مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۰۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ : ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء - ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء

انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعام و الطاف کی کوئی انتہا نہیں‘ لیکن اس کا سب سے بڑا انعام وہ ہدایت ہے جو اس نے روزِ اول سے وحی اور رسالت و نبوت کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا کی‘ تاکہ زندگی گزارنے کی شاہراہ روزِ روشن کی طرح ان کے سامنے عیاں ہو اور وہ جہالت اور ظلم کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ہی نہ مارتے رہیں۔ اس سب سے بڑے انعام کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے--- اور اسلام نام ہی اس انعام کا شکر ادا کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کا ہے! یہی عبادت ہے‘ یہی دین کا حاصل ہے اور یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے!

اللہ کی وحی قرآن کی شکل میں مکمل ہوگئی اور افضل الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ    علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ‘ عالمِ انسانی کے لیے ایک بے مثال نمونہ بن کر سامنے آگیا۔ چنانچہ زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے یہ اعلان کر دیا :

اَلْیَوْمَ اَکْـمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اب یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ کو سونپی گئی ہے کہ وہ شہادتِ حق‘ دعوت الی اللہ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کارِ نبوت انجام دے‘ تاکہ وہ حق کی علم بردار ہو اور اللہ کی     اس نعمت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے اور ان کو اس کی زندگی بخش توانائی سے شادکام کرنے کی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ہر دور میں‘ ہر علاقے میں‘ اور ہر قسم کے حالات میں ایسے نفوس قدسیہ سے اُمت اور انسانیت کو برابر نوازنے کا اہتمام فرما دیا‘ جو اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں اور اقامت دین کی دعوت دینے اور دین کو عملاً نافذکرنے کی جدوجہد میں سرگرم رہیں۔

ہدایت کے اس نظام کو بھی کارِ نبوت کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کا حصہ قرار دیا ہے۔ جن پاکباز انسانوں کو اس کام پر لگایا ہے ان کے اس انتخاب کے لیے اصطفٰی اور اجتبٰیکے وہی محترم الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جو انبیا ے کرام کے انتخاب اور تیاری کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور ان انعام یافتہ مخلصین کا شمار بھی انبیاے کرام ہی کے قافلے میں کیا گیا ہے:  وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِـیّٖنَ وَالصِّدِّیْـقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۶۹-۷۰) ’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین--- کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں! یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے‘‘۔

بیسویں صدی کا آغاز مسلمان اُمت کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا‘ جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس تاریک دور ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے ایسے افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمع ہدایت و رسالت کی روشنی کو اس طرح پھیلادیاکہ غفلت‘ غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی اور احیاے اسلام اور اُمت کے ایک عالم گیر قوت کی حیثیت سے اُبھرنے کے آثار صبحِ نو کی طرح نمودار ہو گئے ہیں۔

جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ۱۷ سالہ نوجوان نے ۱۹۲۰ء میں اپنے ایمان اور ضمیر کے تقاضے کے طور پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی جو ننھی منی شمع روشن کی تھی‘ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں علمی اور فکری اُفق اس کی ضوفشانی سے منور ہو چکے تھے۔ پھر ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء سے شروع ہونے والی ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد کی رہنمائی کرتے ہوئے‘ ۱۹۷۹ء میں جب یہ مجاہد اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ گیا تو یہ دعوت اسلامی احیا کی عالمی لہر بن کر مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل کر ایک جان دار تحریک بن چکی تھی۔ شیخ یوسف القرضاوی نے ۲۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور میں سید مودودیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد جو الفاظ کہے‘ وہ محض ایک فرد کے جذبات کا مظہر نہیں بلکہ تاریخ کی گونج ہیں:

سید ابوالاعلیٰ کا یہ جنازہ ایک ریفرنڈم ہے کہ پاکستان کے مسلمان صرف اسلام چاہتے ہیں۔ ان کے فقید المثال جنازے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بندوں میں سے ہیں۔ لاکھوں افراد ان کی رحلت پر رو رہے ہیں۔ یہ گویا بجاے خود شہادت ہے کہ مولا نا کی ذات حسنات کا مجموعہ تھی۔

سید مودودیؒ صرف پاکستان ہی کے نہیں‘ پوری اُمت مسلمہ اور ساری انسانیت کا سرمایہ اور میراث ہیں۔ ایک نادرہ روزگار مفکر‘ ایک بے باک قائد‘ ایک زمانہ ساز مدبر‘ ایک حیات آفریں شخصیت‘ ایک نئے دور کا نقیب --- اور سب سے بڑھ کر اللہ کا ایک تابع دار بندہ اور   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق‘ شیدائی اور مطیع فرمان۔ سید مودودیؒ کی شخصیت کا آئینہ وہ دعا ہے جو انھوں نے ۱۹۳۸ء کے حوصلہ شکن حالات میں اپنے رب کے حضور کی تھی:

اے پروردگار‘ میں ایک مجاہد کے ایمان کا طالب ہوں‘ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے‘ ایسی روح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو…

اور جب اس داعی الی الحق نے ہجرت کا راستہ اختیار کر کے‘ قافلۂ حق کے جانبازوں کی صف بندی کی تو اس کا دل یوں زبان بن گیا:

  •  برادرانِ اسلام‘ میں ایک دُور دراز علاقے کا رہنے والا‘ اپنا گھر بار اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر آپ کی اس بستی میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہاں کوئی لالچ کھینچ کر نہیں لایا‘ نہ میں آپ سے کسی اُجرت کا طالب ہوں۔ میں صرف آپ کے لیے اور سب مسلمانوں کے لیے دنیا اور عاقبت کی بھلائی چاہتا ہوں‘ اور اس کام میں بھی اگر کوئی لالچ ہے تو بس اتنا ہے کہ شاید اس طرح میرا مالک مجھ سے راضی ہوجائے اور گناہوں کو بخش دے۔
  •  بھائیو‘ اگرتمھارا دل گواہی دے کہ اس کام میں مدد کرنا تمھارا فرض ہے ‘تو میری مدد کرو۔ میری مدد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کے مطابق جو کچھ میں تم سے کہوں ‘اس کو قبول کرو اور جس بات سے منع کروں اس سے باز آجائو اور تمھاری فلاح دارین کے لیے جو کام میں کروں‘ اس میں میرا ساتھ دو۔
  • بھائیو‘ مجھے نہ علم میں کامل ہونے کا دعویٰ ہے ‘اور نہ عمل میں کامل ہونے کا…جس طرح دوسرے انسانوں کے علم اور عمل میں کوتاہیاں ہیں‘ اسی طرح میرے علم وعمل میں بھی ہیں۔ اس لیے میں کبھی یہ نہ چاہوں گا کہ تم آنکھیں بند کر کے میری پیروی کرو۔ نہیں‘ تم میں سے ہر شخص کو اپنے دین کے معاملے میں چوکنا رہنا چاہیے۔(ترجمان القرآن‘ ۱۹۳۸ئ‘ج ۱۱‘ عدد ۶‘ ص ۵۲۷-۵۲۸)

جب اس بندئہ حق کو ظالم اقتدار نے سولی پر چڑھانے کی سزا کا اعلان کیا ‘تب بھی اس کے ایمان اور عزم کی شان ایک سچے بندۂ رحمن کی شایانِ شان تھی: ’’میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔اور الحمدللہ‘ اقتدار وہ سزا نہ دے سکا۔

اس لیے کہ سید مودودیؒ کا شعور حق‘ نور نبوت سے منور تھا۔ انھوں نے کہا:

حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجاے خود حق ہے--- وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے‘ تب بھی وہ حق ہی ہے۔ مصائب حق پر نہیں‘ اہل حق پر آتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہرحال حق پر قائم رہنا اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے‘ وہ مصائب میں مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔

سید مودودیؒ کی ۷۶ سالہ زندگی‘ حق پرستی اور حق کے لیے جان کی بازی لگا دینے سے عبارت ہے۔ بیسویں صدی میں جو بھی روشنی ہے‘ اسے جلابخشنے میں اللہ کے فضل اور اس کی سنت کے مطابق ان کا بھی ایک منفرد کردار ہے۔ ہم بے جا شخصی تذکرے‘ یا غلو کے قائل نہیں‘      لیکن احسان مندی اور محسن شناسی کی تعلیم بھی اسی اسلام نے ہی دی ہے‘ جس نے شخصیت پرستی سے اجتناب کا حکم دیا ہے--- اور ترجمان القرآن کا یہ خاص شمارہ جس کا پہلا حصہ آپ کے   ہاتھ میں ہے--- ان شاء اللہ دوسرا بھی چند ماہ بعد حاضرخدمت کیا جائے گا‘ درحقیقت اسی احسان مندی کا اعتراف اور اسی محسن شناسی کا ایک اظہار ہے۔

اس ’اشاعت خاص‘ کے لیے کام میرے عزیز بھائی سلیم منصور خالد نے کیا ہے‘ جو اس کے ’مہمان مدیر‘ ہیں۔ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہیں۔ مجلس ادارت کی رہنمائی اور برادرم مسلم سجاد اور برادرم رفیع الدین ہاشمی کی معاونت کا اس خدمت میں ایک قیمتی حصہ ہے۔

ترجمان کا یہ خاص نمبر ایک تاریخی دستاویز‘ ایک عہد کی داستان‘ ایک مجاہد کی ۶۰ سالہ جدوجہد کی ایمان افروز کہانی اور اکیسویں صدی کے انسان کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ جو بھی اس زندگی‘ اس جدوجہد ‘ اس کش مکش اور اس راہِ عمل پر کھلے ذہن اور قلب سلیم کی رہنمائی میں غور کرنے اور چلنے کی کوشش کرے گا‘ کامیاب و کامران ہوگا۔ درخواست ہے کہ ہر فرد‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ‘ اللہ کے اس پاک باز بندے کے لیے بہترین دعائوں کا تحفہ بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لے ‘ کہ جس نے بیسویں صدی کے ستم زدہ انسان کو اکیسویں صدی میں قدم رکھتے وقت یہ احساس دلایا کہ’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے‘اورجس کے بارے میں امیرخسرو کے الفاظ میں دل گواہی دیتا ہے کہ     ؎

آفاق ہا گردیدہ ام ‘ مہربتاں ورزیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام‘ لیکن تو چیزے دیگری

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں ایسے انسان پیدا کرتا ہے‘ جو حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی‘ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور انھیں گمراہی اور انحراف سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشیت ِ حق سے اُمت مسلمہ میں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی  ؒکے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا ہے:

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

مولانا مودودیؒ نے بھی عہدحاضرمیں اُمت کی بیداری اور دین کی طرف اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ وہ قرآن و سنت اور علومِ اسلامیہ کے دیگر سرچشموں سے علم وعرفان کا نور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وفلسفے کی تہہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ انھوں نے تجزیے اور دلیل کا راستہ اختیار کیا‘ عصرِحاضر کے علم کلام سے استفادہ کیا اور اسے اسلامی علم کلام کے سانچے میں ڈھال کر اظہار و بیان کا منفرد اسلوب اختیار کیا۔ ان پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو پہلے صاف اور عام فہم سوال میں خود ڈھالتے تھے‘ پھر اس کا تجزیہ کرکے بالکل آسان پیرایے میں‘ بنیادی اہمیت کے معاملات کو کھول کھول کر بیان کر دیتے تھے۔ اسلامی نظامِ زندگی خلافتِ راشدہؓ کے بعد رفتہ رفتہ گردش لیل و نہار اور حاشیہ در حاشیہ کتابوں کے انبار میں نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ تاہم‘ مولانا مودودیؒ نے اسلامی نظام زندگی کو انسانی ہدایت کے ایک واضح لائحہ عمل کے طور پر متعارف کروایا۔

مسلمانوں کے ہاں مغربی تہذیب کی حاکمانہ برتری نے عوام و خواص کے ذہنوں کو زبردست قسم کی ذہنی غلامی سے دوچار کر دیا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جدید اسلوب اور نہایت مؤثرانداز میں تنقیحات کے مضامین کے ذریعے اس تہذیب کے فکری تار و پود بکھیر دیے۔ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو ایمان سے سرشار اور عقلی و علمی دلائل سے مسلح کیا۔ مزید یہ کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات‘ یکساں طور پر ایک فاضل اور ایک عام فرد کے ذہن نشین کرا دیں۔

خطبات اور دینیات بنیادی طور پر عام فرد کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں اور دعوتِ حق اور بلکہ فہم دین کے لیے یہ نہایت درجہ بنیادی اور سب سے زیادہ قیمتی کتب ہیں۔ یہ وہ کتب ہیں‘ جو فرد کا رشتہ خالق ارض و سما سے جوڑتی ہیں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا درس دیتی ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی شک و شبہے سے بالاتر طمانیت قلب والا تعلق جڑ جائے تو پھر زندگی کے آیندہ مراحل اس سعادت و رحمت کے راستے پر ہی گزرتے ہیں۔ ان کتب کے بعد میں اسلامی عبادات پر تحقیقی نظرکو مطالعے کا نہایت اہم جز سمجھتا ہوں۔

مولانا مودودی کے لٹریچر میں اس کے بعد جس خطبے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو بے شمار کتابوں پر بھاری ہے‘ اس کا نام اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ مولانا مودودی نے یہ تقریر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے فرمائی تھی۔ عصرِحاضر کے اسلامی لٹریچر کو اس تقریر نے اپنی گرفت میں لے کر ایک منزل کا سراغ دیا۔ افغانستان کے عظیم انقلابی اور دانش ور منہاج الدین ’گہیز‘ شہید ]م: ۱۹۷۲ئ[ نے مجھے بتایا کہ : ’’اس تقریر (فارسی ترجمہ: برنامہ انقلاب اسلامی) نے میرے ذہن کے تمام دریچے کھول دیے ہیں اور میرے تمام اشکالات کا جواب دے دیا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ منہاج الدین گہیزؒپہلے ایک قوم پرست رہنما تھے‘ اور اس کتاب کے مطالعے کے بعد اسلام کے داعی بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ مولانا مودودی کی یہ مختصر تحریریں انسانوں کی زندگیاں بدل دینے کا ذریعہ بنیں۔ اسی طرح مولانا کی تقریر  شہادتِ حق نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو اللہ کی راہ پر لگا دیا۔

مولانا مودودی پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل تھا کہ اُن کے ذہن میں اسلامی نظام کا خاکہ اور نقشۂ کار ایک ترتیب سے ‘ دواور دو چار کی طرح واضح تھا ۔ وہ اس معاملے میں بڑے یکسو تھے کہ ایک معاشرے کو اسلامی معاشرے میں کیسے ڈھالا جائے؟ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ اس کا    عملی ڈھانچا کیا ہے؟ اور کن چیزوں کو کس ترتیب سے لانا چاہیے؟ انھوں نے اسی ترتیب سے    یہ سبق لوگوں کو ذہن نشین کرا دیا۔

اسی دور میں امام حسن البنا شہید نے مصر میں ایک دوسرے انداز میں کام شروع کیا۔ بعدازاں ان کے ایک حلقہ بگوش سید قطبؒ کی بلندپایہ علمی تحریروں نے نوجوان نسل کو بڑی کثرت سے اسلام کے انقلابی پہلو کی طرف متوجہ کیا۔ ترکی میں بدیع الزماں سعید نورسی مرحوم نے دعوت‘ تربیت اور مزاحمت کی ایک منفرد تحریک برپا کی۔ ہمارے یہاں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کے ہاں حزب اللہ اور نظم اسلامی جماعت کا تصور‘ مولانا مودودی کے تصورِ جماعت اسلامی سے ملتا جلتا ہے اور پھر علامہ اقبال کے پورے کلام میں بھی اُمت مسلمہ کو نہایت دل نشین انداز میں قرآن و سنت ہی کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔

اسلام میں رہبانیت کی گنجایش نہیں ہے‘ بلکہ اسلام ایک نظام زندگی کے طور پر‘ دعوت‘ عدل اور قوت کے ساتھ اُبھرتا نظر آتا ہے۔ اس تصورکے حوالے سے علامہ اقبال کی اسرارخودی اور  رموز بے خودی میرے نزدیک مرکزی شان کی حامل ہیں۔ اسرارِخودی میں ایک مسلمان فرد کے کردار کے بنیادی عناصر اور اس کے تقاضے بتائے گئے ہیں‘ جب کہ رموز بے خودی میں علامہ اقبال نے واضح کیا ہے کہ اس کردار کے لوگوں کو ایک اسلامی قوم میں کن اصولوں کے ذریعے ڈھالا جاتا ہے۔ اس پیغام کو انھوں نے اپنی معروف نظم ’ترانہ ملی‘ میں جس عمدہ اور پُرتاثیر پیرایے میں پیش کیا ہے‘ وہ پڑھنے اور درس لینے سے تعلق رکھتا ہے     ؎

چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

علامہ اقبال شعرکی زبان میں بات کرتے تھے‘ اس لیے کلام اقبال سے اسلامی نظام زندگی کی دعوت سامنے آنے کے باوجود عملی اور منطقی انداز سے ذہن نشین نہیں ہو سکتا تھا۔ شعرکا تاثر فرد کو سوچنے پر اُبھارتا‘ شعر کا مضمون اور آہنگ طبیعت میں وجد لاتا ہے۔ اسلام کے نظام حیات کے تصور کو اقبال نے خواب سے بڑھ کر جذبے میں ڈھالا‘ جب کہ مولانا مودودی نے ترتیب کے ساتھ ایک مربوط تحریر اور ایک نکھرے پروگرام میں اسے مدلل انداز میں بیان کر دیا۔

علامہ اقبال نے اپنے قارئین کے ذہنوں میں ایک بیداری پیدا کی جس کے بعد ان بیدار ضمیر لوگوں کو ایک اجتماعیت کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو مولانا مودودی نے پورا کیا۔ انھوں نے بتایا: منتشر نیکی اور اعلیٰ جذبے کو جب تک اجتماعی طاقت میں نہیں بدلا جاتا‘ وہ جذبہ اور نیکی محض ایک اعلیٰ قدر تو ہوسکتی ہے‘ مگر مثبت قوت نہیں قرار دی جا سکتی۔ اس کے مقابلے میں ابلیسی طاقت منظم بھی ہے اور موثر بھی۔ اس کی پشت پر افراد‘ اداروں اور ریاستوں کی طاقت ہے۔ مولانا مودودی نے خدا سے غافل اور ظلم پر مبنی اس جاہلیت کا جواب دینے کے لیے واضح مقصد اور شفاف طریق کار پر مشتمل ایک تحریک برپا کی۔ یہ کام انھوں نے محض تحریریں لکھ دینے کی حد تک نہیں کیا‘ بلکہ انھوں نے قرآنی حکم کے تحت اسے بنیان مرصوص بنانے کے لیے ایک ایک تنکا اکٹھا کر کے آشیانہ بنایا۔ ایک ایک فرد کو مجتمع کر کے قافلہ ترتیب دیا۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ایک حکم کے سائے میں مطلوب اور معتدل نظامِ فکر پیش کیا۔ میں اس کارنامہ عظیم کا کسی بزرگ ہستی سے کوئی موازنہ کیے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ عصرحاضر میں یہ کاوش‘ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان ہے جس کے لیے اُس نے اپنے بندے سیدابوالاعلیٰ مودودی کو خدمت کے لیے چنا ۔

جیسا کہ پہلے کہا گیاہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اسلامی نظم جماعت کا تصور پیش فرمایا‘ لیکن بہت جلد وہ خود ایک سیکولر نظم جماعت کا حصہ بن گئے۔ اس اقدام کو مولانا مودودی نے ایک المیہ قرار دیا اور فرمایا کہ: مولانا ابوالکلام آزادؒ اس اُمت کے فکری اور عملی دکھوں کا علاج کرنے کے لیے ایک معالج کے طور پر آئے‘ لیکن کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے مایوس ہوکر اس مریض کو لاعلاج قرار دے کر چھوڑ دیا۔ مگر میں تو اس مریض کا معالج نہیں بلکہ تیماردار ہوں۔ معالج چھوڑنا چاہے تو چھوڑ دے‘ لیکن تیماردار اپنے مریض کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ مولانا مودودیؒ کے اس قول میں کوئی دعویٰ ،تعلّی اور فخر کی بات نہیں ہے‘ بلکہ دل سوزی‘ ہمدردی اور ذمہ داری کی دعوت ہے۔

گذشتہ صدی کے آغاز میں مسلم اُمہ کس حال میں تھی‘ اس کا تذکرہ اگر بچشم تر پڑھنا ہو   تو خواجہ الطاف حسین خالی مرحوم کی مسّدس پڑھیں تواُمت کی حالت ِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  مسّدسمیں تفصیل کے ساتھ مسلم اُمہ کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے بالکل ہی متصل علامہ اقبال ایک مجاہدانہ لہجے میں کہتے ہیں    ؎

