ پروفیسر رحیم بخش شاہین کا قلمی نام تھا)
۱۰۱- وثائق مودودی: (مرتب: سلیم منصورخالد) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۱۰۰ص۔ (سید موصوف کی تعلیمی اسناد‘ ۸ اور دس سال کی عمر کے تحریروں اور بعض دیگر نوادرات کے عکس۔ جہازی سائز پر نفیس اور خوب صورت طباعت)
۱۰۲- ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ دہلی‘ ۱۹۸۸ئ‘ ۷۹ص۔ (نگار لکھنؤ میں‘ اکتوبر‘ نومبر اور دسمبر ۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ایک طویل مقالہ۔ پہلی قسط جناب نیاز فتح پوری نے اپنے نام سے چھاپ لی تھی‘ مصنف کے احتجاج پر‘ باقی ۲قسطوں پر ان کا نام دیا گیا)
۵
۱۰۳- المسئلۃ الشرقیہ: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۴ئ‘ ۳۸۳ ص۔ (مصطفی کمال پاشا کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ)
سید مودودی ؒکے ذخیرۂ علمی کا ایک حصہ (بیسیوں تقاریر اور مضامین) ابھی تک اخبارات و رسائل کے اوراق میں گم ہے۔ علاوہ ازیں بعض تقریریں اور مضامین کتابوں کی صورت میں بھی ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:
۱- آزادی ] ۱۹۶۸ئ[‘ ۲- آیندہ انتخابات‘ ملک کی نجات کا واحد راستہ ] ۱۹۷۰ئ[ ۳-آیندہ انتخابات اور قوم کی ذمہ داری ] ۱۹۷۰ئ[ ۴- اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت ] ۱۹۶۹ئ[ ۵- ۱۹۶۷ء کی رِہائی کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی پہلی تقریر] ۱۹۶۷ئ[ ۶- بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ] ۱۹۸۲ئ[ ۷- پاکستان کے انتخابی نتائج اور ان میں جماعت اسلامی کی پوزیشن‘ ۱۹۷۱ء ۸- تحریک اسلامی: کامیابی کی شرائط ‘ ۱۹۶۴ء ۹- تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی ] ۱۹۶۷ئ[ ۱۰- تقریر ڈھاکا‘ ۱۹۶۳ء ۱۱- توحید اور شرک ]۱۹۷۷ئ[ ۱۲- توحید کی برکات ]۱۹۷۳ئ[ ۱۳-جماعت اسلامی اور پاکستان ] ۱۹۷۰ئ[ ۱۴- جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں دیا جائے؟] ۱۹۷۰ئ[ ۱۵- جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام] ۱۹۷۰ئ[ ۱۶-جماعت اسلامی کی دعوت‘۱۹۴۸ء ۱۷- خطاب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ]۱۹۷۳ئ[ ۱۸- دستوری تجاویز ]۱۹۵۲ئ[ ۱۹- عملی جہاد سے قلبی جہاد تک ] ۱۹۶۵ئ[ ۲۰- قومی وحدت کی مضبوط بنیادیں۱۹۸۴ء ۲۱- موجودہ انتخابی معرکے پر سیرحاصل تبصرہ ]۱۹۷۷ئ[ ۲۲- مولانا مودودی کا دورئہ مشرق وسطیٰ ]۱۹۵۷ئ[ ۲۳- مولانا مودودی کی دو اہم تقریریں اور مرکزی مجلس شوریٰ کی اہم قراردادیں ]۱۹۷۲ئ[ ۲۴- وقت کے اہم مسائل اور ان میں جماعت اسلامی کا موقف‘ ۱۹۷۰ء وغیرہ۔
آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ بعض کتابیں‘ سیّد مودودی کے متذکرہ بالا ذخیرئہ علمی کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہیں مثلاً:
اس نوعیت کی متعدد کچھ اور کتابیں بھی مرتب اور شائع ہوئی ہیں (اور یہ سلسلہ جاری ہے) مگر یہ سب تصانیفِ مودودی کے منتخبات (selections)پر مشتمل ہیں اور ان کی حیثیت ’مکرّرات‘کی ہے۔ اس لیے انھیں باقاعدہ فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ درحقیقت عصر حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کے علم بردار تھے۔ وہ ایک آفاقی مفکر تھے اور اصلاح و انقلاب کی جو دعوت انھوں نے دی‘ وہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے تھی۔ ان کی قائم کی ہوئی تنظیم کا اصل مقصد انسان سازی کا ایک عظیم معرکہ بالکل ناموافق حالات میں سر کرنا تھا۔ آزادی‘ برابری اور برادری کے جو نعرے لگائے جاتے رہے ہیں‘ ان کو انھوں نے ایک ٹھوس‘ منطقی اور تجزیاتی بنیاد اپنے عالمانہ و حکیمانہ لٹریچر سے فراہم کی۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دورِ جدید کے ہر مسئلے کا حل پیش کیا۔ مذہب‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کے موضوعات پر ان کی مدلل بحثیں معلومات افزا اور بصیرت افروز ہیں۔ ان کا تصور دین زندگی کے ہر گوشے پر محیط تھا۔ وہ رسمی فرقہ وارانہ مذہب کے بجاے ایک کائناتی نظریۂ حیات کے قائل تھے۔ اسی لیے وہ اسلام کو ایک ہمہ گیر انسانی نظامِ زندگی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور قرآن و سنتِ رسولؐ کو انسانیت کا مشترک سرمایہ سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم معاشرے کی تفریق کرنے کی ضرورت نہیں‘ اگرچہ عملاً اسلامی تحریک کے اولین مخاطب‘ ذمہ دار اور کارکن ظاہر ہے کہ مسلمان ہی ہوں گے۔ یہ اسلام کا اصولی موقف بھی ہے‘ جس کا روے سخن سب کی طرف ہے‘ اس لیے کہ وہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا دین ہے اور اس کے آخری پیغام بر رحمۃللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن اس دین کی اشاعت اور اقامت کاعلَم تو قدرتی طور پر وہی لوگ اٹھائیں گے جو اس پر ایمان رکھتے اور عمل کرتے ہوں۔
مولانا مودودیؒ نے دعوت دین‘ فہم دین اور اجتماعیت کے لیے اپنی فکر مندی کو جس انداز سے پیش کیا‘ اس کا سب سے اہم ماخذ ان کی تصانیف ہیں۔ یہاں پر اس حوالے سے میں اپنے موضوع کو زیر بحث لاؤں گا۔
مولانا مودودیؒ کی اس معرکہ آرا تصنیف نے جہاد کی اصل نوعیت و اہمیت تحقیقی طور پر واضح کر دی۔ انھوں نے ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دیا کہ اسلامی جہاد صرف خدا کی راہ میں نیکی‘ حق اور صداقت کے لیے انتہائی کوشش کا نام ہے۔ یہ ہر گز کوئی جارحانہ و ظالمانہ قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد نہیں ہے۔ یہ مظلوموں کا دفاع ہے۔ اس کا مقصد عدل اور امن کا قیام ہے۔ یہ خفیہ تخریب کاری نہیں‘ تعمیر و ترقی کی علانیہ کوشش ہے۔ اس کی کچھ ضروری شرطیں ہیں۔ یہ افراد کی قانون شکنی نہیں‘ ریاست کا آئینی اقدام ہے۔ اس میں عہد شکنی کی کوئی گنجایش نہیں‘ بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی سخت پابندی ہے۔ یہ جنگ و امن کا اسلامی قانون ہے‘ جس پر عمل کرنے کا اختیار صرف اسلامی حکومت کو ہے‘ جب کہ اسلام میں جارحیت کا کوئی تصور نہیں۔ دفاعی جنگ کی حالت میں بھی بے قصور اور پُرامن شہریوں کو اسلام جان و مال و آبرو کا تحفظ دیتا ہے‘ قیدیوں کے ساتھ انسانی برتائو کی تاکید کرتا ہے‘ لڑنے والے مقتولین کی لاشوں تک کی حفاظت کی ہدایت کرتاہے‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کے کارکنوں کو ہر قسم کی ضروری سہولت کی ضمانت دیتا ہے‘ فتح کے متکبرانہ مظاہر تک سے منع کرتا ہے۔ مجاہد‘ دشمنوں کا بھی محافظ بن کر دیارِ غیر میں قدم رکھتا ہے۔
اسلامی جہاد کی یہ صحیح تصویر آج کی مہذب کہلانے والی غیر مسلم طاقتوں کو اسی طرح تہذیب کا سبق دیتی ہے‘ جس طرح عہدِ وسطیٰ کے انتہائی طاقت ور متمدن ملکوں کو اس نے انسانیت کا سبق سکھایا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ و امن کے جتنے بھی مہذب قوانین آج اصولاً رائج ہیں وہ سب اسلامی جہاد کے وضع کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ غیر مسلم معاشروں اور خود مسلمانوں کو اس تاریخی حقیقت کی یاددہانی کرائی جائے۔ رہا جبرو ظلم کے مقابلے میں اعلاے کلمۂ حق تو یہ افضل جہاد ہر حال اور ہر مقام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں‘ سب کے سامنے احقاقِ حق اور قیامِ عدل کے لیے کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس شہادتِ حق کی شرطیں بھی وہی ہیں جو جہاد کی ہیں‘ جو دراصل راہِ خدا اور صراطِ مستقیم کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ دعوتِ بلیغ ہے۔
اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام خلافت ہے‘ جس میں خدا اور رسولؐ کی نیابت کا تصور انسانی فطرت کی اُس خودسری اور سرکشی پر روک لگا دیتا ہے جو ملوکیت کی روح رواں ہے۔ یہ بادشاہی کی وہ اسپرٹ ہے جو رائج الوقت جمہوری کہلانے والے نقالوں میں بالکل نمایاں ہے‘ ٹھیک جس طرح عہدِقدیم کی شہنشاہیت میں تھی۔ یونان و روم و ایران سے برطانیہ و امریکہ تک کے پرانی اور نئی استعماریت (Imperialism) اور نوآبادیت (Colonialism) کی تباہ کاریوں کی روداد کل تاریخ کے صفحات میں پڑھی جاتی تھی‘ آج ان اوراق کے علاوہ میڈیا کے مناظر میں بھی دیکھی جا رہی ہے جو انسانیت کو لرزہ براندام کر رہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے اسی حقیقت کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ غیر اسلامی ملوکیت کے مقابلے میں اسلامی خلافت ہی وہ نظریۂ سیاست ہے جو صحیح معنوں میں آزادی رائے‘ مساوات‘ عدلِ اجتماعی اور فلاحِ عامہ (public welfare) کی ضمانت دیتا ہے اور صلاحیت و خدمت دونوں کی قدرشناسی کرتا ہے۔ ریاست کے اسی تصور سے معاشرے کی درستی و ترقی ہوتی ہے۔
اپنی کتاب پردہ میں مولانا مودودیؒ نے جسمانیات (Physiology) اور نفسیات (Psychology) وغیرہ علوم و فنون کے مستند حوالوں سے بہ تحقیق ثابت کیا ہے کہ قدرتی طور پر مرد اور عورت دو مختلف جنس ہیں اور ان کے فطری تقاضے مختلف ہیں۔ لہٰذا دونوں جنسوں کا بے حجابانہ خلط ملط‘ غلط اور نقصان دہ ہے۔ چنانچہ ان کے دائرہ ہاے کار ایک دوسرے سے الگ ہونے چاہییں اور ہر ایک کو اپنے مخصوص دائرے میں اپنے خاص طریقے ہی سے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح ان کی جداگانہ صلاحیتوں کا نشوونما بھی ہو گا اور ان کے عزائم کی تکمیل بھی ہو گی۔ یہ سماج کی بہتری کے لیے مرد اور عورت کے باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کی صحیح و مفید شکل ہو گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عورت کا نامحرم مردوں سے پردہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مولانا نے پردے کی معقول کیفیت بھی بیان کر دی ہے اور اس کی قابلِ عمل حدود کا تعین کر دیا ہے‘ تاکہ خاندانی نظام انتشار سے محفوظ رہے اور معاشرے کی تنظیم برہم نہ ہو۔
جدید تمدن کا سارا کاروبار سودی نفع اندوزی (profiteering) کے اصول پر چل رہا ہے‘ جس کے سبب امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔ سود ہی کے بل پر دولت‘ خدائی کا سکہ چلا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ عالمی بنک اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کے ذریعے ایک نئی شہنشاہیت دنیا کو نو آبادیت کے دورِ وحشت کی طرف واپس لے جا رہی ہے۔ سود کے ذریعے مولانا مودودیؒ نے تمام مسلم و غیر مسلم معاشروں کے سامنے ان کی اخلاقی پستی اور ترقیات کے مظاہروں کے باوجود انسانیت کے تشویش انگیز زوال کا آئینہ رکھ دیا ہے‘ تاکہ وہ خرابیِ احوال کا اندازہ کر کے اصلاحِ احوال کی جانب مائل ہوں۔
آج کے معاشرے کے حالات و رحجانات پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تنقید کی ہے اور ان کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جو تجویزیں اپنی مذکورہ بالا کتابوں اور دوسرے لٹریچر میں پیش کی ہیں‘ وہ ایک عظیم الشان کارِ تجدید ہے۔ مولانا کی دعوت ایک انقلابی دعوت ہے جس کا خطاب مسلم و غیرمسلم معاشروں سے یکساں ہے۔ بلاشبہہ مولانا کا محورِ فکر اسلامی ہے اور قرآن و سنت کے احکام و ہدایات پر مبنی ہے لیکن انھوں نے اول تا آخر اسلام کو ایک آفاقی نظریۂ حیات کے طور پر پوری انسانیت کی اصلاح و تجدید کے لیے پیش کیا ہے‘ اور وقت کے جتنے بنیادی مسائل ہیں ان کا حل ایک حکیمانہ انداز سے تجویز کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے دور جدید کے مریضانہ رحجانات پر‘ خواہ وہ کتنے ہی عام اور مقبول ہوں‘ ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ ان کا پول کھل گیا ہے اور ان کی تباہ کاری واضح ہو گئی ہے۔
فتنہ و فساد‘ بے پردگی‘ سود‘ مغربی جمہوریت‘ ضبط ولادت جیسے عالم گیر مہلک امراض کی صحیح تشخیص کرکے ایک عالمانہ بصیرت و جرأت کے ساتھ ان کے علاج کا نسخۂ شفا تجویز کرنا‘ ایک بے مثال کارنامہ ہے جو مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی نے انجام دیا ہے۔ فکر و عمل دونوں کے اعتبار سے اس تحریک کی رہنمائی مسلم و غیرمسلم معاشروں کے لیے عام ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کا لٹریچر رائج الوقت غلط افکار و خیالات کی قطعی تردید کر کے ان کے متبادل صحیح نظریات و تصورات مؤثر ترین اسلوب میں پیش کرتا ہے۔ ان حقائق کے مدنظر عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ کو صرف مسلم امہ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مجدد کہا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مولانا کی تحریروں کو مناسب طور سے دنیا کی تمام زبانوں میں شائع کیا جائے اور ان کی دکھائی راہوں پر عمل کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔
۱- مولانا مودودیؒ نے اسلامی تحریک کی رہنمائی کا جو کام اپنے لٹریچر سے کیا ہے‘ اسے غیرمسلم معاشروں میں ایک انسانی تحریک کی حیثیت سے‘ جو فی الواقع اسلامی تحریک بجاے خود ہے‘ پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ انسانیت کی اصلاح و ترقی‘ یعنی انسان دوستی یا انسان سازی ہی مولانا کی ساری جدوجہد کا منشا و مقصود رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور موجودہ مسلم فرقے کے درمیان فرق و امتیاز کیا‘ اور خلافت راشدہ کے بعد کی عام مسلم تاریخ کو خالص اسلامی تاریخ کہنے سے انکار کیا۔
۲- مختلف اہم موضوعات پر مولانا کے مباحث کا خلاصہ انھی کی تصانیف سے‘ انھی کے لفظوں میں تیار کر کے ہر قابل ذکر زبان میں وسیع پیمانے پر شائع کیا جائے۔
۳- اس مقصد کے لیے ایک علمی ادارہ کسی معروف مصنف کے زیر قیادت مستعد رفقاے کار کے ساتھ مناسب مقام پر قائم کیا جائے‘ جس میں رہایش وغیرہ کی تمام ضروری سہولتیں اور نشرواشاعت کے جدید ترین کاروباری وسائل مہیا ہوں۔ ابتدائی و بنیادی سرمائے کے ساتھ یہ ادارہ حتی الوسع خود کفیل ہو جائے اور اپنی جگہ خود مختار ہو۔
۴- افکار مودودی کی اشاعت اور اس کے مطابق مسلم یا غیرمسلم معاشرے میں عملی جدوجہد کے لیے دنیا کے جو ادارے بھی تعاون کرنا چاہیں ‘ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
۵- غیر مسلم معاشروں کی سب سے مقبول زبان انگریزی ہے۔ لہٰذا اس زبان پر قدرت رکھنے والوں سے ادبیات مودودی کی تلخیص و ترتیب کا کام لیا جائے۔
۶- مغرب کی زبانوں میں فرانسیسی‘ جرمن‘ روسی‘ اطالوی اور مشرق کی زبانوں میں عربی‘ فارسی‘ چینی‘ جاپانی‘ ہندی‘ بنگلہ‘ سواحلی وغیرہ میں بھی کام کیا جائے۔
۷- مولانا مودودیؒ کے خیالات کو فکری و عملی طور پر پھیلانے کے لیے دینی جذبے سے سرشار کارکن‘ رکھے جائیں‘ جو کھلے ذہن اور صالح کردار کے ساتھ کام کریں۔
نظریاتی مقابلے کے موجودہ دور میں وہ جدوجہد بہت ضروری ہے جس کا ایک مختصر خاکہ اوپر پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں تاخیر و تامل نقصان دہ ہو گا۔ آج عالمی ذرائع ابلاغ (Media)‘ خاص کر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ ایک وحشیانہ تہذیب و تمدن کو‘ سائنس اور ٹکنالوجی کے بل پر‘ فروغ دے رہے ہیں۔ لہٰذا‘ ان کو ناکام بنانے اور صحت مند تعمیری اقدارِ انسانیت کو نمایاں کرنے میں مزید تاخیر کو راہ نہ دی جائے۔ اس معاملے میں مستعدی و چستی وقت کی پکار ہے!
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بلاشبہہ بیسویں صدی کے نامور ترین مفکرین اور علماے اسلام میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ۶۰سالہ علمی اور ادبی زندگی میں دینی‘ ملّی اور اجتماعی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو پر لکھا ہے۔ ان کی تحریروں کا بنیادی مطمح نظر فکر اسلامی کی تجدید‘ مسلم معاشرے کی تشکیل نو اور مسلمانوں کی گمشدہ اسلامی میراث کی بازیافت ہے۔ اپنی ابتدائی تحریروں میں مولانا مودودیؒ کے خیالات پر جن دینی شخصیتوںکے اثرات غیر معمولی طور پر محسوس ہوتے ہیں‘ ان میں آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مجدد اور مصلح علامہ ابن تیمیہ ؒ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ ابن تیمیہؒ سے مولانا مودودیؒ کی عقیدت بہت قدیم بھی ہے اور ابتدا میں بڑی شدید بھی تھی۔ مولانا کی جن کتابوں کو ان کے نظام فکر میں کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ ان میں تجدید و احیاے دین ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک مقالہ تھا جو انھوں نے ۴۱-۱۹۴۰ء میں الفرقانکے شاہ ولی ؒاللہ نمبر کے لیے لکھا تھا۔ مولانا نے اس مقالے میں نہ صرف تصور تجدید اور احیاے دین پر مفصل بحث کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ بلکہ اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیتوں کو وہ تجدید و احیاے اسلام کا نمایندہ سمجھتے ہیں ان کے کام پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔
اس مقالے یا کتاب کی تصنیف کے دوران مولانا مودودیؒ کے ذہن میں تجدید کا جوخاص تصور تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مختلف مجددین کے کام پر تبصرے کیے اور جہاں جہاں بہتری کی گنجایش محسوس کی اس کی نشان دہی کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیاے اسلام کو جس شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے مولانا کے نوجوان ذہن اور حساس دل پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ہی زوال کا شکار ہیں‘ اور زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں کا زوال نمایاں نہ ہو۔ اس ہمہ گیر زوال اور کمزوری کے احساس نے مولانا کے تصورِ تجدید پرگہرا اثر ڈالا۔ جس زمانے میں وہ یہ مقالہ لکھ رہے تھے ان دنوں دنیاے اسلام میں انحطاط و زوال کی بڑھتی ہوئی تاریکیوں کے مشاہدے نے ان کے دل میں تجدیدِکامل کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ چنانچہ اس پوری کتاب کی اٹھان مجددِکامل یا تجدیدِ کامل کے تصور پر ہے۔یہ تجدیدِ کامل جس کی ضرورت کا احساس مولانا کو بیسویں صدی کے نصف اول میں ہوا‘ اس کی روشنی میں جب انھوں نے بیسویں صدی سے پہلے کے مجددین کے کام کا جائزہ لیا تو کئی جگہ ان کو وہ خلا محسوس ہوا جو نہ خود ان مجددین کو محسوس ہوا تھااور نہ کبھی دیگر مؤرخین نے اس کی نشان دہی کی۔
اس پس منظر میں جہاں مولانا مودودیؒ بہت سے مجددین کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور وہاں موجود اس خلا کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کو محسوس ہوا‘ وہیں وہ ابن تیمیہؒ جیسی قد آور شخصیت کا تذکرہ بھی بہت بھرپور انداز سے کرتے ہیں۔ ایسا ہونا شاید ناگزیر بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے انھی دنوں ابن تیمیہؒ کی تحریروں کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔ ابن تیمیہؒ کے تذکرے میں جو جوش و خروش اور تاثر پذیری نظر آتی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی کے بالغ نظر اور انتہائی پرجوش مصلح کے گہرے اثرات نوجوان مصنف اور مستقبل کے مصلح کے قلم پر پڑرہے ہیں۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس مقالے کے لکھے جانے سے کچھ ہی قبل‘ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے سالوں میں‘ مولانا نے ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد رشید ابن القیمؒ کی تصنیفات سے بہت استفادہ کیا۔
ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا پر ایک دوسرے راستے سے بھی پہنچے۔ یہ راستہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ ہے۔ حجۃ اللّٰہ البالغہ کے بارے میں بعض اربابِ نظر کا کہنا ہے کہ اس کے بعض حصے ابن تیمیہؒ کی کتابوں کے براہ راست اثرات کے تحت لکھے گئے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض ابواب اور علامہ ابن تیمیہؒ کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مولانا نے ۳۹۔۱۹۳۸ء کے سالوں میں حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض حصوں کا ترجمہ کیا۔ یہ وہ حصے تھے جہاں شاہ ولی ؒاللہ کے افکار اور ابن تیمیہؒ کے خیالات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ مضامین جو حجۃ اللّٰہ البالغہکے مختلف ابواب کے آزاد ترجمے سے عبارت ہیں‘ ۳۹-۱۹۳۸ء کے سالوں میں ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔
ان مقالات کے موضوعات کے ایک سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور خود شاہ ولی ؒاللہ کے خیالات پر ابن تیمیہؒ کے اثرات کہاں کہاں ہوئے ہیں۔ چند عنوانات ملاحظہ فرمائیں: ۱- توحید و شرک‘۲-حقیقت شرک‘۳-اقسام شرک‘ ۴-علوم نبوی کی اقسام‘ ۵-مصالح اور شراع کا فرق‘ ۶-نبی سے اخذِشرع کی کیفیت‘ ۷-چوتھی صدی ہجری کا فقہی و مذہبی اختلاف‘ ۸-دین میں تحریف اور بدعت کے اسباب ‘ ۹- اسلام کا فلسفہ عمران‘ ۱۰-اسلامی قانون معیشت‘اس کی روح اور اصول‘۱۱- اہم ترین تمدنی مفسدات کا انسداد‘ ۱۲- نرخوں کا حکماً مقرر کیا جانا‘ ۱۳- معاملات میں فضل اور فیاضی‘ ۱۴- اختلافی مسائل اور نقطۂ عدل۔ ان جیسے عنوانات سے یہ بات پورے طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا مودودیؒ کے افکار پر کن کن راستوں سے پڑ رہے ہیں۔
موضوعات و خیالات کے اس اشتراک کے علاوہ بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو ابن تیمیہؒ کی شخصیت میں ایک ایسا دینی آئیڈیل نظر آیا جس کے نظریات‘ تحریروں‘ تحریکی ردعمل اور رویہ ان کو خود اپنے خیالات‘ تحریروں اور رویے سے بہت ملتا جلتا معلوم ہوا۔ ان دونوں شخصیتوں میں یہ مشابہت اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ان دونوں کے کام اور افکار کا کوئی ناقد اور مبصر اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔
مزید برآں دونوں فکروں کو جس فکری ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا وہ بھی قریب قریب یکساں ہی تھا۔ ابن تیمیہؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ سیاسی اعتبار سے افراتفری اور عسکری اعتبار سے مسلمانوں کی پستی کا دور تھا ۔ مشرق سے جنگجو تاتاریوں کا سیلاب جو کم و بیش ۱۰۰سال قبل اٹھا تھا‘ اس نے دنیاے اسلام کے شہر کے شہر زمین بوس کر دیے تھے اور لاکھوں بے گناہ کلمہ گو مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا۔ تاتاریوں کی ان تباہ کن ترک تازیوں کے نتیجے میں چند ایک کے علاوہ جن میں دہلی کی سلطنت بھی شامل تھی‘ دنیاے اسلام کی تمام بڑی بڑی حکومتیں ایک ایک کر کے یا تو سرنگوں ہو چکی تھیں اور لرزہ براندام تھیں‘ یا بالکل ہی دم توڑچکی تھیں۔
کم و بیش یہی منظر مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دیکھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی مسلمانوںکی تباہی کے وہ عبرت ناک منظر لے کر آئی جس کی کوئی نظیر اگر اسلام کی تاریخ میں ملتی ہے تو وہ تاتاریوں ہی کی ہولناکیوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی‘ مشرقی یورپ میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی اور مختلف مغربی طاقتیں ایک ایک کر کے دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو تاخت و تاراج کر رہی تھیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور تاتارستان سے لے کر زنجبار تک کوئی مسلم حکومت ایسی نہ تھی جو دنیاے مغرب کے پنجے تلے نہ کراہ رہی ہو۔
تاہم ‘تاتاریوں کی تاخت و تاراج اس اعتبار سے مغربی تاراج سے بہتر تھی کہ تاتاریوں کی لائی ہوئی تباہی کے اثرات صرف عسکری اور مادی پہلوئوں تک محدود تھے۔ تاتاریوں نے بلاشبہہ لاکھوں انسان تہہ تیغ کیے‘ درجنوں شہر زمیں بوس کیے‘ سیکڑوں کتب خانے نذر آتش کیے اور بے شمار کھیتیاں اور نسلیں برباد کیں۔ لیکن اس سب کے باوجود تاتاریوں کے نہ کوئی مذہبی عزائم تھے‘ نہ کوئی تہذیبی ایجنڈا تھا اور نہ کوئی ثقافتی اور تمدنی منصوبہ تھا۔ کم از کم ان میدانوں میں انھوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس کے برعکس مغرب کی استعماری قوتیں ایک مذہبی پروگرام کے ساتھ دنیاے اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا ایک مفصل تہذیبی ایجنڈا بھی تھا اور ایک تعلیمی پروگرام بھی ۔ اس لیے جو منفی اثرات بیسویں صدی کی تباہی اور زوال کے نتیجے میں پیدا ہوئے وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی تباہی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر تھے۔اس سے یہ نتیجہ بلاخوف تردید نکالا جا سکتا ہے کہ جو فکری چیلنج مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر مفکرین کے سامنے تھا وہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا جس کا سامنا ابن تیمیہؒ کو کرنا پڑا۔
ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودیؒ دونوں نے اپنے اپنے دور میں ان فکری چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جو ان کے دور میں مسلمانوں کو درپیش تھے۔ لیکن یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ابن تیمیہؒ جس چیلنج کا سامنا کر رہے تھے وہ یونانی منطق اور فلسفے کا پیدا کردہ تھا۔ بلاشبہہ ابن تیمیہؒ کی نقض المنطق اور الردعلی المنطقیین انتہائی عالمانہ کتابیں ہیں اور یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے دور تک آتے آتے یونانی منطق اور فلسفہ ویسے ہی ادھ موئے ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ابن تیمیہؒ سے پہلے غزالیؒ اور رازیؒ جیسے اساطین علم و فکر یونانی منطق اور فلسفے پر زبردست اور تابڑ توڑ حملے کر چکے تھے اور اب یونانی منطق اور فلسفے کے خلاف آواز اٹھانا آسان بھی تھا اور اس کے لیے مواد بھی دستیاب تھا۔
اس کے برعکس جب مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر دوسرے مسلم مفکرین نے تنقید ِمغرب کے کام کا آغاز کیا تو مغربی افکار و نظریات انتہائی تازہ دم اور ہر قسم کی تنقید کو سہنے کے لیے پورے طور پر تیار تھے۔ جن دنوں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ یونانی منطق پر تنقیدیں کر رہے تھے‘ وہ دور اہل مغرب کے بالعموم اور اہل یونان کے بالخصوص سیاسی انحطاط اور کمزوری کا دور تھا۔ یہ وہ دور ہے جب کم از کم یورپ میں کوئی سیاسی قوت ایسی موجود نہ تھی جو یونانی افکار کے تحفظ اور دفاع کے لیے کھڑی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی۔ ان حضرات کی کاوشوں کی علمی قدروقیمت اپنی جگہ‘ لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔
بیرونی افکار پر تنقید اور مغربی فکر و فلسفے کے ناقدانہ جائزوں اور تبصروں سے قطع نظر ان دونوں حضرات کی علمی اور دینی کاوشوں کا اہم ترین میدان تجدید و اصلاحِ دین ہے۔ مسلمانوں میں رائج دینی تصورات کی قرآن و سنت کی روشنی میں تنقید اور کمزور پہلوئوں کی اصلاح ان دونوں شخصیتوں کے کام اور دل چسپی کا اصل میدان ہے۔ دونوں کو اپنے معاصر علما اور دینی اکابر کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان دونوں شخصیتوں کا لب ولہجہ اور زور بیان اختلافی مسائل و معاملات میں ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہے۔ اس بات کو زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس زور شور سے ان دونوں حضرات کا قلم تنقیدی مسائل پر اٹھتا ہے وہ اپنی ایک الگ ہی شان رکھتا ہے۔ غالباً یہ بتا دینا خلاف ادب نہ ہو گا کہ ان دونوں حضرات کے خلاف ان کے معاصر علما کے لہجوں میں شدت کا ایک اہم سبب ان حضرات کا وہ انداز بیاں بھی تھا جو انھوں نے اختلافی معاملات میں اختیار فرمایا۔
مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں اپنے اپنے اجتہادو تفردات میں بھی ایک دوسرے سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان تفردات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ نہ صرف خود یہ دونوں حضرات بلکہ ان کے مخاطبین‘ متاثرین اور ہمدردوں کی بڑی تعداد کی توجہ اور صلاحیتیں اپنے اپنے تفردات کا دفاع کرنے میں صرف ہوئیں اور اصلاح عقائد اور تعمیر ملت کا وہ کام پس منظر میں چلا گیا جس کا حصول ان دونوں جلیل القدر بزرگوں کا مقصود اولین تھا۔
عقلیات مغرب پر تنقید کے باب میں جہاں مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ میں خاص مشابہتیں پائی جاتی ہیں وہاں ان دونوں حضرات میں کئی اعتبار سے فرق بھی ہے۔ چونکہ مولانا اصلاً ایک سیاسی مفکر اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ تھے جس نے انتخابی سیاست میںبھرپور حصہ لیا‘ اس لیے مولانا کی تنقید میں سیاسی اسلوب اور مکالمے کا رنگ جھلکتا ہے۔ جہاں مولانا مغرب کی فکری کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہیں وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اٹھ کھڑا ہونے اور کچھ کر گذرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی تنقید میں خالص علمی اور فکری دلائل کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی قائد کا سا خطیبانہ انداز بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یوں بھی مولانا کے ہاں خطابی دلائل ان کی ابتدائی تحریروں میں کثرت سے ملتے ہیں۔
اس کے برعکس ابن تیمیہؒ اصلاً ایک فقیہہ‘ متکلم‘ مناظر اور محدث تھے۔ اس لیے ان کی تنقیدی تحریریں ذرا مختلف انداز کی ہیں۔ ایک محدث کی سی دقت نظر‘ جزئیات کو بیان کرنے کا محدثانہ اسلوب اور مغربی افکار پر خالص دینی نقطۂ نظر سے تنقید کے دوران بھی ابن تیمیہؒ منطقی دلائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں کے ہاں عقل و نقل کا امتزاج یکساں طور پر پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ابن تیمیہؒ کا زیادہ زور نقل پر اور مولانا کا عقل پر ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی ذہنی تشکیل اور علمی ساخت علمِ حدیث کے ماحول میں ہوئی‘ اس لیے ان کی تحریروں پر نقل کا اسلوب غالب ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ اپنے ابتدائی کیریئر میں چونکہ صحافی رہے‘ اس لیے ان کو عامۃ الناس کی سطح پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اپنا مخاطب بنانا پڑا جو کسی دینی پس منظر کے حامل نہ تھے‘ چنانچہ انھیں لازماً ایسا اسلوب اپنانا پڑا جس میں اپیل کی اصل بنیاد نقل کے بجاے عقل ہو۔ چنانچہ عقلی اپیل کا یہ اسلوب مولانا کی تحریروں کا طرئہ امتیاز بن گیا۔ اس اسلوب کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں مولانا خالص دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہیںوہاں بھی ان کے طرز استدلال میں عقل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہے جو ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق خالصتاً نقل کے میدان سے ہے‘ لیکن اس کتاب میں بھی مولانا کا عقلی استدلال (بمقابلہ نقلی دلائل) نمایاں اور غالب معلوم ہوتا ہے۔
ان دونوں شخصیتوں کا ایک اہم اور مشترک وصف ان کا داعیانہ جوش بھی ہے۔ یہ داعیانہ جوش مولانا مودودیؒ کی ابتدائی تحریروں میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ (بالخصوص قیام پاکستان کے بعد) جب مولانا کو سیاسیات کے تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو ان کے ہاں گفتگو اور مکالمے میں ایک نیا انداز سامنے آیا۔ اس نئے انداز میں نسبتاً زیادہ ٹھیرائو‘ زیادہ احتیاط اور زور بیان کی ارادی کمی معلوم ہوتی ہے۔
غالباً ابن تیمیہؒ کو ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا اس لیے ان کے ہاں ایسی کوئی تبدیلی نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ زور بیان دونوں کے ہاں غیر معمولی ہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان میں دینی ادب تخلیق کرنے والے اہلِ علم میں مولانا مودودیؒ کا درجہ اگر سب سے اونچا نہیں تو بہت اونچا ضرور ہے۔ اگر اردو زبان کے دینی ادیبوں اور اہل قلم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے والی دو ایک شخصیتوں کا انتخاب کیا جائے تو یقینا مولانا مودودیؒ ان میں سے ایک ہوں گے۔ ان کا درجہ علامہ شبلی نعمانی ؒ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جیسے جید ترین دینی ادیبوں سے اگر بڑھ کر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ لیکن ابن تیمیہؒ کے پورے احترام کے باوجود یہ عرض کر دینے میں مضائقہ نہیں کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ نے ابن تیمیہؒ کو بطور ایک ادیب تسلیم نہیں کیا۔ عربی زبان میں دینی موضوعات پر جن شخصیتوں کا زور بیان اور ادیبانہ اسلوب ضرب المثل ہے ان میں ابن تیمیہؒ کا نام نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی زبان کی عمر اردو سے کم از کم آٹھ گنا زیادہ ہے اور عربی زبان میں اعلیٰ ترین دینی ادب تخلیق کرنے والوں کی تعداد شاید اُردو زبان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا ہو۔ ان حالات میں شاید ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودی ؒ کا یہ تقابل مبنی بر انصاف نہ ہو۔
اوپر ان دونوں شخصیتوں کے حوالے سے تفردات کی بات کی گئی تھی۔ تفردات میں بھی یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے خاصی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں کا جذبۂ اخلاص‘ دونوں کی حیرت انگیز تائید ‘دونوں کی بے مثال جرأت اور دونوں کا اپنے نقطۂ نظر اور اپنی رائے پر اصرار حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتا ہے۔
ابن تیمیہؒ کے انتقال کے کم و بیش ۶۰۰ سال بعد ان کے اجتہادات و تفردات کی علم بردار ایک حکومت قائم ہوئی جس نے ابن تیمیہؒ کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔ آج روے زمین پر بہت کم دینی اور اسلامی کتب خانے ایسے ہوں گے جہاں ابن تیمیہ کی تصنیفات دستیاب نہ ہوں۔ آج کوئی دینی درس گاہ مشکل سے ہی ایسی ملے گی جہاں ابن تیمیہؒ کی کسی نہ کسی تصنیف سے اعتنا کرنے والے موجود نہ ہوں۔ آج دنیا کے کسی بڑے ملک میں جہاں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں‘ ابن تیمیہؒ کے اجتہادات پر عمل کرنے والے بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ بعض اہم مسائل میں دنیاے اسلام میں ابن تیمیہؒ کے اجتہادات و تحقیقات کو قبول عام حاصل ہو چکا ہے۔ شاید ابن تیمیہؒ کی قوت استدلال‘ داعیانہ جوش‘ کثرت معلومات و شواہد اور زور بیان نے ان کے نقطۂ نظر کو بہت سے حلقوں میں منوا لیا ہے۔ مثال کے طور پر توہین رسالتؐ کی سزا کے معاملے میں آج دنیا میں ہر جگہ ابن تیمیہؒ ہی کی رائے کو قبول عام حاصل ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور احناف کی رائے کیا رہی ہے۔
ابن تیمیہؒ کے برعکس مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے نہ ۶۰۰سال انتظار کرنا پڑا اور نہ ان کو کسی حکومتی سرپرستی کی ضرورت پڑی۔ان کی زندگی ہی میں ان کے خیالات دنیاے اسلام میں ہر جگہ پہنچے‘ ہر ملک میں مقبول ہوئے اور ان کے اجتہادات و تفردات کو جوش و جذبے سے قبول کرنے والے بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے۔ ابن تیمیہؒ کے افکار کے فروغ میں جو کردار حکومت سعودی عرب نے انجام دیا‘ وہی بلکہ اس سے بڑھ کر موثر کردار ان بے شمار دینی و ملی تحریکوں و تنظیموں نے انجام دیا جو مولانا مودودیؒ کے حلقے سے وابستہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم کیں۔ ابن تیمیہؒ کی طرح مولانا مودودیؒ کے افکار بھی دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلے ہیں کہ ان کی چھاپ بیسویں صدی کے اسلامی اور دینی ادب پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
اپنی تمام عظمتوں اور تاثیر کے باوجود مولانا مودودیؒ ایک انسان تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہ ؒ بھی ان تمام تحدیدات سے محدود اور ان تمام قیود کے پابند تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مقید اور محدود کیا ہے۔ نہ صرف ان دونوں کے بارے میں بلکہ تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیتوں کے بارے میں محفوظ و مامون طرز عمل وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالکؒ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے فرمائی تھی:
کل یوخذ من قولہ و یترک الا صاحب ھذا القبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ہرشخص کے اقوال کا ایک حصہ قابل قبول اور ایک حصہ ناقابل قبول ہے۔ اس باب میں صرف ایک ہی استثنا ہے اور وہ (روضۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس صاحبِ قبر کا ہے۔
ہمارا رویہ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے۔
مولانا مودودیؒ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی تھے‘جن وجوہ سے وہ اسے انسانیت کی خیروفلاح کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے‘اور اس کے لیے جو طریق کار ان کی نگاہ میں درست تھا‘اس کی پوری تفصیل ان کے چھوڑے ہوئے تحریری و تقریری سرمایے میں محفوظ ہے۔ اس کا جائزہ لے کر کوئی بھی بآسانی جان سکتا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مولانا مودودیؒ کا وژن کیا تھا۔
عین عالم جوانی سے وہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی اور اس کے لیے جس طریق کار کے علم بردار بن کر اٹھے تھے‘زندگی کے آخری لمحات تک اس حوالے سے ان کی فکر میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ان کے تحریری کام اور عملی جدوجہد کا سلسلہ اگرچہ نصف صدی سے زیادہ مدت پر پھیلا ہوا ہے‘اس کے باوجود اس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے پہلے رائج الوقت افکار و نظریات اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کیا‘ اور پھر خوب سوچ سمجھ کر اپنے مقصد زندگی کی بنیاد کاملاً قرآن و سنت پر رکھی اور اس میں کسی ملاوٹ اور مداہنت سے قطعی مجتنب رہے۔ چنانچہ جو کچھ انھوں نے ۳۵سال کی عمر میں لکھا ‘۷۰ سال کی عمر میں بھی انھیں اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کے کسی دور کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ ان کی بنیادی فکر میں مکمل یکسانیت ملے گی۔
ذیل میں ان کے افکارکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں جس تبدیلی کی جدوجہد انھوں نے شروع کی تھی ‘ اس کی تفصیلات ان کی نگاہ میں کیا تھیں۔
اس کے بعد کہتے ہیں:’’میں صرف غیرمسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے‘بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آؤ اس ظلم اور طغیان کو ختم کردیںجو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹادیں‘‘۔(تحریک ِآزادیٔ ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۲۴-۲۵)
’’انسان پر سے انسان کی خدائی کا خاتمہ اور قرآن کی بنیاد پر ظلم اور بے انصافی سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر‘‘---یہ ہے وہ تبدیلی جس کی دعوت لے کر مولانا مودودیؒ اٹھے تھے۔
ہندستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مسلمان قائدین اس بنیادی کام کے بجاے جن مسائل میں الجھے ہوئے تھے‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلۂ تحریر میں مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں: ’’مغربی طرز کے لیڈروں پر تو چنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی ہے‘ مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علماے کرام پر جن کا رات دن کا مشغلہ ہی ’قال اﷲ و قال الرسول‘ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ قرآن کو کس نظر سے پڑھتے ہیں کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی انھیں اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمانوں کے لیے اصولی طور پر مقرر کردی گئی ہے۔جن مسائل کوانھوں نے اہم اور اقدم قرار دے رکھا ہے‘ قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا نشان بھی نہیں ملتا۔برعکس اس کے قرآن میںہم دیکھتے ہیں کہ نبی پر نبی آتا ہے اور ایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے: یٰقَوْمِ اعْبُدُوْاﷲ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗخواہ بابل کی سرزمین ہو یا ارضِ سدوم‘ یا ملک مدین‘ یا حجر کا علاقہ‘ یا نیل کی وادی‘ خواہ وہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو یا بیسویں یا دسویں‘ خواہ وہ غلام قوم ہویا آزاد‘ خستہ و درماندہ ہو یا تمدنی وسیاسی حیثیت سے بام عروج پر۔ ہر جگہ‘ ہردور میں‘ ہر قوم میں‘ اﷲ کی طرف سے آنے والے رہنماؤں نے انسان کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی‘ اور وہ یہ تھی کہ: اﷲ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اسی سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے‘ سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے‘ نہ جانتے تھے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدم اور کون سی مؤخر ہونی چاہیے‘ اور انھیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں۔یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اِس دور میں جو حضرات اسلام کے نمایندے اور مسلمانوں کے قائد و رہنما بنے ہوئے ہیں‘ وہ جزئیات شرع پر کتنا ہی عبور رکھتے ہوں‘ بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۶)
یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند ‘یا ایک اشتراکی اس کو دیکھتا ہے۔جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘انھی کی زبان میں باتیں کریں گے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تواپنی وقعت کو ہم خودہی خاک میں ملادیں گے… تعداد کی بنا پر اکثریت و اقلیت کے نوحے‘ یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ و پکار--- یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں …] حالانکہ[ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں… اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶-۱۰۸)
ان اقتباسات سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ دنیا میں اسی معاشرتی تبدیلی کی دعوت لے کراٹھے تھے‘ جس کے لیے انبیاکرام دنیا میں بھیجے گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ اسی تبدیلی کی جدوجہد دنیا میں ان کا مشن ہے اور اس کا طریق کار وہی ہے جو اﷲ کے رسولوں نے اپنے ادوار میں اختیار کیا‘ اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہر زمانے کے لیے اسی نہج پر پھیلانا اور تبدیلی لانے کی کوشش کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔
’’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے جولائی ۱۹۴۰ء کے شمارے میں چھپنے والے اس مضمون میں جو اَب تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے دوسرے حصے میں موجود ہے ‘ اس نکتے کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے‘ اکیلا ہی آیا ہے۔ اقلیت و اکثریت کا کیا سوال‘ وہاں سرے سے کوئی ’’مسلمان قوم‘‘ ہی موجود نہ تھی۔ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اٹھتا ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔چند گنے چنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں‘ اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت‘ حکومت الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے… بارہا وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا‘ اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں اس تحریک کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔مگر اس کے باوجود جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے تھے اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا‘ انھوں نے آخری سانس تک بس اسی مقصد کے لیے کام کیا‘ اور کسی ایک نے بھی اکثریت کا یا حکومت کا رنگ دیکھ کر‘ یا وقتی اور مقامی مشکلات کا خیال کرکے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔
پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کو اٹھانے اور چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی سازگاری کی ضرورت ہے۔جس سامان اورجس سازگار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے نہ کبھی فراہم ہوگا۔دراصل خارج میں نہیںبلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے کہ یہی مقصد حق ہے‘ اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ میرا جینا اور مرنااسی مقصد کے لیے ہے۔یہ ایمان‘ یہ شہادت‘ یہ عزم موجود ہو تو دنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۱-۱۱۲)
دراصل ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر چھاجانے کی قوت اگر ہے تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے جو انسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہو‘اور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔قومیت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔ قومیت کے حصار‘ نسلوں کے تعصبات‘قومی ریاستوں کے مضبوط بند‘ کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہرطرف‘ ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروؤں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ایک اکیلا آدمی اس کو اٹھانے کے لیے کافی ہے۔پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔وہ اپنے دشمنوں میں سے دوست پیدا کرتی ہے۔سب قوموں کے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں‘ ان پر وہ اپنے اصولوں کے تیر بھی چلاتی ہے۔خون کے پیاسے دشمنوں میں سے وہ اپنے سرگرم حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ سپاہی‘ جنرل‘ ماہرین فنون‘سرمایہ دار‘ صناع اور کاریگر‘ سب انھی میں سے اس کو مل جاتے ہیں‘ اور بے سروسامانی میں ہرقسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔ قومیتیں اس کے سیلاب کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھیرسکتیں۔بڑے بڑے پہاڑ اس کے سامنے آتے ہیں اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آب ِرواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے اقلیت و اکثریت کے سارے سوالات بے معنی ہیں۔وہ اس کی ہرگز محتاج نہیں ہوتی کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔وہ قومی حکومت قائم کرنے نہیں اٹھتی کہ قومیں اس کی مزاحمت کرسکیں۔اسے تو ایک ایسے اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے جو سب قوموں کے لوگوں کی فطرت کو اپیل کرتا ہو۔جاہلی تعصبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں مگر جب فطرتِ انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے تو وہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف
بامید آنکہ روزے بہ شکارخواہی آمد
]صحرا کے تمام ہرن اپنے سر ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں‘ اس امید پر کہ کسی دن وہ شکار کرنے تو آئے گا۔[
اس وضاحت کے بعد کہ پوری انسانیت کی فلاح کی علم بردارایک عالم گیر اصولی تحریک کے داعیوں کی حیثیت سے مسلمانوںکا دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ مادّی مفادات کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ اس حیثیت کے عملی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد اور اغراض کو بھول جائیں‘ تمام تعصبات سے بالاتر ہوجائیں‘اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظر ہٹالیں جن سے ہمارے حقیر دُنیوی فوائد کا تعلق ہے… اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصب میںمبتلا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔ اگر ہم ]نام کی مسلم[ ریاستوں کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے ] حکمران[ مسلمان ہیں اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے‘ تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی یہ باور کرلے گا کہ ہم اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں اور واقعی حکومت الٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۸)
ان تحریکوں کی نظر صرف ] مقامی[ مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلادی۔مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے ’’مسلم قوم‘‘ میں شامل ہیں‘ اور ان کی دل چسپیاں بھی انھی مسائل تک محدود رہیں‘ جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے‘ جو غیرمسلموں کواپیل کرنے والی ہو‘ بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سدراہ بن گئی ہیں۔لیکن ہمارے لیے چونکہ خوداسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے ‘ لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے‘ بلکہ پوری نوع انسانی اور سارے کرۂ زمین پر وسیع ہے۔تمام انسانوں کے مسائل زندگی ہمارے مسائل زندگی ہیں‘ اور اﷲ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے ہم ان مسائل زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں‘جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ (روداد جماعت اسلامی‘ حصہ اول‘ ص ۱۱)
یہ جماعت کوئی قوم پرست یا وطن پرست جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانیت کی فلاح اس کے پیش نظر ہے‘ مگر وہ یقین رکھتی ہے کہ جب تک ہم خود اپنے ملک کو اسلامی نظام کا مثالی نمونہ نہ بنادیں‘ اور جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جس حق و صداقت پر ہم ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں‘ اور جب تک ہم یہ نہ دکھادیں کہ اس پر عمل کرنے کے کیسے بہتر نتائج ہمارے ملک میں برآمد ہوئے ہیں‘ اس وقت تک ہم دنیا کو اس کے حق اور صداقت ہونے کا قائل نہیں کرسکتے۔
اسی مقصد کے لیے جماعت نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر اسلامی ریاست قرار پاجانے کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے کا اصل مقصد اس ذریعے سے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانا تھا اور مقصودیہ تھا کہ مسلسل انتخابی عمل بالآخر لوگوں میں بھلے برے کا شعور پیدا کردے گا اور معاشرہ اس تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجائے گا جو جماعت اسلامی کو مطلوب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عملمیں انتخابی سیاست میں شرکت کی یہی حکمت بتائی ہے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے‘ اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی نسبت زیادہ خراب۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے‘ لوگوں کے خیالات بدلیے‘اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا‘ اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔
جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی‘ جھوٹ نے شکست دی ہے۔جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔ لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسرعام گالیاں نہیں دیں۔اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں‘‘۔کچھ لوگ ]مجھ سے[ کہہ رہے تھے کہ:’’کچھ نہ کچھ آپ کوبھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیے۔کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمہ داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کے اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ‘ گالی گلوچ اور دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔جو ذمہ داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے ‘اس کے مطابق کام کریں۔آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک کے اندر ضرورہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔اسلامی نظام کا قیام تو اﷲ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے‘ اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے‘ جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے‘ یا ان کو تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھارہی ہے۔آپ کاکام اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے‘ جان کھپانا ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریںگے توماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔(تصریحات‘ص ۲۷۷-۲۷۸)
مولانا مودودیؒ کے ہاں سے جو رہنمائی ملتی ہے اس کی رو سے دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت کے خاتمے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حاکمیت کے قیام کا یہ کام‘ عالمی سطح پر ایک علمی و فکری انقلاب برپا کرکے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:’’اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکراسلام سے منحرف ہورہے ہیں‘ اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی و فکری دبدبہ اور تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے‘ اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیںکہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہوگا‘ جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے…… اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کوڈھادیں جن پر مغربی ]لادینی[ تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیںجو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ایک نئی حکمت طبیعی(نیچرل سائنس) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکرو تحقیق کی اساس قائم کریںاور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پرچھاجائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو‘‘۔ (تنقیحات‘ص:۱۹-۲۰)
اس کام کو شروع کرنے کے لیے اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ مسلمان پہلے سائنس اور ٹکنالوجی میں جدید مادّہ پرست قوتوں کے ہم پلہ ہوجائیں‘صنعت و حرفت میں ان کی برابری کرنے لگیں اورفوجی طاقت میں ان کی ٹکر پر آجائیں۔مولانا مودودیؒ کے بقول اس کام کا آغاز تمام وسائل سے محروم پوری دنیا میں ایک اکیلا شخص بھی کرسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت کی نمرودی اور فرعونی تہذیبوں کو چیلنج کرنے کا یہ کام ہمیشہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام جیسے ظاہری دنیاوی وسائل سے سراسر محروم انسانوں ہی نے کیا ہے۔البتہ آج کی اسلامی تحریکوں کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو عملاً محض مسلمانوں کے قومی مفادات کی وکالت اور اس سلسلے میں دوسری اقوام کے ساتھ ان کے تنازعات میں جانبداری سے بالاتر ہونا پڑے گا۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم’’وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیں‘‘۔اس حوالے سے اپنے مشہور مقالے اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ میں وہ کہتے ہیں:
اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں‘ صرف انسان ہیں۔ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ ’اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی فلاح ہے‘اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ‘ زبان‘ افعال اور حرکات‘ ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کواپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا‘پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہورہی ہیں‘جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیادہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں‘ ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑوں سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۱۶۶)
اس کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بنادیا ہے۔ ٹیلی وژن کے سٹیلائٹ چینل اور انٹر نیٹ جیسی ایجادات نے ہر ایک کے لیے پوری دنیا تک بیک وقت اپنا پیغام پہنچانے کی سہولت مہیا کردی ہے۔ان حالات میں یہ بات واضح ہے کہ اب دنیا میں جو تبدیلی بھی آئے گی‘ عالمی سطح ہی پر آئے گی۔ افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں سے دنیا کا کوئی گوشہ اثرپذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جس کا پیغام زیادہ موثر اور جان دار ہوگا بالآخر وہی جدید انسان کے ذہن کو مسخر کرنے اور اس کا دل جیتنے میں کامیاب رہے گا۔آج اگر مغرب اپنے پروپیگنڈے کی طاقت سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دوسرا نام ہے‘ تو انھی جدید ذرائع سے لوگوں تک اسلام کی صحیح دعوت پہنچاکر کل صورت حال یکسر بدلی بھی جاسکتی ہے‘کیونکہ اسلام بہرحال حق ہے اوریہ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روشنی کے سامنے اندھیرا کبھی نہیں ٹھیرتا۔ جاء الحق وزھق الباطل‘ انّ الباطل کان زھوقا۔دنیا کی یہ کیفیت اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ جو نبی ؐ پوری انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور جس کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اس کی امت کے سپرد کی گئی ہے‘ اس نبیؐ کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔
دور حاضر میں اسلامی تحریک کو اپنی حکمت عملی وقت کے اس تقاضے کے مطابق ترتیب دینی چاہیے۔ مقامی طور پر نفاذ اسلام کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی ؒکے افکار کے مطابق عالمی محاذ پرعلمی و فکری کام کے لیے بھی اسے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا معقول حصہ وقف کرنا چاہیے‘ اور ان کاوشوں کو جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا تک پورے اہتمام کے ساتھ پہنچاناچاہیے۔ان کوششوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ نفاذ اسلام کا سلسلہ کسی مسلمان ملک کے بجاے کسی ایسے غیر مسلم ملک سے شروع ہوجائے جس کے بارے میں ابھی سوچابھی نہ جاسکتا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اﷲ کے نبیؐ کی دعوت مکہ میں اس کے ہم وطنوں سے پہلے حبش کے بادشاہ اور مدینہ کے اجنبیوں نے قبول کی ۔ داس کیپی ٹال جس ملک میںلکھی گئی اس کی بنیاد پر انقلاب اس ملک سے ہزاروں میل دور زاروں کی سرزمین اور چیانگ کائی شیک کے وطن میں برپا ہوا۔ ابوجہل اور ابولہب کی صفوں سے اگر ڈیڑھ ہزار برس پہلے لشکر اسلام کو عمرؓ بن خطاب اور خالدؓ بن ولید جیسے مردانِ کار دستیاب ہوسکتے تھے توآخرآج کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں کیوں میسر نہیں آسکتے ؟پھر جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے انتظار میں بندگیِ رب کی دعوت دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے سے رکے رہنے کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے۔ اس دعوت کا تعلق صرف اجتماعی معاملات سے نہیں‘ ہر فرد کی انفرادی فلاح و نجات سے بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونے والا ہر شخص رب کائنات کے حضور یہ شکایت کرنے میں بالکل حق بجانب ہوگا کہ جن لوگوں کوآپ نے اپنے آخری پیغام کا امین اورپوری دنیا کے لیے اس حق کا گواہ بنایا تھا‘وسائل موجود ہونے کے باوجودانھوں نے یہ پیغام ہم تک نہیں پہنچایا‘ اس لیے ہمارے دوزخ میں جانے کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔
آج غیروں کی زیادتیوں کے ردعمل میںچلنے والی احتجاجی تحریکوں پرمسلمانوں کے جو وسائل صرف ہورہے ہیں اور جتنی جانی قربانیاں ان تحریکوں کے وابستگان دے رہے ہیں ‘اگر یہ مالی وسائل اور یہ انسانی توانائیاں دنیا تک اسلام کے پیغام کو قومی حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتررہتے ہوئے پوری انسانیت کے لیے خیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ پہنچانے پر صرف کی جائیں‘ تو یقینی طور دنیا میں اسلام کی مقبولیت کے حوالے سے کہیں بہتر نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا پراﷲ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مولانا مودودی ؒنے اسی راستے کی نشان دہی کی ہے‘ اورانسانی معاشرے میں مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق تبدیلی برپا کرنے کے لیے اسی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔
برعظیم کے عظیم مصلحین میں سے ایک علامہ ابوالاعلیٰ مودودی ؒہیں۔ آپ نے اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی‘ جو عمرانی اور تربیتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کی تفسیر اور دیگر تالیفات کا قابلِ ذکر حصہ دوسری زبانوں کے علاوہ عربی‘ فارسی‘ ترکی بنگالی‘ ہندی‘ پشتو‘ جرمنی اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
علامہ مودودیؒ محض پاکستان سے ہی تعلق نہیں رکھتے‘ بلکہ آپ کا تعلق پورے عالمِ اسلام سے ہے۔ آپ کے افکار و آثار ‘یعنی تصنیفات و تالیفات‘ دنیاے اسلام میں دستیاب ہیں۔ جونہی آپ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور استعمار اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا طبقے پر کھل کر تنقید کی‘ تو آپ کی آواز پوری دنیا میں ہر جگہ پہنچی اور رفتہ رفتہ آپ کی کتابوں کامختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ایران اور فارسی جاننے والے ممالک میں آپ کی تالیفات فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں‘ جن سے شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر نے استفادہ کیا۔
سید ابوالحسن علی ندویؒ ایک بڑے عالم دین اور علامہ مودودی ؒکے ہم عصر ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں نے اسلامی تہذیب کے اس دور میں آپ جیسا کوئی اور شخص نہیں دیکھا جس نے فکر و خیال پر اتنے زیادہ اثرات چھوڑے ہوں‘‘۔
علامہ مودودیؒ کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کے ایک اہم موڑ پر قرآن مجید کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ آپ ان مصلحین میں سے تھے جنھوں نے برعظیم میں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ آپ سے پہلے سید جمال الدینؒ اسد آبادی (۱۲۵۴ھ - ۱۳۱۴ھ) اور شیخ محمد عبدہؒ (۱۲۶۶ھ - ۱۳۲۴ھ) مشرقِ وسطیٰ میں دعوت دے چکے تھے۔ رجوع الی القرآن کا یہ نظریہ اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن مجید کئی برسوں سے‘ عوام کی زندگی سے بہت دور‘ الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ قرآن مسلمانوں کی نظر میں محض ایک مقدس کتاب تھی‘ وہ اس کا احترام کرتے تھے۔ اسے چومتے تھے‘ خوشی و غمی کے موقعے پر اس کی تلاوت کرلیتے تھے اور مُردوں کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن پڑھا لیتے تھے۔ مگر زندگی کی سرگرمیوں میں اسے دستورالعمل بنالینے کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
علامہ مودودیؒ نے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی جو دعوت دی ہے‘ وہ دراصل قرآن کی عزت و احترام کی طرف حقیقی معنوں میں لوٹنے کی دعوت ہے۔ یہ مسلمانوں کی فکری پس ماندگی کے خاتمے اور تہذیبی زوال کی تلافی کی دعوت ہے۔ قرآن کی طرف پلٹنا ایک ایسی کتاب کی طرف پلٹنا ہے جو تنہا سند حجت ہے‘ قطعی اور متواتر ہے‘ تحریف سے پاک ہے اور تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول و محترم ہے۔ اس کتاب سے جہاں بانی و جہاں بینی کے اصول و عقائد اور احکام و اقدار حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے غلو آمیز خرافاتی عقائد کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس پر سبھی مسلمانوں کا ایمان و اتفاق ہے۔ اس لیے یہ اتحاد اور مسلمانوں کی عمرانی او ر سیاسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس کتاب سے تعلیم میں انقلاب اور سماجی ترقی وجود میں آ سکتی ہے۔
علامہ مودودی ؒ نے قرآن کے اصل پیغام کو پہچان کر جو ذہنی رفعت حاصل کی ہے‘ آپ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ… علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے… دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظرآتے ہیں… کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے… اور پھر بھی حل نہ کر سکے۔ ان کو اس کتاب ]قرآن کریم[ نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے‘ حیوان سے انسان بنا دیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی‘ اور ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو master key (شاہِ کلید) کہتے ہیں‘ جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو‘ میرے لیے یہ قرآن ’شاہِ کلید‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔(تفہیم القرآن فارسی‘ ج۱‘ ص ۲‘ ترجمہ: کلیم اللہ )
علامہ مودودی ؒسے پہلے علامہ اقبال ؒنے برعظیم میں رجوع الی القرآن کی دعوت دی تھی۔ انھوں نے اپنی کتاب اسرارِ خودی اور دیگر کتابوں اور اپنے اشعار میں قرآن کی طرف رجوع کے لیے کہا تھا‘ کہ اس سے مسلمان اپنے آپ کو پالیں گے اور غیروں کی تہذیب اپنانے کی ذلت سے بچ جائیں گے۔ دنیا پر مغربی اقوام کے تسلط سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلم نوجوان تہذیب مغرب کی چکا چوند سے فریب کھا کر حوصلہ نہ ہار بیٹھیں اور اسلام کی برتری و حقانیت سے ان کا اعتماد نہ اٹھ جائے۔ اسی لیے علامہ اقبال ؒنے انھیں بروقت خبردار کیا اور قرآن کی طرف بلایا۔
علامہ مودودی ؒنے ویسے تو کئی مقالات شائع کیے‘ مگر قرآن کی طرف واپسی کے جلیل مقصد کے لیے آپ نے اپنے رسالے ترجمان القرآن میں تسلسل سے لکھا‘ تاکہ عہدِ حاضر کی زبان میں معاشرے کو قرآنی فکر سے متعارف کروائیں۔ آپ نے ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے ایک پارٹی قائم کی اور اس کے ارکان کی ذہنی و فکری پرورش و تربیت قرآنی فکر سے کی۔
آپ نے اپنی تفسیر میں اس نکتے کو انتہائی سادگی اور اختصار سے بیان کیا ہے کہ نزولِ قرآن کا مقصد کیا ہے؟ قرآن کا کیا دستورالعمل ہے؟ قرآن جس انسان کا تعارف کرواتا ہے‘ وہ کس قسم کا انسان ہے؟ اور قرآن ایک نظام اور معاشرے کی تشکیل کے لیے کس قسم کا منصوبہ پیش کرتا ہے؟ علامہ کی تفسیر تفہیم القرآنکے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ اگرچہ اس کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ اور باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری اور ازبس مفید ہے۔ بہرحال یہاں اختصار کے ساتھ اس تفسیر کی چند خصوصیات اور نکات بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
۱- تفہیم القرآن عوام کی رہنمائی و آگاہی کے لیے سادہ زبان میں لکھی گئی ہے۔ ترجمہ و تشریح سے اس کا مقصد‘ متخصصین اور اہلِ فن کے ذوق کا سامان فراہم کرنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر میں اکیڈمک طرز کی بحث و تحقیق‘ ادبی نکتہ آفرینیوں یا اعجاز بلاغت کے نکتے پیش کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ علامہ مودودی چاہتے ہیں کہ قارئین تک قرآن کا پیغام پہنچائیں اور اس پیغام سے واقف ہونے کا اثر ان کی زندگی اور طرزِ عمل پر پڑے۔ ان کا مقصدِ زندگی اور حیاتِ عمرانی کا منشا بدل جائے۔
۲- اس تفسیر کی ایک خصوصیت اس کا ’عصری‘ ہونا ہے۔ ’تفسیر عصری‘ سے مراد یہ ہے کہ مفسر دینی و اعتقادی مباحث پیش کرتے وقت ایسا اسلوب اختیار کرے کہ عام ناظر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قرآن کا مفہوم و مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جائے اور وہ اپنے دور کی زبان اور فکر میں قرآن کے پیغام کو پا سکے۔ اسی طرح دورانِ مطالعہ جہاں جہاں اسے الجھنیں پیش آ سکتی ہوں وہ صاف کر دی جائیں۔ پھر جہاں کچھ سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوں‘ اس کا جواب اسے بروقت مل جائے۔ علامہ مودودیؒاپنی تفسیر کے مقدمے میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دیگر مفسرین کی کوششیں قابل قدر ہیں‘ مگر وہ آج کی ضروریات پورا کرنے اور تشنگی رفع کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ چاہیے یہ کہ موجودہ دور کے لحاظ سے تفسیر لکھی جائے‘ جس سے مناسب طور پر استفادہ کیا جا سکے۔
۳- اس تفسیر کی ایک ہم خصوصیت مفسر کا سماجی علوم و افکار سے واقف ہونا بھی ہے۔ اس صدی میں‘ علمِ تفسیر میں یہی بات قرآن کی طرف کشش و جاذبیت کا سبب بنی ہے۔ علامہ مودودیؒ ہرآیت کی تشریح میں یہ بتاتے ہیں کہ یہ آیت انسانی زندگی کے بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے‘ نیز معاشرے کو درپیش حقیقی ضروریات و مشکلات کا کیا حل بتاتی ہے؟ یوں آپ قرآن کی معاشرہ ساز تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہا ں ایک آیت کی تشریح کا خلاصہ بطور نمونہ درج کرتا ہوں: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۳۱) ’’اے محمدؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمھارے لیے تمھارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے‘‘۔ یعنی ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے‘ لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو‘ اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دوچار ہونا ناگزیر ہے‘ ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے جائو۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور اُدھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کار اپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے .....رہنمائی سے مراد صرف علمِ حق عطاکرنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے‘ اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بروقت صحیح تدبیریں سجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے۔ حق اور باطل کی کش مکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ہر ایک پر اہلِ حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۴۷-۴۴۸)
