مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۰۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فکرمودودیؒ کی روشنی میں

بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔

ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ علم اور عمل دونوں میدانوں میں انھوں نے تاریخ ساز خدمات انجام دی ہیں۔ ایک شخص کی ذات میں فکروتحقیق‘ تدبیرو اصلاح اورتنظیم و قیادت کی صلاحیتوں کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات میں سے ہے۔ معروف شاعر ابونواس کہتا ہے:

وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ

اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ

اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔

ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔

فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔

اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے  لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ   ع

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال    کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے   عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔

شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔

مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔

علمی وفکری خدمات کا مختصر جائزہ

مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔

ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تصنیفی زندگی کے ساٹھ برسوں میں چھوٹی بڑی تقریباً ڈیڑھ سو کتب کی تصنیف و تالیف کی خدمت انجام دی‘ اور کئی سو تقاریر کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچایا۔ ان ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے مواد کو چند سطروں میں سمیٹنا اور محاکمہ کرنا کوئی آسان کام نہیںہے۔ تاہم‘ اگر ہم سید صاحب کے طرزِفکر کے بنیادی گوشوں اور پہلوئوں کی نشان دہی کریں تو شاید انھیں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱-  حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں  تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)،  ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔

۲-  تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)

۳-  انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔

۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔

۵-  یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔

یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:

                ۱-            اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)

                ۲-            اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)

                ۳-            تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ  وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)

                ۴-            اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)

ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔

اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)

دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔

۶-  یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

۷-  اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:

اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)

اس کے لیے بیک وقت تین چیزوں کی ضرورت ہے:

اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔

ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔

ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔

سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔

اُمت کی نبض پر ہاتھ

سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔

پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

  •  خود شناسی‘ یعنی مغرب کی اندھی تقلید اور غیروں کے غلبے کے نتیجے میں خود فراموشی کے رویے کو ترک کر کے اپنی حقیقت‘ اپنی اصل‘ اپنی شناخت کی بازیافت کرنا۔
  • خودشناسی کے نتیجے میں ایک خوداعتمادی پیدا کی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنے ورثے پر فخر کرنے لگے اور ان میں اپنی راہ خود نکالنے یعنی خودانحصاری کا داعیہ پیدا ہوا ۔
  • خوداعتمادی اور خودانحصاری کے ساتھ خوداحتسابی ‘تاکہ اپنی کمزوریوں کا تعین کیا جاسکے‘ اور ان کمزوریوں کو دُور کر کے اپنے مشن اور مقام کے حصول کے لیے تیاری کی جاسکے۔
  •  خودشناسی‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خوداحتسابی کے ساتھ ضروری تھا کہ اپنے دور کے تقاضوں اوراپنے زمانے کے مسائل ومعاملات اور مدمقابل کی قوتوں کے عزائم‘ وسائل اور ان کی قوت کے سرچشموں کا ادراک ہو‘ تاکہ دانش مندی سے ان کا    موثر مقابلہ ہوسکے۔ اس کے لیے زمانہ شناسی ضروری ہے کہ مستقبل کی کوئی بھی تعمیر ان حالات اور ظروف سے بے نیاز ہوکر نہیں کی جا سکتی جن سے اُمت دوچار ہے۔ حقیقت پسندی کا راستہ حالات کی صحیح آگہی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔
  • ان چار امورکا لازمی تقاضا خودسازی ہے‘ کہ تیاری کے بغیر مقابلہ حماقت اور خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لیے سید مودودی نے قوم کو جذباتیت اور فوری ردعمل کے بجاے اپنی قوت کے سرچشموں کی بنیاد پر مناسب اور موثر تیاری کی دعوت دی‘ تاکہ صحیح وقت پر صحیح طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تیاری ہمہ پہلو ہونی چاہیے۔ ایمان و اعتقاد‘ فکروعمل‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی‘ اخلاقی اور مادی قوت‘ سیاسی‘ معاشی‘ عسکری‘ فنی‘ تکنیکی میدانوں میں مقابلے کی قوت اور تنظیم کا حصول بنیادی تقاضے ہیں۔ اس طرح انھوں نے اصلاح اور تعمیرنو کا ایک واضح اور دور رس پروگرام مرتب کیا۔ وہ اس پروگرام پر عمل کے لیے خود بھی سرگرم عمل ہوئے اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو بھی مصروف کار کیا۔
  •  واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایک واضح ہدف کو سامنے رکھ کر کیا گیا‘ تاکہ دین کو ایک بار پھر غالب قوت بنایا جا سکے‘ اُمت ایک بار پھر اپنے اصل مشن کی علم بردار بن کر اُٹھے‘ اپنے گھر کی اصلاح کرے اور پھر انسانیت تک اس آبِ حیات کو پہنچانے کا کارنامہ انجام دے‘ جس میں سب انسانوں کی فلاح ہے۔ گویا زمانہ سازی اس کی جدوجہد کا اصل ہدف ہو۔

یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔

سید مودودیؒ کا طرزِ فکر

میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:

ا -  اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

ب-  قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔

فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔

ج-  اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔

ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔

د-  اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔

ہ-  اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی  مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔

و-  اس اصول کی روشنی میں سید مودودیؒ نے بڑے غوروفکر کے بعد اصلاح کے لیے جس طریق کار کی نشان دہی کی‘ اس کے اہم اجزا یہ ہیں:

  • ایمان کا احیا اور تقویت

  •  فکر کی تشکیل نو --- یعنی اسلامی افکار کی تشکیل و تعمیر میں وقت کے مسائل اور رجحانات کو ملحوظ رکھنا‘ اپنے دور کے افکار کا مطالعہ اور ان پر تنقیدی نظر اور نئے حالات اور مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔
  •  افراد کار کی تلاش‘ تیاری اور تنظیم و تربیت۔
  •   تدریج کے اصول کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی کوشش اور اس میں کھلے انداز میں‘ آزادانہ بحث و مباحثہ‘ دعوت‘ تعلیم اور تعلم کا طریقہ--- خفیہ طریقوں‘ جبر‘ غیرقانونی اور غیراخلاقی طریقوں سے اجتناب‘ جمہوری عمل اور راے عامہ کی تبدیلی کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد۔ ہر اس طریقے سے اجتناب جو فساد فی الارض کا باعث ہو۔
  •  صحیح طریقے سے اجتماعی جدوجہد--- اور وہ بھی ایک تربیت کے ساتھ‘ گھر سے آغاز ہو‘ اپنے معاشرے کی اصلاح اور اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد ہو‘ اُمت مسلمہ کا اتحاد اور اُمت کی اسلامی بنیادوں پر تعمیروترقی کا شعور ہو‘ پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو پہنچانے اور اللہ کی بندگی کی طرف بلانے کا ذوق اور کوشش ہو اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی فکر۔
  •  اس پورے کام کو قرآن و سنت کے ابدی اصولوں اور ہدایات کے مطابق انجام دینا۔ اپنے وقت کے تمام جائز اور مفید ذرائع اور وسائل کو اس دعوت کی خدمت میں استعمال کرنا اورمقابلے کی قوت حاصل کرنا--- وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں‘ آج کے حالات اور مسائل سے مربوط شکل میں پیش کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی تغافل یا تعصب کا شکار نہ ہوا ہوجائے۔ سارے وسائل اللہ کی دین ]گفٹ[ ہیں اور انھیں اللہ کے دین (اسلام) کی خدمت میں استعمال کرنا‘ ان کا صحیح ترین استعمال ہے۔ یہ وسعت اور جدیدکاری اسلام کے مزاج کا حصہ اور وقت کی ضرورت ہے۔
  • دعوت دین اور اقامت دین کا یہ کام پتھر کی طرح جامد (monolithic) نہیں ہے۔ اس میں تنوع اور تکثیر (plurality) ممکن ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ نیز یہ کام عجلت میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بڑا صبرآزما اور دیرپا کام ہے۔ اس میں منزل تک پہنچنے کا کوئی مختصر راستہ (short cut) نہیں ہے۔ اس وژن کا ثبات افرادِکار کی تیاری‘ عمل اور جدوجہد میں استقامت‘ تجربات سے سبق سیکھنے اور بندگلی سے راستہ نکالنے‘ اپنے مشن اور مقصد پر اعتماد‘ اللہ پر بھروسا اور مسلسل قربانی پیش کرنے میں ہے--- گویا ایمان‘ اجتہاد اور جہاد کے عملی اظہار کے بغیر احیاے اسلام کی منزل سر نہیں کی جا سکتی۔
  • اس کام کی انجام دہی کے لیے ایک نئی قیادت کا اُبھرنا ضروری ہے‘ اور یہ قیادت محض فکری اور محدود دینی میدان ہی میں نہیں‘ بلکہ زندگی کے ہر میدان: فکروفن‘ سائنس اور ٹکنالوجی ‘معاشرت اور معیشت‘ ادب اور ثقافت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ہو۔

یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔

اسلامی تحریک کا احیا اور ارتقا

سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔

اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:

مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)

مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔

یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔

اُمت کو درپیش چیلنج

اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:

جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔

اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔

ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح   اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔

عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔

عالمی صورت حال

عالمی تناظر کا تجزیہ بڑی تفصیلی بحث چاہتا ہے۔ البتہ ہم اس پورے تناظر کا خلاصہ کچھ اس طرح بیان کرسکتے ہیں:

۱-  اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔

ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

۲-  مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔

دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔

۳-  پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔

۳-  ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔

۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن  ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔

۶-  اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con)  سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔

یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی اور تقاضے

آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔

ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط  مزاحمت  کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔

ان تمام خطرات کے پورے پورے شعور کے باوجود ہماری نگاہ میں امریکہ سمیت‘ تمام مغربی اقوام سے مکالمے (dialogue)کی ضرورت ہے‘ جس کے تین پہلوہیں:

۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم

۲-  ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش

۳-  پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔

یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔

اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور   کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔

عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔

اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔

مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔

داخلی چیلنج اور لائحہ عمل

دفاعی اور عالمی معاملات میں صحیح حکمت عملی کے ساتھ ہمارا اصل چیلنج داخلی ہے اور فکرِمودودیؒ کی روشنی میں یہی وہ میدان ہے جس کے بارے میں اسلامی تحریکات کو گہرے سوچ بچار اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس پہلو سے چند نکات قابلِ توجہ ہیں:

دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔

  • پہلی چیز اس فکری اور دعوتی کام کو جاری رکھنا اور وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ فکری محاذ ایک نہایت اہم محاذ ہے اور عملی جدوجہد کے مختلف میدانوں میں انہماک کی وجہ سے اس محاذ پر کمزوری بڑی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں فکری میدان میں جو کام ہو رہا ہے حتیٰ کہ اسلام پر اور اسلام کے پیغام کو مسخ کرنے کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر نظرڈالتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکات اس میدان میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ سیدمودودیؒ نے تن تنہا وہ کام کیا جو کئی ادارے مل کر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج ضرورت ہے کہ محققین اور اہلِ علم کی ایسی ٹیمیں تیار کی جائیں اور ایسے اعلیٰ تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں جو اس کام کو جاری رکھ سکیں اور آگے بڑھائیں۔ جب تک ہر دور کے اٹھائے ہوئے مسائل اور معاملات پر اسلام کے اصل سرچشموں سے استفادہ کر کے نیا لٹریچر تیار نہ ہو‘ ہم علمی بالادستی حاصل نہیں کرسکتے اور اس کے بغیر تہذیبی مقابلے کے میدان میں قدم نہیں جما سکتے۔

مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام  ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔

  • دوسرا بڑا مسئلہ مسلم دنیا میں ہمارے اپنے تاریخی اور روایتی اداروں کی تحلیل اور ان کی جگہ مغرب سے درآمد شدہ اداروں کے تسلط سے متعلق ہے۔ اسلامی اداروں کی تشکیلِ نو اور ان کا قیام ایک بڑا بنیادی تہذیبی چیلنج ہے۔ زندگی کا قانون ہے کہ خلا زیادہ دیر باقی نہیں رہتا۔ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ خاندان کے سوا (اور وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے) کوئی ادارہ باقی نہیں رہا اور نئے ادارے جو باہر سے لاکر مسلط کیے گئے ہیں وہ نئی تباہ کاریوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم‘ معاشرہ ‘مدرسہ‘ تجارت‘ معاشرت‘ قانون‘ سیاست سب اسی کش مکش کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ روایتی ادارے اپنی پرانی شکلوں میں بحال نہیں ہو سکتے۔ درآمد شدہ نئے ادارے ہماری اقدار‘ روایات اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لیکن تشکیلِ نو کا عمل بڑی تحقیق‘ محنت‘ تجربے‘  بالغ نظری اور اختراعیت (creativity)چاہتا ہے۔ مؤسسین نے اپنے زمانے میں اپنے انداز میں ابتدائی کام کیا‘ لیکن صرف اسی پر قناعت سے مستقبل میں کام نہیں چل ہوسکتا۔ اس چیلنج کا بھرپور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
  • تیسرا مسئلہ نئی قیادت بروے کار لانے کا ہے۔ آج کا دور علمی مہارت اور اخلاقی بالیدگی کے ساتھ پیشہ ورانہ گرفت اور اپنے اپنے میدان کار میں اختصاص کا تقاضا کرتا ہے۔ ہرمیدان میں مردانِ کار کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بڑی پتّا ماری کے ساتھ افراد سازی کی ضرورت ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ جدید علوم اور مختلف النوع صلاحیتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اسلامی اصولوں‘ اقدار اور حسّا سیات (sensitivities)کا بھی مکمل ادراک ہو‘ مقصد کی لگن اور کردار کی خوبیوں سے بھی یہ قیادت آراستہ ہو۔ اس کے لیے وژن‘ پروگرام‘ اداروں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ مؤسسین کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے اس چیلنج کا جواب بھی ضروری ہے۔
  • چوتھا مسئلہ سیاست میں تحریکِ اسلامی کے کردار کا ہے۔ بلاشبہہ یہ اسلامی تحریکات کا منفرد کارنامہ ہے کہ اس نے نظامِ حکومت کی اصلاح اور سیاسی قوت اور قیادت کو نظریے کی خدمت کا ذریعہ بنانے کے اسلامی اصول اور اسلوب کو منوا لیا ہے۔ لیکن اب چیلنج عملاً تبدیلی کا ہے۔ چونکہ اس کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس لیے عوامی تائید کا حصول‘ عوام کی تائید اور وابستگی کو برقرار رکھنا‘ ان کی توقعات کو پورا کرنا‘ اور سیاست کی معروف خرابیوں کی اصلاح کرنا--- یہ بڑے بڑے چیلنج ہیں۔

اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی  عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔

  • پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم معاشرے اور ممالک جن مسائل سے دوچار ہیں‘ ان میں علم و فن‘ سائنس اور ٹکنالوجی‘ معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام‘ بیوروکریسی اور فوج کے کردار‘ صحافت اور میڈیا کے کردار‘ نوجوانوں کے مسائل‘ عالم گیریت کے اثرات اور چیلنج‘ عورتوں کے مسائل اور کردار‘ جرائم اور تعصبات کی کیفیت مرکزیت اختیار کرچکے ہیں--- ان سب امور پر ازسرنو غور کرنے‘ مسائل کا حل تلاش کرنے‘ نئی پالیسیاں وضع کرنے‘ تیاری کے ساتھ تجربات کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا:’’تمام مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے‘‘۔ اب تو اسلام کی روشنی میں مسئلے کا واضح حل پیش کرنے‘ پورا نقشہ بنانے اور اس پر عمل کرکے دکھانے کا مرحلہ ہے۔ بلاشبہہ یہ پہلے مرحلے سے زیادہ مشکل مرحلہ ہے۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ روز بروز اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ہم اپنے نظریاتی اور اخلاقی وزن کو سیاسی وزن میں کیسے منتقل کریں اور کیسے اس کی اپنی اس حیثیت کو برقرار اور پاے دار (sustain) رکھیں ۔ یہ سارے مسائل اور معاملات نئی فکر‘ نئی جدوجہد‘ اور نئے تجربات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اور یہی وہ کوشش ہے جس سے ہم اپنے گھر کو اور اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا کو درست کر سکے گی--- کہ آگے کے عالمی مراحل کا انحصار خود اُمت مسلمہ کی اخلاقی اور مادی قوت کی صحیح حنابندی پر ہے۔
  • چھٹا مسئلہ اسلام کے پیغام اور مسلم ممالک کے تجربات کے صحیح ابلاغ (communication) کا ہے۔ ہم اس سلسلے میں پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیںکہ یہ اندرونی مسئلہ بھی ہے اور بیرونی بھی۔ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی صحیح سمت میں ترقی اور تشکیلِ نو اور مغرب کے ایجنڈے کے مقابلے میں اپنے ایجنڈے کے مطابق ان دائروں کی اصلاح اور تقویت وقت کی ضرورت ہے۔

ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ  بڑی ناانصافی ہوگی۔

  • اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نئے حالات اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنظیمی میدان میں اور تعلیمی اور تربیتی نظام میں کن تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا سارے کام یا بیش تر کام ایک ہی تنظیمی چھتری کے تحت کیے جا سکتے ہیں یا ان کے لیے الگ الگ انتظامات کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے اہداف کو پیشہ ورانہ اہلیت کے ساتھ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوسکیں؟تحریکی اداروں کے ساتھ باقی اداروں اور تنظیموں سے کس طرح معاملہ کیا جائے؟ ملکی سطح کے ساتھ ملّی سطح پر کام کی نوعیت کیا ہو؟ اور اداروں کا نظام اور ان کے درمیان تعاون کی کیا کیفیت ہو؟ پھر اس سے بھی بڑھ کر تحریک کے جو مختلف دائرے ہیں‘ ان میں سے ہر دائرے کے اندر‘ اور ایک دائرے کا دوسرے دائرے سے تعلق اور کاموں کی تقسیم اور  ترقی کی کیا کیفیت ہو؟ اس سلسلے میں تحریکِ اسلامی کے اندر اور اس کے اپنے متعلقہ ادارے سب سے پہلا اور اساسی دائرہ ہیں۔ پھر تحریکِ اسلامی اور پورا ملک‘ اور ملّت اسلامیہ دوسرا دائرہ ہیں اور تیسرا دائرہ تحریکِ اسلامی‘ ملّت اسلامیہ اور پوری انسانیت ہے۔ ان میں سے ہرایک کے سلسلے میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر کیا اہداف ہوں‘ کیا حکمت عملی وضع کی جائے‘ اور کون سے ادارے قائم کیے جائیں‘ کیا پالیسیاں اور پروگرام مرتب ہوں اور پھر ہردائرے کا دوسرے دائروں سے کیا تعلق ہو؟ یہ سارے امور غوروفکر‘ بحث و مجادلے اورمناسب منصوبہ بندی کا انتظار کررہے ہیں۔

ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو  توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے     ؎

شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی

تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا

یہ بات میرے لیے باعث صد مسرت و امتنان ہے کہ ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کے حصہ اول کے بعد اس کا دوسرا حصہ بھی تیار ہے ۔اللہ تعالیٰ‘ آپ اور اس سلسلے کے دوسرے اہل قلم کو اس کار خیر کے لیے اجر عظیم عطا فرمائے ‘ اور آپ سب کے علم و فضل اور قابلیت میں روز افزوں خیروبرکت عطا فرمائے ۔

آپ نے مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کرنے کی فرمایش کی ہے ۔اس بارے میں گزارش ہے کہ میں نے مولانا مرحوم سے ۱۹۴۴ء سے ۱۹۷۹ء تک ۳۵ سالہ دن رات کی رفاقت کے باوجود ‘ ان کے بارے میں اس سے زائد کچھ نہیں کہا ہے جو مشاہدات میں عرض کیا گیا ہے ۔  حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ کیسے تھے ؟ تو انھوں نے فرمایا: حضورؐ چلتا پھرتا قرآن تھے ۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔

میں نے ۳۵ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت ‘ اسلام اور اسوہ رسولؐ  سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میراان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘ خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا ۔ چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۸ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا‘ پھر ۲۰ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔

شہر لاہور میں‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب ‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب ‘ سید نقی علی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا ۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میںمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ‘ سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا ۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایا (dictate) تھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا ۔

۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلااور ۱۴‘۱۵ فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے ۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا :’’فرمایئے‘ کیا حکم ہے‘‘ ۔ایک فوجی افسر نے کہا: ’’آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں‘‘۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا:’’ مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟‘‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا:’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘، تواس نے کہا: ’’آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے ۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:’’ آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔

اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا :’’نقی علی کون ہے؟‘‘ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال سید نقی علی صاحب نے عرض کیا :’’میں ہوں نقی علی ‘‘۔ اس افسر نے کہا:’’تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میںنو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے‘‘۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا:’’آپ کا شکریہ‘‘۔

اس کے بعد اس افسر نے پوچھا :’’ نصراللہ خان عزیز کون ہے؟‘‘ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا:’’میں ہوں نصر اللہ خان عزیز‘‘۔ افسر نے کہا :’’آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میںتین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ ملک صاحب نے جواب دیا:’’آپ کا شکریہ ‘‘۔

یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا ‘اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزاے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا ۔

کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:’’مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے ۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔

اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:’’ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں ۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب کواور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا ‘ پاجامہ ‘ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں ۔ ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے ۔

اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانامودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے ‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘ ۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا جس خدا کے سامنے اس کے رسولؐ کے نواسے امام حسین ؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کر دیا‘ اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے ۔ جس خدا کی زمین پر رات دن لاکھوں کروڑوں نہایت حسین پھو ل کھلتے اور مر جھا جاتے ہیں اور کوئی آنکھ ان کو دیکھنے والی بھی نہیںہوتی‘ اسے ایک مودودی کی کیا پروا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں ساری رات گزر گئی ۔

اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔

مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ’’پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے‘‘۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘ چنانچہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے ۔مولانا کا سارا سامان چونکہ گھر بھیج دیا گیا تھا‘ اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ‘ لٹھے  کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے ۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کُرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا ۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی ۔

چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انھیں میانوالی جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا‘ جہاں ان کو ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا‘ جو جون‘ جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود مولانا نے نہ کبھی کوئی شکایت کی اور نہ اس پر کوئی احتجاج فرمایا۔ اس سے اہل حکومت کو اور پریشانی ہوئی کہ ان کا کوئی حربہ بھی مولانامودودی صاحب کو ان سے فریاد کرنے پرمجبور کرنے کے لیے کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر رہے تھے اور کبھی ہم سے بھی انھوں نے اپنی کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہیںفر مایا ۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزائوں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا تھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں ۔

ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حکومت مولانا مودودی صاحب کو ۱۴ سال قید با مشقت کی سزا دے کر مطمئن ہو گئی کہ ان کی مولانا مودودی صاحب اوران کی اسلامی دستور کی تحریک سے جان چھوٹ گئی اور اب وہ اپنا من مانا سیاسی نظامِ حکومت ‘پاکستان پر مسلط کر سکیں گے ۔ لیکن کارساز مابکارِ کارِما۔ہوا یہ کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ مولوی تمیز الدین خاں صاحب پہلی دستور ساز اسمبلی جو ملک کی پارلیمنٹ بھی تھی اس کے صدر تھے‘ ان کا موقف یہ تھا: ’’سلطنت بر طانیہ نے اقتدار مجلس دستور سازکو منتقل کر کے اس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے دستور مملکت وضع کر کے اقتدار باشندگان پاکستان کو منتقل کرے‘ اس لیے اب جو دستور اور قانون بھی یہ مجلس دستور ساز کی حیثیت سے بنائے اس کے لیے گورنر جنرل جو ملکہ بر طانیہ کا نمایندہ ہے اس کی منظوری اور دستخطوں کی ضرورت نہیںہے۔ وہ مجلس دستور ساز کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کی منظوری اوردستخطوں سے قانون اورملک کا دستور بن جائے گا‘‘۔ چنانچہ لاہور کے مار شل لا اٹھنے کے بعد جو انڈ منٹی ایکٹ ‘مجلس نے پاس کیا تھا اس پر گورنر جنرل ملک غلام محمد صاحب کے نہیں‘ بلکہ مولوی تمیز الدین صاحب کے دستخط کرائے گئے تھے اور مار شل لا اٹھ جانے کے بعد اس کی کارروائیوں اور فیصلوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی تھی ۔ لیکن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کے مجلس دستور ساز اور پارلیمنٹ کو توڑنے کے حکم کے خلاف مولوی تمیز الدین صاحب کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے   بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پاکستا ن کی پارلیمنٹ خواہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے یا مجلس دستور ساز کی حیثیت سے کوئی کارروائی کرے‘ اس کا کوئی فیصلہ گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر قانونی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مجلس کا پاس کر دہ انڈمنٹی ایکٹ بے اثر اور کالعدم ہو گیا‘ کیونکہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔اس لیے جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔

مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:’’میاںصاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟‘‘چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا ۔

میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے  سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہو گئے ۔میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا :

Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.

اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!

  • مولانا مودودی صاحب کو چا ر مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا ۔ پہلی مرتبہ ۴  اکتوبر۱۹۴۸ء کو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر اور اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور ۲۰ ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا‘ جب ایک اور نظر بند ی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھے چھے ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے ۔ اس سے زیا دہ تو سیع نہیں ہوسکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری تو سیع کے تحت قید بھگت رہے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔
  • دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ ء کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے ۵۵‘۵۶ نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزاے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیااور وہ ۲۶ ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی وہی خلاف قانون پایاگیا ۔
  • تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۱۹۶۴ء کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵‘ ۵۶ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۱۹۶۴ ء کو اس وقت رِہا ہوئے‘ جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا ۔
  • چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۱۹۶۷ ء میں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر‘ جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیاتھا کہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے‘یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعہ کا ‘اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تا کہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے ۔ مولانا مودودی صاحب اور تین چار اور بڑے علماے کرام نے سرکاری چاند کوماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کر کے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوںمیں نظر بند کر دیا اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیا ۔

مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب گردے میں پتھری کے لیے ۴۳-۱۹۴۲ء سے ہی مریض تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں امرتسر کے سول ہسپتال میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد بلوچ صاحب نے ان کے گردے سے چھ پتھریاں نکالیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پھر بننا شروع ہوگئیں ۔ پہلے یہ مسلسل تکلیف کی موجب رہیں اور مو لانا اسی حال میں اپنے سارے کام کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آخر کار ۱۹۶۸ء میں لندن میں ڈاکٹروں نے یہ گردہ ہی نکال دیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد انھوں نے اپنا قائم مقام بھی بنانا شروع کر دیا ‘اور آخر کار ۱۹۷۲ء میں امارت کابارمزید اٹھانے سے بالکل ہی معذرت فر ما دی ۔ واللّٰٰہ المستعان!

بعض لوگ اپنی ذات میں اک انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ اک شجرثمردار کی مانند کہ جن کے سائے میں اپنے پرائے‘ امیر غریب‘ بچے بوڑھے‘ سب پناہ لیتے ہیں اور ان کا پھل کھاتے ہیں۔ ان کی چھائوں سب کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی چھائوں اور اپنے پھل سے کسی کوبھی محروم نہیں کرتے۔

ہماری اماں جان (بیگم مودودیؒ) بالکل ایسی ہی تھیں۔ وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھیں۔ ہمارے والدمحترم کے حوالے سے ہمارا گھر ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا‘ باہر مرد حضرات اور اندر خواتین۔

ہم نے بچپن سے اپنے گھر میں ’جمعہ‘ ہوتا دیکھا تھا۔ ۱۱ بجے سے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دری‘ چاندنی کا فرش بچھ جاتا تھا اور ہماری اماں جان نہادھو کر صلوٰۃ التسبیح پڑھنے میں مشغول ہو جاتی تھیں۔ اسی اثنا میں دُور و نزدیک سے خواتین کی آمد شروع ہوجاتی تھی۔چونکہ یہ انفرادی عبادت ہے اس لیے ہمارے گھر میں صلوٰۃ التسبیح کبھی باجماعت نہیں ہوئی۔ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا تو کمرہ تقریباً خواتین سے بھرجاتا تھا اور ہماری اماں جان نماز باجماعت پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد بہت لمبی اجتماعی دعا ہوتی تھی اور اس کے بعد درس قرآن و حدیث ہوتا تھا۔ درس کے بعد دوبارہ دعا ہوتی تھی جس کے بعد یہ اجتماع ختم ہو جاتا تھا۔

اسی طرح عیدین کی نمازیں ہمارے گھرمیں ادا ہوتی تھیں۔ ہماری والدہ فجر کی نماز کے بعد تلبیہ پڑھتی جاتی تھیں اور عید کی نماز کے لیے تیاری کرواتی تھیں۔ ابھی ہم دری‘ چاندنی کا فرش بچھا کر فارغ بھی نہیں ہوتے تھے کہ نمازعید کے لیے خواتین کی آمدشروع ہو جاتی تھی‘ جوآکر خاموشی کے ساتھ صفیں باندھ کر بیٹھتی جاتی تھیں۔ پھر سب مل کر تلبیہ پڑھتے تھے۔ سورج نکلتے ہی خواتین کو تکبیروں کے بارے میں ہدایات دی جاتی تھیں اور پھر اماں جان بڑی      خوش الحانی سے سب کو نماز پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد خطبہ ہوتا تھا۔ دعا کے بعدسب کو سویاں کھلائی جاتی تھیں اور خود سب سے گلے ملتی تھیں اور عید کی مبارک باد دیتی تھیں۔

جیسے ہی ذہن پیچھے کی طرف لوٹتا ہے تو چشم تصور میں ایک منظر گھوم جاتا ہے۔

رات کا وقت ہے اور اماں جان اپنے بچوں کو اپنے سے لگائے کھڑی ہیں۔ دو لیڈی کانسٹیبل آگے بڑھتی ہیں۔ وہ اماں جان‘ ہماری اور پورے گھر کی تلاشی لے رہی ہیں۔ اباجان کے کپڑے ایک سوٹ کیس میں رکھے ہیں اور وہ تیار ہوکر کہیں جانے کو کھڑے ہیں۔ پھر یکدم اباجان نے پیچھے مڑ کر ہماری طرف دیکھے بغیر قدرے بلند آواز میں: ’’السلام علیکم‘ خدا حافظ‘    فی امان اللہ‘‘ کہا اور پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی گرفتاری تھی جو ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔

بعد میں‘ میں نے اماں جان سے پوچھا :’’اباجان نے ہماری طرف مڑ کر دیکھا کیوں نہیں تھا؟‘‘ تو انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا :’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مکے سے جاتے وقت حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا--- پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمزوری آجاتی ہے‘‘۔ وہ چونکہ ہمیں انبیا علیہم السلام کے قصے سناتی رہتی تھیں اس لیے اتنا اشارہ ہی کافی تھا۔

جب اباجان گرفتار ہوئے تو اس وقت گھر میں بہت تھوڑے سے پیسے تھے۔ ہماری  اماں جان نے زندگی کے تمام معمولات بدل دیے۔ دھوبی کو کپڑے دینے بند کر کے‘ انھوں نے خود کپڑے دھونے شروع کر دیے‘ جب کہ ان کا تعلق دہلی کے ایسے متمول گھرانے سے تھا جہاں بلامبالغہ ایک رومال بھی خود نہیں دھویا جاتا تھا--- ملازم کو فارغ کر کے کھانا خود پکانا شروع کردیا۔ اس وقت ایک مائی جو اچھرہ سے جمعہ پڑھنے ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور ایک ٹانگے والے کی بیوہ بہن تھی ‘ضد کر کے ہمارے ہاں آگئی اور سارے کام سنبھال لیے اور اماں جان  سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے کام کریں گھر کے کام میں کروں گی۔اس کا نام ’بھاگ بھری‘ ]قسمت والی[ تھا۔ یہ نام ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا‘ اس لیے ہم اسے ’رس بھری‘کہتے تھے جس کا اس نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔

اس زمانے میں ہماری اماں جان ہر وقت یَاحیّ یَا قیّوم بِرَحمَتِکَ استغیث کا ورد کرتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ بہت شدید دمے کا دورہ پڑگیا تو بس اتنا کہا :’’میرے میاں جیل میں ہیں‘ مجھے کچھ ہوگیاتو میرے بچے روئیں گے اور انھیں کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں ہوگا‘‘۔ اس پر ہماری دادی اماں جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں سخت ناراض ہوئیں کہ: ’’کیوں مایوسی کی باتیں کرتی ہو‘ حوصلہ کرو‘ کیا ہوا جو ذرا سا سانس اوپر نیچے ہوگیا‘‘۔

ہماری دادی اماں بڑی حوصلے والی خاتون تھیں۔ وہ ہماری اماں جان کو نصیحت کیا کرتی تھیں:’’بچوں کو ایسی عادت ڈالو کہ سرد و گرم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وقت سونے کا نوالہ کھلائو‘ موتی کوٹ کر کھلائو لیکن دوسرے وقت دال سے روٹی کھلائو‘ چٹنی سے روٹی کھلائو۔ بچوں کو کبھی ایک طرح کی عادت نہ ڈالو اور نہ ہر وقت ان کی منہ مانگی مراد پوری کرو۔ ماں باپ تو آسانی سے اولاد کی عادتیں خراب کردیتے ہیں لیکن دنیا لحاظ نہیں کرتی۔ یہ تو بڑے بڑوں کوسیدھا کردیتی ہے‘‘۔ اور پھر کہتی تھیں:’’میں نے اپنے بچوں کو اسی طرح پالا ہے۔ ایک وقت اچھے سے اچھا کھلایا تو دوسرے وقت دال چٹنی سے روٹی کھلائی‘‘۔--- شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے اباجان ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے بڑی ثابت قدمی کے ساتھ گزر گئے اور ہر سختی اپنی جان پر جھیل گئے۔ ان کے اعصاب فولاد کے بنے ہوئے تھے۔ وہ اپنا ٹوٹا ہوا بٹن خود ٹانک لیتے تھے۔ اپنا پھٹا ہوا کرتہ خود رفو کر لیتے تھے۔ ان کی ’جیل کٹ‘ (jail kit) جو بعد میں ہر وقت تیار رہتی تھی‘ اس میں سوئی دھاگا اور ہر سائز کے بٹن بھی ہوتے تھے۔

ہماری دادی اماں ولی اللہ تھیں۔ وہ جب بیمار ہوتی تھیں توآسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر بڑے جذبے کے ساتھ کہتی تھیں: مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْ--- اور پھر وہ ٹھیک ہوجاتی تھیں۔ کبھی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ کبھی دوا پی۔ اگر کبھی پھوڑا پھنسی نکل آتا تو اس جگہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھیں: ’’اے دنبل بزرگ مشو‘ خدائے ما بزرگ تر است‘‘] اے پھوڑے زیادہ نہ بڑھ‘    ہمارا خدا سب سے بڑا ہے[۔ یہ کہنے سے وہ پھوڑا ٹھیک ہوجاتا تھا۔ وہ فارسی زبان و ادب کی بہت زبردست اسکالر تھیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ فارسی اشعار میں بات کا جواب دیتیں۔

ہماری اماں جان کہتی تھیں :’’میں نے اپنی پوری زندگی میں تمھاری دادی اماں جیسی کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی کہ جس میں سرے سے ’نفس‘ ہی نہ ہو۔ انھیں کسی چیز کی طلب نہیں تھی۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ:’’صوفیا کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی کو منع نہیں کرتے‘ طمع نہیں کرتے اور جمع نہیں کرتے‘‘۔ اتفاق سے یہ تینوں صفات ہماری دادی اماں ‘ اباجان اور اماں جان میں تھیں۔ رضا بقضا اور صبر جیسی صفات کی ان تینوں ہستیوں نے اپنے اندر اس طرح سے پرورش کی تھی کہ وہ نفس مطمئنہ کا بہترین نمونہ بن گئے تھے۔ اماں جان کہا کرتی تھیں:’’میں نے جینے کا سلیقہ تمھاری دادی اماں سے سیکھا ہے‘‘۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ساس بہو‘دونوں  ہمیشہ ایک رائے رکھتی تھیں اور کبھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔

جب ابا جان پہلی مرتبہ جیل گئے اور ہاتھ بالکل تنگ ہوگیا تو اماں جان نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے بچوں کی تعلیم جاری رہنی چاہیے۔ ہماری اماں جان کی ایک نہایت مخلص دوست خورشید خالہ‘ جب ان سے ملنے آئیں تو اماں جان نے اپنا کچھ زیور انھیں دیا کہ اسے فروخت کر لائو۔ اس طرح وہ بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ بڑی جز رسی کے ساتھ بہت سنبھل کر خرچ کرتی تھیں۔ اماں جان کہا کرتی تھیں :’’دنیا میں ہر چیز کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے۔ گزارا ہوتا نہیں بلکہ ’کیا‘جاتا ہے‘‘۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مشکل وقت بھی گزر ہی گیا اور ۲۸ مئی ۱۹۵۰ء کو ۱۹ ماہ اور ۲۵ دن کی نظربندی کے بعد اباجان پھولوں کے ہاروں سے لدے رِہا ہوکر گھر آگئے اور سارا گھر مبارک باد دینے والوں سے بھرگیا۔

۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو ابا جان دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ پھر وہی    گنے چنے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ‘ انتہائی کمزور صحت والی ہماری اماں جان تھیں‘ جنھوں نے بڑے حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا (یہ کام خورشید خالہ مرحومہ انجام دیتی تھیں)۔ حسب سابق پھر خود کھانا پکانا اور گھر کے سارے کام کرنے شروع کر دیے۔ اس مرتبہ مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں اباجان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ ۹مئی کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ یہ مقدمہ ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے کے سلسلے میں چل رہا تھا۔ ۱۱مئی کی صبح اماں جان ناشتا بنا رہی تھیںاور ہم سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوکر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکدم ہمارے سب سے بڑے بھائی عمر فاروق ہاتھ میں اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور اماں جان کو ایک طرف لے جاکر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد ہوگیا اور دوسرے ہی لمحے انھوں نے اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے پکانے شروع کر دیے۔ ہم سب کو ناشتا کروا کر اسکول روانہ کر دیا اور اندر جاکر آکا بھائی ] سید عمرفاروق[کو بھی اسکول جانے کو کہا۔ ان کی اندر سے آواز آئی: ’’نہیں اماں‘ مجھ سے اسکول نہیں جایا جائے گا‘‘--- دوسرے بڑے بھائی احمد فاروق گھرسے کچھ دُور ہی گئے تھے کہ ایک ہاکر زور زور سے اعلان کر رہا تھا:’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا‘ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک بچہ جو     یونی فارم پہنے سائیکل پر اپنے اسکول جا رہا ہے‘ یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے۔ غرض احمد فاروق بھائی آدھے راستے سے ہی واپس آگئے۔

میں اور اسما‘ جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے‘ تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں: ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ آکا بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑگیا تھا--- لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں۔

ہم ۶۰ فیروز پور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں۔ اسکول میں ہمیں جو دیکھتا حیران رہ جاتا تھا۔ ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیں۔ انھوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا:’’دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیںکہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پُرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں‘ اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقعے پر بھی اپنی بچیوں کو صاف کپڑے پہنا کر‘ بال بنا کر‘ کھلا پلا کر اسکول روانہ کر دیا۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقعے پر بھی انھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا۔ کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کرکر کے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا‘‘۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا: ’’عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے‘‘۔ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسما ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ ہیڈمسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کر رہی تھیں ‘ جب کہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں‘ کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے یہ تو غدار ہیں‘ پاکستان کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں۔ یہ سب ایکٹنگ ہے‘ چالاک ماں کی چالاک لڑکیاں!

اسکول سے جب ہم اپنے گھر ۵ اے‘ ذیلدار پارک آئے تو منظر ہی اور تھا۔

پوری گلی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ دُور دُور تک بسیں کھڑی تھیں جن میں سوار ہو کر لوگ دوسرے شہروں سے آگئے تھے‘ ہم دونوں بہنیں گلی سے گزر کر گھر کے دروازے تک بمشکل پہنچ پائیں۔ پھر دروازے سے گھر کے اندر داخل ہونا مشکل ترہوگیا۔ کچھ لوگ دھاڑیں مار مار کر    رو رہے تھے اور کچھ خاموشی سے آنسوبہا رہے تھے۔ ایسے میں جب انھوں نے ہمیں خاموشی سے بستے اٹھائے اسکول سے گھر آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ انھوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا: ’’جب مولانا کے بچے نہیں رو رہے اور صبروسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم روتے اور بے صبرے ہوتے کیا اچھے لگتے ہیں‘‘۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔ بڑی مشکل سے ہجوم میں سے گزر کر جب ہم گھر کے اندر پہنچے تو پورا گھرخواتین سے پٹا پڑا تھا۔ جو خواتین اس دن ہمارے گھر اظہار ہمدردی کے لیے محبت سے آئی تھیں‘ رو رہی تھیں--- اماں جان ان کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں‘ اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا۔ جب ہمیں دیکھا تواماں جان نے بس اتنا کہا : ’’بیٹا گھبرانا نہیں‘ صبر کرنا‘‘۔ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا کھلایا اور جا کر خواتین میں بیٹھ گئیں۔

اس روز ایک خاتون نے اماں جان سے کہا تھا کہ بیگم صاحبہ‘ آج رات آپ ۱۰۰ نفل حاجت کے لیے پڑھیں اور پھر تہجد کے نفل پڑھ کر مولانا کی زندگی‘ سلامتی اور بقا کے لیے دعا کر کے یہ منت مانیں کہ جب سلامتی‘ خیروعافیت سے گھر واپس آئیں گے تو پھر میں اسی طرح ۱۰۰نفل شکرانے کے ادا کروں گی--- غرض وہ ساری رات اماں جان نے نفل پڑھتے ہوئے گزاری۔ رات کو جب بھی دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کسے آنی تھی) انھیں نفل پڑھتے ہوئے پایا۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ فجرکی نمازکے بعد اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں پڑھنا شروع کیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ سورۂ بقرہ کی جو آیت ان کے سامنے آئی وہ یہ تھی:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللّٰہط اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں وہ ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی  اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں‘ اللہ کی مدد قریب ہے۔

اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں--- پھر مجھے بلایا اور یہ آیت دکھائی‘ کہنے لگیں:’’دیکھو‘ یہ زندہ کتاب ہے‘ یہ انسان کی دکھتی رگ پکڑتی ہے۔ یہ دل کا چور پکڑتی ہے۔ یہ دکھی انسان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ تم اس سے دوستی کرلو! پھر یہ تمھارے حالات کے مطابق‘ تمھاری دلی کیفیت کے مطابق‘ تم سے معاملہ کرے گی‘ تمھیں مشورہ دے گی‘ تمھیں تسلی دے گی‘ اب دیکھو عین ہمارے حالات اور ہماری دلی کیفیت کے مطابق ہمیں کیسے تسلی دے رہی ہے‘ کیسے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے!‘‘

بس پھر سارا دن اماں جان مطمئن رہیں--- وہ بار بار اس آیت کا ورد کرتی رہیں اور کہتی رہیں:’’ویسے تو سارے قرآن پر ہی اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے ایسی زندہ کتاب ہم کو عطا فرمائی‘ لیکن اس آیت کا ہم سب پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ایسے نازک وقت میں ہمیں حوصلہ دیا‘ بشارت دی اور ہماری دست گیری کی‘‘--- دوسری رات بھی آئی اور گزر گئی۔ اماں جان مطمئن رہیں‘ باہر مردوں سے اور اندر عورتوں سے گھر بھرا رہا۔ عورتیں روتی ہوئی آتی تھیں‘ مگر اندر آکر جب اماں جان اور دادی اماں کا صبر دیکھتی تھیں تو خاموش ہوجاتی تھیں اور ایک دوسری سے کہتی تھیں’’اس کو کہتے ہیں صبر!‘‘

اباجان کی سزاے موت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں‘ ہڑتالوں اور سزا کی منسوخی کے مطالبات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ دوسرے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ بہت سے غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل اور وزیراعظم کے نام تار بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ردعمل انتہائی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔

۱۳ مئی کو اماں جان نمازِ عصر سے فارغ ہی ہوئی تھیں کہ جماعت کے ایک صاحب اندر آئے اور انھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائو۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے؟ اماں جان بھی بڑی گھبرائی ہوئی آئیں کہ یکدم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی: ’’بیگم صاحبہ مبارک ہو! مولانا کی سزاے موت ۱۴ سال قیدبامشقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ایک بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال مزید قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی ہے‘‘۔ وہ صاحب تو اپنی کہے جا رہے تھے‘ ادھر اماں جان کھڑے قد سے سجدے میں گرگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی سجدے میں گرگئے۔

اب تو گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔ سب طرف سے مبارک‘ سلامت شروع ہوگئی۔ یہ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ آگے ۲۱ سال کی قید ہے! اماں جان بار بار کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ‘‘۔ پھر کہتیں:’’دیکھو ‘آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ اُٹھ کر اپنا مطلب ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم ایسے ہی حالات کے لیے ہیں اور یہ ہمارا مطلب ہے ‘‘---

اس وقت اماں جان نے ہم کو اپنا ایک خواب سنایا جواباجان کی کورٹ مارشل سے سزاے موت سے صرف ایک دن پہلے انھوں نے دیکھا تھا۔کہنے لگیں: کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ہوائی جہاز آکر اترا ہے اور اس میں تمھارے اباجان ہم سب کو لے کر سوار ہو گئے ہیں--- جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتار کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کر رہا ہے۔ مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ ہورہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ پھر یک لخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمھارے ابا جان میرا ہاتھ پکڑ کر‘ سہارا دے کر جہاز سے اُتار رہے ہیں۔ ادھر میری جان پر بنی ہوئی ہے اور ادھر تمھارے اباجان کی آواز آتی ہے: ’’ذرا کھڑی ہو کر نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آگئی ہو‘‘--- پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آرہے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظرآرہی ہیں--- اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ خواب سناکر کہنے لگیںکہ اب اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو تو صرف اپنے بندوں کے درجات بلند کرنے تھے! اس بھاری آزمایش میں سے بخیروخوبی گزار کر ہمیں بلندیوں تک پہنچانا تھا!

اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش و خرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔ ہماری اماں جان کہتی تھیں:’’انسان کا بچپن خوشیوں سے بھرپور ہونا چاہیے اور اسے کبھی عدمِ تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آدمی کو ڈس لے تو یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں--- یہ تلخ یادیں پھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں‘‘--- انھیں یہ فکر پریشان کرتی تھی کہ میرے بچے بچپن ہی میں بوڑھے ہوگئے ہیں اوران کا بچپنا چھن گیا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے انھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا۔

آخرکار ۲۹ اپریل ۱۹۵۵ء کو قانونی سقم کی بنا پر اباجان ۲۵ ماہ کی قیدوبند کے بعد رِہا ہوکر گھر آگئے۔ وہ بڑا ہی خوشیوں والا مبارک دن تھا۔ ہمارا گھر پھولوں‘ ہاروں اور مٹھائیوں سے بھرگیا۔ ہر طرف سے مبارک‘ سلامت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سارا دن خوشیوں میں گزر گیا۔ جب رات ہوئی تو ہم سب سونے کے لیے لیٹ گئے۔ خوشی اور تھکاوٹ کے مارے عشاء بھی نہیں پڑھی کہ یکدم اماں جان کی آواز کانوں میں پڑی: ’’ذرا دیکھوکتنی بے شرمی کی بات ہے‘ بجاے شکرانے کے نفل پڑھنے کے انھوں نے فرض نماز بھی نہیں پڑھی۔ جب باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو یہ کیسے نفل پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ بس نکل گیا مطلب! ، اب تھوڑی کبھی اللہ سے واسطہ پڑنا ہے!‘‘ یہ سنتے ہی ہم اٹھے اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے۔

اس پوری رات اماں جان شکرانے کے نفل پڑھتی رہیں‘ یعنی انھوں نے سزاے موت والی رات جو منت مانی تھی (کہ جب میاں خیریت کے ساتھ گھر واپس آئیں گے تو جس طرح آج حاجت کے ۱۰۰ نفل پڑھے ہیں اسی طرح شکرانے کے ۱۰۰ نفل پڑھوں گی) اس کو پورا کر رہی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ انھوں نے چائے کا تھرموس اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چائے پیتی تھیں‘ جب کہ سزاے موت کی خبر سننے کی اس ہولناک رات میں بالکل چائے نہیں پی تھی--- سخت گرمی کا موسم تھا۔ صبح کو اماں جان بہت ہنسیں اور کہنے لگیں: ’’انسان بھی کتنا ناشکرا ہے۔ جب میاں کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی تو یہ سو نفل بہت ہلکے تھے۔ نہ نیند آئی‘ نہ تھکاوٹ محسوس ہوئی‘ نہ طبیعت بوجھل ہوئی اور نہ دھیان ہی اِدھر اُدھر ہوا۔ جو الفاظ زبان سے نکل رہے تھے وہی دل سے بھی نکل رہے تھے۔ کمربعد میں جھکتی تھی‘ دل پہلے جھک جاتا تھا۔ لیکن کل رات کبھی نیند آتی تھی‘ کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی اورکبھی سرمیں درد ہوتا تھا۔ وہ ’’جذب اندرون‘‘ سرے سے نصیب ہی نہ ہوا جو اس مرتبہ ملا تھا‘‘۔ وہ ساتھ میں توبہ اور استغفار بھی کر رہی تھیں:’’سچ ہے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرسکتے چاہے ساری عمر سجدے میں گرے رہیں‘‘۔

ایک روز ابا جان نے ہمیں جیل کے حالات بتائے کہ جب لاہور سے انھیں ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کے وقت وہاں پہنچے‘ جو کمرہ ابا جان کو دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈپمپ تھا۔ وہ اے کلاس کے قیدی کے کمرے میں پہنچے توسی کلاس کا ایک مشقتی جو انھیں خدمت کے لیے دیا گیا تھا‘ بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ تقریباً ۴۰سال کا خوب مضبوط جسم کا تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے اباجان کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا۔ پھرہینڈپمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگا:’’ میاں جی نہا لیجیے‘‘---  ابا جان غسل خانے سے جو نکلے توکیا دیکھتے ہیں کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر ان کے لیے چارپائی بچھاکر بستر کر دیا گیا ہے۔ پوچھا :’’پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی۔ یہ کیوں بچھائی ہے؟‘‘ تو وہ کہنے لگا:’’گرمی بہت ہے‘ میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا‘ تاکہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کرسکیں‘‘--- جتنی دیر میں اباجان نے ظہرکی نماز پڑھی اتنی دیر میں اس نے کھانا تیارکرلیا اور بڑے سلیقے سے لاکر ابا جان کے سامنے رکھا۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے۔ بس جلدی میں جو ہوسکا کرلیا ہے۔

پھر اس نے نوٹ کر لیا کہ اباجان کس وقت کون سی دوائیاں کھاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی‘ دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح دوائیاں ان کے سامنے رکھتا تھا۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوائی نہیں رکھی ہے۔ ابا جان نے بتایا:’’اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا تھا‘‘۔

ایک دن اس قیدی نے یہ بتایا :’’جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامے پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے‘ بس تمھارا کام اسے ہر طرح سے تنگ کرنا ہے۔ کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ بس جی‘ میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں کہ آج کیسے شخص سے پالا پڑتا ہے ؟آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں‘ کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچتا رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کسی کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ میاں جی‘ آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا‘‘---

پھر اباجان نے بتایا:’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہوتا تھا‘ یا جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بس بیٹھا ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے کہ بقرعید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل سے دیا جاتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں‘ یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہوچکا تھا۔ ملازم سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں‘ اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ میں نے اس سے کہا کہ رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کرکے لے آئو۔ کہنے لگا: وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا! بھلا عید کے دن کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میںنے اسے سمجھایا کہ تم میری فکر نہ کرو‘ میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھا لوں گا‘‘(چونکہ ابا جان صبح آٹھ بجے ناشتا کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے‘ اس لیے انھوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتا کرلیا۔ یہاں پردادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انھیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی)۔ جس وقت میں ناشتا کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھربھر کر رونے کی آواز آئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ملازم بیٹھا رو رہا تھا۔ پوچھا کہ کیا بال بچے یاد آ رہے ہیں؟کہنے لگا کہ میں تو آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں‘آپ نے بھلا کہاں کھائی ہوگی؟--- میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی‘ یہ راستہ میںنے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں۔ اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو میں آرام سے رہ لوں گا۔ تم میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو‘‘۔

’’میں تو ناشتا کرکے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا تھا‘ لیکن ملازم بے چارے نے احتجاجاً ناشتا نہ کیا (اگرچہ اس کے لیے دال روٹی بچی ہوئی رکھی تھی)۔ اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری کئی ناشتے دان‘ بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا تھا کہ مولانا صاحب‘ آپ کے چاہنے والے تو فجرکے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے‘ لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کی نماز کے بعد کھلا۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لیے دیر لگ گئی۔ اب جو ملازم نے وہ پیکٹ‘ ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں تھیں۔ میںنے اپنے جیل کے ساتھی سے کہا ‘دیکھو یہ سب تمھارے لیے آیا ہے ‘ کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے تھے‘ اب خوب جی بھر کر کھائو اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آئو۔ مگر ملازم کفِ افسوس مل رہا تھا کہ کاش! وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے کے بجاے کوئوں کو کھلادی ہوتی۔ میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتا کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا کہ میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی تھیں۔ انھوں نے تمھیں بھجوائی ہیں!

عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں۔ ایسے ایسے کھانے آئے کہ ملازم تو حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آگیا۔ الغرض عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے عش عش کر اٹھے‘‘۔

ادھر ابا جان ہمیں یہ سب کچھ بتا رہے تھے‘ ادھرہماری اماں جان نے ہمیں کہا :’’دیکھو‘   سورئہ مریم کی آخری آیات میں بھی یہی بات کہی گئی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاo (۱۹:۹۶)،’’کہ جو اہل ایمان نیک اعمال کرتے ہیں رحمن ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے‘‘۔ وہ اسی طرح زندگی کے واقعات کو آیات اور احادیث کے ساتھ منطبق کر کے ہمیں ان کا مطلب سمجھایا کرتی تھیں۔ آج اخبار پڑھتے اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھتے ہوئے قرآن کی آیات اور احادیث یاد آتی ہیں۔ ساتھ ہی اماں جان کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں:’’تم عمل تو کرکے دیکھو‘ پھر آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ کر تم کو اپنا مطلب سمجھائیں گی‘‘۔

اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی کہ آپ کسی کو بددعا نہ دیں۔ آپ کی دعا اور بددعا دونوں حرف بہ حرف لگتی ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ء میں اباجان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا کہ:’’جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے‘ یااللہ! تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے‘‘--- اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہو گیا۔ یہ خبر پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ دادی اماں کی بددعا غلام محمد کو کیسی لگی۔

ان دنوں جب کبھی اباجان کو تفہیم القرآن لکھنے کا موقع نہ ملتا اور وہ دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے تو کہا کرتے تھے :’’دیکھو تم لوگ مجھے تفہیم القرآن لکھنے نہیں دے رہے ہو‘ اب میں جیل جانے ہی والا ہوں۔ جب بھی میں مصروفیت کی وجہ سے تفہیم نہیں لکھ پاتا تو اللہ تعالیٰ مجھے لے جا کر جیل میں بٹھا دیتے ہیں اور میں وہاں اطمینان سے لکھتا    رہتا ہوں‘‘۔ ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ’’ تفہیم القرآن مکمل کرلوں تو اسی اسلوب میں  تفہیم الحدیث بھی لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں‘‘۔

اسی لیے اماں جان ہم بچوں پر بہت زور دیتی تھیں:’’اپنے ابا جان کو تنگ نہ کیا کرو‘‘۔ جب کبھی بچے کسی چیز کے لیے تقاضا کرتے تو اماں جان ہمیں سمجھاتی تھیں:’’اگر میں ہر وقت تمھارے والد کی جان کھاتی رہتی کہ اب مجھے یہ اور یہ چاہیے اور میرے بچوں کو ایسی ایسی چیزیں درکار ہیں تو یہ ساری کتابیں جو انھوں نے لکھی ہیں‘ وہ نہ لکھ سکتے۔ تمھارے باپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں‘ ایک مصنف اور محقق ہیں۔ ان کو خاموشی‘ سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ تم ان سے کوئی مطالبہ نہ کیا کرو اور نہ ان کے سامنے اپنے تعلیمی مسائل بیان کیا کرو۔ ان کو اپنی باتوں میں بھی نہ الجھایا کرو‘‘--- غرض اماں جان نے اباجان کو ایسا سکون اور اطمینان مہیا کیا کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے‘ ذہنی طور پر پوری طرح یکسو ہو کر اور جم کر لکھتے تھے۔

ابا جان نے سورۂ یوسف کی جو تفسیر لکھی ہے اسے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت وہیں کہیں موجود تھے اور اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں۔ سورئہ کہف یا   سورئہ فیل کی تفسیر پڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ دراصل وہ ذہنی طور پر اسی زمان و مکان (time and space)میں منتقل ہوجاتے تھے۔ برسوں بعد جدہ میں‘ شعبۂ عربی کی سربراہ جو شامی النسل تھیں‘ مجھے کہنے لگیں کہ ایک فقرے میں اپنے والد کی صفت بیان کرو تو میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ اِنَّہٗ کَانَ یَعِیشُ فِی عَالَمِ الثَّانِیْ (کہ وہ ایک اور ہی دنیا میں رہتے تھے)۔ وہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں:’’امام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی صفت تھی‘‘۔

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر اباجان کی شادی کسی جاہل اور خواہ مخواہ مطالبے کرنے والی جھگڑالو قسم کی عورت سے ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا۔ اماں جان کو تو شایداللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اباجان کے لیے تھا--- اماں جان کا اعلیٰ ادبی ذوق‘ بلندپایہ علمی رجحان‘ اپنی ذات کی نفی‘بے نفسی‘ خودداری اور اباجان کی دلداری کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے   ’البنات عود‘کہ خواتین خوشبو ہوتی ہیں‘ جو خود تو پردے میں رہتی ہیں‘ مگر ان کا سلیقہ اور تھوڑے سے پیسوں میں بنائی ہوئی بہت ساری عزت اور بچوں کی تعلیم و تربیت سب کو نظرآتی ہے۔

۶ جنوری ۱۹۶۴ء کو اباجان پھر جیل چلے گئے اور بڑے بڑے کتابوں سے بھرے صندوق جیل جانے شروع ہو گئے۔ جیل والے بھی حیران ہوتے تھے کہ اے کلاس کے دوسرے قیدیوں کے لیے حلوے اور انواع و اقسام کے کھانے آتے ہیں‘ جب کہ مولانا صاحب کے لیے صرف کتابیں آتی ہیں۔ اس وقت اباجان لاہور جیل میں تھے جہاں اب شادمان کالونی ہے۔ یہیں کہیں وہ جگہ تھی جہاں تفہیم القرآن لکھی گئی۔ ہر ہفتے ہم ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ اس پورے عرصے اماں جان کافی بیمار رہیں۔  مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْکہہ کر شفایاب ہونے والی دادی اماں بھی نہیں رہی تھیں (۱۹۵۸ء میں دادی اماں کا انتقال ہو چکا تھا‘ ان کی موجودگی    اماں جان کے لیے بہت بڑا اخلاقی سہارا ہوتی تھی)۔

ہم لوگ اس وقت اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں پہنچ چکے تھے۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا۔ اباجان کے خلاف پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی۔ اخبارات میں سرخیاں لگتیں کہ مولانا مودودی غدار ہیں‘ وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ لاہور کالج براے خواتین میں قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی طرف سے یہ آوازے ضرور کسے جاتے: ’مردودی مردودی ۔ایک مودودی سو یہودی۔ ٹھاہ مودودی ٹھاہ‘ وغیرہ۔ بلاشبہہ ہمارے لیے یہ باتیں سخت تکلیف دہ تھیں۔ تاہم‘ جب بھی ہم اس بات کا تذکرہ کرتے‘ ان سب باتوں کے جواب میں اباجان اکثر یہ شعر پڑھتے تھے    ؎

در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ داند

گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را

]نیک نامی کے کوچے میں ہمیں (وہ) گزرنے نہیں دیتے یعنی سچے عاشق ہمیشہ ہی بدنام ہوتے ہیں[

لیکن ہماری اماں جان نے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ: ’’اگر پڑھنا ہے تو انھی حالات میں اور انھی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو‘ ورنہ جاہل رہ جائو گے--- اپنے آپ کو صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنالو کہ بڑے بڑے طوفان آکر اس سے ٹکراتے ہیں‘ لیکن وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتا وہیں کھڑا رہتا ہے--- اپنے اندر سمندر جیسا ظرف پیدا کر لو کہ بڑے بڑے دریا آکر اس میں گرتے ہیں ‘وہ انھیں اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن کبھی کنارے توڑ کر باہر نہیں نکلتا‘‘۔

ابا جان میری بیٹی رابعہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک بار ہم اسے لے کر انارکلی گئے تو سامنے سے پیپلز پارٹی کا جلوس آگیا۔ جلوس میں اباجان کو گالیاں سن کر میں گھر واپس آگئی۔ گھر کھانے پر‘ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر بیٹی رابعہ کہنے لگی: ’’نانا ابا‘ مولانا مودودی آپ ہی ہیں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں بیٹی میں ہی ہوں‘‘۔ اس پر رابعہ بولی: ’’انارکلی میں تو آپ کو گالیاں مل رہی تھیں‘‘۔   ابا جان مسکرا کر اس کی بات دہرانے لگے۔ ہم نے کہا: ’’خوش تو ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی دولت مل گئی ہے‘‘۔ ابا نے کہا: ’’بیٹی‘ اللہ کے راستے میں گالیاں کھانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے‘‘۔

اباجان کے کردار کی جو خوبی مجھے بہت زیادہ یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلامبالغہ وہ اپنے بچوں کی اتنی عزت کیا کرتے تھے جتنی دوسرے لوگ ماں باپ کی کرتے ہیں۔ عام حالات میں وہ ہمیں بیٹی کہا کرتے تھے۔ ذرا رنجیدہ ہوتے تو صاحبزادی کہا کرتے‘ اور اگر بہت ہی زیادہ ناراض ہوتے تو پھر ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہتے۔ بس‘ پکارنے کا یہ انداز ہی ایک تازیانہ ہوتا تھا ‘اور ہماری کوشش ہوتی کہ ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

ابا جان ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ انھوں نے اتنا کام کیا‘ اس قدر سنجیدہ کام کیا جو دوسرے لوگوں کے نزدیک خشک اور بوجھل ہوتا‘ مگر وہ اپنی زندگی میں نہایت باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ میرے آئیڈیل میرے ابا تھے۔

بار بار جیل جانے کی وجہ سے اباجان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو گئی‘ لہٰذا اماں جان نے اپنے درس کافی کم کر دیے۔ وہ ماڈل ٹائون لیڈیز کلب میں پچھلے ۲۵ سال سے درس دے رہی تھیں۔ وہاں انھوں نے شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی۔ آخرکار درس کا معاملہ اپنی شاگردوں کے حوالے کردیا اور سارا وقت اباجان کی خدمت میں گزارنے لگیں۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ نے کتنے مضامین میں ایم اے کیا ہے؟ تو کہنے لگیں: ’’بیٹی ‘ایم اے‘ بی اے تو آپ لوگ ہیں۔ میں نے تو دہلی کے کوئین میری اسکول سے مڈل تک پڑھا ہے‘‘۔ انھوں پوچھا کہ پھر آپ کے پاس اتنا علم کیسے ہے؟ اس سوال کااماں جان نے ایسا تاریخی جواب دیا جو میں کبھی بھلائے نہیں بھول سکتی۔ کہا:’’میں نے زندگی ایک ایسے عالمِ دین کے ساتھ گزاری ہے جن کی ایک گھنٹے کی بات چیت سن کر آدمی کو وہ علم حاصل ہو جاتا ہے جو لوگوں کو رات رات بھر کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ملتا!‘‘

اباجان کی بیماری بڑھتی ہی گئی اور پھر امریکہ سے ڈاکٹراحمد فاروق آئے اور اباجان کو اماں جان سمیت امریکہ لے گئے‘ تاکہ وہاں یکسوئی سے ان کا علاج کروایا جائے۔ وہیں شدید بیمار رہ کر اباجان کا ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو بفیلو کے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ یہ دہشت ناک خبر لے کر جب احمد فاروق ہسپتال سے آئے تو وہ غم کے مارے نڈھال تھے۔ اماں جان نے ساری رات کے جاگے ہوئے بھوکے پیاسے غم زدہ بیٹے کو چائے پلائی‘ بسکٹ کھلائے اور دلاسا دیا:’’شکر کرو تم نے اپنے باپ کو دیکھا‘ ان کے سائے میں اتنا وقت گزارا‘ ورنہ وہ تو۱۹۵۳ء ہی میں پھانسی چڑھنے کو تیار ہوگئے تھے۔ اگر اس وقت انھیں پھانسی دے دی گئی ہوتی تو تمھیں یہ یاد بھی نہ ہوتا کہ تمھارے باپ کی شکل کیسی تھی!‘‘ اللہ اکبر‘ ایسا حوصلہ اور ایسا توکل۔

اماں جان نے پھر سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا :’’اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھو اور باتیں نہ کرو‘‘۔ اس پر سب اکٹھے ہونے والے مرد و خواتین ان کے صبر و حوصلے پر حیران رہ گئے۔ اسی حیرانی کا اظہار میرے ماموں ڈاکٹر جلال شمسی نے بھی کیا۔ وہ ٹورنٹو سے گاڑی چلا کرجب اماں جان کے پاس آئے تو شدتِ غم سے نڈھال تھے۔ وہ اماں جان کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہنے لگے: ’’آپا جان‘ میں ٹورنٹو سے بفیلو تک روتا ہوا آیا ہوں۔ سوچتا تھا کہ آپ کا سامنا کیسے کروں گا؟ آپ سے کیا کہوں گا؟ لیکن آپ کو دیکھ کر تو میرے آنسو خشک ہوگئے۔ ایسی ہی حیرانی مجھے اس وقت ہوتی تھی جب بھائی صاحب جیل جاتے تھے اور آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے اطمینان سے بیٹھی رہتی تھیں۔ مجھے بتایئے کہ آپ کے پاس کون سی روحانی طاقت ہے؟ آپ یہ سب کیسے کرلیتی ہیں؟‘‘

اماں جان نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان‘ توکل اور صبر وہ صفات ہیں جن کی مدد سے آدمی مشکل ترین حالات سے بخیروخوبی گزرسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر احمد فاروق نے جہاز چارٹر کرکے میت کو نیویارک پہنچایا۔ اسی اثنا میں پورے امریکہ میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے اباجان کے انتقال کی خبر نشر کی جا چکی تھی۔ اس لیے نیویارک ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں مسلمان جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ احمدفاروق نے اماں جان کو پسنجرلائونج میں لے جاکر بٹھا دیا۔ ابھی وہ وہاں بیٹھی ہی تھیں کہ بہت ساری پاکستانی ’ہندستانی‘ ترک اور عرب ممالک کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک کی خواتین   وہاں آگئیں۔ ان کے مرد باہر جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے تھے۔ کچھ پاکستانی خواتین نے جو اماں جان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں آپس میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ بفیلو سے body ]یعنی میت[آنی ہے پتا نہیں باڈی پہنچی یا نہیں؟ اماں جان نے کہا کہ باڈی پہنچ گئی ہے! ان عورتوں نے چونک کر اماں جان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ باڈی پہنچ گئی ہے۔ انھوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ میں باڈی کے ساتھ آئی ہوں۔ عورتوں نے پوچھا کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق ہے؟ جواب ملا ’’وہ میرے شوہر تھے‘‘۔ وہ عورتیں چیخ پڑیں: ’’ہیں بیگم صاحبہ آپ اتنے اطمینان سے اتنے سکون سے اتنا بڑا صدمہ دل میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہم اور ہمارے مرد سارا راستہ روتے آئے ہیں۔ آپ کو دیکھ کر تو اللہ یاد آگیا! اور پھر آہستہ آہستہ ان ساری ترک‘ انڈونیشی‘ عرب اور افریقی خواتین کو بھی پتا چل گیا کہ یہ خاتون مولانا مودودی کی بیگم ہیں۔ ان سب نے اماں جان سے تعزیت کی اور سب نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔یہ جنازہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے چھ مرتبہ ہوا۔

جب میت لے کر لاہور پہنچیں تو سب بچوں کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی۔ وہ بڑے حوصلے کے ساتھ اس صدمے کو جھیل گئیں‘ لیکن پھر افسردگی کا شکار ہو گئیں۔ میں ان دنوں جدہ سے گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور آئی ہوئی تھی۔ میں وہاں لڑکیوں کے سعودی کالج کلیۃ البنات میں انگریزی ادب پڑھاتی تھی۔ ان کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے‘ میں انھیں اصرار کر کے اپنے ساتھ جدہ لے گئی۔ پہلے تو وہ میرے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوئیں اور کہا :’’بیٹی کے گھر بھلا کیسے جا سکتی ہوں‘‘۔ میں نے بہت سمجھایا: ’’آپ نے بیٹوں کی طرح پالا پوسا‘ بیٹوں کی طرح پڑھایا‘ اب میں بیٹوں کی طرح کماتی ہوں‘ اس لیے آپ مجھے بیٹی نہیں بیٹا سمجھیے! آپ کی افسردگی کا علاج دوائیوں میں نہیں مکے اور مدینے کی ہوائوں میں ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ چلنے پر راضی ہو گئیں۔ وہاں پہنچ کر میں نے ان کا اقامہ بنوا لیا‘ تاکہ آنے جانے میں کوئی دشواری نہ رہے۔ پہلا ہی عمرہ کرکے آئیں تو تمام دوائیاں اٹھا کر الماری میں رکھ دیں کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔

رمضان میں کئی عمرے کیے اور آخری عشرے میں ہم ان کو لے کر مدینہ چلے گئے۔ پاکستان ہائوس میں قیام تھا اور وہ ان دنوں مسجدنبوی ؐکے باب النسا کے بالمقابل تھا۔ اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ سب سے اگلی صف میں جگہ لینی ہے۔ اس لیے بھاگم بھاگ مسجد میں پہنچ کر تراویح کے لیے اگلی صف میں جگہ لیتے تھے۔ پھر ایسا ہوا ‘انتیسویں رات تھی اور یہ ختم قرآن کی رات تھی۔ پورے مدینے میں اور خصوصاً مسجد نبویؐ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی‘ اسی لیے ہم بھی بہت پہلے سے عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں پہلی صف میں جا بیٹھے تھے۔ یکایک اقامت سے ذرا پہلے مسجد کی دو منتظم سعودی عورتیں اور ایک شرطہ آموجود ہوئے اور بڑے کرخت لہجے میں زور زور سے حکم صادر کرنا شروع کیا:  ارجعوا وراء اِرجعوا وراء (پیچھے ہٹو‘ پیچھے ہٹو)۔ ہم جب پیچھے دیکھتے تھے تو پوری جگہ اس طرح بھری ہوئی تھی کہ تھال پھینکو تو سروں کے اوپر ہی اوپر سے جائے! آخر میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اور اسی طرح ڈانٹ کر پوچھا: یش نرجع ورائ؟ (ہم پیچھے کیوں ہٹیں؟) تو انھوں نے مجھے سعودی سمجھتے ہوئے جواب دیا: فیوف خاص جائو امن بحرین ، (بحرین سے خاص مہمان آئے ہیں)۔ میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اتنے ہی زور سے ڈانٹ کر کہا: احنا کلنا فیوف خاص وھذہ مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم واحنا فیوف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم! ھذہٖ مسجدوموقصر ابوھم (ہم سب خاص مہمان ہیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ یہ مسجد نبوی ؐہے ان کا محل نہیں ہے!)

میرے یہ کہتے ہی ساری سعودی خواتین جو نماز پڑھنے کے لیے بیٹھی تھیں یک زبان ہوکر بول اٹھیں: صحح صحح کلام مضبوط! واللّٰہِ  کلام مضبوط! اتنی دیر میں اقامت کی آواز بلند ہو گئی اور ہم اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ شرطہ اور شرطیاں وہاں سے چلے گئے۔ لیکن جب ہم نے فرضوں کا سلام پھیرا اور سعودی خواتین نے میرا پاکستانی لباس دیکھا تو حیران ہوکر پوچھا: واللّٰہِ  انت پاکستانیہ؟ من این تعلمت عربی؟ تو میں نے اماں جان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ من امّی وا بی۔ ان خواتین نے یہ سن کر اماں جان کے ہاتھ چوم لیے۔ عید کی نماز پڑھ کر ہم جدہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ واپس آکر میں نے اماں جان سے پوچھا کہ آپ اپنی مدینے کی عبادت سے خوش تو ہیں نا؟ تو بس ٹھنڈا سانس بھر کر اتنا ہی کہا  ع

روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شُد!

ان کی خواہش تھی کہ مکے میں بھی اسی طرح ایک دو ہفتہ رہ کر عبادت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر حافظ عبدالحق صاحب کی بیگم فرحانہ بہن سے بات کی۔ مکے میں ان کی رشتے داریاں اور تعلقات ہیں۔ انھوں نے انتظام کر دیا اور خود ان کے ساتھ دو ہفتے رہیں۔ اماں جان کی عادت تھی کہ وہ کئی بار بات کا جواب شعر میں دیتی تھیں۔ جب مکّے سے واپس آئیں تو میں نے پوچھا کہ آپ کی وہاں عبادت کیسی رہی؟ جواب ملا:

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر محفل بود شب جائے کہ من بودم

محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس جواب پر یقینا امیرخسرو کی روح بھی وجد میں آگئی ہوگی کہ اماں جان کی طرف سے ایک شعر حضرت داغ دہلوی کا عنایت ہوا     ؎

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے

پھر مسکرا کر کہنے لگیں:’’حضرت داغ کے اس شعر کا اصل مطلب تو حرم شریف میں جاکر کھلا‘ جب خانۂ کعبہ کی طرف دیکھتی تھی تو لوگ پروانہ وار طواف کر رہے ہوتے تھے اور انھیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا۔ جب صفا و مروہ کی طرف دیکھتی تھی تو سعی کرنے والے دیوانہ وار سعی کررہے ہوتے تھے اور پھر جب حرم شریف سے واپس اپنے فلیٹ کی طرف آرہی ہوتی تھی تو دکانوں میں خریداروں کا رش ہوتا تھا۔ وہاں بھی پروانے دیوانہ وار سونا‘کپڑا‘ ٹرانسسٹر‘ گھڑیاں خریدنے کے لیے چکر لگا رہے ہوتے تھے۔ طالبانِ آخرت تو اپنی طلب میں دیوانے ہوکر پروانہ وار طواف و سعی کر رہے ہوتے تھے اور طالبانِ دنیا کو ان کی طلب پاگل کیے دیتی تھی!‘‘

جب پاکستان میں ان کے چھوٹے بچوں اسما‘ خالد اور عائشہ نے بہت اصرار کیا تو وہ واپس لاہور آگئیں‘ لیکن اُن دنوں کو کبھی نہ بھولیں جو انھوں نے مکے اور مدینے میں گزارے تھے۔ آخری عمر میں ہر وقت اباجان کو یاد کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ سخت گرمی تھی اور حبس تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی اور دیر تک نہ آئی۔ اماں جان چونکہ دمے کی مریضہ تھیں ‘اس لیے گرمی اور حبس سے ان کا برا حال ہوگیا۔ بجلی تھی کہ کسی طرح آتی نہ تھی‘ اسی حالت میں ذرا سی آنکھ لگ گئی۔ جب بیدار ہوئیں تو کہا: ’’ابھی تمھارے اباجان کی آواز آئی ہے کہ تم وہاں گرمی میں کیوں بیٹھی ہو۔ اوپر آجائو نا۔ دیکھو یہاں کیسی اچھی ہوا چل رہی ہے!‘‘ پھر بڑی حسرت سے کہنے لگیں: ’’بھلا میںخود کیسے جا سکتی ہوں؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آنا ہے‘‘۔

جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو چھوٹی بہن اسما انھیں اپنے گھر لے گئی‘ جو اباجان کے گھر کے بالکل ساتھ ہے۔ جب ایک مرتبہ میں گئی تو ملازمہ نے بتایا کہ آج بیگم صاحبہ نہ بات کرتی ہیں اور نہ کچھ کھا رہی ہیں۔ میں نے ان کے پاس جاکر بس اتنا کہا   ع

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

اماں جان نے فوراً کہا:

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے

میں نے کہا: اماں جان کون کہتا ہے کہ آپ بیمار ہیں۔ آپ تو بالکل تندرست ہیں۔ لیجیے کھانا کھا لیجیے۔ وہ پھر دلی کی باتیں کرتی گئیں اور بڑی خوشی سے کھانا کھالیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ بہت بیمار تھیں اور کسی کو پہچان بھی نہیں رہی تھیں۔ بس یہی کہہ رہی تھی کہ کوچہ پنڈت جانا ہے۔ جب میں گئی تو اسما نے پوچھا کہ کوچہ پنڈت کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دہلی کا مشہور محلہ ہے اور کوچہ پنڈت میں ان کا سسرال تھا‘ یعنی اباجان کا گھر تھا۔ اس کے بعد میں نے دہلی کے کئی محلوں کے نام لیے۔ بہت خوش ہوئیں لیکن کھانا کھانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ میں نے پھر بس اتنا کہا   ع

سوداگری نہیں‘ یہ عبادت خدا کی ہے

اماں جان تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی اور ذہن پر زور ڈالتی رہیں اور پھر کہا:

او بے خبر‘ جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

واعظ کمال ترک میں ملتی ہے یاں مراد

دنیا بھی چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

اور پھر میرے ہاتھ سے سوپ پی لیا۔

آخری دنوں میں وہ کسی کو نہیں پہچانتی تھیں۔ ایک دن مغرب کے وقت کہنے لگیں: ’’روزہ کھولو! جلدی کرو مسجد نبوی ؐمیں تراویح پڑھنی ہے‘ آج ختم قرآن ہے‘ جلدی کرو۔ اگلی صف میں جگہ لینی ہے!‘‘ پھر کہنے لگیں: ’’اتنی مشکل سے پہلی صف میں جگہ ملی ہے اب کہتے ہیں پیچھے ہٹو خاص مہمان آئے ہیں۔ یہ رسولؐ اللہ کی مسجد ہے کسی کا محل نہیں‘‘۔ آس پاس سب لوگ حیران تھے کہ اماں جان کیا کہہ رہی ہیں لیکن میں سمجھ گئی کہ ان کی روح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوکر اس وقت مسجدنبویؐ میں موجود ہے اوروہ اس رات کو رمضان المبارک کی ۲۹ویں رات سمجھ رہی ہیں--- یہ آخری بات تھی جو انھوں نے کہی۔ اس کے بعد بالکل خاموش ہوگئیں۔

مجھے اکثر اباجان کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے‘ جو انھوں نے میرے ماموں خواجہ محمدشفیع مرحوم سے کہی تھی۔ اس وقت اماں جان بہت بیمار تھیں اور ماموں ان کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ ابا جان نے کہا:’’جب لوگ نعرے لگاتے ہیں مولانا مودودی زندہ باد! جماعت اسلامی زندہ باد! تو میں اپنے دل میں کہتا ہوں ’’محمودہ بیگم زندہ باد‘‘۔ جب کوئی فوج   فتح مند ہوتی ہے اور اس کے سپہ سالار کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو اس وقت اس گمنام سپاہی کو کوئی یاد نہیں کرتا جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر فتح کو ممکن بنایا ہوتا ہے۔ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں میں کسی کی بے نفسی‘ خودداری‘ وفاداری‘ دلداری اور اپنی ذات کی نفی کس کو یاد رہتی ہے‘‘۔

ان کی یہ ادا مجھے کبھی نہیںبھولتی کہ انھوں نے اپنے عظیم شوہر کے عظیم نام کو کبھی     ’جنس بازار‘ نہیں بنایا۔ اباجان کے انتقال کے بعد جنرل ضیا الحق صاحب نے اماں جان کو سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن بننے کی پیش کش کی۔ اس مقصد کے لیے پہلے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو اور بعد میں آپا نثار فاطمہ کو بھیجا۔ اماں جان نے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو تو پیار سے ٹال دیا‘ لیکن جب آپا نثار فاطمہ آئیں تو انھیں اپنا وہی پسندیدہ شعر سنایا جو میں اوپر لکھ چکی ہوں:’’سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے‘‘۔ یہ قرآن و حدیث کا علم دنیا کمانے اور دنیاوی عہدے حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو آخرت کمانے کا ذریعہ ہے‘‘۔ پھر کہا:’’میں اپنے خاوند کے نام اور کام کو  کیش کرانے کے لیے وہاں نہیں جا سکتی۔ لوگ اپنے اور اپنی اولاد کی دنیا بنانے کے لیے جیتے ہیں لیکن مولانا نہ اپنے لیے اور نہ اپنی اولاد کے لیے جیئے۔ وہ تو بس اللہ تعالیٰ کے دین کی    سربلندی اور خدمت کے لیے جیتے تھے! ایسے نیک نفس شوہر کے نام کو میں ’جنس بازار‘ نہیں بناسکتی۔ اماں جان کے انکار کے بعد ضیاء الحق صاحب نے یہی عہدہ محترمہ نورجہاں پانیزئی کو پیش کیا تھا جو انھوں نے منظور کر لیا۔

روایت ہے کہ مولانا رومؒ کے مرض الموت میں ایک عالمِ دین ان کی عیادت کو آئے اور کہنے لگے کہ فکر نہ کیجیے‘ ان شاء اللہ شفا ہوگی! مولانا رومؒ نے جواب دیا: ’’اب شفا آپ کو مبارک ہو‘ بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ پھر نور نور میں شامل ہو جائے گا اور مٹی مٹی میں چلی جائے گی‘‘۔

اباجان نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو رحلت فرمائی اور اماں جان ۴؍اپریل ۲۰۰۳ء کو بروز جمعہ رات ۸ بج کر ۲۰ منٹ پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں اور اگلے دن بروز ہفتہ سوا گیارہ بجے مٹی میں جاملیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ میں ان کے پسندیدہ شعر پر یہ سرگزشت ختم کرتی ہوں     ؎

سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوچکے

بار امانت غم ہستی اتار کے

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی سے آپ ابتدائی طور پر کیسے متعارف ہوئے؟

l ]قیام پاکستان سے قبل[ میں جمعیت علماے ہند کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی جا رہا تھا‘ کہ مجھے مولانا مودودی کی طرف سے ارسال کردہ کتاب  مسلمان اور موجو دہ سیاسی کش مکش کے دو حصے موصول ہوئے۔ میں نے اس وقت یہ سمجھا کہ جس طرح    غلام احمد پرویز ایک اچھا لکھنے والا سرکاری آدمی ہے‘ اسی طرح یہ بھی اچھا لکھنے والا کوئی سرکاری آدمی ہو گا۔ اس لیے میں نے اس وقت تو یہ کتابیں نہ پڑھیں‘ البتہ اپنے ساتھ لے گیا۔ واپسی پر جب میں بٹھنڈہ لائن دہلی سے آیا تو راستے میں انھیں پڑھا۔ ان کتابوں نے کانگریس سے میرا دل کھٹا کر دیا۔

ایک بار جواہر لال نہرو یہاں گوجرانوالہ بڑے ریلوے اسٹیشن پر تقریر کے لیے آئے۔  میں اور میرے دوست مولانا محمد اسماعیل سلفی (ہم دونوں اس وقت کانگریسی تھے) تقریر سننے      جا رہے تھے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے تذکرے پر مولانا محمد اسماعیل صاحب فرمانے     لگے: ’’مودودی نے کانگریس سے ہمارا وضو تو توڑ دیا ہے‘ لیکن ابھی میں کانگریس کے ساتھ ہوں علٰی علاتہ (خرابیوں کے باوجود)‘‘۔

اس کے بعد جب ڈیرہ غازی خان میں قادیانیوں کے خلاف ایک مقدمے میں مسلمانوں کی طرف سے احمد خان پتافی مرحوم مقدمے کی پیروی کر رہے تھے‘ تو میں نے وہاں احمد خان پتافی مرحوم کے پاس رسالہ ترجمان القرآن دیکھا۔ اسے میں نے پڑھا تو محسوس کیا کہ یہ تو اچھا بھلا دین دار آدمی ہے۔ یہ رسالہ مجھے بہت پسند آیا۔

چنانچہ میں نے گوجرانوالہ آکر مولانا مودودی کو لکھا کہ آپ کے پاس ترجمان القرآن کے سابقہ جتنے شمارے ہیں‘ مجھے بھیج دیں۔ انھوں نے جلد آٹھ سے لے کر مابعد تک تمام شمارے مجھے بھیج دیے۔ اس سے قبل کے شمارے ان کے پاس بھی نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے اس سے پہلے کے شمارے چودھری علی احمد مرحوم کے ہاں دیکھے۔ ان رسالوں کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ ایک صاحبِ ایمان‘ صاحبِ بصیرت اور صاحبِ عزیمت انسان ہے۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا مودودی نے پاکستان کے دورے شروع کیے تو میں نے منڈھیالہ وڑائچ (نزد گوجرانوالہ شہر) میں مولوی نور حسین کے ہاں قیام کیا۔ وہاںخواب میں دیکھتا ہوں کہ: مودودی صاحب کی داڑھی سرخ ہے۔ وہی کھلا سا پاجامہ پہنا ہوا ہے۔ سر پر سفید ٹوپی ہے اور تغاری اٹھائے غریب اکیلا ہی شاہی مسجد کی مرمت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس خواب کے بعد مجھے مولانا سے ایک محبت اور عقیدت سی ہو گئی۔

مولانا سے آپ کی سب سے پہلے ملاقات کہاں ہوئی؟

  • لاہور میں ہوئی۔ جب میں اور مولانا عبدالکریم مظفر گڑھی جو گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے‘ مولانا سے ملاقات کے لیے گئے۔ اس وقت مولانا مودودی پونچھ روڈ پر رہتے تھے۔ اس ملاقات میں زیادہ باتیں کرنے والے مولانا عبدالکریم ہی تھے۔

کسی ملاقات میں بتایا  کہ آپ کا مولانا سے رابطہ کیسے ہوا؟

  • نہیں۔ یہ ذکر نہیں کیا‘ البتہ گذشتہ سال (۱۹۷۵ئ) میں نے مولانا سے اس خواب کا ذکر کیا جو ۱۹۴۸ء میں دیکھا تو وہ کہنے لگے: ’’اچھا ،تو۲۷ سال تک آپ نے اس کو دبائے رکھا‘‘۔

مولانا کی مختلف تحریروں پر جب اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران میں جب کہیں چھوٹے بڑے سفر پر جاتا تو مولانا کی کتب کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اس پر بعض لوگ مجھے کہتے کہ یہ کتابیں ساتھ کیوں اٹھائے رکھتے ہو؟ میں کہتا: ’’میں اسے ایک مظلوم انسان سمجھتا ہوں اور اس کی حمایت کے لیے چل رہا ہوں‘‘۔

چار سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے مولانا سے کہا: ’’بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو مولانا کی مدافعت کرتا ہے‘ حالانکہ مولانا کہتے ہیں کہ میری مدافعت کوئی نہ کرے۔ میں (اپنی مدافعت) خود ہی کروں گا۔ میں انھیں جواب دیا کرتا ہوں کہ مولانا میرے امام نہیں ہیں‘ نہ وہ میرے مقتدی ہیں۔ پھر میں جماعت اسلامی کا باقاعدہ متفق نہیں ہوں اور نہ رکن‘ تاہم مولانا مودودی میرے دوست ہیں اور میں انھیں مظلوم سمجھتے ہوئے ان کی مدافعت کرتا ہوں‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ ہمارے کوئی رکن وغیرہ تو نہیں ہیں‘‘۔

ایک بار وہ اپنے دورے کے دوران یہاں جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) میں آئے اور تقریر کی۔ ان دنوں یہاں (گوجوانوالہ) میں ایک کشمیری ہوا کرتا تھا۔ وہ مولانا سے کہنے لگا: ’’آپ انھیں اپنا ممبر کیوں نہیں بناتے‘‘؟ تو مولانا کہنے لگے: ’’میں کسی کو نہیں کہتا کہ وہ ضرور ممبر بنے‘ حتیٰ کہ میں نے تو اپنی بیوی کو بھی نہیں کہا کہ وہ لازماً رکن بنے‘‘۔

مولانا کی مدافعت میں اپنے اساتذہ سے اختلاف تو نہیں ہوا؟

  • حضرت مولانا اعزاز علی صاحب کو کچھ اختلاف تھا‘ چنانچہ میں نے انھیں لکھا کہ: ’’ان الزامات اور اعتراضات کے حوالے سے جو کچھ ان کی طرف نسبتیں کی جاتی ہیں وہ غلط ہیں‘‘۔

انّہی والے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ولی اﷲ رحمۃ اﷲ کو مولوی غلام اﷲ صاحب وغیرہ ابھارتے رہتے‘ لیکن وہ کسی کی باتوں میں نہیں آتے تھے‘ بلکہ وہ میری تائید بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبداﷲ صاحب رحمۃ اﷲ ضلع گجرات والے میرے استاذ تو نہیں البتہ بزرگ تھے۔ وہ بڑے عالم اور ہر فن مولا تھے‘ علم الافلاک‘ علم المیراث‘ اور علم عروض میں انھیں خصوصی درک تھا۔ انھوں نے علم عروض میں ایک دو ورقہ بنایا ہوا تھا۔ مفتی خلیل احمد صاحب‘ چونترہ (ضلع جہلم) والے جب ہمارے پاس [مدرسہ عربیہ میں] ہوتے تو ہم انھیں یہاں بلایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ جہلم گئے تو میں نے انھیں بتایا کہ دیکھیں لوگ مولانا مودودی کے ذمے کیا کیا لگا رہے ہیں؟ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ کسی موقع پر مفتی محمد حسن مرحوم و مغفور ]بانی جامعہ اشرفیہ[ کے پاس چلیں گے اور ان سے بات کریں گے۔ مگر یہ موقع نہ مل سکا۔

اس سلسلے میں کسی بڑے عالم سے خط و کتابت بھی ہوئی؟

  • مجھے کوئی زیادہ تفصیل یاد نہیں البتہ مختلف علما کو خط ضرور لکھتا رہا ہوں۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی طرف خط لکھا‘ اپنے استاد مولانا اعزاز علی کی طرف خط لکھا‘ قاری محمد طیب صاحب کو دو خط لکھے‘ ان میں سے کسی سے بالمشافہہ بات نہیں ہوئی۔ بالمشافہہ باتیں صرف ان سے ہوئی تھیں جو مجھ سے چھوٹے ہی تھے‘ بڑے نہیں تھے۔

کراچی میں کاکاخیل کے مولانا عزیز گل جو حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ علیہ کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے‘ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس وقت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے مدرسے میں مدرس تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی‘ مگر اس دوران مولانا بنوری خاموش بیٹھے رہے۔ کسی بات پر ہاں یا نہ نہیں کی۔

آپ نے مولانا مودودی کی اکثر کتب کا مطالعہ کیا ہے یا -----؟

  • قریباً قریباً ساری کتابوں کا (مطالعہ) کیا ہے‘ کیونکہ اکثر کتابیں ترجمان القرآن سے ہو کر آئی ہیں اور میں نے ترجمان القرآن کے سارے شمارے دیکھے ہیں۔ البتہ الجہاد فی الاسلام علیحدہ چھپی ہے‘ وہ میں نے علیحدہ دیکھی ہوئی ہے۔

بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ مولانا جمہور کی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ کیا یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے؟

  • نہیں! یہ بات غلط ہے‘ جمہور کی راہ سے وہ بالکل ہٹے ہوئے نہیں‘ بلکہ جمہور کی رائے کے ہی پابند ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی وقت ایسا قول آ جائے جو اکثر کے خلاف سا ہو۔ لیکن سلف کے اقوال سے باہر نہیں اور وہ بھی بس دو چار قول ہوں گے۔

بعض لوگوں نے اعتراض کیا  تفہیم القرآن میں مولانا نے لکھا ہے کہ طلوع فجر ہوجائے تب بھی بیشک کھا پی لو۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص کے اسی طرح کے اقوال ہیں۔ ابوبکر اعمش کا قول بھی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی نے کافی قول نقل کیے ہیں۔ میں نے اپنی کاپی میں کافی اقوال نقل کیے ہیں۔ حتیٰ کہ امام ترمذی باب باندھتے ہیں  باب ماجاء فی بیان الفجر الحمر اور فجر احمر کی روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ علیہ عامۃ اہل العلم (اکثر اہل علم کا یہی خیال ہے)۔ پھر نسائی میں غالباً حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ کی روایت اس کی تائید میں ہے اور ابوالمنذر بیان کرتے ہیں کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: صبح وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھی ہوئی ہے‘ بلکہ صبح وہ ہے جو درختوں اور مکانوں پر نظر آتی ہے۔ اس طرح میں نے اپنی کاپی میں دیگر بہت سے اہل علم کے اقوال جمع کیے ہیں۔ لیکن لوگ مولانا مودودی کی رائے کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ بالکل خلاف شرع ہے۔ غالباً ۱۹۳۶ء کی بات ہے جب کلکتہ میں فسادات شروع ہوئے‘ میں مولانا عبدالعلیم‘ عبدالحلیم وغیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا۔ حافظ خلیل احمد صاحب جو‘ انگہ (ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے‘ میرے دوست تھے اور ان کے بھائی حافظ اسماعیل میرے شاگرد تھے۔ انھوں نے سحری پر میری دعوت کی۔ کھانے پر میرے علاوہ حافظ خلیل‘ حافظ اسماعیل اور مولانا عبدالحلیم بھی تھے ]گاؤں کی کھلی فضا میں افق نظر آ رہا تھا[۔ میں نے کہا بتاؤ‘ کیا صبح صادق ہو گئی ہے اور ہمیں کھانا بند کر دینا چاہیے یا نہیں ]ہم چاروں‘ طبقہ علما میں سے تھے‘ لیکن[ اس سلسلے میں دو قول ہو گئے۔ دو ایک طرف اور دو دوسری طرف۔ دو کہہ رہے تھے صبح صادق ہوگئی ہے‘ دو کہہ رہے تھے‘ نہیں -- میں نے کہا ایسی چیز جس میں علما اختلاف کر رہے ہیں‘ عوام الناس کو اس کا پابند کرنا کیا آسان ہے؟

اعتراض کرنے والے بعض لوگ عجیب اعتراض کرتے ہیں۔ ایک حافظ صاحب (مرحوم) میرے دوست لاہور چھاؤنی میں خطیب تھے‘ کہنے لگے: ’’یہ ابوالاعلیٰ تو خدا کا باپ بن گیا نا    (نعوذ باﷲ)‘کیونکہ الاعلیٰ تو خدا کو کہتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’حافظ صاحب آپ کا سوال واقعی بڑا اعلیٰ ہے اور اس کا جواب بھی اعلیٰ ہونا چاہیے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ سوال و جواب دونوں خدا ہیں‘‘۔

ایک مولانا صاحب نے اعتراض کیا کہ: انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا ہے کہ قرآن کا مصنف یوں کہتا ہے‘ گویا انھوں نے خدا کو مصنف لکھا ہے‘ اس طرح تو خدا حادث ہو جاتا ہے -- اب یہ بھی کوئی باتیں ہیں۔

حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا: ’’وہ اپنے پیشروؤں کی جمیع صفات کے حامل نہیں تھے --- مگر انھوں نے سر دے دیا‘‘۔اب بعض نسخوں میں غلطی سے لفظ جمیع نہ چھپ سکا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا: ’’یہ  دیکھیں‘ کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں تھے‘‘۔ میں ان سے کہتا: ’’خدا کے بندو آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ اول ابوبکر صدیق‘ پھر فاروق اعظم‘ پھر عثمان غنی‘ اور پھر علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنھم اور وہ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کے اندر اپنے پیشروؤں کی تمام صفات نہیں پائی جاتی تھیں‘‘۔

ایک دفعہ جب وہ تفسیر لکھ رہے تھے‘ انھوں نے متعہ کے بارے میں یہ لکھا کہ متعہ کے جواز کے بارے میں فلاں فلاں کا یہ مسلک تھا۔ ان دنوں کراچی میں علما کا ایک اجلاس تھا۔ وہاں شاید مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے اس پر اعتراض کیا۔ میں نے کہا: جی‘ کیا آپ کی کتابوں میں مختلف مسائل کے بارے میں مختلف علما کے اقوال درج نہیں ہوتے؟ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ ان اقوال کے قائل ہیں۔ پھر آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ یہ اس کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ خود اس کے قائل ہیں‘ تاہم مولانا نے یہ مضمون درمیان سے نکال ہی دیا۔

تفہیم القرآن میں کیا کوئی بات جمہور علما کی تفاسیر کے خلاف تو نہیں؟

  • مجھے کوئی ایسی چیز یاد نہیں جو جمہور علما کے خلاف ہو۔

بڑے بڑے علما میں سے کون ان کا حامی یا ہم خیال رہے ہیں؟

  • مولانا عبدالرحیم اشرف نے ایک کتاب لکھی ہے: کیا جماعت اسلامی حق پر ہے؟ اس میں کافی علما کے نام اور اقوال درج ہیں۔

مفتی محمد شفیع صاحب کا اختلاف تو علمی حد تک ہے!