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہوگا

اقبال نے روتے ہوئے لوگوں کے آنسو پونچھے اور انھیں حوصلہ دے کر کھڑا کیا۔ ان ہمت شکن حالات میں کھنڈرات پر کھڑے ہو کر مولانا مودودی نے اُمید کا دامن پکڑا اور ملبے کے ڈھیر سے اینٹیں چن چن کر عمارت کی تعمیر شروع کی‘ اور نظم جماعت قائم کیا۔ بلند ہمتی کے ذریعے اگلے سو سال کا صاف سیدھا نقشہ بنا کر پیش کر دیا۔ یاد رہے کہ لمبے عرصے کا منصوبہ بنانا اور صبروہمت سے منصوبے کے خدوخال واضح کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مستقبل بینی اور مستقبل کی منصوبہ سازی کا کوئی رواج نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ’’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر‘‘ ہی نہیں دکھاتا‘ بلکہ پورا اور ایک واضح منظر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے‘ اور مولانا مودودی اس منظر تک پہنچنے کے لیے راستے کی مشکلات و مصائب سے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ انھیں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا لائحہ عمل بھی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے عصرِحاضر میں احیاے اسلام کی تحریک کے یہ دونوں بڑے نام یعنی علامہ اقبال اور مولانا مودودی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُمت کو پکارتے ہیں۔ اگر کوئی کھلی آنکھوں کے ساتھ علامہ اقبال کے شعری کلیات اور مولانا مودودی کی کتب کو بغور پڑھ لے تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ ان کی پکار ایمان اور عمل کی پکار ہے‘ جہاد اور اجتہاد کی پکار ہے‘ ایثار اور اقدام کی پکار ہے‘ عدل اور امن کی پکار ہے‘ اُمت اور اتحاد اُمت کی پکار ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے گہرے غوروفکر سے کام لیا اور بہت سے اصحاب سے یہ مشاورت کی کہ آیا جماعت بنائی بھی جائے یا نہیں؟ پھر جب جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا توآپ نے جماعت اس لیے بنائی کہ:’’منظم شر کا مقابلہ منظم نیکی ہی کر سکتی ہے‘‘۔ آپ نے صاف طور پر کہا: ہماری دعوت‘ دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اسوہ حسنہ کی طرف دعوت ہے۔ ہماری دعوت اپنے بانی یا جماعت کی طرف نہیں‘ مقصد کی طرف ہے۔ جماعت صرف ایک ذریعہ ہے‘ مقصد نہیں ہے۔ مقصد قرآن کریم سے لیا گیا ہے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے۔ طریق کار سنت سے لیا گیا ہے کہ وہی آئیڈیل ہے اور وہی معیارِ حق ہے۔

مولانا مودودی نے جماعت کو کوئی فرقہ‘ گروہ یا مسلک نہیں بننے دیا‘بلکہ تمام مسلمہ مکاتب فکر کے افراد کو دعوت دی کہ وہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں۔ پاکستان بنانے اور پاکستان کا دفاع کرنے کے لیے اگر تمام مکاتب فکر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پاکستان کو اس کا مقصدِ وجود دلانے کے لیے آخر کیوں وہ ٹکڑیوں میں تقسیم رہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا ‘کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نئی فکر دینے والے یا کوئی نیا راستہ تجویز کرنے والے نہیں ہیں‘ بلکہ وہ قرآن کی فکر کا تذکرہ کرنے اور اس فکر کے راستے کی نشاندہی کرنے والے‘   اللہ تعالیٰ کے ایک عاجز بندے ہیں۔ مولانا مودودی یہی کہتے تھے: آپ میری فکر نہ کریں‘ اور نہ میرے دفاع کے بارے میں پریشان ہوں بلکہ آپ مقصدِ زندگی کی فکر کریں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستے پر چلنے کی فکر کریں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان تعصبات سے نکالنے کی کوشش کریں کہ جس نے انھیں کفرواستعمار کے سامنے تر نوالہ بنا دیا ہے۔

وہ کہتے تھے : جن تعصبات میں مسلم جماعتیں مبتلا ہوگئی ہیں‘ انھیں اس دلدل سے نکالیں‘ اور اصلاحی جماعتیں فرقہ بندی کی بندگلی میں پھنس کر رہ گئی ہیں‘ انھیں قرآن و سنت کی دعوت کی طرف بلائیں اور اس الجھن سے چھٹکارا دلادیں۔ اس لیے میرے نزدیک فکرِمودودی بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے۔ اسی تسلسل میں یہ بات بھی بالکل واضح رہنی چاہیے کہ معیارِحق اور رہنمائی کا اول و آخر مرکز‘ قرآن و سنت ہیں۔ ماضی میں مختلف دینی تحریکیں شخصی سطح پر غلو کا شکار ہوگئی تھیں اور فی زمانہ مولانا مودودی نے برملا فرمایا کہ مجھے معیار مت سمجھیے۔ انھوں نے کھلے دل کے ساتھ لوگوں کو بلایا اور اپنی بجاے اصل مراکز دعوت کی طرف رواں دواں کر دیا۔ انھوںنے زندگی بھر جماعت کو اپنی تحریروں کا پابند نہیں بنایا‘ البتہ جماعت نے جو فیصلے کیے‘ کارکنان کو اس کی پابندی کرنے کے لیے کہا اور جب جماعت نے فیصلے میں تبدیلی کی تو انھوں نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ وہ اپنی تحقیقات کو بھی حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں پیری مریدی‘ یا خادم و مخدوم اور آقا و کارکن کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔بلاشبہہ مولانا مودودی کی کتب روشنی کا ایک مینار ہیں‘ لیکن روشنی کا واحد مرکز یہ نہیں ہیں۔ اسی لیے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کے نصابات میں آپ کو دکھائی دے گا کہ مولانا کی تو آدھی کتب بھی مطالعے کے لیے لازم نہیں ہیں۔ وہ ہمارے محسن ہیں اور ہم ان کے زیراحسان ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے رہے۔ خود انھوں نے مسلم تاریخ پر جس طرح احتسابی نگاہ ڈالی‘ بالکل اسی طرح وہ بھی آنے والے تمام لوگوں کی طرح اسلام کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔

تیسرا پہلو جس کی طرف ہمیں آج توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ وہ مسلم اُمت کا حالِ زار ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جب ہوش سنبھالا‘ اُس وقت برطانوی استعمار نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط قائم کر رکھا تھا اور مسلم دنیا کا کم و بیش سارا ہی علاقہ محکوم تھا۔ بظاہر جو ممالک آزاد دکھائی دیتے تھے‘ وہ بھی بالواسطہ طور پر برطانیہ یا یورپی اقوام کے زیرنگین تھے۔ مولانا مودودی نے اس وقت یہ بنیادی سوال اٹھایا:

مسلم دنیا کو اسلامی دنیا اور مسلم معاشرے کو اسلامی معاشرہ کیسے بنایا جائے؟

حقیقت میں یہ بڑے بنیادی سوالات تھے جن پر انھوں نے بحث کی۔ انھوں نے مرض سے پہلے مرض کے اسباب اور مرض کی شدت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مولانا مودودی کی وہ تمام تحریریں جو ۱۹۴۰ء سے پہلے انھوں نے لکھی تھیں‘ ان میں استعمار کے چہرے کو بے نقاب کرنے اور مسلم دنیا کو بیدار کرنے کا پورا لائحہ عمل موجود ہے۔ ایک بڑے معرکے سے دوچار لوگوں کو‘ چند سو صفحات پر مشتمل یہ تحریریں پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ استعمار کی دنیاوی کامیابی اور دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کی بے کسی کا سبب کیا ہے؟اس مطالعے سے قاری کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس تسلّط اورجال کو توڑنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

مولانا مودودی ؒ نے خطبات کے ایک حصے حقیقت جہاد میں یہ بڑی پتے کی بات تحریر فرمائی ہے کہ: ’’حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔ اور یہ تقریر انھوں نے ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کی تھی جب ہندستان غیرمنقسم تھا اور پاکستان کا وجود نہیں تھا۔ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ تب انھوں نے فرمایا اگر اقتدار اور اختیار کے سرچشموں پر خدا کے باغی‘ خائن اور انسانیت کے دشمن لوگ بیٹھے ہوں گے تو انسانیت کبھی سکون اور عدل سے ہم کنار نہیں ہوپائے گی۔ اسی لیے آج حالات جس قدر خراب ہیں‘ ان میں کھلے عام‘ افہام و تفہیم سے‘    دلیل اور اجتماعیت سے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مسلم دنیا میں حکومتی مناصب پر فائز لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ دنیاوی طاقتوں کا ڈر اور خوف دل سے نکال دیں۔ ڈر اور خوف تو صرف مالکِ حقیقی کا ہونا چاہیے۔

مولانا مودودی نے اس کے لیے خفیہ کام کرنے سے منع فرمایا کہ خفیہ تنظیمیں اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتیں اور دنیا بھر کا بوجھ اُن پر ڈال دیا جائے تو وہ اس کی وضاحت تک کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ مولانا نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیشہ منع فرمایا اور جماعت کا دستور انھی کی رہنمائی میں بنا جس نے پُرتشدد کارروائی کے لیے جماعت کے دروازے بند کر دیے۔ اس لیے ردعمل کی سیاست‘ تشدد کے عمل اور تشدد کی طرف داری سے بچنا تحریک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا مودودی نے پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس رباط (۱۹۶۹ئ) میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بطور لائحہ عمل جو رہنمائی دی تھی‘ اسے آج کی اسلامی تحریکات اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس طرح اُٹھائیں کہ ان کی قومی حکومتوں کو اس پر عمل درآمد کی راہیں سوچنی پڑیں۔

اقتصادی تعاون‘ باہم ویزے میں نرمی‘ میڈیا کی سطح پر تعاون‘ مشترکہ دفاع‘ قومی وسائل پر کنٹرول‘ تعلیمی پروگراموں میں باہم تبادلہ‘ ان سب پہلوئوں پر اپنے ملکوں اور ان کے قائدین کو تعاون کے لیے اُبھارنا چاہیے۔

مزید یہ کہ ایک ماڈل اسلامی دستور کا ڈھانچا تمام ممالک کے لیے بناکر پیش کرنا چاہیے جس میں بالکل بنیادی نکات ہوں۔ اور پھر اس کی روشنی میں ہر ملک کا تفصیلی دستور تجویز کرنا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک علمی یا اکیڈمک قسم کی کاوش ہے‘ لیکن میرے نزدیک ایسی دستاویزات ایک بڑے انقلاب اور ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔

مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چھوٹی بڑی ضروریات زندگی کا سوال نہیں اٹھایا تھا بلکہ اس ریاست کے عقیدے‘ مقاصد اور اہداف کا سوال اٹھایا تھا۔ آج اندازہ ہوتا ہے کہ چند سطروں کی ’قرارداد مقاصد’ اور پھر ’علما کے ۲۲ نکات‘ پاکستان کی ریاست کے دستور اور قانون سازی کی تاریخ میں کتنی اہم اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان دونوں دستاویزات کی تیاری اور منظوری میں‘ مولانا مودودی نے جو کلیدی رول ادا کیا‘ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے۔

علم اور عمل‘ ایمان اور جستجو‘ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی تمام تر جدوجہد کا محور تھے۔ آج ہمیں نہ صرف اہلِ وطن بلکہ پوری اُمت کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اور مرشدعام حسن البناشہیدؒ قریب قریب کے زمانے میں پیدا ہوئے۔ دونوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے کمال کی دینی بصیرت اور اصلاحی میلان عطا فرمایا۔ دونوںزندگی بھر، دعوت و عمل اور تربیت و جہاد کے میدان میں سرگرم عمل رہے، اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گئے جس پر ہر مسلمان فخر کرتا‘ اور اس میں اپنے لیے راہِ ہدایت اورمثالی نمونہ پاتا ہے۔

دونوں رہنماؤں میںموجودبہت سی مشترک اقدار کی طرح ان کے ممالک مصر و پاکستان کے حالات میں بھی بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک اہم جغرافیائی پوزیشن او رممتاز و مؤثر تہذیبی و سیاسی مقام کے حامل ہیں۔ دونوںممالک کو انگریزی استعمارکا سامنا کرنا پڑا اور دونوں عالمی سازشوں اور داخلی فوجی آمریتوںکا شکار رہے ۔ پھرانھی دو ممالک سے دعوت اسلامی کی روشن شعاعیں پھوٹیں او رانھی دو ملکوں کو دین کے کام میں پیش رو کا مقام حاصل ہوا ‘جو اب بھی حاصل ہے۔

  • ابتدائی زندگی اور دینی رچاؤ: سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ ۱۳۲۱ ھ / ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے‘جب کہ امام حسن البناؒ کی پیدایش اس کے تین برس بعد ۱۳۲۴ ھ/ ۱۹۰۶ ء میں ہوئی۔ دونوں نے اہلِ علم وفضل کے گھرانوں میں پرورش پائی۔ دونوں کی اچھی تربیت اور دینی رہنمائی میں ان کے والد کابڑا ہاتھ رہا۔دونوں کے تزکیہ نفس میں قرآن و سنت کے اصول و قواعد سے ترتیب پانے والی ایک نوعیت کی صوفیانہ تربیت کا بڑا گہرا اثر تھا ۔دونوں ہی نے اوائل عمری ہی سے سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونا شرو ع کردیا تھا۔

سیدمودودیؒ اہلِ بیت سے منسوب ایک خاندان کے چشم و چراغ تھے۔جس نے پہلے ہرات کی طرف اور پھراپنے جد امجد قطب الدین مودود چشتی ؒ(۵۲۷ ھ) کے زمانے میں ہندستان کی طرف ہجرت کی۔قطب الدینؒؒ سلسلہ چشتیہ کے بڑے بزرگ تھے‘ یہ سلسلہ قرآن و سنت کی پابندی کا خصوصی التزام کرتا ہے۔ ان کے والد سید احمد حسنؒ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا‘ لیکن تصوف اور عباد ت و زہد کی طرف طبیعی میلان ان پر اکثر غالب آجاتا۔ اسی لیے وہ وکالت کو بہت زیادہ وقت نہ دے پاتے۔ جس مقدمے کو حق و انصاف کے مطابق پاتے صرف اسی کی پیروی کرتے۔ زہد کی اسی فضا میں سیدمودودیؒ نے پرورش پائی۔ ان کی زندگی پر ان کے والد گرامی کا بڑا گہرا اثر تھا۔ وہ ننھے ابو الاعلیٰ کو اپنے ساتھ مسجد لے جاتے اور انھیں اپنے ہم عصر علما کی مجالس میں بٹھاتے‘ قرآن کریم یاد کراتے۔ عربی اور فصیح اردو بولنے کی تعلیم انھیں‘ ان کے والدصاحب نے ہی دی تھی۔وہ ننھے مودودی ؒ کو انبیا ؑ کے قصے‘ اسلامی تاریخ کے سبق آموز واقعات اور ہندستان کی تاریخ کے اہم حادثات بتایا کرتے تھے۔ ابو الاعلیؒ کہتے ہیں:’’ اگر مجھ میں کوئی خراب عادت آجاتی تو وہ مجھ سے چھڑا دیا کرتے۔ ایک دن میں نے اپنے نوکر کے بچے کو مارا تو انھوں نے اسے بلایا اور کہا: ’’جیسے اس نے تمھیں مارا ہے تم بھی اسے مارو۔ اس واقعے نے مجھے ایساسبق سکھایا جو ساری زندگی میرے کام آتا رہا‘‘۔ مدرسہ بھیجنے سے قبل گھر پر ہی ان کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا تھااور ان دونوں مراحل میں انھوں نے حصول علم میں اپناتفوق ثابت کیا۔ ابھی عنفوان شباب ہی میں تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

امام حسن البنا شہیدؒ کے والد حدیث کے بڑے عالم تھے ۔علم حدیث میں ان کی سعی وجہد کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ائمہ اربعہ کی اکثر مسندات کو فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کیا۔ مسند احمدکی جو شرح انھوں نے کی وہ بہت مشہور ہے۔ حسن البناؒؒ کے و الد انھیں ہمیشہ لائبریری سے استفادے اور علمی مجالس میں شرکت پر ابھارا کرتے۔ جب امام موصوف نے قرآن حکیم کا حفظ ترک کرکے ہائی ا سکول میں داخلہ لیا تو والد صاحب نے بیٹے کے اس فیصلے پر سخت اعتراض کیا‘ اور اسکول میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت اس وقت دی جب حسن البناؒ ؒ نے وعدہ کرلیا کہ گھر پر حفظ قرآن کی تکمیل کروں گا۔ اسی لیے ابھی نو برس کے نہیں ہوئے تھے کہ آپ نے حفظ مکمل کرلیا۔ حسن البناؒؒکے والد بھی انھیں اپنے ساتھ علما کی مجالس میں لے جایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں انھیں ان کے والد محترم نے گھڑی سازی اور جلد سازی بھی سکھائی تھی‘ تاکہ مستقبل میں آپ کا سارا انحصار سرکاری نوکری پر ہی نہ ہو(گھڑی سازی کی وجہ سے ہی آپ نے اپنا لقب الساعاتی رکھا تھا)۔

اسی دوران امام حسن البناؒ کو مسنون تصوف سے وا قفیت حاصل ہوئی اور پھر آپ پابندی کے ساتھ سلسلہ حصافیہ کی مجالس میں شریک ہونے اوراس کے اوراد‘ وظائف اور آداب کی پا بندی کرنے لگے۔ آپ نے ان حصافی بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا ۔اختلافی مسائل او ر مشتبہ امور سے دُوررہنا‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام کرنا‘ آپ نے یہیں سے سیکھا۔ یہیںسے آپ کی ذات میں علم کی جو ت جا گی اورخیر کے لیے سعی و جہد کا جذبہ پروان چڑھا۔

سید مودودی ؒاور حسن البنا شہیدؒ دونوں کو تحصیل علم سے بے حد لگا ئو تھا۔ حصول علم اور اس پر عمل کے رستے میں رکاوٹ بننے والی ہر چیزکو وہ قربان کردیا کرتے ۔

امام مودودی ؒ نے اد بِ عر بی‘تفسیر و حدیث اور منطق و فلسفہ کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا۔ صرف و نحو اور بلاغت کو درساً درساً سیکھا‘ یہا ں تک کہ عربی میں نابغہ روزگار ہو گئے اور آپ کے زبان و قلم روانی کے ساتھ فصیح زبان لکھنے اور بولنے پر قادر ہوگئے۔آپ نے بعض عربی شہ پاروںکااردو میں ترجمہ بھی کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی ذاتی محنت سے بغیرکسی فا ضل استاد کی نمایاںرہنمائی کے‘ اتنی انگر یزی سیکھ لی کہ علم کے ‘زندگی کے جس شعبے کے با رے میں جتنا چا ہیں پڑ ھ سکیں اور مفید اقتباسا ت کا اردو میں تر جمہ کرسکیں ۔اگرچہ وقت کی کمی نے با قا عدہ تر جمے کی مہلت نہ دی ۔

اما م حسن البناؒ قرأت کے بے حد دلدادہ تھے۔ اللہ نے آپ کو حافظہ بھی بلا کادیا تھا۔ یادداشت ایسی کہ حیرت و استعجاب بھی انگشت بدنداں رہ جا ئیں۔شا ید ہی کبھی کوئی اہم بات آپ کے ذہن سے محو ہوئی ہو۔ جب آپ نے دارالعلوم کالج (بعد میں یہیں سے آپ نے سند فراغت بھی حاصل کی) میںد اخلے کے لیے ٹیسٹ دیا تو اس وقت آپ کو۱۸ ہزار اشعار زبانی یاد تھے۔ آپ اشعار کی صورت میں مختلف عربی علوم وفنون کے متن حفظ کر نے کے بھی بے حد شو قین تھے اوریہ مشغلہ والد گرامی کی اس نصیحت کا اثر تھا کہ:من حفظ المتون حاز الفنون۔ ]جس نے متن کو حفظ کر لیا‘ اس نے سارے فنون جمع کرلیے[ بعد ازاں علوم شرعیہ کی تعلیم کے دورا ن عربی تراجم کے ذریعے مغربی مفکر ین کے خیا لات سے بھی ضروری آگا ہی بہم پہنچا لی تھی ۔

  • سماجی پس منظر اور ابتدائی جد وجہد:دونوںقائدین کا تعلق معا شرے کے متوسط طبقے سے تھا۔ اس طبقے کے افراد کو دولت‘ اختیار اور شہرت اندھا کر دیتی ہے۔ مگر یہ ان کی سلامتی طبع اور ایمانی حرارت تھی کہ ان چیزوں نے انھیںنہ خراب کیا اور نہ تنگ دستی اور غر بت ہی انھیں جھکا سکی‘ بلکہ اس چیز نے ان کو عام لوگوں سے قریب تر ہونے اور امت کے غم اور غربا کے   دکھ درد کے بارے میںحساس تر کر دیا تھا ۔ مزید برآں‘دونوں اصحاب چونکہ صاحبِ علم وفضل خاندانوںسے تعلق ر کھتے تھے‘ اس لیے بخوبی جانتے تھے کہ بارگاہ الٰہی میں کامیابی صرف اتباعِ حق‘ حسن اخلاق اور علم نافع پر خصوصی توجہ دینے میںپوشیدہ ہے۔

دو نو ں ایک اور منفرد قدر مشترک کے بھی حا مل تھے۔ دونوں کواپنی زبان پر عبور ‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ گہری وابستگی ‘عوام کے سا تھ میل جول اوران کی ہدا یت و رہنمائی کے لیے فکر مندی نے وہ دولت و حکمت عطا کی‘ جس سے وہ مشکل تر ین علوم اور عظیم الشان معانی کو بے حد آسان پیرائے اور روشن اسلوب میں پیش کرنے کے قابل بن گئے۔ ان کا طرزِبیان‘ عام خلقِ خدا کے مناسب حال ہوتا جوزبان کی واجبی سمجھ بو جھ ر کھنے وا لوں اورگہرے ادبی نکات پرنظر رکھنے والے لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کرتا۔ یہ خزانہ ان مخاطب لوگوں کے عقل و وجدان کومتوجہ کرکے ضمیر کو متحرک اور نفوس کا تز کیہ کرتا۔ یہ ایک ایسااسلوب بیان تھا جوعلم کی بلندیوں پر فائز لوگوں اور مبتد یوں‘ غرض یہ کہ کسی کے لیے بھی اجنبی نہ ٹھیرا۔