غرض یہ کہ اس عمرانی تفسیر میں راہِ عمل کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ راستے پر چلنے کے لیے مسلسل ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کو متحد‘ منظم اوریک جا رکھتی ہیں اور معاشرے کو تفرقے اور اتنشار سے بچاتی ہیں۔
۴- تفہیم القرآنکی ایک اور اہم خصوصیت اسلامی مکاتب فکر اور فرقوں کے مابین قربت و ہم آہنگی کی روش اختیار کرنا ہے۔ یہ تفسیری منہج‘ فرقہ وارانہ مفاہمت پیدا کرنے‘ مسلمانوں کو متحد رکھنے اور اسلامی معاشرے میں فرقہ واریت اور تعصب کو ختم کرنے کی کوششوں کا ایک بڑا جلیل القدر حصہ ہے۔ یہ جذبۂ اتحاد‘ عصرِ حاضر میں متعدد مسلم مصلحین و مفکرین میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مصنفین کا یقین ہے کہ تفرقہ بازی اور مذہبی اختلاف اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور امت اسلامی کے اتحاد کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ اسلامی معاشرے کے افراد مختلف سنی یا شیعہ اسلامی مکاتب فکر سے وابستہ ہوں‘ مگر چوں کہ مسلمان اسلام کی اصل بنیادوں جیسے: توحید‘ نبوت‘ معاد (آخرت) پر ایمان رکھتے ہیں‘ قرآن کو آسمانی اور الٰہی کتاب مانتے ہیں اور عملی لحاظ سے ارکانِ اسلام: نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد کے پابند ہیں‘ امربالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند ہیں‘ لہٰذا فقہی و اجتہادی اختلاف ان میں جدائی اور متحارب گروہ در گروہ بننے کا باعث نہ ہونا چاہیے۔
ہر فقہی مکتب فکر کی علمی کاوشیں اور مجتہدانہ تحقیقات جدائی‘ نزاع‘ لڑائی اور خون ریزی کا سبب نہ بننے پائیں‘ بلکہ ایک زندہ معاشرے میں اس قسم کے اجتہادات ایک فطری امر ہیں اور معاشرے میں کئی نقطہ ہاے نظر اور آرا کے ظہور کا باعث ہیں۔ لہٰذا ‘انھیں درجہ کمال اور ربط و اتحاد کا ذریعہ بننا چاہیے۔ خاص طور پر اگر یہ اجتہادات و آرا‘ سماجی فکر سے مربوط ہوں اور انسان کو زوال و پستی سے نجات دلانے والے ہوں۔ لہٰذا‘ اسلامی برادری میں ان اختلافات کو‘ دشمنانِ اسلام کے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ نہ بننے دینا چاہیے‘ تاکہ وہ اسلامی اخوت کی روح اور اتحاد ویک جہتی کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔
علامہ مودودیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو زندگی بھر وحدتِ اُمت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ وہ سورۂ آل عمران (آیت ۱۰۳) میں نکتۂ اتحاد کو یوں بیان فرماتے ہیں: مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ’دین‘ کی ہو‘ اسی سے ان کو دل چسپی ہو‘ اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں‘ پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا‘ جو اس سے پہلے انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۲۷۶-۲۷۷)
علامہ مودودیؒ کا اسلامی مکاتب و مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا منہج و طریق ان لوگوں کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ہے‘ جو اپنی تفسیر کو اختلاف و نزاع اور مذہبی مجادلہ و کش مکش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور محبت و یکجہتی کو دگرگوں کرنے کا تہیّہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کسی بھی موقع و مناسبت سے اپنے مخالف فرقے یا جماعت پر حملہ کرنے اور اُن سے اختلاف کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اپنے مخالفین کو کافر فاسق اور گمراہ قرار دیتے ہیں اور دھڑے بندی سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ان حضرات نے قرآنی تفسیر کے اوراق کو محض اختلافی مباحث سے آلودہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات آیاتِ قرآنی کی وضاحت میں صرف اپنا ہی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔
ان کے برعکس علامہ مودودیؒ نہ تو فرقہ وارانہ اختلافات میں حصہ لیتے ہیں اور نہ مخالف کی تردید کو اپنی تفسیر کی شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ صرف قرآن مجید کے علمی‘ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی احکام کی وضاحت کرتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انھی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے‘ اور انھیں تہذیبی‘ سیاسی‘ معاشی‘ فکری اور جغرافیائی سطح پر غلام بناتا ہے۔
افسوس کہ اس مختصر مضمون میں‘ میں علامہ مودودیؒ کی تفسیر کی دیگر گوناگوں خصوصیات کو زیربحث نہیں لا سکا۔ ترجمے کے اسلوب اور تفسیر پیش کرنے کی کیفیت پر بھی روشنی نہیں ڈال سکا۔ مولانا کی تفسیر کے اہداف و مقاصد اور دیگر مرکزی نکات بھی بیان طلب رہ گئے ہیں۔
مولانا مودودیؒ کے زندہ کارناموںمیں ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کے دلوںمیںاسلامی عقائد اورنظام زندگی کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی‘ اور ان کی تحریروں نے مسلم نوجوانوں میں اس اعتماد کو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام زندگی ہے جو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (مجلہ البعث الاسلامی‘ بابت محرم ۱۴۰۰ھ)
سید مودودیؒ کی دعوت کادائرئہ اثر کسی خاص طبقے تک محدود نہیں رہا ‘ بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے اورہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ ان کی دعوت کا دائرئہ اثر صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں تھا‘ بلکہ ان کی دعوت انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی پر بھی یکساںطور پر حاوی تھی۔
جب میںنے الجہاد فی الاسلام لکھنے کا فیصلہ کیا تو اس سلسلے میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت پاک اور احادیث کا گہرامطالعہ کیا۔اس وقت مجھے یکا یک احساس ہوا کہ یہ کتاب تو ایک تحریک کی قیادت کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ یہ محض تلاوت کر کے رہ جانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس غرض کے لیے ہے کہ اس کو لے کر ایک تحریک دنیا میں اٹھے --- اسی خیال کو لے کر میں برسوں سوچتا رہا کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔ آخر کار ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی اورالحمدللہ اس کے صرف چھ ماہ بعد میں نے فروری ۱۹۴۲ء میں تفہیم القرآن لکھنے کاکام شروع کردیا ۔(مولانا مودودی کے انٹرویو‘ مرتبہ: ابو طارق‘ ص ۴۹۷)
اس طرح ۱۹۷۲ء میں تکمیل تفہیم القرآنکی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے سیدمودودیؒ نے اپنی دعوت اور قرآن کریم کے درمیان اس تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’جماعت اسلامی کی تحریک شروع کرنے کے ساتھ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنے قلم اور اپنی زبان سے اللہ کے دین کو سمجھانے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگا لوں لیکن جب تک خود اللہ کی کتاب کے ذریعے سے اللہ کے دین کوسمجھانے کی کوشش نہ کی جائے ‘ اس وقت تک دین کا فہم پوری طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب دین ہی کو سمجھانے کے لیے اللہ نے نازل کی ہے اور اگر دین کو سمجھانا ہے تو اس کتاب کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک لوگ اس کو نہیں سمجھیں گے‘ اس وقت تک ان کے لیے اس مقصد ہی کو سمجھنا ممکن نہیں ہے جس کے لیے میں اور میری جماعت کام کر رہی ہے‘‘۔ (رسالہ آئین‘ جولائی ۱۹۷۲ئ)
دراصل مولانا مودودیؒ کی دعوت کا سر چشمہ بھی قرآن کریم ہی ہے اور منشأو مقصودبھی۔ یہی وہ مرکز و محور ہے جس کے گرد ان کی پوری دعوت و تحریک گھومتی ہے ۔ یہی وہ کتاب عظیم ہے جس نے خود ان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ سراج منیر ہے جس کے ذریعے ان پر حق واضح ہو ا۔ یہی وہ شاہ کلید ہے‘ جس کے ذریعے مولانا مودودی ؒ دور حاضر کے مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے قابل ہوئے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے ذریعے مولانا ؒ نے موجودہ دور کے نئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور معاشرے میںبرپا ہونے والی منفی تحریکوں کا سدباب کیا۔ ا سی کتاب کے ذریعے انھوں نے ـمغرب پرستی اور جدیدتہذیب کی ذہنی غلامی کاقلع قمع کیا اور موجودہ نسل کے اس اعتمادکو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بنی نوع انسان کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
اس بحث سے سید مودودیؒ کی دعو ت و تحریک اور ان کی تفسیر کے درمیان گہرے تعلق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کی بنیاد ہی اس لیے رکھی کہ یہ قرآن کریم کی دعوت کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور قرآن کریم کی تفسیر اس لیے لکھی کہ تحریک اسلامی کی عملی رہنمائی کے لیے ایسا کرناناگزیر تھا ۔
l چند اہم پہلو: جب قرآن کے گہرے مطالعے سے ان پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل ہی اسی مقصد کے لیے کیا ہے کہ اس کے ذریعے عملاً ایک اسلامی تحریک برپا کی جائے‘ تو انھوں نے عملاً تحریک اسلامی کے قیام کا فیصلہ کر لیا۔ پھر جب انھوں نے عملاًدعوت کے میدان میں قدم رکھا تو انھیں اندازہ ہوا کہ جس مقصد کے لیے انھوں نے یہ تحریک برپا کی ہے‘ اس کی تکمیل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کو اس کا ذریعہ اور وسیلہ بنا یا جائے۔ چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کی تالیف شروع کر دی۔ مولانا مودودی ؒ کی دعوت اور ان کی تفسیر میںموجود اس تعلق کا یہ فطری نتیجہ ہوا کہ انھوں نے اپنی تفسیرمیں ان پہلوؤں کو زیادہ واضح کرنے کی طرف توجہ مبذول کی‘ جن کا تعلق دعوتِ دین سے ہے‘ یا جن میں فریضہ اقامتِ دین کی اہمیت واضح کی گئی ہے‘ یا ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو مغرب کی جاہلی تہذیب و نظریات کے غلبے کی وجہ سے پس منظر میں چلے گئے تھے‘ یا جن کی حقیقت ان نظریات کی مصنوعی چکا چوند کی وجہ سے دھندلا گئی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں موجودہ دور کے فتنوں ‘ ـ مغربی تہذیب کے جلو میں آنے والے ـ لادین ا ور ـ مادہ پرستانہ فلسفوں اور دیگر نئے نئے چیلنجوںکا جواب بھی قرآن کی روشنی میں دیاہے۔ ان کی تفسیر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے مستشرقین‘ عیسائی مشنریوںاور مغرب زدہ طبقے کے باطل نظریات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اسلامی اقدار و نظریات کے خلاف کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور گروہوںکے باطل عقائد و نظریات اور افکار و تاویلات کا مؤثر و مدلل جواب دینے کا اہتمام بھی کیا ہے‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے روایت ودرایت کا خاص اہتمام کرتے ہوئے کیا ہے۔
تفہیم القرآن سب سے زیادہ متاثر کن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تحریک اسلامی کی قیادت کرتے ہوئے تفسیر لکھنے کا کام بھی جاری رکھا اور یہ خدمت انھوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر چلتے ہوئے انجام دی۔ جب اسلامی تحریک کا آغاز کیا ‘ تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کے لیے رہنمائی کا سامان بہم پہنچانے کے لیے قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا پروگرام بھی بنایا۔ اس طرح یہ تفسیر تحریک اسلامی کی عملی و فکری قیادت کرتے ہوئے ا سلام اور جاہلیت کے مابین جاری کش مکش کے دوران میں تالیف کی گئی جس کا اندازہ اس تفسیر کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
چونکہ سید مودودیؒ بیک وقت ایک داعی بھی تھے اور ایک مفسر بھی ‘ اس لیے انھوں نے ٰتفسیر میں جدید جاہلی تہذیب کے دین اور سیاست کی علیحدگی کے اس نعرے کا طلسم چاک کرنے کا اہتمام کیا ہے‘ اور بڑ ی وضاحت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام‘ اہل مغرب کی اصطلاح کے مطابق محدود معنوں میں ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو دور حاضر میں ریاست کے تمام امور چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ سید مودودی ؒ کی تفسیر کا تیسرا اہم پہلویہ ہے کہ چونکہ وہ بیک وقت مغرب کی تہذیبی یلغا ر کے جلو میں آنے والے لا دین افکارو نظریات اور جدید مادہ پرستانہ فلسفوں پر بھی گہری نظررکھتے تھے اور قرآن و سنت اور دینی علوم میں بھی مکمل بصیرت رکھتے تھے ‘ اس لیے انھوں نے موجودہ دور کے چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اورجدید تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والے افکارونظریات او ر فلسفوں‘ مثلاً سیکولرزم‘ کمیونزم‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے تاریخ کی مادی تعبیر کے نظریے اور اس طرح کے دوسرے نظریات کو عقلی دلائل سے باطل ثابت کیا ہے ‘ نیز مستشرقین‘ عیسائی مشنریوں اورمغرب زدہ طبقے کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا بھی مؤثر انداز میں ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے مغربی سامراج کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی تحریکوں‘ مثلاً فتنہ ء انکار سنت اور قادیانیت کا بھی مؤثر انداز میں توڑ کیا ہے ۔
یہ تفسیر تین عشروں میں مکمل ہوئی۔ بظاہر یہ عرصہ کسی تفسیر کی تکمیل کے لیے غیرمعمولی دکھائی دیتا ہے لیکن انھوں نے اس عرصے میں صرف تفسیرکی تکمیل کا کام نہیں کیا‘ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر مستند اور علمی کتب بھی تالیف کیں‘ اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی فکری وعملی قیادت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے ایک طرف قرآن کی تفسیر لکھی اور دوسری طرف نئی نسل کی تربیّت پر بھی توجہ مرکوز رکھی اور اسلام مخالف تحریکوںکے داعیوں سے بر سر پیکار بھی رہے۔ اس عرصے کے دوران میں ملک میں آمریت کے علم برداروں سے بھی نبرد آزما رہے۔ یوں اس پورے عرصے کے دوران میں ان کی کیفیت یہ رہی کہ کبھی تووہ اپنے دفتر میں ضخیم علمی اور دینی کتابوں کا مطالعہ کررہے ہوتے‘ اور کبھی کسی جلسہ گاہ میں عوام الناس سے خطاب کر رہے ہوتے‘ یا ان کے مسائل سنتے اور ان کا حل بتارہے ہوتے‘ اور کبھی کسی یونی ورسٹی میں اہل علم و دانش اور قانون دان طبقے کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بھی زندگی کے ہر میدان میںمکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے‘ اور کبھی کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں صرف اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل ہوتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔
یہ تھے وہ غیرمعمولی حالات جن میں سید مودودی ؒنے اپنی تفسیر مکمل کی اور انھی غیرمعمولی حالات کی وجہ سے یہ عظیم کام اتنے طویل عرصے میںپایہ تکمیل کو پہنچا ۔
تفہیم القرآن کی جملہ خصوصیات کا احاطہ کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم صرف چند خصوصیات کا اجمالی ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے۔
مزید برآں شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذ اور اسلامی ریاست میں شوریٰ کی اہمیت کا ذکر بھی ٹھوس اور مدلل انداز میں کیا ہے‘ اور بتایا ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا دین کا بنیادی تقاضا ہے ۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کے بغیر دین کی تعلیمات اور تقاضوں پر صحیح طور پر عمل درآمد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یوں تفہیم القرآن کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ انسان پر اسلام کے ایک مکمل نظام حیات ہونے کا تصور واضح ہوتا ہے بلکہ وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے عملاً بھی تیار ہوجاتا ہے۔
اس جائزے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سید مودودیؒ کا اسلوب تفسیر روایت و درایت کے اصولوں پرپورا اترنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں جب اسلام او ر مسلمانو ںکوطرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے ‘ دعوت دین کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے۔ انھوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے ذریعے ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق قرآن سے جوڑ کراس میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ جدید تہذیب سے پیدا ہونے والے جاہلی فلسفوںکے سحر سے نکل کر بھر پور انداز میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہو‘ اور دوسری طرف علما و مشایخ اور دینی طبقے کے لوگوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ جدید تہذیب کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوں۔
مجھے سید مودودیؒ کی تفسیر کاکئی دوسری جدیدو قدیم تفاسیر کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع بھی ملا ہے ‘ جیسے تفسیرابن جریر طبری‘ تفسیر رازی ‘تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر روح المعانی‘ تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس تقابلی جائزے کے بعد سید مودودیؒ کے اسلوب تفسیر پر میرا یقین اس پہلو سے اور بھی پختہ ہو گیاہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر کے دوران اصولِ تفسیر کے تمام پہلوؤں کو پوری طرح ملحوظ رکھنے کااہتمام کیا ہے۔ اس اہتمام کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کی وہ دیگر امتیازی خصوصیات جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے ‘ سیدمودودی ؒ کی اس تفسیر کو فی الواقع دیگر تفاسیر میں ایک ایسا امتیازی مقام عطا کرتی ہیں جو اسی کا حصہ ہے۔
مسلمانوں کی علمی تاریخ میں علم حدیث اور سیرت نگاری دو ایسے پہلو ہیں کہ جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری قوم اور کوئی دوسرا مذہب نہیں کر سکتا۔ ان دونوں علوم میں سے پہلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ گفتگو‘ اعمالِ حسنہ اور طریقِ زندگی کے ہر پہلو کو اس حزم و احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے کہ محدّثین کی اس علمی اور تحقیقی کاوش کو غیر مسلموں نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔
علمِ حدیث کے دفاع کی خاطر اسماء الرجال جیسا عظیم فن ایجاد ہوا‘ جس کی نظیر اس سے قبل دنیا کی کسی علمی روایت میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر مستزاد درایت کا ایک ایسا اسلوب وضع کیا‘ جس سے اس اندیشے کا امکان بھی رفع ہو گیا کہ کوئی ظالم‘ آپؐ کی شخصیت اور کلام کے ساتھ کوئی غلط بات منسوب کرسکے۔
جہاں تک علم سیرت نگاری کا تعلق ہے‘ اس میں آپؐ کی حیات طیبہؐ کے ہر ممکنہ اور ضروری پہلو کو اس طرح محفوظ کیا گیا ہے کہ ایک زندہ اور متحرک شخصیت کے بچپن سے وصال تک کا کوئی گوشہ سامنے آنے سے نہیں رہ گیا۔ اس ضمن میں احوالِ حجاز و عرب‘ قبائل عرب اور ان کے نسب نامے‘ تاریخ و جغرافیۂ عرب‘ عرب کی تہذیبی اور ثقافتی روایات‘ سیاسی اور تمدنی نقشہ‘ ادبی اور شعری سرمایہ اور ان کے خصائل و رذائل‘ سب کچھ تفصیل کے ساتھ فراہم کر دیا گیا ہے۔ آپؐ کے کارنامۂ زندگی اور احوالِ سیرت کو صحیح طور پر جاننے کے لیے مذکورہ تفصیلات بہت ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔
سیرت نگاری کا آغاز عربی زبان میں ہوا‘ اسی باعث سیرت کے تمام تر منابع‘ مصادر اور مراجع بھی اسی زبان میں موجود ہیں۔ قرآن مجید آپؐ کے احوالِ سیرت کی سب سے بنیادی اور اساسی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ احادیث نبویؐ‘ کتب سیر‘ مغازی‘ تفاسیر‘ تواریخ‘ اسماء الرجال‘ دلائل‘ شمائل‘ آثار و اخبار‘ ادب و شاعری‘ تاریخ الحرمین‘ حج کے سفرنامے اور انساب و جغرافیہ کی کتب بنیادی ماخذِ سیرتؐ قرار پاتی ہیں۔ قرآن مجید تو خود آپؐ کی حیات طیبہ میں مکمل اور محفوظ ہوا۔ احادیث نبویؐ‘ صحابہؓ کے وردِ زبان تھیں تو روایات سنت ان کے اعمال کا مصفّا آئینہ تھیں۔ غزوات و سرایا میں صحابہؓ چونکہ خود شریک ہوتے تھے‘ اس لیے ان سے بڑھ کر ان کا شاہد کون ہو سکتا ہے۔ اسی باعث مغازی کی کتابیں عہد صحابہؓ میں مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ ان تمام مراجع اور مصادر کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ قدرت سابقہ انبیا و رسل کے برعکس نبی آخرالزماں ؐ کی حیات و خدمات کو اس کی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اگر صرف قرآن مجید کو دیکھا جائے تو خود اس میں آپؐ کی سیرت کے تمام تر پہلو ہر اعتبار سے محفوظ اور موجود ہیں۔ اس ضمن میں مولانا مودودیؒ کے ۱۹۲۷ء میں لکھے ہوئے ایک مضمون کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے:
دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت صرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور آپؐ کی شخصیت ۱۳ صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہو گیا ہے کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہے… لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثتِ انبیا کے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنا منظور تھا‘ جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور عالم گیر سرچشمۂ ہدایت ہو۔ اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبداللہ کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا‘ جو جاہل معتقدوں کے ہاتھوںدوسرے انبیا اور ہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ اول تو آپؐ کے صحابہؓ و تابعین اور بعد کے محدثین نے پچھلی امتوں کے برعکس اپنے نبیؐ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیر معمولی اہتمام کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ہم آپؐ کی شخصیت کو ۱۴۰۰ برس گزر جانے پر بھی آج تقریباً اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں‘ جتنے قریب سے خود آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اگر کتابوں کا وہ تمام ذخیرہ دنیا سے مٹ جائے جو ائمہ اسلام نے سالہا سال کی محنتوں سے مہیا کیا ہے‘ حدیث و سیر کا ایک ورق بھی دنیا میں نہ رہے جس سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا کچھ حال معلوم ہو سکتا ہو‘ اور صرف کتاب اللہ (قرآن) ہی باقی رہ جائے‘ تب بھی ہم اس کتاب سے ان تمام بنیادی سوالات کا جواب حاصل کر سکتے ہیں‘ جو اس کے لانے والے کے متعلق ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم‘ ص ۱۷- ۱۸)
جناب نعیم صدیقی (م: ۲۰۰۲ئ) کی محسن انسانیتؐ اپنے اسلوب میں ایک منفرد کتاب ہے۔ اسے دور حاضر میں اُردو زبان کی مقبول ترین سیرت کی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک میں سیرت پاک کا ایک نمایندہ اظہار کہہ سکتے ہیں۔ سید مودودیؒ نے محسن انسانیتؐ کے دیباچے میں سیرت نگاری کے منہج اور مقصود کو یوں واضح کیا ہے:
پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمتِ اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں‘ جو ازل سے چلے آ رہے ہیں‘ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن مجید کی صورت ہی میں مل سکتا ہے‘ دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہو سکتا ہے تو اس کی صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا‘ اس نے اسلام کو سمجھا‘ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔
محسنِ انسانیتؐ کی طرح بیسیوں دوسری ایسی تصانیف ِسیرت ہیں‘ جن میں سید مودودیؒ کی فکر اور تحریروں سے براہ راست استفادہ کیا گیا ہے۔
سید مودودیؒ کے کارنامۂ سیرت کو بیان کرنے سے پہلے ایک اہم کتاب کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام ؒآزاد (۱۸۸۸ء - ۱۹۵۸ئ) کی سیرت پر تحریروں کا مجموعہ رسولؐ رحمت ہے جسے مولانا غلام رسول مہرؒ نے مرتب کیا۔ اس کتاب کی سید مودودیؒ کی سیرت سرور عالمؐ کے ساتھ ایک تدوینی اور تصنیفی مناسبت ہے۔ یہ دونوں کتابیں مصنفین نے خود نہیں لکھیں‘ بلکہ انھیں ان کی تصنیفات‘ مقالات اور خطبات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں کی ترتیب میں ایک فرق یہ ہے کہ سیرت سرور عالمؐ کا خاکہ مرتبین (نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) نے مصنف کے سامنے پیش کیا‘ جسے نہ صرف مولانا نے بالاستیعاب دیکھا‘ بلکہ اس میں مناسب تجاویز کے بعد بذات خود سیکڑوں صفحات کے موزوں اضافے تحریر کیے۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان کی صورت میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہوئی جو قرارداد مقاصد کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ماڈل قرار پائی۔ اس ریاست کے آئینی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ تہذیبی‘ تمدنی‘ علمی اور ثقافتی وجود اور اسلامی تشخص کے لیے سید مودودیؒ نے ایک طرف احیاے اسلام کے لیے ایک نظریاتی تحریک کو پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسوۂ حسنہ اور سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے بھرپور علمی اور عملی مساعی کیں۔ اس لحاظ سے سیرتِ نبویؐ پر ان کی تحریروں کا مزاج محض مستند علمی معلومات کو پیش کرنے اور وقائع نویسی تک محدود نہیں رہتا‘ بلکہ وہ سیرت کے اس فکری اور انقلابی سرمائے کو ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ما قبل کے تمام ذخیرۂ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے۔
سید مودودیؒ کی سیرت پر تحریریں ۶۴ برس (۱۹۱۵ ئ- ۱۹۷۹ئ) کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہزار ہا صفحات پر مشتمل ان تحریروں کا آغاز ۱۹۱۵ء میں ہوا‘ جب آپ نے ۱۲ برس کی عمر میں ’’سیرت النبویؐ‘‘ کے عنوان سے ایک مجوزہ کتاب کا پہلا باب تحریر کیا۔ اس مضمون کا اختتام ان سطور پر ہوتا ہے:
اس نسبی بحث کے بعد‘ ہم اس حقیقی بحث کی طرف راجع ہوتے ہیں‘ جس کے بعد ہم حبیبؐ رب العالمین کی سیرت پاک کو زیادہ روشن اور بہت واضح دکھا سکتے ہیں‘ اور جس کے ذریعے لوگ نہایت آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم حقیقتاً تمام دنیا کے انسانوں سے‘ خواہ وہ حکیم ہوں یا عالم‘ زاہد ہوں یا متقی‘ والی ہوں یا پیغمبر‘ غرضیکہ بلند سے بلند مرتبے کے انسانوں سے زیادہ افضل اور برگزیدہ ہیں۔ اگر کوئی شخص انسانیت کی تفسیرمعلوم کرنا چاہتا ہے‘ تو اس کے لیے صرف آنحضرتؐ کی سیرت کا مطالعہ تمام دنیا کی کتابوں کی چھان بین سے زیادہ مفید ہے اور سب سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ اس آئینے میں نہ صرف انسانیت بلکہ جمال خداوندی کا عکس دیکھ سکتا ہے۔ یعنی ہم اسلام سے قبل عرب کی بدویت و جہالت کا ایک مختصر سا خاکہ دکھائیں گے اور اس تاریک قوم میں آنحضور ؐ کے خاندان کی حیثیت سے بحث کریں گے اور پھر بتائیں گے کہ آنحضرتؐ کا کن لوگوں میں نشوونما ہوا‘ اور کن حالات میں انھوں نے پرورش پائی اور کس زمین میں اپنی اصلاحات کا بیج بویا۔(وثائق مودودی‘ ص ۲۱)
سید مودودیؒ کے قلم سے ۱۲ سال کی عمر میں لکھی ہوئی اس تحریر سے سیرت کے موضوع اور اسلوب کے بارے میں ان کے ذہنی اور قلبی احساسات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان اثرات کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں ان کے خانوادے کی علمی اور روحانی حیثیت اور پھر والدین کی تربیت کا جائزہ لینا چاہیے‘ جس کے باعث کم عمر ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے قلب و ذہن میں اسوۂ رسولؐ کی یہ رعنایاں اور لطافتیں پختہ سے پختہ تر اور عمیق سے عمیق تر ہوتی چلی گئیں۔ اس ضمن میں سید مودودیؒ کی ۱۹۳۲ء میں لکھی گئی خودنوشت کا یہ مختصر اقتباس دیکھیے:
میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں ۱۳۰۰ برس تک سلسلۂ ارشاد و ہدایت اور فقر و درویشی جا ری رہا ہے --- اس خاندان کے ایک نامور بزرگ مولانا ابو احمد ابدال چشتی (م: ۳۵۵ھ) حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن کی اولاد سے تھے۔ انھی سے صوفیہ کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا ہے --- حضرت ناصرالدین ابو یوسف کے فرزند ِاکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م: ۵۲۷ھ) تھے‘ جو تمام سلاسلِ چشتیۂ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مودودی کے مورث ہیں --- اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا حال سب جانتے ہیں۔ مگر ہمارا خاندا ن اس میں عام مسلمانوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا‘ کیونکہ یہاں مذہب کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی --- والد مرحوم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی ایک ہی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ان کی اس تربیت اور عملی نمونے کا یہ اثر تھا کہ ابتدا ہی سے میرے دل و دماغ پر مذہب کے گہرے نقوش مرقسم ہو گئے --- والد مرحوم نے اوّل دن ] سے[ اردو اور فارسی کے ساتھ عربی زبان اور فقہ و حدیث کے درس پر ڈال دیا --- (مولانا مودودیؒ اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘ مرتبہ: محمدیوسف بھٹہ‘ ص ۳۱-۳۹)
سید مودودیؒ نے اپنی ۷۶ سالہ زندگی میں سے ۶۴ سال کے دوران سیرت پاک پر جو نگارشات رقم کیں‘ ان میں مقالات‘ خطبات‘ مصاحبے (انٹرویو)‘ مکتوبات‘ استفسارات‘ پیغامات‘ تقریظات اور دیباچے شامل ہیں۔ یہاں اُن کی چند مختصر تحریروں اور خطبوں کی فہرست ترتیب زمانی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔
۱۹۱۵ء : ’’سیرت النبویؐ‘‘ مشمولہ وثائق مودودی‘ ص ۲۱
۱۹۲۵ئ: ’’مدینۃالرسولؐ‘‘ مشمولہ‘ صدائے رستاخیز‘ ص ۳۳۹
۱۹۲۶ئ: ’’سرکار دو عالمؐ کی توہین‘‘ مشمولہ بانگ سحر‘ ص ۳۱۶
۱۹۲۷ئ:’ ’مقدمہ رنگیلا رسولؐ کا فیصلہ‘‘ مشمولہ آفتاب تازہ‘ ص ۱۴۲‘ ۱۸۲‘ ۱۸۶‘ ۲۲۴‘ ۲۵۲‘ ۲۶۷
۱۹۲۸ئ: ’’دیارِ مقدسہ میں توہین رسول کا فتنہ‘‘ مشمولہ جلوہ نور‘ ص ۳۶
۱۹۴۱ئ: ’’سرورِ عالمؐ‘‘ مشمولہ نشری تقریریں‘ ص ۱ - ۱۹
۱۹۴۱ئ: ’’معراج کی رات‘‘ مشمولہ‘ ایضاً‘ص ۳۹ - ۴۶
۱۹۴۲ئ: ’’میلاد النبیؐ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۲۰ - ۲۷
۱۹۴۳ئ: ’’معراج کا سفرنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۶۰ - ۶۹
۱۹۴۸ئ: ’’سرور عالم ؐ کا اصلی کارنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۲۸ -۳۸
۱۹۴۸ئ: ’’معراج کا پیغام‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۴۷ - ۵۹
۱۹۴۸ئ: ’’اسلام کی ابتدا‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۵ - ۱۲
۱۹۵۳ئ: قادیانی مسئلہ، لاہور‘ ص ۱۵ - ۱۶
۱۹۶۲ئ: ختم نبوتؐ‘لاہور‘ ص ۷۰
۱۹۶۲ئ: توحیدو رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت ، لاہور‘ ص ۶۴
۱۹۶۹ئ: رحمۃ للعالمینؐ سیرت کانفرنس‘ ڈھاکہ‘ ص ۱۶
۱۹۷۵ئ: سیرت کا پیغام‘پنجاب یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین‘ ص ۳۶
۱۹۷۸ئ: نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا نظام حکومت، لاہور‘ ص ۳۲
--- اسلامی نظام کے عملی تقاضے‘ ص ۸
--- درود اُن پر سلام اُن پر‘ ص ۱۶‘ ماخوذ:تفہیم القرآن
۳- وانک لعلٰی خلقٍ عظیم مشمولہ قائد انسانیتؐ،احباب پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ص ۲۲ - ۳۱
سید مودودیؒ کے معارف پرور اور فکر انگیز قلم سے چھوٹی بڑی ایک سو کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس علمی گلستان کا سدا بہار مظہرتفہیم القرآنکی چھ جلدیں ہیں۔ قرآن مجید ہی حقیقتاً سیرت کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ ہے۔ مولانا محترم نے بھی اس کی تفسیر میں وہ مقامات جو سیرت سے متعلق ہیں‘ ان کی تشریح میں بہت عرق ریزی اور جگر سوزی سے کام لیا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس تفسیر کے سیکڑوں مقامات پر سیرت کے لوازمے کو تحقیقی‘ تاریخی اور داعیانہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہی باعث ہے کہ سید صاحب کی تالیف سیرت سرور عالمؐ جو تمام تر ان کی مختلف کتابوں کے سیرت سے متعلق تحریروں سے ترتیب پائی ہے‘ اس کا غالب حصہ تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے سیرتؐ پر کتاب پیش کرنے کی پہلی کاوش سیرت ختم الرسلؐ، مرتبہ: احمد انس کی صورت میں سامنے آئی۔ کیا عجب کہ سیرت سرورعالمؐ مرتب کرنے کی بنیاد سیرت ختم الرسلؐ بنی ہو۔
سیرت سرورِ عالمؐکی پہلی جلد ۷۶۴ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں سے ۴۰۸ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ باقی ماندہ ۲۴۳ صفحات کا لوازمہ ان کی۱۶ کتب سے منتخب کیا گیا ہے۔
اسی طرح سیرت سرورِ عالمؐ جلد دوم ۷۶۳ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں ۳۵۵ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ ۶۱ صفحے کا لوازمہ ان کی دیگر کتابوں سے ماخوذ ہے۔ یہ پہلو قابل توجہ ہے کہ جلد دوم میں انھوں نے ۳۴۷ صفحات کے جو نئے اور تازہ اضافے کیے ہیں‘ وہ ان کی درایت سیرت‘ مؤرخانہ ژرف نگاہی‘ تحقیقی بصیرت‘ وسعت مطالعہ اور شوکت اسلوب کا شاہکار ہیں۔ یوں سیرت سرور عالمؐ کی دو جلدوں کے ۱۵۲۷ صفحات میں تفہیم القرآن سے ۸۷۶‘ ان کی دوسری ۱۸ کتابوں سے ۳۰۴ اور مؤلف کے اپنے قلم سے ۳۴۷صفحات کا نیا تحریرشدہ لوازمۂ سیرت ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس لوازمے کے بارے میں اپنی کتاب کی دوسری جلد کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:
اس کتاب سیرت (سیرت سرور عالمؐ) کی پہلی جلد میں مجھے کسی حذف و اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی --- لیکن اس دوسری جلد کے لیے میرے جو مضامین کے درمیان جگہ جگہ ایسے خلا باقی تھے‘ جن کی موجودگی میں کسی طرح سیرت کی کتاب نہ بن سکتی تھی۔ اس لیے میں نے اس میں بکثرت اضافے کر کے اسے ایک مسلسل اور مربوط کتاب سیرت بنا دیا ہے۔ یہ جلد ہجرت کے بیان پر ختم ہوئی ہے۔ آگے مدنی دور شروع ہوتا ہے‘ جو درحقیقت ایک بحر نا پیدا کنار ہے۔(سیرت سرورعالمؐ‘ ج۲‘ ص ۲۳)
سید مودودیؒ کا سیرت پر ابتدائی مضمون جو انھوں نے ۱۹۱۵ء میں لکھا‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے علم انساب کی ایک ایسی بحث سے متعلق ہے‘ جس کا تفصیلی نقشہ ہم سرسید احمد خان کے ہاں دیکھتے ہیں۔ ذبیح کون ہے؟ سیرت کا ایک ایسا موضوع ہے جو مستشرقین اور مسلمان محققین کے درمیان صدیوں سے موضوع بحث ہے۔ سیرت سرور عالمؐ کی دوسری جلد کے صفحات ۶۱ سے ۶۵ کے درمیان اس موضوع پر ایک ایسی تحقیقی تحریر سامنے آتی ہے‘ جو اس عنوان پر ایک قاری کے لیے تشفی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ سیرت سرور عالمؐ کی دونوں جلدوں کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مختلف ابواب میں دوسرے مذاہب کی کتب بالخصوص عہدنامہ قدیم اور جدید سے براہ راست استثہاد کر کے بہت سے الزامات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح ہندومت‘ آریہ سماجیوں‘ قادیانیوں اور منکرین سنت وغیرہ کے الزامات کی تردید میں ان کے قلم کے تحقیقی شہ پارے ہمیں ورق ورق پر دکھائی دیتے ہیں۔
سید مودودیؒ ۲۲ سال کی عمر میں دہلی میں سہ روزہ الجمعیۃ کے مدیر مقر رہوئے۔ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۲۸ء کے اس دور ادارت میں انھوں نے سیکڑوں موضوعات پر اداریے لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اداریے آریہ سماجیوں کی نفرت انگیز کتب‘ بالخصوص پنڈت کالی چرن کی رنگیلا رسول اور اس کے پبلشر راجپال کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ مگر ان میں اہم ترین موضوع پیغمبروں اور رسولوں کی اہانت کا ہے۔ توہین رسالتؐ اور blaspheme کا موضوع بہت قدیم ہے۔ سید مودودیؒ نے سہ روزہ الجمعیۃ میں جو اداریے لکھے ہیں وہ چار مستقل کتابوں صداے رستاخیز‘ بانگِ سحر‘ آفتابِ تازہ‘ جلوۂ نور کی صورت میں ترتیب دیے گئے ہیں۔
سید مودودیؒ کی مذکورہ چار کتابوں کے نو مضامین کے مطالعے سے نوجوانی کے دور میں ان خاص جذبات و احساسات کا اندازہ ہوتا ہے‘ جو حبِ رسول سے عبارت ہیں۔ ۱۲ سال کی عمر میں ترتیب پانے والے احساسات اور ۲۲ سال کی عمر میں تشکیل پانے والے جذبات‘ جب ۵۰برس کی عمر میں ختم نبوتؐ کی تحریک کے ایک خاص تاریخ ساز مرحلے (۱۹۵۳ئ) تک پہنچتے ہیں‘ تو قدرت حق نے محبت رسول کے صلے میں انھیں ایک ایسے اعزاز کا حق دار ٹھیرایا‘ جو بارگاہ الٰہی میں خاص الخاص لوگوں کا حصہ ہوا کرتا ہے۔ قادیانی مسئلے اور ختم نبوت کی تحریروں کے جرم میں انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کے مقربین نے مشاہدہ کیا کہ ان کے چہرے پر ایک طمانیت اور نورانیت کھیلنے لگی۔(مشاہدات، از میاں طفیل محمد)
سیرت نگار سید مودودیؒ کا‘ صاحب سیرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قلبی اور ذہنی رشتہ کس نوعیت کا تھا‘ یہ پہلو ان کی تحریروں کے علاوہ‘ ان کے عمل و کردار سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیرت نگاری کی ۱۴صدیوں میں سیرت نگاروں کی محبت و الفت کے بہت سے مظاہرِ عقیدت سامنے آتے ہیں۔ علمی اور تحقیقی اعتبار سے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے وقائع کا ایسا ذخیرہ مرتب کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر اقوام عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔ مگر سیرت نگاروں کی اس پوری صف میں یہ امتیاز صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اس سیرت مطہرہ اور سنت ثابتہ کے احیا کے لیے ایک تحریکِ دعوت کی بنا ڈالی اور پھر عملاً ریاست مدینہ کے سیاسی‘ آئینی‘ تمدنی‘ تہذیبی‘ عدالتی‘ عسکری‘ معاشرتی‘ معاشی اور ثقافتی اقدار کے احیا کے لیے ایک خطۂ زمین کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی زندگی کی تمام تر توانائیوں کو وقف کر دیا۔ یہی باعث ہے کہ وہ تفہیم القرآن میں تفسیری مباحث پیش کر رہے ہوں‘ یا سنت کی آئینی حیثیت پر قلم اٹھا رہے ہوں یا اسلامی ریاست کے مباحث کی تفصیلات مہیا کر رہے ہوں‘ ہر جگہ ان کا قلم وقائع سیرت میں سے ایک ایسی تصویر پیش کر دیتا ہے‘ جو اپنے موضوع کے لحاظ سے معتبر‘ مستند اور اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک پرُ تاثیر اسلوب نگارش کی حامل ہے۔
نصف صدی پر پھیلی (۱۹۱۲ء - ۱۹۶۶ئ) ہوئی مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے‘ سیرت نبویؐ پر چار جلدوں پر مشتمل ایک ابتدائی مسودہ تیار کر کے مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ تو ایک حد تک ان کو بھی اس پر حیرت ہوئی کہ انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی شخصیت اور سیرت کے متعلق اتنا وسیع مواد اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔ ] اس کا اندازہ فہرست ہی سے لگایاجا سکتا ہے[ پہلی جلد کا تعلق بنیادی مباحث‘ منصب نبوت اور نظام وحی‘ بعثت آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور ما قبل بعثت کے ماحول‘ اور دعوت کی مخالف قوم اور عرب کے مختلف گروہوں کے احوال سے ہے۔ دوسری جلد حضور کی پیدایش سے لے کر ہجرت مدینہ تک کے احوال و واقعات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد میں اس انتہائی سرگرم تحریکی زندگی کا مرقع سامنے آتا ہے‘ جو لمحۂ وصال تک حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے مدینہ میں گزاری۔ چوتھی جلد جو ابھی باقی ہے‘ اس میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی اصلاحات‘ تعلیمات اور نظام زندگی‘ مختلف شعبوں میں لائے جانے والے تغیرات کا نقشہ پیش کرنا مطلوب ہے۔ (سیرت سرورِ عالمؐ‘ ج ۱‘ ص ۱۰)
سیرت نبویؐ پر سید مودودی ؒکے اس کارنامے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک قاری کو جس حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ وہ ان کا قدیم و جدید علوم و فنون کا وسیع مطالعہ ہے۔ وہ اپنے مطالعے میں ایک ایسی تحقیقی نظر سے کام لیتے ہیں کہ بسا اوقات وہ برسوں کی رائج غلط فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے نئے‘ درست اور تازہ حقائق بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے نتائج فکر کو اس ترتیب اور نوعیت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو تاریخی تناظر اور دینی پس منظر میں صحیح صورت حال کا علم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت سرورعالمؐ میں بعض معلومات پہلی مرتبہ یکجا نظر آتی ہیں اور سیرت کے بعض وقائع پر منفرد انداز میں‘ روشنی پڑتی ہے۔ بعثت کے بعد کے تین برسوں میں خفیہ دعوت کے نتیجے میں جن قبائل کے جن خوش نصیب افراد نے شرف صحابیت حاصل کیا‘ اس کی ایک کامل تفصیل اور فہرست سیرت نگاری میں پہلی دفعہ پیش کی گئی ہے‘ جس میں ۱۲۹ اشخاص کا تذکرہ ملتا ہے۔ مکہ کے کفار و مشرکین نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی دعوت پر جس نوعیت کے الزامات عائد کیے یا اعتراضات اٹھائے‘ اس کی جامع تفصیل بھی پہلی مرتبہ اس میں پیش کی گئی ہے۔
ان دونوں جلدوں کا مطالعہ کرتے ہوئے صحیح اور مستند معلومات کا ایک دریا بہتا دکھائی دیتا ہے‘ جن میں سے کسی بات کو مستند حوالوں کے بغیر درج نہیں کیا گیا۔ اگر اس لوازمۂ سیرت کے منابع‘ مراجع‘ مصادر اور ماخذوں پر نگاہ ڈالی جائے تو مولانا مودودیؒ کے وسعت مطالعہ اور استخراج نتائج کی داد دینا پڑتی ہے۔ وقائع نگار کا کام محض معلومات کو جمع کرنا نہیں بلکہ ان کی تنقید‘ تنقیح اور تصحیح بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک قاری کو بیسیوں مقامات پر یہ علمی اور تحقیقی عمل دکھائی دے گا۔ کتب سیرت میں اگر مستند اور محقق روایات و معلومات کے حوالے سے تقابل کیا جائے تو سیرت سرور عالمؐ ایک ممتاز کاوش نظر آتی ہے۔ اس کی ایک مثال حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے عہد طفولیت کی تفصیلات سے دی جاسکتی ہے۔
سیرت نگاری میں اماکن کا تعین‘ اسما ء الرجال سے واقفیت‘ ماہ و سال اور سنین کا تعین‘ ہجری اور عیسوی تقویم میں مطابقت اور عربوں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا بھرپور علم اور قبائل کی زندگی کا دستور اور عرف‘ چند ایسے مسائل ہیں‘ جن سے عہدہ برآ ہوئے بغیر کوئی سیرت نگار اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا۔
مستشرقین کے اعتراضاتِ سیرت کا جواب یوں تو سر سید سے لے کر علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر ظفراقبال تک سب نے فراہم کیا ہے‘ مگر ان میں سید مودودی نے ان مستشرقین کے فسادِ نیّت سے لے کر ان کے منہج تحقیق پر جو گرفت کی ہے‘ وہ عملی تحقیق کا ایک ایسا نمونہ ہے‘ جس سے کام لے کر ہم مستشرقین کی اسلام‘ قرآن اور صاحبِ قرآن کے خلاف تمام معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کا علمی اور تحقیقی احتساب کر سکتے ہیں۔
سیرت نگاری کی ۱۴ صدیوں میں اہل علم اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ روایت اور درایت کا جو معیار ہمارے ہاں محدثین کرام نے تدوین حدیث میں پیش نظر رکھا ہے‘ وہ احتیاط وقائع سیرت نگاری میں کم تر دکھائی دیتی ہے۔ ارباب علم اور صاحبان تحقیق اگر سید مودودیؒ کے تحقیقی موقف اور درایت کو دیکھیں گے تو انھیں سید محترم اور دوسرے سیرت نگاروں میں مابہ الامتیاز فرق دکھائی دے گا۔ مثال کے طور پر حرب فجار ہو‘ بحیرہ راہب کا تذکرہ اور ازواج النبی میں عمر عائشہؓ کا معاملہ ہو‘ یا پھر بناتِ رسول کا تذکرہ‘ مولانا مرحوم کے قلم سے تجزیہ و تحقیق کی ایک خاص انفرادیت دکھائی دے گی۔
سیرت نگاری کی تحریک میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ مطالعہ مغرب کے حوالے سے اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں‘ جس میں مغرب شناسی کی اس روایت میں علامہ اقبالؒکے استثنا کے بعد سید مودودیؒ ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ الغرض سید مودودیؒ کی سیرت نگاری کی یہ انفرادیت ہے کہ انھوں نے سیرت کو ایک متحرک فکر اور فعال تحریک کے تناظر میں دیکھا ہے۔ انھوں نے وقائعِ سیرت کا خزینہ مرتب کرنے کے ساتھ ان واقعات کے دامن میں مضمر اسباب‘ عوامل اور محرکات کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ کام‘ اسلوبِ دعوت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ وہ چونکہ خود ایک اسلامی تحریک کے مؤسس تھے جو خلافت علی منہاج النبوۃ کی طرز پر ایک انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک دعوت کے پیرائے میں‘ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک نظامِ تزکیہ و تربیت کے شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ سیرت نگاری میں ایک وقائع نگار سے آگے بڑھ کر اس کا رنامۂ رسالت کے از سرنو احیا کے متمنی ہیں‘ جو عصری طاغوت اور گلوبل لادینیت کے مقابلے میں ایک صالح مومن‘ ایک اسلامی معاشرے اور ایک اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل میں معاون بن سکے۔ بس یہی ایک پہلو انھیں نہ صرف اردو سیرت نگاری بلکہ عالمی سیرت نگاری میں بھی ممتاز و منفرد بنا دیتا ہے۔
سیرت نگاری کے اس داعیانہ دبستان کے اثرات گذشتہ نصف صدی میں ان کے معاصر اور بعد میں آنے والے سیرت نگاروں نے بھی قبول اور جذب کیے ہیں۔ ایسے سیرت نگاروںمیں ملّاواحدی کی دو جلدوں میں حیات سرور کائنات ؐ، نعیم صدیقی کی محسن انسانیتؐ اور سید ؐ انسانیت،محمد شریف قاضی کی اسوۂ حسنہؐ ، سید اسعد گیلانی کی رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب اور حضور ا کرمؐ اور ہجرت، ڈاکٹر خالد علوی کی انسان کاملؐ، ابو سلیم محمد عبدالحی کی حیات طیبہؐ، ماہر القادری کی در یتیمؐ، ڈاکٹر اسرار احمد کی منہج انقلاب نبویؐ اوردوسرے بہت سے رسائل سیرت‘ علی اصغر چودھری کی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم‘ بنت الاسلام کی اسوۂ حسنہؐاور خالد مسعود کی حیات رسول امیؐ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
مولانا مودودی نے (سیرت سرور عالمؐ) جلد دوم میں جہاں جہاں اضافے کیے ہیں‘ وہاں ان کا تصنیفی تجربہ‘ سیرتی علم اور اسلوبی حسن اپنے معراج پر ہے۔ بحیثیت مجموعی سیرت سرور عالمؐ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت و کردار اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے ابدی پیغام کو جس خوب صورت اور عالمانہ انداز میں پیش کرتی ہے‘ اس کی مثال دور حاضر کی کتب ِسیرت میں کم کم ملتی ہے۔(ص ۷۳۸)
سیرت سرور عالمؐ کے مطالعے اور تجزیے کا ایک رخ اس کے اسلوب نگارش کا جائزہ بھی ہے۔ اردو زبان و ادب کا اولیں علمی سرمایہ مذہبی تحریوں پر مبنی ہے۔ ابتدائی دور کی تحریروں کا اسلوب عربی اور فارسی زبان اور مقامی بولیوں کے متروک اور نامانوس الفاظ سے مرکب ہے۔ اس کے برعکس سید مودودیؒ کا اسلوب کئی اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے۔ ان کا اسلوب جن اجزا سے تشکیل پاتا ہے‘ اس میں روح مطالب تک پہنچنے کے لیے لفاظی‘ عبارت آرائی‘ آرایش اور تصنّع کے بجاے ایک سادگی‘ سلاست‘ روانی‘ شگفتگی اور وضاحت کا احساس ہوتا ہے۔ اردو میں ادبی لوازم کو دینی موضوعات میں کامیابی سے استعمال کرنے والی پہلی شخصیت شبلی نعمانی کی ہے۔ دینی ادب کی اس رو کو ایک بحر مواج میں تبدیل کرنے والی شخصیت ابوالکلامؒ آزاد کی ہے۔ مگرسیرابیوں اور شادابیوں کا سامان پیدا کرتی ہوئی ادبی لہر صرف سید مودودیؒ کے قلم سے پیدا ہوئی۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو مقام علامہ اقبالؒ کو اردو شاعری میں حاصل ہے تقریباً وہی حیثیت سید مودودیؒ کی اردو نثر کو میسر ہے۔ اقبالؒ نے مسلم قومیت کے دھاروں کو اسلامیت کے رنگ سے آشنا کیا۔ اسلامیت کے جس دروازے کو اقبالؒ نے کھولا‘ سید مودودیؒ نے اس میں داخل ہو کر ملت کے لیے اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک ایوان تعمیر کر دیا۔ اس ایوانِ ادب میں جہاں قدیم علوم کی اینٹیں چنی گئیں وہاں جدید علوم کا مسالہ بھی آپ نے فراہم کیا۔ یوں ان کے اسلوب میں قدیم اور جدید موضوعاتی ہم آہنگی اور توازن ملتا ہے۔ سیدمودودیؒ چونکہ ایک مشنری انسان ہیں‘ اس لیے وہ اپنے اسلوب سے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کے اسلوب کی مقصدیت اور ثقاہت نے ان کے قلم میں تجزیہ و تحلیل اور زور استدلال کی خوبی پیدا کی ہے۔ الغرض سید مودودیؒ سیرت نگاری میں بھی منفرد حیثیت کے مالک نظر آتے ہیں۔
جماعت اسلامی اپنی ہم عصر قومی سیاسی و دینی جماعتوں ہی میں نہیں‘ بلکہ دیگر اسلامی تحریکوں کے درمیان بھی ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ۲۰ ویں صدی میں اس جماعت نے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ معاشی‘ معاشرتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور دفاعی معاملات میں قومی ترجیحات کے تعین‘ اقدار کے تحفظ اور رجحانات کے فروغ میں بھی اپنا خاطرخواہ اثر ڈالا ہے۔ سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اہل دانش‘ جماعت اسلامی کو پاکستان کی انتہائی منظم اور بین الاقوامی سطح پر با اثر جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔
جماعت کا کردار‘ قومی ارتقا میں تبدیلی کے جان دار محرک کے طور پر ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔ جماعت کی اس دیرپا اور ممتاز خصوصیت کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھنے کے بجاے بعض تجزیہ نگار مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ لیڈر طارق علی نے لاہور میں گذشتہ برس تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ منظم جماعت ہے‘ مگر اس نے تنظیمی اصول کمیونسٹ پارٹی سے لیے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کمیونسٹ پارٹی کوئی آئیڈیل اور مثالی تنظیمی اصول رکھتی تھی‘ تو پھر وہ اپنی اٹھان کے بعد بقا اور اقتدار کے لیے محض ریاستی جبر ہی کی محتاج کیوں رہی‘ اور پھر یہ کہ آج معدوم کیوں ہوگئی ہے؟
اس مضمون میں پیش کردہ معروضات کا مقصد مولانا مودودی کو ان کے تنظیمی کارنامے کی روشنی میں‘ علم نظمیات کے شعبہ میں متعارف کرانا ہے۔ اس شعبہ علم میں وہ دو لحاظ سے تحقیق اور مباحثے کا اہم اور دل چسپ موضوع بن سکتے ہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر تفہیم القرآن اور دیگر تحریروں میں تفصیلی گفتگو کی ہے: معاشرے کی تنظیم‘ قوم و ملک کی سطح پر بننے والی اجتماعیت‘ تنظیم سازی‘ تحریک اٹھانے اور چلانے کا عمل‘ حکومت کا نظام اور اس کے متبادل راستے‘ قیادت اور اولوالامر کی ذمہ داریاں‘ شہریوں یا ممبران کے فرائض و حقوق وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اور اس کے علاوہ بھی اس اہم موضوع سے متعلق دیگر امور پر مولانا مودودی نے گہرائی کے ساتھ اور کھل کر اپنی آرا کو پیش کیا ہے۔ نظریاتی دلائل دینے کے ساتھ ساتھ تاریخی تجزیے بھی کیے ہیں۔یہ افکار تنظیم سازی کے میدان میں ایک نئے زاویۂ نظر کے اضافہ کا باعث ہیں۔ بالخصوص ایک ایسے شعبۂ فکر میں کہ جس کی تشکیل بنیادی طور پر لادینی فکر کے سائے میں ہوئی ہے۔
ثانیاً‘ انھوں نے اپنے آپ کو نظریت تک محدود رکھنے اور علمی قیادت کے بلند منصب پر محض فائز رہنے کو کافی سمجھنے کے بجاے عملی قیادت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اس لحاظ سے خود اپنا ایک ’خصوصی مطالعہ‘ (case study) بھی فراہم کیا۔ نظری و اصولی بحث کے شیش محل سے باہر نکل کر‘ عملی میدان میں خاک آلود ہونے کا خطرہ مول لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے مولانا مودودی نے اپنے افکار و نظریات کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچایا؟ انھوں نے مقصدی لحاظ سے کیا کھویا اور کیا پایا؟ خلافت و ملوکیت اور تجدید و احیاے دین کے بے لاگ مصنف نے خود کیا معیار اور نمونہ چھوڑا؟ اس نمونے کے مثبت یا منفی پہلو کیا ہیں؟ یہ سوالات آج کے اور مستقبل کے مورخ کی دل چسپی اورتوجہ کا موضوع بن چکے ہیں۔ زیر نظر مضمون مولانا مودودی کی تنظیمی میدان میں فکری و عملی کاوش کو مرکز بحث بنانے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ بلاشبہہ ان کی تنظیمی خدمات کو جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا وہ اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ یہ کام ایک معروضی جائزے کا محتاج ہے۔
۱
گذشتہ نصف صدی میں‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد نظم و ادارات اور تنظیم و قیادت کے شعبے میں فکری وعملی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ جامعات میں اس مضمون سے متعلق خصوصی شعبے اور ادارے بہت مقبول ہوچکے ہیں۔ ایک نئے اختصاصی صنفِ علم کی تشکیل کا یہ سارا کام‘ مادیت اور لادینیت کے فکری ڈھانچے میں ڈھلا ہے۔ اس فکر کے تحت قائم ہونے والے تعلیم و تربیت کے مراکز دنیا بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ ہر ایک یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسان کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟ قیادت کے اوصاف کیا ہونا چاہییں؟ تنظیمی عمل کن عوامل کا مرکب ہے؟ انسانوں کی فطری جبلت کیا ہے؟ ان سے کس طرح اعلیٰ معیار پر کام لیا جا سکتا ہے؟ کون سی اقدار اور کون سے اصول انسانی تعلقات کو مثبت رخ دے سکتے ہیں؟ تنظیم کی ساخت کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ تنظیمیں اپنے ماحول پر کیسے اثر ا نداز ہوتی ہیں اور کس طرح ماحول پر اثر ڈال سکتی ہیں؟ فیصلہ سازی کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟ اجتماعیت میں انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ کون سے محرکات انسان کو فعال بنا سکتے ہیں؟ تنظیم کا تشخص کیسے قائم ہوتا ہے؟
ریاستی اداروں‘ فوج‘ سیاسی جماعتوں‘ کاروباری اداروں‘ غیر سرکاری تنظیموں‘ بین التنظیمات انجمنوں (Interorganizational Associations) ہی کا نہیں بلکہ ہر خاندان اور فرد کی کامیابی و ناکامی کا انحصار درج بالا سوالات کے جوابات پر ہے۔ مغرب میں علوم اجتماعیہ کے فکری امام اور ان کے پیروکار گذشتہ عرصے میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ایک نظریے کی ناکامی کے بعد وہ دوسرے نظریے کی طرف قلابازی کھا کر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے سے مایوس ہو کر تیسری طرف ٹکر مارتے ہیں۔ انھی ٹامک ٹویوں کے نتیجے میں نظریۂ قیادت‘ فکرِاجتماعی اور اصولِ ادارت کو ٹھیرائو نہیں مل سکا۔ ایک دور کے مقبول ترین قاعدے اور مقدس کلیے اگلے دور میں آسانی کے ساتھ مسترد کر دیے گئے۔ اس شعبۂ علم کا جھکائو اب آخرکار ان نظریات اور اقدار کی جانب ہو رہا ہے‘ جس میں بعض مولانا مودودی کے طرز قیادت اور تصور تنظیم سے کسی نہ کسی درجے مناسبت بھی رکھتی ہیں۔
آج کاروباری اداروں میں مشن‘ مقاصد‘ اخلاقیات‘ خدمتِ عامہ‘ ایمان پر مبنی قائدانہ کردار‘ انسانی اثاثہ کی نشوونما‘ کسی بھی کام کے نتیجے کا انتظار کرنے کے بجاے نتیجے کا پہلے سے اندازہ لگانا‘ فیصلہ سازی میں اقدار اور پیمان کو اولیت دینا‘ تنظیم میں روایات کو شعوری طور پر فروغ دینا‘ طویل المیعاد اور مابعد طویل المیعاد بنیاد پر سوچنا‘ دنیا کو اکائی کی صورت میں دیکھنا‘ اموال اور افراد کے مابین ترتیب کو درست کرنا‘ انسان کو محض مادی جنس سمجھنے کے بجاے اس کے دل و دماغ کے مرکب اور روحانی اور جذباتی پہلوئوں کو بھی بروے کار لانا‘ اجتماعی سرگرمیوں کو ہر سطح پر جواب دہی اور امانت داری کے ساتھ انجام دینا‘ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دیگر تصورات جو آج تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں‘ جدید دور میں مولانا مودودی نے کم و بیش ان تمام امورِ نظم و ربط کو عملاً جماعت میں کہیں زیادہ خوبی اور کمال کے ساتھ رائج کیے ہیں۔ اگر مولانا مودودی کے تنظیمی نظریات اور ان کا تنظیمی کارنامہ مغربی درس گاہوں اور علم تنظیم کے ماہرین تک کسی صورت میں پہنچ پاتا تویقینا ان کے افکار کی ضرور قدر ہوتی اور وہ اس مضمون کے صف اوّل کے ماہرین بھی شمار ہوتے۔
مولانا مودودی نے عملی زندگی کا آغاز علمی صحافت سے کیا تھا۔ ان کے مضامین کی پذیرائی اور مقبولیت نے ان کو بہت جلد صف اول میں لاکھڑا کیا۔ ان کے فکر کی گہرائی‘ اسلام سے لگن‘ حالات پر عبور‘ اور طرز تحریر کی اثر پذیری نے ان کو فکری رہنما بنا دیا۔ کسی عام فردکے لیے اس مقام پر پہنچ جانا کافی ہوتا ہے۔ کتب کی تصنیف‘ مذاکرے اور مباحث میں شرکت کی دعوتوں کا طومار‘ نقادوں اور تبصرہ نگاروں کی دل چسپی‘ اور فکر کی بڑھتی ہوئی چھاپ‘ صاحب قلم وقرطاس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بس اسی میدان کا ہو کر رہے اور بلاوجہ عملی کاوش کی آزمایش میں اپنے آپ کو مبتلا کرنے سے بچ کر رہے۔ فکر کو عملی روپ دینا سخت مشکل کام ہوتا ہے۔مولانا مودودی اگر قُل تک محدود رہتے تو بھی وہ برصغیر کے نامور ترین علما میں شمار ہوتے اور ان کی فکر دُور دُور تک پھیلتی۔ لیکن قُل کے بعد قُم کے منصب پر فائز ہو کر انھوں نے ان گنت دشمنیاں‘ مصائب اور خطرات مول لیے۔
مولانا مودودیؒ نے حق کو واشگاف کیا اور ا س کے بعد ’حقیقت‘ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جمعیت العلما کے اخبار الجمعیۃ کی ادارت سے جماعت کی امارت کا سفر‘ اجتہاد سے جہاد کی معراج کا عنوان بنا۔ اسی سفر کے دوران وہ رسولؐ اللہ کی اتباع کرتے ہوئے ہجرت کے راستے پر چلے اور تاسیسِ تحریک کے اقدام کی منزل کو سامنے پایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنف مودودی کی خشتِ اوّل ہی میں موسسِ تحریک‘ سید مودودی کی صورت پنہاں تھی۔ الجہاد فی الاسلام ان کی پہلی پکار بھی تھی اور اس پکار پرپہلی لبیک بھی ان کی اپنی تھی۔ منزل کی طرف قدم بڑھانے کا عزم بھی موجود تھااور تحریک کے لیے قربانی کا شعور بھی موجزن تھا۔
مولانا مودودی کے لیے فکری قیادت سنبھالنے کے بعد‘ عملی قیادت کے میدان میں قدم رکھنا ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ بالعموم یہ دو مختلف خصوصیات رکھنے والے مزاج کی شخصیتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ فکری قیادت: سوچ‘ مطالعے‘ مشاہدے‘ خلوت اور فکری مباحث میں شرکت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میدان میں ممتاز ہونے کے لیے عمل کا روگ نہ لگا ہو تو اسے بھی ایک خوبی سمجھا جاتا ہے۔ فرد‘ حساب دینے کی پابندی سے آزاد رہ کر صرف نظری مہارت تک محدود رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عملی قیادت: تحرک‘ رابطہ‘ دورہ‘ مہمات اور اثر و نفوذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے جتناکام کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا ہوتا ہے کہ نظریات کے قلاوے سے دور رہا جائے‘ تاکہ پابندیاں کم سے کم ہوں۔ اکثر مفکر‘ مصلح بن کر پھر مصلحت اور مصالحت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ بالعموم بڑے رہنما ان دوخانوں میں سے کسی ایک میں تخصص حاصل کرکے ہی اپنی قیادت کے جوہر دکھلا پاتے ہیں اور ایسا کرنے کو بالعموم کوئی عیب بھی نہیں کہتا۔
مولانا مودودی نے دونوں میں منقسم یا کسی ایک میں مقید ہونے کے بجاے دونوں کو ایک ہی وحدت کے دو تقاضوں کے طور پر دیکھا۔ ان کی تقریر آسانی سے تحریر بن جاتی ہے اور تحریر میں تقریر کا مزا لیا جاسکتا ہے۔ ان کا قول ایک پکار کی مانند بلند ہوتا ہے‘ جب کہ ان کا عمل اس قول کی تائید میں گواہی دیتا ہوا ہر لفظ کے پیچھے نظر آتا ہے۔ ایک صاحبِ کلام فرد کا صاحبِ تنظیم بن جانا شخصی لحاظ سے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کمال درجے کے قائدانہ معیار پر گذشتہ صدی میں مشرق و مغرب میں اور کون پہنچ سکا ہے؟ یہ نمونہ پیش کرنا کسی کرشمے سے کم نہ تھا۔ قولی شہادت اور عملی شہادت دونوں کی ادایگی‘ زمین کے اوپر تنظیم کی گاڑی کی ڈرائیوری اور ساتھ ہی افکار کے افق پر مسلسل ضربِ کاری اور ان دونوں کاموں کو ساتھ لے کر چلنا ایک ایسے ذہن کی غمازی کرتا ہے کہ جو تنوع کو وحدت کا رخ دے سکتا ہے۔ جو کہنے اور کرنے کو دو الگ نوعیت کے کام سمجھنے کے بجاے ان کو ایک کام کے دو زاویوں کے طور پر نبھا سکتا ہے۔
علمی کام تو عام طور پر درس گاہوں‘مکتبوں اور کتب خانوں تک محدود رہتا ہے۔ جہاں بعد میں بھی ان کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ تنظیم کی بنا ڈال کر مولانا مودودی نے اپنے علمی کام کو جہاں ایک جانب محدود کر لینے کا اور اسے مخالفین کی جانب سے تنقید و جرح کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیا‘ وہیں بالآخر اس کام کو تحریک کی شکل دے کر زیادہ موثر اور دیرپا بنانے کا انتظام بھی کیا۔ مؤثر تحریر وہی کہلائے گی جو عملی دنیا میں تبدیلی لا سکے۔
مولانا مودودی نے کتاب اور انسان دونوں ہی تصنیف کیے ہیں۔ انسان کے لیے کتاب تھی اور کتاب کے لیے انسان تیا ر ہوئے۔ فَانْتَظِرُو سے فَفِرُّوکے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہا۔ مفکرمودودی کی فکر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے: انھیں جو کرنا چاہیے وہ اسے نہ کرتے‘ قعدہ ہی میں رہ کر سوزوساز میں مشغول اور قیام سے غافل رہتے تو ان کی تحریریں بے جان اور غیر متعلق ہوکر رہ جاتیں اور تاریخ کا فیصلہ ان کے بارے میں مختلف ہوتا۔
۱۴۰۰ سال پہلے کہی ہوئی بات کو نئے تناظر میں پیش کر دینا ایک طرف‘ لیکن اس نظام کے ازسرنو قیام اور اس کو اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا معیار قرار دے کر تحریک کھڑی کر دینا‘ مجاہدانہ جرأت ہے۔ وہ بھی ایک ایسے دور میں جبکہ زوال پستیوں کو چھو رہا ہو‘ ملت کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا ہو‘ غلامی کا شکنجہ ذہنوں کو جکڑ چکا ہو‘ مغرب زدگی کا چلن عام ہو‘ مذہبیت فرسودگی کی علامت ہو‘ مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو متحدہ قومیت کے تیزاب میں پھینکے جانے کی تیاری ہو رہی ہو‘ مجرد مادی ترقی کو تمدنی ترقی کا قائم مقام سمجھ لیا گیا ہو‘ اور مشین کے اوتار کو قیام و سجود کا سزاوار سمجھ لیا گیا ہو۔
ایسے دور میں کیا مولانا مودودی تنظیم کھڑی کرنے میں حق بجانب تھے؟ کیا وہ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ’’حالات مزید سازگار ہو جائیں تو قدم اٹھانا چاہیے‘‘ --- بھلا ۷۵ افراد اور ۷۴روپے سے کیا بوجھ اٹھانا مقصود تھا۔ جو کام صدیوں میں دوبارہ نہ ہو سکا‘ اس کو منزل مقصود بناکر چلنا کیا دانش مندی تھی؟ ان کے سامنے کیا نسخہ تھا جس پر ان کو بھروسا تھا کہ اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اسباب و تدابیر کا کون سا امتزاج پیش نظر تھا جو ان کے خیال میں قومی سطح پر بڑی تبدیلی لانے کا باعث بن جائے گا؟ مولانا نے تنظیم کی جدت کو‘ اسلام کے کا م کے لیے کیوں اختیار کیا؟ اور پھر سب کچھ تنظیم کے لیے وقف کر دیا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو فکری قیادت کے وسیع اور محفوظ اُفق سے گرا کر کچھ کر کے دکھانے کا شوق کس بل بوتے پر پالا؟
۲
درحقیقت تنظیم وہ حکمت تھی‘ جو ان کو امید دلاتی کہ صرف کچھ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ پاکیزہ اور پختہ افکار کی قوت کے ساتھ اگر تھوڑی تعداد میں سہی‘ لیکن منظم گروہ کھڑا ہو تو وقت کے دھارے کو موڑنے اور نئے مستقبل کو ترتیب دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنظیم ایک موثر ہتھیارہے جو پیغام کو تحریک کا روپ دے کر قوت و اختیار کے ایوان میں پہنچا سکتا ہے۔ مولانا مودودی پختہ نوعیت کا تنظیمی ذہن رکھتے تھے‘ جو دلیل‘ اسباب اور عمل کے پیمانے کو اُس کے ربط اور ضبط کے ساتھ اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔ ان کی وہ تحریریں جو قیام جماعت سے قبل شائع ہوئی ہیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ قوموں کی ہیئت ترکیبی‘ اجتماعی بنائو اور بگاڑ‘ عملِ قیادت‘ مقصدیت اور اس کے تقاضے‘ نظمیات‘ علوم اجتماعی اور قانون سازی پر انھیں گہرا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے غالب جماعتوں اور ان کی مقبول قیادت کو منطق سے بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔ تجدید واحیاے دین کی کاوشوں کا تاریخی طور پر جائزہ لیا‘ اور نظام ریاست کو اس کی تمام تر باریکی اور پیچیدگی کے ساتھ سمجھا۔ شہادت حق سے لے کر اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘ پھر ہدایات سے لے کر کامیابی کی شرائط تک‘ اور تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل سے لے کر خلافت وملوکیت تک‘ ان کا تجزیہ ایک ماہر تنظیم کا ثبوت دیتا ہے۔ رسولؐ اللہ کی بنائی ہوئی اجتماعیت اور تحریک پر اُن کی گہری نظر‘ ان کے قاری سے چھپی نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے دوسروں کے تنظیمی ماڈل کے محاسن و عیوب کا کھلے عام جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک مختلف اور نیا تنظیمی ماڈل تجویز کیا۔ حکمت و ہمت کے ساتھ اس ماڈل کو عملی روپ دینے کی کوشش کی۔ ان کی بنائی ہوئی تنظیم کا ایک عرصہ ان کی قیادت میں گزرا اور پھر ان کی رحلت کو بھی ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے مولانا مودودی کا فیصلہ درست تھا۔ ان کی بنائی ہوئی تنظیم ان کے طے شدہ اہداف پر اور دیے ہوئے معیار پر کس حد تک پورا اتر سکی ہے؟ اس پر بات کرنے کی گنجایش موجود ہے‘ لیکن یہ امر کسی بحث سے بالاتر ہے کہ کیا تنظیم بنانا واقعی ضروری تھا؟
مولانا مودودی کے تصور تنظیم کی آبیاری تو قرآن و سنت کے مطالعے سے ہوئی‘ لیکن مسلمانوں کی تاریخ کے مطالعے نے ان کے اندر تنظیمی ضرورت کی شدت کو ایک نیا اُبھار دیا۔ انھوں نے اس کائنات کو نظم کی نظرسے دیکھا اور اس عظیم نظام کو نقص سے پاک ‘ایک فعال و متحرک کرشمے (dynamic organized entity) کے طور پر دیکھا۔ توحید کو تنظیم کے بنیادی اصول کے طور پر سمجھا اور اختیار کیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کو حاکمیت کا مالک سمجھا۔ واضح کیا کہ انسان کو اللہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ بندگی رب اور اطاعت الٰہی نے ان کو دستور‘ ضابطے‘ قوانین سے روشناس کرایا۔ حدود و قیود کی اہمیت کی وضاحت کی۔ انسانوں کی ہدایت کے بعد گمراہی‘ طاغوت کے روپ میں دوسرے انسانوں کو اپنی بندگی کی زنجیر میں جکڑنے کی کوششوں کا تجزیہ انھوں نے قرآن میں مذکور واقعات کی روشنی میں کیا۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد سے پھوٹنے والی ہدایت سے رہنمائی لینے کا قرینہ سکھایا۔ بالخصوص رسول اللہؐ کی عظیم الشان جدوجہد جو قرآن میں مذکور ہے‘ اسے جدید ترین اسالیب میں پیش کیا۔ امت کا تصور جو نسلی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان پر استوار ہے‘ دراصل ایک جماعت کا عندیہ دیتا ہے۔ امت ایک پارٹی ہے جو حاکمیت الٰہی اورحکومت الٰہیہ کے لیے قائم ہوئی ہے۔ اگر امت یہ کام نہ کر رہی ہو تو وہ بحیثیت امت اپنا منصبی کام نہیں کر رہی ہے۔ امت کا یہ تصور‘ قوموں کی تشکیل کے نظریات سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ایک متحرک اور مقصدی گروہ ہے جس کا اصل رشتہ زمین کے کسی ٹکڑے یا نسل کے کسی سلسلے سے نہیں‘ بلکہ ایمان سے ہے۔ مملکت اور ریاست کی یہ محتاج نہیں اور زبان و نسل‘ رنگ و علاقہ کی یہ پابند نہیں۔
امت کا یہ تصور‘ اور پھر امت کے اندر ایک ایسے گروہ کی نشان دہی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے وقف ہو‘ جس نوعیت کی تنظیم سازی کا تقاضا کرتا ہے مولانا مودودی نے عملاً اس کی بنیاد رکھی۔ رسولؐ اللہ نے کس طرح جماعتِ صحابہؓ کے ذریعے تیس سال میں پورب و پچھم کو اسلام کی دعوت سے ہمکنار کر دیا؟ اسوہ رسولؐ اس کا ایک عملی نمونہ ہے۔ یہ ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ عام انسانوں کے ہاتھوں یہ کچھ ہونا ممکن ہے اور ایسا بار بار ہو سکتا ہے۔ بہرصورت اس طرح کی تبدیلی کے قریب پہنچا جا سکتا ہے۔ ایمان اور پھر ہو سکنے پر یقین ہی کر سکنے کی بنیادی تدبیر یعنی تنظیم کی طرف راغب کرتا ہے۔
مولانا مودودی کا ذہن نظم کا خوگر تھا‘ تنظیم کا بھرپور ادراک رکھتا تھا‘ اور تاریخی لحاظ سے انسانی معاشرے میں نظم و تنظیم کے ارتقا کے مراحل کو پہچانتا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بادشاہت پر مبنی سلطنت کی جگہ جمہوریت پر مبنی مختلف نظریات کے حامل افراد ‘سیاسی پارٹیوں کی صورت میں مجتمع ہو رہے ہیں‘ تاکہ ریاست کا انتظام ان کی ترجیحات اور اقدار کے مطابق چلایا جائے۔