  • ہاں‘ ان کا اختلاف علمی حد تک ہے۔ مگر انھیں (مولانا مودودی کو)  مُوھّنِ (توہین کرنے والے) صحابہ سمجھ لینا غلط ہے۔ انھوں نے توہین صحابہ کوئی نہیں کی۔ صحابہ کو ہم میںسے  کوئی بھی معصوم نہیں کہتا۔ بعض صحابہؓ سے غلطیاں ہوئی ہیں‘ مثلاً حضرت ماعز رضی اﷲ عنہ سے زنا کا گناہ سرزد ہوا۔ امرأۃ غامدیہؓ سے گناہ سرزد ہوا۔ ایک اور صحابی شراب میں ماخوذ ہوئے۔ لیکن پھر بھی وہ دنیا کے بہترین انسان تھے۔

مخالفین ظلم یہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی ایک صحابی کے متعلق کوئی بات کہتے ہیں‘ تو وہ سب پر ٹھونس دیتے ہیں کہ صحابہ کو یہ کہا گیا‘ یہ کہا گیا۔

پھر میں نے ۴۱ ایسے اقوال اور حوالے جمع کیے تھے‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا مودودی پر اعتراض کے لیے جن اقوال کو بنیاد بنایا گیا ہے‘ وہ سرے سے ہی غلط ہیں اور مولانا مودودی کی طرف ان کی نسبت درست نہیں۔ میں نے یہ مواد چودھری محمد اسلم (سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ) کو دیا تھا کہ وہ اس کو مرتب کر کے شائع کریں۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا کو رجوع کرنے کی عادت نہیں۔ انھوں نے جو تحریر کر دیا‘ اس پر چاہے کوئی دلیل دے انھوں نے مانا نہیں؟

  • یہ بھی سراسر غلط بات ہے ‘ آپ (محمد عارف) نے تو میرے نام خطوط دیکھے ہوں گے۔ ایک خط میں لکھا ہوا ہے کہ آپ (مولانا محمد چراغ) نے مجھے لکھا تھا کہ جیّدھا و ردیّھا سواء ]یعنی ہم جنس اشیا کے تبادلے میں وصف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور آپس میں تبادلے کے وقت ان کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہو گا‘ تفاضل حرام ہو گا[‘ اور میں نے یہ لکھا تھا کہ وصف کا اعتبار کیا جائے گا۔ لیکن جیل میں جا کر میں نے مزید دیکھا تو مجھے روایات میں مل گیا کہ  جید ھا وردیہا سوائ، اس لیے اب میں ]آپ کے مؤقف کا[ قائل ہوں۔ اور بھی خطوط ہیں‘ جن میں انھوں نے میرے مؤاخذے کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے یہ بات تو غلط ہے کہ وہ رجوع نہیں کرتے۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں اچھا بھلا سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں۔

حنفی مسلک کے بارے میں مولانا کا کیا خیال ہے؟

  • انھوں نے ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ میں حنفی ہوں‘ لیکن اگر مجھے کوئی دوسرا قول (زیادہ اقرب الی السنۃ) نظر آئے تو میں امام صاحب کے قول سے ہٹ بھی جاتا ہوں۔ میں حنفی اور میرا امام باقی ائمہ سے--- (امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں بہترین تحسین کے الفاظ ہیں)۔

سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب (مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ) کے دروس اور تقریروں سے میرا (مولانا محمد چراغ) کا ذہن بنا کہ سارے ائمہ ٹھیک ہیں۔ وہ بھی حق پر ہیں ہم بھی حق پر ہیں۔ اس کے بعد شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کی کتب دیکھیں تو ذہن میں مزید وسعت پیدا ہوئی‘ کہ شاہ صاحب نے حنفی ہونے کے باوجود بعض مقامات پر حنفیہ کے مؤقف سے اختلاف کیا ہے۔ پھر سید صاحب (مولانا مودودی) کی کتب سے مزید وسعت پیدا ہوئی۔ اب میرا یہ خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح خیال ہے کہ ائمہ کے اختلافات کے سلسلے میں اگر کوئی آدمی اپنے امام کو چھوڑ کر دوسرے امام کی طرف جائے (بشرطیکہ محض سہولتوں کی طلب اور خواہش پرستی نہ ہو) تو اﷲ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کا قول حجۃ اﷲ البالغہ میں ہے‘  الاصل المرضی (پسندیدہ قول یہ ہے کہ) قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ عقل بھی یہ کہتی ہے کہ آخر یہ سب اﷲ تعالیٰ کے پیارے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے تحت کہتے ہیں۔ ججوں کے اختلاف پر کوئی حکومت گرفت نہیں کرتی‘ یا کوئی مقدمے میں کسی جج کے فیصلے کی پابندی کر رہا ہو تو حکومت اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتی اور گرفت نہیں کرتی۔

مولانا کے خلاف ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے جو ایک عام آدمی کے لیے بھی مناسب نہیں۔ لیکن مولانا نے جواب میں یہ انداز اختیار نہیں کیا؟

  • بالکل نہیں کیا۔ اب دیکھیے مولانا مدنی مرحوم و مغفور تک یہ کہہ گئے یہ ٹٹ پونجیا ہے۔ جب مولانا انگلینڈ گردے کے علاج کے لیے جانا چاہتے تھے‘ اس وقت غالباً رانا اﷲ داد خان صاحب نے مولانا اور ان کے دوست احباب کے اعزاز میں آموں کی دعوت کی۔ عام لوگ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے‘ اور دوسری جگہ ملک نصراﷲ خان عزیز‘ نعیم صدیقی‘ میں اور اس طرح کے دو چار آدمی بیٹھے تھے۔ وہاں مولانا مودودی سے مخاطب ہو کر نعیم صدیقی کہنے لگے: ’’مولانا‘ یہ (رسالہ) … میں تو نہیں پڑھ سکتا‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’آپ نہیں پڑھ سکتے‘ لیکن میں پڑھتا ہوں‘‘۔ یہ وہ ترجمان ہے کہ جس نے ایک دفعہ لکھا کہ ان (مولانا مودودی) کی لڑکی مخلوط تعلیم والے کالج میں جاتی ہے‘ اور مولانا جانگیہ پہن کر ٹینس کھیلتے ہیں‘ اس قسم کی واہیات ]علما کے[ اس رسالے میں ہوتیں۔

میں کہا کرتا ہوں کہ یہ اکیلا شخص ہے‘ جس کی زندگی میں اس کے مداح اور ناقد اس کثرت کے ساتھ ہیں اور زندگی میں اس کی تشہیر ساری دنیا تک ہو گئی ہے۔

مولانا کے ساتھ خصوصی تعلق کے حوالے سے کوئی بات؟

  • جب تفہیم القرآن کی تکمیل کی تقریب ہوئی‘ جس میں اے کے بروہی‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وغیرہ نے بھی تقاریر کیں‘ وہاں روزنامہ وفاق کے نمایندے نے مولانا سے سوال کیا کہ کیا کوئی عالم دین ایسا ہے جس نے آپ کی اس تفسیر کو مکمل پڑھا ہو اور آپ پر تنقید وغیرہ بھی کی ہو‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’صرف مولانا محمد چراغ ہیں جو اس کے بارے میں مجھے لکھتے رہے ہیں‘‘۔یہ میری ان کے ساتھ خاص بات ہوئی۔

بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم مولانا مودودی کے مقلد ہو۔ میں انھیں کہا کرتا ہوں کہ میں مودودی صاحب کا مقلد نہیں ہوں‘ میں نے مولانا مودودی کی کئی تحریروں پر گرفت کی ہے اور کسی کو معلوم کرنا ہو تو اسے مولانا عاصم نعمانی کی مرتب کردہ کتاب  مکاتیب مودودی دیکھنی چاہیے‘ جس میں مولانا کے خطوط ہیں۔

مولانا نے مجھے خط لکھا کہ میری بیٹی اسماء کانکاح آپ پڑھائیں۔ میں نے اس موقعے پر مولانا سے کہا: ’’مولانا‘ اجازت ہے نکاح پڑھانے کی‘‘‘ انھوں نے کہا: ’’اس کے ماموں سے پوچھیں‘‘--- وہ چاہتے تھے کہ نکاح کے رجسٹر میں ان کا نام نہ آئے۔ وہ رسم و رواج کی شرارتوں (اور ایوب دور کے وضع کردہ بعض خلاف شریعت عائلی قوانین) کی وجہ سے ان رجسٹروں میں اپنا نام آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ایک آدمی نے ان سے نکاح پڑھوانے کے لیے کہا‘ تو مولاناکہنے لگے: ’’دستخط نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے کہا جی! آپ بے شک نہ کریں۔

تفہیم القرآن کی ہر جلد مولانا نے یہ لکھ کر مجھے بھیجی کہ وہ مجھے یہ کتاب ہدیۃً بھیج رہے ہیں۔ چنانچہ اب اگر کوئی مجھے کہے کہ آپ یہ عمدہ عمدہ کتابیں لے لیں اور یہ جلدیں مجھے دے دیں‘ تو میں کبھی یہ جلدیں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گا کیونکہ ان پر مولانا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے:      ہدیہ محمدچراغ کی طرف۔

جب پاکستان بنا تو یہاں گوجرانوالہ میں محمد عاصم الحداد‘ مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی پڑھتے تھے۔ اس وقت مولانا مسعود عالم ندوی کا دفتر دارالعروبہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس دفتر میں ایک دفعہ بیٹھے تھے کہ مولانا مودودی کہنے لگے ’’میری بعض کتابیں اور تفاسیر وہیں دارالاسلام (پٹھان کوٹ) میں رہ گئی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: تفسیر روح المعانیتو میرے پاس ہے‘ اگر آپ کو چاہیے تو میں عاریۃً دے سکتا ہوں‘‘۔ چنانچہ مولانا نے روح المعانیمجھ سے لے لی۔

پھر ایک دفعہ میں نے ان کی بعض باتوں سے سمجھا کہ انھیں حضرت اشرف علی تھانوی مرحوم و مغفور کی کتاب تفسیر بیان القرآن کی ضرورت ہے۔ میں نے وہ بھی انھیں بھیج دی۔ سالہا سال تک یہ کتابیں ان کے پاس رہیں۔ میں نے انھیں اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ ان کتابوں کی عبارت پر جہاں چاہیں خط کھینچ سکتے ہیں اور نوٹس لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے روح المعانی کی بہت سی عبارتوں کو زیر خط (under line) کیا ہوا تھا۔ تین چار سال پہلے انھوں نے مجھے کہا: ’’میں آپ کو ملتان کی چھپی ہوئی نئی روح المعانی خرید کر بھیج دیتا ہوں۔ آپ اپنی روح المعانی میرے پاس رہنے دیں کیونکہ میں نے اس کی بعض عبارتوں کو under line کیا ہوا ہے‘ اور بعض نوٹس بھی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’آپ نئی روح المعانی پر بھی اپنے نوٹس اور لکیریں لگا کر بھیج دیں تو ٹھیک ہے‘‘۔ پھر وہ کہنے لگے: ’’اس پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے کہ آپ نے یہ کتاب اتنے کی خریدی ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’میں اس کتاب پر آپ کا نام لکھ دیتا ہوں‘ اور آپ نئی کتاب پر میرا نام لکھ دیں‘‘۔ چنانچہ انھوں نے میرے لیے لکھ دیا کہ میں ہدیہ دے رہا ہوں محمد چراغ کو‘ اور میں نے اس پر لکھ دیا کہ میں یہ ہدیہ مودت مولانا مودودی کو دے رہا ہوں۔

پھر بیان القرآن کے متعلق مجھے لکھنے لگے: ’’ایک یہ رکھی ہے بیان القرآن‘ اور ایک وہ رکھی ہے۔ آپ اپنی دیکھ لیں کون سی ہے‘‘۔ چنانچہ میں اپنی کتاب لے آیا۔

مولانا کے حوالے سے اور کوئی خاص بات؟

  • ہاں‘ نماز میں خشوع و خضوع کے حوالے سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ حج پر جا رہے تھے‘ تو بحری جہاز کا انگریز کپتان ان کی نماز کی کیفیت دیکھ کر کہنے لگا کہ: معلوم ہوتا ہے یہ جس خدا کی نماز پڑھتا ہے وہ عام مسلمانوں کے خدا سے مختلف ہے۔ اس کی نماز سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خدا کوئی بڑا زبردست اور رعب والا ہے کہ یہ اس کے سامنے اتنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔

سید صاحب (مولانا مودودی) اور شاہ صاحب ( مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ) کو میں نے دیکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کی نماز میں انتہائی خشوع و خضوع تھا‘ اور عجز کا کمال نمونہ تھی۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قیام پاکستان سے قبل مظفر گڑھ تشریف لائے تو وہاں ان    سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تھی۔ پھر ۱۹۵۰ء میں اچھرہ (لاہور) میں‘ میں اور آغا شورش کاشمیری ]م: اکتوبر ۱۹۷۵ئ[اکثر ملنے جاتے تھے۔ یوں ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے اکٹھے مل کر ملکی سیاسی جدوجہد میں کام کیا‘ اکٹھے دورے کیے‘ اکٹھے جلسے کیے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران بہت ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت پایا۔ وہ ممتاز عالم دین بھی تھے‘ مفکر بھی تھے اور ان کے اندر اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت بھی تھی۔ قدرت نے انھیں بے شمار صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔

برطانوی استعماری حکومت کے خلاف انھوں نے بہت جدوجہد کی۔ جب برطانوی حکومت مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کے اقدامات کے ذریعے ظلم و ستم کر رہی تھی‘ تو انھوں نے مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل تک آزادی کا پیغام پہنچایا۔ مولانا مودودیؒ نے انتہائی مدلل انداز میں اسلامی نظام حیات پر بحث کی اور لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ انھوں نے اپنی تصانیف میں بڑے مدلل‘ مدبرانہ اور ساینٹی فک انداز سے اسلام کو پیش کیا۔ ایک وقت تھا‘ جب نوجوان نسل الحاد‘ لادینی اور سیکولر تہذیب کے اثرات قبول کر رہی تھی۔ دور دور تک اس طوفان کا کوئی مدمقابل دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس ماحول میں مولانا مودودیؒ نے بڑی جرأت‘ عزم‘ جواں مردی سے ان لادینی قوتوں کا مقابلہ کیا ۔ میرے خیال میں یہ ان کا ناقابلِ فراموش حد تک تاریخی کارنامہ ہے۔

اسلام کی نشات جدید میں علامہ محمد اقبال ؒنے بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایک دفعہ   علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کو دعوت دی گئی۔ علامہ اقبال بیمار تھے‘ اس لیے وہ اجلاس میں نہ جا سکے‘ تاہم انھوں نے ایک قطعہ بھیج دیا     ؎

یقیں‘ مثلِ خلیل آتش نشینی

یقیں اﷲ مستی‘ خود گزینی

سن‘ اے تہذیب حاضر کے گرفتار

غلامی سے بتر ہے بے یقینی

اور علامہ نے مولانا مودودی سے کہا کہ وہ اس اجلاس میں جائیں۔ مولانا کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ تھا۔

دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد سیفٹی ایکٹ اور اظہار رائے پر پابندی کے خلاف مولانا مودودی نے تاریخی جدوجہد کی اور قید و بند کے مرحلوں سے گزرے۔ انھوں نے برملا کہا کہ اظہار رائے ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے‘ جو ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے حکومت وقت کی مخالفت بھی مول لی اور کسی بھی چیز کی پروا تک نہ کی۔ مولانا مودودیؒ نے علما کے ۲۲ نکات پر مشتمل دستاویز بنیادی طور پر خود مرتب کی۔ اس ضمن میں مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم نے جو تفصیلات بتائیں‘ وہ مولانا مودودی کی دُوراندیشی دین سے محبت کی دلیل ہیں۔ ان کی یہ ایک ایسی بے مثال خدمت ہے‘ افسوس کہ جسے خود دینی حلقوں میں بھی محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر سراہا نہیں جاتا۔ اس سے قبل قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم و مغفور کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے جو خدمت سرانجام دی‘ میرے نزدیک ان کے تمام کارناموں سے بڑھ کر یہ اعلیٰ ترین کارنامہ ہے۔ انھوں نے قرارداد مقاصد میں اﷲ کی اصل حاکمیت کا تصور دیا۔عوام کو بنیادی حقوق اور عدلِ اجتماعی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ قرارداد مقاصد آج بھی ہمارے آئین کا حصہ ہے اور اسلامی علم سیاسیات و اجتماعیات کی نہایت اہم دستاویز۔

۱۹۵۳ء کی تحریک تحفظ ختم نبوتؐ میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں انھیں پھانسی کی سزا ہوئی‘ لیکن ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی پھانسی کی سزا سن کر بھی جس حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ کسی اور میں نہیں پایا جاتا۔ وہ ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و سلم کے سلسلے میں اپنی پھانسی کی سزا کو بہت کم سزا سمجھتے تھے‘ اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پھانسی کی سزا کے حوالے سے کسی اپیل کو مناسب نہیں سمجھا‘ اور کہتے تھے کہ میری اپیل اﷲ سے ہے اور اگر اﷲ نے میری موت لکھ دی ہے تو اسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔

اﷲ پر توکل اور شجاعت و عزیمت کا ایک بے مثال واقعہ وہ بھی ہے کہ جب ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع پر سرکاری غنڈوں نے فائرنگ کی‘ اور اس فائرنگ کے نتیجے میں جماعت کا ایک رکن بھی شہید ہو گیا۔ ان برستی گولیوں میں لوگوں نے مولانا سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں‘ فائرنگ ہو رہی ہے‘ گولی نہ لگ جائے۔ اس موقع پر مولانا مودودی ؒنے ایک تاریخی جملہ بولا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔

۱۹۶۲ء میں آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف اور ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف ہم نے جدوجہد شروع کی۔ آمرمطلق فیلڈمارشل ایوب خان کے ’بیسک ڈیموکریسی سسٹم‘ اور اس کے نام نہاد ریفرنڈم کے خلاف بھی بہت کام کیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس جمہوری جدوجہد کے دوران مشرقی پاکستان میں ’’نو قائدین کا بیان‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس میں نو پارٹیوں کے قائدین نے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بڑا خوش آئند اعلان تھا۔

میں نے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کر کے تجویز پیش کی کہ یہ تحریک مشرقی پاکستان میں علیحدہ چل رہی ہے اور مغربی پاکستان میں الگ‘ اگر ہم مل کر دونوں کو اکٹھا کر کے چلائیں تو حکومت پر زیادہ دباؤ پڑے گا‘ اور ویسے بھی اتنی بڑی تحریک کو اکٹھا کرنے میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔  چنانچہ مولانا نے مجھے مشرقی پاکستان روانہ کیا‘ وہاں میں ان نو قائدین سے ملا‘ انھیں مغربی پاکستان کے دورہ جات پر آمادہ کیا اور پیش آمدہ آئینی مسائل کے بارے میں ایک قومی سوچ سامنے لانے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے فوائد اجاگر کیے۔ بہرحال حسین شہید سہروردی جیل سے رہا ہو گئے تو وہ نورہنمائوں کو ساتھ لے کر لاہورآئے۔ یہاں بڑے بڑے جلسے کیے گئے‘ جن سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنما خطاب کرتے تھے۔ لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ بعد ازاں ہماری ملاقاتیں بیرسٹر محمود علی قصوری مرحوم کے گھر ہوتی رہیں۔ ان چند ملاقاتوں میں مولانا مودودیؒ بھی شریک رہے اور مکالمے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب ہم لوگ کراچی میں اکٹھے ہوئے۔ میں نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کروائی‘ جس پر ہمارے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیا گیا۔ اس مقدمے میں میاں طفیل محمد‘ محمود علی قصوری‘ مولانا عبدالستار خان نیازی وغیرہ بھی تھے۔ ہمیں ملتان جیل میں بند رکھا گیا۔

مولانا مودودی نے ان معاملات میں ہماری مکمل رہنمائی کی اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی۔ مولانا مودودیؒ اور میں‘ ایوب خان کے مارشل لا سے قبل کشمیر کمیٹی میں مشترکہ طور پر جدوجہد کرتے رہے۔ کشمیر کے مسئلے پر مولانا کا مؤقف ہمیشہ دو ٹوک اور اصولی رہا۔ مولانا مودودی ڈائیلاگ کے ذریعے اپنا مؤقف بڑے احسن انداز سے پیش کرتے تھے۔

اﷲ نے انھیں جہاں تحریری صلاحیت سے مالا مال کیا تھا‘ وہاں انھیں تقریری صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ اگر وہ لکھتے تو دلائل کے ساتھ لکھتے اور بولتے تو دلائل کے ساتھ بولتے۔ ان کی بات کو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ بڑے نازک ادوار میں مل کر اکٹھے کام کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے جتنی سیاسی بصیرت ان کے اندر دیکھی اپنے کسی دوسرے سیاسی حلیف میں نہیں پائی۔

میری یادداشت میں مولانا کی بے شمار یادیں ہیں۔ ۱۹۶۲ء کے آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف جدوجہد میں ان کا مثالی کردار ہے۔ اس تاریخ ساز جدوجہد میں ڈیمو کریٹک فرنٹ‘ سی او پی ]کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز[ اور پی ڈی ایم ]پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ[ اور ڈی اے سی ]ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی[ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد میں‘ مجھے ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ پھر ایوب خان مرحوم کی گول میز کانفرنس میں شرکت وغیرہ ایسے مواقع ہیں‘ جب میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ وہ بڑے دل جگرے والے انسان‘ منطقی ذہن اور دُوراندیش شخصیت کے مالک تھے۔ لاریب‘ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے علمی کارنامے اور دینی خدمات پر دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ان کی ہمہ پہلو زندگی میں باقی تمام خوبیوں کے ساتھ سیاسی بصیرت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔

ہر فرد کی شخصیت مختلف عناصر اور اجزا سے مل کر بنتی ہے۔ ان میں سے بعض اجزا اور عناصر‘ پیدایشی یا وہبی ہوتے ہیں اور بعض انسان خود اپنی محنت‘ جستجو اور تگ و دو سے خود اپنی ذات میں پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ماحول اور معاشرے میں پائے جانے والے حالات اور واقعات بھی اس کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں‘ کیونکہ انسان اپنے ماحول‘ معاشرے اور ملک کے حالات سے آزاد یا لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے شخصی اجزاے ترکیبی کا جائزہ لیں گے۔

  • فکر معاش سے آزادی: ہم ان کے بچپن پر نظر دوڑائیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بچپن ہی سے سید مودودیؒ کے لیے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان کے ساتھ فکر معاش لگا دی۔ مگر اﷲ کے اس بندے نے معاش اور فکر معاش کو اپنی تگ و دو کا کبھی محور نہیں بنایا۔ چنانچہ ان کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودیؒ فرماتے ہیں: مولوی کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد ابوالاعلیٰ کو مولوی عالم میں داخل کرنے کے لیے دارالعلوم حیدر آباد (دکن) بھیج دیا گیا۔ ۱۹۱۵ء میں والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا۔ ابوالاعلیٰ کو تعلیم چھوڑ کر فوراً بھوپال آنا پڑا۔ اس وقت ابوالاعلیٰ کی عمر ۱۲سال تھی اور میری۱۵۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۲۴۱)

فالج کے اسی مرض میں ان کے والد سید احمد حسن صاحب کے انتقال کے بعد ابوالاعلیٰ کو فکرمعاش اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ایسے میں یہ ۱۵ سال یا ۱۷ سال کا لڑکا اپنے بڑے بھائی ابوالخیر کے ساتھ بجنور کا رخ کرتا ہے‘ جہاں یہ دونوں بھائی ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ اخبار مدینہ‘ بجنور میں نہیں  نباہ سکے(ایضًا‘ ص ۱۲۶-۱۲۷)۔ یہ شاید ۱۹۱۸ء کی بات ہے(ایضًا‘ ص ۱۲۷)۔ غالباً ۱۹۱۹ء میں جب پہلی بار تاج الدین صاحب نے جبل پور سے تاج (ہفتہ وار) جاری کیا‘ اس کی ادارت کی   ذمہ داری بقول ابوالاعلیٰ: ’’ہم دونوں بھائیوں کے سپرد کی۔ چند مہینے سے زیادہ تاج نہ نکل سکا اور ہم جبل پور سے بھوپال اور بھوپال سے دہلی چلے گئے۔۱۹۲۰ئ-۱۹۲۴ء میں تاج الدین صاحب نے جبل پور سے پھر تاج نکالا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے --- مگر جبل پور کی زندگی بھی زیادہ مدت تک جاری نہ رہ سکی‘‘۔ یہ کل مدت ۱۹۱۸ء - ۱۹۲۰ء تک دو سال ہوتی ہے اور: ’’۱۹۲۰ء کے خاتمے پر میں دہلی واپس ہوا اور ۱۹۲۱ء کا ابتدائی زمانہ تھا جب میری ملاقات مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب صدر و ناظم جمعیت علماے ہند سے ہوئی۔ اسی سال انھوں نے جمعیت علماے ہند کی طرف سے اخبارمسلم نکالا اور مجھے اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ یہ اخبار ۱۹۲۳ء تک جاری رہا اور آخر تک میں اس کا ایڈیٹر رہا‘‘(ایضًا‘ ص ۱۲۸)۔ خیال رہے کہ مسلمیکم نومبر ۱۹۲۱ء سے شروع ہوا اور اس نے ۸ اپریل ۱۹۲۳ء کو دم توڑ دیا۔ اس طرح اس کی عمر ایک سال پانچ ماہ ۸۰ دن بنتی ہے۔ یہ گویا مولانا مودودیؒ کے مسلسل کمانے کا پہلا موقع ہے۔ اس سے پہلے خدا معلوم کیسے گزارا کیا‘ کچھ پتا نہیں۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھوپال اور دہلی میں موجود اہل خانہ کی اس عرصے میں ان کو مدد رہی ہو گی۔

دونوں بھائیوں نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں اپنی خانہ بدوشی اور مالی پریشانیوں کی طرف دور یا قریب سے اشارہ تک نہیں کیا۔ مولانا مودودیؒ اپنی فکر معاش کے ساتھ ۱۸  اپریل ۱۹۲۳ء سے ۱۴ جون ۱۹۲۵ء (یعنی دو سال ایک ماہ ۲۷ دن) تک کس طرح وقت گزارتے ہیں‘ معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ پھر ۱۴ مئی ۱۹۲۸ء تک الجمعیۃ کے مدیر مسئول (محرر خصوصی) کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ جون ۱۹۲۵ء سے لے کر دسمبر۱۹۲۹ء تک جو مدت انھوں نے حیدر آباد دکن پہنچنے سے پہلے بھوپال میں گزاری ہے (ایضًا‘ ص۱۲۸)‘ اور جس کو انھوں نے ہر قسم کے علوم و فنون کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اس مدت میں شاید انھوں نے الجمعیۃ کی آمدنی کی بچت پر گزارا کیا ہو گا۔ ایک یہ امکان ہے کہ بھوپال میں ان کے سب سے بڑے بھائی ابو محمد مودودیؒ نے ان کی دست گیری بھی کی ہو۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ان کتابوں کی آمدنی سے بھی مستفید ہوئے ہوں گے جو علی الترتیب اس طرح شائع ہوئیں:

                ۱-            دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ‘ سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (اکتوبر۱۹۲۸ئ‘ دہلی)

                ۲-            دکن کی سیاسی تاریخ‘ غالباً ۱۹۳۰ء ( حیدر آباد دکن) (ایضًا‘ ص ۱۲۹)

                ۳-            سلاجقہ‘ جون ۱۹۲۹ء (حیدر آباد دکن)

                ۴-            رسالۂ دینیات‘ ۱۹۳۲ء (حیدر آباد دکن)

                ۵-            ]غیرمطبوعہ[ ترجمہ اسفار اربعہ حصہ دوم اور حصہ سوم از علامہ صدر الدین شیرازی (دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن)(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۳۱۳- ۳۱۹)

اس آخری کام --- یعنی‘ اسفار اربعہ کے ترجمے --- کی آمدنی سے مولانا نے ابن خلکان کے  ان حصوں کا ترجمہ‘ جو مصر کے فاطمی خلفا سے تعلق رکھتے ہیں (جون ۱۹۲۹ئ) خریدا‘ بلکہ اسی آمدنی سے ترجمان القرآن بھی مولانا ابو مصلح سے خریدا (ایضًا‘ ص ۳۱۹)۔ اسی ترجمان القرآنکی خریداری اور ادارت ہی وہ مرحلہ تھا‘ جس سے ترجمان القرآن کے مالک و مدیر کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآن کی دعوت کو اپنا مقصد حیات اور اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اس کے بعد زندگی میں راحت و آرام بہت کم (شاید ۲۰ فی صد یا اس سے بھی کم) اور ہر قسم کی تکلیفیں‘ جن میں مالی اور معاشی پریشانیاں بھی شامل ہیں‘ زیادہ تھیں (شاید ۸۰ فی صد یا اس سے بھی زیادہ)۔ تفاصیل کے طالب حضرات اس خاکسار کا مقالہ ’’مولانا مودودیؒ - زندگی کا ایک پرآشوب دور‘‘(ترجمان القرآن،ستمبر۲۰۰۲ئ)‘ بیگم مودودی ؒکا انٹرویو(تذکرہ سید مودودیج۳‘  ص ۳۲۱-۳۲۲) اور میاں طفیل محمد کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں۔۱؎ خیال رہے کہ جہاں بیگم مودودیؒ، اپنے رفیق حیات کی نجی زندگی پر گواہ ہیں‘ وہیں میرے کرم فرما‘ میاں طفیل محمد ان کی سماجی زندگی پر گواہ ہیں‘ کیونکہ دعوت اسلامی کے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھان کوٹ سے لے کر ان کی وفات تک کے لمبے سفرمیں‘ یہ ہروقت اور ہر دم ساتھ رہے ہیں۔ ان دونوں کی گواہیاں بہت کافی ہیں۔

یہ تذکرہ ناقص رہے گا‘ اگر معاش اور فکر معاش کے جھمیلوں کے سلسلے میں اُن حضرات کی روش پر ایک نظر نہ ڈالی جائے جو مولانا مودودیؒ کے معیار زندگی کو نشانۂ ملامت اور ان کے ذرائع آمدنی کو ہدفِ تنقید بنا کر جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ میری مراد مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ ہیں۔۲؎

معاش کے بارے میں اپنے اندیشے اور خدشات مولانا محمد منظور نعمانی ؒ یوں بیان کرتے ہیں: ’’نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت‘ آپ کے نظریات اور آپ کی تعبیرات سے مکمل طور پر اتفاق و اتحاد ہے بلکہ یہ یکسانی فکر و نظر اکثر مجھے مجبور کرتی ہے کہ الفرقان کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دوں۔ لیکن کسی وقت خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں رسالے کی اشاعت متاثر نہ ہو جائے اور اس سے معاش کے مسئلے میں دشواریاں لاحق نہ ہو جائیں‘ کیونکہ اس رسالے میں اب تک ایک مخصوص حلقے کے مذاق کا لحاظ رکھا گیا ہے‘‘۔

اس پر مولانا مودودیؒ نے جو کچھ فرمایا وہ بہت چشم کشا ہے: ’’رزق کا معاملہ تو بالکل اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے حالات اگر آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آگئے تو امید ہے کہ اللہ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ان حالات کا تذکرہ فرمایا جن سے دوچار ہو کر ان کا ماضی گزرا ہے۔

۸ جنوری ۱۹۴۳ء کے اپنے مکتوب بنام مولانا مسعود عالم ندویؒ میں مولانا مودودیؒ ،مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

--- جب وہ تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں اور آپ کے وسائل کیا ہیں؟ معلوم ہوا ضروریات غیر معین ہیں اور وسائل تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ ۵۰ روپے کی حد تک مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بِلاکرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑ کر آ جائیے اور یہاں نہ صرف دعوت کا کام کیجیے‘ بلکہ اس کے ساتھ چودھری نیاز علی خان کا رسالہ دارالاسلام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیجیے (یہ رسالہ جس کی اشاعت ۵۰۰ کے قریب ہے‘ چودھری صاحب بلا معاوضہ ان کی ملکیت میں دینے کے لیے تیار تھے)۔ اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے --- تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی ---

بالفاظ دیگر فکر معاش وہ بلَا ہے جو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے لوٹانے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو مولانا مودودیؒ سے اپنے دین کی خدمت لینا تھی‘ اس لیے ان کو اندیشہ ٔ معاش سے یکسر آزاد کر دیا۔

  • سادگی لیکن نفاست کے ساتھ:  فطری طور پر مولانا مودودیؒ بڑے نفاست پسند واقع ہوئے تھے۔ یہ میرا خود ذاتی مشاہدہ ہے ۔ میں نے چشمِ سر سے دیکھا ہے کہ وہ سادہ مگر اجلا لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتے۔ لباس کی یہ سادگی مع نفاست ہر جگہ برقرار رہتی‘ خواہ وہ رابطہ العالم الاسلامی کے اجتماعات ہوں‘ یا جلسہ ہاے عام میں شرکت کر رہے ہوں۔ میں نے ان کو مکہ مکرمہ میں‘ الاستاذ محمد المبارک کے ہاں سے پروفیسر محمد قطب (برادر خورد سید قطب شہیدؒ) اور پروفیسر محمد مصطفی الاعظمی کے پاس اسی سادہ لباس میں جاتے ہوئے دیکھا۔ تب میں بھی اُن کے ہمراہ تھا۔

اب رہی کھانے پینے کی بات تو اس کی شہادت مولانا محمد ناظم ندوی مرحوم سے بہتر کون دے سکتا ہے: ’’البتہ مولانا کے ہاں کبھی کبھی ناشتے کے لیے چلا جاتا --- مجھے مولانا کے ہاں کھانے میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے‘ ان کا دسترخوان اتنا سادہ تھا کہ ہم بھی اس وقت ان سے بہتر کھانا کھاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ جو کچھ ہوتا تھا‘ وہ سادہ اور لذیذ ہوتا تھا‘‘۔۳؎

کھانے پینے کی بات چل نکلی ہے تو ذوقِ طعام کے بارے میں اپنا تجربہ بتاتا چلوں۔ جدہ میں ہمارے گھر پر مولانا محترم کو دوپہر کا کھانا کھلانے کا موقع ملا۔ ہم نے حیدر آبادی مذاق کا لحاظ کر کے دہی کی کڑھی‘ شکمپور اور ڈبل کا میٹھا (شاہی ٹکڑے) پیش کیے۔ مولانا بہت خوش ہوئے مگر جب دہی کی کڑھی چکھی تو کہنے لگے: ’’چاؤش! (حیدر آباد میں عربوں کو چائوش کہتے ہیں) آپ پکے حیدر آبادی نہیں ہیں۔ یہ دہی کی کڑھی آج کی بھگاری ہوئی ہے‘ جب کہ یہ دوسرے دن کھائی جاتی ہے‘‘۔

  • اسلام کی خاطر بے پناہ قربانیاں: محمد رفیع الدین فاروقی ترجمان القرآن کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی جاں فشانی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: رسالہ ترجمان القرآن کے مضامین کی ترتیب و تہذیب ‘ اس کی ادارت‘ کاغذ کی فراہمی‘ کتابت و طباعت‘ رسالوں کی ترسیل‘  آمد و خرچ کا حساب اور متعلقہ مسائل کا بار‘ مختصر یہ کہ تمام انتظامات بلاشرکت غیرے صرف اور صرف یکا و تنہا مولانا مودودیؒ ہی کی ذات پر تھے ---‘‘(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۸۷۵)

ظاہر بات ہے کہ اس طرح ان کا پورا وقت ترجمان کی نذر ہو جاتا تھا اور کھانے پینے کے خرچ کے مسائل کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے شاہد میرے استاذ عربی مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ تھے۔ انھوں نے کئی بار اس واقعے کو بیان کیا ہے:

میں ایک دن  ترجمان القرآنکے دفتر واقع بچلرس کوارٹرز‘ معظم مارکیٹ گیا۔ عمارت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ میں نے کہا: مولانا یہ ہے کیا؟ جواب میں بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتا ہوں اور اس امت کی خونِ جگر سے آبیاری کرتا ہوں‘‘

اس پر ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ رحمت سے نوازے اور جنت الفردوس میں ان کو انبیاے کرامؑ اور شہداے عظام ؒ کی رفاقت سے سرفراز کرے!

مالی قربانیوں کے ضمن میں مولانا محمد ناظم ندویؒ کی شہادت بھی بہت قیمتی ہے: ’’اور یہ بات بھی ان کی بے نفسی پر ایک قوی دلیل ہے کہ انھوں نے جماعت بنائی تو اپنی تصانیف کا بیش تر حصہ جماعت کے سپرد کر دیا۔ ان کا یہ اقدام ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہوا ایک غیر جذباتی اقدام تھا۔ یہ آخری جملہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ مولانا کے اس فیصلے کو وقتی جذبے کے تحت ایک جذباتی اقدام قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنی اس سوچ اور عملی زندگی میں ہوس دنیا سے بے نیاز رویے ہی سے عام لوگوں بلکہ ہم عصر علما تک میں ممتاز ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۸۹۴-۸۹۵)

  • خود داری: خود داری اور عزت نفس کے دو واقعات کافی ہوں گے:

مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سرکار آصفیہ ۳۰۰ سے زیادہ پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں (لائبریریوں) میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصر سے مخالف گروہ نے امور مذہبی پر اثر ڈال کر رسالے کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے --- مولانا کے استغنا اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے جاکر اس کے اجراے ثانی کی کوشش کی اور نہ کسی کی چوکھٹ پر دستک دی اور نہ کسی سے سفارش کروائی --- (ایضًا‘ ص ۳۲۸)

حیدر آباد دکن سے دارالاسلام ’جمال پور‘ پٹھان کوٹ منتقل ہونے سے رقم کی کمی ہوئی تو مولانا نے اس کا ذکر مولانا اعجاز الحق قدوسیؒ سے کیا۔ انھوں نے مولانا کی اس مشکل کا تذکرہ سرور خان صاحب سے کیا تو وہ: مسکراتے ہوئے کہنے لگے‘ اتنے ان کے قدر داں ہیں۔ کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ ان کو قرض دے سکے۔ میں نے کہا کہ اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے ---(ایضًا‘ ص ۳۰۱)

یہ وہی ایک ہزار روپے کا قرض حسنہ ہے جس کو زادِ راہ بنا کر مولانا مودودیؒ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک انجان اور نامعلوم و نامانوس مقام اور غیر مانوس لوگوں کی طرف علامہ اقبالؒ کی دعوت پر‘ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ پنجاب کی طرف‘ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر گئے۔ اس سے مولانا مودودیؒ کی مفلسی اور ناداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مگر خودداری اور عزت نفس کی برقراری کے ساتھ۔

 خودداری اور خود اعتمادی کا ایک واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ شاید یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ آخری بار مولانا مودودیؒ جدہ تشریف لائے۔ اتفاقاً مجھے بھی نماز جمعہ حرم مکی میں باب الملک عبدالعزیز میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ مولانا بہت کمزور اور ناتواں ہو چکے تھے۔ میں نے سہارا دینے کی کوشش کی۔ کہنے لگے: ’’چاؤش! سہارا نہ دیں۔ میں ساری زندگی کسی کے سہارے کے بغیر جیتا رہا ہوں۔ ان شاء اﷲ آیندہ بھی کسی کے سہارے کی نوبت نہیں آئے گی‘‘۔ میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ خود آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کار میں سوار ہو گئے۔ یہ خود داری اور خود اعتمادی کی بہترین مثال ہے۔

  • ﷲ تعالیٰ پر بھروسا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مولانا مودودی ؒکی شخصیت کا نہایت نمایاں اور درخشاں پہلو تھا۔ وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی امید کا دامن نہ چھوڑتے اور بڑے بڑے کام اﷲ پر بھروسا کر کے کر گزرتے۔ مثال کے طور پر ترجمان کے جن پرچوں کے بند کرنے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے‘ اس وقت وہ پریشان کن مالی حالات سے دوچار ہو چکے تھے‘ کیونکہ اس سے پہلے انھوں نے پرچے کو زندہ رکھنے کے لیے اہل خیر سے اپیل کی تھی اور خریداروں میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر یہاں یہ صورت حال ہو گئی تھی کہ ترجمان کی تعداد اشاعت گھٹ کر ۴۳۰ - ۱۳۲= ۲۹۸ رہ گئی تھی۔ یہ تعداد ان ۳۵۰ پرچوں سے ۵۲ پرچے کم تھی جس کا گلہ مولانا مودودی ؒنے مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں کیا تھا کہ: پرچہ موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے --- بلکہ اسی پرچے میں ’’اطلاع ثانی‘‘ کے تحت یہ اعلان بھی شائع ہوا: ’’۱۱ ماہ ذی قعدہ ۱۳۵۶ھ میں رسالہ ترجمان القرآن کا دفتر حیدر آباد سے جمال پور‘ ضلع گورداسپور (پنجاب) میں منتقل ہو جائے گا‘‘۔ ماہ شوال۶ ۱۳۵ھ‘ یہی وہ مہینہ ہے جس میں تعداد اشاعت گھٹ کر صرف ۲۹۸رہ جانے والی تھی اور جس کو لے کر وہ پنجاب کی طرف ہجرت کرنے کے لیے کمرکس رہے تھے۔

کیا یہ ہمت شکن حالات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ وہ    ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی ناؤ کھیئے جا رہے تھے‘ بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے --- چنانچہ اگست‘ ستمبر۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:

ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادران اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میں اب تک ۴۰۰روپے مالی اور ۵۰روپے کلدار]ریاست حیدر آباد کا سکّہ[‘ دفتر کو وصول ہوئے اور مزید ۵۰ روپے کلدار کا وعدہ ہے ---

یعنی ‘جملہ ’حالی‘ رقم ۵ئ۵۱۲ روپے بنی‘ جس سے ’مکتبہ ترجمان القرآن‘ کا آغاز ہوا‘ حالانکہ        خود ترجمان اب اور تب پر تھا۔ ایسی ہمت کو ہمت مرداں مددِ خدا کہتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں: (ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۸)

اگرچہ یہ رقم اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کر کے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘ اگست - ستمبر ۱۹۳۷ئ)

یہ نہ صرف مولانا مودودیؒ کا اعلان ہے بلکہ لوگوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے: --- پوری طرح سے ظاہری اسباب ہمت شکن ہو گئے۔ کاغذ‘ کتابت اور طباعت کی گرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے    اس معیار کے رسالے کو ۳۵۰ خریداروں ]صحیح عدد ۲۹۸ ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے[ سے چلانا کتنا مشکل کام تھا ]اس پر نقل مکانی مستزاد[۔ لیکن اﷲ پر اعتماد اور توکل نے مولانا مودودیؒ کو ان حالات سے لڑنا سیکھا دیا تھا ---(ایضًا، ص ۳۲۰)

اسی توکل علیٰ اﷲ کی تلقین انھوں نے مولانا منظور نعمانیؒ کو ان الفا ظ میں کی:’’--- رزق کا معاملہ تو بالکل اﷲ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے اگر حالات آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آ گئے تو امید ہے کہ اﷲ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔

مولانا جعفر شاہ صاحب پھلواریؒ سے انھوں نے یہ کہا: ’’اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائیے اور اﷲ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو    نہ ملنے لگے‘ اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے‘‘۔

  • قضا و قدر پر غیر متزلزل ایمان: مسئلہ جبرو قدر کے مصنف کو قضا و قدر پر ایمانِ غیر متزلزل دکھانے کا موقع اس وقت ملا‘ جب اس کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ میاں طفیل محمد صاحب پھانسی کے فیصلے کے لمحات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

اس کے بعد یہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا اور ان کے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے ان سے کہا:

آپ کوقادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے‘ اور علما کی گرفتاری پر بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ مارشل لا کے تحت سزاؤں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے‘ آپ چاہیں تو اپنی موت کی سزا کے خلاف سات دن کے اندر مسلح افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔

یہ سنتے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا چہرہ بلا مبالغہ انگارے کی مانند تمتما اٹھا اور آپ نے نہایت باوقار لہجے میں جواب دیا:

مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔(ایضًا‘ ص ۵۲‘ ۵۳ اور مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد)

دیکھا آپ نے اس شخص کا تقدیر الٰہی پر اٹل ایمان۔ ایسے مواقع پر لوگ رو پڑتے اور بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں‘ گڑ گڑاتے اور منت سماجت کرتے ہیں مگر تقدیر خداوندی پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والا یہ بندہ‘ اﷲ تعالیٰ کی قوت کے بل بوتے پر فوجی افسر سے زیادہ سخت لہجے میں دو ٹوک‘ مگر لاجواب کر دینے والا جواب دیتا ہے۔ سبحان اﷲ الخلاق العظیم۔

اس سے ملتی جلتی بات‘ اختلافِ الفاظ کے ساتھ‘ انھوں نے اپنے صاحبزادے سے کہی جب وہ سزاے موت کی خبر سن کر ان سے ملاقات کے لیے اپنے تایا جناب سید ابوالخیر مودودیؒ کے ساتھ جیل گئے تھے۔ یہ سید عمرفاروق مودودی ہیں۔ سنیے وہ بات جو ایک باپ نے اپنے بیٹے سے ان نازک مگر صبرآزما اور ہمت شکن حالات میں کہی:

بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھرشہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے‘ اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے۔ (ایضًا‘ ص ۱۹۴)

جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے جناب عبدالستار خان نیازیؒ، مولانا مودودیؒ کے اسلامیہ کالج کے زمانے سے شناسا تھے۔ سزاے موت کے بعد وہ بغل والی پھانسی کوٹھڑی میں تھے۔ انھوں نے سیدعمرفاروق مودودی سے کہا:

میاں! مولانا صاحب تو بڑی چیز ہیں‘ یہ کم بخت مجھے بھی پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے۔

یہاں انگریز حکام کی فراست بینی کی داد دینی ہو گی۔ انھوں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ اگر مودودیؒ اسی طرح اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچر دیتا رہا تو محرّک اسلام پر پروانہ وارفدا ہونے والوں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہو جائے گی‘ جو ایسے نایاب جملے اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت سے مزین ہو گی۔ انھوں نے کالج کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا اور مولانا مودودیؒ کو کالج سے نکال کر باہر کیا۔ (ایضًا‘ ص ۲۱۸-۲۲۰)

اب پھانسی کی کوٹھری کی پہلی رات کے بارے میں میاں طفیل محمد صاحب کی زبانی سنیے:

اگلے روز وارڈن وغیرہ کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھر گئے‘ پھانسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے‘ کوٹھری کے جنگلے سے باہر رکھے ہوئے پانی کے گھڑے سے وضو کیا‘ عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دو فٹ اور ساڑھے پانچ فٹ کے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے پہرے دار حیرت میں ڈوبے دیکھتے رہے کہ یا اللہ! یہ عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پا کر ایسا مدہوش سویا ہے‘ گویا اس کے سارے فکر اور تردد دور ہو گئے۔ گویا اسے من کی مراد مل گئی۔

وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا والمرسلینؐ ثابت کرنے کے جرم میں پھانسی پانا سب سے بڑی خوش بختی کی علامت تھی۔ اس لیے یہ خوش بخت بندۂ خدا مدہوش ہو کر صبح تک سویا رہا کہ شہادت پکی ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات اور صحبت خاتم الانبیا و المرسلینؐ بھی پکی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مودودیؒ ایک چلتا پھرتا زندہ ولی اللہ تھا۔

یہ پہلا موقع نہ تھا کہ مولانا مودودیؒ نے معافی مانگنے یا اپیل کرنے یا رحم کی درخواست کرنے سے ببانگ دہل انکار کیا ہو۔ وہ ایک دبنگ شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ڈر اور خوف سے وہ نا آشنا تھے۔ چنانچہ جب جنگ عظیم دوم [ستمبر ۱۹۳۹ئ] شروع ہوئی‘ تب ہندستان برطانوی استعمار کے زیر تسلط تھا۔ برطانیہ نے اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مولانا نے ’’اشارات‘‘ ]ادارتی مقالے[ میں برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں اور ظالمانہ رویے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اس وجہ سے یہ ’’اشارات‘‘ سنسر ہو گئے اور اس ماہ کا ترجمان القرآن(ستمبر ۱۹۳۹ئ) سادہ اور غیر مطبوعہ صفحات کے ساتھ شائع ہوا۔ صرف یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:

ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے  لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘ تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا‘ شاید کہ وہ       باز آئیں۔

اس سنسر کی داستان اس زمانے کے سنسر افسر نے‘ جو بعد میں میاں عبدالحمید ایڈیٹر پاکستان ریویوکی حیثیت سے مشہور ہوئے‘ یوں بیان کی ہے کہ جب مولانا مودودی سے معافی ---    حتیٰ کہ صرف زبانی معافی -- چاہنے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے کہا:

میں نے قرآنی تعلیم‘ تاریخ اسلام اور تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھ کر اظہار خیال کیا ہے --- رہی بات مجھے وارننگ کی تو میں اسے پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے قرآن کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوڑا ہے اور نہ چھوڑوں گا --- آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں معافی مانگوں‘ یہ ناممکن ہے۔ آپ کی حکومت مجھے تختۂ دار پر لٹکا دے‘ عمر قید کردے‘ میں کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔(قومی ڈائجسٹ، لاہور‘جنوری ۱۹۸۰ئ‘ ص۲۲۴)

پھر بھی مولانا خاموش نہ رہے۔ انھوں نے اپنے ایک دیرینہ دوست نصراللہ خان عزیز ایڈیٹر مدینہ‘ بجنور کو ایک فصیح و بلیغ خط لکھا اور حکومتِ پنجاب اور ا س کے وزیراعظم سرسکندر حیات اور ۱۳اکتوبر ۱۹۳۷ء کے’’ سکندر جناح پیکٹ‘‘ پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور بعض حقائق اور مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کیا اورملک نصراللہ خان عزیز سے خواہش ظاہر کی کہ ان ’’اشارات‘‘ کو  مدینہ میں شائع کریں۔ چنانچہ یہ چشم کشا اور حقائق سے بھرپور خط -- اور شاید ’’اشارات‘‘ بھی -- یکم نومبر ۱۹۳۹ء کی مدینہ‘ بجنور کی اشاعت میں شائع ہوا۔(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۴۷۶)

ہم نے اب تک جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت مزید ٹھوس دلیل کی ہے تو پھر سنیے: یہ شہادت ایک ایسے چشم دید گواہ کی ہے جو اس موقع پر بذاتِ خود موجود تھے۔ یہ پروفیسر غلام اعظم سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی گواہی ہے۔ یہ سننے اور سمجھنے کے لائق ہے کیونکہ یہ موت سے دُو بدُو اور دو چار ہونے کے وقت کی بات ہے جب لوگ چھپنے‘ بھاگنے‘ مدد مانگنے لگتے ہیں اور بدحواس ہو کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس سے ان کی شخصیت کے ڈھکے گوشے عیاں ہوجاتے ہیں ورنہ اس وقت تک لوگ ان کو نڈر‘ شیر دل اور بہادر اور خدا معلوم کیا کیا گردانتے رہتے ہیں۔

یہ اکتوبر ۱۹۶۳ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کو ناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ بہتر ہے کہ اس وقت ایوب انتظامیہ میں شامل ایک شخص کی گواہی پہلے سن لی جائے۔ یہ الطاف گوہر صاحب ہیں:

جب جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک کنونشن منعقد کیا تو ایوب خان نے حکم دیا کہ اجتماع میں بعض ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو وہاں لیڈروں اور مقرروں سے بعض خاص سوالات پوچھیں۔ جب یہ ہدایات براستہ گورنر [نواب آف کالا باغ] ہوم سیکرٹری تک پہنچیں تو بڑی مکروہ صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یہ کام چیف سیکرٹری کے حوالے کیا گیا جس نے علاقے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ضروری کارروائی کرے۔ متعلقہ تھانے کے افسر انچارج نے چند غنڈوں کو اس کام پر متعین کر دیا جو شراب کے نشے میں دھت وہاں پہنچے‘ ہلڑ بازی اور مار دھاڑ شروع کر دی۔ گولیاں چلائی گئیں اور ایک پرامن مندوب جاں بحق ہو گیا۔(ایضًا‘ ص ۸۴)

پروفیسر غلام اعظم بتاتے ہیں: ایسی حالت میں مولانا مودودی کی بے باکی اور جرأت مندانہ لیڈرشپ کا جو ثبوت ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ مولانا نے اعلان کیا کہ ’’رضاکاروں کے سوا سب کے سب بیٹھ کر تقریر سنتے رہیں۔ کوئی نہ اٹھے‘ نہ کوئی گھبرائے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رضاکاروں کو کام کرنے دیں۔ دوسرے سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں تو غنڈے کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

میں مولانا کے پیچھے اسٹیج ہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ مولانا نے تقریر جاری رکھی۔ غنڈوں کی جو ٹولی ڈائیس کی طرف بڑھ رہی تھی‘ رضاکاروں نے اسے گھیر لیا۔ اب وہ ہتھیار بلند کر کے مولانا کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ایک ذمہ دار نے بلند آواز میں مولانا سے بیٹھ جانے کی درخواست کی کہ گولی چل رہی ہے۔ مولانا نے پرزور لہجے میں کہا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘ اور تقریر جاری رکھی۔ (ایضًا‘ ص ۲۷۶)

یہاں پر یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جماعت کے اجتماعات کو غنڈوں کے ذریعے منتشر کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ اس سے پہلے‘ تقسیم ہند سے عین قبل‘ جماعت کے اجتماع منعقدہ مدراس کو وہاں پر مقامی مسلم لیگی حملہ آوروں نے منشتر کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ شامیانوں کو آگ لگا دی تھی‘ لیکن نظم و ضبط اور صبروتحمل کے آگے ان کی کچھ بھی نہ چلی اور وہ ناکام رہے۔ الحمدللہ! (روداد جماعت اسلامی‘ پنجم)

  • عفو و درگزر: مولانا مودودیؒ کے ایک دیرینہ رفیق اور مینیجر محمد شاہ تھے۔ ان کی نازیبا حرکتوں کے بارے میں خواجہ احمد اقبال ندوی کہتے ہیں:

لاہور میں رسالہ ترجمان القرآن اور مکتبے کے انچارج محمد شاہ تھے۔ اس زمانے میں مولانا کا قیام دارالاسلام میں تھا۔ شاہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مکتبے کی مطبوعات کے سلسلے میں خرد برد کر رہے ہیں اور بہت سی کتابیں دوسرے اداروں کے ہاتھ بیچ کر ذاتی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا نے ایک دن مجھے دارالاسلام میں حکم دیا کہ میرے ساتھ لاہور چلنا ہے۔ وہاں پہنچ کر شاہ صاحب کو مولانا نے مکتبے اور رسالے کا پورا چارج حوالے کرنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب نے اس موقع پر بھی ایک الماری کھولنے سے انکار کر دیا اور بتایا کہ اس میں میری ذاتی کتابیں ہیں اور پھر چارج دینے کے بعد اُسے اٹھا لے گئے۔ معلوم ہوا کہ الماری میں مولانا کی بہت سی کتابیںتھیں‘ جو انھوں نے ایک کتب فروش کے ہاتھ فروخت کیں۔ مولانا نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ظرفی سے کام لیا۔ معاملے کو عدالت تک نہیں لے گئے‘ اور نہ احباب کے مشورے کے باوجود شاہ صاحب کے ساتھ ہی کوئی سخت رویہ اختیار کیا بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ ان سے گلو خلاصی کر لی۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۲‘ ص ۳۱۲)

تاہم بعد میں مولانا مودودیؒ نے انھی محمد شاہ صاحب سے جو سلوک کیا‘ اس کا بیان جسٹس غلام علی مرحوم کی زبانی سنیے:

--- ویسے بھی میں نے کئی معاملات میں دیکھا ہے کہ مولانا کردار کی کس بلندی پر تھے۔ سید محمد شاہ ]کی[ بدمعاملگی پر مولانا نے ان کو اپنے ادارے سے الگ کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے ان کا خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں‘ میری کچھ مدد کریں۔ مولانا نے فوراً کچھ پیسے بھجوا دیے۔ کچھ دن گزرے تو پھر خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں اور وہ پیسے خرچ ہو گئے ہیں‘ کچھ مزید تعاون فرمائیں۔ مولانا نے فرمایا اور بھیج دو۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو بڑی عجیب صورت حال ہے کہ ہم اس طریقے سے پیسے بھیجتے رہیں۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۳‘ص ۲۳۴)

ایک دن ایک صاحب مولانا سے ملنے آئے۔ جب وہ چلے گئے تو معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مالی دشواریوں کی وجہ سے دُبئی یا ابوظہبی جانا چاہتے ہیں۔ مولانا سے سفارشی خط لینے آئے تھے۔ حسبِ عادت مولانا نے سفارشی خط دیا جو کام آیا اور ان کو وہاں اچھی نوکری مل گئی۔

یہ کون حضرت تھے؟ یہ وہی فوجی افسر جیلانی صاحب تھے جنھوں نے مولانا کو پھانسی کی سزا سنائی اور جن کے دستخط انگریزی میں لکھے اس فیصلے پر ثبت ہیں جس کو تذکرۂ مودودی ، جلد اول میں ’تعارف عکس‘ کے ضمن میں صفحہ ۹۴۳ پر اخبارات میں پھانسی کی سزا کی خبر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

دیکھا آپ نے؟ خرد برد کرنے والے پہلے شخص کو مزید مالی امداد‘ اور پھانسی کی سزا سنانے والے کے مسائل حل کرنے کے لیے سفارش--- اسے کہتے ہیں عالی ظرفی اور اونچا کردار! فجزاہ اللّٰہ خیراً

  • چھوٹوں کی ہمت افزائی: یہ چار واقعات خود میرے سامنے ہیں:

غالباً یہ ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ ہم چند نوجوانوں نے حیدر آباد دکن میں حلقۂ طلبہ جماعت اسلامی‘ حیدر آباد کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت ایک لائبریری کے قیام کا ارادہ کیا۔ میں اس کا سیکرٹری تھا۔ میں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور ایک خط لکھا‘ جس میں حلقۂ طلبہ اور ان کی لائبریری کے قیام کی اطلاع دی اور ترجمان القرآن مفت روانہ کرنے کی درخواست کی۔ چند ہی دن میں ترجمان آیا اور آتا ہی رہا۔ جب تک میں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی رام پور منتقل نہیں ہوا   اس وقت تک تو پابندی سے ترجمان آتا ہی رہا۔ بعد کا مجھے علم نہیں ہے۔ شاید آتا رہا ہو یہی   امکانِ غالب ہے۔

جب میں عدن پہنچا اور وہاں ڈاکٹر محمد علی البار اور محمد الخادم الوجیہ اور عمر سالم طرموم اور عبدالرحمن العمودی کے تعاون سے ’’المرکز الثقافی الاجتماعی الاسلامی‘‘ کی بنیاد ڈالی‘ تو میں نے اس مرکز کے دستور کے ساتھ جو عربی میں تھا‘ ایک خط مولانا کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ اس کی لائبریری کے لیے ترجمان القرآن روانہ کریں تو ترجمان آنا شروع ہوگیا۔ خیال رہے کہ اس وقت تک میری مولانا سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف خدمت ِ اسلام کی خاطر مولانا نے ہمت افزائی کے طور پر مفت ترجمان روانہ کیا۔ مخبراللہ عنا خبراً

جولائی ۱۹۶۷ء میں یا اس کے آس پاس جب میں جدہ منتقل ہو گیا تو وہاں مولانا سے    پہلی بار شرف تعارف حاصل ہوا۔ میں اور استاذ محترم مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ نے  جدہ ایئرپورٹ پر مولانا کا استقبال کیا۔ کار میں بیٹھنے کے بعد بن محفوظ نے کہا کہ مولانا یہ وہی سید حامد الکاف ہیں جنھوں نے آپ کی خدمت میں سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق کا ترجمہ روانہ کیا ہے۔ ہمارے دوست خلیل احمد حامدی بھی ساتھ تھے۔ مولانا نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ’’جی ہاں‘ آپ کا ترجمہ تو ملا ہے مگر اس میں عربیت زیادہ تھی۔ اس لیے میں نے اس کو ’’اردو وانے‘‘ کے لیے خلیل حامدی صاحب کو دیا ہے‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ نہیں معلوم اس  معالم فی الطریق کے پہلے ترجمے کا کیا ہوا؟ اتنا ضرور ہے کہ اس کی دو چار قسطیں سہ روزہ دعوت دہلی میں چھپی تھیں۔

میں نے مولانا سے عرض کیا تھا:’’میں رابطۃ العالم الاسلامی میں مترجم کی حیثیت سے کام کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ کل آپ سے وہیں ملاقات ہو گی‘‘۔ دوسرے دن تقریباً ۱۱ بجے رابطہ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ احوال کے تبادلے میں پوچھا: ’’کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’۵۰۰ سعودی ریال‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ تو بہت کم ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’خدمتِ اسلام کا ادارہ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ پھر اتنی کم تنخواہ کیوں؟ فوراً استعفا دیجیے ‘‘۔ اور واقعی اسی روز میں نے استعفا دے دیا اور عصر کی نماز میں مولانا کو بتا بھی دیا۔ کچھ بھی نہ کہا‘ خاموش رہے۔

جب گھر واپس ہوا تو کہا گیا :’’تمھیں حسن بن عبداللہ بن عجران بن محفوظ تلاش کر رہے تھے‘‘۔ میں ان سے ملا تو کہا کہ آج گھانا کونسلیٹ جنرل کے لوگ میری دوکان پر آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مترجم کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور ماہانہ ایک ہزار سعودی ریال دینے کو تیار ہیں۔ یہ ان کا ٹیلی فون ہے ان سے بات کر لو۔ دوسرے دن ضروری کارروائی کے بعد مجھے ایک ہزار سعودی ریال کی نوکری مل چکی تھی۔ الحمدللّٰہ!

یہ مولانا کی طرف سے یہ درس تھا کہ آدمی کو کسی وجہ سے بلا وجہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو سستے داموں نہیںبیچنا چاہیے۔

اس کے بعد مولانا پھر رابطہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جمعرات کا دن تھا۔ میں اور استاد محترم عمر بن محفوظ مغرب کے بعد مکہ مکرمہ کے شبرہ ہوٹل پہنچے جہاں مولانا کا قیام تھا۔ کچھ دیر بعد مکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ الندوہ کا نمایندہ حاضر ہوا۔ مولانا خلیل حامدی موجود نہیں تھے۔ مترجم کی خدمت میں نے انجام دی۔ دوسرے دن‘ یعنی جمعہ کو یہ انٹرویو الندوہ میں شائع ہو گیا۔

مکہ مکرمہ میں طے پایا تھا کہ میں اور عمر بن محفوظ دوسرے دن جمعہ کو صبح جدہ پیلس ہوٹل پہنچ جائیں گے جہاں مولانا‘ میاں طفیل محمد صاحب اور مولانا خلیل حامدی کے ہمراہ مقیم تھے۔ ہم دونوں حسب وعدہ کوئی ساڑھے آٹھ یا نو بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھ کر مولانا خوش ہوئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’چائوش! میں نے مسجد دہلوی‘ مکہ مکرمہ میں نوجوانوں سے جو خطاب کیا ہے اس کو عربی میں آپ نے منتقل کرنا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’مولانا میں کوئی کہنہ مشق مترجم نہیں ہوں۔ تھوڑا بہت ترجمہ کر لیتا ہوں لیکن آپ کے خطاب کا صحیح اور دقیق ترجمہ میرے بس کا روگ نہیں ہے‘‘۔ مولانا خلیل حامدی نے حامی بھر لی تو مولانا‘ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’خلیل صاحب! عربی زبان ان کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ یہ جو کہہ دیں فصیح ہے اور جو لکھ دیں بلیغ ہے‘‘۔

میں سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’چائوش! شروع ہو جائیں۔ آج رات انھیں (یعنی الندوہ والوں کو) دینے کا وعدہ ہے‘‘۔

میں نے ترجمہ کر دیا۔ دوسرے دن یہ تقریر الندوہ میں چھپ گئی۔ الحمدللہ

اس واقعے کے میاں طفیل محمد صاحب عینی گواہ ہیں۔ وہ خاموش بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ مولانا کے ان الفاظ نے مجھے اتنی ہمت بخشی کہ کبھی بھی مجھے اپنی عربی/ اردو/ انگریزی زبانوں کے معیار کے بارے میں شک و شبہہ پیدا نہ ہوا‘کیونکہ یہ مولانا مودودیؒ کا وہ ادبی ذوق تھا جس کی نفاست اور بلندمعیار ہونے کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

  • ہندستانی مسلمانوں کے لیے دلی ہمدردی: اسی جمعہ کے دن کوئی ۱۰ بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ شاید مولانا کو اندازہ تھا کہ لائن پر کون ہو سکتا ہے۔ مجھے ہدایت فرمائی کہ ٹیلی فون اٹھائوں۔ میں نے ٹیلی فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ بولنے والے سعودی عرب کے وزیر پٹرولیم احمد ذکی الیمانی ہیں۔ شاید اس وقت وہ قائم مقام وزیر تعلیم بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں حسن بن عبداللہ آل الشیخ وزیر تعلیم کی طرف سے بول رہا ہوں۔ ثانوی مرحلے تک کی نصاب کمیٹی کی رپورٹ تیار ہے۔ آپ‘ یعنی مولانا‘ریاض تشریف لائیں اور اس پر ایک نظر ڈال کر اپنی آرا سے آگاہ فرمائیں۔ مولانا نے ریاض جانے سے معذرت کر دی۔

اس وقت دراصل مولانا مودودیؒ دلی کرب اور رنجیدگی کی حالت میں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رابطہ کے اجلاس میں مولانا نے احمد آباد میں وحشیانہ اور خون ریز مسلم کش فسادات پر کوئی قرارداد منظور کروائی‘ مگر شاہ فیصل نے اس کو روک لیا‘ یعنی اس کا اعلان کرنے سے منع کر دیا۔

مولانا نے فرمایا :’’ابھی ابھی گردے کے آپریشن سے لوٹا تھا۔ فسادات کی خبریں سن کر محض ان کی شنوائی کی خاطر ایک گردے کے ساتھ یہاں چلا آیا۔ بڑی مشکل سے تو قرارداد پاس ہوئی۔ اس کو بھی روک لیا گیا۔ اب ریاض جا کر کیا کروں؟‘‘

بہرحال وہ جدہ ہی سے لاہور واپس ہو گئے۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ اللّٰھُمَّ اغفِرہُ والرحمہ یارب ۔ یہ واقعہ پہلی بار بیان کر رہا ہوں۔ الحمدللہ‘ میاں طفیل محمدصاحب بقیدحیات ہیں۔ وہ اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

  • فراخ دلی اور محبت: مولانا مودودیؒ بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ وہ دل سے لوگوں سے محبت کرتے لیکن اس کا بے ساختہ اظہار نہیں کرتے تھے۔ لوگ اس کو سرد مہری قرار دیتے‘ لیکن بقول مولا نا محمد ناظم ندوی:’’مولانا کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ شایستگی‘ سلیقے اور وقار کے ساتھ تعلقات رکھنے والے فرد تھے۔ بلاشبہہ وہ تعلقات کے اظہار میں مبالغہ آمیز رویہ اختیار نہ کرتے تھے‘ جسے عام لوگ مولانا کی سرد مہری قرار دیتے‘ لیکن میرے نزدیک رویہ بھی ان کے اعتدال پسندانہ مزاج کا ایک پہلو تھا۔ وہ بظاہر فاصلے پر دکھائی دیتے‘ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے ہر فرد کا احترام کرتے تھے اور ہر اس فرد سے محبت کرتے تھے ‘جو دین کے لیے ذرہ برابر بھی کام کر رہا ہوتا تھا اور اس ضمن میں کبھی یہ تخصیص نہیں کی کہ وہ لازماً ان کا ارادت مند یا جماعت اسلامی کا کارکن ہی ہو‘‘۔(ایضًا‘ ص ۲۳۹)

اس سلسلے میں جسٹس غلام علی مرحوم کہتے ہیں: مولانا کے کردار کے حوالے سے اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ مولانا عبیداللہ انور مرحوم پر ایک مرتبہ پولیس نے انتہائی تشدد کیا۔ مولانا انور کے شاگرد اور اہل خانہ ان کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ مولانا مودودی کو جب یہ معلوم ہوا تو سخت افسوس ہوا۔ مولانا کو یہ بھی پتا چلا کہ ان کو گھر لے گئے ہیں‘ ہسپتال نہیں لے گئے‘ تو مولانا نے اپنے لڑکے کو غالباً صفدر حسن صدیقی کے ہمراہ بھیجا کہ میری طرف سے عیادت کریں اور مولانا کو ہسپتال بھی لے جائیں۔ انھیں کہیں کہ میں خود حاضر ہوتا ‘لیکن میری طبیعت چونکہ اس قابل نہیں ہے کہ کہیں آ جا سکوں‘ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔ چنانچہ مولانا کے مشورے پر ہی ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک دفعہ سعودی عرب میں کوئی کانفرنس تھی۔ مولانا محمد دائود غزنوی مرحوم بھی اس میں شامل تھے۔ ان کو کچھ تکلیف ہو گئی تو مولانا مودودیؒ رات بھر ان کے پاس بیٹھے رہے‘ حالانکہ مولانا مودودیؒ کی اپنی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ مولانا ابوبکر غزنوی‘ مولانا مودودی کے اس طرزِ عمل سے بڑے متاثر ہوئے اور بعد میں اس کا ذکر بھی کرتے تھے کہ مولانا کے دل میں محبت و انس کا کتناجذبہ ہے۔(ایضًا‘ ص ۲۳۴)

اس سوال کے جواب میں کہ کوئی ایسا واقعہ یا واقعات جن پر مولانا کو سخت صدمہ پہنچا ہو؟ میاں طفیل محمدصاحب نے فرمایا: ’’چودھری غلام جیلانی مرحوم نے بتایا تھا کہ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں‘وہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پر محترم سید قطب کی شہادت کی خبر سننے کے بعد میں اچھرہ جا رہا تھا کہ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری مل گئے۔ میں نے ان کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ ہم ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے تو مولانا کو بے حد ملول اور افسردہ پایا۔ ان کے چہرے پر خلافِ معمول زردی چھائی ہوئی تھی۔ اظہارِ تعزیت کرنے لگا تو مولانا خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر ایک گہرا سانس لیا اور جذبات بھرے لہجے میں فر مانے لگے (اور یہ میری ۴۰ سالہ رفاقت میں پہلا تجربہ تھا کہ مولانا مودودی کو میں نے یوں جذبات میں ڈوب کر بات کرتے دیکھا) کہ کل رات مجھ پر مسلسل ڈپریشن طاری رہا۔ ہزار کوشش کے باوجود پڑھنے لکھنے کا کوئی کام نہیں ہو رہا تھا‘ آخر میں کام چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اور فی الحقیقت میں بالکل نڈھال ہو گیا۔ خیال رہے کہ یہ عین وہی وقت ہو گا جب سیدقطب کو پھانسی دی جا رہی تھی‘‘ (چودھری غلام جیلانی کا کلام یہاں ختم ہوا)۔

میاں صاحب نے فرمایا: جہاں روحانی تعلق ہو وہاں ایسی کیفیت کا طاری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں کہ بیٹے کو کوئی حادثہ پیش آیا اور کوسوں دور ماں کا دل ڈوبنے لگا اور بلا کسی ظاہری سبب کے وہ سخت پریشان ہو گئی۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں سقوط حیدر آباد اور ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ بھی مولانا محترم کے لیے انتہائی صدمے کے موجب واقعات تھے اور علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم کی وفات کے سلسلے میں تو مولانا محترم کے جذبات کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۷۳)

کیوں نہ ہو۔ ان کا سید قطبؒ سے روحانی تعلق انتہائی گہرا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ   سیدقطب شہیدؒنے مولانا کی چار بنیادی اصطلاحوں (الہ‘ رب‘ عبادت‘ دین) کو نہ صرف اپنا یا‘ بلکہ ان پر حاکمیت اور سلطان وغیرہ کی اصطلاحوں کا اضافہ کیا۔ اپنی تفسیر  فی ظلال القرآن میں دو جگہ ان کو ’’المسلم العظیم‘‘ کے لقب سے یا د کیا۔ علاوہ ازیں بغیر علم اور لا شعوری طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح مقوّمات الشعور الاسلامی (اسلامی تصور کی بنیادیں) دو ضخیم جلدوں میں لکھی۔ یہ سب کچھ غائبانہ تعارف کے تحت ہوا۔

مزید یہ کہ ان میں اور مولانا مودودی میں توارد فکری بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں میں نے اپنے مضمون:تفہیم القرآن اور صاحبِ تفہیم القرآنمیں دی ہیں۔ ان میں اضافے کی اچھی خاصی گنجایش ہے۔ مسئلہ سود پر انھوں نے دل کھول کر مولانا کے افکار کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ نور کی تفسیر میں بھی انھوں نے مولانا کی ترجمہ شدہ کتاب تفسیر سورۃالنور سے بھرپور استفادہ کیا اور فخر کے ساتھ ان سب مقامات پر اپنے فکری مصادر اور اپنے ممدوح سید مودودی کا ذکر کیا ہے۔

ان کی شہادت کے وقت مولانا مودودیؒ کو ان تفاصیل کا علم نہیں تھا۔ اس وقت تک صرف معالم فی الطریق معروف ہوئی تھی اور اس پر مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا ہوئی۔  فی ظلال القرآنکا نظرثانی شدہ ایڈیشن بعد میں پھیلا اور عام ہوا۔ اس وجہ سے یہ روحانی اور تعلق خاطر حیرت انگیز امر ہے۔

میں تو بار بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ سید قطبؒ نے اپنی فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی ہوئی تفسیر کے ذریعے مودودیؒ اور فکر مودویؒ کو آسمان خلود کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔ فجز راھما اﷲ عنا خیر الخیرائ۔ یہ تفسیر تا قیامت جہاں جہاں اور جب جب پڑھی جائے گی‘ مودودیؒ اور فکر مودودیؒ کو زندہ اور تاب ناک کرتی رہے گی۔

یہ تو افراد کے ساتھ مولانا کی محبت کا بیان تھا۔ سقوط ڈھاکہ‘ ایک امت کا‘ ایک نظریے کا اور ایک ملک کا سقوط تھا۔ اس لیے اس کے اثرات بھی مولانا پر اتنے ہی گہرے اور مہلک پڑے۔ جب بیگم مودودیؒ سے پوچھا گیا کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحے پر مولانا کے جذبات کیا تھے؟ تو انھوں نے کہا:

اس سانحے سے ان پر کیا گزری اس کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں دل کا دورہ تبھی پڑا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا‘ اسے تو یوں سمجھئے کہ مغربی پاکستان والوں نے دھکے دے کر الگ کیا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۲۰۰)

یہی کچھ سقوط حیدر آباد دکن کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ ان کو حیدر آباد سے بے پناہ محبت تھی اس محبت کو ان مقالات کے عنوانات میں دیکھا جا سکتا ہے جو انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے تھے (ایضًا‘ ص ۳۱۵-۳۱۶)۔ اور ان کتابوں میں ان کا عکس ہے جو انھوں نے دکن کی سیاسی تاریخ اور سلطنت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقاتکے عنوانوں کے تحت لکھیں۔ (ایضًا‘ ص ۳۱۷‘ ۶۹۲‘ ۷۶۶)

انھوں نے حیدر آباد کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی اس خط کے ذریعے کی جو میرے محسن اور کرم فرما جناب محمد یونس کے ہاتھوں جناب قاسم رضوی کو لکھا تھا مگر یہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے تھے اور ایک پوری ریاست بھی کھو دی۔ (ایضًا‘ ص ۳۱-۳۲)

  • قائدانہ شان: ہم اس سے پہلے لاہور کے اجتماع میں گولی چلنے پر مولانا مودودیؒ کی پامردی اور ثبات اور اپنے مقام و منصب (یعنی منصب قائد) کے ادراک کی تصویر پیش کر چکے ہیں‘ لیکن اس سے ایک عرصہ پہلے بھی وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تقسیم ہند کے وقت کر چکے تھے۔ اس سلسلے میں بیگم مودودی ؒکے انکشافات چشم کشا ہیں:

گورداسپور مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ تھا مگر دھوکا دہی سے ہندستان میں شامل کر دیا گیا۔ وہ دن ہم پر بڑے بھاری گزرے ---یہ اﷲ کا بڑا کرم تھا کہ سکھوں پر دارالاسلام کا بڑا رعب تھا۔ دارالاسلام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا --- حالانکہ اہل دارالاسلام کے پاس ایک آدھ بندوق کے سوا کچھ نہ تھا۔ کتنی راتیں ہم نے وہاں اس طرح گزاریں کہ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو جاتیں اور مرد مورچوں میں بیٹھے رہتے۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹتے پھر غازی (عبدالجبار) صاحب نے ایک کانوائے بھیجا‘ ایک ٹرک ہم نے چوہدری نیاز علی خان کو دے دیا۔ ہم صرف عورتیں اور بچے پاکستان آئے تھے۔ مودودی صاحب نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ان پناہ گزینوں کو مسلمان ملٹری آ کر اپنی حفاظت میں نہ لے لے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۱)

--- ایک مہینے تک نہ ہمیں مولانا صاحب کی خبر تھی کہ وہ زندہ سلامت ہیں کہ نہیں اور نہ انھیں ہماری کچھ خبر تھی۔ کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد مسلمان ملٹری نے دارالاسلام کے پناہ گزینوں کو جب اپنی تحویل میں لے لیا تب مووددی صاحب نے وہاں سے پاکستان کا رخ کیا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۰)