امت مسلمہ کے غموں اور دکھوں کے مداواکے لیے دونوںامام‘ کم عمری ہی میں اجتما عی زندگی کے معاملات میں فعال شرکت کرنے لگے اور انفرادی سعی و جہد پر اجتما عی جدوجہد کو تر جیح دی۔

سید مودودی ؒابھی۱۵ بر س کے تھے کہ بطور صحافی کا م کرنے لگے۔ ۱۹۱۹ ء میں جب ہندستان کے اندر تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو سید مو دودی ؒ پورے جذبے کے ساتھ اس تحریک میںشامل ہوگئے ۔ تحر یک کا مقصد‘ خلافت عثمانیہ کی بقا کی جدو جہد اوراس کی گھات میں بیٹھے ہوئے استعماری لشکروں سے اسے بچانا تھا ۔ دشمن ‘اسلام کی سیاسی وحدت کے اس نشان کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا تھا۔ سید مودودیؒ نے اپنے زیر ادارت اخبار اور دیگر کئی اخبارات کے ادارتی صفحات میں خلافت اسلامیہ کا حقیقی نظریہ‘ اس کی ضرورت اوراس کی اصلاح وبقا کی اہمیت پر مضامین لکھ کر اپنے قلم و زبان سے اس تحریک کی اعانت اور مددکی ۔اسی طرح امام مودودیؒ نے ہندو مسلم فسادات کا باربار شکار ہونے والے مسلما نوںکی مدد کے لئے قائم انجمن کے کاموں میں بھی فعا ل شرکت کی۔ ۱۴۵۱ھ/۱۹۳۳ء میں جب ماہ نامہ ترجمان القرآنسید ابو الاعلیٰ مو دودیؒ کے زیرادارت آیا‘ تو آپ نے اس کا ہدف ’’قرآن کی دعو ت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘ ہی مقرر کیا ۔ ابتدا ئی برسوں میں کتنی ہی مشکلات تھیں جو آپ کو اس مجلے کی اشاعت کی خاطربرداشت کرنا پڑیں ۔ مشکلات میں گھرا ترجمان القرآنقریب تھا کہ بند ہی ہو جاتا‘ مگراللہ کی توفیق اورسیدیؒ کے   عزم وہمت کی بدولت رسالے میں استحکام آتا گیا اور اس کی اشاعت آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی۔ آگے چل کر یہی رسالہ ان کے پروگرام اور وژن کے پھیلائو اورتاسیس جماعت اسلامی کے اعلان کے لیے‘ راے عامہ ہموارکر نے کامؤ ثر ترین ذریعہ ثابت ہوا۔

سید مودودی ؒ نے جواں عمری میں بہت سی بلندپایہ کتب تصنیف کیں۔ جن میں پردہ‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘ تحریک آزادی ہند اور مسلمان اور دینیات وغیرہ شامل ہیں۔  الجہاد فی الاسلامکی تالیف کے وقت (۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء میں) ان کی عمرصرف ۲۵برس تھی۔ اس کتاب میںمغربیوں اور ہندوؤں کے اس منفی اور ظالمانہ پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔

یہی مجلہ‘ بے مثل فلسفی شاعر اور عظیم مفکرِ اسلام‘ علامہ محمد اقبالؒ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلقات کا باعث بنا۔یہاں تک کہ اقبالؒ نے ۱۳۵۶ھ؍۱۹۳۷ء میں سید مودودی ؒکو لاہور بلالیا‘ تاکہ پوری یکسوئی کیساتھ علمی اور دعوتی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا جاسکے۔ گویا قدرت نے اگلے ہی سال علامہ اقبال ؒ کی وفات (۱۹۳۸ئ) سے پیدا شدہ خلا کو پُر کرنا سید مودودیؒ کے مقدر میں لکھ دیا تھا۔

دوسری طرف امام حسن البناؒ ؒ بھی کم عمری ہی سے اجتماعی جدوجہد کی راہ پر چل پڑے تھے۔  وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے کہ اسکول کی ایک فلاحی تنظیم  جمعیت اخلاق الادبیۃ میں    شامل ہوئے ‘اور بعد ازاں اس کی مجلسِ منتظمہ کے صدر نشین ہوگئے۔اوائل عمری کے اسی مرحلہ میں آپ نے اپنے چند رفقا کے ساتھ مل کر ایک اور تنظیم  جمعیت منع المحرمات بھی قائم کی۔یہ تنظیم امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا کام کرتی۔پھر جب ایلیمنٹری اسکول میں داخل ہوئے تو آپ نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر جمعیت الحصافیۃ الخیریۃ کی بنیاد رکھی اور اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔یہ تنظیم اخلاق فاضلہ اپنانے اورمنکرات سے بچنے کی دعوت دیتی۔مصری شہر دمنہور میں آباد عیسائی پادریوں کی مشنری سرگرمیوںکی مزاحمت بھی تنظیم کی سرگرمیوں کا ایک محور تھا۔

مزید تعلیم کے لئے جب قاہرہ منتقل ہوئے توآپ کے ازہری علما کے ساتھ گرما گرم اور طویل مکالمات ہوئے‘ جس کے نتیجے میں ایک رسالہ الفتح کا اجرا عمل میں آیا۔ بعد میںایک تنظیم جمعیت شبان المسلمین بھی قائم کی گئی۔ ۱۹۱۹ء میںجب پورے مصر میں انگریزوں کے قبضے کے خلاف مظاہرے ہوئے تو آپ نے صرف۱۳ برس کی عمر میں ان مظاہروں میں شرکت کی۔

m  صحافت ایک ذریعہ:  جس طرح تمام تر مالی مشکلات کے باوجود سید مودودی ؒ کو ترجمان القرآن جاری رکھنے پر اصرار تھا‘ اسی طرح حسن البنا شہید ؒنے جب  ہفت روزہ اخوان المسلمون جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس ابتدائی اشاعت کے پیسے تک نہ تھے۔لیکن ان کے عزم و ہمت نے مشکل کا حل نکالا اور مجلے کا پہلا شمارہ صرف دو’’ جنیہہ مصری ‘‘کی سرمایہ کاری سے نکلااور دو جنیہہ کی یہ رقم بھی امام حسن البناؒ نے اپنے ایک اخوانی رفیق سے قرض لی تھی۔بعد ازاں یہ مجلہ مسلسل چار برس تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔کہا جا سکتا ہے کہ دونوں داعیوں کے سینوں میں صداے حق کی پکار مچل رہی تھی‘ جوہر صورت لوگوں تک پہنچنے کے لئے کسی راستے کی متلاشی تھی۔

اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت پر دونوں رہنما متفق تھے ‘اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی بے مثال سعی و جہد اور اپنا بہت ساقیمتی وقت صرف کیا۔دونوںپر بسا اوقات ایسا وقت بھی آیا کہ انھیں بیک وقت خود ہی صحافی ومدیراورمنتظم و ہاکر کا کردار ادا کرنا پڑا‘تاکہ اشاعت کا تسلسل برقرار رہ سکے۔اشاعت میں تسلسل کی اہمیت وہی فرد جان سکتاہے‘ جو صحافت کی اثرپذیری سے واقف ہو۔ عالمِ اسلام میں اس کی اہمیت اس لیے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر راے عا مہ کو متاثر کرنے والے ذرائع ابلاغ ‘ٹی وی اور ریڈیو وغیر ہ مکمل سرکاری کنٹرول میں ہوتے ہیں‘ اور حکّامِ وقت‘ اسلامی صحافت کو اپنی راستے کا روڑا سمجھتے ہوئے کام کی اجازت کم ہی دیتے ہیں۔ ذرا سی تنقید بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے اور بندش یا ضبطی کا حکم نامہ آجاتا ہے۔

  • اجتماعی جدوجہد پر اتفاق: دونوں رہنمائوں کا اس پر بھی اتفاق تھا کہ مطلوبہ اصلاح کسی ایک فرد کی ذاتی جدوجہد سے ممکن نہیںاور نہ اصلاح کی اجتماعی کوششیں صرف طبقہ اشرافیہ (elite class) کو ہدف بنا کر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں‘ بلکہ اس مقصد کے لیے نہایت ضروری ہے کہ یہ کام ایک قومی تحریک کی شکل میں ہو اوربغیر کسی طبقاتی تقسیم کے قوم کے تمام افراد کو اپنا مخاطب بنایا اور خاص و عام‘ سب کو ایک ہی لڑی میں پرویا جائے۔ اس لیے کہ دعوت کا اصل ہدف تو سب لوگوں کو اللہ کی بندگی میں دینا ‘ جہنم کی آگ سے بچانا اور جنت کی کامیابیوں کی جانب گامزن کرنا ہے۔نیز یہ کہ خالق کائنات کا پیغام کسی ایک طبقے اور جماعت کے لیے خاص نہیں‘ بلکہ سب کے لیے عام ہے۔اصلاح کی وہ تما م سابقہ کوششیں جو انفراد ی جدوجہد کی غماز اور امت کے کسی ایک طبقے کو ہدف بنا کر شروع کی گئیں تھیں‘منزل مراد کو نہ پاسکیں‘اور اپنے قائد کی وفات سے حرف غلط کی طرح مٹ کر رہ گئیں۔مصر و ہندکی تاریخ اس طرح کی بہت سی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

امام مودودیؒ اورامام البنا شہیدؒ اگرچہ آپس میںکبھی ملے نہیں تھے اور نہ اُن میں کبھی کوئی رابطہ ہی رہا تھا۔ پھر بھی دونوں کو اس حقیقت کا مکمل ادراک تھا کہ اصلاح کی منزل تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ ایک مجاہد اور ربانی جماعت کی تشکیل کا راستہ ہے۔ ایسی جماعت جو پورے کے پورے دین اسلام کو لے کر اٹھے اور لوگوں تک پہنچائے۔اسی کی طرف دعوت دے‘ اسی کے مطابق لوگوں کی تربیت کرے اور پھر جہاں اور جس قدر قربانی کی ضرورت پڑے‘ اس سے دریغ نہ کرے۔

اس حقیقت کے ادراک میںحسن البنا شہید ؒ کو سبقت کا مقام حاصل ہے۔انھوں نے  بہت پہلے سے ہی اپنے آپ کو اس مقصد کی خاطر تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ ابھی دار العلوم کالج کے طالب علم ہی تھے کہ آپ نے لکھا:’’ میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہ ہوگی کہ میں  لوگوں کا ہادی اور معلم بنوں‘‘۔کالج سے فراغت کے بعد آپ نے ۱۹۲۸ء اسماعیلیہ کے مقام پر  اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے مرشد عام قرار پائے۔ اخوان المسلمون کی شاخیں جب مصر اور گرد ونواح کے بہت سے ممالک تک پھیل گئیںتو انھوں نے اپنے ساتھیوں پر واضح کر دیا کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ سچی دعوت کو ابتلا و آزمایش کے ذریعے آزماتاہے اور یہ آزمایش ہی ہے جو مخلصین کو منافقین سے ممیزکر دیتی ہے۔

امام حسن البناؒ نے اسی لمحے کے پیش نظر راستے میں حائل ان رکاوٹوں کو بھی کھول کھول کر واضح کردیا تھا کہ: مسلمانوں کی بڑی تعداد دعوت کی حقیقت سے ناواقف ہوگی ‘ روایتی علماے کرام دین کے حقیقی فہم کو اجنبی نظروں سے دیکھیں گے‘ اور حکمران اور مراعات یافتہ طبقوں کا بغض و عناد بھی آڑے آئے گا ۔تمھیں یہ سب کچھ برداشت کرنا ہو گا اور یہی وقت ہوگا جب تم ابھی اصحابِ دعوت و عزیمت کے رستے پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے۔تم ضرور اس دورِ امتحان و ابتلا میں داخل ہو کر رہو گے‘جہاںپرجلاوطنیاں اور گرفتاریاں ‘ تجارتوں کے خسارے اور نوکریوں سے برطرفی تمھارا پیچھا کرے گی۔ تمھارے گھرو ںکی تلا شیاںلی جا ئیں گی اوریہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ تم اچھی طرح آزما نہ لیے جائولیکن ‘اس سب کچھ کے بعد اللہ کا مجاہدین سے مدد اور عمل کرنے والوں سے ثواب اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا وعدہ ہے۔

امام مودودی ؒنے اسی احساس کی تعبیر ایک ایسی مجاہد‘ مومن جماعت کی تشکیل (۲۶اگست ۱۹۴۱ئ)کی صورت میںکی ہے‘ جو تغیر احوال کا ذریعہ بن جا ئے۔ انھوںنے فرمایا: کسی ایک صا لح فرد یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیںہوسکتاخواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیا اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوںنہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیںمنتشر ومنفرد افراد سے نہیں‘بلکہ ایک ایسی جماعت سے کیے ہیںجودنیا میں اپنے آپ کو عملًا خیرِ امت اور امت ِ و سط ثابت کر دے ۔(نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے گروہ کے محض وجود میں آجانے سے ہی نظامِ امامت میںتغیر واقع نہ ہو جائے گا کہ ادھر وہ بنے اُدھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اتریںاورفساق وفجار کو اقتدار کی گدی سے ہٹاکر انھیںمسند نشین کر دیں) بلکہ اس جماعت کو کفر و فسق کی طاقتوںسے زندگی کے ہر میدان میںہر ہر قدم پرکش مکش اور مجا ہدہ کر نا ہوگا اور امامت ِحق کی راہ میںہر قسم کی قربانیاںدے کر اپنی محبت ِحق اوراہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا ۔یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیا ؑتک مستثنیٰ نہ رکھے گئے ‘کجاکہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہو نے کی توقع کرے!

امام مودودی ؒ کا اس ایثار پیشہ ‘اور مجاہد جماعت کی خصوصیات کے بارے میںتصور کیا تھا؟ آپ نے اس کا ذکرہمہ گیریت اور سیلاب کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ا سلام کو  نظامِ غالب بنانے کی تحریک اس طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کی مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاںسیلاب کی مانند د ر آئی اور زند گی کے تمام شعبوں پرچھاگئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ اور اقتدار سے بے دخل کیا جا سکے اور نہ یہی ممکن ہے کہ نظام تعلیم‘نظام قانون ‘ نظام معیشت اور نظام سیاست کو بد ل کر ایک دوسرا تمد ن خالص اسلامی بنیادو ں پر قائم کیا جاسکے ۔

m آزمایش کا شعور: پھر جب سید مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے ذریعے ہندستان ]یعنی موجودہ: بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان[ کے مخلص مسلمانوں کوتاسیس جماعت کے لیے اجتماع عام کی دعوت دی‘ تو لکھا: ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ایسے لو گ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ وہ اس فاسد نظام‘ تہذیب و تمدن و سیاست کے خلاف عملًا بغاوت کر یں اور اس سے اور اس کے پیرووں سے تعلق توڑ لیں۔ان تمام فائدوں‘ لذتوں آسایشوں اور امیدوں کو چھوڑدیںجو اس نظام سے وابستہ ہیں۔انھیں رفتہ رفتہ ان تمام نقصانات ‘ تکلیفوں‘اور مصیبتوںکو بر داشت کرنا ہو گا جو نظام غالب کے خلاف بغاوت کرنے کا لازمی نتیجہ ہیں۔پھر ان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو ایک فاسد نظام کے تسلط کو مٹانے کے لیے اور ایک صحیح نظام قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔اس انقلاب کی جدوجہد میں اپنا مال بھی قربان کرنا ہوگا‘اپنے اوقاتِ عزیز بھی صرف کرنے پڑیں گے‘ اپنے دل و دماغ اور جسم کی ساری قوتوں سے بھی کام لینا پڑے گا‘ اور قید اور جلاوطنی اورضبط اموال اور تباہی اہل و عیال کے خطرات بھی سہنے ہوں گے اور وقت پڑے تو جانیں بھی دینا پڑیں گی ۔ان راہوں سے گذرے بغیر دنیا میں نہ کبھی کوئی انقلاب برپا ہوا ہے اور نہ اب ہوسکتا ہے‘‘۔

۱۳۶۰ھ/ ۱۹۴۱ء میں تاسیسِ جماعت کے بعد جب آپ پہلے امیر منتخب ہوئے تو فرمایا: ’’میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصدِ زندگی ہے۔میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے ۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو‘ بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا ہے اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا‘کوئی ساتھ نہ دے گا تو میںاکیلا چلوں گا۔ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن ِتنہا اس سے لڑ نے میں بھی باک نہ ہوگا۔‘‘

پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی کیا کہ یہ دونوں رہنما اپنے عہد و پیمان میںایثار و قربانی کی شاہراہ پرا پنے دیگر رفقا سے نہ صرف پیش پیش تھے ‘بلکہ اْن کی ذات دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال تھی۔ سیدمودودیؒکئی بارگرفتارکیے گئے بلکہ ایک بار تو پھانسی کی سزا بھی سنادی گئی جو بعد میں عمرقید میںبدل دی گئی۔ آپ (۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۵ء تک)‘ تقریباً ۳ سال قید میں رہے۔ جیل سے نکلے تولوگوںکا جم ِغفیر آپ کو مبارکباد ینے کے لیے جمع تھا۔اس مو قع پر آپ نے کہا:’’عز یزانِ محترم! میرے لیے قید کی سزا غیر متوقع نہیںتھی ۔سچ یہ ہے کہ ۲۲ سال قبل جب سے میںنے اس راہ پر قدم بڑھا یاہے اس وقت سے ہی مجھے ابتلا و آزمایش کے اِن مراحل کا علم تھا ۔ ہم آیندہ بھی علیٰ وجہ البصیرت اسی راہ پر گامزن رہیںگے۔تاریخ ہمیںبتا تی ہے کہ قید و بند کی یہ صعوبتیں اس راستے کا مستقل حصہ ہیں اور مستقبل میںبھی ہمیںان سے سابقہ پیش آتا رہے گا‘‘۔

سیدمودودیؒ اس وقت بھی ایمانی بلند یوں کے اعلیٰ مدارج پر فائز تھے‘ جب ۱۹۶۳ء میںآپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ سٹیج پر عین اُس وقت گو لیا ںچلا ئی گئیں جب آپ کھڑے تقر یرکر رہے تھے ۔ ایک ساتھی نے کہا: ’’مولا نا بیٹھ جا یئے‘‘۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیںکوئی گولی مولا نا کو نہ لگ جا ئے۔ لیکن آپ ؒؒنے پو رے مو منا نہ ثبا ت کے سا تھ جواب دیا : ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھرکھڑا کو ن رہے گا؟‘‘

حسن البنا شہید ؒ نے بھی قید و بند کا مزا چکھا۔ اللہ نے اُن کے لیے اپنے راستے میں شہادت مقدر کر رکھی تھی۔ آپؒ ۱۹۴۹ء میں قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر‘ مغربی استعمار کے آلۂکار     شاہ فاروق اور انگریز ایجنٹوں کے ہاتھوں‘ صرف ۴۲ برس کی عمر میںشہید کر دیے گئے!