دوسری جانب طبقات اور مفادات کا گٹھ جوڑ ریاستی نظام کی چولیں مسلسل ہلا رہا تھا۔ ریاستی نظام‘ سیاسی جماعتوں کی کش مکش اور ان کے ذریعے نظریات و قیادت کی فراہمی پر منحصر ہوگیا تھا۔ یورپ و امریکہ میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قیام کے ساتھ ہی تجارت و معیشت کے میدان میں بھی بڑی بڑی کمپنیاں عالمی سطح پر اشیا کی کثیر المقدار ترسیل و صناعی کے لیے وجود میں آرہی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجارتی لین دین ہی سیاسی تسلط اور حکمرانی کا ذریعہ بن گیا تھا۔ ریل‘ ڈاک‘ پریس‘ تار‘ موٹر گاڑی‘ ریڈیو‘ فلم‘ اخبار یہ سب کچھ ایسے دور کے آغاز کی نوید دے رہے تھے کہ جس میں کسی قوم کے تمام افراد پہلے سے زیادہ مربوط اور باہم پیوستہ ہوں گے۔ آسانی سے اور جلدی میں متاثر کرنے اور متاثر ہو سکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔
مغربی افکار کی گھن گرج‘ اخلاق و اقدار کو لپیٹ میں لے رہی تھی۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی نے روس کو عملاً اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ روس کی قدیم سلطنت ’زار‘(Czar) کا تار و پود کمیونسٹ پارٹی کی یلغار کے سامنے ڈھیر ہو گیا تھا۔ دونوں بڑی عالمی جنگوں نے جدید خطوط پر منظم افواج کی برتری کے نئے اسلوب نمایاں کیے۔ اسی عرصے میں خلافت عثمانیہ کی ٹوٹ پھوٹ‘ مسلم ممالک میں اسلام کی غربت‘ عوام کی جہالت‘ اخلاقی زوال اور دوسری تبدیلیاں اس بات کا پتا دے رہی تھیں‘ کہ مسلمان قوم‘ تباہی کے غار میں گرچکی ہے‘ نصب العین کھو چکی ہے‘ اپنے عظیم کارنامے بھول چکی ہے‘ اور مرعوبیت نے اس کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ تحرک اور داعیہ مفقود ہے‘ اور قیادت کا بحران‘ نظم و ضبط کا فقدان‘ باہم رسہ کشی اور فکری ژولیدگی اس سب پر مستزاد۔
جس مفکر کو تبدیلی مطلوب تھی‘ وہ اس فضا میں تنظیم کو بحیثیت قوت اور ذریعہ (instrument) کے طور پر روبہ عمل لانے کا قائل ہو چکا تھا۔ مولانا مودودی کا یہ وہ رفیع الشان اجتہاد ہے‘ جس کے اثرات ان کے دیگر فکری کارناموں سے کہیں زیادہ وقیع ثابت ہوئے۔ مسلمانوں کو جدیدتنظیم کی صورت میں پرونے کا کام آسان نہ تھا۔ وہ ایک عام فرد تھے‘ اور ان کے پاس کوئی الہٰ دین کا چراغ نہ تھا۔ دنیا کے مروجہ چلن کے مطابق وہ حکمرانی کا حق بھی نہ رکھتے تھے‘ دولت و قوت بھی نہیں رکھتے تھے‘ اللہ کے عاجز بندے تھے۔ ان کی یہ سوچ کہ: ’’میں بندگان رب کو اکٹھا کروں گا‘‘ اُس زمان و مکان میں ایک جسارت تھی۔ خود اﷲ کے مددگار کی حیثیت سے کھڑا ہوجانا اور دوسروں کو بلانا ایک عظیم الشان چیلنج کو دعوت دینا تھا۔ خدائی فوجداری کا طعنہ سننے کے لیے تیار ہونا سخت مشکل کام تھا۔ حصولِ اقتدار کی خاطر کوشش کرنے والوں کے مقابلے میں حاکمیت الٰہی کے لیے امامت ِ صالحہ کا نسخہ لے کر کھڑا ہونا کسی بھی طرح آسان نہ تھا۔
مسلمانوں میں تنظیم کا شعور‘ معاصر مغربی اقوام کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور تھا۔ مسلمانوں کے اندر اسلام کی بنیاد پرمسلمانوں کی الگ سے تنظیم‘ یہ ایک عجیب سی بات نظر آتی تھی۔ تعلیمی و تربیتی ادارے‘ علما کی مستقل تحقیقی مجالس‘ اولیا کے مراکز سے لوگ مانوس تھے اور انھی ’مراکز تجلیات‘ سے باخبر تھے۔ لیکن ایک بھرپور جماعت جس میں شمولیت کو ایمان کا تقاضا سمجھا جائے‘ اس حقیقت سے لوگ ناآشنا تھے۔ جو چند ایک آشناے راز تھے بھی تو اس بھروسے اور اعتماد کے مقام پر نہ تھے جو افراد کو کھینچ کر قریب لے آتا ہے‘ یا وہ اس عزم و استقلال سے محروم تھے جو پہاڑوں سے ٹکرانے اور طوفانوں کا رخ موڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
مولانا مودودی نے تنظیم کی روایت کو‘ جیسا کہ اسے اس وقت کے ’جدید معاشرے ‘ میں سمجھا جاتا ہے‘ مسلمانوں میں فروغ دیا۔ اس کو جہاد اور عمل صالح کا لازمی تقاضا قرار دیا۔ اس طرح تنظیم کو ایمان کا جزو لاینفک ٹھیرایا۔ یہی ان کا بہت بڑا اجتہاد تھا۔ یہ کار خیر ان کے دوسرے کار ہائے خیر سے کہیں زیادہ بھاری اور بابرکت ثابت ہوا ہے۔ دینی جدوجہد کے پورے دھارے کو گذشتہ صدی میں ایک نئی جہت ملی ہے۔ اس ماڈل پر ہر معاشرے میں جہاں مسلمان بستے ہیں‘ چھوٹی بڑی تنظیمات وجود میں آئی ہیں۔ مسلمانوں میں تنظیمی رویے کو فروغ ملا ہے۔ اس کے ذریعے امت اور جماعت مسلمین کے تصور کو‘ ریاست کے نظام کی مخالفت کے باوجود اپنانے کا موقع ملا ہے۔ حاکمیت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ‘ نظم جماعت کو وابستہ کرنے سے وحدت اور حرکت کو بیش بہا قوت ملی ہے۔ ریاست کی چھتری اور مملکت کی چار دیواری میسر نہ ہونے کے باوجود معاشرے میں اثر و نفوذ حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
آج عالمی کش مکش میں اسلام کا جو وزن محسوس کیا جا رہا ہے‘ وہ ان درجنوں ریاستوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان اجتماعی کوششوں کے سبب ہے جو مسلمانوں نے از خود اختیار کیں اور جن کے ذریعے تعلیم و تربیت‘ تحقیق و مطالعے‘ دعوت و ابلاغ‘ اتحاد و اجتماعیت سے متعلق سرگرمیاں ترتیب دی گئیں۔ تنظیمات کے اس جال نے امت کے سفینے کو بھنور سے نکالنے کی راہ دکھائی ہے‘ اقدار کا تحفظ کیا ہے‘ خطرات اور یلغار کا مقابلہ کیا ہے‘ اندرونی طور پر استحکام عطا کیا ہے‘ حکومت پر قابض گروہوں کی اندرونی سازشوں کے آگے بند باندھا ہے۔ یہ جذبہ مسلمانوں کو ملا ہے کہ وہ از خود اپنے آپ کو مجتمع کر کے درحقیقت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں۔ جمع ہونا اور جمع ہو کر کام کرنا‘ ایمان کا لازمی حصہ ہے‘ تاہم اس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ محاذ اور انداز و طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے‘ مقاصد کے دائرہ کار میں انتخاب کیا جا سکتا ہے‘ قیادت و فیصلہ سازی کا نظام‘ دستوری اصول اور ضابط کار مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس قافلے میں شمولیت اور عمل شرکت ایک ناگزیر عمل ہے۔ اسی کے ذریعے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے‘ اعمال صالحہ کا حصول ہوتا ہے۔ یہی سنت نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم اور سنت صحابہؓ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تنظیم پر مبنی اجتماعی ماڈل کا احیا ہونے سے مسلمانوںکو ایک بھرپور شناخت قائم کرنے کا موقع ملا۔ اس شناخت نے ناتواں اور منتشر قوم میں عظیم قوت کی لہر دوڑا دی۔ پژمردگی اور مردنی کو امید اور زندگی سے بدل دیا۔
تفہیم القرآن کے اکثر قارئین جن کا دائرہ صاحب تفہیم القرآنکی بنائی ہوئی تنظیم سے باہر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جس میں ان کے مخالفین بھی شامل ہیں‘ کے لیے تنظیم بالقرآن کی صورت میں عملی تفسیر کی جہت پر قدم بڑھانا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ گویا کہ تفہیم القرآن علمی تصویر ہے‘ جبکہ جماعت اسلامی عملی تفسیر اور تحریک کا روپ لیے ہوئے ہے۔ اس تحریک میں ہرقاری خود تفسیر کا رنگ بھر سکتا ہے۔ خطوط کار موجود ہیں۔ صاحب تفہیم القرآنکا مطلوب و مقصود‘ انقلاب امامت تھا۔ جو شخص ترجمان القرآن کا مدیر‘ مضمون نگار‘ خزانچی‘ اور قاصد تھا‘ وہ اس کڑی سے بخوبی واقف تھا‘ جو کسی ادارے کو عمل کا روپ دینے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے تسلسل سے قائم کرنا ہوتی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ تنظیم کا قیام پیغام حق کی ترویج و اشاعت کے ذریعے کے طور پر انتہائی ضروری ہے‘ ایک مفکر انقلاب اور قائد تحریک میں بنیادی فرق‘ منتظم کے کردار کا ہے۔ مولانا مودودی کی سب سے بڑی انفرادیت دراصل منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے ان کا کردار ہے۔ تنظیم بالقرآن کی اٹھان اور صورت گری‘ اجتماعیت کی تشکیل اور اس کو تحریک کی شکل میں فعال بنا کر نتیجہ خیز بنانا‘ یہ ان کا اصل ورثہ ہے۔ یہی خصوصیت ان کو ہم عصر علما اور دانش وروں کی صف میں ممتاز کرتی ہے۔موذنِ جماعت‘ مصورِ جماعت‘ کارکن جماعت اور امیرجماعت کی حیثیت سے ان کا کردار اسلامی تاریخ میں ایک نئی روایت اور ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
۳
مولانا مودودی نے محرکات پر بہت زور دیا ہے۔ ان کی رائے میں ایمان اور علم یہ دونوں وہ جذبہ اور داعیہ فراہم کرتے ہیں جس کی قوت انسان کو عمل پر ابھارتی ہے۔ ایمان‘ علم اور عمل پر بیک وقت ان کا زور رہا ہے۔ ’’اسلام پہلے علم کا نام ہے اور علم کے بعد عمل کا نام ہے‘‘ (خطبات: ص ۳۲)۔ شعوری مسلمان کا تصور‘ پیدایشی مسلمان اور پیدایشی برہمن یا عیسائی کے تصور سے مختلف ہے۔ اسلام کو جاننا اس کو ماننے سے قبل ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ محرک اور داعیہ پیدا ہوتا ہے‘ جو عقل اور قلب دونوں کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ عقلی محرکات یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں‘ جبکہ قلبی محرکات فرد کو عمل کے لیے اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔
مولانا مودوی نے انسانوں کو اجتماعی تحریک میں لانے کے لیے ’’شعوری ایمان‘‘ کی طاقت ور اصطلاح کو رائج کیا۔ ایک مقصد اور نظریہ فراہم کیا۔ جماعت ایک نظریاتی قوت کے طور پر نمایاں ہوئی‘ کیونکہ یہاں افراد کی وابستگی نظریے سے اور مقصد سے پہلے استوار ہوئی۔ جماعت میں شرکت نظریے کی بالادستی کی کوشش کا ذریعہ قرار پاتی ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی تحریک ہے۔ جس کی بنیاد اور اٹھان ’علم‘کے اوپر ہوئی ہے۔ اس کی ترقی اور کامیابی کا انحصار اس علم کی وسعت پر ہے۔ اس علم پر ایمان اور وفاداری‘ اس جماعت کے افراد کی اولین خصوصیت ہے۔مولانا مودودی نے نظریے کو تنظیم پر سبقت دی۔ نظریے کو تسلیم کر کے تنظیم میں شامل ہونا ایک مختلف معنی رکھتا تھا۔ بالخصوص ایک ایسے دور میں کہ جب اصلاً لوگ تنظیم کو اور اس کے مفادات کو نظریے سے اوپر غالب رکھتے تھے۔ جماعت نظریے سے بنتی ہے اور نظریے کو ماننے والے اس میں حصول مقاصد کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ افراد کی حیثیت اور اہمیت نظریے کے تابع ہونے کے اعتبار سے ہے۔ تنظیم کے بجاے خود افادیت نظریے کے مفاد کے لیے ہے۔ یہ کلیہ ہر خاص و عام فرد کو مطمئن رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعیت کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملتا ہے‘ نیز فرد تنظیم کو جبر اور زیادتی کا آلہ کار سمجھنے کے بجاے‘ بقاے ایمان اور تقاضاے علم کے تحت ناگزیر سمجھتا ہے--- اساس تنظیم کا اس سے زیادہ دائمی نظریہ قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مقصدیت پر مبنی مرکزیت‘ افراد کو تنظیم پر قائم رکھنے اور امانت کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ذمہ داران کو بے قابو ہونے کے بجاے احساس گرانباری سے بوجھل رکھتی ہے‘ سبک رفتاری اور نتیجہ خیزی کے ساتھ انھیں بے چین اور بیدار رکھتی ہے۔ مولانا مودودی نے جدید دور میں Management by Knowledge - Orineted Mission کی بنیاد پر جماعت کے نظم کی بنیاد رکھی۔مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’نظم جماعت کے لیے ہم نے اول روز سے جو بات لوگوں کے ذہن نشین کی‘ وہ یہ تھی کہ اس جماعت میں وہی شخص داخل ہو جو اس کو جانچ پرکھ کر‘ اچھی طرح اس بات کا اطمینان کر لے کہ یہ جماعت فی الواقع اقامت دین کے لیے قائم ہوئی ہے‘ اور اس کی دعوت‘ طریق کار اور اصول تنظیم وہی ہیں‘ جو قرآن و سنت کے مطابق اقامت دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت کے ہونے چاہییں۔ پھر جب اس معاملے میں پوری طرح مطمئن ہو جانے کے بعد وہ جماعت میں آئے تو اسے ٹھیک اس سمع و طاعت فی المعروف کا التزام کرنا چاہیے جس کا حکم قرآن و حدیث میں دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جماعت کے ڈسپلن کو توڑنا محض یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی نے ایک پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے‘ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خود اپنے عقیدے میں جس کام کو خدا کا کام سمجھا تھا‘ اس کو جان بوجھ کر خراب کیا اور قصداً خدا اور رسول کی نافرمانی کی‘ (جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ‘ اور لائحہ عمل ، ص ۶۳ - ۶۴)
اس قاعدے کا مطلب امیر کی آمریت نہیں ہے‘ بلکہ وہ امیر کی مرکزیت کو اختیارات کی تقسیم اور وحدت کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یہ ایک باریک نزاکت ہے جسے مولانا مودودی کے تنظیمی ادراک کی عظمت سمجھا جا سکتا ہے۔ مرکزیت کے بجائے جب اسے وحدت کے معنوں میں سمجھا جائے تو اس کلیے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جماعت کو وسعت پانے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ وسعت کے ساتھ تنظیم کو پھیلانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوئی اور اختیارات کی تقسیم کوئی مسئلہ نہیں بنی۔
مسلم دنیا کے ریاستی اور پارٹی تجربات میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قیادت پر فائز اپنے آپ کو تاحیات منصب پر برقرار رکھتے ہیں۔ ’ایک جماعت‘ ایک امیر اور قیادت میں تبدیلی کے لیے مقررہ مدت پر انتخاب کا طریقہ کار بھی وضع کیا‘ اور اس کی مکمل پاسداری کی۔ مولانا مودودی نے خرابی صحت کی بنا پر معذوری پیش کر کے یہ اصول تسلیم کرایا‘ کہ دیگر شرائط کے ساتھ کام کرنے اور بوجھ اٹھانے کی جسمانی سکت کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ بانی کی حیثیت سے اپنے آپ کو منصب کے ساتھ لازم نہ کر کے جماعت کے اندر جمہوری مزاج کو پروان چڑھایا۔ ورنہ جو شخص اپنی قائدانہ ذمہ داری کے شعور میں اتنا پختہ تھا اور جس کے دل و دماغ نے اس منصب کے تقاضوں کو اس انتہا پر جذب کر لیا تھا‘ کہ جب ۱۹۶۳ء میں اجتماع عام میں سامنے سے فائرنگ ہوئی اور ایک صاحب نے مولانا مودودی سے درخواست کی کہ وہ ڈائس سے ہٹ کر بیٹھ جائیں تو مولانا نے بے ساختہ کہا: ’’میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا‘‘۔ قیادت کا یہی شعور تھا کہ جس کا انھوں نے اس مرحلے پر بے ساختہ اظہار کیا۔
جماعت کا قیام کسی شخصیت کے افکار یا اثرات پھیلانے کے لیے عمل میں نہیں آیا تھا‘ بلکہ اس کا مقصدِ وجود ہی دعوت ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلنا تھا کہ مختلف مراحل پر مختلف مزاج‘ سوچ اور انداز کار کے حامل افراد اس میں شامل ہوتے جائیں گے۔ یہ افراد جغرافیائی لحاظ سے بھی پھیلے ہوئے ہوں گے۔ لیکن ایک جماعت اور ایک امیر کے اصول میں وحدت کو متاثر کیے بغیر وسعت میں سمونے کی بے پناہ گنجایش موجود ہو گی۔ غور کیا جائے تو جماعت بندی کا یہ تصور درحقیقت توحید کے عقیدے کا پرتو ہے۔ قرآن میں اطاعتِ امیر کو اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول کے بعد کا درجہ دیا گیا ہے۔ ایک جماعت اور ایک امیر کا اصول‘ اس آیت سے مترشح ہوتا ہے۔ تنظیم ایک حکم ہے۔ امیر خود اس حکم کا پابند ہے۔ عملاً پوری تنظیم اس حکم کے ماتحت ہے۔
سمع و طاعت کے اس تصور کو جماعت اسلامی کی تنظیم کی بنیادی صفت بنانے کے بارے میں مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’جو لوگ بھی جماعت میں آئے وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے خارجی دبائو کے محتاج نہ تھے۔ انھوںنے زیادہ تر خود اپنے ایمان کے تقاضے سے ڈسپلن کو قبول کیا اور انھیں باقاعدگی‘ نظم ‘ اور ضبط کے ساتھ کام کرنے کا عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔ (ایضًا‘ ص ۶۴)
لیکن سمع و طاعت کو شخصی بیعت یا اندھی اطاعت مطلق سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اطاعت فی المعروف اور اطاعت نظم کو توحید اور رسالت کے تابع سمجھا اور سمجھایا گیا۔ اس طرح قرآن کے اطاعت امیر کے حکم کے بے جا استعمال یا حدود سے تجاوز کے امکانات کو ختم کر دیا گیا۔
مشاورت میں تخلیقی قوت کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں مناسب حکمت عملی کی تشکیل ضروری ہوتی ہے۔ جماعت نے جدید ترین اسلوب کو تکنیکی اعتبار سے مقاصد کے حصول کے لیے اپنانے میں پہل قدمی کی۔ تجزیے‘ معلومات کا حصول‘ سوچ بچار‘ میڈیا کی آرا‘ بین الاقوامی سطح پر دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا لائحہ عمل‘ ان تمام ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے کھلے دل و ذہن کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کے لیے سوچا۔
صحیح بات یہ ہے کہ نظام اور ڈھانچے سے متعلق امور‘ مقاصد اور حکمت عملی کے تابع ہوتے ہیں۔ جب حکمت عملی تبدیل ہوتی ہے تو نظام بھی تبدیل ہوتا ہے۔ اگر حکمت عملی کے بجائے نظام کو فوقیت مل جائے تو مقاصد سے انحراف‘ عمل میں رونما ہو جاتا ہے۔ نظام کی حیثیت ذریعے کی ہے۔ یہ ایک سواری ہے۔ جب کہ حکمت عملی کا تعلق سمت اور طریقہ کار سے ہے۔
مولانا مودودی نے جماعت کو جمود سے بچایا۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد تقسیم برعظیم‘ تحریک پاکستان‘ دستور پاکستان‘ تحریک جمہوریت‘ انتخابات اور دیگر مراحل‘ جیسے جیسے نئی حکمت عملی اور نئے اہداف کا تقاضا کرتے گئے‘ مولانا مودودی نے طریق کار اور نظام‘ دستور اور اہداف بھی تبدیل کیے۔ لائحہ عمل کی تبدیلی میں بھی دیر نہ کی۔ اس طرح جماعت کو پاکستان کی انتہائی موثر تنظیم بنا دیا۔ یہ قائدانہ شعور کی پہچان ہے‘ کہ قائد اپنی تنظیم کو حکمت عملی اور نظام العمل کے لحاظ سے ماحول کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت مقاصد کے حصول کے لیے ترتیب دیتا رہتا ہے۔ نئے شعبہ جات کا قیام‘ معاونت کے لیے نئی تنظیمات کا قیام‘ مختلف مواقع پر تحریکوں کا آغاز‘ دیگر جماعتوں کے ساتھ یا حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون وغیرہ ان تمام معاملات میں مولانا مودودی نے مقاصد و اصول کی رہنمائی میں پیش قدمی کے لیے طریق کار وضع کیا۔ اسی لیے جماعت ہمیشہ پہلی صف میں ممتاز اور اہم ترین جماعت کی حیثیت سے ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ۔
مولانا مودودی محض تنظیمی سربراہ نہ تھے‘ بلکہ وہ تنظیم ساز قائد تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اس عمل کے چاروں اجزا کو الگ الگ تجزیے سے گزارتے تھے‘ یعنی مقاصد کو جو حاصل کرنے ہیں یا نتائج جو رونما ہونا چاہییں‘ معاشرہ جس میں کام کرنا ہے‘ قیادت کہ جسے معاشرے اور مقاصد میں ربط پیدا کرنا ہے‘ اور تنظیم جسے معاشرے میں مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دیا جانا چاہیے۔ وہ مسلسل ایک ایسے امتزاج اور مرکب کی جستجو میں رہتے تھے جس میں بہتر تنظیم کے ذریعے معاشرے میں زیادہ سے زیادہ نتائج کا حصول ممکن ہو۔ یہ قیادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کی نشانی ہے کہ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تنظیم کی حدود سے باہر سمجھ کر بھی تنظیم کا جائزہ لے سکتی ہے۔ یعنی قائد‘ اپنی تنظیم کے اندر اپنے آپ کو گرفتار رکھ کر سوچے تو وہ محدود پیمانے پر ہی سوچ سکتا ہے۔ قائد کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ تنظیم سے ذہنی طور پر جدا ہو کر (detach)تنظیم کو اس کے ماحول میں پرکھے اور اس کی سمت اور رفتار‘ مقاصد اور طریقۂ کار کے بارے میں سوچتا رہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی زمین کو زمین پر کھڑے ہوکر دیکھے یا کوئی خلا میں جاکر دُور سے زمین پر نگاہ ڈالے۔ زمین کو دونوں صورتوں میں دیکھنے ہی سے مکمل تصویر بن سکتی ہے۔ اس طرح قائدمعاشرے میں مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں مولانا مودودی کی یہ قائدانہ سوچ اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ وہ جماعت کو نئے حالات کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مشاورت کے ذریعے راغب کرنا چاہتے تھے۔
مولانا مودودی نے ایک طرف بار بار اس امر کی تنبیہ کی کہ اس تنظیم کا مقصد کوئی خانقاہ بنانا نہیں ہے۔ جس معاشرے میں تنظیم کام کر رہی ہے‘ اس معاشرے سے کسی کمزور سے رشتے کو قائم رکھ کر تنظیم کو چلانا مقصود نہیں۔ بلکہ ایک ایسی تنظیم مطلوب ہے ‘جو اندرونی طور پر مستحکم ہو‘ لیکن اپنے بیرونی ماحول میں پوری طرح مربوط ہو ۔ گویا کہ اس کو معاشرے پر اثرانداز ہونا ہے اور معاشرے سے یقینا متاثر بھی ہونا ہے۔ جماعت نے شخصیت کی تعمیر‘ خاندان کی تشکیل اور تنظیم میں شامل افراد کے درمیان روابط اور معاملات جیسے امور پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔گفتگو کا طریقہ‘ اخلاق‘ مختلف مواقع پر رویہ اور سلوک ان سب کو متاثر کیا ہے۔ جماعت کا فر داور گھرانہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ طور طریق‘پسند و ناپسند‘ شخصی انداز‘بودوباش‘ معاملات‘ رکھ رکھائو‘ زبان کے لحاظ سے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اجتماعی امور میں جماعت کا مخصوص طریقہ کار ایک خاص طرز معاشرت کو ترتیب دیتا ہے۔ ایسا طرز معاشرت جس میں افراد آسانی سے ڈھل جائیں‘ اور تحریکی کام ان کی زندگی کا اس طرح جزو بن جائے کہ انھیں کوئی بوجھ محسوس نہ ہو۔ عام معاشرے میں رہ کر‘ بلکہ اس میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے ایک نئی معاشرت و ثقافت کو پروان چڑھانا ایک مشکل کام تھا۔ حفاظتی خول (enclave) کے بغیر ایک نیا اجتماعی ماحول ترتیب دینا‘ سیاسی و معاشرتی تبدیلی کے لیے کھڑی ہونے والی تنظیم کے لیے بیش بہا تجربہ ثابت ہوا اور تنظیم کی فعالیت کا بھی بہتر اہتمام ہوا۔
جماعت اسلامی‘ پاکستان کی واحد دینی و سیاسی تنظیم ہے جو ساتھ چلنے والوں کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اس سے قبل کسی دینی جماعت میں اس طرح کی روایت بھی نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک اس میں کیا حکمت تھی؟ انھوں نے کیوں اس کو اختیار کیا؟ مولانا مودودی کے نزدیک ہر جماعت کو ایک نیوکلئیس چاہیے ہوتا ہے۔ یعنی وہ جماعت کو ایک متحرک ایٹم کی طرح دیکھتے تھے کہ جن میں ایک حصہ مرکز ثقل (core) کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ پوری تنظیم اس مرکزثقل کے گرد گھومتی ہے۔ اس مرکزثقل کا کام‘ معیار اور مقصد کی حفاظت ہے۔ اس مرکزثقل کا وجود اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ جماعت کی عملاً کوئی سرحد نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی دعوت ہے‘ ایک تحریک ہے۔ لاکھوں افراد جو اس کے پیغام کو درست مان لیتے ہیں‘ وہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر اس مرکز ثقل کو تحلیل کر دیا جائے یا یہ محو ہوجائے تو تنظیم کس بنیاد پر کھڑی رہ سکے گی؟ ارکان جماعت دراصل ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یعنی تنظیم اس ادارے کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اجتماعی تحریک جس میں شمولیت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں‘ اگر اسے تنظیم کی شکل دینا ہو تو ایسے بنیادی ادارے کا قیام ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی جماعت اسلامی اپنی تنظیمی ہیئت کی بنا پر کام کو مسلسل آگے بڑھا رہی ہے۔
اس درجہ بندی کا غلط طور پریہ مطلب لیا گیا ہے کہ اس کا مقصد کوئی تفریق پیدا کرنا ہے۔ یہ درجہ بندی کارکردگی کی بنیا دپر ہے۔ تنظیمیں اس وقت آگے بڑھتی ہیں جب کارکردگی کو تنظیمی معیار بنا لیں۔ وہ افراد‘ جو ذمہ داریاں اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں‘ تنظیم کے لیے قابل بھروسا ہوتے ہیں‘ جن کی رائے فیصلہ سازی اور امیر اور شوریٰ کے انتخاب کے لیے ضروری ہوتی ہے‘ اور جو مقصد سے وفاداری اور تنظیم کے ساتھ مکمل وابستگی کا حلف اٹھاتے ہیں‘ ان کو الگ سے شمار کرنا‘ اور نیوکلیئس کی حیثیت سے تنظیم کا ذمہ دار گرداننا‘ یقینا حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی دانش مندی ہے۔ بالخصوص ایک ایسی تنظیم کے لیے کہ جس کا مقصد وجود ہی وسعت اور تبدیلی ہے۔ یہ طریقۂ کار دراصل پھیلائو اور ارتقا و نمو کے نامیاتی طریقہ کار (organic growth) سے حددرجہ مماثل ہے۔ درخت کی مثال لے لیجیے۔ ایک بیج کا زمین میں جذب ہو کر اثرات کو جذب کرنے کا اور اپنی اصل پرکار بند رہنے کا نتیجہ مضبوط تنے‘ پھیلی ہوئی شاخیں‘ ایک ہی انداز کے پتے اور پھل کی مسلسل افزایش کی صورت میں نکلتا ہے۔ یوں مضبوط جڑ کے ساتھ وسعت کے لامتناہی امکانات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم جہاں ایک مرکزثقل کی تشکیل کو اپنا ایک بنیادی کام سمجھتی ہے‘ وہیں وہ اس کو سمیٹ کر رکھنے یا محدود ہوکر جم جانے کے بجاے متحرک کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انھی نظریات کے مطابق استوار کرنے کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ یعنی اس مرکزثقل کامقصد نمو ہے جمود نہیں‘ اور ہر فرد مکمل طور پر خود مختار ہے‘ کہ وہ اپنے اندر قائدانہ اوصاف پیدا کرے‘ معاشرے کے لیے نقیب بن جائے‘ اور دعوت کا کام کرے۔ ہر فرد مکمل طور پر بااختیار ہے کہ زیادہ اور بہتر کام کرنے کی کوشش کرے۔ درجہ بندی درحقیقت صلاحیتوں کی وسیع پیمانے پر نشوونما کو یقینی بنانے کے لیے ہے‘ اختیارات اور کام کو چند افراد تک سمیٹنے کے لیے نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے توازن و اعتدال کو تنظیم کا خاصّہ قرار دیا۔ تنظیم‘ عالم اسباب میں ایک کڑی کی حیثیت سے وجود میں آتی ہے اور مادی و انسانی وسائل کو سمیٹ کر مطلوبہ نتائج کے حصول کی کوشش کرتی ہے۔ عمل اور ردعمل میں جذباتیت کا شکار ہونے سے بچاتی ہے۔ تنظیم کا قیام اس ادراک کا نتیجہ ہے کہ اقامت دین کا کام جدید معاشرے میں حد درجہ نظم کا تقاضا کرتا ہے اور یہ کام آناً فاناً نہیں ہوتا‘ بہ تدریج آگے بڑھتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے‘ صلاحیتوں اور وسائل کو کھپانا مقصود نہیں‘ انتہائی احتیاط اور فکر مندی کے ساتھ اس قوت کو مستقبل میں تبدیلی کے لیے بروے کار لانا مطلوب ہے۔ تنظیم کے دیرپا استحکام اور چلتے رہنے کے لیے قیادت و مشاورت انتہائی ضروری ہیں۔ مشاورت کے ذریعے حکمت کو نکھارا جاتا ہے اور اجتماعی فیصلہ سازی میں بہتری آتی ہے۔ اجتماعی فیصلے ہی اجتماعیت کو لے کر چل سکتے ہیں۔ قیادت‘ مشاورت کے ذریعے جب کام کرتی ہے تو اس کا حکم موثر ہوتا ہے اور سمع وطاعت کے اعلیٰ درجے کا جواب (response) ملتا ہے۔
مولانا مودودی کے ہاں اعتدال کا مطلب سست روی یا سہل انگیزی یا مصلحت کوشی نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب ہوش مندی کے ساتھ مسلسل جدوجہد ہے‘ تاکہ مجموعی طور پر اسلام کے احیا کے لیے کام ہو۔
تنظیم کی حیثیت سے جماعت ‘ریاست کے دوسرے تنظیمی اداروں کے مدمقابل نہیں آئی‘ بلکہ کھلے عام کام کے ذریعے اثر و نفوذ کے راستے کو اختیار کیا گیا۔ جس طرح مولانا مودودی کی شخصیت کھلی کتاب کی طرح تھی اسی طرح ان کی بنائی ہوئی تنظیم کے دستور میں بھی واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ یہ علانیہ جدوجہد کرے گی‘ کوئی خفیہ تحریک جو زیرزمین کام کرتی ہے اس کے علی الرغم یہ تنظیم راے عامہ کو ابلاغ عام کے ذریعے مخاطب کرے گی۔ اس تنظیم کے حسابات‘ معاملات‘ فورم‘ سرگرمیاں ہر چیز ہمیشہ کھلی کتاب کی طرح ہر ایک کے سامنے رہی ہیں۔ بنیادی طور پر جماعت کا قیام ایک کھلی تنظیم کے طور پر عمل میں آیا۔ اس میں ہر ایک شامل ہوسکتا ہے‘ ہر ایک اس کو قریب سے دیکھ سکتا ہے‘ ہر ایک کے لیے اس کی دعوت عام ہے‘ اور معاشرے کا ہرفرد اس کے لیے اہم ہے۔ یعنی ایک ایسی تنظیم جو پورے معاشرے کو اپنے اندر سمونا چاہتی ہو‘ جوکسی قسم کی طبقاتی تفریق‘ لسانی و نسلی تعصب‘ کی حامل نہ ہو۔
مضمون کا آغاز طارق علی کے جملے سے کیا گیا تھا۔ اس کا اختتام اس جملے پر مولانا مودودیؒ کے ردعمل پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ایک معروف سیاسی و دینی شخصیت نے اس انداز کا تقابل مولانا مودودیؒ کے سامنے کیا تو انھوں نے بجاطور پر اس تقابل پر ناگواری کا اظہار کیا۔ گذشتہ صفحات پر پائے جانے والے مباحث مولانا مودودی کے ردعمل کی بجا طور پر تائید کرتے ہیں۔
۱۹۵۳ء میں‘ میں نے امریکن یونی ورسٹی‘ بیروت میں داخلہ لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہ یونی ورسٹی ابھی تک صلیبی دور کے اسلام مخالف جذبات سے بری طرح متاثر تھی‘ بس یوں سمجھیے کہ یہ ایک مسیحی مشنری ادارہ تھا۔ طلبہ میں سے بیش تر مسلمان تھے‘ مگر یہ سب ہفتے میں تین روز یونی ورسٹی چرچ میں ہونے والی مذہبی گفتگوئوں میں شریک ہونے پر مجبور تھے۔ ان گفتگوئوں کا ایک درپردہ ہدف یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کے ذہنوں میں مغربی جدیدیت (modernism) کے تصورات راسخ کیے جائیں۔ جو طلبہ ایسے پروگراموں میں شرکت سے معذرت یا انکار کرتے تھے‘ انھیں بعض مذہبی موضوعات پر لائبریری ریسرچ کے ایک زیادہ مشکل کام پر لگا دیا جاتا تھا۔ طلبہ پر پڑھائی کا پہلے ہی اتنا بوجھ ہوتا تھا کہ عموماً کوئی بھی اس نوعیت کے مشقت طلب کام کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ متبادل راستہ یونی ورسٹی چرچ ہوتا۔
ہر لیکچر یا خطبے کے اختتام پر مقرر‘ تمام طلبہ کو کھڑے ہو کر عیسائی مذہبی گیت گانے کے لیے کہتا۔ مسیحی اور مغربی طلبہ‘ قدیم گرجا خانے (Chapel) کے آلاتِ موسیقی کی بلند لَے پر دل لبھاتے اجتماعی گانے (chorus) گاتے۔ مسلمان طلبہ خاموش کھڑے رہتے یا مجمعے کا ساتھ دینے کی اداکاری کرتے۔ اس وقت میری عمر ۲۱ سال تھی اور میری پرورش ۵۰ کے عشرے کے برطانوی مقبوضہ سوڈان میں ایک نہایت مغرب زدہ خاندان میں ہوئی تھی۔ اس کے باوجود بطور مسلمان‘ مجھے یہ ساری کارروائی نہایت توہین آمیز معلوم ہوتی تھی۔
تمام طلبہ کے لیے اپنے پہلے اور دوسرے تعلیمی سالوں میں‘ اصل مضمون سے قطع نظر نصاب میں شامل دو کورس مکمل کرنا لازمی تھے۔ پہلے سال میں لازمی کورس کا عنوان ’’اسلامی فلسفہ‘‘ تھا۔ یہ کورس‘ جسے زیادہ تر مسیحی اساتذہ پڑھاتے‘ الفارابی‘ ابنِ سینا‘ اور اخوان الصفا جیسے ان ابتدائی مسلم فلسفیوں کے کام کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا‘ جو یونانی فلسفیوں کی بے راہ فکریات سے واضح طور پر متاثر تھے۔ طویل مبہم بحثیں فلسفیوں کے ان دلائل پر کی جاتیں‘ کہ آیا خدا انسانی زندگی کی خصوصیات سے واقف ہے یا نہیں؟ کیا انسان کے پاس انتخاب کی آزادی ہے یا خدا نے سب کچھ پہلے سے مقدر کر رکھا ہے؟ اور اگر سب کچھ خدا نے پہلے ہی تقدیر میں لکھ رکھا ہے تو اس طرح انصاف کا تقاضا کیوں کر پورا ہو سکتا ہے؟ کیا حیات بعد موت جسم اور روح دونوں کے لیے ہے‘ اور اس کی نوعیت صرف روحانی ہے یا بعدموت اجتماعی حیات کی کوئی حقیقت نہیں ہے؟ اور کیا انسان کی موت ہی بعد از زندگی اس کا آخری ٹھکانہ ہے؟ چاند تیسرے آسمان پر واقع ہے یا چھٹے آسمان پر؟ اور کیا پیغمبر کو ایک بہتر انسان سمجھنا چاہیے یا فلسفی کو؟
روایتی ثانوی اسکولوں سے آئے ہوئے مسلمان طلبہ کے لیے‘ جن میں سے اکثر کا تعلق عرب ممالک کے دیہات سے تھا‘ یہ تمام مسائل بہت پیچیدگی اور پراگندگی کا مظہر تھے‘ جنھیں نام نہاد مسلمان فلسفیوں کی قدیم کتابوں سے نہایت مہارت سے اخذ کیا گیا تھا‘ اور انھیں ابتدائی علما کے تطہیرشدہ (refined) اسلامی مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کورس میں بڑی ہوشیاری سے منتخب کردہ چند ایسے تاریخی واقعات کو بھی شامل کیا گیا تھا‘ جن سے سُنیوں اور شیعوں کے درمیان اختلاف نمایاں ہو جائیں! مثلاً حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان لڑی جانے والی جنگیں اور جنگ جمل میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا کردار۔
دوسرا کورس عمومی تعلیم (جنرل ایجوکیشن) پرمشتمل تھا۔ ۱۲ کریڈٹ گھنٹوں کا یہ ایک طویل کورس تھا‘ جس میں طلبہ زمین پر پہلے انسان کی پیدایش سے لے کر جدید مغربی انسان تک انسانی داعیات کا مطالعہ کرتے تھے۔ قدیم اور جدید انسانی تاریخ‘ ارتقا‘ آرٹ‘ فن تعمیر‘ فلسفہ‘ مذاہب اور دیگر سماجی علوم کو مہارت کے ساتھ اس کورس کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس کورس کو پڑھانے کے لیے یونی ورسٹی اساتذہ کے ساتھ ساتھ مہمان اسکالرز کو بھی دعوت دی جاتی تھی۔ یہ اساتذہ اسلامی فلسفے پر پہلے کورس کی وجہ سے ابہام کے شکار طلبہ کو اس یقین و اعتماد کی طرف راغب کرتے تھے کہ: مغربی جدیدیت ہی درحقیقت تہذیب انسانی کا نقطۂ عروج ہے۔ ۵۰ کے عشرے میں مغربی نوآبادیاتی نظام کے زیر اثر ممالک کی نئی نسلوں کو قائل کرنے کے لیے اتنا کچھ کافی تھا۔ ابتلا و آزمایش کے ایسے تجربات سے طلبہ کو دوچار ہونا پڑتا تھا۔
درحقیقت اس وقت اخوان کے بیش تر لٹریچر اور خطبات میں یہی اثر انگیزی اور شخصیت کا جذباتی پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ غالباً اس بلند آہنگی اور جوش و جذبے کا ایک سبب عرب اور مصری قومی کردار میں جوشیلے پن‘ جذباتیت اور ردعمل کی فراوانی بھی ہے۔ ان میں ایک منطقی ذہن کے بجاے جذبے سے معمور دل کے لیے زیادہ کشش تھی۔ چنانچہ میں ’اسرہ‘]اخوان المسلمون کا ایک تنظیمی و تربیتی حلقہ[ کے پروگراموں کے دوران‘ کتابچوں اور کتابوں پر مباحث اور ]یونی ورسٹی کا[ دورہ کرنے والے ممتاز اسلامی دانش وروں‘ مثلاً ڈاکٹر سعید رمضان اور ڈاکٹر مصطفی السبّاعی کی جوشیلی تقریر سے زیادہ متاثر ہوتا تھا۔ کیمپوں اور طلبہ سے بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں پڑھی جانے والی نظمیں بھی بہت خوش گوار اور پُرتاثیر ہوتی تھیں۔
اب یہ انتہائی جذباتی فضا تو ہمارے لیے موجود تھی‘ لیکن بہرحال اس توازن کا فقدان تھا‘ جو ایمان اور اسلام کے حقیقی معنی اور عملی اور اطلاقی لحاظ سے ہماری ذاتی زندگیوں میںاس متبرک علم کی اہمیت سمجھنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ میں ایمان کے عملی پہلوئوں کے بارے میں الجھن کا شکارتھا‘ یا کم از کم میرا فہم ناقص تھا اور نہ اسلام کے حقیقی معنی ہی سمجھ میں آئے کہ اسلام میں اطاعتِ خداوندی سے اصل مراد کیا ہے؟ محض احساسات کی شدت اور مغربی تہذیب پر جا و بے جا تنقید کے ذریعے اس روحانی و ذہنی اور مخمصے اور خلجان سے نجات نہیں مل سکتی تھی‘ جو پڑھائی کے دوران الجھا دینے والے مضامین (courses) اور یونی ورسٹی کیمپس میں امریکی طرز زندگی نے ہم میں پیدا کر دیا تھا۔ یہی وہ شدید ضرورت تھی جسے پورا کرنے میں‘ میں اپنے آپ کو سید مودودی مرحوم و مغفور کا انتہائی احسان مند محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور ان کی روح کو ابدی سکون سے ہمکنار کرے۔ (آمین)
عصر حاضر کے اس عظیم مجدد اور محسن سے میرا پہلا تعارف ان کی یادگار کتاب دینیات [Towards Understanding Islam] کے ذریعے ہوا۔ کتاب کے مترجم‘ پروفیسر خورشید احمد نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے: ’’یہ کتاب اسلام کا ایک ابتدائی مطالعہ ہے اور نوجوانوں کے لیے دین اسلام کی ایک سادہ اور قابل ِ فہم تشریح ہے‘‘۔ اگرچہ یہ کتاب ۱۹۴۰ء سے پہلے طبع ہوئی تھی‘ لیکن یہ ابھی تک سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اسلامی کتابوں میں سرفہرست ہے۔ اگرچہ یہ نوجوانوں کے لیے لکھی گئی تھی‘ تاہم یہ تمام عمر کے افراد کو برابر متاثر کرتی چلی آ رہی ہے۔
دینیات کے ابتدائی چند صفحات کے مطالعے سے ہی میرا فہمِ اسلام تبدیل ہونے لگا۔ خدا کے عظیم منصوبۂ کائنات میں ہر شے کی اپنی مخصوص جگہ تھی‘ جیسا کہ کتاب نے بتایا۔ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ متعین محور پر زمین کا گھومنا‘ انسانی بدن کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے (cell) سے لے کر دل اور دماغ تک تمام اعضا‘ خدا کے مقرر کردہ قانون کے تحت ہی اپنے اپنے افعال انجام دیتے ہیں۔
کتاب میں نبوت‘ اسلامی عبادات اور قانون پر نہایت مدلل اور منطقی انداز میں بات کی گئی ہے۔ انسان کے رضاکارانہ ارادے (freewill) کے موضوع پر سید مودودیؒ نے میرے اس تمام ذہنی اور روحانی خلجان کو دُور کر دیا‘ جس کا شکار میں امریکی یونی ورسٹی کے نام نہاداسلامی فلسفے پر کورس پڑھنے کے دوران ہو چکاتھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگرچہ ہر انسان مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے تکوینی احکامات کی اطاعت کا تعلق ہے وہ مسلمان ہی رہتا ہے‘ تاہم دوسرے جان داروں کے برخلاف اسے ’ارادے‘ کی یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے انداز اور اعتقادات کا انتخاب خود کرے۔ دوسرے پہلو سے سید مودودیؒ نے خوب صورتی سے یہ بتایا ہے کہ انسان:
--- اپنے ذہن سے سوچنے کی‘ منتخب یا مسترد کرنے کی اور اختیار کرنے یا چھوڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ اپنے لیے زندگی کا کوئی بھی راستہ منتخب کر نے میں آزاد ہے۔ وہ کوئی بھی عقیدہ رکھ سکتا ہے --- اسے آزاد ارادے سے نوازا گیا ہے اور وہ اپنے رویے اور کردار کا تعین خود کر سکتا ہے۔ (دینیات‘ ص ۴)
ممکن ہے یہ بیانات ایسی مسلّمہ صداقتوں (axioms) کی طرح نظر آئیں‘ جو جذبات سے عاری ہیں‘ لیکن یہی وہ زندہ حقیقتیں تھیں جنھوں نے میرے پورے تصور جہاں (world view) کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ اوائل عمری میں اس کتاب کے مجھ پر اثرات حقیقتاً میرے لیے تبدیلی مذہب کے مترادف تھے۔ گذشتہ برسوں میں‘ میں نے مختلف قومیتوں کے بہت سے لوگوں کو اسی سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار کرتے دیکھا ہے‘ جنھوں نے اس مبارک کتاب کا مطالعہ کیا۔
سید مودودیؒ کی دیگر کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس قابل ہو سکا کہ بیروت کی امریکن یونی ورسٹی میں اپنے دور طالب علمی میں اسلام کے خلاف کہی گئی ہر بات اور ہر اقدام کے خلاف‘ ایمان و اعتماد کے ساتھ کھڑا ہو سکوں۔ خدا کی غالب فطرت کا جو نیا کائناتی ادراک مجھے حاصل ہوا‘ اس نے میرے اندر ابہام کے پہاڑوں کو سنگ ریزوں میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان میں ان کی تحریک اسلامی کے لٹریچر کے کچھ مطالعے کے بعد مجھ پر اس کم عمری میں بھی واضح ہو گیا کہ اخوان المسلمون کے نئے ارکان کی حیثیت سے ہماری تربیت اور تعلیم‘ علمی اور عملی اسلامی رویے کی تشکیل کے حوالے سے لٹریچر میں کمی تھی‘ جسے سید مودودیؒ نے بہتر انداز سے پورا کیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میںکسی وقت‘ ہمیں اخوان کے ایک رکن کے گھر میں جماعت اسلامی کے ایک پاکستانی بھائی کی گفتگو سننے کے لیے اکٹھا ہونے کو کہا گیا تھا۔ مقرر کوئی اور نہیں بلکہ جماعت اسلامی کراچی کے معروف امیر برادر استاذ چودھری غلام محمد تھے‘ جو بعد کے زمانے میں میرے بہت قریبی اور عزیز دوستوں میں شامل ہوئے۔ اللہ ان کی روح پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ میں ان سے دوبارہ ۱۰ برس بعد ملا‘ جب انھوں نے عمان (اردن) کا دورہ کیا۔ میں اس وقت اردن کی یونی ورسٹی میں شعبہ نفسیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھا۔ معروف اسلامی ماہر معاشیات برادر ڈاکٹر محمد سکر (Sakr) اور میری ان سے طویل اور بڑی دل چسپ گفتگوئیں ہوئیں۔
وہ اسلامی احیا کی جدید تحریک کے مخلص اور کھلے ذہن کے مالک قائدین میں سے ایک تھے۔ ۱۹۵۶ء میں بیروت میں انھوں نے جو گفتگو کی تھی‘ وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی۔ ہم اس وقت امریکن یونی ورسٹی میں اخوان المسلمون کے مختصر مگر پر لگن گروہ کی صورت میں متحرک تھے۔ میں ان کی تقریر سے اور اس معتدل اور متحمل انداز سے تدریجاً بہت متاثر ہوا کہ جس طرح وہ پاکستان میں اپنی جماعت کے مکمل رکن بننے کے خواہش مند افراد کے کردار کے بارے میں پہلے چھان بین کرتے تھے۔ ایسے خواہش مندوں کو پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ: ’’انھیں مکمل رکن بنانے سے قبل ان کے طرزِ زندگی کا تفصیلاً جائزہ لیا جائے گا۔ وہ دیکھتے تھے کہ ایسے شخص کا اپنے والدین اور اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کیسا ہے؟ کیا وہ اپنے کام (پیشہ ورانہ ذمہ داریوں) اور مالی معاملات میں دیانت دار ہے؟ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر رہا ہے؟ ایسے ہی دیگر معاملات جن سے بطور مخلص اور ثابت قدم مسلمان اس کی ایک درست تصویر بن سکے اور وہ ایسے بے لوث رکن کے طور پر سامنے آ سکے جو اپنی غیرذمہ داری‘ کاہلی اور غیر معقول عادتوں کی بنا پر اسلامی تحریک کو مایوس نہیں کرے گا۔ اس جانچ پڑتال میں بعض اوقات کئی سال لگ جاتے ہیں‘‘۔
دوسری طرف میں اس ابتدائی دور میں بھی اخوان کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی بعض کرداری کمزوریوں کے باوجود محض اپنی اس خوبی کی بنا پر اخوان کے نوجوانوں کی قیادت تک میں پہنچ گئے تھے کہ وہ جذباتی اور دھواں دار تقریروں سے مجمع میں جوش و ولولہ پیدا کر سکتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے قرضے ادا نہیں کرتے تھے‘ بعض تو نمازیں وقت پر نہیں پڑھتے تھے‘ جنھوں نے نمازِ فجر کبھی خال ہی طلوعِ آفتاب سے قبل پڑھی ہو‘ اور وہ اپنی سرکاری ملازمتوں میں لاپروا تھے‘ کہ جہاں سے وہ اپنی ماہانہ تنخواہیں وصول کرتے تھے۔ دراصل تحریک کی توجہ زیادہ تر اپنے ارکان کی شخصیتوں کے حِسی اور جذباتی رخ پر تھی‘ اور سیاسی فوائد نے ان کی کرداری کمزوریوں کو چھپا دیاتھا۔ اگرچہ نظری طور پر اخوان میں ارکان کی جانچ پڑتال کا نظام موجود تھا‘ لیکن درحقیقت نوجوان نسل نے اُسے نظرانداز کیا تھا۔ مجھے یاد ہے ۱۹۵۷ء میں‘ میں نے اخوان کے برادران میں اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں ڈاکٹر اسحاق فرحان اور ڈاکٹر محمد قوجا سے اس مسئلے پر بڑی مفصل گفتگوئیں کی تھیں‘ جو تحریک پر اس تنقید و تجزیہ کو کھلے ذہنوں سے قبول کرتے تھے۔ میں نے ان پرزور دیا کہ: ’’وہ سید مودودی کا مطالعہ کریں اور پاکستان کی جماعت اسلامی کے لٹریچر سے واقفیت حاصل کریں‘‘۔
میں نے بیروت میں برادر چودھری غلام محمد کے ساتھ پاکستان کی جماعت اسلامی میں ارکان کی وابستگی اور تربیت کے نظام پر جو گفتگوئیں کی تھیں‘ وہ محترم ڈاکٹر ترابی کے نزدیک ارکان کی تربیت کے تصورات کی یقینا نفی کرتی تھیں۔
ہمارے نزدیک تو ایسی بات کہنا ’اخوان‘ جیسی بین الاقوامی تحریک کے پورے ڈھانچے اور تعلیمات کے خلاف بغاوت کے مترادف تھا۔ ہمارے اکثر ساتھیوں‘ بشمول ڈاکٹر جعفر ادریس‘ شہید محمد صالح عمر اور استاذ محمود برات (Burrat) نے اپنی تحریک کی اس ’آزاد روی‘ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ اختلاف کہیں تحریک کو دولخت کرنے کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ تحریک کے ذمہ دار برادران کا ایک اجلاس اس مسئلے کے حل کے لیے دارالحکومت خرطوم میں طلب کیا گیا۔
مجھے اس اجلاس میں بھائی ڈاکٹر حسن ترابی کے الفاظ بڑی اچھی طرح یاد ہیں‘ انھوں نے کہا تھا: ’’مالک بدری اور جعفر ادریس خرطوم یونی ورسٹی میں طالبات کو اس پر قائل کرنے میں بلاوجہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں کہ انھیں اپنے مختصر لباس ترک کر کے لمبے لمبے اسلامی کرتے (جُبیّ) پہننے چاہییں۔ حالانکہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہمیں تمام سوڈانی خواتین کو اسلامی لباس پہنانے کے لیے صرف ایک صدارتی حکم نامے کی ضرورت ہو گی‘‘۔ جناب ترابی نے مزید کہا تھا: ’’ہمیں ایک مقبول اسلامی جماعت ہونا چاہیے‘ جسے اپنے ارکان کی ذاتی زندگیوں میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی شخص جسے ہمارے مقاصد سے اتفاق ہو‘ جو ہمیں رفاہی اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے چندہ اور عام انتخابات میں ووٹ دیتا ہے ‘ ہمیں اس کو مکمل رکن تصور کرنا چاہیے‘‘۔ عین اسی وقت جب انھوں نے اپنا جملہ مکمل کیا باہر سے ایک انجان‘ آوارہ اور شرابی شخص اچانک اجلاس کے کمرے میں داخل ہوا اور گالیاں بکنے لگا۔ جب کچھ نوجوان اسے باہر نکالنے کی کوششیں کر رہے تھے تو میں نے جناب ترابی سے کہا: ’’آپ کے معیار کے مطابق تو یہ فرد بھی تنظیم کا مکمل رکن بن سکتا ہے‘‘۔ باقی افراد نے قہقہہ لگایا‘ مگر ترابی صاحب ذرا پریشان نہ ہوئے اور کہا: ’’جی ہاں‘ میں اسے قبول کر کے مزید خراب ہونے کے لیے چھوڑ نہیں دوںگا‘‘۔
ہماری شدید مزاحمت کے باوجود ترابی صاحب اور ان کے ہم نوا ساتھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے ایک وسیع البنیاد سیاسی اسلامی گروپ تشکیل دے دیا۔ جب کہ خود اخوان سیاسی سرگرمی کے اس سمندر میں ایک چھوٹا سا ڈوبتا ہوا جزیرہ بن کر رہ گئی۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اخوان المسلمون کے وہ رکن جو اس وقت ڈاکٹر ترابی صاحب کے ساتھ کھڑے تھے اور انھوں نے ان کے تمام طور طریقے اور سیاسی جوڑ توڑ کے انداز سیکھ لیے تھے‘ اب خود انھوں نے ترابی صاحب کو جماعت کی قیادت سے الگ کر دیا ہے جس کے لیے انھوں نے سخت جدوجہد کی۔ اوریہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اب انھیں قید (جیل) میں ڈال دیا ہے۔
اخوان کا یہ گروپ رفتہ رفتہ علمی‘ ادراکی اور روحانی جہتوں سے محروم ہوتا چلا گیا‘ تاہم حِسی اور جذباتی عوامل نے طلبہ اور نوجوانوں کو قدیم مقاصد سے وابستہ رکھا۔ سوڈان میں آج تحریک کے ارکان کی اکثریت‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کے اطوار سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اس طرح سید مودودی ؒسے ہماری مراسلت شروع ہوئی۔ ہم نے خط و کتابت کا یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رکھا۔ ہم اپنے خطوط میں جو تفصیلی مسائل اٹھاتے سید مودودیؒ کمال تحمل‘ ہمدردی‘ خلوص اور دُوراندیشی کے ساتھ ان کی وضاحت کرتے۔ اپنی مصروفیت اور گرتی ہوئی صحت کے باوجود وہ ہمارے خط پہنچنے پر اسی روز ان کے جواب تحریر کرتے۔ اپنے آخری خط میں انھوں نے ہمیں‘ یعنی استاذ محمود برات اور مجھے‘ پاکستان آ کر براہ راست تحریک کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی۔ مارچ ۱۹۶۸ء میں اسلامی یونی ورسٹی کے بانی اور وائس چانسلر‘ ام درمان (سوڈان) پروفیسر کامل الباقر نے بیروت یونی ورسٹی کا دورہ کیا اور مجھے یہاں سے مستعفی ہو کر اپنی یونی ورسٹی کے نئے قائم شدہ تعلیم اور نفسیات کے شعبوں میں کام کرنے کی دعوت دی۔ میں نے اپنے وطن سوڈان کی یونی ورسٹی میں کام کی دعوت بخوشی قبول کرلی‘ اگرچہ مجھے بیروت کی یونی ورسٹی سے ملنے والی گریجویٹی سے ہاتھ دھونا پڑ رہاتھا‘ کیونکہ میں موجودہ ملازمت چھوڑنے کے لیے معاہدہ ملازمت (کنٹریکٹ) کی شرائط کو قبل از وقت توڑ رہا تھا۔
اگست ۱۹۶۸ء میں بجاے اس کے کہ میں اپنی نئی تقرری کے لیے سوڈان تک براہ راست سفر کرتا‘ میں نے ایک کار خریدنے اور اسی پر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ہوائی ٹکٹ بہت مہنگے تھے اور ایک چھوٹی کار پر پٹرول کا خرچ کم پڑتا تھا۔ کار بیروت سے سوڈان تک بحری جہاز پر ہی لے جائی جا سکتی تھی۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ کار خرید کر اس پر پہلے پاکستان جائوں اور پھر وہاں کراچی سے بذریعہ بحری جہاز اسے سوڈان لے جائوں۔ اس طرح ہم دونوں افراد کے ہوائی ٹکٹ کی بچت ہوتی تھی۔ چنانچہ میں نے کویت سے ایک نئی ویگن خریدی۔ محمود برات نے مشرق کی طرف اس پُرخطر سفر کے لیے مجھے بغداد میںملنا تھا۔
تہران تک یہ سفر آسان اور رواں تھا۔ لیکن وہاں سے مشہد تک یہ سفر زندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی کا ایک سلسلہ ثابت ہوا۔ اس وقت تارکول کی پختہ سڑک تہران سے چند کلومیٹر دُور جا کر ختم ہوجاتی تھی۔ اس کے بعد ۸۰۰ کلومیٹر سے زیادہ مٹی اور پتھر کی کچی سڑک بنی ہوئی تھی‘ جو انتہائی گرد آلود اور دشوار گزار تھی۔ جلد ہی ہم پر واضح ہو گیا کہ اس سڑک پر ہم واحد مسافر تھے جو ایک چھوٹی کار میں سفر کر رہے تھے۔ اس دشوارراستے پر صرف بڑی بسیں اور ٹرک ہی کامیابی سے چل سکتے تھے۔ یہ بڑی بڑی گاڑیاں ہماری چھوٹی سی کار کے پیچھے اس طرح بھاگتی اور چنگھاڑتی ہوئی آتیں جیسے جنگل میں شیر خرگوش کے پیچھے دوڑتا ہے۔ گاڑیاں ہمارے قریب سے گزرتیں تو ان کے تیزی سے گھومتے پہیوں سے اچٹ کر پتھر اور بجری کے ایک دو ٹکڑے ہم پر آگرتے اور گہری گرد اور دھند کا طوفان ہمیں اندھا سا کر دیتا۔ خود ہماری اپنی کار کے پہیوں سے بھی بجری اور چھوٹے پتھر اچٹ کر کار کے نچلے حصے سے ٹکراتے اور ہماری ویگن کے انجن کی آواز اس شور میں دب کر رہ جاتی۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ٹین کی چھت پر زبردست ژالہ باری ہو رہی ہو۔ چند گھنٹوں میں ہی ہماری کار کی سفید شفاف سطح ایسے ہو گئی جیسے کسی سفید فام شخص کے منہ پر چیچک کے دانے نکل آئے ہوں۔
زیادہ تر ڈرائیونگ میں کر رہا تھا اور جب بھی کوئی بڑا ٹرک تیزی سے ہمارے پاس سے گزرتا‘ اس دوران میں پوری توجہ سڑک پر اپنی سمت درست رکھنے پر لگاتا۔ یہ عمل ہماری زندگی بچا لینے میں مددگار ثابت ہوتا‘ کیونکہ اس میں سو فی صد اندازے سے کام لینا پڑتا تھا کہ جس سڑک پر ہم ہیں وہ کس طرف کو جا رہی ہے۔ بعض اوقات جب کوئی بس پہاڑی کے کسی موڑ سے اچانک سامنے آ جاتی تو ڈرائیونگ کرنا انتہائی خطرناک ہو جاتا۔ ایک رات ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہم اچانک گہرے پانی میں جا پڑے۔ یہ پانی اونچے پہاڑوں سے گر رہا تھا اور سڑک پر اس سے ایک ندی سی بن گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری ویگن مضبوط چادر کی تھی اور انجن بھی پانی سے محفوظ تھا۔ میں نے بہ مشکل گاڑی باہر نکالی اور ہم خشک سڑک پر آ گئے۔
۳۵ برس قبل افغانستان میں ڈرائیونگ کرتے وقت بہت اچھے مناظر نظر آتے تھے۔ سڑک کافی اچھی اور مناظر بھی نہایت خوب صورت تھے۔ لیکن نہ تو ہمیں ان سے کوئی دل چسپی تھی اور نہ اتنا وقت اور اطمینان حاصل تھا کہ ہم اس سفر سے لطف اندوز ہوتے۔ اگر ہم عام سیاح ہوتے تو ہم نے ایران کے مقدس شہر مشہد میں خوب صورت یادگاریں ضرور دیکھی ہوتیں۔ ہم نے مزید ایک دن امام رضا کا مقبرہ دیکھنے میں بھی صرف کیا ہوتا۔ لیکن ہم دو ایسے مریدوں کی طرح تھے جو اپنے شیخ یا گُرو سے ملنے کے لیے بے چین ہوں‘ ہمارا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح جلد از جلد شہر لاہور پہنچ جائیں‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حضور! ہماری یہ جلدی اور خواہش اپنی جگہ‘ تاہم جب ہم درۂ خیبر کی سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک سے ہوتے ہوئے پشاور کی طرف چلے تو سفر کی تمام ناخوش گواری کے باوجود ہمارا جوش و خروش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ وہ بہت صبح سویرے کا سہانا وقت تھا‘ جب ہماری تھکی ماندی کار درے کے سحر انگیز پہاڑوں کے درمیان گھومتی‘بل کھاتی سڑک پر سے گزری۔
پہلا موقع وہ تھا جب ۱۹۵۶ء میں وہ شام کے دارالحکومت دمشق میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس سے فلسطین کے موضوع پر خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ تب ہم نوجوان طالب علم تھے اور بیروت سے معزز مہمانوں اور مختلف اسلامی تحریکات اور تنظیموں کے قائدین کی خدمت کے لیے آئے تھے۔ اخوان نے ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک مہمان کی خدمت اور انھیں سہولت بہم پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ان دنوں بھی میری خواہش تھی کہ مجھے سید مودودیؒ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے پر مامور کیا جائے‘ لیکن مجھے ڈاکٹر محمد ناصر کی خدمت پر مامور کیا گیا تھا‘ جو انڈونیشیا کی اسلامی تحریک‘ مسجومیپارٹی کے قائد تھے۔
وجیہہ اور مطمئن‘ سید مودودیؒ نے اس عمر میں ایک پرعزم ‘ متین اور کرشماتی قائد کی حیثیت سے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ جب وہ وقار کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی نشست پر بیٹھے تو میں نے تحسین اور عقیدت کے ساتھ انھیں دیکھا۔ انھوں نے امیّہ مسجد میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھی کیونکہ طویل قید و بند کی صعوبت اٹھانے کے باعث وہ گھٹنوں کی تکلیف کا شکار تھے۔ انھیں اس طرح نماز پڑھتے دیکھ کر مجھے ایک طرح کی شرمساری کا احساس ہوا۔ طویل العمری اور خراب صحت کے ساتھ ۱۹۶۸ء میں جب مجھے برآمدے میں کھڑے ملے تو وہ مجھے ایک صوفی کی طرح نظر آ رہے تھے‘ جس سے روحانیت اور زہد و تقویٰ کی روشنی پھوٹتی ہوئی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔
اپنی زندگی میں‘ میں کسی ایسے اسلامی رہنما کو نہیں جانتا ہوں جس نے اس دنیا پر آخرت کو اتنی واضح ترجیح دے رکھی ہو‘ اور جس نے شعوری طور پر اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں فرائض کی بجاآوری کا اتنا خیال رکھا ہو۔ میں کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں‘ جو اپنے علم اور دعوت و تبلیغ کا صرف دوسروں ہی پر نہیں بلکہ اپنی زندگی پر بھی اطلاق اتنی احتیاط اور باریک بینی سے کرتا ہو کہ جس طرح سید مودودیؒ کرتے تھے۔
سید مودودیؒ کی اہلیہ محترمہ اور بیٹے‘ بیٹیوں کو یقینا بہت سی قربانیاں دینی پڑی ہوں گی‘ کیونکہ اس فعال جماعت کے ہیڈکوارٹر میں روزانہ سیکڑوں ارکان آتے اور جاتے رہتے تھے اور یہاں کے چھ سات کمرے‘ جن کے سامنے برآمدے تک بھی نہیں تھے‘ اکثر پاکستان بھر سے آئے ہوئے مخلص اور دین دار کارکنوں سے بھرے رہتے تھے۔ سید مودودیؒ کو ذاتی زندگی کے لیے لازماً کوئی فرصت میسر نہیں تھی‘ کیونکہ یہ فعال تحریک ہی اس بزرگ شخص کی زندگی تھی۔
بلاشبہہ سید مودودیؒ غربت کی وجہ سے ایسی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں تھے‘ بلکہ یہ ان کا زُہد اور تقویٰ تھا‘ جس کے ساتھ انھوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اگر وہ چاہتے تو پاکستان کے متمول ترین علما میں شمار ہو سکتے تھے۔ مادی اعتبار سے ایک بہت اچھی زندگی گزارنے کے لیے ان کی کتابوں کی آمدنی ہی کافی تھی۔ تاہم جیسا کہ ہمیں معلوم ہوا دو چار کتابوں کو چھوڑ کر انھوں نے باقی تمام کتابوں کی آمدن جماعت اسلامی کے لیے ہدیہ کر دی تھی۔ ایک چھوٹی سی پرانی ’مورس مائنر‘ کار عمارت کے احاطے میں کھڑی تھی۔ یہ کار سید مودودیؒ کے استعمال کے لیے ہے اور اس کے علاوہ جماعت کے دیگر کم فاصلے والے کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جب سید مودودیؒ اسے جماعت کے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ تو ان سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا‘ تاہم جب کبھی سیدمودودیؒ اسے ذاتی طور پر کہیں آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ان سے فی میل کے حساب سے کچھ مخصوص رقم بطور معاوضہ یا کرایہ وصول کی جاتی ہے۔
دفتری اوقات میں وہ عموماً مہمانوں سے اپنی لائبریری میں ملاقات کرتے تھے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو چھت تک کتابوں کی الماریوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک بڑی میز پر عربی‘ اُردو اور انگریزی کی حوالہ جاتی کتب اور ترتیب سے کاغذوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں ان کی صحت بہت گِر چکی تھی اور حکومت نے ایک جراحی (آپریشن) کے لیے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں تھا‘ انھیں لندن جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ اس خطرے کے پیش نظر کہ جب بیماری کے باعث ان کے لیے لکھنا ممکن نہ رہے‘ وہ اپنی یادگار تفہیم القرآناور دیگر کتابوں پر کام جلد از جلد مکمل کرنا چاہتے تھے۔ وہ لوگوں سے بہت ضروری معاملات کے لیے مختصر وقت میں ملتے تھے۔ درحقیقت ان کے چہرے کے تاثرات اور ان کی میز پر نظر ڈالنے سے ہی مہمان کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ اسے مختصر بات کرنی اور رخصت ہو جانا چاہیے۔ جب ظہر یا دیگر نمازوں کا وقت ہوتا تو جماعت کے ہیڈکوارٹر میں موجود ارکان برآمدے میں جمع ہو جاتے۔ وہ عین وقت پر اپنے کمرہ ٔ مطالعہ کا دروازہ کھولتے اور اس کے ساتھ ہی اقامت کا اعلان ہو جاتا اور آپ نماز کی امامت کرتے۔ نماز اور دُعا کے بعد آپ جلد ہی اپنی لائبریری میں واپس چلے جاتے تاکہ اپنا مشقت طلب ذہنی کام جاری رکھ سکیں۔
عصر سے مغرب تک وہ وقت ہوتا تھا جب سید مودودی ؒایک شفیق باپ کی سی مسکراہٹ سجائے فرصت کے ساتھ پرسکون حالت میں نظر آتے۔ دل چسپی‘ توجہ اور بشاشت سے دوسروں کی سنتے اور اپنے چٹکلوں اور تبصروں میں بھرپور حس مزاح کو بھی استعمال میں لاتے۔ عمارت کے باغیچے میں ہلکی کرسیاں بچھائی جاتیں‘ جہاں مہمان اورلاہور یا باہر دُور دراز سے آئے ہوئے مہمان تشریف رکھتے اور سید مودودیؒ سے اسلام کے بارے میں سوال پوچھتے‘ یا پیچیدہ مسائل پر رہنمائی طلب کرتے۔ وہ جب مسکراتے تو گھنی ڈاڑھی اور سفید ٹوپی کے ساتھ آپ کے چہرے کے گرد ایک سفید ہالہ بن جاتا جو اخلاص اور روشنی سے دمکنے لگتا۔ معمول کے مطابق چہرے پر تحمل تو رہتا ہی تھا‘ اس پر طمانیت بھری مسکراہٹ آپ کے خدوخال کو اس طرح تبدیل کر دیتی کہ آپ بجا طور پر ایک ملکوتی انسان دکھائی دیتے۔
ہم نے کئی اجلاسوں میں شرکت کی‘ عوامی خطابات سنے اور دوستانہ مجلسوں میں شریک ہوئے۔ بے شک ہم نے یہ جانا کہ اس وقت تحریک کی منظم سرگرمیاں اور زہد و تقویٰ کی حقیقت ہماری ان توقعات سے زیادہ بلند تھی‘ جو ہم نے ان کا لٹریچر پڑھ کر قائم کی تھیں۔ ارکان میں علم کی طلب اور پھر اس علم کے مطابق بغیر جذباتی ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی تمنا بہت نمایاں تھی۔ اس معاملے میں خود سید مودودیؒ کے اثرات اور ان کی زندہ مثال اور کردار کوتاہیوں سے مبرا تھا۔ یہ صرف اسلام کے بارے میں علم نہیں تھا کہ جس کے بارے میں ارکان بے تابی سے ایسی جستجو کرتے تھے‘ بلکہ ہر اس شے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا جو دعوت کے کام میں تحریک کے لیے مددگار ثابت ہو‘ ان کا مطمح نظر تھا۔
کوئی رکن ایک بڑے سائز کی ڈائری یا نوٹ بک اور قلم کے بغیر صبح گھر سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ جو کچھ بھی دیکھتے یا سنتے جس کی کوئی اہمیت ہو سکتی تھی‘ فوراً اسے لکھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تحریک میں عربی زبان کے ماہر برادر خلیل احمد حامدی سے ان کے دفتر دارالعروبہ میں ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے خود میرے بارے میں اپنی تفصیلی معلومات کا اظہار کر کے مجھے حیران کر دیا۔ میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ ان معلومات کا ماخذ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا: ’’چودھری غلام محمد‘ جنھوں نے بیروت‘ اردن اور سوڈان میں آپ سے ملاقاتوں کے بعد تفصیلی رپورٹ تحریر کی تھی‘‘۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ دعوت کا وہ ٹھنڈا‘ عقلی‘ گہرا اور غیر جذباتی انداز تھا‘ جسے جماعت ِاسلامی پاکستان اور اخوان المسلمون اور دیگر عرب تحریکوں میں بنیادی فرق کہا جا سکتا ہے۔ مجھ پر یہ فرق میرے دورۂ لاہور کے درمیان واضح ہوا۔ ہمارے کچھ پاکستانی دوست‘ بشمول ا ستاذ خلیل احمد حامدی چاہتے تھے کہ ہمارے اس دورے سے استفادہ کرتے ہوئے تحریک سے منحرف ایک سرکردہ شخص کو دوبارہ جماعت میں شمولیت کے لیے قائل کیا جائے‘ جو اشتراکی گروپ میں چلا گیا تھا۔ انھوں نے ہمیں صرف اتنا بتایا کہ یہ برادر کبھی ہمارے حمایتی ہوتے تھے‘ مگر اب نہیں ہیں اور ممکن ہے ہمارا ان کے گھر جانا ان کی تحریک میں واپسی کا سبب بن جائے۔ ہم بغیر اطلاع دیے ان کے گھر گئے تو انھیں اپنے نئے کامریڈوں (یعنی کمیونسٹ دوستوں) اور دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پایا۔ لیکن جماعت کے ساتھی اس محفل کے ان شرکا کو دیکھ کر بالکل پریشان نہ ہوئے۔ علیک سلیک کے بعد انھوں نے ہمیں متعارف کرایا اور بڑی خوبی سے اسلام میں استقامت اور احیاے اسلام کی جدوجہد میں سیدمودودیؒ کے اہم کردار کی بات چھیڑ دی۔
ہمارے نئے میزبان نے جو اپنے نئے اشتراکی کامریڈوں کی موجودگی سے متاثر تھے‘ انھوں نے بے ساختہ سید مودودیؒ پر تنقید کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ اسلامی تحریک کا طریق کار سست اور غیر انقلابی ہے۔ دوسری طرف انھوں نے مارکسسٹوں کے انقلابی اور اعلیٰ طریق کار کی مدح سرائی کی۔ بہرحال عین اسی وقت میرے علاوہ سب لوگ حیران رہ گئے‘ جب میرے رفیق محمود برات نے میز پر مُکّہ مار کر بلند آواز میں ان کی مخالفت کی‘ اور انھیں مرتد اور غدار قرار دے دیا۔ اس پر ہماری ملاقات فوراً ہی ختم ہو گئی۔ اپنے ہوٹل واپس جاتے ہوئے ہم نے پاکستانی اپنے دوستوں کو موردِ الزام ٹھیرایا کہ وہ ہمیں ایسے شخص کے پاس کیوں لے گئے تھے جس نے مارکس ازم کو قبول کر لیا تھا۔تاہم‘ جماعت اسلامی کے ساتھیوں کا ردِعمل مقابلتاً بہت پرسکون اور متین تھا۔
میرے لیے ان کا یہ رویہ اپنی خداشناسی کے اعتبار سے متاثر کن اور خوب صورت تھا۔ میں اس وقت اپنے آپ سے شرمندہ ہوا جب میں نے ان میں سے ایک کو یہ کہتے سنا: ’’ ابلیس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اولادِ آدم کو کفر کی طرف لے جائے گا۔ دعوت کے کام میں ہمارا بڑا مقصد یہی ہے‘ اگر ہم واقعی اپنے اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اسے خوش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ابلیس سے لڑائی کریں اور اس کے شیطانی طریق کار کو سب کے سامنے واضح کر دیں۔ ہم آپ کو اس لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے کہ اپنے اس بھائی کو شایستگی کے ساتھ اس کے نظریاتی مخمصے سے بچا سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے اندر بہت سی خوبیاں بھی ہیں‘ لیکن ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ہمارا جارحانہ ردِعمل اسے سیدھے راستے سے مزید دُور لے جائے گا۔ اگر وہ لوگ جو ہمیں چھوڑ کر کسی دوسری اسلامی تنظیم یا کسی گروہ میں شامل ہوجائیں یا اپنی جگہ اچھے مسلمانوں کی طرح رہیں تو ہمیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اس طرح بھی ہمارے بھائی ہی رہتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم ان کی سرگرم حمایت سے محروم ہوگئے ہیں یا وہ اسلامی طور پر کسی کمزور گروپ میں شامل ہو گئے ہیں‘‘۔
جماعت اسلامی کے اس رفیق نے جو کچھ کہا‘ جب اس کا موازنہ میں نے اس سے کیا جو ہم سوڈان میں کرتے رہے ہیں‘ تو واقعہ یہ ہے کہ میں تو شرمندہ ہو گیا۔ جو لوگ ہم سے علیحدہ ہو جاتے ہیں ہم عموماً انھیں بدنام کرتے ہیں‘ بڑے سخت لفظوں سے انھیں یاد کرتے ہیں اور ان سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ ہماری تحریک کے ارکان ہمیشہ اسی طرح محسوس کرتے اور کہتے ہیں: ’’تنظیم ہمیشہ درست ہوتی ہے اور ہمیشہ وہی غلطی پر ہوتے ہیں جو ہمیں چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔ کئی مثالیں ہیں جب ۶۰کے عشرے کے اواخر میں اخوان کی نئی سیاسی تحریک ’’اسلامی میثاق محاذ‘‘ کے اعلیٰ ترین انتظامی دفتر نے حکم جاری کیا تھا کہ تحریک کا کوئی رکن مستعفی ہونے والوں سے بات تک نہیں کرے گا۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایک بار ایک اعلیٰ تنظیمی عہدے دار ہمارے گھر آیا تو وہاں ایک ایسا شخص بھی بطور مہمان موجود تھا جو تحریک سے اختلاف کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس عہدے دار نے مجھ سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا‘ لیکن میرے اس مہمان سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا کہ جس نے سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ہوا تھا‘ بلکہ منہ سے اس کے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ افسوس ناک امریہ ہے کہ اس غیر اسلامی رویے کو تنظیم کے دیگر ارکان کی طرف سے بے حد سراہا گیا‘ کیونکہ ان کے یقین کے مطابق: ’’یہ برتائو تنظیم کے فیصلوں پر عمل درآمد اور اس سے پختہ وابستگی کا ایک عملی اظہار تھا‘‘۔
یہاں پر یہ ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہمارے دورۂ پاکستان کے ایک برس بعد جب ہمیں یقین ہو گیا کہ اسلامی نام کے ساتھ یہاں سوڈان میں ہماری تحریک محض ایک سیاسی جماعت بنتی جا رہی ہے‘ تو ہمارا گروپ سوڈانی ’اسلامی میثاق محاذ‘ سے الگ ہو گیا تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ ڈاکٹر ترابی نے ۶۰کے عشرے کے اوائل میں جو منصوبہ بندی کی تھی‘ وہ رفتہ رفتہ تکمیل پذیر ہو رہی ہے اور اخوان کی اسلامی بنیاد رفتہ رفتہ تحلیل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ان خدشات نے فی الاصل ۹۰ کے عشرے میں حقیقت کا روپ دھارا۔ ہمارے استعفوں پر شدید ردِعمل ظاہر کیا گیا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کو غدار اور منحرف قرار دے دیا گیا۔ جماعت سے نکلنے پر قرآنی آیات اور احادیث کے حوالوں کو کم علم ارکان کو ہمارے خلاف بھڑکانے کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کیا گیا۔
اپنی ایک مشہور جذباتی تقریر میں ’اسلامی میثاق محاذ‘ کے مرکزی قائد نے مسلم کی اس مستند حدیث کا حوالہ دیا‘ جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :کہ جو شخص ’الجماعتہ‘ کے فیصلوں اور احکام کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘ اور پھر یہ بھی کہ جو ’الجماعتہ‘میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے اس کا سرقلم کر دینا چاہیے۔ انھوں نے جوش خطابت میں فرمایا ’’اگرچہ ہم یہ کہنا نہیں چاہتے کہ جو لوگ ہمیں چھوڑ گئے ہیں وہ مسلمان نہیں رہے‘ لیکن وہ منافقین کی طرح اسلام کے بجاے کفر کے زیادہ نزدیک ہیں‘‘‘ اور پھر انھوں نے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۷ کا ایک حصہ تلاوت کیا کہ ’’تب وہ ایمان سے زیادہ کفر کے نزدیک ہو گئے‘‘۔
یہ واضح تھا کہ عربی لفظ الجماعۃ کو‘ جو مسلم امّہ کی طرف اشارہ کرتا ہے‘ جدید اسلامی تحریک کے لیے استعمال ہونے والے اسی لفظ کے ساتھ جان بوجھ کر یا بے سوچے سمجھے گڈ مڈ کر دیا گیا۔ جن لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم اورآپؐ کے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں انھیں چھوڑا تھا انھوں نے حقیقتاً اسلام کو ترک کیا تھا۔ لیکن وہ افراد جو جدید اسلامی تحریک سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں بہرحال وہ اسلامی امت سے خارج نہیں ہوتے‘ بلکہ اسی کا حصہ رہتے ہیں۔ اس ابہام کے سبب جسے گمراہ کن جذبات سے مزید ہوا دی جاتی ہے‘ کئی جدید اسلامی تحریکوں نے یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ جیسے ان کی جماعت ہی خود اصل اسلام ہے۔
کوئی بھی منظم جماعت یا گروہ‘ جس کے ارکان میں گہری ہم آہنگی اور یک جہتی موجود ہو‘ اس کے ارکان میں اپنے لیے احساس برتری اور فخر‘جب کہ دوسروں کے لیے نفرت اور تحقیر کے جذبات پیدا ہوہی جاتے ہیں۔ جدید سماجی نفسیات میں اس کا مطالعہ ’گروہ کے اندر‘ اور ’گروہ سے باہر‘ کے رویوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ چھوٹے گروہو ں میں بھی کیا جا سکتا ہے اور پوری قوموں اور ثقافتوں میں بھی۔ یہی وہ مظہر ہے جسے قبائل پرستی‘ نسل پرستی‘ قوم پرستی‘ فسطائیت یا نسلی تفاخر اور اگر دیکھا جائے تو بڑی آسانی سے ’’جماعت پرستی‘‘ کے پس منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ہر مثال میں‘ کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے عقائد اور ثقافت کو تفاخر کے ساتھ دیکھتے ہیں‘ جب کہ دوسروں کو دیکھنے کے لیے ان کا زاویۂ نظر کافی مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنے گروہ سے باہر کے افراد کو ایک ایسے اجتماع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں‘ جس کے ارکان میں آپس میں کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک وہ سب کے سب بلا امتیاز کافر ‘منافق یا دشمنِ دین ہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے کم تر ہیں یا ان میں ایسی کوئی قابل نفرت خاصیت ہے۔ جیساکہ معلوم ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے ان گروہی جذبات و نفسیات کا سختی سے مقابلہ کیا تھا‘ جس کا مظاہرہ عرب قبائل پرستی کے بدنما چہرے سے ہوتا تھا‘ اور جب بھی روحِ اسلام کمزور پڑتی تھی یہ قبائل پرستی اپنی پوری تنگ نظری کے ساتھ ابھر آتی تھی۔
میرے تجزیے کے مطابق‘ جدید اسلامی بیداری کے لیے سید مودودی ؒکے اہم ترین کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس ابہام کو ختم کرنے کے لیے ان تھک کوشش کی۔ جماعت اسلامی کی ابتدائی کتب کے پس ورق پر تحریک کی نوعیت کے بارے میں ایک مختصر بیان جلی حروف میں تحریر ہوتا تھا کہ جماعت اسلامی ‘ الجماعۃ نہیں ہے‘ بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہے‘ جس میں شامل ہونے والے مسلمان بیان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے جمع ہوئے ہیں -- نئے ارکان کی تربیت میں ان ہدایات کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا اور ارکان کو محض جذباتی نعروں‘ دعووں اور افعال سے بچایا جاتا تھا۔ جماعت سے نکل جانے والوں کے بارے میں سید مودودیؒ کی جماعت کے ارکان کے تحمل سے پُر رویے کے پس پشت یہی تربیت کارفرما ہے۔ اسی تربیت نے ارکان کو اس امر سے بھی بچایاکہ کہیں وہ تحریک کو ہی دین اسلام نہ تصور کر یں اور ایک دیوتا سمجھ کر اس کی پرستش نہ کرنے لگیں۔