پاکستان آتے ہی مولانا نے کئی مہاجر کیمپ قائم کیے۔ نقد اور اشیا جمع کیں۔ سال ڈیڑھ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں سیلاب زدگان کی خدمت میں لگ گئے۔ چندہ‘ روپے پیسے‘ کپڑے وغیرہ جمع کیے۔

  • دولت سے بے نیازی: مولانا محمد ناظم ندوی نے میرے محسن اور کرم فرما چودھری غلام محمد مرحوم کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا ہے:

یہ واقعہ چودھری غلام محمد مرحوم نے مجھ سے ذاتی طور پر بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کے ایک سفر کے دوران جدہ کا ایک بہت بڑا تاجر جو مولانا سے ملاقات کی غرض سے آیا۔ وہ مولانا کی اسلام کے لیے خدمات اور ان کا دلی طور پر معترف تھا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اس نے ایک سادہ دستخط شدہ چیک بڑی عقیدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا: ’’مولانا اشاعت اسلام کے لیے جنتی رقم مطلوب ہو وہ آپ اپنے قلم سے لکھ لیجیے گا‘‘!! --- مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر چیک واپس کر دیا اور فرمایا: ’’آپ کابہت بہت شکریہ۔ جب ضرورت ہو گی لے لیں گے‘‘۔ اس تاجر نے یہ سنا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ایضًا‘ ص ۲۴۰-۲۴۱)

اسی ابہام کو دور کرنے کی خاطر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تاجر عبداﷲ شرتبلی تھے۔ بعد میں انھوں نے لسٹر (برطانیہ)کانو (نائجیریا) اور نیروبی (کینیا) میں اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالنے میں بڑھ چڑھ کر مالی لحاظ سے حصہ لیا۔ اس عظیم منصوبے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کئی سالوں تک چودھری غلام محمد کرتے رہے ہیں۔ اسی غرض سے وہ عدن سے ہو کر مشرقی افریقہ گئے تھے اور عدن ہی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہمارے دوست عمر سالم طرسوم کے واسطے سے ہوئی تھی۔ جدہ میں جب چودھری صاحب تشریف لاتے تو اکثر راؤ محمد اختر صاحب کے گھر پر ٹھیرا کرتے تھے۔ بعض اوقات میں بھی ترجمہ کر کے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جایا کرتا تھا۔ برادرم راؤ اختر‘ چودھری صاحب کے دست وبازو تھے۔ آگے چل کر وہ اس منصوبے کے افریقہ کی حد تک روح رواں ہوگئے۔

میں صرف ان ۱۱ شخصی عناصر ترکیبی کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا‘ جن سے مودودی صاحب کی شخصیت کا خمیربنا تھا اور جس نے نہ صرف ہند و پاک بلکہ عالمی پیمانے پر احیاے اسلام کی تحریک کو فکری اور عملی سطحوں پر زبردست فائدہ پہنچایا۔


حواشی

۱-            تذکرہ سید مودودی ‘ج ۳‘ مرتبہ: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد‘ ص ۳۲۵۔ یہ حوالہ صرف ترجمان کی ’ملکیت‘ کے بارے میں ہے۔ باقی باتیں میں نے حافظے کے بل پر کہی ہیں - حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ مولانا ابومصلح کی سیرت کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرۂ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۳۲۴ - ۳۲۶

۲-            ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۷ - ۴۷۔ تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷ - ۱۷۷۔ مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔

۳-            تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷۸ - ۲۱۰‘ بیگم مودودی ؒ کا انٹرویو

                اس سلسلے میں دوسرے رفقا اور معاصرین کے مشاہدات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میاں طفیل محمد صاحب فرماتے ہیں: ’’ہم لوگوں کی معاشی زندگی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دارالاسلام میں تو بعض دنوں خود مولانا مودودی ؒکے ہاں چولھا نہیں جلتا تھا لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒصاحب جیسے بزرگ ان کے سفید کرتے اور پاجامے اور دوپلی ٹوپی سے یہی اندازہ کرتے تھے کہ وہ کوئی رئیسانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ (تذکرۂ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۱۱۶)

مولانا مودودیؒ کا یہ معمول تھا کہ آپ صبح آٹھ بجے ناشتہ کرتے اور دفتر تشریف لے آتے۔ جواب طلب خطوط اگر ہوتے تو ان کے جوابات لکھتے۔ جب تک آپ امیر جماعت رہے تو اس دوران میں امیر جماعت کی حیثیت سے جو ڈاک آتی اسے بھی نمٹاتے۔

دفتری اوقات میں ملاقات کے لیے بھی لوگ آتے رہتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان، وکلا، علما و دانش ور اور دیگر معززین تشریف لاتے۔ نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔  ایک بجے نماز ظہر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر کھانے کی میز پر کھانا تیار ملتا۔ اہل خانہ مولانا صاحب کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ اس انتظارکا وقت چند منٹوں تک محدود رہتا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد اندر ہی کمرے میں لیٹ کر اخبار کا مطالعہ فرماتے۔ قومی جملہ اردو، انگریزی اخبارات دیکھتے۔ انگریزی بیرونی رسائل بھی دیکھے جاتے اور ضرورت کی اہم چیزوں پر نشان لگا دیے جاتے۔ اسی دوران میں اگر نیند غلبہ کرتی تو کچھ دیر کے لیے نیند کر لیتے۔ اردو انگریزی جتنے اخبار اندر ساتھ لے جاتے تھے وہ سب عصر کے وقت جب دفتر میں تشریف لاتے تو واپس لے آتے۔ انھیں ایک متعین جگہ پر رکھوا دیا جاتا۔پھر نماز عصر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر تشریف لے جاتے اور ایک کپ چائے نوش فرماتے۔ نماز عصر کے بعد چائے لازماً پیتے تھے یہ ان کا معمول تھا۔ باقی دن میں کسی مہمان کے لیے چائے تیار کروائی جاتی تو مہمان کے ساتھ شریک ہوجاتے۔ ناشتے کی چائے کے علاوہ یہ چائے ہوتی جو مہمان کے ساتھ پیا کرتے تھے۔

نماز عصر کی چائے کے بعد اپنی قیام گاہ کے صحن میں تشریف لاتے۔ حاضرین بھی اور    باہر سے آنے والے بھی اور مقامی حضرات بھی آ جاتے۔ اخبارات کی سیاسی خبروں اور تبصروں پر  ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی۔ دیگر ہر طرح کے سوال بھی پیش کیے جاتے اور بہت مختصر سے جوابات دیے جاتے۔ سائل اپنے جواب پر مطمئن ہو جاتے تھے۔

مغرب کی اذان سے کچھ قبل یہ خوش گوار مجلس ختم ہو جاتی۔ مولاناؒ نماز مغرب کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھ جاتے۔ اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔

رات کے کھانے اور نماز عشاء کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ جاتے اور دیر تک کام کرتے تھے۔ تفہیم القرآن کا آخری حصہ بھی انھی اوقات میں مکمل کیا گیا۔ رات کو بھی کم ہی سوتے تھے۔ بسااوقات صبح کی اذان ہو جاتی تھی۔ رمضان المبارک میں ۲۰ تراویح ادا کرنے کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ کر کام شروع کر دیتے تاآنکہ گھر والے سحری کھانے کے لیے بلاتے۔ نماز فجر کے بعد آرام کی غرض سے کچھ دیر سوتے تھے۔ رمضان کے مہینہ کے علاوہ بھی سونے کا یہی وقت تھا۔

۱۹۴۲ء میں جب ہندستان Quit India کی کانگریسی تحریک کی لپیٹ میں تھا‘ راقم اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلما میں زیرِ تعلیم تھا ۔ ندوہ کے اکثر طلبہ مولانا ابوالکلامؒ آزاد کے دلدادہ اور جمعیت علماے ہند کے زیر اثر تھے ۔ مگر طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد قائدِ اعظم محمد علی جناح اورآل انڈیا مسلم لیگ کی ہم خیال اور پر زور مؤید بھی تھی ۔ دونوں گروہوں میں پر جوش مباحثے ہوتے‘ جب کہ کانگریس کے طرف دارطلبہ انگریزوں کے خلاف توڑ پھوڑ کے پروگرام بھی بناتے۔ اس انتہائی تنائو کے ماحول میں‘ تنہا میں ‘مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی دعوت ’’حکومت الٰہیہ کی تاسیس کی دعوتــ‘‘ کو نہایت اعتماد کے ساتھ پیش کرتا اور دونوں کیمپوں کے پرجوش حامیوں کے مقابلے پر ڈٹا رہتا ۔

میرے اندریہ حوصلہ دراصل مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور ان مضامین کو پڑھنے سے پیدا ہوا تھا‘ جو مسلمان اور مو جودہ سیاسی کش مکش (سوم) میں شامل کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ با لخصوص اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟کے عنوان سے مولانا کی وہ تقریر جو انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کی تھی اس کو پڑھ کر تو دل میں ا یسا ایمان و ایقان اور جوش پیدا ہو گیا‘ جس کو ظاہری شعلہ زنی سے بے نیاز ‘مگر کبھی ٹھنڈی نہ ہونے والی آگ سے مشابہ قرار دینا صورت حال کی واقعی تعبیر ہو گی -

جب مسلمانوں کے تمام ممالک اور ملت میں شامل تمام اقوام‘ مغربی استعمار کا صید زبوں بنی ہوئی تھیں اور مغرب کی مادی برتری نے اس کی فکری بر تری کی بھی دھاک بٹھا رکھی تھی ‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت برعظیم کے مسلمانوں کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے نصب العین کی طرف دعوت دی ۔ یہ دعوت اس وقت دی گئی جب برعظیم کے وہ مسلمان لیڈر جو مغربی تہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے ان کو تو چھوڑیے‘ بڑی بڑی دینی درس گاہوں کے سکہ بند بلکہ سکہ ساز علماے کرام بھی وطنی قومیت ‘ آزادی اور جمہوریت کے خالص مغربی تصورات کے مبلغ اور انھی تصورات کو سر بلند کرنے کی جد و جہد میں ’جہادی جذبے‘ کے ساتھ سر گرم عمل تھے ۔ حالت یہ تھی کہ اسی طبقہ علما سے تعلق رکھنے والے ایک محقق‘ مصنف اور شہرہ آفاق خطیب نے ’اسلام کے اقتصادی نظام‘ پر اپنی ایک محققانہ تصنیف میں اس رائے کا اظہار فرمایا : چونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اس وقت بر سر کار لانا ممکن نہیں اس لیے اس ’’ قریب تر ‘‘ اشتراکی نظام کو قائم کرنے کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ یہ وہ وقت تھا جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ کرنے و الے ‘ عربی رسم الخط کو ممنوع ‘ اسلامی قوانین کو منسوخ اور عربی میں اذان دینے پر پابندی لگانے والے کمال کو برعظیم کے مسلمان ’’ غازی مصطفی کمال ‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔

۱۹۴۲ء میں مولانا مودودیؒکی ایمان پرور اور انقلابی تحریریں پڑھ کرمیں اپنے طلبہ ساتھوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اگر مجھے ایک چپراسی کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع نصیب ہو جائے تو میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہو گا ۔

میں اپنے ساتھیوں کو تحریروں کے اقتباسات پڑھ پڑھ کر سنا تا تھا‘ مثلاً: ’’مسلمان کو صرف اس چیز سے بحث ہے کہ یہاں انسان کا سر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے یا حکم الناس کے آگے ۔ اگر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے تب تو’’ ہندستان ‘‘ کو اور زیادہ وسیع کیجیے‘ ہمالیہ کی دیوار کو بیچ سے ہٹایئے اور سمندر کو بھی نظر انداز کر دیجیے تاکہ ایشیا ‘ افریقہ ‘ یورپ اور امریکہ‘ سب ہندستا ن میں شامل ہو سکیں‘ اور اگر یہ حکم الناس کے آگے جھکتا ہے توجہنم میں جائے ہندستان اور اس کی خاک کا پرستار ‘‘ --- اور یہ کہ: ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اس مسئلے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں ہے کہ ہندستان میں جہاں مسلمان کثیرالتعداد ہیں وہاں ان کی حکومت قائم ہو جائے ۔میرے نزدیک جو سوال سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ کے اس پاکستان میں نظام حکومت کی اساس خدا کی حاکمیت پر رکھی جائے گی یا مغربی جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت پر ؟اگر پہلی صورت ہے تو یہ یقینا پاکستا ن ہو گا‘ ورنہ بصورت دیگر یہ ویسا ہی ’نا پاکستان‘ ہو گا جیسا ملک کا وہ حصہ ہو گا جہاں آپ کی اسکیم کے مطا بق غیرمسلم حکومت کریں گے‘‘۔

مولانا مودودیؒنے دلوںمیں نہ بجھنے والی جو آگ روشن کی تھی وہ محض اس قسم کی پر جوش عبارتوں سے روشن نہیں کی تھی‘ جس کی عمر ’’اگر ماند شبے دیگر نمی ماند‘‘ کی طرح بہت مختصر ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک تیار ہونے والا وہ فکری اور علمی لٹریچر تھا‘ جس نے اس زمانے میں اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا تارو پود بکھیر دیا تھا۔  الجہادفی الا سلام ‘ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘ تفہیمات‘ تنقیحات‘ مسئلہ جبرو قدر ‘ پردہ ‘ حقوق الزوجین اور تجدید و احیاے دین جیسی بلند پایہ کتب میں ان مسائل پر بھی مفصل بحث کی گئی تھی جو مغربی تہذیب کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام زندگی کے ہر پہلو کو بھی نہایت دل نشیں انداز میں   مثبت طور پر سامنے لایا گیا تھا ۔

اس لٹریچر سے ہندستان کے طول و عرض میں بکھرے ایسے بہت سے افراد پیدا ہو گئے تھے‘ جو اسلام کی صداقت اور دور حاضر میں ممکن العمل سب سے بہتر نظام ہونے پر قلبی اطمینان اور ذہنی یکسوئی رکھتے تھے ۔ انھی بکھرے ہوئے لوگوں میں سے چند با ہمت افراد نے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں  جمع ہو کر جماعت اسلامی قائم کر دی ۔

جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد مولانا مودودیؒکی علمی اور تحقیقی کتب جو محض اپنی قوت سے مسلم ہندستان کے اہل فکر کے حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہی تھیں‘ ان کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ۔ کیونکہ جماعت سے وابستہ ہر شخص ان کتابوں کی اچھی خا صی تعداد اپنے پاس رکھتا اور معاشرے میں ہمہ وقت ایسے اصحابِ ذوق کی تلاش میں رہتا جن کویہ کتب مطالعے کے لیے دی جا سکیں۔ اس سلسلے میں’’پہلے کون سی کتاب مناسب ہو گی‘‘، کا انتخاب مشکل کام ہوتا تھا۔ مگر دعوت کے جذبے سے سرشار جماعت کے کارکن اپنے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہر شخص کے ذہن کے مطابق کتاب کے انتخاب میں خا صی مہارت کا ثبوت دیتے تھے۔

۱۹۴۶ء میں جب کانگریس کی طرف میلان رکھنے والے مسلمانوں اور مسلم لیگی فکر رکھنے والوں کے درمیان گرما گرم مباحثے ہر سطح پر برپا رہتے تھے‘ لکھنؤ میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے بڑے بھائی کانگریس کے بہت زیادہ طرف دار تھے۔ ہندئووں اور کانگریسیوں کے بعض متعصبانہ کاموں کے باعث وہ کانگریس سے بیزار ہوئے تو ان کے برادر خورد میرے پاس آئے کہ ان کو    اس موقع کی مناسبت سے کوئی کتاب مطا لعے کو دی جائے۔ ابتداً میں نے کانگریس کے خلاف ان کے جذبات کو پختہ تر کرنے کے لیے  مسلمان اور موجودہ سیا سی کش مکشحصہ دوم   دی‘ مگر تھوڑی ہی دیر میں میری رائے تبدیل ہوئی‘ چنا نچہ میں نے ان کو حصہ دوم کی بجاے سیاسی کش مکش ‘ حصہ سوم دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حصہ دوم پڑھ کر ان کی کانگریس کے خلاف نفرت تو یقینا پختہ تر ہو جاتی‘ مگر شائد وہ جماعت کے کام کے لیے آگے نہ بڑھتے۔ چنانچہ حصہ سوم پڑھ کر میرے اندازے کے عین مطابق وہ جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے۔

ان کتب کے انگریزی تراجم‘ نیز جنوبی ہندستان کی بعض علاقائی زبانوں میں بھی تراجم تیار ہو گئے‘ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا بڑا علمی فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے جماعت کے خلاف اور با لخصوص مولانا مودودیؒکی فکر کے خلاف زبردست طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ ہر طرف سے جماعت پر اعتراضات کی بو چھاڑ شروع ہو گئی ‘ مذہب اور بالخصوص اسلام دشمن حلقے اسلام اور مذہب کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے گمراہ کن سوالات اٹھانے لگے۔ اس فضا میں بھلا قادیانی اور منکرین حدیث کیوں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ’’ علم کلام ‘‘ کے پٹاخوں سے فضا کو دھواں دھار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں اٹھائے گئے ان اعتراضات کے مدلل جواب دینے کی ضرورت پیش آئی جو شاید عام حالات میں اس طرح سے سامنے نہ آتی۔ یوںاسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے علمی کام کا ایک موقع میسر آگیا۔

چنانچہ مولانا مودودیؒاس علمی چیلنج کا سامنے کرنے کے لیے کم ازکم۱۹۴۵ء تک با لکل تن تنہا اور اس کے بعد بھی ‘ جب کہ ان کو مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی کمک میسر آ گئی تھی‘ زیادہ تر خود ہی   تمام سوالات و اعتراضات کے جوابات اپنے مضامین کے ذریعے اور  ترجمان القرآن میں ’’رسائل و مسائل‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت بڑے اعتماد اور جی داری سے لکھتے رہے۔

مولانا مودودیؒ کے یہ جوابات رسائل مسائل کے نام سے پانچ حصوں میں شائع ہوچکے ہیں‘ حقیقتاً ایک با لکل نئے طرز تحریر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ ان کے اندر علمی وضاحت‘ تحقیقی متانت‘ منطقی استدلال اور ادبی جمال کے ساتھ لطیف مزاح اور ایسے طنز و تعریض کی آمیزش بھی ہے جس کا نشانہ بننے والا کبھی تو خود بھی لطف لیتا ہے اورکبھی اس کی کسک برسوں بلکہ زندگی بھر نہیں بھول پاتا ۔

ایک صاحب کو شکایت تھی کہ ان کی غیر شادی شدہ بہن مولانا مودودیؒکی کتب پڑھ کر اس درجہ اسلامی احکام اور پردے کی پابند ہو گئی ہے کہ وہ ایسی معاشرتی تقریبات سے بھی دور رہتی ہے‘ جو اس کے خیال میں اسلام کے خلاف ہیں اور اپنے لباس و معاشرت کے لحاظ سے وہ خاندانی روایات کو یکسر ترک کر چکی ہے‘ تو بتائیے کہ اب اس کا رشتہ آئے گا تو کہاں سے آئے گا؟ اس پر اپنی ’’ فریاد ‘‘ بیان کرنے کے بعد انھوں نے مولانا مودودیؒسے درخواست کی کہ وہ ان کی بہن کو سمجھائیں‘ تاکہ وہ کسی طرح اس طرز زندگی سے باز آ جائے۔ اس طویل فریاد کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے صرف یہ لکھا :ــ ’’اس معاملے میں ‘ میں خود بھی بے بس ہو ں۔ آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کر لیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۴۲۷)

اس خوش گوار اور مقصدی طنز و تعریض کے ساتھ ساتھ جب کوئی علمی مسئلہ زیرِ بحث ہو‘ خواہ اسلام کے کسی حکم کے حوالے سے یا جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے‘ تو زور استدلال کے ساتھ ایسا اجمال جس سے بات سمجھنے میں خلل واقع نہ ہو اور ایسی تفصیل جس کا کوئی حصہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو‘ اس کی مثالیں رسائل و مسائل کے ہر صفحے پر مل جائیں گی۔ ایک جگہ الجامع الصحیح کی ایک حدیث پر ایک صاحب کے اعتراض کے جواب میں مولانا مودودیؒنے لکھا ہے: ’’اس (حدیث) میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سورج ہر آن اللہ کے حکم کا تابع ہے ۔ اس کا طلوع بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کا غروب بھی ۔ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں‘ بلکہ وہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سر بسجود قرار دیتا ہے‘ یعنی کلیتاً تابع امرِ رب ہونا ۔ پھر سورج کا مغرب ایک نہیں بلکہ قرآن کی رو سے بہت سے مغرب ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر آن ایک خطۂ زمین میں غروب اور ہرآن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے اجازت مانگ کر طلوع و غروب ہونے کا مطلب ہرآن امر الٰہی کے تحت ہونا ہے‘‘۔

حدیث سے زمین کے ساکن اور سورج کے گردش کرنے کا جو تاثر ملتا ہے‘ اس پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ان (انبیا) کا کام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج‘ ان کا کام تو یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین و سورج کا مالک و فرماںروا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کر رہی ہے‘‘۔

ایک دوسری مثال میں مولانا مودودیؒنے ذیل کی اس مختصر عبارت میں’’زکوٰۃ‘‘کی شرعی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعلیٰ مقاصد اور فرد و معاشرے پر اس کے تعمیری اثرات کو بیان فرمایا ہے: ’’زکوٰۃ‘‘ کے لغوی معنی طہارت اور نمو کے ہیں۔ انھی دونوں صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی عبادت کو کہتے ہیں جو ہر صاحب ِنصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کر کے اس کا مال پاک ہو جائے اور اس کا نفس ‘ نیز وہ سو سائٹی جس میں وہ رہتا ہے بخل ‘ خود غرضی ‘ بغض وغیرہ جذبات و رویے سے پاک ہو اور اس میں محبت و احسان‘ فراخ دلی اور باہمی تعاون و مواساۃ کے اوصاف نشو و نما پائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴)

برعظیم کی حدود سے نکل کر مولانا مودودی ؒ کی تحریر عالم اسلام کے افق پر اس وقت طلوع ہوئی جب عرب دنیا میں بالعموم اور مصر میں با لخصوص اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا دور شباب تھا ۔ ترکی میں بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک اور دیگر اسلامی تحریکیں زیر زمین سر گرمِ عمل تھیں اور ایران میں شاہ کے ظالمانہ دور حکومت میں علما اور مجتہدین نہایت خاموشی سے اسلامی فکر کی آبیاری کر رہے تھے ۔

یہی وہ وقت تھا جب استادِ محترم جناب مولانا مسعود عالم ندوی ؒ نے مرکز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’دار العروبہ‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ مولانا ندوی مرحوم سے عالم عرب کے ادیب‘ علما اور صحا فی پہلے ہی سے اچھی طرح آشنا تھے ۔ وہ عرب دنیا میں ’’ عین العروبہ ‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ۔ مر حوم کو اپنی صحت اور برعظیم کے پرا گندہ سیاسی حالات کی وجہ سے یکسوئی سے  کام کا موقع کم ہی مل سکا‘ تاہم انھوں نے جالندھر میں تقسیم ہند سے ذرا قبل کام شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ کے بعض اہم مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ انھوں نے وسیع پیمانے پر خط و کتابت کے ذریعے عالم اسلام کی ممتاز شخصیات سے رابطہ کر کے ان کو جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ سے متعا رف کرایا۔ جالندھر میں ابھی کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں آگئی اور مولانا ندویؒ اپنے رفیق کار عاصم الحداد مرحوم کے ساتھ نہایت بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آ گئے۔ یہاں اپنے کام کو جلد از جلد منظم کرنے کے بعد وہ عاصم الحدادؒ کے ساتھ عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ یہاں علما اور ادیبوں سے براہ راست طویل مذاکرات کیے ۔ اسی ز مانے میں مولانا مودودیؒ کے متعدد اہم مضامین اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ ، اسلام کا نظریۂ سیاسی اوردین حقوغیر ہ کا تر جمہ عربی زبان میں شائع ہو چکا تھا ۔ ان تراجم کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اخوان المسلمون کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ سیدقطب ‘ ان کے بھائی محمد قطب ‘ محمد الغزالی ‘ شیخ محمد محمود صواف‘ ڈاکٹر مصطفی سباعی اور بے شمار علما اور رہنما ان سے متاثر ہوئے ۔ اس کے بعد جب مولانا مودودی کی دیگر اہم کتب کا تر جمہ عربی میں شائع ہوا تو عرب دنیا میں مو لانا مودودی کی فکری قیادت با لخصوص اسلامی حلقوں میں مسلّم ہو گئی ۔

انھی عربی تراجم کی مدد سے چند اہم مضامین کے تر جمے فارسی میں ایران کے دینی مرکز ’’قم‘‘ سے شائع ہوئے ۔ انگریزی تراجم اور عربی تراجم کی مدد سے کئی مضامین کے ترجمے ترکی زبان میں بھی شائع ہوئے ۔ اس کام کے لیے چودھری غلام محمد مرحوم اور جناب خلیل احمد حامدی مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھر خود مولانا مودودیؒ کے دوروں سے ‘ جو حج و عمرے کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی ‘ مدینہ یونی ورسٹی اور دیگر علمی و دعوتی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے‘ ان سے مولانا مودودیؒ کو عالم اسلام کے فکری قائد کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا ۔

راقم کو ۱۹۷۱ء سے لے کر اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ۔ بالخصوص شرق اوسط کے ممالک: بحرین‘ کویت ‘ قطر ‘ متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب تو بار بار جانا ہوا اور الحمدللہ عوام کے ساتھ ساتھ علما ‘ مشائخ ‘ صحافی‘ وزرا اور حکومت کے ذمہ داروں سے تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ میں نے ان میں بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی پائی ‘جو نہ صرف یہ کہ مولانا مودودیؒ کو اچھی طرح جانتے تھے‘ بلکہ ان کے علمی ‘ فکری اور تحریکی جد و جہد کے معترف اور قدر دان بھی تھے ۔

میری اس بات کو ہر گزمبالغہ نہ سمجھا جائے کہ اس وقت پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے جد و جہد ہو رہی ہے‘ میرے مشاہدے کے مطابق‘ اس جدو جہد میںبلا واسطہ یا با لواسطہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کا پر تو اور ان کی فکر کے اثرات واضح طور پر مو جود ہیں ‘ بلکہ جو افرا دیا  تنظیمیں زبان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی مخالفت کرنے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پرمولانا مودودی ؒ کی بتائی ہوئی راہ پر ہی چل رہے ہیں ۔ انھی کی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر میں مولانا مودودیؒ کی ہی فکر سے رہنمائی حا صل کر رہے ہیں ۔

تصویر کا یہ ایک دل کش پہلو ہے ‘ جس کی دل کشی کو میں کماحقہ بیان نہیں کر سکا‘ جس کی اصل وجہ توخود اپنی علمی اور فکری نا رسائی ہے‘ مگر اس کی دوسری وجہ یہاں (کینیڈا میں) ضروری کتب کا دستیاب نہ ہونا ہے ۔ مگر تصویر کا دوسرا دل فگار ر خ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے جس ’’رخ دوست‘‘ کو دکھا کر کچھ ’’دیوانے ‘‘ یا ’’ نیم دیوانے ‘‘ جمع کیے تھے ‘ جو افتاں و خیزاں منزلِ محبوب کی طرف سر گرم سفر بھی ہو گئے تھے ‘ افسوس کہ]اب مجھے[ نہ تو کوئی اس دیوانہ بنانے والے ’’حَسن ‘‘کا جلوہ عام کرنے والا نظر آتا ہے‘ نہ اس ’’ حسن ‘‘ کے طالب عشاق کا قافلہ گرمِ سفر دکھائی دیتا ہے۔

پچھلی صدی اختتام پذیر ہوئی اور کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کو اچھا لگے یا برا‘ اسلام کو زندہ اور تابندہ کرنے کے حوالے سے یہ صدی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی صدی تھی!

وہ کون سی چیزہے جس سے سیدؒ کی شخصیت فوراً ہی اجاگر ہو جائے؟

میرا خیال ہے کہ تقاریر اور تحریروں سے زیادہ ان کی تصویر‘ ان کا چہرہ ۔ بڑی بڑی سوچتی ہوئی‘ تھکی تھکی آنکھیں‘ بے پناہ عزم اور ذرا سا حزن۔چہرے پر سرخی اور سفیدی گھل گئی تھی۔ ایک ایسا آدمی جو کبھی اور کسی قیمت پر بھی ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھا۔ سیدؒ صاحب مسکراتے تومعاًحزن اور تکان رخصت ہوجاتی‘ تب چہرہ ہی نہیں پورا پیکرکِھل اُٹھتا۔ گویا چودھویں کا چاند بدلیوں سے نکلے اور مسکرانے لگے اور ‘مسکراتا رہے ‘ حتیٰ کہ پورا ماحول بشاشت سے بھر جائے۔

سید صاحبؒ کو تصنّع اور ریا سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ ریا‘ تصنع اور احساس کمتری برصغیر کے امراض ہیں۔ میں نے  رجال اور اکابر میں بھی کم لوگوں کو ان امراض سے پوری طرح آزاد پایا ہے۔ سید صاحبؒ آزاد تھے‘سر سے پاؤں تک مردِ آزاد۔یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ وہ کبھی کسی سے متاثر نہ ہوئے کہ کسی بھی عہد کا کوئی فرزند اپنے عصرسے یکسربے نیاز نہیں ہوتا‘ لیکن ابوالاعلیؒ ان نادر و نایاب انسانوں میں سے ایک تھے جو زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ البتہ رہن سہن‘ خوردو نوش‘  گفتگو کے انداز میں وہ دہلی کے طبقۂ شرفا میں سے تھے اوراس پر قانع بھی۔

اورنگ آباد میں ہوش کی آنکھ کھولنے والے لڑکے نے‘ جس کا خاندان عسرت اور امتحان میں مبتلا تھا مگر شرافت ‘ علم‘ روایات اور وضع داری کا اثاثہ رکھتا  تھا ‘ آنکھ اٹھا کر دنیا کو دیکھا تو وہ کیا سوچتا تھا ؟ ایک مختصر سی عبارت میں ہم اس موضوع پر زیا دہ کلام نہیں کر سکتے۔ یہ بہت جلد واضح ہو گیا کہ وہ چیزوں کو چھاننے اور پھٹکنے کا قائل ہے۔ مرعو بیت نام کی کوئی چیز اسے چھو کر بھی نہیںگزری۔ خاندانی مقام اور افتخار اگر عُجب کی صورت اختیار نہ کرے تو گاہے مددگار بھی ہوتا ہے ‘اور ہم اللہ کی سنت سے واقف ہیں کہ وہ جنھیں مشعل عطا کرتا ہے‘ ان کے خاندان اکثر اجلے اور صورتیں زیبا ہوتی ہیں‘ تہمت سے پاک ‘ پاکیزگی کا ہالہ لیے۔ ثمربار ہونے والے شجر‘ زر خیز زمینوں اور موزوں موسموں میں اگتے ہیں‘ جہاں آسمان ابرِ رحمت کے لیے فیاض ہوتا ہے۔

کھجورکے باغوں سے بھرے اس خنک شہر میں ختم المرسلینؐ سے ان کے صحابی ؓنے پوچھا : ’یارسولؐ اللہ! کیا ہم آپؐ کے بھائی نہیں ؟‘۔ فرمایا : ’تم تو میرے رفیق ہو ‘ میرے بھائی تو میرے بعد آئیں گے‘۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا :’میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا ؑ کی مانند ہیں‘۔

مؤرخین‘ امام ابن تیمیہ ؒکا حلیہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لفظ کم پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا : ’زیبا صورت‘ چراغوں کی طرح دمکتی آنکھیں اور بارعب ‘ بے ریا‘ اجلی آواز کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے‘۔ سید صاحبؒ کو ابن تیمیہؒ سے ایک نسبت یہ بھی تھی کہ اپنے عہد کی ساری جہالتوں کے خلاف کمال بے خوفی کے ساتھ انھوں نے آواز بلند کی۔

۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہو جانے والے بزرگوں میں سے ایک ‘ میاں محمد حفیظ سے میں نے پوچھا : ’کیا اخوان المسلمون پر ناصر کی یلغار کے بعد سید صاحبؒ اس خوف کا شکار ہوئے کہ کہیں جماعت اسلامی اسی انجام سے دوچار نہ ہو جائے‘ اور کیا اسی لیے وہ قانون کی پابندی پر ضرورت سے زیادہ زور نہ دینے لگے تھے؟‘۔سوال مکمل نہ ہوا تھا کہ بے ساختہ انھوں نے کہا :   ’ـکیا کہتے ہو ‘ خوف اس شخص کی کھال میں کبھی داخل نہ ہوسکاـ‘ ۔

ابن تیمیہؒ سے ایک مشابہت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے ہر علمی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ۔ـ الجہاد فی الاسلام ‘ پـردہ‘ تفہیمات  اورـسود ایسی تصانیف آج بھی ان موضوعات پر حتمی حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں اور پون صدی پہلے لکھی گئی ان کتب میں آج بھی کوئی اضافہ نہ ہوسکا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بہت سے پیروکار بھی ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ چشمہ آج بھی رواں ہے لیکن فیض پانے والے کم ہیں۔کہتے ہیں مطالعے اور تحقیق کا ذوق جاتا رہا اور سیاست غالب آ گئی ۔ زندگی کے آخری ایام میں ابوالاعلیٰؒ نے ملال کے ساتھ کہا تھا:’ علمی تحقیق کی روایت ان کے ساتھ قبر میں اتر جائے گی‘۔

جذبات کی غالب ہوتی لہر کو تھامنے کے لیے میں ایک پل کو رکتاہوں کہ جناب عبداللہ   بن مسعودؓ یاد آتے ہیں۔ فاروق اعظمؓ کو مدینہ منورہ کی مٹی کے سپرد کیا جا چکا تو انھوں نے کہا تھا : ’آج علم کے دس میں سے نو حصے اٹھ گئے‘۔ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سلامت تھے اور خود عبداللہ   بن مسعودؓ سلامت تھے ۔جن کے لیے سرکار ؐ نے فہم دین کی دعا فرمائی تھی ۔ لیکن عمر ابن خطابؓ کا امتیاز اور ہی تھا !

فاروق اعظمؓ علم و عمل کا حسین امتزاج تھے ۔ وہ خیال کو فکر اور فکر کو ادارے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے ۔ لہٰذا ‘وہ سرکارؐ کے بعد انسانی تاریخ کے تیوروں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ثابت ہوئے۔ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ جناب ابو بکر صدیقؓ ،انبیا علیہم السلام کے بعد بزرگ ترین شخصیت ہیں ‘ تقویٰ کے طفیل ‘ پاکیزگی کے سبب اور ختم المرسلینؐ کی ہم نشینی ‘ مزاج شناسی اور کامل پیروی کی بنا پر‘ لیکن یہ تو خود سرکارؐ نے فرمایا تھا کہ ’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘۔ سیدابوالاعلیؒ ،حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی اولاد ہیں‘ لیکن اپنے مزاج میں وہ‘ فاروق اعظمؓ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ۔ یہ محض اتفاق تو نہیں کہ ـفاروق ـان کے سب صاحبزادوں کے نام کا ایک جزوہے ۔

سید صاحبؒ ادارے تشکیل دینے میں یقین رکھتے تھے اور انھوں نے ایسے کئی ادارے تشکیل دیے‘ زمانہ جن سے سیکھ سکتا ہے اور اکتساب نور کر سکتاہے ۔ مثال کے طور پر احتساب کا ادارہ ۔ امیر جماعت اسلامی سے لے کر صوبوں ‘اضلاع اور حلقوں تک ہر صاحب منصب کا خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا۔ میں نہیں جانتا کہ کسی دوسری مذہبی یا سیاسی جماعت میں احتساب کا ایسا نظام موجود ہو ‘ ان سے پہلے‘ ان کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی‘ مشرق سے لے کرمغرب تک۔  خوے غلامی کے مارے معاشرے کے اذہان استفادہ نہ کرسکیں تو یہ ایک الگ المیہ ہے۔

چار سال ہوتے ہیں ‘ اسلام ا ٓباد کے ایک ممتاز اسکالر سے سوال کیا کہ کیا ’آپ دیو بند کے فلاں بزرگؒ اور سید صاحبؒ کا تقابل کرنا پسند کریں گے؟‘ قدرے ناراضی کے ساتھ انھوں نے کہا: ’کیسا موازنہ ؟‘ پھر اس مفہوم کا جملہ کہا: ’چراغ کو سورج سے کیا نسبت!‘۔اتفاق دیکھیے کہ ٹھیک ۷۰برس پہلے سیدصاحبؒ نے کسرنفسی کی بنا پر یہی بات کہی تھی۔ البتہ بڑے احترام کے ساتھ ان کی قدامت پسندی کا ذکر کیا تھا ۔ ان اسکالر کے تبصرے نے مجھے موصوف کی تصنیفات کی طرف مائل کیا۔ دینی امور میں ان کی دوررس نگاہ  اور انسان کی نفسیاتی کیفیات کے ادراک نے طالب علم کو مبہوت کر دیا؟۔تب ایک سوال ذہن میں ابھرا کہ ابوالاعلیٰ ؒسے فیض پانے والوں کی تعداد کتنی ہے‘ اور اس پورے مکتب فکر نے کتنے لوگوں کو دین کا رستہ دکھایا جن سے ان بزرگ کا تعلق تھا؟ حیرت سے میں نے دیکھا کہ صرف تفہیم القرآنکا مطالعہ کرنے والے کئی ملین ہوں گے۔ پاکستان میں ‘ بھارت ‘بنگلہ دیش‘سری لنکا‘ کشمیر‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ وسط ایشیا اور شرق اوسط ہی نہیں‘ بلکہ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے ۵۱ ملین مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد۔

یہ کیونکر ممکن ہوا؟

اس لیے کہ سید صاحبؒ موضوع سے انصاف کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ۴۰برس ہوتے ہیں‘ رحیم یار خاں میں کوئی صاحب‘ سید صاحبؒ کے خلاف چیخ رہے تھے۔ بڑھاپے کی وادی اترتا ہوا ایک نیک نام اخباری نامہ نگار ان کا ہدف تھا ۔ بہت دیر وہ خاموشی سے سنتا رہا ‘ پھر اس نے یہ کہا : ’میں آپ کی بات ماننا چاہتا ہوں مگر میں کیا کروں ‘ جب میں سیدمودودیؒ کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو میری حالت ایک بچے کی سی ہو جاتی ہے‘ جو کسی مہربان بزرگ کی انگلی تھامے کشادہ راستے پر چلاجاتا ہو‘۔

لگ بھگ انھی دنوں کا قصہ ہے کہ میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم‘ فاطمہ جناح کی حمایت کے سوال پرجماعت اسلامی سے الگ ہوگئے ۔ وہ دبنگ لہجے‘ راست گفتاری اور قرآن کریم سے اپنی محبت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بحث مباحثے اور بد گمانیوں کا سلسلہ اٹھ کھڑا ہوا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے مزاج کے مطابق اپنی دھن میں مگن رہے۔ انھی دنوں اکابر پرست طبقے کا ایک گروہ ان سے ملنے آیا۔ ممکن ہے وہ گمان کرتے ہوں کہ عوامی زندگی کا عادی بہت دن الگ تھلگ نہ رہ سکے گا۔ شاید وہ ان کا ذہن ٹٹولنے آئے ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب ان کی بات سنتے رہے‘ لیکن جب اپنے مکتب فکر کے بزرگوں کی ستایش میں وہ مبالغے کی آخری حدود سے گزر گئے تو اس آزاد منش آدمی نے یہ کہا :’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مجھے اختلاف ہوا اور میں ان سے الگ ہوگیا‘ لیکن اس اختلاف کے باوجود ‘ یہ بات میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اگر اس زمانے کا کوئی امام ہے تو وہ ابوالاعلیٰ کے سوا کوئی اور نہیں‘۔ ڈاکٹر صاحب نے سید صاحبؒ سے محبت کا رشتہ استوار رکھا۔ میاں طفیل محمد نے ایک بار خوش گوار حیرت سے کہا : ’سید صاحبؒ تفہیم القرآن میں مصروف ہوں‘ تب بھی آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔ میاں طفیل محمد سے زیادہ ابوالاعلیٰ کو کون جانتا تھا کہ اس یکسو اور نیک طینت آدمی نے اپنی پوری زندگی ان کی نذر کر دی    ؎

حاصل عمر نثار رہ  یارے کر دم

شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم

ٰؒلیکن سید صاحبؒ کی شایستگی اور وضع داری تو کبھی کبھی انھیں بہت قریب سے جاننے والوں کو بھی حیران کر دیتی۔

میں ایک درویش کی خدمت میں حاضر تھا ۔ سیرت رسول ؐ کے رموز سے آشنا وہ تصوف کے ایک نئے مکتب فکر کے بانی ہیں ۔ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں افراد ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مسنون دعائیں پڑھتے اور اسماے ربانی کا ورد کرتے ہیں ۔ وہ اللہ سے محبت ‘ سنت کی پیروی اور مخلوق خدا سے خیر خواہی کے علاوہ ‘ توازن ‘ اعتدال اور فرقہ پرستی سے گریز پر زور دیتے ہیں ۔ حیرت انگیز فراست کے اس آدمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک نظر میں آدمی کو پہچان لیتے اور فوراً ہی اس کی عادات و خصائل کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ میں‘ اپنے سوالات کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور وہ کمال شفقت سے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ تین ماہ ہوتے ہیں ‘ میں نے بعضـ داعیان کے بارے میں پوچھا ۔ ایک آدھ سوال کا جواب دینے کے بعد انھوں نے کہا: ’ندی نالوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو‘ دریا کے بارے میں سوال کرو‘ ۔ عرض کیا:’ـ دریـا؟‘ فرمایا :’ سـید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ہم ان کی فکر سے متفق نہیں‘ مگر وہ اپنے عہد کے شایستہ ترین آدمی تھیـ‘۔ باباے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا: ’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اردو زبان کو شایستگی عطا کی‘۔

کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں شایستگی اور شجاعت اس طرح گھل مل جائیں  جیسے سید صاحبؒ کی شخصیت میں ۔ کم ہی کسی شخص کی ذات میں اتنے اوصاف یکجا ہوتے ہیں ۔ اپنے عہد میں سب سے بڑی تعداد کو متاثر کرنے والا عالم دین ‘ سیاست کی آلودگیوں سے پاک ایک ممتاز سیاست دان ‘ ایک منفرد منتظم اور اپنے دور کا بے مثال نثر نگار اور خطابت میں ایک نئے انداز کا بانی۔ دو آدمی ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو زبان کو مالا مال کردیا: علامہ اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔

اقبالؒ پوری انسانی تاریخ میں کسی عصر پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شاعر ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ انھوں نے ایسے موضوعات کو شعر کا قالب عطاکیا‘ کہ ان موضوعات پر کلام کی کبھی کسی کو جرأت نہ ہو سکی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انھی کے علم‘قوت متخیلہ اور وجدان کا آدمی یہ کارنامہ انجام دے سکتا تھا ۔

سید صاحبؒ اپنے دور کے عظیم ترین نثر نگار تھے اور خود اقبالؒ نے ۳۵سالہ ابوالاعلیٰ ؒسے امید استوار کی‘ حالانکہ ابھی ان کا چرچا محدود تھا۔ اس کے باوجود  ان سے مل کر ایک نیا  اور منفرد ادارہ تخلیق کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ یہ سید صاحب کے علم کا اعتراف تھا ‘ حسن نیت اورہنر کا بھی۔ اقبالؒ کی طرح ابوالاعلیٰ ؒکا اعجاز ان کے لہجے کا مردانہ پن ہے۔ ایک سچا‘ کھرا اور دوٹوک انداز۔ ان کے حسن کلام کا جادو یوں تو ہر کہیں نظر آتا ہے‘ لیکن سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن میں۔ دوسرے تراجم سے موازنہ کیا جائے تو فوراً ہی آشکار ہوتا ہے کہ قلم پہ جیسی قدرت اورابلاغ کا جیساحُسن سیدؒ کو عطا ہوا تھا‘ کسی اور کو نہ ہوا تھا۔

مولانا ابوالکلام آزادؒ ہیں‘ جن سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن ‘ حدیث ‘تاریخ اور عصری علوم میں وہ یگانہ اور ممتاز مانے جاتے تھے اور جوشِ کردار کا ایک نمونہ بھی۔ مداحوں کی ایک بڑی تعداد انھوں نے پیدا کی‘ دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر ان کے ذکر سے گونجنے لگا۔ ابوالکلامؒ اور ابو الاعلیٰ ؒکے  ترجمۂ قرآن کا بیک وقت مطالعہ کیجیے تو تعین آسان ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ بھی کہ ساری عظمت کے باوجود ابوالکلامؒ کی تحریر تصنّع اور اہتمام سے کم ہی پاک ہوتی ہے۔ ابوالاعلیؒ کے ہاں بلاغت زیادہ ہے اور تصنع کا نام و نشان تک نہیں ۔ ایک عالم ان کی زبان دانی کا اعتراف کرے گا اور ایک عامی مفہوم کو پوری طرح پالے گا۔

ادب کی تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ممتاز اہل قلم کی جولانیِ طبع تا دیر قائم نہیں رہتی ۔ امیرتیمور کے ذکر میںہیرالڈلیم کا قلم تصاویر بناتا ہے اورالفاظ موتیوں کی طرح جڑتا ہے۔ لیکن جب اس نے صلاح الدین ایوبی اور اس کے عہد کی کہانی لکھی تو اپنے موضوع سے انصاف کر سکا اور نہ اس دور کے تاریخی کرداروں سے عدل۔ ناول نگاری میں انیسویں اور بیسویں صدی کے روسیوں کا کوئی ہم سر نہیں۔ لیکن دوستوفسکی اور ٹالسٹائی کی سب تحریروں کا معیار یکساں نہیں ۔ خود ابوالکلامؒ کا حال بھی مختلف نہیں ۔

سید صاحبؒ کا عجیب و غریب امتیاز یہ ہے کہ معیار کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہزاروں صفحات ‘  ان گنت موضوعات اور نصف صدی کا سفر‘ مگر شہسوار کے تیور ہمیشہ ایک سے رہے۔ اردو زبان اور ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے  یہ بات میں پورے وثوق سے عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص صرف سید صاحبؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرے تو وہ زبان و بیان پر دسترس کے لیے اپنے مقصود کو پالے گا۔ سید صاحبؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دل سے زیادہ دماغٖ کو  پکارتے ہیں۔ دلیل ان کی تلوار ہے اور اس شمشیر سے انھوں نے لاکھوں دلوں کو شکار کیا۔ کوئی تعجب نہیں کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کرنے والوں کی اکثریت ان کے قلم سے دعوت و تزکیے کے دائرے میں داخل ہوئی ۔ کیا کسی دوسرے ادیب کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟

برصغیر کی تاریخ میں ابوالاعلیٰ ؒسے بڑھ کے شاید ہی کسی شخص کی کردار کشی کی گئی ہو اور یہ کارنامہ علماے کرام کے ایک طبقے نے انجام دیا‘ اور پھر سبھی مکاتب فکر نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ غزالیؒنے سوال کیا تھا : ’جب قرآن مجید کا ایک درس دینے  والا دوسرے کو دیکھتا ہے تو نا خوش کیوں ہوتا ہے؟ اسے تو خوش ہونا چاہیے کہ روشنی کے فروغ میں کوئی اور بھی مددگار ہے‘۔ پھر خود ہی جواب دیا : ’اس لیے کہ دل حب جاہ سے بھرے ہوتے ہیں۔ مقصود مقبولیت ہوتی ہے اور اپنے گروہ کا فروغ‘۔

ابوالاعلیٰ ؒفرشتے نہ تھے کہ ان سے اختلاف نہ کیا جاتا اور پیغمبر نہ تھے کہ ان پر ایمان لازم ہوتا لیکن علمی اختلاف شایستگی اور قرینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ افسوس کہ ابو الاعلیؒ کے مخالفین کی عظیم اکثریت ان تقاضوں کا ادراک نہ کر سکی اور سب سے بڑا سبب وہ تعصب تھا‘ جس نے دلوں کو زنگ لگا دیا‘ دماغوں کو جکڑ لیا اور تناظر کو محدود کر دیا تھا‘ یا حسد کہ جو پہاڑ جیسے آدمی کے مقابل انھیں  کمتری کے احساس میں مبتلا کرتا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ ایک آدھ نہیں ‘ بہت سے علماے کرام نے ابوالاعلیٰؒ کو عالم دین تسلیم کرنے سے انکار کردیا ‘اور ان میں سے ایک نے پھبتی کسی کہ وہ کسی دارالعلوم کے فارغ ا لتحصیل ہیں اور نہ کسی یونی ورسٹی کے گریجویٹ۔

یہ۱۹۲۴ء کی بات ہے ۔ ایک اخبار نویس ‘صاحب ِطرز ادیب اور ایک عالم دین کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کے چرچے کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن رات کے تیسرے پہر وہ جاگتے  اور شاہجہان کے دور سے آباد دلی کے قدیم گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے مولانا عبدالسلام  نیازیؒ کے دروازے پر جا دستک دیتے ۔ بوڑھا استاد ایک الگ ہی مزاج کا آدمی تھا۔ عمر بھر اسے کسی دارالعلوم سے واسطہ رہا اور نہ مکتب فکر سے کوئی علاقہ۔ وہ عطر بنا کے رزق کماتا اور اسے خانقاہوں میں قوالیاں سنتے ہوئے دیکھا جاتا۔ ایک زاہد شب زندہ دار ‘ من موجی اور آزاد۔ کہا جاتا تھا کہ اس عہد کے ہندستان میں کوئی شخص قدیم علوم میں اس کا ہمسر نہ تھا۔ وہ تعلیم و تدریس کا ایک الگ دبستان اور تدریس کا منفرد اسلوب رکھتا تھا ۔ قرآن مجید کے منفرد مفسر مولانا حمید الدین فراہیؒ کی طرح وہ ایک ایک سطر پڑھانے کے بجاے ‘ طالب علموں کو خود سے پڑھنے پر مائل کرتا ۔ مشکل مقامات میں وہ ان کی مدد کرتا اور قرینہ یہ تھا کہ کسی بھی مضمون میں وہ صرف ایک کتاب کا درس دیتا۔ باقی تمام مباحث وہ اسی کتاب پر بحث کے دوران سمیٹ دیتا ۔ وہ تعلیم و تدریس کا کوئی معاوضہ قبول نہ کرتا اور صرف غیر معمولی طالب علم ہی اس کے ہاں بار پا سکتے تھے۔ سید صاحبؒ نے اپنے بڑے بھائی سید ابوالخیرؒکے ساتھ بچپن میں اسی عظیم استاد سے تعلیم پائی تھی۔

سید صاحبؒ کی اپنی روایت یہ ہے : ’مولانا عبدالسلام صاحب فلسفہ و معقولات کے ماہر تھے۔ نہایت شیوہ بیان اور طلیق اللسان کہ گھنٹوں ان کی تقریر سن کر بھی آدمی سیر نہیں ہوتا تھا۔ میرے والدماجد کے بہت عقیدت مند تھے۔ والد صاحب مرحوم نے میرے بچپن ہی میں ان سے کہہ دیا تھا کہ اسے عربی پڑھانا۔ چنانچہ بچپن میں بھی میں نے ان سے پڑھا۔ پھر الجمعیۃ ‘دہلی کی ادارت کے زمانے میں جب ان سے عرض کیا کہ کچھ کتابیں رہ گئی ہیں‘ انھیں پڑھنا چاہتاہوں‘ تو فوراً مان گئے۔ فرمایا: صبح کی اذان کے وقت میرے مکان پر آجایا کرو۔ ان کا مکان ہمارے مکان سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں باقاعدگی سے صبح کی اذان کے ساتھ ہی ان کے دروازے پر موجود ہوتا۔ کسی روز اگر ان کی طبیعت آمادہ نہ ہوتی تو اندر ہی سے فرما دیا کرتے: ’سید بادشاہ‘ آج طبیعت حاضر نہیں ہے‘۔ مرحوم سلسلۂ چشتیہ سے وابستگی رکھتے تھے۔ ’نیازی‘ کی نسبت بھی ایک بزرگ نیازاحمد بریلوی سے عقیدت کی بنا پر تھی۔ وہ بزرگ چشتی تھے۔ ہمارا خاندان‘ہندستان میں سلسلۂ چشتیہ کا پیش رو ہے۔ اس بنا پر وہ سن رسیدگی اور استاد ہونے کے باوجود میری بہت عزت کرتے اور اسی بنا پر مجھے ’سید بادشاہ‘ کہہ کر پکارتے‘۔

آخر شب کا یہ منظر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے ۔ ۲۲سالہ ابوالاعلیٰؒ اردو‘ انگریزی اور عربی زبان پہ دسترس رکھتے تھے ۔ وہ ایک بڑے اخبار کے مدیر تھے ۔ ایک عالم اور منفرد انشا پرداز کی حیثیت سے ابھررہے تھے۔ اگر ان کے ذہن میں قیادت کا سودا ہوتا تو آخر شب کی اس ریاضت کے بجاے کیا وہ اظہارکی راہ اختیار نہ کرتے ۔ غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور اہل تعصب کی آنکھوں اور کانوں کے لیے پردے۔

کبھی کبھی طالب علم یہ سوچتا ہے کہ کیا قدرت کاملہ نے اس منفرد استاد عبدالسلام نیازیؒ کو صرف اس لیے جہان آب و گل میں بھیجا تھا کہ طلب علم میں ابوالاعلیؒ کی رہنمائی کرے کہ جسے دیوبند اور علی گڑھ میں سے کسی ادارے کا رخ نہ کرنا تھا ۔ اپنے نو دریافت شدہ مذہبی احساس کی وجہ سے ان کے والد علی گڑھ سے دور جا چکے تھے‘ جہاں کبھی انھوں نے تعلیم پائی تھی  اور ذاتی مجبوریوں یا معاشرتی رجحانات کی بناپر وہ دیوبند سے بھی دُور تھے ۔ دیوبند حریت کیش تھا لیکن اپنی حدود میں مقید‘ اور پھر استعمار کے خلاف حد سے بڑھی ہوئی نفرت اسے گانگریس کے اتنا قریب لے گئی کہ وہ مسلمانوں کے قومی مفادات سے بیگانہ ہو گیا۔ اقبالؒ کو اسی لیے دیوبند سے اختلاف تھا ۔ اسی لیے وہ قائد اعظمؒ کو اس پر ترجیح دیتے ‘ حالانکہ مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ سے انھیں ایک گونہ تعلق تھا اور پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم کے سوال پر انھیں محمد علی جناحؒ سے رنج بھی پہنچا‘ لیکن دور تک دیکھنے والا آدمی نا خوش ہونے کے باوجود ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ طالب علم کا گمان یہ ہے کہ سید صاحبؒ کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار کرنے میں یہ پہلو اقبال ؒکے مد نظر تھا ۔ وہ الجہاد فی الاسلام اور ترجمان القرآن کی تحریروں سے متوجہ اور متاثر ہوئے اور انھیں پنجاب منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔

اقبالؒ اور ابوالاعلیؒ کے تعلق میں ‘ ہم سید صاحبؒ کی بے ریا ‘سیر چشم اور بے باک شخصیت کی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔ لاہور میں وہ اقبالؒ سے ملے اور ـدارالاسلامـ کے منصوبے پر اتفاق رائے ہوچکا تو ان سے عرض کیا:’میری ایک بات آپ مان لیجیے‘ سـرکا خطاب واپس کردیجیے کہ یہ آپ کو  جچتا نہیں‘۔ بعد میں ایک ذاتی دوست کو ابوالاعلیؒ نے بتایا کہ یہ بات سن کر اقبالؒ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں ۔ سیدؒ کو ملال ہوا کہ انھوں نے اقبالؒ کو رنجیدہ کر دیا۔ کیا اقبالؒ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ ۳۴سالہ ا سکالر نے‘ جسے انھوں نے معنوی پدر کی نگاہ سے دیکھا تھا اس کمزوری کا ذکر کیا‘ یا اس پر کہ انھیں اس خطاب کو قبول کرنے کی یاد نے دل گرفتہ کر دیا تھا؟

اہل تعصب طعنہ زن رہے لیکن ابوالاعلیؒ کی زندگی ہی میں ان کے علم کا اعتراف کر لیا گیا۔ وہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک نمونۂ عمل تھے اور درحقیقت ایک اعتبار سے ان سب کے رہنما۔ ۱۳ برس ہوتے ہیں ‘ ٹھیک یہی دن تھے جب برف سے ڈھکے ایک پہاڑ کی چوٹی پر میں نے گلبدین حکمت یار کے مطالعے کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی ۔ حکمت یار کے جواب کا ایک حصہ یہ تھا : ’ـمیں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تمام آثار کا مطالعہ کیا ہے‘۔ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد انھوں نے کہا: ’زـندگی کے سب اسرار میں نے قرآن سے سیکھے ہیںـ‘۔ سارے زمانے سے برسر جنگ اس جاںباز نے تفہیم القرآن کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا ۔

مصر ‘ شام ‘ سعودی عرب ‘لبنان‘ امارات میں اخوان المسلمون کے قارئین کا وسیع حلقہ موجود تھا۔ ایران میں ان کی کتابیں شائع کرنے والوں میں ایران کے موجودہ ولایت فقیہ خامنہ ای بھی شامل تھے ۔ انڈونیشیا سے ترکی تک‘ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے ان سے فیض پایا۔ اس سارے معاملے کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ سید صاحبؒ نے عالم اسلام میں اپنی حیرت انگیز مقبولیت کا کبھی حوالہ نہ دیا۔ جو لوگ اپنے مقاصد کے لیے جیتے ہیں وہ ان چیزوں سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ خیرہ کردے۔

۱۹۷۴ء کی ایک شام اتفاق سے میں ۵اے ذیلدار پارک میں موجود تھا‘ جب اردن کے فرماں روا شاہ حسین نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔ اگلی شام کسی نے پوچھا تو  قدرے بیزاری کے ساتھ انھوں نے جواب دیا: ’ان لوگوں کو زیادہ اہمیت نہ دیا کیجیے‘۔ میری اخباری زندگی کے ۳۵ برس سیاست دانوں کے درمیان گزرے ہیں ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ موقع پرستی کے معاملے میں سیاست دان تاجروں سے بھی زیادہ حریص ہوتے ہیں ۔ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اخبار میں خبر چھپوانے کا اہتمام کرتا لیکن سید صاحبؒ کو یہ ذکر تک گوارا نہ تھا۔ جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک شخص برسراقتدار آیا‘ جوترجمان القرآن کا قاری تھا اور جس نے تفہیم القرآنسمیت ان کے لٹریچر کے بڑے حصے کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔ ابوالاعلیؒ اس سے بھی بے نیاز رہے۔ وہ حکومت اور حکمرانوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے‘ سیاسی موقع پرستی سے وہ بہت بلند تھے۔

سیاست دان کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ سیاست کی آلایشوں سے پاک رہے۔ انھوں نے زمانے کی رو میں بہنے سے انکار کر دیا اور ہنگامی عوامی رجحانات سے فائدہ اٹھانے کی کبھی کوشش نہ کی ۔ ان کے مختلف اور منفرد انداز خطابت کا راز یہی ہے۔ جس برصغیر میں انھوں نے ہوش کی آنکھ کھولی‘ وہ ابوالکلامؒ ‘ محمد علی جوہرؒاور بعد ازاں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آگ بھڑکا دینے والی خطابت سے گونج رہا تھا ۔ ایک اعتبار سے تحریک آزادی کو اس انداز خطابت کی ضرورت بھی بہت تھی۔ ابوالکلامؒ تو خیر کانگریس سے متاثر تھے اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ دیوبند کی طرف مائل تھے‘ لیکن محمد علی جوہرؒ کے تو وہ بہت مداح بھی تھے‘ اس کے باوجود ابوالاعلیؒ کے غور و فکر نے انھیں قائل کر دیا کہ آخری تجربے میں جذبات سے اپیل کرنے والی خطابت اُمت اور اسلام کے مفاد میں نہیں؛لہٰذا سوچ سمجھ کر انھوں نے تحریر اور تقریر کا ایک الگ اسلوب اختیار کیا جو دل نہیں‘ دماغ سے خطاب کرتا ہے ۔ وہ قاری کو اپنی دلیل سے فتح کرتے اور اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اس گمان میں کبھی مبتلا نہ ہوئے کہ انھیں اپنے زمانے کی قیادت کرنی ہے ۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ دارالاسلام پہنچے اور ان کا سامان تانگے سے اتارا جا رہا تھا ۔ جذبات سے مغلوب نہ ہونے والے ابوالاعلیؒ اس منظر کو دیکھتے رہے‘ معاً ان کی آنکھوں میں نمی آگئی اور انھوں نے کہا: ’’آج تک میں ایک تھا اور اب دو ہو گیا ہوں‘‘۔ ادھر مولانا امین احسنؒ کا مزاج یہ تھا کہ دارالاسلام میں ان کے درس قرآن کے دوران ایک بار جب کسی نے یہ کہا کہ ابوالاعلیؒ کی رائے اس باب میں مختلف ہے‘۔ تو ان کا جواب یہ تھا : ’’اـنھیں کیا پتا؟‘‘ـ ابوالاعلیؒ اس پر مسکرا دیے۔ انھی برسوں میں سید صاحبؒ نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا تو ایک روایت کے مطابق مولانا امین احسن اصلاحیؒ  نے انھیں اس کا م میں ہاتھ نہ ڈالنے کا مشورہ دیا ۔ مولانا امین احسنؒ یقینا ایک بڑے عالم تھے اور انھوں نے قرآن کریم پر غوروفکر اور تدبر کا سلیقہ اپنے عہد کے عظیم اسکالر مولانا حمیدالدین فراہیؒ سے سیکھا تھا۔ لیکن ایک بات وہ سمجھ نہ سکے کہ ابوالاعلیؒ کتنی ریاضت کے آدمی ہیں اور اللہ نے انھیں کیسا دماغ عطا کیا ہے ۔ مسلمانوں نے سرور عالم ؐ کے اس ارشاد پر بہت کم غور کیا ہے کہ اگر آدمی زہد اختیار کرے تو اسے یوں علم عطا کیا جائے گا جس طرح کنویں سے پانی نکلتا ہے ۔

سیاست دان کے طور پر میں سید صاحبؒ کے کردار پہ گفتگو کرنا چاہتا ہوں لیکن بات بھٹک کر دور نکل جاتی ہے ۔ ہثت پہلو ہیرا ہے ‘ جو نگاہ خیرہ کیے رکھتا ہے۔ دارالاسلام سے لاہور پہنچنے کے ایک دو روز بعد ہی انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب افتخار حسین ممدوٹ سے کہا کہ صرف ایک بٹالین فوج کو حرکت دے کر مشرقی پنجاب سے کشمیر جانے والا راستہ بندکیا جا سکتا ہے۔ اقتدار کے نشے سے سرشار وزیراعلیٰ کا جواب تھا :’مولوی صاحب‘ آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے‘۔ـ      مولوی صاحب ـتو خیر اپنا کام کرتے رہے لیکن مسلم لیگ کی قیادت اس باب میں ناکام ہو گئی ۔ قائداعظم علیہ الرحمہ نے انگریز کمانڈر انچیف کوجب کشمیر میں پاکستانی فوج کی پیش رفت کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا ۔ باقی کہانی تاریخ کا حصہ ہے ۔ قائد اعظمؒ دل پر کشمیر کا زخم لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

اگلے ۳۲سال ہم سید صاحبؒ کو پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا مقدمہ لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ لیکن ایک منفرد طرز سیاست اور طے شدہ ترجیحات کے ساتھ ۔ یہ طرز سیاست ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے اور نہ ان کی ترجیحات۔ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل اس سیاست دان کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ مسلسل سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ نہ صرف اپنے علمی کام میں محو رہا‘ بلکہ اپنے عصر کے کسی بھی عالم دین سے بڑھ کر لکھا۔شورش کاشمیری نے تعجب کے ساتھ لکھا تھا : صفحات کی تعداد عمر کے دنوں سے زیادہ ہے۔سید صاحبؒ کی سب سے بڑی ترجیح تو ظاہر ہے ریاست میں اسلام کا فروغ ہی تھا۔ اسی لیے ان کے ناقد یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ تاہم‘ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے حوالے سے ان کا کردار کسی  بھی پاکستانی سیاست دان سے زیادہ ہے ۔ اس لیے عتاب بھی سب سے زیادہ انھی پر آیا۔ ان کے لیے پھانسی کی سزا کا اعلان ہوا اور طویل عرصہ انھوں نے زندان میں گزار دیا۔ لیاقت علی خان سے  لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک ہر حکومت درپے آزار رہی ۔ ۱۹۷۲ء میں سید صاحبؒ جماعت اسلامی کی امارت سے الگ ہوچکے تھے‘ لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے پرچم تلے بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلانے والے طلبہ پر‘جاوید ہاشمی جن کے سرخیل تھے ‘ پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا تو سید صاحبؒ کو  میں نے مضطرب  پایا ۔ وہ بوڑھے اور بیمار تھے اور درد کُش ادویہ نے ان کی توانائی چاٹ لی تھی‘  لیکن اس مرحلے پر انھوں نے کہہ دیا : ’طلبہ کے ساتھ اگر یہی سلوک جاری رہا تو میں جلوس لے کر شاہراہ قائداعظم کا رخ کروں گا‘۔

سیاست میں ان کے امتیازات ہیں‘ مثلاً یہ کہ انھوں نے ہر حال میں قانون کی پابندی کو اختیار کیا ۔ ماضی مرحوم کی سیاسی تحریکوں پر بہت گہرائی میں غور و خوض کرنے والے شخص کو یقین تھا کہ قانون کی پاسداری ہی بہترین راستہ ہے‘ اور یہ کہ تشدد اور خفیہ انداز کار سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے‘ بلکہ غیر صحت مند رویے پرورش پاتے ہیں ۔ وہ اس امر پر یقین رکھتے اور اعلان کرتے تھے کہ معاشرہ سدھر نہیں سکتا‘جب تک کہ حکومت زاہد اور متقی گروہ کے ہاتھ میں نہ ہو‘ مگر اس نیک کام کے لیے بھی وہ جوڑ توڑ یا تشدد سے حکومت کے حصول کے کبھی قائل نہ تھے ۔

یہ ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء تھا‘ وہ رحیم یار خان تشریف لائے اور ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ میرے خالہ زاد بھائی محمد طارق نے جو بعد ازاں ۱۲ برس تک سینیٹر رہے ‘ اصرار کے ساتھ مجھے ان سے ایک سوال پوچھنے کو کہا :’’وہ جمہوری جدوجہد کی بے نتیجہ کھکھیڑمیں کیوں پڑے ہیں ‘کیا اسلام کے لیے بزور شمشیر اقتدار حاصل کرنا نامناسب ہے؟‘‘مجھے سید صاحبؒ سے یہ سوال پوچھنے میں تامّل تھا لیکن طارق کے اصرار کو ٹالنا آسان نہ تھا ۔چنانچہ جیسا کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات کا قرینہ ہے‘ میں نے ایک کاغذ پر استفسار لکھ دیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ‘ ان کا جواب مختصر تھا‘ فرمایا: ’یہ پرانے خواب ہیں جو دن کودیکھے جاتے ہیں۔ جو اقتدار طاقت کے بل بوتے پر آتا ہے وہ سخت ناپایدار ہوتا ہے۔ راے عامہ کا راستہ بلاشبہہ بڑا صبرآزما ہے‘ لیکن اگر اسے حکمت کے ساتھ اختیار کیا جائے اور حماقتیں نہ کی جائیں تو اس میں صد فی صد کامیابی ہے‘۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ایسے صاحب الرائے داعی اسلام تھے‘ جن سے نہ صرف ان کے عہد کی تمام اسلامی تحریکوں نے استفادہ کیا‘ بلکہ دعوت دین کے پھیلائو کے لیے آپ کی حکمت عملی کو بھی اختیار کیا۔ علاوہ ازیں متعدد حکومتوں نے قانون سازی کے لیے بھی آپ سے رہنمائی حاصل کی۔

میرے نزدیک سیدمودودیؒ صرف موجودہ زمانے کی اسلامی شخصیت نہ تھے ‘ بلکہ گذشتہ ادوار کی شخصیات میں بھی انھیں بڑا امتیازی مقام حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ برعظیم جنوبی ایشیا میں آپ جیسا کوئی صاحب علم وفضل شخص نہیں پایا گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں پر کوئی بڑے لوگ پیدا نہیں ہوئے‘ بلاشبہہ یہاں پر بڑے عظیم علماے دین‘ نہایت متقی بزرگ اور عظیم دانش ور اور اسلامی جذبے سے سرشار مجاہد پیدا ہوئے اور ان کی خدمات بھی بے پناہ ہیں۔ تاہم میری بحث کا دائرہ یہ ہے کہ سیدمودودیؒ کے کام کی وسعت‘اثرات کی گہرائی‘ سوچ اور تربیت میں ندرت اور اپنے وطن سے باہر کی دنیا کو متاثر کرنے کی مقناطیسی طاقت میں بہرحال اس علاقے کی کوئی شخصیت ان کی ہمسرنہیں۔ اس میں کیا شک کہ یہاں پر دوسرے جلیل القدر بزرگوں نے قیمتی کتب لکھیں یا افراد کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کی دینی تربیت کی‘ جو بذات خود بڑی سعادت کی بات ہے۔ البتہ علم و فکر اور عمل وجہد کے دائروں میں بیک وقت پیش رفت کرنا ایک امتیازی اور مہتم بالشان کارنامہ ہے۔ سید مودودیؒ کی دعوت کا میدانِ کار مکمل اسلام اور مخاطب دنیا بھر کے لوگ ہیں۔ وہ کسی ایک قوم کے عالم‘ کسی ایک گروہ کے قائد‘ کسی ایک قبیلے کے شیخ اور کسی ایک مکتب فکر کے فقیہہ نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ایک ایسے عالم گیر عالم دین اور قائد ہیں‘ جو زمانے کی قید اور ملکی حدود کے پابند نہیں۔

سید مودودیؒ کے ہاں رضاے الٰہی کے حصول‘ شہادت حق کے فریضے کی بجاآوری‘ تزکیہ و تعمیر کردار کی مرکزیت اور اقتدار و اختیار کے سرچشموں کو امرربی کا تابع بنانے کی کوششیں اس قدر مربوط اور اس درجہ مسلسل تھیں کہ انھیں کوئی حکومتی دہشت پسندی یا معاصرین کی غوغا آرائی روک نہ سکی۔ بلاشبہہ جو بھی اس راہ پر چلتا ہے اسے لازماً ایسے مصائب و مشکلات اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سید مودودیؒ کا اپنے ہم عصروں اور سابقین سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے:

  •  سیدمودودیؒ ایسے راسخ الایمان انسان تھے کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ پر چلتے ہوئے کسی قسم کی مداہنت برتنے اور پسپائی اختیار کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
  •   اُمت مسلمہ کے لیے ان کی حیثیت ایک ہم درد معالج کی تھی جو مریض سے ہمدردی رکھتا ہے اور مرض سے دوستی نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے وہ تمام مسلمانوں کے لیے اُخروی نجات کے پیغام کو پھیلانے اور دنیا میں پاکیزہ اور غیرت مندانہ زندگی بسر کرنے کا پروگرام دیتے ہیں۔
  •  سید مودودیؒ کے ہاں اوہام پرستی اور تصوراتی خوش عقیدگی نہیں پائی جاتی۔ اس کے بجاے توحید پرستی‘ عشق رسالت ؐاور حقیقت پسندی کے خاص رنگ جھلکتے اور دوسروں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
  •  ان کے رفقا اور قریبی ساتھیوں کے مزاج‘ افکار اور طریق کار میں انھی کا رنگ پوری  آب و تاب کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خیر کثیر کو انھوں نے اختیار کیا تھا‘ وہ دوسروں کے لیے بھی قابلِ عمل ہے۔

سید مودودیؒ کے مخالفین اور ناقدین بھی بعض اوقات لاشعوری طور پر آپ کی عظمت فکروعمل کا اعتراف کرتے ہیں۔ بہرحال ہر فرد کی سوچ کا دائرہ اس کی مزاجی عصبیت کا اسیر ہوتا ہے۔ یہاں پر میں چند واقعات بیان کروں گا‘ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ خود انھیں کیسے مخالفین سے سابقہ پیش آیا تھا:

  • یہ اگست ۱۹۵۵ء کی بات ہے‘ دمشق کے عالم شیخ محمد مامون بن عبدالوہاب کے ذریعے ہمیں‘ مولانا ابوالکلامؒ کے ایک قریبی رفیق سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے اپنی گفتگو کا آغاز سیدمودودیؒ پر جارحانہ حملوں سے کرتے ہوئے اپنے استدلال کو اس مقام پر لے گئے جہاں انھوں نے کفر کا فتویٰ تک صادر کر دیا۔ میں نے عرض کیا: ’حضرت‘ آپ یہ کیا فرما رہے ہیں؟‘کہنے لگے: ’وہ دین کے معاملات میں کیوں ٹانگ اڑاتا ہے‘ حالانکہ وہ کسی دینی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں ہے۔ وہ دعوت و تبلیغ کی بات کیوں کرتا ہے‘ جب کہ اس کا تعلق صوفیا کے کسی سلسلے سے نہیں ہے‘ نہ وہ سلسلۂ قادریہ سے وابستہ ہے‘ نہ رفاعیہ سے اور نہ نقشبندیہ سے‘۔ میں نے عرض کیا: ’جناب‘ پہلے زمانے میں تو ہر جگہ اس طرح کے مدارس کا روایتی نظام نہیں تھا جیسا کہ آج آپ کے خیال میں آتا ہے۔ مگر اس کے باوجود پہلے زمانے کے لوگوں میں بھی بڑے شان دار خادمان دین پیدا ہوئے‘ جنھوں نے دین کی خدمت کی۔ ان لوگوں نے انفرادی سطح پر بزرگوں سے رہنمائی لی‘ مگر خود دین کے ماخذوں سے استفادہ کیا اور آج ہم انھی لوگوں کی کتب اپنے مدارس میں پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل کے صوفیا حضرات بھی شیخ عبدالقادر جیلانی یا شیخ احمد رفاعی کے نمایندے نہیں ہیں‘ بلکہ اس تصوف میں چند خوبیوں کے باوجود یونانی فلسفے کی خرافات اور ہندستان کی بہت سی مقامی خرافات راہ پاچکی ہیں۔ ہر ایک کے پاس تعویذ گنڈے اور دم کے مختلف رموز ہیں‘ جن پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو وہ تصورِ توحید سے ٹکراتے ہیں‘ اسی لیے غارت ایمان ہیں‘۔ جب میں یہ بات کر رہا تھا تو اُن کی نظر میں‘ میں بھی مولانا مودودی کی طرح گمراہ ہوچکا تھا اور میرا ایمان بھی غارت ہوچکا تھا۔
  • اسی طرح بھارت کے ایک اورمشہور شیخ طریقت جو روحانی اور سیاسی پیشوائیت کے مقام پر فائز تھے‘ ان سے متعدد بار ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک روز ان کی مجلس میں سیدمودودیؒ کا ذکر ہوا تو موصوف نے سید مودودیؒ پر اعتراضات وارد کرنے شروع کردیے۔ میرے لیے یہ بات سخت تعجب کا باعث بنی جب انھوں نے سید مودودیؒ کے لیے سخت نامناسب جملوں کا استعمال کیا۔

میں ان کے پہلو میں بیٹھا تھا‘ عرض کیا: ’یاشیخ‘ مولانا مودودیؒ نے آخر ایسا کیا جرم کیا ہے جو آپ اتنے سخت الفاظ میں ان کا تذکرہ کر رہے ہیں؟‘ شیخ طریقت نے جواب دیا: ’وہ کہتا ہے کہ صرف آنحضورؐ ہی معیارِ حق ہیں۔ اس طرح کی بات کہہ کر دراصل وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ میں سے کسی کو معیارحق ماننے سے انکار کرتا ہے‘۔ میں نے عرض کیا: ’یہ بات تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کی وجہ سے کہی جاسکتی ہے کہ صرف وہی معیارِ حق ہیں۔ بلاشبہہ دوسرے عظیم الشان صحابہ اور ائمہ سے بھی رہنمائی لینی چاہیے لیکن سبھوں کو درجۂ معصومیت پر فائز اور آخری معیار قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔ یہ بات سن کر وہ کسی اور کام میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں کچھ اور عقیدت مند کمرے میں داخل ہوئے تو موضوع بدل گیا۔

تھوڑی دیر بعد میں نے سوال کیا: ’یاشیخ‘ ابن عربی اور ان کے اقوال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘ شیخ طریقت نے فرمایا: ’علماے حق نے متفقہ طور پر انھیں بڑے لوگوں میں تسلیم کیا ہے اور محتاط لوگوں نے ان کے اقوال کے بارے میں کچھ کہنے سے اجتناب کیا ہے۔ ابن عربی کے اقوال کے بارے میں صرف وہی کچھ کہنا چاہیے جو اچھا ہو‘ بلکہ ان کے کلام کی دو طرح سے تاویل کرنی چاہیے۔ پہلی یہ کہ ہم اُن کی مراد نہیں جانتے کہ ان کا یہ بات کہنے سے کیا مقصود تھا۔ دوسرا یہ کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ مذہب نہیں‘ بلکہ مذہب کی تاویل ہے‘۔ فرمان شیخ کے فوراً بعد میں نے کہا: ’اگر یہی اصول ہم سید مودودی کے بارے میں اختیار کریں تو پھر آپ کی کیا رائے ہوگی؟‘ یہ سوال سنتے ہی غصے سے شیخ طریقت کے چہرے کا رنگ بدل ہوگیا۔ میری طرف غضب سے دیکھا اور خادم سے کہا: ’نماز کی اقامت پڑھو‘۔

  • بھارت کے ایک بڑے عالم اس رشتۂ محبت کو جانتے تھے جو مجھے مولانا مودودیؒ سے جوڑتا ہے۔ ایک روز انھوں نے مجھ سے کہا: ’مجھے مولانا مودودیؒ کی یہ بات سخت ناپسند ہے کہ وہ علما سے تعاون نہیں کرتے‘ بلکہ پہلو بچاتے ہیں‘ انھیں علما کا احترام کرنا چاہیے‘۔ میں نے عرض کیا: ’مولانا مودودی‘ حق اور ناحق کا معیار کسی عالم کو قرار دینے کے بجاے قرآن و سنت اور سیرت پاکؐ کو قرار دیتے ہیں۔ میں نے تو انھیں عام فرد کے بارے میں بھی احترام کا رویہ اپنانے والا انسان پایا ہے  بھلا وہ علما کا احترام کیوں نہ کریں گے‘۔ اگر آپ مودبانہ اور مدلل اختلاف کو بے احترامی کہتے ہیں تو یہ دوسری بات ہے‘۔یہ جواب‘ ان کو پسند نہ آیا اور کچھ عرصے بعد عالم موصوف نے مولانا مودودیؒ  کے بارے میں ایک کتاب لکھی‘ جس میں سید صاحبؒ کو کفر کے درجے تک پہنچا کر دم لیا۔ برعظیم پاک و ہند کے علما حضرات میں سے بعض اپنی الگ شان رکھتے ہیں‘ چاہیں تو گمراہی کے لیے تاویل کا سہارا لے لیں اور پسند نہ ہو تو معمولی غلطی یا خود اپنے سوء فہم کی بنیاد پر ہی دوسرے کو کفر کے درجے تک پہنچاکر دَم لیں۔
  • عرب دنیا سے ایک دینی اسکالر کو مولانا مودودیؒ پر اعتراض تھا :’ انھوں نے اجتہاد کا دروازہ کھولا ہے اور صوفیا کرام پر جرح کرتے ہیں‘۔ ایک روز وہ میرے پاس آئے اور فرمایا: ’تم سیدمودودیؒ کی کتابیں نہ شائع کرو‘۔ میں نے کہا: ’بھائی‘ اسلام ہی نے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا ہے‘ اس کے ذمہ دار مولانا مودودی نہیں ہیں‘ کیونکہ اسلام دلوں کو کھولنے سے پہلے ذہنوں کو کھولتا ہے اور قدم قدم پر لوگوں کو سوچ بچار کی دعوت دیتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اسی راہ پر چلتے ہوئے آخر کون سا جرم کیا ہے‘۔

ایک ملاقات میں‘ میں نے مولانا مودودیؒ سے اتحاد و اشتراک کے مسئلے پر گفتگو کی۔ انھوں نے فرمایا: ’عدد اکٹھا کرنے سے نہ کوئی اتحاد بنتا ہے اور نہ اس ہجوم سے کوئی وزن پیداہوتا ہے۔ فکر اور دعوت میں بنیادی حیثیت تعداد کو نہیں بلکہ اصول اور خلوص کو حاصل ہوتی ہے‘۔ ایک ثانیے کے توقف کے بعد وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’بے مقصد لشکر کو جمع کرنا دراصل بائیں جانب صفروں کو جمع کرنا ہے‘ لیکن جب صحیح فکر اور واضح ہدف کے ساتھ اشتراک عمل ہو تو اس وقت صفر دائیں جانب منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں حقیقی وزن اور مؤثر اپیل پیدا ہوتی ہے‘۔

مولانا مودودی ؒنے ظاہری اور سطحی مظاہر کے لیے واقعی اتحاد سے انکار کیا۔ وہ زندگی کو  تصنع اور بے مقصدیت کی بھینٹ چڑھانے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ یہ ان کی خداداد حکمت اور دُوراندیشی تھی کہ انھوں نے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکات کے باہم اتحاد کی تحریک پر زور نہ دیا‘ البتہ مسلم ممالک کے اتحاد و اتفاق پر ضرور زور دیا۔ آج کے حالات میں مولانا مودودیؒ کی اس بصیرت کی معنویت سمجھ میں آتی ہے۔

اسی طرح مولانا مودودیؒ کسی سنجیدہ مقصد کے بغیر ہونے والی بین الاقوامی یا قومی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے پُرجوش نہ تھے۔ خصوصاً حکومتی سرپرستی میں ہونے والی کانفرنسوں کو وہ زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے‘ کیونکہ سرکاری مقتدرہ‘ ایسی کانفرنسوں کو رسمی طور پر نبھاتی ہے۔ رابطے کے اجلاسوں میں ان کی شرکت علامتی سطح پر تھی جس کا ایک پہلو افراد کے درمیان تبادلۂ خیال بھی تھا۔

۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا ملکی سطح کا اجلاس طے کرکے لاہور کی انتظامیہ سے جگہ اور لائوڈاسپیکر کے لیے حسب ضابطہ درخواست گزاری۔ سالانہ اجتماع کے فیصلے کی خبر اخبارات کے ذریعے ملک کے طول و عرض کے علاوہ بیرونِ ملک بھی پھیل چکی تھی۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی حکومت اس جلسے کے انعقاد کے حق میں نہ تھی اور اسے روکنے کا ’’ٹاسک‘‘ گورنر ملک امیرمحمدخان کے سپرد تھا۔

ضلعی انتظامیہ اس درخواست کو حیلے بہانوں سے ٹال رہی تھی اور جماعت کے ذمہ داران ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے چکرلگاتے‘ امن و امان کے حوالے سے اُنھیں تسلیاں دیتے تھک گئے تو   بہ امرمجبوری موچی دروازے کے باہر بلااستعمال لائوڈاسپیکر جلسے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔

گورنر ملک امیر محمدخان نے ایس پی لاہور‘ جن کا نام غالباً سکندر تھا‘ کے ذمے لگایا کہ اجازت تو بہ امر مجبوری (کہ کالک سرکار کے منہ نہ لگے) دے دی گئی ہے مگر جلسہ ہر قیمت پر روکنا ہے۔ اب نواب آف کالاباغ کا حکم ہو اور ایس پی نے نوکری کرنی ہو تو انکار کی گنجایش کہاں۔ لہٰذا وفاداری ثابت کرنے کے لیے یہی ’’ٹاسک‘‘ ایس پی نے اچھا شوکر والا نامی بیڈن روڈ کے بستہ ب کے غنڈے کے ذمے لگایا‘ جس کا خاصا گروہ تھا۔ کہنے کو تو پولیس ریکارڈ میں اچھا شوکر والا بدمعاش اور غنڈا تھا مگر اس کے اندر بھی ضمیر نام کی چیز ابھی زندہ تھی۔ ایک طرف پولیس کا شکنجہ اور دبائو اور دوسری طرف بے گناہوں پر حملہ‘ ایک ’’بدمعاش‘‘ کا زندہ ضمیر اس پر آمادہ نہ ہو رہا تھا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی اور وہ خاموشی سے ایڈیٹر چٹان    آغا شورش کاشمیری ؒکے پاس پہنچا اور حکومتی حکم کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کی خلش سے آگاہ کیا۔ آغا صاحب نے یہ خبر مولانا مودودی کو پہنچائی۔

مولانا مودودیؒ نے آغا صاحب کی بات سن کر اُن سے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ: میری خواہش اور دعوت پر پاکستان کے کونے کونے سے مردوزن موچی دروازے پہنچیں اور میں موت کے خوف سے گھر بیٹھ جائوں۔ کیا یہ وطیرہ کسی بھی بھلے آدمی کو زیب دیتا ہے؟ موت کا وقت معین ہے اور اگر یہ موچی دروازے کی سٹیج پر ہی لکھی ہے تو میں اس شہادت سے فرار کیوں اختیار کروں؟ وہ اپنا کام کریں‘ ہم اپنا کام کریں گے۔

مولانا مودودیؒ کی اس جرأت مندانہ گفتگو سے متاثر ہوکر شورش کاشمیری ؒنے چٹان میں ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا:’’شاید تیری قسمت میں بھی کوئی بالاکوٹ ہے‘‘۔ چٹان کی اس اشاعت کے دو ایک دن بعد موچی دروازے میں جلسۂ عام طے پا چکا تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن آنے والے طوفان سے بے خبر‘ جلسے کی تیاریوں میں صبح شام‘ ہمہ تن مصروف تھے اور تخریب کار اپنی جگہ۔

بالآخر وہ دن آگیا جب موچی دروازے کے پنڈال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ باہر سڑک تک پھیل چکے تھے۔ لائوڈاسپیکر پر پابندی کے سبب بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے پرانے طریقے پر نقیب اپنی اپنی جگہ مقرر کیے جا چکے تھے‘ اور اُدھر سرکاری منصوبہ بندی کے مطابق ہر خیمے کی طنابیں کاٹنے کے لیے‘ ہرکِلّے کے ساتھ چاقو لیے ایک ایک بدمعاش بیٹھا تھا کہ جونہی بڑا بدمعاش پہلا فائر کرے ڈیوٹی پر موجود ہر بدمعاش شامیانوں کی رسیاں کاٹ دے۔

چنانچہ اُدھر مولانا مودودیؒ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور ابھی دوچار منٹ تقریر کی ہی تھی کہ پروگرام کے مطابق بڑے بدمعاش نے پستول سے فائر کر کے کارروائی کے آغاز کا سگنل دیا۔ اسٹیج کی طرف فائرنگ ہوئی‘ شامیانوں کی رسیاں کٹ گئیں‘ مگر وائے حسرتا وہ بھگدڑ نہ مچی جو بدمعاشوں کے ہاتھوں مچتی دیکھ کر ’خفیہ والے‘ اُوپر پہنچانے کے لیے اپنے اپنے مچان پر  انتہائی بے چین بیٹھے تھے۔ ایس پی اپنے ’کنٹرول روم‘ میں خبر سن کر’آگے‘ سنانے کے لیے    بے قرار بیٹھا تھا۔