  • تربیت پر زور: دونوں نے ایک ہی چشمہ صافی یعنی وحی ربانی اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اپنی پیاس بجھائی تھی۔ اسی لیے دونوں کی قائم کردہ جماعتوں کے طریق کاراور ارتقائی مراحل میںبھی بے حد مشابہت پائی جاتی ہے۔ان کا ہمیشہ اس بات پر زور رہا کہ مجاہدانہ اوصاف کی حامل یہ جماعت ہمیشہ بنیادی اسلامی ماخذ‘ یعنی قرآن و سنت سے پوری طرح جڑی رہنی چاہیے۔امام مودودی ؒ کہتے ہیں: ’’ہمارا طریقۂ کار‘قرآن اور سیرتِ انبیا علیہم السلام سے ماخوذ ہے‘‘، جب کہ امام حسن البناؒ کہتے ہیں: ہماری کوشش ہے کہ یہ دعو ت بھی اُسی دعوت کی حقیقی باز گشت ہو جس کی صدا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ۱۴۰۰ سال قبل وادی بطحاء میں بلند کی تھی‘‘۔

امام حسن البناؒ نے اچھے کارکن کے لیے مطلوبہ مراتب ِ عمل بھی پوری طرح واضح کر دیے تھے۔ آپ ؒ کے نزدیک’’ کارکن کا اولین ہدف ہر پہلو سے اپنی ذات کی مکمل اصلاح ہے۔ پھر اسلامی اقدار و آداب کی پابندی اورنمایندہ مسلم گھرانے کی تشکیل‘معاشرے کی اصلاح اور راے عامہ کی اسلامی فکر کے ساتھ وابستگی پیدا کرنا اور اجتماعی زندگی کو اسی کے رنگ میں رنگنے کی کو شش کرنا‘نیز غیراسلامی اور اجنبی اقتدار سے وطن کو سیاسی و معاشی و معنوی ہر طرح سے مکمل آزادی دلانا۔ حکومت کی اس طرح اصلاح کرنا کہ وہ حقیقی اسلامی حکو مت بن جائے۔ پھرامت مسلمہ کی عالمی ہیئت کی تشکیل نو‘اور چار دانگ عالم میں اسلام کی دعوت کے پھیلائو کے ذریعے دنیا بھر کی امامت( قیادت) کرنا ‘یہاں تک کہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے خالص ہو جائے‘‘۔

سید مودودیؒ کا راستہ اورسوچ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ان کی دعوت ِ اصلاح کا مرکز ومحور بھی یہی چارنکات تھے: تطہیروتعمیر افکار‘ تنظیم‘ اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت۔

دونوں قائد اس حقیقت سے باخبر تھے کہ ان عظیم اہداف کا حصول صبر اور استقامت چاہتا ہے۔ اس راستے میںعجلت پسندی اور فتح کے لیے جلدبازی کا کچھ کام نہیں۔اسی لیے عجلت پسند ساتھیوں اورپھل کو پکنے سے پہلے برتنے کے خواہش مند لوگوں سے امام حسن البناؒؒ نے یہ کہا تھا: تمھارے اس راستے کے قدم لکھے جاچکے ہیں اوراس کی حدود متعین ہوچکی ہیں۔ اور میںجس راستے کو منزل تک پہنچنے کا محفوظ ترین راستہ ہونے کی حیثیت سے اختیار کر چکا ہوں‘ اسے کبھی ترک نہیں کرسکتا۔ تم میں سے جو فرد بھی پھل کو پکنے سے پہلے برتنا چاہتا ہو‘یا پھول کو کھلنے سے پہلے توڑنے کا خواہش مند ہو‘ تو میں اس معاملے میں اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس دعوت کو ترک کرے اوردوسروں کی طرف لوٹ جائے‘‘۔

امام مودودی ؒ نے ان کے بارے میں کہا: ’’ان (جلدباز لوگوں) کے لیے سینے پر گولی کھالینا‘ منظم کام کی بہ نسبت آسان ہے۔ جب وہ ایک ایسے کام کے قابل نہیں ہیں جو مہینوں صبر کا تقاضا کرتا ہو ‘تو ان کے لیے ایک منظم عمل کے تحت چلتے رہنا تو اور بھی دشوار تر ہو گا‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ انھوں نے تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس تربیت میںناگہانی مصائب سے بچائو‘اور طویل سفرکے لیے ضروری توشہ اور راستے کے ہر موڑ پر موجود خطرات سے بچائو کا سامان موجود تھا۔معاشرے کی اصلاح کے داعیے نے ہی انھیںخد مت خلق کے ان کاموں کی جانب متوجہ کیا‘ جن کا مقصد‘ معاشرے میں بھلائی کے بیج بونا اور خصوصی توجہ اور ہمدردی کے ساتھ اسے دین کی جانب مائل کرنا تھا ۔یہ داعیان ِحق‘ لوگوں کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھانا‘ ان کی مشکلات میں سہارا بننا اور ان سے میل جول پیدا کر کے‘ ان کے سامنے نیک نمونہ پیش کر کے اپنا مخاطب بنانا چاہتے تھے۔ مدارس کی تعمیر اور ہسپتالوں کے قیام‘ محتاجوں کی مدد اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں دونوں رہنمائوں کی نما یاں کاوشیں شامل رہیں۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی سرگرمیاں عام لوگوں‘ طلبہ‘ مزدوروں‘ عورتوں ٰاور پڑھے لکھے لوگوں کے وسیع حلقوں تک پھیلیں۔

  • استعمار اور اُمت کی کش مکش:  خلافت اسلامیہ کا انہدام عالمی و استعماری سازشوں اور داخلی مکر و فریب کا براہ راست نتیجہ تھا۔عام مسلمانوںپراس سانحے کا بڑا گہرا اثر تھا۔ بہت سے دلوں میں مایوسی گھر کرچکی تھی۔ہم پہلے عرض کر چکے ہیں امام مودودی ؒ نے ہندکے اندر اُس تحریک میں بڑی سرگرمی سے شرکت کی تھی جس کا مقصد‘ سقوط سے قبل خلافت کے بچائو کی تدابیر کرنا تھا‘جب کہ امام حسن البنا ؒ نے اخوان المسلمون کی بنیاد‘سقوط خلافت کے تقریبا چار برس بعد رکھی۔ آپ احیاے خلافت کے بارے میں اکثر غور وخوض کرتے کہ آخر کیا شکل ہوکہ خلافت کا ادارہ اسلام کے سیاسی نظام کا نمایندہ بن کردنیا میں دوبارہ فعال کردار ادا کر نے کے قابل ہوسکے۔

امام حسن البنا ؒکہتے: اخوان یقین رکھتے ہیں کہ خلافت ‘اتحاد اسلامی کی مظہر اور امم اسلامیہ کے باہمی ربط و ارتباط کی علامت ہے ۔ یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے ۔ اس لیے اس کے بارے میں غور و فکر مسلمانوں پر واجب ہے۔اسی وجہ سے اخوان المسلمون نے احیاے خلافت کی کوششوںکو اپنے طریقۂ کار میں اولیت دی ہے ۔ ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ احیاے خلافت سے قبل کچھ اور اقدامات ا ٹھانے ضروری ہیں‘ مثلاً امم اسلامیہ کے درمیان باہمی تعاون میں اضافے کی کوششیں کرنااور ایک دوسرے کے ساتھ باہم معاہدات وغیرہ۔ بین الاقوامی کانفرنسوں اور موتمرات کا انعقاد ‘تاکہ    اُمت مسلمہ میں ایک ہونے کا شعور ابھر سکے ۔ ظاہر ہے کہ سیاسی اصلاح کے عمل کا آغاز‘ اپنے اپنے ملکوں میں قائم حکومتوں کی اصلاح سے ہوناتھا اور سب سے بڑی مشکل یہ درپیش تھی کہ دونوں ممالک: مصروپاکستان انگریز کے براہ راست قبضے تلے رہے تھے۔

امام مودودیؒ نے اپنی جوانی ہند میں انگریزی قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے گزاری تھی ۔ جب ہندستان آزاد ہوا(۱۹۴۷ئ) توا نھوں نے مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں اپنی جد وجہد جاری رکھی۔ آپ نے پوری شدت کے ساتھ واحداور متحدہ ہندستانی قومیت کاانکار کیا اور اس کے بدلے ‘ مسلمانانِ ہند کی مسلم قومیت کا ساتھ دیا ۔ ان کے نزدیک دارالاسلام کا قیام اگرچہ زمین کے نہایت ہی چھوٹے خطے پرکیوں نہ ہو ‘زیادہ محبوب تھا بہ نسبت اس کے کہ مسلمان۔

جب پاکستان آزاد ہوا تو گو یا یہ سید مودودیؒ کے خوابوں کی تعبیر‘ دار الاسلام تھا ۔اس موقع پر انھوں نے اپنی بے پایاں خوشی کا اظہار اِن الفاظ میں کیا: ’’میں نئی مملکت کو صرف اپنا ملک نہیں کہتا بلکہ یہ اسلام کا وطن ہے۔ ہمیں صدیوں بعد ایک ایسا موقع ملا ہے کہ ہم اللہ کی ریاست کو اس کی حقیقی شکل میں قائم کر سکیں اور پوری دنیاکے سامنے اس دین کے اندر رکھی ہوئی فلاح ونجات کا حقیقی مظاہرہ پیش کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے ‘‘۔ لیکن جلد ہی ان کی توقعات کو اس وقت شدید دھچکا لگا ‘جب آزادی کے ایک ہی سال بعد سیاسی استبداد نے ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ پہلے گورنرجنرل قائد اعظمؒ کی وفات (۱۱ ستمبر ۴۹ئ) کے بعد امام مودودیؒ وہ پہلے سیاسی قیدی (۴اکتوبر ۱۹۴۸ئ) تھے جو کسی پاکستانی جیل میںپابند سلاسل کیے گئے۔ اس عظیم مجاہد نے اپنی بقیہ ساری زندگی پاکستان کو حقیقی اسلامی مملکت بنانے میں صرف کی‘ یعنی ایک ایسی مملکت جہاں اسلامی دستور کی حکمرانی ہو ۔ اسی راستے پر چلنے کی پاداش میں وہ گرفتار کیے گئے اور انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی جو اگرچہ نافذ نہ ہو سکی ۔ اس عظیم مقصد کی خاطرسید مودودیؒ کا جہاد جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا مطالبہ پوری قوم کا مطالبہ بن گیا اور ظالم اپنے جبر اور منہ زوری و سرکشی کے باوجودان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جماعت اسلامی نے ایک محضر نامہ تیار کیا (۱۹۶۳ئ)جس میں عوامی حقوق اور شہری آزادیوں کے مطالبے کے علاوہ یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ: پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو اور تمام امور ِمملکت‘ اسلام کی ابدی ہدایات کی روشنی میں انجام دینا ضروری قرار دیا جائے ۔ محضر نامے پر جب قوم سے دستخط حاصل کرنے کی مہم شروع ہوئی تو دستخطی کاغذوں پر مشتمل اس منفرد دستاویز کی طوالت ۱۴ کلومیٹر ہو گئی۔ جب یہ محضرنامہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو حکومت نے ۱۹۶۴ء میں اس کا جواب‘ جماعت کی سر گرمیوں پر پابندی اور سید مودودیؒ اور دیگر ۳۶مرکزی رہنمائوں کی گرفتاری کی صورت میں دیا ۔

حریت وآزادی کے لیے امام حسن البناؒؒ کی جہادی کاوشیں بھی نہایت واضح ‘روشن اور عزم وہمت سے پرُ ہیں ۔آپ نے اخوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

ہمیشہ اس بات کا تذکرہ کیا کرو کہ ہمارے دو بنیادی اہداف ہیں: پہلا یہ کہ وطن اسلامی ہر اجنبی اقتدار سے چھٹکارا پا جائے۔ اس لیے کہ آزادی ہر انسان کا فطری حق ہے اور اس کا انکار‘ ظالم وجابر کے علاوہ اور کوئی نہیں کرتا۔ دوسرا یہ کہ اس ملک میں آزاد اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آ جائے۔ ایسی مملکت جو اسلامی احکامات پر کا ربند اور اس کے اجتماعی نظام کا نفاذ کرنے والی ہو۔ ایک ایسی ریاست جو دین کے ابدی اصولوں کا اعلان کرنے والی اور لوگوں تک اس کی حکیمانہ دعوت پہنچانے والی ہو۔ جب تک یہ مملکت قائم نہیں ہو جاتی‘ سب مسلمان قصور وار اور اپنی کوتاہی پر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔

امام حسن البناؒؒ نے بہت سے مواقع پر استعمارکے خلاف آواز بلند کی اور مسلمانوں کو جہادپہ ابھارا ۔ ان کے نزدیک عالم اسلام کا ہروہ علاقہ جسے اجنبی اقتدار سے خطرہ ہو‘ میدان جہاد ہے۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ عالمِ اسلام ایک جسم کی مانند اٹوٹ انگ ہے ‘جس کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔ اس کے کسی بھی ایک حصے پر جارحیت ‘پورے عالم اسلام پر جارحیت کے مترادف ہے۔ اسلام مسلمانو ں پر فرض ٹھیراتا ہے کہ وہ ا پنے خطے اور منطقے کے قائد و رہنما ہوں اور اپنے وطن میں بالادست ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان پر فرض ہے کہ دوسروں کو حلقہ دعوت میں داخل کرنے کے لیے کمر ہمت کس لیں اور اسلام کے جس نور سے انھوں نے ہدایت پائی ہے‘ اس کی طرف دوسروں کی بھی رہنمائی کریں۔ امام حسن البناؒؒ نے عالم اسلام کے خلاف یورپی استعمار کے جرائم گنوانے کے بعد فرمایا:

اسلام اپنے فر ماں بر داروں سے آزادی و حریت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں۔ وہ سرداری اور جہادکو افضل گردانتاہے اگرچہ راہ میں جان و مال ہی کیوں نہ کام آتے ہوں۔غلا مانہ‘ ذلت آمیز اور بندگی کی زندگی سے موت بدرجہا بہتر ہے ۔

اپنے انھی اقوال کی عملی تصویر‘ امام شہید ؒنے جہادِ فلسطین] دیکھیے: اخوان المسلمون فی حرب فلسطین‘ استاذ کامل الشریف[ میں پیش کی ۔اور ان کی شہادت کے بعداس کی دوسری روشن مثال اخوان نے نہرِ سویز کی لڑائی (۱۹۵۶ء )میں انگریزوں کے خلاف قتال میں پیش کی۔ اس معرکے میں اخوان نے جرأت و شجاعت کی وہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے مثال بنی رہیں گی۔

  • آئینی جدوجہد کا طریقہ:  جہاں تک دستوری او ر قانونی جدو جہد کا تعلق ہے‘ امام البناؒ کے دور ہی میں مصری دستور کے اندر صراحت کر دی گئی تھی کہ مملکت کا سر کاری دین ‘اسلام ہوگا۔ مقتدرہ کے معاملات پہلے سے ہی اس دستورکے تحت چل رہے تھے ۔ مصری دستور ‘عمومی اور خصوصی آزادیوں کے لحاظ سے روحِ اسلام سے متصادم نہیں تھا ۔ البتہ کئی دفعات پرعمل در آمد نہیں ہورہا تھا‘ یا پھر ا س کی کچھ دفعات مبہم تھیں اور ان کی توضیح وتعبیر کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ اسی لیے امام حسن البناؒ ؒ فر ماتے ہیں:’’ ہماری جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ مصری دستور کی ان  مبہم دفعات کی واضح تشریح کر دی جائے۔ ملک میں دستو ر کا نفاذ یقینی بنا دیا جائے‘‘۔ دستور کے بر عکس حسن البنا شہیدؒ کا قانو ن کے بارے میں نقطۂ نظر بالکل مختلف تھا ۔اس لیے کہ مصری قوانین‘ انسانی عقل و جستجوکا ماحصل تھے اور بہت سی جگہ پر دین کے احکامات سے متصادم تھے ۔ یہ قوانین ایک ایسے نظامِ فکروفلسفہ سے آئے تھے جو صریحاً اسلام مخالف تھا۔ حسن البناؒؒ کہتے ہیں :’’ اخوان المسلمون کبھی بھی اس قانون پر راضی نہ ہوں گے اوراس کی جگہ قانون کے تمام میدانوںمیں اسلامی شرعی قوانین کی ترویج کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنائیں گے‘‘ ۔

قانون اور حکومت سازی کے بارے میں دونوں رہنمائوں کا نقطۂ نظر‘ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں ان کے موقف سے مربوط تھا۔ سید مودودیؒ نے تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کرنے والی جماعت‘ آل انڈیامسلم لیگ کے عمومی طرز عمل اوراور مبہم انداز فکر کے خلاف موقف اختیار کیا ۔حالانکہ فی نفسہ تحریک ِ پاکستان میں اس جماعت کا فعال کردار ہی سید مودودیؒ اور مسلم لیگ کے درمیان واحد مشترکہ اساس تھی۔ دونوں کے مابین محلِ اختلاف ‘ملک کی آزادی کے بعدپاکستان کے مستقبل کے بارے میں مسلم لیگی سوچ تھی۔ مسلم لیگ ملک کو مسلم قومیت کے رنگ میں رنگاہوا دیکھتی تھی اور صرف لیبل اسلام کالگانا چاہتی تھی۔ اس کی قیادت میں با اثرافراد کی مو ثر قوت سیکو لر خیالات کی جانب مائل اور مغرب زدہ تھی ۔ مختلف مناصب پر قابض یہی اقلیت تھی‘ جس نے قیامِ پاکستان کے بعد حکمران بنتے ہی ہر عہد کو توڑنے اور اسلامی ریاست کے ہر تقاضے کو نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی‘ اور اسی کے دورِ اقتدار میں سید مود ودیؒ کو سزاے قید وبند کا تحفہ نصیب ہوا۔ اقتدار عملاً سامراج کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی اور فوجی جنتا کے ہاتھ کا کھلونا بن گیا۔

امام حسن البناؒ دورِ استعمار میں قائم ہونے والی مصری سیاسی جماعتوں کو ملکی اور اسلامی مفادات کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے ۔ یہ تمام جماعتیں خا ص حالات کی پیدا وار تھیں اور ان کے قیام کے پیچھے زیادہ ترشخصی مفادات کا رفرما تھے‘ نیز یہ کہ ان کا کوئی نصب العین اور طریقۂ کار بھی نہیں تھا۔پارٹی تعصب کو ابھار کر‘اور ہر جائز و ناجائز طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے اقتدار کی منزل تک پہنچنا ہی ان لوگوں کا اصل ہدف تھا۔ اسی لیے امام حسن البناؒ نے ان سیاسی جماعتوںکی تحلیل کامطالبہ کیااور کہاکہ تمام جماعتوںکو استعمار کے مقابلے اورعوامی بیداری کے لیے ایک ہی جھنڈے تلے اکٹھے ہو جاناچاہیے ۔یقینااسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔لیکن افسوس کہ دونوں کے ممالک کی صورتحال امت کے خوابوں کی سچی تعبیر کی راہ میں حائل ہوگئی ۔

  • مغربی تہذیب پر نظر:مغربی تہذیب کے حوالے سے دونوں کا موقف بے حد مضبوط تھا۔ دونوںکے مطابق تہذیبِ مغرب کی سائنس وٹکنالوجی کے میدان نمایاںپیش رفت سے فائدہ اٹھانے میںکوئی حرج نہیں ‘بلکہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیںجودوسروںسے اخذواکتساب کی دعوت دیتی ہیں ۔اسلام کہتاہے کہ حکمت کی بات جہاںسے ملے حاصل کرو۔ لیکن ان کایہ بھی خیال تھاکہ مغربی تہذیب نے امت مسلمہ کے خلاف بڑے بھیانک جرم کاارتکاب کیاہے ۔اس تہذیب نے اپنے آپ کو اسلام کے متبادل نظام حیات اور نظام فکروفلسفہ کے طور پر پیش کیاہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ امت کے مؤثرافراداس تہذیب کی طرف لپکنے لگے ۔

امام حسن البنا ؒ نے رائے دی: اسلام ہمیںہر اچھی چیز کے حصول کا حکم دیتاہے ‘او ریہ کہ حکمت ودانائی مومن کی گمشدہ متاع ہے‘جہاں پائے حاصل کر لے کہ وہ لوگوںکی بہ نسبت اس متاع کا زیادہ حق دار ہے۔ اس لیے کوئی امر مانع نہیںہے کہ امت مسلمہ کو جہاںسے خیر کی بات ملے ‘اسے حاصل کرلے۔ لہٰذا ہم اوروںکی مفید ایجادات سے استفادہ کریں اور اس کی تطبیق‘ اسلام کے اصولوں‘ اپنے نظام حیات اور قومی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریں۔

امام مودودیؒ کا اس بارے میںموقف یہ تھاکہ جو کوئی بھی قوت ‘کمال اوربرتری چاہتاہے اسے چاہیے کہ دیگر قوموںسے قوت و ترقی ا ورکمال کے اسباب سیکھ لے اوران کی ذلت و پستی کے اسباب سے پہلو بچالے۔ان قوموں کی غلط ڈگرپر چل کراپنے اصول وضوابط اوراپنی ملت کے حیات بخش اصول ومبادی ہاتھ سے نہ گنوائے ۔

دونوںرہنماؤںنے مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے خبردارکیا ۔امام حسن البناؒ کی رائے میںمغربی تہذیب کی بنیاد دین ودنیاکی دوئی کے نظریے پر قائم ہے۔خاص طورپر یہ کہ اس تہذیب میں ریاست ‘عدالت اور تعلیم کودین سے دُوررکھاگیاہے۔ اس کے ہر ہرپہلو میںمادی سوچ کارفرماہے اوراسی کوترقی وکمال کی میزان تصورکیاگیاہے ۔یہی وجہ ہے اس کے سارے مظاہر‘ محض مادیت پر مبنی ہیں‘جنھوںنے ادیان سماویہ کی تعلیمات اور ان کی بنیادوںکو منہدم کردیاہے ۔اس کے سارے اصول و مبادی‘ دین حنیف کے اُن بنیادی اصولوںسے متناقض ہیں‘جن پر اسلامی تہذیب و تمدن کا مدار ہے ‘ جب کہ اسلام نے مادیت اورروحانیت کاحسین امتزاج قائم کیاہے ۔

امام حسن البناؒ نے شک والحاداور انکارِروح و آخرت کے اثرات ‘ اباحیت پسندی‘ لذت پرستی‘ گانے بجانے کے جنون اوردنیاوی چیزوںکی بے محابا چاہت کے افراد ‘طبقات اور قوموںپر پڑنے والے اثرات بد سے آگاہ کیا ۔سودی کاروبار کی ریل پیل اور اس کے خود مغرب اور عالم اسلام پر پڑنے والے مضر اثرات کے بارے میں بھی بتا یا۔دونوں کی تعلیمی و ثقافتی جنگ کے بارے میں  آگاہ کرتے ہوئے امامؒ نے فرمایا: ’’بعض مسلمان اقوام مغربی تہذیب سے بہت زیادہ مرعوب ہیں اور اپنی اسلامی شناخت سے بے حد نالاں‘جیسے ترکی اور مصر۔ ان دونوں ممالک میں اسلامی فکر کا  سایہ روز بروز سکڑتا جا رہا ہے‘ اور اب اسے اجتماعی زندگی کے تمام میدانوںسے نکال کر مسجد ‘ زاویہ اور خانقاہ و تکیہ تک محدود کر دیاگیاہے‘‘۔