چنانچہ دو چیزیں جو مسلم اور کافر کے درمیان امتیاز کرتی ہیں‘ وہ علم اور اعمال ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا مالک کون ہے‘ اس کے احکام کیا ہیں‘ اس کی پیروی کا طریقہ کیا ہے‘ کون سے اعمال اسے پسند ہیں اور کون سے نا پسند؟ جب یہ معلومات حاصل ہو جائیں تو پھر دوسرا قدم یہ ہے کہ آپ اپنی وہ خواہشات ترک کر کے جو آپ کے مالک کی مرضی کے خلاف ہیں‘ اپنے آپ کو اس کا سچا خادم (غلام) بنائیں۔ (خطبات‘ ص ۵۴)
زندگی بہت سادہ اور آسانی سے گزرتی اگر انسان وہی کچھ کرتے جو وہ جانتے ہیں۔ صحت مند زندگی گزارنا انسان کو بہت عزیز ہے اور اس کی اہمیت اس پر عیاں بھی ہے‘ مگر اس کے باوجود لوگ بلکہ مسلمان ڈاکٹر بھی یہ بہت اچھی طرح جانتے ہوئے کہ سگریٹ نوشی اور پھیپھڑوں کے کینسر کے درمیان کتنا تعلق ہے‘ تمباکو نوشی جاری رکھتے ہیں۔ انسانی صحت کے لیے شراب کے نقصانات سے وہ واقف ہیں‘ مگر پھر بھی پیتے ہیں۔ وہ ایڈز کے خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں مگر غیرازدواجی تعلقات سے باز نہیں آتے۔
میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ ذاتی طور پر سید مودودیؒ کا غیر معمولی زُہد و تقویٰ اور اپنی روزمرہ زندگی میں واضح طور پر غیرجذباتی رویہ ان کی تحریک کی صورت گری میں کارفرما رہا ہے۔ میں یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اپنی اوائل عمری میں ایک معزز سید گھرانے سے تعلق کی بناپر سیدمودودیؒ کو اپنے جذبات کا اظہار نہ کرنے یا انھیں اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینے کی تربیت ملی تھی۔ ان کی نفسیات میں یقینا یہ بات پختہ ہو چکی ہو گی‘ کہ ایسا جذباتی رویہ کمزوری اور خوف کی بنا پر ہوتا ہے‘ جس کی توقع صرف خواتین اور چھوٹے بچوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ان کی ابتدائی سخت تعلیم کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے‘ جو بمشکل تین سال کی عمر میں ان کے والد صاحب کے ہاتھوں شروع ہوئی۔ انھوں نے محض چار سال کی عمر میں نماز کی ادایگی اور چھ سال کی عمر سے روزے کا اہتمام شروع کر دیا تھا۔ وہ صرف ۱۴ برس کی عمر ]۱۹۱۷ئ[ میں ]قاسم امین کی[ ایک عربی کتاب ] المِرَۃ الجَدِیدَہ - جدید خاتون[ کا اُردو میں ترجمہ کرکے مصنف بھی بن چکے تھے۔
سید مودودیؒ کی تقریباً تمام سرگرمیوں میں‘ جذبات پر قابو کا آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال ان کے اس جرأت مندانہ اور بے خوف ردِعمل کی بھی دی جا سکتی ہے کہ جب مشہور کتاب قادیانی مسئلہ تحریر کرنے پر عدالت میں انھیں سزاے موت کا حکم سنایا گیا تھا۔ پروفیسر عبدالرحمن عبد اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں:
آہنی اعصاب کے مالک سید مودودی ؒپر سزاے موت سنائے جانے کا شمہ بھر اثر نہ ہو ا۔ تحمل کے اس پیکر نے اپنی ناکردہ گناہی کی سزا ]یعنی سزاے موت[ سن کر پورے اطمینان کے ساتھ صرف اتنا کہا ’’بہت اچھا‘‘۔
برادران: میاں طفیل محمد‘ سید نقی علی‘ محمد اکبر اور نصراللہ خان عزیز جن کے دل‘ غم اور حوصلے سے معمور تھے۔ قیدخانے میں سید مودودیؒ کو پھانسی کی کوٹھڑی میں لے جایا جا رہا تھا‘ اور جب ان سب نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ آپ سے الوداعی مصافحہ و معانقہ کیا تو سب کا دل بھر آیا ۔عبد نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھا ہے کہ صرف سید مودودیؒ کی آنکھیں تھیں جن میں خوف کی پرچھائیں تک نہیں تھی۔ ایک شہید کے طور پر موت کا سامنا کرنے کے لیے ان کا تحمل اور حوصلہ مندی قابلِ فہم ہے‘ لیکن اپنے قریبی ساتھیوں کو جو ان سے زندگی میں آخری بار مل رہے تھے‘ جذبات کی عدم موجودگی کی وضاحت کرنا ایک ماہر نفسیات کے لیے بھی بڑا مشکل کام ہے۔ میرے خیال کے مطابق اپنے جذبات کو دبانا اور مارنا ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔ان کی برپا کردہ تحریک پر بھی اس ضبطِ نفس کے اثرات موجود تھے۔
دوسری مثال وہ ہے جب وہ عوامی جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ ۵۰ کے عشرے میں دمشق میں منعقدہ کانفرنس میں‘ جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں‘ بیش تر مقررین نے جذباتی انداز میں تقریریں کی تھیں‘ مثلاً ڈاکٹر سعید رمضانؒ، ابوالحسن علی ندویؒ، سوڈان کے شیخ البیلی اور عراق کے شیخ محمد محمود صوافؒ۔ ان میں سے کچھ نے نہایت جوشیلے اور بلند آہنگ خطاب کیے۔ شیخ محمود صواف تو فلسطینی بچوں کی کس مپرسی اور بے چارگی پر بات کرتے ہوئے خود بھی روپڑے اور اپنے ساتھ اور بہت سے لوگوں کو رُلا دیا۔ پورا ایوان اللّٰہ اکبر وللّٰہِ الحمد اور اخوان کے دیگر اسلامی نعروں سے گونج اٹھا۔
لیکن جب سید مودودی نے خطاب شروع کیا تو ماحول بالکل تبدیل ہو گیا‘ اور اس میں متانت اور خردمندی آگئی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں فلسطین کے حالات کی ذمہ داری پوری کی پوری یہودیوں اور مغرب پر نہیں ڈال دی تھی۔ انھوں نے کہا: ’’اپنے بھائیوں اور بہنوں کے اس بحران کے ذمہ دار مسلمان بھی ہیں‘‘۔ دیگر تمام مقررین کے برعکس انھوں نے مسئلے کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کیں۔ انھوں نے اپنی اس پختہ رائے پر زور دیا:’’مغربی نظریات کے اثرات کو صرف ا ور صرف علم‘دانش اور دلیل کی سطح پر ہی زائل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ دراصل یہی وہ عزم تھا جس سے انھیں اپنی تحریک کے لیے اور مسلم امہ کے لیے عظیم کتب تحریر کرنے کی تحریک ملی اور انھی سے وہ عصر حاضر میں عالمی اسلامی احیا کے پس پشت ایک مرکزی شخصیت کے طور پر ممتاز ہوئے۔
گو اس وقت ان کی تلخ مگر سچی باتیں بہت سے نوجوان عرب بھائیوں کو متاثر نہ کر سکیں‘ لیکن ہم میں سے کچھ افراد پر ان کے ٹھنڈے خردمندانہ انداز اور اﷲ تعالیٰ کی پرخلوص بندگی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اسی سبب فن خطابت کے استاد ڈاکٹر سعید رمضانؒ نے برعظیم پاک و ہند کے دوعظیم اسلامی مفکرین‘ یعنی سید مودودی اور سید ابوالحسن علی ندویؒ کا ان الفاظ میں موازنہ کیا: ’’اگر سیدمودودی ؒکے سامنے کوئی نیا مسئلہ آئے تو ان کا فوری ردِعمل ذہن سے آئے گا‘ اگرچہ ان کا دل بھی اس سے غیر متعلق نہیں ہو گا‘ جب کہ سید ابوالحسن علی ندویؒ کا فوری ردِعمل دل سے آئے گا جس سے ان کا ذہن غیر متعلق نہیں ہو گا‘‘۔
تاہم‘ جب وہ اپنے ملک پاکستان میں اردو زبان میں خطاب کرتے تھے‘ تو ان کے ٹھنڈے اور عقلی انداز کے باوجود حاضرین پر ان کے خیالات اور منطقی زبان کا اثر جادو کی طرح ہوتا تھا۔ میں نے لاہور کی ایک مسجد میں انھیں ایک بڑے مجمع کو خطبۂ جمعہ دیتے دیکھا ہے۔ چونکہ میں اُردو نہیں سمجھتا تھا اس لیے میں نے اپنی پوری توجہ سید مودودی پر اور حاضرین پر مرکوز رکھی۔ میرے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔ وہ ایسے بولتے تھے جیسے انھیں سامعین کی داد اور ذوق سے کوئی دل چسپی نہ ہو۔ لیکن عجب بات ہے کہ مجمعے کی محویت کا عالم یہ تھا کہ محاورے کی زبان میں کہوں:’’ اگر سوئی گر جائے تو اس کی آواز سنائی دے‘‘۔ ان کے ڈیڑھ گھنٹے پر مبنی اس خطاب کو سننے میں لوگ اس طرح جذب ہوچکے تھے جیسے وہ بچے ہوں اور حیرت انگیز واقعات پر مبنی تجسس سے پُر کوئی ٹیلی ویژن ڈراما دیکھ رہے ہوں۔
m سید مودودی کی خطابت‘ ایک موازنہ:جماعت میں جذباتی عنصر کو حداعتدال میں رکھ کر‘ سید مودودیؒ درحقیقت اپنی ہی قوم میں قدیم ثقافتی رو کے خلاف چل رہے تھے۔ آیا ان کی یہ کوشش سوچی سمجھی تھی یا یہ ان کی بلند و بالا شخصیت کے اثرات تھے۔ بہرحال ان کی اس حکمت عملی سے ۶۰ کے عشرے میں تحریک اسلامی کو بہت فوائد پہنچے۔ عربوں کی طرح پاکستانیوں کے جذبات کو آسانی سے انگیخت کیا جا سکتا ہے۔ جس سے تحریک کے نوجوان ارکان میں بے قابو اور جارحانہ رویے کو تحریک مل سکتی ہے اور کم سواد لوگ واہ‘ واہ بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم‘ اس رجحان کو قابو میں رکھنے کے لیے سید مودودیؒ نے سب پر واضح کر دیا تھا‘ کہ:’’اپنے انقلابی مقاصد کے حصول کے لیے تحریک اسلامی سختی سے پرامن ذرائع پر اکتفا کرے گی‘‘۔ یہ دانش اور دور اندیشی سے پُر فیصلے تھے‘ جنھوں نے تحریک کو تشدد اور قتل و غارت گری سے بچائے رکھا‘ افسوس کہ جن سے دیگر اسلامی تحریکیں محفوظ نہ رہ سکی تھیں۔ اگر انھیں محض ایک کتاب لکھنے پر سزاے موت سنائی جاسکتی تھی‘ تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر تحریک کے کوئی ارکان کسی حکومتی وزیر وغیرہ کو قتل کرنے کی کوشش کرتے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا؟
جب میں کسی پورے کلچر کا موازنہ اس کی ہیجان خیزی کے حوالے سے کسی دوسرے نسبتاً معتدل (cool) کلچر سے کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی بے خبری کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ میرا احساس یہ ہے کہ کچھ ثقافتوں میں اسلامی تحریکوں کو اپنے ارکان میں جذباتی پہلوئوں کو ایک حد تک رکھنے کی ہی ضرورت ہوتی ہے ‘ جب کہ کچھ ثقافتوں میں جہاں بچوں کو سنجیدگی‘ ضبط اور غیر جذباتی ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے‘ تحریک کے کارکنوں میں جذباتی عامل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پاکستانیوں اور ملائیشیا کے مالے مسلمانوں کے موازنے کے دوران میرے تجربے میں آئی ہے۔ چند برس قبل مجھے اپنے انسٹی ٹیوٹ کی مسجد میں خطبۂ جمعہ دینے کے لیے کہا گیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہجرت نبویؐ کا مقدس دن آتا تھا‘ چنانچہ میں نے اس دن کی مناسبت سے اپنا خطبہ تیار کیا۔
اگرچہ خیال یہ تھا کہ یہ موضوع جذبات کو متحرک کرنے والا ہے‘ لیکن انسٹی ٹیوٹ اور دیگر جگہوں پر میرے ملائیشین سامعین نے یہ خطبہ اس طرح سنا جیسے وہ اکائونٹنگ پر کوئی لیکچر سن رہے ہوں۔ اسی ہفتے میں ’پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے سالانہ اجلاس میں کلیدی خطبہ دینے کے لیے جمعرات کو کوئٹہ پہنچا۔ اگلی صبح تمام شرکا ایک مقامی مسجد میں نماز جمعہ کے لیے گئے۔ نماز کے بعد اچانک مجھے خطاب کرنے کے لیے کہہ دیا گیا۔ چونکہ میں اس کے لیے تیار نہیں تھا‘ چنانچہ میں نے کوالالمپور میں ہی کی گئی اپنی تقریر یہاں دہرانے کا فیصلہ کیا۔ سامعین کا ردعمل بہت حیرت انگیز تھا۔ اللہ اکبر کے جوشیلے نعروں یا حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام کے ساتھ لوگوں کے سر دائیں سے بائیں والہانہ انداز میں جھوم رہے تھے‘ حتیٰ کہ کچھ کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سید مودودی اپنی بے مثال کرشمہ گر اور متاثرکن شخصیت کے ساتھ لوگوں میں جذباتی عنصر کو ابھارتے تو ممکن ہے پوری تحریک کب کی ایک تباہ کن صورت حال سے دوچار ہو چکی ہوتی۔
میں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ جیسے میں کسی مناسب گروپ میں موزوں وقت پر اخلاص پر مبنی جذبات اور حقیقی احساسات کو ابھارنے کے خلاف ہوں۔ بعض اوقات جذبات کو تحریک دینا یا انھیں اچانک انگیخت کرنا ضروری بھی ہوتا ہے‘ تاکہ کسی انسان کے دل و دماغ کے سرد خانوں میں دینی علم‘ حمیت اور جذبات کو حرارت کا لباس پہنا کر سامنے لایا جاسکے۔ اس طرح کی مثالوں میں یہ انداز انسانوں کو اپنی زندگیاں تبدیل کر لینے یا اسلام کی خاطر بہادری سے لڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تاہم جذبات کو ایک حد کے اندر ہی رکھنا چاہیے۔ علم میں اضافہ اور عمل میں بہتری اس کے ساتھ ساتھ ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر اس کے اثرات جلد ہی زائل ہو جائیں گے‘ اور لوگ اسی طریق پر زندگی گزارنا شروع کر دیں گے جس طرح وہ پہلے گزارتے رہے ہیں۔
میں نے ان لوگوں کو سنا ہے جو میرے خیال کے مطابق اپنی گفتگو اور خطاب سے سامعین کے جذبات ابھارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ عربی اور انگریزی میں بالترتیب ڈاکٹر سعید رمضان اور میلکم ایکس کا شمار ایسے ہی خطیبوں میں ہوتا ہے۔
برادر سعید رمضان‘ اللہ ان کی روح پر رحمتیں نازل کرے‘ عربی زبان کی تحریر و تقریر میں بے مثال صلاحیت کے حامل تھے۔ وہ ایک وجیہ اور کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے الفاظ کے چنائو اور لہجے کے اتار چڑھائو کے ذریعے سامعین کو آبدیدہ یا جوش اور مسرت سے بے قابو کر دینے پر قادر تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ تدریجاً سامعین کے جذبات کو تحریک دیتے اور رفتہ رفتہ اپنی تقریر کے اختتام تک انھیں نقطۂ عروج پر پہنچا دیتے۔ ایک بار سوڈان کے ایک شہر عطبرہ (Atbara) میں کارکنوں کے ایک جلسے میں انھوں نے ایسی ہی ایک جذباتی تقریر کی تھی۔ اس تقریر کو سننے کے لیے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور کچھ لوگ عمارت کی اونچی دیواروں پر بھی چڑھے بیٹھے خطاب سن رہے تھے۔ تقریر کے اختتام پر سامعین اتنے جذباتی ہو گئے کہ یہ بھی بھول گئے کہ کہاں بیٹھے ہیں‘ نعرے لگانے کے جوش میں اکثر دیواروں سے گر کو خود کوزخمی کر بیٹھے۔
میلکم ایکس سے میری ملاقات ۵۰ کی دہائی کے اواخر میں ہوئی‘ جب انھوں نے سوڈان کا دورہ کیا۔ اس وقت وہ علی جاہ محمد کے بے لوث پیروکار تھے اور انھیں انتہائی قابلِ عزت و احترام گردانتے تھے۔ امریکہ میں اپنی سیاہ فام قوم پر یہ ثابت کرنے کے لیے بے چین تھے کہ وہ کوئی قدیم بے تہذیب نسل نہیں ہیں‘ جیسا کہ اس وقت گورے امریکی‘ سیاہ فاموں کو یقین دلانا چاہتے تھے۔ وہ سوڈانیوں کے گرم جوش‘ مہذبانہ رویے اور مضبوط سوڈانی کلچر سے خاصے متاثر تھے۔ میں انھیں ام درمان اور خرطوم جیسے شہروں میں لے گیا‘ جہاں انھوںنے اپنی فلم کی اچھی خاصی عکس بندی کی۔ میں نے ان کے گمراہ عقائد کو چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اسلام کے بارے میں اس کی خالص توحیدی فطرت کے حوالے سے سادہ سی گفتگو کی۔
مناسب ہو گا اگر میں ان کے ساتھ اپنے چند تجربات اس نقطۂ نظر سے قارئین کے سامنے رکھوں‘ تاکہ ان کا موازنہ سید مودودیؒ اور چند دیگرایسے مسلم قائدین کے ساتھ کیا جا سکے‘ جنھوں نے اپنی دعوت میں جذباتی عنصر کو استعمال کرنے سے گریز کی راہ اپنائی ہے۔
جب میلکم ایکس نے سچا اسلام قبول کیا اور اپنا مشہور حج کیا تو مکہ میں انھیں چند سوڈانیوں نے میرے بارے میں بتایا کہ میں بیروت کی امریکن یونی ورسٹی میں پڑھا رہا ہوں۔ انھوں نے نیویارک کے لیے ہوائی سفر کا اپنا روٹ تبدیل کرتے ہوئے کاسابلانکا کے بجاے بیروت میں ٹھیرنے کا فیصلہ کیا‘ تاکہ ہماری ملاقات ہو سکے۔ ۱۹۶۵ء کی ایک سہ پہر فلیٹ پر میرے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اور ایک خوب صورت گہری آواز نے امریکی لہجے میں کہا: ’’میں ملک الشہباز بول رہا ہوں‘‘۔ میں نے اشتیاق آمیز آواز میں دریافت کیا: ’’کیا آپ کا مطلب ہے کہ برادر میلکم ایکس‘‘؟ -- ’’جی ہاں‘‘۔ انھوں نے اپنی آمد پر مجھے بتایا کہ: ’’بیروت مجھ کو پسند نہیں ہے لیکن صرف آپ سے ملاقات کے لیے یہاں آیا ہوں‘‘۔ کھانے اور گھر میں کچھ آرام کے بعد میں نے امریکن یونی ورسٹی میں خطاب کے لیے ان سے اصرار کیا۔ انھوں نے ہچکچاتے ہوئے ہامی بھرلی۔
ان کے خطاب کے لیے اجازت کی غرض سے میں نے سب سے پہلے اپنے شعبے کے سربراہ پروفیسر حبیب کُرانی سے بات کی جو ایک لبنانی عیسائی تھے۔ انھوں نے مجھے آرٹس اور سائنس کی فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ہناییان سے ملنے کی نصیحت کی‘ جو ایک اور عیسائی عرب ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’صاف بات ہے کہ‘میلکم ایکس ایک متنازع شخصیت ہیں‘ اس لیے مجھے یونی ورسٹی کے نائب صدر پروفیسر فواد سروف سے اجازت لینا چاہیے‘‘۔ وہ بھی ایک لبنانی عیسائی تھے۔ پھر نائب صدر نے فرمایا: ’’اس سلسلے میں بیروت یونی ورسٹی کے امریکی ]نژاد[ صدر سے بات کر کے بتاؤں گا‘‘۔ یونی ورسٹی صدر سے جلد ہی جواب موصول ہو گیا ‘جس میں مجھے بتایا گیا: ’’چونکہ یونی ورسٹی کیمپس کی زمین امریکہ کی ملکیت ہے اور میلکم ایکس امریکہ کے دشمن ہیں‘ اس لیے وہ کیمپس میںخطاب نہیں کر سکتے‘‘۔
میں نے اپنے مسلمان دوستوں اور ساتھی پروفیسروں کو اس بات سے آگاہ کیا اور ہم نے یونی ورسٹی سے چند بلاک دور سوڈان کلچر سنٹر میں یہ پروگرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوڈانی کلچر اتاشی نے جو میلکم ایکس کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتے تھے‘ بآسانی ہمیں اس کی اجازت دے دی۔ مسلمان طلبہ نے اس پروگرام کے اشتہارات یونی ورسٹی کیمپس میں جگہ جگہ لگا دیے۔ شام تک یہ جگہ لوگوں سے اتنی پُر ہو چکی تھی کہ منتظمین کو عمارت سے باہر جمع ہو جانے والے لوگوں کے لیے بھی عبدالعزیز سٹریٹ میں لائوڈ سپیکر لگانے پڑے‘ اور پولیس کو اس مصروف سڑک پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے اضافی عملہ تعینات کرنا پڑا۔
میں نے کوئی ایسا خطیب نہیں دیکھا جو اپنے سامعین کے جذبات کو اس طرح موڑ سکتا ہو جیسے وہ اس کے ماہرانہ ہاتھوں میں ربڑ کے ٹکڑے ہوں۔ تاہم‘ میلکم نے طلبہ کو اتنا جذباتی کر دیا تھا کہ ایک طالب علم نے اپنے پیچھے بیٹھے ایک سفید خام شخص کو اس لیے تھپڑ مار دیا کہ اس نے میلکم کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے کوئی منفی تبصرہ کیا تھا۔ یہ واقعہ بڑے تشدد کا باعث بن سکتا تھا اگر میلکم اپنی غیرمعمولی صلاحیت سے کام لیتے ہوئے صورت حال کو سنبھال نہ لیتے۔ انجینیرنگ کے ایک سیاہ فام پروفیسر کی اہلیہ نے‘ جو اپنی عام زندگی میں دھیمے مزاج کی مالک تھیں‘ اونچے اور جارحانہ لہجے میں گورے امریکیوں کی طرف سے اس سلوک کے بارے میں کوسنے دینے شروع کر دیے‘ جو وہ اس کے شوہر سے محض اس کی سیاہ رنگت کے سبب روا رکھے ہوئے تھے۔ اس دوران‘ جب کہ سامعین آبدیدہ ہو جاتے‘ میلکم انھیں کوئی لطیفہ سناتے اور وہ چھوٹے بچوں کی مانند اسی حالت میں ہنسنا شروع کردیتے‘ کہ آنسو ابھی ان کی آنکھوں سے اور گالوں پہ بہہ رہے ہوتے۔ جس گرم جوشی اور والہانہ انداز میں بیروت میں ان کی تقریر سنی گئی‘ اس سے اس شہر کے بارے میں ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ سوڈان کلچرل سنٹر میں ان کے تاریخی خطاب کے بعد امریکن یونی ورسٹی نے ایک دانش مندانہ فیصلہ یہ کیا کہ انھیں ان کے آیندہ دورۂ بیروت کے دوران کیمپس میں خطاب کرنے کی اجازت دے دی۔
میرے خیال میں خواب غفلت کے شکار مسلمانوں کی بیداری میں سعید رمضان اور میلکم ایکس جیسے خطیبوں کا کردار بھی نہایت اہم ہے‘ تاہم جو لوگ اس کا ادراک کر لیں انھیں فوراً ہی حصولِ علم کے مشکل راستے پر گامزن ہو جانا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ دلوں کی پاکیزگی اختیار کر لیں‘ اور برے کاموں اور کاہلی سے بچتے ہوئے اچھے کاموں کے ذریعے اپنی زندگیوں کو تبدیل کریں۔ بصورتِ دیگر مسلمان جلسہ گاہوں میں جوق درجوق ضرور آئیں گے مگر صرف لذت تقریر یا خطیبانہ شگوفوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا خطبوں کی فصاحت و بلاغت کی داد دینے کے لیے‘ جیسے وہ شاعروں کے ندرتِ خیال پر جھومتے اور خطیبوں کے انداز بیان پر فدا ہوتے قدیم عرب ہوں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ علم اور عمل پر زیادہ زور اس لیے دیتے تھے کہ ان کے نزدیک اچھے اعمال کے ذریعے ہی کوئی انسان اپنی روحانیت کو ترقی دے سکتا ہے۔ ’ادراک‘ سے ’اطلاق‘ تک کا تیز رفتار راستہ ہی بہترین ’تزکیہ‘ ہے۔ اگرچہ انھوں نے ارکان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائیں پڑھنے کی نصیحت کی ہے‘ لیکن انھوں نے امام حسن البناء شہیدؒ کی طرح تحریک الاخوان میں‘ صبح شام دہرانے کے لیے ’الماثورات‘ اور ’ورد الرابطہ‘ جیسے خصوصی اوراد اور دعائیں تحریر نہیں کی ہیں۔
اپنے کارکنوں کی تربیت اس طرح کرنے کے لیے کہ وہ طہارتِ قلب اور خدا سے قربت کی بلندی تک پہنچنے کے لیے معروف صوفی طریقوں کی پیروی نہ کریں‘ وہ درحقیقت احتیاط پسندی کی دوسری انتہا پر پہنچ گئے اور میرے خیال میں بعض ایسے روحانی اعمال کی اہمیت پر بھی زور نہیں دیاجن کا ذکر خود بعض احادیث میں ہے۔ مثال کے طور پر سید مودودی اپنی کتاب ہدایات میں رقم طراز ہیں کہ: ’’ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا کتنا تعلق ہے‘ اور ہمیں کیسے پتہ چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور‘اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں… رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انواروتجلیات‘ تو آپ ان کی فکر میں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے‘‘۔
یہ ایک صحابی کا خواب ہی تھا اور پھر بالکل اسی جیسا ایک خواب حضرت عمرؓ ابن الخطاب نے بھی دیکھا تھا‘ جس نے مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز کی دعوت دینے کے لیے عیسائی چرچوں کی طرح گھنٹیاں بجا نے سے محفوظ رکھا۔ مدینہ میں ایک بڑی گھنٹی اس مقصد کے لیے لگا دی گئی تھی‘ مگر جب ایک صحابیؓ نے اپنا ایک خواب بیان کیا جس میں انھوں نے اذان کے اصل الفاظ سنے تھے اور پھر جب حضرت عمرؓ نے فر مایا: میں نے بھی بالکل ایسا ہی ایک خواب دیکھا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان کر دیا کہ یہ خواب سچے ہیں اور حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں‘ جسے ہم آج تک سنتے آرہے ہیں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کرتے تھے‘ کہ انھوں نے گذشتہ رات کیا خواب دیکھے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بیان فرماتے تھے۔ خواتین بھی آپؐ کو اپنے خواب بتاتی تھیں اور آپ انھیں اچھی اور حوصلہ افزا تعبیریں بتاتے تھے۔ بخاری‘ مسلم اور حدیث کی دیگر مستند کتب کے ’’باب الرویا‘‘ ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کر دینا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب سید مودودی کو موت کی سزا ہو جانے پر پوری قوم صدمے اور غم سے نڈھال تھی‘ سرگودھا کے میاں رحیم بخش نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں انھوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے دیکھا تھا: ’’خدا وند رحم کر۔ مودودی میرے دین کا نام لینے والا ہے‘ تو اسے ابھی زندہ رکھ۔ وہ تیرے دین کا کام کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو اس کی سخت ضرورت ہے خداوند رحم کر‘‘۔ پھر میں نے دیکھا کہ اچانک حرکت سی ہوئی‘ آواز آئی: ’’اے محمد‘ ہم نے دعا قبول کی‘‘۔ اس کے بعد اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ یہ صبح کا وقت تھا اور موذن اﷲ اکبر کی صدا دے رہا تھا۔ میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اچانک میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں بہت دیر تک سکتے کے عالم میں اپنی چارپائی پر بیٹھا رہا۔ اس خواب کی تعبیر جلد ہی سامنے آئی‘‘۔
m مجرد روحانیت کو کم اہمیت دینے کا سبب : سید مودودی ان تمام روحانی پہلوئوں سے یقینا بہ تمام و کمال واقفیت رکھتے تھے‘ بلکہ دیگر علما کم ہی اس بارے میں اتنا جانتے ہوں گے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ارکان کی تربیت میں اس پہلو کو نظرانداز کیوں کیا؟ تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی مکمل طور پر ان قابل مشاہدہ اعمال کی پیداوار نہیں ہیں جن اعمال کی طرف عموماً توجہ دلائی جاتی ہے۔ ’احسان‘ کی اقلیم میں قلب کے داخلی روحانی سفر میں دو اہم ستون ’فکر‘ اور ’ذکر‘ ہیں۔ ’احسان‘ کا درجہ اللہ تعالیٰ کی سچی محبت اور بندگی کا درجہ ہے اور یہ درجہ کسی خارجی سرگرمی کا تقاضا نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سید مودودی نے اس طرزِ عبادت کی حوصلہ افزائی سے کیوں خود کو باز رکھا؟ انھوں نے تمام ارکان کو وظیفے کے لیے خصوصی دعائیں اور اذکار انھیں کیوں نہیں بتائے جس طرح کہ شہید حسن البناؒ نے تحریک اخوان میں ارکان کی تربیت کے لیے تجویز کیا؟ میراخیال ہے کہ وہ اپنے بچپن کے ابتدائی تجربوں اور اپنی پرورش کی بنا پر یہ رویہ اختیار کرنے پر مائل ہوئے۔
ہمیں معلوم ہے کہ سید مودودی‘ صوفیا کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ حتیٰ کہ ان کا نام چشتی سلسلے کے بانی شیخ خواجہ قطب الدین مودودؒ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اوائل عمری میں ہی یہ جان لیا تھا کہ مغرب کے ساتھ اسلام کی کش مکش کی نوعیت ذہنی اور علمی ہے‘ جس کے لیے اسلام کے علم برداروں کو اپنی لمبی لمبی تسبیحیں چھوڑ کر حرف ‘قلم اور عمل سے جہاد کرنا پڑے گا۔ انھوں نے یقینا عظیم صوفیا کے تذکرے پڑھے بھی ہوں گے اور سنے بھی ہوں گے۔ ان میں سے کچھ تو خود ان کے آباو اجداد میں شامل تھے‘ جنھو ں نے اپنے آپ کو چھوٹی چھوٹی مسجدوں‘ تکیوں اور خانقاہوں تک محدود کر لیا تھا۔ جنھیں نہ تو اسلام اور کفر کی جنگ کا کچھ علم تھا اور نہ انھوں نے اپنے عوام کے اخلاقی اور سیاسی مخمصوں میں کوئی خاص دل چسپی ظاہر کی تھی کہ زندگی کا اجتماعی اور تہذیبی چلن جس رخ پر بہہ رہا ہے‘ بہتا رہے‘ انھیں اس سے چنداں کوئی غرض نہیں ہے۔ چنانچہ اوائل عمری سے ہی سید مودودی کی شخصیت میں اس غیر فعال طرزِ عمل سے‘ اگر نفرت نہیں تو ایک طرح کی بیزاری ضرور پیدا ہو چکی تھی۔
چنانچہ ہوا یہ کہ جب بھی انھیں کوئی عبادت گزار طول طویل مراقبے اور ذکر و فکر میں مستغرق نظر آتا تو ان کے ذہن میں بے کاری اور بے عملی کی ایک منفی تصویر ابھر آتی۔ اپنے بچپن اور نوجوانی میں انھوں نے اپنے بڑوں سے اپنے بزرگوں کے کشف و کرامات اور خوابوں کی کہانیاں یقینا سنی ہوں گی اور انھوں نے اس سب کو اپنے ذہن میں ایک غیر متحرک صوفی کی منفی تصویر سے وابستہ کر لیا ہو گا۔ وہ دیکھتے تھے کہ مسلمانوں کو عمل پر ابھارنے کے بجاے خوابوں اور کشف و کرامات کے قصو ں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ حالانکہ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ جن لوگوں کو ایسے تجربے نہیں ہوئے ہیں‘ وہ ان سے زیادہ اچھے مسلمان ہوں۔ چنانچہ میرا ذاتی تصور یہ ہے کہ اپنے ارکان کی تربیت کے دوران سید مودودی کا یہ رویہ بے عملی کے اس مذکورہ بالا طرزِ عمل کا سیدھا سادا ردعمل تھا۔ تاہم‘ ممکن ہے کچھ لوگ یہ محسوس کریں کہ اپنی ذہنی اور فکری تحریک کو ایک صوفی تنظیم میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے ان کی یہ احتیاط کچھ ضرورت سے زیادہ محتاط رویے پر مبنی تھی۔
اس نفسیاتی اور روحانی کش مکش کے نتیجے میں سید مودودی کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے بانی اور کرشماتی قائد کے طور پر اپنے شخصی مقام و مرتبے کے روحانی رعب کو کم سے کم کرنے کی مسلسل کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ایسا آئینی و قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کے لیے شدید جدوجہد کی‘ جس سے یہ امید تھی کہ ان کی ریٹائرمنٹ یا رحلت کے بعد بھی تحریک اسی جذبہ و عمل کے ساتھ جاری رہے گی۔ میرے خیال میں یہ ان کی ایک عظیم کامیابی ہے۔ ان کے اخلاص‘ زہد اور طاعت و بندگی کا ایک کھلا ثبوت بھی ہے۔ اگر وہ جاہ و اقتدار کے دلدادہ ہوتے اور ثروت مندی اور خوش حالی کی ایسی زندگی گزارنا چاہتے جس میں ان کے بے شمار پیروکار انھیں ایک مقدس ہستی سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے‘ تو وہ بڑی آسانی سے خود اپنے آباو اجداد کے صوفی سلسلے کا شیخ ہونے کا اعلان کر سکتے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے اور ان کی شخصیت میں جو کرشمہ اور خداداد صلاحیتیں موجود تھیں‘ تو ’مودودیہ‘ سلسلہ ہم عصر صوفی سلاسل میں ایک سرکردہ صوفی سلسلہ قرار پاتا۔ حریر و ریشم‘ اور خوشبو و خدمت کے اس راستے کو منتخب کرنے کے برعکس انھوں نے بطور ’امیر‘ اپنے مقام کو بڑھانے کی بجاے کم کرنے کی دانستہ اور اختیاری کوشش کی۔ پھر اپنے کارکنان میں معتدل‘ احتسابی اور تنقیدی فکر کی حوصلہ افزائی کی۔
ہر سال تحریک کے عمومی اجلاس میں سید مودودی ارکانِ جماعت اسلامی کو دعوت دیتے کہ وہ کھلے عام ان پر تنقید کریں‘ ان کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کریں۔ وہ ارکان کی ان غلط فہمیوں کو دُور فرماتے جن کی بنیاد ناقص معلومات اور غلط طرزِ فکر پر ہوتی‘ اور خود سے سرزد ہونے والے غلط اندازوں اور غلطیوں پر برسرعام معذرت کرتے۔ انھوں نے ان نئے ارکان کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جنھیں اس بات پر صدمہ پہنچا تھا کہ ان کا عظیم قائد ایک نوجوان رکن کے سامنے اپنی غلطی پر معذرت کر رہا ہے۔ ۶۰کے عشرے کے ایک عام پاکستانی کو مودودی جیسی عظیم شخصیت کے گرد تقدس کا ہالہ بننے سے باز رکھنے کے لیے کسی ایسی ہی ’’الیکٹرک شاک تھراپی‘‘ کی ضرورت تھی۔ قیادت کا غلطی سے ماورا نہ ہونے کا تصور ہی وہ اہم عامل تھا‘ جس نے تحریک کو‘ سید مودودی اور جماعت کے دشمنوں کے خلاف انتہا پسندانہ اور متشدد طرز عمل اپنانے سے محفوظ رکھا۔ اسی سبب سے تحریک کی قیادت بھی سید مودودی سے میاں طفیل محمد کی طرف بڑے خوش گوار انداز کے ساتھ (اکتوبر ۱۹۷۲ء میں) منتقل ہوئی اور بعد ازاں میاں طفیل محمد سے قاضی حسین احمد کے سپرد (اکتوبر ۱۹۸۷ئ) ہوئی۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کاش! دیگر اسلامی تحریکات کے قائدین بھی انکسار‘ تنقید کے لیے قبولیت‘ اور جب ضرورت پڑے اختیارات کی منتقلی جیسے اوصاف میں سید مودودی کی مثال کی پیروی کریں۔ ۶۰کے عشرے کے اواخر میں جب انھوں نے جماعت کی قیادت سے اس خواہش کے تحت علیحدہ ہونا چاہا‘ تاکہ وہ تفہیم القرآن اور دیگر کتب کی تکمیل کے لیے اپنا زیادہ وقت صرف کرسکیں تو اکثر ارکان یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ کارکنوں کو اپنے بانی قائد سے لگائو اور تعظیم و تقدیس سے بچانے کے لیے ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایک کرشماتی اور عظیم قائد کے ساتھ ان کی وابستگی اور جذبے کو ختم نہ کیا جا سکا‘ تو ان ارکان سے سید مودودی نے برملا فرمایا: ’’میں بوڑھا اور بیمار ہو رہا ہوں۔ اپنی موت سے پہلے جماعتِ اسلامی کو مودودی کے بغیر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
اس مثالی طرزعمل کے برعکس‘ میں ذاتی طور پر تین ایسے اسلامی قائدین کو جانتا ہوں‘ جنھوں نے قیادت میں رہنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اﷲ رحم کرے‘ انھوں نے اپنے رفقا کے خلاف سازش سمیت ہر طرح کے ذرائع استعمال کیے۔ ان میں سے ایک لیڈر کی عمر ۷۰ برس تھی اور ایک دوسرے کی عمر ۸۰ برس سے بھی زیادہ تھی۔ ان دونوں قائدین کو جارحانہ اور غیر معیاری مقابلوں کے بعد ان کے خلاف ووٹنگ کے ذریعے قیادت سے ہٹایا گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے عزت سے گھر رہنا پسند کیا‘ جب کہ دوسرا قیادت سے علیحدگی برداشت نہ کر سکا اور اس نے مقابلے میں ایک نئی مخالف جماعت کھڑی کر لی۔
میں نے جماعت اسلامی پر اسی طرح کی تنقید ۷۰ کے عشرے میں بھی سنی تھی۔ لیکن اس بار تنقید کرنے والے معروف مسلم اسکالر پروفیسر محمد الاوا تھے‘ جو قانون کے مشہور مصری استاد تھے۔ انھوں نے ریاض میں برادر پروفیسر احمد العسال کے گھر میں میاں طفیل محمد صاحب سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ’’آپ اس شخص کو کیا جواب دیں گے جو پوچھتا ہے کہ آپ نے دعوت کے سست طریقۂ کار کے تحت ۴۰سال صرف کرنے کے بعد آخر کیا حاصل کیا‘‘؟ ایسے لگتا ہے کہ میاں طفیل محمد اس طرح کے سوالات سے کافی تنگ آ چکے تھے۔ انھوں نے فرمایا: ’’میں اسے کہوں گا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰برس لوگوں کو ان تھک تبلیغ کرتے ہوئے گزار دیے تھے۔ کیا ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ آخر انھوں نے کیا حاصل کیا تھا؟‘‘
کراچی میں‘ میں اپنے پیارے بھائی اور دوست چودھری غلام محمد سے ملا‘ جو جماعت اسلامی کراچی کے مقبول امیر تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا‘ میری ان سے ملاقات بیروت میں بھی ہوئی تھی پھر اردن اور سوڈان میں بھی۔ سوڈان میں ہم ۱۹۶۷ء میں ملے تھے‘ وہ اسی سال جون میں عربوں کی عبرت ناک شکست کے بعد عرب ممالک کا دورہ کرنے والے ایک اسلامی وفد کے رکن تھے۔ وفد کے دوسرے ارکان اردن کے برادر خلیفہ اور انڈونیشیا کے محمد ناصر تھے۔ برادر غلام محمد کو ان دنوں کمر اور بدن کے دیگر حصوں میں شدید درد کی شکایت تھی۔
اس وقت سوڈان میں اخوان کے تعلیمی پروگرام کو جاری رکھنے کے حامیوں اور محترم ڈاکٹر ترابی کی نئی سیاسی اپروچ کے مخالفین میں تنازع اپنے عروج پر تھا۔ اکثر مخلص برادران کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھگڑا پوری تحریک کے مستقبل کو ہی خطرے میں نہ ڈال دے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ اخوان کو اس داخلی انتشار سے بچانے کے لیے ایک قابلِ اعتماد رکن کو اپنا نیا قائد چن لینا چاہیے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مشکل کام کے لیے میرا انتخاب عمل میں آیا۔
امیر کے طور پر مجھے ہی اپنازیادہ وقت مہمانوں کو دینا ہوتا تھا‘ بالخصوص برادر غلام محمد کے ساتھ میں نے خاصا وقت گزارا۔ جتنا زیادہ میں ان کے ساتھ رہا اتنا ہی میرے دل میں ان کے لیے عزت اور محبت پیدا ہوئی۔ میں گاڑی پر ان کے ہوٹل تک چھوڑنے جاتا اور خرطوم میں بھی جہاں جانا ہوتا ان کے ساتھ جاتا۔ اس وقت مجھ پر یہ واضح ہو گیا تھاکہ وہ کتنے بیمار ہیں اور شدید درد اور اذیت کے باوجود اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لیے کس قدر کوشش کررہے ہیں۔ میں نے انھیں اپنی سوڈانی تحریک کے ان گھمبیر مسائل کے بارے میں بتایا‘ جو اس کی قیادت سنبھالنے کے بعد مجھ پر واضح ہوئے تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ کس طرح یہ جماعت رفتہ رفتہ اسلامی طور پر نیم جان سیاسی پارٹی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ میں نے انھیں ان شکایات سے بھی آگاہ کیا جو مجھے بطور امیر نوجوان مخلص کارکنان کی طرف سے تحریک کے عہدیداران کے رویے کے بارے میں موصول ہوتی تھیں اور جنھیں مجھے تحقیق کے بعد تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ غلام محمد صاحب نے مجھے مشورہ دیا: ’’اگر تحریک کو داخلی طور پر بہتر بنانے کی کوئی امید باقی نہیں ہے‘ تب مجھے اسے چھوڑ کر صحیح اسلامی بنیادوں پر ایک نئی جماعت بنا لینی چاہیے‘‘۔ یہ درحقیقت ان تمام برادران کے مشترک احساسات تھے جو دینی تربیت کو اہمیت دیتے تھے۔
جب ۱۹۶۸ء میں کراچی میں ان سے ملا تو ان کی صحت بہت بگڑ چکی تھی۔ انھیں کینسر کی تشخیص کی گئی تھی۔ جب میں ان سے جماعت اسلامی کراچی کے مرکزی دفتر (ہیڈکوارٹر) میں ملا تو بے حد متاثر ہوا۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر تحریک کا کام بھی کرتے تھے اور مہمانوں سے بھی ملتے تھے۔ جب درد ناقابلِ برداشت ہو جاتا تو وہ زمین پر بچھے ایک گدے پر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتے تھے۔ جب درد قابل برداشت ہو جاتا تو وہ دوبارہ میز پر آ کر کام کرنے لگتے تھے‘ سبحان اللہ!
میں نے خود سے کہا:سیدمودودی نے اپنے شاگرد کی کیسے تربیت کی ہے اور کیا ناقابلِ یقین انقلاب انسانوں کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے! کوئی اور مریض اگر محترم غلام محمد جیسی حالت میں مبتلا ہوتا تو نہ صرف وہ ہسپتال میں داخل ہوتا‘ بلکہ مکمل طور پر نیند اور درد کی دوائوں کے زیر اثر زندگی گزار رہا ہوتا۔ اپنے ناقابل برداشت دردوں کے لیے دوائیں کھانے سے انکار کرنا ممکن ہے ایک بہادرانہ عمل سمجھا جائے‘ لیکن اپنی دعوت اور کام کرنے پر اصرار جاری رکھنا تو مقدس بہادری سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح پر رحمتیں نازل کرے اور ان سے راضی ہو جائے۔ (آمین!)
دوبارہ میں نے اپنے رشتہ داروں کی مدد حاصل کی۔ میرا ایک بھتیجا وزارتِ داخلہ میں ملازم تھا اور اس نے ایک دوسرے افسر کی مدد سے میرے پاسپورٹ پربیرونی ویزے کی مہر لگوا دی تھی۔ میں نے ۲۵ مئی ۱۹۷۱ء کی رات کو بیروت کے لیے ایک فلائیٹ پکڑی۔ یہ رات میں نے اس لیے منتخب کی تھی کہ اس رات ’’انقلاب کا جشن‘‘ منایا جا رہا تھا۔ وہ تمام افسران جو مجھے پہچان سکتے تھے اس جشن میں مصروف تھے۔ لیکن اس کے باوجود میں اپنے معذور بیٹے کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکا۔ مجھے خطرہ تھا کہ کچھ افسروں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو سکتی ہے۔ میرے بیروت پہنچنے پر میرے ایک کزن نے اسے وہاں پہنچا دیا۔ مجھے مشورہ دیا گیا تھا کہ میں لبنان میں معذوروں کے لیے ایک خصوصی اسکول میں اسے داخل کرا دوں۔ اس کی تربیت او رعلاج خاصا مہنگا تھا‘ کیونکہ گردن توڑ بخار کے سبب وہ ذہنی طور پر نارمل نہیں تھا۔ مجھے اس کی خصوصی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے تھے۔ اس لیے میں نے ریاض یونی ورسٹی میں نفسیات پڑھانے کی ایک پیش کش قبول کر لی۔
ریاض میں میری ملاقات پروفیسر احمد العسال‘ پروفیسر الاواء اور پروفیسر محمد مصطفی الاعظمی جیسے ممتاز اسکالروں سے ہوئی۔ اس دوران علم نفسیات اور دیگر کرداری علوم (behavioural sciences) کی اسلامائزیشن میں میری دل چسپی تازہ ہوئی‘ جس کا آغاز میںنے ایک نوجوان طالب علم کے طور پر کیا تھا۔ میرے عزیز دوست مصطفی الاعظمی‘ جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔انھوں نے مجھے بتایا: ’’میں نے سید مودودی سے مشورہ مانگا تھاکہ کیا : ’’مجھے جماعت کا ایک رکن بننا چاہیے یا حدیث کا ایک عالم‘‘۔ مولانا نے انھیں فرمایا تھا: ’’ہمارا کوئی بھی بھائی کارکن بن سکتا ہے‘ لیکن عالم (اسکالر) کوئی کوئی ہی بنتا ہے‘‘۔ چنانچہ پروفیسر الاعظمی کہتے ہیں ’’اور میں نے مطالعہ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا‘‘۔ حدیث پاک کا کمپیوٹر پروگرام بنانے والے وہ پہلے شخص ہیں اور اس طرح اس میدان میں ان کا یہ کارنامہ ان کے تصور سے بھی باہر تھا۔ ان کی یونی ورسٹی نے حدیث کے لیے ان کی اس خدمت پر ان کی تحسین کی اور انھیں ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
میرا احساس ہے کہ اسلامائزیشن وہ میدان ہے‘ جس میں‘ میں اسلام کی کچھ خدمت کر سکتا ہوں اور مجھے اپنی کوششوں کو اسی تک محدود کرنا چاہیے۔ اس خیال کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ میرے سوڈان چھوڑنے کے جلد بعد ہی ہماری تحریک کے برادران نے‘ جس کا آغاز ہم نے ۱۹۶۹ء میں کیا تھا‘ اخوانیوں کے ساتھ مل کر محترم ڈاکٹر ترابی کی سیاسی اسلامی پارٹی کے برعکس ایک علیحدہ گروپ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اپنے اس خیال کے تحت میں نے ۱۹۷۱ء سے علم نفسیات [سائیکالوجی] کی اسلامائزیشن پر کام جاری رکھا اور الحمدللہ طبی اخلاقیات اور متعلقہ موضوعات پر میری متعدد کتب اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
جب میںنے اسلامائزیشن اور دیگر علمی کاموں پر اپنی کوششوں کو مرکوز کیا تو مجھ پر واضح ہونا شروع ہوا کہ میں اپنی روحانی بالیدگی کے لیے کوششوں کی ضرورت کو نظرانداز کرتا رہا ہوں۔ میں دوسروں کو تبدیل کرنے میں اتنا مصروف رہا کہ خود اپنی روحانی تطہیر کے پروگرام پر کوئی خاص توجہ نہ کرسکا۔ شائد یہ میری بڑھتی ہوئی عمر (بڑھاپے) کے سبب ہے یا اسلامی تحریکوں کے ساتھ اپنے کسی واہمے کی وجہ سے‘ یا ان دونوں وجوہ سے کہ میں اپنے آپ کو امام غزالی ؒ، المحاسبیؒ اور عبدالقادر جیلانی ؒ جیسوں کی طرف زیادہ مائل پاتا ہوں اور ان کا مطالعہ میرے لیے زیادہ لطف کا باعث ہے۔
میں اس وقت یہ مقالے سید مودودی اور پروفیسر محمد قطب کی تحریروں کو پڑھے بغیر نہیں لکھ سکتا تھا۔ چنانچہ سید مودودی کو اسلامائزیشن کا پیش رو کہنا‘ ایک ایسے شخص کی طرف سے کوئی مبالغہ نہیں ہے جو ان سے محبت رکھتا ہے اور ان کا احترام کرتا ہے۔ تعلیم‘ فلسفہ‘ اور سیاسیات کی اسلامائزیشن پر ان کی تحریریں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے کی ہیں‘ جب اس عملی تحریک کے جدید چیمپئن ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں سے چند غیر تحریکی چیمپئن‘ اسلامائزیشن کی کوششیں کرنے والے سیدمودودی‘ پروفیسر محمد قطب اور مالک بن نبی جیسے پیش روؤں کے کام پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ میں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے ۱۹۹۱ء میں ایک سیمی نار میں جو مقالہ پڑھا تھا ‘اس میں ایسے رویے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا تھا:
ایک نیم دلی کا شکار دانش ور --- جو اتنا ’سائنسی‘ ہو چکا ہے کہ کوئی پختہ اسلامی بات نہیں کر سکتا‘ اپنی تسلیم شدہ مغربی مہارت اور کام کے باوجود اسلامائزیشن کے میدان میں زیادہ کارکردگی نہیں دکھا سکے گا --- جب کہ دوسری طرف ایک بے لوث اور مخلص مسلمان اسکالر‘ جو خود ایک سوشل سائنٹسٹ نہیں ہے‘ ممکن ہے اسلامائزیشن کے لیے کہیں زیادہ بہتر اور پائے دار کام کرے۔ بے شک اسلامائزیشن کے حقیقی پیش روؤں کی پہلی نسل میں ابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب‘ پروفیسر محمد قطب اور مالک بن نبی جیسے نام شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اعلیٰ سند یافتہ سوشل سائنٹسٹ نہیں تھا‘ لیکن ان کے نام اور کارنامے مسلسل روشنی بکھیر رہے ہیں۔ ان کا لٹریچر کئی زبانوں میں سیکڑوں بار شائع ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے‘ جس کے اثرات سوشل سائنٹسٹوں اور عام لوگوں پر مسلسل پڑ رہے ہیں۔
آج ہمارے چند (غیر تحریکی) رفقا ممکن ہے ان کے کام کے کچھ حصوں اور طریقۂ کار پر تنقید کریں‘ لیکن یہ تنقید غیر منصفانہ بھی ہے اور ناشکری کی علامت بھی۔ ان کی اصل تحریروں کو جو بعض مثالوں میں ۴۰ یا ۶۰سال پہلے لکھی گئی تھیں‘ آج کے تجزیے کے معیارات کے مطابق نہیں پرکھا جا سکتا۔ ان لوگوں میں سے بعض جو ان پر آج بے جا تنقید کر رہے ہیں‘ وہی ہیں جنھوں نے اپنے طالب علمی کے دور میں ان کی لاثانی تحریروں سے ہی سیکھ کر اپنے اپنے میدان میں اسلامی ذہن کے ساتھ مہارت کی سیڑھیاں چڑھی ہیں۔ کئی عشروں سے ان کی کتابیں جدید دنیا میں اسلامائزیشن کا واحد ماخذ ہیں۔ (بدری‘ ص ۱۳)
اس مقالے کو بعد ازاں انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی پریس نے Use and Abuse of Human Sciences in the Muslim World (مسلم ممالک میں انسانی علوم کا صحیح اور غلط استعمال) کے عنوان سے شائع کیا۔
میں نے اسلامائزیشن پر اپنی پہلی کتاب Islam and Alcoholism سید مودودیؒ کے احسانات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام معنون کی ہے۔ جب یہ کتاب پہلی بار امریکن ٹرسٹ پبلی کیشنز (واشنگٹن) کی طرف سے شائع ہوئی تو مجھے اس کے ڈائریکٹر پبلیکیشن برادر ابراہیم دسوقی نے بتایا کہ اس کتاب کی فروخت سید مودودی کی مشہور کتاب Towards Understanding Islam کے بعد سب سے زیادہ رہی ہے۔ اگرچہ یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا‘ لیکن میں جانتا تھا کہ جلد ہی میری کتاب کی فروخت نیچے چلی جائے گی‘ جب کہ سید مودودی کی کتاب مسلسل سرفہرست ہی رہی رہے گی۔ میری دوسری کتاب The Dilemma of Muslim Psychologists (مسلمان ماہرین نفسیات کا تذبذب ) بھی سید مودودی اور اسلامائزیشن کے میدان کے دیگر پیش کاروں کے نام معنون کی گئی ہے۔
میں نے پاکستان میں میڈیا کے تمام مراکز کا دورہ کیا اور ذمہ دار افراد سے طویل گفتگوئیں کیں۔ میرا مقصد یہ تھا کہ میڈیا کو سامعین و ناظرین کے لیے بے لطف بنائے بغیر اسے کیسے اسلامائز کیا جائے؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے پاکستان کی وزارت مواصلات کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دیگر عرب اور مسلمان ممالک کی وزارتوں اور میڈیا سے متعلق اداروں کے ساتھ قریبی روابط پیدا کریں۔ مصر‘ شام اور ترکی میں اعلیٰ پیشہ وارانہ اسلامی تعلیمی پروگرام تیار کیے جا رہے تھے۔ ان پروگرامات کو اردو زبان میں ڈب کر کے پیش کیا جا سکتا تھا۔ میں نے اسلامی ذہن کے نوجوان افراد کو اعلیٰ معیار کے اسلامی پروگراموں کی تخلیق و تشکیل (پروڈکشن )کی تربیت کے لیے بیرون ملک بھجوانے کی تجویز بھی دی تھی۔
اپنی رپورٹ مکمل کرنے کے بعد میں اسے پروفیسر خورشید احمد کے ساتھ صدر مملکت کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے گیا۔ شہید محمد ضیاء الحق نے اپنے گھر میں ہمارا استقبال کیا اور ’کافی‘ سے ہماری تواضع کی۔ وہ ایک سادہ اور منکسر المزاج صدر تھے۔ ہمارے درمیان دوستانہ گفتگو ہوئی اور پھر صدر ہمیں چھوڑنے باہر تک آئے اور خود میری کار کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جب میں واپس سوڈان آ گیا تو ہمارے وزیر خارجہ نے مجھے بتایا کہ محمد ضیاء الحق نے سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو ایک خط لکھا تھا‘ جس میں میرے دورے اور میڈیا کی اسلامائزیشن کے لیے میرے کام کو سراہا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ میری پیش کردہ رپورٹ سے متاثر ہوئے ہیں۔
سوڈان میری واپسی سے قبل پروفیسر خورشید احمد نے مجھے بتایا کہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور میں تنظیم اساتذہ پاکستان کی ایک قومی کانفرنس ہو رہی ہے اور اس کے کچھ منتظم امریکن یونی ورسٹی بیروت میں میرے طالب علم رہے ہیں‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اس کانفرنس میں ایک کلیدی خطبہ دوں۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس طرح میری اچھرہ میں سید مودودی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ عظیم سید زادے سے میری یہ آخری ملاقات تھی۔
میں سید مودودی سے ان کے مطالعے کے کمرے میں ملا۔ وہ چاک و چوبند اور مضبوط شخص جو ۱۹۶۸ء میں اپنی کرسی پر عجز اور مضبوطی کے امتزاج کے ساتھ ایسے بیٹھتا تھا ‘ اب کافی کمزور نظر آ رہا تھا۔ ان کے بدن پر بیماری کے اثرات بہت واضح تھے۔ لیکن ان کا چہرہ اطاعت خداوندی اور تحمل کے روحانی نورسے دمک رہا تھا۔
اس بیماری کے عالم میں بھی ان کی حس مزاح ماند نہ پڑی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا: ’’میں نے ان اسلامی کارکنوں کے بارے میں آپ کے طنزیہ تبصروں کے بارے میں سنا ہے جنھوں نے سعودی عرب میں ملازمتیں اختیار کر لی تھیں اور اپنی جماعتوں کے اسلامی کام کے برعکس‘ جن کے لیے دولت زیادہ دل چسپی کا باعث بن چکی ہے‘‘۔ میں کہا کرتا تھا:’’جی ہاں‘ وہ ڈیپ فریزز میں رکھ دیے گئے ہیں‘‘۔ سید مودودی ؒنے جواب میں بے ساختہ کہا: ’’آپ کا تبصرہ درست ہے لیکن اس منفی انداز میں نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ جب یہ کارکنان اور برادران اپنے ملکوں کو واپس جائیں گے تو وہ ایسے ہی اچھے ہوجائیں گے جیسے بالکل تازہ دم ہوں۔ ان شاء اﷲ وہ اپنی سابق سرگرمیوں کی طرف بالکل اسی طرح لوٹ آئیں گے جیسے ڈیپ فریزر میں رکھا ہوا کھانا تازہ رہتا ہے۔ جب آپ اسے گرمی پہنچاتے ہیں تو اس کاذائقہ اور خوشبو اسی طرح بحال ہو جاتی ہے جیسے اسے تازہ تازہ پکایا گیا ہو‘‘۔ ان کے اس یقین اور امید افزا جواب پر ہم دونوں ہنس پڑے۔ سید مودودیؒ کے اس امید افزا تبصرے اور اُس میں چھپی ہوئی شفقت اور رفقا کے بارے میں بات کرتے وقت احتیاط پسندی نے میرا دل موہ لیا۔ میری ان سے یہ آخری ملاقات تھی۔ وہ اس ملاقات کے تقریباً آٹھ ماہ بعد انتقال کر گئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے اس مخلص خادم ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے راضی ہو جائے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے اخلاص کے ساتھ اسی پیغام کے مطابق خدمت انجام دی ہے‘ جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے دنیا کو دیا تھا‘ جیسا کہ سرگودھا کے میاں رحیم بخش نے اپنے متبرک خواب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کو انھوں نے تصدیق کرتے دیکھا تھا۔
دور حاضر میں سب سے بڑی تحریک جو سماجی ڈھانچے اور انسانی تعلقات کی تمام بنیادوں میں ایک زبردست تبدیلی لا رہی ہے وہ ہے تحریک نسواں یا Women's Liberation ۔ یہ تحریک کوئی دور جدید کی انوکھی پیش کش نہیں ہے۔ اس کے تاریخی نظائر دور قدیم میں بھی ملتے ہیں۔
تحریکِ نسواں کی تاریخ میں سینکافالز کنونشن (Ceneca Falls Convention) منعقدہ ۱۸۴۸ء کوسنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کنونشن کے اعلامیے میں عورتوں کے جن حقوق کا مطالبہ کیا گیا‘ ان میں جایداد پر عورت کے مکمل کنٹرول‘ عورت کے خاوند سے علیحدگی اور اسے طلاق دینے کا حق‘ بچوں کی سرپرستی‘ ایک جیسے کام کے لیے مرد کے معاوضے کے مساوی حقوق‘ ملازمت میں ہر قسم کے صنفی امتیاز کے خاتمے جیسے حقوق شامل تھے۔ عورت کی مظلومیت کے نام پر کھڑی ہونے والی تحریک جتنی آگے بڑھتی گئی‘ قدامت پسند رہنماؤں نے اسی قدر خود کو مظلومیت نسواں کے واحد مسئلے کا جواب دینے تک محدود کرنا شروع کر دیا۔
جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو تمدنی نظام میں عورت کے حوالے سے افراط و تفریط کا معاملہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عورت جو ماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے‘ وہی ہستی بڑی بے دردی کے ساتھ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی جاتی ہے۔ اس کو بیچا اور خریدا جانا ماضی سے لے کر عصر حاضر تک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کو ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محرم رکھا جاتا ہے۔ اس کو گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے‘ اور اس کی شخصیت کو ابھرنے اور نشوونما پانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف ہم کو یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہی عورت پراپیگنڈے کے بل پر اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے۔ مساوات و ترقی کے نام پر شہوانیت اور بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ خاندانی نظام‘ جو تمدن کی بنیاد ہے وہ منہدم ہونے کو ہے۔ اس اخلاقی تنزل کے ساتھ ساتھ ذہنی‘ جسمانی اور مادی قوتوں کا تنزل بھی عمل پذیر ہو رہا ہے۔ جس کا انجام ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
دیکھیے کہ اس ماحول کے اثرات آپ کی قوم پر کیا پڑ رہے ہیں۔ کیا آپ کی سوسائٹی میں اب غض بصر کا کہیں وجود ہے؟ کیا لاکھوں میں ایک آدمی بھی کہیں ایسا پایا جاتا ہے جو اجنبی عورتوں کے حسن سے آنکھیں سینکنے میں باک کرتا ہو؟کیا علانیہ آنکھ اور زبان کی زنا نہیں کی جا رہی ہے؟ کیا آپ کی عورتیں بھی تبرج جاہلیہ اور اظہار زینت اور نمایش حسن سے پرہیز کر رہی ہیں؟ کیا آج آپ کے گھروں میں ٹھیک وہی لباس نہیں پہنے جا رہے ہیں‘ جن کے متعلق آنخضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: نساء کا سیات عادیات حمیلات مائلات؟ --- کیا آپ کی سوسائٹی میں فحش قصے اور عشق و محبت کے گندے واقعات بے تکلفی کے ساتھ کہے اور سنے نہیں جاتے؟ جب حال یہ ہے تو فرمایئے کہ طہارت اخلاق کا وہ پہلا اور سب سے مستحکم ستون کہاں باقی رہا‘ جس پر اسلامی معاشرت کا ایوان تعمیر کیا گیا تھا؟ (پردہ‘ ص ۳۵۷ - ۳۵۸)
اس کے ساتھ ہی ہندستان میں رائج قانون اور حکومتی انتظام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے ثابت کیا کہ تمدن و تہذیب کی بحالی اور عورت کے وقار و مرتبے کا لحاظ اسی وقت ممکن ہے کہ جب نظام معاشرت کو اسلام پر قائم کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
تمام ہندستان سے اسلامی تعزیرات کا پورا قانون مٹ چکا ہے۔ زنا اور قذف کی حد نہ مسلمان ریاستوں میں جاری ہوتی ہے نہ برٹش انڈیا میں --- اگر کسی شریف بہو بیٹی کو کوئی شخص بہکا کر بدکار بنانا چاہے تو آپ کے پاس کوئی قانونی ذریعہ ایسا نہیں‘ جس سے اس کی عصمت محفوظ رکھ سکیں --- منکوحہ عورت کو بھگا لے جانا جرم ہے۔ مگر انگریزی قانون جاننے والوں سے دریافت کیجیے کہ اگر منکوحہ عورت خود اپنی رضامندی سے کسی کے گھر جا پڑے تو اس کے لیے آپ کے فرمانرواؤں کی عدالت میں کیا چارۂ کار ہے۔ (پردہ‘ ص ۳۵۹)
شریعت الٰہی کے عورتوں سے مطالبات کیا ہیں] اور ان کی شاہراہ زندگی کا رخ کس طرح متعین ہوتا ہے[‘ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بے باک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے۔ حسین عورتیں تو مخلوط کلبوں‘ فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہو جاتی ہیں‘ اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے‘ مگر صرف ایک بدذوق اور بدقوارہ آدمی ہی ان سے دل چسپی لے سکتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۵‘ ص ۲۶۸)
ان مطالبات کے ساتھ ہی مغرب کی فریب کاریوں کی شکار عورت کو اس حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں‘ کہ مسلم معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت ہو گی؟:’’مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادی‘ عقلی اورروحانی حیثیات سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جن تک مرد پہنچ سکتا ہے‘اور اس کا عورت ہونا کسی مرتبے میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ آج بیسیویں صدی میں بھی دنیا‘ اسلام سے بہت پیچھے ہے۔ افکار انسانی کا ارتقا اب بھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے جس پر اسلام پہنچا ہے۔ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں دیا ہے بلکہ مرد بنا کر دیا ہے۔ عورت درحقیقت اب بھی اس کی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسی پرانے دور جاہلیت میں تھی۔ گھر کی ملکہ‘ شوہر کی بیوی‘ بچوں کی ماں‘ ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لیے اب بھی کوئی عزت نہیں۔ عزت اگر ہے تو اس ’مرد مؤنث‘ یا ’زن مذکر‘کے لیے‘ جو جسمانی حیثیت سے توعورت ہو مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہرہے کہ یہ انوثت کی عزت نہیں‘ رجولیت کی عزت ہے۔ پھر احساس پستی کی ذہنی الجھن (inferiority complex)کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے‘ حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرعام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا --- اسلامی تمدن عورت کو عورت اور مرد کو مرد رکھ کر دونوں سے الگ الگ وہی کام لیتا ہے جس کے لیے فطرت نے اسے بنایا ہے‘‘۔ (پردہ‘ ص ۲۵۶ -۲۵۷)
اس مسئلے کا مدلل جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اول یہ کہ دنیا میں جہاں بھی قانونی یک زوجی (legal monogamy) رائج کیا گیا ہے‘ وہاں غیر قانونی تعدد ازدواج (illegal polygamy) کو فروغ نصیب ہو کر رہا ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ قانونی یک زوجی نے کہیں کسی بھی زمانے میں عملی یک زوجی کی شکل اختیار کی ہو۔ اس کے برعکس اس قانونی پابندی کا نتیجہ ہر جگہ یہی ہوا ہے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ہوتی ہے‘ مگر حدود نکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیر محدود تعداد سے عارضی اور مستقل‘ ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیدا کرتا ہے جن کی کوئی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتا --- اب آپ کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ یک زوجی کو اختیار کریں یا تعدد ازدواج کو‘ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ قانونی تعدد ازدواج کو قبول فرماتے ہیں یا غیر قانونی تعدد ازدواج کو؟ اگر پہلی چیز آپ کو قبول نہیں ہے تو دوسری چیز آپ کو لازماً قبول کرنی پڑے گی اور اس کے ساتھ کنواری ماؤں اور حرامی بچوں کی اس روز افزوں تعداد کا بھی خیرمقدم کرنا ہو گا‘ جو قانونی یک زوجی پر عمل کرنے والے ملکوں کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ بن چکی ہے‘‘۔ (مسئلہ تعدد ازدواج‘ ص ۳۱)
دورِ حاضر میں باطل تہذیب کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حقوق کی جنگ میں فرائض کو پیچھے دھکیل دیا۔ مسلمان عورت بھی اس فریب کا شکار ہے۔ عورت کو اس کے فرائض یاد دلاتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے لکھا: ’’اﷲتعالیٰ جس طرز عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے‘ وہ ان کا اپنے حسن کی نمایش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو‘ کیونکہ تمھارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر …بن ٹھن کر نکلنا‘ چہرے اور جسم کے حسن کو زیب و زینت اور چست لباسوں سے نمایاں کرنا اور ناز و انداز سے چلنا‘ ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے‘‘۔ (تفہمیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۹۱-۹۲)
آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی تہذیب کبھی حقوق کے نام پر‘ کبھی ثقافت کے نام پر اور کبھی ترقی کے نام پر جس چیز کو باقاعدہ ہدف بنا کر زد پہنچاتی ہے وہ عورت کی حیا ہے‘ اس کی عفت و عصمت ہے۔ اسلامی کلچر اور مغربی کلچر میں اصل فرق حیا اور بے حیائی کا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ سورئہ احزاب کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اب ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اور اسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے۔ کیا وہ کبھی اس کو پسند کرسکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے‘ ناچے‘ تھرکے‘ بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟ یا ہوائی میزبان بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کیا گیا ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجایش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۸۹-۹۰)
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ عقلِ عام (common sense) بھی رکھتا ہے‘ اس کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کو اسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے‘ وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے۔ انسان کی خلقی و پیدایشی زینت یا دوسرے الفاظ میں انسانی حسن کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے۔ نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے۔ جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے کسی گہرے علم کی ضرورت نہیں۔ خود اپنے دل کو ٹٹولیے‘ اپنی آنکھوں سے فتویٰ طلب کیجیے‘ اپنے نفسی تجربات کا جائزہ لیجیے --- اگر اصل مقصد اسی طوفان کو روکنا ہو تو --- اس سے زیادہ خلاف حکمت اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کو روکنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے‘‘۔ (پردہ‘ ص ۳۲۵-۳۲۶)
اسلام کے نظام اخلاق میں فقہی احکامات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ صرف مردوں سے نہیں‘ بلکہ عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کے ضمیر کو جگاتے ہیں: ’’اسی فتنۂ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی‘ دل کے پردوں میں کہیں نہ کہیں نمایش حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں‘ بالوں کی آرایش میں‘ باریک اور شوخ کپڑوں کے انتخاب میں اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ قرآن نے ان سب کے لیے ایک جامع اصطلاح تبرج جاہلیۃ استعمال کی ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرایش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذتِ نظر بننا ہو‘ تبرج جاہلیہ کی تعریف میں آ جاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ منتخب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس ]چیز[ کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔ اس کو خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکم خداوندی کی مخاطب ہے: وَلَا تَبَّرجْنَ تَبَرْجَ الْجَاھِلِیَّۃَ الْاُؤلٰی احزاب: ۲۳۔ (پردہ‘ ص ۲۶۶)
مولانا نے اس سوچ کو صحیح رخ دیا کہ اندھے مقلد بن کر رہنا خود اﷲ کی نظر میں بھی مطلوب نہیں‘ بلکہ دین کی حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ اچھی طرح جانچ کر پرکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ اسے اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
فروری ۱۹۴۸ء کو لاہور میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ان نکات کی بھی نشان دہی کی جو مسلمان عورت کا طرز عمل ہونا چاہییں: ’’اس طرح سوچ سمجھ کر جو خواتین بطور خود اسلام کو اپنا دین بتائیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے کرنے کا کام کیا ہے؟ آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنے اندر سے جاہلیت کی ایک ایک چیز کو چن چن کر نکالیں۔ اپنے اندر یہ تمیز پیدا کریں کہ کیا چیزیں اسلام کی ہیں اور کیا چیزیں جاہلیت کی --- آپ کا دوسرا کام یہ ہے کہ گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں‘ ان کو بھی نکال باہر کریں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دور میں ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں‘ انھیں بھی خانہ بدر کریں --- آپ کا تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں --- نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے۔ پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انھیں چاہیے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اور اپنے گھروں کو مسلمان بنائیں‘ تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھے --- آپ کا چوتھا کام یہ ہے کہ اپنے گھروں کے مردوں پر اثر ڈالیں۔ اپنے شوہروں‘ باپوں‘ بھائیوں اور بیٹیوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو نہ معلوم یہ غلط فہمی کہاں سے ہو گئی ہے کہ وہ مردوں کو متاثر نہیں کر سکتیں۔ مسلمان عورت اگر کہنے لگے کہ اسے کالے صاحب لوگوں کا طرز زندگی مرغوب نہیں ہے بلکہ اسے اسلامی زندگی مرغوب ہے جس میں نماز ہو‘ پرہیزگاری اور حسن اخلاق ہو‘ خدا کا خوف اور اسلامی آداب و تہذیب کا لحاظ ہو‘ تو آپ کی آنکھوں کے سامنے مردوں کی زندگیاں بدلنے لگیں‘‘۔ (ایضًا ، جولائی ۱۹۴۸ئ)
اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اسلامی تہذیب ہی عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق دیتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اسی حقیقت کو عورت پر واضح کیا‘ کہ موجودہ زمانے کی مخلوط سوسائٹی سے ہمارا اختلاف کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ ہم پوری بصیرت کے ساتھ انسانیت کی اور تہذیب و تمدن کی فلاح کو دیکھتے ہیں تو فیصلہ یہی سامنے آتا ہے کہ اس تباہ کن طرز معاشرت سے اجتناب کیا جائے۔
اس مضمون کا اختتام یہ سوال ہے جو مولانا مودودیؒ نے خواتین سے کیا: ’’اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ فرنگیت چاہتی ہیں یا اسلام؟ ان دونوں میں سے ایک ہی کا آپ کو انتخاب کرنا ہو گا۔ دونوں کو خلط ملط کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ اسلام چاہتی ہیں تو پورے اسلام کو لینا ہو گا اور اپنی پوری زندگی پر اسے حکمران بنانا ہو گا۔ کیونکہ وہ تو صاف کہتا ہے: اُدْخُلْوا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً، تم پورے اندر آ جاؤ‘ اپنی زندگی کا کوئی ذرا سا حصہ بھی میری اطاعت سے مستثنیٰ نہ رکھو۔ اگر یہ کلی اطاعت منظور نہ ہو اور کچھ فرنگیت ہی کی طرف میلان ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ دعواے اسلام کو ملتوی رکھیں اور جس راہ پر چلیں نام بھی اسی کا لیں۔ آدھا اسلام اور آدھا کفر نہ دنیا ہی میں کسی کام کی چیز ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے مفید ہونے کا امکان ہے‘‘۔ (ایضًا ، جولائی ۱۹۴۸ئ)
مولانا مودودی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے دور میں دین کا تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ عصر حاضر میں بھی اسلام ہی ایسا نظریۂ حیات ہے‘ جو نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ انسانی فلاح و کامرانی کا ضامن ہے۔جس زمانے میں مولانا مرحوم نے دین کا یہ جامع تصور پیش کیا‘ اس زمانے میں وقت کے علما و صوفیا‘ اسلام کے اس تصور سے نا آشنا تھے اور اگر کچھ لوگ آشنا بھی تھے تو اس کے حق میں ایسے مضبوط دلائل نہیں رکھتے تھے کہ جدید ذہن کے شکوک و شبہات کو دور کر کے اسے مطمئن کر سکتے۔
مولانا مودودیؒ کا یہی وہ تجدیدی کام ہے جو ان کو اپنے عہد کی تمام دوسری دینی شخصیات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ وہ اپنے عہد میں اسلام کی ایک علامت (symbol) بن چکے تھے‘ جنھوں نے عام ذہنوں میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیا۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ نے مولانا مودودی کے بارے میں بجا طور پر کہا تھا: اﷲ تعالیٰ نے اس دور پُرفتن میں ہمیں ایسا دماغ فراہم کر دیا ہے جس نے ہمیں اسلام پر مغرب کے حملوں کے جواب سے مستغنی کر دیا ہے۔ اسی طرح مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں اپنی کتاب پرانے چراغ میں لکھا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نسل پر ذہنی و علمی طور پر مولانا مودودی نے گہرا اور نہایت وسیع اثر ڈالا ہے۔ انھوں نے اس نسل کی صدہا بے چین روحوں‘ ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام کے قریب کرنے بلکہ اس کا گرویدہ بنانے اور ان کے دل و دماغ میں اسلام کا اعتماد و وقار بحال کرنے کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ جہاں تک اس تعلیم یافتہ اور ذہین (intellectual) طبقے کا تعلق ہے‘ اس اثر انگیزی میں (اس ربع یا نصف صدی میں) مشکل سے کوئی مسلمان مصنف و مفکر ان کا مقابل و ہمسر ملے گا‘‘۔
مولانا مودودیؒ سے لوگوں کے سوال و جواب کا سلسلہ کبھی تو زبانی طور پر رہتا اور کبھی یہ سلسلہ خط کتابت کی صورت میں ہوتا‘ جسے ماہنامہ ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کے مستقل عنوان کے تحت چھاپ دیا جاتا۔ یہ سلسلہ جوابات‘ اب رسائل و مسائل(پانچ حصے) کی صورت میں ہمارے پاس طبع شدہ کتابی شکل میں موجود ہے۔ خط کتابت سے کتابی صورت میں لاتے وقت اس کی مناسب اصلاح‘ ترمیم اور توضیح کی گئی ہے اور بعض مقامات پر اضافے بھی کیے گئے ہیں۔
مولانا مرحوم کی اس رسائل و مسائلسیریز پر نقد و تبصرہ کرنا میرا منصب نہیں۔ یہ کام راسخین فی العلم ہی کر سکتے ہیں۔ البتہ دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کتاب کے بارے میںایک مختصرمضمون میں چند معروضات ہی پیش کرپائوں گا:
رسائل و مسائلمیں سوال و جواب کا سلسلہ انسانی زندگی کے کم و بیش ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس میں اعتقادی‘ علمی‘ فقہی‘ معاشی‘ تمدنی اور سیاسی‘ غرض ہر قسم کے ایسے مسائل آ گئے ہیں جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں کھٹکتے ہیں۔دراصل موجودہ زمانے کے ذہن کو اسلامی تعلیمات پر مطمئن کرنے کا جو سلیقہ اﷲ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کو عطا فرمایا تھا وہ دوسرے کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ یوں تو مولانا مرحوم کی یہ خداداد صلاحیت اور فضل و کمال ان کی تمام تصانیف میں نمایاں ہے لیکن رسائل و مسائلکے ان پانچ حصوں میں یہ چیز اور زیادہ اجاگر ہوئی ہے۔
بظاہر تو رسائل و مسائل سوالات اور جوابات کا ایک سلسلہ ہے‘ لیکن درحقیقت یہ اس اسلامی تحریکی لٹریچر کا ایک نہایت قیمتی حصہ ہے جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک کُل کا جزو ہے اور اسے اسی حیثیت سے لیا جانا چاہیے ورنہ اس کی افادیت و اہمیت واضح نہ ہوگی۔ اس بارے میں مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے بالکل بجا لکھا ہے: ’’رسائل و مسائل کتاب… درحقیقت اس ہمہ گیر جنگ کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرتی ہے جس میں ]مولانامودودی[ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک مشغول رہے ہیں۔ اس اجمالی خاکے سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ مرحوم ایک مفتی کے انداز میں سوالات کا جواب دینے کے بجاے ایک معالج کے طرز پر سائل سے ہم کلام ہوتے ہیں اور سائل جس الجھن اور جس شکایت سے دوچار ہے‘ اپنے ناخن گرہ گشا سے اسے دور کر دیتے ہیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ مقدمہ ‘ص ۴)
البتہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’جن مسائل میں مجھے تحقیق کا موقع نہیں ملتا‘ ان میں‘ میں امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی پیروی کرتا ہوں‘ کیونکہ اکثر مسائل میں‘ میں نے ان کے مسلک کو اپنے اصلی امام نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے قول و فعل کے زیادہ مطابق پایا ہے‘‘…مولانا مودودی حنفی طریقے سے نماز پڑھا کرتے تھے اور دوسرے مسلکوں کے اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں‘ مگر اہل حدیث‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۲‘ ص ۳۵۱)
حیرت ہوتی ہے کہ اتنا مصروف شخص جو ایک منظم جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہے‘ جسے کبھی جیل میں بند کر دیا جاتا ہے‘جو روزانہ بیسیوں لوگوں سے عام ملاقاتیں بھی کرتا ہے‘ تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتا ہے‘ وہ اتنے زیادہ سوالوں کے زبانی اور تحریری جوابات لکھنے کے لیے وقت کیسے نکال لیتا ہے!