یہی لمحہ تھا جب مولانا سے برستی گولیوںمیں بیٹھنے کی استدعا کی گئی۔ مولانا اپنے جاںنثاروں کے حصار میںتھے۔ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ظلم کے خلاف آج میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟ ظلم کی آندھی‘ گوجرہ سے آئے پروانے اللہ بخش کی قربانی اور مکتبے میں قرآنِ حکیم کی بے حرمتی کے بعد تھم گئی۔

جلسہ درہم برہم نہ کیا جا سکا‘ بارہ پندرہ ہزار کے مجمع عام کو مشتعل نہ کیا جا سکا‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہر تدبیر کو ناکام کر دیا کہ اہلِ لاہور اس ظلم و درندگی پر جماعت اسلامی کے ہم نوا     بن گئے۔ اس حال میں کہ رفیقِ سفر کی میت خون میں لت پت سامنے تھی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ دعا کر رہے تھے اور ہزاروں کا مجمع آمین کہہ رہا تھا۔ یہ منظر پتھردلوں کو بھی موم کر رہا تھا۔ سید محترم نے اپنا مقدمہ عادلِ حقیقی کی عدالت میں درج کرا دیا۔

نواب آف کالاباغ اور اُس کے کارندے اوپر والی سرکار کو وہ خبر نہ سنا سکے جس کے لیے کئی ہفتوں سے تیاری کی گئی تھی‘ البتہ کالک کالاباغ کا مقدر ضرور بنی کہ ہرباشعور نے اس ظلم کی مذمت کی۔ عوام نے‘ خواص نے‘ دانش وروںنے‘ صحافیوں نے‘ وکلا نے‘ قرآن حکیم کے فیصلے کے مطابق کہ: ’’ممکن ہے تمھیں کوئی چیز ناپسند ہو مگر اس میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔اللہ بخش شہیدؒ کے خون نے جماعت اسلامی کو ملک کے کونے کونے سے مزید گرم خون مہیا کیا۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بارگاہِ رب العزت میں صدر محمد ایوب خان‘ گورنر امیرمحمد خان‘ ایس پی لاہور اور اس کے غنڈوں کے خلاف جو مقدمہ درج کرایا تھا‘ اس کی کارروائی سید کی زندگی ہی میں شروع ہوگئی اور عادلِ مطلق نے مرحوم اللہ بخش کے خون کا حساب یوں چکایا کہ اس ظلم سے آگاہی رکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔

مذکورہ کارروائی کے ذریعے پولیس کے چہیتے اچھا شوکر والا اور اُس کے چند ساتھی اُسی ایس پی کے حکم سے دن دیہاڑے بیڈن روڈ پر پولیس مقابلے میں‘ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے اور علاقے کے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئے۔ پولیس نے انھیں استعمال کیا تو وہ سمجھے کہ اب ’سیّاں بھیّے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘ مگر سرکار کی اپنی مصلحتیں اور اللہ تعالیٰ کا قانون اپنی جگہ مسلّم ٹھیرے۔ بقول شورش کاشمیری ایس پی سکندر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا کہ بیماری کی شدت کے آخری مرحلے میں اس کے گلے سے نکلنے والی آواز کتّے کے بھونکنے سے مشابہ تھی اور وہ اسی عالمِ بے بسی میں میوہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈمیں خالقِ حقیقی کے سامنے پیش ہوگیا۔ یوں سیّد کی زندگی میں اللہ بخش شہیدؒ کا دوسرا قاتل اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ اپنی منزل کو سدھارا۔

نواب آف کالا باغ میں خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی تھیں۔ اپنے خودساختہ اور بعض دینی اور معاشرتی اصولوں میں اُس کے ہاں کوئی لچک نہ تھی‘ مثلاً وہ نواب ہوتے ہوئے بھی زانی‘  شرابی اور رشوت خور نہ تھا مگر جسے دشمن قرار دیتا اسے برداشت نہ کرتا تھا۔ گھر میں پردے کا سخت پابند تھا۔ باہراور اندر ہر جگہ حاکم رہنا اُسے پسند تھا۔ اسی حاکمیت کا نتیجہ تھا کہ نواب صاحب کا بیٹا مدِّمقابل آگیا۔ بیٹا لمحے بھرکو چوک جاتا تو باپ کے پستول کی گولی اسے چاٹ جاتی مگر اس نے ’جابرباپ‘ کو مہلت ہی نہ دی اور اسٹین گن کا برسٹ مار کر چہرہ اور اوپر کا دھڑ بالکل مسخ کردیا۔ اپنے خون نے اپنا ہی خون بہایا۔

سیّد ہی کی زندگی میں جنرل محمد ایوب خان‘ اقتدار سے اس حال میں الگ ہوئے کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور اُن کے خلاف غلیظ ترین نعرہ بازی ہوئی۔ اُن کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان نے اسمبلی کے اندر ’’ہرشاخ پہ اُلّوبیٹھا ہے‘‘کہا اور آخری وقت اُن کے چہیتے وزرا تک ساتھ چھوڑ گئے‘ اور آخری وقت چارپائی پر فالج کے سبب بے بسی اور بے کسی کی مثال بن گئے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!

o

جس سیّد کو ۱۹۶۳ء میں ختم کرانے کی سازش کی گئی وہ ۱۹۷۹ء تک بقیدِ حیات رہے اور تمام سازشی یکے بعد دیگرے اُن کی زندگی ہی میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ سیّد کا فرمان درست تھا کہ زندگی اور موت کے فیصلے بندے نہیں کرتے‘ کہیں اور ہوتے ہیں۔ خالق کا طے شدہ لمحہ نہ آگے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے۔ مگر اس اٹل حقیقت کو سمجھنے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ شاید موت سے بے خوفی تھی کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ انتہائی ٹھنڈے دل و دماغ والے راہنما تھے اور یہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ پا پر چلنے کے عزم کے سبب ممکن تھا۔ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو جذباتی ہوکر دوسرے کے میدان میں پٹنے کے بجاے دوسروں کو اپنے من پسند میدان میں لاکر شکست دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی ملاقات سے آخری ملاقات تک راقم نے صرف ایک بارسیّد محترم کے جذبات کو متلاطم دیکھا۔

بھٹو صاحب کے دور حکومت میں محترم میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کو ’اوپر والوں‘ کے اشارے کے سبب کوٹ لکھپت جیل میں پریشان کیا گیا تو مولانا  میاں صاحب سے محبت کے سبب بے چین ہوگئے۔ چنانچہ ۵-اے‘ ذیلدار پارک میں ایک  مذمتی جلسہ ہوا۔ راقم الحروف اس جلسے میں شامل تھا۔

اُس روز مولانا کے ’کَھولتے ہوئے جذبات کا بہائو‘ پہلی بار دیکھا‘ مگر یہ کھولتا لاوا بھی کناروں سے باہر نہ نکل رہا تھا۔ مولانا فرما رہے تھے: ’’ہر فرعون نے اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر‘ خطرے والا ہر دروازہ اپنے ظلم کے ذریعے بند کرنے کی کوشش کی۔ زمانے نے بڑے بڑے فرعون دیکھے اور ان فرعونوں نے اپنے فرار یا تحفظ کے لیے جو دروازہ محفوظ جانا‘ اُن پر وبال اُسی دروازے سے داخل ہوا‘ وہ بچ نہ سکے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کا راستہ روکنے والوں نے کیا کیا جتن نہ کیے‘ کبھی سزاے موت سے ڈرایا تو کبھی جلسے میں گولیاں چلاکر کارکن شہید کر کے راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ اب جماعت اسلامی کے انتہائی محترم امیر کو جیل میں پریشان کرنے کی گھٹیا حرکت کی گئی ہے جو ہرلحاظ سے قابلِ مذمت ہے‘‘۔ مولانا محترم نے اپنے بھرپور جذبات کے ساتھ اس صورتِ حال کی مذمت کی۔

اس جلسے میں خفیہ والوں کو راقم نے باتیں کرتے خود سنا جو اپنی پریشانی کا ایک دوسرے سے اظہار کر رہے تھے‘ کہ مولانا نے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ حکمرانوں کو خوب سنائیں مگر کوئی جملہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی انتقامی کارروائی کے لیے جواز بنائیں۔ مولانا کی تقریر و تحریر کی یہ خوبی تھی کہ اخلاق و کردار کی ہروسعت اس میں سموئی گئی ہوتی تھی۔ راقم کے سرمایۂ حیات میں ان تقاریر کے ٹیپ بھی محفوظ ہیں۔

عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات

تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں

یوں تو سید مودودی ؒ کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت گونا گوں اوصاف جمع کر دیے تھے‘ لیکن ان پر دین کی محبت ہر چیز سے زیادہ غالب تھی‘ اور عمر بھر مختلف انداز سے اُنھوں نے اس کی خدمت کی۔ سید مودودیؒ اپنے عہد میں اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف تھے۔ اُنھوں نے مختلف موضوعات پر متعدد ضخیم کتابیں لکھیں‘ اور ایک زمانے سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ سید صاحب نے مستقل تصانیف کے علاوہ‘ مختلف موضوعات پرسیکڑوں محققانہ علمی‘ ادبی‘ دینی‘ تاریخی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو ترجمان القرآن کے ہزاروں اوراق پر پھیلے ہوئے ہیں۔

سید مودودی ؒنے ہوش سنبھالا تو ان کی تعلیم کا سلسلہ ان کے والد گرامی نے خود اپنی نگرانی میں شروع کیا اور انھیں کسی مکتب یا مدرسے میں بھیجنا گوارا نہ کیا۔ گھر میں اتالیق کا انتظام کیا‘ جو سیدصاحب کو عربی ادب اور علوم دینیہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ۱۹۱۴ء میں جب سید صاحب کی عمر ۱۱ سال کی تھی‘ انھوں نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا۔

۱۹۱۸ء میں آپ نے صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف اوقات میں مدینہ‘ بجنور‘ تاج‘ جبل پور اور مسلم دہلی سے وابستگی رکھنے کے بعد ۱۹۲۳ء میں بھوپال تشریف لے گئے۔ بھوپال میں آپ کا قیام تقریباً ڈیڑھ سال تک رہا۔ اس بارے میں سیدصاحب نے خود لکھا ہے: ’’اس ڈیڑھ سال کو میں نے بالکلیہ پڑھنے اور سوچنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ علوم قدیمہ و جدیدہ کے جتنے ذخائر تک میری رسائی ممکن تھی‘ میں نے ان سے استفادہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ غور و فکر اور مطالعے کو میں نے اتنی شدت اور تسلسل سے جاری رکھا کہ آخرکار میرے اعصاب پر تکان کے آثار ہویدا ہونے شروع ہو گئے‘‘۔

۱۹۲۴ء میں سید صاحب بھوپال سے دہلی واپس آ گئے تو انھیں مولانا محمد علی جوہرؒ کی طرف سے ان کے اخبار ہمدرد اور جمعیت العلما کی طرف سے جمعیت کے ترجمان الجمعیۃ کی ادارت کی پیش کش کی گئی۔ سید صاحب نے الجمعیۃ کو ترجیح دی اور آپ تقریباً چار سال تک‘ یعنی ۱۹۲۸ء تک اس اخبار کے ایڈیٹر رہے۔

  • الجہاد فی الاسلام کی تالیف: سید صاحب کے چار سالہ دور ادارت میں ملک میں کئی ایک اہم واقعات رونما ہوئے۔ ۱۹۲۶ء کے آخر میں شدھی تحریک کے بانی شردھانند قتل ہوگئے۔ اس قتل پر کانگریسی اور غیر کانگریسی ہندوئوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ اسلام خون خواری سکھاتا ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا:’’اسلام کی فیصلہ کن چیز پہلے بھی تلوار تھی اور اب بھی تلوار ہے‘‘۔

اس دور کا ذکر کرتے ہوئے سید مودودی نے خود بیان کیا ہے: یہ غوغا آرائی ایک مدت تک بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ان بہتان تراشیوں سے تنگ آکر جامع مسجد دہلی میں ایک تقریر کی‘ اور آبدیدہ ہو کر کہا کہ کاش! کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرتا۔ تقریر سننے والوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں۔

ہندوئوں کی غوغا آرائی اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی اس اپیل نے سید مودودی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کی مدافعت کے لیے قلم سنبھالیں۔ اگرچہ اخبار نویسی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی علمی یا تحقیقی کام کیا جائے۔ لیکن سید صاحب نے ۱۹۲۷ء کے شروع میں الجمعیۃ کے کالموں میں اس مبسوط بحث کا آغاز کر دیا۔ جب یہ مقالے اخبار الجمعیۃ میں شائع ہو رہے تھے اس وقت سید صاحب کی عمر ۲۴ سال کی تھی۔ پھریہ مقالے کتابی صورت میں الجہاد فی الاسلام کے نام سے شائع ہو کر منظرعام پر آئے تو ان کو پڑھ کر علامہ محمد اقبال ؒنے فرمایا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔ اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔

  • حیدر آباد دکن میں سکونت: ۱۹۲۸ء میں سید مودودی الجمعیۃ کی ادارت سے مستعفی ہوگئے اور دہلی کو خیرباد کہہ کر حیدر آباد‘ دکن سکونت اختیار کر لی۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے کے ابتدائی عرصے میں آپ کی کتاب دینیات شائع ہوئی‘ جس کے بعد آپ کی کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مقالات سامنے آئے‘ ان مباحث نے ہندستان کے علمی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔
  • ترجمان القرآن کا اجرا:۱۹۳۳ء میں سید مودودی نے رسالہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی اور اسے اقامت دین کی جدوجہد کا ذریعہ بنایا۔ جب آپ نے رسالہ ترجمان القرآن کا اجرا کیا اس وقت آپ کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک اقامت دین کا راستہ‘ اور دوسرا دنیوی شہرت ‘ ترقی اور حصول جاہ و زر کا راستہ۔ ان دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ سید صاحب نے اقامت دین کا راستہ اختیار کیا۔

ترجمان القرآن کے ذریعے سید صاحب نے دعوتِ انقلاب پیش کرنی شروع کی اور ان کا نقطۂ آغاز اور انتہاے مقصود قرآن کریم تھا۔ آپ نیترجمان کے پہلے شمارے میں لکھا:

یہ رسالہ آج جس مرحلے میں قدم رکھ رہا ہے وہ بہت کٹھن اور دشوار ہے۔ کٹھن اور دشوار اس معنی میں نہیں کہ اس کے پیش نظر اب پہلے سے زیادہ مشکل کام ہے‘ بلکہ اس معنی میں بھی کہ جن ہاتھوں میں وہ منتقل ہو رہا ہے وہ پہلے کام کرنے والے ہاتھوں سے زیادہ کمزور ہیں۔ ایک طرف یہ ضعیف و ناتواں ہے اور دوسری طرف پیش نظر کام یہ ہے کہ اسلام کو اس اصلی روشنی میں پیش کیا جائے جس میں قرآن کریم نے اس کو پیش کیا ہے۔ کہنے کو یہ کام بہت آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے بُعد‘ علم صحیح کی کمی‘ سلامت قلب و استعداد نظر کے فقدان‘ یونانی تفلسف‘ عجمی موشگافی‘ مغربی تشکیک اور سب سے بڑھ کر خود پرستی اور ہواے نفس کے اتباع نے ہمارے اور معارف قرآنی کے درمیان ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ جس قرآن کو آسان کہا گیا تھا‘ وہ اب سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے۔

  • علامہ اقبال سے خط کتابت اور ملاقات: ۱۹۳۶ء میں سید مودودیؒ کی علامہ اقبال ؒسے خط کتابت شروع ہوئی۔ اسی سال اُنھوں نے جامعہ علی گڈھ کے استفسار پر ایک جامع تعلیمی خاکہ تیار کیا۔ ۱۹۳۷ء میں آپ کی لاہور میں علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوئی ا ور علامہ نے آپ کو لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ اور اسی سال آپ کے مشہور سلسلہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکشکتابی صورت میں منظر عام پر آئے۔
  • پٹھان کوٹ میں قیام: ۱۸ مارچ ۱۹۳۸ء کو سید مودودیؒ حیدرآباد‘ دکن سے     پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) منتقل ہو گئے۔ یہاں آپ نے سب سے پہلے’مسئلہ قومیت‘ پر معرکۃالآرا مقالہ سپرد قلم کیا‘ جس کی اشاعت سے سیاسی اور خاص طور پر دیوبندی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ ۱۹۳۹ء میں آپ کی کتاب تجدید و احیاے دین شائع ہوئی۔ ۱۹۴۰ء میں سید صاحب کو اسلامی نظام حکومت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے مسلم لیگ کی کمیٹی میں بحیثیت رکن نامزد کیا گیا۔  ۲۶اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں ۷۵ افراد کا تاسیسی اجتماع ہوا‘ جس میں جماعت اسلامی کی تشکیل کی گئی اور سید مودودیؒ اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔
  • تفہیم القرآن کا آغاز: اسلامی انقلاب کے لیے سید مودودی ؒنے ۱۹۳۸ء ہی میں کام شروع کر دیا تھا اور آپ نے اس کا آغاز درس قرآن سے کیا۔ اسی سلسلۂ درس قرآن نے فروری ۱۹۴۲ء میں تفہیم القرآن کی شکل اختیار کی۔

تفہیم القرآن وہ تفسیر قرآن ہے جس نے ایک کٹھن اور فیصلہ کن دور میں قرآن کے زیرسایہ ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے‘ اور یہ انقلابی دور ابھی جاری ہے۔ بلاشبہہ جو خدمت تفہیم القرآن نے انجام دی ہے اور دے رہی ہے‘ وہ بڑی اہم اور تاریخی ہے۔ خالص علمی نقطۂ نظر سے تفہیم القرآن کا مقام بہت بلند ہے۔ تفہیم القرآن میں جس نقطۂ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب صحیفہ ہدایت ہے۔ کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کریم ہر فرد میں اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعہ و نظر کا ایک خاص انداز پیدا کرتا ہے۔

تفہیم القرآن کے اساسی نقطۂ نظر کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید محض ایک الہامی کتاب یا ایک تاریخی کتاب یا ایک عظیم کتاب نہیں۔ اس کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت ہے جو ایک دعوت کی طرف بلانے والی اور ایک جدوجہد کو برپا کرنے والی ہے۔ یہ ایک دعوت اور ایک تحریک ہے۔ قرآن کریم ایک پیغام کا علم بردار اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملت کی تعمیر کرتا ہے اور پھر اسے ایک مشن سونپ دیتا ہے۔ اس دعوت اور اس جدوجہد کے لیے مقصد‘ اصول‘ اقدار اور ضابطے فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے کام کرنے والے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ متعین کرتا ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے جن صفات‘ محرکات‘ جذبات اور احساسات کی ضرورت ہے‘ وہ اسے پیدا کرتا ہے۔ یہ کتاب فرد کی زندگی میں بھی اور معاشرے اور آخرکار پوری دنیا میں بھی ایک کش مکش کو جنم دیتی ہے‘ حق و باطل کے درمیان کش مکش تاکہ زندگی کا نظام حق کے مطابق چل سکے اور باطل کو بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑیں۔ یہ کتاب کائنات‘ انسان اور زندگی کا ایک خاص تصور پیش کرتی ہے۔ جو لوگ اس تصور حیات کو قبول کر لیں‘ یہ ان کی زندگی کی تعمیر ایک خاص نقشے کے مطابق کرتی ہے‘ اور جو اسے قبول نہ کریں ان سے مسلسل جہد و مقابلہ اور دعوت تبلیغ کا معاملہ کرتی ہے۔

قرآن مجید کے ایک دعوت کی کتاب ہونے کا تصور وہ مثالی کلید ہے جس سے فہم قرآن کی راہ کی تمام مشکلات دُور ہو جاتی ہیں۔ پھر قرآن کریم کا اسلوب‘ اس کا طریق استدلال‘ اس کا نظم‘ اس کا ادب‘ اس کے موضوعات کا تنوع‘ اس کے مضامین کی تکرار‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کے قانونی احکام‘ اس کے تاریخی مواعظ‘ غرض اس کی ہر بات سمجھ میں آ جاتی ہے‘ اور یہ کار زار حیات میں مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص اس تصور کے ساتھ قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی اور دوسرے انسانوں کی زندگی بدلنے کی جدوجہد کرتا ہے تو پھر قرآن کی آیات اس کے لیے محض کتاب میں لکھی ہوئی آیات نہیں رہیں گی‘ بلکہ آیاتِ زندگی بن جائیں گی‘ اور اسے محسوس ہو گا کہ قرآن کریم زندگی کے ہر قدم پر اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔ بقول علامہ اقبال: ’’قرآن کو اس طرح پڑھو گویا یہ تمھارے قلب پر نازل ہو رہا ہے‘‘۔

تفہیم القرآن نے نظم قرآن کا ایک منفرد تصور پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید صاحب نے ہر سورہ کے تاریخی پس منظر اور اس کے مرکزی مضمون اور موضوعات کا تعین بھی کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں فقہی احکام کی تشریح اور فقہی مکاتب فکر کا نقطۂ نظر اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیمات اور قرآن کے بتائے ہوے نظامِ اخلاق و تمدن کے مجموعی خاکے کی روشنی میں احکام کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلام اور دوسرے ادیان‘ یعنی یہودیت و عیسائیت کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور ان اعتراضات کا بھی کافی و شافی جواب دیا گیا ہے‘ جو مسیحی اہل قلم اور مغربی مستشرقین نے قرآن کریم پر کیے ہیں۔

سید مودودی نے جب تفہیم القرآن کا آغاز کیا تو جلد اول کے دیباچے میں لکھا :میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جس غرض کے لیے میں نے یہ محنت کی ہے وہ پوری ہو‘ اوریہ کتاب قرآن مجید کے فہم میں بندگانِ خدا کے لیے واقعی کچھ مددگار ثابت ہو سکے۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ العلی العظیم!

۱۹۷۲ئ‘ یعنی ۳۰ سال میں تفہیم القرآن مکمل ہوئی ہے۔ سید مودودی فرماتے ہیں: بندہ اپنے رب کے حضور عاجزی کے ساتھ چند اوراق لیے کھڑا ہے اور ایک زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ محنت دین حق کے لیے تھی۔ یہ تفسیر‘ تفہیمِ حق کے لیے ہے۔ اور یہ زندگی‘ شہادت حق کے سوا کسی کام کے لیے وقف نہیں رہی اور یہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کو اس کی توفیق دیتا ہے جس طرح کہ اس نے اپنے اس بندے کو توفیق دی ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب تفہیم القرآن مکمل کر لی تو اس سلسلے میں لاہور میں ایک منعقدہ تقریب میں دعا کرتے ہوئے فرمایا:

بارِ الٰہا‘ تیری کتاب کی خدمت کرنے کے لیے میں نے جو بھی کوشش کی‘ وہ صرف تیری خوشنودی کے لیے کی اور اس لیے کی کہ وہ تیرے بندوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ بنے۔ اس کام میں جو کچھ صحیح ہے وہ تیری رہبری اور رہنمائی کا نتیجہ ہے‘ اور جو کچھ غلط ہے وہ میری غلطی اور تاویل کا نتیجہ ہے۔ مجھے اس کی توفیق عطا فرما کہ اس میں جو غلطی ہو اس کی اصلاح کر سکوں‘ اور اپنے بندوں کو بھی توفیق عطا فرما کہ جہاں جہاں بھی مجھ سے غلطی ہوئی وہ مجھے دلیل سے سمجھائیں‘ میں ان شاء اللہ اس کی اصلاح کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو اپنے بندوں کی ہدایت کا ذریعہ اور میری مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)

  • پٹھان کوٹ سے لاہور: ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان قائم ہوا۔ سید مودودی پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل ہو گئے۔ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۲ئ‘ یعنی پانچ سال کے درمیانی عرصے میں سید صاحب بڑے نشیب و فراز سے گزرے۔ ۱۹۴۸ء میں اسیر زنداں بھی ہوئے‘ مارچ ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد بھی منظور ہوئی جس کے لیے سب سے زیادہ زوردار آواز سید مودودی ہی نے اٹھائی تھی۔ ۳۱علماے کرام کا تاریخی اجلاس علامہ سید سلیمان ندویؒ کی صدارت میں منعقد ہوا‘جہاں پر اسلامی نظام کے نفاد پر اعتراضات کے جواب میں ۲۲ نکات کی بالاتفاق منظوری دی گئی۔
  • تحریک ختم نبوتؐ: فروری ۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت چلی۔ حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے لاہور میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ ۲۸ مارچ کو مولانا مودودی اور ان کے رفقا کو مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو فوجی عدالت نے سید مودودی کو سزاے موت کا حکم سنا دیا۔مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے پر سارے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہڑتالیں‘ احتجاج اور رہائی کا مطالبہ ہوا تو سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ ۲۹ اپریل ۱۹۵۵ء کو خاص قانونی سقم کی بنا پر سید مودودی اور ان کے رفقا کو ۲۵ ماہ کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا۔
  •  ۱۹۵۶ء تا ۱۹۷۲ئ: اس عرصے میں سید مودودی نے وہ کارہاے نمایاں انجام دیے جو تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں‘ مثلاً:
  •   ۱۹۵۶ء میں مطالبہ دستور اسلامی کے حق میں مہم کی کامیابی۔
  •  ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان مرحوم کا مارشل لا ملک میں نافذ ہو گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مولانا مودودی تحقیق و مطالعہ و تصنیف کے کام میں مشغول ہوگئے اور اس دوران ارض القرآن کا دورہ کرنے کے لیے عرب دنیا کے سفر پر گئے۔
  •  ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع لاہور میں ہوا‘ جہاں مولانا مودودیؒ پر قاتلانہ حملہ ہوا‘ جس میں جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گیا۔ اس اجتماع میں سیدصاحب مرحوم نے جو دعا مانگی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

یا اللہ! ہم تیرے نام کی عظمت و سربلندی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تیرے علم میں ہے کہ کون مفسد ہے اور کون مصلح‘ اے اللہ! جو مصلح ہیں‘ تو ان کی مدد فرما اور جو مفسد ہیں ان کے شر سے مصلحین کو بچا۔

۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر کے مولانا مودودی کو ان کے قریبی رفقا سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان سے دو آئینی مطالبات منوانے کے لیے  گول میز کانفرنس میں شرکت کی‘ اور اسی سال مراکش میں اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC)کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کی۔ یکم نومبر ۱۹۷۲ء کو ۲۲ سال تک تحریک اسلامی کی رہنمائی کرنے کے بعد مسلسل علالت اور کمزوری صحت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہوگئے‘ البتہ علمی و تحقیقی کاموں میں تادمِ آخر مصروف رہے۔

۲۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ان کی دینی و علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جسے آپ کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی نے ریاض (سعودی عرب) جا کر وصول کیا۔ سید صاحب اس ایوارڈ سے حاصل کردہ تمام رقم ادارہ معارف اسلامی کو دے دی‘ تاکہ علمی کاموں میں وسعت کے کام آئے۔

  • سفر امریکہ اور وفات:مسلسل علالت کے پیش نظر سید صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق مودودی جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں‘ مئی ۱۹۷۹ء میں آپ کو امریکہ لے گئے تاکہ وہاں اپنی نگرانی میں علاج کرا سکیں۔ امریکہ میں آپ کا علاج ہوتا رہا۔ طبیعت کبھی بگڑ جاتی تھی‘ کبھی سنبھل جاتی تھی۔ مگر کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت عالم اسلام کے عظیم مفکر اور جید عالم دین ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو انتقال کر گئے۔  انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

۲۶ ستمبر کو آپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور اچھرہ لاہور میں آپ کی قیام گاہ کے سامنے لان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • تصانیف: مولانا مودودی کا شمار کثیر التصانیف مصنفین میں ہوتا ہے۔ مولانا مرحوم نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ آپ کی تصانیف قرآن‘ حدیث‘ فقہی علوم‘ تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ عمرانیات‘ ادب اور تعلیم سے متعلق ہیں۔ سید مودودی مرحوم نے اپنی ہر تصنیف میں اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے اور اس کے ساتھ آپ نے اپنے علمی اور تحقیقی معیار کو نیچے نہیں گرنے دیا۔ اس لحاظ سے سید مودودی مرحوم کا شمار ان چند اہل قلم میں ہوتا ہے جو اپنی تصانیف کی کثرت اور معیار کی یکسانی دونوں میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔

سید صاحب کی آخری تصنیف سیرت سرور عالمؐہے جو دو جلدوں (اکتوبر ۱۹۷۸ئ) میں ہے اور دونوں جلدیں مکی زندگی پر مشتمل ہیں۔ سید صاحب نے اپنی اس کتاب کے بارے میں ۱۵ جولائی ۱۹۷۲ء کو طلبہ کی طرف سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اسی مطالعہ و تحقیق کے نتیجے میں‘ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک براہ راست قرآن سے اسے نہ سمجھا جائے۔ میں نے قرآن مجید کی تفسیر سیرت پاک سے اس کا ربط جوڑتے اور جگہ جگہ آیتوں اور سورتوں کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ نزول قرآن اور سیرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات و واقعات کسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ اسی طرح میں نے جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات اور احکام کی تشریح میں معتبر احادیث نقل کی ہیں جن سے احادیث اور قرآن کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اس غلطی فہمی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے‘ بلکہ پڑھنے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے بکثرت ارشادات و احکام کو آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔

سید مودودی کی ہمہ گیر شخصیت گوناگوں اوصاف کی حامل تھی۔ آپ بہ یک وقت مفسر بھی تھے اور مفکر بھی‘ مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی‘ نقاد بھی تھے اور مبصربھی‘ مقرر بھی تھے اور مبلغ بھی‘ دانش ور بھی تھے اور ادیب بھی‘ مصنف بھی تھے اور صحافی بھی‘ سیاست دان بھی تھے اور جید عالم دین بھی۔ ذیل میں ان کی ہمہ گیر شخصیت پر ایک اجمالی تبصرہ پیش کیا جاتا ہے:

۱-  اسلام ایک انسان میں کس قدر عظیم الشان انقلاب برپا کرتاہے‘اور وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے کام کرنے کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں دور کر دیتا ہے‘ اس کی ایک مثال اس زمانے میں ہمارے سامنے مولانا مودودی ؒہیں۔

۲-  اس میں رائی برابر مبالغہ نہیں ہے کہ سید مودودی مرحوم نے دین اسلام کی خاطر بہت سی مصیبتیں مول لے کر اپنے راحت و آرام کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس شخص نے بیمار رہ کر وہ کام کیا جو بہت سے لوگ تندرست اور صحت مند رہ کر نہیں کر سکتے۔

۳- جو شخص سید مرحوم کی تحریروں کو پڑھے گا اسے معلوم ہو گا کہ ان کے ایمان میں کس قدر قوت تھی اور ان کا ادب کس قدر بلند اور شستہ تھا۔ ان کی تحریر ایک فنی انداز میں تہذیب و ادب کی تحریر تھی‘ جس سے ان کے گہرے مطالعے‘ باریک بینی‘ دینی تڑپ‘ رقت قلب اور زندگی کے وجدان کا اندازہ ہوتا ہے۔

۴-  سید مودودیؒ قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے روشن فکر‘ درد مند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ ذہن و ذکاوت کے ساتھ قوت حافظہ بھی قوی تھا۔

۵- سید مودودیؒ ان معدودے چند خوش قسمت افراد میں سے تھے‘ جنھوں نے زبان کو صحیح طریقے پر استعمال کیا۔ اپنے فطری ذوق اور وہبی صلاحیتوں سے ان کے فن کو جلابخشی۔ قدیم ماخذ کے گہرے مطالعے اور جدید لٹریچر سے براہ راست استفادہ کیا ۔ایک مناسب اور معقول طرز میں ادبیت کو ڈھال دیا۔

۶- سید مودودیؒ اوقات کے بڑے منضبط تھے۔ وہ اصولی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ نظم و ضبط پر اتنا زور دیتے تھے کہ جیسے زندگی کو مشن بنا دینا چاہتے تھے۔ اگر سید صاحب اوقات میں ضبط و نظم کا اتنا اہتمام نہ کرتے تو وہ علم و ادب کی خدمت نہ کر سکتے تھے۔ بے قاعدگی اور بد نظمی سے ان کو سخت نفرت تھی۔

۷- سید مودودیؒ ٹھوس مطالعے کے عادی تھے۔ عربی ادب و انشائ‘ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ اشتراکیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘ ان کے خاص موضوع تھے۔ اس لیے ان فنون میں ان کا مطالعہ بہت ٹھوس اور تنقیدی تھا۔

۸- سید مودودیؒ عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ علوم اسلامیہ میں تبحرعلمی کے علاوہ سیاست‘ فلسفہ‘ سائنس اور جغرافیہ وغیرہ سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔

تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان آ کر حیدر آباد (سندھ)میں قیام کیا‘ تو میں اپنے ہم عمر لڑکوں سے تین باتوں میں مختلف تھا: پہلی چیز ہمہ وقت سر پر رہنے والی سیاہ رام پوری ٹوپی‘ دوسری پانچ وقت مسجد کی حاضری‘ اور تیسری ناشائستہ ہنسی مذاق سے خود کو نشانۂ مذاق بنوا دینے سے شدید اجتناب۔ غالباً انھی علامات کی بنا پر بڑے بھائی کے ایک ہم عمر دوست نے مجھے ’’مولانا مودودی‘‘ کا خطاب دیا ہوا تھا۔ میں تو کیا وہ خود بھی مولانا کی شخصیت اور جماعت اسلامی سے کہیں ایک عرصے بعد متعارف ہوئے‘ لیکن یہ واقعہ اس بات کی بہرحال دلیل ہے کہ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا نام ایک دین دار شخصیت کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔

مولانا مرحوم و مغفور سے پہلا باقاعدہ تعارف اسلامی جمعیت طلبہ کی رفاقت کے نتیجے میں‘ کچھ جمعیت کے سابقون الاولون اور کچھ ان کتابچوں سے ہوا‘ جو جمعیت کی رفاقت کے نصاب میں پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن مولانا کی عظمت کا نقش دل پر اس وقت مرتسم ہوا‘ جب مولانا کو قادیانی مسئلے کے حوالے سے پھانسی کی سزا سنائی گئی اور مولانا نے معافی مانگ کر رہا ہو جانے سے صاف انکار کردیا۔ اس واقعے پر احتجاجی جلوس میں شرکت بھی کی۔ ان امور نے تعلق کو عقیدت میں تبدیل کر دیا اور دل میں مولانا سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی۔

پھر اپنے عربی کے استاد نسیم اللہ صاحب اور مولانا وصی مظہر ندوی صاحب جیسے بزرگوں سے مولانا مرحوم کی ذہانت و بصیرت‘ اخلاص اور للٰہیت کے واقعات سن سن کر اس آتشِ شوق میں اور اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ جمعیت میں شمولیت کے ۱۰‘ ۱۱ سال بعد اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا تو وہاں ایک سسرالی عزیز کے ہاں قیام کے دوران اخبار میں پڑھا کہ مولانا مودودیؒ فلاں مسجد میں درس قرآن دیں گے۔ اس موقعے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر پتا پوچھتا ہوا مذکورہ مسجد جاپہنچا۔ مولانا‘ مسجد کے برآمدے میں تشریف فرما تھے‘ برآمدے اور صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکے تھے۔ دیر سے آنے والوں کے ساتھ دوسری منزل کی گیلری میں جگہ ملی‘ جہاں لائوڈ سپیکر کے ذریعے آواز تو صاف آ رہی تھی‘ لیکن مولانا پر نظر کھڑے ہو نے پر ہی پڑتی تھی۔ مستقل کھڑا رہنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھ کر مولانا کو دیکھتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ موضوعِ تقریر ’’دعا کی اہمیت‘‘ تھا۔ مولانا کا ٹھیرا ہوا پروقار لہجہ اور تکلف سے پاک اندازِ بیان‘  دل میں گھرکر رہا تھا۔ جتنی بار اٹھ کر مولانا کو دیکھتا ہربار فرطِ مسرت سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ درس کے اختتام پر ہجوم کے سبب ہاتھ ملانے کی خواہش تشنۂ تکمیل رہی‘ لیکن مولانا کو دیکھنے اور سننے کا نشہ تادیر قائم رہا۔

اس واقعے کے کئی سال بعد ۱۹۷۰ء کے قومی و صوبائی انتخابات کا اعلان ہوا۔ مجھے ایک سال قبل جماعت کے رفقا کیڈٹ کالج پٹارو ]سندھ[ سے تعمیرنو اسکول‘ سکھر لے جاچکے تھے۔ کہا یہ گیا تھا کہ تعمیرنو کے ہیڈ ماسٹر حافظ وحید اﷲ‘ تنظیم اساتذہ کی تشکیل کے سلسلے میں سکھر سے لاہور منتقل ہو گئے ہیں اور مولانا کی خواہش ہے کہ میں ان کی جگہ تعمیرنو اسکول سنبھالوں۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے لیے نامزدگیاں شروع ہوئیں تو حیدر آباد جماعت نے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے میرا نام طے کیا۔

انتخابی مہم کے دوران میرے ایک شاگرد اپنے پیپلز پارٹی سے منسلک دوستوں کی ناراضی کی قیمت پر میرا سیاسی کام کر رہے تھے‘ اور اس انداز سے کر رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں کو کام کا ہدف پورا کرنے پر تفریح کے لیے لے جاتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی نکلے‘ آپ مجھے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کرانے لاہور لے کر جائیں گے۔ ان دنوں مولانا مرحوم و مغفور کی صحت اس حد تک خراب تھی کہ معالجین نے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا‘ اور مولانا نے یہ پابندی اپنی شدید خواہش کے علی الرغم قبول کر رکھی تھی۔ ان نوجوان کا کہنا تھا: ’’مولانا سفر کرنے سے قاصر ہیں‘ اور میں ان سے بالمشافہہ ملنا چاہتا ہوں۔ اس لیے وعدہ کریں کہ انتخابی مہم کے بعد لاہور چلیں گے اور مجھے مولانا سے ملوائیں گے‘‘۔

اس وعدے کی تکمیل نے مولانا مرحوم و مغفور سے بالمشافہہ ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ لاہور پہنچ کر میں نے چودھری رحمت الٰہی صاحب ] سیکرٹیری جنرل جماعت اسلامی پاکستان[ سے اپنا اور نوجوان کا تعارف کرایا‘ اور ان کی خواہش کی اس شدت کا ذکر کیا کہ وہ مجھے اپنے خرچ پر لاہور لائے ہیں اور اب ہوٹل میں مقیم ہیں۔ چودھری صاحب نے ذرا تکلف و جرح کے بعد ہماری درخواست منظور کر لی۔ پھر دونوں سراپا اشتیاق مولانا کے کمرۂ مطالعہ و ملاقات میں داخل ہوئے۔ مولانا نے  کمال شفقت سے سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا۔ اپنی آئیڈیل شخصیت سے اس قربت کا احساس اور مولانا کے ہاتھ کے لمس نے کچھ دیر کے لیے تو ہم دونوں کو مبہوت رکھا۔ نوجوان تو آخر تک شخصیت کے محبوبانہ طلسم سے آزاد نہ ہو سکے۔ میں نے مختصراً اپنا تعارف کرایا تو مولانا نے کیڈٹ کالج‘ پٹارو سے سکھر اور سکھر سے نوکری چھڑوا کر حیدر آباد بلوانے پر معترضانہ انداز اور تشویش بھرے لہجے میں صرف: ’’اچھا!‘‘ کہا اور پھر دریافت فرمایا: ’’اب آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا:     ’’فی الحال توبے کار ہوں‘‘۔ مولانا نے زبان سے کچھ نہیں کہا‘ لیکن ان کے چہرے پر جو تشویش کے آثار نظر آئے‘ انھیں مجھ سے زیادہ میرے ساتھی نے نوٹ کیا۔

پھر میں نے اس نوجوان کا تعارف کرایا: ’’یوں تو یہ ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بزرگوں سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن ان کے بزرگ کھائو پیر نہیں بلکہ مریدوں کی ہر طرح خبر گیری کرتے ہیں اور یہ خود انگریزی میں ایم اے کر رہے ہیں‘‘۔ مولانا نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا: ’’جماعت اسلامی کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے‘ جو کہیں کہ ہماری ذہانت دین کی راہ میں کھپا دیجیے‘‘۔

میں چاہتا تھا کہ اپنے تعارف کے بعد‘ میرے ساتھ جو شاگرد شدید چاہت سے مولانا سے ملنے آئے ہیں‘ وہ خود مولانا سے ہم کلام ہوں۔ لیکن ان پر نظر پڑی تو انھیں اسی طرح مبہوت پایا۔ اب میں تو محض ان کی خواہش پر آیا تھا‘ خالی الذہن اور خود وہ بھی خاموش بیٹھے تھے۔ مولانا گویا ہماری جانب سے کسی سوال کے منتظر تھے۔

چند ثانیے کی خاموشی کی بعد میرے ذہن میں ایک خیال آیا‘ جس کے اظہار کے ذریعے یہ سلسلۂ سکوت توڑا۔ میں نے عرض کیا:میرے شیعہ دوست ہیں جو پروفیسر کرار حسین صاحب اور پروفیسر حسن عسکری کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ مذکورہ دو اساتذہ کی خدمت میں حاضر تھے‘ اور وہ دونوں اسلام کے حوالے سے کسی نظری بحث میں مصروف تھے۔ میں نے نہایت ادب سے یہ سوال کیا کہ جناب یہ نظری بحث اپنی جگہ‘ لیکن یہ نوجوان نسل جو اسلام سے دور ہوتی جا رہی ہے اس بارے میں بھی آپ حضرات نے کچھ سوچا؟ اس پر پروفیسر    حسن عسکری نے کہا: ’’نادر صاحب‘ جب آپ شاگرد تھے تو کوئی بھی شخص بال بڑھائے مذہب پر تنقید کرنے کھڑا ہو جاتا اور کمیونزم کے بارے میں دلائل دے کر مرعوب و متاثر کر سکتا تھا‘ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ آج کے طالب علم خود کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ نوجوان بھرپور استدلال سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘‘۔ عسکری صاحب نے مزید کہا: ’’مولانا مودودی نے اگر اپنی زندگی میں اور کوئی کام بھی نہ کیا ہوتا ‘ صرف اسلامی جمعیت طلبہ ہی کی تشکیل کی ہوتی تو ان کی بخشش کے لیے یہی ایک چیز کافی تھی‘‘۔

میں نے یہ واقعہ اس تمہید کے ساتھ گوش گزار کیا : ’’میں منہ پر تعریف نہیں کر رہا‘ بلکہ تحدیث ِ نعمت کے طور پر یہ واقعہ سنا رہا ہوں‘‘۔ میں نے دیکھا ‘مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا چہرہ کسی قسم کے جذبۂ فخر سے بیگانہ تھا۔ پھر نہایت سادہ لہجے میں مولانانے یہ فرمایا: ’’ہاں‘ یہ بات بعض مواقع پر   اے کے بروہی صاحب اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے بھی کہی ہے‘‘۔ پھر ذرا سے توقف کے بعد فرمایا: ’’تقسیم ملک کے بعد بعض طالب علم میرے پاس آئے اور کہا ہمیں جماعت اسلامی میں شامل کر لیں‘تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی اور میں نے انھیں مشورہ دیا کہ دعوت دین کا جو کام جماعت اسلامی عوام میں کر رہی ہے وہی کام وہ آزادانہ طور پر طالب علموں کے دائرے میں رہ کر کریں‘‘۔پھر مربیانہ انداز میں فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ بندے سے کوئی خدمت لے تو بندے کو اس پر شکر کرنا چاہیے کہ یہ خدمت اس سے لی گئی۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں نے یہ کام کیا ہے‘‘۔

اب مولانا کا قیمتی وقت لینے کا کیا جواز تھا؟ لیکن اپنے شاگرد کے شوقِ ملاقات کی تسکین ہی کی خاطر ایک عام سا سوال کر ڈالا: ’’مولانا! یہ ہم جماعت کے لوگوں نے ایک خاص وضع کی چھوٹی داڑھی رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اور جسے ہمارا ٹریڈ مارک سمجھ لیا گیا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

مولانا نے بزرگانہ بے تکلفی سے جواب دیا: ’’دیکھیے‘ داڑھی کے بارے میں یہ بات نظر میں رکھیے کہ داڑھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مجبوری کی اور دوسری اختیار کی۔ مجبوری کی داڑھی وہ ہے جو نہ رکھی جائے تو مسجد کی موذنی نہ ملے‘ مدرسے کا وظیفہ نہ ملے‘ یہ داڑھی تو آپ جتنی لمبی چاہیں رکھوا لیں۔ لیکن جہاں تک اختیار کی داڑھی کا تعلق ہے ‘جس کے لیے کوئی مجبور نہیں کر رہا اور محض دین داری کی وجہ سے رکھی جارہی ہے‘ وہ ایک قسم کا جہاد ہے۔ ایسی داڑھی رکھنے والوں کو کالجوں اوریونی ورسٹیوں اور دفتروں میں فقرے بازی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میرے علم میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں کہ کسی نوجوان نے داڑھی رکھ لی تو اس کی منگنی ٹوٹ گئی۔ اس لیے میرے نزدیک تو ان لوگوں کی یہ چھوٹی داڑھی بھی جہاد سے کم نہیں ہے۔ اب ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ نہیں اتنی رکھو‘ یہ نامناسب ہے‘‘۔

میں چونکہ داڑھی کی شرعی حیثیت کے بارے میں مولانا کا موقف پڑھ چکا تھا اور یہ مقولہ بھی سن چکا تھا کہ: ’’اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں‘‘، نیز یہ کہ ’’داڑھی پہلے اندر جڑ پکڑ کر باہر آئے تو داڑھی معتبر ہوتی ہے ورنہ سکھوں کی داڑھی تو مسلمانوں سے کہیں بڑی ہوتی ہے‘‘۔

یہ بات بھی پوری ہوئی‘ لیکن لذت کلام ہی کے لیے سلسلۂ کلام جاری رکھنا ضروری تھا۔ اس لیے ایک اور سوال پیش کر دیا: ’’مولانا‘ آپ نے صحیح فرمایا۔ میں خود اس قسم کے طنز کاشکار رہا ہوں۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حلقۂ احباب کے حلق سے داڑھی اتر جاتی ہے بلکہ میرے بعض احباب نے تو یہ بھی کہا کہ یار! اب اسے کٹوانا مت۔ جب طنز و تشنیع کا مرحلہ گزر جائے تو پھر داڑھی بڑھانے میں کیا قباحت ہے؟‘‘ (میرے ذہن میں خود مولانا کا طرز عمل تھا)۔

مولانا نے شگفتگی سے فرمایا: ’’ایک یہ بات بھی ہے کہ جہاں یہ لمبی داڑھی ناکام رہتی ہے‘ وہاں یہ چھوٹی کام نکال لے جاتی ہے‘‘۔ اس وقت تو یہ جواب سن کر ہنس کر رہ گیا لیکن بعد میں اس بلیغ جملے پر غور کیا تو اس کی صداقت واضح ہوتی گئی۔

میں نے اپنے ساتھی کو کنکھیوں سے دیکھا تو وہ اسی طرح نظریں نیچے کیے مؤدب بیٹھے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ ان کی تسکینِ خاطر کے لیے اتنا وقت لے لینا ہی کافی‘ بلکہ بہت زیادہ تھا۔ اب   ہمیں مولانا کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں۔ چنانچہ مولانا سے اجازت چاہی‘ مولانا نے ازراہ شفقت دوبارہ مصافحہ فرمایا‘ اور ہم دونوں اس قیمتی لمحۂ حیات کے نشے میں سرشار باہر آگئے۔

میرا خیال تھا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہو جانے پر شاگرد صاحب خوش اور میرے ممنون ہوں گے‘ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ دروازے سے باہر آتے ہی بولے: ’’سر‘ آپ نے اپنی بیکاری کا تذکرہ مولانا سے کیوں کیا؟ آپ نے مولانا کو پریشان کر دیا‘‘ --- ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ بو لے: ’’آپ کو اپنی بے کاری کا تذکرہ مولانا سے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ نے دیکھا تھا‘ مولانا آپ کی بات سن کر پریشان ہو گئے تھے۔ سر‘ اچھا نہیں کیا آپ نے۔ مولانا کو بڑے بڑے مسائل سوچنے پڑتے ہیں۔ آپ نے ان کے ذہن پر ایک اور بوجھ ڈال دیا‘‘۔ میں نے کہا: ’’چلیے‘ ابھی تو ہم لاہور میں ہیں نا۔ کل عصر کی نشست میں‘ میں اطمینان دلادوں گا کہ حیدر آباد میں غزالی کالج میں جگہ نکلنے والی ہے‘ وہاں مصروف ہو جائوں گا‘‘۔

دوسرے روز اسی مقصد سے عصری نشست میں شریک ہوئے۔ محفل کا واحد موضوع   ]دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں[ جماعت کے امیدواروں کی ناکامی تھا اور اس ضمن میں       جمعیت علماے پاکستان کے معاندانہ پروپیگنڈے کا بطورخاص ذکر تھا۔ ایک صاحب نے کہا: ’’مولانا! یہ علماے پاکستان والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی ۲۵‘ ۳۰ سال سے کام رہی ہے۔ ہم ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ہیں‘ لیکن ہم نے جماعت اسلامی کو ایسے شکست دی ہے جیسے کوئی بچہ کسی پہلوان کو پچھاڑ دے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’یہ نادان لوگ ہمیں اپنا حریف سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ ہم ان کی فصیل تھے۔ دین کے خلاف اب جو طوفان آنے والا ہے (اشارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی طرف تھا) اُسے یہ نہیں روک سکیں گے۔ ہم شاید روک لیتے‘‘۔ پھر ذرا توقف کے بعد فرمایا: ’’سیاسی جماعتوں کا کام عوام کو سیاسی طور پر ایجوکیٹ educate]‘یعنی رہنمائی[کرنا ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے عوام کو ڈس ایجوکیٹ diseducate] ‘یعنی گمراہ[کیا ہے۔ کسی نے روٹی کے نام پرایکسپلایٹ ] exploit - استحصال[کیا ہے ‘کسی نے روضے کے نام پر‘‘۔

ایک صاحب نے کہا: ’’جی ہاں مولانا‘ کہا یہ جاتا تھا کہ دیکھ جنت کی چابی کو اور رسولؐ اللہ کے روضے کو (مراد تھی وہ جھنڈا جس پر گنبد خضرا بنا ہوا تھا) ووٹ دینا ہے‘ باوضو آنا ورنہ ووٹ قبول نہیں ہو گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے گرہ لگائی: ’’جی مولانا‘ یہ کہتے تھے کہ جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ ملک میں سوشلزم آ گیا تو روسی ترکستان کی طرح مساجد میں تالے پڑ جائیں گے۔ پڑ جائیں تالے‘ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے صدقے میں پوری زمین ہمارے لیے مسجد بنا دی گئی ہے‘ ہم جہاں چاہیں گے سجدہ کر لیں گے۔ لیکن یہ وہابی ہمارے بزرگوں کے مقبرے ڈھادیں گے تو وہ ہم کہاں سے لائیں گے‘‘۔ ایک اور صاحب نے لَے میں لَے ملائی: ’’مولانا‘ شبرات کا موقع تھا‘ ان کے مقررین کہتے تھے: لوگو‘ اس سال اپنے بزرگوں کی روحوں کو ایصال ثواب کر دو۔ اگر اگلے سال یہ وہابی آ گئے تو تمھارے بزرگ قبروں میں ایصال ثواب کو ترسیں گے‘‘۔

’’جی ہاں!‘‘ مولانا نے تینوں حضرات کے بیان پر مسکرا کر پنجابی کا صرف ایک فقرہ فرمایا: ’’ہور‘ چوپو‘‘۔ اب جن لوگوں نے سکھوں کا وہ لطیفہ سنا ہوا تھا جو اس جملے پر ختم ہوتا تھا‘ وہ اس فقرے سے ایسے محظوظ ہوئے کہ ذرا دیر کے لیے تشویش و اضطراب کی فضا خوشگوار ہو گئی۔ میں نے سوچا اگر اس وقت کسی اور سیاسی پارٹی کا سربراہ مولانا کی جگہ بیٹھا ہوتا تو کیا وہ بھی ایسی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرسکتا تھا؟ کیا دل کی یہ سکینت اللہ تعالیٰ کی خاص دین نہیں۔

جی نے چاہا کہ میں بھی کسی بہانے گفتگو میں شرکت کروں‘ چنانچہ میں نے بھی ایک سوال داغ دیا: ’’مولانا! اگر ]صدر جنرل [یحییٰ خان کے دیے ہوئے پلان پر عمل کیا گیا تو کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکے گا؟‘‘ مولانا نے اب تک کے اپنے انداز گفتگو کے برعکس ذرا تیز لہجے میں فرمایا: یحییٰ خان عوام کو کس برتے پر اعتماد میں لیں گے‘ ان کے پاس اب رہا کیا ہے؟ اب تو آپ انتظار کیجیے اور یہ دیکھیے کہ یحییٰ خان صاحب نے جو گڑھا کھودا ہے اس میں وہ خود پہلے گرتے ہیں یا قوم گرتی ہے‘‘۔ مولانا کی یہ تشویش کس قدر مبنی برحقیقت تھی۔ اس کا ثبوت ذوالفقار علی بھٹو کی ہوس اقتدار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور وہاں خون ریزی اور بھارت کی یلغار کی شکل میں ملا۔

عصری نشست سے اٹھ کر مولانا اپنے کمرے میں جانے لگے تو میں نے آگے بڑھ کر سلام اور مصافحہ کیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’اچھا‘ آپ لوگ ابھی لاہور ہی میں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’مولانا‘ یہ میرے شاگرد مجھے ڈانٹ رہے ہیں کہ تم نے کل اپنی بے کاری و بے روزگاری کا ذکر کرکے مولانا کو پریشان کر دیا ہے‘ تو عرض ہے کہ ان شاء اللہ چند روز میں مجھے غزالی کالج میں ملازمت مل جائے گی‘‘۔ مولانا نے تشفی طلب انداز میں سوال کیا: ’’ہوجائے گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘ ان شاء اللہ ہو جائے گی‘ آپ دعا فرمایئے گا‘‘۔ مولانا آگے بڑھ گئے تو میں نے اپنے شاگرد سے کہا: ’’اب تو آپ کی تسلی ہو گئی‘‘۔ وہ بولے: ’’ہاں سر‘ یہ ضروری تھا‘‘۔

لاہور سے واپسی پر اکثر احباب کو میں یہ روداد سناتا رہا کہ ’ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے‘ یہاں تک کہ تنظیم اساتذہ سندھ کے ذمہ دار کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ کل پاکستان اجتماع میں شرکت کے موقع پر تین چار افراد کے ساتھ مولانا سے ملاقات کا موقع ملا۔ اس وقت تک مولانا کی صحت خاصی گر چکی تھی۔ ہم کمرۂ ملاقات میں اسی تشویش کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مولانا کوئی ۱۵‘ ۲۰منٹ بعد اندرونی دروازے سے کمرے میں واکر کے سہارے داخل ہوئے۔ حافظ وحید اللہ خان نے آگے بڑھ کر سہارا دینا چاہا تو فرمایا: ’’نہیں نہیں‘ آپ بیٹھیے‘ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں‘‘۔

اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی مولانا نے سوال کیا: ’’آپ لوگ کتنی دیر سے یہاں تشریف رکھتے ہیں؟‘‘ حافظ صاحب نے کہا: ’’کوئی ۱۵‘ ۲۰ منٹ ہوئے ہوں گے۔ معلوم ہوا تھا کہ آپ بیت الخلا میں ہیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’نہیں صاحب‘ میں اتنی دیر بیت الخلا میں نہیں بیٹھتا۔ مجھے تو آپ لوگوں کے آنے کی خبر ابھی ملی۔ بیٹی آئی ہوئی تھی‘ میں اس سے بات کر رہا تھا۔ افسوس کہ آپ لوگوں کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی‘‘۔ حافظ صاحب نے کہا: ’’مولانا سنا ہے دو چار ماہ سے آپ کی طبیعت زیادہ ناساز ہے‘‘۔ فرمایا: ’’دوچار نہیں پورے چھ ماہ سے‘‘۔ میں نے اپنی طبیعت کے مطابق بات سے بات پیدا کی: ’’مولانا‘ حافظ صاحب بھی تو دو چار ماہ کہہ رہے ہیں۔ دو چار چھ ہی تو ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن  مولانا اپنی طبیعت کے اضمحلال کے تحت اس فقرے سے محظوظ نہیں ہو سکے۔ حافظ صاحب نے اپنا مدعا بیان کیا: ’’الحمدللہ! تنظیم اساتذہ کا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے ہزاروں افراد جامعہ پنجاب میں جمع ہیں‘‘۔ مولانا نے اس اطلاع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے اپنے معاونین سے کہا ہے کہ میں اپنی صحت کی مجبوری کی بنا پر اجتماع گاہ نہیں جا سکتا۔ یہیں کرسیوں کا اہتمام کر دیں تاکہ میں جملہ مندوبین سے گفتگو کر سکوں‘‘۔ سرحد سے آئے ہوئے جناب عبدالعزیز نیازی نے اپنے صوبے میں پھیلے ہوئے نسلی تعصب کے مسئلے کو چھیڑا تو مولانا نے فرمایا: ’’لوگوں کو یہ احساس دلایے کہ تعصب ایسی لعنت ہے کہ ایک مرتبہ یہ بیماری لگ جائے تو                     اس کادائرہ مسلسل محدود سے محدود تر ہوتا جاتا ہے‘ اور خود ایک فرد بھی اس تقسیم کا شکار ہوکر             split personality ]منقسم شخصیت[کی طرح دو لخت ہو جاتا ہے‘‘۔

اس سے قبل اجتماع کے بعض شرکا عصری نشست میں بھی مولانا سے مل چکے تھے۔ اس موقع پر مولانا نے فرمایا تھا: ’’آپ حکومت سے تو نظام تعلیم میں بہتری لانے اور نصابات کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ بھی جاری رکھیں‘ لیکن اپنے طور پر بھی یہ کام مستقلاً کرتے رہیں‘ تاکہ جب اس کے نفاذ کا موقع آئے تو آپ تہی دست نہ ہوں‘‘۔

نظام امتحان کی خرابیوں کے حوالے سے فرمایا: ’’ایک بار ایک تعلیمی ادارے نے ایک امتحانی پرچہ مجھ سے بھی مرتب کرایا تھا۔ میں نے جو پرچہ بنایا تھا اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی کر دی کہ طلبہ دورانِ امتحان کتب خانے سے جو کتاب چاہیں طلب کر کے اس کی مدد سے جواب لکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ پرچہ ایسا تھا کہ نقل کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔

تنظیم اساتذہ کے مندوبین کو یہ مژدہ ملا کہ مولانا ان سے خطاب کریں گے تو لوگ جوق درجوق جامعہ پنجاب کے نئے کیمپس سے مولانا کے مکان پر اچھرہ پہنچے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں پہلے اس بات پر معذرت چاہی کہ خرابی صحت کی بنا پر وہ اجتماع گاہ نہیں پہنچ سکے اور مندوبین کو اچھرہ آنے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعداستاد کے منصب اور  بطور خاص ایک تحریکی استاد کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور اپنی ۱۵‘۲۰منٹ کی گفتگو کا اختتام اس اہم نکتے پر کیا‘ کہ ایک نصاب وہ ہوتا ہے جو نصابی کتب میں لکھا ہوتا ہے‘ اور ایک وہ ہوتا ہے جو ایک استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اصل اہمیت اس نصاب کی ہے جو استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ مقصد سے لگن رکھنے والا استاد گیتا سے قرآن پڑھا سکتا ہے۔

اساتذہ ساکت وصامت مولانا کے ایک ایک لفظ کو انتہائی عقیدت سے دل میں اتار اور جز و فکر بنا رہے تھے۔ آخر میںمولانا نے فرمایا: حضرات! اب میری توانائی جواب دے رہی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی سعی کو مشکور فرمائے۔ پھر مسنون دعا پر اپنی زندگی کے اس آخری عمومی خطاب کو ختم فرمایا ]دسمبر ۱۹۷۸ئ[۔ مجمع کے ہر فرد کا روشن چہرہ اس فخر کا غماز تھاکہ اسے اپنے محبوب رہنما اور عالم اسلام کے منفرد بطلِ جلیل کا مخاطب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔

مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدید دور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو اچھی طرح سے ثابت کر دیا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی‘ بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظام رحمت کو  جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی ریاست کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے اعتماد‘ یقین‘ مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے عصرِحاضر کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر اپنی اجتہادی بصیرت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اسلام کے اصول حکمرانی‘ اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ‘ اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ‘ اسلامی قانون کے ماخذ اورعصرحاضر میں اسلامی قوانین کے قابل نفاذ ہونے کے امور پر بحث کی اور واضح لائحہ عمل دیا۔ ان امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر‘ مضامین اور کتب میں پورے شرح وبسط کے ساتھ کی۔

اس تحریر میں قانون اور سیاست سے متعلق چند یادداشتیں قلم بند کر رہا ہوں:

  • اسلامی کلو کیم میں مقالہ: حکومت پاکستان اور پنجاب یونی ورسٹی لاہور      نے مشترکہ طور پر ۶ تا ۱۶ جمادی الثانی ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۸ جنوری ۱۹۵۸ء  الندوہ العالمیہ للاسلامیات منعقد کرایا تھا‘ جس میں دنیاے اسلام کے نامور مفکرین‘ ممتاز علما و مشائخ اور اساتذہ کرام کے علاوہ یورپ اور امریکہ سمیت کل ۳۳ ممالک کے بعض ممتاز اسکالروں اور مشہور مستشرقین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مولانا مودودیؒ کو ۱۶ رکنی انٹرنیشنل کلوکیم کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اس کلوکیم کے موضوعات طے کیے‘ اور اس کی پوری منصوبہ بندی کی تھی۔

میں ان دنوں قصور میں وکالت کرتا تھا۔ اس کلوکیم کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر میں نے عالم اسلام کے نامور اسکالروں کے بلند پایہ مقالات سے استفادہ کیا تھا۔

دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلسِ مذاکرہ میں مولانا مودودیؒ نے ۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو ’’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا تھا‘ جو بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما نے بہت داد دی تھی۔

اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے‘ اس علمی تحقیق اور عقلی کاوش کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزادانہ اجتہاد کی بھی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں‘ وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے‘ وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔

اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف بیان کیے جن کے مطابق مجتہد میں:

  • شریعت کے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ
  • عربی زبان و ادب سے اچھی واقفیت
  • قرآن و سنت کا گہرا علم
  • پچھلے ادوار کے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت
  • عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت
  • اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار ہونا چاہیے۔

مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ بھی تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یہ چار صورتیں بیان کیں: l یہ کہ تمام امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہو۔ l یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے۔ l یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے۔ l چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔

  • یونی ورسٹی لا کالج میں خطاب: میں ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۷ء تک پنجاب     یونی ورسٹی لا کالج کا طالب علم رہا۔ اس دوران میں لا کالج اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مسعود ملک یونین کے صدر اور امین ملک جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ یونین نے لاکالج میں خطاب کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کا جو وفد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔ ہم نے مولانا سے خطاب کی درخواست کی تو مولانا نے شفقت سے دعوت قبول کر لی‘ اور فرمایا: ’’آپ کس موضوع پر میری تقریر کرانا چاہتے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’لا کالج کے طلبہ دو نکات پر آپ سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ ایک تو آپ اسلامی قانون کے ماخذ بیان کریں‘ جن میں سنت کے ماخذِقانون ہونے کی کھل کر وضاحت کی جائے۔ کیونکہ فتنہ انکارِ سنت نے سنت کی حجیت کے بارے میں بعض ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے ہیں۔ دوسرے یہ ‘سوال بعض طلبہ کے ذہن میں موجود ہے کہ کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابل نفاذ ہیں اور پاکستان میں کیوں اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہییں۔ اس سوال کی وضاحت بھی مطلوب ہے۔ آپ اس سوال کا جواب دے کر طلبہ کو مطمئن فرمائیں‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے اسٹوڈنٹس یونین لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو امور کی اچھی طرح وضاحت تک مرکوز رکھا۔ اور فرمایا: ’’اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے‘ جو انھی الفاظ میں محفوظ ہے‘ جن میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (latest edition) ہے۔ مسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے‘‘۔

اسلامی قانون میں سنت کے مقام و مرتبے کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے وضاحت فرمائی: ’’اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ سنت رسولؐ ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا۔ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی اور اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا۔ اس طرح سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایا: ’’افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ سنت کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کر کے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے سنت کے حجت ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم‘ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی ہیں‘ جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اﷲ ہیں۔ اس بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح آنحضوؐرکے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا‘ اس کے نظائر اور روایات سے حدیث‘ تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جاسکتا ہے‘‘۔

چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’یہ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں‘ جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں‘‘۔

اسلامی قانون کے چاروں ماخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور ریاست کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔

مولانا مودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا۔ بعض لوگوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ قیام پاکستان کے چند ماہ بعدہی مولانا مودودیؒ‘ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے‘ تب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انھیں یونی ورسٹی لا کالج میں اسلامی قانون کے حوالے سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت‘ اس کی روح‘ اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول وضاحت سے بیان کیے تھے۔ اس کے بعد ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ’’پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر یونی ورسٹی لا کالج لاہور میں ایک اور لیکچر دیا تھا۔

آخر میں‘میں مولانا مودودیؒ کی ایک اہم ملاقاتوں کے بارے میں عرض کروں گا:

دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ: میں ملاقات کے لیے آپ کے ہاں آنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ‘ بھٹو صاحب سے گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں ملاقات کر لیں۔ اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ عالم اسلام کے نام ور عالمِ دین ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلب گار ہوں‘ کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’بھٹو صاحب‘ آپ نے عام انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پھر معروف سوشلسٹ اور دین سے بے زار افراد آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں‘ ہم کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟‘‘

۱۹۶۹ء تک میں‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔یہ صدر ایوب مرحوم کی حکومت کے آخری دور کی بات ہے جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ صدر صاحب نے حزبِ اختلاف کو دعوت دی تھی کہ وہ ان سے مل کر آئینی معاملات طے کریں۔ کئی سیاست دانوں نے اس دعوت نامے کو رد کر دیا۔ حزبِ اختلاف میں چند قائدین کے مسلسل انکار کی وجہ سے حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے تھے۔ اسی دوران سیدمودودیؒ کا ایک بیان اخبار میں پڑھا جس کا ایک فقرہ اب بھی یاد ہے: ’’ملک کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ جب یہ فقرہ پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اگر بات چیت سے معاملات طے ہو سکتے ہیں تو پھر ہنگامہ آرائی اور ملک کو دوسرے مارشل لا کی طرف دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یوں لگا کہ یہ کوئی خاصا سمجھ دار انسان ہے جس کو موقع کی نزاکت کا پورا پورا ادراک ہے‘ اور اگر یہ راستہ اختیار نہ کیا گیا تو معاملہ مزید بگڑسکتا ہے اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ مجھے یہ بیان اس لیے بھی اچھا لگا کہ چلو ہمارے مولوی صاحبان میں سے کسی ایک مولوی صاحب کو تو سیاسی بصیرت حاصل ہے۔ اس وقت تک میں جماعت اسلامی یا دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے حدود اربع کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ بہرحال ایوب صاحب جاتے جاتے اقتدار ایک فوجی جرنیل کے حوالے کرگئے۔ اس موقع پر مجھے مولانا مودودیؒ کا وہ بیان یاد آیا کہ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ اس شخص کی بات مان لی جاتی اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔

اسی دوران ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ عجب عالم تھا۔ پیپلز پارٹی ایک آندھی کی طرح آئی اور عام آدمی میں بہت مقبول بھی ہوئی۔ اس کا نشانہ بھی جماعت اسلامی اور مولانا مرحوم کی ذات تھی۔ کئی قسم کے نعرے ایجاد ہوئے۔ ان میں ایک نعرہ تھا جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں مولانا مودودیؒ کو دیکھوں اور وہ نعرہ تھا: ’’سو یہودی‘ ایک …‘‘جب میں نے یہ نعرہ سنا تو مجھے بہت اشتیاق ہوا کہ اس شخص کو ضرور دیکھوں جسے یہ لوگ اس نام سے ’سرفراز‘ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ خیال بھی آتا کہ اگر یہ شخص اتنا ہی بُراہے تو پھر اس کا وجود کیوں برداشت کیا جا رہا ہے۔ میں نے مولانا کو اسی نعرے کی وجہ سے دیکھنے اور جاننے کا ارادہ کیا۔

میں نے مولانا کے گھر کا پتا لیا اور ان کی رہایش گاہ پر پہنچا۔ راستے میں طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں آئے اور جوں جوں میں اچھرہ کی حدود کے قریب پہنچتا گیا‘ مجھ میں    بے چینی بڑھتی گئی۔ میں عصرکی نماز کے بعد وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں پر کچھ لوگ کرسیوں پر اور کچھ نیچے صفوں پربیٹھے ہوئے تھے۔ ایک چھوٹی سی میز اور ایک کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جو اس بات کا پتادیتی تھی کہ کسی نے آکر یہاں بیٹھنا ہے۔ وہاں ایک فرد سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہاں مولانا مودودیؒ بیٹھیں گے۔ یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوا کہ چلو مولانا کو دیکھ لیں گے کیونکہ میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ مولانا کو ملنے کے لیے ان کے سیکرٹری کو ملنا ہوگا۔ ملاقات کا وقت لیا جائے گا اور معلوم نہیں کتنا وقت ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ مولانا تشریف لائے اور کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ ان کے آنے اور بیٹھنے کی عاجزی کو دیکھ کر میرے دل نے گواہی دی کہ یہ شخص ایسا تو نہیں ہو سکتا‘ جس طرح اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ میری موجودگی میں کئی ایک حضرات نے اُلٹے سیدھے سوالات پوچھے۔ مولانا نے بڑے تحمل اور بردباری سے ان سوالات کے نہایت معقول جوابات دیے۔ کچھ لوگوں نے ایسے ایسے سوال بھی کیے کہ میں سمجھتا تھا کہ ان کے جوابات بہت مشکل ہیں اور مولانا کیا جواب دیں گے۔ لیکن مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مولانانے ان کے مختصر اور بہت ہی صحیح جواب دیے۔ ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا جیسے ان کو جواب دینے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی۔

ان سوالوں میں دینی مسائل بھی تھے اور سیاسی باتیں بھی۔ ان دنوں مولانا عصر سے لے کر مغرب تک باہر لان میں عصری نشست کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے بھی کبھی کبھار وہاں جانا شروع کر دیا۔ جتنی دفعہ بھی گیا اچھی چیز ہی دیکھی اور میرے اندر ان کی ذات کے بارے میں جو نقشہ لوگوں کی غلط باتوں سے بنا ہوا تھا وہ ریت کے گھروندے کی مانند مسمار ہوتا گیا۔

کچھ عرصے بعد میں نے بھی ہمت کر کے سوالات پوچھنے شروع کیے۔ ان سوالوں کا سلسلہ کچھ اس طرح ہوگیا کہ وہاں پر موجود لوگوں نے مجھے جاننا شروع کر دیا اور مولاناؒ نے بھی۔ وہ اس لیے کہ مجھے اونچی آواز میں ذرا جلدی جلدی بولنے کی عادت تھی۔ ایک دفعہ میں نے مولاناؒ سے جب یہ پوچھا: ’’لوگ آپ کے بارے میں بہت ہی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں‘‘۔ ابھی میرا سوال پورا ہی نہیں ہوا تھاکہ مولانا خلافِ معمول میرا سوال کاٹ کر فرمانے لگے: ’’اور آپ کو اس پر غصہ آتا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا: بالکل آتا ہے‘وہ اس لیے کہ جب کوئی شخص کسی کا احترام کرتا ہوتواس کے بارے میں غلط بات سننے پر غصہ آتا ہے‘‘۔مولانا نے فرمایا: ’’لگتا ہے کہ آپ نے تاریخِ اسلام کا توجہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو آپ مجھ سے یہ سوال نہ پوچھتے۔ آپ تاریخِ اسلام اٹھا کر دیکھیے ہمارے بزرگوں کے ساتھ تو بہت کچھ ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں میرے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہوا‘‘۔ ان کا یہ جواب سن کر میرے دل نے کہا کہ مولانا آپ کی عظمت کو سلام!

یہ تو محض ایک سنجیدہ سوال تھا۔ یہاں میں چند ایک غیر مہذب سوالوں کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو‘ مولانا کتنے صابر اور بردبار انسان تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات ایک عجیب و غریب دور کی علامت تھے۔ اسی دوران ایک شخص نے مولانا سے کہا: ’’مولانا‘ مخالف لوگ آپ کی داڑھی کو نقلی داڑھی کہتے ہیں‘‘۔ مولانا فرمانے لگے: ’’آپ میرے پاس آئیں اور خود دیکھ لیں کہ نقلی ہے یا اصلی‘‘۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک شخض نے کہا: ’’آپ ۱۰۰ روپے والا پان کھاتے ہیں‘‘۔ مولانا مسکرا کر کہنے لگے کہ: ’’آپ آئیں اور میرے پان دان میں جتنے پان ہیں اٹھا لیں اور مجھے صرف ۱۰ روپے دے دیں‘‘۔کسی نے کہا: ’’مولانا سنا ہے آپ آدھا قرآن مجید مانتے ہیں اور آدھا نہیں مانتے‘‘۔مولانا نے کہا :’’میں نے ۲۸ پاروں تک اس کا ترجمہ تحریر کر دیا ہے‘ پھر بھلا میں کیسے آدھے قرآن کو مانتا ہوں اور آدھے کو نہیں‘‘۔

ان بھولے بسرے واقعات کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ قارئین جان سکیں کہ مولاناؒ کی ذات کیسی تھی۔ اس لیے بھی کہ بعض حلقوں میں مولانا کے بارے میں یہ غلط تاثر تھا کہ مولانا بہت مغرور آدمی ہیں اور لوگوں سے باتیں کرتے وقت ان کا مزاج روکھا ہوتا ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر حضرات‘ چرب زبان آدمی کو بہت اچھا اور عقل مند سمجھتے ہیں‘ حالانکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا کم سخن تھے۔

ایک دفعہ ان کے ڈرائیور کو جو غالباً فیصل آباد (اُس وقت لائل پورتھا) کا رہنے والا تھا‘ چند دنوں کی رخصت چاہیے تھی۔ لیکن مولانا کی مصروفیات ان دنوں کچھ ایسی تھیں کہ ڈرائیور کا ہونا لازمی تھا۔ میری موجودگی میں مولانا نے جب ڈرائیور سے پوچھا: ’’کیا یہ چھٹیاں کم نہیں ہوسکتیں یا چند دن بعد نہیں لی جا سکتیں؟‘‘ تو اس نے کہا: ’’جی نہیں‘ مجھے بہت ضروری کام ہے‘‘۔ مولانا نے مسکرا کر صرف یہ کہا: ’’سب لوگوں کو ضروری کام ہیں۔ بس صرف میں ہی ہوں جسے کوئی کام نہیں‘‘۔مجھے نزدیک بیٹھا دیکھ کر فرمانے لگے: ’’آپ سن رہے ہیں‘‘ اور ساتھ ہی فرمایا: ’’آپ کسی اچھے سے اپنے اعتماد والے ڈرائیور کا بندوبست کر دیں‘‘۔ میں وعدہ کر کے لوٹ آیا۔ چونکہ میری کسی ڈرائیور تک کوئی رسائی نہ تھی‘ اس لیے میں بندوبست نہ کرسکا اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں کافی دنوں تک مولانا کے ہاں بھی نہ جا سکا اور بات ان کے ذہن سے اتر گئی۔ آج ندامت ہوتی ہے کہ کم از کم مولاناکو جواب ہی دے دیا ہوتا‘ نہ جانے انھوں نے میرا کب تک انتظار کیا ہوگا۔

ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا‘ وہاں پر موجود لوگوں کو کھجور اور سموسے افطاری کے لیے دیے جا رہے تھے۔ اتفاق سے میں اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے مولانا اپنے گھر کے لان سے اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے اپنا کھجور اور سموسے والا لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے مولانا سے کہا: ’’آپ بھی افطار کے لیے لیجیے‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’شکریہ‘ یہ چیزیں زیادہ سخت ہیں۔ میں تو چائے وغیرہ سے افطار کرتا ہوں‘ آپ میرے ساتھ آجایئے‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ یہ شخص مجھے جانتا تک نہیں‘ صرف عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرگفتگو سنی ہے اور چند ایک سوال کیے ہیں اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں‘ لیکن اس شخص نے مجھ پر کتنا اعتماد کیا ہے کہ ایک بار اس نے مجھے ڈرائیور لانے کو کہا جو میں نہ کر سکا اور انھوں نے مجھ سے وجہ تک دریافت نہیں کی۔ پھر میں نے روزہ افطار کرنے کی    پیش کش کی تو انھوں نے کتنی محبت سے مجھے اپنے ساتھ روزہ افطار کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ اس شخص کی اعلیٰ ظرفی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہاں میں معذرت کے ساتھ لکھنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے اور بعد بھی اکثر دینی رہنمائوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کی آن بان‘ جبہ ودستار‘ رعب داب اور اپنے مریدین کے ساتھ حسن سلوک کو بھی دیکھا ہے۔ لیکن مولاناؒ کے نزدیک ان چیزوں کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ایک دفعہ مولانا محترم‘ شادباغ لاہور میں ایک جلسے میں خطاب کے لیے تشریف لائے۔ کسی شخص نے نعرہ لگایا: ’’پیر مودودی زندہ باد‘‘۔ مولاناؒ نے فوراً اس نعرہ کو روکا اور کہا: ’’میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا‘ آپ میرے لیے یہ نعرہ نہ لگائیں‘‘۔

کچھ لوگوں نے جو کہ اب مرحوم ہوچکے ہیں‘ مولاناؒ کی ذات تو کیا ان کی بیٹیوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ چند علما حضرات کی طرف سے مولانا مودودیؒ کی فیملی کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا تھا کہ ان کا گھرالٹرا ماڈرن ہے۔ گھر کے کچھ افراد صوم و صلوٰۃ تک کے پابند نہیں‘ پردے کی پابندی بھی بطور خاص نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ (یہ الفاظ تو میں بڑے محتاط انداز سے تحریر کر رہا ہوں‘ جب کہ اصل الفاظ تو تہذیب سے گرے ہوئے تھے)۔ میں نے صرف اپنے اطمینان کے لیے ایک دن اپنی والدہ محترمہ کو ساتھ لیا اور ذیلدار پارک مولانا کے گھر گیا۔ میں خود تو عصری نشست میں بیٹھ گیا اور والدہ محترمہ کو مولانا کے گھر بھجوا دیا۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگ واپس آئے۔ والدہ محترمہ نے مجھے بتایا: ’’میں نے تو وہاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں دیکھی‘ بس عام سا سادا سا گھر ہے لیکن خوب صاف ستھرا۔ گھر کے بچے خاصے شایستہ ہیں۔ گھر میں سب نے باقاعدہ نماز عصر اورمغرب پڑھی۔ مولانا صاحب کی بیگم اور ان کی بیٹیاں بہت ملنسار ہیں‘‘۔ انھوں نے والدہ محترمہ کی سکنجبین سے تواضع کی۔ جب وہ گھر کے اندر داخل ہوئیں تو اس وقت مولانا کی بیگم اور بچیاں چاول اور مونگ کی دال پکانے کے لیے صاف کر رہی تھیں۔اس واقعے کے بعد خود مجھے اپنے آپ پر ندامت ہوئی کہ میں نے والدہ کو بھیج کر ایسا کیوں کیا؟ ان ذاتی تجربات کے بعد مجھے مولاناؒ کی ذات پر بہت ترس آیا کہ ایک شریف النفس آدمی پر کیسا کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے اور وہ شریف آدمی کسی بات کا نوٹس نہیں لے رہا۔

دو ایک روز کے بعد میں پھر عصر کے بعد ان کی روزانہ کی نشست میں شامل ہوا اور مولاناؒ سے سوال کیا:’مولانا محترم‘ یہ کوثرنیازی آپ کی جماعت میں تھے اور اب اتنی دُوری کیوں؟‘‘ مولانا کہنے لگے:’’وہ اچھے آدمی تھے جو وہ چاہتے تھے میرے پاس نہیں تھا۔ جہاں سے ان کو مل گیا وہاں وہ چلے گئے‘‘۔ ایسا جواب سننے کے بعد مزید سوال کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ انھی دنوں کی بات ہے کہ ہمارے حلقۂ انتخاب میں جماعت اسلامی کے چودھری غلام جیلانی صاحب قومی اسمبلی اور شیخ محمد رفیق اشرفی صاحب صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ چودھری غلام جیلانی شاید گلے کی پُرانی خرابی کی وجہ سے بہت ہی آہستہ بولتے تھے اور شیخ محمد رفیق اشرفی ذرا اٹک اٹک کر بولتے تھے۔ ان کے مقابلے میں دوسری سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بڑی گرج دار آواز اور آستینیں چڑھا چڑھا کر بولتے تھے اور ان لوگوں کے جلسے بھی خوب جمتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے جلسوں میں حاضری بہت کم ہوتی تھی اور سونے پر سہاگہ ان دوحضرات کی آواز۔ دوایک دفعہ ان کے جلسوں کی یہ کیفیت دیکھ کر میں نے مولانا سے سوال کیا: ’’مولانا کسی اچھے مقرر کاانتخاب کیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’کیا آپ چرب زبانی کو اچھا سمجھتے ہیں؟‘‘ پھر کہا: ’’ہمارے پاس چرب زبان نہیں ہیں‘ اچھے ورکر ضرور ہیں‘‘۔

انھی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ غلام غوث ہزاروی صاحب نے مولانا کے بارے میں بڑے جذباتی انداز میں ایک ناخوش گوار‘ سخت تکلیف دہ بیان دیا۔ میں نے مولانا سے کہا: مولانا‘ آپ ان کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘مولانا نے کہا: ’’کس کس کا جواب دوں‘ میرا یہ مزاج نہیں کہ میں ان سوال و جواب میں الجھوں۔ لیکن میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ جس مقام پر مولانا ہزاروی صاحب بول رہے ہیں‘ میں اس مقام پر نہیں جا سکتا اور جس مقام پر میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں وہ ان کے بس کی بات نہیں‘ اور اگر ہم نے انھی کا طرزخطابت اپنانا ہے تو پھر ہمیں اپنی علیحدہ جماعت بنانے کا کیا فائدہ‘ ہم کیوں نہ ان کی جماعت میں ضم ہوجائیں‘‘۔

مولاناؒ صاحب کا لباس جو میں نے اکثر دیکھا وہ سفید رنگ کا کُرتا اور سفید رنگ کا کھلے پائنچے والا پاجامہ ہوتا۔ ایک دن مولانا سے پوچھا:’’مولانا‘ آپ کا جی نہیں چاہتاکہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح رواج کے مطابق اپنے لباس کو تبدیل کیا کریں جو کہ اکثر غیرشایستہ نہیں ہوتا‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’اس میں کوئی مضائقہ تو نہیں لیکن دنیا والے تو بڑی تیزی سے آئے دن رواج بدلتے ہیں‘ کسی جگہ رکتے ہی نہیں۔ آدمی اس شخص کا پیچھا کرے جس نے کسی ایک جگہ ٹھیرنا ہو‘ مسلسل پیچھا کرنے سے تو آدمی تھک جائے گا اس سے یہ بہتر نہیں کہ آدمی اپنی چال چلے‘‘۔

مولانا نے اپنی کسی تحریر میں قیامت کے ظہورپذیر ہونے کو سائنسی لحاظ سے ثابت کیا تھا۔ یہ تحریر پڑھ کر ایک طالب علم نے جس کا تعلق لاہور سے باہر کسی شہر سے تھا‘ سوال کیا: ’’مولانا‘ میرے سائنس کے استاد نے آپ کی تحریر پڑھی ہے اور آپ کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ التماس کروں کہ آپ اپنی تحریروں میں اسی طرح سائنسی حوالے دیا کریں‘‘۔ مولانا فرمانے لگے: ’’جہاں ضروری سمجھتا ہوں وہاں پر حوالہ دے دیتا ہوں لیکن آپ اپنے استاد محترم سے کہہ دیجیے کہ میں قرآن مجید کو سائنس کی کتاب نہیں بنانا چاہتا‘‘۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات کے زمانے میں ایک روز کسی نے مولانا صاحب نے سوال کیا: ’’مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے‘ ان حالات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ مولانا کہنے لگے: ’’اگر مشرقی پاکستان میں شیخ صاحب اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کامیاب ہوگئے تو پاکستان کا خدا ہی حافظ ہوگا‘‘ (پھرانتخابی نتائج بھی ایسے ہی آئے اور سال بھر میں پاکستان دولخت ہوگیا)۔

پہلے عام انتخابات کے اگلے روز مولانا کے گھر پر کافی لوگ جمع تھے اور مولانا اپنے گھر کے لان کے بجاے برآمدے سے ذرا آگے بیٹھے تھے۔ قریب کھڑی ایک کار کے ساتھ ٹیک لگاکر میاں طفیل محمد صاحب کھڑے تھے۔ عجیب اداسی کا سماں تھا۔ کارکن خاصے بددل نظر آرہے تھے‘ کیوں کہ نتیجہ مایوس کن تھا۔ کسی صاحب نے سکوت توڑتے ہوئے سوال کیا: مولانا‘ کیا یہ نتیجہ ہمارے کارکنوں کی کاوش میں کوتاہی کی وجہ سے تو نہیں ہوا‘‘۔ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر‘ قدرے بلند آواز اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا: ’’نہیں‘ نہیں ایسا نہیں ہے‘ بلکہ جماعت کے ان مخلص اور تنگ دست کارکنوں نے تو بھوکے رہ کر اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے سخت مشکل حالات میں کام کیا ہے‘‘۔ اسی مجلس میں مجیب الرحمن شامی صاحب نے سوال کیا: ’’مولانا‘ موجودہ نتائج کی روشنی میں آپ لوگوں کے مزاج کے بارے میں کیا کہیں گے؟‘‘ مولانا نے برجستہ کہا: ’’اگر لوگوں کا مزاج اچھا ہوتا تو وہاں مجیب صاحب اور یہاں بھٹو صاحب اس قوم کے گلے نہ پڑتے‘‘۔

۱۹۷۴ء میں مجھے اومان کے ایک کیڈٹ اسکول میں ملازمت مل گئی۔اس اسکول میں کچھ فوجی افسران جن کا تعلق درس و تدریس سے تھا‘ اُردن سے آئے ہوئے تھے۔ ایک دن موسیٰ نامی ایک کپتان میرے دفتر میں کسی کام سے آئے۔ باتوں باتوں میں ان کپتان صاحب کو پتاچل گیا کہ میرا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ وہ کہنے لگے: ’’کیا آپ نے مولانا مودودیؒ کو دیکھا ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا‘ تو کہنے لگے: ’’میں نے مولانا مودودیؒ کا   لٹریچر پڑھا ہے‘ لیکن ان کو دیکھا نہیں‘‘۔اس کے ساتھ وہ مجھے اپنے ساتھ اسکول کی لائبریری میں لے گئے اور مولانا مودودیؒ کی کچھ کتابیں دکھائیں اور پوچھنے لگے: ’’آپ رخصت پر کب لاہور جا رہے ہیں؟‘‘میں نے جب جانے کی تاریخ بتائی تو فرطِ جذبات میں کہنے لگے:

" Please Muhammad, when you go this time to Lahore, please see Maulana Maududi with my eyes".