امام مودودی ؒنے بھی مغربی تہذیب کی فلسفیانہ بنیادوںسے بحث کی ہے ۔اور کہاہے کہ ہیگل نے اس دنیا کو ایک اکھاڑا بنایا تو چارلس ڈارون نے فطرت کو میدانِ جنگ سے تشبیہہ دی۔ پھر کارل مارکس کادور دورہ ہواتو اس نے بھی سوسائٹی کی کچھ ایسی ہی تصویر کشی کی ۔ جہاںتک اخلاق کی بات ہے توتہذیب ِ مغرب میں اس کی بنیاد محض منفعت اندوزی اور لذت پرستی پر قائم ہے ۔پھرامام المودودیؒ نے مسلمانوںکو اس تہذیب سے لاحق خطرات کے بارے میںبتاتے ہوئے کہا:مسلمانو ںکی مغرب سے سیاسی وعسکری شکست سے بڑھ کر خطرناک ترین بات ان کا تہذیب و ثقافت اور فلسفہ کے سامنے سپر ڈال دینا ہے ۔اس لیے کہ سیاسی غلبے نے تو صرف جسموںپہ غلبہ پایاتھا‘جب کہ اس کے تہذیبی اور فکری غلبے نے دل و دماغ اور سوچ و فکر کا دھار ا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ استعماری قبضے نے ہمیں عسکری وسیاسی آزادی کا راستہ تو دکھایا ہے‘مگر انگریزی علم واد ب اور  تہذیب وتمد ن نے ہم مسلمانوں کے اندر سے ایسے افراد پیدا کرلیے ہیں ‘جن کے ذہن پوری طرح اس کے قبضے میں ہیں۔یہ لوگ اپنی زندگیوںکو اس طریقے سے ہٹ کر گزارنے کاسوچ بھی نہیںسکتے ‘جس کا نقشہ مغر ب نے ان کے سامنے پیش کیاہے۔

  • اسلامی اخوت و ملی یک جہتی: دونو ںقائدین کے نزدیک دعوت واخوت اسلامیہ کامفہوم عام اور سب کے لیے تھا۔ خطرات کاسامناکرنے کے لیے مومنین کی ایک دوسرے کو مد د دونوںہی کے نزدیک واجب تھی۔ امت کے شکار کے لیے گھا ت میں بیٹھے دشمن کا ‘میدان عمل کی وسعت کے باوجود‘ طریقہ ایک ہی تھا اور اس سے بچائو کی صورت بھی دونوں کے نزدیک ایک ہی تھی ۔ اسی چیز نے دونوں رہنمائوں کواپنے اپنے ملکوںکی داخلی مشکلات کے باوجود‘ عالم اسلام کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے فعال کوششیں کر نے پر مجبور کیا۔دونوںکے نزدیک اسلام وطن بھی تھااور قومیت بھی۔ امام مودودیؒ نے عالم اسلام کے اکثر حصوںکاخود دعوتی سفرکیااور اس کے مسائل کے حل کے لیے فعال جدوجہد کی۔ وہ عالم اسلام کی کئی موثر تنظیموں کے رکن تھے اور ان میںکرداربھی بے حد نمایاں طور پر اداکیا تھا۔ ان کی انتہائی کوشش رہی کہ کسی طرح بنگلہ دیش نہ بنے اور پاکستان دوٹکڑے ہونے سے بچ جائے لیکن علیحدگی پسندی کے رجحانات کے آ گے ان کی پیش نہ چلی۔ان کی جدوجہد کابڑا حصہ‘ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وقف رہا۔ وہ اسے عالم اسلام کاایک مرکزی مسئلہ قرار دیتے تھے جس کاحل صرف اور صرف جہاد فی سبیل اللہ میںمضمر تھا ۔

امام البناؒ کو اگرچہ اتنی طویل عمر نہیںملی کہ وہ عالم اسلام کی سیاحت کرتے‘ مگر ان کی دعوت نے مسلم دنیا سے سلیم الفطرت دلوں کو کھینچا۔ ان کے دور میںاخوان کامرکز‘ پورے عالم اسلام کے حریت پسندوں‘مجاہدوںاور نصرت کے متلاشیوںکا مرکز ہوتاتھا۔آخر عمر میں ان کی دل چسپیوں اور توجہات کا مرکز و محوراور ان کے مسلح جہاد کااہم ترین محاذ فلسطین ہی تھا۔ اخوانی نوجوانوںنے اس محبوب دیار کو اپنے خون سے سینچا‘ تاکہ حاسد صلیبی قوتوں کی پروردہ ‘عالمی صہیونیت کی گندگیوں میں گرنے سے بچا لیا جائے۔ لیکن عالم عرب کی  قیادت پر فائز گروہوں کی کمزوری و خیانت اور دشمنان اسلام کا اتحاد‘امامؒ کی سعی و جہد کی بار آوری میں حائل ہوگیا۔اخوان المسلمون کی تحلیل اور امام البناؒ کی شہادت کا فیصلہ اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنے موقف میں اہم ترین مقام دیتے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہم امام حسن البناؒ کو پاکستان کے حالات میں خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمیں انوکھی نہیں معلوم ہوتی۔ انھوں نے نئی مملکت ِپاکستان کوبھارت اور مغرب‘ دونوں سے لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: پاکستان دونوں اطراف سے خطرے میں گھرا ہوا ہے۔ اسے بت پرست ہندئووں کی مسلح جارحیت کا سامنا جسے استعمار کی فریب کاریوں اور اس کے جدید ترین اسلحے کی مکمل مدد حاصل ہے ۔ مغرب مختلف ممالک میںتقسیم ہونے کے باوجود ‘ پاکستان دشمنی میں ایک ہے۔یہاں تک کہ کمیونسٹ روس جو بظاہر قوموں کے حقوق‘ بالخصوص      حق خودارادیت کی مالا جپتے نہیں تھکتاوہ بھی اس نئی مملکت کے خلاف سازش میں شریک ہے۔

استاذ صالح عشماوی جو اخوان کے ترجمان النذیرکے مدیر تھے‘ انھوں نے تشکیلِ پاکستان اور اس سے وابستہ امیدوں اور توقعات پر بہت سے مقالے تحریر کیے‘اور لکھا: ’’پاکستان کی صورت میںہمیں اخوان المسلمون کی دعوت اور اصولوں کا جیتا جاگتا نمونہ ملنے کی توقع ہے۔ پاکستان کا ہرمسلمان ان اصولوں پر ایمان رکھتا ہوگاجن کی جانب اخوان دعوت د یتے آئے ہیں‘‘۔

ہندستان میںقادیانیت کا قیام و ظہور‘ انگریزی استعمار کے ساتھ گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا ۔اس نئے مذہب پر سید مودودی ؒ نے بے لاگ تنقیدکرتے ہوئے ایک مستقل کتاب قادیانی مسئلہ تحریر کی اوراس کے متبعین کے کفر کا پردہ چاک کیا ۔ مصر میں بھی اس مذہب کے ماننے والے کچھ دھوکا باز لوگ موجود تھے۔علما نے ان کے دعووں اور مذہب کا تعاقب کیااور مدلل تنقید کے ذریعے اسے باطل ثابت کیا‘جب کہ امام حسن البناؒؒ اس قافلۂ ختم نبوتؐ کے سرخیل تھے۔ قادیانیوں میں سے ایک نے امام  حسن البنا ؒ کو مناظرے کا چیلنج دیااور پھر جب امامؒ مقررہ جگہ پر پہنچے تو مناظرہ شروع ہونے سے قبل ہی قادیانی مناظر نکل بھاگے۔ اسی طرح امام حسن البناؒ ؒ نے مصر کی جمعیۃ الہدایۃ سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قادیانیت سے تائب ہو کراسلام کے دامن میں دوبارہ پناہ لینے والوں کو خوش آمدید کہیں۔

  • فکری مما ثلت: سیدمودودیؒ اور حسن البنا شہیدؒ اور ان کی برپا کردہ تحریکوں ‘اخوان المسلمون اور جماعت اسلا می کے درمیان اس قدر گہری مماثلت کی بنیادی وجہ دونوں جماعتوں کے مصادرو ماخذ کی وحدت اور طریق تربیت اور ہدف کا ایک ہونا ہے ‘نیز اس سارے کام کے پیچھے‘ صرف اور صرف دین کی نصرت و غلبے کا جذبہ کارفرما ہے۔ جن احکامات سے یہ دونوں جماعتیں اپنے وجودکا شرعی جواز حاصل کرتی ہیں‘ یعنی قرآن و سنت‘ وہ بھی ایک ہے۔جہاں تک دو نوں کے فکروعمل میں تھوڑے بہت اختلاف کا تعلق ہے تو اس کی وجہ دونوں کا دائرہ عمل( یعنی مصر و پاکستان) کا الگ الگ ہونا ہے۔ مزید یہ کہ سید مودودیؒ نے زیادہ توجہ تالیف کتب پر دی‘اور فکر اسلامی اورتحریک اسلامی کے لیے گراں قدر علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ان کی بیش تر کتب دوسری مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں‘حتیٰ کہ انگریزی میں ۳۹ اور عربی میں ترجمہ شدہ کتب کی تعداد ۴۸ تک پہنچ چکی ہے۔ عالم اسلام کی جن مختلف زبانوں میں ان کی کتب کے تراجم شائع ہوچکے ہیں ‘۷۰ کی دہائی تک ان کی تعداد ۱۸کے قریب تھی۔امام حسن البناؒ کو دعوت‘ عملی تربیت اور دین کی خاطر مصر کے گوشے گوشے میں سفر نے تالیف ِکتب کی مہلت نہ دی اور خاص طور پر یہ بھی کہ وہ عین جوانی میں اس وقت شہید کر دیے گئے جب ان کی عمر ابھی صرف ۴۲ برس تھی۔وہ کہا کر تے تھے کہ میں نے آ دمیوں کی تالیف کی ہے اور اب یہ آ دمی کتابیں تالیف کریں گے۔

جہاں تک جدید اصطلاحات یا ان کے مشابہہ دیگر مغربی اصطلاحات کا تعلق ہے جو سیدمودودیؒ کے لٹریچر میں موجود ہیں‘ جن کی وجہ سے علما ان کتب کے پڑھنے سے منع کرتے رہے ہیں‘ اس معاملے کو سیاق و سباق ہی میں دیکھنا چاہیے۔ سید مودودی ؒکی اصل سوچ و فکر تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی نظر ان کی تمام کتب اور تالیفات پر ہو‘نہ کہ سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی چند عبارات پر۔ یہی وہ یک رخا پن ہے جہاں سے انسان ٹھوکر کھا تا اور غلط فہمی کا شکار ہو جا تا ہے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ سید مودودیؒ کے خطیبانہ اسلوب کو بھی پیش نظر رکھا جائے‘ جس کے ذریعے وہ قارئین میںاسلامی و جہادی حمیت ابھارتے اور ان میں ایمانی جوش و جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

بہر حال امام مودودیؒ کی آرا میں افراد کی تکفیر ہر گز نہیں ہے کہ یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔ امام مودودیؒ کا فرمان ہے: مسلمانوں کی تکفیر کے معاملے میں مکمل احتیاط نہایت ضروری ہے۔ اس معاملے میں اتنی ہی احتیاط کی ضرورت ہے جتنی کہ کسی شخص کے قتل کا فتوی صادر کرتے ہوئے ضروری ہے۔ ہم پریہ جاننا لازمی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں توحید اور کلمہ طیبہ پر ایمان موجود ہے۔ اگر اس سے کوئی کلمہ کفریاکفریہ حرکت سرزد ہو جاتی ہے تو لازمی ہے کہ اس کے بارے میں حسن ظن قائم رکھیں‘ اور اس حرکت کو اس فرد کی جہالت و نادانی اور نا سمجھی پر محمول کریں کہ اس کا مقصد ایمان کو چھوڑ کر کفر اختیار کرنا نہیں تھا۔ ایک اور جگہ رقم طراز ہیں کہ جان و مال اور عزت کی حفاظت انسان کو مجرد کلمہ شہادت کی ادایگی اور رسالت کے اقرار سے حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مملکتِ اسلامیہ کے کسی شہری کا کوئی حق سلب کرے۔ اس لیے اگر کوئی اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادایگی سے انکار کرتا ہے‘ تو اسے اس کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے گی۔

اما م حسن البناؒ کی رائے بھی اس سے کچھ مختلف نہیںہے۔ انھوں نے واضح طور پہ اعلان کیا کہ جو بھی شہادتین کا اقراری ہواور اس کے تقاضوں پر کاربند ہو‘ اس کے فرائض کی ادایگی کرے‘ ا س کی ہم تکفیر نہیں کرتے۔الا یہ کہ وہ کلمۂ کفر کا اقرار کرے‘ یا ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرے یا قرآن کے کسی صریح مقام کو جھٹلائے‘ یا اس کی ایسی تفسیر کرے جس کی لغت ِعرب کسی حال میں اجازت نہیں دیتی ‘یا ایسا عمل کرے جس کی کفر کے علاوہ اور کوئی تاویل نہ کی جا سکتی ہو۔ یوں آپ نے تکفیر کا دروازہ ہی بند کر دیا جس کی وجہ سے ماضی میں مسلمانوں کو بہت سے خطرات لاحق ہوچکے تھے۔

امام مودودیؒ اور امام البناؒ دونوں محسنوں نے مصلح اور مجدد کا کردار ادا کیا اور اسلامی عمل پر گہرے نقوش مرتب کیے اور یقینا ان کی سیرت اور ان کا طریقۂ کار صدیوں تک رہنمائی کے اُفق روشن رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور اسلام کی طرف سے انھیںبہترین جزاء سے نوازے‘  وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین!

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ انھیں مُردہ نہ کہو‘ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں‘ مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ (البقرہ ۲: ۱۵۴)

مجلہ پرابودھیا (Prabodhaya) جسے جماعت اسلامی سری لنکا‘ سنہالا زبان میں شائع کرتی ہے‘ یااس کے تامل ایڈیشن  الحسناتکی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت یاد آجاتی ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کے چھوڑے ہوئے نقوش پا اور اثرات حسنہ‘ کی قدم قدم پر شہادت ملتی ہے۔ اگرچہ وہ ایسی سرزمین پر رہتے تھے جو سری لنکا سے بہت دُور ہے‘ اور ان کی اکثر تصانیف بھی اُردو زبان میں ہیں‘ اس کے باوجود ہمارے جذبے ان کی زندگی اور ان کے کارہاے نمایاں سے زندگی‘ حرارت اور تحریک پاتے رہیں گے۔ یہ صرف سری لنکا ہی کا معاملہ نہیں‘ ساری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہی قصہ ہے۔ یہ مولانا مودودی علیہ الرحمہ جیسے لوگوں کی روح پرور تصانیف کا نتیجہ ہے کہ اسلام دشمن پروپیگنڈے کے زبردست حملوں کے باوجود آج کے مسلمان‘ اپنے ایمان اور عقیدے میں پہلے سے زیادہ مضبوط اور پختہ ہیں۔

بیسویں صدی ایک ایسا دور تھا جب اسلام دشمن پروپیگنڈا زوروں پر تھا۔ اس پروپیگنڈا مہم کا پیش رو (spearhead) مغربی سامراج تھا۔ اس صدی میں برطانوی نو آباد کار دنیا کے بیش تر حصے پر حکمران تھے اور اس میں برعظیم ‘ جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ بھی شامل تھا‘ جسے انگریز ’تاج برطانیہ کا ہیرا‘ کہا کرتے تھے۔ سامراجی بھیڑیوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسلام کی تصویر مسخ کر کے لوگوں کو اس سے بدکنے پر مجبور کریں۔ مسلمانوں اور دوسری قوموںکو اپنا مطیع فرمان بنا لیں۔ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے دین اسلام پر ہر پہلو سے حملہ شروع کیا۔ ان کے دانش ور تن دہی سے اس کام میں جتے ہوئے تھے کہ اسلام کو ایک پس ماندہ مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جائے‘ جو دورِجدید کے تقاضوں کو قطعاً پورا نہیں کرتا۔ انھوں نے ’جہاد‘ کے اعلیٰ و ارفع تصور کو بھی مسخ کر کے پیش کیا اور اسے غیر مسلموں کے خلاف ’مقدس جنگ‘ کے طور پر اجاگر کیا۔ انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اسلام تو تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اسلام کے بارے میں اور بھی بہت سی غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی۔ اور تو اور انھوں نے اپنی مذموم کوششوں کا دائرہ یہاں تک بڑھا دیا کہ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی کردار کشی کی بھی کئی طرح سے جسارت کی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب میں اسلام پر جو تصانیف منظر عام پر آئیں‘ ان کا بغور مطالعہ ا ن کے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے انتقامی ذہن اور بغض کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

برعظیم میں اس نوعیت کی اسلام دشمن فضا کے پس منظر میں‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کرشماتی شخصیت کا ظہور ہوا‘ جن کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین مصلحین سید قطب شہیدؒ اور حسن البنا شہیدؒ جیسی شخصیتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودیؒ کی کاوشوں اور کوششوں کا موازنہ گیارھویں صدی عیسوی میں امام غزالی  ؒ کے کارناموں سے کیا جا سکتا ہے‘ جنھوں نے اس وقت کے عرب دانش وروں میں پھیلے ہوئے نو افلاطونی (Neo-Platonic) فلسفے کے اثرات کا ابطال کیا اور اس فلسفے کو عقلی سطح پر غلط ثابت کیا۔ لیکن یہاں پر یہ فرق ملحوظ رہے کہ امام غزالی ؒ نے جس دور میں زندگی گزاری‘ وہ مسلمانوں کی حکمرانی کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان کے برعکس مولانا مودودیؒ کو جس عہد میں جدوجہد کرنا پڑی‘ وہ مسلمانوں کے زوال اور پستی سے عبارت تھا۔ مسلمان سیاسی‘ معاشی اور عقلی طور پر کمزور پڑ چکے تھے۔ سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کی اس کمزوری اور بے بسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی ثقافت اور اقدار کو مسلمانوں پر بزور ٹھونسنا شروع کر دیا تھا۔ عثمانی سلطنت‘ جو مسلمانوں کی حکمرانی کے تسلسل کا آخری مظہر تھی‘ انھی دنوں منظر سے غائب ہوئی تھی۔ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں کمیونسٹوں کے زیر اثر آچکی تھیں اور افریقہ اور ایشیا کے اکثر ممالک مغربی نو آباد کاروں کے زیر تسلط تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں کہیں اتحاد نظر نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں تھی۔

مغربی استعمار کی بازی گری نے جو چیلنج مسلمانوں کے لیے پیدا کر دیا تھا‘ اس کا جواب دینے کے لیے ان میں کوئی حوصلہ اور عزم نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے برعکس مارکس ازم بڑی تیزی سے رخنے بناتا ہوا مسلمانوں کی صفوں کے اندر تک گھستا چلا آ رہا تھا۔ وہ مسلمان نوجوانوں کو بڑی مہارت سے اپنے ترقی پسند قوت ہونے کا چکمہ دے کر‘ ان کے ذہنی بگاڑ کا باعث بن رہا تھا۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت تھی کہ بہت سے مسلمان نوجوان‘ سامراج سے لڑائی لڑتے ہوئے‘ مارکس ازم کے پھندے میں گرفتار ہو گئے تھے۔

مولانا مودودیؒ نے ان حالات میں قلم اٹھایا اور ان سارے اجنبی اثرات کا اپنی تحریروں کے ذریعے کامیابی سے مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور فضل سے مولانا مودودیؒ نے ان تمام باطل نظریات کا ابطال کیا اور اسلام کی اصل تعلیمات اس طور سے لوگوں کے سامنے لائے کہ اسلام کا ایک کامل ضابطہ ٔ حیات ہونا ثابت ہو گیا۔ اپنے دور کے بہت سے مسلمان مصنفین کے برعکس مولانا مودودیؒ کا لہجہ کبھی معذرت خواہانہ یا مرعوبانہ نہیں رہا۔ انھوں نے اسلام کو اس کی خالص اور اصل شکل میں پیش کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی سوء فہمی (fallacies) بھی واضح کر دی‘ جو بزعم خود ’ترقی پسند‘ بنے پھرتے تھے‘ خواہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ہوں یا مارکس ازم کے پرچارک یا فاشزم کے طرف دار!