اب ہم رسائل و مسائل میں سے نمونے کے چند سوالات و جوابات پیش کریں گے‘ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مولانا مودودی نے قرآن‘ حدیث‘ فقہ اور دوسرے علوم سے متعلق سوالوں کے کس عمدگی سے جوابات دیے ہیں۔
اعـتراض: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ]یوسف ۱۲:۳[۔ ’اَلْقصَص‘یہاں مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ مصدر عربی کے معروف قاعدے کے مطابق نکرہ آنا چاہیے۔ ’احسن القصص‘ ’احسن الحدیث‘ کی نوعیت کی ترکیب ہے اور’قصص‘ یہاں بمعنی ’مَقْصُوْص‘ استعمال ہوا ہے۔ لفظ کا یہ استعمال عربیت کے مطابق ہے۔ قَصَّ یَقُصُّ مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہر جگہ مفعول ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ بنابریں صحیح ترجمہ ہو گا: ’’ہم تمھیں بہترین سرگذشت سناتے ہیں‘‘۔ لسان العرب میں ’نَحْنُ نُبَیِّنُ لَکَ اَحْسَنَ الًبَیَانِ‘ کا فقرہ بھی اسی ترجمے کی تائید کرتا ہے۔ اس لیے کہ ’بیان‘ کا لفظ یہاں اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے‘ مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا‘‘۔
جـواب: تفہیم القرآن میں اس آیت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’ہم بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں‘‘۔ اگر اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو عبارت یہ ہوتی کہ: ’’ہم تم سے بیان کرتے ہیں بہترین پیرائے میں بیان کرنا‘‘۔ لیکن یہ اردو زبان کے لیے ایک نامانوس اسلوب ہوتا‘ اس لیے ہم نے ’قصہ بیان کرنے‘ اور’بہترین پیرائے میں بیان کرنے‘ کے مفہومات کو اردو زبان کے محاورے کے مطابق ادا کیا ہے۔ اب قبل اس کے کہ اس پر قواعد زبان کے لحاظ سے بحث کی جائے‘ یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اکابر اہلِ علم نے اس آیت کا کیا ترجمہ کیا ہے:
شاہ ولی اﷲ صاحبؒ: ’’ما قصہ خوانیم بر تو بہترین قصہ خواندن‘‘۔
شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں اوپر تیرے بہت اچھی طرح بیان کرنا‘‘۔
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہترین بیان‘‘۔
مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں‘‘۔
’’پہلے دونوں بزرگوں نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو آپ کے نزدیک غلط ہے‘ یعنی انھوں نے الْقَصَصَ کو مصدر کے معنی میں لے کر ’قصہ خواندن‘ اور ’بیان کرنا‘ اس کا ترجمہ کیا ہے۔ البتہ دوسرے بزرگوں نے اسے اسم قرار دے کر اس کا ترجمہ ’بیان‘ اور’قصہ‘ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان میں دونوں تعبیرات کی گنجایش ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے بارے میں مشکل ہی سے کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ وہ عربی کے معروف قاعدوں سے ناواقف تھے۔
’’اب قواعد زبان کے لحاظ سے دیکھیے۔ زمخشریؒ کہتے ہیں کہ القصص مصدر بھی ہو سکتا ہے‘ اِقْتِصاص (قصہ بیان کرنے) کے معنی میں۔ اور فعل بمعنی مفعول بھی ہو سکتا ہے‘ جیسے الخبر سے مراد وہ بات ہے جس کی خبر دی گئی ہو۔ اور جائز ہے کہ مفعول کو مصدر کے نام سے موسوم کیا جائے‘ جیسے مخلوق کا نام خلق۔ اب اگر القصص کو مصدر کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ نحن نقص علیک احسن الاقتصاص (ہم بیان کرتے ہیں تم سے بہترین بیان کرنا)۔ اور اگر القْصَصَ سے مَقْصوص (بیان کی ہوئی چیز) مراد ہو تو اس کے معنی ہوں گے: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ مَا یَقُصُّ مِنَ الْاَحَادِیْثِ(ہم بیان کرتے ہیں تم سے وہ چیز جو بہترین ہے ان باتوں میں سے جو بیان کی جاتی ہیں۔)
’’یہی بات امام رازی ؒنے بھی کہی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر قَصَص کو اِقْتِصَاص کے معنی میں مصدر مانا جائے تو لفظ احسن جس خوبی کے لیے استعمال ہوا ہے وہ حسن بیان کی طرف راجع ہو گی نہ کہ قصے کی طرف‘ یعنی اس کا مطلب ہو گا بہترین طریقے بیان کرنا‘ نہ کہ بہترین قصہ۔ اور اگر قَصَص کو مَقْصُوْص (بیان کردہ بات) کے معنی میں لیا جائے تو یہ خوبی اُس قصے کی طرف ہو گی جو بیان کیا گیا ہے۔
علامہ آلوسیؒ نے قَصَص کو مصدر اور اقتصاص کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے ایک نکتے کا اور اضافہ کیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ اس جملے میں اَحْسَنَ الْقَصَص‘ نَقُصُّ کا مفعول نہیں ہے بلکہ اس کا مفعول محذوف ہے‘ اور وہ ہے اس سورت کا مضمون۔ اسی بناء پر ہم نے اُس محذوفِ مُقَدّرکو ’واقعات اور حقائق‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ ص ۹۶-۹۸)
’’اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گر جائے تو اسے غوطہ دے کر نکالو‘ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفا۔ (الجامع الصحیح‘ ج ۲‘ ص ۱۱۵)
اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ: ’’اس مضمون کی روایات بخاری نے کتاب بدء الخلق اور کتاب الطب میں نقل کی ہیں‘ نیز ابن ماجہ‘ نسائی‘ ابوداؤد اور دارقطنی میں بھی یہ موجود ہیں۔ بعض شارحین نے اس حدیث کے الفاظ کو ٹھیک ان کے لغوی معنی میں لیا ہے اور اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ فی الواقع مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں اس کا تریاق پایا جاتا ہے۔ اس لیے جب یہ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالا جائے۔٭
بعض نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم دراصل اس بے جا غرور کا علاج کرنا چاہتے تھے جس کی بنا پر بعض لوگ دودھ کے اس پیالے یا سالن کی اس پوری رکابی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جس میں مکھی گری ہو۔ اور پھر یا تو اسے پھینک دیتے ہیں‘ یا اپنے خادموں کو کھانے کے لیے دے دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا غرور توڑنے کے لیے آپؐ نے فرمایا کہ مکھی اگر تمھارے کھانے میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالو اور پھر اس کھانے کو کھاؤ۔ اس کے ایک پَر میں بیماری ہے‘ یعنی کبرو غرور کی بیماری جو اسے دیکھ کر تمھارے نفس میں پیدا ہوتی ہے‘ اور دوسرے پر میں اس کا تریاق‘ یعنی اس کبروغرور کا علاج جس کی وجہ سے تم ایسے کھانے کو پھینک دیتے ہو یا اپنے خادموں کو کھلاتے ہو۔ اس معنی کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن میں نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے برتن میں تھوڑا سا کھانا چھوڑ کر اُٹھ جانے کو ناپسند فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی رکابی کو صاف کر کے اٹھو۔ اس حکم کی وجہ بھی یہی ہے کہ جو شخص اس طرح برتن میں کچھ چھوڑ کر اٹھتا ہے ‘وہ گویا یہ چاہتا ہے کہ یا تو اس بقیہ کھانے کو پھینک دیا جائے یا اسے کوئی دوسرا کھائے‘‘۔(رسائل و مسائل‘ ح ۲‘ ص ۱۸‘ ۴۱-۴۳)
مولانا مودودیؒ نے سوال کا کچھ طنزیہ مگر نہایت معقول پُرسوز‘ مدلل اور ایمان پرور جواب لکھتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی‘ تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آ جائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے‘ لیکن ہندستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آ جائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطۂ نظر اس مسئلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہو جائیں‘ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرے سے بچایا جائے۔
’’جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا عقیدہ بھی نہ پایا جاتا ہو‘ وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو‘ وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے‘ جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کر دیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہو جائیں گے‘ اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے ہوئے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ’اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کر لیں‘ لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھا لے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ: ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں‘ اور جس نے اسی قبلے کو اختیار کیا جو ہمارا ہے‘ اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا‘ وہ ہم میں سے ہے‘‘۔یہ ’ہمارا ذبیحہ کھایا‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۱‘ ص ۱۷۴ - ۱۷۶)
سوال: ’’میں ایک عرصے سے انگلستان میں مقیم ہوں۔ یہاں اہل فرنگ سے جب کبھی مذہب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے‘ یہ لوگ اکثر سؤرکے گوشت کی بابت ضرور گفتگو کرتے ہیں‘ اور پوچھتے ہیں کہ اسلام میں اسے کیوں حرام کیا گیا ہے؟ میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں اور واضح کریں کہ قرآن کی رُو سے اس گوشت کی ممانعت کس بنا پر کی گئی ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟‘‘
جواب: ’’سؤر کے گوشت کو جس طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے اسی طرح بائیبل (عہد نامۂ قدیم) میں بھی منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہودی آج بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ عہد نامۂ جدید میں بھی خود حضرت عیسیٰؑ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ بائیبل کا یہ قانون منسوخ کر دیا گیا ہے۔وہ سینٹ پال تھا جس نے عیسائیت کو مغربی اقوام میں پھیلانے کے لیے شریعت کی قیود توڑ ڈالیں اور جو کچھ خدا نے حرام کیا تھا اسے حلال کر دیا۔ خدا کی شریعت میں تو سؤر ہمیشہ حرام رہا ہے۔
’’جن چیزوں کی مضرت انسان اپنے تجربات سے خود جان لیتا ہے ان کے متعلق خدا کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا علم حاصل کرنے کے لیے انسان کے اپنے ذرائع علم کافی ہیں۔ اسی لیے خدا کی شریعت میں سنکھیا کی حرمت نہیں بیان کی گئی۔ مگر جن چیزوں کی مضرت جاننے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں‘ ان کے متعلق اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان سے پرہیز کرو۔ ہمارے لیے عقل مندی یہی ہے کہ ہم خدا پر بھروسا کر کے ان سے پرہیز کریں تاکہ ان کے نقصان سے بچے رہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ غذاؤں کا اثر صرف انسان کے جسم ہی پر نہیں پڑتا‘ بلکہ اس کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے۔ جسم پر پڑنے والے اثرات کو تو ہم اپنے تجرباتی علوم سے معلوم کر لیتے ہیں اور بہت کچھ کرچکے ہیں‘ مگر اخلاق پر غذاؤں کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کا علم اِس وقت تک بھی انسان کو حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ خدا کی شریعت میں سؤر‘ مردار‘ خون اور درندوں کی حرمت اسی لیے بیان کی گئی ہے کہ انسانی اخلاق پر ان غذاؤں کا برا اثر پڑتا ہے۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ ص۱۹۴ -۱۹۵)
سوال: ’’آج کل حکومت کی طرف سے امدادی قرضوں کے تمسکات جو انعامی بانڈز کی شکل میں جاری کیے گئے ہیں‘ ان میں شرکت کرنا اور ان پر متوقع انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قمار نہیں‘ کیونکہ ہر شخص کی قرض کی اصل رقم بہرحال محفوظ ہے جو بعد میں ملے گی۔ اس پر کوئی متعین شرح سے اضافہ بھی بانڈزہولڈر کو نہیں ملتا جسے سود قرار دیا جائے۔ براہِ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے‘ کیونکہ بہت سے لوگ اس معاملے میں خلجان کا شکار ہیں‘‘۔
جواب: ’’انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت ِ واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کر کے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے ’انعامات‘ کی شکل میں دیا جاتا ہے‘ اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ ’انعامات‘ کن کو دیے جائیں ‘ قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ پہلے ہر وثیقہ دار کو سُود کا لالچ دے کر اُس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بجاے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’انعام‘ تیرے ہی نام نکل آئے‘ اس لیے قسمت آزمائی کرلے۔
’’یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے‘ اور روحِ قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً: اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً: جس کے نام پر ’انعام‘ نکلتا ہے‘اُسے دراصل وہ سُود اکٹھا ہو کر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا۔ ثالثا:ً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرّد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زاید ’انعام‘ ملے گا۔ اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ رابعاً: جمع شدہ سُود کی وہ رقم جو بصورت ’انعام‘ دی جاتی ہے‘ اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام’انعامات‘ نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقمِ قرض نہیں ماری جاتی بلکہ صرف وہ سود‘ جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے‘ انھیں نہیں ملتا‘ بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سُود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح۳‘ ص ۳۳۴ - ۳۳۶)
یہ چند مثالیں‘ مولانا مودودیؒ کے اسلوبِ تفہیم کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں‘ جب کہ مولانا مودودیؒ کے اسلوبِ تحریر کا جوہر تو ان پانچوں حصوں کو پڑھنے کے بعد ہی سامنے آتا ہے۔
جنرل محمد یحییٰ خان نے ۲۵مارچ ۱۹۶۹ء کو ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر کے صدر مملکت کا منصب سنبھا ل لیا اور ۲۸ مارچ ۱۹۷۰ء کو بلوچستان کو پہلی مرتبہ صوبے کا درجہ دیا۔ اس طرح وہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوا جو تقسیم ہند سے قبل ۱۹۲۷ء میں پہلی مرتبہ اور اس کے بعد ۱۹۲۹ء میں اپنے ۱۴ نکات میں قائداعظم نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے لیے پیش کیا تھا، تاکہ ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی سیاسی اصلاحات نافذ کی جا سکیں، لیکن برطانوی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
متحدہ پاکستان کے آخری صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے بالآخر قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ۷ دسمبر اور پانچوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ۱۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کی تاریخیں مقرر کر دیں۔
بلوچستان کی پہلی صوبائی اسمبلی کے ان انتخابات ]دسمبر ۱۹۷۰ئ[ میں نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی سطح کی سربرآوردہ شخصیات نے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی‘ جن میں سردار عطاء اللہ مینگل‘ نواب خیر بخش مری‘ میرگل خان نصیر‘ پرنس آغا عبدالکریم خان اور میر دوست محمد شامل تھے۔ تین نشستوں پر جمعیت علماے اسلام کے مولانا صالح محمد‘ مولانا سید شمس الدین اور مولانا سید حسن شاہ کامیاب ہوئے۔ پشتون خوا نیپ کے خان عبدالصمد خان اچکزئی‘ مسلم لیگ کے جام میر غلام قادر اور بی ایم ایم کے نواب غوث بخش رئیسانی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ باقی نو نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ خواتین کی واحد اکیسویں نشست پر بیگم فضیلہ عالیانی منتخب ہوئیں۔
بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۲ مئی ۱۹۷۲ء کو منعقد ہوا۔ ملک کے عبوری دستور کے تحت بلوچستان کی پہلی مخلوط صوبائی حکومت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماے اسلام نے سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارت اعلیٰ کے تحت تشکیل دی۔ یہ حکومت نوماہ اور ۱۱ دن قائم رہی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے ایک سازش کے تحت ۱۳ فروری ۱۹۷۳ء کو غیر جمہوری طریقے سے اس منتخب صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا۔ صوبائی اور مرکزی جماعت اسلامی نے اپنی جمہوری روایات کے عین مطابق اس برطرفی کے خلاف کوئٹہ سمیت پورے ملک میں صداے احتجاج بلند کی۔ جس کی پاداش میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر میاں طفیل محمد پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے انھیں کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا‘ کیونکہ انھوں نے لاہور میں عظیم الشان احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کی برطرفی پر حکومت پر کڑی تنقید کی تھی۔
نیپ اور جمعیت کی مخلوط صوبائی حکومت نے اپنے نو ماہ کے مختصر دور حکومت میں بہت سارے ’’کارہاے نمایاں‘‘ انجام دیے۔ ان میں بلوچی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کر کے بلوچوں کی آیندہ نسلوں کو ان کے قابل فخر اور شان دار ماضی سے کاٹ دینے کی سعی لا حاصل‘ کمیونزم کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے اشتراکی کتابوں کی نمایشوں اورسستی قیمت پر ان کی فراہمی کا اہتمام‘ روسی ثقافتی طائفے کو مدعو کر کے ان سے راگ رنگ‘ ناچ گانے‘ ثقافتی میلوں اور موسیقی کی محفلیں سجانا وغیرہ شامل تھا۔ جماعت اسلامی بلوچستان نے ان خرافات پر بھرپور تنقید کی۔ جس پر حکومت نے طیش میں آ کر جماعت اسلامی نوشکی کے صوبائی رہنما مولانا عبدالمجید مینگل کو ان کے دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے غائب کر دیا۔ اغوا کی اس حکومتی واردات پر جماعت اسلامی نے خان عبدالصمد خان اچکزئی کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں سوال اٹھوایا تو معلوم ہوا کہ انھیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ بھجوا دیا گیا ہے۔ کئی دوسرے محاذوں پر بھی جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی بلوچستان صوبائی حکومت کے خلاف نبردآزما رہی ہے‘ جو صوبہ بلوچستان میں جماعت اسلامی کے سیاسی کردار کی ایک الگ داستان ہے۔ اس طویل پس منظر کے ساتھ ہماری گفتگو کا خاص محور اسی مخلوط صوبائی حکومت کا قائم کردہ ’بلوچستان قانون کمیشن‘ ہے‘ جو اس کا ایک سنجیدہ کام تھا‘ جسے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اس نے انجام دیا۔
’بلوچستان قانون کمیشن‘ جسٹس فضل غنی خان کی سربراہی میں بٹھایا گیا تھا‘ جس کے ارکان میں قاضی محمد عیسیٰ خان بار ایٹ لا‘ حاجی محمد سرفراز خان ایڈووکیٹ‘ قاضی سعداللہ خان‘ مولوی محمد عمر‘ مولوی عبدالغفور‘ نواب عبدالقادرخان شاہوانی‘ نواب زادہ تیمور شاہ جوگیزئی‘ میر امیر الملک مینگل ایڈووکیٹ‘ میر محمد خان رئیسانی ایڈووکیٹ اور ذکاء اللہ لودھی ایڈووکیٹ شامل تھے‘ جب کہ محمد جعفر اور قاضی محمد عیسیٰ خان رکن مجلس شوریٰ قلات‘ کمیشن میں ریسرچ افسران کی حیثیت سے شامل تھے۔ آغا سید احمد شاہ اس کمیشن کے سیکرٹری تھے۔ اس کمیشن نے ۱۵ جولائی ۱۹۷۲ء کو ۳۴ سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ مرتب کر کے پورے صوبے میں مشتہر کرایا۔ علماے کرام‘ دانشوروں‘ قانون دانوں‘ سیاسی رہنمائوں اور خواص و عوام سے اس پر تجاویز اور مشورے طلب کیے۔ نیز یہ اعلان بھی کیا کہ اگر کوئی کمیشن کے روبرو پیش ہو کر بیان دینا چاہے تو اس کے متعلق کمیشن کو مطلع کیا جائے‘ تاکہ اس کے ضلع میں کمیشن کے دورے کے وقت اس کا بیان قلم بند کیا جا سکے۔ کوئٹہ کے علاوہ اس طرح کمیشن نے صوبے کے ضلعی مقامات پر جا کر بھی وفود سے ملاقاتیں کیں۔
برطانوی تسلط سے پہلے برعظیم ی طرح پورے بلوچستان میں بھی اسلامی شریعت صدیوں سے نافذالعمل تھی۔ شریعت کا قانون ہی ملک کا قانون (Law of Land) تھا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد بلوچستان کا خطہ برٹش بلوچستان اور ریاستی بلوچستان میں منقسم کر دیا گیا۔ ریاستی بلوچستان میں قلات‘ خاران‘ مکران اورلسبیلہ کی ریاستیں شامل تھیں‘ جب کہ باقی علاقہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا۔ ریاستی بلوچستان میں انگریزوں نے صرف پرسنل لا کی حد تک جزوی عدالتی نظام قاضیوں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ برٹش بلوچستان میں کلی طور پر انگریزی قانون کی عمل داری تھی۔ بعض علاقوں میں رسم و رواج اور جرگے کے قوانین جاری کیے گئے۔ زیادہ سخت جان علاقوں پر اپنی انتظامیہ کی گرفت کو مضبوط بنانے کے لیے ایف سی آر جیسے استبدادی کالے قوانین نافذ کیے گئے۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی بلوچستان میں یہ مختلف قوانین نافذ العمل رہے ہیں۔
قانون کمیشن کا مقصد اگرچہ یہ تھا کہ صوبے میں دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے نظام جو بیک وقت متعدد قوانین کے تحت چل رہے تھے‘ یکسانیت کیسے پیدا کی جائے اور موجود رائج الوقت عدالتی نظاموں کے عدالتی طریق کار کو یکساں‘ بہتر اور آسان بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟ کمیشن کے جاری کردہ سوال نامے میں موجودہ قوانین کی جگہ شرعی قوانین کے نفاذ سے کوئی بحث نہیں کی گئی۔ سوال نامے میں کسی ایسی تبدیلی کی خواہش کا تاثر بھی نہیں ملتا تھا جسے اسلام کے حق میں انقلابی رجحان کہا جا سکے‘ تاہم اس موقعے پر صوبے کے عوام اور خواص نے کمیشن سے نفاذ ِ شریعت کا مطالبہ کر کے اپنی اس دیرینہ آرزو کا ایک مرتبہ پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ اظہار کیا‘ جس کی بنیاد پر پاکستان عالم وجود میں آیا تھا۔ قانون کمیشن سے سے توقع نہ رکھتے ہوئے بھی کہ وہ شرعی قوانین کے نفاذ میں کوئی اقدام کرے گا‘ اس اقدام سے وہ اپنے احساسات کو ریکارڈ پر لانا چاہتے تھے۔
مولانا مودودیؒ کے افکار اور احیاے اسلام کی جدوجہد کے اثرات ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان پر بھی پڑے تھے‘ جس کی خاکستر میں احیائے شریعت کی چنگاری پہلے ہی سے موجود تھی جسے سید مودودیؒ کی منظم جدوجہد نے شعلۂ جوالہ بنا دیا تھا۔ بلوچستان میں اس مقصد کے لیے مختلف مواقع پر ان کی چھ مرتبہ آمدورفت نے قوم پرست اور سیکولر عناصر کی مزاحمت کے باوجود عوام کو اسلامی نظام کے قیام کے لیے اٹھا کھڑا کیا تھا‘ جس کا اعادہ ایک مرتبہ پھر ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے قیام کے موقع پر ظہور پذیر ہوا۔
’بلوچستان قانون کمیشن ‘کے سوال نامے کے جوابات مرتب کرنے کے لیے جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالعزیز مرحوم نے اپنی نگرانی میں جماعت کے ایک دیرینہ مخلص رفیق صفدر رشید ایڈووکیٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی‘ جس میں عبدالمجید خان‘ حیات محمد قریشی‘ عبدالستار خان‘ مولانا عبدالحمید مینگل اور قیم صوبہ (یعنی راقم) شامل تھے۔ کمیٹی نے ۲۵ جولائی ۱۹۷۲ء سے کام شروع کر کے قانونی تشریحات کے ساتھ مفصل جوابات پر مشتمل ایک مسودہ تیار کر لیا‘ جسے صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۱۳ تا ۱۵ اگست ۱۹۷۲ء میں براے منظوری پیش کیا ‘تاکہ اس مسودے میں کوئی قانونی سقم نہ رہ جائے۔ سوال نامے کے جوابات مرتب کرنے میں جو محنت اور ریاضت کی گئی وہ کارکنانِ جماعت اسلامی کا خاص امتیاز ہے جو بانی جماعت سید مودودی میں بدرجۂ اتم پایا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جماعت کا کارکن کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور دمِ واپسیں تک ہر دم جواں اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں سرگرم عمل رہتا ہے۔ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کی یہ بھی ایک تفسیر ہے۔
’بلوچستان قانون کمیشن‘ کا یہ سوال نامہ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں اس خواہش کے ساتھ بھجوایا گیا‘ کہ وہ اس کے جو جوابات تحریر فرمائیں گے‘ وہ ایک مستند دستاویز کی صورت میں کمیشن کو پیش ہو گی۔ مولانا مودودیؒ کی جانب سے ایف سی آر‘ آرڈی ننس نمبر ا ‘اور نمبر۲ مجریہ ۱۹۶۸ء اور قاضیوں کی عدالتوں کے بارے میں قانونی معلومات کے ساتھ ساتھ قانونِ شہادت قلات اور ضابطۂ فوجداری قلاتکی قانونی کتب بھی طلب کی گئیں۔ مولانا مودودی نے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ سے متعلقہ قانونی معلومات طلب فرمائیں‘ تاکہ وہ مطالعے کے بعد جوابات مرتب کرسکیں۔
مولانا مودودیؒ کی طرف سے طلب کردہ قانونی کتب اور مطلوبہ تشریحات‘ ۲۰ اگست ۱۹۷۲ء کو مرکز جماعت لاہور بھجوا دی گئیں۔ ایک ہفتے کے بعد ۲۷ اگست کو مولانا مودودی ؒکے مرتب کردہ جوابات کا مسودہ جو ٹائپ شدہ فل سکیپ کے سات صفحات پر مشتمل تھا‘ نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان کو مکتوب گرامی ۲۶ اگست ۱۹۷۲ء کے ساتھ موصول ہو گیا۔ ا نھوں نے تحریر فرمایا:
جماعت اسلامی بلوچستان کے مرتب کردہ جوابات‘ تشریحی نوٹس‘ ضابطۂ فوجداری قلات اور قانونِ شہادت قلات موصول ہوئے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے سوال نامے میں درج سوالات کے جوابات مرتب فرما دیے ہیں۔ ان جوابات کی ایک فاضل نقل‘ مولانا محترم کے دستخطی خط بنام صدر کمیشن ارسال خدمت ہیں۔ زائد نقل جوابات مولانا محترم‘ آپ کی حسب خواہش ارسال ہے۔ آپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (خط محمد اسلم سلیمی بنام فضل الٰہی قریشی)
اس ہدایت کے مطابق مولانا مودودی ؒکے دستخطی خط بنام صدر قانون کمیشن کے ہمراہ اصل جوابات کو کمیشن‘ دفتر پہنچا دیا گیا۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے مرتب کردہ سوالات پر‘ مولانا مودودی ؒکے مرتبہ جوابات کی روشنی میں نظرثانی کر کے اسے آخری شکل دے دی گئی اور اس کی کاپیاں اندرونِ صوبہ اور بیرون صوبہ علماے کرام‘ اہم شخصیات اور جماعتی حلقوں کو اس گزارش کے ساتھ بھجوائی گئیں‘ کہ وہ اس سے استفادہ کرکے قانون کمیشن کو اپنا جواب براہ راست ارسال کریں۔ جماعت اسلامی نے پورے صوبے کو اس حوالے سے متحرک کر کے یہ جواب نامہ بھی قانون کمیشن کو بروقت پہنچا دیاتھا۔
’بلوچستان قانون کمیشن‘ نے ۳۱ اگست ۱۹۷۲ء کو جماعت اسلامی بلوچستان کے وفد کو بالمشافہ گفتگو کے لیے بلوچستان صوبائی سیکرٹریٹ کوئٹہ کے لا سیکشن میں مدعو کیا تھا۔ مولانا عبدالعزیز کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں عبدالمجید خان‘ حیات محمد قریشی‘ مولانا عبدالمجید مینگل‘ عبدالستار خان اور راقم شامل تھے۔ جسٹس فضل غنی کے ساتھ قانون کمیشن کے تمام ارکان موجود تھے۔ وفد نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جواب نامے کا بھی ذکر کیا‘ جس پر جسٹس فضل غنی نے فرمایا: ’’میں نے خصوصی طور پر اسے پڑھا ہے‘‘۔ پھر انھوں نے وہ فائل منگوائی جس میں مولانا مودودی کے جوابات تھے۔ حاضرین سے مخاطب ہوئے اور کہا: ’’مولانا مودودی سے اختلاف توہو سکتا ہے لیکن ان کے تبحرِ علمی سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ پھر انھوں نے اس کی تائیدمیں مولانا محترم کے جوابات میں سے کچھ حصے پڑھ کر سنائے جس پر حاضرین نے صاد کیا۔
بلوچستان کی معروف شخصیت قاضی محمد عیسیٰ بار ایٹ لا‘ ۱۹۴۵ء میں مسلم لیگ بلوچستان کی تشکیل کے موقع پر اس کے پہلے صوبائی صدر منتخب ہوئے تھے اور جنھوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا‘ بحیثیت رکن قانون کمیشن وہاں موجود تھے‘ وہ گویا ہوئے ’’۱۰ مارچ ۱۹۶۹ء کو راولپنڈی میں جنرل محمد ایوب خان کے ساتھ حزب اختلاف کے جو تاریخی مذاکرات ہوئے تھے‘ وہاں میں نے پہلی مرتبہ مولانا مودودی کو سنا۔ ان کا انداز سب سے منفرد تھا۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ ایک عالمِ دین کو حالات کی رفتار ا ور اس کی نبض پر پورے شعور اور ادراک کے ساتھ کس قدر گرفت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے مختصر خطاب میں پوری جامعیت کے ساتھ وہ سب کچھ سمو دیا تھا جو اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کا نقطۂ نظر تھا۔ میں ان کی شخصیت‘ خلوص اور عالمانہ تقریر سے بے حد متاثر ہوا تھا‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی جانب سے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے سوال نامے کا جواب درحقیقت وہی صداے بازگشت ہے‘ جو تاریخ پاکستان کے نشیب و فراز کے ہر موڑ پر سید مودودیؒ کی اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے پیش کرنے کی تجدیدی کاوش اور اسلامی شریعت کے ہر شعبۂ زندگی میں عملی نفاذ کی طویل جدوجہد میںواضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ انھیں یقین تھا کہ پاکستان کو خالصتاً ایک اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت کا حقیقی نمونہ بنا کر دنیاے انسانیت کو اسلام کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور تمام موجودہ نظام ہاے حیات پر اسلام کی فوقیت اور بالادستی کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔
ملک اور بلوچستان کے حوالے سے تاریخی شواہد کی روشنی میںاس تمہید ِ طولانی کے بعد‘ آگے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کا سوال نامہ اور اس کے بعد مولانا مودودیؒ کے جوابات پیش کیے جا رہے ہیں۔
l ۱- کیا صوبہ بلوچستان میں عدالت ہاے عالیہ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کو ہر قسم کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا جائے یا نہ؟ l ۲- اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو وجوہات کیا ہیں اور متبادل عدالت ہا اور کون سا طریق کار آپ تجویز کریں گے؟ l۳- کیا ایف سی آر تمام صوبے میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے یا اس کو منسوخ کیا جائے‘ اگر نافذ کیا جائے تو وجوہات تحریر فرمائیں؟ الف- اگر آپ جرگہ کا قانون چاہتے ہیں‘ تو جرگہ ممبران کی قابلیت و صلاحیت کیا ہوں؟ تعداد کتنی ہو‘ ان کی نامزدگی کتنے عرصے کے لیے ہو اور ان کو مقرر کرنے کا اختیار کسے حاصل ہو؟ ب- جرگہ کے عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے آپ کون سی عدالت تجویز کریں گے؟ l ۴- کیا آرڈی ننس نمبر۱‘اور نمبر۲ مجریہ ۱۹۶۸ء کو تمام صوبے میںیکساں طور پر نافذ کیا جائے یا منسوخ کیا جائے؟نافذ کرنے کی صورت میں وجوہات بتائیں؟ l۵- کیا تمام مقدمات کی سماعت کے لیے صوبے میں قاضیوں کی عدالت ہا قائم کی جائیں اور ان عدالتوں کے فیصلے کی اپیل کے لیے مجلس شوریٰ مقرر کی جائے یا تمام صوبے میں عدالت ہا مجسٹریٹ (سول جج) و ڈسٹرکٹ جج قائم کی جائیں؟ الف- اگر آپ کی تجاویز قاضیوں کی عدالت کے حق میں ہے تو قاضی کی عدالت کا طریق کار کیا ہو اور قاضیوں کی علمی اہلیت کیا ہو؟ l۶- کیا تمام صوبے کی فوجداری عدالتوں کے لیے یکساں طور پر ضابطہ فوجداری پاکستان ۱۸۹۸ء نافذ کیا جائے یا ضابطہ فوجداری قلات تمام صوبے میں نافذ کیا جائے؟ الف- اگر ضابطہ فوجداری قلات تمام صوبے میں نافذ کیا جائے تو کیا آپ اس میں ترامیم پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا؟ ب- کیا موجودہ ضابطہ فوجداری پاکستان میں کوئی ایسی ترمیم پیش کرنا پسند کریں گے جو اس صوبے کے اقتصادی و سماجی حالات کے مطابق ہو؟ l۷- کیا ضابطہ فوجداری میں مقرر کردہ قابل راضی نامہ جرائم کے علاوہ کوئی دیگر جرائم جو فی الحال ناقابل راضی نامہ ہیں کو قابل راضی نامہ بنایا جائے اور راضی نامہ کی شرائط کیاہوں؟ الف- کیا آپ موجودہ قابل راضی نامہ جرائم میں سے کچھ جرائم کو ناقابل راضی نامہ بنانا تجویز کریں گے؟ اگر ہاں‘ تو آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۸-کیا جھوٹے فوجداری مقدمات میں مستغیث کے خلاف عدالت کو ہرجانہ دلانے کا اختیار ہو؟ اگر ہاں تو کس قدر؟ l۹۔ موجودہ مندرجہ ذیل کورٹ فیس کی شرح میں سے آپ کس کی سفارش کرتے ہیں: ۱- مرکزی حکومت کے قانون کورٹ فیس ۵ فی صد یا ۲- ایف سی آر کے قانون کورٹ فیس ۲روپے سیکڑہ یا ۳- صوبائی حکومت کے قانون کورٹ فیس سوا گیارہ فی صد۔ الف- اور مدعی کے لیے عدالت یا اپیل کے لیے دستورالعمل دیوانی قلات کے مطابق صرف ایک روپیہ ہو۔ اور اسی طرح مدعا علیہ کے لیے بصورت اپیل ایک مرتبہ کورٹ فیس دینا لازمی ہور اور بعد کی شرح ایک روپیہ ہو۔ l۱۰-شریعت کے مطابق کورٹ فیس کا قانون کیا ہونا چاہیے‘ اور اس بارے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۱۱- کیا عدالت عالیہ میں رٹ درخواست پر فیس موجودہ شرح بحساب ۱۰۰ روپیہ یا حسب سابق پانچ روپے ہو؟ l۱۲- کیا موجودہ قانون معیاد میں شرعی قوانین کی روشنی میں آپ کچھ ترامیم پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کن کن دفعات اور آرٹیکل کے متعلق؟ l۱۳-کیا صوبے میں تمام دیوانی اور فوجداری عدالتوںکے لیے قانون شہادت پاکستان مجریہ ۱۸۷۲ء یکساں طور پر لگایا جائے‘ یا قانون شہادت قلات کے تمام صوبے کی عدالتوں پر اطلاق ہو؟ آپ جس قانون کو پسند کریں اس میں کوئی ترمیم پیش کریں گے‘ اور وہ ترامیم کیا ہیں۔ تفصیل سے بتائیں؟ l ۱۴- صوبے کی عدالتوں میں کون سا قانون شہادت رائج کیا جائے‘ اس میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۱۵- موجودہ عدالتوں کے طریق کار میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کے تدارک و سدباب کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ کیا عدالت کو فیصلہ کرنے کے لیے کوئی میعاد مقرر کی جا سکتی ہے؟ l ۱۶- کیا قاضی/ سول ججوں اور دیگر موجودہ عدالتوں کی تعداد و مقام کافی ہیں‘ یا ان کی تعداد بڑھائی جائے اور کن کن جگہوں پر ان کی ضرورت ہے؟ l ۱۷- کیا بلوچستان کے صوبے میں ہائی کورٹ کے موجودہ ایام کار کافی ہیں۔ اگر نہیں تو اس بارے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l۱۸- ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے میں کیا کیا دقتیں درپیش ہیں‘ اوران کے ازالے کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۱۹- عائلی قوانین کے نفاذ کے بارے میں لوگوں کو کس قسم کی دقتیں درپیش ہیں‘ اور ان کے تدارک کے لیے آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l ۲۰- اس صوبے میں عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ علیحدہ کرنے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l ۲۱- کیا موجودہ رواج کے مطابق مختلف مقدمات میںملوث عورتیں اور نابالغ بچوں کی سپردگی کا طریقہ سردار صاحبان و دیگر معتبران کے پاس درست ہے؟ اگر نہیں تو آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l۲۲-آپ موجودہ تفتیشی اداروں ا ور عدالتوں سے رشوت ستانی‘ بددیانتی‘ دروغ گوئی و تاخیر کو ختم کرنے کے لیے کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۲۳- کیا پولیس کی ضمنی جو دوران تفتیش تحریر کی جاتی ہے کو ملزم کو دیکھنے کا حق دیا جائے؟ اگر ہاں‘ تو کن شرائط پر؟ l ۲۴- کیا آپ کی رائے میں وہ حالات جن میں موجودہ جوڈیشل آفیسر کام کرتے ہیں (رہایش‘ تنخواہ‘ کام کرنے کی جگہ‘ لائبریری وغیرہ) ان کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں‘ اور کیا ان کی کارکردگی ان حالات کو بہتر بنا کر بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l ۲۵- تازہ قانونی اصلاحات مجریہ آرڈی ننس ۱۲‘ ۱۹۷۲ء کے خلاف آپ کی کیا شکایات ہیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l۲۶-کیا آپ مقدمات کی سماعت میں جیوری سسٹم کو رائج کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کس قسم کے مقدمات میں یہ سسٹم ہونا چاہیے اور جیوری کے ممبران کی قابلیت اور صلاحیت کس قسم کی ہو؟ ان کی تعداد کیا ہو؟ اور ان کے انتخاب کا کیا طریقہ ہو؟ l ۲۷- کیا آپ کی رائے میں خصوصی عدالتیں مثلاً انڈسٹریل کورٹ‘ ریونیو کورٹ‘ فیملی کورٹ و سپیشل کورٹ جاری رکھی جائیں‘ یا یہ کام عام عدالتیں سرانجام دیں‘ یا ان مختلف عدالتوں کے لیے خاص طور پر افسران جلیس مقرر کیے جائیں؟ اس صورت میں کیا آپ اس کے حق میںہیں کہ پنشن یافتہ جوڈیشل افسران کو ان عدالتوں کا افسر جلیس مقررکیا جائے؟ l ۲۸- سمنات کی تعمیل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کے تدارک کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ l۲۹- عدالت ہا دیوانی یا عدالت ہا قاضی سے فیصلہ ہونے کے بعد اجرا میں کیا کیا دشواریاں پیش آتی ہیں ا ور ان کے تدارک کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۳۰- کیا مقدمات دیوانی عدالت ہا قاضی میں براہ راست دائر کیے جائیں اور قاضی صاحب کو اجرا ڈگری کے کلی اختیارات دیے جائیں؟ اس بارے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو قاضی صاحب کے اختیارات و عملہ کیا ہوں؟ l ۳۱- کیا آپ صوبے میں دیوانی و فوجداری موجودہ نظام کے سلسلے میں مزید اور کوئی تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں جو بلوچستان کے صوبے کی خصوصی قانونی ضروریات کے مطابق ہوں اور آپ کی رائے میں عدالتی نظام میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مفید ہوں؟ l۳۲- مندرجہ بالا سوالات کے علاوہ کوئی اور تجویز جو آپ کی رائے میں بلو چستان میں نظام عدالت کو جلد‘ آسان‘ سستا و قابل عمل بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوں؟ l۳۳- فوجداری مقدمات میں وکیل سرکار (پبلک پراسیکیوٹر) و دیگر پولیس افسر جو کام کرتے ہیں ان کی کارکردگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ l ۳۴- کیا اس محکمے کو مزید موثر بنانے کے لیے آپ مزید کوئی اور تجاویز پیش کریں گے؟
۱- ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا اختیارِ سماعت (jurisdiction) بلوچستان کے تمام علاقوں تک وسیع کیا جائے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ہے۔ اگر صوبہ بلوچستان کے کچھ علاقے یا کچھ اقسام کے مقدمات پاکستان کے دوسرے علاقوں سے مختلف طور پر اس سے مستثنیٰ ہیں تویہ استثنا ختم کر دینا چاہیے‘ تاکہ بلوچستان کے تمام باشندوں کو اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کا اطمینان حاصل ہو سکے۔
۳- ایف سی آر کا تصور جس حکومت کے زمانے میں پیدا ہوا تھا وہ ایک بیرونی استعماری حکومت تھی‘ جس کے پیش نظر اس ملک کی آبادی کے زیادہ جان دار حصوں کو استبدادی قوانین کے ذریعے سے دبا کر رکھنا تھا۔ اس تصور کو اب پاکستان کی آزاد قومی حکومت میں ختم ہونا چاہیے اور اس قانون کا اطلاق ملک کے کسی بھی حصے میں نہ ہونا چاہیے۔ حقیقت میں اس پر لفظ ِ قانون کا اطلاق بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ انتظامیہ کے لامحدود اختیارات کی ایک دوسری شکل ہے۔ اسلام نے ایسے اختیارات نہ انتظامیہ کو دیے ہیں‘ نہ ایسے جرگوں کو دیے ہیں جو شریعت کے احکام سے نا واقف اور من مانی کارروائیوں کے عادی ہوتے ہیں۔
۴- آرڈی ننس نمبر۱‘ ۲ مجریہ ۱۹۶۸ء لاقانونی‘ قانون ہیں‘ اور پاکستان میں اس طرح کے آرڈی ننسوں کے ذریعے سے عدل و انصاف کی مٹی پلید کرنا نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہے۔ ان دونوں آر ڈی ننسوں کا نفاذ صوبہ بلوچستان میں ختم کر دینا چاہیے اور اسی معروف قانونی طریق کار کو دیوانی اور فوجداری معاملات میں اختیار کرنا چاہیے‘ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔
۵- لفظ ’قاضی‘ کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے کہ وہ جج یا مجسٹریٹ سے مختلف کوئی چیز ہے۔ اسلامی اصطلاح میں’قاضی‘ جج ہی کو کہتے ہیں۔ یہ ایک بدعت ہے کہ پرسنل لا کو جاری کرنے والے ’قاضی‘ ہوں اور عام قوانین پر فیصلہ کرنے والے جج یا مجسٹریٹ ہوں۔ یہ تصور بیرونی غیراسلامی تسلط کے بعد پیدا ہوا۔
بلوچستان کے بعض حصوں میں قاضیوں کی عدالتیں قائم رہی ہیں‘ وہ بھی نہ اسلام کے تصور کے مطابق ہیں اور نہ اسلامی معیار پر پوری اترتی ہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کو پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ اسلامی شریعت کو محض ’پرسنل لا‘ تک محدود رکھنا چاہتی ہے یا قانون کے پورے دائرے پر وسیع کرنا چاہتی ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو میںاس کو اصولاً غلط سمجھتا ہوں۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی تجویز پیش نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اگر دوسری صورت ہے تو تمام معاملات میں شرعی قوانین نافذ کیے جائیں‘ ان کے مطابق فیصلہ کرنے والوں کو اسلامی اصطلاح کے مطابق ’قاضی‘ قرار دیا جائے۔ جج اور مجسٹریٹ کی اصطلاحیں چھوڑ دی جائیں کیونکہ ان سے انگریزی قانون کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور ’قاضی‘ ایسے ہونے چاہییں جو شریعت کے قانون سے اچھی طرح واقف ہوں‘ باوقار اور پاکیزہ اخلاق کے لوگ ہوں۔ ان کو تنخواہیں اسی معیار کے مطابق دی جائیں جو ججوں اور مجسٹریٹوں کا معیار ہے۔ تمام معاملات میں مقدمات براہ راست ان کی عدالت میں پیش کیے جائیں اور ان کے فیصلے انھی کے حکم کے مطابق نافذ کیے جائیں۔ ان کے نفاذ اور عدم نفاذ کا فیصلہ کرنے میںانتظامیہ کاکوئی دخل نہ ہو۔
ان قاضیوں کے اوپر ہر ضلع میں ’صدر قاضی‘ اس طرح مقرر کیا جائے جس طرح ڈسٹرکٹ جج یا سیشن جج ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ماتحت قاضیوں کے فیصلوں کی اپیلیں کی جا سکیں۔ ’صدرقاضی‘ کی عدالت سے اوپر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی عدالتیں رہیں گی۔ انھیں لازماً اپیلوں کی سماعت میں بلوچستان کے شرعی قوانین کا لحاظ کرنا پڑے گا۔
۶- ضابطۂ فوجداری قلاتکی بہ نسبت ضابطۂ فوجداری پاکستان ۱۸۹۸ء زیادہ بہتر ہے‘ مگر اس میں شریعت کے مطابق ترمیمات ہونی ضروری ہیں‘ کیونکہ انصاف کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں اس ضابطے کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔ اسلامی فقہ کی مبسوط کتابوں میں ضابطے کی بہت سی تفصیلات موجود ہیں اور جن ملکوں میںاس وقت بھی اسلامی قانون کے مطابق عدالت کا نظام چل رہا ہے‘ ان کے طریق کار سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک تفصیلی بحث ہے اور سوال نامے کے جواب میں میرے لیے یہ [فوری طور پر] بتانا مشکل ہے کہ ضابطۂ فوجداری پاکستان میں اسلامی ضابطے کے مطابق کیا کیا ترمیمات ہونی چاہییں؟ اس لیے میں اس مسئلے کو عملی طور پر حل کرنے کے لیے تین تجویزیں پیش کرتا ہوں:
(۱) ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ جسے چھ سال پہلے مرکزی حکومت نے قائم کیا تھا‘ اس سے دریافت کیا جائے کہ اس نے ضابطۂ فوجداری پاکستان اور اسلامی ضابطے کا تقابلی مطالعہ کر کے کچھ ترمیمات مرتب کی ہیں یا نہیں۔اگر کی ہیں تو وہ کیا ہیں؟
(۲) آپ کے کمیشن کے ساتھ کم از کم دو تین صاحب فتویٰ علما کو (جو جزئیات سے اچھی طرح واقف ہوں) شامل کیا جائے‘ اور وہ دونوں ضابطوں کا تقابلی مطالعہ کر کے ضروری ترمیمات مرتب کریں۔
(۳) افغانستان میں ’فقہ حنفی‘ کے مطابق اور سعودی عرب میں ’فقہ حنبلی‘ کے مطابق پورا عدالتی نظام چل رہا ہے۔ کمیشن کے دو تین اصحاب ان ملکوں میں جا کر دیکھیں کہ ان کے ہاں کیا ضابطہ جاری ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ اسلامی قانون ایک مدت سے جاری نہیں رہا ہے‘ اس لیے دونوں ضابطوں کا فرق اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا‘ جب تک کہ اس ملک کے ضابطے سے اچھی طرح واقفیت رکھنے والے‘ ان ملکوں کے عدالتی طریقِ کار کا جائزہ نہ لیں‘ جہاں اسلامی قانون اب بھی عملاً نافذ ہے۔
۷- اس سوال کے صحیح جواب کے لیے بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ اس قانون میں قابل راضی نامہ اور ناقابل راضی نامہ جرائم کون کون سے ہیں اور اسلامی قانون میں کون سے۔ اس کا تفصیلی جائزہ ایک ایسی کمیٹی ہی لے سکتی ہے‘ جس میں موجودہ قانون کے ماہرین کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون کے بھی دو تین صاحب فتویٰ عالم شامل ہوں اور وہ ان کا تفصیلی جائزہ لیں۔ ایک نمایاں مثال دونوں قوانین کے فرق کی میں بتا سکتا ہوں‘ کہ زنا کا معاملہ بعض حالات میں موجودہ قانون کے اندر قابل راضی نامہ ہے‘ لیکن اسلام میں وہ کسی صورت میں بھی قابلِ راضی نامہ نہیں ہے۔ برعکس اس کے قتل کا معاملہ موجودہ قانون میں قابلِ راضی نامہ نہیں ہے اور اسلامی قانون اسے ایسی حالت میں قابلِ راضی نامہ قرار دیتا ہے ‘ جب کہ کسی دبائو کے بغیر مقتول کے وارث راضی نامہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس معاملے میں خود قرآن ہی کے احکام واضح ہیں۔
۸- یہ بات تو واضح ہے کہ جھوٹا مقدمہ دائر کرنا ایک جُرم ہے۔ مگر یہ جرم دو شکلوں میں روبہ عمل آتا ہے۔ ایک شکل یہ ہے کہ عام باشندوں میں سے کوئی شخص کسی شخص کے خلاف جھوٹا الزام لگا کر استغاثہ کرے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ پولیس بطور خود یا کسی کے ایما سے کسی پر جھوٹا مقدمہ قائم کرے۔ پہلی شکل میں لیجسلیچر (legislature) کو کسی مناسب جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دینی چاہیے ‘اور یہ بات عدالت پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ جرم اور مجرم دونوں کی حالت کو نگاہ میں رکھ کر قانون کی تجویز کردہ حد کے اندر کوئی جرمانہ عائد کرے۔ دوسری شکل میں جھوٹے مقدمے میں کسی شخص کو پھانسنا بھی جرم ہونا چاہیے۔ اس جرم کی قانونی یا انتظامی سزا کیا ہو؟ میرے علم کی حد تک پہلی نوعیت کے جرم کی بہ نسبت دوسری نوعیت کا جرم زیادہ ہو رہا ہے اور اس پر کوئی بازپرس نہ ہونے یا براے نام ہونے کی وجہ سے یہ ظلم حد سے بڑھتا جا رہا ہے۔
۹- کورٹ فیس کا تصور ہمارے ملک میں انگریزی دور حکومت ہی میں پیدا ہوا ہے‘ ورنہ مسلمان اس سے بالکل ناآشنا تھے اور اسلام کی پوری قانونی تاریخ میں کبھی کورٹ فیس نہیں لگائی گئی ہے۔ لوگوں کے درمیان عدل کا انتظام کرنا ایک مسلمان حکومت کے بالکل ابتدائی فرائض میں سے ہے‘ اور کورٹ فیس لگانے کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو انصاف نہیں ملے گا جب تک وہ انصاف کی فیس ادا نہ کرے۔ البتہ جو شخص ناجائز طور پر کسی کا حق مارنے کے لیے یا کسی پر ظلم کرنے کے لیے ممکنہ انصاف سے رجوع کرتا ہے اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے‘ اس پر جو بھاری سے بھاری جرمانہ ممکن ہو وہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے جھوٹی شہادت دینے والوں یا کسی قسم کی جعل سازی کرنے والوں پر بھی جرمانے عائد کیے جا سکتے ہیں۔
۱۰- اس سوال کا جواب بھی اوپر آ چکا ہے۔
۱۱- اس کا جواب بھی سوال نمبر۹ کے جواب میں آ چکا ہے۔
۱۲- اس سوال کا جواب وہی ہے‘ جو میں نے سوال نمبر۶ کے جواب میں لکھاہے۔ یہ ایک تفصیلی بحث ہے کہ موجودہ قانون میں جو معیادیں مقرر ہیں‘ وہ اسلامی قانون کے کس حد تک مطابق ہیں اور کس حد تک اس کے خلاف‘ اور ان میں کیا ترمیمات ہونی چاہییں۔ اس معاملے میں ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ سے بھی دریافت کرنا چاہیے۔
دوسرے مسلم ممالک جہاں اسلامی قانون جاری ہے ان کے ضابطے کو بھی دیکھنا چاہیے‘ اور خود اس کمیٹی میں دو تین علما کو شامل کر کے تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ موجودہ قانونِ معیاد کس حد تک انصاف کے مطابق اور کس حد تک اس کے خلاف ہے اور شریعت کے مطابق اس میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں۔
۱۳- قانونِ شہادت قلات کی بہ نسبت قانونِ شہادت پاکستانزیادہ بہتر ہے‘ لیکن اس میں بعض ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے یہ ’اسلامی قانون شہادت‘ کے مطابق ہوجائے۔ اگرچہ موجودہ قانون بھی بنیادی طور پر ’اسلامی قانونِ شہادت‘ ہی سے ماخوذ ہے‘ لیکن اس میں متعدد چیزیں ایسی ہیں جو ’شرعی قانونِ شہادت‘ سے مطابقت نہیں رکھتیں اور انصاف کے بجاے بے انصافی میں مددگار ہوتی ہیں۔ اس غرض کے لیے دونوں قوانین کا تقابلی مطالعہ ضروری ہے‘ تاکہ جہاں جہاں فرق واقع ہوتا ہو اسے نوٹ کر لیا جائے اور اسلامی قانون کے مطابق تبدیل کر دیا جائے۔ اس بارے میں بھی میری تجویز وہی ہے‘ جو میں نے سوال نمبر۶ کے بارے میں پیش کی ہے۔
۱۴- اس کا جواب سوال نمبر۱۳ کے جواب میں آ گیا ہے۔
۱۵- تاخیر کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس کو بڑی حد تک انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ریاست حیدر آباد [دکن] نے ۱۹۲۱ء ہی میں انتظامیہ کو عدلیہ سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیا تھا۔ وہاں کسی انتظامی عہدے دار کے سپرد کوئی عدالتی کام نہ تھا اور کسی حاکم عدالت کے سپرد کوئی انتظامی کام نہ تھا۔ میں چونکہ وہاں برسوں رہا ہوں‘ ا س لیے مجھے معلوم ہے کہ وہاں مقدمات کے فیصلوں میں اتنی تاخیر نہیں ہوتی تھی‘ جتنی ’برطانوی ہند‘ کی عدالتوں میں ہوا کرتی تھی۔
اس کے علاوہ تاخیر کے کچھ اسباب اخلاقی بھی ہیں: کسی شخص کو حاکمِ عدالت مقرر کرنے سے پہلے اس کی قانونی قابلیت دیکھنے کے ساتھ اگر اس کی اخلاقی پاکیزگی اور دیانت کے بارے میں بھی اطمینان کر لیا جائے ‘تو اس کا امکان نہیں رہتا کہ حاکم عدالت کسی نوعیت کے ناجائز اثر میں آ کر پیشیوں پرپیشیاں بڑھاتا چلا جائے‘ مظلوم کو تنگ کرے اور ظالم کی رسی دراز کرے۔ عدالتی انتظامیہ اور پولیس کا بھی مقدمات کو طول دینے میں اچھا خاصا دخل ہے۔ اس مرض کا علاج بھی ان لوگوں کی اخلاقی حالت درست کیے بغیر نہیں ہو سکتا‘ جو کسی نہ کسی طور پر انصاف کے انتظام سے وابستہ ہیں۔ اس امر کی نگرانی کا بھی جہاں تک مجھے علم ہے کوئی انتظام نہیں ہے کہ عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کتنی دیر لگاتی ہیں۔ اگر کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ وقتاً فوقتاً یہ دیکھا جاتا رہے کہ مقدمات کے فیصلے میں کتنی تاخیر کی گئی ہے اور کس حد تک وہ ناگزیر تھی اور کس حد تک وہ بے جا تھی‘ اور بے جا تاخیر پر حاکمانِ عدالت سے باز پرس کی جائے تو اس خرابی کا کافی حد تک تدارک کیا جا سکتا ہے۔ محض روٹین (routine) کے طور پر عدالتوںکی کارگزاری کا جائزہ لینا اس معاملے میں کچھ مفید نہیں ہے۔ جہاںتک عدالت کے لیے فیصلہ کرنے کی معیاد مقرر کرنے کا تعلق ہے‘ میرے نزدیک یہ قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا بہت بڑی حد تک مقدمات کی نوعیت سے تعلق ہے۔ اگر عدالتوں پر نگرانی اور احتساب کا انتظام معقول ہو تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس مقدمے کے فیصلے میں ناروا تاخیر ہوئی ہے اور کس کا فیصلہ معقول مدت کے اندر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تاخیر کے بہت سے اسباب ہیں‘ جن کا بہرحال قانون دان اصحاب آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں اور خود آپ کے معزز کمیشن میں ایسے اصحاب موجود ہیں۔
۱۶- میں بلوچستان کے حالات سے اتنی تفصیلی واقفیت نہیں رکھتا کہ اس معاملے میں کوئی رائے دے سکوں۔ بہرحال چونکہ بلوچستان کا رقبہ بہت وسیع ہے اور آبادی منتشر ہے‘ اس لیے عدالتیں ایسے مقامات پر قائم کی جانی چاہییں‘ جو انصاف طلب کرنے والوں کی دسترس سے بہت زیادہ دور نہ ہوں اور ایک ہی عدالت کو دیوانی‘ فوجداری اور پرسنل لا کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے‘ تاکہ انصاف طلب کرنے والے جگہ جگہ مارے مارے نہ پھریں۔ اس لحاظ سے آپ کا معزز کمیشن‘ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے حاکمانِ عدالت اور وکلا سے مشورہ لے کر بہ آسانی تحقیق کر سکتا ہے کہ آپ کے صوبے میں عدالتیں کافی ہیں یا نہیں اور آیا وہ مناسب جگہوں پر ہیں یا نہیں۔
۱۷- اس معاملے میں میرے نزدیک تو مناسب یہ ہو گا کہ سندھ و بلوچستان ہائی کورٹ کے کم از کم دو ججوں کا ایک بنچ مستقل طور پر صوبہ بلوچستان میں رہے۔ یہ صورت اگر قابلِ عمل نہ ہو تو بلوچستان کے لیے ہائی کورٹ کے موجودہ ایام کار میں اضافہ کر دینا چاہیے۔
۱۸- بلوچستان جیسے وسیع و عریض صوبے کی غریب آبادی کے لیے یہ بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے لاہور کے (یا اگر سپریم کورٹ اسلام آباد منتقل ہو جائے تو اسلام آباد کے) چکر کاٹ سکے۔ اگر ایسا ہو سکے کہ جس طرح سپریم کورٹ کے اجلاس مشرقی پاکستان میں ہوتے رہے ہیں اور جس طرح کے انتظامات اب بھی کراچی میں ہیں‘ اسی طرح کا کوئی انتظام بلوچستان میں کر دیا جائے۔ اس معاملے میں صحیح رائے‘ سندھ و بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان اور آپ کے کمیشن کے درمیان باہمی مشاورت ہی سے قائم کی جا سکتی ہیں۔
۱۹- مروجہ عائلی قوانین تواپنی بہت سی تفصیلات میں شریعت سے متصادم ہیں۔ اس لیے ان کو تو منسوخ کرنا چاہیے‘ لیکن ’محمڈن لا‘ کے نام سے جو عائلی قانون انگریزی حکومت میں رائج تھا وہ بھی بہت ناقص تھا۔ لہٰذا‘ یہ ضروری ہے کہ علما اور قانون دانوں کی ایک کمیٹی اسلام کے اصلی عائلی قانون کو پوری طرح مرتب کرے اور اس میں جدید زمانے کے قوانین کی طرح قانونی دفعات الگ اور فقہی کتابوں کی مدد سے ان کی تشریحات الگ درج کی جائیں‘ تاکہ عدالتیں ان کو صحیح طور پر مقدمات پر منطبق کر سکیں۔ جہاں تک عائلی عدالتوں کا تعلق ہے‘ ان کی علیحدہ کوئی ضرورت نہیں۔ عام عدالتیں ہی عائلی قوانین کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
۲۰- عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی چونکہ مکمل طور پر سابق ریاست حیدر آباد [دکن] میں کر دی گئی تھی اور ۲۷ سال تک اس پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے‘ اس لیے ایسے لوگوں سے اس معاملے میں مشورہ لینا مفید ہو گا جو حیدر آباد کے نظامِ عدالت سے بطور حاکم عدالت یا بطور وکیل وابستہ رہے ہیں اور ایسے لوگ کراچی میں کثرت سے موجود ہیں۔
۲۱- لاہور میں اس غرض کے لے ایک ’دارالامان‘ قائم ہے اور عدالتیں ایسی عورتوں اور نابالغ بچوں کو اس کی تحویل میں دے دیا کرتی ہیں۔ اس طرح کا کوئی انتظام اگر بلوچستان میں بھی کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ یہاں ’دارالامان‘ کا انتظام مکمل طور پر عورتوں ہی کے ہاتھ میں ہے اور آج تک کوئی شکایت ایسی سننے میں نہیں آئی کہ اس میں کوئی نامناسب صورت حال پیش آئی ہو۔ قابل اعتماد عورتیں اگر اسی طرح کے کسی ’دارالامان‘ کی منتظم ہوں تو امید ہے کہ بلوچستان میں بھی یہ طریقہ کامیاب ہو سکے گا۔
ایک یہ کہ‘ تفتیشی اداروں اور عدالتوں کے عملے اور افسروں کی اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ان میں جب تک خدا کا خوف‘ آخرت کی جواب دہی کا احساس اور اسلامی اقدار کا احترام پیدا نہ ہو گا‘ ان خرابیوں کا کوئی مداوا نہ ہو سکے گا۔
دوسرے یہ کہ‘ کم تنخواہیں پانے والوں کے سپرد جب لوگوں کی جان‘ مال اور آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری کر دی جائے تو وہ اپنے اختیارات سے ناجائز فوائد حاصل کرنے پر کچھ نہ کچھ مجبور بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے تنخواہوں پر نظرثانی بھی ضروری ہے۔
تیسرے یہ کہ‘ ان ضابطوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے‘ جن کے تحت یہ لوگ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ ان ضابطوں میں جو نقائص بھی ہوں ان کو دُور کیا جائے‘ تاکہ اختیارات کے استعمال پر ضروری پابندیاں عائد کر دی جائیں اور پھر حکومت اس بات کی سختی سے نگرانی کرے کہ ضابطوں کے خلاف کوئی اختیار استعمال نہ کیا جائے۔
اور چوتھے یہ کہ‘ اختیارات کے ناجائز استعمال پر اور ناجائز فائدے اٹھانے پر سخت سزائیں دی جائیں‘ جس سے دوسرے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔
۲۳- اس معاملے میں مناسب یہ ہو گا کہ عدالتوں کو ’’ضمنی‘‘ لازماً دکھائی جائے‘ تاکہ وہ اس کو دیکھ کر یہ اطمینان کر سکیں کہ پولیس نے ساری کارروائی صحیح طریقے پر کی ہے۔ نیز ملزم کے وکیل کو بھی عدالت کی اجازت سے اسے دیکھنے کا حق دیا جائے۔ اس کے بغیر ان زیادتیوں کا سدباب نہیں ہو سکتا‘ جو پولیس اپنے فرائض کی ادایگی اور اپنے اختیارات کے استعمال میں کرتی ہے۔
۲۴- اس سوال کا جواب اثبات میںہے۔ حاکم عدالت کی کار کردگی پر یہ ساری چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کی سکونت کا انتظام معقول ہونا چاہیے‘ خواہ اس کے لیے سرکاری عمارت فراہم کی جائے یا اس کو سکونت کے لیے الگ معقول الائونس دیا جائے۔ عدالت کے لیے کام کرنے کی جگہ بھی اچھی اور عدالت کے وقار کے مطابق ہونی چاہیے۔ حاکمانِ عدالت کی تنخواہیں بھی معقول ہونی چاہییں‘ جس سے وہ بے لاگ طریقے سے انصاف کر سکیں اور ہر عدالت کے لیے قانونی کتابوں کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔
۲۵- آرڈی ننس نمبر۱۲ ‘ ۱۹۷۲ء کے متعلق جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ وہ ایک بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے‘ اس کے متعلق سردست کوئی اظہارِ رائے کرنا مشکل ہے۔
۲۶- جیوری سسٹم ہمارے ملک میں کامیاب ثابت نہیں ہوا ہے‘ بلکہ انصاف کے کام میں مددگار ہونے کے بجاے اس سے کچھ قباحتیں ہی رونما ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے میں یہ رائے نہیں دے سکتا کہ صوبہ بلوچستان کے نظام عدالت میں اس کو اختیار کیا جائے۔
۲۷- صوبہ بلوچستان کے حالات کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں خصوصی عدالتوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کن کن خصوصی عدالتوں کی؟ میں چونکہ آپ کے صوبے سے متعلق اتنی تفصیلی معلومات نہیں رکھتا اس لیے نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طریقے کو جاری رکھنا چاہیے‘ نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ جاری رکھنا چاہیے۔
۲۸- ’سمنوں‘ کی تعمیل میںرکاوٹیں جن وجوہ سے پیش آتی ہیں‘ ان کا جائزہ لے کر ان کو رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ میری رائے میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ’سمن‘ کی تعمیل کرانے کی ایجنسی کلی طور پر عدالتوں کے ہاتھ میں ہو۔ کسی دوسری ایجنسی پر اس کا انحصار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ سمن تعمیل کرانے والے عملے کو مناسب سہولتیں بہم پہنچائی جائیں‘ اور تیسرے یہ کہ اس کام کے لیے دیانت دار آدمیوں کو مقرر کیا جائے اور ان کو معقول تنخواہ دی جائے تاکہ وہ دانستہ سمنوں کی تعمیل سے گریز نہ کریں۔
۲۹- عدالتوں کو اپنے احکام کے اجرا کے پورے اختیارات دیے جانے چاہییں۔ جہاں ان کا اجرا خود عدالت کے عملے کے ذریعے سے ہو سکتا ہو‘ وہاں اس کے لیے پورے قانونی اختیارات انھیں حاصل ہوں‘ اور جہاں حکومت کے انتظامی عملے کی کسی شاخ کے ذریعے سے ہی ان کا اجرا ممکن ہو‘ وہاں ان کے عدم اجرا کو قانوناً قابلِ گرفت قرار دینا چاہیے۔
۳۰- اس سوال کا جواب بڑی حد تک سوال نمبر۵ کے جواب میں آ چکا ہے۔ یہاں صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ: عدالت جو بھی ہو‘ اس کے پاس اپنے احکام کے اجرا کے پورے اختیارات ہونے چاہییں اور ایسی مناسب مشینری اس کے پاس ہونی چاہیے‘ جس سے وہ اپنے احکام کو جاری کر سکے۔ جو احکام عدالت کے اپنے عملے سے زائد کسی انتظامی مشینری کی مدد کے محتاج ہوں‘ ان احکام کے اجرا میں حکومت کی انتظامیہ کو از روے قانون تعاون پر مجبور کیا جانا چاہیے اور عدالت سے تعاون نہ کرنا قابل گرفت ہونا چاہیے۔
۳۱‘ ۳۲-سوالات ۳۱‘ ۳۲ کے سلسلے میں مجھے کوئی ایسی بات نہیں کہنی ہے‘ جو پہلے سوالات کے جوابات سے زائد ہو۔
۳۳‘ ۳۴- پراسیکیوشن( prosecution )کا کام پولیس کے کام سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا کوئی حصہ پولیس سے متعلق نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ جو prosecuting officer پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ انصاف اور قانون کے بجاے پولیس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرے گا۔ اس لیے پراسیکیوشن کے شعبے کو پولیس سے الگ ہونا چاہیے اور یہ ایک مستقل محکمہ ہونا چاہیے۔ اس میں تجربہ کار قانون دانوں کو ملازم رکھنا چاہیے۔ ان کی ملازمت مستقل ہو اور جس مرتبے کی عدالت کے لیے کوئی پراسیکیوٹر مقرر کیا جائے‘ اسی لحاظ سے اس کی تنخواہ کا بھی مناسب گریڈ مقرر کیا جائے۔
ابوالاعلیٰ
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ان خطوط میں سے بعض خطوط ان کے معاون خصوصی ملک غلام علی مرحوم کی طرف سے بھی ہیں۔ مولانا کے ایک قلمی تبصرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں ملک غلام علی مرحوم ‘مولانا مودودی کی تحریر کردہ عبارت کو من و عن ٹائپ کر کے اپنے دستخط سے ارسال کرتے تھے۔ البتہ بعض اوقات مولانا زبانی ہدایات دیتے تھے جنھیں ملک صاحب خط کے قالب میں ڈھال لیتے۔ چنانچہ ایسے خطوط کے آخر میں مولانا مودودیؒ کے دستخط سے یہ اضافہ ملتا ہے: ’’یہ جواب میری ہدایت کے مطابق ہے‘‘۔ (واللّٰہ اعلم)
(۱)
اچھرہ‘ لاہور
۲۴ ستمبر ‘ ۱۹۵۹ء
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ۱؎ سورہ روم کی آیت وما اتیتم من ربا… سے سب مفسرین نے عطایا اور ھدایا ہی مراد لیے ہیں۔ طبری نے جو اقوال اس کی تفسیر میں نقل کیے ہیں‘ ان سے تو بلاشبہہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں عطایا کا ذکر ہے‘ لیکن آلوسی نے اس کا ظاہر اور متبادر مفہوم جو پہلے نقل کیا ہے‘ وہ یہی ہے کہ ربا سے مراد وہی معروف اضافہ ہے‘ جسے شارع نے حرام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت بنوثقیف اور قریش کے بارے میں اتری ہے جو سودخوار تھے۔ اس کے بعد آلوسی نے دوسرا قول نقل کیا ہے کہ ۔۔۔۔ بھی اسی ترتیب سے دونوں قول بیان ہیں۔
جدید مترجمین میں سے شاہ عبدالحق اور عبداللہ یوسف علی کے علاوہ شاہ ولی اللہ صاحب‘ شاہ عبدالقادر صاحب اور شاہ رفیع الدین صاحب نے بھی ربا کا ترجمہ یہاں سود ہی کیا ہے۔ تاہم‘ اگر یہاں سود کا اضافہ محرمہ مراد نہ لیا جائے تب بھی وہ اشکالات پیدا نہیں ہوتے جو آپ نے بیان کیے ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم اپنا فاضل مال جو دوسروں کو اس غرض کے لیے عطا کرتے ہو‘ کہ وہ ان کے اموال میں مل کر بڑھوتری کا موجب ہو(اور اس اضافے میں سے تم کو بھی ملے) تو یہ درحقیقت اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت ان عطایا پر بھی حاوی ہے‘ جن سے مقصد یہ ہو کہ لینے والا پھلے پھولے اور پھر ہمیں یہ مع شے زائد واپس کرے‘ نیز یہ آیت سودی لین دین اور بالخصوص تجارتی سود پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔
اگر آپ اس تاویل کو سامنے رکھ کر اپنے اشکالات پر دوبارہ غور کریں گے تو وہ تینوں حل ہو جائیں گے اور کوئی الجھن باقی نہ رہے گی۔
یہ جواب میری ہدایات کے مطابق ہے۔ خاکسار
(۲)
جناب کا عنایت نامہ مولانا مودودی کو بروقت مل گیا تھا‘ مگر افسوس ہے کہ علالت اور بعض دیگر وجوہ کی بنا پر وہ رسید جلد نہ بھجوا سکے‘ جس کے لیے وہ آپ سے معذرت خواہ ہیں۔
موضوع متعلق کے سلسلے میں آپ نے جو حوالے احادیث کے ارسال فرمائے ہیں‘ ان کے لیے وہ آپ کے شکرگزار ہیں۔ وہ ان شاء اللہ خود ان روایات کو دیکھیں گے اور اس کے بعد حسب ضرورت آپ سے مراسلت کریں گے۔۲؎
(۳)
آپ نے اپنے مضمون میں بڑی مفید معلومات جمع کر دی ہیں۔ البتہ آخری حصہ ایک حد تک ترمیم طلب یا وضاحت طلب محسوس ہوتا ہے۔ اس حصے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چرچ کا سود کی حُرمت پر اصرار عملی زندگی کے حقائق سے ٹکراتا تھا‘ اس لیے آخرکار چرچ کو پسپا ہونا پڑا اور اس چیز کو روا ٹھیرانا پڑا جسے وہ بے جا طور پر ناروا قرار دے رہا تھا۔
دراصل چرچ کی دو کمزوریاں اس چیز کی موجب ہوئیں: ایک یہ کہ وہ کوئی ایسا متبادل مالی نظام نہ پیش کر سکا جو بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات ‘سود کے بغیر پوری کرنے کے قابل ہوتا۔ دوسرے یہ کہ چرچ کے ارباب اقتدار خود بہت بڑی دولت کے مالک و متصرف بنے ہوئے تھے۔ ان کا ضمیر کچھ کہتا تھا اور ان کا مفاد کچھ اور چاہتا تھا۔
اس خط کے ساتھ مضمون واپس نہیں کیا جا رہا‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے پتے کے بارے میں کچھ اشتباہ ہوگیا ہے۔آپ نے اپنا پورا اسم گرامی تحریر نہیں فرمایا۔ اگر مضمون کی ضرورت ہو تو خط ملنے پر مطلع فرما دیں‘ ارسال کر دیا جائے گا۔ مکمل پتا بھی تحریر فرمائیں۔
(۴)
’’انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں‘ جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کرکے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے انعامات کی شکل میں دیا جائے گا‘ اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ’انعامات‘ کن کو دیے جائیں‘ قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جائے گا۔ پہلے ہر وثیقہ دار کو سود کا لالچ دے کر اس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بجاے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’انعام‘ تیرے ہی نام نکل آئے‘ اس لیے قسمت آزمائی کر لے۔
یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے ‘ اور روح قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے‘ وہ اولاً ،اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرض کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً، جس کے نام پر ’’انعام‘‘نکلتا ہے ‘اسے دراصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا ہے۔ ثالثاً، جو بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد ’’انعام‘‘ ملے گا۔ اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت ‘سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ رابعاً، جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بصورت ’’انعام‘‘ دی جاتی ہے‘ اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام ’’انعامات‘‘نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا باقی تمام لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی‘ بلکہ صرف وہ سود‘ جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے‘ انھیں نہیں ملتا‘ بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے‘‘۔
(۵)
آپ کا خط بہت دنوں سے آیا رکھا تھا‘ اس کے ایک حصے کا جواب تو بھیج دیا گیا تھا‘ مگر بقیہ کا جواب دینے میں مصروفیت کی بنا پر غیرمعمولی تاخیر ہوگئی۔ اب ذرا فرصت پا کر مختصر جواب عرض کیا جا رہا ہے:
۱- کنز العمال کی منقولہ تین احادیث ایک اصول بیان کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حقیقی اور اہم دینی‘ اخلاقی‘ معاشی یا معاشرتی ضرورت کے لیے نیک نیتی کے ساتھ قرض لے‘ اور اچانک یا بحالت مجبوری‘ اس قرض کو ادا کیے بغیر مر جائے‘ جب کہ اس کی نیت اس قرض کو مار کھانے کی نہ تھی‘ اور وہ فی الواقع اسے ادا کرنے میں کوشاں یا اس کا خواہاں تھا‘ تو اللہ تعالیٰ اسے قرض مارنے والوں میں شامل نہ کرے گا‘ بلکہ اس کا قرض خود ادا کردے گا۔ یہ صرف ایک انفرادی اور استثنائی صورت حال سے متعلق ہے‘ اسے افراد یا اسٹیٹ بطور پالیسی کے اختیار نہیں کر سکتے۔
۲- نقد کی قیمت اُدھار کی قیمت سے مختلف رکھنے کی پوزیشن رعایت کی پوزیشن discount کی پوزیشن سے مختلف ہے۔ ایک بائع کو ہر وقت حق ہے کہ اپنے مال کی قیمت میں جس کے لیے جتنی چاہے کمی کر دے‘ یا لاگت سے بھی کم قیمت اس سے وصول کرے‘ یا اس کو مفت دے دے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بعض فقہا کے نزدیک تو نقد اور اُدھار قیمتوں کا فرق ہر حال میں ربا اور ممنوع ہے‘ لیکن اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ یہ ممانعت صرف اس صورت میں ہے‘ جب کہ یہ امر قطعی طور پر طے نہ ہو کہ یہ چیز نقد بیچی جا رہی ہے یا اُدھار پر۔ لیکن جب معاملے کا نقد یا اُدھار ہونا طے اور واضح ہو تو قیمتوں کا تفاوت ممنوع نہیں۔
۳- حدیث میں جس ولایت اور ذمہ داری کا ذکر ہے‘ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرت میں ولایت بھی مراد ہے‘ اور آنحضوؐر یا آپؐ کے جانشینوں کی طرف سے دنیوی ولایت بھی مراد ہے۔ اگر ایسے شخص کے وارث موجود نہ ہوں تو حکومت اس کا قرض ادا کرے گی اور اس کی میراث بھی لے گی۔
۴- قرعہ اندازی پر قمار کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے‘ جب کہ بہت سے لوگوں کا مال یا حق چھن کر اتفاقاً کسی ایک شخص کو پہنچ جاتا ہو۔
۵- اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک لمبی بحث درکار ہے کہ یہودی اور عیسائی مذہب میں سود کی حُرمت میں عملاً ناکامی کے کیا اسباب ہیں۔ آپ اس کے لیے ان دونوں گروہوں کی تاریخ پڑھیں۔ یہودیوں کی سوشل ہسٹری اور پاپائیت کی تاریخ دونوں ان اسباب کو عیاں کر دیتی ہیں۔
(۶)
۱- شارع علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ لاربا الا فی النسیہ۔مزیدبرآں مطلق ربوٰ اور ربوٰ الفضل کی دو الگ الگ اصطلاحات بھی استعمال فرمائی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ربوٰ اور ربوٰالفضل دونوں کی نوعیت میں مشابہت کے ساتھ ساتھ کچھ فرق ضرور ہے۔ یہ فرق اخاف علیکم الربوٰا کے ارشاد گرامی سے معلوم ہوتا ہے۔ اس ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ ربوٰالفضل عین ربا تو نہیں‘ لیکن اس سے سود کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے سود خواری کی چاٹ لگ جانے کا قوی خدشہ ہے۔ تفاضل سے سودخوارانہ ذہنیت پیدا ہونے کے خطرات کو اور ’سدباب ذریعہ‘ کے اصول پر اس کی حُرمت کو جب ایک یا دو مرتبہ بیان فرما دیا گیا تو اب ضروری نہیں تھا کہ ربوٰالفضلکے سارے معاملات میں اس علّت حُرمت کو دہرایا جاتا۔
۲- سوالات نمبر ۲ تا ۶ غالباً سود کے پرانے ایڈیشن کو پڑھ کر پیدا ہوتے ہیں۴؎۔ نئے ایڈیشن میں اس ساری بحث کو بدل کر ازسرنو تحریر کیا گیا ہے۔ اسے ملاحظہ فرمالیں۔
۳- مناجشہ اور استطالہ فی عرض المومن وغیرہ کو جس مفہوم میں ربا کہا گیا ہے‘ وہ بالکل ایک مجازی اور توسیعی مفہوم ہے۔ کتاب و سنت میں نرے قانونی دفعات بیان نہیں ہوئے اور نہ ہر مقام پر خالص اصطلاحی اور قانونی زبان استعمال کی گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے الفاظ ایسے ہیں‘ جو ایک جگہ اپنے مخصوص اور محدود اصطلاحی معانی میں مستعمل ہیں لیکن دوسری جگہ جہاں اسلوبِ بیان قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اور دعوتی ہے‘ وہاں وہی الفاظ وسیع تر معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ صدقہ کو لیجیے۔ اپنے خاص مفہوم کے اعتبار سے اس سے مراد محض مالی صدقہ واجبہ یا صدقہ نافلہ ہے۔ لیکن اس کارخیر کی تہہ میں صدق و صفا کی جواصل اسپرٹ کارفرما ہے‘ اس کا وسیع ترین تصور ذہن نشین کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رہ گزر سے کنکر پتھر ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ خندہ پیشانی سے ملاقات بھی صدقہ ہے ‘ اہل و عیال کے لیے رزق حلال کی فراہمی بھی صدقہ ہے۔ حتیٰ کہ ایک شخص تنہا نماز پڑھ رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا: کون ہے جو اپنے اس بھائی پر صدقہ کرے؟مدعا یہ تھا کہ اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے تاکہ دونوں کی نماز باجماعت ہو جائے۔
زنا کو لیجیے؟ زنا کی قانونی تعریف جس پر دنیا میں حد جاری ہوتی ہے‘ وہ تو عین مباشرت فاحشہ ہے۔ لیکن حدیث میں آنکھوں اور کانوں کے زنا کا بھی ذکر ہے۔ شرک کو لیجیے‘ ایک تو جلی شرک ہے جس سے مراد اللہ کی ذات و صفات میں دوسروں کو شریک کرنا ہے‘ لیکن اس کے علاوہ شرک خفی کی بے شمار شکلیں ہیں‘ جو شارع نے بیان کی ہیں‘ حتیٰ کہ ریا کو بھی ’شرک اصغر‘ قرار دیا گیا ہے۔
ایک آدمی جیسے جیسے کتاب و سنت کے مطالعے میں وسعت پیدا کرتا جاتا ہے‘ وہ ایک طرف قانونی انداز کلام اور دوسری جانب تبلیغی اسلوبِ بیان سے روشناس ہوتا جاتا ہے‘ اور کسی اُلجھن یا التباس کا شکار ہونے کے بجاے اس کے ذہن پر اس حقیقت کا نقش ثبت ہوجاتا ہے کہ شریعت محض ہمارے ظاہر کو تابع قوانین نہیں بنانا چاہتی‘ بلکہ اخلاقی ہدایات کی وساطت سے ہمارے باطن کا تزکیہ اور تربیت بھی اس کے پیش نظر ہے۔
(۷)
(۱-۵) ان پانچ سوالات کا جواب اس سے پہلے خط میں دیا جا چکا ہے۔ امید ہے کہ وہ مل گیا ہوگا۔
(۶) اس سوال میں آپ نے جو روایات نقل کی ہیں‘ ان میں بعض نامکمل معلوم ہوتی ہیں (مثلاً الطعام بالطعام‘ مثلاً بمثل) اور ان کے الفاظ بھی صحیح طور پر نہیں پڑھے جا سکتے۔ آپ نے ان کے لیے کنزالعمال کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے‘ جس کے بعض اجزا ہمارے پاس نہیں ہیں۔ مزیدبرآں یہ تصنیف اُمہات کتب میں سے نہیں ہے ‘بلکہ اس میں مختلف کتب حدیث سے ہر طرح کی روایات کو جمع کر دیا گیا ہے‘ اور صحت کے بجاے استیعاب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس لیے کنزالعمال کی احادیث پر استنباطِ احکام کی بنا رکھنا مخدوش ہے۔ اگر آپ تحقیق کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں اور اس کی نازک ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں‘ تو آپ کو چاہیے کہ ان احادیث کو اصل کتابوں میں تلاش کریں (کنزالعمال کی ہرحدیث کے آخر میں بالعموم راوی اور کتاب کا حوالہ درج ہوتا ہے)۔ اصل کتابوں میں حدیث کے مل جانے پر روایتاً اور درایتاً سارے پہلوئوں کو اچھی طرح جانچا جا سکتا ہے‘ اور اس کے صحیح معانی و مفہوم متعین کرنے میں شروح سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اپنی دوسری مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے یہ بڑا مشکل ہے کہ ہم کنزالعمال کی ایک ایک روایت کو پرکھنے کے لیے اتنی دُور تک جا سکیں۔
(۷) یہ بات صحیح ہے کہ فقہاے حنفیہ میں زوجین کے ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں اختلاف ہے‘ لیکن اس معاملے میں دلائل کے اعتبار سے صحیح مسلک امام ابوحنیفہؒ ہی کا ہے۔ ظاہر ہے کہ بیوی سے زکوٰۃ لینے کے بعد خاوند غنی اور صاحب استطاعت ہوجائے گا اور بیوی کا نان و نفقہ چونکہ اس پر ہر حال میں واجب ہے‘ اس لیے وہ زکوٰۃ ہی کا مال نفقے کی صورت میں بیوی کو لوٹائے گا۔ اس طرح یہ اُلٹ پھیر بالکل مہمل بن کر رہ جائے گا۔ صاحبین نے اس معاملے میں حضرت ابن مسعودؓ والی اس روایت سے استدلال کیا ہے‘ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی اہلیہ زینب ؓ سے صدقہ لینا جائز قرار دیا ہے۔ لیکن جو روایت‘ صاحب ِ مبسوط نے نقل کی ہے‘ خود اس میں ’صدقہ‘ اور ’تصدق‘ کے الفاظ ہیں جو عام اور صدقہ نافلہ پر بھی حاوی ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ یہاں صدقہ سے بھی زکوٰۃ ہی مراد لی جائے۔
(۹) آج کل مختلف ممالک کے مابین تجارتی و اقتصادی حالات کا پورا لحاظ کیے بغیر‘ جو شروح مبادلہ مقرر کی جاتی ہیں‘ ان کو نباہنا بعض اوقات عملاً محال ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جو خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے اسے خلافِ شریعت قرار دینا مشکل ہے۔ عہدنبویؐ اور بعد کے ادوار میں چونکہ درہم و دینار کی قیمت سونے چاندی کی بازاری قیمت سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی‘ اس لیے اس میں ’تفاضل ‘کے لیے کوئی بناے جواز نہ تھی۔
(۱۰) قرآن کی شانِ نزول کی طرح احادیث کے بارے میں بھی‘ خود احادیث و سیرت میں بہت سا مواد موجود ہے‘ جس سے احادیث کا زمانہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اسباب ورود حدیث کے موضوع پر مستقل تصانیف موجود ہیں۔ جس طرح علومِ قرآنی میں علمِ ناسخ و منسوخ ایک مستقل شعبہ ہے‘ اسی طرح کا ایک شعبہ علوم حدیث میں ہے۔ اگر آپ حدیث اور علمِ حدیث کا وسیع مطالعہ کریں گے‘ توآپ کو اس موضوع پر بڑا مواد ملے گا۔
(۱۱) المسلمون شرکا … فی الکلا والماء والنار والی حدیث کا آج کل کی مصنوعی محنت سے پیدا کردہ برقی قوت اور ایندھن کی کثیر مقدار پر منطبق کرنا صحیح نہیں۔ اس حدیث سے مراد تو وہ عام خود رو گھاس یا پانی ہے جو تھوڑی بہت مقدار میں افتادہ زمین یا شاملات دیہہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’آگ میں شرکت‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ نے چولھے میں آگ جلائی اور کسی ضرورت مند نے اسے تاپ لیا ‘یا اس سے چند کوئلے لے کر اپنی ضرورت پوری کرلی۔ اس حدیث سے ملک بھر کی روئیدگی‘ یا برقی قوت یا سوختنی اور سیال ذخائر کو ’’قومیانے‘‘ کا استدلال تو ایسا ہی ہے‘ جیسے بعض لوگ والارض وضعھا للانام سے زمین کو قومی ملکیت بنائے جانے کے حق میں استدلال کرتے ہیں۔
(۸)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ غِیْلہ کے سلسلے میں آپ نے جن احادیث کا حوالہ دیا ہے‘ ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ زمانہ رضاعت میں لوگوں کو ضبطِ نفس سے کام لینا چاہیے‘ تاکہ دوبارہ جلدی حمل ٹھیرجانے سے بچے کی رضاعت نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ ذہنی یا جسمانی حیثیت سے قوی اولاد پیدا کرنے کے اختیارات ہمیں تفویض کر دیے گئے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ طاقت ور اور ذہین بچے پیدا کریں۔ یہ بات تو بداہتاً غلط ہے۔
آپ کے پہلے خط کا جواب ۲۴ اگست کو دیا جا چکا ہے۔
(۹)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ شیخ الزرقا کا مضمون میں نے دیکھا ہے۔ ان کے دلائل اور اخذ کردہ نتائج سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔۵؎
(۱۰)
آپ کا خط ملا۔ آپ نے اپنے استفسار میں لکھا ہے:’فقہا کا فیصلہ یہ ہے کہ مضاربت میں اگر عامل اپنا سرمایہ لگائے تو اس کا سارا نفع عامل کو ملے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ رب المال کے سرمائے سے تجارت کر کے اس کے نفع سے بھی اپنا حصہ بٹائے گا‘۔ اس فتوے کو بنیاد بنا کر آپ نے بہت سے اشکالات و اعتراضات کرتے ہوئے ان کا حل طلب کیا ہے۔
یہ فیصلہ فقہا‘ بالخصوص فقہاے حنفیہ کے مسلک کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ حنفی مسلک کی تفصیل اس معاملے میں یہ ہے کہ مضارب‘ رب المال کے روپے کو نہ کسی دوسرے کے سپرد بطور مضاربت کرسکتا ہے‘ نہ اس مال کے ساتھ کسی دوسرے سے شرکت کرسکتا ہے‘ اور نہ اس مال کو اپنے مال میں خلط ملط کرسکتا ہے۔ البتہ رب المال اگر مضارب کو اس طرح کے تصرفات کی خصوصی اجازت دے دے‘ یا یہ کہہ دے کہ تم اپنی رائے سے جس طرح چاہو اس کاروبار کو بڑھائو‘ تو ایسی صورت میں مضارب اپنا مال صاحبِ سرمایہ کے مال میں ملا سکتا ہے۔ یہ مذاہب اربعہ کا تقریباً متفق علیہ مسلک ہے۔