میں نے اس کی فرمایش پوری کی اور جب دوبارہ مسقط گیا اور اس کو بتایا تو اس نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: "You are a lucky man that you live in the city where a great Muslim scholar lives".

ادارہ

یہ نومبر ۱۹۷۵ء کا واقعہ ہے۔ میرے ایک مہربان دوست پنجاب سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میں اُن سے ملاقات کے لیے اپنے ایک عزیز دوست کے گھر گیا۔ اثناے گفتگو میں مہمان دوست نے مخصوص رازدارانہ لہجے میں ہم دونوں سے کہا:’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی نے ابھی حال ہی میں اپنی بیٹی کی شادی میں دولہا کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک دیا تھا‘‘۔ مجھے اس پر تردّد ہوا کہ ایک تو شادی کے موقع پر کسی تقریب میں اس طرح کوئی معقول آدمی چیک یا رقم نہیں دیا کرتا‘ دوسرے یہ کہ مولانا مودودیؒ کے ذوق سے تو یہ بہت ہی بعید بات ہے۔

میں نے اُن سے عرض کیا: ’’اول تو شادی کے موقع پر اس طرح چیک دینے کی کوئی رسم نہیں ہوتی اور وہ بھی ۸۰ ہزار روپے کا چیک‘ اور نہ مولانا مودودی کی مالی حالت ہی ایسی ہے کہ شادی کے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا کوئی چیک دیں (واضح رہے کہ آج سے ۲۸ سال قبل یہ واقعی بہت بڑی رقم تھی) ‘‘۔اُن صاحبِ کشف و اسرار نے فرمایا :’’مولانا کی مالی حالت پہلے ضرور کمزور تھی لیکن اب بہت بہتر ہوگئی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس روایت کی تحقیق کرلی ہے؟ فرمانے لگے :’’راوی خود اس محفل میں شریک تھا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں‘ جو لوگ شادی کی محفل میں شریک تھے اُن سب کے علم میں ہے کیونکہ یہ چیک سب کے سامنے دیا گیا تھا‘‘۔

میں نے واپس گھر آکر ۲۹ نومبر ۱۹۷۵ء کو ایک خط مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒکی خدمت میں ارسال کیا‘ جو یہ ہے:

محترمی و مکرمی‘ سلام مسنون!

چند روز قبل ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر ۸۰ ہزار روپے کا چیک پیش فرمایا تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کی مالی حالت ایسی نہیں کہ آپ شادی کے دوسرے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا چیک بھی پیش فرمائیں‘ لیکن وہ صاحب اپنی بات پر مصر تھے‘ بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو حضرات شادی میں شریک تھے اُن سب کو اس بات کا پتا ہے کیونکہ چیک علی الاعلان پیش کیا گیا تھا۔   براہِ کرم آپ مجھے واپسی ڈاک مطلع فرمائیں کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوا اور ظاہر ہے کہ نہیں ہوا ہوگا (حالانکہ اس کا ہونا کوئی غیرشرعی بات نہیں) تو میں اُن صاحب کو بتا سکوں تاکہ ایک غلط بات وہ آگے دوسروں کو نہ کہہ سکیں۔

اس سلسلے میں ملک غلام علی صاحب یا کسی اور کے ذریعے نہیں‘ بلکہ آپ خود ہی دو سطریں تحریر فرما کر وضاحت فرمائیں تو ازحد ممنون ہوں گا۔ والسلام!

اچھرہ‘ لاہور

۴ دسمبر ۱۹۷۵ء

محترمی و مکرمی‘ السلام علیکم ورحمتہ اللہ

عنایت نامہ مورخہ ۲۹ نومبر ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ مجھ پر اتنے مہربان ہیں کہ میرے اوپر بہتان لگا لگا کر اپنے سارے نماز‘ روزے اور نیک اعمال آخرت میں میری طرف منتقل کرا دینا چاہتے ہیں۔

جن صاحب کا یہ قول ہے اُن سے پوچھیے کہ میری تین لڑکیوں کی شادیاں چند سال کے وقفوں سے ہوئی ہیں‘ اُن میں سے کس کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک میں نے دیا تھا؟ ہر ایک شادی کے موقع پر جو لوگ مدعو تھے اُن کی فہرست میں آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ خود سب کو خطوط لکھ کر پوچھ لیجیے کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط۔ خطوط پر جو کچھ صَرف ہوگا وہ میں ادا کروں گا۔

خاکسار

ابوالاعلیٰ

مولانا مودودیؒ صاحب کا جواب آجانے کے بعد بات ختم ہوجانی چاہیے تھی‘ مگر میں نے سوچا کہ کیوں نہ جھوٹے کو اُس کے گھر تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ میں نے اپنے اُن محترم مہربان دوست کو خط لکھ کر حسب ذیل اُمور کی وضاحت چاہی:

۱-            اُن صاحب کا نام کیا ہے جنھوں نے آپ سے یہ بات کہی؟

۲-            اگر آپ راوی کا نام نہیں بتانا چاہتے تو اتنا تو بتا دیں کہ کیا آپ کے نزدیک راوی ثقہ ہے اور خود شادی میں شریک تھا؟

۳-            مولانا مودودیؒ کی کون سی بیٹی کی شادی میں یہ چیک دیا گیا کیونکہ اُن کی تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ اگر اُن صاحب کو یہ یاد نہ ہو تو کم از کم اتنا تو معلوم کر کے بتا دیں کہ یہ شادی کس سنہ/ ماہ میں ہوئی تھی۔

۱۳ دسمبر ۱۹۷۵ء کو ہمارے مہربان دوست کا جواب آیا جس میں انھوں نے تحریر فرمایا: ’’یہ روایت پروفیسر محمد یوسف سلیم چشتی کی ہے اور یہ اُن کے الفاظ تھے: ’’مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا ہے جو خود مجلس نکاح میں شریک تھا‘‘۔ مولانا کی ایک صاحبزادی کا نکاح ابھی غالباً ایک ماہ ہونے کو آیا ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے لڑکے سے ہوا ہے اور یہ معاملہ اُسی سے متعلق ہے۔ چشتی صاحب اب کراچی جاچکے ہیں لہٰذا تحقیق مزید فی الوقت میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہفتے عشرے بعد کراچی آنا ہوگا تو اُن سے دریافت حال کرلیں گے--- یا اس سے قبل اگر آپ چاہیں تو اُن کی ہمشیرہ کے پتے پر چشتی صاحب سے مل لیں‘‘۔

میں چشتی صاحب سے خود کیوں ملتا۔ محترم و مہربان دوست کا انتظار کیا۔ جب وہ کراچی تشریف لائے تو خاموشی سے اُن کے آگے مولانا مودودی صاحب کا جواب رکھ دیا۔ جس کو پڑھ کر اُن کے تو جیسے ہوش اُڑ گئے‘ پھر کہنے لگے: ’’چلو ابھی پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب سے جاکر ملتے ہیں‘‘۔ اُن کی ہمشیرہ کے گھر پہنچے تو پتا چلا کہ موصوف چند ہی روز قبل لاہور واپس جاچکے ہیں۔ پھر ہمارے محترم دوست بھی واپس لاہور چلے گئے۔ وہاں سے اس موضوع پر پھر کچھ نہ لکھا کہ چشتی صاحب سے کیا بات ہوئی۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب ‘جو اب مرحوم ہوچکے ہیں نہ جانے کتنی ہی روایتیں اُن کی طرف منقول ہیں۔ ’’مستند‘‘راوی مانے جاتے ہیں اور بہت سی تحریر شدہ ہیں۔ اب کوئی بتائے کہ ان کی روایتوں پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

  • میں اپنے پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ ایک خط کی فوٹواسٹیٹ نقل پر نظر پڑی جو مولانا مودودیؒنے ۶ستمبر ۱۹۷۷ء کو مولانا سیدوصی مظہرندوی کو تحریر فرمایا تھا۔ اس خط کی نقل مولانا ندوی صاحب نے اُسی زمانے میں راقم کو دی تھی اور ساتھ ہی اپنے اُس خط کی نقل بھی جو موصوف نے ۱۵ستمبر ۱۹۷۷ء کو مولانا مودودیؒ کے مذکورہ خط کے جواب میں انھیں ارسال کیا تھا۔ اس کا پس منظر بیان کرنا میرے پیش نظر نہیں ہے‘ تاہم مجھے مولانا مودودیؒ کے خط کے اُن جملوں کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے جن میں انھوں نے فرمایا تھا: ’’میری زندگی اب آخری مراحل میں ہے‘ بہت جیا تو سال دو سال اور جی لوں گا‘‘۔

مولانا محترم اپنا یہ خط ستمبر ۱۹۷۷ء میں تحریر فرماتے ہیں اور ٹھیک دو سال کے بعد‘ یعنی ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء میں دُنیاے فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف انتقال فرما جاتے ہیں۔ اب ملاحظہ فرمایئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا گرامی نامہ مرقومہ ۶ستمبر ۱۹۷۷ئ:

برادرم وصی مظہر صاحب‘  السلام علیکم ورحمتہ اللہ

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میرے متعلق آپ جانتے ہیں کہ ۱۹۶۸ء سے مسلسل انحطاط نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ کوئی کام اپنی ذمہ داری پر ہاتھ میں لے کر چلا سکوں۔ آپریشن کے بعد مجھے ایک دن بھی آرام لینے کا موقع نہیں ملا۔ ۶۹ء اور ۷۰ء میں شدید محنت نے میری قوت کو گھن لگا دیا ہے۔ ۷۱ء میں وجع المفاصل اور ۷۲ء میں وجع الفواد کے سخت حملے ہوئے اور آخرکار مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب اس نظام اور تحریک کو چلانا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس وقت سے صحت کا بگاڑ پیہم بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس حالت میں اصلاح احوال محض میرے کچھ لکھ دینے اور کہہ دینے سے نہیں ہو سکتی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ جو کام نیک نیتی کے ساتھ خدا کے دین کی برتری کے لیے شروع کیا گیا تھا‘ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو سیدھے راستے پر قائم کردے اور جو لوگ جماعت کوچلانے والے ہیں ان کی رہنمائی فرمائے۔ میری زندگی اب آخری مراحل میں ہے۔ بہت جیا تو سال دو سال اور جی لوں گا۔ آگے کام تو انھی لوگوں کو کرنا ہے…

خاکسار

ابوالاعلیٰ

  • ایک سدابہار شخصیت:  ابوالقاسم شیخo

میں نے اپنے بچپن میں کئی بار مولانا مودودیؒ کو دیکھا تھا۔ جب کبھی مولانا کراچی آتے تھے تو میرے والد شیخ محمد حسین صاحب کو طلب فرماکر انھیںہدایت فرماتے کہ محمدمیاں کو کل میرے پاس بھیج دیں۔ محمد میاں حلقہ گلبہار میں رہایش پذیر تھے اور مولانا جب بھی کراچی تشریف لاتے تو محمدمیاں ہی مولانا کے بال تراشنے اور خط بنانے کے لیے جاتے تھے۔

کراچی میں راقم کو کئی مرتبہ ان کے پانوں کی حفاظت کا شرف حاصل ہوا‘ جو حکیم محمد یوسف صاحب اپنے گھر سے کافی تعداد میں لگوا کر لاتے تھے۔

۷ جولائی ۱۹۷۴ء کی یہ ایک سہانی شام تھی جب میں مولانا کی رہایش گاہ پر عصری نشست میں موجود تھا۔ میں مولانا کی کرسی کے پائے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور مولانا کو سلام کیا۔ مولانا نے جواب دیا تو میں نے کہا: ’’حسین صاحب نے سلام کہا ہے‘‘ تو فوراً کہنے لگے: ’’گولیمار والے‘‘۔ میں نے کہا:’’جی ہاں‘ میں انھی کا فرزند ہوں‘‘۔ تو کہنے لگے: ’’بھئی جماعت میں ایک ہی توحسین ہے انھیں میرا سلام کہیے گا‘‘۔ یادداشت غضب کی تھی۔ میرے خیال میں مولانا‘ جماعت کے اکثر ارکان کو نام کے ساتھ پہچانتے تھے۔ اس کے بعد میں نے مولانا سے استفسار کیا:’’مولانا‘ خواب اور خواب کی تعبیر کی کیا حقیقت ہے؟ کیا خواب کی تعبیرمعلوم کرنا جائز ہے؟ اور معلوم کی جائے تو کس سے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا:’’خواب کی تعبیر معلوم کرنا جائز ہے اور جو اس علم میں ماہر ہو اس سے تعبیر معلوم کرنا چاہیے‘‘۔ اس پر میں نے مولانا سے پوچھا :’’کیا آپ بھی یہ علم جانتے ہیں؟‘‘تو مولانا نے جواب دیا:’’نہیں‘ میں یہ علم نہیں جانتا‘‘۔ پھر میں نے مولانا سے کہا :’’ آپ اپنے خوابوں کے بارے میں بھی تو کچھ بتائیں‘‘ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ مولانا خود بھی مسکرا دیے اور فرمانے لگے:’’مجھے خواب نظر تو آتے ہیں مگر دھندلے ہوتے ہیں اور جو کچھ نظرآتا ہے صبح اٹھ کر بھول جاتا ہوں‘‘۔

اسی طرح کراچی میں جلسوں اور استقبالیوں کے مواقع پر مولانا سے کئی دفعہ ہاتھ ملانے کا موقع ملا۔ ان کا ہاتھ ملانے کا انداز اتنا مشفقانہ اور گرم جوش ہوتا تھا کہ میںآج تک اس   گرم جوشی کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ ہاتھ ملاتے وقت نہ تو بیزاری کا اظہار کہ صرف مَس کرکے چھوڑ دیا اور نہ سختی کا اظہار کہ تکلیف پہنچے۔

مولانا سے ملنے کے بعد ایک فرحت کا احساس ہوتا ہے‘ جیسے آپ کسی خوشنما و معطر باغ میں داخل ہوگئے ہوں‘ جیسے ٹھنڈی ہوا کا معطر جھونکا! اللہ کا کتنا بڑاانعام ہے ان کی شخصیت!  کوئی متعصب اور حاسد خواہ اس کو تسلیم نہ کرے‘ مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ نے مولانا کی شکل میں اُمت کو ایسا بطل جلیل عطا کیا کہ جس نے واقعی افکار کی دنیا میں انقلاب بپا کردیا۔

مولانا کا یہی عزم و ارادہ ہے جو ان کی تحریروں سے جماعت کی تشکیل اور اس کے پروگرام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے مشن کے لیے چومکھی نہیں بلکہ شش پہلو جنگ لڑی۔ ایک طرف صاحب ِ اقتدار گروہ تھا تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام‘ تیسری طرف انھیں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ چوتھی طرف مذہبی پیشوائوں کا ایک طبقہ تھا جس کو مولانا کی تحریک کے نتیجے میں اپنا مذہبی اقتدار اور اجارہ داری ڈانواں ڈول ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ پانچویں طرف مستشرقین کا طبقہ تھا کہ جس نے اسلام‘ قرآن اور صاحب ِ قرآن کے بارے میں بڑی دشنام طرازیاں کی تھیں اور جن کا ابطال ضروری تھا۔ مولانا نے اس طبقے سے متاثرہ افراد کے افکار میں بھی زلزلہ پیدا کیا۔ چھٹا محاذ ایک جماعت کا قیام‘ صالح افراد کی تلاش اور ان کو اپنا ہم نوا بنانا‘ ان کی اصلاح کی انفرادی خواہشوں اور کوششوں کو مربوط و منظم کرنا اور ان بکھرے دانوں کو ایک تسبیح میں پرونا‘ تاکہ دنیا کے سامنے ایک صالح گروہ اور متبادل قیادت کو پیش کیا جاسکے۔ یوں مولانا مودودیؒ نے ایک شش پہلو معرکہ سر کیا۔ یقینا مولانا نے جو کام تن تنہا انجام دیا وہ کئی اداروں کے کرنے کا کام تھا۔

مولانا کا طرزِ تحریر سہل اور عام فہم ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور کتابوں میں زندہ ہیں۔ زندگی میں جس طرح محبت اور گرم جوشی سے مصافحہ کر کے وہ کسی کو اپنا بنالیاکرتے تھے‘ بالکل اسی طرح آج بھی وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں‘ اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قاری چہار جانب سے ان کے دائرہ دعوت میں کھنچا چلاآتا ہے۔ دورانِ مطالعہ قاری نکل بھاگنے کے لیے اگر کوئی دلیل لاتا ہے تو اگلے ہی پیراگراف یا اگلے ہی صفحے میں اس کا جواب دے کر قاری کو پھر اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور پھر ذہن اس اُمتی کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا جاتا ہے : ’’دیکھو‘ اس شخص سے نہ ملنا‘ اس کی کوئی بات نہ سننا‘ کانوں میں روئی ٹھونس لینا کیونکہ اس کے پاس جو جاتا ہے یہ اس کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے‘‘۔

  • مولانا مو دودیؒ اور نوجوان: ظفرجمال بلوچo

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے فکر و عمل سے نہ صرف معاشرے‘ میں موجود جمود کو توڑا‘ بلکہ اسے ایک مثبت حرکت پذیری کے عمل میں تبدیل کر دیا۔ آج علم و ادب کا ہر شیدائی نہ صرف ان کی اصطلاحات سے واقف ہے‘ بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے تسلیم بھی  کرتا ہے‘ جو صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں بلکہ انسانیت کے دین کے طور پر سامنے آئے‘ یہ  مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ انھوں نے دین کو ایک تحریک میں بدل دیا۔

لیکن اُن کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں اجتماعیت کااحساس پیدا کیا‘ جو آخر کار اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام پر منتج ہوا۔ اس تنظیم نے اپنی دعوت‘ اپنی تنظیم اور اپنی تربیت کے حوالے سے ایک ہمہ جہت پروگرام ترتیب دیا۔ اس کام کے اثرات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برابر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بلامبالغہ آج جہاں جہاں بھی دین کے حوالے سے کوئی منظم کام ہو رہا ہے‘ اس کی پشت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کا جذبہ اور وژن کام کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ علم‘ دلیل اور حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے‘ لیکن اس سے کام لینے کا درس مولانا مودودی نے ہی اس دور میں دیا اور نوجوانوں نے اسے وظیفہ زندگی بنا لیا۔ یہ نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوئے تو ان میں سے کئی ایک نمک کی کان میں نمک بن گئے‘ لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں ‘جنھوں نے اپنی شناخت اور پہچان کو گم نہ ہونے دیا۔ جنھوں نے مقصد زندگی سے تعلق کو قائم رکھا۔ یہ علم کے حصول میں ایک سے دوسری جگہ پہنچے یا تلاش معاش نے انھیں آمادہ سفر کیا‘ ہر حال میں انھوں نے اپنا رنگ برقرار رکھا اور اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

آج کوئی چاہے تو اپنے تعصب کے باعث اسلام کو کوئی بھی برا نام دے ڈالے‘ لیکن مولانا مودودیؒ کی طرف سے دی جانے والی علم‘ دلیل اور حکمت کی روشنی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔ مجھے کچھ عرصہ امریکہ اورکینیا میں رہنے کا اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں دین کی دعوت پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒ سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی دینیات کو دعوت کے ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ سمجھا اور اسے اپنایا۔ میں ایک مرتبہ مشی گن کے ایک نواحی علاقے میں گیا‘ جو اپنے جرائم کے حوالے سے کبھی بہت مشہو رتھا‘ لیکن اب وہاں کے کالوں کی اکثریت مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ جگہ جہاں دن کے اجالے میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا‘ اب وہاں رات کو بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہاں کی مسجد میں ایک نیگرو نوجوان نے جو امام تھا‘ مولانا مرحوم کی کتاب Towards Understanding Islam (دینیات) کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہا : ’’اس کتاب نے یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا ہے‘‘۔

یوں مولانا مودودیؒ کو نوجوان سفارت کار ملے‘ جنھوں نے دنیا کے کونے کونے تک اسے پہنچایا اور یہ وہی نوجوان تھے جن کی تربیت خود مولانامرحوم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔

بیسویں صدی نے تاریخ کے اوراق پر تباہی اور شکست و ریخت کے بڑے ہولناک نقوش ثبت کیے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ‘ فکری اور تعمیری حوالے سے بھی‘ اس کے دامن میں چند مثبت کارنامے اور بعض افادی پہلو نظرآتے ہیں۔

اُمت مسلمہ ایک طرف بدترین استحصال کا شکار ہوئی تو دوسری جانب اسے استعمار کی غلامی سے نجات بھی ملی اور تیسری جانب اس کے اندر ایسی تحریکیں برپا ہوئیں‘ جنھوں نے اُمت کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان تحریکوں کے بعض داعیوں اور رہنمائوں نے مسلمانوں کو بحیثیت اُمت سربلندی اورعظمت کی طرف لے جانے میںاہم کردارادا کیا۔ ایسی شخصیات میں ایک نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ہے۔

زیرنظر مضمون میں مولانا مودودیؒ کی زندگی کے فکری پہلوئوں پر جو معروضات پیش کی جارہی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کے فکری وعملی کارناموں کی روشنی میں ہم بھی ایمان‘ دانش اور عمل کی راہوں کو کشادہ کرتے ہوئے‘ اپنے زمانے کے درپیش چیلنجوں اوربحرانوں کا مقابلہ کریں۔ دورِ جدید کی تاریخ میں حق و باطل کی کش مکش کا جب بھی ذکر ہوگا‘ تو اس میں اس دور کی زمانہ ساز شخصیات اور تحریکوں کا بھی لازمی طور پر تذکرہ ہوگا۔ اس تذکرے میں مولانا مودودیؒ کی کاوشوں کو ایک مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے     ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خداے بخشندہ

  • پہلا حصہ ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۲۸ء تک‘مولانا مودودیؒ کے فکر کا تشکیلی دور ہے۔ اسے ان کی صحافتی زندگی کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ زمانہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں ان کے مطالعے اور تحقیق کا زمانہ ہے۔ ایک لحاظ سے اس زمانے کو ان کے دورِ طالب علمی کا تسلسل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مختصر خودنوشت شذرات (notes) کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان کا مطالعہ‘ زیادہ تر قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تاریخ کے علاوہ دورِ جدید کے علمی اور ادبی لٹریچر پرمشتمل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم اُمت کو تہذیبی‘ سیاسی اور معاشی سطح پر ایک کش مکش کا سامنا تھا‘ مولانا کو اس کش مکش کا صحیح ادراک اسی دور (۱۹۲۰ئ-۱۹۲۸ئ) میں ہوا‘ جس کا ثبوت ان کے وہ مضامین ہیں جو اس زمانے میں انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے۔ اس علمی اور صحافتی سرمایے کو خلیل احمد حامدی مرحوم و مغفور نے چار جلدوں (آفتاب تازہ‘ بانگِ سحر‘ جلوۂ نور اور صداے رستاخیز)میں جمع کر کے محفوظ کر دیا ہے۔
  • ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء تک کے زمانے کو میں دوسرے دور کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ الجہاد فی الاسلام کی تسوید کا کام ۲۶-۱۹۲۵ء سے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۹۲۷ء کے آخر تک اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودیؒ صحافت کو چھوڑکر محقق‘ مفکر‘ مصنف اور مصلح کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ اس دور میں انھوں نے تاریخ اور ثقافت سے لے کر  حدیث اور فقہ کے مباحث پر بڑی عرق ریزی سے کلام کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے اسلام کے انقلابی تصور کو اس کی تمام جہتوں سمیت دلیل کی قوت سے واضح کیا‘ اور اس کے ساتھ ہی عصرجدید کے تصورات پر بھرپور گرفت بھی کی۔ اس دور میں مولانا نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام کی شرح و بسط کے ساتھ ترجمانی کی‘ اور یہ ترجمانی اس خوبی اور عمدگی اور اس شان سے کی کہ مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالماجد دریابادیؒ جیسے بزرگوں نے ان کو’ ترجمانِ اسلام‘ قرار دیا۔ یوں ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک یہ ساری علمی اور قلمی جدوجہد وہ تن تنہا کرتے رہے۔

یہی زمانہ تھا جب ان کے ہم خیال‘ جاںنثار دوستوں‘ حلیفوں اور ہم سفروں پر مشتمل  ان کے حلقۂ احباب میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ اسلامیانِ ہند (خصوصاً مسلم اُمہ اور بالعموم پوری نوعِ انسانی) کے مستقبل کے بارے میں جو تصور اور وژن (vision) رکھتے تھے اور جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ وہ تن تنہا بروے کار نہیں لائی جاسکتی۔ اس مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا تھا کہ ایک منظم اور مربوط اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ سید مودودیؒ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ بلاشبہہ دورِ جدید میں اسلام کے احیا کے لیے فکری کام بھی ضروری ہے‘ لیکن اس فکر کو بروے کار لانے کے لیے کسی عملی جدوجہد اور اجتماعی تحریک کے بغیر‘یہ عظیم کام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ تجدید و احیاے دین اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش جیسی تصانیف ان کے اس ذہنی سفر کی عکاس ہیں‘ جو بالآخر ایک صالح جماعت کی ضرورت پر منتج ہوا۔

  • اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اِس منظم اجتماعی جدوجہد کا دور شروع ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے ۱۹۳۸ء میں علامہ محمد اقبال مرحوم کی دعوت پر حیدرآباد دکن سے دارالاسلام (پنجاب) منتقلی‘ اور وہاں ادارہ دارالاسلام کا قیام‘ دراصل اس بڑے کام کا ابتدائی مرحلہ (spade work) تھا‘ جب کہ اس کی دہلیز(threshold)اگست ۱۹۴۱ء ہے۔ اس تین سالہ عرصے (۱۹۳۸ئ-۱۹۴۱ئ) میں وہ اُمت کی تعمیر اور اس کے اندر مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے ایک متبادل شعور (alternative vision)کی پرورش کرتے رہے اور پھراس کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ایک ہمہ جہت اجتماعی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تیسرا دور ۱۹۴۱ء سے وفات  (۱۹۷۹ئ) تک کا ہے‘ جب وہ رفیق اعلیٰ کے بلاوے پر ہم سے رخصت ہوئے۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ہنگامہ خیز اور انقلابی دور تھا۔ جس میں سید مودودیؒ کا وژن بھی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے تھا۔ اس وژن کے مطابق زندگی کے نقشے کو ازسرنو تعمیر کرنے کی اجتماعی جدوجہد کے سارے خدوخال بھی صفحۂ قرطاس ہی پر نہیں‘بلکہ رنگ و بو کی اس دنیا میں اپنی تمام تر رعنائیوں اور تفصیلات کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے مجلے (ترجمان القرآن)سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد نہ صرف برعظیم ہی کے طول و عرض میں تہلکہ مچانے کا باعث بنی‘ بلکہ ایک عالم گیر انقلابی تحریک کا روپ دھار گئی‘ اور اس چومکھی لڑائی میں سید مودودیؒ کا عالم یہ تھا کہ    ؎

ایک دل ہے اور ہنگام حوادث اے جگر

ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں

اس طرح میں ان کی زندگی کو ان تین حصوں میں تقسیم کر کے غور کرتا ہوں۔

مولانا مودودیؒ بحیثیت صحافی

اولیں دورِ صحافت میں بالکل نوعمری ہی میں مولانا مودودیؒ نے بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور بحیثیت ایک وسیع النظر صحافی کے اپنی منفرد اور غیرمعمولی صلاحیتِ کار کا لوہا منوایا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انھوں نے تاج‘ مسلم اور جمعیت العلما کے پرچے الجمعیۃ میں لکھا‘ بلکہ اس کے ساتھ نگار ‘مدینہ‘ بجنور اور لاہور کے ہمایوں میں بھی مضامین لکھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۲۱‘۲۲ برس کے نوجوان کو مسلمانوں کی اس وقت کی ایک اہم تنظیم جمعیت العلما کے سرکاری ترجمان کی ادارت مکمل ذمہ داری کے ساتھ سونپی گئی جو مولانا مودودیؒ کی غیرمعمولی ذہانت اور ان کے کردار کی پختگی کے ساتھ جمعیت علماے ہند کے قائدین کی مردم شناسی کا مظہر بھی تھی۔ خصوصاً مفتی کفایتؒ اللہ اور مولانا احمدسعیدؒ اس نوجوان سے بے حد متاثر تھے۔ دوسری طرف مولانا محمدعلی جوہرؒ بھی چاہتے تھے کہ مولانا مودودی ؒان کے معاون کے طور پر‘ ان کے تاریخ ساز اخبار ہمدرد کے عملۂ ادارت میں شامل ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور صحافی کے‘ انھوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا نے ترجمے بھی کیے ہیں اور متعدد مضامین بھی لکھے ‘لیکن ان کا پہلا کارنامہ صحافت ہے۔

مولانا مودودی کے اس دورِ صحافت میں ہمیں پانچ چیزیں بڑی نمایاں نظرآتی ہیں:

  • پہلی بات یہ ہے کہ نوجوانی کے باوجود‘ ان کی تحریر میں بڑی پختگی ہے۔ الجمعیۃ کے زمانے کے مضامین اور بعد کی تحریروں کو دیکھیں تو زبان‘ اسلوب‘ اظہارخیال‘ حسن بیان اور رعنائی خیال میں بہت کم فرق نظر آئے گا۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ تحریر میں اتنی کم عمری میں ایسی پختگی‘ بڑی منفرد اور امتیازی خصوصیت ہے۔ اس سے قبل ہمیں یہ خوبی مولانا ابوالکلام آزادؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒمیں نظر آتی ہے اور بعدازاں یہ چیز ہمیں سید مودودیؒ میں بحیثیت ایک نوجوان صحافی کے نظرآتی ہے۔ البتہ آزاد اور شبلی کے برعکس مولانا مودودی کے ہاں ایک وسعت نظر‘ فکر میں ٹھیرائو اور زیادہ کھلے پن کا احساس ہوتا ہے۔
  • دوسری حیرت انگیز بات ان کے ہاں مطالعے کی ہمہ گیری اور حکمت و دانش کے متنوع ذخیروں سے اخذ و اکتساب کے لیے حیرت انگیز محنت وکاوش نظرآتی ہے۔ دنیا کے حالات سے باخبری‘اور نہ صرف گوناگوں موضوعات پر اظہار خیال‘ بلکہ راے کی پختگی کے نمونے اس زمانے کی تحریروں میں فراواں دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ خود   اپنی فکر کو سنوار اور نکھار رہے تھے۔ ان کا وژن اسلام کا سرچشمۂ قوت کے مضامین    کے ذریعے ہمارے سامنے آتاہے۔ یہ لہجہ اور وسعت بیان ان کی تحریروں کے چار مجموعوں (آفتاب تازہ‘ بانگ سحر‘ جلوہ نور اور صداے رستاخیز) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان مضامین میں وہ پوری شرح وبسط سے بیان کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین اور انسانیت کے لیے ایک آفاقی پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی تحریک بھی ہے۔ ان مضامین میں مولانا کے ہاں زبان و بیان کی صحت اور اثرانگیزی کے ساتھ ساتھ فکر کی پختگی اور وسعت تہہ در تہہ نظرآتی ہے۔ ایک سہ روزہ اخبار میں خبروں کے انتخاب اور ترجمے کے ساتھ اداریہ نویسی اور کالم نویسی بذات خود بڑاجاںگسل کام تھا‘ جب کہ معاونت کے لیے اس کا عملہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس متفرق نویسی کے ساتھ وہ اعلیٰ درجے کے علمی وفکری مضامین بھی لکھتے رہے۔ یہ چیز تحریر وتصنیف پر ان کی ماہرانہ دسترس اور ان کی غیرمعمولی دماغی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔

  • تیسری چیز جس نے مجھے سحر زدہ کیا‘ وہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت میں دماغ اور دل کا نہایت متوازن تعلق ہے۔ دماغ علامت ہے تفکر اور تدبر کی اور دل نمایندہ ہے جذبات‘ احساسات‘ توقعات اور خواہشات کا۔ ان میں جب بھی تصادم اور تضاد ہو تو انسان بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا غلبہ ہو اور دوسرا معدوم ‘تو شخصیت کا عدم توازن رونما ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان کے درمیان ایک صحیح توازن ہو تو متوازن شخصیت اُبھرتی اور معتدل فکر رونما ہوتی ہے۔ میں نے اس زمانے میں مولاناؒ کی تحریروں کا جو تجزیہ کیا ہے‘ اس میں کہیں کہیں فکر پر جذبے کا غلبہ نظر توآتا ہے‘ جو ان کی عمر اور اس عہد (age) کے مسائل و مصائب اور حالات کا فطری تقاضا تھا‘ اس کے باوجود مجھے کہیں بھی عقل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آیا۔

مثال کے طور پر ہندستان کے صنعتی زوال اور اس کے اسباب ۱۶۰۰ئ-۱۹۲۴ء کے موضوع پر قومی نقطۂ نظر سے‘ مگر معتدل و متوازن انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ سیدمودودیؒ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’کسی ملک کی اقتصادی و تمدنی حالت پر غور کرتے وقت‘ سب سے زیادہ توجہ کے قابل یہ امر ہوتا ہے کہ اس کا نظامِ حکومت کیسا ہے؟ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ قوموں کے بننے بگڑنے میں بڑا حصہ حکومت کا ہوا کرتا ہے۔ کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کا نظامِ حکومت درست نہ ہو‘ اور اسی طرح کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی‘تاوقتیکہ اس کا نظام حکومت خراب نہ ہو‘‘(ماہ نامہ نگار‘ اکتوبر ۱۹۲۴ئ)۔ اس مضمون میں انھوں نے ہم وطنوں کی اقتصادی بدحالی کا مفصل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر محض ۲۱ برس تھی مگر اس مضمون میں انھوں نے ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصادیات کی سی پختہ فکر کے ساتھ خرابی کی اصل جڑ کی نشان دہی کی ہے۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں انھوں نے زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ مشہور جملہ لکھا:’’حکومت کی خرابی‘ تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیدمودودیؒ سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے۔

اسی زمانے کی شاہکار تصنیف الجہاد فی الاسلام ان کی علمیت‘ پُرزور استدلال اور توازنِ فکر کی دلیل ہے۔ اسی کتاب کی تصنیف کے دوران انھوں نے عملی صحافت کا میدان چھوڑ دیا۔ صحافت میں موضوع کا کینوس اور دائرہ تخاطب بالعموم محدود ہوتا ہے اور فطری طور پر اس میں وقتی ردعمل اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے مزاج کی مناسبت سے اس میں اپنا مستقبل نہیں دیکھا۔ وہ دل و دماغ کے اس امتزاج کی طرف جانا چاہتے تھے کہ جہاں قلب حرکت‘ جدوجہد اور ترغیب کا کام تو انجام دے‘ لیکن عقل اور فکر جس طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ کسی حیثیت سے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے یا اس کے اوپر کوئی پرچھائیں یا سایہ نہ پڑجائے۔ اس زمانے کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نظرآتا ہے کہ وہ ایک کش مکش سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتے تھے اور بالآخر انھوں نے ریل کا کانٹا بدلا اور جس پٹڑی پر چاہتے تھے‘ اسی پر وہ آگئے اور ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کو بھی لے آئے۔ اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن اقدام ان کی صحافتی زندگی میں ہمیں نمایاں نظر آتا ہے‘ جس کے تحت وہ ضمیر کی بیداری‘ خودداری اور حریت کو اولیت دیتے ہیں۔ گویا صحافی‘ صحافت کو محض قلم کاری نہ سمجھے بلکہ قلم کوفکر اور علم کی ترویج اور فروغ کے لیے ایک ایسا ہتھیار خیال کرے‘ جو دیانت کے ساتھ استعمال ہو تاکہ وہ دوسروں کی چاکری اور کاسہ لیسی کا آلۂ کار نہ بنے۔

جمعیت العلما‘ مسلمان علما کی ایک ایسی قابلِ قدر جماعت تھی‘ جو اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کوئی علمی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک عوامی تحریک تھی‘ جس کی قیادت چند جیّد علما کے پاس تھی۔ تاہم یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آہستہ آہستہ جمعیت کی اس وقت کی قیادت کا ایک بڑا حصہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر کی طرف بڑھ رہا تھا۔

ہندستان میں مسلمان اُمت کو جو بنیادی مخمصہ (dilemma)درپیش تھا‘ اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور ان کے حقیقی کارنامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ جمعیت العلماء کی قیادت کے بڑے حصے نے وہ راستہ اختیار کرلیا‘ جس میں اسلام کی جگہ آزادی کو اولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں اس چیلنج کو سمجھنا چاہیے جو اس وقت اُمت مسلمہ کو درپیش تھا ‘اور تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پیش آتا رہا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی سے ہم علامہ اقبال اور سید مودودی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور برعظیم کے سیاسی منظرنامے ہی کو نہیں‘ بیسویں صدی کی پوری مسلم اُمت کی فکر اور سیاست کا بہتر فہم حاصل کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب اکیسویں صدی میں جن حالات‘ مسائل اور چیلنجوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ان کا صحیح ادراک اور ان کے مقابلے کے خطوط کار متعین کرنے میں بھی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔

اس میں پہلا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ وہ یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک‘ اسلام کا تہذیبی‘تاریخی اور عالمی کردار درحقیقت ایک تاریخ ساز اور عالمی طاقت کا کردار رہا ہے جس میں ایک طرف قلب کی اصلاح اور کردار کی تطہیر اور تزکیہ ہے‘ دوسری طرف معاشرے اور تاریخ و تہذیب کی تبدیلی کا عمل۔ اسلام کا مزاج پہلے دن ہی سے یہی رہا ہے کہ اس نے طاقت کو محض سیاسی اقتدار سے عبارت نہیں کیا‘تاہم سیاسی اقتدار‘ اس کی طاقت کا ایک اہم عنصر ضرور رہا ہے۔ اسلام نے ایمان‘ دین اور طاقت کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ اس تعلق کا اظہار صرف سیاسی طاقت ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے سارے اداروں میں ہوا‘چنانچہ خاندان سے لے کر ریاست تک‘ یعنی نظامِ قانون‘ نظامِ قضا اور نظامِ معیشت‘ سب کو اس کا حصہ بنایا۔

خلافت راشدہؓ کے فوراً بعد مسلمانوں کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ قوت تو اسلام کے پاس موجود تھی‘ لیکن اس کے لیے جو نظام اور جو ڈھانچا اسلام نے بنایا تھا‘ وہ متاثر ہونے لگا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اقتدار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون‘ اور فقہ کی تشکیل میں بھی بڑی محنت کی۔ فکرمودودی کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ فقہ کی تدوین اور نظام قضا پر علما کی دسترس‘ملوکیت کی انحرافی رو (deviationist wave) کے مدمقابل معاشرے میں ایک ایسے خودکار نظام کو فروغ دینا ایسا تاریخی کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں معاشرے اور تہذیب و تمدن پر اسلام غالب رہا اور ریاست بھی اسلام کی گرفت میں رہی۔ سید مودودیؒ نے اس تاریخی کارنامے کو خلافت و ملوکیت میں پیش کیا ہے اور اس میں ہماری تاریخ اور تدوین فقہ کی تحریک کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا ہے جسے مورخین اور مفکرین نے بالعموم نظرانداز کر دیا تھا۔ بلاشبہہ بارہ سو سالہ اس دور میں اتارچڑھائو بھی آتے رہے تھے ‘ لیکن اٹھارہویں کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی قیادت میں اب مسلمانوں کا کردار مضمحل بلکہ ختم ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان کا یہ کردار کم ہو کر بالکل نچلی سطح کو چھونے لگا۔

اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ صورت پیدا ہوئی کہ مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر بے وقعت ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر قوت کے طور پر عالمی سیاست کی بساط سے یکسر باہر ہوگئے۔ گویا اقتدار پر ان کی گرفت ختم ہوگئی اور عالمی قیادت میں ان کا مقام اور وقار سرنگوں ہوگیا۔ جب ترکوں نے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا‘ تو علامتی سطح پر بھی ان کی رہی سہی حیثیت کا خاتمہ ہوگیا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حضرات جذباتی ردعمل رکھتے تھے‘ ان کی ساری توجہ خلافت کو بچانے اور ساری قوت خلافت کو بحال کرنے میں صرف ہوئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور اسلامی تحریکات کی فکر کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے خلافت کے احیا کو اصل ایشو نہیں بنایا‘ بلکہ اسلام کے احیا‘ اسلامی سوسائٹی کے قیام‘ اور اسلامی ریاست کے حصول و قیام کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس طرح انھوں نے رسمی خلافت کے بجاے خلافت کے جوہر (essence) اور اس کے حقیقی مقصد اور ہدف کو اپنی منزل قرار دیا۔

اب ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قوت کے چھن جانے کے نتیجے میں مسلمان دوسروں کے غلام ہوگئے اور ایک دوسری تہذیب ان پر غالب ہوگئی۔ یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار تھی وہ اسلامی بنیادوں کی ضد تھی۔ اس طرح ایک تہذیبی کش مکش شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے تصورجہاں‘ اقدارِحیات‘ سماجی ادارات‘ انفرادی کیرکٹر اور اجتماعی مزاج کو متاثر کررہی تھی۔ اس تہذیبی کش مکش سے نکلنے کے لیے صرف جذباتی ردعمل کافی نہیں تھا‘ بلکہ ٹھوس فکر اور سوچے سمجھے انداز میں ایک متبادل لائحہ عمل‘ واضح نشانِ منزل اور ایک منظم و مربوط جدوجہد درکار تھی۔ ایک طبقے کے نزدیک اولین ہدف غیرملکی استعمارسے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس طبقے نے اصل ہدف سیاسی آزادی کو قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی احیا کے داعیوں کی سوچ یہ تھی کہ غیرملکی استعمار سے نجات کے لیے جتنی ضروری سیاسی جدوجہد اور آزادی ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے فکری اور تہذیبی غلبے کے خلاف پیکار ایک لازمی مرحلہ ہے۔ اوراگر استعمار کے اس فکری اور تہذیبی غلبے کو نظرانداز کیا گیا تو سیاسی جدوجہد بالآخر غیرموثر رہے گی۔ اس لیے  اصل ضرورت یہ ہے کہ اُمت کو دین حق کی بنیاد پر اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اسی جدوجہد کو استعمار کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔

یوں اسلام اور مسلمانوں کو بہت سے بنیادی چیلنجوں کا سامنا تھا۔

اس سیاسی‘ تہذیبی اور فکری پس منظر میں برعظیم کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ برطانیہ نے چونکہ اقتدار ہم سے لیا ہے‘ اس لیے آزادی کے بعد بھی اقتدار ہمارا حق ہے۔ تحریک مجاہدین سے لے کر ہجرت اور ترکِ موالات کی تحریک تک اور جمعیت علماے ہند سے دیگر انگریز مخالف تحریکوں تک کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس تھی‘ اور وہی ان میں فعال اور فیصلہ کن حصہ لے رہے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دماغ میں یہی چیز تھی کہ آزادی ملنے پر فطری طور پر ہم اقتدار کے وارث ہوں گے۔ لیکن وہ اس جوہری فرق کو نظرانداز کر رہے تھے جو جمہوریت کے تصور پر مبنی اداروں کے قائم ہونے سے یہاں ووٹ کی قوت کے باعث متعارف ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو اس کھیل کو بڑی کامیابی سے کھیل رہا تھا۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے جمعیت العلماء نے جدوجہد آزادی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہی سمجھا کہ آزادی کا حصول ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے۔

دوسری جانب مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر یہ تھی کہ فقط مسلمانوں کی آزادی نہیں بلکہ اسلام کی آزادی اصل مسئلہ ہے‘ اور مسلمانوں کو آزادی اگر اسلام کی آزادی کے بغیر ملتی ہے تووہ غلامی ہی کی دوسری شکل ہوگی۔ اس لیے اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کی آزادی دو ہی طرح ممکن ہے۔ یا تو مسلمان اتنے قوی ہوں کہ پورے برعظیم کی باگ ڈور سنبھال سکیں‘ جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ پھر انھیں کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں وہ اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھ سکیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین کی منشا اور اپنی ثقافت کے تحفظ کا بھی ٹھیک ٹھیک   حق ادا کر سکیں۔ جس بات کو عرفِ عام میں ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے‘ اس کی فکری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو جداگانہ نظریہ ہاے حیات کے علم بردار ہیں‘ اور آزادی کا وہی مفہوم انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے‘ جس میں ہر نظریے اور تہذیب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے سیاسی‘ قانونی‘ ثقافتی‘ غرض ہر میدان میں ایک نئے دروبست کی ضرورت ہوگی۔

مولانا مودودیؒ کی اس زمانے کی تحریروں میں آزادی‘ مسلمان اُمت اور ہندستان کے متعلق مسائل و معاملات پر مباحث ملتے ہیں۔ مولانا کا زاویۂ نگاہ اس وقت بھی بڑا واضح تھا کہ اسلام کی آزادی اور مسلمان اُمت کی آزادی اسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ اسلامی تشخص سے وابستگی کو شرط اول قرار دے۔ اس تشخص کی وضاحت اور اس کے حصول کے لیے مولانا ہرلمحے سرگرداں اور پریشان نظرآتے ہیں۔ برعظیم ان کی توجہ کا اولین مرکز ہے لیکن اس مرکز کا بیرونی حلقہ (circumference) بڑا وسیع اوردنیابھر کے مسلمانوں پر محیط ہے‘ چاہے وسط ایشیا میں کمیونسٹ زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے المناک واقعات ہوں‘ یا افریقی ممالک میں ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو‘ یا ہندستان میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کاشیطانی کھیل ہو‘ وہ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مغربی استعمار کے حلیف مسلمانوں کی فکری اور عملی حماقتوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن سے بھی زیادہ بدتر کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں جمعیت کانگرس کے ساتھ مل کر اس راستے کو اختیار کرچکی تھی جسے وہ ’سوراج‘ کہتے تھے۔ نتیجتاً علاقائی یا وطنی قوم پرستی ان کی نگاہ میں گوہرِمطلوب بن گیا تھا۔ بالکل یہی سوچ غیرمسلموں کی بھی تھی‘ اور مسلمان آزادی کی اس جدوجہد میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ وہ کش مکش تھی جس میں مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کی صحافت کا چوتھا امتیازی پہلو تھا۔

  • ان کی صحافت کا پانچواں پہلو وہ ہے جس کی مثال ہمیں اخبار تاج ‘ جبل پور] ۱۹۲۰ئ[کے زمانے میں ملتی ہے۔ تاج میں نام بطور مدیر تاج الدین صاحب کا آتا تھا‘ لیکن اسے مرتب سیدمودودیؒ کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ بتاتے ہیں:’’تاج کچھ مدت تک   ہفتہ وار نکلتا رہا‘ اور پھر روزانہ ہوگیا۔ میں تنہا اس کو چلاتا تھا… بدقسمتی سے میرے ایک مضمون پر حکومت نے گرفت کی۔ چونکہ اخبار کے ایڈیٹر‘پرنٹر اور پبلشر کی حیثیت سے تاج الدین کا نام شائع ہوتا تھا‘ اس لیے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ گو‘اس طرح میں حکومت کی گرفت سے بچ گیا‘ لیکن مجھے اس بچنے میں کوئی خوشی نہ تھی‘ اور آیندہ کے لیے میں نے عہد کرلیا کہ دوسروں کی ذمہ داری      پر اخبار نویسی نہ کروں گا‘ بلکہ اپنی ہر جنبشِ قلم کی ذمہ داری اپنے سرلوں گا‘‘۔(تذکرہ سید مودودی‘ج ۲‘ ص ۱۲۸-۱۲۹)۔ یہ بڑے اُونچے کردار اور جرأت کی بات ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس وقت مولاناؒ ابھی صرف ۱۸ سال کے نوجوان تھے۔ یہ واقعہ ان کے ضمیر کی بیداری اور ان کے کردار کے رخ کو متعین کرتا ہے۔

بحیثیت صحافی یہ امور مولانا مودودیؒ کے زمانۂ صحافت میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بھی اگرچہ مولاناؒ ان معنوں میں تو صحافی رہے کہ ایک ماہنامے کے مدیر تھے اور ایک ماہ نامے کا مدیر بھی صحافی ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو صحافی کہتے تھے‘ تاہم اب ان کی تحریر‘ ان کی سوچ‘ اور ان کے انداز میں ایک تبدیلی آئی اور ان کے اہداف‘ اب صحافت کے دائرے سے نکل کر ایک زیادہ اہم‘ مشکل اور کٹھن میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ میدان تھادین کی صحیح تعبیر‘ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور عالمی استعماری تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے کردار کی بازیافت کا۔ انسان سازی اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے جن عناصر اور قوتوں کی ضرورت ہے‘ ان کے لیے فکرمندی مولانا مودودیؒ کے طرزفکر اور اسلوبِ زندگی کا ایک مستقل حصہ بن گئی۔ اب وہ ایک مفکر‘مصلح‘ مدبر اور قائد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

مولانا کی نگارشات میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے    اور کہیں کہیں ادب کی یہ جولانیاں شاعرانہ اسلوب کی حدوں کو بھی چھوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقیات اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ پر بھی لکھا۔ اسی زمانے میں مشہور مصری دانش ور مصطفی کامل پاشا کی کتاب المسئلۃ الشرقیہ کا ترجمہ کیا۔

ان تمام تحریروں میں وہ اپنے مزاج اور موضوع کی مناسبت سے ادبیت اور مقصدیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ابتدائی زمانے ہی سے ادب کی مٹھاس‘  صحتِ زبان‘ حسنِ بیان اور رعنائی خیال کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے‘ جو ان کے طرزِ نگارش کو  ایک انفرادی آہنگ عطا کرتا ہے۔ اولین دور میں مولانا مودودی کے ہاں دو زیریں لہریں (under currents)ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نبردآزما بھی نظر آتی ہیں: ایک شبلی کا اسلوب تحریر‘ دوسرا ابوالکلام آزاد کا انداز نگارش۔ ایک کی خصوصیت گنگا جمنا کی میدانی علاقوں میں پُرسکون روانی ہے‘ اور دوسرے میں پہاڑی آبشار اور پتھروں کو بہا لے جانے والے پانی کے پُرشور دھاروں کا جوش و خروش۔ ان دونوں اسالیب سے مولانا نے استفادہ کیا ہے۔ دونوں کے کچھ نہ کچھ اثرات مولانا کے اسلوب پر نظرآتے ہیں۔ لیکن مولانا نے دونوں میں سے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ کسی ایک کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے خود نیا رنگ لیا‘‘۔ ان کا یہ اسلوب‘ دورصحافت میں تشکیل پا چکا تھا۔ اس لیے میری نگاہ میں الجھاد فی الاسلام مولانا مودودی کے بنیادی فکر ہی کا آئینہ ہے‘ بلکہ اس کتاب میں مولانا کے اندازِ تحریر اور اسلوبِ نگارش کی امتیازی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ الجھاد فی الاسلام  کے لیے تحقیق اور اس کی تحریر وتسوید     مولانا مودودی ؒکی زندگی میں ایک کلیدی موڑ اور امکانات کے وسیع افق روشن کرنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف تو انھیں اسلام کے تصورِ کائنات کو بالکل واضح حقیقت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقع ملا۔ دوسری طرف جو معذرت خواہانہ روایت مسلمانوں کی فکر میں جڑ پکڑ چکی تھی‘ اس کو انھوں نے بالکل ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا اور پوری متکلمانہ شان کے ساتھ اسلام پر اعتراضات کا دفاع کیا‘ان کا جواب دیا اور اس سے بڑھ کر مثبت طور پر اسلام کی ایک جامع تصویر پیش کی۔ اس عمل میں انھوں نے ایک نیا اسلوب بھی اختیار کیا۔ اس علمِ کلام کی اصل خود اسلام میں موجود ہے۔ الجھاد فی الاسلام‘ مولانا مودودی ؒکی زندگی کے رخ کو متعین کرنے والی کتاب ہے‘ اور یہ حسب ذیل تین حوالوں سے ہے:

اول: اسلام کے صحیح تصورِ حیات و کائنات کی بازیافت۔

دوم: یہ نکتہ کہ یہ تصورِ حیات فکری طور پر حق و باطل کی ایک عالم گیر کش مکش کی طرف لے جاتا ہے‘ جس میں اسلام کا تاریخی‘ بنیادی اور فطری کردار ہے۔ اس سے اسلام کا تحریکی تصور اُبھرتا ہے جو بالآخر بیسویں صدی میں اسلامی تحریکات کی صورت گری کا ذریعہ بنا ہے۔

سوم: یہ کہ اس تقاضاے دین کی بجاآوری اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ پر طاقت کے استعمال کا ایک متعین کردارہے‘ وہیں صرف طاقت یا جنگ اس کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ناگزیر پہلو ہے‘ لیکن ہر دور کے مسائل‘ معاملات اور زمینی حقائق کی روشنی میں  غلبۂ اسلام کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنا ضروری ہے‘ جو اس مقصد کے لیے مددگار ثابت ہو اور اس میں مداہنت و پسپائی یا رخصت و دل شکنی کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ مکی دور میں بھی    غلبۂ اسلام مقصود تھا‘لیکن یہ دور تیاری کا دور تھا۔ جس کی تکمیل اور تنفیذ ہجرت اور اس کے بعد ہوئی لیکن مکہ اور مدینہ دونوں اس تحریک کے لازمی مرحلے ہیں ‘جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ حرا سے لے کر شعب ابی طالب تک‘ معراج سے ہجرت تک‘ بدر سے حنین تک‘ حدیبیہ سے فتح مکہ تک‘ سب اس وسیع تر حکمت عملی کے پہلو ہیں اور اس نمونے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں حسبِ ضرورت ایک نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا دور ہی اصل اسلامی مثالیہ (paradigm )ہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ زمانۂ خلافت کے بعد غلبۂ اسلام کی کیا حکمت عملی ہو؟ یہ کیسے ہونا چاہیے؟ کیونکر ہونا چاہیے؟ گو‘ اس پہلو کو مولانا مودودی ؒکتاب میں لے آئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت مولانا مودودیؒ پر یہ پوری طرح واضح نہیں تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے؟ ۱۹۲۸ء سے ۳۹-۱۹۳۸ء تک کا زمانہ مولانا کے فکر کے نکھار کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مستقبل کے لیے اُمت کے سامنے ایک حکمت عملی پیش کی اور پھر اسے بروے کار لانے کا آغاز کیا۔ ان سنگ ہاے میل اور پیش آمدہ چیلنجوں کے خدوخال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

بحیثیت مصنف اور ادیب

اس دور کے بھی کئی حصے ہیں۔ ابتدائی چار سال تک تو انھوں نے خاموشی سے‘ مگر جم کر اور پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ اس عرصے میں کچھ کتابیں بھی لکھیں‘ اورمستقبل کے منصوبے بھی بنائے۔ ان کے اپنے عزائم کو پختگی حاصل ہوئی اور رجحانات کی واضح صورت گری ہوئی۔ پھر ۳۳-۱۹۳۲ء میں یکسو ہو کر وہ اپنی زندگی کے اصل  مشن کے لیے جہاد زندگانی کے وسیع میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ میری نگاہ میں اس جہادِزندگانی کے شروعات کا بہترین اظہار ترجمان القرآن کے پہلے سات برسوں کے ’اشارات‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اظہار مولانا کی شخصیت‘ وژن اور فکرکے ارتقا اور مولانا کے مستقبل کے تاریخی کردار کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمان کی ادارت سنبھالتے ہی انھوں نے جو پہلی چیز لکھی وہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مضامین ہیں۔بعدازاں تنقیحات‘ سود‘ پردہ‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ تفہیمات کے مباحث ہیں۔مولانا کے دوسرے دورِ حیات تک کی یہ مختصر سی جھلک ہے۔

۱۹۳۰ء کے عشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلامی‘ الٰہیاتی اور سائنسی موضوعات پر کلام کرتے ہوئے وہ مضبوط منطقی استدلال اختیار کرتے ہیں‘ لیکن جب معاملہ آتا ہے احساسات کو اُبھارنے کا‘ تو بعض تحریروں میں انھوں نے جھنجھوڑنے والا انداز بھی اختیار کیا۔ اس زمانے کی تحریروں میں مولانا کے ہاں انگریزی اور عربی کے الفاظ نسبتاً زیادہ ملتے ہیں‘ لیکن ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ان کے اسلوب میں آسان زبان اور عام فہم انداز فروغ پذیرہوتا ہے۔ اس سادہ نویسی کا شاہکار تفہیم القرآن اور خطبات ہیں۔ پھر آخری زمانے تک مولانا کا یہی انداز رہا ہے۔ گویا کہ ادیب کی حیثیت سے بھی مولانا کے ہاں ہمیں ایک ارتقا نظر آتا ہے۔ زمانۂ صحافت میں انھوں نے دوسروں کے کچھ اثرات بھی قبول کیے‘ اور یہ بالکل فطری بات تھی‘ لیکن پھر ان کا    اپنا طرزِنگارش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے طرزِنگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برٹرینڈرسل ہے۔ اس کے ہاں بھی الٰہیاتی‘ سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے‘ جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی نثر میں پیش کرتا ہے‘ اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے ۔ بحیثیت ادیب‘ مولانا کی یہ بڑی قابلِ قدر خدمت ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو علمی‘ دینی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشرتی موضوعات سے مالا مال کرتے ہوئے اظہار کی ایک شان دار روایت قائم کی۔ ادب صرف افسانہ نگاری اور شاعری تک محدود نہیں‘ بلکہ وہ زندگی کے سارے سنجیدہ موضوعات کو مختلف ادبی پیرایہ ہاے اسالیب میں زیربحث لاتا ہے۔ مقالے اور الٰہیاتی مضامین بھی ادب کے دائرے میں آتے ہیں۔

مولانا مودودی لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب میں کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ وہ اپنی توجہ موضوع پر مرکوز کرتے ہیں‘ الفاظ خود بخود موزوں ہو جاتے ہیں۔ دینی فکر اور معاشرتی علوم کو انھوں نے نہایت خوب صورت زبان میں پیش کیا ہے۔ وہ صنائع اور بدائع کے استعمال میں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نثرکا تجزیہ کیا جائے تو وہ کلاسیکی زمرے میں آتی ہے۔ یہ چیزیں تو اظہرمن الشمس ہیں‘ اس کے ساتھ جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے قرآنی اصطلاحات‘ قرآنی محاورے اور قرآنی پیغامات کو اُردو زبان میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ یہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

مولانا مودودیؒ کی فکری اور ادبی تخلیقات روایتی مذہبی تحریروں سے بڑی مختلف ہیں۔ ان میںفکر کے عمق کے ساتھ زندگی کی حرارت اور ادب کی چاشنی ہے‘ جس نے ان تخلیقات کو بولتی ہوئی تحریریں بنا دیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان میں دعوت کی روح اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ وہ حرکت کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ وہ خود بھی بیدار ہیں اور دوسروں کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر عمل اور حرکت پر اکساتا ہے۔ مولانا نے  طنزاور مزاح کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے‘ ان کی تحریر میں بلا کی شوخی ہے جو ان کی خوش ذوقی ہی کا ثبوت نہیں‘ بلکہ ادبی صنعت کاری کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔

آج کل مغرب کے زیراثر ’’اسلام کی اصلاح‘‘کرنے والوں کے لیے ترکی کے  مصطفی کمال پاشا کا نام ایک رول ماڈل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۰ء میں اتاترک پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’]کتاب اتاترک کے[ مصنف نے ازراہ انکسار اس کتاب کو اتاترک کی سوانح عمری قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے ’’قصیدۂ نعتیہ درشانِ اتاترک علیہ السلام‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ترکی میں ایک نبی مبعوث ہوا تھا… یہ مبالغہ جس شخص کے حق میں کیا گیا ہے اسے مرے ہوئے ابھی کچھ بہت زیادہ دن بھی نہیں گزرے کہ ماضی کے دھندلکے سے فائدہ اُٹھا کر اسے دیوتا بنا ڈالا جائے۔ پرانے زمانے کے مچھر کو آج ہاتھی بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ہم عصروں کی آنکھوں میں کہاں تک خاک جھونکیں گے... ]کتاب کے مصنف کے بقول‘ اتاترک[ نے مذہب ]اسلام[ کی اصلی روح کو برقرار رکھتے ہوئے درویشوں اور مولویوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ مذہب اسلام میں دنیاوی ترقیوں کا ساتھ دینے کی پوری پوری صلاحیت ہے‘ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ درویشوں اور مولویوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت ترکی کی سرزمین کو اتاترک نے ملائوں کے وجود سے پاک کیا‘ اور فی الحقیقت اتاترک کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی اصلاح کی تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی--- بے معنی الفاظ کا کتنا عجیب مجموعہ ہے۔ ان لوگوں کے ’’لچک دار اسلام‘‘کی کیا تعریف کی جائے‘ ] ان کے نزدیک[ اس کم بخت میں اس غضب کی لچک موجود ہے کہ دنیاوی ’’ترقیوں‘‘ کی خاطر قرآن کا قانون منسوخ کردینے تک کی گنجایش اس میں نکل آتی ہے۔ اور اس ’’مذہب اسلام کی اصل روح‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ ملا اور درویش کو سامنے رکھ کر اس طرح ڈائنامائیٹ سے اڑایئے کہ قرآن و سنت بھی ساتھ ساتھ اڑ جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کا نام ’خالص روحِ اسلام‘ ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ مئی-جون ۱۹۴۰ئ‘ ص ۳۲۲-۳۲۷)

مولانا مودودیؒ مقصد سے لگن رکھنے والے ایک ایسے ادیب اور مفکر ہیں جنھیں اپنے مخاطبین کے دل میں پیغام اتارنے اور ان کی شخصیت کو بدلنے سے غرض ہے۔ مگر وہ اس غرض کے لیے زور زبردستی کا ویسا رویہ اختیار نہیں کرتے‘ جو عموماً سیاسی یا مذہبی عناصر کے طرزِ تخاطب کی پہچان اور ان کا عیب ہوتا ہے۔

ادب نام ہے اثرانگیزی کا اور یہ اثرانگیزی مولانا کی تحریر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروع کے دینی ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے علما نے تفسیر‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ اور تاریخ پر بڑی گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ لیکن ان کے اسلوب کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق اس دنیا سے نہیں ہے‘ جسے وہ مخاطب کر رہے ہیں۔ بعض مستثنیات کے سوا ان کی زبان اتنی ادق اور محاورے اتنے بوجھل اور مثالیں ایسی ہوش ربا ہیں کہ آپ ان میں سے کچھ مواعظ کو تو محفل میں بیٹھ کر بآواز بلند پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن اُس زمانے میں دینی کتابوں کا کلچر یہی تھا۔ تاریخ پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کتاب بڑی عمدہ ہے‘ لیکن اگر آپ جملے کی طوالت دیکھیں تواندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔ یہی صورت دوسرے علما کی تحریروں کی ہے حتیٰ کہ مولانا مناظراحسن گیلانی  ؒتک کا طرزِ تحریر اس روایت سے جان نہ چھڑا سکا۔ اس فضا میں مولانا نے دینی موضوعات پر تحریر و نگارش کا اسلوب بدل کر رکھ دیا۔  صاف نظر آتا ہے کہ دینی ادب کی زبان اور اسلوبِ بیان پر مولانا مودودیؒ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور بحیثیت مجموعی علماے دین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوبِ تحریر میں ایک واضح تغیر واقع ہوا ہے‘ مثلاً تفسیر میں مولانا عبدالحقؒ کی تفسیرحقانی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجیے‘ اور پھر پیر کرم شاہ صاحبؒ کی ضیاء القرآن دیکھیے‘ ان کے اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس اسلوب نگارش اور اندازِ تحریر کو جس شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ بحیثیت ادیب مولانا کا یہ بڑا منفرد پہلو ہے‘ جس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اگر انصاف سے کوئی نقاد تحقیق و تجزیہ کرے تو وہ دواور دو چار کی طرح دکھا سکتا ہے کہ کیا فرق واقع ہوا ہے۔

بحیثیت مفکر‘مصلح اور مدبر

ایک مفکر(thinker)‘ مصلح (reformer) اور مدبّر (statesman) کی حیثیت سے مولانا مودودی ؒکی شخصیت کو زیربحث لانا ایک اہم موضوع ہے۔

جب اسلامی فکریات کے وسیع ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی فکرپر سب سے زیادہ جس شخص نے نہایت گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہ مولانا مودودی ؒہیں۔ ان کی اثرپذیری کا دائرہ اپنی وسعت اور عمق کے اعتبار سے‘ اور اپنی اصابت فکر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔

بلاشبہہ دوسرے مفکرین اور خادمانِ دین نے بھی بیسویں صدی میں اسلامی فکر کو مالا مال (enrich) کرنے کے لیے بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور ان کی حیثیت کہکشاں کے روشن ستاروں کی سی ہے اور اس میں ان کے ہاں ایک دوسرے سے اثرپذیری بھی نظرآتی ہے ۔ تاہم میری نگاہ میں مولانا مودودیؒ کو جس بنا پر منفرد مقام حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ انھوں نے وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک اس وقت کے حالات کی روشنی میں اسلامی فکریات کے قائدین نے انجام دیا تھا۔(ملاحظہ ہو‘ میرا مضمون ’’دینی ادب‘‘ مشمولہ: تاریخ ادبیات پاک و ہند‘ ج ۱۰‘ ص ۲۶۱-۳۷۶‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور)

اس کی ایک مثال اسلام کے لیے ’تحریک‘ کے لفظ کا استعمال ہے‘ جو بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی علامت اور پہچان بن گیا۔ اس اصطلاح کی کچھ وہی حیثیت ہے جو دوسری صدی اور اس کے بعد کے زمانے میں ’شریعت‘ کی اصطلاح سارے دینی لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ  قرآن پاک میں لفظ ’شریعت‘ راستے اور طریقے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ہماری فکری تاریخ میں لفظ ’شریعت‘ دوسری صدی میں داخل ہوتا ہے‘ جب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے پھیلائو اور نئے تہذیبی مسائل میں اسلام کی اُبھرتی ہوئی قوت کو پیش آمدہ مسائل کا کیسے جواب دینا ہے؟ اسلامی دعوت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی سوسائٹی‘ اسلامی اداروں کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی نظامِ زندگی کیسے پیش کیا جائے؟ اصول فقہ اور فقہ دونوں کی نشوونما‘ ترقی اور ارتقا دراصل اس ضرورت کو پورا کرنے کی بروقت‘ مؤثر اور کامیاب کوشش تھی۔ اس عظیم کارنامے نے اگلے ۱۲۰۰ برسوں میں اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت اور خود دین اسلام‘ اور اسلام کے سیاسی نظام کو ایک ایسا بنیادی ڈھانچا عطا کیا‘ جس سے وہ ہر طوفانی تھپیڑے اور ہر سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکا اور اس کے ذریعے وہ ہردور میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ کرسکا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ شریعت بحیثیت اصطلاح‘ اسلام کے فکری اثاثے میں شامل ہوئی۔

فقہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عبادات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلاشبہہ عبادات اس کا اولین موضوع ہیں‘پھر خاندان اور عائلی زندگی وغیرہ کے معاملات۔ یہ دونوں موضوعات فقہی کتب کے تقریباً دو تہائی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فقہ میں مالی معاملات‘ معاشی احکام‘ تجارتی احکام‘ پھر قانون صلح و جنگ‘معاہدات‘ سزائیں‘ تعزیر‘ حد اور سیر کے ابواب ہیں۔ سیر (قانون بین الاقوام) کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کس طرح معاملہ کریں اور غیرمسلموں کے حقوق کی کیا صورت ہے؟ یہ تمام ابواب فقہ کے ہیں اور فقہ کا یہ نشوونما اور شریعت کا یہ وسیع تر نظام‘ دراصل قرآن و سنت کی دعوت کا فطری مظہر تھا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت پیش کی گئی تھی‘ جس نے ایک سوسائٹی‘ ایک تحریک‘ ایک ریاست اور ایک تاریخی رو کو پروان چڑھایا تھا‘ اس چیلنج کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ قانونی اور اداراتی سطح پر ایک     ہیکل اساسی (infra-structure)کی ضرورت تھی۔ ان فقہا نے اسے دو اور دو چار کی طرح  واضح کیا تاکہ آنے والے کل کے مراحل کو طے کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہت کے باوجود قانون بادشاہوں کی مرضی کے تابع نہیں تھا بلکہ شریعت کا قانون تھا ۔ کم و بیش ہر بادشاہ شریعت کے قانون اور قاضی کے حکم کے تابع تھا۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تحریک ایک حقیقت تھی تو اس کے ماحصل کو محفوظ و مستحکم کرنے کے لیے فقہ اور شریعت کی تدوین کی ضرورت تھی اور اس تاریخی عمل نے شریعت کی مرکزیت کو برگ و بار عطا کیے۔

پہلی اور دوسری صدی میں درپیش حالات کی طرح کا چیلنج اُمت مسلمہ کو دوبارہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے شروع میں بڑی شدت کے ساتھ پیش آیا‘ لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ تب فقہ توموجود تھی لیکن وہ نظام باقی نہیں رہا جس کو چلانے کے لیے وہ فقہ مدون کی گئی تھی۔ شریعت کا وہ ڈھانچا تو موجود تھا لیکن شریعت کہیں بھی قانون ارضی (law of land) کے طور پر موجود نہیں تھی۔ مغربی سامراج نے مسلم ممالک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ممالک پر ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی‘ سیاسی نظام پر بھی‘ عدالتی نظام پر بھی‘ اجتماعی نظام پر بھی‘ معاشی نظام پر بھی‘ تعلیم پر بھی‘ حتیٰ کہ خاندان اور فرد پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس منظرنامے میں یہ ایک ادھوری بات تھی کہ بس ’’خلافت بحال کر دو‘‘۔ جو شخص بھی اسلام کے مزاج کو سمجھتا تھا اور وقت کے بحران اور اس کی اصلاح کا صحیح نقشۂ کار اس کے سامنے واضح تھا‘ اسے یہ بات بڑی سطحی اور غیرفطری لگتی تھی۔ ہم یہ دیکھتے ہیںاس موقع پر اُمت کے لیے ایک نقشۂ کار اور ایک واضح حکمتِ عملی متعین کرنے کا جو کام مولانا مودودیؒ نے کیا‘ وہ کم و بیش اسی نوعیت کا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ تب ہم ایک نئی اصطلاح سے روشناس ہوئے اور وہ ہے لفظ ’تحریک‘۔

جس طرح اولین دور میں لفظ ’شریعت‘ نہیں تھا لیکن اسلام کے منشا کو بیان کرنے کے لیے ’شریعت‘ کا جامع لفظ آیا۔ آج اگر کوئی سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟ تو اس کا فوراً جواب ملے گا ’’شریعت ِاسلامی‘‘۔ گویا شریعت‘ اسلام کے نظام کار کی مجسم کی صورت میں اس زمانے میں آئی‘ جب اسلام ایک غالب اور ایک تاریخ ساز قوت تھا۔ وہ قوت‘ اپنی اخلاقی اور تہذیبی برکت کے ساتھ دنیا کے شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب میں کارفرما نظر آرہی تھی۔ اس زمانے میں اس کی حرکت کے پہلو کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب حرکت اور پھیلائو کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ اور اُمت جمود ہی کا شکار نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے ایک دوسری تہذیب کے سانچے میں ڈھل جانے کی نوبت آگئی‘ تو نئی ضرورتیں اُبھریں۔ اب اسلام صرف اقتدار ہی سے محروم نہ تھا‘بلکہ وہ ادارے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت اور ریاست کے ستون تھے اور اس کی پوری عمارت کو تھامے ہوئے تھے‘ ایک ایک کر کے منہدم ہوگئے‘ اور ان کی جگہ ایک دوسری تہذیب سے درآمد شدہ اداروں کو مسلمانوں کی سرزمین پر مسلط کر دیا گیا تو ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اب شریعت کو دوبارہ زندگی کی رہنما قوت بنانے کے لیے ایک نئے وژن اور نئی اجتماعی تحریک اور نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کا صحیح وژن‘ایمانی دانش اور متوازن بصیرت کے ساتھ بیان کیا جائے‘ اس بصیرت کی وسعتیںاس کے اہداف کے ساتھ آشکارا کی جائیں ‘ اس کو بروے کار لانے کے لیے قوت عمل‘ اس کے نظامِ کار کی منہج اور اس کے لوازمات کی فکر کی جائے۔ اور پھر عملاً وہ جدوجہد برپا کی جائے جو دین کی اقامت کا ذریعہ بن سکے۔

یہی وہ چیز تھی جس کے اظہار کے لیے مولانا مودودی ؒنے دین و دعوت اور نظامِ زندگی اور قانونِ حیات کے تصورات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔ انھوں نے قوی دلائل کے ساتھ اسلام کا جو انقلابی تصور پیش کیا وہ ’تحریک‘ کے لفظ میں ڈھل گیا۔ ان کے فکر کا اصل آہنگ یہ پیغام ہے کہ: اسلام ایک دین‘ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون‘ ثقافت‘ طرزِمعاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسلام محض ایک نظری فلسفہ نہیں‘ بلکہ عقیدہ‘ اخلاق‘ قانون‘ معاشرت‘  تہذیب و تمدن اور اقدارحیات کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا صورت گر بھی ہے اور اس طرح وہ ایک تاریخی قوت ہے‘ جس کے داخلی وجود میں یہ صلاحیت کار ہے کہ وہ اپنے کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دے‘ انھیں متحرک اور منظم کر کے ایک جدوجہد کا  موج در موج حصہ بنا دے۔ دوسرے یہ کہ اسلام‘ دین کے ساتھ ساتھ‘ ایک پیغام‘ ایک دعوت‘ ایک تبدیلی کا عمل ہے۔ جب دین کی ان تینوں جہتوں کے ساتھ‘ عقیدہ‘ عبادت‘ نظامِ زندگی اور قانون اور معاشرت اور پھر پیغام‘ دعوت‘ جدوجہد اور نفاذ کی منظم کوشش کی جائے تو سب مل کر اسلام کی حقیقی منشا بن جاتی ہے‘ جسے ’تحریک‘ کی اصطلاح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

بعض علما نے مولانا مودودیؒ کی اس پکار کو ’بدعت‘ قرار دے کر ناگواری کا اظہار کیا‘کچھ نے بالکل ہی مسترد کر دیا‘ مگر ان افراد کے نامناسب ردعمل نے بہت جلد اپنی اپیل کھو دی۔ آج اُن پیشوائوں کے ارادت مند بھی انھی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں‘ جنھیں وہ کل مذموم قرار دے کر مولانا مودودیؒ کے خلاف فتووں کی بارش کر رہے تھے۔ گویا وقت اور حالات کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے اسلام کے اصل پیغام کو اس کے جوہر سے جوڑنے‘ بیان کرنے اور دل و دماغ اور قول و عمل میں انقلاب برپا کر کے اس کو ایک زندہ تحریک بنانے کا کام کیا۔ مولانا مودودی ؒاور اس دور میں احیائی فکر کے علم بردار مفکرین کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری میں اس وقت اُمت کے قائدین نے   انجام دیا تھا۔ اس وقت ایک چلتے ہوئے نظام کو مستحکم کرنے اور انحراف کی یورش کے مقابلے کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ضابطے اور قانون کا پابند کرنا اصل ضرورت تھی‘ اور اب    قانون اور ضابطے کا ایک مثالیہ تو موجود تھا مگر وہ قوتِ قاہرہ مفقود تھی‘ کہ جس کے ذریعے نظریات نظامِ حیات بن جاتے ہیں۔

اب اگر آپ اس کی تہ میں جانا چاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ خلافت و اسلامی ریاست دراصل اس تحریک ‘ اس جدوجہد اور تبدیلی کا نتیجہ ہوگی۔ اس کے لیے فکر کی تبدیلی‘ فکر کے ساتھ کردار کی تبدیلی اور کردار کے ذریعے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اس مقصدکے لیے منظم جدوجہد کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں‘ جو بالآخر اسلامی معاشرے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی ریاست اور حکومت الٰہیہ کے قیام پر منتج ہوگی۔ دیکھیے کہ خلافت کی اصطلاح جس نے ۱۹۲۴ء میں ایک خاص انداز میں پوری اُمت کو صدمے سے دوچار کیا تھا‘ اس کے زیادہ  جان دار متبادل کے طور پر حکومت الٰہیہ‘اقامت دین‘ اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ اور پیاس اپنے نئے روپ اور نئے وژن کے ساتھ کس طرح اس مقام تک آپہنچی ہے۔

علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ کے سامنے دراصل یہ بنیادی ایشو تھا۔ علامہ نے اپنے انداز و اسلوب اور اپنے دائرے میں اور اشاروں میں اور مولانا مودودیؒ نے تفصیل‘ وضاحت اور تسلسل کے ساتھ اس کا جواب دیا۔مولانا مودودیؒ کی نگاہ میں اصل مسئلہ خلافت کے کسی روایتی ادارے یا symbolکا قائم ہوجانا نہیں‘بلکہ خلافت تو اس وژن اور اس نئے عمل اور اس تہذیب کی سرتاج ہے جس کے لیے ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے‘ یعنی استخلاف فی الارض کی ذمے داری کو پورے شعور کے ساتھ ادا کرنا۔

آج کے دور اور حالات میں خلافت اور اقامت دین کے لیے مطلوب بنیادوں اور لائحہ عمل کے جو خدوخال سیدمودودی ؒنے پیش کیے ہیں‘ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز فکر اور فکرمیں بھی اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ وقت کی غالب فکر پر گرفت‘ تنقید و تنقیح اور ایک نئے انسان کو تیار کرنا ہے۔ ایساانسان جس کا وژن‘ اخلاق‘ کردار‘ صلاحیت کار‘ تعلیم‘ وسائل اور اوقات کار کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے بعد دوسری چیز ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے۔ چونکہ یہ کام محض انفرادی طور پر انجام نہیں پاسکتا‘ اس کے لیے ایک منظم اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔ ایسے تمام اچھے انسانوں کو منظم کر کے اجتماعی جدوجہد میں لگا دینا‘ تاکہ اسلام وقت کی غالب قوت بن کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا سکے۔ اس مطلوبہ قوت کا جو وژن سامنے آتا ہے وہ ہے تبدیل شدہ انسان اور اس کے ذریعے ایک اچھے معاشرے کا قیام۔ اس کے ادارات میں تعلیم‘ معاشرت‘ معیشت شامل ہے اور جس کا موثر ترین پہلو انقلاب قیادت اور اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ صرف ایک خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسلام کو ایک کارفرما اور قائد کی حیثیت سے سامنے لانا ہے۔

فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو

سید مودودی کے علمی کارنامے کا احاطہ اور جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ مگر اس جائزے کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا بڑا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کسی قدر غوروفکر اور مزید تحقیق و تحلیل (analysis) کے طور پر چند نکات مرتب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

سید مودودیؒ کے علمی کارنامے کی صحیح تفہیم کے لیے دو بنیادی باتوں کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے: اول یہ کہ ہماری تاریخ کی پہلی پانچ صدیاں اسلامی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی صورت گری اور استحکام اور ترقی کے باب میں اسلام کی اجتہادی اور انقلابی قوت کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج اور تاریخی کردار کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم عرض کریں گے کہ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ نہ صرف اسلام کے معیاری ادوار ہیں‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اسلامی مثالیے کے خدوخال متعین کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد کے ساڑھے چار سو سال کے سیاسی نشیب و فراز سے اگر صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ دور علوم اسلامی کی تدوین کا زریں زمانہ ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ تصوف‘ ان سب کے لیے یہ تعمیری اور تشکیلی دور ہے۔ اور امام غزالی ؒ

کی ذات اور کام میں اس دور کا حاصل دیکھا جا سکتا ہے۔

امام غزالی ؒنے فقہ‘ کلام اور تصوف کے تینوں دھاروں کو اپنے وقت کے فکری اور تہذیبی چیلنجوں کی روشنی میں اپنی مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ایک نامیاتی اکائی (organic whole)میں مرتب اور منضبط کرنے کی بڑی راہ کشا اور کامیاب کوشش کی۔ پھر ایسی ہی ایک کوشش بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ مرحوم و مغفور کے کام میں نظر آتی ہے۔

سید مودودیؒ کے کام کو بیسویں صدی کے فکری اور تہذیبی چیلنج کے پس منظرہی میں سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ فکری اعتبار سے ان کا کام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے کام کا تسلسل اور اس علمی روایت کے بیسویں صدی میں احیا کی ایک شان دار مثال ہے۔

دوسری چیز وہ فکری اور تہذیبی ماحول ہے جس میں سید مودودی ؒنے یہ کام انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ۲۰۰ سال کا فکری جمود‘ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(renaissance)‘ روشن خیالی (enlightenment) اور لبرل اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ‘ صنعتی انقلاب‘ مغربی استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار پوری دنیا بشمول مسلم دنیا پر ان تسلط تھا۔ اس پس منظر میں شروع شروع میں مسلمانوں میں دو رجحان رونما ہوئے۔ ایک تحفظ اور اپنی میراث کو بچانے کے لیے قدامت پسندی اور جدید سے عدمِ تعاون اور اجتناب کا رویہ تھا‘ اور دوسری جانب اپنے تشخص اور روایت سے بے نیاز ہوکر غالب قوت سے ہم آہنگی اور ہم رنگی اختیار کرنے اور لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر عملاً مغربی تہذیب‘ طرزفکروعمل‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں سے نئی ٹکنالوجی اور طرزمعیشت کو بلاتفریق وامتیاز (indiscriminately)اختیار کرنے کا۔

روایتی مذہبی طبقات پہلے راستے میں نجات دیکھ رہے تھے‘ اور جدید تعلیم یافتہ اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات دوسرے کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک وسیع خلیج تھی جسے پُر کرنے کے لیے کئی موثر کوششیں ہوئیں‘ جن میں سب سے اہم اسلام اور مسلم تہذیب و تاریخ پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی وہ کاوش تھی‘ جو سید امیرعلی‘ شبلی نعمانی اور ندوۃ العلما اور دارالمصنفین نے انجام دی۔

اس پس منظر کے ساتھ برعظیم پاک و ہند میں دو آوازیں اُبھریں جو اپنی تازگی‘ وسعت اور انفرادیت (originality) کے اعتبار سے بظاہر اپنے ماحول میں اجنبی‘ لیکن دراصل اسلام کے پہلے ۵۰۰سال کی روایت کے احیا کی نقیب تھیں---ایک‘ اقبال اور دوسرے ابوالکلام آزاد۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اسلام کی راہ وسط کو اجاگر کیا اور قدیم اور جدید کے درمیان راہِ صواب کی نشان دہی کی۔ لیکن صرف اس حد تک کہ جمود پر ضرب لگائی‘ مغربیت کے طلسم کو چیلنج کیا اور اسلام کے حقیقی پیغام اور مشن کی طرف مراجعت کی دعوت دی--- جس شخص نے اس نقشے میں رنگ بھرا اور اس دعوت کو فکروعمل دونوں میدانوں میں ایک حقیقی اور موثر تحریک بنانے کے لیے شب و رز وقف کر دیے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ جنھوں نے یہ کام روایت سے بغاوت کے ذریعے نہیں بلکہ روایت کو تجدید کے عمل کا حصہ بناکر‘ اور جدید کو نظرانداز کر کے نہیں‘ بلکہ جدید کو اپنی تہذیبی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر اور خذما صفا ودع  ما کدر (جودرست ہے اس کو قبول کرلو اور جو نادرست ہے اس کو رد کر دو) کے اصول کے مطابق انجام دیا۔ ان کے   اس کام کے تین اہم پہلو ہیں:

                ۱-            فکر اسلامی کی تشکیلِ نو

                ۲-            اُمت کی کمزوری اور زوال کے اسباب کی تعین و تشخیص اور اصلاح احوال کے   خطوطِ کار کی نشان دہی۔

                ۳-            اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرنو کی جدوجہد کا عملی آغاز

یہی وہ تین کام ہیں جس کے باعث بیسویں صدی کی تاریخ میں سید مودودیؒ ایک مفکر‘ ایک مصلح اور ایک مدبر کی حیثیت سے بڑا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں اپنی تصنیفی زندگی کے ۶۰برسوں میں سیدمودودیؒ نے تقریباً ڈیڑھ سوکتب کی تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت انجام دی۔ انھوں نے تفسیرقرآن‘ تشریح احادیث‘ تعلیم فقہ کے ساتھ اجتہادی بصیرت سے دورِحاضر کے جملہ اہم علوم اور مسائل کے بارے میں اسلامی فکر کے اساسی اصول پیش کیے۔ ان کے اجتہادی کام کا دائرہ چند گنے چنے مسائل تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اصل ماخذ اور تاریخی روایت کے ساتھ‘ پوری فکرِاسلامی کی روشنی اور تسلسل میں تعمیر اور تشکیلِ نو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس کام کی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق ہوگی اور اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔

اس سلسلے میں سید مودودیؒ کا سب سے بنیادی کام عقیدے کی تشریح اور توضیح ہے۔ سیدصاحبؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے سب سے کلیدی تصور‘ توحید کے عقیدے کی تشریح اور اس کے تقاضوں کی تعلیم ہے۔ قرآن نے الٰہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے‘ اس دور میں اس کی واضح ترین تعلیم سید مودودی ؒکا سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے۔ توحید کے تصور کو شرک کی تمام آلایشوں سے پاک کرنا اور اللہ کو الٰہ ماننے کے مضمرات کو جس طرح سیدمودودیؒ نے بیان کیا ہے‘ وہ اظہارمدعا کی دنیا میں ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اللہ صرف خالق اور پالنہار ہی نہیں ہے‘ بلکہ وہ حاکم‘ آقا‘ مطاع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کے معنی ایک طرف اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے دامن میں پناہ لینا ہے تو دوسری طرف اس سے عہداطاعت کرنا ہے کہ پھر زندگی کے ہر شعبے میں اس کی رضا کا حصول‘ اس کے احکام اور ہدایت کی اطاعت اپنے آپ کو اور اپنے پورے معاشرے کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لینا ہی کمال ترقی و کامیابی ہے۔

یہ تصور ایک طرف روایتی مذہبی جمود کو پارہ پارہ کر دیتا ہے تو دوسری طرف زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے اور الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر محض عقل‘ تاریخ اور تجربے کے سہارے زندگی گزارنے والے تمام طریقوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ عبادت صرف مخصوص اسلامی مظاہر (rituals) کا نام نہیں‘ بلکہ پوری زندگی کو منصوص عبادات کی ادایگی اور ان کی رمزیت اور اثرانگیزی کی قوت سے اللہ کی بندگی میں دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور اسلام ہے ہی وہ دین جو ایک طرف انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کو خالق کائنات کی مرضی سے ہم آہنگ (harmonize)کرنے کا وہ طریقہ ہے جس پر پوری کائنات عامل ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مسلم ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل پیرا ہے۔ جب انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو کر اللہ کے قانون کی اپنے ارادے سے پابندی کرتا ہے تو وہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے اسے حقیقی امن و سلامتی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے رب‘ اپنی ذات اور فطرت‘ اور پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اطمینان کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ اسلام کے معنی یہی سپردگی ہے جو اطمینان‘ امن اور سلامتی پر منتج ہوتی ہے (اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o الرعد ۱۳:۲۸)۔