ان سارے باطل نظریات کے خلاف مولانا مودودیؒ کا جہاد بنیادی طور پر قلم کے ذریعے تھا۔ ایک سو کے لگ بھگ قابل قدر تصانیف اور دورِ جدید کے چیلنج کے مطابق قرآن مجید کی     معرکہ آراتفسیر‘ تفہیم القرآن لکھی۔ جس کی تکمیل میں ۳۰ سال کی محنت شاقہ اور تحقیق و جستجو صرف ہوئی‘ نیز ترجمان القرآن کی اشاعت‘ جس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ یہ وہ عہد ساز ماہ نامہ ہے‘ جس کا مقصد‘ اشاعتِ دین اسلام میں مولانا مودودیؒ کے کام کے تسلسل کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ سب   مولانا مودودیؒ کے اس اخلاص اور لگائو کی روشن مثالیں ہیں‘ جو انھیں اپنی زندگی کے نصب العین سے تھا‘ یعنی خدمت ِ اسلام اور پیغامِ اسلام کی اشاعت۔ مشہور نو مسلم خاتون محترمہ مریم جمیلہ نے     مولانا مودودیؒ کی زندگی اور کارناموں کو اپنے بے مثال اسلوب میں یوں سمیٹا ہے:

مولانا مودودیؒ کے علم اور معلومات کا دائرہ حیران کن ہے۔ ہم ان سے تقریباً ہر موضوع پر کلام کر سکتے ہیں‘ خواہ وہ مذہب ہو یا فلسفہ‘ سیاسیات ہو یا معاشیات‘ فنون لطیفہ ہوں یا سائنس۔ ہر موضوع پر مولانا مودودیؒ کی رائے جچی تلی‘ دانش سے بھرپور اور دل پذیر ہو گی۔ ان کی ذات میں وسیع علم کے ساتھ ساتھ ایک بے مثل عقلی توازن بھی موجود ہے۔ وہ کبھی جذبات کو دلیل اور عقل پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جدوجہد بیک وقت کئی محاذوں پر ہے‘ پس ماندگی کے خلاف اور جدیدیت (Modernity) کے خلاف‘ اور بلاامتیاز اڑیل قدامت پرستی کے خلاف۔ وہ محض لکھنے اور تبلیغ کرنے پر قانع نہیں ہیں‘ بلکہ جو کچھ انھوں نے نظری سطح پر کہا‘ اسے عملی طور پر کر کے دکھانے کو اپنی ذمہ داری جانتے ہوئے جماعت اسلامی کی تشکیل کی‘ جو آج دنیا کی سب سے بڑی‘ سب سے منظم‘ طاقت ور اور متحرک ترین اسلامی تنظیم ہے۔

تحریک جماعت اسلامی نے‘ جس کا آغاز مولانا مودودیؒ نے بالآخر اسلامی ریاست کے قیام کے مقصد کے پیش نظر کیا تھا‘ دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ اپنی زندگی ہی میں مولانا مودودیؒ اس کی شاخیں یورپ میں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کو ایسے دل نشین انداز میں پیش کیا کہ وہ مخالفین کے دلوں میں بھی گھر کرتی چلی جاتی ہیں۔ مجھے آج بھی ۱۹۷۶ء میں انگلستان میں منعقدہ ’’ورلڈ آف اسلام فیسٹی ول‘‘ یاد ہے‘ جس کا نقطۂ عروج ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس تھی‘ جو رائل البرٹ ہال لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تحریک احیاے اسلام اس کے ساتھ ہی ایک نئے عہد میں داخل ہو گئی۔ اس ’فیسٹی ول‘ نے سائنس‘ ریاضی‘ فن تعمیر‘ طب‘ علم ہیئت اور جغرافیہ جیسے شعبوں میں عالمی تہذیب میں مسلمانوں کے حصے اور کارکردگی کو نمایاں طور پر لوگو ں کے سامنے پیش کیا۔

احیاے اسلام کی تحریک میں مولانا مودودیؒ کا حصہ حقیقتاً بہت زیادہ ہے۔ آج دنیا بھر میں بلندپایہ یونی ورسٹیوں کے اندر طلبہ اور دانش ور مولانا مودودیؒ کی تحریروں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن سمیت ان کی تصانیف‘ بیسیوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ خود سری لنکا میں تفہیم القرآن‘ سنہالا زبان میں ترجمہ کی جا رہی ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم گھرانا ہو جہاں ان کی کم از کم کوئی ایک کتاب موجود نہ ہو۔

مولانا مودودیؒ جیسی ممتاز ہستی اس سے کہیں زیادہ ہماری توجہ کی حق دار ہے‘ جتنی توجہ ماضی میں ان کو دی جاتی رہی ہے۔ اس حوالے سے میں پروفیسر خورشید احمد کی زیر قیادت کام کرنے والی ٹیم کی کوششوں کو سراہتا ہوں‘ جو سال ۲۰۰۳ء کو مولانا مودودیؒ کا یادگاری سال قرار دے کر‘ مولانا کی خدمات کو لوگوں کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔

آخر میں‘ میں بڑی عاجزی سے یہ تجویز پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ مولانا مودودیؒ کے نام پر اسلامی فکر کا ایک ادارہ بنایا جائے‘ جس کے ذریعے مولانا کے علمی ورثے کو محفوظ کیا جا سکے‘ اور اسلامی علوم میں تحقیق کے لیے سہولت مہیا کی جا سکے اور جو دعوت کے کام کے لیے ایک عالمی فورم کا کام بھی دے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور آپ کو ان میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین!

اﷲ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ اس نے ایک ہی دین، یعنی اسلام کے ساتھ انبیا و رسل بھیجے۔ اس کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ انبیا ورسل کی آمد کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔ قرآن عظیم اور سنت مصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے ذریعے پیغام الٰہی مکمل ہوا‘ پھر اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اس دین کی طرف بلانے کی ذمہ داری امت مسلمہ پر عائد کی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے پہلے تمام انبیا نے اﷲ کا پیغام بندوں تک پہنچایا۔ کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے ساتھ ہی آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا پیغام ختم ہو گیا؟ نہیں، بلکہ جس امت کی تشکیل حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی تھی، وہی اس پیغام کی امانت دار بنی، تاکہ وہ اسے پوری دنیا میں ہمیشہ عام کرتی رہے اور یہ ذمہ داری ادا کر کے وہ ’’خیر امت‘‘ کی مصداق بنے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے صحابہ کرامؓ نے اس عظیم ربانی مشن کی ذمہ داری سنبھالی۔ نسلاً بعد نسل یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس امت پر اﷲ کا یہ فضل بھی رہا ہے کہ وہ کبھی سچے، مخلص‘ باعمل داعیوں، مبلغوں اور ائمہ اعلام سے خالی نہیں رہی۔ تاریخ اسلام ان ہدایت یافتہ رہنماؤں سے جگمگا رہی ہے۔ اسی تسلسل میں سرزمین پاک و ہند سے عظیم عالم، داعی، مجاہد، استاذ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ابھرے۔

ہمارے لیے اپنے علما و ائمہ کی حیات و خدمات کا مطالعہ بہت مفید ہے، کیونکہ اس مطالعے سے دعوت اسلامی کے ہر مرحلے کے لیے ہمیں تجربات ملتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی دعوت اسلامی کے تمام مراحل، افکار، جہاد، طریق کار جو مختلف علاقوں اور زمانوں میں اپنائے گئے ہیں، وہ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔

مجھے اس بات کا تو ہرگز دعویٰ نہیں کہ میں نے مولانا مودودیؒ کی تمام کتابیں پڑھ لی ہیں، یا ان کی تمام نگارشات کا مطالعہ کر رکھا ہے، تاہم اپنے مطالعے اور معلومات کی حد تک ذیل کی سطور میں مجاہد عالم ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سیرت و فکر کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں:

جب آپ نے ہوش سنبھالا اس وقت ہندستان، برطانوی استعمار کے شکنجے میں کسا ہوا تھا۔ برطانیہ کے وحشیانہ جرائم، جو برطانوی قبضے کے بعد کبھی کم نہیں ہوئے، اپنی انتہا کو پہنچ رہے تھے۔ مسلمانان ہند انگریزوں کو نکالنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔

امام مودودی ؒنے اسلامی ماحول کے حامل ایک دین دار گھرانے میں جنم لیا جو صلاح و تقویٰ اور علم سے معروف تھا۔ خاندانی ماحول اور نسبی تعلق کا نتیجہ تھا کہ مولانا کا دل و دماغ نور ایمان سے منور اور حب علم سے مالا مال تھا۔ آپ کے والد محترم، درست تربیت، عمدہ عادات اور اخلاق حسنہ پر بہت زور دیتے تھے۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ سید مودودیؒ شروع ہی سے پاکباز، پاک سیرت اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ وہ اپنے پاکیزہ کردار، سلامتی فطرت اور اجلی فکر کی وجہ سے ممتاز تھے۔ سخت مشکل حالات کے باوجود آپ نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔

سید مودودیؒ نے جب اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو انھیں ہندستان اور اس سے باہر ہولناک حالات دکھائی دیے۔ ان کے والد محترم وفات پا چکے تھے۔ مولانا محمود حسن کو جزیرہ مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت عروج پر تھی۔ خود اقوام یورپ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھیں۔ پہلی عالمی جنگ اسی تصادم کا مظہر تھی۔ مولانا مودودیؒ نے ’ترک قومیت‘ اور ’عرب قومیت‘ کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عالمی طاقتوں نے ’خلافت عثمانیہ‘ کے خلاف جو ریشہ دوانیاں کیں، مولانا نے اس کا بھی مشاہدہ کیا۔

ہندستان میں انگریز کی مخالفت بھی جاری تھی اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کش مکش بھی۔ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ وحدت وطن کی داعی تھی، مگر بحیثیت مجموعی اس کی پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ مسلم لیگ، کانگریس کے ردعمل میں ظاہر ہوئی۔ حتیٰ کہ محمد علی جناح مرحوم نے ۱۹۱۹ء میں لکھنؤ کے اجتماع میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے موقف کو یکجا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اسی دوران ’تحریک تحفظ خلافت عثمانیہ‘ ظاہر ہوئی۔ اگر میں یہ کہوں تو ہرگز غلط نہ ہو گا کہ پورے عالم اسلام میں خلافت کو بچانے کی واحد تحریک ہندستان میں ابھری اور اس نے خلافت کو بچانے کی اپنے طور پر بھرپور کوشش کی۔ کم عمری کے باوجود مولانا نے تحریک خلافت میں تحریر، تقریر اور عمل سے حصہ لیا۔ ترکوں اور عربوں کے مابین تنازعے کا آپ کو بہت صدمہ تھا۔ یہی تنازع سقوط خلافت کا سبب بنا اور دشمنان اسلام کو مسلم علاقوں میں گھسنے اور وہاں کے وسائل کے استحصال کا موقع ملا۔

مولانا مودودیؒ ان تمام حالات و واقعات سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ اگرچہ یہ آپ کا لڑکپن تھا، تاہم آپ نے حالات کا سامنا کرنے اور انھیں درست کرنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے میدان صحافت میں اترنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ باطل کے خلاف قلمی جہاد کریں اور رزق حلال بھی کمائیں۔ مولانا نے اس دور کے اہم مسائل پر قلم اٹھایا۔ یونانیوں کے مظالم اور مسیحی مبلغین کی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش پر لکھا۔ آپ نے درست تصور اور ایمان و یقین کے ساتھ خلافت کی بھرپور تائید کی۔

اسی دوران آپ دہلی تشریف لے گئے۔ جہاں مختلف نقطہ ہاے نظر کے سیاست دانوں اور علما سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ جمعیۃ العلما کی قیادت سے بھی ملے، اور ان کے پرچے میں کام بھی کیا۔  مولانا کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ کچھ ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو ہندو بننے اور بت پرستی اختیار کرنے کی کھلم کھلا دعوت دے رہی ہیں، جب کہ مسلمان کانگریس میں شامل ہو کر ہندوؤں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی موقعے پر آپ نے کہا تھا: ’’ماضی میں مسلمان پوری دنیا میں اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، مگر آج مسلمانوں کی پستی و زوال کا یہ حال ہے کہ ایک بت پرست اٹھتا ہے اور انھیں ہندو مت قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے‘‘۔ پیغام اسلام کے بارے میں فرمایا: ’’ماضی میں دعوت کا کام پیشہ ور داعی نہیں کرتے تھے، بلکہ امت مسلمہ کا ہر فرد داعی و مبلغ ہوا کرتا تھا‘‘۔ ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن  کی ادارت سنبھالی توآپ کافی تجربے اور بیش بہا معلومات سے لیس تھے۔ چنانچہ ترجمان القرآن کا علمی و فکری معیار بہت اعلیٰ تھا۔ آپ تن تنہا اپنے رسالے کو خوب سے خوب تر بنانے میں مصروف رہے اور مالی وسائل کی کمیابی کی آپ نے پروا نہ کی، نگاہ اپنے مقصد پر رکھی۔ کیونکہ آپ کو اس خطرے کا مکمل ادراک تھا جو آپ کے ملک اور مسلمانوں کو گھیرے ہوئے تھا۔

مولانا نے اپنے خطبوں، مقالوں اور کتابوں سے جاہلیت کی عمارت کو ہلا کے رکھ دیا، اور اسلامی زندگی کی عظمت واضح کی۔ اسلام کے بنیادی تصورات کو  دینیات کے نام سے پیش کیا، جسے پڑھ کر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے ۱۹۴۱ء کو میں لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے جو اہداف و مقاصد طے کیے وہ اسلام سے ماخوذ تھے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کشت و خون کی فضا میں پاکستان بنا۔ جماعت اسلامی نے مہاجرین کی امداد کے لیے اپنے وسائل کے مطابق اہم کردار ادا کیا۔ اب جماعت اسلامی کی دعوت اپنے لائحہ عمل کے لحاظ سے تین اہم نکات پر مرکوز ہوئی، پہلا یہ کہ عقیدے کی سلامتی و مضبوطی اور اس کے ساتھ ہی اس پر عمل درآمد کرنا۔ دوسرا یہ کہ مضبوط و محکم نظام جماعت جس میں کمزوری اور تساہل پسندی نہ ہو، اور تیسرا یہ کہ قدیم و جدید تعلیم کو یکجا کرنا، جب کہ عملی سطح پر ان امور پر زور دیا گیا کہ کامل توجہ سے محنت کی جائے اور ڈاکٹر کی طرح ہمدردی و احترامِ آدمیت کا رویہ اختیا کیا جائے۔

مولانا مودودیؒ نے ایک ایسی نسل تیار کرنے کے لیے، جو اسلامی ریاست کے قیام اور اس کے اسلامی دستور کے لیے جدوجہد کرے‘ بڑی جاںفشانی سے اصولی طریق کار اپنایا۔ آپ نے اسلامی مملکت کے قواعد و ضوابط پیش کیے، اور اس کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی۔ آپ نے قانون کے طلبہ اور ماہرین قانون کے اجتماع میں دو طویل لیکچر دیے، جن میں اس نکتے پر زور دیا کہ: ’’حاکمیت صرف اﷲ کے لیے ہے، حکومت کا کام اﷲ کی مرضی کو نافذ کرنا ہے۔ خلافِ اسلام ہر قانون کو منسوخ کرنا اور مستقبل میں ایسے قوانین نہ وضع کرنے کی پابندی کرنا ہے‘ اس مہم کے نتیجے میں نفاذِ دستورِ اسلام کے مسئلے نے پاکستان میں بڑی اہمیت اختیار کر لی۔ اس کے حامی و موافق بھی تھے اور دشمن و مخالف بھی۔ مولانا مودودیؒ اسی سلسلے میں گرفتار و رہائی کے کئی مرحلوں سے گزرے مگر قیدوبند کے یہ مرحلے آپ کو کلمۂ حق کی ادایگی سے نہ روک سکے۔ آپ پورے ولولے سے اپنے مشن میں مصروف رہے‘ سازشوں کا قلع قمع کرتے رہے اور الزامات لگانے والوں کا حجت و دلیل سے جواب دیتے رہے۔

مولانا مودودیؒ نے فکر و عمل‘ دونوں میدانوں میں جامع تصور پیش کیا۔ آپ کا دل صدق و صفا اور خلوص سے لبریز تھا۔ آپ کی تحریر میں وضاحت و صراحت تھی، پیچیدگی اور ابہام کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نسلوں کو متاثر کیا۔ آپ نے اپنے علم و عمل کے ذریعے جس مقدس مشن میں اپنی عمر کھپا دی، اس کے دور رس اثرات امت مسلمہ پر پڑے۔

آپ کی ہر کتاب کسی زندہ مسئلے اور اہم واقعے سے بحث کرتی ہے۔ ہر کتاب میں رہنمائی‘ وضاحت اور تعمیری لوازمہ موجود ہے، یا پھر راہ راست سے منحرف ہونے والوں اور فتنہ پردازوں کا جواب ہے اور درپیش صورت احوال کا درست تجزیہ ہے۔

جنوبی ایشیا میں اسلامی دعوت کے اس عصری ابھار اور فکر و تحقیق کی شان دار کوششوں کا گہرا مطالعہ ہونا چاہیے، بلکہ آج تو تمام ہی اسلامی تحریکوں کے وسیع و عمیق مطالعے و تجزیے کی شدید ضرورت ہے‘ تاکہ ہم ان سے تجربات اور سبق حاصل کر کے مسلمانوں کی زندگی کو درپیش آج کے نازک حالات میں رہنمائی لے سکیں، ماضی کی غلطیوں سے بچ سکیں اور درست راستے پر چلیں۔ کتاب و سنت کی واضح میزان پر اپنی غلطیوں کی نشان دہی کریں۔ ممکن ہے کہ یہ جائزہ اور محاسبہ‘ اہل ایمان کو ایک صف میں کھڑا کر دے اور وہ اُمتِ و احدہ بن جائیں۔ یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ ہماری شکستوں اور مصائب کا باعث ہم خود ہیں، جنھوں نے فرقہ بندی، عصبیت، بے ایمانی اور بے عملی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلمان ایک جان ہوتے اور اپنے ایمان کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہوتے تو حالات مختلف ہوتے۔

پاکستان بنا تو اسلام کے نام، پر مگر اس میں ’’آمریت‘‘ غالب رہتی ہے، حالانکہ اسلام اور پھر خود ملکی آئین کی رو سے آمریت ممنوع ہے۔ فلسطین مسلم سرزمین ہے مگر یہ بدنصیبی اور کم ظرفی نہیں تو اور کیا ہے کہ مسلمان اپنے مؤقف سے ہٹ کر بس اس پر اکتفا کرنے لگے ہیں کہ انھیں ایک نام نہاد خود مختار، بے بس ریاست مل جائے۔ اگر امت مسلمہ ’مسئلہ فلسطین‘ کو متحدہ طور پر اپنی پالیسیوں کا حصہ بناتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ اسی سے افغانستان، کشمیر، چیچنیا اور عراق وغیرہ میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عالم اسلام کے عظیم مجاہد اور رہنما سید مودودیؒ نہ روایتی مصنف تھے اور نہ معروف معنوں میں کوئی لیڈر ‘ بلکہ ان خوبیوں کو قرآن و سنت کے سائے میں پروان چڑھانے والے وہ منفرد انسان تھے‘ جن پر اسلامی تاریخ ناز کرے گی اور مستقبل کی راہوں کو روشنی عطا کرے گی۔

جنوب مشرقی ایشیا میں جماعت اسلامی بالکل اسی طرح کے حالات و واقعات کے تناظر میں تشکیل پائی اور پروان چڑھی‘ جس طرح کے حالات کا سامنا عالم عرب میں اخوان المسلمون کو اپنی ابتدا اور تدریجی مراحل میں کرنا پڑا۔ چنانچہ جماعت اسلامی اور دنیاے عرب کی اسلامی تحریک پر اس کے یکساں اثرات پڑے۔

یہ مشابہت و مماثلت کوئی انوکھی یا ہنگامی نہ تھی۔ طنجہ سے جکارتہ تک پوری ملّت ِاسلامیہ یکساں مصائب و آلام سے دو چار تھی۔ زیادہ تر عالم عرب اور مسلم اقوام براہ راست مغربی استعمار کے زیر تسلط تھیں‘ جو ایک تاجر کے روپ میں عالم اسلام کے علاقوں میں داخل ہوئے اور اپنی سازشوں اور جدید جنگی طاقت کے بل بوتے پر ان علاقوں پر قابض ہو گئے۔ یہ استعمار آج بھی امت کی وحدت اور وجود کو پامال کر رہا ہے۔ اس کے مقاصد صرف تجارتی یا مادی نہیں تھے‘ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ امت کا تعلیمی‘ سیاسی اور اقتصادی رابطہ اپنے دین سے منقطع کر دے۔ اسلامی تحریکیں انھی حالات و واقعات کے منطقی جواب میں مثبت لائحہ عمل لے کر برپا ہوئیں۔ ان کے قائدین اور داعیان ایک ہی چشمۂ ہدایت سے سیراب ہو رہے تھے اور اسی چشمۂ صافی سے جرعہ نوش کرکے انھوں نے مستقبل کے لیے بہت سی پاکیزہ آرزوئیں اور شان دار توقعات پروان چڑھائی تھیں۔ ان کے مقاصد میں تھا کہ وہ اپنے دین و ثقافت‘ سیاست و حکومت اور معیشت و معاشرت کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرائیں گے۔ لہٰذا‘ اس بات پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے‘ کہ امام ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کی فکر کو بہت سے عرب ممالک کی اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں میں بے مثال قبولیت ملی۔

سید مودودیؒ کی تقریریں اور کتابیں‘ امام حسن البنا شہیدؒ، عبدالقادر عودہ شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ، پروفیسر محمد قطب اورشیخ محمد الغزالیؒ جیسے مصری قائدین اور دنیاے عرب کے دیگر علما کے لٹریچر کے ساتھ اسلامی تحریکوں کے لیے ثقافتی‘ تعلیمی اور فکری وحدت کا مصدور و منبع بنیں۔ اس دور میں نشروطباعت کے عمل نے بھرپور ترقی کی اور اسے خوب وسعت ملی۔ امام مودودی ؒکے لٹریچر کا عربی میں ترجمہ ہوا‘ جس سے بہت سے ممالک بالخصوص عالمِ عرب کے مسلم نوجوانوں کو فکری سطح پر بہت سہارا ملا۔ اس لیے کہ سب کے دکھ درد ایک جیسے تھے۔

امام مودودیؒ اپنے منفرد اسلوب نگارش کے ذریعے اور مسلمانوں کے ذہن کو خطاب کرنے کی اپنی جدید تعلیم سے آراستہ صلاحیت کے ذریعے تحریک اسلامی کے فرزندوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یوں اُن سے متأثر نوجوان اُسی عمل کی دعوت دینے لگے جس کی طرف خود سید دعوت دے رہے تھے۔ سید مودودی ؒکی فکر کو‘ جو اپنی حقائق پسندی اور دانش مندی کی وجہ سے معاصر اسلامی مفکرین میں ممتاز مقام رکھتی ہے‘ نوجوانوں میں خوب پذیرائی ملی۔ سید مودودیؒ کی یہ خرد مندانہ فکر اس تحرک انگیز سوچ میں ایک شاہ کار اضافہ ثابت ہوئی‘ جسے بیسویں صدی میں تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے پیش کیا تھا۔