فقہاے حنفیہ نے مضارب پر مزید یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ وہ قرض دے کر یا لے کر مال مضاربت میں کمی بیشی نہ کرے اور کوئی ایسی کارروائی بھی نہ کرے جو فریقین کے لیے موجب ضرر ہو‘ یا جو مضاربت و تجارت کے معروفات کے خلاف ہو۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو غاصب ہوگا اور اس پر تاوان عائد ہوگا۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مضارب اگر اپنے مال کو ساتھ ملانا چاہے‘ تو اس کے لیے فریق ثانی کی اجازت لازم ہوگی۔ فریق ثانی اگر مناسب سمجھے گا تو مضارب کو اپنا مال شامل کرنے کی اجازت دے گا‘ ورنہ نہ دے گا۔ اس اجازت کے بعد مضارب کے مال کا نفع مضارب ہی کو ملے گا‘ اور کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کو نہ ملے۔ آپ کے بیان کردہ اشکالات کچھ زیادہ وزنی نہیں معلوم ہوتے۔ سرمائے میں اضافے سے منافع میں جو اضافہ بھی ہوتا ہے‘ اس میں فریقین کا سرمایہ مل جل کر کام کرتا ہے۔ اپنی مقدار کے مطابق ہر فریق کا سرمایہ نفع آور ثابت ہوتا ہے اور تناسب سے نفع دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد زیادہ سرمائے والے کو محض سرمائے کی زیادتی کے بل پر دوبارہ مالِ مضاربت کے نفع میں شریک ٹھیرانا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
(۱۱)
آپ کا عنایت نامہ اور مضمون ملا۔۶؎ مجھے صحت کی کمزوری کے باوجود آج کل اتنے ضروری کام انجام دینے پڑ رہے ہیں‘ کہ میں کسی طرح آپ کا مضمون پڑھ کر اظہار رائے کرنے کے لیے کافی وقت نہیں نکال سکتا۔ اس قسم کے مضامین کو محض سرسری طور پر دیکھ کر رائے دے دینا صحیح نہیں ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے‘ کہ میں خود بھی جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو ازسرنو تحقیق کروں اور یہ محنت طلب کام ہے۔ اگر آپ نے نجات اللہ صدیقی صاحب کی کتاب شرکت و مضاربت کے شرعی اصول نہ دیکھی ہو تو براہِ کرم اسے ضرور دیکھ لیں۔
(۱۲)
۱- ہم پاکستان کی اراضی کو عشری سمجھتے ہیں۔ مال گزاری کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ سردست اس نظام کو تبدیل کرنے اور عُشرکا نظام رائج کرنے میں وقت لگے گا۔۷؎
۲- مجھے بالکل یاد نہیں کہ پروفیسر محمود احمدصاحب کے مضمون کے اس حصے پر میری ان سے کوئی گفتگو ہوئی تھی‘۸؎ بلکہ ان کی یہ تجویز تو آپ کے خط سے پہلی مرتبہ میرے علم میں آئی ہے۔ میں نے ان کے مضمون پر بحیثیت مجموعی اظہار پسندیدگی کیا تھا‘ نہ کہ اس کے ہر جز سے اتفاق ظاہر کیا تھا۔ میرے نزدیک غیر سودی بنکنگ کے بارے میں بہترین تجاویز وہ ہیں‘ جو نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب میں بیان کی ہیں۔
(۱۳)
عنایت نامہ ملا۔ نجات اللہ صاحب کا مقالہ مل گیا تھا۔۹؎ میں آج کل بیماری کی وجہ سے بہت تھوڑا کام کرسکتا ہوں۔ اسی وجہ سے ابھی تک اس مقالے کو نہیں دیکھ سکا۔ اگر نجات اللہ صاحب کچھ اور انتظار کرسکتے ہوں تو میں کسی وقت موقع نکال کر اسے دیکھ لوں گا اور اگر انھیں جلدی ہو تو میں پھر اسے واپس بھیج دوں۔
مکتوب نگار نے کاروباری شراکت اور تجارت کے ضمن میں ’بیع سلم‘ اور اس کی مختلف شکلوں کے بارے میں استفسار کیا‘ جس کے جواب میں مولانا مودودی کی ہدایت پرملک غلام علی صاحب نے یہ جواب بھیجا:
آپ کا خط ملا۔ شریعت میں ’بیع سلم‘ کا مطلب یہ ہے کہ پوری قیمت پیشگی ادا کر دی جائے اور مال بعد میں وصول کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مال کی قیمت‘ مقدار‘ قسم اور وقت کی ادایگی کا تعین کرلیا جائے‘ تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو۔ شریعت نے نرخ کے معاملے میں کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ اس وقت کا بازاری نرخ ہو جب سودا ہو رہا ہو یا اس سے کم و بیش ہو۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آپ کی بیان کردہ صورت ’بیع سلم‘ کی تعریف میں آسکتی ہے۔ لیکن بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ظاہری اور قانونی شکل میں جائز دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن اپنے باطن اور ہیئت کے اعتبار سے دین کی روح اور مزاج کے خلاف ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اگر ’بیع سلم‘ کے نام سے کسی ضرورت مند مقروض سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور ارزاں نرخ مقرر کرا لے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت میں اس کا معاملہ اس احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہوگا‘ جو ظاہروباطن سب کچھ جانتا ہے۔ شریعت میں نقدا نقد فروخت پر منافع کی بھی کوئی حد مقرر نہیں‘ لیکن کوئی شخص اس عدم تحدید کی آڑ لے کر منافع خوری اور گراں فروشی کرے‘ تو بعید نہیں کہ اس سے بھی عنداللہ مواخذہ ہو۔
ادھار کے جن سودوں کا ذکر آپ نے کیا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ ان میں نرخ ایسا مقرر کیا جائے جو موجودہ نرخ اور میعاد ادایگی کے متوقع نرخ کے بین بین ہو‘ تاکہ فریقین میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
(۱)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اگرچہ ’مثال پیش کرنے‘ میں اردو زبان کے لحاظ سے وہ قباحت نہیں ہے جو آپ نے بیان کی ہے اور ’پیش کرنے‘ کا لفظ لازماً یہ معنی نہیںرکھتا کہ چھوٹے کی جانب سے بڑے کے سامنے ہی پیش کیا جائے۔ لیکن آپ کی معلومات کے لیے میں یہ بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ میں نے ’اللہ مثال دیتا ہے‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ یہ رپورٹر کا اپنا کام تھا کہ اس نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے میرے الفاظ کو ’مثال پیش کرنے‘ سے بدل دیا۔ ایشیا میں میرے درسوں کی جتنی بھی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں‘ ان سب پر یہ الفاظ احتیاطاً لکھ دیے جاتے ہیں کہ ’’رپورٹنگ کی ذمہ داری ادارہ ایشیا پر ہے‘‘۔ اس کے باوجود اگر ہر درس کی رپورٹ پڑھ کر قارئین مجھ سے اس طرح کے سوالات کرنے لگیں جیسا ایک سوال آپ نے کیا ہے تو میرا اچھا خاصا وقت ان کی جواب دہی کرنے میں ہی صرف ہو جائے گا۔
(۲)
آپ کی کتاب وصول ہوگئی ہے‘ یہ خیرآبادی اسکول پر ایک قرض تھا جسے ادا کر کے آپ نے دوسروں کو سبک دوش فرما دیا۔ میں ان شاء اللہ اسے ضرور دیکھوں گا۔
(۳)
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ جمعیت علما ہند کے اس اجلاس میں‘ میں شریک تھا‘ جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ مگر مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ امام الہند کے انتخاب میں بعض اکابر علما مانع ہوئے اور یہ انتخاب نہ ہوسکا۔ تفصیلات مجھے یاد نہیں۔
مجھے جہاں تک یاد ہے یہ اجتماع لاہور میں ہوا تھا‘ نہ کہ دہلی میں۔ مولانا معین الدین مرحوم و مغفور سے مجھے کبھی نیاز حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جس رائے کا ذکر پیر ہاشم جان مرحوم نے کیا ہے وہ انھوں نے الجمعیۃ میں میرے مضامین دیکھ کر کیا ہوگا۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ جمعیت علما ہند کی کسی مجلس میں وہ مجھ سے ملے ہوں‘ مگر تعارف نہ ہوا ہو۔
ایک مدت دراز کے بعد آپ کا عنایت نامہ پاکر دل کو بڑی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس محبت و اخلاص کے لیے جزاے خیر دے کیونکہ یہ خالصتاً للہ ہے۔
یہاں جماعت کے حالات کے متعلق جو خبریں آپ لوگوں کو اخبارات کے ذریعے سے پہنچتی ہیں‘ وہ بے شک آپ لوگوں کے لیے سخت موجب اضطراب ہوتی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اخباری پروپیگنڈا ایک غلط اور مبالغہ آمیز تصویر پیش کرتا ہے۔ حقیقی صورت حال وہ نہیں ہے جو ان اخباروں کے ذریعے سے سامنے آتی ہے۔ جماعت کے ارکان اور متفقین یہاں پوری دلجمعی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اُن باتوں سے غیرمتاثر ہیں جو الگ ہونے والے چند حضرات نے کی ہیں۔ پبلک میں جماعت کے اعتماد کو بھی یہ حضرات کوئی صدمہ نہیں پہنچا سکے ہیں‘ بلکہ خدا کے فضل و کرم سے اعتماد روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جماعت کے اندر اور باہر بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کے اندر انھوں نے کچھ تذبذب کی کیفیت پیدا کی ہے۔ لیکن ان شاء اللہ اس سے کوئی قابلِ لحاظ نقصان نہ ہوگا‘ بلکہ تجربہ بہت جلد ان کے تذبذب کو بھی رفع کر دے گا۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں اور جماعت کے لیے دعاے خیر فرماتے رہیں۔
وہاں سب رفقا واحباب کو میرا سلام پہنچا دیں۔ طفیل صاحب اور نعیم صاحب اور دوسرے رفقا ے مرکز کی طرف سے بھی سلام عرض ہے۔
میں ۱۳ اگست کو Allegheny کی فلائٹ نمبر ۴۵۸ پر‘ شام کو سوا سات بجے بفیلو سے روانہ ہو رہا ہوں۔ یہ پرواز ۸ بج کر ۱۸ منٹ پر کینیڈی ایرپورٹ پہنچتی ہے۔ ۱۴ اور ۱۵ کو میں نیویارک میں رہوں گا۔ اس دو روزہ قیام کے لیے جو کچھ پروگرام بنایا گیا تھا‘ وہ غالباً انیس صاحب کے ذریعے سے آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا۔ غالباً مجیب قادری صاحب بھی اس سے واقف ہیں۔ کینیڈی ایرپورٹ پر میرے لیے وہیل چیر کا انتظام کر لیجیے گا۔
۱۶ کی صبح کو ۱۰ بجے ہمیںBOAC/Pan Amکے جہاز سے لندن روانہ ہونا ہے۔ آپ وہاں میرے اور میری اہلیہ کے لیے اس فلائٹ میں نشستیں محفوظ کرا دیں۔ ان کو یہ بھی کہہ دیں کہ میرے لیے نیویارک اور لندن میں وہیل چیر فراہم کرنا ہوگی‘ نیز غذا کے متعلق ان سے کہہ دیں کہ ہم ویجیٹیرین ڈائٹ لیں گے‘ جس میں کوئی حیوانی چربی شامل نہ ہو۔
مکرر: لندن کی جس فلائٹ کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس کے متعلق یٰسین صاحب نے اپنے خط میں BOAC/PAN AM ہی لکھا تھا ‘اس لیے میں نے اسی طرح لکھ دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ان دونوں کمپنیوں کی کوئی مشترکہ پرواز ہے یا کوئی اور صورت ہے۔ ممکن ہے کہ نیویارک میں پی آئی اے کے مینجر صاحب آپ کو کچھ بتا سکیں۔
(۲)
اس سے پہلے میں نے آپ کو اطلاع دی تھی کہ میں ۱۴ اگست کو بفیلو سے Allegheny کے جہاز پر روانہ ہوں گا‘ اور آپ ہی کے ذریعے سے میں نے سیراکیوز-نیویارک کا ٹکٹ تبدیل کرا کے‘ بفیلو-نیویارک کا ٹکٹ بنوایا تھا۔ مگر احمد فاروق کے لیے بفیلو میں مکان کا کوئی انتظام نہ ہو سکا اور ہسپتال کے جس مکان میں ہم مقیم تھے‘ وہ صرف ۲ اگست تک کے لیے ہمیں ملا ہوا تھا۔ اس لیے اب ہم پھر سیراکیوز واپس آگئے ہیں اور ہمارا پروگرام اس مجبوری کے باعث پھر تبدیل ہوگیا ہے۔
اب ہم ۱۴ اگست کو امریکن ایئرلائنز کے جہاز پر سیراکیوز سے نیویارک کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہاں سے یہ جہازشام کو ۵ بج کر ۵۵ منٹ پر روانہ ہوگا اور ہم سات بجے سے پہلے ہی La Guardia ایرپورٹ پر پہنچ جائیں گے۔ دوسرے احباب کو بھی اس سے مطلع کر دیں۔ اور انیس صاحب اگر امریکا واپس آگئے ہوں‘ یا ۱۴ اگست سے پہلے آنے والے ہوں تو انھیں بھی ٹیلی فون سے اطلاع دے دیں۔
اگر کچھ احباب اس ہفتے کے اختتام پر آنا چاہتے ہوں تو وہ بفیلو کے بجاے سیراکیوز آئیں۔
(۳)
آپ کا خط مورخہ ۲ جنوری آج ملا۔ آپ نے میرے ساتھ جس خلوص و محبت کا اظہار کیا ہے‘ اس کے لیے شکرگزار ہوں۔ آپ کے ہاں لڑکے کی ولادت کی اطلاع پاکر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نومولود کو نیک اور سعادت مند بناکر پروان چڑھائے‘ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور اسے اپنے دین کا خادم بنائے۔
اپنی اہلیہ محترمہ کو میری طرف سے اور میری اہلیہ کی طرف سے مبارک باد اور سلام پہنچا دیں۔ وہاں کے سب دوستوں کو بھی میری طرف سے سلام کہیں‘ نیزسب خواتین کو میری اہلیہ سلام کہتی ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ انور بتاتے ہیں: میں جب ایف ایس سی (پری میڈیکل) کا طالب علم تھا‘ تب سورۃ الحج آیات ۲ تا ۷پر‘ مولانا مودودی کے لکھے ہوئے حاشیے پر اپنا اشکال پیش کیا تھا:’’زندگی صرف زندہ چیزوں سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے زندگی بعد موت پر یہ استدلال: ’’ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کرگیا۔ (یہ احیاے اموات کا عمل ہے)(تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۲۰۵)‘‘۔ میری گزارش یہ تھی کہ :’’یہ Dormancy کی حالت ہے نہ کہdeath کی۔ اس پر مولانا محترم نے یہ جواب ارسال کیا:
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ جس چیز کو آپ علم النبات کی اصطلاح میں Dormancy کی حالت کہتے ہیں‘ وہی حقیقت میں موت کی حالت ہے۔ قرآن کو آپ بغور پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ موت دراصل فنا اور عدم نہیں ہے‘ بلکہ وہی Dormancy کی حالت ہے‘ یعنی حیات کی ایک جڑ اُس کے بعد بھی باقی رہتی ہے‘ جو اس وقت تک ظہور سے محروم رہتی ہے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے ظہور کے لیے سازگار حالات پیدا نہیں کر دیتا۔ پھر جونہی کہ اللہ کا حکم ہوتا ہے‘ اور اس کے ظہور میں آنے کے لیے سازگار حالات پیدا ہو جاتے ہیں‘ تو وہی حیات پھر اپنی اصل صورت میں رونما ہو جاتی ہے جو موت سے پہلے تھی۔ فرق یہ ہے کہ یہ خفتگی کی حالت نباتات کے لیے کچھ اور معنی رکھتی ہے اور انسان کے لیے کچھ اور۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں زندگی بعد موت پر جگہ جگہ بارش اور اس کے اثر سے نباتات کے اگنے سے استدلال کیا گیا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری زندگی کا سارا حصہ کارِ تجدید و احیاے دین میں گزارا‘ لیکن اپنے مجدد ہونے کا اشارہ تک بھی نہیں کیا۔ جہاں تک کام کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وہ کسی شبہے میں مبتلا نہ تھے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ایک خدشے کے جواب میں سید مودودیؒ نے لکھا:
اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدید ی کوشش کہنا ‘ جب کہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے‘ اور اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بننا چاہتا ہے۔ کم ظرف لوگ بے شک تھوڑا سا کام کر کے اونچے اونچے دعوے کرنے لگتے ہیں‘ بلکہ کام کا ارادہ ہی دعوے کی شکل میں کرتے ہیں‘ لیکن ذی فہم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کام کرنے کے بجاے دعوے کرے گا۔(ترجمان القرآن‘ جنوری ‘ فروری ۱۹۴۲ئ)
کار ِتجدید کے حوالے سے بھی سید مودودیؒ کا ذہن صاف تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں جو اظہار خیال کیا وہ اتنا منطقی اور مدلل ہے کہ کوئی غبی انسان ہی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخص ہو‘ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام دنیاے اسلام کے لیے ایک ہی مجدد ہو۔ ایک وقت میں بہت سے ملکوں میں بہت سے آدمی تجدید دین کے لیے سعی کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ شخص جو اس سلسلے کی کوئی خدمت انجام دے مجدد کے خطاب سے نوازا جائے‘‘۔ (تجدید و احیاے دین‘ ص ۴۳)
یہ حقیقت ہے کہ سید مودودیؒ کا تجدیدِ دین حق کے میدان میں بڑا کارنامہ ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی میں کئی لوگ خدمت اسلام میں مصروف رہے اور ان کے کاموں کو تجدید کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ تجدید کے اس جزوی کام کے لیے کئی ہستیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں‘ لیکن مجموعی اعتبار سے جس شخصیت کا کام کارِ تجدید کے بڑے پہلوئوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ ان کی علمی‘ فکری اور عملی کاوشیں ایسی ہیں کہ انھیں اس صدی کی سب سے زیادہ تجدیدی کام کرنے والی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے کام کی نوعیت اور انداز کا تجزیہ کرنے والا کوئی غیر متعصب اور انصاف پسند انسان انھیں تجدیدی منصب سے الگ نہیں کر سکتا۔ وہ بلاشبہہ مجددِ عصر حاضر ہیں۔
m تاریخی پس منظر: حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے حیات انسانی کا جو ماڈل موجود تھا اور جسے سید مودودیؒ جاہلیت کے مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں‘ اس میں صاحبِ اقتدار‘ مطلق العنان تھا۔ مذہبی لوگ اس کے زیر سایہ اور اس کی تائید میں کام کرتے تھے۔ ایران کی مجوسیت‘ روم کی عیسائیت اور ہندستان کا ہندو نظام‘ اس ماڈل کے نمونے تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس نظام کی نمایندہ جماعت‘ مکہ کے قریشیوں کو دعوتِ اصلاح دی جو بالآخر عسکری تصادم پر منتج ہوئی۔ آنجناب صلی اﷲ علیہ و سلم نے جاہلیت کے اس نمایندہ گروہ کو شکست دی اور ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی‘ جس میں معاشرے کے ارباب اختیار کو تقویٰ و صلاح کا نمونہ بنایا اور مجوسی تہذیب کی ثنویت کی جڑ کاٹ دی۔ پیغمبرانہ ماڈل میں زندگی ایک وحدت تھی‘ جس کے ہر پہلو میں تقویٰ و صلاح سرایت کیے ہوئے تھا اور مطلق العنان اختیار کی کوئی گنجایش نہ تھی: لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ‘خالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی اطاعت ممنوع ہے‘ کا نصب العین متعین کر دیا گیا تھا۔ (مشکوٰۃ‘ کتاب الامارہ‘ ۲۱‘ ص ۲۲۳)
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریت رازہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوئہ خیر الاممؐ
چوں سحابِ قبلہ باراں در قدم
برزمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موج خونِ او چمن ایجاد کرد
ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست
پیشِ فرعون نے سرش افگندہ نیست
خونِ او تفسیر ایں اسرار کرد
ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد٭
امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد یہ جاہلی ماڈل مزید مستحکم ہوتا گیا۔ خاندان نبوتؐ کے چشم و چراغ جانوں کا نذرانہ دے کر اس نظام کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتے رہے‘ لیکن بالآخر یہ نظام غالب آیا اور اہل تقویٰ و خیر کنارے لگا دیے گئے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے بھی کوشش کی کہ اس ماڈل کو بدل دیں ‘لیکن انھیں بھی ٹھکانے لگا دیا گیا اور انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یوں داخلی طور پر پیدا ہونے والے اس چیلنج کو بھی ختم کر دیا گیا۔ مسلمان معاشرے اس ثنویت کو برداشت کرتے اور اس کے اہل تقویٰ و خیر کبھی کبھی کھلم کھلا بغاوت کرتے رہے۔ ہماری پوری تاریخ شاہدہے کہ حکمران اور اس کے حواری اپنے آپ کو قانون اسلام سے بالاتر سمجھتے تھے اور انتظام و انصرام میں اپنی مصلحتوں کے لیے قانون کو بطور آلہ کار استعمال کرتے تھے۔ اس ماڈل کے مطابق علما کو محدود دائرے میں کام کرنا تھا: امامت و خطابت‘ درس و تدریس‘ قضا و افتا یا تزکیہ و اصلاح۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی میدانِ عمل نہ تھا۔ اگر کسی نے ذرا تجاوز کیا تو مطلق العنان اقتدار کا غیظ و غضب پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کارِنبوتؐ کی تاثیر اتنی بھرپور تھی‘ کہ مسلمان حکمرانوں کے لیے شریعت پر مبنی اجتماعی نظام کو یکسر ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ پھر یہ مسلمان اپنے تمام فسق و فجور کے باوجود بہرکیف مسلمان معاشرے کا حصہ تھے اور غالب تہذیب کے نمایندہ تھے۔ اس لیے ذاتی تعیش اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے محافظ تھے۔ اس صورت حال میں اہلِ خیر و تقویٰ نے دو راہیں اختیار کیں:
ایک راہ یہ تھی کہ اقتدار کی رسہ کشی سے کنارہ کشی اختیار کی گئی اور مسلم معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کے تحفظ کے لیے شریعت کے نفاذ میں اہلِ اقتدار سے تعاون کیا گیا۔ قضا و احتساب کے محکموں میں مناصب قبول کیے اور معاشرے میں شریعت کے نفاذ کو یقینی بنائے رکھا۔
دوسری راہ مکمل علیحدگی کی تھی۔ اس گروہ میں وہ علما و مشائخ آتے ہیں جو انفرادی طور پر استحکام شریعت اور اصلاح معاشرہ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انھی علمامیں سے کچھ نے امامت و خطابت اور درس و تدریس کے فرائض سنبھالے‘ نظام صلوٰۃ کو قائم کیا‘ مسجدوں کو آباد رکھا اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت اور مسائل میں اجتہاد و افتا کے ذریعے امت کی اجتماعی رہنمائی کا کام کیا۔ ان حضرات نے کبھی کبھی اقتدار سے اختلاف بھی کیا اور تنقید بھی‘ لیکن یہ اقدام اصلاح احوال کے لیے ہوتا تھا‘ اقتدار کے مدمقابل اور حریف کی حیثیت سے نہیں۔ جہاں تک مشائخ کا تعلق ہے تو انھوں نے مکمل طور پر اصلاح پر توجہ مرکوز کی‘ یہ انفرادی بھی تھی اور اجتماعی بھی۔ ان کے زیر اثر بعض اوقات حکمرانوں نے خیر و فلاح کے کام بھی کیے لیکن یہ حضرات عمومی طور پر اہل اقتدار سے دور رہے۔
اہل خیر و تقویٰ کا یہ اقدام دراصل ان شکستوں کا نتیجہ تھا‘ جو انھیں مقتدر قوتوں کے مقابلے میں ہوئیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اقتدار کی خونیں کش مکش میں حصہ لینے کے بجاے مسلم معاشرے کی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔ اس طرح حکمران ذاتی جنگیں لڑتے رہے‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے‘ نئے علاقے فتح کرتے رہے اور اپنی عیش و عشرت کی زندگیوں میں مشغول رہے‘ اور اہلِ خیر و تقویٰ حسب مواقع اصلاح و فلاح کا کام کرتے رہے۔ حکمران بلاشبہہ صاحب ِاختیار تھے‘ لیکن مسلم عوام پر اثر پذیری صرف اہل خیر و تقویٰ کی تھی۔ چونکہ مسلمان کسی خارجی دبائو کا شکار نہ تھے‘ اس لیے داخلی طور پر مستحکم و محفوظ رہے۔ اگرچہ فتنۂ تار تار سے اسلامی تہذیب کو تباہی کا سامنا کرنا‘ پڑا لیکن بحیثیت مجموعی داخلی نظام برقرار رہا۔ مسلم علما نے ثنویت کے اس ماڈل کو قبول کیا‘ لیکن اسے مسلمانوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا کہ مسلم معاشرے کو شریعت کے تابع رکھا اور اخلاقی اصلاح اور تعلیم و افکار کے فروغ کا کام جاری رکھا۔
مفاہمت‘ سازگاری یا کنارہ کشی کے یہ رویے ہماری تاریخ کا اہم تجربہ ہیں‘ بلکہ مجموعی طور پر ثنویت کا یہ ماڈل ہماری تاریخ کا غالب ماڈل ہے۔یہ صورت حال اس وقت تک موجود رہی جب تک استعمار نے پورے عالم اسلام کو غلام نہ بنا لیا۔ مسلم دور اقتدار میں جو شخصی‘ عائلی اور اخلاقی دائروں میں خیر و صلاح کا کام ہوتا تھا‘ اسے بھی دور استعمار نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ یوں دور استعمار میں مسلمانوں پر دہری آفت آئی۔ مسلم اقتدار کی وجاہت بھی ختم ہوئی اور معاشرے کی شرعی اور اخلاقی بنیادوں کوبھی نقصان پہنچنے لگا۔ دور استعمار نے معاشرے کی ثنویت کو نہ صرف مستحکم کیا‘ بلکہ شخصی اور عائلی زندگی میں بھی اخلاقی بنیادوں کو نقصان پہنچایا۔
سید مودودیؒ نے چند بڑے لوگوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کے تجدیدی کام کے دور رس اثرات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان سب حضرات کی ایک مشکل تھی کہ انھیں ثنویت کے ماڈل کے فریم ورک میں کام کرنا تھا۔ امام غزالی ؒ، امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانی ؒ، شاہ ولی اللہ،ؒ سب ملوکیت کے عہد میں علم‘ افتا‘ تدریس‘ قضا اور تزکیہ و اصلا ح ہی کے مراکز سے کام کرتے رہے۔ ان میں سے ہرایک کا کام عظیم الشان ہے۔ لیکن حالات کے جبر کی وجہ سے ان کا دائرہ علمی‘ فکری اور اصلاحی ہی رہا۔ علمی‘ فکری اور اصلاحی میدان میں ان حضرات کا کام بے مثال ہے اور اس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن مسلم معاشرے کے مجموعی طرز عمل میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اقتدار کے کھیل میں قواعد و ضوابط مختلف تھے اور اہل خیر و تقویٰ کے لیے ان ضوابط کے مطابق کام کرنا مشکل تھا۔
فکر و عمل کے تمام انحرافی رویوں کے یہی دو منابع تھے اور یہیں سے وہ بدروئیں چلتی رہیں‘ جن سے مسلم معاشرے کے جسد اجتماعی میں تعفن پیدا ہوا۔ مسلم مصلحین و مفکرین نے تطہیر کا کام کیا اور حتی الامکان کامیابی حاصل کی۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک تیسرے فتنے کا بھی سامنا تھا اور وہ ویدانت اور یوگ تھا۔ ایک تو ہندستان میں اسلام‘ وسط ایشیا اور ایران کے ذریعے مستحکم ہوا تھا۔ اس لیے اس کی اپنی کمزوریاں تھیں ۔اس پر مستزاد ہندو فلسفہ و معاشرت کا چیلنج تھا۔ دور استعمار میں برعظیم کی خصوصی حیثیت رہی ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا تھا۔ انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی‘ تاکہ اس اقلیت کو ہندو ازم یا عیسائیت میں جذب کیا جا سکے‘ لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ مجدد الف ثانی ؒاور شاہ ولی اللہؒ کی تجدیدی مساعی تھیں۔ ان حضرات کے فکر و عمل کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے‘ تاہم مسلمانوں کو جو چیلنج یہاں درپیش تھا وہ کہیں اور نہیں تھا۔
عمومی طور پر مسلمانوں کو دو چیلنج درپیش تھے۔ ایک‘ مغربی تہذیب کے الحادی نظریات اور بداخلاق معاشرت ‘اور دوسرے‘ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں۔ مقامی طور پر ہندوئوں کی جارحانہ سرگرمیاں اور سیاسی طور پر متحدہ ہندی قومیت کا نعرہ تھا‘ جسے انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ مغربی استعمار نے نظریۂ قو میت کو محکوم قوموں کو مزید انتشار کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عثمانی خلافت کو توڑنے میں اس نظریے کو کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ برعظیم پاک و ہند میں یہ نظریہ مسلمانوں کے ملّی تشخص کو ختم کرنے کا ذریعہ تھا۔ آریہ سماجی‘ عیسائی مشنری اور انگریز حکمران ایک تثلیث تھے جو مسلمانوں کے خلاف سرگرم تھے۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ بدترین قسم کی فرقہ بندی میں مبتلا تھے۔ معمولی معمولی فقہی و کلامی مسائل پر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی بحثیں ہوتی تھیں۔ انگریز حکمرانوں نے فرقہ وارانہ مناظروں کی حوصلہ افزائی کی اور لڑانے والے مولویوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا۔
مسلمانوں کی صورت حال کچھ اس طرح تھی: خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا‘ وسط ایشیا کو روس ہضم کر چکا تھا۔ مشرق وسطیٰ پر استعماری قوتیں قابض تھیں‘ افریقہ میں منصوبہ بندی کے ساتھ عیسائیت کے فروغ کے لیے کام ہو رہا تھا‘ اور ہندستان میں مسلمانوں کو سیکولر بنانے‘ ہندی قومیت میں ضم کرنے‘ عیسائی بنانے اور نامسلمان بنانے کی پوری کوششیں ہو رہی تھیں۔ جو تھوڑا بہت مذہبی شعور رکھتے تھے انھیں فرقہ وارانہ لڑائیوں میں الجھا دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی محکومی‘ پسماندگی‘ بے راہ روی اور انتشار نے سوچنے سمجھنے والے افراد کو بے چین کر رکھا تھا۔ اس لیے دور حاضر جو مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور ہے ‘شدید ردعمل کا دور بھی ہے۔ اسلام کی نشات جدیدہ کی جتنی زبردست تحریک اس دور میں اٹھی اتنی کبھی نہیں اٹھی‘ کیونکہ اب اسلام کی بقا اور مسلم ملت کے وجود کا مسئلہ تھا۔
نشات جدیدہ کی صدا لگی تو جمال الدین افغانی ؒ سے لے کر مفتی عبدہ ؒتک‘ ابوالکلام آزادؒ سے لے کر اقبالؒ تک اور حسن البناؒ اور سید مودودیؒ سے لے کر سید قطب شہیدؒ تک‘ ہر ایک عظمت اسلام کا پیغام دے رہا تھا۔ ایسے مخلص اور مصلح افراد پورے عالم اسلام میں سرگرم تھے‘ لیکن برعظیم کو خصوصی مقام حاصل تھا‘کیونکہ یہاں کے مسلمانوں کو مغربی علوم تک جو رسائی حاصل تھی وہ کسی اور خطے کے لوگوں کو حاصل نہ تھی۔ پھر انگریزوں نے جو محدود جمہوری روایت ہندوئوں کو تقویت دینے کے لیے شروع کی تھی‘ اس سے مسلمان بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اس لیے فکری و عملی میدانوں میں یہاں کے مسلمانوں کو زیادہ مواقع حاصل تھے۔ غالباً برعظیم کے مسلمان سب سے زیادہ بیدار مغز بھی تھے۔ پھر مولانا ابوالکلام ؒکے خطبات اور علامہ اقبالؒ کے شعری آہنگ نے نشات جدیدہ کے احساس کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں حیدر آباد‘ دکن سے اٹھنے والی آواز نے اپنا کام کیا۔ بیگم مودودیؒ کے الفاظ میں اورنگ آباد سے دہلی‘ دہلی سے دارالاسلام پٹھانکوٹ‘ دارالاسلام سے لاہور‘ لاہور سے دارالاسلام اور پھر دارالاسلام سے لاہور تک کے سفر میں ایک ہی مشن تھا جو محو سفر رکھے ہوئے تھا(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳) اور وہ احیاے اسلام کا مشن تھا ؎
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
برعظیم کے علما و واعظین کی یہی محدودیت تھی جس سے سید مودودیؒ محفوظ تھے۔ وہ درسی عالم نہ تھے کہ متون و شروح حفظ کر رکھی ہوں۔ وہ علم کے اس مرتبے پر فائز تھے جسے حکمت کہتے ہیں اور اس کے حامل کو حکیم۔ حکیم وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے دور کے متداول علوم کے اصول و فروع کو ہضم کر کے ان سے نتائج نکالے۔ ہماری تاریخ میں امام غزالی‘ؒ امام ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒاللہ کی شخصیتیں اس منصب و مرتبے پر فائز تھیں۔ شاہ ولیؒ اللہ کے بعد سید مودودیؒ کے مرتبے کا کوئی شخص شاید ہمارے ہاں نہیں آیا۔ یہ تعبیر میرے ذاتی مطالعے کا نتیجہ تھی۔
پہلا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو درست نا درست‘ سب نصوص جمع کر دیتے ہیں اور اپنی تحریروں میں ہر اس چیز کو ٹھونس دیتے ہیں جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہو‘ جیسے امام سیوطیؒ۔ دوسرا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو نصوص کو جمع کر لیتے ہیں‘ ان کی اسناد پر تحقیق کرتے ہیں اور پھر ملا کر سب کو روایت کر دیتے ہیں‘ جیسے امام شوکانی ؒ۔ تیسرا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو نصوص کو ترتیب دیتے ہیں۔ان کی تشریح کرتے ہیں‘ ان سے مسائل کا استنباط کرتے ہیں‘ ان پر تبصرہ کرتے ہیں اور پھر ان کو ایک مکمل تحقیق کے قالب میں ڈھالتے ہیں‘ جیسے امام ابن تیمیہؒ۔ ان تینوں مراتب کے اوپر ایک چوتھا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے پر وہ لوگ فائز ہیں جو اپنے ذہن میں نصوص و احکام کا پورا احاطہ کرتے ہیں‘ ان کے اندر غواصی کرتے ہیں اور جدید اصطلاح میں ان کو ضم کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ وہ تعلیمات ان کی اپنی فکر اور اپنا مزاج بن جاتی ہیں۔ پھر وہ دوسرے کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں جس طرح کوئی شخص اپنے نظریے کو پیش کرتا ہے‘ جس پر اسے مکمل دسترس حاصل ہوتی ہے اور جس قالب میں چاہے اسے ڈھال سکتا ہے۔ وہ بیان و زبان کے پہلو بدل بدل کر اسے پیش کرتا ہے‘ الگ الگ رنگ کے اسالیب میں اس کی جلوہ نمائی کرتا ہے۔ ماضی میں اس مرتبے پر فرو کش ہونے والی نمایاں شخصیت امام غزالی ؒ ہیں۔ مولانا مودودیؒ اپنی کتاب (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں) میں اور اپنی دوسری کتابوں میں‘ جو میں نے پڑھی ہیں‘ کبھی تیسرے مرتبے سے بلند ہو جاتے ہیں اور کبھی چوتھے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ موصوف علمِ وسیع‘ عقیدۂ صاف‘ ذہنِ رسا اور ترتیب و تدوین پر قدرتِ کاملہ رکھتے ہیں۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۴۴۷-۴۴۸)
سید مودودی ؒ کو تحلیل وتجزیہ اور اخذ نتائج پر جو قدرت حاصل تھی وہ انھیں اپنے تمام ہم عصر علما‘ مصنفین و مفکرین سے ممتاز کرتی ہے۔ پھر قدرت نے انھیں تدوین و ترتیب اور اظہار و بیان کا جو سلیقہ عطا کیا تھا‘ اس نے ان کی فضیلت میں اضافہ کر دیا تھا۔ ان کی یہ وہبی صلاحیتیں کارِ تجدید میں کام آئیں۔ سید مودودیؒ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا‘ اس کا حق ادا کر دیا۔ علمی‘ فکری اور اختلافی مسائل میں ان کا انداز پیغمبرانہ بصیرت سے مستفاداور اللہ کے رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
امام غزالیؒ کے ہاں فلسفے پر تنقید‘ باطنیت کا جائزہ‘ اصول فقہ پر مفصل کتاب اور پھر تصوف کی راہ سے تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کی کاوش ملتی ہے۔ امام ابن تیمیہ‘ؒ رد شرک و بدعت‘ اصلاح عقیدہ‘ فلسفہ و منطق پر تنقید اور عیسائیت کا رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ علوم شرعیہ کے ماہر اور مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی تطہیر میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سیاست شرعیہ پر ان کی مختصر کتاب اسلام کے سیاسی اصولوں کی سچی تصویر ہے۔ مجدد الف ثانی ؒ تو سیدھے سادے صوفیانہ اسلوب میں کام کرتے نظر آتے ہیں‘ جو ہماری تاریخ کا ایک لگا بندھا اسلوب ہے۔ البتہ انھوں نے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اور وہ صاحبان اختیار کو خطوط کے ذریعے اصلاح کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ اس کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کا اسوہ موجود ہے‘ تاہم اس ماڈل میں یہ ایک نئی کوشش تھی جو موثر بھی ثابت ہوئی۔ شاہ ولی ؒ اللہ کی فکر کو ایک مربوط نظام کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تمام پاکیزہ کوششیں کلی اور محیط نہیں ہیں۔ حیات انسانی کا کوئی نہ کوئی گوشہ رہ گیا ہے‘ بالخصوص وہ گوشہ جس کا تعلق انسانوں کی معاشرتی و سیاسی تنظیم سے ہے۔ ان حضرات کے ہاں اپنے وقت کے علوم اور چیلنجوں پر واضح موقف نظر آتا ہے۔ کسی خاص شاخ علم میں خصوصی کارنامہ بھی موجود ہے‘ لیکن زندگی کے بارے میں ایک کلی اور محیط اسلامی تصور واضح نظر نہیں آتا۔ ان حضرات کی یہ مشکل سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں ملوکیت کے خوفناک نظام میں کام کرنا تھا‘ جس میں قاعدہ‘ قانون اور اصول و ضوابط کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ سلطان اور امیر کی رائے قانون ہوتی ہے اور دربار میں حاسدین کی جماعت کا اثر و رسوخ ہوتا تھا۔ کسی بندۂ خدا کو کسی وقت بھی متہم کیا جا سکتا تھا اور سزا دلوائی جاسکتی تھی۔ مجدد الف ثانی ؒ کی مثال واضح ہے۔
عصرِحاضر میں تحقیق و تالیف سے وابستہ لوگوں میں مغربی فلسفہ و علم کا ناقدانہ جائزہ اور استعمار کی ریشہ دوانیوں کا ادراک موجود ہے۔ اپنی جگہ ان کے توڑ کی مساعی اور مسلمانوں میں اپنے تشخص کا شعور اور اپنے دین و تہذیب پر اعتماد بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے‘ لیکن ایک مربوط اور مکمل نظام فکر کے ساتھ نہیں۔ سید مودودیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مربوط نظام فکر دیا ہے۔ ایک ایسا نظام فکرجو کلی اور محیط ہے۔ اس کے ایک ایک پہلو میں الٰہی حکمت اور پیغمبرانہ بصیرت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری تاریخ میں مختلف گوشوں اور پہلوئوں پر آرا و افکار ملتے ہیں۔ ان میں سے کئی original اور انوکھے بھی ہیں۔ لیکن کسی بزرگ نے علم بالوحی اور پیغمبرانہ بصیرت کے فریم ورک میں ایک مربوط نظام فکر مرتب نہیں کیا۔ اس میدان میں سید مودودیؒ کا کوئی شریک و سہیم نہیں‘ نہ قدیم میں نہ جدید میں۔
میرا یہ تھیسس (thesis) ہے کہ پیغمبرانہ فریم ورک کا بنیادی نکتہ فرد کی روحانی اصلاح اور معاشرے کی عادلانہ تشکیل ہے۔ افسوس کہ خلافت راشدہ کے بعد یہی نکتہ‘ نظرانداز کر دیا گیا۔ حضرت حسینؓ کی کاوش اس نقطۂ نظر کو دوبارہ قائم کرنا تھا۔ ان کی شہادت سے یہ فریم ورک نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس پیغمبرانہ فریم ورک کے احیا کی فکری و عملی کوشش سید مودودیؒ کی فکر اور ان کی بپا کردہ تحریک ہے۔ اس فضیلت میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ درسی علما کی بڑی شخصیتیں موجود رہی ہیں اور واعظین کی تو فوجیں پھر رہی ہیں۔ سیدؒ کے معاصر علما نے ان کی تعبیر دین سے اختلاف کیا ہے۔ اس کے لیے دلائل بھی دیے ہیں۔ لیکن وہ سب اس فریم ورک کے حوالے سے ہیں جو ہماری تاریخ کا مسلمہ فریم ورک ہے۔ سیدؒ نے اسے حضور اکرمؐ کی تاریخ ساز شخصیت سے جوڑا ہے‘ جو ہمارے لیے اسوہ اور حجت ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودیؒ سے فقہی و کلامی مسائل میں اختلاف کی گنجایش ہے۔ وہ پیغمبر نہیں اور نہ معصوم کہ ان سے کسی خطا کا سرزد ہونا ناممکن ہوتا‘تاہم یہ ان کا اعزاز ہے کہ انھوں نے ایک مربوط نظام فکر دیا ہے‘ اور دین کی جو تعبیر پیش کی‘ اس کے لیے مضبوط دلائل بھی فراہم کیے۔
۱- اسلامی عقیدہ و عمل کی توضیح:رد شرک اور اثبات توحید و رسالتؐ اور آخرت اور تصور عبادت پر جدید اسلوب میں گفتگو ‘کہ جسے جدید علم کلام کہا جائے تو صحیح ہو گا۔
۲- تصور دین: غالباً اس نظام فکر میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے۔ تصور دین کے حوالے سے سید مودودیؒ نے بنیادی بات قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں کہی ہے۔ حاکمیت کا تصور اس کا مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد پورا نظام فکر گھومتا ہے۔ دین کا جامع تصور اس نظام فکر کی روح ہے اور اقامتِ دین اس کی عملی تعبیر ہے۔
۳- مغربی تہذیب اور اس کے فکری و عملی پہلوؤں پر علمی تنقید: مولانا کے ہاں الحاد‘ اشتراکیت‘ سرمایہ داری اور اباحیت پر شان دار بحثیں موجود ہیں۔ یہ گویا اپنے عہد کے چیلنج کا جواب ہے۔ اس میں عقیدہ ٔاسلامی کا دفاع بھی شامل ہے جس میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب موجود ہے۔
۴- سیاسی‘ معاشی و معاشرتی مسائل: مغربی تہذیب نے انسان کو جن معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی مسائل سے دوچار کیا ہے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات پر مبنی تجاویز۔ سیدمرحوم کے نظام فکر میں تصور دین کے ساتھ ان مسائل پر جو بحثیں موجود ہیں‘ وہ کہیں اور نہیں ملیں گی۔ قرآن و سنت کی حدود میں ایک مکمل نقشہ موجود ہے۔ اسلامی ریاست کے سلسلے میں آپ کی تحریریں قائدانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ اشتراکیت‘ سرمایہ داری اور اخلاقی آزاد روی کا ناقدانہ جائزہ اسلامی اصولوں کے دفاع کا کام دیتا ہے۔
۵- تاریخ کی اسلامی تعـبـیر: سید ؒکے ہاں نہ صرف اسلامی تاریخ کی معتبر تعبیر موجود ہے‘ بلکہ انسانی تاریخ کے مطالعے کے لیے رہنما اصول بھی موجود ہیں۔ اسی حوالے سے انھوں نے برعظیم میں ہندستانی قومیت کے خلاف لکھا اور مسلمانوں کو مسلم قومیت کے تصور سے آگاہ کیا۔
۶- قرآن کی تفـہـیم:بقول سید مودودی مرحوم قرآن شاہ کلید ہے ‘ لہٰذا دین کا جامع تصور سمجھنے کے لیے قرآن سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں(سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تفہیم القرآن‘ ج ۱)۔ سیدؒ نے قرآن کی تفہیم کے لیے جدید اسلوب اختیار کیا جو عام فہم‘ مستند اور جامع ہے۔
سید مودودیؒ کے نظام فکر کو جدید علم کلام کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ اس میں اصول و قواعد موجود ہیں‘ اصطلاحیں پائی جاتی ہیں‘ اور سب سے بڑھ کر ایک خاص زبان ہے جو اس نظام فکر کی وضاحت اور ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ تاریخ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کا غالب اسلامی نظام فکر‘ سیدمودودیؒ کا نظام فکر ہے۔ اب یہی علم کلام‘ یہی اصطلاحیں اور یہی زبان ہے جس کا سکہ چلے گا‘ ان شاء اللہ! اس نظام فکر میں تفصیلات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے‘ عمل درآمد کے لیے حکمت عملی بھی طے ہوسکتی ہے‘ اور مختلف احوال و ظروف میں ایسا ہونا بھی چاہیے‘ لیکن بنیادی اصولوںسے انحراف ممکن نہیں ہو گا۔
کار ِتجدید میں سید مودودیؒ کا کارنامہ بے مثال ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دور میں مسلمانوں کی علمی روایت کے شاہ نشین ہیں‘ بلکہ تجدید و احیاے دین کی فکری و عملی کاوشوں میں بھی قافلہ سالار ہیں۔ وہ ہماری پوری مسلم تاریخ میں بالعموم اور عصر جدید میں بالخصوص اپنی فکر اور کام کے حوالے سے نمایاں حیثیت کے حامل رہیں گے۔ جو لوگ شخصیت پرستی کے ڈر سے سید مرحوم کے بارے میں دبی زبان سے بات کرتے ہیں‘ انھیں اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ تعبیر دین کے بارے میں سید مودودیؒ سے صرف نظر کرکے ہم کہیں نہیں جاسکتے ۔سید مودودیؒ کا حوالہ اتنا طاقت ور حوالہ ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امر دل چسپی کا باعث ہو گا کہ سید مودودیؒ کی تعبیر دین اب مسلمہ تعبیر دین ہے اور جسے کم و بیش ان لوگوں نے بھی اپنا لیا ہے جو ان کی مخالفت کرتے تھے‘ مثلاً ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ کا جملہ سید مودودیؒ نے استعمال کیا۔ اس کی حیثیت ایک مسلمہ اصول کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ اور یہ نعرہ وہ لوگ بھی لگا رہے ہیں جو اس کی تہہ میں پوشیدہ تعبیر ِدین اور نظامِ فکر سے ناواقف یا خلاف ہیں۔ یقینا تجدیدِ دین حق کے حوالے سے سید مودودیؒ کا یہ بے مثال کارنامہ ہے۔
اسلام کے ذریعے دنیا میں جو انقلاب برپا ہوا وہ اپنی نوعیت کا منفرد انقلاب تھا۔ اس طرح کا انقلاب پہلے کبھی چشمِ فلک نے نہیں دیکھا تھا۔ دنیا کا مشکل ترین کام یہ ہے کہ بھٹکے ہوئے انسان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیا جائے۔ اس انقلاب کے ذریعے یہی کارنامہ انجام پایا تھا۔
یہ ایک ہمہ جہت انقلاب تھا۔ یہ انقلاب فکرونظر کا تھا‘ تہذیب و معاشرت کا تھا‘ قانون و سیاست کا تھا۔ یہ انقلاب روحانی بھی تھا اور مادی بھی۔ یہ اتنا بھرپور انقلاب تھا کہ زندگی کے تمام شعبے اس کے تابع ہوگئے اور جس رنگ میں وہ رنگنا چاہتا تھا‘ رنگ گئے۔ یہ انقلاب نسل‘ قوم اور جغرافیائی حدود سے ناآشنا تھا۔ یہ ایک عالم گیر انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پشت پر ایک طرف عقیدہ و فکر کی زبردست قوت تھی جو دلوں کو مسخر کر رہی تھی‘ دوسری طرف اسے قوتِ نافذہ یا سیاسی قوت حاصل تھی جس کی وجہ سے اس کے اصول و نظریات معاشرے میں پوری طرح جاری و ساری رہے اور جہاں کہیں کوئی رخنہ یا شگاف نظر آتا‘ اسے آسانی سے پُر کرلیا جاتا۔ یہ صورت حال جب تک اللہ نے چاہا‘ جاری رہی۔ پھر آہستہ آہستہ عقیدے اور فکر پر اضمحلال طاری ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور حکومت اور سیاست پر بھی اسلام کی گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ اس وقت تجدید و احیاے دین کی ضرورت پیش آئی اور اس سلسلے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ مجددین اور مصلحین اُمت نے جس دور میں جس طرح کی کمی محسوس کی‘ اسے دُور کرنے کی کوشش کی۔
گذشتہ دو تین صدیوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس کارِتجدید و اصلاح کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں تحریکیں کام کرتی رہی ہیں اورانھوں نے فکروعمل پر غیرمعمولی اثرات چھوڑے ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ میں اٹھارھویں اور انیسویں صدی بڑی ہنگامہ خیز رہی ہیں۔ ان میں بہت ہی زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک طرف‘ نئے افکار‘ نئی سائنسی تحقیقات‘ جدید ٹکنالوجی اور نئے عزائم اور تازہ سیاسی قوت کے ساتھ اُبھر رہے تھے‘اور دوسری طرف مسلمان دینی اور اخلاقی زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ ان کی سیاسی قوت پارہ پارہ ہوتی جارہی تھی۔ وہ مغرب کے افکار و تہذیب سے مرعوب اور خوف زدہ تھے۔ سیاسی طور پر مغربی سامراج کا اقتدار اور بالادستی انھیں اپنے نرغے میں لے رہا تھا۔یہ سلسلہ جاری رہتا تو معلوم نہیں حالات کیا رُخ اختیار کرتے اور مسلمانوں کی محکومی اور پستی اور دین سے دُوری کس حد کو پہنچتی‘ لیکن اللہ کا کرم ہے کہ انھی صدیوں میں‘ مسلمانوں میں‘ آزادی و خودمختاری کا احساس بیدار ہوا۔ اسی قیمتی احساس کے زیراثر ایسی تحریکیں بھی اُٹھیں جو اُمت مسلمہ میں ایمانی جذبہ اور دینی روح پیدا کرنا چاہتی اور اس کی پوری زندگی کو دین کی بنیاد پر منظم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں۔ یہ تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں میں اٹھیں۔ ان سب کے حالات یکساں نہیں تھے۔ اس لیے ان کی کوششوں کا انداز بھی مختلف تھا۔ جن حالات و ظروف سے وہ دوچار تھیں‘ ان کے لحاظ سے انھوں نے اپنی پالیسی اور لائحہ عمل وضع کیا۔ ان میں سے بعض تحریکوں کا یہاں نہایت مختصر الفاظ میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
l شیخ محمد بن عبدالوھابؒ (۱۶۹۴ئ-۱۷۶۵ئ) نے اپنی اصلاحی اور دعوتی کوششوںکا جب آغاز کیا تو وہ نجد و حجازجہاں سے دنیا کو توحید کا درس ملا تھا‘ بدقسمتی سے وہیں پر بے شمار بدعات و خرافات رواج پا چکی تھیں۔ شیخ کی توجہ دو باتوں کی طرف تھی: ایک تو یہ کہ بدعات و خرافات کو ختم کر کے توحید کے حقیقی تصور کو اُجاگر کیا جائے‘ اور دوسرے یہ کہ لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف رجوع کی دعوت دی جائے۔ انھوں نے اس کے لیے محمد بن سعود کی تائید حاصل کی اور ان کی مدد سے پورے حجاز سے بدعات وخرافات کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس کے اثرات بعد کی اصلاحی اور تجدیدی کوششوں میں صاف طور پر محسوس ہوتے ہیں۔
l شیخ محمد بن علی سنوسیؒ (۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) نے حجاز‘ لیبیا‘مصر‘سوڈان‘ الجزائر وغیرہ میں تربیت گاہوں کا، جنھیں’زاویے‘ کہا جاتا تھا‘نظم قائم کیا۔ انھیں وہ اسلامی زندگی کا نمونہ بنانا چاہتے تھے اور فکری اصلاح کے ساتھ عملی تربیت بھی دیتے تھے۔ اس میں فوجی تربیت بھی شامل تھی۔ وہ دنیا کی تعمیرنو کا عزم رکھتے تھے‘ اور اس کے لیے قدیم علوم کے ساتھ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کو بھی ضروری خیال کرتے تھے تاکہ جدید یورپ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس عزم و ارادے کے ساتھ وہ اٹھے تھے‘ اس کے مطابق وہ اقدامات نہیں کرسکے۔ انھوں نے اور ان کے جانشینوں نے بڑی بے جگری سے طویل عرصے تک مغربی استعمار کا مقابلہ کیا‘ لیکن ذہنی و فکری لحاظ سے عالمِ اسلام یا اس کے کسی حصے کو نہ تو مغرب کے اثرات سے بچاسکے اور نہ صنعتی لحاظ ہی سے اسے مغرب کے مقابلے کے قابل بناپائے۔
l حضرت سیداحمد شہیدؒ (ش: ۱۸۳۱ئ) کی برپا کردہ تحریک مجاہدین میں چند پہلوبہت نمایاں رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے توحید خالص کا تصور اور دوسرا اتباع سنت کا جذبہ۔ یہ تحریک جب اُٹھی تو ہندستان کے مسلمان عقیدئہ توحید سے منحرف ہوتے جا رہے تھے اور طرح طرح کی بدعات و خرافات میں گرفتار تھے۔ سیداحمدشہیدؒ اور ان کے ساتھیوں نے ان بدعات و خرافات پر براہِ راست تنقید کی اور توحید خالص کے تصور اور اس کے تقاضوں کو اجاگر کیا اور اتباعِ سنت پر زور دیا۔ اس کے نتیجے میں عملاً بہت سی بدعات اور غیراسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ ہوا۔ اس پہلو سے یہ تحریک شیخ محمد بن عبدالوہابؒ نجدی کی تحریک سے کوئی تعلق نہ رکھنے کے باوجود بہت قریب نظرآتی ہے۔
اس تحریک کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنے رفقا اور متاثرین میں تقویٰ اور خداترسی کی ایسی روح پھونک دی کہ لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں‘ دین وایمان کی ایسی بہار آگئی کہ صحابہؓ اور تابعینؒ کے دَور کی یاد تازہ ہونے لگی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اعلاے کلمۃ اللہ کی تحریک تھی۔ یہ اسلام کو سربلند کرنے اور پورے نظامِ اسلامی کو زندہ کرنے کی تحریک تھی۔ یہ ایسی سیاسی قوت حاصل کرنا چاہتی تھی کہ اسلام کے احکام کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ افسوس کہ یہ تحریک اپنوں کی سازشوں کا شکار ہو گئی‘ ورنہ کم از کم شمال مغربی ہند کا رخ بدل گیا ہوتا۔ یہ تحریک بظاہر سیاسی طور پر ناکام ہوگئی‘ لیکن اس کے رفقا اور علم بردار ہندستان میں دُور دُور تک پھیل گئے۔ ان کی کوششوں کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ اس دور کے نام ور مفکر اور صاحبِ قلم تھے۔ ان کی تحریر میں بڑی تازگی اور قوت و توانائی پائی جاتی تھی۔ دورِ جدید کے ذہن کو سمجھنے‘ اور اس کی علمی سطح سے بات کرنے کی ان میں غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل و کرم رہا کہ ان کی یہ صلاحیت شروع ہی سے دین کی خدمت اور اس کی سربلندی کے لیے وقف رہی۔ آغازِ شباب سے لے کر آخری لمحاتِ حیات تک کوئی اور ہدف ان کے سامنے نہیں رہا۔ دین پر ہونے والے علمی اور فکری حملوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ان کے جان دار قلم نے بہت سی گتھیوں کو سلجھایا‘ نت نئے اعتراضات کو رفع کیا اور شکوک و شبہات کے گردوغبار کو صاف کر کے دین کے صحیح تصور کو نکھارا۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کا برتر نظامِ فکروعمل اور آخرت کی نجات کا واحد ذریعہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی‘ جو مدعیانِ علم آج کے دور میں اسلام کوناقابلِ عمل اور ایک فرسودہ نظام قرار دے رہے تھے۔ ان کے دلائل کے بخیے ادھیڑ دیے‘ اور جو دانش ور اسے تضحیک کا نشانہ بنائے ہوئے تھے ان کی دانش وری کا بھرم کھول دیا۔ وہ اس دور میں اسلام کے نہایت متوازن عالم دین‘ انتہائی ذہین وکیل اور قابلِ اعتماد ترجمان تھے ۔ اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے اسلام کی بہت ہی عمدہ وکالت اور ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔
مولانا مودودیؒ کی زندگی کا ایک تابناک اور درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ محض مفکر اور مصنف نہ تھے‘ بلکہ انھوں نے اسلام کو معاشرے میں قائم اور نافذ کرنے کی منظم جدوجہد شروع کی اور بے شمار بندگانِ خدا کے دلوں کو اس یقین سے بھر دیا کہ اسلام غالب اور سربلند ہونے کے لیے آیا ہے۔ اگر صحیح نہج سے کوشش ہو اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں تو وہ ریگ زار عالم کو بہارستاں میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کی کامیابی و کامرانی کی راہ میں کوئی نظریہ اور کوئی فلسفہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ انھوں نے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کا جو جوش اور جذبہ بیدار کیا‘ اس نے بے شمار زندگیوں کا رخ بدل دیا اور آج بھی وہ کتنے ہی سینوں کو گرمائے ہوئے ہے۔ دین کی دعوت اور اس کے قیام کی جدوجہد کا رنگ اور جذبہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت پر اس قدر رچا بسا ہے کہ دنیا انھیں اسلامی نظام کے علم بردار ہی کی حیثیت سے جانتی اور یاد کرتی ہے۔ ان کے ذکر کے ساتھ اس جدوجہد کا تصور ذہنوں میں خودبخود اُبھر آتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جس وقت جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی (۲۶ اگست ۱۹۴۱ئ)‘ اُس وقت اگرچہ مشرق سے مغرب کا سیاسی اقتدار تو ختم ہو رہا تھا‘ لیکن فکری اور تہذیبی اقتدار جوں کا توں باقی تھا۔ ہر طرف سیاسی آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ لیکن جو لوگ یہ تحریکیں چلا رہے تھے وہ مغربی فکر سے متاثر ہی نہیں‘ بے حد مرعوب بھی تھے۔ وہ اس کی بنیادوں کو مزید مستحکم کر رہے تھے۔ آزادی کے بعد ان کے سامنے اپنے ملک اور وطن کی تعمیر کا کوئی نقشہ نہیں تھا‘ بلکہ وہ مغرب ہی کے نقشے کو اپنے ہاں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پیش نظر‘فکرونظر کی تبدیلی نہیں بلکہ صرف ہاتھوں کی تبدیلی تھی۔ اس پس منظر میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے:
۱- مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی خامیاں واضح کیں تاکہ ذہنوں میں اس سے جو مرعوبیت ہے‘ وہ ختم ہو۔ انھوں نے ثابت کیا کہ مغربی افکار اور اس کی تہذیبی اقدار کی اساس اس قدر کمزور ہے کہ اس پر کوئی اعلیٰ انسانی تہذیب نہیں کھڑی کی جاسکتی۔ جو لوگ اس کے پیچھے اپنے مسائل کے حل کی توقع لے کر دوڑ رہے ہیں‘ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں‘ ان کے ہاتھ سوائے ناکامی کے کچھ نہیں آئے گا۔
۲- مغرب نے اسلام کے عقائد‘ خدا‘وحی و رسالت‘ آخرت‘ جنت اور جہنم اور تمام مابعدالطبیعیاتی امور کا مذاق اڑایا تاکہ اسلام کی اساسات ہی پر سے یقین متزلزل ہوجائے۔ مولانامودودی نے اپنے زورِ قلم سے ثابت کیا کہ اسلام کے ان عقائدسے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے ‘ جب کہ عقل سلیم اور انسان کی فطرت ان کی تائید کرتی ہے۔ مولانا کی کتابیں رسالۂ دینیات‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات میں شامل متعدد مقالات اسی مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں۔
۳- مغرب نے اپنے سیاسی مصالح کے تحت مذہب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دے رکھا تھا‘ تاکہ وہ مذہب کو اور اس بہانے اپنے سب سے بڑے حریف اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے عبادت و ریاضت اور چند مذہبی رسوم تک محدود کر دے۔ مغرب کے اس نقطۂ نظر کو دنیا نے عملاً قبول بھی کرلیا۔ مولانا مودودیؒ نے پوری قوت کے ساتھ کہا کہ خدا اور بندے کے تعلق کو عبادات یا انسان کی نجی زندگی تک محدود کر دینا خلافِ عقل ہے۔ خدا ہے تو وہی ہماری پوری زندگی کا جائز حکمراںہے۔ کسی دوسرے کی فرماں روائی‘ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ناجائز ہے۔ اسلام صرف عبادات اور اخلاقیات ہی کا نام نہیں‘ بلکہ یہ ایک انقلابی فکر ہے جو پوری زندگی پر حکومت کرتی ہے۔ کسی دوسرے کے اقتدار کو وہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۴- مغرب نے اسلام کی بعض تعلیمات کو اپنی تنقید کا خاص نشانہ بنایا‘ اور اس کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کی‘ تاکہ اسلام سے وابستگی آدمی کے لیے عزت اور فخر کا باعث نہ ہو بلکہ وہ اس سے ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ مولانا مودودیؒ نے الجہاد فی الاسلام‘ اسلام اور ضبط ولادت‘ پردہ‘ مرتد کی سزا جیسی بے نظیر کتابیں تصنیف کر کے اور اپنے مقالات میں غلامی‘ تعدد ازدواج اور قانونِ وراثت جیسے موضوعات پر مدلّل بحث کر کے ان کی حکمت و معنویت واضح کی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔ اسی طرح بہت سے مسائل میں خود مسلمانوں کا ذہن صاف نہیں تھا۔ مولانا نے تفہیمات اور تنقیحات کے ذریعے سے صاف کرنے کی کوشش کی۔
۵- معاشیات کے میدان میں اشتراکی فکر چھائی ہوئی تھی۔ ترقی پذیر ممالک کسی اور فکر کے بارے میں سوچ بھی نہیں پا رہے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک سرمایہ داری کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک طرف تو ہیگل اور مارکس کے فلسفے پر تنقید کر کے بتایا کہ اشتراکیت کی فکری بنیاد کس قدر کمزور ہے‘ دوسری طرف سرمایہ داری کے نقصانات سے بھی باخبر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے یہ بتایا کہ اسلام‘ معاشیات کے ایسے متوازن اصول پیش کرتا ہے جو اشتراکیت اور سرمایہ داری کے نقصانات سے پاک ہیں۔ اس کی تفصیل ہمیں مولانا کی تصنیفات اسلام اور جدید معاشی نظریات‘ سود‘ معاشیات اسلام‘ مسئلۂ ملکیت زمین اور اس موضوع سے متعلق بعض مقالات میں ملتی ہے۔
۶- سیاست کے میدان میں مغربی جمہوریت سے آگے کوئی شخص سوچنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مولانا نے سیکولرڈیموکریسی (لادینی جمہوریت) پر زبردست تنقید کی اور اسلام کے سیاسی نظریے کو بہت تفصیل سے اور پوری استدلالی قوت کے ساتھ پیش کیا۔ مولانا کی یہ تحریریں ہمیں ان کی کتاب اسلامی ریاست میں ملتی ہیں اور اسلامی ریاست پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں‘ اس کتاب میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
مولانا مودودیؒ کی علمی خدمات میں تفہیم القرآن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔اس میںمولانا کی پوری فکر سمٹ آئی ہے۔ اس میں مغرب کے فلسفوں پر علمی اور سنجیدہ تنقید ہے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا بھرپور جواب ہے۔ اس طرح یہ اسلام کی ہمہ جہت‘ دل نشیں اور واضح تشریح پیش کرتی ہے۔
۱- مولانا مودودیؒکے نزدیک دین ایک ’کُل‘ ہے۔ اس کا ہر جز منطقی طور پر اس ’کُل‘ سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اس کو الگ کرکے دیکھنے سے اس کی حقیقی تصویر اُبھر کر سامنے نہیں آتی بلکہ ایسا کرنے سے بعض اوقات شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ مولانا اس حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ اسلام کے کسی بھی جز کے حقیقی ثمرات اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں‘ جب کہ اس’کُل‘کو اختیار کیا جائے۔
۲- مولانا کا انداز خالص علمی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا جرأت مندانہ ہے۔ وہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو اس طرح بے نقاب کرتے ہیں کہ انسان اس کی عظمت کا قصیدہ پڑھنے کے بجاے اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔مولانا کے ہاں جدید فکر پر جتنی بے لاگ تنقید ہے‘ اتنی کسی دوسری جگہ مشکل ہی سے ملے گی۔
۳- مولانا مودودیؒ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے آفاقی پہلو کو بہت نمایاں کیا ہے۔ دنیا بین الاقوامیت کے ہزار دعوئوں کے باوجود آج بھی نسل پرستی‘ قوم پرستی اور وطن پرستی کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوسکی ہے۔ وہ انھی دائروں میں رہ کر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتی ہے۔ مولانا‘اسلام کو اس حیثیت سے پیش کرنے میں کامیاب ہیں کہ وہ کسی گروہ یا فرقے کا نہیں‘ بلکہ ساری نوعِ انسانی کا دین ہے۔ دنیا کے ہر فرد اور ہر گروہ کی نجات اسی سے وابستہ ہے۔ بلاشبہہ انھوں نے برعظیم کے مخصوص حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا اور اس کے لیے ایک نقشۂ کار بھی پیش کیا‘ لیکن اسلام کی یہ آفاقیت ہمیشہ ان کے سامنے رہی اور وہ پوری دنیا کے لیے اسلام کے داعی بن کر اُبھرے۔
مولانا مودودیؒ کا دائرہ بحث ونظر بڑا وسیع ہے۔ اس میںقرآن مجید کی تفسیر‘اس کے اصول و مبادی‘ حدیث‘ شرحِ حدیث‘ اصولِ حدیث‘ فقہ‘ اصولِ فقہ‘ عقائد‘ علمِ کلام‘ تصوف‘ تاریخ و سیرت جیسے بیش تر اسلامی علوم آتے ہیں۔ ان کے ہاں قدیم مباحث بھی ملتے ہیں اور جدید افکار و نظریات پر بھی گفتگو ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر مولانا مودودیؒ نے دلائل کی جس قوت اور جس عمدہ اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو پیش کیا ہے‘ ایک غیر جانب دار آدمی اس کے اعتراف پر مجبور ہوتا ہے۔ مولانا نے بیش تر مسائل میں جمہورِ اُمت کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔ کہیں اختلاف کیا ہے تو دلائل کے ساتھ کیا ہے۔ بہت سے مسائل میں مولانا کے یہاں اجتہادی شان اور ان کی رائے میں انفرادیت نظرآتی ہے‘ لیکن اسے ان کے تفردات کا نام نہیں دیا جا سکتا‘ اس لیے کہ ان آراکو سلف میں سے کسی نہ کسی کی تائید ضرور حاصل ہے۔
مولانا کے علمی ماخذ کیا ہیں؟ انھوں نے کس موضوع پر کس شخصیت سے کس حد تک استفادہ کیا ہے؟ مولانا کا اس میں اپنا حصہ (contribution) کیا ہے؟ وہ کون سے پہلو ہیں جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں؟ دعوت و تحریک کے کس مرحلے میں مولانا کی کیا ترجیحات رہی ہیں اور ان کا کیا پس منظر رہا ہے؟ انھوں نے مسلمان ملکوں اور غیرمسلم ملکوں کے مسائل کو کس نظر سے دیکھا اور ان کا کیا حل پیش کیا ہے؟ اسلام کی دعوت اور اس کی سربلندی کا مولانا کے یہاں کیا تصور ہے اور دورِحاضر میںاس کے لیے انھوں نے کیا راہِ عمل تجویز کی ہے؟ وہ اپنے دور کے رجحانات سے کس حد تک متاثر ہیں اور آج کے افکار ونظریات پر وہ کس حد تک اثرانداز ہوئے ہیں؟
اس طرح کے جائزے کے بعد ہی مولانا کے پورے کام کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوگا اور اس سے ٹھیک ٹھیک فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔
خوشی کی بات ہے کہ مولانا کی نگارشات اور تحریریں مدوّن اور مرتب ہورہی ہیں اور ان پر تحقیق کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کے تراجم کا کام بھی بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ جن علمی اور فکری پہلوئوں کی طرف مولانا کی توجہ نہیں ہو سکی تھی‘ ان کی طرف توجہ کی جا رہی ہے۔ جن موضوعات پر مولانا کے ہاں صرف اشارات ملتے ہیں۔ ان کی تفسیر اور وضاحت ہو رہی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے دین کا جو ہمہ گیر اور انقلابی تصور پیش کیا‘ اس میں اب اجنبیت نہیں رہی‘ بلکہ وہ عام ہو رہا ہے۔ اس نہج پر غوروفکر اور بحث و تحقیق کا عمل دنیا کے مختلف خطوںمیں جاری ہے۔ حالات کے لحاظ سے نئے نئے موضوعات زیربحث آرہے ہیں‘ یہ کام افراد کے ذریعے انجام پا رہا ہے اور مختلف ادارے بھی اس میں شریک ہیں۔ اس وسیع پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو تحریک اسلامی اپنے علمی سرمایے کے لحاظ سے کافی آگے نظرآتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کا کام صرف علمی نوعیت کا نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ انھوں نے اسلام کو قائم اور غالب کرنے کے لیے عملاً جدوجہد شروع کی اور اس کے لیے ایک منظم تحریک برپا کی۔ مولانا نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اسلام کوئی قومی مذہب نہیں ہے‘ بلکہ وہ خدا کا دین ہے اور اس کے ماننے والے ایک اُمت ہیں۔ یہ اُمت دین ہی کی اساس پر وجود میں آئی ہے۔ جو شخص اس دین کے عقائد و نظریات پر ایمان لے آئے وہ اس کا جز اور اس کا فرد بن جاتا ہے۔ اس اُمت کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹے بڑے اختلافات کو فراموش کر کے دین کی سربلندی کے لیے متحد ہوجائے اور اپنے فکروعمل سے اس کی شہادت دے۔
مولانا مودودیؒ کے اس پورے علمی اور عملی کام پر اعتراضات بھی ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ اس وقت ان اعتراضات کا جواب یا مولانا مودودیؒ کا دفاع پیشِ نظر نہیں ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس دنیا میں پیغمبروں کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں۔ ہر ایک سے کمزوریوں اور خامیوں کا صدور ہواہے اور ہوتا رہے گا۔ اس سے بڑی سے بڑی شخصیت مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن یہ سخت ناانصافی بلکہ کم ظرفی ہوگی کہ کسی خادمِ دین کی دو ایک یا چند فروگزاشتوں کی وجہ سے اس کے تمام مفید کارناموں پر پانی پھیر دیا جائے۔ مولانا مودودیؒ بھی انسان تھے۔ دینی مسائل کی جو تفہیم و تشریح انھوں نے کی ہے اور جو وسیع علمی ذخیرہ چھوڑا ہے‘ اس کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہر خامی سے پاک ہے۔ اس میں فروگزاشت کا امکان ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام کے قیام کے لیے انھوں نے جو کوششیں کیں اور جو اقدامات کیے ان میں سے بھی بعض سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان کی دینی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی نظام کے قیام کی جب بھی اور جہاں بھی کوشش ہوگی‘ انھی کے علم وفکر سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔
مولانا مودودیؒ کی گوناگوں اور متنوع دینی خدمات کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ قبول عطا فرمایا اور بے شمار بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دی۔ وہ ان سے قربت و تعلق ہی نہیں محسوس کرتے بلکہ ان کے شیفتہ اور گرویدہ ہیں۔ یہ تعلق اور محبت توقع ہے کہ مولانا مودودیؒ کے لیے ذخیرۂ آخرت ثابت ہوگا۔ اس لیے کہ اس سے کوئی مادی غرض یا دنیوی منفعت وابستہ نہیں ہے۔ یہ محض اللہ کے لیے اور اس کے دین کے لیے ہے۔
عرب ممالک میں سید مودودیؒ کی آواز اس وقت پہنچی جب عرب کے بڑے بڑے اشاعتی مراکز نے بیروت‘ قاہرہ اور دمشق سے ان کی کتب شائع کرنا شروع کیں۔ مطالعے اور اثرپذیری کے اس دائرے میں اتنی وسعت آئی کہ پہلے تو سید مودودیؒ کو اسلامی احیا سے وابستہ تحریکی حلقوں نے سید قطبؒ اور حسن البنا ؒکی صف میں شامل کیا‘ لیکن بہت جلد ان کی فکری گہرائی‘ اجتہادی روح اور اسلامی تعلیمات پر تحقیقات میں اعلیٰ درجے کے رسوخ نے انھیں عرب اہلِ علم کی نظر میں حسن البنا شہیدؒ اورسید قطب شہیدؒ جیسے عظیم قائدین سے بھی فائق تر تسلیم کرلیا۔
ہم عرب دنیا کے آخری منطقے مراکش کے رہنے والے ہیں۔ جب سیدمودودی کی تحریریں ہم تک پہنچیں تو ان کے افکار اور ان کی آرا ہماری روح میں رچ بس گئیں۔ ہم نے ان میں ایمانی حرارت اور عملی قوت محسوس کی۔
مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں میٹرک کا طالب علم تھا تو تنظیم کے ذمہ داران نے ان کی کتاب دینیاتکا اجتماعی مطالعہ رکھا ‘اور اس کے فوراً بعد قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اجتماعی مطالعے کے نصاب میں رکھی۔ بعدازاں بالترتیب تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ حقوق الزوجین اور پھر خلافت و ملوکیتپڑھنے کو دیں۔
نصابی مطالعے کی یہ ترتیب‘ اور نشست میں ہونے والے مباحث میری اور میرے ہم عمر نوجوانوں کی ایک طرف تو پیاس بجھاتے اور دوسری جانب ہماری فکری پیاس کو خوب بڑھاتے۔ ہمارا جی چاہتا کاش! ہم اُردو جانتے اور ان کی ایک ایک کتاب کا ایک ایک ورق پڑھے بغیر دم نہ لیتے۔ اس مطالعے نے ہمیں سید مودودیؒ کی علمیت‘ ان کی زندگی کے کارنامے اور تصانیف کی اہمیت کو جاننے کا ایک شوق اور جذبہ دیا۔ ان کی تحریروں میں ہم نے اپنا یہ گوہر مقصود پالیا کہ عصرجدید کے بہت سارے سوالات کا ہمیں جواب کیسے دینا چاہیے؟
اس کے علاوہ ایک عجیب تجربہ ہوا کہ‘ مراکش جیسے دُور علاقے میں رہنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چلتا پھرتا محسوس کرنے لگے۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم اُن کے مسائل کا کرب محسوس کرتے ہیں‘ اُن کی خوشی ہماری خوشی ہے‘ اور ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔ ہم یہ تک بھول گئے کہ ہم مسلم دنیا کے دوسرے سرے پر رہنے والے ہیں۔ دین کے لیے مولانامودودیؒ سے محبت نے ہمارے ذہنوں سے جغرافیائی سرحدوں‘علاقائی فاصلوں اور تہذیب و ثقافت کے بعد کو نکال دیا۔ ہمارے دل کی دھڑکنوں نے تسلیم کیا کہ دین کی محبت سب سے زیادہ طاقت ور محبت ہے۔ ہم پکار اُٹھے کہ اُمت مسلمہ کا دکھ اور درد مشترک ہیں۔ عظیم شاعر شوقی کہتا ہے ع
ولٰکـن کلــنا فی الــھم شــرق
مولانا مودودی ؒکی فکر‘ جہاد زندگانی اور اصولی سیاست نے ہمیں بہت سے اسباق سے روشناس کرایا‘ مثال کے طور پر:
سید مودودیؒ نے ہمیں بہت کچھ سکھایا‘ بہت کچھ بتایا اور بہت کچھ کرنے کا اسلوب راسخ کیا۔ یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے کہ امام مودودیؒ عالمِ عرب کی اسلامی فکر اور تحریکوں پر مشتمل اجتماعیت پر اثرانداز ہوئے۔ درحقیقت آپ کی عمدہ فکر ‘ موثر جدوجہد اور بے ریا شخصیت کی وجہ سے آپ کی دعوت پر مشتمل صداے بازگشت دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں سنی جاسکتی ہے۔ اس بیان میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بڑے بڑے معاصر عرب مفکرین کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر سید مودودیؒ کی فکر نے گہرے اثرات ثبت کیے۔ عرب دنیا میں یہ فکر ان کی کتب کے ذریعے پہنچی ‘جنھیں پڑھ کر نوجوانوں میں سید مودودیؒ سے وابستگی پیدا ہوئی۔ اسی وجہ سے سیکولر عرب دانش ور ان کے مخالف بن گئے‘ اور سید مودودیؒ اور سید قطبؒ کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ ان ناقدین میں عرب قومیت کے علم بردار پیش پیش تھے‘ جنھیں یہ بات گوارا نہیں تھی کہ کوئی غیرعرب عالم‘ علاقے اور زبان کے اختلاف کے باوجود عرب دنیا کے اتنے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لے کہ وہ سیکولرزم سے منہ موڑ کر اسلام سے وابستہ ہونے کے لیے میدان میں نکل آئیں۔
سید مودودیؒ درحقیقت ایک صاحب قلم ہی نہیں‘ بلکہ میدانِ عمل کے شہسوار‘ داعی اور مربی بھی ہیں۔ اس لیے ان کی علمی کتب کو عملی جدوجہد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی انقلابی قائد کی فکر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے‘ مذکورہ فرد کی عملی زندگی کی روشنی میں دیکھا جائے۔
انھوں نے زندگی بھر کسی مخالف سے مخالف فرد کے لیے تکلیف دہ الفاظ نہیں برتے اورنہ کفر کے فتوے دیے ہیں۔ لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ سید مودودیؒ کے عرب مخالفین ایک یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم خیالوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے ایمان کو ناقص قرار دیتے ہیں‘ حالانکہ انھوں نے کہیں بھی ایسی بات نہیں کہی۔
اللہ تعالیٰ سید مودودیؒؒ کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور اپنے برگزیدہ بندے کے تذکرے اور اعمال کو دائمی نیکیوں کا ذریعہ بنائے۔
مقصدی عملی صحافت میں شرکت کے کئی تجربوں کے بعد آپ ایک نمایاں مفکر کے طور پر سامنے آئے۔ آپ ان مسلم علما سے ممتاز تھے جو ہندو اکثریت کی جماعت کانگریس یا اس کے ہم نوا قافلے میں شامل ہو چکے تھے۔ اسی طرح آپ ان مسلم مفکرین سے بھی الگ تھے جو مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ سید مودودیؒ ۱۹۳۷ء (۱۳۵۶ھ)تک مسلمانان ہند میں کافی معروف ہو چکے تھے۔ چنانچہ عظیم فلسفی علامہ محمداقبال نے آپ کو حیدر آباد، دکن چھوڑ کر بھرپور اسلامی تمدن کے حامل شہر لاہور آنے کی دعوت دی، تاکہ آپ یہاں آ کر اسے اپنی جدوجہد اور دعوت دین کا مرکز بنائیں۔ سید مودودی نے علامہ اقبال کی دعوت قبول کر لی۔ اگلے سال اقبال رحلت فرما گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد سید مودودیؒ ہندستان کے مسلم مفکرین میں سب سے نمایاں تھے۔
۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء تک کے عرصے میں سید مودودی نے کئی معرکہ آرا تحقیقات‘ تالیفات اور خطبات پیش کیے۔ آپ اپنی طرز کے ایک زبردست خطیب تھے۔ آپ نے اپنی ان تحریری و تقریری کوششوں سے ایک ایسا سیاسی منصوبہ پیش کیا، جو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے منصوبوں سے الگ تھا۔
انڈین نیشنل کانگریس سیاسی مفاد کی خاطر ایک قومیت کی بنیاد پر ہندستان کو مستقبل میں واحد مملکت بنانے کی دعوت دے رہی تھی۔ کانگریس کی اساس مغربی جمہوریت پر تھی‘ جس میں اکثریت حکمران ہوتی ہے۔ وہ سیکولرزم پر ریاست کی بنیاد رکھ رہی تھی، جس میں مذہب کا مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سید مودودی نے کانگریس کے منصوبے کے مقابلے میں اپنا جو متبادل سیاسی و تہذیبی منصوبہ پیش کیا، اس کے لیے آپ نے چھ بنیادی کتابیں لکھیں: مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (تین حصے)‘ مسئلہ قومیت ، اسلام اور جاہلیت، اسلام کا سیاسی نظریہ، اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے اور تجدید و احیاے دین۔ ان کتابوں میں ہندستان کے مستقبل کے اسلامی منصوبے کی جھلک ملتی ہے۔ آپ نے بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پر کئی قومتیں رہ رہی ہوں، جو تہذیبی لحاظ سے بالکل الگ الگ ہوں، پھر جن کے قوانین بھی الگ الگ ہوں، ایسے ملک میں مغربی جمہورت نہیں چل سکتی۔ اس لیے کہ یہاں غالب اکثریت ہی مستقل حکمران رہے گی۔
ہندو اکثریت جو کل آبادی کا ۷۰ فی صد ہے وہی ہمیشہ مسلط رہے گی۔ مسلم اقلیت جو صرف ۲۵ فی صد ہے، ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے گی۔ لہٰذا، ہندستان جیسا ملک مغربی جمہوریت کے نفاذ کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ سید مودودی نے مغربی سیکولرزم کا بھی توڑ پیش کیا، کہ اسلام میں دین و مملکت کے درمیان کوئی دوئی نہیں ہے۔ سیکولرزم میں حکمرانی عوام کی اور جواب دہی عوام کے سامنے ہوتی ہے‘ جب کہ اسلام میں حق حکمرانی اﷲ کا ہے‘ وہی تمام انسانوں کا حاکم ہے اور انسان جواب دہ اسی کے سامنے ہے۔
۱۹۴۷ء میں ہندستان جب بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تو آپ نے اس تقسیم کو قبول کرتے ہوئے پاکستان میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو جاری رکھا۔ سید مودودی کے سیاسی افکار واضح ہونے کے باوجود، بہت سے افراد اور جماعتوں نے انھیں غلط سمجھا۔ ان حضرات نے یا تو آپ کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے بالکل الگ کر کے رکھ دیا یا ان عملی و دعوتی عبارتوں پر اعتراضات کیے جن میں آپ نے عوام کو خطاب کیا تھا۔ آپ کی فکر پر آپ کے مخالفوں نے ہی بے جا اعتراض نہیں کیے‘ بلکہ آپ کے چند سابق رفقا اور اسلامی نقطۂ نظر کے حامیوں میں سے کچھ حضرات نے بھی آپ کو اپنے بے جا اعتراضات کا ہدف بنایا۔
سید مودودی نے ’حکومت الٰہیہ‘ کا پیغام دیا۔ آپ نے حکومت الٰہیہ کے بارے میں بتایا کہ اس سے مراد احکام الٰہیہ کی حکمرانی ہے۔ اس ذات کی حکمرانی جو ’فعال لمایرید‘ ہے۔ جو اپنے کاموں کا کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ انھوں نے انسانی حاکمیت کو وہاں تسلیم کیا جہاں ’’نص‘‘ نہ ہو۔ یہ اسلامی قانون کی وسعت ہے جو زمان و مکاں کے مطابق اجتہاد کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
سید مودودی نے بتایا، امت اپنا اقتدار شریعت الٰہیہ کی سیادت کے تحت قائم کرنے کی مجاز ہے۔ ہم حاکمیت کے بارے میں سید مودودی کا نقطۂ نظر اس وقت تک سمجھ نہیں سکتے، جب تک ہم اس بارے میں آپ کی تمام تحریروں کو سامنے نہ رکھیں۔ کیونکہ یہی نکتہ ان کی ساری سیاسی فکر کا محور ہے‘ مثلاً اگر ہم صرف اسی قول کو لے لیں تو بات ادھوری رہ جائے گی: جو کوئی جماعت یا شخص اپنے لیے یا کسی اور کے لیے کلی یا جزی حاکمیت کا دعویٰ کرے وہ بلاشبہہ کھلم کھلا بہتان‘ جھوٹ اور افترا میں مبتلا ہے۔ سیاسی و عمرانی معنوں میں صرف اﷲ ہی حاکم ہے۔ اس نے کسی کو اپنی مخلوق میں اپنا حکم نافذ کرنے کا حق نہیں دیا۔ انسانیت کے لیے مطلقاً حاکمیت کا حق نہیں ہے۔ اسلام میں سیاسی نظریے کی عمارت جس بنیاد پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ حکم اور قانون سازی کے تمام اختیارات انسانوں کے ہاتھوں سے چھین لیے جائیں۔ ان میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ انسانوں پر اپنا حکم نافذ کرے اور وہ اس کی اطاعت کریں‘ یا وہ ان کے لیے قانون بنائے اور وہ اس کی بجا آوری کریں اور اس کی پیروی کریں۔ اسلامی ریاست کی ساخت جمہوری نہیں ہے۔ جمہوریت سے مراد ہوتا ہے حکمرانی کا ایسا نظام، جس میں اقتدار مکمل طور پر عوام کے لیے ہو۔ اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں۔
آپ نے دیکھا کہ اگر ہم درج بالا اقتباس یا اس قسم کی عبارتوں کے پورے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے شرارتاً رک جائیں، تو ہم حکمرانی کے بارے میں مولانا مودودی کے عادلانہ اور منطقی نظریے کو ہرگز نہ سمجھ پائیں گے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس موضوع پر آپ کی تمام تحریروں کا مطالعہ کریں، تاکہ آپ کے مجمل مؤقف کی وضاحت ہو سکے۔ مولانا ہی کا قول ہے:
کسی بھی عقل مند کے لیے جمہوریت کی مخالفت کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں جو مسئلہ پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندستان میں‘ ایک قومیت کا وجود فرض کرتے ہوئے نظام حکومت جمہوری اداروں کی بنیاد پر چلے گا۔ یہاں پر ہمیں دو باتوں کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہے۔ ایک ہے فی نفسہٖ جمہوریت‘ اور دوسری چیز ہے ایک قومیت کا وجود۔ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان میں سے ایک کی مخالفت کا مطلب دوسرے کی مخالفت ہرگز نہیں ہے۔
ایک جمہوری نظام میں جب اکثریت سے بننے والی حکومت کے اصول پر عمل درآمد طے پاجائے‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والا گروپ حکومت سنبھالے گا۔ اکثریت کی حکومت کے اصول کی رو سے ایسا ہونا درست ہو گا، جب شہریوں کے لیے بنیادی معاملات میں اصولاً اتفاق کر لیا جائے۔ آج کی اقلیت کے لیے ممکن ہے کہ وہ کل اکثریت بن جائے، اور آج کی اکثریت کے لیے کل اقلیت بن جانا ممکن ہے۔ مگر مقاصد یا مذہبی اصولوں میں اختلاف یا قومی جذبات میں اختلاف اکثریت کو ہمیشہ یوں ہی اکثریت میں رکھے گا، یہ تو جمہوریت نہیں بلکہ بربریت ہے۔ اسلام نے اﷲ کی سیادت و حاکمیت کے زیر سایہ یہ عوام کی نیابت (vicergency) اور ان کو اﷲ کی طرف سے خلیفہ بنائے جانے کو تسلیم کیا ہے۔ اسلام نے اس حکومت میں مسلمانوں کی محدود و مقید عوامی حاکمیت کا حق دیا ہے۔ امت اسلامیہ، اﷲ کی نائب ہے، وہ اپنے حکمران کا انتخاب کرے گی، اپنے لیے جمہوری طریقے سے ارباب حل و عقد کو منتخب کرے گی۔ وہ چیز جو اسلامی خلافت کو جمہوری بناتی ہے، یہ ہے کہ ہماری اسلامی جمہوریت ایک پہلو سے مغربی جمہوریت کی طرح ہے۔ اس میں حکومت کی تشکیل و تبدیلی راے عامہ سے ہوتی ہے، مگر ہمارے اور اہل مغرب میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنی جمہوریت کو مطلق العنان سمجھتے ہیں‘ جب کہ ہم جمہو ری خلافت کو، خداے بزرگ و برتر کے قانون سے مقید سمجھتے ہیں۔
سید مودودیؒ کی اس جامع تحریر سے معلوم ہوا کہ اگر اکثریت کافر ہو تو ایسی جمہوریت اور قوم کی حکمرانی کا مطلب اﷲ کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہو گا، کیونکہ یہ حکمرانی شریعت سے آزاد ہو گی۔ مگر جب اکثریت اہل ایمان کی ہو اور شریعت کی پابند ہو تو اس اکثریت کی حکمرانی ہی ’اسلامی جمہوریت‘ ہے یا ’جمہوری خلافت‘ ہے، جس کی طرف سید مودودی دعوت دیتے ہیں۔ پس سید مودودی کے اس نظریے کو ہندستان کے مخصوص حالات کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے۔ آپ کا یہ نظریہ اس وقت بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں کا موضوع بحث تھا اور آج بھی ہے۔
سید مودودیؒ نے ان معاشروں کو ’کفر و جاہلیت‘ سے منسوب کیا تھا، جو اﷲ اور اس کے قانون حاکمیت کو، انسانوں اور ان کے قوانین کی حاکمیت سے برتر نہیں قرار دیتے، خواہ یہ معاشرے پرانے ہوں یا نئے۔ آپ نے مغربی تہذیب کی جدید چھاپ والی آئیڈیالوجی کی تشکیل میں کار فرما تمام بنیادی نظریوں پر بے مثال طریقے سے تنقید کی۔ مثال کے طور پر: ہیگل (۱۸۷۰ء - ۱۸۸۳ئ) کے فلسفۂ تاریخ کا محاکمہ کیا۔ ڈارون (۱۸۰۹ء - ۱۸۸۲ئ) کے نظریۂ ارتقا اور مارکس (۱۸۱۷ء - ۱۸۸۳ئ) کے طبقاتی کش مکش کے نظریے پر کھل کر نقد وجرح کی۔
سید مودودیؒ نے اسلامی تہذیب کے توازن و اعتدال کو بھی واضح کیا اور بتایا کہ مغربی تہذیب مجموعی طور پر توازن و اعتدال سے یکسر محروم ہے۔ یہی نہیں، بلکہ انھوں نے اسلامی تاریخی سرمایے اور علمی ورثے پر بھی تنقیدی نظر ڈالی۔ تجدید و احیا کی فکر پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اسلامی تہذیب میں شامل ہونے والے غیر اسلامی افکار و خیالات کی تابع داری سے انکار کی دعوت دی اور خاص طور پر یونانی افکار کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے کہا۔ آپ نے ان علما کے مؤقف کو سراہا‘ جنھوں نے اسلامی بیداری کے لیے مکمل منصوبے پیش کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کوششیں کیں‘ اور اپنے آپ کو صرف سوچنے اور کتابیں لکھنے تک محدود نہیں رکھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عصر حاضر کے مسلمانوں کی فکری اور عملی تربیت کے لیے اﷲ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام تھے۔ افسوس یہ ہے کہ امت اپنے اس جلیل القدر محسن کی قدرومنزلت کو پہچان نہ سکی!