توحید کے اس تصور کی وضاحت کے بعد سیدمودودیؒ اسی توحید کی بنیاد پر پوری انسانی فکر اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ  قرآن و سنت اور اسوئہ رسولؐ سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرشعبے کے لیے کافی و شافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے ہرایک پہلو کو انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کیا نقشۂ کار ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتا ہے‘ اور ایک متوازن فکرانسانی اور علوم عمرانی کی تشکیلِ نو کس طرح ان بنیادوں کے اوپر انجام دی جا سکتی ہے۔ قانون‘ سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ تعلیم‘ حقوقِ انسانی‘ عالمی نظام‘ غرض ہر پہلو پر انھوں نے اخلاقی دیانت‘ اجتہادی بصیرت اور عمیق تحقیق کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی خدمت انجام دی ہے۔ فردِواحد نے وہ کام کردکھایا‘ جو بڑے بڑے ادارے اور محققین کی بڑی بڑی جماعتیں بھی بمشکل انجام دے پاتی ہیں۔

سید مودودیؒ نے تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کی تصویرکشی کے ذریعے انسانی زندگی کے اصل ایشوز کو مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ آفرینش کے آغاز سے تاریخ دو ہی قوتوں کی پیکار کی آماجگاہ ہے‘ ایک اسلام ہے اور دوسری جاہلیت (یعنی اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کا نقشہ بنانے کی کوشش خواہ اس کا نام اور آہنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو)۔ یہی وہ کش مکش ہے جس میں انسان کو استخلاف فی الارض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ جو اُمت مسلمہ کا مشن‘ یعنی شہادت حق اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور جس کے لیے نفس سے جنگ سے لے کر کارزارحیات میں شر‘ ظلم اور فساد کے خلاف جہاد ہی اللہ کے بندوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ تزکیہ نفس سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک‘ یہ سب اس نقشۂ راہ کے مراحل ہیں۔ حق کے غلبے کی جدوجہد ہی ایمان کا اصل تقاضا اور ثمرہے۔

سید مودودیؒ نے اسلام کے اس وژن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کام کیا‘ اس کے تجزیے سے ان کے علم الکلام کے خدوخال مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے اولین دور میں وژن کی صحت اور جدوجہد کی قوت کا سرچشمہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی اور سنت رسولؐ پر مضبوطی سے قائم رہنا تھا۔ بڑھتی ہوئی اسلامی قلمرو اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے پھیل جانے سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین اجتہاد اور اجتہادی فیصلوں کی تنفیذ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ فکر‘ تعلیم اور معاملات کا کچھ ایسا آہنگ بن گیا کہ فقہ اور روایت کو اولیت حاصل ہوگئی اور قرآن و سنت سے بلاواسطہ ربط و رہنمائی میں اضمحلال آگیا۔ جن نام نہاد مصلحین نے فقہ اور روایت سے بغاوت کی بات کی‘ وہ اسلام کی روح اور اس کے مشن سے ناواقف تھے۔ لیکن فقہ اور روایت سے رہنمائی اور تعلق کو منقطع کیے بغیر احیاے اسلام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت سے رشتہ استوار کیا جائے اور نئے حالات میں رہنمائی کے لیے ترتیب وہی قائم کی جائے جو دورِاول میں تھی--- یعنی قرآن‘ پھر سنت اور پھر اجتہاد۔ جس میں سلف کے اجتہاد اور اس کے نتیجے میں ظہورمیں آنے والی فقہ سے اصولوں کے مطابق استفادہ ہے۔ پھر جس طرح اصولین نے اپنے زمانے میں اپنے وقت کے علوم اور مسائل کو سامنے رکھ کر اسلام کی رہنمائی کو متعین کیا‘ اسی طرح آج کا ماحول اس پورے علمی اثاثے کو سامنے رکھ کر لیکن جدید علوم اور عصری مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے سائنس‘ عمرانی علوم اور دورِ جدید کے اس ’عرف‘ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے‘ جو مقاصد شریعت سے  ہم آہنگ اور احکام اسلام سے متصادم نہ ہو۔

تحقیق‘تجزیے ‘ استنباط اور اطلاق کی یہ وہ حکمت عملی ہے جو سیدمودودیؒ نے اختیار کی۔ اسی طرح ان کے علم الکلام میں دورِ جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اسلامی علوم و افکار کی تشکیل جدید ہی نہیں بلکہ فکرِانسانی کی تشکیلِ نو کے اس عمل کو انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے خطوطِ کار کا تعین اور اس کے استعمال سے حاصل شدہ نتائج کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ گویا فکر اور فکری عمل کو آگے بڑھانے کے راستے اور طریقے بتاکر‘ ان دونوں میدانوں میں بھی سیدمودودی نے نئے چراغ روشن کیے اور مستقبل میں کام کرنے والوں کے لیے تابندہ نقوشِ راہ چھوڑے۔ ان کے سارے کام کا ہدف اللہ سے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا اور ان کے اندر اپنے رب سے مغفرت کی طلب بڑھانا  تھا۔ لیکن فرد کی اصلاح‘ فکر کی تشکیلِ نو‘ وقت کے فتنوں اور چیلنجوں کا جواب‘ اسلامی زندگی‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست اور اسلام کے عالمی نظام کے خدوخال کی وضاحت کے ساتھ ان کی توجہ ایک اور کلیدی نکتے پر مرکوز رہی‘ اور وہ یہ کہ اچھے انسانوں کی تیاری کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ذریعے انقلابِ قیادت کا معرکہ کیونکر سر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملاً مربوط و منظم جدوجہد کی کہ دین کے قیام‘ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام اور ہرسطح پر قیادت کی تبدیلی اور فاسد قیادت سے زمامِ کار‘   صالح قیادت کی طرف منتقل کرکے انسانیت کی قیادت اہلِ خیر کے ہاتھوں میں لائی جاسکے۔ سیدمودودیؒ کی فکر کا مرکزی نکتہ توحید کے تصور کی وضاحت ہی نہیں ہے بلکہ توحید کے تصور کی بنیاد پر انسان سازی اور زمانہ سازی کا عمل ہے۔ یہ کام انھوں نے فکر کے میدان میں بھی انجام دیا اور پھر ایک مصلح کی حیثیت سے عملاً اس جدوجہد کو برپا کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ ایک دیدہ ور مفکر تھے‘ جن کے ہاں فکری ارتقا جاری رہا۔ وہ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر اپنی آرا پر نظرثانی کے لیے کھلا دل اور ضروری لچک رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ابتدا میں پہلے تحدید ملکیت زمین کے بارے میں مولانا کا کم و بیش وہی نقطۂ نظر تھا‘ جس پر فقہا عامل تھے۔ تاہم‘ جماعت اسلامی کا منشور تیار کرنے کے مختلف مراحل (۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ئ) میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لامحدود ملکیت زمین ظلم اور انسانی سماج میں شدید عدم توازن کا باعث بن جائے توزمین کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اس میں ناجائز ملکیتی زمینوں کو بحقِ سرکار ضبط کر کے ضرورت مند کاشت کاروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور جائز ملکیتوں میں زرعی اور بارانی زمینوں کو ایک حد سے زیادہ کی صورت میں‘ ریاست خرید کر مستحق افراد کو دے سکتی ہے۔ ان کے ہاں یہ تحدید کمیونسٹوں کے قومیانے والے تصور سے بالکل مختلف اور عدل پر مبنی ہے۔

مولانا مودودی کے ہاں جمود نہیں ہے‘ وہ سوچ کر رائے قائم کرتے تھے لیکن اپنی رائے پر قفل نہیں لگاتے تھے۔ شوریٰ میں تو میں نے دیکھا کہ مولانا نے لوگوں کو گھنٹوں بحث کرنے کا موقع بھی دیا ہے اور اپنی آرا کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ہم سب ان کے شاگردوں اور خوردوں میں سے ہیں لیکن وہ ہماری رائے کو بھی پوری توجہ سے سنتے تھے‘ نوٹس لیتے تھے‘ جواب میں دلیل دیتے تھے اور پھر قائل کرنے اور قائل ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایسے بلندپایہ انسان کا ایسے  کھلے انداز میں شورائی آداب پر عمل کرنا‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ہی کا حصہ تھا۔

زندگی کے نئے مسائل اور نئی اُلجھنوں پر جب بھی سوچنے کا مرحلہ آتا تو مولانا اس پر ازسرنو غور کرتے تھے۔ جس چیز کے ایک سے زیادہ حل ہو سکتے تھے‘ ان میں ترجیح قائم کرتے تھے۔ مجھے مرکزی شوریٰ میں دو دن تک جاری رہنے والی وہ بحث اچھی طرح یاد ہے جس میں جداگانہ انتخابات کے مسئلے پر بات ہوئی تھی۔ یہ بحث محض نظریاتی نہیں تھی‘ بلکہ یہ اخلاقی اور اصولی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کے گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ اس پر شوریٰ میں دو آرا موجود تھیں۔ مولانا نے ایسے امور کو بڑی نزاکت سے نبھایا اور شوریٰ میں بالآخر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے (near consensus) کی کیفیت پیدا کی۔

میدانِ عمل میں رہنما خطوط کا تعین

مولانا مودودیؒ ایک مصلح کی حیثیت سے محض ایک نظریہ ساز (theorist) نہیں ہیں‘ بلکہ ایک عملی مصلح (active reformer) کی حیثیت سے ان کی نگاہیں ہمیشہ زمینی حقائق پر مرکوز رہتی ہیں۔ ایک ہمدرد معالج کے طور پر وہ مریض کو صحت یاب دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں اور مریض کی حالت کے مطابق نسخے میں ترمیم و تبدیلی بھی کرتے ہیں۔

عملیت پسند مولانا مودودیؒ میں خوداعتمادی تو بلا کی تھی‘ مگر خودپسندی کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی میں نہ تھا۔ وہ نئے حالات میں‘ دین کی روشنی میں‘ نئے تجربات اور نئے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور پورے عالمِ اسلام کی اصلاح کا انھوں نے بیڑا اٹھایا ‘اور اس عملی جدوجہد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے اور قیادت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جتنا بڑا کارنامہ انھوں نے فکری حیثیت میں انجام دیا‘ اتنا ہی بڑا کارنامہ انھوں نے عملی سطح پر بھی انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جماعت بنائی مگر جماعت اسلامی کا قیام بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے مترادف ثابت ہوا۔ جوں ہی انھوں نے جماعت بناکر دعوتِ عام دی تو وہ لوگ بھی جو ان کو ’ترجمانِ اسلام‘ کہتے تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے‘ بلکہ ان کے ناقد بن گئے۔ مولانا نے نئے حالات میں اسلامی فکر کے احیا اور تشکیلِ نو تک اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا‘ بلکہ دنیا کو بدلنے کی‘ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی‘ اُمت کو شہداء علی الناس کا کردار ادا کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھانے اور اقامت دین کی ذمے داری اٹھانے کے لیے سرگرم کر دیا۔ ان کی ذات میں مفکر اور مصلح‘ داعی اور منتظم‘ قائد اور مدبر کی صلاحیتوں کا اجتماع تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ان کے کردار کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔

l جدید خطوط پر تنظیم سازی :مولانا مودودیؒ نے اپنے عہدکی سرکردہ تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں اور نظاموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو ایک انقلابی تحریک کی ضرورت ہے جو محض ایک سیاسی تنظیم نہ ہو۔ اس تناظرمیں جماعت اسلامی کا وجود دراصل ایک نظریاتی تحریک کا روپ ہے۔ بنیادی پہلو یہ ہے کہ مولانا نے جماعت کے دستور میں پہلے ہی دن سے جو بنیادی چیز رکھی ہے‘ وہ اس کا وژن ہے‘ جس میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللہ کا تصور‘ اور اس کے تقاضے جماعت اسلامی کا محور ہیں۔ جماعت کے دستور کا سب سے اہم حصہ یہی ہے۔ اس میں پہلی بنیادی چیز اللہ کی حاکمیت‘ دین کی اقامت‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے پورے نظام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ازسرنو مرتب کرنے کا عزم اور سرگرم جدوجہد کا عہدہے۔ اس میں دوسری بنیادی چیزیہ ہے کہ ہرانسان قابلِ احترام ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معیارِ حق نہیں۔ اصل کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اسی میزان پر پرکھا جائے گا اور جو جتنا اس معیار سے قریب ہوگا ‘وہ اتنا ہی محترم ہوگا۔ جماعت کے قیام میں یہ اصول بھی کارفرما رہا کہ اس کی رکنیت بلاامتیاز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔ لیکن رکن وہ بنے گا جو شعوری طور پر اس ذمہ داری کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد کرے۔

مسلم تاریخ میں بیعت‘ امیر کے ہاتھ پر ہوتی تھی اور امیر کے مرجانے کے بعد دوسرے فرد سے بیعت ہوتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے نظامِ تنظیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: دعوت نہ تو امیر کی طرف ہے اور نہ بیعتِ امیر کی طرف‘ بلکہ دعوت بھی جماعت میں متعین کردہ نصب العین کی طرف ہے اور بیعت بھی جماعت کے ساتھ ہے‘ جسے حلفِ رکنیت کی شکل دی گئی۔ امیر پر نظام کو چلانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس کی قیادت تو کرے گا‘ اور بحیثیت امیر‘ نظام جماعت کے تحت اس کی اطاعت فی المعروف بھی ضروری ہے‘ لیکن امیر بھی اسی طرح دستور کا پابند ہے جس طرح ایک رکن۔ اسی طرح اطاعت نظام امر کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعوت امیر کی طرف نہیں‘ جماعت اوراس کے مشن کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا نظام معروف میں اطاعت اور منکر میں احتساب سے عبارت ہے۔ یہ جماعت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ میرے علم کی حد تک مسلمانوں کی اجتماعیت کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ نے پہلی مرتبہ تحریری دستور کے اندر احتساب کے حق کو حق ہی نہیں‘ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ہر رکن‘ شوریٰ اور پورا نظام امر‘ احتساب کے عمل میں شامل ہے۔ ہر رکن یہ عہد کرتا ہے کہ میں جہاں کہیں کوئی برائی دیکھوں گا ‘اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ مراد یہ ہے کہ رکنیت کے وجود میں احتساب کا حق ہی نہیں فرض بھی شامل ہے۔ دستور میں شوریٰ کے منصبی فرائض میں بھی احتساب شامل ہے۔ یہ اصول تو بڑی جمہوری پارٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے نظام کار کا جائزہ لیجیے‘ تو نظر آتا ہے کہ یا تو وراثت کا نظام کارفرما ہے‘ یا جس فرد کا وراثت‘ دولت اور اقتدار کے بل پر پارٹی پہ قبضہ ہے‘ وہی حرف اول ہے اور وہی حکم آخر۔

اس کے بعد ہے اختلاف راے کا حق۔ مولانا مودودیؒ نے اسے بھی ایک دستوری حق قرار دیا ہے‘ یعنی آپ پالیسی سے اختلاف رکھ سکتے ہیں‘ عقیدے سے نہیں۔ امیر سے اختلاف رکھ کر بھی آپ جماعت کے رکن رہ سکتے ہیں اور ایک وقت کی طے شدہ پالیسی کو بدلنے کے لیے افہام و تفہیم اور معروف شورائی ذرائع سے کوشش کرسکتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں بھی شورائی نظام کا ارتقا ہوا ہے‘ اورایک تدریجی عمل سے گزر کر جماعت نے ایک طرف امیر کو قیادت اور رہنمائی کا اختیار دیا ہے تو دوسری طرف پالیسی کو شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا ہے‘جب کہ آخری فیصلہ شوریٰ یا اجتماع ارکان کا استحقاق ہے۔ اس عمل سے شوریٰ کی برتری زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔

l نظام کی تبدیلی کا طریق کار اور حکمت عملی: مولانا مودودیؒ نے ملکی نظام میں تبدیلی کا جو طریق کار پیش کیا ہے‘ وہ افکار کی تبدیلی‘ کردار کی تعمیراور راے عامہ کی ہمواری کے لیے جمہوری‘ قانونی اور دستوری طریقے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں اس طریق کار کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا اور عملاً ملک کی سیاست میں دستوریت (constitutionalism) اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کی جدوجہد کی مثال قائم کی گئی۔ وہ سختی سے اس راستے پر کاربند رہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا: خفیہ جماعتوں کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں چونکہ یہ رجحان گڈمڈ تھا‘ اسی لیے عرب نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ میں آپ کوتلقین کرتا ہوں کہ آپ ان طریقوں کو اختیار نہ کریں جو فساد فی الارض کا ذریعہ بنتے ہیں۔ البتہ مسلمان جہاں پر محکوم ہیں اور غیروں کی غلامی میں ہیں‘ اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ جہادکی راہ اختیار کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ لیکن جن معاشروں میں آزادی ہے اور تبدیلی کے کچھ بھی جمہوری ذرائع موجود ہیں‘ وہاں آئینی اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا ہی مولانا کی نگاہ میں اور جماعت کے دستور کے تحت تبدیلی کا صحیح طریقہ ہے۔

یہاں ہمیں مولانا مودودیؒ مرحوم کی فکر کا یہ بڑا اہم نکتہ ملتا ہے‘ جسے علم السیاست میں ارتقائی عمل اور انقلابی عمل کہا جاتا ہے۔ مولانا نے بالکل ایک بیچ کا راستہ نکالا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ان کے تمام مقاصد تو انقلابی (revolutionary) ہیں‘ لیکن ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار ارتقائی (evolutionary) ہے۔ اسلامی انقلاب ہمارا مطلوب ہے‘ لیکن اس انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut)نہیں ہے اور نہ جبر کا کوئی طریقہ اس منزل کے حصول کے لیے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ذہنوں‘ معاشرے اور کردار کی تیاری کے ذریعے راے عامہ کو قائل کرتے اور اس طرح قیادت کی تبدیلی کا راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: قیادت کی تبدیلی کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ پہلے مولانا کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہییں۔ لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ اگر سیاسی پارٹیاں ان حدود کی پابندی کریں‘ جو شریعت نے اجتماعی زندگی کے لیے مرتب کی ہیں تو وہ اس ریاست کے نظام کار کو چلانے کے لیے نہ صرف معاون بلکہ ضروری ہیں۔ خاص طور پر سیاسی آزادی اور اختلاف راے کو اداراتی اور منظم شکل دینے کے لیے اس کو قبول کیا۔ اسی طرح ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص طرز پر جماعت کو تبدیلی کا صورت گربنایا۔ پھر انھوں نے جماعت کے ساتھ‘ معاشرے کے ہر طبقے کو فعال طور پر ساتھ لے کرچلنے کے لیے برادر تنظیموں کا ایک وسیع نظامِ کار وضع کیا۔

ایک اور مثال ہے‘ ان کا لیکچر : اسلام کا نظریۂ سیاسی ‘جو تقسیم ہند سے ۱۰برس قبل شائع ہوا تھا۔ اس میں مولانا نے امیر کے لیے زندگی بھر مامور رہنے اور شوریٰ کے مقابلے میں حق استرداد کو خلافت راشدہ کے تعامل سے لیا تھا۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ مولانا کے ہاں ہمیں دیانت اور علمی توسُّع کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بات کو ہمیشہ دلیل اور  اعتماد سے پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی افہام و تفہیم اور دلیل سے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایسے ہر مشاہدے سے مولانا کی عظمت کا نقش گہرا ہوا ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین کا مرحلہ آیا اور میں نے مولانا کی اسلامی قانون کی تدوین والی تقریر کو Islamic Law & Constitution میں شامل کر کے اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کام شروع کیا تو اس موقع پر مولانا ظفراحمد انصاری‘ چودھری غلام محمد اور غلام حسین عباسی صاحب کے ہمراہ‘ مولانا مودودیؒ سے ان معاملات پر گفتگوئیں ہوئیں۔ مولانا بہت کھلے دل سے ہماری گزارشات پر غور فرمایا اور اس مکالمے کے نتیجے میں متعدد امور میں انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کی۔ مثال کے طور پر‘ امیر کے سلسلے میں مولانا نے رائے تبدیل کی اور کہا کہ دورِ امارت مقید ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خلفاے راشدینؓ توتقویٰ ‘ کردار اور اپنی خدمات کے اعتبار سے بہت اونچے مقام پر تھے‘ پھر وہ محض منتخب سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ستون اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور افضل ترین حضرات تھے‘ اس لیے ان کے اوپر یہ بھروسا کیا جا سکتا تھا لیکن‘ اگر آج ایک آدمی اختیار اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے ہٹانے کا راستہ کیا ہوگا۔

اسی طرح امیر یا لیڈر کو بھی شوریٰ کی رائے کا پابند ہونا چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کے ہاں اس میں بھی ایک ارتقا ہے‘ جس کا نقطۂ عروج تفہیم القرآن میں سورہ شوریٰ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص ( ۴۲:۳۸)پر تفسیری نوٹ ہے‘ جو پورے تفسیری لٹریچر میں منفرد شان کا حامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا ہے: ’’مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے‘ اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے… جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو‘ اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کر ڈالنا‘ اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظرانداز کر دینا زیادتی ہے… اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمدعلیہ نمایندوں کو شریک مشورہ کیا جائے… جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو‘ ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو‘ اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی‘ کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جوخدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں… اسلامی طرزِزندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انھیں بھی شریک مشورہ کیا جائے… خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راے لی جائے… ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے… اگروہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں‘ اور اصلاح نہ ہوتی دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے‘ اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر‘ اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۰۸-۵۰۹)۔ یہی چیز امیر اور لیڈر کے لیے ہے۔ اکثریت کی راے کو قبول کرنا اور اجماع پسندیدہ امر ہے۔ یہ آثار اپنے ارتقا کے ساتھ ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔

پھر جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے دستور کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں امیر کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم نے دستور میں سربراہ حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت تجویز کی تھی‘ جسے مولانا نے قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح جماعت کے پہلے دستور میں شوریٰ کا ادارہ موجود تھا‘ لیکن ان ارکان شوریٰ کو امیران افراد کی قابلیت‘ بصیرت‘ خدمات اور تقویٰ کی بنیاد پر نامزد کرتا تھا۔ اس کے بعد شوریٰ کو منتخب کرنے کا ضابطہ بنایا گیا۔ شوریٰ منتخب کرنے کے لیے بھی دو نوعیت کے حلقے بنائے گئے۔ ایک کل پاکستان سطح پر انتخاب رکھا گیا‘ جس میں پانچ افراد کا انتخاب تھا اور باقی تمام ارکان شوریٰ کو علاقائی حلقوں کی بنیاد پر منتخب کرنے کا ضابطہ مقرر کیا گیا تھا۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستورِ جماعت میں کل پاکستان بنیاد پر انتخاب کی الگ سے شق ختم کر دی گئی اور تمام علاقوں سے منتخب ارکان کی شوریٰ مقرر کی گئی۔ پھر۱۹۵۲ء کے دستور میں شوریٰ کے بارے میں یہ شق تھی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے۔ لیکن اگر شوریٰ اور امیر میں نزاع ہو تو کچھ امور میںشوریٰ‘ امیر کی رائے مان لے گی خصوصیت سے جن کا تعلق نصوص کی تعبیر سے ہو‘ اور کچھ امور میں امیر‘ شوریٰ کی رائے کو فوقیت دے گا خصوصاً انتظامی معاملات کے بارے میں۔ لیکن جب معاملات میں شوریٰ امیر کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر معاملہ ارکان میں بھیجا جائے گا اور اگر ارکان جماعت‘ شوریٰ کی رائے کو مان لیں تو پھر امیرمستعفی ہوجائے گا‘ اور اگر ارکان امیر کی رائے کو مان لیں توشوریٰ مستعفی ہوجائے گی۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستور جماعت میں یہ بات لائی گئی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے لیکن اگر اختلاف ہو تو امیر کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایک سیشن کے لیے فیصلے کو موخر کر دے‘ اور اگلے سیشن میں شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے اسے امیر مان لے۔ یہاں بھی وہی مشاورت‘ افہام و تفہیم اور شوریٰ کی بالادستی کا ارتقا ہے۔

اسی طرح مولانا کی رائے تھی کہ عورتوں کی شوریٰ الگ ہونی چاہیے اور مردوں کی الگ۔ لیکن جب عملی مشکلات اور بعض مختلف فیہ امور پر افہام و تفہیم کے پہلو پر مولانا سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورتیں بھی شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلموں کے بارے میں مولانا کی پہلے رائے یہ تھی کہ انھیں انتظامی امور میں مشورے میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی شوریٰ الگ بنائی جائے۔ لیکن جب مولانا سے اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی تو اس میں مولانا نے غوروفکر کے لیے خاصا وقت لیا۔ بالآخر وہ خود اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف نہ ہو‘ اور اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو ایسی صورت میں غیرمسلم بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں جہاں وہ سارے معاملات میں رائے دیں گے اور راے دہی میں بھی شریک ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

اُمت کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒؒ نے وسعت اور کشادہ روی کا انقلابی‘ جمہوری اور شورائی راستہ دکھایا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ایک ملک میں تبدیلی آنی چاہیے ‘پھر وہی ملک دوسرے ممالک میں تبدیلی لانے کے لیے ماڈل بنے گا۔ ان کی دعوت کا اولین ہدف اپنا وطن ہے‘ لیکن روے سخن پوری دنیا کی طرف ہے۔ عربی اور انگریزی میں اہم تصانیف اور تحریروں کے تراجم کا کام مولانا نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی شروع کروا دیا تھا۔ جماعت کی رودادوں میں ایک لمبی فہرست ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی بات اور اپنی آواز دنیا کے مختلف خطّوں اور علاقوں تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے گویا کہ پورا عالم (global reach) ابتدا ہی سے ان کے پیش نظر رہا ہے۔

  • تحریک اور تنظیم کا فرق: ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہندکے نتیجے میں بھارت اور پاکستان میں جماعت اسلامی الگ الگ ہوگئی۔ مولانا کی پیش کردہ دعوت قبول کرنے والے بعض اصحاب نے سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرمیں بھی اپنے طور پر جماعت بنالی۔ پھر مشرقی پاکستان کے تسلسل میں بنگلہ دیش میں بھی جماعت قائم ہوئی۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ان     چھے جماعتوں کے مابین کسی درجے میں بھی کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مولانا نے کہیں بھی جماعت اسلامی کو قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ۱۹۶۴ء میں جب ہم جیل میں تھے تو ہمیں جیل میں معلوم ہوا کہ برطانیہ کے کچھ مخلص مگر جذباتی نوجوانوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ تب ہم نے مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر جیل ہی سے ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ: ’’آپ جماعت کے نام سے کام نہ کریں‘ بلکہ آپ کا جو نام وہاں پہلے سے تھا‘ اسی کے تحت کام کریں‘ اور مقامی قانون کے تحت کام کریں۔ نہ جماعت آپ کی ذمہ داری لے سکتی ہے اور نہ آپ کے لیے یہ مناسب ہے کہ آپ اس نام سے وہاں کام کریں‘‘۔ یہی اصول مولانا کا رہا ہے۔

اس طرح تحریک وتنظیم کے مابین ایک فرق بھی ہمارے سامنے آیا کہ اسلامی انقلاب کے لیے تحریکات تو ساری دنیا میں برپا ہوں‘ لیکن تنظیم ہر جگہ وہاں کے حالات کے مطابق الگ‘ آزاد اور اپنے قول و فعل کے لیے خود جواب دہ ہو۔ دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں گویا کہ وسیع ترعالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ  جماعت اسلامی پاکستان کے نظم کا اور قانونی اور دستوری تعلق (link) نہیں ہے۔ آج بھارت‘ کشمیر‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جماعت کے نام سے کام ہو رہا ہے‘ فکر کی یکسانیت بھی ہے‘ لیکن طریق کار‘ حالات‘ ضروریات‘ دستور اور قیادت ہر مقام نے اپنے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ یہ مولانا کی عملیت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

  • جماعتی تشخص اور اشتراکِ عمل: اسلامی انقلاب اور اسلامی تبدیلی کے لیے عملی سطح پر اور میدانِ کار میں مولانا مودودیؒ کے ہاں ایک لچک‘ خودبینی اور وسعت پائی جاتی ہے‘ جس میں دوسرے ہم مقصد افراد اور عناصر سے تعاون کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں ۱۹۴۹ء میں سول لبرٹیز یونین کا قیام عمل میں آیا‘ تو اس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی۔ بعدازاں متحدہ حزب اختلاف (COP)‘ پاکستان تحریک جمہوریت (PDM)‘ جمہوری مجلس عمل (DAC)‘ متحدہ جمہوری محاذ (UDF) اور پھر پاکستان قومی اتحاد (PNA) کا قیام ہے۔ اس عمل میں مولانا مودودیؒ نے اپنی جماعت کے تشخص کو محفوظ رکھتے ہوئے‘ مشترک نکات پر دوسرے سیاسی‘ مذہبی اور سماجی عناصر کو ساتھ ملا کر چلنے کی مثال پیش کی ہے۔

مولانا مودودیؒ ہی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغازکیا۔ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ئ) کے وقت بلاشبہہ مولانا مودودیؒ، سنٹرل جیل ملتان میں تھے‘ لیکن اگر مولانا نے اسلامی قانون کے موضوع پر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج‘ میں تقریر نہ کی ہوتی‘ اور وہ چار نکاتی پروگرام پوری قوم کے سامنے پیش نہ کیاہوتا تو قرارداد مقاصدکبھی پاس نہ ہوتی۔ یہ مولانا کی فکر‘ وژن اور جدوجہد تھی‘ جسے قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم‘ مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کی کوشش سے ’قرارداد مقاصد‘ کا جو مسودہ پہلی دستورساز اسمبلی نے منظور کیا‘ یہ مسودہ اسمبلی میں پاس ہونے سے قبل ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کو دکھایا گیا اور ان کی رضامندی کے بعد ہی وہ اسمبلی کے فلور پر پیش اور پھر منظور ہوا تھا۔

۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری کے تاریخی لمحات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس سلسلے میں علما کی جو نشست ہو رہی تھی‘ اس میں راجہبھائی ]ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری[ ‘خرم بھائی اور میں ان بزرگوں کے خادم کی حیثیت سے شریک تھے۔ جب پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ مگر کسی کے سامنے یہ بات واضح نہیں تھی کہ ہم نتیجے پر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ان دھواں دھار تقاریر کے آخر میں مولانا ظفراحمد انصاری صاحب نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ اس طرح کی تقریروں میں تو ہم کئی دن صرف کر دیں گے اور کچھ نتیجہ نہیںنکل سکے گا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس اجلاس کو موخر کردیتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا میں سے ہر شخص تحریر کر دے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے سربراہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒہوں‘ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے میں ان تجاویز کی روشنی میں ایک مسودہ تیار کرلیتا ہوں‘ اور پھر اس مسودے پر بحث کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل کو منظور کرلیں گے‘‘۔ سب نے اس تجویز کو بڑا پسند کیا۔

ہر ایک عالم دین کو سادہ کاغذدے دیے گئے‘ بیش ترنے لکھا۔ سب سے طویل مضمون مولانا راغب احسن مرحوم نے لکھا‘ لیکن وہ مضمون لفاظی اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ ان سب کے برعکس مولانا مودودیؒ نے پنسل سے فل اسکیپ کا ڈیڑھ صفحہ لکھا‘ جس میں انھوں نے منطقی ربط کے ساتھ‘ بڑے اختصار اور جامعیت سے بھرپور نکات بنا کر دیے کہ یہ اور یہ چیزیں ہونی چاہییں۔ چنانچہ علما کے ۲۲نکات کی بنیاد وہی مسودہ بنا‘ تاہم آخری مسودہ مولانا ظفراحمد انصاریؒ نے اپنے قلم سے لکھا۔ مولانا انصاری مرحوم کا مسودہ کم و بیش مولانا مودودیؒ کی تحریرہی پر مبنی تھا۔ اس دوران مولانا سلیمان ندویؒ استراحت فرما رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انھوں نے دوتین جگہ جزوی ترمیم و اضافہ کیا۔ پھر اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں سب سے پہلے اس کو پورا پڑھا گیا‘ پھر ایک ایک نکتے کی خواندگی ہوئی اور بالکل جس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے سربراہوں کو حجراسود اٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب کرنے میں شریک کر لیا تھا‘ اس طرح اس شرکت سے الحمدللہ یہ نکات متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی مولانا مودودیؒ اور مولانا انصاریؒکا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔

جب علما کی دستوری ترامیم اور سفارشات آئیں تو اس میں متفقہ طورپر جو چیزیں مرتب ہوئیں ان میں بھی مولانا مودودیؒ کا سب سے زیادہ تعمیری اور تحریری حصہ تھا‘ تاہم اس میں دو‘تین اختلافی نوٹ بھی تھے اور وہ بہت معمولی نوعیت کے تھے۔ پھر جب ۱۹۶۱ء میں فیلڈمارشل صدر ایوب خاں کے زمانے میں متنازع فیہ عائلی قوانین کا آرڈی ننس (MFLO) آیا تو مولانا مودودیؒؒ ہی نے اس پر تنقید لکھی اور اس تنقید پر علما نے دستخط کیے‘ اور سب کی طرف سے وہ تنقید قوم کے سامنے آئی۔ اسی طرح ایوب خان کے دستوری کمیشن کے سوال نامے کا جواب بھی مولانا مودودیؒ نے لکھا‘ اور پھر تمام علما اور سیاست دانوں نے اس کو دیکھا اور اس کو اپنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی صلاحیت دی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کے مختلف سنگ میل ہیں اور ان میں سے ہرسنگ میل پر مولانا مودودیؒ کا نام اور کام ثبت ہے۔

  • جمہوریت پسندی:خاص طور پر دینی حلقوں میں بھی اور پھر سیاسی حلقوں میں بھی ایک روایت بن چکی ہے کہ دینی حلقوں میں گدی اور سیاست میں بھی قیادت موروثی چلتی ہے۔ اور تو اور خود اب امریکہ میں بھی بڑے بش کے بعد چھوٹا بش برسرِاقتدار ہے۔ اس فضا اور رواج میں مولانا نے قیادت میں تبدیلی کی مثال قائم کی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے قیام کے فوراً بعد فرمایا: ’’مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں‘ بلکہ میں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت‘ اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اٹھانے کے لیے مل جائے… نیز ہمیشہ ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پا لیا ہے تو وہ اسے اپنا امیر منتخب کرلے۔ ان شاء اللہ‘ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا‘‘۔ (روداد جماعتِ اسلامی ‘اول‘ ص۳۳)

اس کے بعد دستور میں درج مستقل نظام کے تحت متعین وقت پر انتخاب امیر کے لیے انتخابات منعقد کرائے۔ پھر جب ۱۹۷۲ء میں انھوں نے محسوس کیا کہ اب صحت اس ذمے داری کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی توانھوں نے رفقا ے جماعت سے کہا: اب آپ میری زندگی میں اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں جماعت نئے امیر پر مجتمع ہوجائے‘‘۔ یہ ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ جس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی جاگیر قائم کرنا چاہتا ہو‘ گدی قائم کرنا چاہتا ہو‘ یا سیاست میں اس کا کوئی ذاتی مشن ہو‘ وہ کبھی ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتا۔ سچی بات ہے کہ جماعت کے لیے زندگی‘ تطہیر‘ قیادت‘ شورائیت اور صحیح راستے پر قائم رہنے کے لیے اس مثال میں بڑی عظیم رہنمائی موجود ہے جسے سید مودودیؒکی تاریخ ساز اور عہدآفریں شخصیت نے پیش کیا۔

  • شورائیت اور اجتماعی اجتہاد: مولانا کی حکمت کار میں ایک بڑی اہم چیز رچی ہوئی ہے اور وہ ہے مشورے‘ اجتماعیت‘ اختلاف راے اور بحث و مباحثے کی آزادی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا نے خود اجتہاد کے بارے میں بھی کئی بار کہا ہے کہ اس کے لیے شوریٰ کا نظام اور اجتماعی اجتہاد کی سبیل پیدا ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ آج کے دور میں کسی ایک فرد کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ ان تمام علوم پر جامع انداز سے گرفت رکھتا ہو‘ جو روز مرہ اور عصرِحاضر میں   پیش آمدہ امور پر فقہی چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ایک فرد سے یہ نہیں ہوسکتا توپھر اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف صلاحیتیں رکھنے والے افراد مل کرباہم مشاورت اور افہام و تفہیم (interaction) سے معاملات کو طے کریں۔

علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مولانا مودودیؒ بھی اس میں بہت گہرائی تک گئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے عصری تجربات‘ خصوصیت سے پارلیمنٹ کے وجود‘ انتخابی عمل‘ دستوری انداز‘ قانون سازی کے اسلوب‘ عدلیہ کی آزادی اور افراد کی آزادی اور حقوق--- غرض ان تمام چیزوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر اسلامی راسخ العقیدگی اور قرآن و سنت سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے  نہ صرف دوسروں کو ان پر کاربند ہونے کا نہ صرف راستہ دکھایا‘ بلکہ خود بھی انھیں قبول کر کے دکھایا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا یہ حرکی اور لچک دار رویہ‘ عصرحاضرکے مسائل و معاملات میں ہوا کا تازہ جھونکا اور فکرودانش کے گلستان کا بہار آفریں منظر پیش کرتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایک منفرد علم الکلام   دیا ہے۔ اسی ذیل میں مولانا مودودیؒ نے مسلم تاریخ کا محاکمہ (critique) لکھا ہے جو   محض محاکمہ نہیں ہے‘ بلکہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک منفرد اسلوب اور زاویہ ہے۔ مولانا مودودیؒ تجدید و احیاے دین‘ خلافت و ملوکیت‘ سلاجقہ اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے علاوہ تفہیم القرآن کے اوراق میں ہمیں رہنمائی دیتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کو کیسے دیکھنا چاہیے اور ہم اس کی تعبیر کیسے کریں؟ ہم محبت یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہونے کے بجاے اپنے اندر عدل کی حس کو بیدار کریں۔ تاریخ کے اوراق اور ادوار میں تعمیروتخریب‘ اطاعت و انحراف‘ ظلم اور عدل‘ سنت اور بدعت کی موجودگی ہمیں نظرآئے‘ تاکہ ہر موقع پر کھلے ذہن کے ساتھ  قوسِ قزح کے سب رنگ دیکھے جا سکیں۔ جہاں کہیں بنیادی اصول میں کوئی ایسا انحراف نظرآئے جو محل نظر ہو‘ یا قرآن و سنت کے مزاج سے مناسبت نہ رکھتا ہو‘ تو پھر اس پر تنقید بھی ہوسکے اور اس کی تصحیح بھی۔ اس کو مولانا مودودیؒ کے علم الکلام کا ایک حصہ تصور کیا جائے‘ یااپنی جگہ ایک مستقل علمی کارنامہ‘ بہرحال یہ بھی مولانا کی ایک بڑی شان دار اور ناقابلِ فراموش خدمت ہے۔

اسلامی انقلاب کا ایک منفرد ماڈل

یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فکر بھی دی اور فکر کے ساتھ سوچنے کا اسلوبِ بھی دیا۔انھوں نے اُمت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کا مشن متعین کیا‘ اس کے لیے اسے بیدار کیا اور آگاہ کیا کہ ہم محض معاشی ترقی حاصل کرنے والی ایک قوم نہیں ہیں‘ بلکہ ہم ایک صاحبِ مشن اور صاحب شریعت قوم ہیں۔ اس صاحبِ مشن قوم کو ملکی اور پھر عالم گیر سطح پر کامیاب کرانے کے لیے حکمت کاراور حکمتِ عملی کو پیش کیا۔ اسی حکمت کار کا ایک حصہ جماعت اسلامی کا قیام ہے جس میں فکر ہے‘ اور عمل کا وسیع دائرہ ہے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کا بالکل نیا ماڈل دیا‘ اور نہ صرف ماڈل دیا‘ بلکہ اس کے اوپر عمل کرکے بھی دکھایا۔

مولانا کے علمی کام میں سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن ہے۔ تجدید و احیاے دین کے تصور میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات خود مولانا نے مجھ سے فرمائی ہے: ’’جب جماعت قائم ہوئی تو اس کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس جماعت کا تعلق قرآن سے قائم کروں اور جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا ہے‘ اسے اس طریقے سے بیان کروں کہ جماعت اور پوری قوم قرآن کی روشنی کے دائرے میں آجائے‘ اور وہ قرآن سے تعلق قائم کرکے اس میں شریک ہو سکے‘ تاکہ جو تبدیلی میرے پیشِ نظر ہے اور جس کا ماخذ‘ جڑ اور بنیاد قرآن ہے اس تک رسائی حاصل کی جاسکے‘‘۔ یہ وہی کام ہے جو شاہ ولی اللہ مرحوم نے اپنے دور میں کیا۔ اس طرح مولانا کی احیائی فکر کے اندر تفہیم ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیم کی شکل میں جتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کے ذریعے اس دور میں اس اُمت کو دی ہے‘ اس پر اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ تفہیم القرآنمولانا کے فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدابہار کارنامہ (ever-lasting) ہے۔ یہ مولانا کے علم الکلام کا بھی بہترین مرقع ہے۔ اس میں مولانا کی چند اوّلیات بھی ہیں جن میں ترجمے کی جگہ ترجمانی‘ ہر سورہ کا مقدمہ اور پھر ترجمے میں پیراگراف بندی قابلِ ذکر ہیں۔۱؎

مولانا کے فکری اور علمی اثاثے میں ایک اور چیز ان کے ہاں پائی جانے والی تازگی اور تخلیقیت (originality) ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اور ماضی کے لکھنے والوں سے بھی استفادہ کیا‘ لیکن وہ دوسروں کے خیالات کے اسیر نہیں بنے‘ بلکہ جس طرح ایک صحت مند انسانی جسم‘ غذا کو ہضم کر کے نیا خون بناتا ہے‘اسی طرح اپنے دور اور ماقبل کے افکار سے استفادہ کر کے انھوں نے قرآن و سنت کے فہم کی روشنی میں خود تشکیلِ نو کا کام انجام دیا ہے۔

اس سلسلے میں ان کا ایک اور منفرد کارنامہ اسلام اور جاہلیت کے مابین فرق کو واضح کرنا ہے جس کے آئینے میں وہ انسانیت کی پوری تاریخ میں برپا معرکے کو پرکھتے ہیں۔ دورحاضر میں جن مفکرین نے بھی ’جاہلیت‘ کے تصور پر کلام کیا ہے‘ انھوں نے یہ کام مولانا مودودیؒ ہی کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں کیا ہے۔ مولانا کی فکر میں جاہلیت ‘علم کے معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسانی زندگی--- فکروعمل کو منظم و مرتب کرنے کے مثالیہ(paradigm) سے عبارت ہے۔ اسلامی فکر کی تفہیم اور حق و باطل کی تاریخی کش مکش کو سمجھنے کے لیے مولانا کا یہ تصور ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ان کی ایک نہایت بنیادی کتاب ہے جس میں انھوں نے قرآن کی بنیادی اصطلاحات الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین کا صحیح مفہوم اخذ اور متعین کرکے ایک قسم کی شاہ کلید فراہم کردی ہے‘ جس سے پوری اسلامی فکر کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ہمیں قرآن فہمی کے لیے ایک روشن اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کے بارے میں بھی بڑا متوازن رویہ اختیار کیا۔ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں اگر ایک طرف مغرب کے مکمل استرداد (rejection) کا رویہ پایا جاتا تھا تو دوسری جانب عملاً آنکھیں بند کر کے سپرڈالنے اور معذرت خواہانہ انداز میں دین کی توجیہہ کرنے والے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب‘ اس کے اصولوں‘ اس کی بنیادوں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا اور تقلید یورپ اور اندھی غلامانہ ذہنیت کو مسترد کر دیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ مغرب میں ہر چیز غلط نہیں اور اس کی ترقی کے کچھ حقیقی (genuine) اسباب ہیں۔ ان اسباب سے صرفِ نظر کر کے محض اندھی مخالفت کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ مغرب سے مرعوبیت‘ اس کی فکری بنیادوں کو بلاتنقید قبول کر لینا اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا رویہ نہ عادلانہ ہے اور نہ عاقلانہ۔ مولانا مودودیؒ نے درمیان کا راستہ نکالا۔ دیگر علما اور مولانا مودودیؒ میں یہی بنیادی فرق ہے۔

مولانا کے ہاں جو بالغ نظری‘ مغربی تہذیب کا فہم اور حقیقت پسندانہ طریق کار ہے‘ اسی وجہ سے عصرِحاضر میں تحریک اسلامی نے مسائل کو حل کرنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ رویہ صرف مغربی تہذیب کے بارے میں اختیار نہیں کیا‘ بلکہ مسلمانوں کی فکریات کے بارے میں بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی انھوں نے حنفی مکتب فکر کو ترجیح دی اور قبول کیا ہے۔ عبادات میں اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ معاملات کی حد تک ان کا ذہن یہی تھا کہ چاروں مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور خصوصیت کے ساتھ جدید معاملات اور مسائل کا حل نکالنے کے لیے ان کے دائرے کے اندر جو رہنمائی جہاں سے بھی میسر آئے‘ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ان مسلمہ مکاتب فکر میں سے کسی کو مسترد یا باطل قرار نہیں دیا‘ بلکہ اِن کے ہاں اس علمی اور عملی اختلاف راے کو محترم تصور کرنے کا رویہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے شیعہ مکتب فکر سے بھی تہذیبی حد تک ربط رکھا اور اُمت کی وحدت کے لیے کوشاں رہے۔

اسی تسلسل میں اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے ان کے ہاں ایک خاص انداز فکر پایا جاتا ہے‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد بہرحال اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کے مفادات کی بنیاد پر اگر آپ یہ کوشش کریں گے توکامیابی محال ہے۔ مفادات کا ایک جائز مقام ہے‘ لیکن مفادات‘ اسلامی مفاد اور تشخص کے تابع ہونے چاہییں۔ اس اتحادکی کوئی ایک لگی بندھی شکل نہیں ہے۔ جیساکہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ایک قسم کی مسلم دولت مشترکہ ہوسکتی ہے جس میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھتا رہے اور بالآخر کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم چیز بن سکے۔ اس سلسلے میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم کی ’تضامن اسلامی‘ کی تحریک اور پہلے مسلم سربراہی اجتماع ]رباط‘مراکش -۱۹۶۹ئ[ کے موقع پر اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جو  نقشۂ کار انھوں نے پیش کیا‘ وہ ایک تاریخی دستاویزہے‘ جس میں نظریاتی اتحاد اور عملی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے موثر تدابیر اور انتظامات کی نشان دہی کی گئی۔

اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے‘ بلکہ عملی اور فکری سطح پر اُن کی نگاہ‘ بلاتخصیصِ رنگ و نسل اور بلاتفریق مشرق و مغرب‘ تمام انسانوںپر رہی ہے۔ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے‘ تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے اور دنیا بھر کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے اور نظامِ عدل      قائم کرنے کی جہانی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تہذیبی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر مولانا مودودیؒ کے مثالی اسلوبِ کار کا تجزیہ کریں تو اسے عالم گیریت یا آفاقیت پر مبنی اسلوبِ کار کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی فوزوفلاح‘ بہبود اور ان کی نجات ہے۔ اسی طرح اللہ سے انسانوں کے رشتے کو جوڑنا اور انسانوں کے درمیان انصاف اور اخوت کی بنیاد پر معاشرتی‘ معاشی اور بین الاقوامی معاملات کوحل کرنا ہے۔ جو افراد مولانا مودودیؒ کے افکار کے صرف کسی ایک جزو کو لیتے ہیں‘ تو ان کے ہاں الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر مولانا کی پوری فکر کو لیا جائے تواس کی حیثیت ایک ایسے گلدستے کی سی ہے جس کے سارے پھول اپنے اپنے مقام پر ہیں‘ اور اس گلدستے کی تصویر اُبھرتی ہی اس کے مجموعی (macro) وجود سے ہے۔

مولانا مودودیؒؒ بہرحال ایک انسان تھے اور ماسوا انبیاے کرام‘ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒؒ نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس زعم میں رہے کہ ان کی راے ہی صحیح ہے۔ اس کے برعکس ہمیشہ انھوں نے مکالمے اور بحث کو پسند کیا‘ اختلاف کو دبایا نہیں۔ اس بات کا نہ صرف اظہار کیا‘ بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا۔ کسی موقع پر اگر ان کی کسی غلطی یا دلیل کی کوئی کمزوری سامنے لائی گئی تو انھوں نے کھلے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا۔ ان کی کتاب رسائل و مسائلکا مطالعہ کریں تو اس میں ایک نہیں‘ دسیوں مقامات ہیں جہاں مولانا نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ کسی صاحبِ علم کے متوجہ کرنے پر انھوں نے مسئلے یا معاملے کو چھپایا نہیں‘اس کی تصحیح کی ہے اور اس تبدیلی کو خود ریکارڈ کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ اپنے فکری ارتقا میں‘ دورِصحافت سے دورِ تصنیف کی طرف اور پھر    دورِ اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے‘ جن کی مناسبت سے انھوں نے غورو فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر‘ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت‘ علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی کی بنا پر‘ برسوں نہیں‘ صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی---!

اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو شرفِ قبولیت اور فیضانِ عام بخشے اور ہمیں     ان کے مشن کو صحیح خطوط پر آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین!

ایک مختصر فہرستِ تصانیف

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں: مفسرِقرآن‘ سیرت نگار‘ دینی اسکالر ‘ اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور اسلامی  تہذیب و تمدن کے شارح‘ برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد‘ ایک نام ور صحافی اور اعلیٰ پاے کے انشاپرداز--- فکری اعتبار سے وہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے متکلمِ اسلام تھے۔

بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جوت جگائی۔ مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولولے کو اپنی نثر کے ذریعے آگے بڑھایا اور علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات کو سمیٹ کر احیاے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی‘ پھر اپنے گہربار قلم کی قوت اور غیرمعمولی تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس تحریک کوپروان چڑھایا۔ اقبال اور مودودی دونوں پر پروفیسر رشیداحمدصدیقی کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا‘ اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔

سید مودودیؒ اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ ’’سب سے بڑے‘‘ ان معنوں میںکہ کثیرالتصانیف مصنف تو اور بھی ہیں مگر اُردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں انھیں  سب سے زیادہ چھپنے والے مصنّف کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا حلقۂ قارئین‘ بلاشائبۂ تردید‘ اُردو کے ہرمصنّف سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہم انھیں اُردو کا مقبول ترین مصنّف بھی کہہ سکتے ہیں۔

سید مودودیؒ کی شخصیت‘ افکار و نظریات اور ان کی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کم از کم ۴۳ زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں--- ان کے ذخیرئہ علمی کا مطالعہ‘ ایک بے حد وسیع اور بڑا موضوع ہے۔ دنیا کی مختلف جامعات میں ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں‘ اور بعض پہلوئوں پر مزیدتحقیقی کام ہو رہا ہے۔

ذیل میں ہم نے تصانیفِ مودودی کی ایک فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ موصوف کا علمی کام کس قدر وسیع الاطراف ‘ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘ عقائد‘ عبادات‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ تہذیب‘ تمدن‘ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اجتماعیت‘ اخلاقیات‘ مغربی فکر وغیرہ--- اُردو زبان میں کوئی اور مصنّف اس تنوع اور کثیرالجہتی میں‘ سیّدموصوف کا ہم پلّہ نظرنہیں آتا۔


اس فہرست کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

۱-            پہلا حصہ تفسیرِقرآن اور سیرت النبیؐ کی کتابوں پر مشتمل ہے‘ اور یہ ان کی قلمی کاوشوں کا اہم ترین سرمایہ ہے۔

۲-            یہ حصہ ایسی کتابوں پر مشتمل ہے جنھیں مولانا نے خود تصنیف و مرتب کر کے شائع کیا یا بعض ان کی نگرانی میں اور ان کی تائید و اجازت سے مرتب ہو کر شائع ہوئیں۔ یہ حصہ بھی‘ سید موصوف کے مستند متن میں شمار ہوگا۔

۳-            یہ حصہ مولانا کے مکاتیب کے مجموعوں پر مشتمل ہے۔

۴-            اس حصے میں ایسی کتابوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سے چند ایک تو ان کی زندگی میں شائع ہوئیں‘ مگر بیش تر ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔ یہ کتابیں‘سید مرحوم کی نہیں‘ بلکہ دوسروں کی مرتب کردہ ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسی کتابوں اور مجموعوں کو   ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ ان کے بعض حصوں پر نظرثانی کرتے اور شاید کسی قدر ترمیم و حذف سے بھی کام لیتے‘ کیوں کہ وہ زبان و بیان‘مضمون اور نفسِ مضمون کی نزاکت اور احتیاط کے بارے میں سخت حسّاس تھے۔ اس حصے کی بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں مرتبہ صورت میں مولانا نے دیکھا اور پسند فرمایا بلکہ کہیں کہیں قلم بھی لگایا‘ جیسے:تصریحات یا ۵ اے ذیلدار پارک‘ اول وغیرہ۔

                اس حصے میں مولانا کی ترجمہ کردہ ایک کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔


یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس فہرست میں مولانا مرحوم کی تحریروں کا پوری طرح احاطہ نہیںہو سکا۔ ان کی بہت سی تحریریں اور تقریریں‘ رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں اور چند ایک کتابچوں کی صورت میں شائع کی گئی ہیں۔

اس فہرست میں شامل ہرکتاب کی نوعیت واضح کرنے کے لیے‘ قوسین میں اس کی مختصر توضیح (annotation) بھی دی گئی ہے۔ ہر حصے میں حوالوں کی ترتیب الفبائی ہے۔

۱

۱-            ترجمہ قرآن مجید‘ مع مختصر حواشی: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۱۵۸۰ ص۔  (یہ ترجمہ اور حواشی تفہیم القرآن ہی سے ماخوذ ہیں لیکن ترجمے پر مولانا نے نظرثانی کر کے بعض ترامیم کیں۔ اس نسخے کی اس اہمیت اور استناد کے سبب اس کا ذکر ابتدا میں کیا جا رہا ہے)

٭             قرآن مجید‘ مترجم (بین السطّور): ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۹۲۷ ص۔ (اس نسخے میں حواشی شامل نہیں۔ ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ (بین السطّور) دیا گیا ہے۔ دیباچہ از ملک غلام علی‘ ۲۰ اگست ۱۹۹۰ئ)

۲-            تفہیم القرآن‘ جلد اول: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۶۶۳ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ فاتحہ تا سورہ الانعام۔ آغاز تحریر: فروری ۱۹۴۲ئ)

۳-            تفہیم القرآن‘ جلد دوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۴ئ‘ ۷۱۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الاعراف تا بنی اسرائیل)

۴-            تفہیم القرآن‘ جلد سوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۸۲۱ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الکہف تا سورہ الروم)

۵-            تفہیم القرآن‘ جلد چہارم: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘۱۹۶۶ئ‘۶۸۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ لقمان تا سورہ الاحقاف)

۶-            تفہیم القرآن‘ جلد پنجم  : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۱ء ‘ ۶۳۲ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ محمد تا سورہ الطلاق)

۷-            تفہیم القرآن‘ جلد ششم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۲ء ‘ ۶۵۹ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ التحریم تا سورہ الناس--- تکمیل: ۷ جون ۱۹۷۲ئ)

۸-            سیرتِ سرورِعالمؐ،جلداول: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۴ص۔ (نبوت‘ رسالت‘ دعوت وغیرہ کے مباحث۔ سیرت النبیؐ کا پس منظر۔ مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)

۹-            سیرتِ سرورِعالمؐ،جلددوم: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۷۶۳ص۔ (سیرت النبیؐ کامکی دور۔مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)

۲

۱۰-         اسلام اور جدید معاشی نظریات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۵۹ئ‘ ۱۶۷ ص۔ (کتاب سود کے ان ابواب کا مجموعہ‘ جن کا براہ راست تعلق مسئلہ سود‘ سے نہیں ہے)

۱۱-         اسلام اور ضبطِ ولادت: ادارہ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۶۹ ص۔ (تحریک ضبطِ ولادت کی تاریخ)

۱۲-         اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ‘ لاہور‘ ۱۹۵۵ء ۳۲۰ ص۔ (۳۳-۱۹۳۲ء کے وہ مضامین‘ جو پہلے پہل ترجمان القرآنمیں شائع ہوئے)

۱۳-         اسلامی ریاست: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۶۲۰ ص۔ (اسلام کے تصور ریاست اور اس کے سیاسی نظام پر مختلف تحریریں۔ ترتیب و تدوین: پروفیسر خورشیداحمد)

۱۴-         اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر: اقبال اکیڈمی‘ لاہور‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۷۸ ص۔ (نماز اور روزے پر دو مقالات)

۱۵-         اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۲ئ‘ ۴۹۳+۴۸ ص۔ (مختلف مضامین اور تقاریر کا مجموعہ)

۱۶-         الجہاد فی الاسلام: ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ‘ ۱۹۳۰ئ‘ ۵۰۴ ص۔ (الجمعیت دہلی میں یہ سلسلہ مضامین‘ ۲ فروری ۱۹۲۷ء کو شروع ہوا اور ۱۵ جون ۱۹۲۷ء کو جملہ مباحث مکمل ہوئے)

۱۷-         انتخابی تقاریر: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی حلقہ لاہور ] ۱۹۴۲ء [ ۹۶ ص۔ (صدارتی انتخاب ایوب خاں بمقابلہ فاطمہ جناح کے موقع پر لاہور‘ پشاور‘ سرگودھا‘ کراچی میں تقاریر)

۱۸-         پردہ: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۶۰ ص۔ (پردے سے متعلق مضامین و مباحث۔ آغاز: ۱۹۳۶ئ)

۱۹-         تجدید و احیاے دین: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۸۰ ص۔ (یہ مقالہ پہلے پہل رسالہ الفرقان بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبرکے لیے لکھا گیا تھا)

۲۰-         تحریکِ آزادیِ اور مسلمان‘ جلد اول: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۴ئ‘ ۴۸۴ص۔ (یہ مجموعہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش،اول‘دوم‘ اور مسئلہ قومیت پر مشتمل ہے۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)

۲۱-         تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ جلد دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۴۰۸ ص۔ (مشتمل بر: مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم‘ اور اسی موضوع سے متعلق ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۸ء تک کے زمانے میں لکھے گئے مزید سولہ مضامین)

۲۲-         تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۸ئ‘ ۲۳۹ ص۔ (جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ ارکان‘ منعقدہ ماچھی گوٹھ‘ فروری ۱۹۵۷ء میں پیش کردہ قرارداد اور اس کی توضیح میں ایک مفصل تحریر)

۲۳-         تحریکِ جمہوریت ‘ اس کے اسباب اور اس کا مقصد : شعبہ نشرواشاعت تحریک جمہوریت مغربی پاکستان لاہور‘ ] ۱۹۶۸ئ[ ۸۹ ص۔ (تقاریر :کراچی‘ سکھر‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ مرتب: جیلانی بی اے‘ نظرثانی و تصویب: سیّدمودودی)

۲۴-         تعلیمات: دارالاشاعت نشاتِ ثانیہ‘ حیدر آباد دکن‘ ۱۹۴۵ئ‘ ۱۲۲ ص۔ (تعلیم کے موضوع پر مختلف تحریریں اور لیکچر۔ مابعد اشاعتوں میںمتعدد اضافے کیے گئے)

۲۵-         تفہیمات: جلد اول: دفتر رسالہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۳۵۰ ص۔ (سرورق: ’’بعض معرکہ آرا مسائل اسلامی کی تشریح و توضیح‘‘ ۔ ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۶ئ)

۲۶-         تفہیمات: جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں ۱۹۳۸ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)

۲۷-         تفہیمات: جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۳ ص۔ (حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں ۱۹۶۴ء تک ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین)

۲۸-         تنقیحات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۲۴۰ ص۔ (سرورق: ’’اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر مختصر تبصرے‘‘)

۲۹-         ٹرکی میں عیسائیوں کی حالت: دارالاشاعت سیاسیاتِ شرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۲ئ‘ ۳۵ص۔  (سلطنت عثمانیہ میں عیسائیوں کے حالات اور ان کے ملکی حقوق)

۳۰-         جماعت اسلامی‘ اس کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ص ۱۱۱۔ (ترجمان القرآن میں شائع شدہ ایک سلسلۂ مضامین)

۳۱-         جماعت اسلامی کے ۲۹ سال: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۸۰ ص (۲۶ اگست ۱۹۷۰ء کی تقریر)

۳۲-         حقوق الزوجین: دفتر ترجمان القرآن دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ص ۱۴۸۔ (اسلامی قانون ازدواج کے مقاصد اور نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث)

۳۳-         حوادث سمرنا، اتحادی کمیشن کی رپورٹ : دارالاشاعت سیاسیاست مشرقیہ دہلی‘ ۱۹۲۱ئ‘ ۱۶ ص۔ (اتحادی حکومتوں یعنی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی کے مقرر کردہ کمیشن کی تحقیق۔ واقعاتِ مظالم کی رپورٹ)

۳۴-         خطبات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ئ‘ ۲۴۸ ص۔ (عام فہم انداز میں اسلام‘ کلمہ طیبہ‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور جہاد کی تشریح)

۳۵-         خطباتِ حرم: دارالعروبہ‘ منصورہ لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۹۲ص۔(۱۹۶۳ء کے ایامِ حج میں حرم شریف میں کی جانے والی تقریریں)

۳۶-         خلافت وملوکیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۶ئ‘ ۳۵۱ ص۔ (اسلام میں خلافت کا تصور‘ خلافت کی ملوکیت میں تبدیلی کے اسباب اور نتائج پر ایک علمی بحث)

۳۷-         دکن کی سیاسی تاریخ: دارالاشاعت سیاسیہ‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۴۴ئ‘ ۳۰۰ ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)

۳۸-         دولت آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیدعلی شبرحاتمی‘ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۲۸ئ‘ ۲۱۹ص۔ (ایک تاریخی مطالعہ)

۳۹-         دینیات: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۱۳۶ ص۔(ناظم تعلیمات حیدرآباد دکن کی فرمایش پر تحریر کردہ میٹرک کے لیے نصابی کتاب۔ اسلامی عقائد و اعمال کی تشریح و توضیح)

۴۰-         رسائل و مسائل: جلداول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۵۲۸ ص۔ (قرآن‘ حدیث‘ تاریخ‘ فقہ‘ معیشت‘ کاروبار‘ سیاست‘ جماعت اسلامی اور بعض دیگر موضوعات پرترجمان القرآن میں شائع شدہ سوالات و جوابات کا مجموعہ)

۴۱-         رسـائل ومسـائل: جلد دوم‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۴ء ۶۲۲ ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔ دیباچہ از مولانا امین احسن اصلاحی)

۴۲-         رسـائل و مسـائل:جلد سوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۴۶۸ ص ۔ (ماسبق     دو جلدوں کے تسلسل میں تیسرا حصہ)

۴۳-         رسائل ومسائل: جلدچہارم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۵ئ‘ ۳۷۵ ص۔ (مزید سوالات و جوابات کا مجموعہ)

۴۴-         رسـائل و مسـائل: جلد پنجم: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۳۶۸ ص۔ (مصنف کی وفات کے بعد ملک غلام علی صاحب کی رہنمائی میں حافظ عبدالحمید کا مرتبہ مجموعہ۔ مقدمہ از خلیل احمد حامدی)

۴۵-         سانحہ مسجدِ اقصٰی: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۲۰ ص۔ (۲۴ اگست ۱۹۶۹ء کی ایک تقریر۔ یہودی عزائم اور ان کی منصوبہ بندی۔ قیام اسرائیل کا پس منظر وغیرہ)

۴۶-         سلاجقہ: ناشر: ابوالخیر مودودی‘ لاہور‘ ۱۹۵۴ء ‘ ۲۶۷ ص۔ (سلجوقی حکمرانوں خصوصاً طغرل بک‘ الپ ارسلان اور ملک شاہ کے عہد کی تاریخ)

۴۷-         سنت کی آئینی حیثیت: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۳۹۲ ص۔ (نظامِ دین میں حدیث اور سنت کی حیثیت اور مقام۔ منکرین حدیث کے دلائل پر تنقید۔  ترجمان القرآن کے ’’منصب رسالت نمبر‘‘ کی کتابی اشاعت)

۴۸-         سود‘ جلد اول: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۴۸ئ‘ ۱۶۸ ص۔ (سود اور اس سے متعلقہ مباحث‘ اشتراکیت اور سرمایہ داری پر تنقید‘ اسلام کا معاشی نظام وغیرہ)

۴۹-         سود‘ جلد دوم: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۲ئ‘ ۱۵۰ ص۔ (حصہ اول کے بعض تشنہ مباحث کی تکمیل۔ جدید بنک کاری وغیرہ)

۵۰-         سود‘ اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۴۱۰ ص۔ (سود‘ اول و دوم کو ازسرِنو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ زیرنظر کتاب ایک حصہ ہے‘ باقی مباحث  اسلام اور جدید معاشی نظریات میں شامل کیے گئے ہیں۔)

۵۱-         قادیانی مسئلہ اور اُس کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی پہلو: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۳ئ‘ ۴۲۳ ص۔ (اس موضوع پر مصنف کی تحریریں اور بیانات۔ قادیانیت پر اقبال کی تحریریں‘ چند عدالتی فیصلے۔)

۵۲-         قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۵۳ئ‘ ۹۵ص ۔ (الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین پر ایک علمی بحث)

۵۳-         مُرتد کی سزا: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۱ئ‘ ۸۶ ص۔ (اسلامی قانون میں مرتد کی سزا پر ایک علمی بحث۔ شائع شدہ: ترجمان القرآن ۱۹۴۲ء -۱۹۴۳ئ)

۵۴-         مسئلہ جبر و قدر: دفتر ترجمان القرآن پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ئ‘ ۸۴ ص ۔ (چودھری غلام احمد پرویز کا طویل خط اور اس کا جواب۔ ایک علمی بحث۔ اسی موضوع پر مصنف کی ایک نشری تقریر بھی شامل ہے۔)

۵۵-         مسئلہ قومیت: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۳۹ئ‘ ۶۴ ص۔(قومیت کے مسئلے پر چند مضامین و مباحث کا مجموعہ۔ مابعداشاعتوں میں اضافہ کیا گیا)

۵۶-         مسئلہ ملکیتِ زمین: مکتبہ جماعتِ اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۰ئ‘ ۸۶ ص۔ (۱۹۳۴ء کی ایک بحث‘ شائع شدہ: ترجمان القرآن۔ زمین کی شخصی ملکیت اور مزارعت پر ایک علمی بحث)

۵۷-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش: جلد اول: دفتر ترجمان القرآن    پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۱۳۵ ص ۔ (اسلامی ہند کی گذشتہ تاریخ اور موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات پر ۸ مضامین کا مجموعہ)

۵۸-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد دوم: دفتر ترجمان القرآن‘ پٹھان کوٹ‘ ۱۹۳۸ئ‘ ۲۴۰ ص۔(سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں پر تنقید ‘ جنگِ آزادی کی نوعیت وغیرہ۔ ۱۲ مضامین کا مجموعہ)

۵۹-         مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ جلد سوم:دفتر ترجمان القرآن‘ لاہور‘ ۱۹۴۱ئ‘ ۱۷۶ص۔ (پہلے دوحصوں کے تسلسل میں مزید ۱۲ مضامین۔ مصنف کے بقول: یہ کتاب جماعت اسلامی کاسنگِ بنیاد ہے)

۶۰-         مشرقی پاکستان کے حالات و مسائل کا جائزہ اور اصلاح کی تدبیر: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۶ئ‘ ۳۵ ص ۔ (ڈھاکا میں ۲ مارچ ۱۹۵۶ء کی ایک تقریر)

۶۱-         معاشیات اسلام: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۲۹ئ‘ ۴۳۶ ص۔ (اسلام کے معاشی اصول و احکام کی توضیح۔ مصنف کی مختلف کتابوں سے ماخوذ مباحث پر مبنی تحریروں کا مجموعہ۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد۔ دیباچہ از مصنف)

۶۲-         نشری تقریریں: اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ۱۹۶۱ئ‘ ۱۲۴ ص۔ (سیرتِ پاکؐ ، معراج‘ شب برات‘ روزہ ‘ عیدقربان‘ زندگی بعد موت اور پاکستان ایک مذہبی ریاست پر ریڈیو سے نشرشدہ تقریریں۔)

۳

۶۳-         خطوط مودودی‘ جلد اول: (مرتب: رفیع الدین ہاشمی۔ سلیم منصور خالد) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۲۶۴ ص۔ (مسعود عالم ندوی کے نام ۵۰خطوط کا مجموعہ مع مفصل تعارف‘ مکتوب الیہ اور متن پر حواشی و تعلیقات)

۶۴-         خطوط مودودی‘ جلد دوم: منشورات‘ لاہور‘ ۱۹۹۵ئ‘ ۵۵۸ ص۔ (مختلف اصحاب کے نام ۱۵۰ خطوط مع حواشی و تعلیقات۔ ۵۲ خطوں کے عکس بھی شامل ہیں)

۶۵-         مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اول :(مرتب: عاصم نعمانی) ایوان ادب‘ لاہور‘ ۱۹۷۰ئ‘ ۲۵۶ ص۔ (۱۶۴ خطوط‘ جو مراسلہ نگاروں کے استفسارات کے جواب میں لکھے گئے)

۶۶-         مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ جلد دوم: (مرتب: عاصم نعمانی)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۳۹۲ص۔ (حصہ اول کے تسلسل میں مزید ۲۶۶ مکاتیب کا مجموعہ)

۶۷-         مکتوبات: (مرتب: حکیم محمد شریف) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۶ئ‘ ۲۷۲ ص۔ (مرتب کے نام ۱۰۹ خطوط کا مجموعہ۔ ضمیمے میں بعض دیگر اصحاب کے نام ۶ خطوط۔ پیش لفظ از اسرار احمد سہاوری)

۶۸-         مکتوباتِ مودودی: (مرتب وناشر: اشرف بخاری) پشاور‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۷۴ص۔ (صوبہ سرحد کے احباب اور نیازمندوں کے نام ۹۲ خطوط کا مجموعہ)

۶۹-         مکتوباتِ مودودی بنام مولانا محمد چراغ: (مرتب: عبدالغنی عثمان) الانصاری پبلشرز‘ فیصل آباد‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۸۰ ص۔ (مکتوب الیہ کے نام ۳۶ خطوط کا مجموعہ مع مختصر حواشی۔ مقدمہ از مفتی سیاح الدین کاکاخیل)

۷۰-         مولانا مودودی کے خطوط: (مرتب: سید امین الحسن رضوی) مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۱۰۲ص ۔ (مرتب کے نام سید مودودی کے ۱۹ خطوط۔ مرتب نے ابتدا میں‘ سید مرحوم کے ساتھ اپنے مراسم اور ملاقاتوں کی تفصیل بھی بیان کی ہے)

۷۱-         یادوں کے خطوط: (مرتب: محمد یونس) اسلامی مکتبہ حیدرآباد دکن‘ ۱۹۸۳ئ‘ ۱۲۸ص۔ (زیادہ تر حیدرآباد دکن کے احباب واصحاب کے نام ۴۹ خطوط ۔ مجموعے میں میاں طفیل محمد‘ابوالخیر مودودی اور چودھری نیاز علی خاں وغیرہ کے ۱۵ خطوط بھی شامل ہیں)

۷۲-         Correspondence between Maulana Maudoodi and Maryam Jameelah ]  مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی باہمی مراسلت[ ۔ محمد یوسف خاں‘ لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۸۳ ص۔(مریم جمیلہ کے گیارہ اور سیدموصوف کے بارہ خطوط کا مجموعہ)

۴

۷۳-         آفتابِ تازہ: (مرتب : خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۵۶ ص۔ (الجمعیت دہلی کے ۱۹۲۷ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)

۷۴-         ادبیاتِ مودودی: (مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۲ئ‘ ۴۴۷ص۔ (حصہ اول میں سید مودودی کی انشاپردازی پر ضیااحمد بدایونی‘ ابواللیث صدیقی‘ ماہر القادری‘ احسن فاروقی‘ ابوالخیرکشفی اور سیدمحمد یوسف کے مضامین ہیں۔ حصہ دوم میں ۷۴کتابوں پر سید موصوف کے تبصرے اور مقدمے شامل ہیں۔ ۸۷ صفحات کا سیرحاصل مقدمہ از مرتب )

۷۵-         ادب اور ادیب ،سید مودودی کی نظرمیں: (مرتب: سفیراختر) دارالمعارف واہ کینٹ‘ ۱۹۹۸ئ‘ ۱۷۶ ص۔ (ادب ادیب کے حوالے سے سید موصوف کی متداول اور بعض نادر تحریروں کا مجموعہ)

۷۶-         اخلاقیاتِ اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ: (مرتب: محمد خالد فاروقی) الاخوان پبلی کیشنز کراچی‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۸۸ص ۔ (ماہ نامہ ہمایوں لاہور‘ فروری ۱۹۴۲ء میں مطبوعہ ایک مقالہ‘ جو مصنف نے بیس سال کی عمر میں تحریر کیا)

۷۷-         استفسارات: جلد اول (مرتب:اختر حجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۴۴۸ص۔ (بعض رسائل: آئین‘ ایشیا‘ تجلّی میں مطبوعہ مذہبی‘ فقہی‘ سیاسی اور قانونی سوالات کے جوابات۔اس مجموعے کی تدوین مناسب طریقے پر نہیں کی گئی)

۷۸-         استفسارات: جلد دوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۲ئ‘ ۴۰۰ص۔ (مختلف جرائد میں شائع شدہ بعض تقریریں‘ مصاحبے‘ سوالوں کے جواب)

۷۹-         استفسارات: جلد سوم‘ (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۴۲۴ص۔ (جلد اول اور دوم کے تسلسل میں مزید لوازمہ)

۸۰-         اسلام کا سرچشمۂ قوت: (مرتب: شہیرنیازی)۔ ایوان ادب لاہور‘ ۱۹۶۹ئ‘ ۱۱۲ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت  ۲۵-۱۹۲۴ء کا ایک سلسلۂ مضامین۔ اشاعتِ اسلام کے اسباب پر بحث)

۸۱-         افاداتِ مودودی: (مرتبین: میاں خورشیداحمدانور+ بدرالدّجٰی خان) ناشرکا نام درج نہیں۔ ۱۹۹۷ئ‘ ۳۷۵ ص ۔ (نماز کے متعلق احادیث  مشکوٰۃ شریف کی تشریحات‘ سید موصوف کے دروسِ حدیث سے ماخوذ)

۸۲-         اقبال نے کیا چاہا؟: ]مرتب: سلیم منصورخالد[ پنجاب یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین لاہور۔ ۱۹۷۷ئ‘ ۴۰ ص۔ (علامہ اقبال سے متعلق مصنف کی تحریریں اور تقاریر‘ شذرات وغیرہ)

۸۳-         بانگِ سحر: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۴۴۳ص۔ (الجمعیت دہلی کے زمانۂ ادارت ۱۹۲۶ء کے اداریوں اور مضامین کا مجموعہ)

۸۴-         ۵-اے ذیلدار پارک: حصہ اول (مرتب:مظفربیگ) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۸ئ‘ ۲۹۵ص۔ (نمازِعصر کے بعد سید مودودی سے سوالات و جوابات کی نشستوں کی روداد)

۸۵-         ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ دوم (مرتب: رفیع الدین ہاشمی) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۲۸۰ ص ۔ (حصہ اول کے تسلسل میںمزید سوالات و جوابات کا مجموعہ۔)

۸۶-         ۵- اے ذیلدار پارک:حصہ سوم (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۹۱ئ‘ ۲۱۵ ص۔(حصہ اول اور دوم کے تسلسل میں مزید سوالات و جوابات۔)

۸۷-         تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ: (مرتبین: نعیم صدیقی+سعیداحمدملک) مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۵۵ئ‘ ۲۰۸ ص۔ (قادیانی مخالف تحریک ۱۹۵۳ء پر عدلیہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ)۔] ادارہ معارف اسلامی لاہور کے شائع کردہ‘ دوسرے ایڈیشن (۱۹۹۴ئ) پر بطور مصنّف‘ سید صاحب کا نام موجود ہے۔ اس اشاعت کے دیباچے میں جناب نعیم صدیقی نے وضاحت کی ہے کہ یہ سید صاحب ہی کی تحریر ہے‘ طبع اول پر بوجوہ‘ مصنف کا نام نہیں آسکا تھا۔[

۸۸-         تصریحات: (مرتب: سلیم منصور خالد) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۹ئ‘ ۳۱۸ ص۔ (طلبہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات کے مختلف اجتماعات میں سوالات کے جوابات اور انٹرویو)

۸۹-         تفہیمات‘ حصہ چہارم: (مرتب اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۸۵ئ‘ ۳۹۲ص۔ (سید موصوف کی متفرق تحریروں کا ایک ناقص مجموعہ۔ اس میں شامل مضمون ’’افادات شاہ ولی اللہ‘‘ سیدصاحب کا نہیں‘ صدرالدین اصلاحی کا ہے)

۹۰-         تفہیمات‘ حصہ پنجم: (مرتب: اخترحجازی) ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ئ‘ ۴۸۰ ص۔ (مزید مختلف النوع تحریریں۔ واضح رہے کہ جلد چہارم اور پنجم کی استنادی حیثیت وہ نہیں‘ جو تفہیمات کے پہلے تین مجموعوں کی ہے۔ یہ دونوں جلدیں خاصی بے توجہی اور تساہل سے مرتب کی گئی ہیں اس لیے نہ صرف ان دونوں پر نظرثانی ہونی چاہیے بلکہ ان دونوں مجموعوں کا نام بھی تفہیمات نہیں‘کچھ اور ہونا چاہیے۔ تفہیمات‘ سیدموصوف کی اپنی مستقل تصانیف ہیں۔ کسی اورشخص کی مرتبہ کتاب کو وہی نام دینے سے التباس پیدا ہوتا ہے)

۹۱-         جلوۂ نور: (مرتب: خلیل حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۲۱۳ ص۔ (الجمعیت دہلی میں ۱۹۲۸ء میں شائع شدہ مضامین اور اداریے)

۹۲-         خطباتِ یورپ: (مرتب: اخترحجازی) احباب پبلی کیشنز لاہور‘ س ن‘ ۲۵۴ ص۔ (مصنف کے اسفارِ برطانیہ و یورپ کی تقریریں اور سوالات و جوابات کی رودادیں)

۹۳-         صدائے رستاخیز: (مرتب: خلیل احمد حامدی) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۳ئ‘ ۵۴۱ص۔ (الجمعیت دہلی کے بعض اداریے اور مضامین )

۹۴-         فضائل قرآن:(مرتب: حفیظ الرحمن احسن) البدر پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۷ئ‘ ۱۵۵ ص۔ (سید موصوف کے دروسِ حدیث کا تحریری روپ۔  مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز ’’فضائل قرآن‘‘ سے منتخب احادیث کی تشریح)

۹۵-         کتاب الصّوم: (مرتب: حفیظ الرحمن احسن) مکتبہ آئین‘ لاہور‘ ۱۹۷۳ئ‘ ۲۸۰ ص۔ (دروسِ حدیث۔  مشکوٰۃ المصابیح کے ایک جز’’کتاب الصوم‘‘ کی ۱۴۷‘ احادیث کا متن‘ اُردو ترجمہ اور مختصر تشریح)

۹۶-         مسئلہ کشمیر اور اس کا حل: (مرتب: سلیم منصورخالد) اسلامی جمعیت طلبہ لاہور‘ ۱۹۸۰ئ‘ ۱۲۸ ص۔ (مسئلہ کشمیرپر سید موصوف کی تقاریر اور تحریروں کا مجموعہ)

۹۷-         مولانا مودودی کی تقاریر‘ اول: (مرتبہ: ثروت صولت) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (مختلف نوعیت کی ۲۶ تقاریر‘ زیادہ تر جماعت اسلامی کی رودادوں سے اخذ کردہ)

۹۸-         مولانا مودودی کی تقاریر‘ دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۴۶۳ ص۔ (مزید ۵۱ تقاریر۔ زیادہ ترتسنیم، قاصد اور ترجمان القرآن سے ماخوذ)

۹۹-         مولانا مودودی کے انٹرویو‘ اول: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۶ئ‘ ۵۳۲ ص۔ (سیدموصوف سے مختلف اہل قلم اور صحافیوں کے مصاحبے)

۱۰۰-      مولانا مودودی کے انٹرویو‘ دوم: (مرتب: ابوطارق) اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۸۷ئ‘ ۳۳۶ ص۔ (مزید ۳۲ مصاحبے۔ ابوطارق‘ پروفیسر رحیم بخش شاہین کا قلمی نام تھا)

۱۰۱-      وثائق مودودی: (مرتب: سلیم منصورخالد) ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۸۴ئ‘ ۱۰۰ص۔ (سید موصوف کی تعلیمی اسناد‘ ۸ اور دس سال کی عمر کے تحریروں اور بعض دیگر نوادرات کے عکس۔ جہازی سائز پر نفیس اور خوب صورت طباعت)

۱۰۲-      ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ دہلی‘ ۱۹۸۸ئ‘ ۷۹ص۔ (نگار لکھنؤ میں‘ اکتوبر‘ نومبر اور دسمبر ۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ایک طویل مقالہ۔ پہلی قسط جناب نیاز فتح پوری نے اپنے نام سے چھاپ لی تھی‘ مصنف کے احتجاج پر‘     باقی ۲قسطوں پر ان کا نام دیا گیا)

۵

۱۰۳-      المسئلۃ الشرقیہ: ادارہ معارف اسلامی لاہور‘ ۱۹۹۴ئ‘ ۳۸۳ ص۔ (مصطفی کمال پاشا کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ)


                سید مودودی ؒکے ذخیرۂ علمی کا ایک حصہ (بیسیوں تقاریر اور مضامین) ابھی تک اخبارات و رسائل کے اوراق میں گم ہے۔ علاوہ ازیں بعض تقریریں اور مضامین کتابوں کی صورت میں بھی ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:

                ۱- آزادی ] ۱۹۶۸ئ[‘ ۲- آیندہ انتخابات‘ ملک کی نجات کا واحد راستہ ] ۱۹۷۰ئ[  ۳-آیندہ انتخابات اور قوم کی ذمہ داری ] ۱۹۷۰ئ[ ۴- اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت ] ۱۹۶۹ئ[ ۵- ۱۹۶۷ء کی رِہائی کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی پہلی تقریر] ۱۹۶۷ئ[ ۶- بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ] ۱۹۸۲ئ[ ۷- پاکستان کے انتخابی نتائج اور ان میں جماعت اسلامی کی پوزیشن‘ ۱۹۷۱ء ۸- تحریک اسلامی: کامیابی کی شرائط ‘ ۱۹۶۴ء ۹- تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی ] ۱۹۶۷ئ[ ۱۰- تقریر ڈھاکا‘ ۱۹۶۳ء ۱۱- توحید اور شرک ]۱۹۷۷ئ[ ۱۲- توحید کی برکات ]۱۹۷۳ئ[ ۱۳-جماعت اسلامی اور پاکستان ] ۱۹۷۰ئ[ ۱۴- جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں دیا جائے؟] ۱۹۷۰ئ[  ۱۵- جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام] ۱۹۷۰ئ[  ۱۶-جماعت اسلامی کی دعوت‘۱۹۴۸ء ۱۷- خطاب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ]۱۹۷۳ئ[ ۱۸- دستوری تجاویز ]۱۹۵۲ئ[ ۱۹- عملی جہاد سے قلبی جہاد تک ] ۱۹۶۵ئ[ ۲۰- قومی وحدت کی مضبوط بنیادیں۱۹۸۴ء ۲۱- موجودہ انتخابی معرکے پر سیرحاصل تبصرہ ]۱۹۷۷ئ[ ۲۲- مولانا مودودی کا دورئہ مشرق وسطیٰ ]۱۹۵۷ئ[ ۲۳- مولانا مودودی کی دو اہم تقریریں اور مرکزی مجلس شوریٰ کی اہم قراردادیں ]۱۹۷۲ئ[ ۲۴- وقت کے اہم مسائل اور ان میں جماعت اسلامی کا موقف‘ ۱۹۷۰ء وغیرہ۔


آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ بعض کتابیں‘ سیّد مودودی کے متذکرہ بالا ذخیرئہ علمی کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہیں مثلاً:

  • تفہیم الاحادیث‘ ۸ حصے (مرتب:عبدالوکیل علوی)‘ لاہور 
  • تحریک اور کارکن (مرتب: خلیل احمد حامدی)‘ لاہور 
  • نصرانیت‘ قرآن کی روشنی میں (مرتبین: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) لاہور‘۱۹۸۵ء 
  • یہودیت‘ قرآن کی روشنی میں (مرتبین: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)‘ لاہور
  • اُمت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل (مرتب: خلیل احمدحامدی) لاہور‘۱۹۸۲ء وغیرہ۔

اس نوعیت کی متعدد کچھ اور کتابیں بھی مرتب اور شائع ہوئی ہیں (اور یہ سلسلہ جاری ہے) مگر یہ سب تصانیفِ مودودی کے منتخبات (selections)پر مشتمل ہیں اور ان کی حیثیت ’مکرّرات‘کی ہے۔ اس لیے انھیں باقاعدہ فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ درحقیقت عصر حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کے     علم بردار تھے۔ وہ ایک آفاقی مفکر تھے اور اصلاح و انقلاب کی جو دعوت انھوں نے دی‘ وہ پورے  عالمِ انسانیت کے لیے تھی۔ ان کی قائم کی ہوئی تنظیم کا اصل مقصد انسان سازی کا ایک عظیم معرکہ بالکل ناموافق حالات میں سر کرنا تھا۔ آزادی‘ برابری اور برادری کے جو نعرے لگائے جاتے رہے ہیں‘ ان کو انھوں نے ایک ٹھوس‘ منطقی اور تجزیاتی بنیاد اپنے عالمانہ و حکیمانہ لٹریچر سے فراہم کی۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دورِ جدید کے ہر مسئلے کا حل پیش کیا۔ مذہب‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کے موضوعات پر ان کی مدلل بحثیں معلومات افزا اور بصیرت افروز ہیں۔ ان کا تصور دین زندگی کے ہر گوشے پر محیط تھا۔ وہ رسمی فرقہ وارانہ مذہب کے بجاے ایک کائناتی نظریۂ حیات کے قائل تھے۔ اسی لیے وہ اسلام کو ایک ہمہ گیر انسانی نظامِ زندگی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور قرآن و سنتِ رسولؐ کو انسانیت کا مشترک سرمایہ سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم معاشرے کی تفریق کرنے کی ضرورت نہیں‘ اگرچہ عملاً اسلامی تحریک کے اولین مخاطب‘ ذمہ دار اور کارکن ظاہر ہے کہ مسلمان ہی ہوں گے۔ یہ اسلام کا اصولی موقف بھی ہے‘ جس کا روے سخن سب کی طرف ہے‘ اس لیے کہ وہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا دین ہے اور اس کے آخری پیغام بر رحمۃللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن اس دین کی اشاعت اور اقامت کاعلَم تو قدرتی طور پر وہی لوگ اٹھائیں گے جو اس پر ایمان رکھتے اور عمل کرتے ہوں۔

مولانا مودودیؒ نے دعوت دین‘ فہم دین اور اجتماعیت کے لیے اپنی فکر مندی کو جس انداز سے پیش کیا‘ اس کا سب سے اہم ماخذ ان کی تصانیف ہیں۔ یہاں پر اس حوالے سے میں اپنے موضوع کو زیر بحث لاؤں گا۔

  • دیـنـیـات: اس تناظر میں مولانا مودودیؒ کے وسیع لٹریچر کی پہلی کتاب دینیات  ان کا  نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب میں فقہ کے مسائل نہیں ہیں‘ صرف اصل دین اور اس پر ایمان کی تبلیغ‘ حکمت کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ فطرت کے عام مظاہر‘ قوانینِ قدرت‘ کائناتی حقائق اور زندگی کی تسلیم شدہ حقیقتوں‘ نیز معروف انسانی صداقتوں کو دل نشیں‘ اور عام فہم دلیلوں کے ساتھ پُر اثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ان دلیلوں سے کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا انسان انکار نہیں کرسکتا‘ اس لیے کہ اس کے سامنے روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات صاف صاف رکھ دیے گئے ہیں۔ مسلم اور غیرمسلم دونوں ہی ان واقعات و مشاہدات پر غور کر کے تمام الجھنوں کے درمیان چھپی ہوئی سچائی کا سراغ بآسانی لگا سکتے ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں رائج زبانوں میںدینیات کا ترجمہ اپنا اثر بخوبی دکھا رہا ہے۔ اس کتاب میں آدمیت کی معروف قدریں ہر شخص کے سامنے نکھر کر آ جاتی ہیں اور اس کے دل پر دستک دیتی ہیں۔ دینیات براہِ راست ضمیرِ انسانیت کو اپیل کرتی ہے اور اس کے الستُ بربکمکے جواب میں قالوا بلٰی‘ کے اسرار و رموز آشکارہوتے ہیں۔ یہ انسان کے ذہن  کو خود شناسی سے خداشناسی تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ توحید‘ یعنی وحدتِ الہٰ کا پیغام دیتی ہے‘ جو انسانی وحدت و اخوت کا واحد نظریہ ہے‘ جس کی بنیاد پر ہر قسم کے رائج الوقت تفرقوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ’’وحدت آدم‘‘ (اقبالؒ) کا یہ آفاقی پیام ہی عالمی جنگوں کے خاتمے اور عالمی امن کے قیام کی فضا سازگار کر سکتا ہے۔
  • مسلمان اور موجودہ سیاسی کـش مکش: اس موضوع پر مولانا مودودیؒ نے‘ اس وقت قلم اٹھایا‘ جب آزادی سے قبل ہندستان میں فرقہ وارانہ سیاسی کش مکش بہت تیز ہو گئی تھی اور مسلم و غیر مسلم فرقوں کے رہنما اور جماعتیں بڑی تیزی کے ساتھ تصادم کی طرف جا رہے تھے۔ اس فرقہ پسندانہ نزاع میں مسلمان اسلام کا نعرہ لگا کر غیر مسلموں کو دینِ فطرت سے برگشتہ کر رہے تھے۔ لہٰذا مولانا نے واضح کیا کہ اسلام کوئی فرقہ پرستانہ مذہب نہیں ہے‘ جس پر کسی نسلی فرقے کا اجارہ ہو‘ بلکہ یہ ایک آفاقی نظریۂ حیات ہے‘ جو انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور بلا لحاظِ فرقہ و طبقہ کوئی بھی  اس پر ایمان لا کر عمل اور اپنی صلاح و فلاح کا سامان کر سکتا ہے۔ غیر مسلم معاشروں میں تحریکِ اسلامی کے لیے یہ سب سے بڑی رہنمائی تھی‘ جو مولانا مودودیؒ کی تحریر سے ملی۔ چنانچہ مولانا نے مسلمانوں کو ایک انتہائی نازک اور پیچیدہ صورت حال میں مشورہ دیا کہ وہ فرقہ پرستانہ سیاست سے الگ ہو کر اور اوپر اٹھ کر اسلام کی نظریاتی دعوت ہر فرقے کے انسانوں کو عمومی طور پر دیں۔ انسان دوستی کی یہ صلاے عام اتنی بلند ہوئی اور پرکشش ثابت ہوئی کہ بعض وقت غیر مسلموں کے ایک بڑے لیڈر نے جماعت کے جلسۂ عام میں بطور سامع شرکت کر کے اس کے پیغام کے لیے اپنی پسندیدگی کا برملا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ ہندووں کے مہاتما گاندھی نے اپنے مثالی و علامتی رام راج کی تشریح عملی اور تاریخی طور پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافتِ راشدہ کے حوالے سے کی۔
  • الجہاد فی الاسلام: یہ موضوع ماضی میں بھی بحث انگیز رہا ہے اور آج بھی پوری دنیا میں وقت کا سب سے گرم موضوع بنا ہوا ہے‘ مگر اس کی حقیقت عام طورپر مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہی ہے۔

مولانا مودودیؒ کی اس معرکہ آرا تصنیف نے جہاد کی اصل نوعیت و اہمیت تحقیقی طور پر واضح کر دی۔ انھوں نے ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دیا کہ اسلامی جہاد صرف خدا کی راہ میں نیکی‘ حق اور صداقت کے لیے انتہائی کوشش کا نام ہے۔ یہ ہر گز کوئی جارحانہ و ظالمانہ قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد نہیں ہے۔ یہ مظلوموں کا دفاع ہے۔ اس کا مقصد عدل اور امن کا قیام ہے۔ یہ خفیہ تخریب کاری نہیں‘ تعمیر و ترقی کی علانیہ کوشش ہے۔ اس کی کچھ ضروری شرطیں ہیں۔ یہ افراد کی قانون شکنی نہیں‘ ریاست کا آئینی اقدام ہے۔ اس میں عہد شکنی کی کوئی گنجایش نہیں‘ بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی  سخت پابندی ہے۔ یہ جنگ و امن کا اسلامی قانون ہے‘ جس پر عمل کرنے کا اختیار صرف اسلامی حکومت کو ہے‘ جب کہ اسلام میں جارحیت کا کوئی تصور نہیں۔ دفاعی جنگ کی حالت میں بھی بے قصور اور پُرامن شہریوں کو اسلام جان و مال و آبرو کا تحفظ دیتا ہے‘ قیدیوں کے ساتھ انسانی برتائو کی تاکید کرتا ہے‘ لڑنے والے مقتولین کی لاشوں تک کی حفاظت کی ہدایت کرتاہے‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘      عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کے کارکنوں کو ہر قسم کی ضروری سہولت کی ضمانت دیتا ہے‘ فتح کے متکبرانہ مظاہر تک سے منع کرتا ہے۔ مجاہد‘ دشمنوں کا بھی محافظ بن کر دیارِ غیر میں قدم رکھتا ہے۔

اسلامی جہاد کی یہ صحیح تصویر آج کی مہذب کہلانے والی غیر مسلم طاقتوں کو اسی طرح تہذیب کا سبق دیتی ہے‘ جس طرح عہدِ وسطیٰ کے انتہائی طاقت ور متمدن ملکوں کو اس نے انسانیت کا سبق سکھایا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ و امن کے جتنے بھی مہذب قوانین آج اصولاً رائج ہیں وہ سب اسلامی جہاد کے وضع کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ غیر مسلم معاشروں اور خود مسلمانوں کو اس تاریخی حقیقت کی یاددہانی کرائی جائے۔ رہا جبرو ظلم کے مقابلے میں اعلاے کلمۂ حق تو یہ افضل جہاد ہر حال اور ہر مقام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں‘ سب کے سامنے احقاقِ حق اور قیامِ عدل کے لیے کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس شہادتِ حق کی شرطیں بھی وہی ہیں جو جہاد کی ہیں‘ جو دراصل راہِ خدا اور صراطِ مستقیم کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ دعوتِ بلیغ ہے۔

  • خلافت و ملوکیت: جمہوریت یا عوامیت ابتدا ہی سے اصولاً ایک ناقص       طرزِ حکومت رہا ہے اور اب پوری دنیا میں بوسیدہ و فرسودہ اور ازکارِ رفتہ ہو چکا ہے۔ یہ محض        تعداد و مقدار پر مبنی اوصاف و اقدار سے خالی ایک جابرانہ وطیرۂ اقتدار ہے‘ جس میں عددی     اکثریت و اقلیت کا کھیل جوڑ توڑ‘ خریدو فروخت اور سازش و الزام سے بالکل عامیانہ طور پر‘ انتہائی  بے کرداری سے کھیلا جاتا ہے۔ اس میں درحقیقت راے عامہ کو ہموار کرنے کے بجاے سطحی     ’عوام فریبی‘ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کا پارلیمانی طریقہ برطانیہ میں اور صدارتی طریقہ امریکہ میں رسوا ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ملوکیت اور نوابی یا جاگیرداری کے نظام پہلے ہی نامقبول ہو کر رد ہوچکے ہیں۔ آمریت اور اشتراکیت بھی ناپسندیدہ اور استبدادی اطوارِ حکومت ہیں۔ قابلِ اعتبار‘ معیاری اور مفید سیاسی نظام وہ ہے جس میں مخلص اور سنجیدہ اہل الراے عوام کی حقیقی نمایندگی کریں۔  یہ باشعور اور باکردار افراد کی وہ شورائیت ہے جس کے فیصلوں کو عوامی اعتماد اور تائید حاصل ہو۔ یہ افراد اپنا اعتبار ایک صالح نصب العین کے ساتھ وابستگی اور اس کے تحت عمل کی‘ دنیا اور آخرت میں   جواب دہی سے قائم کرتے ہیں۔

اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام خلافت ہے‘ جس میں خدا اور رسولؐ کی نیابت کا تصور انسانی فطرت کی اُس خودسری اور سرکشی پر روک لگا دیتا ہے جو ملوکیت کی روح رواں ہے۔ یہ بادشاہی کی وہ اسپرٹ ہے جو رائج الوقت جمہوری کہلانے والے نقالوں میں بالکل نمایاں ہے‘ ٹھیک جس طرح  عہدِقدیم کی شہنشاہیت میں تھی۔ یونان و روم و ایران سے برطانیہ و امریکہ تک کے پرانی اور نئی استعماریت (Imperialism) اور نوآبادیت (Colonialism) کی تباہ کاریوں کی روداد کل تاریخ کے صفحات میں پڑھی جاتی تھی‘ آج ان اوراق کے علاوہ میڈیا کے مناظر میں بھی دیکھی جا رہی ہے جو انسانیت کو لرزہ براندام کر رہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب  خلافت و ملوکیت میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے اسی حقیقت کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ غیر اسلامی ملوکیت کے مقابلے میں اسلامی خلافت ہی وہ نظریۂ سیاست ہے جو صحیح معنوں میں آزادی رائے‘ مساوات‘ عدلِ اجتماعی اور فلاحِ عامہ (public welfare) کی ضمانت دیتا ہے اور صلاحیت و خدمت دونوں کی قدرشناسی کرتا ہے۔ ریاست کے اسی تصور سے معاشرے کی درستی و ترقی ہوتی ہے۔

  • پردہ: کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی ہے مرد اور عورت کے تعلق کا توازن‘ جس پر پورا خاندانی نظام مبنی ہوتا ہے اور انسانیت کو اس کے محور پر قائم رکھتا ہے۔ اس توازن کو برہم کرنے والی  چیزبے پردگی ہے‘ جو اگر قدیم دورِ جاہلیت میں ایک بیماری تھی تو اب ایک وبا بن گئی ہے۔ اسی نے یونان و روم کے معاشرے کو تباہ کیا تھا اور یہی برطانیہ و امریکہ وغیرہ کے معاشرے کو غارت کر رہی ہے۔ مرد و زن کے بے محابا اختلاط کی تباہ کاری کا ایک عبرت انگیز نمونہ سترھویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں لکھی جانے والی Restoration Comedy کے انگریزی ڈرامے ہیں‘ جو جنسی سازشوں‘ آلودگیوں اور بے حیائیوں کے شرم ناک مرقعے پیش کرتے ہیں‘ اگرچہ دورِ جدید کی بے پردگی ان مرقعوں سے بھی زیادہ ہولناک اور نفرت انگیز ہے۔ آج کے مخلوط سماج نے رشتوں کو پامال کر دیا ہے‘ نسوانیت کو بازار اور کاروبار کی جنس بنا دیا ہے‘ یہاں تک کہ فنونِ لطیفہ عریانی و فحاشی کا دوسرا نام بن گیا ہے۔

اپنی کتاب پردہ میں مولانا مودودیؒ نے جسمانیات (Physiology) اور نفسیات (Psychology) وغیرہ علوم و فنون کے مستند حوالوں سے بہ تحقیق ثابت کیا ہے کہ قدرتی طور پر مرد اور عورت دو مختلف جنس ہیں اور ان کے فطری تقاضے مختلف ہیں۔ لہٰذا دونوں جنسوں کا بے حجابانہ    خلط ملط‘ غلط اور نقصان دہ ہے۔ چنانچہ ان کے دائرہ ہاے کار ایک دوسرے سے الگ ہونے چاہییں اور ہر ایک کو اپنے مخصوص دائرے میں اپنے خاص طریقے ہی سے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح ان کی جداگانہ صلاحیتوں کا نشوونما بھی ہو گا اور ان کے عزائم کی تکمیل بھی ہو گی۔ یہ سماج کی بہتری کے لیے مرد اور عورت کے باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کی صحیح و مفید شکل ہو گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عورت کا نامحرم مردوں سے پردہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مولانا نے پردے کی معقول کیفیت بھی بیان کر دی ہے اور اس کی قابلِ عمل حدود کا تعین کر دیا ہے‘ تاکہ خاندانی نظام انتشار سے محفوظ رہے اور معاشرے کی تنظیم برہم نہ ہو۔

  • سود:معاشیات میں ساری خرابیوں کی جڑ زر پرستی ہے‘ جسے مروجہ اصطلاح میں   سرمایہ پرستی (Capitalism) کہا جاتا ہے۔ یہ مال کی حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے‘ جو دولت کی پرستش تک پہنچ کر آدمیت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ نفع اندوزی کی یہ ہوس (lust for interest) انسانی اخلاق اور تہذیبی اقدار کے لیے سم قاتل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سودمیں تفصیل و تحقیق کے ساتھ اس مہلک زر پرستی کا پول کھول دیا ہے‘ حالانکہ جدید تمدن کی رونق اسی پر مبنی ہے اور بنکوں نے  سود (Usury) کو پورے انسانی معاشرے میں زہر کی طرح پھیلا دیا ہے۔ یہ سودی بنک کاری اشتراکی کہلانے والے ملکوں میں اسی طرح موجود ہے‘ اس کی شکل جو بھی ہو‘ جس طرح سرمایہ دار کہلانے والے ملکوں میں جمہوریت ہو کہ آمریت‘ کوئی بھی نظامِ سیاست سود کے معاشی سرطان سے محفوظ نہیں۔

جدید تمدن کا سارا کاروبار سودی نفع اندوزی (profiteering) کے اصول پر چل رہا ہے‘ جس کے سبب امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔ سود ہی کے بل پر دولت‘ خدائی کا سکہ چلا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ عالمی بنک اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کے ذریعے ایک نئی شہنشاہیت دنیا کو نو آبادیت کے دورِ وحشت کی طرف واپس لے جا رہی ہے۔  سود کے ذریعے مولانا مودودیؒ نے تمام مسلم و غیر مسلم معاشروں کے سامنے ان کی اخلاقی پستی اور ترقیات کے مظاہروں کے باوجود انسانیت کے تشویش انگیز زوال کا آئینہ رکھ دیا ہے‘ تاکہ وہ خرابیِ احوال کا اندازہ کر کے اصلاحِ احوال کی جانب مائل ہوں۔

  • اسلام اور ضبط ولادت: سود کی تباہ کن معاشیات کی طرح ضبطِ ولادت کا روگ بھی معاشرت کو گھن کی مانند چاٹ کر کھوکھلا کر رہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی درحقیقت قتلِ انسانیت کی ایک سازش ہے‘ جب کہ سود کی طرح اس منصوبہ بندی کو مقبول عام بنا کر رواج دینے کے لیے حکومتیں‘ خاص کر ترقی پذیر کہلانے والے ملکوں میں‘ پورے زور و شور کے ساتھ نہایت بے شرمی سے میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں اور احمقانہ اشتہارات کے ذریعے فحاشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ یہ     دراصل خوش حالی کے نام پر خود کشی کی کوشش ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس غلط پالیسی کے تار و پود  اپنے مدلل و حکیمانہ تجزیے سے بکھیر دیے ہیں۔

مجدد عصر

آج کے معاشرے کے حالات و رحجانات پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تنقید کی ہے اور ان کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جو تجویزیں اپنی مذکورہ بالا کتابوں اور دوسرے لٹریچر میں پیش  کی ہیں‘ وہ ایک عظیم الشان کارِ تجدید ہے۔ مولانا کی دعوت ایک انقلابی دعوت ہے جس کا خطاب  مسلم و غیرمسلم معاشروں سے یکساں ہے۔ بلاشبہہ مولانا کا محورِ فکر اسلامی ہے اور قرآن و سنت کے احکام و ہدایات پر مبنی ہے لیکن انھوں نے اول تا آخر اسلام کو ایک آفاقی نظریۂ حیات کے طور پر پوری انسانیت کی اصلاح و تجدید کے لیے پیش کیا ہے‘ اور وقت کے جتنے بنیادی مسائل ہیں ان کا حل ایک حکیمانہ انداز سے تجویز کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے دور جدید کے مریضانہ رحجانات پر‘ خواہ وہ کتنے ہی عام اور مقبول ہوں‘ ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ ان کا پول کھل گیا ہے اور ان کی تباہ کاری واضح ہو گئی ہے۔

فتنہ و فساد‘ بے پردگی‘ سود‘ مغربی جمہوریت‘ ضبط ولادت جیسے عالم گیر مہلک امراض کی صحیح تشخیص کرکے ایک عالمانہ بصیرت و جرأت کے ساتھ ان کے علاج کا نسخۂ شفا تجویز کرنا‘ ایک بے مثال کارنامہ ہے جو مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی نے انجام دیا ہے۔ فکر و عمل دونوں کے اعتبار سے   اس تحریک کی رہنمائی مسلم و غیرمسلم معاشروں کے لیے عام ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کا لٹریچر       رائج الوقت غلط افکار و خیالات کی قطعی تردید کر کے ان کے متبادل صحیح نظریات و تصورات مؤثر ترین اسلوب میں پیش کرتا ہے۔ ان حقائق کے مدنظر عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ کو صرف مسلم امہ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مجدد کہا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مولانا کی تحریروں کو مناسب طور سے دنیا کی تمام زبانوں میں شائع کیا جائے اور ان کی دکھائی راہوں پر عمل کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔

غیرمسلم معاشروں میں تحریک کا طریق کار

                ۱-            مولانا مودودیؒ نے اسلامی تحریک کی رہنمائی کا جو کام اپنے لٹریچر سے کیا ہے‘ اسے غیرمسلم معاشروں میں ایک انسانی تحریک کی حیثیت سے‘ جو فی الواقع اسلامی تحریک بجاے خود ہے‘ پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ انسانیت کی اصلاح و ترقی‘ یعنی انسان دوستی یا انسان سازی ہی مولانا کی ساری جدوجہد کا منشا و مقصود رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور موجودہ مسلم فرقے کے درمیان فرق و امتیاز کیا‘ اور خلافت راشدہ کے بعد کی عام مسلم تاریخ کو خالص اسلامی تاریخ کہنے سے انکار کیا۔

                ۲-            مختلف اہم موضوعات پر مولانا کے مباحث کا خلاصہ انھی کی تصانیف سے‘ انھی کے لفظوں میں تیار کر کے ہر قابل ذکر زبان میں وسیع پیمانے پر شائع کیا جائے۔

                ۳-            اس مقصد کے لیے ایک علمی ادارہ کسی معروف مصنف کے زیر قیادت مستعد رفقاے کار کے ساتھ مناسب مقام پر قائم کیا جائے‘ جس میں رہایش وغیرہ کی تمام ضروری سہولتیں اور نشرواشاعت کے جدید ترین کاروباری وسائل مہیا ہوں۔ ابتدائی و بنیادی سرمائے کے ساتھ یہ ادارہ حتی الوسع خود کفیل ہو جائے اور اپنی جگہ خود مختار ہو۔

                ۴-            افکار مودودی کی اشاعت اور اس کے مطابق مسلم یا غیرمسلم معاشرے میں عملی جدوجہد کے لیے دنیا کے جو ادارے بھی تعاون کرنا چاہیں ‘ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔

                ۵-            غیر مسلم معاشروں کی سب سے مقبول زبان انگریزی ہے۔ لہٰذا اس زبان پر قدرت رکھنے والوں سے ادبیات مودودی کی تلخیص و ترتیب کا کام لیا جائے۔

                ۶-            مغرب کی زبانوں میں فرانسیسی‘ جرمن‘ روسی‘ اطالوی اور مشرق کی زبانوں میں عربی‘ فارسی‘ چینی‘ جاپانی‘ ہندی‘ بنگلہ‘ سواحلی وغیرہ میں بھی کام کیا جائے۔

                ۷-            مولانا مودودیؒ کے خیالات کو فکری و عملی طور پر پھیلانے کے لیے دینی جذبے سے سرشار کارکن‘ رکھے جائیں‘ جو کھلے ذہن اور صالح کردار کے ساتھ کام کریں۔

نظریاتی مقابلے کے موجودہ دور میں وہ جدوجہد بہت ضروری ہے جس کا ایک مختصر خاکہ اوپر پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں تاخیر و تامل نقصان دہ ہو گا۔ آج عالمی ذرائع ابلاغ (Media)‘ خاص کر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ ایک وحشیانہ تہذیب و تمدن کو‘ سائنس اور ٹکنالوجی کے بل پر‘ فروغ دے رہے ہیں۔ لہٰذا‘ ان کو ناکام بنانے اور صحت مند تعمیری اقدارِ انسانیت کو نمایاں کرنے میں مزید تاخیر کو راہ نہ دی جائے۔ اس معاملے میں مستعدی و چستی وقت کی پکار ہے!

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بلاشبہہ بیسویں صدی کے نامور ترین مفکرین اور علماے اسلام میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ۶۰سالہ علمی اور ادبی زندگی میں دینی‘ ملّی اور اجتماعی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو پر لکھا ہے۔ ان کی تحریروں کا بنیادی مطمح نظر فکر اسلامی کی تجدید‘ مسلم معاشرے کی تشکیل نو اور مسلمانوں کی گمشدہ اسلامی میراث کی بازیافت ہے۔ اپنی ابتدائی تحریروں میں مولانا مودودیؒ کے خیالات پر جن دینی شخصیتوںکے اثرات غیر معمولی طور پر محسوس ہوتے ہیں‘ ان میں آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مجدد اور مصلح علامہ ابن تیمیہ ؒ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ ابن تیمیہؒ سے مولانا مودودیؒ کی عقیدت بہت قدیم بھی ہے اور ابتدا میں  بڑی شدید بھی تھی۔ مولانا کی جن کتابوں کو ان کے نظام فکر میں کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ ان میں تجدید و احیاے دین ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک مقالہ تھا جو انھوں نے ۴۱-۱۹۴۰ء میں الفرقانکے شاہ ولی  ؒاللہ نمبر کے لیے لکھا تھا۔ مولانا نے اس مقالے میں       نہ صرف تصور تجدید اور احیاے دین پر مفصل بحث کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ بلکہ اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیتوں کو وہ تجدید و احیاے اسلام کا نمایندہ سمجھتے ہیں ان کے  کام پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔

اس مقالے یا کتاب کی تصنیف کے دوران مولانا مودودیؒ کے ذہن میں تجدید کا جوخاص تصور تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مختلف مجددین کے کام پر تبصرے کیے اور جہاں جہاں بہتری کی گنجایش محسوس کی اس کی نشان دہی کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیاے اسلام کو جس شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے مولانا کے نوجوان ذہن اور حساس دل پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ہی زوال کا شکار ہیں‘ اور زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں کا زوال نمایاں نہ ہو۔ اس ہمہ گیر زوال اور کمزوری کے احساس نے مولانا کے تصورِ تجدید پرگہرا اثر ڈالا۔ جس زمانے میں وہ یہ مقالہ لکھ رہے تھے ان دنوں دنیاے اسلام میں انحطاط و زوال کی بڑھتی ہوئی تاریکیوں کے مشاہدے نے ان کے دل میں تجدیدِکامل کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ چنانچہ اس پوری کتاب کی اٹھان مجددِکامل یا تجدیدِ کامل کے تصور پر ہے۔یہ تجدیدِ کامل جس کی ضرورت کا احساس مولانا کو بیسویں صدی کے نصف اول میں ہوا‘ اس کی روشنی میں جب انھوں نے بیسویں صدی سے پہلے کے مجددین کے کام کا جائزہ لیا تو کئی جگہ ان کو وہ خلا محسوس ہوا جو نہ خود ان مجددین کو محسوس ہوا تھااور نہ کبھی دیگر مؤرخین نے اس کی نشان دہی کی۔

اس پس منظر میں جہاں مولانا مودودیؒ بہت سے مجددین کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور وہاں موجود اس خلا کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کو محسوس ہوا‘ وہیں وہ ابن تیمیہؒ جیسی قد آور شخصیت کا تذکرہ بھی بہت بھرپور انداز سے کرتے ہیں۔ ایسا ہونا شاید ناگزیر بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے انھی دنوں ابن تیمیہؒ کی تحریروں کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔ ابن تیمیہؒ کے تذکرے میں جو جوش و خروش اور تاثر پذیری نظر آتی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی کے بالغ نظر اور انتہائی پرجوش مصلح کے گہرے اثرات نوجوان مصنف اور مستقبل کے مصلح کے قلم پر پڑرہے ہیں۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس مقالے کے لکھے جانے سے کچھ ہی قبل‘ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے سالوں میں‘ مولانا نے ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد رشید ابن القیمؒ کی تصنیفات سے بہت استفادہ کیا۔

ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا پر ایک دوسرے راستے سے بھی پہنچے۔ یہ راستہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ ہے۔ حجۃ اللّٰہ البالغہ کے بارے میں بعض اربابِ نظر کا کہنا ہے کہ اس کے بعض حصے ابن تیمیہؒ کی کتابوں کے براہ راست اثرات کے تحت لکھے گئے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض ابواب اور علامہ ابن تیمیہؒ کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مولانا نے ۳۹۔۱۹۳۸ء کے سالوں میں حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض حصوں کا ترجمہ کیا۔ یہ وہ حصے تھے جہاں شاہ ولی ؒاللہ کے افکار اور ابن تیمیہؒ کے خیالات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔       یہ مضامین جو حجۃ اللّٰہ البالغہکے مختلف ابواب کے آزاد ترجمے سے عبارت ہیں‘ ۳۹-۱۹۳۸ء کے سالوں میں ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔

ان مقالات کے موضوعات کے ایک سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور خود شاہ ولی ؒاللہ کے خیالات پر ابن تیمیہؒ کے اثرات کہاں کہاں ہوئے ہیں۔ چند عنوانات ملاحظہ فرمائیں: ۱- توحید و شرک‘۲-حقیقت شرک‘۳-اقسام شرک‘ ۴-علوم نبوی کی اقسام‘ ۵-مصالح اور شراع کا فرق‘ ۶-نبی سے اخذِشرع کی کیفیت‘ ۷-چوتھی صدی ہجری کا فقہی و مذہبی اختلاف‘ ۸-دین میں تحریف اور بدعت کے اسباب ‘ ۹- اسلام کا فلسفہ عمران‘ ۱۰-اسلامی قانون معیشت‘اس کی روح اور اصول‘۱۱- اہم ترین تمدنی مفسدات کا انسداد‘ ۱۲- نرخوں کا حکماً مقرر کیا جانا‘ ۱۳- معاملات میں فضل اور فیاضی‘ ۱۴- اختلافی مسائل اور نقطۂ عدل۔ ان جیسے عنوانات سے یہ بات پورے طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا مودودیؒ کے افکار پر کن کن راستوں سے پڑ رہے ہیں۔

موضوعات و خیالات کے اس اشتراک کے علاوہ بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو  ابن تیمیہؒ کی شخصیت میں ایک ایسا دینی آئیڈیل نظر آیا جس کے نظریات‘ تحریروں‘ تحریکی ردعمل اور رویہ ان کو خود اپنے خیالات‘ تحریروں اور رویے سے بہت ملتا جلتا معلوم ہوا۔ ان دونوں شخصیتوں میں یہ مشابہت اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ان دونوں کے کام اور افکار کا کوئی ناقد اور مبصر اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔

مزید برآں دونوں فکروں کو جس فکری ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا وہ بھی قریب قریب یکساں ہی تھا۔ ابن تیمیہؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ سیاسی اعتبار سے افراتفری اور عسکری اعتبار سے مسلمانوں کی پستی کا دور تھا ۔ مشرق سے جنگجو تاتاریوں کا سیلاب جو کم و بیش ۱۰۰سال قبل اٹھا تھا‘ اس نے دنیاے اسلام کے شہر کے شہر زمین بوس کر دیے تھے اور لاکھوں   بے گناہ کلمہ گو مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا۔ تاتاریوں کی ان تباہ کن ترک تازیوں کے نتیجے میں چند ایک کے علاوہ جن میں دہلی کی سلطنت بھی شامل تھی‘ دنیاے اسلام کی تمام بڑی  بڑی حکومتیں ایک ایک کر کے یا تو سرنگوں ہو چکی تھیں اور لرزہ براندام تھیں‘ یا بالکل ہی دم توڑچکی تھیں۔

کم و بیش یہی منظر مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دیکھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی مسلمانوںکی تباہی کے وہ عبرت ناک منظر لے کر آئی جس کی کوئی نظیر اگر اسلام کی تاریخ  میں ملتی ہے تو وہ تاتاریوں ہی کی ہولناکیوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی‘ مشرقی یورپ میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی اور مختلف    مغربی طاقتیں ایک ایک کر کے دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو تاخت و تاراج کر رہی تھیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور تاتارستان سے لے کر زنجبار تک کوئی مسلم حکومت ایسی نہ تھی جو  دنیاے مغرب کے پنجے تلے نہ کراہ رہی ہو۔

تاہم ‘تاتاریوں کی تاخت و تاراج اس اعتبار سے مغربی تاراج سے بہتر تھی کہ تاتاریوں کی لائی ہوئی تباہی کے اثرات صرف عسکری اور مادی پہلوئوں تک محدود تھے۔ تاتاریوں نے بلاشبہہ لاکھوں انسان تہہ تیغ کیے‘ درجنوں شہر زمیں بوس کیے‘ سیکڑوں کتب خانے نذر آتش کیے اور بے شمار کھیتیاں اور نسلیں برباد کیں۔ لیکن اس سب کے باوجود تاتاریوں کے نہ کوئی مذہبی عزائم تھے‘ نہ کوئی تہذیبی ایجنڈا تھا اور نہ کوئی ثقافتی اور تمدنی منصوبہ تھا۔ کم از کم ان میدانوں میں انھوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس کے برعکس مغرب کی استعماری قوتیں ایک مذہبی پروگرام کے ساتھ دنیاے اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا ایک مفصل تہذیبی ایجنڈا بھی تھا اور ایک تعلیمی پروگرام بھی ۔ اس لیے جو منفی اثرات بیسویں صدی کی تباہی اور زوال کے نتیجے میں پیدا ہوئے وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی تباہی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر تھے۔اس سے یہ نتیجہ بلاخوف تردید نکالا جا سکتا ہے کہ جو فکری چیلنج مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر مفکرین کے سامنے تھا وہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا جس کا سامنا ابن تیمیہؒ کو کرنا پڑا۔

ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودیؒ دونوں نے اپنے اپنے دور میں ان فکری چیلنجوں سے  عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جو ان کے دور میں مسلمانوں کو درپیش تھے۔ لیکن یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ابن تیمیہؒ جس چیلنج کا سامنا کر رہے تھے وہ یونانی منطق اور فلسفے کا پیدا کردہ تھا۔ بلاشبہہ ابن تیمیہؒ کی نقض المنطق اور الردعلی المنطقیین انتہائی عالمانہ کتابیں ہیں اور یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے دور تک آتے آتے یونانی منطق اور فلسفہ ویسے ہی ادھ موئے ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ابن تیمیہؒ سے پہلے غزالیؒ اور رازیؒ جیسے اساطین علم و فکر یونانی منطق اور فلسفے پر زبردست اور تابڑ توڑ حملے کر چکے تھے اور اب یونانی منطق اور فلسفے کے خلاف آواز اٹھانا آسان بھی تھا اور اس کے لیے مواد بھی دستیاب تھا۔

اس کے برعکس جب مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر دوسرے مسلم مفکرین نے   تنقید ِمغرب کے کام کا آغاز کیا تو مغربی افکار و نظریات انتہائی تازہ دم اور ہر قسم کی تنقید کو سہنے کے لیے پورے طور پر تیار تھے۔ جن دنوں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ یونانی منطق پر تنقیدیں کر رہے تھے‘ وہ دور اہل مغرب کے بالعموم اور اہل یونان کے بالخصوص سیاسی انحطاط اور کمزوری کا دور تھا۔ یہ وہ دور ہے جب کم از کم یورپ میں کوئی سیاسی قوت ایسی موجود نہ تھی جو یونانی افکار کے تحفظ اور دفاع کے لیے کھڑی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی۔ ان حضرات کی کاوشوں کی علمی قدروقیمت اپنی جگہ‘ لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔

بیرونی افکار پر تنقید اور مغربی فکر و فلسفے کے ناقدانہ جائزوں اور تبصروں سے قطع نظر ان دونوں حضرات کی علمی اور دینی کاوشوں کا اہم ترین میدان تجدید و اصلاحِ دین ہے۔ مسلمانوں میں رائج دینی تصورات کی قرآن و سنت کی روشنی میں تنقید اور کمزور پہلوئوں کی اصلاح ان دونوں شخصیتوں کے کام اور دل چسپی کا اصل میدان ہے۔ دونوں کو اپنے معاصر علما اور دینی اکابر کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان دونوں شخصیتوں کا لب ولہجہ اور زور بیان اختلافی مسائل و معاملات میں ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہے۔ اس بات کو زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس زور شور سے ان دونوں حضرات کا قلم تنقیدی مسائل پر اٹھتا ہے وہ اپنی ایک الگ ہی شان رکھتا ہے۔ غالباً یہ بتا دینا خلاف ادب نہ ہو گا کہ ان دونوں حضرات کے خلاف ان کے معاصر علما کے لہجوں میں شدت کا ایک اہم سبب ان حضرات کا وہ انداز بیاں بھی تھا جو انھوں نے اختلافی معاملات میں اختیار فرمایا۔

مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں اپنے اپنے اجتہادو تفردات میں بھی ایک دوسرے سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان تفردات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ   نہ صرف خود یہ دونوں حضرات بلکہ ان کے مخاطبین‘ متاثرین اور ہمدردوں کی بڑی تعداد کی توجہ اور صلاحیتیں اپنے اپنے تفردات کا دفاع کرنے میں صرف ہوئیں اور اصلاح عقائد اور تعمیر ملت کا وہ کام پس منظر میں چلا گیا جس کا حصول ان دونوں جلیل القدر بزرگوں کا مقصود اولین تھا۔

عقلیات مغرب پر تنقید کے باب میں جہاں مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ میں خاص مشابہتیں پائی جاتی ہیں وہاں ان دونوں حضرات میں کئی اعتبار سے فرق بھی ہے۔ چونکہ مولانا اصلاً ایک سیاسی مفکر اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ تھے جس نے انتخابی سیاست میںبھرپور حصہ لیا‘ اس لیے مولانا کی تنقید میں سیاسی اسلوب اور مکالمے کا رنگ جھلکتا ہے۔ جہاں مولانا مغرب کی فکری کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہیں وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اٹھ کھڑا ہونے اور کچھ کر گذرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی تنقید میں خالص علمی اور فکری دلائل کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی قائد کا سا خطیبانہ انداز بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یوں بھی مولانا کے ہاں خطابی دلائل ان کی ابتدائی تحریروں میں کثرت سے ملتے ہیں۔

اس کے برعکس ابن تیمیہؒ اصلاً ایک فقیہہ‘ متکلم‘ مناظر اور محدث تھے۔ اس لیے ان کی تنقیدی تحریریں ذرا مختلف انداز کی ہیں۔ ایک محدث کی سی دقت نظر‘ جزئیات کو بیان کرنے کا محدثانہ اسلوب اور مغربی افکار پر خالص دینی نقطۂ نظر سے تنقید کے دوران بھی ابن تیمیہؒ منطقی دلائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

یوں تو مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں کے ہاں عقل و نقل کا امتزاج یکساں طور پر پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ابن تیمیہؒ کا زیادہ زور نقل پر اور مولانا کا عقل پر ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی ذہنی تشکیل اور علمی ساخت علمِ حدیث کے ماحول میں ہوئی‘ اس لیے ان کی تحریروں پر نقل کا اسلوب غالب ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ اپنے ابتدائی کیریئر میں چونکہ صحافی رہے‘ اس لیے ان کو عامۃ الناس کی سطح پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اپنا مخاطب بنانا پڑا جو کسی دینی پس منظر کے حامل نہ تھے‘ چنانچہ انھیں لازماً ایسا اسلوب اپنانا پڑا جس میں اپیل کی اصل بنیاد نقل کے بجاے عقل ہو۔ چنانچہ عقلی اپیل کا یہ اسلوب مولانا کی تحریروں کا طرئہ امتیاز بن گیا۔ اس اسلوب کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں مولانا خالص دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہیںوہاں بھی ان کے طرز استدلال میں عقل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہے جو ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق خالصتاً نقل کے میدان سے ہے‘ لیکن اس کتاب میں بھی مولانا کا عقلی استدلال (بمقابلہ نقلی دلائل) نمایاں اور غالب معلوم ہوتا ہے۔

ان دونوں شخصیتوں کا ایک اہم اور مشترک وصف ان کا داعیانہ جوش بھی ہے۔ یہ داعیانہ جوش مولانا مودودیؒ کی ابتدائی تحریروں میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ (بالخصوص قیام پاکستان کے بعد) جب مولانا کو سیاسیات کے تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو ان کے ہاں گفتگو اور مکالمے میں ایک نیا انداز سامنے آیا۔ اس   نئے انداز میں نسبتاً زیادہ ٹھیرائو‘ زیادہ احتیاط اور زور بیان کی ارادی کمی معلوم ہوتی ہے۔

غالباً ابن تیمیہؒ کو ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا اس لیے ان کے ہاں ایسی کوئی تبدیلی نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ زور بیان دونوں کے ہاں غیر معمولی ہے۔

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان میں دینی ادب تخلیق کرنے والے اہلِ علم میں مولانا مودودیؒ  کا درجہ اگر سب سے اونچا نہیں تو بہت اونچا ضرور ہے۔ اگر اردو زبان کے دینی ادیبوں اور اہل قلم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے والی دو ایک شخصیتوں کا انتخاب کیا جائے تو یقینا مولانا مودودیؒ ان میں سے ایک ہوں گے۔ ان کا درجہ علامہ شبلی نعمانی ؒ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جیسے جید ترین دینی ادیبوں سے اگر بڑھ کر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ لیکن ابن تیمیہؒ کے پورے احترام کے باوجود یہ عرض کر دینے میں مضائقہ نہیں کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ نے ابن تیمیہؒ کو بطور ایک ادیب تسلیم نہیں کیا۔ عربی زبان میں دینی موضوعات پر جن شخصیتوں کا زور بیان اور ادیبانہ اسلوب ضرب المثل ہے ان میں ابن تیمیہؒ  کا نام نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی زبان کی عمر اردو سے کم از کم  آٹھ گنا زیادہ ہے اور عربی زبان میں اعلیٰ ترین دینی ادب تخلیق کرنے والوں کی تعداد شاید اُردو زبان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا ہو۔ ان حالات میں شاید ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودی ؒ کا یہ تقابل مبنی بر انصاف نہ ہو۔

اوپر ان دونوں شخصیتوں کے حوالے سے تفردات کی بات کی گئی تھی۔ تفردات میں بھی یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے خاصی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں کا جذبۂ اخلاص‘ دونوں کی حیرت انگیز تائید ‘دونوں کی بے مثال جرأت اور دونوں کا اپنے نقطۂ نظر اور اپنی رائے پر اصرار حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتا ہے۔

ابن تیمیہؒ کے انتقال کے کم و بیش ۶۰۰ سال بعد ان کے اجتہادات و تفردات کی علم بردار ایک حکومت قائم ہوئی جس نے ابن تیمیہؒ کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔ آج  روے زمین پر بہت کم دینی اور اسلامی کتب خانے ایسے ہوں گے جہاں ابن تیمیہ کی تصنیفات دستیاب نہ ہوں۔ آج کوئی دینی درس گاہ مشکل سے ہی ایسی ملے گی جہاں ابن تیمیہؒ کی کسی نہ کسی تصنیف سے اعتنا کرنے والے موجود نہ ہوں۔ آج دنیا کے کسی بڑے ملک میں جہاں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں‘ ابن تیمیہؒ کے اجتہادات پر عمل کرنے والے بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ بعض اہم مسائل میں دنیاے اسلام میں ابن تیمیہؒ کے اجتہادات و تحقیقات کو قبول عام حاصل ہو چکا ہے۔ شاید ابن تیمیہؒ کی قوت استدلال‘ داعیانہ جوش‘ کثرت معلومات و شواہد اور زور بیان نے ان کے نقطۂ نظر کو بہت سے حلقوں میں منوا لیا ہے۔ مثال کے طور پر توہین رسالتؐ کی سزا کے معاملے میں آج دنیا میں ہر جگہ ابن تیمیہؒ ہی کی رائے کو قبول عام حاصل ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور احناف کی رائے کیا رہی ہے۔

ابن تیمیہؒ کے برعکس مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے نہ ۶۰۰سال انتظار کرنا پڑا اور نہ ان کو کسی حکومتی سرپرستی کی ضرورت پڑی۔ان کی زندگی ہی میں ان کے خیالات دنیاے اسلام میں ہر جگہ پہنچے‘ ہر ملک میں مقبول ہوئے اور ان کے اجتہادات و تفردات کو جوش و جذبے سے قبول کرنے والے بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے۔ ابن تیمیہؒ کے افکار کے فروغ میں جو کردار حکومت سعودی عرب نے انجام دیا‘ وہی بلکہ اس سے بڑھ کر موثر کردار ان بے شمار دینی و ملی تحریکوں و تنظیموں نے انجام دیا جو مولانا مودودیؒ  کے حلقے سے وابستہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم کیں۔ ابن تیمیہؒ کی طرح مولانا مودودیؒ کے افکار بھی دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلے ہیں کہ ان کی چھاپ بیسویں صدی کے اسلامی اور دینی ادب پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

اپنی تمام عظمتوں اور تاثیر کے باوجود مولانا مودودیؒ ایک انسان تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہ ؒ بھی ان تمام تحدیدات سے محدود اور ان تمام قیود کے پابند تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مقید اور محدود کیا ہے۔ نہ صرف ان دونوں کے بارے میں بلکہ تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیتوں کے بارے میں محفوظ و مامون طرز عمل وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالکؒ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے فرمائی تھی:

کل یوخذ من قولہ و یترک الا صاحب ھذا القبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ہرشخص کے اقوال کا ایک حصہ قابل قبول اور ایک حصہ ناقابل قبول ہے۔ اس باب میں صرف ایک ہی استثنا ہے اور وہ (روضۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس صاحبِ قبر کا ہے۔

ہمارا رویہ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے۔

مولانا مودودیؒ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی تھے‘جن وجوہ سے وہ اسے انسانیت کی خیروفلاح کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے‘اور اس کے لیے جو طریق کار ان کی نگاہ میں درست تھا‘اس کی پوری تفصیل ان کے چھوڑے ہوئے تحریری و تقریری سرمایے میں محفوظ ہے۔ اس کا جائزہ لے کر کوئی بھی بآسانی جان سکتا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مولانا مودودیؒ کا وژن کیا تھا۔

عین عالم جوانی سے وہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی اور اس کے لیے جس طریق کار کے علم بردار بن کر اٹھے تھے‘زندگی کے آخری لمحات تک اس حوالے سے ان کی فکر میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ان کے تحریری کام اور عملی جدوجہد کا سلسلہ اگرچہ نصف صدی سے زیادہ مدت پر پھیلا ہوا ہے‘اس کے باوجود اس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے پہلے رائج الوقت افکار و نظریات اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کیا‘ اور پھر خوب سوچ سمجھ کر اپنے مقصد زندگی کی بنیاد کاملاً قرآن و سنت پر رکھی اور اس میں کسی ملاوٹ اور مداہنت سے قطعی مجتنب رہے۔ چنانچہ جو کچھ انھوں نے ۳۵سال کی عمر میں لکھا ‘۷۰ سال کی عمر میں بھی انھیں اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کے کسی دور کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ ان کی بنیادی فکر میں مکمل یکسانیت ملے گی۔

ذیل میں ان کے افکارکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں جس تبدیلی کی جدوجہد انھوں نے شروع کی تھی ‘ اس کی تفصیلات ان کی نگاہ میں کیا تھیں۔

  • ظلم و استحصال سے پاک نئی دنیا کی تعمیر: مولانا مودودیؒ انسانی معاشرے میں جو تبدیلی لانا چاہتے تھے‘ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے جولائی ۱۹۳۹ء کے ترجمان القرآن میں ’’تعارف مقصد‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جاملا ہوتا۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یاکسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکااور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرت محمدیؐ کا مطالعہ تھا۔اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کرایا جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے انقلابی اور لبرل کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا ۔اس نے انفرادی حسن سیرت اور اجتماعی عدل کا ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا۔اس کے تجویز کردہ لائحہ زندگی میں مجھے ویسا ہی کمال درجے کا توازن نظر آیا جیساایک سالمے (atom) کی بندش سے لے کر اجرام فلکی کے قانونِ جذب و کشش تک ساری کائنات کے نظم میں پایا جاتا ہے‘‘۔

اس کے بعد کہتے ہیں:’’میں صرف غیرمسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے‘بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آؤ اس ظلم اور طغیان کو ختم کردیںجو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹادیں‘‘۔(تحریک ِآزادیٔ ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۲۴-۲۵)

’’انسان پر سے انسان کی خدائی کا خاتمہ اور قرآن کی بنیاد پر ظلم اور بے انصافی سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر‘‘---یہ ہے وہ تبدیلی جس کی دعوت لے کر مولانا مودودیؒ اٹھے تھے۔

  • خرابی کی جڑ: انسانی دنیا میں بار بار رونما ہونے والے فسادو انتشار کے اصل سبب اور اس کے ازالے کے لیے مطلوب اس تبدیلی کی مزید تشریح کرتے ہوئے مئی‘ جون ۱۹۴۰ء کے ترجمان القرآن میں’’اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کا نصب العین‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جہاں جو خرابی پائی جاتی ہے اس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اﷲ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا۔یہی ام الخبائث ہے۔ اسی سے وہ شجرِخبیث پیدا ہوتا ہے جس کی شاخیں پھیل پھیل کرانسانوں پر مصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔یہ جڑ جب تک باقی ہے‘ آپ شاخوں کی جتنی چاہیں قطع و برید کرلیں‘بجز اس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہوجائے اور دوسری طرف سے شروع ہوجائے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹۴)
  • فلاح وسعادت کی واحد راہ : پھر اسی سلسلۂ گفتگو میںا نسانی معاشرے کے مسائل کے مستقل حل کی نشان دہی اس طرح کرتے ہیں: ’’انسانی زندگی کو حقیقی فلاح و سعادت سے ہم کنار کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ غیراﷲ کی حاکمیت سے کلیتاً انکار کیا جائے اور اس کی حاکمیت تسلیم کی جائے جو فی الواقع مالک الملک ہے…ہر اس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے سے انکار کردیا جائے جس میں انسان بذات خود حاکم اور صاحب ِامرونہی ہونے کا مدعی ہو‘ اور صرف اس حکومت کو جائز قرار دیا جائے جس میں انسان اصلی اور حقیقی حاکم کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی‘ جب تک انسان کی حاکمیت‘ خواہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو‘ جڑ پیڑ سے اکھاڑ کر نہ پھینک دی جائے گی‘ اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیر واقعی تصور کی جگہ خلافت الٰہی کا واقعی(realistc)تصور نہ لے لے گا‘ اس وقت تک انسانی تمدن کی بگڑی ہوئی کَل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے یا ڈکٹیٹر شپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے‘ یا امپیریلزم کی جگہ قوموں کی حکومت ِ خود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہوجائے۔صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے۔اسی سے ظلم مٹ سکتا اور عدل قائم ہوسکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کرکے انسان اپنی قوتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی و جہد کا صحیح رخ پاسکتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۹۸)
  • اسلام: انسانیت کی فلاح کا علم بردار: اسی سلسلۂ بیان میں مزیدکہتے ہیں:’’اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے۔اس کو کسی ایک قوم سے دل چسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں ہے کہ ایک کو چڑھانا اور دوسری کو گرانا اس کا مقصود ہو‘بلکہ اسے تمام نوع انسانی کی فلاح و سعادت مطلوب ہے جس کے لیے وہ ایک عالم گیر کلیہ و ضابطہ پیش کرتا ہے۔وہ ایک تنگ زاویے سے کسی خاص ملک یا کسی خاص گروہ انسانی کو نہیں دیکھتا‘ بلکہ وسیع نظر سے تمام روے زمین کواس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتا ہے‘ اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث اورمسائل سے بالاتر ہوکر ان اصولی و بنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات و مقامات میں سارے فروعی و ضمنی مسائل آپ سے آپ حل ہوجاتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹۹)
  • جدوجہد کا درست طریق کار: انسانی معاشرے میں یہ بنیادی تبدیلی جس کی دعوت لے کر مولانا مودودیؒ اٹھے‘ بندگیِ رب کی عین وہی دعوت ہے جس کے لیے تاریخ کے ہر دور میں انبیا مبعوث کیے جاتے رہے۔لہٰذا اس تبدیلی کے لیے درست طریق کار بھی وہی ہوسکتا ہے جو اﷲ کے رسولوں نے ہر زمانے میں اختیار کیا‘ یعنی تمام وقتی اور مقامی مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تمام انسانوں کو براہ راست اﷲ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی دعوت دینا۔مولانا مودودیؒ اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جو لوگ آج اس دعوت کو لے کر اٹھیں انھیں بھی وقت کے فروعی مسائل ‘قومی حقوق کے جھگڑوں‘ سیاسی قضیوں اور معاشی تنازعوںسے بالاتر ہو کر اپنی پوری توجہ دنیا کے سارے انسانوں کو اﷲ کی بندگی کی دعوت دینے اور غیراﷲ کی حاکمیت ختم کرنے پر صرف کرنی چاہیے‘ کیونکہ انسانی معاشرے میں اس تبدیلی کوبرپا کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

ہندستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مسلمان قائدین اس بنیادی کام کے بجاے جن مسائل میں الجھے ہوئے تھے‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلۂ تحریر میں مولانا مودودی ؒ   لکھتے ہیں: ’’مغربی طرز کے لیڈروں پر تو چنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی ہے‘ مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علماے کرام پر جن کا رات دن کا مشغلہ ہی ’قال اﷲ و قال الرسول‘ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ قرآن کو کس نظر سے پڑھتے ہیں کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی انھیں اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمانوں کے لیے اصولی طور پر مقرر کردی گئی ہے۔جن مسائل کوانھوں نے اہم اور اقدم قرار دے رکھا ہے‘ قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا نشان بھی نہیں ملتا۔برعکس اس کے قرآن میںہم دیکھتے ہیں کہ نبی پر نبی آتا ہے اور ایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے:  یٰقَوْمِ اعْبُدُوْاﷲ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗخواہ بابل کی سرزمین ہو یا ارضِ سدوم‘ یا ملک مدین‘ یا حجر کا علاقہ‘ یا نیل کی وادی‘ خواہ وہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو یا بیسویں یا دسویں‘ خواہ وہ غلام قوم ہویا آزاد‘ خستہ و درماندہ ہو یا تمدنی وسیاسی حیثیت سے بام عروج پر۔ ہر جگہ‘ ہردور میں‘ ہر قوم میں‘ اﷲ کی طرف سے آنے والے رہنماؤں نے انسان کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی‘ اور وہ یہ تھی کہ: اﷲ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)

  • اُمُّ المسائل :غیراﷲ کی حاکمیت: اس کے بعدمتعدد انبیا علیہم السلام کی اقوام کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل کا حوالہ دینے کے بعد کہتے ہیں:’’یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن ملکوں اور قوموں میں انبیا علیہم السلام آئے ان میں سرے سے کوئی سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی مسئلہ حل طلب تھاہی نہیں جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہوتی۔ پس جب یہ واقعہ ہے کہ اسلامی تحریک کے ہررہنما نے ہر ملک اور ہرزمانے میںتمام وقتی اور مقامی مسائل کو نظرانداز کرکے اسی ایک مسئلے کو آگے رکھااور اسی پر اپنا سارا زور صرف کیاتو اس سے صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ اُمُّ المسائل تھااور وہ اسی کے حل پر زندگی کے تمام مسائل کا حل موقوف سمجھتے تھے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶)

اسی سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے‘ سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے‘ نہ جانتے تھے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدم اور کون سی مؤخر ہونی چاہیے‘ اور انھیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں۔یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اِس دور میں جو حضرات اسلام کے نمایندے اور مسلمانوں کے قائد و رہنما بنے ہوئے ہیں‘ وہ جزئیات شرع پر کتنا ہی عبور رکھتے ہوں‘ بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۶)

  • انبـیا کا راستہ ہی مسلمانوں کا راستہ ہے:اس پوری بحث سے یہ حتمی نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں حقیقی خیر وفلاح کی حامل تبدیلی لانے کی جدوجہد کرنے والوں کو وہی طریق کار اختیار کرنا ہوگا جو ہردور میں اس تحریک کے اصل رہنماؤں‘ یعنی اﷲ کے نبیوں نے اس کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کیا‘ چنانچہ کہتے ہیں: ’’تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اُس تحریک سے ہے جس کے رہبرورہنما انبیا علیہم السلام تھے۔ہر تحریک کا ایک خاص نظام فکر اورایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔اسلام کا نظام فکر اور طریق کار وہ ہے جو ہم کو انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانے میں ہوں‘ اور ہمارے گردوپیش مسائل و معاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں‘ ہمارے لیے مقصد اور نصب العین وہی ہے جو انبیا کا تھا اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیا ہرزمانے میں چلتے رہے:  اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اﷲ فَبھَدٰھُمُ اقْتَدِہْ (الانعام۶:۹۰)۔ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اسی نظرسے دیکھنا چاہیے جس سے انھوں نے دیکھا۔ہمارا معیار قدر وہی ہونا چاہیے جوان کا تھا‘اور ہماری اجتماعی پالیسی انھی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انھوں نے قائم کی تھی۔اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرز عمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہوجائیں گے۔

یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند ‘یا ایک اشتراکی اس کو دیکھتا ہے۔جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘انھی کی زبان میں باتیں کریں گے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تواپنی وقعت کو ہم خودہی خاک میں ملادیں گے… تعداد کی بنا پر اکثریت و اقلیت کے نوحے‘ یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ و پکار---  یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں …] حالانکہ[ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں… اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶-۱۰۸)

ان اقتباسات سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ دنیا میں اسی معاشرتی تبدیلی کی دعوت لے کراٹھے تھے‘ جس کے لیے انبیاکرام دنیا میں بھیجے گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ اسی تبدیلی کی جدوجہد دنیا میں ان کا مشن ہے اور اس کا طریق کار وہی ہے جو اﷲ کے رسولوں نے اپنے ادوار میں اختیار کیا‘ اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہر زمانے کے لیے اسی نہج پر پھیلانا اور تبدیلی لانے کی کوشش کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔

  • اسباب اور وسائل کا مسئلہ : ان کے اس مطالبے پرجب یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس کام کوآخر اس حالت میں کیسے شروع کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان دنیاوی وسائل کے اعتبار سے اپنے حریفوں سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ اس جدوجہدکو شروع کرنے سے پہلے مسلمان دنیاوی اسباب سے مالامال اپنے حریفوں سے مقابلہ کرنے کے لیے پہلے خود بھی ان کے ہم پلہ بن جائیں اور اپنے آپ کو بحیثیت قوم منظم کرلیں‘ تو مولانا مودودیؒ نے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ جن مشکلات کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں ان میں قطعاً کوئی وزن نہیں‘ بلکہ خود یہی بات کہ حکومت الٰہیہ کے راستے میں انھیں اس نوعیت کی مشکلات نظر آتی ہیں‘ اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کے طریق کار کو سرے سے سمجھا ہی نہیں۔زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔اگراس تحریک کی تاریخ ہمارے سامنے ہو تو بادی النظر ہی میں ان عذرات کی غلطی نمایاں ہوجاتی ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۱)

’’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے جولائی ۱۹۴۰ء کے شمارے میں چھپنے والے اس مضمون میں جو اَب تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے دوسرے حصے میں موجود ہے ‘ اس نکتے کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے‘ اکیلا ہی آیا ہے۔ اقلیت و اکثریت کا کیا سوال‘ وہاں سرے سے کوئی ’’مسلمان قوم‘‘ ہی موجود نہ تھی۔ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اٹھتا ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔چند گنے چنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں‘ اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت‘ حکومت الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے… بارہا وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا‘ اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں اس تحریک کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔مگر اس کے باوجود جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے تھے اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا‘ انھوں نے آخری سانس تک بس اسی مقصد کے لیے کام کیا‘ اور کسی ایک نے بھی اکثریت کا یا حکومت کا رنگ دیکھ کر‘ یا وقتی اور مقامی مشکلات کا خیال کرکے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔

پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کو اٹھانے اور چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی سازگاری کی ضرورت ہے۔جس سامان اورجس سازگار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے نہ کبھی فراہم ہوگا۔دراصل خارج میں نہیںبلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے کہ یہی مقصد حق ہے‘ اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ میرا جینا اور مرنااسی مقصد کے لیے ہے۔یہ ایمان‘ یہ شہادت‘ یہ عزم موجود ہو تو دنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۱-۱۱۲)

  • اصولی تحریک کی طاقت: اسی تحریر میں اس امر کی صراحت کے بعد کہ مسلمان ایک قوم نہیں جس کی دل چسپیوں کا میدان صرف ان کی قوم ہو‘ بلکہ ایک عالمی نظریاتی جماعت ہیں اوران کا نظریہ پوری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔ یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ایسا نظریہ رکھنے والی جماعت حالات کی تمام تر ناسازگاری کے باوجود پوری انسانی برادری کے دل جیت لینے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں:

دراصل ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر چھاجانے کی قوت اگر ہے تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے جو انسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہو‘اور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔قومیت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔ قومیت کے حصار‘ نسلوں کے تعصبات‘قومی ریاستوں کے مضبوط بند‘ کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہرطرف‘ ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروؤں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ایک اکیلا آدمی اس کو اٹھانے کے لیے کافی ہے۔پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔وہ اپنے دشمنوں میں سے دوست پیدا کرتی ہے۔سب قوموں کے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں‘ ان پر وہ اپنے اصولوں کے تیر بھی چلاتی ہے۔خون کے پیاسے دشمنوں میں سے وہ اپنے سرگرم حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ سپاہی‘ جنرل‘ ماہرین فنون‘سرمایہ دار‘ صناع اور کاریگر‘ سب انھی میں سے اس کو مل جاتے ہیں‘ اور بے سروسامانی میں ہرقسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔ قومیتیں اس کے سیلاب کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھیرسکتیں۔بڑے بڑے پہاڑ    اس کے سامنے آتے ہیں اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آب ِرواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے اقلیت و اکثریت کے سارے سوالات بے معنی ہیں۔وہ اس کی ہرگز محتاج نہیں ہوتی کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔وہ قومی حکومت قائم کرنے نہیں اٹھتی کہ قومیں اس کی مزاحمت کرسکیں۔اسے    تو ایک ایسے اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے جو سب قوموں کے لوگوں کی  فطرت کو اپیل کرتا ہو۔جاہلی تعصبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں مگر جب فطرتِ انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے تو وہ کیفیت ہوتی ہے کہ    ؎

ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف

بامید آنکہ روزے بہ شکارخواہی آمد

]صحرا کے تمام ہرن اپنے سر ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں‘ اس امید پر کہ کسی دن وہ شکار کرنے تو آئے گا۔[

  • اسلامی تحریک اور قومی حقوق کے جھگڑے: جغرافیائی‘ نسلی یا لسانی رشتوں کی بنیاد پر بننے والی قوم کے مقابلے میں ایک آفاقی نظریے پر تشکیل پانے والی جماعت کی قوت اور دائرۂ اثر کی اس تشریح اور مسلمانوں کو اس کے مطابق ایک جماعت قرار دینے کے بعد مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اگر… مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک عالم گیر اصولی تحریک کے پیروؤں اور داعیوں کی ہے تو وہ سارے مسائل یک قلم اُڑ جاتے ہیںجن پر اب تک مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی رہنما وقت ضائع کرتے رہے ہیں…… نہ ہمارا کوئی قومی جھگڑا ہے‘ نہ ]متحدہ[ وطنیت کی بنیاد پر ہماری لڑائی ہے‘نہ ان ریاستوں سے ہمارا کوئی رشتہ ہے جہاں نام نہاد مسلمان خدا بنے بیٹھے ہیں‘ نہ اقلیت کی حیثیت سے اپنے تحفظ کی ہمیں ضرورت ہے‘ نہ اکثریت کی بنیاد پر اپنی قومی حکومت ہمیں مطلوب ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف ایک مقصد ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ اﷲ کے بندے اﷲ کے سوا کسی کے محکوم نہ ہوں۔ بندوں کی حاکمیت ختم ہوجائے اور حکومت اس قانونِ عدل کی قائم ہو جو اﷲ نے خود بھیجا ہے۔اس مقصد کو ہم انگریز ‘ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور مردم شماری کے مسلمان‘ سب کے سامنے پیش کریں گے‘ جو اسے قبول کرے گاوہ ہمارا رفیق ہے اور جو اس سے انکار کرے گا اس سے ہماری لڑائی ہے بلا لحاظ اس کے کہ اس کی طاقت کتنی ہے اور ہماری کتنی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۷-۱۱۸)

اس وضاحت کے بعد کہ پوری انسانیت کی فلاح کی علم بردارایک عالم گیر اصولی تحریک کے داعیوں کی حیثیت سے مسلمانوںکا دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ مادّی مفادات کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ اس حیثیت کے عملی تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد اور اغراض کو بھول جائیں‘ تمام تعصبات سے بالاتر ہوجائیں‘اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظر ہٹالیں جن سے ہمارے حقیر دُنیوی فوائد کا تعلق ہے… اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصب میںمبتلا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔ اگر ہم ]نام کی مسلم[ ریاستوں کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے ] حکمران[ مسلمان ہیں اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے‘ تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی یہ باور  کرلے گا کہ ہم اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں اور واقعی حکومت الٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۱۸)

  • جماعت اسلامی کا مقصود: فلاحِ انسانیت: اس فرق کو پوری طرح جاننے ہی کا نتیجہ تھا کہ اگست ۱۹۴۱ء میں جب مولانا مودودیؒ کی اس دعوت پر پورے ہندستان سے لبیک کہنے والے۷۵ افراد پر مشتمل جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیاتو مولانا مودودیؒ نے اپنی تاسیسی تقریر میں واضح کردیا کہ یہ جماعت دنیا بھر کے انسانوں کی فلاح کے لیے اٹھی ہے۔اُس دور میں مسلمانوں کی جو دوسری تنظیمیں موجود تھیں‘ ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امتیاز پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا:

ان تحریکوں کی نظر صرف ] مقامی[ مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلادی۔مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے ’’مسلم قوم‘‘ میں شامل ہیں‘ اور ان کی   دل چسپیاں بھی انھی مسائل تک محدود رہیں‘ جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے‘ جو غیرمسلموں کواپیل کرنے والی ہو‘ بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سدراہ بن گئی ہیں۔لیکن ہمارے لیے چونکہ خوداسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے ‘ لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے‘ بلکہ پوری نوع انسانی اور سارے کرۂ زمین پر وسیع ہے۔تمام انسانوں کے مسائل زندگی ہمارے مسائل زندگی ہیں‘ اور اﷲ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے ہم ان مسائل زندگی کا  وہ حل پیش کرتے ہیں‘جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ (روداد جماعت اسلامی‘ حصہ اول‘ ص ۱۱)

  • اسلامی تحریکیں اور غیرمسلموں میں دعوت؟ یہاں اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ اسلامی تحریک کی آفاقی حیثیت کا اتنا واضح شعور موجود ہونے کے باوجود جماعت اسلامی سمیت عالمی اسلامی انقلاب کی داعی کوئی بھی تحریک آخر آج بالفعل پوری دنیا کے انسانوں کو یکساں طور پر مخاطب کرتی اورمسلمانوں کے وقتی اور مقامی مسائل اور مختلف قوموں کے ساتھ ان کے قومی حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتر رہتے ہوئے‘ مکمل غیر جانب داری کے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں کو بندگی رب کی وہ دعوت دیتی کیوں دکھائی نہیں دیتی‘ جو خاتم الانبیاؐکی امت کی حیثیت سے مسلمانوں کا اصل مشن ہے ؟براے نام مستثنیات کو چھوڑ کر ان کا سارا کام صرف نسلی مسلمانوں تک کیوں محدود ہے؟ عملاً ان کی ساری دل چسپیاں صرف مسلمانوں کے مفادات کے گرد کیوں گھومتی ہیں؟اورخیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ غیر مسلم دنیا کو دوزخ سے بچا کر جنت میں لے جانے کی کوئی واضح فکر اور اس کے لیے عملی کوشش ان کے ہاں کیوں نظر نہیں آتی؟
  • ماڈل اسلامی ریاست کے قیام کی حکمت عملی: ہماری عاجزانہ رائے میں کم ازکم پاکستان کی حد تک اسلامی تحریک کے عملی رویے میں یہ فرق آزادی کے بعد ساری توجہات کے اس بات پر مرتکز ہوجانے کی وجہ سے رونما ہوا کہ پہلے پاکستان کوایک ماڈل اسلامی ریاست بنایا جائے اور اس کے بعد پوری دنیا کو اسلام کی دعوت عام دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے ‘کیونکہ جب ایک نمونے کی اسلامی ریاست موجود ہوگی تو پوری دنیا اسلام کے نظام عدل و رحمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی اور اس کے لیے دلوں کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ یہ کوئی غیر شعوری رویہ نہیں تھا‘ بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اسے اختیار کیا گیا تھا۔چنانچہ ۱۹۷۰ء میں پاکستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی کے انتخابی منشور کے دیباچے میں یہ بات ان لفظوں میں کہی گئی ہے:

یہ جماعت کوئی قوم پرست یا وطن پرست جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانیت کی فلاح اس کے پیش نظر ہے‘ مگر وہ یقین رکھتی ہے کہ جب تک ہم خود اپنے ملک کو اسلامی نظام کا مثالی نمونہ نہ بنادیں‘ اور جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جس حق و صداقت پر ہم ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں‘ اور جب تک ہم یہ نہ دکھادیں کہ اس پر عمل کرنے کے کیسے بہتر نتائج ہمارے ملک میں برآمد ہوئے ہیں‘ اس وقت تک ہم دنیا کو اس کے حق اور صداقت ہونے کا قائل نہیں کرسکتے۔

اسی مقصد کے لیے جماعت نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر اسلامی ریاست قرار پاجانے کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے کا اصل مقصد اس ذریعے سے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانا تھا اور مقصودیہ تھا کہ مسلسل انتخابی عمل بالآخر لوگوں میں بھلے برے کا شعور پیدا کردے گا اور معاشرہ اس تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجائے گا جو جماعت اسلامی کو مطلوب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عملمیں انتخابی سیاست میں شرکت کی یہی حکمت بتائی ہے۔

  • پایدارانقلاب کی بنـیاد: سیاسی جوڑ توڑ یا کسی اور شارٹ کٹ کے ذریعے معاشرے کو ذہنی طور پر تیار کیے بغیر اقتدار کا حصول کبھی ان کے پیش نظر نہ تھا۔یہ بات وہ ہر اس جگہ کہتے رہے‘ جہاں اس کی ضرورت تھی‘ مثلاً تفہیمات جلد سوم کے آخری صفحے پر ان کی یہ ہدایت آج بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ:

اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے‘ اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی   نسبت زیادہ خراب۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔      کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے‘ لوگوں کے خیالات بدلیے‘اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا‘ اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔

  • تحریک اسلامی کی اصل ذمہ داری: مولانا مودودیؒ اپنی اس رائے پر اپنی زندگی کے آخری مراحل تک پوری طرح قائم رہے۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی ناکامی کے تناظر میںجب ۱۹۷۴ء میںنوجوانوں کے ایک اجتماع میں ان سے پوچھا گیا کہ’’جماعت اسلامی ۳۰‘۴۰ سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود اقتدار حاصل نہ کرسکی اور پاکستان پیپلز پارٹی چندسال کے اندر ہی اقتدار تک پہنچ گئی اور آج وہ ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ کیا یہ بات تحریک اسلامی کی غیرمقبولیت کا ثبوت نہیں؟‘تو انھوں نے جواب دیا:

جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی‘ جھوٹ نے شکست دی ہے۔جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔ لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسرعام گالیاں نہیں دیں۔اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں‘‘۔کچھ لوگ ]مجھ سے[ کہہ رہے تھے کہ:’’کچھ نہ کچھ آپ کوبھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیے۔کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمہ داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کے اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ‘ گالی گلوچ اور دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔جو ذمہ داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو    اﷲ اور رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے ‘اس کے مطابق کام کریں۔آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک کے اندر ضرورہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔اسلامی نظام کا قیام تو اﷲ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے‘ اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے‘ جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے‘ یا ان کو تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھارہی ہے۔آپ کاکام اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے‘ جان کھپانا ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریںگے توماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں  خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔(تصریحات‘ص ۲۷۷-۲۷۸)

  • علمی و فکری انقلاب: غلـبۂ اسلام کی واحد راہ: یہ بات واضح ہے کہ پوری دنیا کو اسلام کی دعوتِ عام سے پہلے پاکستان میں انتخابی اور سیاسی طریقوں سے مطلوبہ معاشرتی تبدیلی کے لیے جدوجہد کو اولیت دینے کا جو فیصلہ مولانا مودودیؒ کی قیادت میں کیا گیا‘ اس کے پیچھے بھی اصل خیال یہی تھا کہ ماڈل اسلامی ریاست  کے قیام سے دنیا کے لیے اس نظام کو سمجھ کر قبول کرنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔یہ بات ایک تدبیر کے طور پر اگرچہ درست تھی‘ لیکن چونکہ پاکستان کا قیام کسی شعوری اسلامی تحریک کے بجاے  مسلم قومیت کی جذباتی تحریک کا نتیجہ تھا‘ لہٰذا یہاں نہ قیادت کسی حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تیار تھی اور نہ عوام ہی اس کے تقاضوں سے آگاہ تھے۔نتیجہ یہ کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی عمل میں نہ آسکا اور دینی و لادینی قوتوں کے درمیان ر سہ کشی آج بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود یہ جدوجہد اپنی جگہ انتہائی اہم ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے‘ تاہم چونکہ ساری توجہ اسی پر مرتکز ہوجانے کی وجہ سے اسلامی تحریک کی دل چسپیوں کا دائرہ عملی طور پر رفتہ رفتہ صرف پاکستان اور زیادہ سے زیادہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ اور پوری انسانی برادری کو یکساں طور پر اور مکمل غیرجانبداری کے ساتھ اﷲ کی طرف بلانے کاکام نہیں ہوپارہا ہے جس کی وجہ سے اس کے پروگرام میں غیرمسلم دنیا کو اپنے لیے کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ اس لیے مقامی سطح پر نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق تحریک اسلامی کے دائرہ کارکو پوری انسانی برادری تک وسعت دینے کا پروگرام مرتب کیا جانا اور   روبۂ عمل لایاجانا چاہیے۔

مولانا مودودیؒ کے ہاں سے جو رہنمائی ملتی ہے اس کی رو سے دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت کے خاتمے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حاکمیت کے قیام کا یہ کام‘ عالمی سطح پر ایک علمی و فکری انقلاب برپا کرکے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:’’اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکراسلام سے منحرف ہورہے ہیں‘ اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی و فکری دبدبہ اور تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے‘ اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیںکہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہوگا‘ جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے…… اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کوڈھادیں جن پر مغربی ]لادینی[ تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔قرآن کے بتائے ہوئے  طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیںجو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ایک نئی حکمت طبیعی(نیچرل سائنس) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکرو تحقیق کی اساس قائم کریںاور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پرچھاجائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو‘‘۔ (تنقیحات‘ص:۱۹-۲۰)

  • وقت کا اصل تقاضا: در اصل یہی وہ راستہ ہے جسے اختیار کرکے دنیا کو یہ حقیقت باور کرائی جاسکتی ہے کہ اسلام تمام نوع انسانی کو ظلم اور بے انصافی سے نجات دلانے اور عزت و شرف اور فلاح و ترقی کی حقیقی شاہراہ پر گام زن کرنے والا واحدنظام زندگی ہے اور کسی مخصوص انسانی گروہ کے مفادات کا تحفظ اس کا مقصود نہیں ہے۔اس طرح پوری دنیا کے  انسانوں کے دلوں کے دروازے دعوت اسلامی کے لیے کھلنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ جس معاشرتی تبدیلی کا پرچم لے کر اٹھے تھے‘اس راستے کو اختیار کیے بغیر اس کے وقوع پذیر ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ مادّی وسائل میں ساری کم تری کے باوجودعقیدے اور فکر کا یہ میدان وہ ہے‘ جس میں دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو شکست نہیں دے سکتی ۔مغرب کی مادّی تہذیب پر اس میدان میں اسلام کو یقینی برتری حاصل ہے۔وہ انسانیت کے مسائل کو حل کرنے‘ظلم کو ختم اور انصاف کو قائم کرنے میں قطعی ناکام ہوچکی ہے اور اپنے ہی تضادات کا شکار ہوکر تیزی سے  روبہ زوال ہے ۔ یہ تہذیب قرآن کی روشنی میں کی گئی تنقید کا مقابلہ کرنے کی ہرگز سکت نہیں رکھتی۔

اس کام کو شروع کرنے کے لیے اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ مسلمان پہلے سائنس اور ٹکنالوجی میں جدید مادّہ پرست قوتوں کے ہم پلہ ہوجائیں‘صنعت و حرفت میں ان کی برابری کرنے لگیں اورفوجی طاقت میں ان کی ٹکر پر آجائیں۔مولانا مودودیؒ کے بقول اس کام کا آغاز تمام وسائل سے محروم پوری دنیا میں ایک اکیلا شخص بھی کرسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت کی نمرودی اور فرعونی تہذیبوں کو چیلنج کرنے کا یہ کام ہمیشہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام جیسے ظاہری دنیاوی وسائل سے سراسر محروم انسانوں ہی نے کیا ہے۔البتہ آج کی اسلامی تحریکوں کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو عملاً محض مسلمانوں کے قومی مفادات کی وکالت اور اس سلسلے میں دوسری اقوام کے ساتھ ان کے تنازعات میں جانبداری سے بالاتر ہونا پڑے گا۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم’’وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیں‘‘۔اس حوالے سے اپنے مشہور مقالے اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ میں وہ کہتے ہیں:

اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں‘ صرف انسان ہیں۔ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ ’اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی فلاح ہے‘اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ‘ زبان‘ افعال اور حرکات‘ ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کواپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا‘پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہورہی ہیں‘جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیادہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں‘ ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑوں سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ ج ۲‘ ص ۱۶۶)

  • اعترافِ حق کی منزل قریب ہے: حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے حالات بندگیِ رب کی دعوت کی اشاعت اور قبولیت کے لیے جتنے آج سازگار ہیں‘ انسانی تاریخ کے کسی دور میں نہیں رہے۔ہر نبی کے دعوت کی راہ میں عموماً سب سے بڑی رکاوٹ تقلید آبا کا روگ ہوتا تھا۔ لوگ صاف کہہ دیتے تھے کہ ہم تو وہی کچھ کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ روایت پرستی بالکل ختم ہوچکی ہے اور جدید دور کے انسان سے دلیل کی بنیاد پر بات کی جاسکتی ہے۔سائنس کے نام پر انکارِ خدا کا فتنہ بھی دم توڑ چکا ہے اور جدید سائنس ‘تخلیق کائنات کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈ یاخالق کی موجودگی کی پوری طرح قائل ہے۔اشتراکیت کا نظریہ اپنی جنگ ہار چکا ہے ‘جب کہ سرمایہ داری نے دنیا کو ظلم اور فساد سے بھردیا ہے۔ اس کے نتیجے میںآج کا انسان شعوری یا لاشعوری طور پر ایک ایسے نظامِ زندگی کا متلاشی ہے جو اس کی روحانی پیاس بھی بجھائے اور دنیا کے معاملات میں اس کے لیے انصاف ‘ عافیت اور خوش حالی کاضامن بھی ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بنادیا ہے۔ ٹیلی وژن کے سٹیلائٹ چینل اور انٹر نیٹ جیسی ایجادات نے ہر ایک کے لیے پوری دنیا تک بیک وقت اپنا پیغام پہنچانے کی سہولت مہیا کردی ہے۔ان حالات میں یہ بات واضح ہے کہ اب دنیا میں جو تبدیلی بھی آئے گی‘ عالمی سطح ہی پر آئے گی۔ افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں سے دنیا کا کوئی گوشہ اثرپذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جس کا پیغام زیادہ موثر اور جان دار ہوگا بالآخر وہی جدید انسان کے ذہن کو مسخر کرنے اور اس کا دل جیتنے میں کامیاب رہے گا۔آج اگر مغرب اپنے پروپیگنڈے کی طاقت سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دوسرا نام ہے‘ تو انھی جدید ذرائع سے لوگوں تک اسلام کی صحیح دعوت پہنچاکر کل صورت حال یکسر بدلی بھی جاسکتی ہے‘کیونکہ اسلام بہرحال حق ہے اوریہ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روشنی کے سامنے اندھیرا کبھی نہیں ٹھیرتا۔ جاء الحق وزھق الباطل‘ انّ الباطل کان زھوقا۔دنیا کی یہ کیفیت اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ جو نبی ؐ پوری انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور جس کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اس کی امت کے سپرد کی گئی ہے‘ اس نبیؐ کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔

دور حاضر میں اسلامی تحریک کو اپنی حکمت عملی وقت کے اس تقاضے کے مطابق ترتیب دینی چاہیے۔ مقامی طور پر نفاذ اسلام کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی ؒکے افکار کے مطابق عالمی محاذ پرعلمی و فکری کام کے لیے بھی اسے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا معقول حصہ وقف کرنا چاہیے‘ اور ان کاوشوں کو جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا تک پورے اہتمام کے ساتھ پہنچاناچاہیے۔ان کوششوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ نفاذ اسلام کا سلسلہ کسی مسلمان ملک کے بجاے کسی ایسے غیر مسلم ملک سے شروع ہوجائے جس کے بارے میں ابھی سوچابھی نہ جاسکتا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اﷲ کے نبیؐ کی دعوت مکہ میں اس کے ہم وطنوں سے پہلے حبش کے بادشاہ اور مدینہ کے اجنبیوں نے قبول کی ۔ داس کیپی ٹال جس ملک میںلکھی گئی اس کی بنیاد پر انقلاب اس ملک سے ہزاروں میل دور زاروں کی سرزمین اور چیانگ کائی شیک کے وطن میں برپا ہوا۔ ابوجہل اور ابولہب کی صفوں سے اگر ڈیڑھ ہزار برس پہلے لشکر اسلام کو عمرؓ بن خطاب اور خالدؓ بن ولید جیسے مردانِ کار دستیاب ہوسکتے تھے توآخرآج کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں کیوں میسر نہیں آسکتے ؟پھر جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے انتظار میں بندگیِ رب کی دعوت دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے سے رکے رہنے کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے۔ اس دعوت کا تعلق صرف اجتماعی معاملات سے نہیں‘ ہر فرد کی انفرادی فلاح و نجات سے بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونے والا ہر شخص رب کائنات کے حضور یہ شکایت کرنے میں بالکل حق بجانب ہوگا کہ جن لوگوں کوآپ نے اپنے آخری پیغام کا امین اورپوری دنیا کے لیے اس حق کا گواہ بنایا تھا‘وسائل موجود ہونے کے باوجودانھوں نے یہ پیغام ہم تک نہیں پہنچایا‘ اس لیے ہمارے دوزخ میں جانے کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔

آج غیروں کی زیادتیوں کے ردعمل میںچلنے والی احتجاجی تحریکوں پرمسلمانوں کے جو وسائل صرف ہورہے ہیں اور جتنی جانی قربانیاں ان تحریکوں کے وابستگان دے رہے ہیں ‘اگر یہ مالی وسائل اور یہ انسانی توانائیاں دنیا تک اسلام کے پیغام کو قومی حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتررہتے ہوئے پوری انسانیت کے لیے خیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ پہنچانے پر صرف کی جائیں‘ تو یقینی طور دنیا میں اسلام کی مقبولیت کے حوالے سے کہیں بہتر نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا پراﷲ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مولانا مودودی ؒنے اسی راستے کی نشان دہی کی ہے‘ اورانسانی معاشرے میں مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق تبدیلی برپا کرنے کے لیے اسی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔

برعظیم کے عظیم مصلحین میں سے ایک علامہ ابوالاعلیٰ مودودی ؒہیں۔ آپ نے اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی‘ جو عمرانی اور تربیتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کی تفسیر اور دیگر تالیفات کا قابلِ ذکر حصہ دوسری زبانوں کے علاوہ عربی‘ فارسی‘ ترکی بنگالی‘ ہندی‘ پشتو‘ جرمنی اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

علامہ مودودیؒ محض پاکستان سے ہی تعلق نہیں رکھتے‘ بلکہ آپ کا تعلق پورے عالمِ اسلام سے ہے۔ آپ کے افکار و آثار ‘یعنی تصنیفات و تالیفات‘ دنیاے اسلام میں دستیاب ہیں۔ جونہی آپ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور استعمار اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا طبقے پر کھل کر تنقید کی‘ تو آپ کی آواز پوری دنیا میں ہر جگہ پہنچی اور رفتہ رفتہ آپ کی کتابوں کامختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ایران اور فارسی جاننے والے ممالک میں آپ کی تالیفات فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں‘ جن سے شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر نے استفادہ کیا۔

سید ابوالحسن علی ندویؒ ایک بڑے عالم دین اور علامہ مودودی ؒکے ہم عصر ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں نے اسلامی تہذیب کے اس دور میں آپ جیسا کوئی اور شخص نہیں دیکھا جس نے فکر و خیال پر اتنے زیادہ اثرات چھوڑے ہوں‘‘۔

علامہ مودودیؒ کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کے ایک اہم موڑ پر قرآن مجید کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ آپ ان مصلحین میں سے تھے جنھوں نے برعظیم میں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ آپ سے پہلے سید جمال الدینؒ اسد آبادی (۱۲۵۴ھ - ۱۳۱۴ھ) اور شیخ محمد عبدہؒ (۱۲۶۶ھ - ۱۳۲۴ھ) مشرقِ وسطیٰ میں دعوت دے چکے تھے۔ رجوع الی القرآن کا یہ نظریہ اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن مجید کئی برسوں سے‘ عوام کی زندگی سے بہت دور‘ الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ قرآن مسلمانوں کی نظر میں محض ایک مقدس کتاب تھی‘ وہ اس کا احترام کرتے تھے۔ اسے چومتے تھے‘ خوشی و غمی کے موقعے پر اس کی تلاوت کرلیتے تھے اور مُردوں کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن پڑھا لیتے تھے۔ مگر زندگی کی سرگرمیوں میں اسے دستورالعمل بنالینے کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

علامہ مودودیؒ نے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی جو دعوت دی ہے‘ وہ دراصل قرآن کی عزت و احترام کی طرف حقیقی معنوں میں لوٹنے کی دعوت ہے۔ یہ مسلمانوں کی فکری پس ماندگی کے خاتمے اور تہذیبی زوال کی تلافی کی دعوت ہے۔ قرآن کی طرف پلٹنا ایک ایسی کتاب کی طرف پلٹنا ہے جو تنہا سند حجت ہے‘ قطعی اور متواتر ہے‘ تحریف سے پاک ہے اور تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول و محترم ہے۔ اس کتاب سے جہاں بانی و جہاں بینی کے اصول و عقائد اور احکام و اقدار حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے غلو آمیز خرافاتی عقائد کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس پر سبھی مسلمانوں کا ایمان و اتفاق ہے۔ اس لیے یہ اتحاد اور مسلمانوں کی عمرانی او ر سیاسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس کتاب سے تعلیم میں انقلاب اور سماجی ترقی وجود میں آ سکتی ہے۔

علامہ مودودی ؒ نے قرآن کے اصل پیغام کو پہچان کر جو ذہنی رفعت حاصل کی ہے‘ آپ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ… علم کی جڑ      اب ہاتھ آئی ہے… دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظرآتے ہیں… کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے… اور پھر بھی حل نہ کر سکے۔ ان کو اس کتاب ]قرآن کریم[ نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے‘ حیوان سے انسان بنا دیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی‘ اور ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو master key (شاہِ کلید) کہتے ہیں‘ جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو‘ میرے لیے یہ قرآن ’شاہِ کلید‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔(تفہیم القرآن فارسی‘ ج۱‘ ص ۲‘ ترجمہ: کلیم اللہ )

علامہ مودودی ؒسے پہلے علامہ اقبال ؒنے برعظیم میں رجوع الی القرآن کی دعوت دی تھی۔ انھوں نے اپنی کتاب اسرارِ خودی اور دیگر کتابوں اور اپنے اشعار میں قرآن کی طرف رجوع کے لیے کہا تھا‘ کہ اس سے مسلمان اپنے آپ کو پالیں گے اور غیروں کی تہذیب اپنانے کی ذلت سے بچ جائیں گے۔ دنیا پر مغربی اقوام کے تسلط سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلم نوجوان تہذیب مغرب کی چکا چوند سے فریب کھا کر حوصلہ نہ ہار بیٹھیں اور اسلام کی برتری و حقانیت سے ان کا اعتماد نہ اٹھ جائے۔ اسی لیے علامہ اقبال ؒنے انھیں بروقت خبردار کیا اور قرآن کی طرف بلایا۔

علامہ مودودی ؒنے ویسے تو کئی مقالات شائع کیے‘ مگر قرآن کی طرف واپسی کے جلیل مقصد کے لیے آپ نے اپنے رسالے ترجمان القرآن میں تسلسل سے لکھا‘ تاکہ عہدِ حاضر کی زبان میں معاشرے کو قرآنی فکر سے متعارف کروائیں۔ آپ نے ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے ایک پارٹی قائم کی اور اس کے ارکان کی ذہنی و فکری پرورش و تربیت قرآنی فکر سے کی۔

آپ نے اپنی تفسیر میں اس نکتے کو انتہائی سادگی اور اختصار سے بیان کیا ہے کہ نزولِ قرآن کا مقصد کیا ہے؟ قرآن کا کیا دستورالعمل ہے؟ قرآن جس انسان کا تعارف کرواتا ہے‘ وہ کس قسم کا انسان ہے؟ اور قرآن ایک نظام اور معاشرے کی تشکیل کے لیے کس قسم کا منصوبہ پیش کرتا ہے؟ علامہ کی تفسیر تفہیم القرآنکے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ اگرچہ اس کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ اور باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری اور ازبس مفید ہے۔ بہرحال یہاں اختصار کے ساتھ اس تفسیر کی چند خصوصیات اور نکات بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:

۱-  تفہیم القرآن عوام کی رہنمائی و آگاہی کے لیے سادہ زبان میں لکھی گئی ہے۔ ترجمہ و تشریح سے اس کا مقصد‘ متخصصین اور اہلِ فن کے ذوق کا سامان فراہم کرنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر میں اکیڈمک طرز کی بحث و تحقیق‘ ادبی نکتہ آفرینیوں یا اعجاز بلاغت کے نکتے پیش کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ علامہ مودودی چاہتے ہیں کہ قارئین تک قرآن کا پیغام پہنچائیں اور اس پیغام سے واقف ہونے کا اثر ان کی زندگی اور طرزِ عمل پر پڑے۔ ان کا مقصدِ زندگی اور حیاتِ عمرانی کا منشا بدل جائے۔

۲- اس تفسیر کی ایک خصوصیت اس کا ’عصری‘ ہونا ہے۔ ’تفسیر عصری‘ سے مراد یہ ہے کہ مفسر دینی و اعتقادی مباحث پیش کرتے وقت ایسا اسلوب اختیار کرے کہ عام ناظر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قرآن کا مفہوم و مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جائے اور وہ اپنے دور کی زبان اور فکر میں قرآن کے پیغام کو پا سکے۔ اسی طرح دورانِ مطالعہ جہاں جہاں اسے الجھنیں پیش آ سکتی ہوں وہ صاف کر دی جائیں۔ پھر جہاں کچھ سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوں‘ اس کا جواب اسے بروقت مل جائے۔ علامہ مودودیؒاپنی تفسیر کے مقدمے میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دیگر مفسرین کی کوششیں قابل قدر ہیں‘ مگر وہ آج کی ضروریات پورا کرنے اور تشنگی رفع کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ چاہیے یہ کہ موجودہ دور کے لحاظ سے تفسیر لکھی جائے‘ جس سے مناسب طور پر استفادہ کیا جا سکے۔

۳- اس تفسیر کی ایک ہم خصوصیت مفسر کا سماجی علوم و افکار سے واقف ہونا بھی ہے۔ اس صدی میں‘ علمِ تفسیر میں یہی بات قرآن کی طرف کشش و جاذبیت کا سبب بنی ہے۔ علامہ مودودیؒ ہرآیت کی تشریح میں یہ بتاتے ہیں کہ یہ آیت انسانی زندگی کے بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے‘ نیز معاشرے کو درپیش حقیقی ضروریات و مشکلات کا کیا حل بتاتی ہے؟ یوں آپ قرآن کی معاشرہ ساز تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہا ں ایک آیت کی تشریح کا خلاصہ بطور نمونہ درج کرتا ہوں: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۳۱) ’’اے محمدؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمھارے لیے تمھارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے‘‘۔ یعنی ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے‘ لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو‘ اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دوچار ہونا ناگزیر ہے‘ ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے جائو۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور اُدھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کار اپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے .....رہنمائی سے مراد صرف علمِ حق عطاکرنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے‘ اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بروقت صحیح تدبیریں سجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے۔ حق اور باطل کی کش مکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ہر ایک پر اہلِ حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۴۷-۴۴۸)

غرض یہ کہ اس عمرانی تفسیر میں راہِ عمل کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ راستے پر چلنے کے لیے مسلسل ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کو متحد‘ منظم اوریک جا رکھتی ہیں اور معاشرے کو تفرقے اور اتنشار سے بچاتی ہیں۔

۴-  تفہیم القرآنکی ایک اور اہم خصوصیت اسلامی مکاتب فکر اور فرقوں کے مابین قربت و ہم آہنگی کی روش اختیار کرنا ہے۔ یہ تفسیری منہج‘ فرقہ وارانہ مفاہمت پیدا کرنے‘ مسلمانوں کو متحد رکھنے اور اسلامی معاشرے میں فرقہ واریت اور تعصب کو ختم کرنے کی کوششوں کا ایک بڑا    جلیل القدر حصہ ہے۔ یہ جذبۂ اتحاد‘ عصرِ حاضر میں متعدد مسلم مصلحین و مفکرین میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مصنفین کا یقین ہے کہ تفرقہ بازی اور مذہبی اختلاف اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور امت اسلامی کے اتحاد کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ اسلامی معاشرے کے افراد مختلف سنی یا شیعہ اسلامی مکاتب فکر سے وابستہ ہوں‘ مگر چوں کہ مسلمان اسلام کی اصل بنیادوں جیسے: توحید‘ نبوت‘ معاد (آخرت) پر ایمان رکھتے ہیں‘ قرآن کو آسمانی اور الٰہی کتاب مانتے ہیں اور عملی لحاظ سے ارکانِ اسلام: نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد کے پابند ہیں‘ امربالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند ہیں‘ لہٰذا فقہی و اجتہادی اختلاف ان میں جدائی اور متحارب گروہ در گروہ بننے کا باعث نہ ہونا چاہیے۔

ہر فقہی مکتب فکر کی علمی کاوشیں اور مجتہدانہ تحقیقات جدائی‘ نزاع‘ لڑائی اور خون ریزی کا سبب نہ بننے پائیں‘ بلکہ ایک زندہ معاشرے میں اس قسم کے اجتہادات ایک فطری امر ہیں اور معاشرے میں کئی نقطہ ہاے نظر اور آرا کے ظہور کا باعث ہیں۔ لہٰذا ‘انھیں درجہ کمال اور ربط و اتحاد کا ذریعہ بننا چاہیے۔ خاص طور پر اگر یہ اجتہادات و آرا‘ سماجی فکر سے مربوط ہوں اور انسان کو زوال و پستی سے نجات دلانے والے ہوں۔ لہٰذا‘ اسلامی برادری میں ان اختلافات کو‘ دشمنانِ اسلام کے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ نہ بننے دینا چاہیے‘ تاکہ وہ اسلامی اخوت کی روح اور اتحاد ویک جہتی کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔

علامہ مودودیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو زندگی بھر وحدتِ اُمت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ وہ سورۂ آل عمران (آیت ۱۰۳) میں نکتۂ اتحاد کو یوں بیان فرماتے ہیں: مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ’دین‘ کی ہو‘ اسی سے ان کو دل چسپی ہو‘ اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں‘  پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا‘ جو اس سے پہلے  انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۲۷۶-۲۷۷)

علامہ مودودیؒ کا اسلامی مکاتب و مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا منہج و طریق ان لوگوں کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ہے‘ جو اپنی تفسیر کو اختلاف و نزاع اور مذہبی مجادلہ و کش مکش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور محبت و یکجہتی کو دگرگوں کرنے کا تہیّہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کسی بھی موقع و مناسبت سے اپنے مخالف فرقے یا جماعت پر حملہ کرنے اور اُن سے اختلاف کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اپنے مخالفین کو کافر فاسق اور گمراہ قرار دیتے ہیں اور دھڑے بندی سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ان حضرات نے قرآنی تفسیر کے اوراق کو محض اختلافی مباحث سے آلودہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات آیاتِ قرآنی کی وضاحت میں صرف اپنا ہی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔

ان کے برعکس علامہ مودودیؒ نہ تو فرقہ وارانہ اختلافات میں حصہ لیتے ہیں اور نہ مخالف کی تردید کو اپنی تفسیر کی شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ صرف قرآن مجید کے علمی‘ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی احکام کی وضاحت کرتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انھی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے‘ اور انھیں تہذیبی‘ سیاسی‘ معاشی‘ فکری اور جغرافیائی سطح پر غلام بناتا ہے۔

افسوس کہ اس مختصر مضمون میں‘ میں علامہ مودودیؒ کی تفسیر کی دیگر گوناگوں خصوصیات کو زیربحث نہیں لا سکا۔ ترجمے کے اسلوب اور تفسیر پیش کرنے کی کیفیت پر بھی روشنی نہیں ڈال سکا۔ مولانا کی تفسیر کے اہداف و مقاصد اور دیگر مرکزی نکات بھی بیان طلب رہ گئے ہیں۔

مولانا مودودیؒ کے زندہ کارناموںمیں ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کے دلوںمیںاسلامی عقائد اورنظام زندگی کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی‘ اور ان کی تحریروں نے مسلم نوجوانوں میں اس اعتماد کو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام زندگی ہے جو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (مجلہ البعث الاسلامی‘ بابت محرم ۱۴۰۰ھ)

یہ الفاظ عالم اسلام کے ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ہیں۔

سید مودودیؒ کی دعوت کادائرئہ اثر کسی خاص طبقے تک محدود نہیں رہا ‘ بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے اورہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ ان کی دعوت کا دائرئہ اثر صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں تھا‘ بلکہ ان کی دعوت انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی پر بھی یکساںطور پر حاوی تھی۔

مولانا مودودیؒ کی دعوت کا مرکز و محور اور منشا و مقصود بھی قرآن ہی تھا۔ چنانچہ یہی وہ سرچشمۂ ہدایت ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے اپنی دعوت کی ابتدا کی اور یہی وہ مینارۂ نور ہے جس کی روشنی میں انھوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا مولانا اس حوالے سے فرماتے ہیں:

جب میںنے الجہاد فی الاسلام لکھنے کا فیصلہ کیا تو اس سلسلے میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت پاک اور احادیث کا گہرامطالعہ کیا۔اس وقت مجھے یکا یک احساس ہوا کہ یہ کتاب تو ایک تحریک کی قیادت کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ یہ محض تلاوت کر کے رہ جانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس غرض کے لیے ہے کہ اس کو لے کر ایک تحریک دنیا میں اٹھے --- اسی خیال کو لے کر میں برسوں سوچتا رہا کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔ آخر کار ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی اورالحمدللہ اس کے صرف چھ ماہ بعد میں نے فروری ۱۹۴۲ء میں تفہیم القرآن لکھنے کاکام شروع کردیا ۔(مولانا مودودی کے انٹرویو‘ مرتبہ: ابو طارق‘ ص ۴۹۷)

اس طرح ۱۹۷۲ء میں تکمیل تفہیم القرآنکی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے سیدمودودیؒ نے اپنی دعوت اور قرآن کریم کے درمیان اس تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’جماعت اسلامی کی تحریک شروع کرنے کے ساتھ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنے قلم اور اپنی زبان سے اللہ کے دین کو سمجھانے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگا لوں لیکن جب تک خود اللہ کی کتاب کے ذریعے سے اللہ کے دین کوسمجھانے کی کوشش نہ کی جائے ‘ اس وقت تک دین کا فہم پوری طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب دین ہی کو سمجھانے کے لیے اللہ نے نازل کی ہے اور اگر دین کو سمجھانا ہے تو اس کتاب کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک لوگ اس کو نہیں سمجھیں گے‘ اس وقت تک ان کے لیے اس مقصد ہی کو سمجھنا ممکن نہیں ہے جس کے لیے میں اور میری جماعت کام کر رہی ہے‘‘۔ (رسالہ آئین‘ جولائی ۱۹۷۲ئ)

دراصل مولانا مودودیؒ کی دعوت کا سر چشمہ بھی قرآن کریم ہی ہے اور منشأو مقصودبھی۔ یہی وہ مرکز و محور ہے جس کے گرد ان کی پوری دعوت و تحریک گھومتی ہے ۔ یہی وہ کتاب عظیم ہے جس نے خود ان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ سراج منیر ہے جس کے ذریعے ان  پر حق واضح ہو ا۔ یہی وہ شاہ کلید ہے‘ جس کے ذریعے مولانا مودودی ؒ دور حاضر کے مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے قابل ہوئے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے ذریعے مولانا ؒ نے موجودہ دور کے نئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور معاشرے میںبرپا ہونے والی منفی تحریکوں کا سدباب کیا۔ ا سی کتاب کے ذریعے انھوں نے ـمغرب پرستی اور جدیدتہذیب کی ذہنی غلامی کاقلع قمع کیا اور موجودہ نسل کے اس اعتمادکو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بنی نوع انسان کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔

اس بحث سے سید مودودیؒ کی دعو ت و تحریک اور ان کی تفسیر کے درمیان گہرے تعلق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کی بنیاد ہی اس لیے رکھی کہ یہ قرآن کریم کی دعوت کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور قرآن کریم کی تفسیر اس لیے لکھی کہ تحریک اسلامی کی عملی رہنمائی کے لیے ایسا کرناناگزیر تھا ۔

l چند اہم پہلو: جب قرآن کے گہرے مطالعے سے ان پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل ہی اسی مقصد کے لیے کیا ہے کہ اس کے ذریعے عملاً ایک اسلامی تحریک برپا کی جائے‘ تو انھوں نے عملاً تحریک اسلامی کے قیام کا فیصلہ کر لیا۔ پھر جب انھوں نے عملاًدعوت کے میدان میں قدم رکھا تو انھیں اندازہ ہوا کہ جس مقصد کے لیے انھوں نے یہ تحریک برپا کی ہے‘ اس کی تکمیل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کو اس کا ذریعہ اور وسیلہ بنا یا جائے۔ چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کی تالیف شروع کر دی۔ مولانا مودودی ؒ کی دعوت اور ان کی تفسیر میںموجود اس تعلق کا یہ فطری نتیجہ ہوا کہ انھوں نے اپنی تفسیرمیں ان پہلوؤں کو زیادہ واضح کرنے کی طرف توجہ مبذول کی‘ جن کا تعلق دعوتِ دین سے ہے‘ یا جن میں فریضہ اقامتِ دین کی اہمیت واضح کی گئی ہے‘ یا ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو مغرب کی جاہلی تہذیب و نظریات کے غلبے کی وجہ سے  پس منظر میں چلے گئے تھے‘ یا جن کی حقیقت ان نظریات کی مصنوعی چکا چوند کی وجہ سے دھندلا گئی تھی۔

مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں موجودہ دور کے فتنوں ‘ ـ مغربی تہذیب کے جلو میں آنے والے ـ لادین ا ور ـ مادہ پرستانہ فلسفوں اور دیگر نئے نئے چیلنجوںکا جواب بھی قرآن کی روشنی میں دیاہے۔ ان کی تفسیر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے مستشرقین‘ عیسائی مشنریوںاور مغرب زدہ طبقے کے باطل نظریات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اسلامی اقدار و نظریات کے خلاف کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور گروہوںکے باطل عقائد و نظریات اور افکار و تاویلات کا مؤثر و مدلل جواب دینے کا اہتمام بھی کیا ہے‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے روایت ودرایت کا خاص اہتمام کرتے ہوئے کیا ہے۔

تفہیم القرآن سب سے زیادہ متاثر کن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تحریک اسلامی کی قیادت کرتے ہوئے تفسیر لکھنے کا کام بھی جاری رکھا اور یہ خدمت انھوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر چلتے ہوئے انجام دی۔ جب اسلامی تحریک کا آغاز کیا ‘ تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کے لیے رہنمائی کا سامان بہم پہنچانے کے لیے قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا پروگرام بھی بنایا۔ اس طرح یہ تفسیر تحریک اسلامی کی عملی و فکری  قیادت کرتے ہوئے ا سلام اور جاہلیت کے مابین جاری کش مکش کے دوران میں تالیف کی گئی جس کا اندازہ اس تفسیر کے مطالعے سے ہوتا ہے۔

چونکہ سید مودودیؒ بیک وقت ایک داعی بھی تھے اور ایک مفسر بھی ‘ اس لیے انھوں نے ٰتفسیر میں جدید جاہلی تہذیب کے دین اور سیاست کی علیحدگی کے اس نعرے کا طلسم چاک کرنے کا اہتمام کیا ہے‘ اور بڑ ی وضاحت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام‘ اہل مغرب کی اصطلاح کے مطابق محدود معنوں میں ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو دور حاضر میں ریاست کے تمام امور چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ سید مودودی ؒ کی تفسیر کا تیسرا اہم پہلویہ ہے کہ چونکہ وہ  بیک وقت مغرب کی تہذیبی یلغا ر کے جلو میں آنے والے لا دین افکارو نظریات اور جدید مادہ پرستانہ فلسفوں پر بھی گہری نظررکھتے تھے اور قرآن و سنت اور دینی علوم میں بھی مکمل بصیرت رکھتے تھے ‘ اس لیے انھوں نے موجودہ دور کے چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اورجدید تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والے افکارونظریات او ر فلسفوں‘ مثلاً سیکولرزم‘ کمیونزم‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے تاریخ کی مادی تعبیر کے نظریے اور اس طرح کے دوسرے نظریات کو عقلی دلائل سے باطل ثابت کیا ہے ‘ نیز مستشرقین‘ عیسائی مشنریوں اورمغرب زدہ طبقے کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا بھی مؤثر انداز میں ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے مغربی سامراج کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی تحریکوں‘ مثلاً  فتنہ ء انکار سنت اور قادیانیت کا بھی مؤثر انداز میں توڑ کیا ہے ۔

یہ تفسیر تین عشروں میں مکمل ہوئی۔ بظاہر یہ عرصہ کسی تفسیر کی تکمیل کے لیے غیرمعمولی دکھائی دیتا ہے لیکن انھوں نے اس عرصے میں صرف تفسیرکی تکمیل کا کام نہیں کیا‘ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر مستند اور علمی کتب بھی تالیف کیں‘ اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی فکری وعملی قیادت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے ایک طرف قرآن کی تفسیر لکھی اور دوسری طرف نئی نسل کی تربیّت پر بھی توجہ مرکوز رکھی اور اسلام مخالف تحریکوںکے داعیوں سے بر سر پیکار بھی رہے۔ اس عرصے کے دوران میں ملک میں آمریت کے علم برداروں سے بھی نبرد آزما رہے۔ یوں اس پورے عرصے کے دوران میں ان کی کیفیت یہ رہی کہ کبھی تووہ اپنے دفتر میں ضخیم علمی اور دینی کتابوں کا مطالعہ کررہے ہوتے‘ اور کبھی کسی جلسہ گاہ میں عوام الناس سے خطاب کر رہے ہوتے‘ یا ان کے مسائل سنتے اور ان کا حل بتارہے ہوتے‘ اور کبھی کسی یونی ورسٹی میں اہل علم و دانش اور قانون دان طبقے کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بھی زندگی کے ہر میدان میںمکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے‘ اور کبھی کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں صرف اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل ہوتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔

یہ تھے وہ غیرمعمولی حالات جن میں سید مودودی ؒنے اپنی تفسیر مکمل کی اور انھی غیرمعمولی حالات کی وجہ سے یہ عظیم کام اتنے طویل عرصے میںپایہ تکمیل کو پہنچا ۔

تفہیم القرآن کی جملہ خصوصیات کا احاطہ کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم صرف چند خصوصیات کا اجمالی ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے۔

  • مقدمہ تفہیم القرآن‘ قرآن فہمی کی کلید: سید مودودیؒ نے اپنی تفسیرکے مقدمے میں قرآن کریم سے متعلق ان سوالات کا جواب دیا ہے جو بالعموم ذہنوں میں پیدا ہو تے ہیں‘ اور ان سارے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو مخالفین کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں‘ مثلاً قرآن کریم کا موضوع کیا ہے؟ اس کا مخاطب کون ہے؟ اس کے بتدریج نازل ہونے کے کیا اسباب ہیں؟ اس کو اس کے نزول کی ترکیب سے کیوں نہیں مرتب کیا گیا؟ اس میں ایک عام کتاب کی تصنیفی ترتیب کیوں نہیں پائی جاتی؟ اس کا انداز علمی سے زیادہ خطیبانہ کیوں ہے؟ قرآن مجید کو سمجھنے کی عملی تدابیر کیا ہیں او ر ان سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ قرآنِ کریم جس دعوت کے ساتھ نازل ہوا ہے  اسے موجودہ دور میں عملاً کس طرح  برپاکیا جا سکتا ہے ؟ یوں تفہیم القرآن کا مقدمہ قرآن فہمی کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔
  • ہر سورہ کا جامع تعارف: سید مودودیؒ کے اسلوب تفسیر کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی ہر سورہ کی ابتدا میںانتہائی مفصل اورجامع مقدمہ تحریر کرتے ہیں۔ اس مقدمے میں وہ سورہ کے نام‘ اسباب نزول اور اس مرحلے کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ سورہ نازل ہوئی تھی ‘ نیز مقدمے میںوہ دعوت کے اس مرحلے میں نازل ہونے والی ہدایات ربانی کی تطبیق دعوت کے موجودہ مرحلے سے کرکے تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے رہنمائی کا سامان بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مقدمے میں سورہ میں بیان کردہ مرکزی مضمون پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔
  • تفسیربالماثور کا اہتمام: سید مودودیؒ اپنی تفسیر میں تفسیربالماثور کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن کریم کی دیگر متعلقہ آیات سے استدلال کرتے ہیں اور پھر صحیح احادیث اور اقوال صحابہؓ سے اور اس کے بعد تابعین کرام ؒ کے اقوال سے۔ یوں تفہیم القرآن میں تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث کا غیرمعمولی اہتمام کیا گیا ہے۔ تفہیم القرآنمیں ذکر کردہ احادیث مبارکہ کی امہات الکتب‘ مثلاً الجامع الصحیح ‘ صحیح مسلم وغیرہ سے مطابقت کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید مودودی ؒ نے اپنی تفسیرمیں جن احادیث کو بیان کیا ہے‘ ان کے بارے میںپہلے اس امر کا پوری طرح اطمینان کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ روایت و درایت کے اصولوں کے مطابق صحت کے معیار پر پورا  اترتی ہیں ۔
  • دعوتِ دین کی اہمیت اور تقاضوں کو اجاگر کرنا: تفسیر میں متعلقہ آیات کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے دین کی دعوت اور اس کے اصول ومقاصد اور تقاضوں کو پیش کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سید مودودی ؒنے دعوت کے اصول ومبادی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دعوت کے اسلوب اور داعی کی صفات کے بارے میں سیرت طیبہ اور احادیث کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی ہے‘ اور متعلقہ آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ دعوت کے کس مرحلے میں نازل ہوئی ہیں اور موجودہ دور میں داعی ٔ حق کے لیے ان میں کیا رہنمائی موجود ہے۔ یوںتفہیم القرآن کا مطالعہ انسان کو دعوت حق کے اس کام کے لیے عملاً بھی تیار کرتا ہے‘ جس کو برپا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم پر قرآن کریم نازل فرمایا تھا۔
  • اسلام‘ ایک مکمل نظام حیات: اسلام کوایک مکمل نظام حیات ثابت کرنے کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکرتے ہوئے دین و سیاست کی علیحدگی کے جاہلانہ تصور کی نفی کرتے ہیں‘ انھوں نے اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ اسلام ہی وہ دین فطرت ہے‘ جو ہر دور کے انسانوں کے لیے فلاح و کامرانی کی ضمانت فراہم کرتاہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے رشدوہدایت کا سر چشمہ ہے ۔ یہ سب کچھ انھوں نے متعلقہ آیات کریمہ کی تفسیر کے دوران قرآن وسنت کے باقاعدہ حوالوںاو ر مضبوط عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔

مزید برآں شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذ اور اسلامی ریاست میں شوریٰ کی اہمیت کا ذکر بھی ٹھوس اور مدلل انداز میں کیا ہے‘ اور بتایا ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا دین کا بنیادی تقاضا ہے ۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کے بغیر دین کی تعلیمات اور تقاضوں پر صحیح طور پر عمل درآمد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یوں تفہیم القرآن کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ انسان پر اسلام کے ایک مکمل نظام حیات ہونے کا تصور واضح ہوتا ہے بلکہ وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے عملاً بھی تیار ہوجاتا ہے۔

  • قرآنی قصص سے استدلال کا اسلوب: سید مودودی ؒ  کے اسلوب تفسیر کی نمایاں خصوصیت قرآنی قصص سے استدلال کا خصوصی اسلوب ہے ۔ اس سلسلے میں سید مودود یؒ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ مختلف قصوں کا دعوت دین کے ان مراحل سے جن میں وہ نازل ہوئے ہیں‘ براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قصہ دعوت دین کے کسی نہ کسی خاص مرحلے میں ‘ اس موقع کی مناسبت سے اہل ایمان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے جودعوت دین کے اس مرحلے میں ضروری تھا‘ تاکہ دعوت کے اس مرحلے میں سابقہ انبیا علیہم السلام کے واقعات کی روشنی میں ان کی رہنمائی اورتربیت کی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی سید مودودیؒ یہ بھی بتاتے ہیں کہ موجودہ دور میں اہلِ ایمان خصوصاً دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے  ان قصوں میں کیا رہنمائی ہے۔ نیز سید مودودیؒ نے اپنی تفسیر میں اسرائیلیات سے ماخوذ انبیا علیہم السلام سے منسو ب ایسے قصوں اور حکایات کی سختی سے تردید بھی کی ہے جو ان کے مقام اور قدرو منزلت کے منافی ہیں۔
  • فقہی مسائل میں مسلکی عصبیت سے اجتناب: سید مودودی ؒ کے اسلوب تفسیر کی ساتویں اہم خصوصیت فقہی احکام اور قوانین سے متعلق آیات کریمہ کی تشریح کے حوالے سے ان کا خصوصی انداز ہے۔ چنانچہ اس سلسلے  میں تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید مودودی ؒ احکام سے متعلق آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے کبھی تو فقہا کی آرا باہمی موازنے کے بغیر جوں کی توں بیان کر دیتے ہیں‘ اور کبھی ان آرا کا قرآن و حدیث کی روشنی میں آپس میں موازنہ کرکے کسی خاص رائے کوراجح قرار دیتے ہیں‘ لیکن ایسا کسی خاص مسلکی تعصب کی بنا پر نہیں کیا جاتا‘ بلکہ راجح رائے کے صحیح اور ٹھوس ہونے کی بنا پر واضح دلائل کی روشنی میں کیا جاتاہے۔ یوں سیدمودودیؒ فقہی احکام سے متعلق آیات کی تفسیر مسلکی تعصب کی بنیاد پر محض اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے نہیں کرتے ‘ بلکہ زیادہ صحیح رائے تک پہنچنے کے لیے کرتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کی تفسیر کی افادیت تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر ہے۔
  • مختلف مقامات کے نقشے اور تصاویر: سید مودودی ؒ کے اسلوب تفسیر کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر میں بعض آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ان آیات میں مذکور مقامات کے نقشے بھی دیے ہیں تاکہ آیات کریمہ کا مفہوم بیان کرنے میں آسانی رہے۔ وہ واحد مفسر ہیں جنھوں نے اس مقصد کے لیے ارض قرآن کا باقاعدہ سفر کیا‘ تاکہ ان علاقوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں جن کا ذکر قرآن کریم  میں ہوا ہے۔ چنانچہ جب کبھی وہ کسی ایسی آیت کی تفسیربیان کرتے ہیں‘ جس میں کسی خاص علاقے کا ذکر ہوتاہے تو اس آیت کی ماثور تفسیر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ علاقے کا نقشہ دے کر مزید وضاحت بھی کرتے ہیں۔
  • اہلِ کتاب کی مقدس کتابوں سے استشہاد: وہ اہل کتاب کی مقدس کتابوں‘ تورات وانجیل وغیرہ کا حوالہ بالعموم یا تو اس لیے دیتے ہیں کہ ان کتابوں کا تحریف شدہ ہونا ثابت کیا جاسکے‘ یا پھر ان سے مستشرقین اورمخالفین کے اس الزام کو ر د کرنے کے لیے استشہاد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے قرآن اہل کتاب کی مقدس کتب یا ان کے علما سے سیکھا ہے۔ علاوہ ازیں وہ ان کتابوں کے حوالے ان کتب میں موجود خلاف واقع اور متضاد امور کی نشان دہی کے لیے بھی دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ ثابت کرنے کے لیے بھی کہ کس طرح ان لوگوں نے اپنے انبیا علیہم السلام پر جھوٹے اوربے بنیاد الزامات لگا کر ان کی توہین کی ہے۔
  • فروعی مباحث سے اجتناب:  وہ تفسیرمیں ایسے موضوعات کو نہیں چھیڑتے‘ جو دین میں بنیادی اہمیت کے حامل نہ ہوں‘ یا جن کا مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے کسی اہم پہلو سے براہ راست تعلق نہ ہو۔ وہ صرف ان پہلوؤ ں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو دین میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
  • گمراہ کن تاویلات پر گرفت: سید مودودیؒ تفسیر کے دوران ایسے مفسرین کی تاویلات کا بھرپور نوٹس لیتے ہیں‘ جو قرآن کریم کی بعض آیات کو اپنے اپنے فرقوں کے گمراہ کن عقائد کی تائید میں استعمال کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سید مودودی ؒ کا اسلوب یہ ہے کہ وہ پہلے خود ا ن لوگوں کی تاویلات ان کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں اور پھر قرآن و حدیث اورقوی عقلی دلائل سے ان کا جواب دیتے ہیں‘ تاکہ ان کے لیے کوئی ایسا موقع باقی نہ رہ جائے کہ وہ اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قرآنی آیات کو استعمال کر سکیں۔ اس سلسلے میں وہ نقدوجرح کے دوران اپنے اسلوب میں شایستگی کا پوری طرح التزام کرتے ہیں۔
  • جدید علمی نظریات اور فلسفوں کا ابطال: وہ تفسیر میں متعلقہ آیات کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے‘ جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ مادہ پرستانہ اور لادین نظریات کا ٹھوس علمی تجزیہ کرکے ان کا باطل ہوناثابت کرتے ہیں ‘ مثلاً ہیگل کا نظریۂ تاریخ (تاریخ کی جدلی تعبیر)‘ مارکس کا نظریۂ تاریخ (تاریخ کی مادی تعبیر) ‘ ڈارون کا نظریۂ ارتقا‘ میکاولی کا نظریہ لادینی سیاست اور فرائیڈ کا نظریۂ جنسی نفسیات وغیرہ وغیرہ --- سید مودودی ؒنے اپنی تفسیر میں ان جدید جاہلی فلسفوں کو قوی عقلی دلائل سے باطل ثابت کیا ہے۔اس طر ح انھو ں نے ٹھوس عقلی دلائل سے ان نظریات کو غلط ثابت کرکے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی تہذیب کی فکری غلامی سے نجات دلانے کا اہتمام کیا ہے‘ اور ان کے دل ودماغ میں اس تصور کوجاگزیں کیا ہے کہ اسلام اہل مغرب کے تصور مذہب کے مطابق محدود معنوں میں کوئی ذاتی معاملہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔

اس جائزے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سید مودودیؒ کا اسلوب تفسیر روایت و درایت کے اصولوں پرپورا اترنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں جب اسلام او ر مسلمانو ںکوطرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے ‘ دعوت دین کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے۔ انھوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے ذریعے ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق قرآن سے جوڑ کراس میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ جدید تہذیب سے پیدا ہونے والے جاہلی فلسفوںکے سحر سے نکل کر بھر پور انداز میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہو‘ اور دوسری طرف علما و مشایخ اور دینی طبقے کے لوگوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ جدید تہذیب کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوں۔

مجھے سید مودودیؒ کی تفسیر کاکئی دوسری جدیدو قدیم تفاسیر کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع بھی ملا ہے ‘ جیسے تفسیرابن جریر طبری‘ تفسیر رازی ‘تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر روح المعانی‘ تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس تقابلی جائزے کے بعد سید مودودیؒ کے اسلوب تفسیر پر میرا یقین اس پہلو سے اور بھی پختہ ہو گیاہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر کے دوران اصولِ تفسیر کے تمام پہلوؤں کو پوری طرح ملحوظ رکھنے کااہتمام کیا ہے۔ اس اہتمام کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کی وہ دیگر امتیازی خصوصیات جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے ‘ سیدمودودی ؒ کی     اس تفسیر کو فی الواقع دیگر تفاسیر میں ایک ایسا امتیازی مقام عطا کرتی ہیں جو اسی کا حصہ ہے۔

مسلمانوں کی علمی تاریخ میں علم حدیث اور سیرت نگاری دو ایسے پہلو ہیں کہ جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری قوم اور کوئی دوسرا مذہب نہیں کر سکتا۔ ان دونوں علوم میں سے پہلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ گفتگو‘ اعمالِ حسنہ اور طریقِ زندگی کے ہر پہلو کو اس حزم و احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے کہ محدّثین کی اس علمی اور تحقیقی کاوش کو غیر مسلموں نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔

علمِ حدیث کے دفاع کی خاطر اسماء الرجال جیسا عظیم فن ایجاد ہوا‘ جس کی نظیر اس سے قبل دنیا کی کسی علمی روایت میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر مستزاد درایت کا ایک ایسا اسلوب وضع کیا‘ جس سے اس اندیشے کا امکان بھی رفع ہو گیا کہ کوئی ظالم‘ آپؐ کی شخصیت اور کلام کے ساتھ کوئی غلط بات منسوب کرسکے۔

جہاں تک علم سیرت نگاری کا تعلق ہے‘ اس میں آپؐ کی حیات طیبہؐ کے ہر ممکنہ اور ضروری پہلو کو اس طرح محفوظ کیا گیا ہے کہ ایک زندہ اور متحرک شخصیت کے بچپن سے وصال تک کا کوئی گوشہ  سامنے آنے سے نہیں رہ گیا۔ اس ضمن میں احوالِ حجاز و عرب‘ قبائل عرب اور ان کے نسب نامے‘ تاریخ و جغرافیۂ عرب‘ عرب کی تہذیبی اور ثقافتی روایات‘ سیاسی اور تمدنی نقشہ‘ ادبی اور شعری سرمایہ اور ان کے خصائل و رذائل‘ سب کچھ تفصیل کے ساتھ فراہم کر دیا گیا ہے۔ آپؐ کے کارنامۂ زندگی اور احوالِ سیرت کو صحیح طور پر جاننے کے لیے مذکورہ تفصیلات بہت ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔

سیرت نگاری کا آغاز عربی زبان میں ہوا‘ اسی باعث سیرت کے تمام تر منابع‘ مصادر اور مراجع بھی اسی زبان میں موجود ہیں۔ قرآن مجید آپؐ کے احوالِ سیرت کی سب سے بنیادی اور اساسی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ احادیث نبویؐ‘ کتب سیر‘ مغازی‘ تفاسیر‘ تواریخ‘ اسماء الرجال‘ دلائل‘ شمائل‘ آثار و اخبار‘ ادب و شاعری‘ تاریخ الحرمین‘ حج کے سفرنامے اور انساب و جغرافیہ کی کتب بنیادی     ماخذِ سیرتؐ قرار پاتی ہیں۔ قرآن مجید تو خود آپؐ کی حیات طیبہ میں مکمل اور محفوظ ہوا۔ احادیث نبویؐ‘ صحابہؓ کے وردِ زبان تھیں تو روایات سنت ان کے اعمال کا مصفّا آئینہ تھیں۔ غزوات و سرایا میں صحابہؓ چونکہ خود شریک ہوتے تھے‘ اس لیے ان سے بڑھ کر ان کا شاہد کون ہو سکتا ہے۔ اسی باعث مغازی کی کتابیں عہد صحابہؓ میں مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ ان تمام مراجع اور مصادر کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ قدرت سابقہ انبیا و رسل کے برعکس نبی آخرالزماں ؐ کی حیات و خدمات کو اس کی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اگر صرف قرآن مجید کو دیکھا جائے تو خود اس میں آپؐ کی سیرت کے تمام تر پہلو ہر اعتبار سے محفوظ اور موجود ہیں۔ اس ضمن میں مولانا مودودیؒ کے ۱۹۲۷ء میں لکھے ہوئے ایک مضمون کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے:

دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت صرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور آپؐ کی شخصیت ۱۳ صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہو گیا ہے کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہے… لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثتِ انبیا کے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنا منظور تھا‘ جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور عالم گیر سرچشمۂ ہدایت ہو۔ اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبداللہ کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا‘ جو جاہل معتقدوں کے ہاتھوںدوسرے انبیا اور ہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ اول تو آپؐ کے صحابہؓ و تابعین اور بعد کے محدثین نے پچھلی امتوں کے برعکس اپنے نبیؐ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیر معمولی اہتمام کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ہم آپؐ کی شخصیت کو ۱۴۰۰ برس گزر جانے پر بھی آج تقریباً اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں‘ جتنے قریب سے خود آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اگر کتابوں کا وہ تمام ذخیرہ دنیا سے مٹ جائے جو ائمہ اسلام نے سالہا سال کی محنتوں سے مہیا کیا ہے‘ حدیث و سیر کا ایک ورق بھی دنیا میں نہ رہے جس سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا کچھ حال معلوم ہو سکتا ہو‘ اور صرف کتاب اللہ (قرآن) ہی   باقی رہ جائے‘ تب بھی ہم اس کتاب سے ان تمام بنیادی سوالات کا جواب حاصل کر سکتے ہیں‘ جو اس کے لانے والے کے متعلق ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم‘ ص ۱۷- ۱۸)

جناب نعیم صدیقی (م: ۲۰۰۲ئ) کی محسن انسانیتؐ اپنے اسلوب میں ایک منفرد کتاب ہے۔ اسے دور حاضر میں اُردو زبان کی مقبول ترین سیرت کی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک میں سیرت پاک کا ایک نمایندہ اظہار کہہ سکتے ہیں۔ سید مودودیؒ نے محسن انسانیتؐ کے دیباچے میں سیرت نگاری کے منہج اور مقصود کو یوں واضح کیا ہے:

پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمتِ اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں‘ جو ازل سے چلے آ رہے ہیں‘ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن مجید کی صورت ہی میں مل سکتا ہے‘ دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہو سکتا ہے تو اس کی صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا‘ اس نے اسلام کو سمجھا‘ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔

محسنِ انسانیتؐ کی طرح بیسیوں دوسری ایسی تصانیف ِسیرت ہیں‘ جن میں سید مودودیؒ کی فکر اور تحریروں سے براہ راست استفادہ کیا گیا ہے۔

سید مودودیؒ کے کارنامۂ سیرت کو بیان کرنے سے پہلے ایک اہم کتاب کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام ؒآزاد (۱۸۸۸ء - ۱۹۵۸ئ) کی سیرت پر تحریروں کا مجموعہ رسولؐ رحمت ہے جسے مولانا غلام رسول مہرؒ نے مرتب کیا۔ اس کتاب کی سید مودودیؒ کی سیرت سرور عالمؐ کے ساتھ ایک تدوینی اور تصنیفی مناسبت ہے۔ یہ دونوں کتابیں مصنفین نے خود نہیں لکھیں‘ بلکہ انھیں ان کی تصنیفات‘ مقالات اور خطبات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں کی ترتیب میں ایک فرق یہ ہے کہ سیرت سرور عالمؐ  کا خاکہ مرتبین (نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) نے مصنف کے سامنے پیش کیا‘ جسے نہ صرف مولانا نے بالاستیعاب دیکھا‘ بلکہ اس میں مناسب تجاویز کے بعد بذات خود سیکڑوں صفحات کے موزوں اضافے تحریر کیے۔

۱۹۴۷ء میں پاکستان کی صورت میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہوئی جو قرارداد مقاصد کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ماڈل قرار پائی۔ اس ریاست کے آئینی‘ سیاسی‘ معاشی‘     معاشرتی‘ تہذیبی‘ تمدنی‘ علمی اور ثقافتی وجود اور اسلامی تشخص کے لیے سید مودودیؒ نے ایک طرف  احیاے اسلام کے لیے ایک نظریاتی تحریک کو پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسوۂ حسنہ اور سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے بھرپور علمی اور عملی مساعی کیں۔ اس لحاظ سے   سیرتِ نبویؐ پر ان کی تحریروں کا مزاج محض مستند علمی معلومات کو پیش کرنے اور وقائع نویسی تک محدود نہیں رہتا‘ بلکہ وہ سیرت کے اس فکری اور انقلابی سرمائے کو ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ما قبل کے تمام ذخیرۂ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے۔

سید مودودیؒ کی سیرت پر تحریریں ۶۴ برس (۱۹۱۵ ئ- ۱۹۷۹ئ) کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہزار ہا صفحات پر مشتمل ان تحریروں کا آغاز ۱۹۱۵ء میں ہوا‘ جب آپ نے ۱۲ برس کی عمر میں ’’سیرت النبویؐ‘‘ کے عنوان سے ایک مجوزہ کتاب کا پہلا باب تحریر کیا۔ اس مضمون کا اختتام ان سطور پر ہوتا ہے:

اس نسبی بحث کے بعد‘ ہم اس حقیقی بحث کی طرف راجع ہوتے ہیں‘ جس کے بعد ہم حبیبؐ رب العالمین کی سیرت پاک کو زیادہ روشن اور بہت واضح دکھا سکتے ہیں‘ اور جس کے ذریعے لوگ نہایت آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم حقیقتاً تمام دنیا کے انسانوں سے‘ خواہ وہ حکیم ہوں یا عالم‘ زاہد ہوں یا متقی‘ والی ہوں یا پیغمبر‘ غرضیکہ بلند سے بلند مرتبے کے انسانوں سے زیادہ افضل اور برگزیدہ ہیں۔ اگر کوئی شخص انسانیت کی تفسیرمعلوم کرنا چاہتا ہے‘ تو اس کے لیے صرف آنحضرتؐ کی سیرت کا مطالعہ تمام دنیا کی کتابوں کی چھان بین سے زیادہ مفید ہے اور سب سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ اس آئینے میں نہ صرف انسانیت بلکہ جمال خداوندی کا عکس دیکھ سکتا ہے۔ یعنی ہم اسلام سے قبل عرب کی بدویت و جہالت کا ایک مختصر سا خاکہ دکھائیں گے اور اس تاریک قوم میں آنحضور ؐ کے خاندان کی حیثیت سے بحث کریں گے اور پھر بتائیں گے کہ آنحضرتؐ کا کن لوگوں میں نشوونما ہوا‘ اور کن حالات میں انھوں نے پرورش پائی اور کس زمین میں اپنی اصلاحات کا بیج بویا۔(وثائق مودودی‘ ص ۲۱)

سید مودودیؒ کے قلم سے ۱۲ سال کی عمر میں لکھی ہوئی اس تحریر سے سیرت کے موضوع اور اسلوب کے بارے میں ان کے ذہنی اور قلبی احساسات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان اثرات کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں ان کے خانوادے کی علمی اور روحانی حیثیت اور پھر والدین کی تربیت کا جائزہ لینا چاہیے‘ جس کے باعث کم عمر ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے قلب و ذہن میں اسوۂ رسولؐ کی یہ رعنایاں اور لطافتیں پختہ سے پختہ تر اور عمیق سے عمیق تر ہوتی چلی گئیں۔ اس ضمن میں سید مودودیؒ کی ۱۹۳۲ء میں لکھی گئی خودنوشت کا یہ مختصر اقتباس دیکھیے:

میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں ۱۳۰۰ برس تک سلسلۂ ارشاد و ہدایت اور فقر و درویشی جا ری رہا ہے --- اس خاندان کے ایک نامور بزرگ مولانا ابو احمد ابدال چشتی (م: ۳۵۵ھ) حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن کی اولاد سے تھے۔ انھی سے صوفیہ کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا ہے --- حضرت ناصرالدین ابو یوسف کے فرزند ِاکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م: ۵۲۷ھ) تھے‘ جو تمام سلاسلِ چشتیۂ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مودودی کے مورث ہیں --- اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا حال سب جانتے ہیں۔ مگر ہمارا خاندا ن اس میں عام مسلمانوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا‘ کیونکہ یہاں مذہب کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی --- والد مرحوم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی ایک ہی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ان کی اس تربیت اور عملی نمونے کا یہ اثر    تھا کہ ابتدا ہی سے میرے دل و دماغ پر مذہب کے گہرے نقوش مرقسم ہو گئے ---    والد مرحوم نے اوّل دن ] سے[ اردو اور فارسی کے ساتھ عربی زبان اور فقہ و حدیث کے درس پر ڈال دیا --- (مولانا مودودیؒ اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘ مرتبہ: محمدیوسف بھٹہ‘ ص ۳۱-۳۹)

سید مودودیؒ نے اپنی ۷۶ سالہ زندگی میں سے ۶۴ سال کے دوران سیرت پاک پر جو نگارشات رقم کیں‘ ان میں مقالات‘ خطبات‘ مصاحبے (انٹرویو)‘ مکتوبات‘ استفسارات‘ پیغامات‘ تقریظات اور دیباچے شامل ہیں۔ یہاں اُن کی چند مختصر تحریروں اور خطبوں کی فہرست ترتیب زمانی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔

۱۹۱۵ء : ’’سیرت النبویؐ‘‘ مشمولہ  وثائق مودودی‘   ص ۲۱

۱۹۲۵ئ: ’’مدینۃالرسولؐ‘‘ مشمولہ‘   صدائے رستاخیز‘ ص  ۳۳۹

۱۹۲۶ئ: ’’سرکار دو عالمؐ کی توہین‘‘ مشمولہ  بانگ سحر‘ ص  ۳۱۶

۱۹۲۷ئ:’ ’مقدمہ رنگیلا رسولؐ کا فیصلہ‘‘ مشمولہ آفتاب تازہ‘ ص ۱۴۲‘ ۱۸۲‘ ۱۸۶‘ ۲۲۴‘ ۲۵۲‘ ۲۶۷

۱۹۲۸ئ: ’’دیارِ مقدسہ میں توہین رسول کا فتنہ‘‘ مشمولہ  جلوہ نور‘ ص  ۳۶

۱۹۴۱ئ: ’’سرورِ عالمؐ‘‘ مشمولہ  نشری تقریریں‘ ص  ۱ - ۱۹

۱۹۴۱ئ:  ’’معراج کی رات‘‘ مشمولہ‘ ایضاً‘ص ۳۹ - ۴۶

۱۹۴۲ئ: ’’میلاد النبیؐ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۲۰ - ۲۷

۱۹۴۳ئ: ’’معراج کا سفرنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۶۰ - ۶۹

۱۹۴۸ئ: ’’سرور عالم ؐ کا اصلی کارنامہ‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص  ۲۸ -۳۸

۱۹۴۸ئ: ’’معراج کا پیغام‘‘ مشمولہ  ‘ایضاً‘ص ۴۷ - ۵۹

۱۹۴۸ئ: ’’اسلام کی ابتدا‘‘ مشمولہ ‘ایضاً‘ص ۵ - ۱۲

۱۹۵۳ئ: قادیانی مسئلہ، لاہور‘ ص ۱۵ - ۱۶

۱۹۶۲ئ: ختم نبوتؐ‘لاہور‘ ص  ۷۰

۱۹۶۲ئ: توحیدو رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت ، لاہور‘ ص ۶۴

۱۹۶۹ئ: رحمۃ للعالمینؐ سیرت کانفرنس‘ ڈھاکہ‘ ص ۱۶

۱۹۷۵ئ:  سیرت کا پیغام‘پنجاب یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین‘ ص ۳۶

۱۹۷۸ئ: نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا نظام حکومت، لاہور‘ ص ۳۲

--- اسلامی نظام کے عملی تقاضے‘ ص  ۸

--- درود اُن پر سلام اُن پر‘ ص  ۱۶‘ ماخوذ:تفہیم القرآن

۳- وانک لعلٰی خلقٍ عظیم مشمولہ قائد انسانیتؐ،احباب پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ص ۲۲ - ۳۱

آپ نے سیرتؐ پاک سے متعلق حسب ِ ذیل کتب پر تقاریظ رقم فرمائیں:

  • محسن انسانیتؐ‘ از نعیم صدیقی
  •   آئینہ حقیقت ‘از میرعبدالباسط
  • سراپاے رسولؐ ‘از اعجاز الحق قدوسی
  • فیوض الحرمین‘ از سید عبدالعزیز شرقی
  • سیرت المختار‘ از شیخ مصطفی غلامینی۔

سید مودودیؒ کے معارف پرور اور فکر انگیز قلم سے چھوٹی بڑی ایک سو کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس علمی گلستان کا سدا بہار مظہرتفہیم القرآنکی چھ جلدیں ہیں۔ قرآن مجید ہی حقیقتاً سیرت کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ ہے۔ مولانا محترم نے بھی اس کی تفسیر میں وہ مقامات جو سیرت سے متعلق ہیں‘ ان کی تشریح میں بہت عرق ریزی اور جگر سوزی سے کام لیا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس  تفسیر کے سیکڑوں مقامات پر سیرت کے لوازمے کو تحقیقی‘ تاریخی اور داعیانہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہی باعث ہے کہ سید صاحب کی تالیف سیرت سرور عالمؐ جو تمام تر ان کی     مختلف کتابوں کے سیرت سے متعلق تحریروں سے ترتیب پائی ہے‘ اس کا غالب حصہ تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے سیرتؐ پر کتاب پیش کرنے کی پہلی کاوش سیرت ختم الرسلؐ، مرتبہ: احمد انس کی صورت میں سامنے آئی۔ کیا عجب کہ سیرت سرورعالمؐ مرتب کرنے کی بنیاد  سیرت ختم الرسلؐ بنی ہو۔

سیرت سرورِ عالمؐکی پہلی جلد ۷۶۴ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں سے ۴۰۸ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ باقی ماندہ ۲۴۳ صفحات کا لوازمہ ان کی۱۶ کتب سے منتخب کیا گیا ہے۔

اسی طرح سیرت سرورِ عالمؐ جلد دوم ۷۶۳ صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں ۳۵۵ صفحات کا لوازمۂ سیرت صرف تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے ماخوذ ہے‘ جب کہ ۶۱ صفحے کا لوازمہ ان کی دیگر کتابوں سے ماخوذ ہے۔ یہ پہلو قابل توجہ ہے کہ جلد دوم میں انھوں نے ۳۴۷ صفحات کے جو نئے اور تازہ اضافے کیے ہیں‘ وہ ان کی درایت سیرت‘ مؤرخانہ ژرف نگاہی‘ تحقیقی بصیرت‘    وسعت مطالعہ اور شوکت اسلوب کا شاہکار ہیں۔ یوں سیرت سرور عالمؐ کی دو جلدوں کے ۱۵۲۷ صفحات میں تفہیم القرآن سے ۸۷۶‘ ان کی دوسری ۱۸ کتابوں سے ۳۰۴ اور مؤلف کے اپنے قلم سے ۳۴۷صفحات کا نیا تحریرشدہ لوازمۂ سیرت ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس لوازمے کے بارے میں اپنی کتاب کی دوسری جلد کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:

اس کتاب سیرت (سیرت سرور عالمؐ) کی پہلی جلد میں مجھے کسی حذف و اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی --- لیکن اس دوسری جلد کے لیے میرے جو مضامین کے درمیان جگہ جگہ ایسے خلا باقی تھے‘ جن کی موجودگی میں کسی طرح سیرت کی کتاب نہ بن سکتی تھی۔ اس لیے میں نے اس میں بکثرت اضافے کر کے اسے ایک مسلسل اور مربوط کتاب سیرت بنا دیا ہے۔ یہ جلد ہجرت کے بیان پر ختم ہوئی ہے۔ آگے مدنی دور شروع ہوتا ہے‘ جو درحقیقت ایک بحر نا پیدا کنار ہے۔(سیرت سرورعالمؐ‘ ج۲‘ ص ۲۳)

سید مودودیؒ کا سیرت پر ابتدائی مضمون جو انھوں نے ۱۹۱۵ء میں لکھا‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے علم انساب کی ایک ایسی بحث سے متعلق ہے‘ جس کا تفصیلی نقشہ ہم سرسید احمد خان کے ہاں دیکھتے ہیں۔ ذبیح کون ہے؟ سیرت کا ایک ایسا موضوع ہے جو مستشرقین اور مسلمان محققین کے درمیان صدیوں سے موضوع بحث ہے۔ سیرت سرور عالمؐ کی دوسری جلد کے صفحات ۶۱ سے ۶۵ کے درمیان اس موضوع پر ایک ایسی تحقیقی تحریر سامنے آتی ہے‘ جو اس عنوان پر ایک قاری کے لیے تشفی کا سامان فراہم کرتی ہے۔  سیرت سرور عالمؐ  کی دونوں جلدوں کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مختلف ابواب میں دوسرے مذاہب کی کتب بالخصوص عہدنامہ قدیم اور جدید سے براہ راست استثہاد کر کے بہت سے الزامات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح ہندومت‘ آریہ سماجیوں‘ قادیانیوں اور منکرین سنت وغیرہ کے الزامات کی تردید میں ان کے قلم کے تحقیقی شہ پارے ہمیں ورق ورق پر دکھائی دیتے ہیں۔

سید مودودیؒ ۲۲ سال کی عمر میں دہلی میں سہ روزہ الجمعیۃ کے مدیر مقر رہوئے۔ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۲۸ء کے اس دور ادارت میں انھوں نے سیکڑوں موضوعات پر اداریے لکھے ہیں۔ ان میں سے  کچھ اداریے آریہ سماجیوں کی نفرت انگیز کتب‘ بالخصوص پنڈت کالی چرن کی رنگیلا رسول اور اس کے پبلشر راجپال کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ مگر ان میں اہم ترین موضوع پیغمبروں اور رسولوں کی اہانت کا ہے۔ توہین رسالتؐ اور blaspheme کا موضوع بہت قدیم ہے۔ سید مودودیؒ نے    سہ روزہ الجمعیۃ میں جو اداریے لکھے ہیں وہ چار مستقل کتابوں صداے رستاخیز‘ بانگِ سحر‘ آفتابِ تازہ‘ جلوۂ نور کی صورت میں ترتیب دیے گئے ہیں۔

سید مودودیؒ کی مذکورہ چار کتابوں کے نو مضامین کے مطالعے سے نوجوانی کے دور میں ان خاص جذبات و احساسات کا اندازہ ہوتا ہے‘ جو حبِ رسول سے عبارت ہیں۔ ۱۲ سال کی عمر میں ترتیب پانے والے احساسات اور ۲۲ سال کی عمر میں تشکیل پانے والے جذبات‘ جب ۵۰برس کی عمر میں ختم نبوتؐ کی تحریک کے ایک خاص تاریخ ساز مرحلے (۱۹۵۳ئ) تک پہنچتے ہیں‘ تو قدرت حق نے محبت رسول کے صلے میں انھیں ایک ایسے اعزاز کا حق دار ٹھیرایا‘ جو بارگاہ الٰہی میں خاص الخاص لوگوں کا حصہ ہوا کرتا ہے۔ قادیانی مسئلے اور ختم نبوت کی تحریروں کے جرم میں انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کے مقربین نے مشاہدہ کیا کہ ان کے چہرے پر ایک طمانیت اور نورانیت کھیلنے لگی۔(مشاہدات، از میاں طفیل محمد)

سیرت نگار سید مودودیؒ کا‘ صاحب سیرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قلبی اور ذہنی رشتہ کس نوعیت کا تھا‘ یہ پہلو ان کی تحریروں کے علاوہ‘ ان کے عمل و کردار سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیرت نگاری کی ۱۴صدیوں میں سیرت نگاروں کی محبت و الفت کے بہت سے مظاہرِ عقیدت سامنے آتے ہیں۔ علمی اور تحقیقی اعتبار سے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے وقائع کا ایسا ذخیرہ مرتب کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر اقوام عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔ مگر سیرت نگاروں کی اس پوری صف میں یہ امتیاز صرف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اس سیرت مطہرہ اور سنت ثابتہ کے احیا کے لیے ایک تحریکِ دعوت کی بنا ڈالی اور پھر عملاً ریاست مدینہ کے سیاسی‘ آئینی‘ تمدنی‘ تہذیبی‘ عدالتی‘ عسکری‘ معاشرتی‘ معاشی اور ثقافتی اقدار کے احیا کے لیے ایک خطۂ زمین کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی زندگی کی تمام تر توانائیوں کو وقف کر دیا۔ یہی باعث ہے کہ وہ تفہیم القرآن میں تفسیری مباحث پیش کر رہے ہوں‘ یا سنت کی آئینی حیثیت پر قلم اٹھا رہے ہوں یا اسلامی ریاست کے مباحث کی تفصیلات مہیا کر رہے ہوں‘ ہر جگہ ان کا قلم وقائع سیرت میں سے ایک ایسی تصویر پیش کر دیتا ہے‘ جو اپنے موضوع کے لحاظ سے معتبر‘ مستند اور اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک پرُ تاثیر اسلوب نگارش کی حامل ہے۔

نصف صدی پر پھیلی (۱۹۱۲ء - ۱۹۶۶ئ) ہوئی مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے‘ سیرت نبویؐ پر چار جلدوں پر مشتمل ایک ابتدائی مسودہ تیار کر کے مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ تو ایک حد تک ان کو بھی اس پر حیرت ہوئی کہ انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی شخصیت اور سیرت کے متعلق اتنا وسیع مواد اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔ ] اس کا اندازہ فہرست ہی سے لگایاجا سکتا ہے[ پہلی جلد کا تعلق بنیادی مباحث‘ منصب نبوت اور نظام وحی‘ بعثت آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور ما قبل بعثت کے ماحول‘ اور دعوت کی مخالف قوم اور عرب کے مختلف گروہوں کے احوال سے ہے۔ دوسری جلد حضور کی پیدایش سے لے کر ہجرت مدینہ تک کے احوال و واقعات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد میں اس انتہائی سرگرم تحریکی زندگی کا مرقع سامنے آتا ہے‘ جو لمحۂ وصال تک حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے مدینہ میں گزاری۔ چوتھی جلد جو ابھی باقی ہے‘ اس میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی اصلاحات‘ تعلیمات اور نظام زندگی‘ مختلف شعبوں میں لائے جانے والے تغیرات کا نقشہ پیش کرنا مطلوب ہے۔ (سیرت سرورِ عالمؐ‘ ج ۱‘ ص ۱۰)

سیرت نبویؐ پر سید مودودی ؒکے اس کارنامے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک قاری کو جس حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ وہ ان کا قدیم و جدید علوم و فنون کا وسیع مطالعہ ہے۔ وہ اپنے مطالعے میں ایک ایسی تحقیقی نظر سے کام لیتے ہیں کہ بسا اوقات وہ برسوں کی رائج غلط فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے نئے‘ درست اور تازہ حقائق بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے نتائج فکر کو اس ترتیب اور نوعیت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو تاریخی تناظر اور دینی پس منظر میں صحیح صورت حال کا علم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت سرورعالمؐ میں بعض معلومات پہلی مرتبہ یکجا نظر آتی ہیں اور سیرت کے بعض وقائع پر منفرد انداز میں‘ روشنی پڑتی ہے۔ بعثت کے بعد کے تین برسوں میں خفیہ دعوت کے نتیجے میں جن قبائل کے جن خوش نصیب افراد نے شرف صحابیت حاصل کیا‘ اس کی ایک کامل تفصیل اور فہرست سیرت نگاری میں پہلی دفعہ پیش کی گئی ہے‘ جس میں ۱۲۹ اشخاص کا تذکرہ ملتا ہے۔ مکہ کے کفار و مشرکین نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی دعوت پر جس نوعیت کے الزامات عائد کیے یا اعتراضات اٹھائے‘ اس کی جامع تفصیل بھی پہلی مرتبہ اس میں پیش کی گئی ہے۔

ان دونوں جلدوں کا مطالعہ کرتے ہوئے صحیح اور مستند معلومات کا ایک دریا بہتا دکھائی دیتا ہے‘ جن میں سے کسی بات کو مستند حوالوں کے بغیر درج نہیں کیا گیا۔ اگر اس لوازمۂ سیرت کے منابع‘ مراجع‘ مصادر اور ماخذوں پر نگاہ ڈالی جائے تو مولانا مودودیؒ کے وسعت مطالعہ اور استخراج نتائج کی داد دینا پڑتی ہے۔ وقائع نگار کا کام محض معلومات کو جمع کرنا نہیں بلکہ ان کی تنقید‘ تنقیح اور تصحیح بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک قاری کو بیسیوں مقامات پر یہ علمی اور تحقیقی عمل دکھائی دے گا۔ کتب سیرت میں اگر مستند اور محقق روایات و معلومات کے حوالے سے تقابل کیا جائے تو سیرت سرور عالمؐ ایک ممتاز کاوش نظر آتی ہے۔ اس کی ایک مثال حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے عہد طفولیت کی تفصیلات سے دی جاسکتی ہے۔

سیرت نگاری میں اماکن کا تعین‘ اسما ء الرجال سے واقفیت‘ ماہ و سال اور سنین کا تعین‘ ہجری اور عیسوی تقویم میں مطابقت اور عربوں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا بھرپور علم اور قبائل کی زندگی کا دستور اور عرف‘ چند ایسے مسائل ہیں‘ جن سے عہدہ برآ ہوئے بغیر کوئی سیرت نگار اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا۔

مستشرقین کے اعتراضاتِ سیرت کا جواب یوں تو سر سید سے لے کر علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر ظفراقبال تک سب نے فراہم کیا ہے‘ مگر ان میں سید مودودی نے ان مستشرقین کے فسادِ نیّت سے لے کر ان کے منہج تحقیق پر جو گرفت کی ہے‘ وہ عملی تحقیق کا ایک ایسا نمونہ ہے‘ جس سے کام لے کر ہم مستشرقین کی اسلام‘ قرآن اور صاحبِ قرآن کے خلاف تمام معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کا علمی اور تحقیقی احتساب کر سکتے ہیں۔

سیرت نگاری کی ۱۴ صدیوں میں اہل علم اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ روایت اور درایت کا جو معیار ہمارے ہاں محدثین کرام نے تدوین حدیث میں پیش نظر رکھا ہے‘ وہ احتیاط وقائع سیرت نگاری میں کم تر دکھائی دیتی ہے۔ ارباب علم اور صاحبان تحقیق اگر سید مودودیؒ کے تحقیقی موقف اور درایت کو دیکھیں گے تو انھیں سید محترم اور دوسرے سیرت نگاروں میں مابہ الامتیاز فرق دکھائی دے گا۔ مثال کے طور پر حرب فجار ہو‘ بحیرہ راہب کا تذکرہ اور ازواج النبی میں عمر عائشہؓ کا معاملہ ہو‘ یا پھر بناتِ رسول کا تذکرہ‘ مولانا مرحوم کے قلم سے تجزیہ و تحقیق کی ایک خاص انفرادیت دکھائی دے گی۔

سیرت نگاری کی تحریک میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ مطالعہ مغرب کے حوالے سے اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں‘ جس میں مغرب شناسی کی اس روایت میں علامہ اقبالؒکے استثنا کے بعد سید مودودیؒ ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ الغرض سید مودودیؒ کی سیرت نگاری کی یہ انفرادیت ہے کہ انھوں نے سیرت کو ایک متحرک فکر اور فعال تحریک کے تناظر میں دیکھا ہے۔ انھوں نے وقائعِ سیرت کا خزینہ مرتب کرنے کے ساتھ ان واقعات کے دامن میں مضمر اسباب‘ عوامل اور محرکات کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ کام‘ اسلوبِ دعوت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ وہ چونکہ خود ایک اسلامی تحریک کے مؤسس تھے جو خلافت علی منہاج النبوۃ کی طرز پر ایک انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک دعوت کے پیرائے میں‘ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک نظامِ تزکیہ و تربیت کے شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ سیرت نگاری میں ایک وقائع نگار سے آگے بڑھ کر اس کا رنامۂ رسالت کے از سرنو احیا کے متمنی ہیں‘ جو عصری طاغوت اور گلوبل لادینیت کے مقابلے میں ایک صالح مومن‘ ایک اسلامی معاشرے اور ایک اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل میں معاون بن سکے۔ بس یہی ایک پہلو انھیں نہ صرف اردو سیرت نگاری بلکہ عالمی سیرت نگاری میں بھی ممتاز و منفرد بنا دیتا ہے۔

سیرت نگاری کے اس داعیانہ دبستان کے اثرات گذشتہ نصف صدی میں ان کے معاصر اور بعد میں آنے والے سیرت نگاروں نے بھی قبول اور جذب کیے ہیں۔ ایسے سیرت نگاروںمیں ملّاواحدی کی دو جلدوں میں حیات سرور کائنات ؐ، نعیم صدیقی کی محسن انسانیتؐ اور سید ؐ انسانیت،محمد شریف قاضی کی اسوۂ حسنہؐ ،  سید اسعد گیلانی کی رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب اور حضور ا کرمؐ اور ہجرت،  ڈاکٹر خالد علوی کی انسان کاملؐ،  ابو سلیم محمد عبدالحی کی حیات طیبہؐ، ماہر القادری کی در یتیمؐ،  ڈاکٹر اسرار احمد کی منہج انقلاب نبویؐ اوردوسرے بہت سے رسائل سیرت‘ علی اصغر چودھری کی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم‘     بنت الاسلام کی اسوۂ حسنہؐاور خالد مسعود کی حیات رسول امیؐ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر انور محمود خالد نے اپنے تحقیقی مقالے  اردو نثر میں سیرت رسول میں سید مودودیؒ کی سیرت نگاری پر اپنے تاثرات کو یوں بیان کیا ہے:

مولانا مودودی نے (سیرت سرور عالمؐ) جلد دوم میں جہاں جہاں اضافے کیے ہیں‘ وہاں ان کا تصنیفی تجربہ‘ سیرتی علم اور اسلوبی حسن اپنے معراج پر ہے۔ بحیثیت مجموعی سیرت سرور عالمؐ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت و کردار اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے ابدی پیغام کو جس خوب صورت اور عالمانہ انداز میں پیش کرتی ہے‘ اس کی مثال دور حاضر کی کتب ِسیرت میں کم کم ملتی ہے۔(ص ۷۳۸)

سیرت سرور عالمؐ کے مطالعے اور تجزیے کا ایک رخ اس کے اسلوب نگارش کا جائزہ بھی ہے۔ اردو زبان و ادب کا اولیں علمی سرمایہ مذہبی تحریوں پر مبنی ہے۔ ابتدائی دور کی تحریروں کا اسلوب عربی اور فارسی زبان اور مقامی بولیوں کے متروک اور نامانوس الفاظ سے مرکب ہے۔ اس کے برعکس سید مودودیؒ کا اسلوب کئی اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے۔ ان کا اسلوب جن اجزا سے تشکیل پاتا ہے‘ اس میں روح مطالب تک پہنچنے کے لیے لفاظی‘ عبارت آرائی‘ آرایش اور تصنّع کے بجاے ایک سادگی‘ سلاست‘ روانی‘ شگفتگی اور وضاحت کا احساس ہوتا ہے۔ اردو میں ادبی لوازم کو دینی موضوعات میں کامیابی سے استعمال کرنے والی پہلی شخصیت شبلی نعمانی کی ہے۔ دینی ادب کی اس رو کو ایک بحر مواج میں تبدیل کرنے والی شخصیت ابوالکلامؒ آزاد کی ہے۔ مگرسیرابیوں اور شادابیوں کا سامان پیدا کرتی ہوئی ادبی لہر صرف سید مودودیؒ کے قلم سے پیدا ہوئی۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو مقام علامہ اقبالؒ  کو اردو شاعری میں حاصل ہے تقریباً وہی حیثیت سید مودودیؒ کی اردو نثر کو میسر ہے۔ اقبالؒ نے   مسلم قومیت کے دھاروں کو اسلامیت کے رنگ سے آشنا کیا۔ اسلامیت کے جس دروازے کو اقبالؒ نے کھولا‘ سید مودودیؒ نے اس میں داخل ہو کر ملت کے لیے اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک ایوان تعمیر کر دیا۔ اس ایوانِ ادب میں جہاں قدیم علوم کی اینٹیں چنی گئیں وہاں جدید علوم کا مسالہ بھی آپ نے فراہم کیا۔ یوں ان کے اسلوب میں قدیم اور جدید موضوعاتی ہم آہنگی اور توازن ملتا ہے۔ سیدمودودیؒ چونکہ ایک مشنری انسان ہیں‘ اس لیے وہ اپنے اسلوب سے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کے اسلوب کی مقصدیت اور ثقاہت نے ان کے  قلم میں تجزیہ و تحلیل اور زور استدلال کی خوبی پیدا کی ہے۔ الغرض سید مودودیؒ سیرت نگاری میں بھی منفرد حیثیت کے مالک نظر آتے ہیں۔

جماعت اسلامی اپنی ہم عصر قومی سیاسی و دینی جماعتوں ہی میں نہیں‘ بلکہ دیگر اسلامی تحریکوں کے درمیان بھی ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ۲۰ ویں صدی میں اس جماعت نے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ معاشی‘ معاشرتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور دفاعی معاملات میں قومی ترجیحات کے تعین‘ اقدار کے تحفظ اور رجحانات کے فروغ میں بھی اپنا خاطرخواہ اثر ڈالا ہے۔ سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اہل دانش‘ جماعت اسلامی کو پاکستان کی انتہائی منظم اور بین الاقوامی سطح پر با اثر جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔

جماعت کا کردار‘ قومی ارتقا میں تبدیلی کے جان دار محرک کے طور پر ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔ جماعت کی اس دیرپا اور ممتاز خصوصیت کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھنے کے بجاے بعض تجزیہ نگار مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ لیڈر طارق علی نے لاہور میں گذشتہ برس تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ منظم جماعت ہے‘ مگر اس نے تنظیمی اصول کمیونسٹ پارٹی سے لیے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کمیونسٹ پارٹی کوئی آئیڈیل اور مثالی تنظیمی اصول رکھتی تھی‘ تو پھر وہ اپنی اٹھان کے بعد بقا اور اقتدار کے لیے محض ریاستی جبر ہی کی محتاج کیوں رہی‘ اور پھر یہ کہ آج معدوم کیوں ہوگئی ہے؟

  • ابتـدائیہ: جماعت اسلامی‘ اپنے موسس سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شاہکار تخلیق ہے۔ بجا طور پر اسے ان کی تنظیمی فکر اور قائدانہ صلاحیت کا پر تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی جماعت یا ادارے کے لیے اپنے بانی کی فکر اور قیادت کی چھاپ سے فرار اختیار کرنا ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنظیم کا قیام‘ اس کی ترقی اور وسعت‘ اس کا زمانی و مکانی ارتقا‘ پیش آمدہ چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی‘ ان سب کا انحصار خاصی حد تک بانی کی سوچ پر ہوا کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد‘ تنظیم و قیادت کے جن اساسی تصورات پر رکھی گئی اور جس کی جھلک آج بھی اس کے کام کے مختلف گوشوں میں دیکھی جا سکتی ہے‘ اس کا مشاہدہ اس کے بانی کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ مولانا مودودیؒ Organization & Management Science (علم نظمیات و ادارات)کے شعبے میں کلیدی مقام کے حامل ہیں۔ نظم و قیادت کے امور پر سوچنے اور سمجھنے والوں کی اکثریت‘ مشاہدے کے ذریعے تنظیمات و قیادت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہے اور بالعموم قرطاس و قلم تک ہی محدود رہتی ہے۔ دوسروں کے کام کو دیکھنا‘ پرکھنا‘ اور سمجھنا آسان کام ہے۔ مولانا مودودی کی خدمات‘ علم و عمل دونوں لحاظ سے کسی بھی دوسرے ماہر علم اجتماعیات و ادارات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس پہلو سے ان کی فکر اور ان کی عملی کوشش کا ماہرانہ جائزہ اب تک باقاعدہ طور پر نہیں لیا گیا ہے۔

اس مضمون میں پیش کردہ معروضات کا مقصد مولانا مودودی کو ان کے تنظیمی کارنامے کی روشنی میں‘ علم نظمیات کے شعبہ میں متعارف کرانا ہے۔ اس شعبہ علم میں وہ دو لحاظ سے تحقیق اور مباحثے کا اہم اور دل چسپ موضوع بن سکتے ہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر تفہیم القرآن اور دیگر تحریروں میں تفصیلی گفتگو کی ہے: معاشرے کی تنظیم‘ قوم و ملک کی سطح پر بننے والی اجتماعیت‘ تنظیم سازی‘ تحریک اٹھانے اور چلانے کا عمل‘ حکومت کا نظام اور اس کے متبادل راستے‘ قیادت اور اولوالامر کی ذمہ داریاں‘ شہریوں یا ممبران کے فرائض و حقوق وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اور اس کے علاوہ بھی اس اہم موضوع سے متعلق دیگر امور پر مولانا مودودی نے گہرائی کے ساتھ اور کھل کر اپنی آرا کو پیش کیا ہے۔ نظریاتی دلائل دینے کے ساتھ ساتھ تاریخی تجزیے بھی کیے ہیں۔یہ افکار تنظیم سازی کے میدان میں ایک نئے زاویۂ نظر کے اضافہ کا باعث ہیں۔ بالخصوص ایک ایسے شعبۂ فکر میں کہ جس کی تشکیل بنیادی طور پر لادینی فکر کے سائے میں ہوئی ہے۔

ثانیاً‘ انھوں نے اپنے آپ کو نظریت تک محدود رکھنے اور علمی قیادت کے بلند منصب پر محض فائز رہنے کو کافی سمجھنے کے بجاے عملی قیادت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اس لحاظ سے خود اپنا ایک ’خصوصی مطالعہ‘ (case study) بھی فراہم کیا۔ نظری و اصولی بحث کے شیش محل سے باہر نکل کر‘ عملی میدان میں خاک آلود ہونے کا خطرہ مول لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے مولانا مودودی نے اپنے افکار و نظریات کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچایا؟ انھوں نے مقصدی لحاظ سے کیا کھویا اور کیا پایا؟ خلافت و ملوکیت اور تجدید و احیاے دین کے بے لاگ مصنف نے خود کیا معیار اور نمونہ چھوڑا؟ اس نمونے کے مثبت یا منفی پہلو کیا ہیں؟ یہ سوالات آج کے اور مستقبل کے مورخ کی دل چسپی اورتوجہ کا موضوع بن چکے ہیں۔ زیر نظر مضمون مولانا مودودی کی تنظیمی میدان میں فکری و عملی کاوش کو مرکز بحث بنانے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ بلاشبہہ ان کی تنظیمی خدمات کو جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا وہ اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ یہ کام ایک معروضی جائزے کا محتاج ہے۔

۱

گذشتہ نصف صدی میں‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد نظم و ادارات اور تنظیم و قیادت کے شعبے میں فکری وعملی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ جامعات میں اس مضمون سے متعلق خصوصی شعبے اور ادارے بہت مقبول ہوچکے ہیں۔ ایک نئے اختصاصی صنفِ علم کی تشکیل کا یہ سارا کام‘ مادیت اور لادینیت کے فکری ڈھانچے میں ڈھلا ہے۔ اس فکر کے تحت قائم ہونے والے تعلیم و تربیت کے مراکز دنیا بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ ہر ایک یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسان کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟ قیادت کے اوصاف کیا ہونا چاہییں؟ تنظیمی عمل کن عوامل کا مرکب ہے؟ انسانوں کی فطری جبلت کیا ہے؟ ان سے کس طرح اعلیٰ معیار پر کام لیا جا سکتا ہے؟ کون سی اقدار اور کون سے اصول انسانی تعلقات کو مثبت رخ دے سکتے ہیں؟ تنظیم کی ساخت کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ تنظیمیں اپنے ماحول پر کیسے اثر ا نداز ہوتی ہیں اور کس طرح ماحول پر اثر ڈال سکتی ہیں؟ فیصلہ سازی کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟ اجتماعیت میں انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ کون سے محرکات انسان کو فعال بنا سکتے ہیں؟ تنظیم کا تشخص کیسے قائم ہوتا ہے؟

ریاستی اداروں‘ فوج‘ سیاسی جماعتوں‘ کاروباری اداروں‘ غیر سرکاری تنظیموں‘ بین التنظیمات انجمنوں (Interorganizational Associations) ہی کا نہیں بلکہ ہر خاندان اور فرد کی کامیابی و ناکامی کا انحصار درج بالا سوالات کے جوابات پر ہے۔ مغرب میں علوم اجتماعیہ کے فکری امام اور ان کے پیروکار گذشتہ عرصے میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ایک نظریے کی ناکامی کے بعد وہ دوسرے نظریے کی طرف قلابازی کھا کر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے سے مایوس ہو کر تیسری طرف ٹکر مارتے ہیں۔ انھی ٹامک ٹویوں کے نتیجے میں نظریۂ قیادت‘ فکرِاجتماعی اور اصولِ ادارت کو ٹھیرائو نہیں مل سکا۔ ایک دور کے مقبول ترین قاعدے اور مقدس کلیے اگلے دور میں آسانی کے ساتھ مسترد کر دیے گئے۔ اس شعبۂ علم کا جھکائو اب آخرکار ان نظریات اور اقدار کی جانب ہو رہا ہے‘ جس میں بعض مولانا مودودی کے طرز قیادت اور تصور تنظیم سے کسی نہ کسی درجے مناسبت بھی رکھتی ہیں۔

آج کاروباری اداروں میں مشن‘ مقاصد‘ اخلاقیات‘ خدمتِ عامہ‘ ایمان پر مبنی قائدانہ کردار‘ انسانی اثاثہ کی نشوونما‘ کسی بھی کام کے نتیجے کا انتظار کرنے کے بجاے نتیجے کا پہلے سے اندازہ لگانا‘ فیصلہ سازی میں اقدار اور پیمان کو اولیت دینا‘ تنظیم میں روایات کو شعوری طور پر فروغ دینا‘ طویل المیعاد اور مابعد طویل المیعاد بنیاد پر سوچنا‘ دنیا کو اکائی کی صورت میں دیکھنا‘ اموال اور افراد کے مابین ترتیب کو درست کرنا‘ انسان کو محض مادی جنس سمجھنے کے بجاے اس کے دل و دماغ کے مرکب اور روحانی اور جذباتی پہلوئوں کو بھی بروے کار لانا‘ اجتماعی سرگرمیوں کو ہر سطح پر جواب دہی اور امانت داری کے ساتھ انجام دینا‘ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دیگر تصورات جو آج تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں‘ جدید دور میں مولانا مودودی نے کم و بیش ان تمام امورِ نظم و ربط کو عملاً جماعت میں کہیں زیادہ خوبی اور کمال کے ساتھ رائج کیے ہیں۔ اگر مولانا مودودی کے تنظیمی نظریات اور ان کا تنظیمی کارنامہ مغربی درس گاہوں اور علم تنظیم کے ماہرین تک کسی صورت میں پہنچ پاتا تویقینا ان کے افکار کی ضرور قدر ہوتی اور وہ اس مضمون کے صف اوّل کے ماہرین بھی شمار ہوتے۔

مولانا مودودی نے عملی زندگی کا آغاز علمی صحافت سے کیا تھا۔ ان کے مضامین کی پذیرائی اور مقبولیت نے ان کو بہت جلد صف اول میں لاکھڑا کیا۔ ان کے فکر کی گہرائی‘ اسلام سے لگن‘ حالات پر عبور‘ اور طرز تحریر کی اثر پذیری نے ان کو فکری رہنما بنا دیا۔ کسی عام فردکے لیے اس مقام پر پہنچ جانا کافی ہوتا ہے۔ کتب کی تصنیف‘ مذاکرے اور مباحث میں شرکت کی دعوتوں کا طومار‘ نقادوں اور تبصرہ نگاروں کی دل چسپی‘ اور فکر کی بڑھتی ہوئی چھاپ‘ صاحب قلم وقرطاس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بس اسی میدان کا ہو کر رہے اور بلاوجہ عملی کاوش کی آزمایش میں اپنے آپ کو مبتلا کرنے سے بچ کر رہے۔ فکر کو عملی روپ دینا سخت مشکل کام ہوتا ہے۔مولانا مودودی اگر قُل تک محدود رہتے تو بھی وہ برصغیر کے نامور ترین علما میں شمار ہوتے اور ان کی فکر دُور دُور تک پھیلتی۔ لیکن قُل کے بعد قُم کے منصب پر فائز ہو کر انھوں نے ان گنت دشمنیاں‘ مصائب اور خطرات مول لیے۔

مولانا مودودیؒ نے حق کو واشگاف کیا اور ا س کے بعد ’حقیقت‘ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جمعیت العلما کے اخبار الجمعیۃ کی ادارت سے جماعت کی امارت کا سفر‘ اجتہاد سے جہاد کی معراج کا عنوان بنا۔ اسی سفر کے دوران وہ رسولؐ اللہ کی اتباع کرتے ہوئے ہجرت کے راستے پر چلے اور تاسیسِ تحریک کے اقدام کی منزل کو سامنے پایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنف مودودی کی خشتِ اوّل ہی میں موسسِ تحریک‘ سید مودودی کی صورت پنہاں تھی۔ الجہاد فی الاسلام ان کی پہلی پکار بھی تھی اور اس پکار پرپہلی لبیک بھی ان کی اپنی تھی۔ منزل کی طرف  قدم بڑھانے کا عزم بھی موجود تھااور تحریک کے لیے قربانی کا شعور بھی موجزن تھا۔

مولانا مودودی کے لیے فکری قیادت سنبھالنے کے بعد‘ عملی قیادت کے میدان میں قدم رکھنا ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ بالعموم یہ دو مختلف خصوصیات رکھنے والے مزاج کی شخصیتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ فکری قیادت: سوچ‘ مطالعے‘ مشاہدے‘ خلوت اور فکری مباحث میں شرکت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میدان میں ممتاز ہونے کے لیے عمل کا روگ نہ لگا ہو تو اسے بھی ایک خوبی سمجھا جاتا ہے۔ فرد‘ حساب دینے کی پابندی سے آزاد رہ کر صرف نظری مہارت تک محدود رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عملی قیادت: تحرک‘ رابطہ‘ دورہ‘ مہمات اور اثر و نفوذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے جتناکام کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا ہوتا ہے کہ نظریات کے قلاوے سے دور رہا جائے‘ تاکہ پابندیاں کم سے کم ہوں۔ اکثر مفکر‘ مصلح بن کر پھر مصلحت اور مصالحت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ بالعموم بڑے رہنما ان دوخانوں میں سے کسی ایک میں تخصص حاصل کرکے ہی اپنی قیادت کے جوہر دکھلا پاتے ہیں اور ایسا کرنے کو بالعموم کوئی عیب بھی نہیں کہتا۔

مولانا مودودی نے دونوں میں منقسم یا کسی ایک میں مقید ہونے کے بجاے دونوں کو ایک ہی وحدت کے دو تقاضوں کے طور پر دیکھا۔ ان کی تقریر آسانی سے تحریر بن جاتی ہے اور تحریر میں تقریر کا مزا لیا جاسکتا ہے۔ ان کا قول ایک پکار کی مانند بلند ہوتا ہے‘ جب کہ ان کا    عمل اس قول کی تائید میں گواہی دیتا ہوا ہر لفظ کے پیچھے نظر آتا ہے۔ ایک صاحبِ کلام فرد کا صاحبِ تنظیم بن جانا شخصی لحاظ سے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کمال درجے کے قائدانہ معیار پر گذشتہ صدی میں مشرق و مغرب میں اور کون پہنچ سکا ہے؟ یہ نمونہ پیش کرنا کسی کرشمے سے کم نہ تھا۔ قولی شہادت اور عملی شہادت دونوں کی ادایگی‘ زمین کے اوپر تنظیم کی گاڑی کی ڈرائیوری اور ساتھ ہی افکار کے افق پر مسلسل ضربِ کاری اور ان دونوں کاموں کو ساتھ لے کر چلنا ایک ایسے ذہن کی غمازی کرتا ہے کہ جو تنوع کو وحدت کا رخ دے سکتا ہے۔ جو کہنے اور کرنے کو دو الگ نوعیت کے کام سمجھنے کے بجاے ان کو ایک کام کے دو زاویوں کے طور پر نبھا سکتا ہے۔

علمی کام تو عام طور پر درس گاہوں‘مکتبوں اور کتب خانوں تک محدود رہتا ہے۔ جہاں بعد میں بھی ان کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ تنظیم کی بنا ڈال کر مولانا مودودی نے اپنے علمی کام کو جہاں ایک جانب محدود کر لینے کا اور اسے مخالفین کی جانب سے تنقید و جرح کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیا‘ وہیں بالآخر اس کام کو تحریک کی شکل دے کر زیادہ موثر اور دیرپا بنانے کا انتظام بھی کیا۔ مؤثر تحریر وہی کہلائے گی جو عملی دنیا میں تبدیلی لا سکے۔

مولانا مودودی نے کتاب اور انسان دونوں ہی تصنیف کیے ہیں۔ انسان کے لیے کتاب تھی اور کتاب کے لیے انسان تیا ر ہوئے۔ فَانْتَظِرُو سے فَفِرُّوکے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہا۔ مفکرمودودی کی فکر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے: انھیں جو کرنا چاہیے وہ اسے       نہ کرتے‘ قعدہ ہی میں رہ کر سوزوساز میں مشغول اور قیام سے غافل رہتے تو ان کی تحریریں    بے جان اور غیر متعلق ہوکر رہ جاتیں اور تاریخ کا فیصلہ ان کے بارے میں مختلف ہوتا۔

۱۴۰۰ سال پہلے کہی ہوئی بات کو نئے تناظر میں پیش کر دینا ایک طرف‘ لیکن اس نظام کے ازسرنو قیام اور اس کو اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا معیار قرار دے کر تحریک کھڑی کر دینا‘ مجاہدانہ جرأت ہے۔ وہ بھی ایک ایسے دور میں جبکہ زوال پستیوں کو چھو رہا ہو‘ ملت کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا ہو‘ غلامی کا شکنجہ ذہنوں کو جکڑ چکا ہو‘ مغرب زدگی کا چلن عام ہو‘ مذہبیت فرسودگی کی علامت ہو‘ مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو متحدہ قومیت کے تیزاب میں پھینکے جانے کی تیاری ہو رہی ہو‘ مجرد مادی ترقی کو تمدنی ترقی کا قائم مقام سمجھ لیا گیا ہو‘ اور مشین کے اوتار کو قیام و سجود کا سزاوار سمجھ لیا گیا ہو۔

ایسے دور میں کیا مولانا مودودی تنظیم کھڑی کرنے میں حق بجانب تھے؟ کیا وہ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ’’حالات مزید سازگار ہو جائیں تو قدم اٹھانا چاہیے‘‘ --- بھلا ۷۵ افراد اور ۷۴روپے سے کیا بوجھ اٹھانا مقصود تھا۔ جو کام صدیوں میں دوبارہ نہ ہو سکا‘ اس کو منزل مقصود بناکر چلنا کیا دانش مندی تھی؟ ان کے سامنے کیا نسخہ تھا جس پر ان کو بھروسا تھا کہ اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اسباب و تدابیر کا کون سا امتزاج پیش نظر تھا جو ان کے خیال میں قومی سطح پر بڑی تبدیلی لانے کا باعث بن جائے گا؟ مولانا نے تنظیم کی جدت کو‘ اسلام کے کا م کے لیے کیوں اختیار کیا؟ اور پھر سب کچھ تنظیم کے لیے وقف کر دیا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو فکری قیادت کے وسیع اور محفوظ اُفق سے گرا کر کچھ کر کے دکھانے کا شوق کس بل بوتے پر پالا؟

۲

درحقیقت تنظیم وہ حکمت تھی‘ جو ان کو امید دلاتی کہ صرف کچھ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ پاکیزہ اور پختہ افکار کی قوت کے ساتھ اگر تھوڑی تعداد میں سہی‘ لیکن منظم گروہ کھڑا ہو تو وقت کے دھارے کو موڑنے اور نئے مستقبل کو ترتیب دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنظیم ایک موثر ہتھیارہے جو پیغام کو تحریک کا روپ دے کر قوت و اختیار کے ایوان میں پہنچا سکتا ہے۔ مولانا م