متنوع اور تعمیری صلاحیتوں کا مالک فرد کسی بھی قوم کے لیے عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔ جب ہم امام ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت‘ متنوع و متعدد صلاحیتوں اور تجزیہ و استدلال کے اسلوب کو دیکھتے ہیں تو قدرت حق کی فیاضی پر بے اختیار سبحان اﷲ کہہ اٹھتے ہیں۔
آپ ایک سحر البیان ادیب تھے، جو عبارت و لفظ اور معنٰی و فکر کو اس طرح باہم مربوط کر کے پیش کرتے تھے ‘کہ تحریر کی اثر آفرینی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی تھی۔ آپ کو زبان و بیان پر مکمل عبور تھا۔ اعلیٰ ادب و فکر سے مملو‘ مولانا کے لٹریچر نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات کو متأثر کیا۔ کسی اور مسلم مفکر و عالم کی کتابوں کو عالمی سطح پر اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی آپ کی کتابوں کو ملی۔
آپ ایک منفرد اسلوب کے مفکر تھے۔ آپ کو بجا طور پر عصر حاضر میں جدید اسلامی تحریک کا مفکر کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں موجود تمام فکری قیادتوں نے مولانا کے افکار سے استفادہ کیا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے استفادہ تو خوب کیا ہے، لیکن گروہی تعصب کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے الٹا مولانا مودودیؒ کو ہی نشانہ تنقید ہی بنایا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے کئی فکری محاذوں پر بیک وقت جنگ کی۔ ہندستان میں واحد نظریہ قومیت کی مخالفت کی۔ آپ نے بتایا کہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ کے نعرے کا بالواسطہ مقصد مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے اکثریت کی غلامی میں رکھنا ہے۔ آپ نے نظریہ وطنیت کی تردید میں دلائل پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ کافر اقوام اوطان سے بنتی ہیں، جب کہ امت مسلمہ، عقیدۂ اسلام کی اساس پر وجود میں آتی ہے۔ آپ نے خبردار کیا کہ انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے اور اسلام کی بیخ کنی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی یہ کوششیں رنگ لائیں۔ فرزندان اسلام کا اپنے دین پر اعتماد بحال ہوا‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کے مفید علوم کو حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
مولانا مودودی نے بعض علما کے جمودی رویے پر تنقید کی اور بعض علما کی انتہا پسندی اور غلو کی روش کو ناپسند کیا۔ اپنی اس جرأت ایمانی کی انھیں زندگی بھر بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ مولانا اول و آخر داعی تھے۔ آپ نے تحریر و تقریر سے داعی کا فریضہ سرانجام دیا۔ اسلام کو ایک جامع و کامل نظام حیات کے طور پر پیش کیا اور اس کے مختلف پہلوؤں کی بڑے دل نشین انداز میں وضاحت کی۔ آپ نے عصر حاضر کے اسلوب کے ذریعے قارئین کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کی۔
عوام کا حقیقی قائد وہی ہوتا ہے جو درست تشخیص کے بعد قوم کی صحیح رخ پر رہنمائی کرے۔ مولانا مودودیؒ نے قوم کے مرض کی بروقت تشخیص کی، اس کے لیے لائحہ عمل اور راست منصوبۂ کار مرتب کیا۔ اس نصب العین کے حصول کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔
قیام پاکستان سے بہت پہلے حیدر آباد، دکن کی جامعہ عثمانیہ کی طرف سے مولانا مودودیؒ کو گراں قدر مشاہرے کی اسامی کی پیش کش ہوئی۔ آپ کے خاندان کے معاشی حالات اس پیش کش کو قبول کرنے کے کا بجا طور پر تقاضا کرتے تھے۔ آپ کے بڑے بھائی سیدابوالخیر مودودیؒ اور ممتاز عالم دین سید مناظر احسن گیلانی ؒنے اصرار بھی کیا، مگر آپ نے ملی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ آپ نے جس مالی بے بضاعتی اور تنگی و عسرت کی حالت میں ترجمان القرآن نکالا، یہ ایک بہت بڑا جہاد تھا۔
مولانا مودودی کا مشن بڑے صبر و تحمل کا متقاضی تھا۔ اس لیے آپ کا ساتھ دینا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ آئے اور جلد ہی الگ ہوگئے۔ میرا گمان ہے کہ ان علیحدگیوں میں اصولی بنیاد کم اور راستے کی مشکلات زیادہ آڑے آئیں، واللّٰہ اعلم بالصواب۔ بہرحال، یہ بڑے صدمے کی بات تھی، جسے آپ نے پامردی سے برداشت کیا۔
مولانا کے جلسوں پر حکومت نے حملہ کروایا، مگر آپ نہ دلبرداشتہ ہوئے، نہ اپنے مؤقف سے ہٹے اور‘ نہ اس ردعمل میں حد سے تجاوز کیا، بلکہ صبر و برداشت کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، تو پاکستانی آمر سے شدید اختلافات کے باوجود مولانا نے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’حکمران سے پہلے یہ سرزمین ہماری ہے۔ کسی اور انسان سے پہلے اس کا دفاع ہمارا فرض ہے‘‘۔ جماعت اسلامی نے پورے ملک اور بالخصوص آزاد کشمیر کے علاقے میں طبی امداد کے مراکز قائم کیے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے تمام استعماری طاقتوں خصوصاً کمیونسٹ روس، امریکہ و یورپ، بھارت اوران کے زیراثر چند پاکستانی سیاسی لیڈروں نے سازش تیار کی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے پاکستان کو متحد رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ’البدر‘ کے نام سے جماعت اسلامی کے رضاکاروں نے پاکستان پر چاروں طرف سے ہونے والے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے آخری لمحے تک ملک کو بچانے کی جدوجہد کی۔
مولانا مودودیؒ کے نزدیک ارکان اسلام پر عمل کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ امت مسلمہ پر شہادت حق کا فریضہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پوری دنیا پر اسلام کی تعلیمات واضح کرنا ملّت اسلامیہ کا حقیقی ہدف ہے۔ مطلوبہ شہادت کی دو صورتیں ہیں: قولی و عملی۔ قولی شہادت یہ ہے کہ مصنفین، علما اور خطبا، تمام ممکنہ ذرائع اور وسائل سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات دل کش اسلوب میں تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ عملی شہادت یہ ہے کہ ہم اسلام کے اصولوں پر عمل کریں‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر۔ یوں ہم اپنے قول و فعل سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ جس دین کے اصولوں پر یہ اُمت قائم ہے، وہ دین ہی انسان کی فلاح و کامیابی کا واحد ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے۔ جب قولی و عملی دونوں شہادتیں بیک وقت ادا ہوں گی تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے، کہ مسلم فرد اور امت نے اپنے اوپر عائد کردہ ذمہ داری، کسی کمی کے بغیر ادا کر دی ہے۔ (خطبہ، شہادت حق)
مولانا مودودیؒ نے محض جذباتی فکر پیش کرنے کے بجاے اسلامی نظام کے نفاذ اور تطبیق کا تفصیلی نقشہ پیش کیا۔ آپ نے نظام اسلامی کے تمام خدوخال تفصیل سے بیان کیے۔ حکومت الٰہیہ، مقام رسالتؐ، خلافت، اصول شوریٰ، اصول انتخاب، مقصد حکومت، اولی الامر کی اطاعت کے اصول، پبلک سروس، شہری حقوق اور ذمیوں کے حقوق وغیرہ کی جملہ تفصیلات بتائیں۔
کچھ حضرات کی رائے ہے: ’’پہلے فرد کی تربیت کی جائے، معاشرے کی اصلاح اسلامی مملکت کے قیام کی صور ت میں خود بخود ہو جائے گی‘‘۔ اس کے برعکس کچھ کے خیال میں: ’’اسلامی فکر کی اشاعت سے عوام میں فکری تبدیلی آئے گی، جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب آئے گا‘‘۔ ان دو مختلف صورتوں کے برعکس مولانا مودودیؒ نے فکر و تربیت دونوں کو بیک وقت ضروری قرار دیا اور بڑی وضاحت سے کہا کہ انھیں کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا مودودیؒ نے قومیت یا وطنیت اور مغربی تہذیب کے بارے میں واضح مؤقف اپنایا۔ صاحب علم کے طور پر مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا اور ایک باخبر خردمند انسان کی طرح اس پر تنقید کی۔ تہذیب مغرب کے سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی نظاموں پر نقد و جرح کی۔ آپ کا مؤقف ان لوگوں کی طرح بے لچک نہیں تھا جو تہذیب مغرب کی تمام باتوں کا انکار کرتے ہیں اور یوں اپنی قوم کو جمود و تعطل اور پسماندگی میںدھکیل کر اسے بہت سے فوائد سے محروم کر دیتے ہیں۔ اسی طرح مولانا کا طریقہ ان لوگوں کی طرح بھی نہیں تھا جو تہذیب مغرب کو اس کے تمام خیر و شر سمیت قبول کر لیتے ہیں۔
آپ مثبت اور متوازن فکر کے حامل تھے۔ جدید آلات و ایجادات کے بارے میں اصولی نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ مثلاً جب بعض علما و فقہا نے نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا اور کہا کہ چونکہ اس آلے کا استعمال لہو و لعب میں ہوتا ہے اس لیے نماز کے لیے اس کا استعمال ناجائز ہے۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’ہمارے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس آلے کا استعمال شراعاً حرام ہے۔ اس کا استعمال اس وقت حرام ہو گا جب یہ باطل کی آواز بلند کرے مگر جب یہ آوازِ حق بلند کرے گا تو اس کا استعمال جائز و مستحب ہو گا‘‘۔
مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک خصوصیت مکمل احتیاط ہے۔ مثلاً کئی علما کسی مسلمان کو کافر قرار دینے میں دور اندیشی سے کام نہیں لیتے‘جب کہ مولانا کے نزدیک مسلمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ اس فرد کی غیر محتاط بات کو جہالت و عدمِ فہم پر ہی محمول کرنا چاہیے۔ مسلمان کو ہمدردی سے سمجھانا چاہیے اور اس پر کفر کا فتویٰ صادر کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لینا چاہیے۔
موجودہ نظام تعلیم کے تحت جو کچھ مسلمان طالب علم کو پڑھایا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم زندگی کے معاملات کے بارے میں غیر اسلامی انداز سے سوچتا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس کی معلومات محدود، منتشر اور غیر مربوط ہوتی ہیں، جن سے اسے فائدے کے بجاے نقصان پہنچتا ہے اور اس کا ذہن اسلام سے بدکتا اور دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے مولانا مودودیؒ نے اسلامی نظریۂ تعلیم کی بنیاد پر جدید علوم کو اسلامی علوم سے مربوط کرنے کی دعوت دی۔
مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ ہر علاقے اور ملک کے بارے میں وہاں کے حالات اور ماحول کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنانے اور اپنانے پر زور دیتے تھے۔ آپ کے نزدیک تحریک اسلامی کو یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ جب مولانا مودودیؒ، پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف تھے اور پاکستان کو اسلامی مملکت میں بدلنے کے لیے سرگرم عمل تھے‘ اس وقت بھارت کی جماعت اسلامی کا لائحہ عمل اس سے جدا تھا۔ اس لیے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے حالات اور وہاں کے تقاضے بالکل الگ تھے۔
سید مودودیؒ کی یہ باتیں اور یہ ہدایتیں، فی زمانہ کسی اور دنیا کے ملکوتی انسان کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن حکمت، ایمان اور دانش و عمل کی یہ باتیں‘ بالکل ہمارے عہد کے اس عظیم انسان نے ہمارے سامنے بیان کیں۔ کیا ہم نے ان باتوں کو سننے اور پڑھنے کے بعد اپنی عملی زندگی میں کوئی جگہ دی ہے؟ میرے نزدیک یہ آج کا بڑا اہم سوال ہے!
مغرب میں اسلام کے حوالے سے جتنی کتابیں چھپی ہیں‘ تقریباً ساری ہی کتابوں میں کسی نہ کسی پہلو سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا تذکرہ ملتا ہے۔ جاپانی مستشرقین نے بھی مولانا اور جماعت کا ذکر کیا ہے اور مغربی مستشرقین نے بھی۔ حالیہ برسوں میں نمایاں ہونے والی ’بیداری اسلام کی لہر‘ کے ڈانڈے اکثر و بیش تر اسکالر‘ مولانا مودودی‘ حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کی تحریروں سے ملاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستشرقین کے نام آتے ہیں۔ ذیل میں جدید مستشرقین کی بعض ایسی کتابوں کا ذکر پیش کیا جا رہا ہے‘ جس سے اندازہ ہو گا کہ انھوں نے مولانا مودودی‘ جماعت اسلامی اور بعض دیگر مسلم شخصیات اور تحریکوں کو کن زاویوں سے دیکھا اور ان کا تجزیہ کیا ہے۔
۱
ہاجسن‘ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا تذکرہ اس طرح شروع کرتا ہے: جدید دور میں شریعت کے اطلاق کا نظریہ انتہائی ترقی یافتہ شکل میں جس نے پیش کیا‘ وہ بھارت اور پاکستان کی جماعت اسلامی کی تحریک ہے‘ جس کی قیادت سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کر رہے تھے۔ ۱۹۳۹ء کی دوسری عالم گیر جنگ سے بہت پہلے ہی سے‘ وہ اپنے ان نظریات اور اصولوں کی ترویج و اشاعت شروع کرچکے تھے۔
اس کے بعد ہاجسن عصر حاضر میں شریعت کے اطلاق کے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: بالعموم یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ایک مثالی معاشرتی نظام کے طور پر اسلام ہی ’’حقیقی‘‘ جمہوریت پیش کرتا ہے‘ کیونکہ اس نے اپنے پیروؤں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ مساوات قائم کی اور حکمران وقت پر یہ پابندی لگا دی کہ وہ مملکت کے امور چلانے کے لیے اپنے آپ کو ’شوریٰ‘ کے مشورے کا پابند کر لے۔ مزید یہ کہ اسلام ہی حقیقی ’سوشلزم‘ بھی پیش کرتا ہے کیونکہ سارے اور مجموعی سرمائے پر ہر سال ٹیکس(زکوٰۃ) کے ذریعے سے اسلام نے دولت مندوں پر اجتماعی ذمہ داری کے اصول کو نافذ کر دیا ہے
۴۵-۱۹۳۹ء کی عالم گیر جنگ کے بعد تجدید و احیاے اسلام کی بہت ساری کوششیں ہوئیں اور انھی کوششوں کے نتیجے میں ایک منظم‘ تحریک کا آغاز بھی ہوا‘ جس پر ہم جدید دور میں شریعت کے اطلاق کی اصطلاح ‘خصوصیت کے ساتھ چسپاں کر سکتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی شعبوں میں اس کے اطلاق کے امکانات نظر آنے لگے۔ اس نے ایک طرف تو لادینی قومیت کا نعم البدل فراہم کیا اور دوسری طرف اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کے لیے بھی متبادل پیش کیا ‘ کیونکہ اس طرح کے اداروں کی بنیاد بھی وطنی قومیت کے نظریات پر تھی۔ اطلاق شریعت کی ان جدید تحریکوں نے یہ امید پیدا کی کہ عالم اسلام کے بیش تر ممالک ایک نئی بنیاد پر اتحاد کی ایک ہی لڑی میں پروئے جا سکتے ہیں۔ وہ نئی بنیاد یہ ہو سکتی تھی کہ تمام مسلم مملکتیں اور قومیتیں اندرونی طور پر اپنے آپ کو شریعت کے قانونی اصولوں سے باندھ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک مسلم قوم کو دوسری سے جدا کرنے والی کوئی چیز نہیں ہو گی کیونکہ دنیا کے سارے مسلمان شریعت کے اصولوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بندھے رہنے کے پابند ہوں گے۔ اس طرح داخلی طور پر (یعنی ایک مسلم ملک کے اندر) اور بین الاقوامی طور پر بھی قومیت کی بنیاد صرف اسلام ہو گی۔
ہاجسن نے نفاذ شریعت کے ذریعے ’حقیقی‘ جمہوریت اور’حقیقی اجتماعیت‘ کے نفاذ کے امکانات اور قومیتوں کے بت کو توڑ کر حقیقی اسلامی اتحاد کے تصورات کو پیش کرنے میں مولانا مودودی کی تحریر اور تحریک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ مغربی دنیا نے قومیت کے تصور پر مبنی جو ایک ریاست کا تصور دیا‘ اس کا ایک بہت بڑا (تاریخی اہمیت کا حامل) جواب یہ ملا کہ: نفاذ شریعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست کو ایک قانونی ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس طرح یہ تصور ابھرا کہ شریعت کے اطلاق کے معنٰی (ماضی کے تجربات کی طرح) صرف یہ نہیں ہوں گے کہ تاریخی طور پر آزادانہ حیثیت سے‘ جو ادارہ چیدہ چیدہ شرعی فیصلے دیتا ہے وہی ایک مسلم حکمران پر لاگو ہوں گے‘ بلکہ یہ بھی کہ (اس طرح کی قومیت پر مبنی جو بھی ریاست وجود میں آئے گی) اس کا ’’دستور‘‘ بھی اسلامی شریعت پر مبنی ہو گا اور ایک قانونی ادارے کی حیثیت سے مزید ترقی دینے کے لیے بھی کوشاں رہے گا۔
نفاذ شریعت کے قدیم تصور کے مطابق ایک مسلم حکمران کا کام قاضی کے شرعی فیصلے ماننا اور انھیں نافذ کرنا ہے۔ لیکن اب اس قدیم تصور میں تبدیلی آئی ہے اور ایک قومی ریاست کے وجود میں آنے سے نفاذ شریعت کا ایک جدید تصور سامنے آیا ہے‘ جسے مولانا مودودی نے پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاست کا پورا دستور بھی شریعت کی بنیاد پر ہو اور سارے قوانین بھی اسی بنیاد پر بنیں۔ ہاجسن کے مطابق نفاذ شریعت کے تصور میں یہ تاریخی تبدیلی بھی مولانا مودودی اور ان کی برپا کردہ اس تحریک کی بنا پر وجود میں آئی ہے‘ جس تحریک کو وہ ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی عالم گیر جنگ سے پہلے سے چلا رہے تھے۔
اس کے بعد ہاجسن مولانا مودودی پر لگائے جانے والے اس الزام پر بحث کرتا ہے کہ مولانا مودودی نے تخلیق پاکستان کی مخالفت کی تھی؟ (اندازہ ہوتا ہے کہ ہاجسن کی نیت بخیر ہے۔ اس کا مقصد مولانا مودودی کو بدنام کرنا نہیں جیسا کہ بعض سیاسی طالع آزمائوں کا رویّہ ہے)۔
ہاجسن یہ وضاحت کرتا ہے کہ تحریک پاکستان کے سلسلے میں مولانا مودودی کے طرز عمل کی وجہ کیا تھی؟ اس کے خیال میں مولانا مودودی کو اندیشہ یہ تھا کہ ریاست پاکستان‘ سیکولر خیالات کے حامی‘ مغرب زدہ اور تجدد پسند طبقے کو برسراقتدار لے آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا مودودی کا یہ خیال صحیح نکلا کہ قیام پاکستان کے ۵۶ سال بعد بھی‘ آج تک پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوئی۔ اسی خطرے سے نمٹنے کے لیے انھوں نے (جماعت اسلامی کے ذریعے) اس طرح کے تجدد پسند طبقے اور اس کے سیکولر خیالات سے پاکستان کے اسلامی کردار کو بچانے کی کوشش کی۔
آگے چل کر ہاجسن لکھتا ہے کہ: جب پاکستان بن گیا تو پاکستان بنانے والے رہنماؤں کے ارادوں کے علی الرغم اس نئے مرکز سے سید مودودیؒ نے پاکستان کو حقیقی اسلامی مملکت بنانے کی ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کو علما اور اسکالروںکی طرف سے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی۔ یہ مہم کالجوں کے طلبہ میں بھی بہت مقبول ہوئی۔ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں سید مودودی اور ان کے ساتھیوں نے جدید اداروں کو اسلامی شریعت کے اصولوں پر ڈھا لنے‘ اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے اور ان سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا کہ مغربی دنیا میں جس بات کا چلن ہو گیا ہے اسی کو شریعت کی نئی تعبیر سے سند جواز فراہم کریں‘ بلکہ انھوں نے ایسے نعم البدل طریقے دریافت کرنے کی کوشش کی جو شریعت کی بنیاد پر صحیح ہوں۔ وہ یہ بات بتانے کے لیے بھی کوشاں رہے کہ بڑے پیمانے پر چلنے والے جدید مالیاتی اداروں کو کس طرح سودی نظام کے بغیر امداد باہمی کے بنکوں کے ذریعے چلایا جائے‘ جن میں سود نہ ہونے کے سبب ایسے بڑے بڑے سرمایہ دار خاندان وجود میں نہ آ سکیں جو کسی ذاتی محنت اور پیداواری سرگرمی کے بغیر محض سود کی وجہ سے امیرسے امیر تر بنتے جا رہے تھے۔
ہاجسن وضاحت کرتا ہے: مولانا کو اس بات کا بھی افسوس تھا کہ پاک و ہند میں ایک ایسا فرسودہ قانونی نظام چل رہا تھا جس میں وکلا‘ شریعت کا نام لینے کے ساتھ ساتھ‘ اپنے موکل کو کامیاب کروانے کے لیے ہر قسم کے جوڑ توڑ اور جھوٹ و فریب کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ اور انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ مقدمے میں حق‘ سچائی اور انصاف کے تقاضے کیا ہیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ پیشہ ور وکیلوں کی جگہ انصاف پسند مفتی حضرات کو سامنے لایا جائے‘ جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ مفتی حضرات کسی بھی مقدمے کے اندر سچائی اور انصاف کے پہلوؤں کی وضاحت کریں جس سے جج کسی صحیح فیصلے پر پہنچ سکے۔ مولانا مودودی اس طرح جدید قانونی نظام کو چلانے کے لیے قانونی ماہرین کی تربیت کرنے کے لیے بھی کوشاں تھے۔
فکر مودودی کی اس وضاحت کے بعد ہاجسن نے مصر میں تشکیل پانے والی تحریک اخوان المسلمون اور حسن البنا شہیدؒ کی زندگی اور خدمات کے بارے میں تفصیلات پیش کی ہیں۔ اس نے بتایا ہے: یہ بھی نفاذ شریعت کی وہی تحریک تھی جس کی ابتدا مولانا مودودی نے دوسری عالم گیر جنگ سے قبل ہندستان میں شروع کی تھی۔ ہاجسن فکرِمودودی کے وسیع اثرات کے ضمن میں کہتا ہے: دوسری جنگ عظیم کے بعد انڈونیشیا میں جو تحریک آزادی اٹھی تھی‘ اس میں بھی نفاذ شریعت کی بات شامل تھی۔ وہ اس تحریک کی تفصیلات انڈونیشیا کے حوالے سے بتاتا ہے (جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے)۔
آگے چل کر وہ ایران میں بھی اسی نوعیت کی تحریک کا پس منظر بیان کرتا ہے: ان سب اسلامی ممالک میں جہاں جہاں بھی نفاذ شریعت کی تحریکیں اٹھی ہیں‘ ان سب میں تقدیم زمانی فکر ِمودودی کو حاصل ہے۔ وہ دوسری عالم گیر جنگ سے پہلے سے یہ تصور لے کر اٹھی تھی۔ اسی تقدیم زمانی کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ دوسرے اسلامی ممالک بھی براہ راست یا بالواسطہ فکر مودودی کے اس پہلو سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکیں زور و شور سے اٹھیں اور اس وقت بھی مختلف مسلم ملکوں میں اس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
۲
The Revenge of God: The Resurgence of Islam, Christianity and Judaism in the Modern World, 1994.
یہ کتاب علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔ مستشرقین کی دنیا میں اس کتاب کی اہمیت ایسی ہے‘ جس طرح کولمبس کی‘ کہ جس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔
گذشتہ دو صدیوں سے دنیا لادینیت یا سیکولرزم کی راہ پر گامزن تھی۔ اس کی ابتدا اٹھارھویں صدی کے نئی روشنی کے فلاسفروں نے کی تھی۔ عقلیت کے فلسفے نے مذہبی اعتقاد کی بنیادیں ہلا دی تھیں‘ اور ۱۹۷۰ء کے عشرے تک یہ رجحان ساری دنیا میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ گیلس کیپل نے پہلی دفعہ اپنی اس کتاب میں یہ انکشاف کیا کہ ۱۹۷۵ء کے بعد سے یہ رجحان الٹے رخ پر چل پڑا ہے اور تینوں ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت میں احیا کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔
جدید مستشرقین نے کیپل کے تجزیے کا گہرا اثر لیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنے اپنے نظریات کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ ہنٹنگٹن نے اپنی مشہور کتاب تہذیبوں کا تصادم میں کیپل کی اس کتاب کا بار بار حوالہ دیا ہے۔ بلکہ کیپل ہی کے اس تجزیے کو بنیاد بنا کر ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا اپنا نظریہ پیش کیا۔
اس کتاب میں گیلس کیپل نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا براہ راست ذکر تو صرف ایک جملے میں کیا ہے۔ لیکن فکرِ مودودی نے جب اخوان المسلمون کے مفکر سید قطب کے روپ میں جنگ عظیم دوم کے بعد احیائی جنم لیا تو مستشرقین کی توجہ عرب دنیا میں اس نئے زلزلہ انگیز پہلو کی طرف مبذول ہوئی۔ ویسے تو اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں حسن البنا شہید نے قائم کی تھی اور جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں وجود میں آئی‘ لیکن فکر مودودی نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس شدت سے متاثر کیا کہ اب جدید مستشرقین سید قطب کی فکر کو فکر مودودی ہی کا عکس قرار دیتے ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور میں مولانا مودودی کے مشہور خطبے اسلام اور جاہلیت میں پیش کی گئی اس فکر کو سید قطب نے اس انداز میں آگے بڑھایا کہ آخرکار انھیں پھانسی کے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اس تذکرے کے بعد کیپل گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتا ہے۔
پاکستان میں فکر مودودی نے طلبہ‘ مزدوروں اور اردو صحافت و ادب کی دنیا میں مارکسزم کو شکست دی ہے۔ کیپل اپنی اس کتاب میں اس پہلو کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ اسلامی تحریکوں نے عرب دنیا میں مارکسزم کا نعم البدل فراہم کیا ہے۔
وہ کہتا ہے: معاشرے کی بے جا اونچ نیچ اور ناانصافیوں کو چیلنج کرنے کے لیے جو گروہ مارکسزم سے متاثر ہو کر سرگرمی دکھا رہے تھے‘ شرق اوسط کے مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی تحریکوں نے ان کی جگہ لے لی۔ یہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کی بات ہے جب دونوں گروہوں میں معاشرے سے امکانی بغاوت کے جتنے بھی منابع ہو سکتے تھے‘ ان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپس میں جگہ جگہ خوب ٹکرائو شروع ہوئے۔ یہ لڑائیاں تعلیمی مدارس‘ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں ہوئیں۔ بڑے بڑے شہروں کے علاوہ مضافات کے ان مقامات پر ٹکرائو ہوئے جہاں غریب لوگ اور مزدور رہتے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اوائل تک مارکسزم والوں کو ہر جگہ شکست فاش ہوئی۔
اس سلسلے میں گیلس کیپل نے الجزائر کی ایک دل چسپ مثال دی ہے کہ وہاں حکومت خود کیوں کر مجبور ہوئی کہ وہ عرب ممالک سے اخوان المسلمون کے کارکنوں کو بلائے تاکہ وہ الجزائر کے نوجوانوں کو مارکسزم کی لعنت سے بچائیں۔ الجزائر نے فرانس کی غلامی سے آزادی حاصل کی‘ لیکن فرانس کے ساتھ اس کے تہذیبی یا تمدنی تعلقات قائم رہے۔ آزادی کے فوری بعد ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں طلبہ میں ایک بہت بڑی بائیں بازو کی عوامی تحریک رو پذیر ہوئی۔ اس کی قیادت اشتراکیت پسند پارٹی PAGS (Socialist Avent-Grade Party) کے ہاتھ میں تھی۔اس پارٹی نے زرعی اصلاحات کا علَم اٹھایا ہوا تھا۔ اس پارٹی کو مئی ۱۹۶۸ء میں فرانس میں ہونے والے طلبہ‘مزدور مظاہروں اور ہوانا (کیوبا) اور بیجنگ (چین) سب جگہ کے واقعات سے بڑی تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس نے زرعی اصلاحات کی جو مہم چلا رکھی تھی‘ ان مظاہروں سے کسانوں میں بھی ایک انقلاب برپا ہو گا۔ اس سے کرنل حوری بومدین کی ترقی پسند فوجی حکومت سوشلزم کی راہ پر چل پڑے گی۔ الجزائر کے یہ نوجوان صرف فرانسیسی زبان جانتے تھے۔ اسی زبان میں یہ سوچتے‘ پڑھتے اور لکھتے تھے۔ ان میں سے اکثر و بیش تر کو عربی تحریر سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ اس صورت حال سے پریشان ہو کر حکومت نے مشرق وسطیٰ سے عربی بولنے والے طلبہ کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن عرب ممالک میں یہ الجزائرکے طلبہ اخوان المسلمون سے متاثر اور ان سے مضبوط روابط رکھے ہوئے تھے۔ الجزائرمیں عربیت کے رواج کی اس حکومتی مہم کے نیتجے میں حکومت پر دبائو ڈالنے والے مارکسسٹ گروپ بہت کمزور ہوئے‘ اور بالآخر ان کی قیادت اسلامی تحریکوں کے ہاتھ میں آگئی۔
پاکستان ہی نہیں دیگر مسلم ممالک میں بھی‘ جہاں جہاں اسلامی تحریکیں اٹھیں‘ انھوں نے ہر جگہ کمیونزم کے فتنے کی بنیاد ہلا دی۔ ورنہ گیلس کیپل کے خیال میں: ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر میں مراکش‘ تونس‘ ترکی اور لبنان میں بائیں بازو کی تحریکیں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلتی جارہی تھیں۔ ان کے سماجی ڈھانچے کو جانچنے کا نقطہ نظر اور مستقبل کو بہتر بنانے کے خواب وہی تھے جو مارکس اور لینن کے لٹریچر سے ماخوذ تھے--- لیکن ان ساری اشتراکیت پسند تحریکوں کو ساری مسلم دنیا میں اسلامی احیائی تحریکوں نے پسپائی سے دوچار کر دیا۔ اور آج ترکی میں دوتہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی ایک اسلام پسند تحریک کی حکومت ہے۔
ایران میں بھی خلق پارٹی اور دوسری کمیونسٹ تنظیمیں اپنے عروج پر تھیں۔ کیپل کہتا ہے کہ یہ نظر آرہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا انقلاب آنے والا ہے۔ لیکن جب ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اواخر میں یہ انقلاب آیا تو یہ مارکس اور لینن کے پرچم تلے نہیں آیا‘ بلکہ اس سے اسلامی جمہوریہ ایران وجود میں آیا۔ جس کی نہ کسی نے پیش قیاسی کی تھی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا۔ تاریخ نے مغربی دنیا کے امورِخارجہ کے ساتھ ایک چال چلی تھی۔ اس نے ایک انقلاب کی امید دلا کر عملاً ایک دوسرے انقلاب کو جنم دیا تھا۔ جہاں مغربی دنیا اشتراکیت کے نشان درانتی اور ہتھوڑے کی توقع کر رہی تھی‘ اس کی جگہ پگڑی باندھے ایک ملاّ سامنے آیا۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مارکسسٹوں کے پیروں تلے سے زمین تو نکال دی لیکن اس سے دوسرے ایسے مسائل پیدا ہو گئے جو عالم اسلام تک محدود نہیں رہے۔
مارکسزم کو اسلامی تحریکوں نے ہر ملک میں شکست دے دی اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ اسلام ایک فرسودہ مذہب نہیں‘ بلکہ لادینی نظام ‘ خوفِ خدا اور فکر ِ آخرت کی بنیاد پر تشکیلِ نو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب وہ تعلیمات ہیں جن سے ہمیں فکر مودودی نے روشناس کروایا اور اسی کے اثرات سارے عالمِ اسلام میں بھی رونما ہوئے۔
۳
۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر قیصر فراح) (Caesar Farah کی کتاب Islam امریکہ کی مینی سوٹا یونی ورسٹی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا ساتواں ایڈیشن ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس کتاب میںفکر مودودی کے مختلف پہلوئوں پر تبصرہ بھی ہے اور موجودہ مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کا جائزہ بھی۔ مسلم ممالک کی مختصر تاریخ کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں‘ وہاں کی مسلمان اقلیتوں کی تفصیلات بھی ہیں اور جس میں پرانی تفصیلات کم اور موجودہ دور کے واقعات کی وضاحت زیادہ ہے۔
قیصر فراح نے کہا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے ریاستوں کو آزادی دی تھی‘ لیکن بھارت نے ۲۰لاکھ مسلمانوں کی آزاد مسلم ریاست حیدر آباد‘ دکن پر حملہ کر کے اس کے وجود کو مٹا دیا۔ اور ۱۹۴۸ء میں کشمیر پر حملہ کر کے وادیِ جموں و کشمیر پر بھی اپنا قبضہ جمالیا۔ اس اقدام پر بھارتی مسلمانوں نے اپنے آپ کو منظم کیا اور اپنی سرگرمیوں میں توسیع کی۔
دو انتہائی فعال اور متحرک تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے فراح نے بتایا ہے کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دو بڑی منظم جماعتیں ہیں۔ ان میں سے ایک (یعنی جماعت اسلامی) مسلمانوں کی مختلف کمیونٹی سرگرمیوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ اور تبلیغی جماعت مسلمانوں میں عبادت کا ذوق و شوق بڑھانے کے لیے ان کی روحانی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔
جماعت اسلامی کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فراح نے لکھا ہے: بھارت میں بنیادی اسلامی تعلیم‘ مکاتب اور مدرسوں‘ ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی (بھارت) نے اس مقصد کے لیے ساٹھ درسی کتابیں تیار کی ہیں‘ جو ان اسکولوں اور مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔
فکرِ مودودی نے عرب ممالک میں اخوان المسلمون کو متاثر کیا اور پھر یہ دونوں تحریکیں مل کر دوسرے ملکوں کی اسلامی تحریکوں کی فکری بنیاد بن گئیں۔ افغانستان پر ان اثرات کے بارے میں فراح نے کہا ہے: افغانستان کی اسلامی تحریک اپنے افکار کی تشکیل کے لیے زیادہ تر مصر کی اخوان المسلمون کی مرہون ِ منت ہے۔ اس کے رہنما مقامی علما کی گرفت سے آزاد تھے ‘لیکن ان کے بہت سے مقاصد مشترک تھے‘ مثلاً یہ کہ کس طرح افغان معاشرے کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر جدید سانچے میں ڈھالا جائے۔ ان میں سے چند رہنما قاہرہ کی جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل تھے (اور پروفیسر کہلاتے تھے)۔ وہ اس تحریک ِ مزاحمت میں سرگرم تھے۔ ان کی رہنمائی برہان الدین ربانی اور نیازی کر رہے تھے۔ اس تحریک کا نام جمعیت اسلامی تھا۔ ان لوگوں نے سید قطب اور سید مودودی کی کتابوں کا ترجمہ کر کے ان کے افکار سے اپنے کارکنوں کو روشناس کروایا تھا۔ ان رہنمائوں میں سے کچھ نے اخوان کی تحریک سے ناصر کے ظلم و ستم سے پہلے بھی اور بعدمیں بھی روابط قائم رکھے ہوئے تھے۔
قیصر فراح کے خیال میں پاکستان میں اسلام کی بات منظم اور مؤثر طریقے سے چلنی شروع ہوئی تو صرف اور صرف مولانا مودودی کی وجہ سے۔ ورنہ اس کے حکمرانوں کو تو فقط ایک آزاد اور علیحدہ ریاست سے دل چسپی تھی‘ جو ہندو اکثریت سے الگ ہو۔ لیکن یہ کہ اس ریاست میں لازماً اسلام کا بول بالا ہو‘ اس کے لیے ان حکمرانوں کے ہاں کوئی سنجیدہ رویہ نہیں تھا ۔ فراح کے خیال میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ کے بالمقابل کھڑی ہو گئی۔ جماعت اسلامی نے ریاست کی تشکیل کے لیے تجدد پسند اعلیٰ طبقے کو سارے اختیارات دینے کی مخالفت کی اور ہندستان کی اسلامی امت کو افتراق سے بچا کر جسدِ واحد کی طرح ساتھ لے کر چلنے پر اصرار کیا۔ مولانا مودودی قومیت کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کے خلاف تھے کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی تصور تھا --- پاکستان بننے کے بعد انھوں نے اپنی پوری قوت سے کوشش کی کہ یہ مملکت اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے۔
فراح نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی بنیادوں پر ریاست کی تشکیل کی آواز اگر کسی نے اٹھائی ہے تو صرف مولانا مودودی اور جماعت اسلامی: لادینیت یا سیکولر رجحان کی ہوا کا رُخ پھیرنے اور پاکستان میں نفاذ اسلام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ قدیم روایات کے مطابق معاشرے کی اصلاح کر کے اس کو اسلام پر چلانے کے لیے جتنے بھی مصلحین کھڑے ہوئے ہیں‘ ان سب کا ایک معیاری طریقہ تھا‘ مولانا مودودی نے بھی وہی اختیار کیا تھا۔ وہ متفقہ معیار یہ تھا کہ قرآن کی تعبیر ایک مسلم آئیڈیالوجی کے پس منظر ہی میں صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ مغربی فلسفے کا اس تعبیر میں کوئی مقام نہیں ہے۔ مغربی فلسفے کے ساتھ اسلام کا کوئی ملغوبہ تیار نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ مسلم آئیڈیالوجی میں مذہب ہی اس کی روح ہے اور یہی اس کی رہنمائی کرنے والی کلید تھی۔ سید مودودی نے یہ بات بالکل صحیح اور درست کہی ہے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے‘ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس کے اندر سیاسی نظام بھی ہے‘ معاشی نظام بھی اور ایک قابل عمل مذہب بھی‘ کیونکہ یہ ایک مکمل دین ہے۔ ان تصورات کی روشنی میں مولانا مودودی نے زور دیا کہ ان سب باتوں کو صرف اسی صورت میں روبہ عمل لایا جا سکتا ہے جب زندگی کے سارے شعبوں پر اس کا اطلاق کیا جائے‘ صرف کسی محدود حصے پر نہیں۔
بعض دوسرے مستشرقین کی طرح فکر مودودی میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرنے کے بجاے فراح نے اس کے تصور اسلام کی مکمل تائید کی ہے۔ اس کے بعد اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ :۱۹۷۷ء سے پاکستان کی سیاست کا طرہ امتیاز یہ رہا ہے کہ مختلف اداروں کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی پالیسی کی رفتار تیز تر کر دی گئی۔ افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اب اسلام ایک ایسی سیاسی اور اجتماعی قوت بن کر ابھر چکا ہے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ بالآخر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ پاکستان کے سارے قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔
اس فیصلے پر پہنچنے سے پاکستان کی تاریخ میں لادینیت اور فکر مودودی کے درمیان جو پنجہ آزمائی ہوتی رہی ہے‘ اس کا نقشہ فراح نے اس طرح کھینچا ہے: ’’۱۹۴۸ء میں مودودی کو جیل میں ڈالا گیا۔ قدیم روایات کے علم بردار مذہبی رہنما اور نئے بنیاد پرست رہنماؤں کو بھی ۱۹۵۳ء میں اس الزام میں جیل میں ڈالا گیا کہ انھوں نے فسادات برپا کیے تھے۔ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں اسکندر مرزا نے جو اس وقت ہوم سیکرٹری تھے اعلان کیا کہ ’’مذہب اور سیاست کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے‘‘۔ --- ۱۹۵۶ء کے دستور میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں ایوب خان نے اپنے دورحکومت میں ’’اسلامی‘‘ کا لفظ پاکستان کے نام سے الگ کر کے نکالنا چاہا لیکن ناکام رہا۔ ترکی کے اتاترک کی طرح کی ایک لادینی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن اس کو تائید و حمایت نہیں حاصل ہو سکی۔ آہستہ آہستہ اسلامی اور اعتدال پسند طبقے کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ لیکن نہ تو علما نے اور نہ جمعیت العلما نے کوئی نعم البدل آئیڈیالوجی پیش کی بلکہ وہ صرف یہی مطالبہ کرتے رہے کہ ملک کے دستور کو شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ علما اسی طرح ریاست کی رہنمائی کر سکتے تھے جیسا کہ بعد میں چل کر ایران کے علما نے کیا۔ جماعت اسلامی نے نچلے شہری طبقے پر مبنی ایک تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن مسلم سیکولر گروہ نے اس کی مزاحمت کی۔
۴
زمانہ حال میں پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو (John L. Esposito) کا نام ایک نمایاں امریکی مستشرق کے طور پر سامنے آیا۔ اسپوزیٹو کی کتاب "Unholy War: Terror in the Name of Islam ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی۔
یہ کتاب ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کی توجیہہ و تعبیر کے لیے لکھی گئی ہے۔ مصنف مستشرقین کی دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے تعلق سے صف اول کاماہر شمار کیا جاتا ہے۔ اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون کے مطابق ’’امریکہ میں اسلامی دنیا پر اسکالر کی حیثیت سے سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ہیں‘‘۔ دی وال اسٹریٹ جرنل کے نزدیک: پروفیسر اسپوزیٹو امریکہ میں اسلام کی تعبیر و تشریح کرنے والوں میں اولین درجے کی مستند شخصیت‘‘ تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کے علاوہ موصوف کی چار مزید کتابیں پہلے شائع ہو چکی ہیں اور دوسرے مستشرقین کے ساتھ مل کر تین مزید کتابیں تالیف کی ہیں۔ علاوہ ازیں آکسفورڈ کی تاریخ اسلام‘ اسلام کی آکسفورڈ ڈکشنری اور جدید اسلامی دنیا کی آکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ ان میں ایک کتاب Muslims and The West: Encounter and Dialogue مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے مترجم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ اسپوزیٹو کا اسلام اور تحریک اسلامی کے ساتھ رویہ معاندانہ نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو (جارج ٹائون یونی ورسٹی‘ واشنگٹن) کا اس نوعیت کا رویہ میرے نزدیک فکرمودودی کا کمال ہے۔ کیونکہ جو شخص بھی کھلے دل کے ساتھ مولانا کی تحریر پڑھ لے‘ وہ اس میں کیڑے نکالنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے‘ اب آہستہ آہستہ بعض دوسرے مستشرقین بھی اسلام اور تحریک اسلامی کی عظمت اور اہمیت کے معترف ہوتے جا رہے ہیں۔
راقم نے اس مضمون کی ابتدا میں یہ بات کہی تھی کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے ڈانڈے مولانا مودودی اور حسن البنا شہید سے ملائے جا رہے ہیں۔ اور جان ایل اسپوزیٹو کا شمار بھی ایسے ہی مستشرقین میں ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں ’اسلامی انقلاب‘، ’اسلامی تحریک‘، ’جاہلیت جدیدہ‘ کے تصورات جدید دنیا کے سامنے پیش کرنے والے یہی دونوں اسلامی مصلحین ہیں۔ پھر اسپوزیٹو اور اس کے دوسرے ہم نوا مستشرقین کے خیال میں‘ ان دونوں میں بھی مولانا مودودی کا بحیثیت مفکر‘ حسن البنائ‘ پر پلہ بھاری ہے۔ ان دونوں سے متاثر ہونے والے حسن البناء کی تحریک اخوان المسلمون کے علمی و فکری قائد سید قطب بھی اپنی جگہ ایک بڑے مفکر ہیں۔ لیکن ان کی فکر کی بنیادیں بھی مولانا مودودی کی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ آگے چل کر اسپوزیٹو نے کہا ہے: سید مودودی اور سید قطب کے بعد سے تحریک اسلامی کا رخ اب آہستہ آہستہ پلٹنے لگا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعد کے مفکرین نے تو پرامن قانونی و جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ‘ حالات و واقعات کی مناسبت سے حتی المقدور طاقت کے استعمال کو بھی جائز قرار دے کر جہاد کو اپنی جدوجہد کا ایک اہم حصہ قرار دیا ہے‘ جسے آج کی دنیا نے ’دہشت گردی‘ کا نام دے رکھا ہے۔
کشمیر کے مجاہدین کو ۲۰۰۱ء میں آگرہ چوٹی کانفرنس کے دوران صدر مشرف نے آزادی کے لیے لڑنے والے (freeedom fighter) قرار دیا‘ لیکن جب امریکہ نے دبائو ڈالا تو جنرل مشرف نے بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اب جنرل مشرف بھی بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر دونوں کو یقین دلانے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان سے کشمیر میں داخل ہونے والے ’’دہشت گردوں‘‘ کا راستہ بند کر دیا ہے۔ گویا اب وہ مجاہدین بھی جنرل صاحب کی نظر میں ’’دہشت گرد‘‘ بن گئے ہیں۔
مولانا مودودی کی زندگی میں جہاد اور دہشت گردی کی موجودہ بحث نہیں اٹھی تھیں‘ اس لیے ان کا زور جمہوری اور قانونی ذرائع سے اسلامی انقلاب تک محدود رہا۔ اس لیے جدید مستشرقین‘ فکر مودودی اور حسن البناء شہید کو موجودہ ’دہشت گردی‘ یا ’جہاد‘ کا ذمہ دار نہیں قرار دیتے‘ بلکہ سید قطب اور ان کے بعد کی چند اسلامی تحریکوں خاص کر’حماس‘ کے لیڈروں پر اس کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کی فکر کی بنیاد ڈالنے والوں میں سید مودودی اور حسن البناء شہید کا تذکرہ اسپوزیٹو نے اس طرح کیا ہے:
اسلام نے جس تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور جس تیز رفتاری سے یہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہے‘ اسے دیکھ کر مغربی مؤرخین حیرت میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے اس انگشت بدندان کرنے والے زبردست پھیلاؤ کو مسلم روایات میں قرآن کی سچائی اور اسلام کے اس دعویٰ کے برحق ہونے کے معجزانہ ثبوت اور تاریخی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ یہی خدائی ہدایت کا واحد سرچشمہ ہے۔ لیکن اٹھارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے پہلے نصف تک‘ یورپی استعمار اور کئی جدید مسلم ریاستوں کی ناکامی نے اس عقیدے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بعض مسلمانوں نے تو یہاں تک سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ اب اسلام جدید دور میں ماضی کی طرح قابل عمل نہیں رہا۔ تاہم مصر کی اخوان المسلمون اور پاکستان کی جماعت اسلامی جیسی تجدید و احیا ے دین کی غرض سے اٹھنے والی اسلامی تحریکوں نے مذہبی اصلاحات اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے حکومت میں تبدیلیاں لانے کے کام کو یکجا کرنے کے کام کو اپنایا ہے۔ ان تینوں مفکرین [حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب] نے اسلام‘ اسلامی انقلاب‘ جہاد اور جدید مغربی سوسائٹی کے بارے میں جو افکار و نظریات پیش کیے ہیں مقبول عام اور انتہا پسند‘ امن پسند اور فساد انگیز ہر قسم کی اسلامی تحریکوں کی قیادت ان سے بے انتہا متاثر ہوئی ہے۔ جدید دور کے حالات و تقاضوں کی تکمیل اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے انھوں نے اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام حیات اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان لوگوں نے اسلامی عقائد کی جو ایک نئی تعبیر کی ہے وہ اس قدر عام اور مقبول ہو چکی ہے کہ ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں‘ ان کے دل و دماغ میں یہ تصورات غیر ارادی طور پر راسخ ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو ہر قسم کی اسلامی تحریکوں سے دور رکھتے ہیں‘ ان کا تصور اسلام بھی غیر ارادی طور پر وہی بن چکا ہے جو ان تین مفکرین نے پیش کیا ہے۔
اسپوزیٹو نے بیان کیا ہے: جب حسن البناء (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ) نے مصر میں اخوان المسلمون کی اور مولانا مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) نے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی‘ اس وقت نہ تو مغربی دنیا میں کسی نے اس کا نوٹس لیا اور نہ ان کے اپنے معاشروں اور ممالک میں اس پر کوئی خاص توجہ دی گئی۔ حسن البناء اور سید مودودی دونوں کو اس کا احساس و ادراک تھا کہ اسلامی دنیا میں جو کچھ بھی تبدیلی آئے گی وہ آہستہ آہستہ ہی آئے گی۔ انھیں اپنے افکار و نظریات رد کیے جانے اور ان خیالات کو قبول کرنے والے افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے امکانات صاف نظر آ رہے تھے‘ لیکن ان کی توجہات کا مرکز و محور نئی نسلوں کی تربیت تھی۔ اور انھیں اپنے ان مقاصد میں بے انتہا کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
سید قطب (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) نے حسن البناء اور سید مودودی کے خیالات کی بنیاد پر اپنی عمارت تعمیر کی اور انھیں ایک زبردست انقلابی رنگ بھی دیا۔ محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی اصلاحات سے لے کر انتہا پسند خوارج اور قاتلوں کے اقدامات تک کو سید قطب ؒنے جہاد کی مختلف تاریخی اقسام قرار دے کر ان سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ اس طرح انھوں نے اسلام کے ایک نظریاتی تسلسل اور تحریکی وراثت کا نظریہ تخلیق کیا۔ اس کے بعد چند مختصر عشروں کے اندر ہی حسن البناء کی اخوان المسلمون اور سید مودودی کی جماعت اسلامی کے خیالات‘ سید قطب کی تیز انقلابی تعبیر کی چھلنی سے چھن کر سارے عالم اسلام کی نئی سرفروش تنظیموں کے بنیادی ماڈل بن گئے۔
اسپوزیٹو نے آگے چل کر‘ حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب کو ’’اسلامی انقلاب کے مشعل بردار‘‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا ہے: یہ تینوں مفکرین صدیوں پرانی تجدید و احیاے دین کی روایات کا ایک حصہ ہیں۔ (مطلب یہ کہ انھوں نے کوئی نیا اسلام پیش نہیں کیا تھا) لیکن ان کی تعبیرِنو جدید تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے۔ ان تینوں کو اس اعتبار سے جدید بنیاد پرست کہا جا سکتا ہے‘ کہ انھوں نے اسلام کے اصل منبع و مآخذ اور اس کی بنیادوں کی طرف رجوع کیا۔ انھوں نے جدید تقاضوں کی تکمیل کے لیے اسلام کے اصل مآخذ کی تعبیرِنو کی۔ یہ بات ان کی جملہ تعلیمات‘ تنظیم‘ طریق کار اور حکمت عملی میں صاف نظر آتی ہے اور جدید سائنس‘ ٹیکنالوجی کو بھی اسی رنگ میں استعمال میں لاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے موجودہ مجاہدین اور سرفروش‘ جدید تعلیم ہی کی پیداوار ہیں۔ یہ لوگ ڈاکٹروں‘ انجینئروں‘ وکلا‘ صحافیوں‘ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور طلبہ کی پیشہ ور فنی تنظیموں کے قائدین ہیں۔
اسپوزیٹو کے اس تبصرے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کی نظروں میں اسلام کی سچائی اور حقانیت اسی وقت سامنے آئے گی جب یہ ساری تحریکیں اپنے اپنے ممالک میں کامیاب ہوں گی اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات سے قریب بھی لائیں اور بدکردار مسلم حکمرانوں کی جگہ ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئے جو نظام حکمرانی کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں۔ پہلے کام کے لیے تو پاکستان میں جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دونوں کوشاں ہیں لیکن دوسرے کام میں تبلیغی جماعت شامل نہیں ہے۔
اسپوزیٹو کے تبصرے سے دوسری بات جو وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے‘ وہ یہ کہ آج کے عالم اسلام میں اسلام کے وہ تصورات ہی کار فرما ہیں جو متذکرہ بالا مفکرین‘ (حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب) نے اپنی تحریروں میں پیش کیے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو کسی بھی اسلامی تحریک کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے‘ غیر شعوری طور پر اسلام کے بارے میں ان کے بھی وہی خیالات و نظریات ہیں جو تینوں مفکرین نے پیش کیے تھے۔ جدید دور کے مسلمانوں میں فکر مودودی کے اس حد تک سرایت کرنے کا اعتراف‘ ایک ایسی حقیقت ہے جس کاادراک خود تحریک اسلامی کے بہت سے کارکنوں کو بھی نہیں ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ: ان تینوں مفکرین نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان تینوں مفکرین کے اس دعوے کی اس نے کہیں مخالفت نہیںکی۔ اسپوزیٹو کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان تینوں مفکرین کی فکر سے متاثر ہے‘ بلکہ یہ بھی کہ معاصر علوم و فنون میں اس طبقے کی ساری قیادت بھی اسی اسلام پسند طبقے کے ہاتھ میں ہے جو فکر مودودی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ راقم اپنی تعلیمی زندگی کے دور سے یہ دیکھتا آیا ہے کہ میٹرک‘ بی اے‘ ایم اے‘ انجینئرنگ‘ میڈیکل اور دوسرے امتحانوں میں فرسٹ کلاس لانے والے زیادہ تر طلبہ میں فکر مودودی کی علم بردار تحریک‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اچھی خاصی تعداد میں پیش پیش رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تحریک اسلامی یا فکر مودودی سے متاثر ہونے کے بعد‘ انسان کی زندگی میں مقصدیت کی سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے‘ جو اسے اللے تللوں سے روکتی ہے اور فضول کاموں اور لایعنی اعمال سے دور رکھتی ہے۔ آدمی تضیع اوقات سے بچا رہتا ہے اور اپنے سارے اوقات مفید پیدا آوری کاموں میں لگائے رکھتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی سے اسے ایسا سکونِ قلب بھی میسر ہوتا ہے جو اس کو فضول گپ شپ اور یار باشی کی محفلوں سے دور رکھتا ہے۔ وہ اپنے مقصد سے لگن کی دھن میں جان و مال کی قربانی کے عزم کے ساتھ لگا رہتا ہے‘ اور کثیر جہتی کام جس میں اسے مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ اسے عبادت سمجھ کر کرتا ہے۔ اس اپنی صلاحیت و قابلیت کی ترویج و ترقی کے ذریعے اسلام کے غلبے کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کا بے مثال جذبہ بھی رکھتا ہے اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینا اس کی زندگی کا ایک بلند تر مقصد بن جاتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ تحریک اسلامی والوں کو ہرقسم کی تنظیم میں قیادت کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ: ان تینوں مفکرین نے روایتی اسلام ہی کی نئی تعبیر کی ہے لیکن جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر انھوں نے اسلام کا حلیہ نہیں بگاڑا‘ بلکہ اسلام کے اصل مآخذ اور اس کی اصل بنیادوں کی طرف رجوع کیا ہے۔ انھوں نے تجدید و احیاے دین کی روایات کو زندہ رکھا ہے۔
اس بات کی اہمیت ہم پر اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم مسلمانوں میں تجدد پسند اور مغرب زدہ طبقے کو دیکھتے ہیں جو مغرب کی غالب تہذیب سے اتنے متاثر و مرعوب ہیں کہ وہ اسلام کو توڑ مروڑ کر مغرب ہی کے متعین کردہ معیارات پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جامعہ ازہر نے بعض اسلامی امور پر ایسے امور کو جائز قرار دینے کے لیے فتوے بھی دیے ہیں۔ جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے فلسطینی مجاہدین کے اسرائیل پر خود کش حملوں کو ناجائز قرار دیا ہے جبکہ آزاد علما کی اکثریت نے اسے جہاد قرار دیا ہے۔
انیسویں صدی میں ہندستان پر برطانوی استعماری قبضے کے دوران میں انھیں خوش کرنے کے لیے مشرقی پنجاب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور پھر اس جھوٹے نبی نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا‘ تاکہ انگریزوں کے خلاف سید احمد شہید (م: ۱۸۳۱ئ))کی تحریک جہاد کو صحیح سمجھنے اور اس کے تسلسل میں جدوجہد کرنے والے اس کی تائید وحمایت سے پیچھے ہٹ جائیں۔
قیام پاکستان کے بعد ایسے ہی تجدد پسندوں کے رہنما چودھری غلام احمد پرویز (م:۱۹۸۵ئ) نے انکارِ حدیث کا فتنہ کھڑا کیا‘ اور حدیث کی تشریحات سے اپنے آپ کو آزاد کر کے قرآن کی من مانی تفسیر کر ڈالی۔ معجزات کا انکار کیا۔ لیکن خدا بھلا کرے سید مودودی کا جنھوں نے ایسے فتنوں کو دلیل سے بے نقاب کر کے انھیں بے اثر بنا دیا۔ البتہ انٹرنیٹ پر امریکہ کے کچھ منکرین حدیث اپنے نظریات کی اشاعت کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ لیکن انھیں اس کے منہ توڑ جوابات بھی نیٹ پر دینے والے موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر اسکالر امریکہ کے پاکستانی نژاد ڈاکٹر کوکب صدیقی ہیں‘ جو فکر مودودی کے علم بردار بھی ہیں‘ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں اور منکرین حدیث اور اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کو فکر مودودی کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ جوابات بھی دیتے ہیں۔
پروفیسر اسپوزیٹو کا کہنا ہے: حسن البناء اور مولانا مودودی معاشرے کے اجتماعی اور اخلاقی بگاڑ کی طرف متوجہ تھے‘ لیکن بعد میں یہ لوگ سیاست اور حزب اختلاف جیسی دلدل میں پھنس گئے۔
شاید ابھی تک اسپوزیٹو کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی کہ اجتماعی اور اخلاقی بگاڑ کا منبع حکومت ہے۔ جس کی مثال مولانا مودودی نے ریل کے انجن کے ڈرائیور سے دی ہے کہ جس سمت میں بھی وہ ریل گاڑی لے جائے گا‘ اس میں سفر کرنے والے اس سمت میں جانے کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں‘ انھیں چار وناچار اسی طرف جانا پڑے گا۔ اس لیے اس کا حل اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ انجن پر ایسے ڈرائیور کو لایا جائے جو اسے صحیح سمت پر لے جائے۔ ڈرائیور کو بدلے بغیر سمت بدلنے میں مسافروں کی ساری کوششیں ناکام رہیں گی۔ جب حکومت کو بدلے بغیر کوئی اخلاقی یا سماجی اصلاح ممکن نہیں ہے تو سیاست میں آنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہی فکر مودودی کا جوہری پیغام ہے کہ اس نے مسلمانوں کی توجہ انفرادی اعمال کے ساتھ ساتھ اجتماعی جدوجہد کی طرف مبذول کرائی‘ کہ روحانیت کا حصول اسی گندی سیاست کو پاک صاف کرنے کی جدوجہد میں مضمر ہے۔ اسی کنویں میں کود کر تیراکی سیکھنی ہے۔ خشکی پر کتنی ہی تربیت حاصل کر لی جائے‘ وہ مولانا مودودی کی نظر میں بے معنٰی اور لاحاصل ہے‘ کیونکہ پانی میں پہلے غوطے ہی میں خشکی کی ساری تربیت بیکار ہو جاتی ہے۔
آگے چل کر مولانا مودودی کے حوالے سے اسپوزیٹو نے لکھا ہے : سید مودودی کی نظر میں جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کا زوال پذیر ہونا اور دولت عثمانیہ کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا برطانوی اور فرانسیسی سامراجیت کا نتیجہ ہے۔ اوریہ کہ مسلمانوں کی شناخت اور اتحاد کو ہندوؤں کی سیکولر قومیت سے بھی اور جدید تصورِ قومیت کے زبردستی نفاد سے بھی خطرہ ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ جدید تصورِ قومیت مغربی آئیڈیالوجی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو کمزور اور منقسم کرنا ہے۔ مسلمانوں میں مساوات اور سیسے کی طرح مضبوط دیوار بن کر رہنے کا اسلامی اخوت کا تصور جو ایک آفاقی تصور ہے۔ مغربی تصورِ قومیت مسلمانوں کو تعلیم و ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس آفاقی تصور کو منہدم کر دیں اور اپنی شناخت کی بنیاد زبان‘ نسل اور قبیلوں پر رکھیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مستشرق نے اسلام کے تصور اخوت اور فکر مودودی میں اس کی جھلک کا صحیح ادراک کیا ہے۔ وہ مولانا مودودی اور حسن البناء کے افکار کی یکسانیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے: ان دونوں کو اسلام کی عظمت رفتہ سے والہانہ عقیدت تھی‘ وہ خاص طور پر اٹھارہویں صدی کی احیاے دین کی تحریکوں سے بھی دل چسپی رکھتے تھے لیکن اس بنا پر‘ وہ ان قدیم تحریکوں کے طریقوں کے اسیر ہو کر نہیں رہ گئے بلکہ بڑی بالغ نظری سے انھوں نے جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہ جس طرح مغرب زدہ سیکولر تعلیم یافتہ طبقے کے تصورات پر تنقید کرتے تھے‘ اسی طرح ایسے مسلم معاشرے کے بھی مخالف تھے جس پر مذہبی قدامت پرستی حاوی ہو۔ اگرچہ وہ جدید اسلامی مصلحین کی کوششوں سے متاثر تھے جنھوں نے جدید دور اور قدیم روایت پرستی کے درمیانی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ تجدد پسندی ‘اسلام کو مغربیت اور مغربی اقدار کے تابع کرنے کے مترادف تھی۔ جدید دور کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ لوگ اسلام میں من مانی ترمیم و تنسیخ کر کے اس کو مغربی معیارات پر پورا اترنے والے سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفکرین مغربیت کے خلاف تو ضرور تھے‘ لیکن عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کے استعمال اور اس کی تجدید کو وہ ضروری سمجھتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان دونوں کے خیال میں اسلام میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں تھی۔ ان سب کاموں کے لیے اسلام ایک کامل و مکمل اور خود کفیل دین ہے۔ جدید دور کے سیاسی‘ معاشی اور تمدنی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انھوں نے علما کے قرونِ وسطیٰ کے قدیم تصورات کا سہارا لینے کے بجاے اسلام کی بنیادی اور الہامی ہدایات کو ایک نئے رنگ اور نئی تعبیرکے ساتھ پیش کیا‘ کیونکہ اسلام کی یہ تعلیمات‘ جدید دور کے سارے مسائل حل کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔
اسپوزیٹو نے یہ بتانا چاہا ہے: ان دونوں مفکرین نے کس طرح اسلامی تعلیمات کو محفوظ و مامون رکھ کر انھی کے ذریعے یورپی اور مغربی تہذیب کے افکار و نظریات اور طور طریقوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی‘ اور ان کے ہاں اسلام کی طرف مراجعت‘ دور ماضی کی طرف مراجعت کے ہم معنی نہیں ہے‘ بلکہ اسلام ہی کو وہ دور حاضر کی پیدا کردہ ان ساری بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں‘ جو مارکسزم اور مغربی نظام سرمایہ داری نے پیدا کی ہیں۔
اسپوزیٹو نے بتایا ہے: فکر مودودی نے مذہبی طبقے کی قدامت پرستی اور مغرب زدہ طبقے کی تجددپسندی سے ہٹ کر مسلمانوں کو ایک تیسرا راستہ دکھایا۔ انھوں نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ اسلام اﷲ کا دیا ہوا ایک ابدی نظام حیات ہے اور اس میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ قیامت تک کے سارے زمانوں میں ہمیشہ قابل عمل رہے گا‘ بلکہ اسلام کے اصولوں پر چل کر عصر حاضر کی پیدا کردہ تمام مشکلات و مسائل کا مداوا بھی اﷲ کے بتائے ہوئے الہامی نظام میں موجود ہے۔ انھوں نے الہٰیات اور سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم میں تطبیق کی راہ دکھائی اور اس میں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کیا۔ یہی وہ تیسری راہ ہے‘ جسے اسپوزیٹو کے مطابق مسلمانوں کا سواد اعظم آج غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر قبول کر چکا ہے۔
۱- اسلام ایک ایسا طریق زندگی ہے جو زندگی کے سارے شعبوں پر محیط ہے۔ اسلام واضح کرتا ہے کہ سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے۔
۲- قرآن جو اﷲ کی طرف سے نازل کردہ ایک الہامی کتاب ہے اور رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی سنت اور صحابہ کرامؓ کی زندگی وہ بنیادیں ہیں جو ایک مسلمان کی روزمرہ کی زندگی کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہیں۔
۳- اسلامی قانون (شریعت) کا نفاذ ہی وہ اصل مقصود ہے جو ایک مسلم معاشرے کی تشکیل کا خاکہ فراہم کرتا ہے اور یہ کسی مغربی نمونے کا محتاج نہیں ہے۔
۴- اسلام سے دوری اختیار کر کے مغرب کا سہارا لینے کا عمل ہی وہ بنیادی سبب ہے جو امت مسلمہ کے زوال کا سبب بنا۔ اسلام کی صراط مستقیم کی طرف لوٹ آنا ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اس دنیا میں امت مسلمہ کی شناخت‘ قوت و طاقت‘ سطوت و جلال اور شوکت و عظمت بحال ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی اجر عظیم کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
۵- سائنس اور ٹکنالوجی پر عبور حاصل کر کے اس کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ اس کام کو مغربیت اور لادینیت کی آلایشوں سے بچتے ہوئے انجام دیا جائے‘ اور اس کا استعمال اور اطلاق اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ان سے ہٹ کر نہیں۔
۶- جہاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے مسلم معاشرے کو اور ساری دنیا کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ یہ جہاد انفرادی طور پر بھی ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی۔ نظریات و افکار کی دنیا میں بھی ہونا چاہیے اور عملاً اسلامی اصلاحات کے نفاذ اور اسلامی انقلاب کو برپا کرنے کے لیے بھی۔
اس طرح اسپوزیٹو نے فکر مودودی پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے:دونوں مفکرین نے یہ بتایا کہ خدائی طاقتوں اور شیطانی قوتوں کے درمیان کش مکش ایک ناگزیر امر ہے۔ دونوں کی خواہش یہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی تنظیم‘ معاشرے میں ہمہ گیر تبدیلیاں اور دور رس اصلاحات لانے کا ایک سرگرم مرکز و محور بنے اور یہ خود ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو انتہائی نیک سیرت اور پرہیز گار ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ انھو ںنے سامراجیت اور مغربی کلچر کے خطرے کے خلاف آواز بلند کی‘ لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتے تھے (جیسا کہ آج کی بہت سی اسلامی تنظیمیں بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں) کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی ذمہ داری دراصل خود مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے (محض بیرونی اسباب پر نہیں)۔ یہ دعوت خود مسلمانوں کو دینی ہے کہ وہ اسلام کے ایک جامع اور مکمل نظام کے سارے شعبوں پر عمل کرنے کی طرف اپنی توجہات کو مرکوز کریں۔
اسپوزیٹو کے خیال میں: دعوت کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ غیرمسلموں کو یہ دعوت دینا کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور دوسرے یہ کہ خود مسلمانوں کو دعوت دینا کہ وہ اچھے اور بہتر مسلمان بنیں۔ اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی دونوں نے اس دوسرے پہلو پر زور دیا کہ وہ اپنے دین کی تجدید کریں اور اس پر پوری طرح عمل کریں‘ تاکہ ایک سماجی انقلاب برپا ہو اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دوبارہ اسلام کی کارفرمائی عمل میں آئے۔ اخوان اور جماعت دونوں نے مدارس‘ مساجد‘ لٹریچر‘ طلبہ کی تنظیموں‘ پیشہ ور انجمنوں اور سماجی خدمات کے ذریعے اپنے پیغام کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی۔ اس پیغام میں دین کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے‘ جدید تعلیم و تربیت اور ٹکنالوجی پر عبور حاصل کرنے اور سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت تھی۔
کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر اسپوزیٹو نے جماعت اسلامی کی ایک حد تک صحیح تصویر کشی کی ہے اور فکر مودودی اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جماعت کے مقاصد‘ نصب العین اور طریق کار کی بخوبی وضاحت کی ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اتنے فاصلے پر ہونے کے باوجود میری کردار سازی میں سیدمودودی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ میری نشوونما اس جدید اسلامی تحریک کے گہوارے میں ہوئی ہے‘ جو سید مودودیؒ کے افکار سے متاثر تھی۔ لیکن حیرت اس امرپر ہے کہ سیدیؒ ان بہت سے لوگوں کی کردارسازی میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں‘ جن کا اس اسلامی تحریک سے تعلق نہیں رہا ہے‘ بلکہ جو اسلامی تحریک سے دشمنی تک رکھتے ہیں۔ جب کسی رہنما کی فکر کا اثر اس کے اپنے حلقہ احباب اور خوشہ چینوں کے علاوہ غیروں تک میں بھی سرایت کرجائے تو یہ اس رہنما کی عظمت کی دلیل ہوتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سید مودودیؒ کے زندگی اور ایمان سے بھرپور افکار‘ معاشرے کے تہذیبی ڈھانچے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس طرح اُمت مسلمہ کی عقلی ساخت کی ایک اور کڑی مکمل کرنے کا اعزاز بھی سید مودودیؒ کو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سید مودودیؒ اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ان چند خاص لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں یہ فضیلت حاصل ہے۔
ہماری نسل جو عرب قوم پرستی پر مبنی فوبیا کا شکار تھی اور اس نظریے کے برعکس عالمِ عرب سے باہر کے افکارونظریات سے کسی قسم کے اخذ و اکتساب سے خوف زدہ تھی۔ باطل افکار کی یلغار کے اس زمانے میں بھی سید مودودیؒ کے افکار و نظریات کی تاثیر عروج پر تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی تحریک سے وابستگی کے باوجود ہم بھی کسی حد تک اس مکتب کے افکار سے ضرور متاثر ہوئے جس کا لیڈر جمال عبدالناصر تھا‘ جب کہ وہ اسلامی تحریک کا بدترین دشمن تھا۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ خالص عربی فکر کے دائرے میں رہتے ہوئے عرب مسلمان کس حد تک سید مودودیؒ کے افکار سے متاثر ہوئے ہیں اور کس حد تک وہ ان کے لیے احسان مندی کے جذبات رکھتے ہیں۔
میں سید مودودیؒ کو ایک عظیم مصلح کی صورت میں دیکھتا ہوں۔ مجھے ان تعلیم یافتہ لوگوں سے مکمل طور پر اختلاف ہے‘ جو جدید تعلیم کو ایسے ضابطے اور نظریات گھڑنے کے لیے استعمال کررہے ہیں‘ جس میں مسلمانوں کو‘ استعمار کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت پر کان نہ دھرنے اور خوابِ غفلت کا شکار رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی نہ کسی درجے میں مغربی مفادات کے زیراثر ایسی تحریکوں کو‘ خود مغربی استعمار نے اسلامی بیداری کی اٹھنے والی لہر کو سبوتاژ کرنے کے لیے منظم کیا ہے۔ وہ بیداری کہ جس نے باطل پرستانہ فکری تحریکوں کا جواب دینے اور استعمار کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔
اس نام نہاد روشن خیال مکتب فکر نے سید مودودیؒ کو ایسے لوگوں میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے‘ جن پراسلامی افکار اپنانے میں شدت پسندی جیسے بے معنی الزامات لگائے گئے ہیں۔ بہرحال سید مودودیؒ ،مغربی تہذیب و استعمار کی غلامی سے نکلنے اور اس غلامی کا راستہ روکنے والے سب سے اہم رہنما بن کر سامنے آئے۔ چونکہ سید مودودیؒ نے براہِ راست قرآن‘ حدیث اور سیرت پاکؐ سے رہنمائی لی تھی‘ اس لیے ان کی فکر واضح طور پر غلو سے محفوظ رہی ہے۔ ہندستانی اور پاکستانی میدان سیاست میں کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی‘ جس میں سید کی دعوت کو انتہاپسندی سے تعبیرکیا گیا ہو۔ برعظیم پاک و ہند میں آپ نے جس جماعت اسلامی کو پروان چڑھایا‘ واقعہ یہ ہے کہ وہ تنظیم دنیا کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ اعتدال پسند شمار کی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے خلاف بلاجواز پابندیوں اور زیادتیوں کے باوجود اس نے جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے جتنا ممکن ہوسکا کام کیا۔ حکمرانوں کی جانب سے متعدد بار ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ جماعت ردعمل کے جال میں الجھ کر جمہوری روایات ترک کر دے‘ لیکن سیدمودودیؒ کی اعتدال پسندانہ اور دانش مندانہ قیادت اور ذہن سازی کے نتیجے میں جماعت اس حادثے سے بچی رہی ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حلقوں کی جانب سے سید مودودیؒ اور ان کے افکار کو ہی کیوں موردالزام ٹھیرایا گیا؟ صوفی کی تحریک کے مصلحین پر اس طرح کی الزام تراشی کیوں نہیں کی گئی؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ سید مودودیؒ کے افکار میں دو بنیادی خصوصیات پائی جاتی ہیں:
انھی امتیازات کی وجہ سے سید مودودیؒ کی تحریریں اسلامی بیداری‘ احیاے اسلام‘ اقامتِ دین اور دعوتِ دین سے دل چسپی رکھنے والے مسلمانانِ عالم کے ہاں مقبولیت میں اعلیٰ درجے کا مقام رکھتی ہیں‘ خواہ وہ جنوبی ایشیا کے مسلمان ہوں یا عالمِ عرب کے‘ ان کا تعلق افریقہ سے ہو یا وسط ایشیاکے کسی حصے سے۔ یہاں تک کہ مغربی تہذیب و ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھنے والے تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاں بھی سید مودودیؒ کی تحریریں اسی اہمیت کی حامل ہیں‘ جیسی اہمیت انھیں اہلِ مشرق کے ہاں حاصل ہے۔ سید مودودیؒ کی تحریروں میں تھوڑی سی بھی دل چسپی لینے والا ہر فرد ان کی فکر سے ضرور متاثر ہوا ہے‘ خواہ وہ آپ کا حامی تھا یا مخالفین میں سے۔
سید مودودیؒ کے افکار ہماری ذہنی ساخت میں رچ بس گئے ہیں۔اسلام کی مستقبل کی تحریکوں اور نسلوں کے لیے سید مودودیؒ کا سب سے جان دار کام جو باقی رہے گا‘ وہ ہے ان کی جانب سے توحید کا صحیح مفہوم پیش کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کے اثرات مرتب کرنے کا پیغام۔ سید مودودیؒ کے فکری کارنامے کا یہی مرکزی نکتہ ‘ اسلام کی جدید تحریکی سوچ اور تقلیدو جمود پر مبنی سوچ کے درمیان ایک حد تک امتیاز رہے گا۔
تمام بڑے ائمہ کی طرح سید مودودیؒبھی اس دنیا سے جاتے ہوئے اپنے پیچھے بڑا شان دار علمی و فکری ورثہ چھوڑ گئے ہیں۔ اس فکری ورثے میں وسعت پیدا کرنے کے لیے آپ کے ان ساتھیوں کا بھی حصہ ہے‘ جنھوں نے آپ کے طریق تحقیق و تجزیے کے مطابق کام کو آگے بڑھایا ہے۔
آج سے سیکڑوں برس بعد مسلمانوں کے حالات موجودہ حالات سے یقینا مختلف ہوں گے‘ اللہ سے دعا ہے کہ وہ آج سے بہتر ہوں۔ اس دوران میں بہت سے نئے افکار اُبھریں گے‘ لیکن اس آنے والے زمانے کا مسلمان مصلح‘ مبلغ‘ عالم اور دانش ور بھی سید مودودیؒ کی تحریروں اور افکار کی طرف دیکھے گا تو وہ آپ کے افکار کو اپنے زمانے کے موافق پائے گا‘ ان میںتازگی پائے گا اور ان سے استفادہ کرسکے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے‘ آمین!
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب تحریکِ اسلامی کا آغاز کیا تو اس وقت مسلم دنیا ایک انتشار کا شکار تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کی کش مکش چل رہی تھی۔ استعماریت اور حریت پسندی کے درمیان معرکہ بپا تھا۔مسلم ممالک چونکہ کسی نہ کسی طاقت کے غلام تھے یا غلامی کے بندھنوں سے تازہ تازہ آزاد ہوئے تھے‘ اس لیے اپنے آقائوں کے نظریات کے زیراثر تھے۔ آدھی دنیا پر مغربی فکر کا غلبہ تھا تو باقی لوگ کمیونزم کے جال میں پھنس رہے تھے۔
یہی حال ہندستان کا تھا۔ ہم انگریز کے خلاف بھی تھے اور اس سے مرعوب بھی۔ اس کی تہذیب‘ کلچر‘تمدن‘ تعلیمی نظام‘ قانون‘ معیشت‘غرضیکہ ہر چیز جو اُن سے تعلق رکھتی تھی اچھی لگتی تھی۔ مغربی نظامِ حیات آئیڈیل لگنے لگا تھا‘ جو دراصل ایک بے خدا اور ملحدانہ نظامِ حیات تھا۔ خدا کو انھوں نے چرچ تک محدود کر دیا تھا۔ سو ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ ہماری دنیا میں اللہ تعالیٰ دخل نہ دیںاور وہ مسجد تک ہی محدود رہیں۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کی بجاے شرم محسوس ہونے لگی تھی۔ اس میں کچھ قصور ہمارے بیش تر علما کا مگر زیادہ تر کٹھ ملائوں کا بھی تھا۔ انھوں نے دین کو چند عبادات اور رسومات کی تنگنائے میں قید کر دیا تھا۔ اسلام کے لامحدود اور انقلابی تصور کو محدود کر دیا تھا اور علم و اجتہاد کا دروازہ بند کر کے بس وہی باتیں کہتے رہتے تھے‘ جو اُن کے محدود تصورِ دین سے مطابقت رکھتی تھیں۔ ان بھلے لوگوں نے اسلام کو مختلف مسالک کی کوٹھڑیوں میں بند کرکے اس کی آفاقیت پر ضرب لگائی۔ اسلام کا پرچار کرنے کے بجاے مسلکوں کا پرچار کرنے لگے۔ اکثریت پیروں‘ فقیروں‘ کرامات اور بدعات میں مبتلا ہوگئی۔
ظاہر ہے کہ ان سب نظریات و افکار کا اثر عورتوں پر بھی پڑنا تھا۔ اسلام کے نام پر تنگ نظر لوگوں نے عورت کو گھر میں پابند کر دیا۔ جائز ضروریات کے لیے نکلنا بھی ممنوع تھا۔ ان ضروریات کے لیے بھی وہ مردوں کی محتاج تھیںکہ جو لا دیں وہی پہنیں‘ اوڑھیں اور وہی پکائیں‘ کھائیں۔ ان کی اپنی پسند ناپسند سب مرد کے تابع تھی۔ پڑھنا لکھنا بھی عورتوں کے لیے شجرممنوعہ تھا۔ بہت ہوا تو اتنی شدبدحاصل کرنے کی اجازت تھی کہ وہ ناظرہ قرآن پڑھ لیں اور مسئلے مسائل کے لیے پہلے تو چند چھوٹی چھوٹی نظمیں یاد کرا دی جاتیں اور پھر نئے زمانے میں بہشتی زیور۔ دین کے بارے میں مرد اپنی پسند ناپسند اور مزاج کے مطابق جو بتاتے تھے اس پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس معاملے میں خود سے تحقیق کرنے ‘سوچنے یا رائے دینے کا اختیار نہ تھا۔ انھیں اپنے حقوق کا کوئی علم نہ تھا۔ وہ حق مہر اور حق وراثت سے محروم تھیں۔ طلاق کے اسلامی طریقے‘ نان نفقہ‘ شادی میں لڑکی کی مرضی کی اہمیت‘ بیوہ کی شادی اور اسی طرح کے دوسرے حقوق کا کوئی علم نہ تھا۔ اسی لیے انھوں نے کسی بھی بے انصافی کے خلاف نہ کبھی کوئی احتجاج کیا اور نہ مطالبہ پیش کیا۔
فرائض کے نام پر جو ذمہ داریاں اُن کے سر منڈھ دی جاتی تھیں‘ وہ دین اسلام نے عائد نہیں کی تھیں ‘بلکہ ہندو معاشرے کے زیراثر پروان چڑھنے والی دقیانوسی سوچ تھی‘ جو مسلمانوں کے اندر اچھی طرح سرایت کر گئی تھی اور اُسے اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا گیا تھا۔ ہندو مذہب میں عورت کی حیثیت ایک داسی کی ہے‘ اور پیر کی جوتی سے زیادہ اس کی وقعت نہیں ہے۔ مرد اس کا آقا اور مالک ہے۔ اسی لیے بے سوچے سمجھے ہمارے ہاں بھی عام طور پر مرد کو عورت کا مالک کہا جاتا ہے۔ سو یہی سوچ ہماری بھی بن گئی۔ اس کی مرضی پوچھے بغیر اُسے جس کے پلّے چاہا باندھ دیا۔ کبھی کسی بڈھے سے بیاہ دیا تو کبھی کسی بچے سے‘ کبھی وٹے سٹے میں تبادلہ کر لیا تو کہیں ’ونّی‘ کی رسم کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ ذات پات کا تصور بھی ہندوئوں سے ہی آیا تھا۔ لہٰذا‘ اگر اپنی ذات میں رشتے نہیں ہیں تو بے شک لڑکی گھر کی چوکھٹ پر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجائے۔ اسی طرح ۳۲روپے حق مہر باندھا جاتا تھااور یہ ’شرعی حق‘ مہر کہلاتا تھا‘ حالانکہ قرآن اور حدیث میں کہیں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ یہی حال طلاق کا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دے کر تن کے کپڑے بھی اُترواکر گھر سے نکال دیا جاتا تھا اور جب چاہا حلالہ کے قانون کی دھجیاں اڑا کر دوبارہ گھر میں بسا دیا۔ غرضیکہ عورت مکمل طور پر تہی دست بلکہ مردوں کے زیردست تھی۔ آج بھی اکثریت کی یہی حالت ہے۔
دوسری طرف دنیا میں ایک نیا نظریہ‘ ایک نئی سوچ‘ تحریکِ آزادیِ نسواں یا مساوات مردوزن کے نام پر جنم لے رہی تھی۔ یہ نظریہ اس بات کا قائل تھا کہ مرد اور عورت برابر ہیں اور آزاد ہیں۔ اس آزادی کی راہ میں اگر خدا اور مذہب حائل ہوتاہے تو اس سے بھی اعلان بیزاری کر دیا گیا۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے زندگی گزارے۔ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اس سے فری سیکس اور تسکین کے لیے فطری یا غیرفطری جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے اس کا حق حاصل ہوگیا۔ مذہب‘ ریاست اور فرد‘کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ لہٰذا شادی‘ خاندان اور عفت و عصمت کا تصور پاش پاش ہوگیا۔
آزادیِ نسواں کا یہ زہر مسلمانوں کے اندر بھی پھیلنے لگا۔ مغربی تہذیب کی چکاچوند سے آنکھیں چندھیائی جا رہی تھیں۔ لہٰذا خواتین کی تعلیم کا چرچا ہونے لگا۔ عیسائی مشنری اداروں کے تحت بھی اسکول اور کالج کھلنے لگے۔ اکبر الٰہ آبادی نے طنزیہ انداز میں کہا ؎
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
عورتوں کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا یا انگریزی پڑھنا بری بات نہیں۔ لیکن انگریز اور اس کے کافرانہ فکروفلسفہ اور تہذیب سے مرعوب ہونا اور اپنی روایات‘ اپنے تشخص اور طور طریقوں سے بے زار ہونا اور جان چھڑانا بری بات ہے۔
مغربی اباحیت زدہ لوگوں نے ایسا ادب تخلیق کرنا شروع کیا جس میں مسلّمہ مذہبی اور مشرقی اخلاقیات اور خدا و مذہب سے بغاوت کا درس دیا جانے لگا۔ ذہنوں کو مسموم کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ اسلامی پردہ رجعت پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا‘ لہٰذا سب سے پہلے اسی پر ضرب لگائی گئی اور مسلم عورت کو چادر اور چار دیواری سے نکالنے کی مہم کا آغاز کیا گیا۔ بالائی طبقے اور سرکاری ملازمین کے ہاں سے پردے اترنے لگے۔ مخلوط دعوتیں شروع ہوگئیں۔ راگ رنگ کی محفلیں‘ سینما اور تھیٹر شروع ہو گئے۔
اعلیٰ طبقے کی دیکھادیکھی مڈل کلاس جو کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور اپنی روایات کی پاسبان بھی‘ ان خیالات سے متاثر ہونے لگی۔ بے پردگی‘ آزادی‘ مخلوط تعلیم اور اختلاطِ مرد وزن نے اسلامی ضابطوں‘ اخلاقی تقاضوں اور شرم وحیا کی روایات کو پارہ پارہ کردیا۔ گویا مذہبی تنگ نظری‘ مغربی مادہ پرستی‘ نام نہاد روشن خیالی اور اشتراکی دہریت کے تحت پستی کا سفر جاری رہا۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے دو شخصیتیں سب سے زیادہ نمایاں نظرآتی ہیں ایک علامہ اقبالؒ اور دوسرے سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ مولانا نے اپنی خداداد بصیرت اور تبحرعلمی سے کام لے کر مغربی نظریات کا بدصورت چہرہ اور اُن سے مرعوبیت کا پردہ چاک کیا۔ اس بے مہار آزادی کے خلاف آواز بلند کی‘ صحیح اسلامی حدود و قیود کا فرق واضح کیا اور ایک انتہائی متوازن اور معتدل نظریہ پیش کیا۔ مولانا‘ خواتین پر ایسی بے جا پابندی کے خلاف تھے جس کی وجہ سے عورتوں کی ذہانت‘ صلاحیت اور قابلیت کو اُبھرنے اور پنپنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح وہ مغرب سے درآمد شدہ آزادی کے بھی خلاف تھے جو عورت کو اس کے مقام سے ہٹا کر ایک شوپیس بنا کر رکھ دے‘ یا اس کو اُن کاموں پر لگا دے جو اس کے مزاج‘ فطرت اور ساخت کے خلاف ہوں۔ انھوںنے قرآن و حدیث کی روشنی میں عورت کو اس کی صحیح شناخت اور حیثیت سے آگاہ کیا۔ اس کی حدود‘ حقوق اور فرائض بتائے۔
مولانا مودودی ؒکہتے ہیں:’’خواتین مردوں کا ضمیمہ نہیں ہیں‘ وہ اپنے دین کو مردوںکے حوالے نہ کریں‘‘۔ یعنی عورتیں اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہیں۔ بحیثیت انسان وہ مرد کے برابر ہیں‘ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ‘ عقل و فہم اور شعور عطا کیا ہے۔ اُن کو خود دین کا علم اور فہم حاصل کرنا چاہیے اور اس کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ کی عائد کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے دعوت دین اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جو دینی‘ معاشی‘ تمدنی اور معاشرتی حقوق دیے ہیں اُن کی چشم کشا وضاحت کی اور انھیں بتایا: تمھارا مقام مردوں کے قدموں میں نہیں بلکہ پہلو میں ہے۔ بس وہ ایک درجہ تم سے برترہیں لیکن ماں بن کر تم اُن سے تین درجے بلندہوجاتی ہو۔ تمھاری کفالت کی ذمہ داری مردوں کے کندھوں پر ہے۔ تمھیں دفتروں اور کارخانوں کی خاک چھاننے کی ضرورت نہیں--- وہ کہتے ہیں: ’’زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ایک پہیہ عورت ہے۔ اس کو ساتھ لیے بغیر کوئی انقلاب نہیں آسکتا‘ جب کہ یہ (یعنی عورت) تبدیلی نیچے سے لے کر اوپر تک کرتی ہے۔ نئی نسل عورت کی گود میں پلتی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے مغرب کے مساوات مرد و زن کے نظریے پر بھی کاری ضرب لگائی اور کہا:’’یہ نظریہ محض ایک فریب ہے جس کے ذریعے مردوں نے عورتوں کے نازک کندھوں پر اپنی ذمہ داریوں کا بار بھی ڈال دیا اور گھر سے باہر لاکر اپنے عیش و عشرت کا سامان بھی کرلیا۔ اس کو معاشی خود کفالت کا سبق پڑھا کر دفتروں‘ کارخانوں میں لا بٹھایا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فطری ذمہ داریاں بھی پوری کرنے پر مجبور ہے کیونکہ بہرحال بچوں کی پیدایش‘ رضاعت اور پرورش تو صرف عورت ہی کرسکتی ہے مرد نہیں‘ تو پھر یہ کیسی مساواتِ مرد و زن ہے؟ سید مودودیؒ کہتے ہیں: ’’عورت سے اُن فطری ذمہ داریوں کی بجاآوری کا بھی مطالبہ کیا جائے جس میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے۔ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں برداشت کرجو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آکر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اُٹھا۔ سیاست‘ عدالت‘ صنعت و حرفت‘ تجارت و زراعت اور قیام امن اور مدافعت وطن کی خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے۔ ہماری سوسائٹی میں آکر ہمارے دل بھی بہلا اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کا سامان بھی فراہم کر۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے‘ مساوات نہیں صریح نامساوات ہے‘‘۔ (پردہ‘ ص۱۶۳)
تیسری طرف انھوں نے اپنے بیش بہا حکیمانہ لٹریچر‘ اپنی فعال تنظیم جماعت اسلامی اور خصوصاً اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات جیسی موثر تنظیموں اور مولانا کی فکر سے متاثر ادبِ اسلامی کے شعرا اور ادیبوں کے ذریعے ہر قدم پر مغربی دہریت و اباحیت اور اشتراکیت کے فتنے کا مقابلہ کیا۔ اس وقت اس فتنے کے علم برداروں کا طوطی تعلیم ’ادب‘ ثقافت بلکہ ہر جگہ بول رہا تھا۔ نئی نسل اپنے اساتذہ اور ادیب شاعروں سے متاثر ہوتی ہے۔یہ مولانا ہی کے انقلاب آفریں لٹریچر کا کمال تھا کہ انھوں نے اس وقت کی نئی نسل کو تشکیک‘ نام نہاد ترقی پسندی کی کشش اور دلفریبی سے بچا کر سیدھے راستے پر ڈال دیا‘ جو بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اگر مولانا نہ ہوتے اور اُن کی برپا کی ہوئی یہ تحریک نہ ہوتی تو بہت ممکن ہے کہ افغانستان اور اس کے بعد پاکستان بھی روس کے سرخ سیلاب کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا۔
مختصر یہ کہ سید مودودیؒ کی بدولت ہم خواتین سرخ انقلاب کی بجاے اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنے لگیں۔ مغربی مساوات کے فریب سے آزاد ہو گئیں۔ ہم نے مردوں کو قوامون علی النساء تسلیم کرلیا اور ہمیں اپنے حقوق سے آگاہی بھی حاصل ہوگئی ۔ ہمیں پتا چل گیا کہ عظمتِ آدم کا تاج صرف مردوں کے سر پر نہیں ہے‘ ہم بھی اُن کی طرح عزت اور شرف رکھتی ہیں۔ ہم مردوں کی کنیزیں نہیں‘ بلکہ اُن کے گھروں کی ملکہ ہیں۔ ہم شمع محفل نہیں بلکہ چراغِ خانہ ہیں‘ اور ہم ایسا چراغ نہیں ہیں جسے مرد جب چاہے پھونک مار کر بجھا دے۔ ہمیں پورا حق حاصل ہے کہ ہم خود قرآن کو پڑھیں‘ اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ ہمیں ‘ اسلام میں عطا کردہ اپنے غصب شدہ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
آج بھی افراط و تفریط موجود ہے۔انتہا پسند طبقے اپنی شدت پسندی پر اسی طرح جمے ہوئے ہیں۔ رواداری کا نام و نشان نہیںہے۔ نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج بھی کہا جا رہا ہے کہ نو سال کی بچی کو پردہ کرا دینا چاہیے۔ آواز کا پردہ اتنا سخت ہے کہ ٹیلی فون پر سلام کا جواب دینا بھی کفر ہے۔ لڑکیوں کو صرف دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ عورتوں کے لیے اپنے محرموں کے ساتھ بھی گھر سے باہر نکلنا یا سیروتفریح کے لیے جانا غیراسلامی ہے۔ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت شدید گرمی میں بھی دستانے اور موزے پہنے رکھے۔ نماز پڑھتے ہوئے کوٹ اور عبا یا پہنے۔ یہاں تک کہ خوب صورت جوتے بھی پہنے نہیں جا سکتے‘کیونکہ وہ بھی مردوں کے جذبات کو انگیخت کرسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اپنے نفس پر قابو پانے اور غض بصر کرنے کی بجاے ساری کوششیں اس نکتے پر کیوں ہیں کہ عورت ہی دراصل برائی کی جڑ ہے‘ بس اس جڑ کو گھر میں بند کر دینا چاہیے۔
دوسری طرف دیکھیے الیکٹرانک میڈیا کے دوش پر یورپین تہذیب اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ ہر گھر میں پہنچ رہی ہے۔ پردہ تو ایک طرف رہا‘ لباس اتررہے ہیں۔ مغربی لباس پسندیدہ لباس بن چکا ہے۔ ماڈلز اور فلم ایکٹریس آئیڈیل بن چکی ہیں۔ رقص و سرود خاص طور پر پاپ میوزک‘ ڈرامے‘ فلمیں‘ تھیٹر‘ دفتروں میں ملازمتیں اور مخلوط تعلیم ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں آزادانہ مل رہے ہیں۔ ہوٹلنگ کا رواج بھی عام ہو رہا ہے۔ خفیہ شادیاں بلکہ بغیر شادی کے رہنے کا رواج آ رہا ہے۔ اب تو’گے کلب‘ بھی بن رہے ہیں۔ کن کن خرافات کا ذکر کیا جائے۔
اسی طرح ہندو تہذیب بھی پوری قوت سے حملہ آور ہے۔ خاص طور پر ہماری شادی کی تقریبات انھی کی شادیوں کا چربہ بن گئی ہیں۔ بس آگ کے گرد پھیرے لگانے کی کسر رہ گئی ہے۔ ہولی‘ دیوالی‘ بسنت‘ راکھی‘ بندھن کے تہوار منائے جا رہے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے بھی منانا شروع کر دیا ہے۔
ان سب کے علاوہ بھی آج کی مسلمان عورت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ لڑکیاں جدید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ تعلیم حاصل کرتی ہیں تو پھر ملازمتیں بھی کرتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ انھیں اگر ایک طرف گھٹن سے نکالنا ہے تو دوسری طرف دوسری تہذیبوں کی بے کنار آزادی سے بھی بچانا ہے۔ بقول سیدمودودیؒ: ’’یہ حرم کا قلعہ اگر مغربی تہذیب اور اس کے غلط اثرات سے محفوظ رہے گا تو قوم بھی غلط راہوں پر جانے سے محفوظ رہے گی‘ اور اگر اس قلعے میں کوئی بداخلاقی راہ پا گئی تو نسلوں کو بدی کے طوفان سے کوئی نہیں بچاسکتا‘‘۔
ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم خواتین کو مولانا مودودیؒ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ اس عہد کے مجتہد اور مفکرہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کے لٹریچر کو غور سے پڑھیں اور اسے لوگوں تک پہنچائیں اور پیش آمدہ مسائل پر غوروفکر کی اجتماعی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ مولانا کے الفاظ ہیں: ’’عورت کے ہاتھ میں بڑی طاقت ہے۔ عورت کی پسند اور ناپسند ہر مرد دیکھتا ہے‘‘۔ مزید کہتے ہیں: ’’انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں‘ ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں‘‘--- آیئے‘ خواتین ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو بھی طاقت یا قوت عنایت کی ہے‘ اس سے کام لے کر اپنے گھروں اور اپنے معاشرے میں وہ انقلاب لانے کی کوشش کریں‘ جس کا خواب اقبالؒ اور مودودیؒ نے دیکھا تھا ۔
مولانا مودودیؒ بلاشبہہ عصر حاضرکے ان عظیم مفکرین میں سے تھے‘ جنھوں نے اپنی فکر‘ اپنی سوچ‘ اپنی تحریر اور اپنی قیادت سے نوجوان طبقے کو خدمت اسلام کے لیے سب سے زیادہ متأثر و متحرک کیا۔ آج مسلم دنیا میں جہاں کہیں اسلامی تحریک کا احیا ہے یا وہ فعال طور پر سرگرم کار ہے‘ تو وہ کسی نہ کسی صورت میں سید مودودیؒ ہی کے پیغام و تحریک کا پرتو ہے۔ جہاں جہاں کفر و شرک کے جو رواستبداد کے خلاف جہاد کا علم بلند ہے‘ وہاں وہاں بالواسطہ یا بلا واسطہ سید مودودیؒ ہی کی فکر و تحریک کام کر رہی ہے۔
سید محترمؒ محض کتابی دنیا کے انسان نہیں تھے‘ نہ وہ محض دھیمے لہجے میں تقریر کرنے والے گفتار کے غازی ہی تھے۔ انھوں نے قلم‘ کتاب اور خطاب سے بھرپور رشتہ جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان افکار و خیالات اور فلسفۂ اسلامی کو عملی طور پر ایک تحریک کی صورت میں برپا کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ اسلامی فکر کے نتیجے میں صدیوں پہلے کی طرح آج بھی ایک اسلامی معاشرہ‘ ایک اسلامی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔
بلاشبہہ سید مودودیؒ کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے ملک وملت کے سیاسی‘ معاشرتی اور علمی و فکری محاذ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور وطن ِ عزیز کے ہر طبقے کو متاثرکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علموں سے لے کر اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ کسان‘ محنت کش‘ تاجر‘ سیاسی رہنما‘ صحافی‘ خواتین‘ طالبات حتیٰ کہ بچوں تک میں جماعت کے ہم خیال حلقے بحسن و خوبی کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے کے رکن‘ متفق یا حامی یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودی مرحوم نے انھیں دین کی لگن‘ سمجھ اور عمل کرنے کا ماحول فراہم کر کے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ یہ سب اپنی حد تک بجا ہے اور بہت خوب ہے لیکن میرے نزدیک ایک مسلمان عورت کو اس کی گم شدہ منزل کی راہ دکھا کر سید صاحب نے عظیم ترین کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس لیے کہ عورت اپنے گھر ہی کونہیں‘ بلکہ پوری قوم کو بگاڑ سکتی ہے اور خالق دو جہاں نے اس سب کو سنوارنے کی بھی اس میں بدرجۂ اتم صلاحیت رکھی ہے۔ اسی لیے پاک بازبیوی کو سب سے بڑی نعمت کہا گیا ہے۔
مولانا مودودیؒ ، عورت کے کردار کی اس اہمیت کو پوری طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ تحریک اسلامی میں خواتین کے کردار سے متعلق ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا: ’’بہنو! ہمارے اس کام میں عورتوں کی شرکت اور تعاون کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کی شرکت اور تعاون کی ہے۔ انسانی زندگی میں آپ برابر کی حصے دار ہیں اور زندگی کے جو پہلو آپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ ان پہلوئوں سے کسی طرح بھی اہمیت میں کم نہیں جو مردوں سے تعلق رکھتے ہیں --- یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی بنا پر ہر اجتماعی تحریک‘ عورتوں کی شرکت اور تعاون کو اہمیت دینے پر مجبور ہے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ اسلامی تحریک تو اس کو بہت ہی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اسلام ٹھیک ٹھیک خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے مطابق انسانی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے عورتوں کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کا درست ہونا‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام جس خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے وہ عورتوں کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا ہے۔ وہ جس دین کو حق کہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی حق ہے۔ جس نجات کو مقصود قرار دیتا ہے اس کی ضرورت عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کے لیے ہے۔ اور جس جنت کی امید دلاتا ہے وہ عورتوں کو بھی اپنی ہی کوشش سے مل سکتی ہے جس طرح مردوں کو اپنی کوشش سے … اسلام کا تقاضا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو یکساں اپنی اپنی نجات کی فکر ہو‘ ہر ایک دل و جان سے وہ خدمات بجا لائے جو اسے خدا کی سزا سے بچائے اور اس کے انعام کا مستحق بنائے … اس وقت عورتوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو‘ اپنے خاندان اور اپنے ہمسائیوں اور اپنے ملنے جلنے والوں کے گھروں کو شرک و جاہلیت اور فسق سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ گھروں کی معاشرت کو اسلامی بنائیں۔ پرانی اور نئی جاہلیتوں کے اثرات سے خود بچیں ا ور دوسرے گھروں کو بچائیں۔ ان پڑھ اور نیم خواندہ عورتوں میں دین کی روشنی پھیلائیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کے خیالات کی اصلاح کریں۔ خوش حال گھروں میں خدا سے غفلت اور اصول اسلام سے انحراف کی جو بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو روکیں۔ اپنی اولاد کو اسلام پر اٹھائیں۔ اپنے گھروں کے مردوں کو‘ اگر وہ فسق اور بے دینی میں مبتلا ہوں‘ راہ راست پر لانے کی کوشش کریں‘ اور اگر وہ اسلام کی راہ میں کوئی خدمت کر رہے ہیں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کا ہاتھ بٹائیں ‘‘۔ (خطاب اپریل ۱۹۴۷ئ‘ روداد جماعت اسلامی‘ ح ۵‘ ص ۱۰۷)
جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے مولانا مودودیؒ کی ان ہدایات پر اس طرح لبیک کہا کہ ان کی زندگیاں‘ ان کی دوستیاں‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے سماجی تعلقات کی دنیا‘سبھی کچھ بدل کر اسلام کے سانچے میں ڈھل گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین نے مولانا کے لٹریچر سے اور ان کی قیادت سے ایسے ایسے زرّیں اصول اخذ کیے کہ نہ صرف ان کے اپنے اندر کی دنیا جگمگا اُٹھی‘ بلکہ اس روشنی سے انھوں نے اپنے اپنے ماحول اور اپنے اپنے حلقہ اثر کو بھی منور کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی۔ جماعت کے حلقۂ خواتین میں شامل ہو کر نسلی مسلم خواتین نے شعوری طور پر اسلام کو اس لگن اور جذبے سے قبول کیا‘ کہ نمازوں میں لطف آنے لگا‘ قرآن پاک کی تلاوت کے کچھ اور ہی مفاہیم آشکارا ہونے لگے۔ ایثار اور قربانی کے جذبے کی آبیاری اس طرح کی‘ کہ ’پہلے آپ‘ کا زریں اصول یہیں پر جانا اور برتنا دیکھنے کو ملا۔ اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی خود بخود پیدا ہوتی گئی۔ چنانچہ غیر دین دار رشتہ دار دلی محبت میں دوسرے درجے پر چلے گئے‘ لیکن غیر‘ مگر دین دار لوگ دلی محبت کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح مولانا مودودی ؒنے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور خاندانوں کو ایک دینی معاشرت کی طرف نہ صرف بلایا‘ بلکہ ایک شفیق اور خلیق معاشرت بھی تشکیل دے کر دکھا دی۔
ان پڑھ خواتین نے ایک دینی جذبے سے اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا‘ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ تفہیم القرآن پوری پڑھ ڈالی۔ مولانا محترم کا لٹریچر پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہن نشین بھی کر لیا۔ یہ اللہ کے دین کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک انوکھی لگن تھی‘ کہ جو شروع ہوئی۔
چند بنیادی ارکان خواتین جہاں بھی گئیں‘ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان عظیم دین دار خواتین میں: محترمہ حمیدہ بیگم‘ بیگم سید مودودی‘ بیگم انوار اصلاحی‘ بیگم ملک غلام علی‘ اُمِّ زبیر‘ زبیدہ بلوچ‘ بلقیس صوفی‘ نیر بانو‘ بیگم طفیل محمد‘ بیگم نصراللہ خان عزیز‘ مجتبیٰ مینا‘ بیگم زہرہ وحید وغیرہ‘ یہ سب جماعت ا سلامی کے ابتدائی دور کی تحریکی خواتین تھیں۔ ان میں بعض رکن نہیں تھیں‘ لیکن دعوتِ دین کے کام میں ارکان خواتین کے شانہ بشانہ تھیں۔ اس طرح کارواں بنتا چلا گیا اور حلقۂ خواتین پھیلتا چلاگیا۔ حق تعالیٰ کی یہ بات کتنی وسیع ہے : وہ اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی ]باریک سی[ سوئی نکالی۔ پھر اس نے اسے قوی کیا۔ پھر وہ کھیتی اور موٹی (سرسبز و شاداب) ہوئی۔ پھر اپنے اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑی ہو گئی‘ تاکہ کسانوں کو بھلی لگے ]ان کے لیے خوش منظر ہو اور کافروں کو جلائے کہ اس کی شادابی ان کی امنگوں کے لیے پیغام موت ہے[۔
حلقۂ خواتین جہاں جہاں بھی کام کر کے اخلاص کے بیج ڈالتا گیا‘ وہاں وہاں اخلاص و وفا کی لہلہاتی فصلیں دنوں میں اُگ آئیں اور بہار بن کر دیکھنے سننے والوں کو مسحور کرتی گئیں۔ لاہور میں آپا جی محمدی بیگم کا گھر ۱۹۹ شاد باغ‘ ملتان میں آپا جی صغریٰ کا مسکن ۸۵ حسن پروانہ روڈ‘ سیالکوٹ میں آپا جی نیر بانو کا بیت المسلم‘ کراچی میں آپا جی ام زبیر اور آپا جی بلقیس صوفی کے گھر ‘ڈھاکہ میں محترمہ لمعت النور صاحبہ کی قیام گاہ -- ا ور نہ جانے کون کون سے خوش بخت گھر انوںکی خواتین تھیں۔ یہ سب گویا حلقۂ خواتین کے ہیڈکوارٹر تھے۔ ہر موقع پر ہنگامی صورت حال میں اور پھر معمول کے دنوںمیں‘ غرض ہمیشہ ہی ان گھروں کے دروازے عام خواتین کے لیے کھلے رہتے اور ان کے مکینوں کے چہرے محبت و اخلاص سے کِھلے رہتے ۔ ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا محترم کا گھر تو دین کی راہوں پر چلنے والی خواتین کے لیے گویا دوسرا میکہ تھا‘بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ کیونکہ میکے میں تو کچھ دوسرے خوشگوار اور ناخوشگوار موضوع بھی زیربحث آتے ہیں‘ لیکن یہ میکہ تو آخرت کے گھر تک کامیابی کا راستہ بتانے والا تھا۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے اور ہر تربیتی موقع پر خواتین نہایت اعتماد اوراپنائیت سے بیگم محمودہ مودودیؒ کے توسط سے مولانا محترم سے رہنمائی لیا کرتیں۔
خواتین نے سماجی زندگی میں ایک نئے کلچر کو اختیار کیا۔ کپڑوں اور جوڑوں کے تبادلے یا ان کے رنگوں کے مقابلے اور امارت کی دھونس کے بجاے زندگی گزارنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دینی کتب اور بچوں کے لیے اصلاحی لٹریچر کے تحفے دینے کا کلچر عام ہوا۔ مجھے مردوں کے حوالے سے تو علم نہیں‘ تاہم خواتین کارکنان کے حوالے سے معلوم ہے کہ ان کے وسائل کا ایک بڑا حصہ ذاتی سطح پر کتب خرید خرید کر لوگوں کو تحفے میں دینے میں صرف ہوتا ہے۔ خطبات‘ دینیات‘ ترجمہ قرآن‘ تفہیم القرآن اور محمد یوسف اصلاحی صاحب کی آدابِ زندگی کو پڑھنے اور اسے تقسیم کرنے کا ایک شوق ہے کہ جو کبھی کم نہیں ہوتا۔ کیا کسی اور صوفی یا مذہبی حلقے میں بھی ایسی سرگرمی اور اتنے بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آتی ہے؟ --- یہ سب سید مودودیؒ کی اس فکر کا نتیجہ ہے کہ دین اور اصلاح کی راہوں میں عورت رہنمائی کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے‘ مگر افسوس کہ اس خدمت کا ادراک کم لوگوں کو ہے۔
حلقۂ خواتین کے قیام کے تقریباً ۲۸ برس بعد ]ستمبر ۱۹۶۹ء میں[ اسلامی جمعیت طالبات کا وجود عمل میں آیا‘ جس کی پہلی ناظمہ اعلیٰ محترمہ شکورہ آفتاب اور پہلی ناظمہ صوبہ پنجاب ڈاکٹر اُمِّ کلثوم تھیں۔ یوں خواتین کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی طالبات بھی فکر و فہمِ اسلام کا گراں قدر سرمایہ سمیٹتی رہیں اور دوسروں کو بھی اس صراط مستقیم پر لانے کے لیے دل و جان سے کوشاں رہیں۔
یہ اسلام کے صحیح فکر و فہم اور اس سے محبت ہی کی کرشمہ سازی ہے‘ کہ سیدھی سادی خواتین رزق حرام و حلال کے بارے میں سخت حساس ہو گئیں‘ اور ہر میدان میں ان کی کارکردگی نمایاں ہوتی گئی۔ تحریری محاذ‘ سیاسی محاذ‘ خدمتِ خلق‘ تعلیم و تربیت‘ غرض کہیں بھی تو انھوں نے مایوسی‘ کم ہمتی‘ بے چارگی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ تحریری میدان میں پہلے ماہنامہ عفت پھر ماہنامہ بتول اور بچوں کے لیے ماہنامہ نور کا اجرا کیا۔ ’ادب براے زندگی اور زندگی براے بندگی رب‘ کی خوب صورت اور مستقل بنیاد پر قلم کار خواتین کو تلاش کیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں اباحیت پسند اور لادینی ادب کے آگے ایک بند باندھنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں بھی گھر گھر جا کر راے عامہ کو ہموار کرنا‘ صحیح اور غلط کی پہچان کروانا اور پولنگ کے دن بیلٹ بکس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنا‘ یہ سب حلقۂ خواتین کا حیرتوں میں گم کر دینے والا باب ہے۔ جماعت اسلامی نصف صدی سے زائد کا سفر طے کرچکی ہے۔ دین اسلام اور اسوہ رسولؐ میں ایسی ازلی جاذبیت ہے کہ جو کوئی اس راستے پر چل نکلا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ خصوصاً خواتین کے حصے میں یہ نعمت بھی آئی کہ جہاں انھوں نے بعض اوقات اپنے شوہر کو صراطِ مستقیم کی راہ دکھائی‘ وہاں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس دعا اور اس کوشش سے کی کہ‘ وہ بھی حق کے راہی بن گئے‘ اور اگر کہیں ان کی کوششیں بوجوہ رنگ نہ لا سکیں تو بھی ان کا اجر ان شاء اللہ کوشش کرنے کے نتیجے میں محفوظ و مامون ہو گا۔
ہم خواتین پر یہ سید مودودی ؒ کا احسان نہیں تو کیا ہے کہ انھوں نے اس دور میں ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد کروا دیا۔ ہم گم کردہ راہ کو دوبارہ صراطِ مستقیم کی راہ دکھا دی!
مولانا مودودیؒ کا کارنامہ ہمہ پہلو‘ ہمہ جہت اور جامع ہے۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ جہاد قلم‘ زبان اور سیف سبھی سے کیا جاتا ہے۔ دیرپا اثرات قلمی جہاد ہی کے ہوتے ہیں‘ جو سید مودودیؒ کی اصل پہچان ہے۔
مولانا مودودیؒ کی تمام تصانیف‘ موثر‘ دل و دماغ کو اپیل کرنے والی‘ اور ایک مخلص داعی ٔ حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہرزبان سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کی بدولت خودبے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ ان سطور میں چند واقعات براعظم افریقہ کے تناظر میں پیش خدمت ہیں۔
میں نے حبشہ کے ظالم شہنشاہ ہیل سلاسی کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد اس کے مظالم کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا: ’’ہیل سلاسی بڑا ظالم اور متعصب عیسائی تھا۔ اس کے دل میں اسلام سے شدید بغض و عناد تھا‘ مگر نئے آنے والے کمیونسٹ فوجی افسران‘ مسلمانوں پر اس سے بھی زیادہ ظلم ڈھائیں گے۔ کیونکہ روس نے جہاں کہیں اپنے حامیوں کو کامیاب کرایا ہے‘ خوف وہراس کی بدترین فضا پیدا کی ہے۔ اس کے باوجود ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اریٹیریا کے مسلمانوں کی تحریک اب مضبوط ہو جائے گی‘ کیونکہ ہیل سلاسی پورے ملک میں اتحاد کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے پایا جانے والا نام نہاد تقدس موجودہ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوگا‘‘۔ یہ بات مولانا مودودیؒ نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کو فرمائی تھی۔ کس قدر درست تجزیہ اور کتنی سچی پیش بینی تھی۔ ۱۹۹۳ء میں مسلم علاقہ اریٹیریا حبشہ کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔
۱۹۷۸ء میں مجھے اچانک اپنی والدہ مرحومہ کی شدید بیماری کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا تو مولانا سے ملاقات ہوئی۔ یوگنڈا کے فوجی ڈکٹیٹر عیدی امین کی حکومت کے خلاف باغیوں نے تنزانیہ کی افواج کے تعاون سے خانہ جنگی شروع کر دی تھی۔ باغی مسلسل پیش رفت کر رہے تھے۔ یوگنڈا میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔
مولانا نے اس جنگ کے بارے میں فرمایا: ’’عیدی امین کی حماقتوں کا خمیازہ مسلم عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے خلاف جس طرح ساری قوتیں سرگرم عمل ہیں‘ اس کی شکست اب بالکل نوشتۂ دیوار ہے۔ اسے تو کہیں نہ کہیں پناہ مل جائے گی مگر عام مسلمانوں پر سخت عذاب آجائے گا‘‘۔جولیس نیریرے (صدر تنزانیہ) کے بارے میں فرمایا: ’’وہ زنجبار کی مسلم حیثیت اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کا پہلے ہی مجرم ہے‘ اب یوگنڈا میں بھی ایک تنگ دل عیسائی مشنری کی طرح اسلام کی بیخ کنی کرے گا‘‘۔اس کے پانچ چھ ماہ بعد اپریل ۱۹۷۹ء میں یوگنڈا پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا۔ عیدی امین کو تو سعودی عرب میں سیاسی پناہ مل گئی‘ مگر مسلمان آبادی ظلم کا نشانہ بنی۔
ایک مرتبہ میں نے مولانا کی خدمت میں افریقی مسلم معاشرے کی اس خرابی کا تذکرہ کیا کہ وہاں شادی کا تقدس تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس قدر طلاقیں واقع ہوتی ہیں کہ کثیرتعداد میں مطلقہ جوڑوں کے بچے بے یارومددگار ہوکر عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’عربوں کے ہاں سے بہت ساری اچھی اور بری چیزیں افریقہ میں بھی پہنچی ہیں۔ نکاح کا تقدس اور طلاق حلال ہونے کے باوجود ابغض قرار پانے کا موضوع دھندلا گیا ہے۔ اسے اجاگر کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کتاب حقوق الزوجین کا سواحلی ترجمہ کروا کر اسے عام پھیلانے سے بھی مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘‘۔
پہلی مرتبہ جب میں کینیا پہنچا تو معلوم ہوا کہ چودھری غلام محمد مرحوم و مغفور نے افریقہ اور بالخصوص افریقہ کے مشرقی حصے میں تحریک کے لیے بہت کام کیا ہے۔یہاں چودھری صاحب مرحوم کے ساتھ ان شخصیات کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو افریقہ میں ان کے دست و بازو بن کر میدانِ عمل میں سینہ سپر رہے۔ ان میں محمد بشیر دیوان مرحوم‘ عبدالحلیم بٹ مرحوم‘ محمد شفیع میرمرحوم‘ ڈاکٹر محمد سعید مرحوم‘ ضیاء الدین سومرو مرحوم‘ خلیل ملک مرحوم ‘جناب پروفیسر خورشیداحمد‘ جناب رائو محمد اختر‘ جناب عبدالرحمن بزمی‘ جناب حاجی محمد لقمان اور افریقی آبادی میں سے کینیا کے پہلے چیف قاضی شیخ محمد قاسم مزروعی مرحوم‘ دوسرے چیف قاضی شیخ عبداللہ صالح فارسی مرحوم‘ شیخ زبیدی مرحوم‘ ممبر پارلیمنٹ عثمان ورارو مرحوم‘ ممبرپارلیمنٹ ورارو (یوسف) کانجا وغیرہ اس قافلے میں شامل رہے۔ سب سے اہم کام سواحلی اور لوگنڈی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے۔ سواحلی زبان میں تو قرآن مجید کا ترجمہ اس وقت تک ہوچکا تھا‘ مگر لوگنڈی زبان میں ابھی ترجمہ زیرتکمیل تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سواحلی زبان میں ترجمہ قرآن Qurani Takatifuکو بڑے پیمانے پر سواحلی علاقوں میں پہنچانے کا کام اسلامک فائونڈیشن نیروبی نے بطریق احسن انجام دیا۔ اس کام میں کچھ خدمات سرانجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی۔
سواحلی زبان میںقرآن پاک کے ترجمے کی مقبولیت تفہیم القرآن کی طرح قابلِ رشک ہے۔ اس ترجمے سے قبل قادیانیوں نے سواحلی میں قرآن کا ترجمہ کرایا تھا۔ جب یہ درست اور مفید ترجمہ چھپا تو اسلامک فائونڈیشن نے اعلان کر دیا کہ:’’جس کسی شخص کے پاس قادیانی ترجمہ ہو وہ فائونڈیشن کے مرکزی دفترقرآن ہائوس میں جمع کرا کے شیخ عبداللہ صالح فارسی کا مستند اور اسلامی ترجمہ حاصل کرلے‘‘۔ اس اعلان کے بعد بے شمار لوگوں نے قادیانیوں کا ترجمہ جمع کروایا اور درست ترجمہ حاصل کرلیا۔
مجھے سوڈان‘ایتھوپیا (حبشہ) تنزانیہ‘ یوگنڈا‘ زیمبیا‘ زمبابوے‘ ملاوی‘ موزمبیق‘ ماریشس‘ مڈغاسکر‘ دی یونین آئی لینڈ‘ جیبوتی‘ جنوبی افریقہ اور نائیجیریا وغیرہ میں سفرکرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ان تمام علاقوں میں مولانا مودودیؒ کا تعارف پڑھے لکھے مسلمانوں کے حلقوں میں پہنچ چکا تھا۔ جن ممالک میں برعظیم سے تعلق رکھنے والی کوئی آبادی موجود تھی‘ وہاں آبادی کم ہو یا زیادہ‘ مولانا کا اُردو لٹریچر بھی پہنچ گیا تھا۔ ان ممالک میں بالخصوص عربی‘ فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں جس قدر بھی تراجم دستیاب تھے‘ لوگوں کی دل چسپی کا مرکز تھے۔ مختصر طور پر ان ممالک کے بارے میں چند سطور میں ایک خاکہ پیش خدمت ہے:
اگلے سفر میں جب ہم اسیولو پہنچے تو قافلہ ڈاکٹرمحمد سعید صاحب مرحوم‘ خلیل ملک صاحب مرحوم‘ حاجی محمد لقمان صاحب‘ محمد اختر بھٹی صاحب پرمشتمل تھا۔ شیخ محمد سلفی صاحب ہمارے میزبان تھے اور ہمیں اس بات کا انتظار تھا کہ مسٹرپریبن الفلاح مرکز میں کب آتے ہیں۔ شیخ سلفی بتانے لگے کہ پریبن نے صبح سے کئی مرتبہ پوچھا ہے کہ نیروبی سے مہمان کب آئیں گے۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مسٹر پریبن تشریف لے آئے اور آتے ہی کہا: ’’السلام علیکم‘‘۔ ہم نے ان کا حال احوال معلوم کیا۔ میں نے کہا: ’’کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’ہاں‘ ان شاء اللہ آج مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں‘‘۔ اس مجلس میں سب لوگوں کی زبان پر اللہ اکبر‘ اللہ اکبر تھا اور بعض کی آنکھوں میں آنسو بھی۔ اسی مجلس میں مسٹر پریبن کو کلمہ پڑھایا گیا‘ جو انھوں نے پہلے سے یاد کیا ہوا تھا۔ اسی روز ان کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا محرک سید مودودیؒ کی کتب ہی ہیں۔
مسٹر پریبن جو اب عبدالرحمن بن چکے تھے‘ اس سے قبل کینیا کی ایک مقامی لڑکی کے ساتھ رہایش پذیر تھے۔ وہ ایک عیسائی لڑکی تھی۔ عبدالرحمن کی کوششوں کے باوجود وہ مسلمان نہ ہوئی تو ان کے درمیان ایک خلیج حائل ہوگئی۔
اس واقعے کے بعد عبدالرحمن کو ان کے مشن نے ملازمت سے نکال دیا اور انھوں نے وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھا۔ قبل اس کے کہ وہ واپس جاتے‘ ان کی خواہش تھی کہ وہ عمرے کی سعادت حاصل کرلیں۔ اس دوران نام کی تبدیلی‘ قبولِ اسلام کی شہادت اور سرٹیفیکیٹ تیار کرلیا گیا۔ اسی مجلس میں ان کے سامنے تجویز رکھی گئی کہ کیوں نہ عمرے کی ادایگی کے بعد اسلامک فائونڈیشن کے مرکز میں کچھ عرصہ کام کریں‘ چنانچہ وہ اس پر تیار ہوگئے۔ انھیں جو معاوضہ ڈنمارک حکومت کی طرف سے مل رہا تھا‘ ہم وہ تو نہ دے سکے‘ لیکن ہمارا معمولی سا معاوضہ اس جویاے حق نے قبول کر لیا۔ انھوں نے ہمارے ساتھ تقریباً دو سال تک کام کیا۔ دوسال بعد انھوں نے مستقل طور پر ڈنمارک جاکر اسلامک سنٹر کوپن ہیگن میں خدمات انجام دیں۔
اس عرصے میں قادیانیوںکے ایک مشنری نے قرآن ہائوس میں آکر میرے ساتھ مناظرہ کیا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ ایک موضوع کو چھوڑ کر دوسرے موضوع پر بحث چھیڑ دیتا۔ اس مباحثے کے دوران مولانا مودودیؒ کا کتابچہ ختم نبوت زیربحث آیاجو ہم نے کینیا میں انگریزی اور سواحلی میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ اس کی زبان سے یہ بات نکلی کہ علما نے ہمارے خلاف بڑی بڑی کانفرنسیں کیں‘ بڑے جلوس نکالے‘ لیکن اس شخص نے جتنا نقصان ہمیں پہنچایا ہے‘ کوئی نہیں پہنچا سکا۔ اس کا اشارہ مولانا مودودیؒ کے مقالے ختم نبوت کی طرف تھا۔
تحقیق پر پتا چلا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب دینیات کا سواحلی ترجمہ اس انقلاب کا محرک بنا۔ کتاب کے مترجم ممباسا کے مسلمان چراغ دین شہاب دین مرحوم تھے۔ اس کا ترجمہ چند سال قبل ہی سواحلی زبان میں ہوا تھا۔ دراصل اس ادارے میں کسی لڑکی کے پاس کسی ذریعے سے یہ کتاب پہنچی تو اس نے اس کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی دوسری ہم عمر لڑکیوں کو یہ کتاب پڑھنے کو دی۔ آہستہ آہستہ سب لڑکیوں نے یہ کتاب پڑھ لی اور آپس میں طے کیا: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمیں مسلمان ہی رہنا چاہیے‘‘۔
سندھی زبان دنیا کی مقبول عام اور قدیم زبانوں کی ایک شاخ ہے۔ آخوند عزیر اﷲ متعلوی جیسے اولیا نے اس زبان کے لیے نثر کی ترتیب کو ممکن بنایا۔ یہی زبان مخادیم ٹھٹھہ‘ دائرہ کے علما‘ کھہڑا کے فضلا اور کاچھو‘ تھر اور اُتر کے عارفین اور صالحین کی زبان رہی ہے‘ جنھوں نے نثر اور نظم میں سندھی زبان کو ذریعہ تدریس و تبلیغ بنایا اور لاکھوں انسانوں کے قلوب کو نور ایمانی سے منور کیا۔
سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے مؤرث اعلیٰ خواجہ سید محمد مودود چشتی علیہ الرحمہ کے خانوادے سے روحانی اور علمی تعلق رکھنے والے دور حاضر کے دنیا کے مقبول مصنف‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کو بھی سندھی زبان میں متعارف ہونا تھا اور اس طرح کہ سب سے پہلے مولانا کی تحریروں کے ’’سندھ مسلم ادبی سوسائٹی‘‘ حیدر آباد نے ۱۹۴۰ء کے عرصے میں‘ سندھی تراجم شائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ممتاز سندھی ادیب رسول بخش آخوند کی خدمات ترجمے کے لیے حاصل کی گئیں۔ سوسائٹی کے زیر اہتمام ۱۱۵سے زائد سندھی کتابیں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ عقائد‘ احسان و سلوک اور کہانیوں پرمشتمل شائع ہوئیں۔ سندھی زبان میں مولانا مودودیؒ کی ۱۹۴۶ء کی چھپی ہوئی جو کتاب اس وقت دستیاب ہے‘ وہ ارکان اسلام کے نام سے خطبات کے بعض حصوں کا ترجمہ ہے۔ ۱۱۱ صفحات پرمشتمل کراؤن سائیز کی اس کتاب کا آخوند رسول بخش نے سندھی میں ترجمہ کیا ہے‘ جس کی قیمت ۱۲آنے ہے اور یہ کتاب مدن لال پوکر داس مسلم ادبی الیکٹرک پرنٹنگ پریس‘ میمن محلہ حیدر آباد سندھ سے شائع ہوئی۔ کتاب کے مقدمے میں سوسائٹی کے مدارا لمہام خان بہادر محمد صدیق بن محمدیوسف میمن رقم طراز ہیں:
یہ ایک متبرک کتاب ہے جسے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تصنیف کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے طرز تحریر سے اسلام کی حقانیت کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی کتابیں پڑھنے سے دین کی فضیلت ذہنوں میں راسخ ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ مطالعہ نور ایمانی میں ترقی کا سبب بنتا ہے اور اس سے قلب مضطر کو سکون ملتا ہے۔ ارکان اسلام نامی کتاب عقائد اسلام کے موضوع پر بہترین تصنیف ہے‘ جسے عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے۔ ہماری سوسائٹی آخوند رسول بخش کا احسان مانتی ہے‘ جنھوں نے محبت سے ترجمے میں حقیقی رنگ ڈال کر کتاب کو مزید سہل بنا دیا ہے۔ سلیس سندھی زبان میں یہ کتاب تشنگان فیض حق کے لیے ان شاء اﷲ ضرور ممد و معاون ثابت ہو گی۔
اسلامی عبادات تے ھک نظر کے نام سے اسی سوسائٹی نے ۱۳۲ صفحات پر مولانا مودودیؒ کی تحریر کو سندھی لباس پہنا کر ۱۹۴۴ء میں شائع کیا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی نے مولانا غلام مصطفی قاسمی (فاضل دیوبند سابق چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی‘ سابق چیئرمین سندھی ادبی بورڈ‘ سابق ڈائریکٹر شاہ ولی اﷲ اکیڈمی حیدرآباد) کی نگرانی میں سندھی دینی ادب کا جو کیٹلاگ جنوری ۱۹۷۱ء میں چھاپا تھا‘ اس میں ان دو کتابوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اسی عرصے میں سندھ کے ممتاز ادیب محمد عثمان ڈیپلائی نے ’اسلامیہ دارالاشاعت‘ حیدر آباد میں قائم اپنے ادارے سے خطبات اور دینیات کے علاوہ پندرہ کے قریب مولانا کی کتابوں کو سندھی میں شائع کیا۔ سندھ میں اسلامیہ دارالاشاعت کے حسن طباعت سے مزین کتابوں کو خوب پذیرائی ملی۔ مولاناقاضی عبدالرزاق مرحوم‘ روہڑی کے رہنے والے اور سندھ مدرسہ الاسلام کراچی میں فقہ کے استاد تھے۔ انھوں نے بھی اسلام جو سیاسی نظریو نامی کتاب سمیت ۱۲ کے قریب دوسرے کتابچوں اور کتابوں کا ترجمہ کیا تھا‘ جسے مکتبۂ جماعت اسلامی کراچی نے شائع کیا۔ اسلام جو سیاسی نظریوکراؤن سائز میں ۵۸ صفحات پر مشتمل تھا۔ ہاشمی پریس حیدر آباد نے ۱۹۴۵ء میں اسلام جی سرحد شائع کیا۔ نیز جہاد فی سبیل اﷲ نامی کتابچے کو قاضی عبدالرزاق کے ترجمے کے ساتھ مکتبۂ فلاح انسانیت کراچی نے ۱۹۴۵ء میں ۴۴ صفحات (کراؤن سائز میں) شائع کیا۔
ڈیپلائی قاضی اور آخوند رسول بخش وہ مشہور مصنف اور مترجم ہیں جنھوں نے مولانا مودودیؒ کی پچیس کتابوں کو سندھی میں منتقل کیا۔ یہ تینوں بزرگ چودھری غلام محمد مرحوم کے رابطے میں رہے اور فی سبیل اﷲ ترجمے کیا کرتے تھے۔ ۱۹۵۱ء کے عرصے میں میاں محمد شوکت اور میاں محمد علی سرہندی کی کوششوں اور مولانا جان محمد بھٹو مرحوم کی دعاؤں سے سکھر اور حیدر آباد میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’سندھی دارالاشاعت‘‘ ادارہ قائم ہوا اور محمد عظیم مہر کی زیر ادارت دعوت نامی ماہنامہ سندھی میں جاری ہوا۔ والس روڑ‘ سکھر میںادارے کا دفتر تھا اور اس ادارے نے سلامتی جورمستو‘ مسلمان تیٹن لاء علم جی ضرورت‘ جہاد جی حقیقت‘ حج جی حقیقت‘ روزی جی حقیقت‘ زکوٰۃٔ خیرات جی حقیقت‘ نماز جی حقیقت‘ حقیقت صوم و صلواۃ‘ خداجی تابعداری‘ ویچارٹ جھژیون گالھیون کراؤن سائز میں شائع کیے۔
۱۹۶۳ء تک سندھی دارالاشاعت کام کرتا رہا اور پھر ۱۹۶۷ء میں ’’محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی‘‘ کے نام سے سکھر میں اشاعتی ادارہ قائم ہوا۔ اس ادارے نے مولانا مودودی کی ۱۲ کتابیں شائع کیں۔ اسی اثنا میں حیدر آباد سے آئینو اور سکھر سے جہانِ نو ماہنامے غلام محمد کھوکھر ایڈووکیٹ اور غلام قادر جتوئی ایڈووکیٹ کی ادارت میں جاری ہوئے۔ ان رسالوں میں دعوت رسالے کی طرح مولانا کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوا کرتے تھے۔ آگے چل کر آئینو پر پابندی لگی اور وینجھار کے نام سے ماہنامہ نکلنا شروع ہوا جو غلام محمد کھوکھر‘ لیاقت جونیجو اور ڈاکٹر عبدالجبار عابد لغاری کی ادارت میں سفر طے کرتا ہوا اب بھی حیدر آباد سے شائع ہو رہا ہے۔
۱۹۷۳ء میں مولانا مودودی کی اجازت سے تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے کا کام شروع ہوا۔ اگرچہ ترجمے کے کافی حصے مختلف جرائد میں چھپ رہے تھے‘ لیکن باقاعدہ سپاروں کی شکل میں سندھ اسلامک پبلیکیشن ‘حیدرآباد نے چھاپنا شروع کیا۔ عبدالوحید قریشی‘ ڈاکٹر محمد علی محمدی اور ڈاکٹرمحمد غوث قریشی اس ادارے کے روح رواں رہے۔ تفہیم القرآن کے سندھی مترجم مولانا جان محمد بھٹو مرحوم نے بھی ان افراد پر اعتماد کیا اور مولانا مودودی نے سندھی ترجمے کی رائلٹی بھی معاف فرما دی۔ اس طرح کا تحریری اجازت نامہ ’ادارہ ترجمان القرآن‘ کی طرف سے مذکورہ ادارے کو عطا کیا گیا۔ ایک سال کے عرصے میں خوبصورت کتابت کے ساتھ پانچ پارے علیحدہ علیحدہ شائع ہوئے۔ تیسرے پارے پر ادارہ نے مولانا کے دستخط بھی لیے اور اس طرح تفہیم القرآن کے پہلے ناشر‘ ادارہ تعمیر انسانیت‘ کے اسلوب پر سندھی مترجمین نے عمل کر دکھایا (محمد قمر الدین مرحوم بھی تفہیم القرآن پر مولانا مودودی سے دستخط لیا کرتے تھے!)۔ مولانا کا دستخط شدہ سندھی ترجمے والا تیسرا پارہ اب بھی سندھ اسلامک پبلی کیشنز کے دفتر میں محفوظ ہے۔ ۱۵ جون ۱۹۷۵ء کی تاریخ میں یہ دستخط ثبت ہوئے اور عبدالوحید قریشی نے دستخط لیے تھے!
۱۹۷۴ء میں‘ اے کے بروہی مرحوم کی صدارت میں تاریخی بیسنت ہال‘ حیدر آباد میں تفہیم القرآن کی سندھی طباعت کے پانچوں پاروں کی تقریب رونمائی ہوئی‘ جس میں سندھ بھر سے اہل علم و قلم اور داعیان دین شریک ہوئے۔ ’’تفہیم القرآن اور مولانا مودودی‘‘ کے عنوان سے پروفیسر کریم بخش نظامانی مرحوم کے کلیدی خطبے کو اس موقعہ پر علیحدہ چھاپ کر سندھی خواندہ حضرات میں تفہیم القرآن کے مطالعہ کا ذوق بڑھانے کی بھی کوشش کی گئی‘ نیز تفہیم القرآن کا مقدمہ الگ سے قرآن فہمی جا بنیادی اصول کے نام سے سندھی کتابچے کی صورت میں بھی چھاپا گیا تھا۔ محمدرضی دہلوی جیسے مشہور آرٹسٹ نے تفہیم القرآنکے سندھی ترجمے والے سرورق ڈیزائن کیے تھے۔ مشہور کاتب سعید میرٹھی کاتبوں کی جماعت کے سرخیل تھے اور سعید احمد بھٹو اور حاجی امان اﷲ مہیسر نے بھی کتابت کے جوہر دکھائے۔ مولانا مودودی کی تحریریں ہدایتون‘خطبات‘ دینیات
کو سندھ اسلامک پبلی کیشنز نے انجینئر عبدالمالک میمن اور دیگر مترجمین کے ترجمے میں شائع کیا‘ جسے ارباب عبدالمالک انیس اور عبدالوحید قریشی نے مئی ۱۹۷۸ء میں مرتضیٰ پرنٹنگ پریس کھوکھر محلہ حیدرآباد سے چھپوایا۔
تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے کا منصوبہ دقت طلب تھا۔ بفضل تعالیٰ جل جلالہ یہ منصوبہ ۱۹۹۶ء کے سال میں تکمیل کو پہنچا۔ اس مہم کو سر کرنے میں مولانا جان محمد عباسی‘ میاں محمد شوکت‘ صدرالدین فاروقی‘ شکیل احمد خان اور عبدالوحید قریشی نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ سندھ اسلامک پبلی کیشنز کو گیارہ پارے مولانا جان محمد بھٹو نے ترجمہ کر کے دیے‘ ۱۹۸۲ء میں مولانا بھٹو‘ اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ بعد میں مولانا امیر الدین مہر ڈھوروناروی سے ترجمہ کی سعادت حاصل کرنے کی گزارش کی گئی‘ مولانا مہر نے دل جمعی سے ترجمے کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا جس کے اکثر حصے پر پروفیسر عبداللہ چونیہ نے نظرثانی کی۔ اس طرح چھ جلدوں پر مشتمل سندھی ترجمہ ۱۹۹۶ء میں مکمل ہوا۔
کراچی میں بڑے پیمانے پر سندھی ترجمے کی تکمیل کا جشن منایا گیا اور جامعہ سندھ کے سابق وائس چانسلر شیح ایاز مرحوم کی صدارت میں یہ پروگرام ترتیب دیا گیا‘ لیکن موصوف نے صحت کی خرابی کی وجہ سے شرکت سے محرومی پر اپنے رنج کا اظہارکرتے ہوئے اپنا پیغام ارسال فرمایا۔ انھوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا: ’’اسلام کی طرف میری مراجعت میں تفہیم القرآن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے‘‘۔ اس وقت چھ جلدوں کے علاوہ صرف ترجمہ قرآن پر مشتمل جلد جو ۱۰۲۷ صفحات پر مشتمل ہے اور تین ہزار کی تعداد میں ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی ہے۔
’محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی حیدر آباد‘ نے سومار علی سومرو کے ترجمے کے ساتھ پردہ اور عبدالوحید موریانی کی طرف سے خلافت و ملوکیت کا سندھی ترجمہ ۱۹۷۸ء میں شائع کیا۔ اسی عرصے میں ’’فرقان پبلی کیشنز‘‘ اور بعد میں ’’اشاعت اسلام سوسائٹی‘‘ کے نام سے میاں محمد شوکت نے سندھی میں ۴۰ کتابچے شائع کیے‘ جن میں خطبات کے حصے بھی شامل تھے۔ سندھ نیشنل اکیڈمی حیدر آباد نے دس ہزار کی تعداد میں دینیات کا سندھی ترجمہ روشنی جا مینار کے نام سے ۱۹۸۲ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد لٹریچر کی اشاعت کا یہ سلسلہ رک گیا اور ۱۹۹۲ء کے بعد دوبارہ سندھ مسلم سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا‘ جس کا مقصد مولانا مودودی کی کتب کی بڑے پیمانے پر اشاعت و طباعت تھا۔ ۱۹۹۲ء میں سوسائٹی نے تفہیم القرآن سے صرف ترجمہ نئے سرے سے آسان زبان میں کروا کر شائع کیا۔ اس ادارے نے اب تک مولانا کی متعدد چھوٹی بڑی کتب کو کمپیوٹر کمپوزنگ اور خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ان میں: سنت جی آئینی حیثیت‘ پردو‘ ختم نبوت‘ شب برأت‘ معراج النبی صلی اﷲ علیہ و سلم‘ خطبات‘ دینیات‘ اسلامی تہذیب ء ان جا اصول‘ اسلامی نظام زندگی ء ان جا بنیادی تصورات‘ درود و سلام‘ رسائل و مسائل‘ تحریک ٔ کارکن ‘ خلافت و ملوکیت‘ قرآن جا چار بنیادی اصطلاح‘ تاریخی تقریروں سمیت دوسری کتب شامل ہیں۔ یہ ادارہ براہِ راست جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی نگرانی میں میاں نظام الدین کی نظامت میں کام کر رہا ہے۔ سندھ مسلم سوسائٹی کی جانب سے بھی مولانا کی وہ تمام کتابیں چھپ چکی ہیں‘ جو قبل ازیں دوسرے اداروں نے شائع کی تھیں۔
یہ سید مودودی علیہ الرحمہ کی تصانیف کے سندھی ترجموں کاایک اجمالی خاکہ ہے۔ اگرچہ اس باب میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سندھی زبان کی تشنگی کو تری میں تبدیل کرنے کے لیے علمی اور روحانی موضوعات پر سید مودودی کے تخلیق کردہ لٹریچر نے ۱۹۴۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک کے ۶۳ سال کے عرصے میں باب الاسلام سندھ کے اندر اپنا مضبوط اثر چھوڑا ہے۔ بیسیوں لکھاری پیدا ہوئے‘ جنھوں نے سندھی زبان کے دامن کو ان علمی پھولوں سے بھرنے کی سعی سعید کی ہے اور یہ کارواں رواں دواں ہے۔ سندھ نیشنل اکیڈمی اور مہران اکیڈمی جیسے قابل فخر اداروں نے سندھی زبان میں عملی اور روحانی عمارت کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ ادارے جماعتی نظم کا حصہ نہیں ہیں‘ تاہم اثرات کے اعتبار سے تحریک اسلامی کا ہراول دستہ ہیں۔ مہران اکیڈمی کی سرپرستی کے لیے خرم مراد مرحوم کی خدمات صدقہ جاریہ ہیں‘ پروفیسر قمر میمن کی شبانہ روز محنت قابلِ رشک ہے۔
یہ خطہ (موجودہ پورا پاکستان) باب الاسلام ہے‘ اور خاتم الانبیاصلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے اس علاقے سے ٹھنڈی ہواؤں کی آمد کی روایات منسوب ہیں‘ اور صحابہ کرامؓ کی یہاں آمد ثابت ہے۔ اگر سندھ کی اسلامی تاریخ کے پندرہ صدیوں پر محیط سمندر سے موتی نکالنے کی مزید کوششیں ہوں اور ہر صدی پر ایک علیحدہ تاریخی کتاب تیار کی جائے‘ جس میں خصوصاً دعوتی اور تبلیغی‘ جہادی اور علمی کوششوں کی تفصیل درج ہو‘ تو یہ کاوش دعوت دین اور فریضہ اقامتِ دین کی مقدس جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے گی۔ علاوہ ازیں صلحا‘ علما‘ اولیا اﷲ اور سلسلہ ہاے تصوف کے صدیوں پر محیط مثبت اثرات سے بھی تحریکی کارکنوں اور عام مسلمانوں کو روشناس کرایا جا سکے گا۔ اس طرح یہ کام دعوتی راہ میں مزید عروج کی نوید لاسکتا ہے۔ اس کام میں سندھ کی مخصوص صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہل درد کو زیادہ تعاون بھی کرنا ہوگا۔ عالمی طاغوت کی ریشہ دوانیوں‘ این جی اوز‘ ردِقادیانیت‘ برہمنیت‘ منکرین حدیث‘ عیسائیت‘ ردِبہائیت اور اسلاف دشمنی جیسے بیسیوں موضوعات کو بھی سندھی زبان میں چھاپنے کی اشد ضرورت ہے۔
یوں تو صوبہ سرحد میں ترجمان القرآن کے خریدار منفرد حیثیت سے مردان اور پشاور میں موجود تھے‘ لیکن تحریک اسلامی کا اجتماعی کام پہلے کل ہند اجتماع دارالاسلام، پٹھان کوٹ منعقدہ اپریل ۱۹۴۵ء کے بعد شروع ہوا۔ وہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مکان کے مردانہ حصے میں اجتماع کے شرکا نے ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں سات افراد جماعت کے رکن بنا دیے گئے اور انھوں نے حلفِ رکنیت مولانا کے سامنے لیا۔ پانچ افراد متفق قرار دیے گئے۔ سردار علی خان مرحوم (م:۱۹۷۲ئ) سرحد میں جماعت اسلامی کے سربراہ مقرر کیے گئے۔
جناب سردار علی خان نے سوات کے محترم تاج الملوک (م: ۱۹۶۲ئ) کے ساتھ مل کر تحریک کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ان تھک طریقے سے جدوجہد شروع کی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اجتماعات اور دوروں کے علاوہ جماعتی لٹریچر سے مناسب اقتباسات کو اچھے کاتبوں سے جلی قلم میں لکھوا کر دبینر اور عمدہ کاغذ پر چھاپ کر چارٹوں کی صورت میں تقسیم کیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت اردو اور پشتو کے متعدد اقتباسات چھاپ کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے‘ جن کو دینی ذوق رکھنے والوں نے اپنی نشست گاہوں اور رہایشی کمروں میں آویزاں کیا۔
دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ تحریک کی اہم کتابوں کو پشتو میں ترجمہ کر کے عوام تک پہنچایا جائے تاکہ جو لوگ اردو نہیں سمجھتے وہ قائدِ تحریک کے خیالات پشتو میں جان سکیں اور تحریک کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلے میں جماعت کے رکن محترم عبدالرحمن غریب غازوڈھیری کے ذمے کام لگایا گیا۔ جنھوں نے بڑی محنت سے دعوت اسلامی کے مطالبات، سلامتی کا راستہ، شہادت حق، ایک مضمون: ’’طاقت کا اصل سرچشمہ‘‘ اور دوسرے پمفلٹوں کا ترجمہ کیا۔ حاجی عون اللہ نے خطبات کا ترجمہ کیا۔ مولانا عبدالعزیز مظاہری نے رسالہ دینیات کا ترجمہ کیا۔ ان کتابوں کو ایک ایک ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا لیکن اشاعتی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے طباعت عمدہ نہیں تھی‘ اور یہ کتابیں پشتو کتابوں کے خریدار نہ ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہو سکیں۔ اس لیے مفت تقسیم کر دی گئیں۔
اس کے بعد افغانستان میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کابل کے پشتو- فارسی اخبار گہیز (Gaheez)‘ یعنی طلوع سحر (Dawn) نے اس سلسلے میں بڑا بنیادی کام کیا۔ اس کے ایڈیٹر جناب منہاج الدین‘ آریانہ ائیرلائن کے کراچی کے دفتر میں کام کرچکے تھے اور اردو سمجھتے تھے۔ انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کی کتابوں کے مختلف حصوں کا پشتو اور فارسی میں ترجمہ چھاپنا شروع کیا۔
شہیدمنہاج الدین‘ پشاور میں محترم قاضی حسین احمد سے ملے اور ان کے سامنے مولانا مودودیؒ کی کتابوں کے پشتو تراجم کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا۔ قاضی صاحب ان کو لاہور لے گئے جہاں پر مولانا مودودی مرحوم سے مفصل ملاقات کی۔ اسی زمانے میں محترم قاضی حسین احمد نے پشاور کے چند احباب کے ساتھ مل کر پشتو میں ترجمے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ۔ان احباب میں ڈاکٹر مراد علی شاہ، محمد اقبال اور عبدالحق شامل تھے۔ زیارت کاکا صاحب کے معروف ادیب اور پشتو لغت ظفراللغات کے مؤلف بہادر شاہ ظفر کی مدد سے ۲۳ چھوٹی بڑی کتابوں کا پشتو میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کتب کو بہتر سے بہتر طباعت کے ساتھ چھاپ کر افغانستان بھیجا گیا۔
گہیز (Gaheez) کے پُرعزم مدیر، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے عہد حکومت میں کمیونسٹ روس کی خفیہ ایجنسی KGB کے ہاتھوں ۱۴ ستمبر ۱۹۷۲ء کو شہید کر دیے گئے۔ کچھ مدت بعد سردار دائود نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ‘اور اسی دوران افغانستان کی اسلامی تحریک کے دور ابتلا کا آغاز ہوا۔ انھی ایام میں کابل یونی ورسٹی کے اسلام پسند طلبہ اور اساتذہ نے کمیونسٹوں کے مظالم اور قیدوبند سے بچ کر پاکستان ہجرت شروع کی۔ انھی دنوں میں مولانا راحت گل جنھوں نے رسالہ دینیات کا ترجمہ کر کے خصوصی اہتمام سے خود چھاپا۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا پشتو ترجمہ شروع کیا‘ اور سورۂ توبہ تک چار جلدوں میں اس کو شائع کیا۔ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے ترجمہ و تالیف کے ادارے نے لاکھوں افغان مہاجرین کی ضرورت کے لیے تفہیم القرآن کا افغانی پشتو میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے ایک معروف عالم دین قیام الدین کشاف کی خدمات حاصل کی گئیں‘ جنھوں نے سالہا سال کی محنت کے بعد افغانی پشتو میں مکمل ترجمہ کیا۔ پھر اسے چھ جلدوں میں چھاپ کر مخیر حضرات کی طرف سے افغانیوں کے کیمپوں، آبادیوں اور تدریسی مراکز میں تقسیم کیا گیا۔ علاوہ ازیں کوئٹہ میں بھی افغان مہاجرین نے مولانا کی کتب کے پشتو ترجمے کا ایک فعال اور متحرک نظام قائم کیا۔
ترجمہ چمکنی پشاور کے ایک صاحب
نے کیا۔ مگر وہ شائع نہ ہو سکا۔
مطالبات مطالبات عبدالرحمن غریب
وسیع پیمانے پر منتشر و متفرق تبلیغ اگرچہ مسئولیت سے سبک دوش ہونے کے لیے کافی ہوسکتی ہے‘ لیکن یہ حکیمانہ تبلیغ نہیں ہے اور کبھی وہ نتائج پیدا نہیں کر سکتی جو ہمیں مطلوب ہیں۔ اس کے بجاے محدود پیمانے پر مستقل اور مسلسل تبلیغ زیادہ حکیمانہ‘ زیادہ مفید اور زیادہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ تبلیغ دراصل ایک قسم کی تخم ریزی ہے۔ تخم ریزی کی ایک صورت وہ ہے جو ہوائوں اور جانوروں کے ذریعے سے انجام پاتی ہے جس سے ہر طرح کے بیج ہر طرف زمین میں پھیل جاتے ہیں اور منتشر طور پر قسم قسم کے درخت اُگ آتے ہیں۔ ایسی تخم ریزی کی پیداوار میں کوئی نظم نہیں ہوتا اور نہ کوئی باقاعدہ فصل کاٹی جاسکتی ہے۔ دوسری قسم کی تخم ریزی وہ ہے جو ایک کسان کرتا ہے۔ وہ ایک ہی زمین پر مسلسل محنت کرکے اسے تیار کرتا ہے۔ پھر ایک منصوبے کے مطابق اس میں بیج ڈالتا ہے‘ پھر پیہم اس کو پانی دیتا اور اس کی خبرگیری کرتا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ ویسی ہی فصل تیار ہوجاتی ہے جیسی اس کو مطلوب ہوتی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ہمارے رفقا اپنی تخم ریزی میں ہوائوں اور پرندوں کا سا طریقہ اختیار نہ کریں بلکہ کسان کا طریقہ اختیار کریں۔ ہر شخص اپنے قریب ترین ماحول میں سے ایک ایک حلقے کو منتخب کر کے گویا باقاعدہ اپنے چارج میں لے لے اور اس کے اندر مسلسل کام کرے۔ پہلے وہ اساسی عقائد اور بنیادی اصول اخلاق پیش کرے جن سے زمین تیار ہو۔ پھر بہ تدریج دین و اخلاق کے اصول و کلیات سے فروع اور تفصیلات کی طرف بڑھے اور پیہم اپنی تلقین اور اپنے عملی برتائو اور اپنی ہدایت و نگرانی سے اس امر کی کوشش کرتا رہے کہ جو لوگ اس کے زیرِاثر آئے ہیں ان کے اندر مکمل اعتقادی‘ اخلاقی اور عملی انقلاب رونما ہوجائے۔ اس کے بعد انھی لوگوں کو‘ خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی کم ہوں‘ دوسرے لوگوں میں اس طرز کی ’کاشت کاری‘ کے لیے استعمال کرنا شروع کرے اور اپنی نگرانی و رہنمائی میں ان سے کام لے--- اس سے جو نتائج بھی حاصل ہوں گے پایدار ہوںگے اور پھر… یہ کاشت اضعافاً مضاعفہ کے تناسب سے پھیلتی چلی جائے گی۔ (ترجمان القرآن، ج ۲۴‘ عدد۵-۶‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخریٰ ۱۳۶۳ھ‘ جون ۱۹۴۴ئ‘ ص ۷-۸)
_____________