سید مودودیؒ کی تحریروں کے جو ترجمے عربی رسائل میں شائع ہوتے ‘مسلم نوجوان پورے اشتیاق و انہماک کے ساتھ ان کی طرف لپکتے‘ وہ اسے اپنا معلوماتی سرمایہ سمجھتے‘ اپنی تقریروں اور روزمرہ کی سرگرمیوں میں اس سے مدد لیتے۔ اسٹڈی سرکلوں میں بحث کر کے انھیں ازبرکرتے۔ اس دور میں قومیت اور سیکولرازم کی فکر عام تھی۔ اس کے پیچھے بڑے بڑے ادارے کام کر رہے تھے اور بہت سی حکومتیں اس کی پشت پناہ تھیں۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر نے قومیت اور لادینی فکر کو بے اثر بنانے اور ہزیمت سے دوچار کرنے میں زبردست عملی کردار ادا کیا۔ جارح مغربی تہذیب کے لیے یہ لٹریچر ایک زبردست جواب ثابت ہوا۔ عرب مسلم نوجوان اس لٹریچر کو اس اتحاد اور فکری وحدت کا ایک نمونہ سمجھتا تھا‘ جس کی دعوت تحریکِ اسلامی کے اوّلین قائدین نے دی تھی۔

ہم فلسطین میں رہ رہے تھے اور استعمار ہمارے سینے پر مونگ دل رہا تھا۔ اس دور میں امام مودودیؒ کے افکار اور عمل کے طریقے ہمیں فکری و عملی بیداری سے مسلح ہونے کی اہمیت کا شعور بخش رہے تھے۔ انھی سے ہمیں یہ احساس ملا‘ کہ قابض اور مسلط استعمار کا مقابلہ کرنے کے قابل ایک نسل تیار کرنے کے لیے پختہ ایمان‘ بہترین تنظیم‘ شان دار فکری و تربیتی نظام اور متحرک عمل کی ضرورت ہے۔ کراچی‘ لاہور اور دوسرے پاکستانی شہروں میں ہونے والے لاکھوں افراد کے مظاہروں سے ہمیں اپنی امت سے وابستگی اور امید کا جذبہ ملتا اور بے بس اور مجبور فلسطینیوں میں اخوتِ اسلامیہ کا احساس گہرا ہوتا۔ یہ بات میں پورے شعور سے کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینی عوام میں جذبۂ مزاحمت بیدار کرنے کا شاید زیادہ تر کریڈٹ امام مودودیؒ کی تحریروں اور تقریروں کو جاتا ہے۔ اسی جذبۂ جہاد و مزاحمت سے سرشار ہو کر آج مسلمانوں کی بہت سی نسلیں عزت و افتخار کا پرچم تھامے ہوئے ہیں‘ جنھیں فتح و آزادی کی نوید جانفزا بہت قریب سنائی دے رہی ہے۔

اسلامی ریاست‘ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے فکر و اخلاق‘ قرآن کریم سے تعلق اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی‘ اسلامی دستور اور مغرب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات جیسے موضوعات پر سید مودودیؒ کی کتابیں فکری خزانوں سے لبریز انفرادیت کا نمونہ ہیں۔ یہ کتب اس فکری محرومی کا متبادل ہیں‘ جس میں امتِ مسلمہ‘ روشن اسلامی فکر کی عدمِ موجودگی کے دور میں مبتلا تھی۔ ہمارے لیے اس کردار سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں ہے جو عرب ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکروں اور داعیوں نے ادا کیا۔ انھوں نے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے کی تاکید کی‘ اور انھیں نصیحت کی کہ وہ المودودیؒ کے لٹریچر سے دین حنیف کے پختہ اور درست فہم والے نظام پر عمل کریں۔ اسلامی بیداری کے ان اولین قائدین کا یقین تھا کہ ان کا فہم اسلام اور معلوماتی سرمایہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ المودودیؒ جیسے امام کبیر سے کسبِ علم نہیں کرتے۔ حالانکہ خود ان کے ہاں بھی شان دار فکری سرمایہ موجود تھا۔ یہ قافلہ ایمان و دانش میں جو امام حسن البنا شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ،شیخ الغزالیؒ، الاستاد محمد قطب اور دیگر حضرات کی فکر سے مالا مال تھا۔

سید مودودیؒ کے اسلوب کی تازگی‘ آپ کی فکری لطافت‘ سیکولر افکار کے تجزیہ و تردید پر آپ کی مضبوط گرفت اور آپ کا سائنسی اسلوب نگارش‘ یہ وہ امتیازی خوبیاں اور نمایاں خصوصیات ہیں‘ جنھوں نے علم و فکر کے نئے نئے افق پیدا کیے۔ اس سے ایک نئی پکار بلند ہوئی جو امت مسلمہ کو اپنی شوکت رفتہ اور عظمت اخلاق کو پا لینے کی دعوت دے رہی ہے۔

ہم جب سید مودودیؒ کے علمی کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایک وسیع ذخیرئہ تحریر چھوڑنے کے باوجود آپ اپنے بلند و برتر معیار پر ہی قائم رہے اور اس سے نیچے نہیں اترے۔ ورنہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ وہ مصنفین جو زیادہ لکھتے ہیں‘ اپنے چند ایک افکار و خیالات ہی کی تکرار و اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تالیف کا ابتدائی معیار بلند اور آخری عمر میں تخلیق کا معیار پست تر ہوتا ہے‘ جب کہ مولانا اپنی تحریروں میں ترقی‘ ارتقا‘ وسعت اور پختگی کی طرف ہی مائل رہے۔ آپ کی تحریروں نے الٰہیاتی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور عمرانی فکر کے وسیع میدانوں کا احاطہ کیا۔

ہم نے المودودیؒ کی کتابوں کے عربی ترجمے پڑھے تو ترجمہ ہونے کے باوجود ان کی تحریر میں جمال و کمال پایا۔ اس پر ہم میں سے بہت سوں کی یہ حسرت اور تمنّا ہوتی ہے کہ کاش! ہم سید مودودیؒ کو ان کی اصل زبان اردو میں پڑھیں۔ اس لیے کہ کسی بھی تخلیقی شہ پارے کی اصل زبان زیادہ بلیغ‘ فصیح اور جمیل ہوتی ہے۔ علامہ مسعود عالم ندوی‘ استاد عاصم الحداد اور استاد خلیل احمد حامدیؒ دیگر حضرات نے سید مودودیؒ کی تحریروں اور تقریروں کے عربی تراجم پیش کرنے کے لیے جو ان تھک محنت اور کوشش کی‘ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ عرب قارئین پر اس کے مثبت اثرات پڑے۔

سیدیؒ کی عظمت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اپنی متعدد تصنیفات میں جس طرح اسلام کو پیش کیا ہے‘ وہی اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آپ ایک صاحبِ بصیرت قائد تھے۔ آپ نے اپنے دور میں امت کو درپیش مسائل کے بروقت و موزوں تجزیے کیے۔ آپ کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ جب ہم آپ کی اُن تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں جو بیسویں صدی کے ۴۰ اور ۵۰کے عشروں میں لکھی گئیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج اکیسویں صدی کے ہم لوگ ان کے مخاطب ہیں اور یہ باتیں ابھی ابھی ہم سے کہی جا رہی ہیں۔ ان تخلیقات میں وہی قوت و تازگی اور زندگی و حرارت ہے‘ جو ۵۰‘ ۶۰ سال پہلے تھی۔ نوجوان نسل کے لیے آپ کی نصیحتیں اب تک اپنی گیرائی‘ گہرائی اور انسانی جذبات و احساسات کے درست فہم کی عکاسی کر رہی ہیں۔ مستقبل میں جھانکنے میں آپ کی نظر   بے مثال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریریں زندگی سے بھرپور ہیں۔ گویا ہمارے دکھوں اور مسائل کا علاج ان نصیحتوں اور ہدایات میں مضمر ہے‘ جو امام مودودی رحمۃاللہ نے آج سے نصف صدی قبل کی تھیں۔

آج ہم سید مودودیؒ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ مل کر‘ آپ کی زندگی اور دعوت و قلم کے میدان میں آپ کے جہاد زندگانی کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں ہم انھیں یاد کر رہے ہیں جب اس طرح کے عظیم لوگوں کی سخت کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے عظیم انسان جو  فکری و علمی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوں‘ قومی و ملّی جذبے سے سرشار ہوں اور ایک مقدس مشن کی تکمیل کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کیے ہوئے ہوں۔

ہم اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہوئے کہ امام مودودیؒ کے علمی سرمایے اور تخلیقی کارناموں کا ازسرِنو مطالعہ کریں‘ یہ یاد کرتے ہیں کہ امام مودودیؒ کی نظر کتنی عمیق تھی اور آپ کی خداداد بصیرت حقیقتِ حال کا کس قدر درست ادراک کرنے والی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولائے کریم نے اپنے اس بندے کو اپنی کتنی عظیم نعمتوں سے نوازا تھا۔

علامہ مودودی رحمتہ اللہ علیہ اپنے دور کے وہ عظیم انسان تھے، جنھوں نے موجودہ جامع اسلامی بیداری کی بنیادیں رکھیں، جبکہ دشمنانِ اسلام طویل عرصے سے اسلامی بیداری کے خلاف کام کر رہے تھے۔ اس عظیم مجاہد ملت کی ولادت کے سو سال مکمل ہونے پر اس کی یاد منانا ہمارے لیے باعثِ فخر و مسرت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ علامہ مودودیؒ نے تمام مسلم علاقوں میں اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی انقلاب کی شمع کو فروزاں کرنے کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ آپ کا ان تمام قائدین سے بھی رابطہ تھا جن میں آپ تبدیلی لانے کی صلاحیت دیکھتے تھے۔ آپ نے ابھی اس دنیا سے آنکھیں بند نہیں کی تھیں کہ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے، علامہ مودودی کے سالِ وفات میں -- ایران میں اسلامی انقلاب برپا کر دیا۔ آپ کی وفات پر علامہ خمینی نے ان الفاظ میں تعزیت کی:

اُمتِ اسلامیہ اپنے ایک قابلِ فخر عالم دین اور مفکر سے محروم ہو گئی ہے۔ علامہ مودودیؒ نے اسلامی مقاصد اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی خاطر نمایاں خدمات پیش کیں۔ آپ صرف پاکستان کے مسلمانوں ہی کے عظیم دینی قائد نہ تھے، بلکہ پورے عالم اسلام کے راہنما تھے۔ آپ نے عالمِ اسلام میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا احیا کیا، جس سے اسلامی انقلاب کا پیغام ہر خطۂ ارضی تک پھیل گیا۔ اسلامی بیداری کے تمام حامیوں کا فرض ہے کہ وہ ان مقاصدو اہداف کو پانے کے لیے لگاتار کام کرتے رہیں۔ آپ کی وفات عالمِ اسلام کے لیے بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔

جب امام خمینی، مولانا مودودی کو اتنا اچھی طرح جانتے تھے تو پھر میرے جیسے لوگوں کے لیے آپ کو جاننا کچھ دشوار نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی انقلاب کے لیے آپ کی لازوال جدوجہد کے اعتراف میں ہم عرض کرتے ہیں کہ امام المودودیؒ، قرآن کی جامع حکومت کے عاشقوں میں سے ایک تھے۔ آپ نے اس مقصدکے لیے اپنی زندگی وقف کی اور بے پناہ تکالیف جھیلیں، اگرچہ آپ اپنا ہدف اسلامی نظام کا عملاً قیام، اپنی زندگی میں نہ پا سکے، تاہم آپ نے بڑے واضح اور روشن الفاظ میں اس راستے کی نشان دہی کر دی۔ منصوبے کے خدوخال واضح کر دیے، امید کی شمع روشن کی، اپنی تمام صلاحیتوں اور قوتوں کو مسلسل بروئے کار لائے اور آئندہ نسلوں کے لیے اپنی فکر ا ور زندہ تجربات کا خزانہ چھوڑ گئے۔ عظیم مقصد پانے کے لیے آپ کی ہمہ گیر فکری و عملی جدوجہد کے نکات درج ذیل ہیں:

    ۱- عالمی سطح پر جامع اسلامی نظریہ کا احیا۔ ۲- حکومتِ اسلامی کی طرف دعوت کا احیا۔      ۳- اسلامی معاشرے کے خطوط نمایاں کرنا اور اسلامی معاشرے کے خدوخال کی وضاحت۔

ہم اختصار کے ساتھ انھی تینوں نکات پر اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔

۱- جامع اسلامی نظریہ کا احیا: مغرب کا متکبرانہ منصوبہ بظاہر اسلامی نظریۂ حیات کو کچلنے میں کامیاب ہوا، اور اس کی جگہ مقامی اور علاقائی نظریہ کو رائج کیا اور اسی کو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح ہر خطہ زمین اپنے جغرافیائی عناصر قومیت، زبان، تاریخ، مقامی رسم و رواج، اپنے مخصوص سرچشموں بلکہ اپنی مصنوعی سرحدوں پر زور دینے لگا۔

اگرچہ پورے عالم اسلام پر قبضہ کرنے کی استعماری منصوبہ بندی، چند عشروں کے بعد ناکام ہوگئی، مگر ’’آزادی‘‘ حاصل کرنے والے ممالک اس ’’آزادی‘‘ کے بعد بھی استعماری فکرہی کے غلام رہے اور جامع اسلامی نظریہ اپنے معاشروں میں بدستور اجنبی ہی رہا۔

ہمیں اس کردار کا احساس ہے جو اسلامی نظریہ کے احیا اور نمایاں کرنے میں سید جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال ‘امام حسن البنا شہید، سید قطب شہید، مولانا مودودی ، امام خمینی اور شہید باقر الصدر نے ادا کیا۔ حتیٰ کہ یہ نظریہ ابھرا اور پھر گزشتہ صدی میں ساٹھ کے عشرے کے دوران میں پوری توانائی اور شان و شوکت سے سامنے آیا۔ مولانا مودودی مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’قرآن کریم چاہتا ہے کہ تم اللہ کے بندوں پر حجت بن جائو، جب وہ فرماتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاo (البقرہ ۲ : ۱۴۳) (اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور سول تم پر گواہ ہو۔ ) اگر تم نے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو تم نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ اس لیے انسانی ہدایت کا مسئلہ ہماری تمام سماجی اور قومی جدوجہد کا محور بننا لازمی ہے‘‘۔

مولانا مودودی اپنی متعدد تحریروں میں اسلامی نظام کے قیام پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہے اور باطل نظاموں خصوصاً سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم سے اسلامی نظام کے فرق کو واضح کرنے میں مصروف رہے۔ آپ نے اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کے نظریے پر نہ صرف زور دیا، بلکہ اس نظام کو ایک زندہ و موجود شے کے طور پر پیش کرنے کی جدوجہد کی۔ آپ کی ان کوششوں کے نتیجے میں، ایک طرف مسلم عوام میں اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا شوق پیدا ہوا، تو دوسری طرف ایسی مضبوط تحریکوں اور پارٹیوں کے قیام کے لیے زمین ہموار ہوئی جو نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے لگیں۔ اس مشن کے لیے آپ کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں چنانچہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ جیل میں گزارا۔ مگر یہ رکاوٹیں آپ کو عالم اسلام کی فکری رہنمائی سے نہ روک سکیں۔ مسلم عوام، جماعتوں اور مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوںنے ہر جگہ آپ کی فکر کا والہانہ خیرمقدم کیا۔ چنانچہ ۱۹۹۳ء میں ایک بڑے اسلامی اجتماع میں‘ آپ کو ’’امام المسلمین‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

مولانا مودودی کا ایک اہم کارنامہ اسلامی دستور کے مسئلے کا حل پیش کرنا ہے۔ آپ نے پاکستان میں ’’فرقوں کے عملی وجود کو تسلیم کرنے کے باوجود اسلامی قانون کے نفاذ‘‘ کے اعتراض کا بہت خوب صورتی سے جواب دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہی اعتراض ایران میں اسلامی دستور کی تشکیل کے موقع پر کیا گیا۔ امام مودودی کہتے ہیں:

’’یہ اعتراض کہ اسلام میں بہت سے مذہبی فرقے ہیں اور ان میں سے ہر فرقے کی دوسروں سے الگ مستقل فقہ ہے۔ اب اگر کسی اسلامی ملک، مثلاً پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ قرار پا جائے تو کس فرقے کی فقہ اس قانون کی بنیاد بنے گی؟

جو لوگ پاکستان اور دوسرے مسلمان ملکوں میں اسلامی قانون کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی نظر میں اس اعتراض کا بڑا وزن اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اس اعتراض سے ایسی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں جو انہیں کسی اور اعتراض سے نہیں ہیں۔ وہ اس کی بنیاد پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیں گے اور اسلام کے خطرے کو ٹالنے کا اپنا مقصد پا لیں گے۔ دوسری طرف اس اعتراض سے وہ بہت سے مخلص مسلمان بے چین و مضطرب ہیں جنھیں حقیقت ِ حال کا علم نہیں اور راستہ ان پر واضح نہیں۔ انھیں اس مشکل و پیچیدہ مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آتا --- حالانکہ یہ اعتراض سرے سے پیچیدہ ومشکل ہے ہی نہیں اور یہ گذشتہ تین صدیوں میں ایک دن کے لیے بھی قانونِ اسلامی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنا۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اسلامی قانون کا بنیادی ڈھانچہ اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکام و قواعد اور قطعی حدود پر مشتمل ہے، جسے مسلمانوں کے تمام فرقے اور گروہ یکساں تسلیم کرتے ہیںاور آج سے پہلے، ان میں اس بارے میں کبھی اختلاف ہوا اور نہ اس زمانے میں اس اختلاف کا کوئی وجود ہے۔ مسلمانوں میں اب تک جو اختلاف ہے وہ صرف اجتہادی احکام و مسائل کی تعبیر اور مباحات کے دائرے میں آنے والے قوانین و ضوابط کی تشریح میں ہے۔

ان اختلافات کی حقیقت یہ ہے‘ کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلم علما میں سے اگر کوئی عالم اسلام کے کسی حکم کی تعبیر بیان کرتا ہے، یا ہر وہ مسئلہ جس کا استخراج کوئی مسلم امام اپنے قیاس یا اجتہاد سے کرتا ہے، یا ہر وہ فتویٰ جسے کوئی مسلمان مجتہد، استحسان کی بنیاد پر صادر کرتا ہے تو وہ بذات خود کوئی قانون نہیں ہے۔ عالم، امام یا مجتہد تو بس ایک رائے اور تجویز پیش کرتا ہے۔ یہ اس وقت تک قانون نہیں بن سکتا جب تک اس پر اجماع امت نہ ہو جائے یا جمہور عوام اسے تسلیم نہ کرلیں۔

پھر یہ اجتماعی اور جمہوری مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جس پر اب تک مسلمانوں کا اجماع ہے یا ہر صدی میں عالمِ اسلام کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس پر کسی ایک ملک کا اجماع ہے یا اسے وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت نے قبول کر لیا ہے۔ پہلی قسم کے مسائل اگر اجتماعی ہوں تو ان پر نظرثانی کی ضرورت نہیں، تمام مسلمانوں کو ان پر عمل کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ان کے قانون کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مسائل جمہوری ہوں تو ضروری ہے کہ جس خاص ملک میں ان کے نفاذ کا ارادہ ہے، وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کی رائے کا اس بارے میں لحاظ رکھا جائے کہ آیا وہ اسے اپنے لیے بطور قانون پسندکرتے ہیں یا نہیں؟ یہ تو بات تھی فقہ کی پرانی کتابوں کے بارے میں۔ جہاں تک مستقبل کی بات ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی بھی حکم کی تعبیر‘ قیاس ‘اجتہاد یا استحسان، جب اس پر کسی مسلمان ملک کے اہل حل و عقد کا اجماع منعقد ہو جائے تو یہ اس ملک کا قانون بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمان ملکوں کا قانون انھی فتاویٰ پر مشتمل ہوتا تھا جو اس ملک کے سب مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہوتے تھے یا اس ملک کی غالب اکثریت انھیں مانتی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ جمہوری اصول پر اس مسئلے کے حل کے اس کے علاوہ کوئی اور شکل بھی تجویز کرنا ممکن ہو۔

اس کے بعد اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اسلامی ریاست میں اُن فرقوں کی پوزیشن کیا ہو گی جو اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان فرقوں کو پرسنل لا کے طور پر اپنی فقہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسلامی مملکت میںاس مطالبے کو قبول کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک مملکت کے پبلک لا کا تعلق ہے اسے بہرحال اکثریت کے مذہب پر ہی مبنی ہونا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا نہیں ہے جویہ کہتا ہو کہ اگر ہم آج قانونِ اسلام پر متفق نہیں تو پھر ہم پر کفر کے قوانین نافذ کر دیے جائیں۔ مسلمانوں کا کلمہ کفر پر اتفاق ایک ایسا قبیح معاملہ ہے جس کا خیال بھی مسلمانوں کے کسی فرقہ کے فرد کو نہیں آنا چاہیے۔ اگرچہ اس خیال کو شاید کسی حد تک وہ تھوڑے سے لوگ پسند کریں جن کے دلوں میں کفر کی محبت انڈیلی جا چکی ہے اور جو کفر کے قوانین و ضوابط کے نشہ سے سرشار ہیں‘‘۔

اسی سے ہمیں ایران کے اسلامی آئین کے عادلانہ موقف کا اندازہ ہوتا ہے، جہاں اس اصول کو دو سطحوں پر لاگو کیا گیا ہے:

  •   اول، عام سطح پر، امامی (اکثریت کے) مذہب کی تمام پبلک امور میں پیروی کی جائے گی۔
  •  دوم، مقامی سطح پر، یعنی جن علاقوں میں اہلسنت کی اکثریت ہے، وہاں انہیں اپنے مذہب کے مطابق، مجالسِ شوریٰ کے اختیارات کی حدود میں پرسنل لا اپنانے کی اجازت ہو گی۔

علامہ مودودیؒ نے متحدہ ہندستان کے خصوصی حالات کے تناظر میں  مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش لکھی۔ جس سے آپ کی مسلمانوں کے مسائل سے دل چسپی کا پتہ چلتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام مودودی پورے عالم اسلام کی المناک حالت سے رنجیدہ خاطر تھے، کیونکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے پر غیروں کا قبضہ تھا۔ مسلمانوں کے پاس مستقبل کا کوئی باقاعدہ‘ واضح اور متعین منصوبہ نہ تھا، بلکہ وہ مختلف افکار و نظریات میں منقسم تھے۔ وہ قرآنِ عظیم کو بھولے ہوئے تھے، اسلامی اخلاقیات سے محروم رہتے ہوئے وہ عہدوں اور منصبوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ علامہ مودودی نے برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر ۱۹۴۷ء میں اپنی تقریر میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ’’کچھ مسلم شہری جلد ہی راہ راست سے منحرف ہو کر اپنے محدود مقاصد کے لیے سرگرم ہو جائیں گے‘‘۔ واقعی ایسا ہو کر رہا۔ آپ نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین کشمکش ختم کرنے کے لیے اس وقت منصوبہ تجویز کیا۔ آپ نے مسلمانوں کی تربیت اور ذہن سازی پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے دعوتِ اسلامی پر توجہ دینے کی تاکید کی، تاکہ تقسیمِ ہند کے واقعے سے پیدا ہونے والے اثرات کی تلافی ہو سکے۔ یہ مولانا کا منفرد تجزیہ تھا جس کے نتائج سے آپ نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ایسے عظیم لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا حال امت کے دکھ میں گزار دیتے ہیں، مگر مستقبل کے لیے پوری بیداری اور ہوش مندی سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ 

۲- حکومت اسلامی کی طرف دعوت: مغرب نے عالم اسلام میں سیکولرزم کے نظریے کو پورے شد ومد سے پھیلایا حتیٰ کہ جامعہ ازہر، مصر کے کچھ فضلا بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے۔ کئی قومی پارٹیاں اور اہل قلم اسی دھارے میں بہہ گئے۔ سیکولرزم کی بنیاد پر عالم اسلام میں کئی ممالک بنے، حتیٰ کہ اب عالم اسلام کی قیادت کم و بیش انھی سیکولر عناصر پر مشتمل ہے۔ لادینیت کے اس طوفان بدتمیزی میں سید مودودی کی آواز ابھری جو پوری قوت کے ساتھ اسلامی حکومت کی جانب دعوت دے رہے تھے۔ ان کی ساری توجہ اس پر تھی کہ اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے ہرحالت اور ہر طریقے سے تربیت اور ذہن سازی کا عمل پورا کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی حکومت ایک ایسی قیادت کے تحت بنے جو خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ جس کی حاکمیت کی شرائط قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں، پھر یہ حکومت شریعتِ اسلامی کو نافذ کرے۔ اس حکومت کو امت منتخب کرے، کیونکہ امت ہی اللہ کی شریعت کی تطبیق کا قابل اعتماد ادارہ ہے۔ اسے مولانا مودودی خلافتِ عامہ کا نام دیتے تھے۔

امام مودودی اصطلاحات کے مابین فرق کرنے پر زور دیتے تھے‘ جسے ہم آپ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں دیکھتے ہیں۔ آپ نے متعدد تحریروں میں’’مسلمانوں کی حکومت‘‘ اور ’’اسلامی حکومت‘‘ میں فرق کیا ہے۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں جو اصل مقصود ہوتی ہیں۔ جس شخص میں بھی مطلوبہ شرائط پائی جائیں وہی اسلامی حکومت کا سربراہ بن سکتا ہے، خواہ اس کا نسب، مقام اور رنگ کوئی سا ہو۔ اسلامی حکومت کا قانون اسلام سے ماخوذ ہو گا اور اسی پر مملکت کا دستور مبنی ہو گا۔ اسلام ہی تمام زندگی کو، درپیش حالات کو دیکھتے ہوئے منظم کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ سید مودودی ہی کو ان تمام تجاویز کا اعزاز (کریڈٹ) جاتا ہے، جو بعد میں اسلامی حکومت کے لیے پیش کی گئیں یا ایران کے اسلامی دستور سے تھوڑا پہلے، اسلام کے بنیادی قانون کے لیے پیش ہوئیں یا اس دستور کے مسودہ و منصوبہ میں شامل ہوئیں جو مجمع البحوث الاسلامیہکی طرف سے پیش کیا گیا۔

امام مودودی کی کتاب اسلامی ریاست کو اگر مسلم دنیا میں جدید اور ہمہ گیر بیداری کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو ذرّہ برابر مبالغہ نہ ہو گا۔ اس میں اسلامی نظام زندگی کے بارے میں اہم بنیادی سوالات کے تسلی بخش مگر مختصر جوابات ہیں۔ جیسے اسلامی حکومت کے طریق ہائے کار، حکومت کی نوعیت اور اس کے مصادر، دستور کی تدوین کی کیفیت اور اسلامی حکومت کے اہداف وغیرہ۔ اس کتاب نے مسلم دنیا میں عوامی بیداری پیدا کی ہے۔ سید مودودی کی اسی کتاب سے امام خمینی متاثر ہوئے‘ اور انھوں نے گویا اس کتاب میں اپنا نظریہ  ولایتہ الفقیہہ شامل کر دیا۔ جس کا خصوصاً ایران اور عراق کے تمام حصوں پرمسلم عوام پر زبردست اثر پڑا۔ یہی وہ کتاب ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کا اہم عامل اور نظریاتی اساس بنی۔ پھر اسلامی مملکت کے قیام کی بنیاد اور اس کے دستور کی روح بنی۔

۳- اسلامی معاشرے کے خطوط اور خدوخال کی وضاحت: امام مودودی اسلامی معاشرے کے قیام کی خاطر پہلے ہی سے نمایاں نظریاتی و عملی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ جیسے شہید محمد باقر الصدر نے ایران کے اسلامی انقلاب سے بیس سال پہلے اپنی کتابوں کے ذریعے اسلامی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کی تھی۔

اسلامی معاشرے کی خصوصیات قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے ماخوذ ہوتی ہیں، مگر ان کی وضاحت کرنا، انہیں عوام کے ذہن میں بٹھانا، ان پر پڑنے والے تاریخی غبار کو مٹانا اور اسے ایک مکمل نظریہ کی تفصیلات کی صورت میں ڈھالنا ایک مشکل اور قابل قدر کام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سید مودودی نے یہ کارنامہ بڑی خوش سلیقگی سے سرانجام دیا اور ہر پہلو پر کئی کتابیںلکھیں۔ جن میں معیشت سے معاشرت تک، اور الٰہیات سے قانون تک مباحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں انھوں نے معاشرے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کر کے مکمل اسلامی سماجی نظام کا نقشہ کار پیش کیا۔

اسلامی تربیت و اخلاق کے میدان میں آپ نے اہم اخلاقی اقدار توکل، صبر، استقامت   پر زور دیا اور ان  کے معاشرتی مفہوم کو اپنانے کی تلقین کی اور اسلامی نسلوں کی تربیت انھی اخلاقی قدروں پر کرنے کے لیے کہا۔ آپ نے انگریز کے مسلط کردہ نظام تعلیم و تربیت کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ آپ نے بطور خاص ایک صالح جماعت تیار کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے سرکاری افسران کے نظام تربیت پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔بلکہ آپ نے ایسے اعلیٰ اور عارفانہ تربیتی نظام کی دعوت دی جس کے نتیجے میں انسان اپنے پروردگار سے مربوط ہو، اور وہ ایک ایسے معزز مخلص انسان میں بدل جائے جو سب سے پہلے اپنا فرض پورا کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خود امام خمینی بھی اکثر اسی بات پر زور دیا کرتے تھے۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے دین اور امتِ اسلامیہ کے مفادات ہر چیز اور تمام دنیوی تعلقات سے زیادہ اہم ہیں‘‘۔

مولانا مودودی ’’قرآنی سلوک‘‘ کے ذریعے نفسیاتی رفعت و بلندی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں جو مومن قرآن کے انقلابی اصولوں کا حامل ہو، وہ سلوک کے تمام مراحل جلد طے کرے گا یعنی وہ قرآن کو مکمل صورت میں سمجھنے کے قابل ہو سکے گا۔ مولانا کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے   نفسِ انسانی کو انفرادی سطح پر اتنی صلاحیت دی ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے پوری گہرائی کے ساتھ تعلق قائم کرسکتا اور اس کا ادراک بھی کر سکتا ہے اور اس لیے اسے کسی کشف و کرامت وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ یوں مولانا مودودی نے ایک صحیح تصوف کے بارے میں انقلابی تصور پیش فرمایا ہے۔

مولانا مودودی نے اپنی کئی کتابوں میں اسلام کا اقتصادی نقطہ نظر پیش کیا۔ آپ نے زمین اور دفینوں کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت کی اور بتایا کہ اس میں انسان کا فطری اور مساوی طور پر کتنا حق ہے؟ آپ نے مال جمع کرنے کی مذمت کی، سود کی نفی کی اور اسراف کی خامیاں بتائیں۔ سرمایہ کے صرف مال داروں تک محدود و مرکوز رہنے پر تنقید کی اور عدل ِ اجتماعی پر زور دیا۔ معیشت کی سطح پر باہمی کفالت اور توازن قائم کرنے کے لیے بیت المال کو منظم کرنے کی تاکید کی۔

عائلی زندگی کے ضمن میں مولانا مودودی نے مختلف پہلوئوں کا سیر حاصل تجزیہ کیا۔ اسلام کے بنیادی قلعے خاندان کے تحفظ کو اہمیت دی، اور کھلے دل و دماغ سے تحقیق کی۔ آپ کے نزدیک پردہ جنسی بدنہادی اور بے راہ روی سے روکنے کے عوامل میں سے ایک ہے۔ جبکہ دیگر عوامل میں اخلاقی اصلاح اور تعزیراتی قوانین شامل ہیں۔

اسلامی اتحاد کے میدان میں آپ تعصب اور اندھی تقلید کی نفی پر زور دیتے ہیں (تقلید اور علمی تحقیق کے نتائج کی پیروی میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے)۔ آپ صرف قرآن و سنت کو معیار قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد علمائے سلف کے اقوال سے راہنمائی بھی لیتے ہیں۔

مولانا مودودی نے امت کو منقسم کرنے والے عناصر کے خلاف جہاد کیا، اور ساری زندگی ان عناصر کے سب و شتم کو برداشت کیا۔  محدود قومیت کے عناصر کے خلاف آپ کا جہاد محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ کے نزدیک حقیقی وطنیت وہ ہے جو مکمل طور پر اسلام سے ماخوذ ہے۔ جس پر علامہ محمد اقبال لاہوریؒ زور دیتے تھے۔ آپ کا ایمان ہے کہ اسلام جس قومیت کا داعی ہے وہ دانش مندی کے فریم ورک یعنی شہادتین کے دائرے میں محدود ہے۔ یہ قومیت اخوت کا مظہر ہے۔ اس سے امت اور وطن کا مفہوم وسیع ہو کر تمام مسلمانوں کو اپنے دامن میں لے لیتا ہے۔

مولانا مودودی نے واضح کیا ہے کہ اسلام میں کوئی ایسا قانون نہیں جو علاقے، زبان یا رنگ و نسل کی بنا پر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر امتیاز یا فوقیت بخشتا ہو۔ تمام مسلمان عبادات، معاملات، سیاسی اور سماجی تعامل میں بالکل یکساں ہیں۔

مولانا مودودی کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اور انسانی حقوق کے میدان میں افکار تازہ پیش کرنا ہے‘ جسے مرکزی موضوع بنا کر ہمیں کلام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سید مودودی پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور آپ کو عظیم ثواب سے نوازے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کو اس دنیا میں تشریف لائے پورے ۱۰۰برس ہوگئے ہیں۔ ادھر میں‘ وہی جرمنی کی فاطمہ‘ آج سے ۴۰ برس قبل ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۵ء تک کے اُن دنوں کی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں‘ جو میں نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں گزارے تھے۔ مولانا مودودیؒ میرے لیے اس چشمۂ رحمت کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وساطت سے میں نے اسلام کے متعلق اپنے علم کی پیاس جی بھر کربجھانے کی کوشش کی۔ جی ہاں‘ اسلام‘ زندگی گزارنے کا وہی واحد اور سیدھا راستہ جسے میں اپنی رہنمائی کے لیے منتخب کر چکی ہوں۔

مجھے معلوم ہے کہ بہت سے علما ایسے ہیں‘ جو مولانا مودودیؒ کی ان لا تعداد تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جن سے صرف برعظیم ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان مستفید ہوئے۔ لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں نے‘ جو ۱۹۳۴ء میں جرمنی میں پیدا ہوئی‘ ان کے افکار کا ایک بہت گہرا تاثر لیا۔ ایک ایسا اثر جو صرف مجھ تک محدود نہیں رہا‘ بلکہ اس وقت یہ روس اور بوسنیا جیسے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کس طرح ہوا؟ میں ایک غیر معمولی شخصیت کے حوالے سے مختصر یادداشتوں کی بنیاد پر آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں۔

۱۹۶۰ء میں جب ۲۶ سال کی عمر میں‘ میں نے اسلام قبول کیا‘ اس وقت اپنی مرضی سے  میرے پسند کردہ اس عقیدے کے بارے میں‘ جرمنی زبان میں براے نام لٹریچر دستیاب تھا‘ خصوصاً مسلمان مصنفین کا تحریر کردہ۔ خوش قسمتی سے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حکمت و رحمت سے باہمت لڑکی کے طور پر انگلستان لے گیا۔ یہی وہ سال ہے جب میں ایک پیارے سے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ اکثر اوقات گھر کی یاد مجھے بری طرح ستاتی تھی‘ ایسے میں مجھے وہاں کی زبان‘ یعنی انگریزی سیکھنے کی اشد ضرورت محسوس ہوئی‘ تاکہ کم از کم کسی سے بات چیت تو کرسکوں۔ یوں میں نے وہاں پر جو انگریزی سیکھی‘ وہ نہ صرف عمر بھر حصولِ روزگار میں میری مددگار رہی‘ بلکہ اس سے مجھے انگریزی زبان میں اسلام کے بارے میں مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ جس کتاب نے دراصل مجھے اس دین کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے قابل بنایا‘ وہ مولانا مودودی کی کتاب دینیات تھی‘ جس کا انگریزی ترجمہ ان کے ایک ہونہارساتھی پروفیسر خورشید احمد نے Towards Understanding Islam کے نام سے کیا تھا۔

۱۹۵۸ء میں جرمنی میں مسلمانوں سے میرے مکالمے کی ابتدا ہوئی۔ ۱۹۶۰ء کے اوائل میں میرے پاس قرآن حکیم کا ایک باترجمہ نسخہ اور The Road to Makkah (شاہراہ مکہ‘ مصنف علامہ محمد اسد) کا جرمن ترجمہ موجود تھا‘ تاہم‘ ان کے ساتھ ہی ساتھ وہ کتاب جس نے میرے دل و دماغ پر فیصلہ کن اثر ڈالا‘ Towards Understanding Islam ہی تھی۔ پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے بالکل سچ لکھا ہے: ’’بے شک مودودیؒ موجودہ دور میں اسلام کے سب سے زیادہ منظم مفکر ہیں‘‘۔ ان کی یہی چیز میرے لیے ایک مسلمان کی زندگی گزارنے کے لیے مہمیز ثابت ہوئی۔

مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان میرے لیے اسلام کی اولین درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ہی مجھے اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہوئیں‘ مثلاً یہ کہ نماز کے دوران مسلمانوں کے لیے کیسا لباس پہننا مناسب ہے؟ یا یہ کہ مسلم خواتین بالعموم رمضان کے پورے ۳۰دن کے روزے نہیں رکھتیں‘ بلکہ قانون قدرت کے تابع جسمانی صحت کی بنا پر چھوڑے گئے چند روزے عیدالفطر کے بعد پورے کرتی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب میں اپنے پاکستانی مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے درمیان گزارے گئے تین برسوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ابھی کل کی بات ہے کہ جب میں ایمان افروز تجربے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سیکھنے کے جذبے سے سرشار تھی اور جی چاہتا تھا کہ صبح و شام کی تقسیم ختم ہو اور میں سیرت پاک اور قرآن کریم کے بحرذخار سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش میں مصروف رہوں۔

اب دیکھیے: بیگم محمودہ باوانی تھیں‘ جنھوں نے مجھے بے شمار عملی باتوں کے علاوہ عربی زبان میں قرآن مجید تلاوت کرنا سکھایا‘ اور ان کا وسیع خاندان تھا جو یہاں میرا پہلا میزبان تھا۔ دوسرے نہایت پُرجوش مسلمان بھائی‘ محسن اور جماعت اسلامی کے کارکنان جن میں کراچی سے خرم جاہ مراد اور خورشیداحمد تھے۔ بعد ازاں مشرقی پاکستان میں محمدعبدالرشید (جو آج کل کلکتہ میں رہایش پذیر ہیں)‘ جو مجھے اردو زبان سکھاتے نہیں تھکتے تھے‘ اور جن کے ساتھ ابھی تک میری خط و کتابت ہے۔ پھر اُس وقت کراچی میں بے مثل مربی اور پُرعزم داعی‘ جماعت اسلامی کے امیر چودھری غلام محمد تھے‘ جو ہمیں ملنے کے لیے جرمنی بھی تشریف لائے تھے‘ اور جن کا بہت جلد انتقال (جنوری ۱۹۷۰ئ) ہو گیا۔ میری شفیق بزرگ دوست رئیسہ بیگم‘ جو جماعت اسلامی ڈھاکہ حلقہ خواتین کی ناظمہ تھیں اور ان کے شوہر مرزا اشفاق صاحب۔ میری عزیزہ قلمی دوست نو مسلمہ بہن مریم جمیلہ‘ جنھوں نے مجھے انگریزی میں لکھنے اور پھر مجمع کے سامنے تقریر کرنے پر ہمت بندھائی‘ جس کی بصورت دیگر مجھے کبھی ہمت نہ ہوپاتی۔ مریم مجھ سے عمر میں صرف دو ماہ بڑی ہیں اور تقریباً میرے ساتھ ہی انھوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا۔ ہم دونوں ۴۰ سال سے‘ ہر مہینے کم از کم ایک بار ایک دوسرے سے خطوں کے ذریعے تبادلہ ٔ خیال کرتے رہے ہیں۔

۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جرمنی میں جرمن مسلمان انتہائی قلیل تعداد میں تھے‘ جب کہ آج   ہمارے ہاں نبی پاکؐ کے ۳ لاکھ ۴۵ہزار کے قریب پیروکار موجود ہیں‘ جن میں سے کم از کم ۷۰ ہزار کے پاس جرمن شہریت ہے۔ البتہ جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت ترکی النسل ہے‘ جو وہاں ’مہمان کارکن‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں‘ اور جنھوں نے جرمنی کے مشہور و معروف ’’معاشی کرشمے‘‘ (Wirtschaftswunder) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جنگ عظیم دوم (۴۵ - ۱۹۳۹ئ) کی بمباری سے تباہ حال جرمنی کو ترقی دینے اور ایک جنت ارضی بنانے میں ان ترک مسلمانوں نے بڑی ْجاں فشانی سے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں تارکین وطن کی تیسری اور چوتھی نسل بھی موجود ہے‘ جن میں سے بہت سے مسلمان جرمن یونی ورسٹیوں میں پڑھتے تھے یا پڑھ رہے ہیں‘ اور اہم پیشہ ورانہ عہدوں پر فائز ہیں اور جو لوگوں کے سامنے اپنے مذہب کو متاثر کن اور قابلِ قبول انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ ان کی ایک معقول تعداد جرمنی کی شہریت حاصل کر کے مستقل طورپر یہاں رہایش پذیر ہے۔

پروفیسر عبدالجواد فلاطری نے ۱۰ سال پہلے کہا تھا: ’’نئی صدی کے آغاز پر ہمارے ہاں کم از کم ایک لاکھ مسلمان ایسے ہوں گے جو حقیقی جرمن ہوں گے‘‘۔ لیکن اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس عرصے میں ان کی تعداد کم از کم دوگنی ہو چکی ہے۔ اگر میں حساب میں اتنی کمزور نہ ہوتی تو ضرور یہ جاننے کی کوشش کرتی کہ تعداد میں یہ اضافہ اُس وقت کے جرمن مسلمانوں کی تعداد سے کیا نسبت رکھتا ہے‘ جب خود میں نے اسلامی اقدار وروایات میں دل چسپی لینا شروع کی تھی۔

بہرحال‘ میں ۱۹۶۰ء کے عشرے کے ان دنوں کو یاد کر رہی تھی جب ہم‘ گنتی کے چند مسلمان‘ اسلامی لٹریچر سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ایسا اسلامی لٹریچر جو مستشرقین کے قلم سے نہ نکلا ہوا ہو‘ جو ہمارے عقیدے کا مطالعہ محض ایک مخصوص نوعیت کی علمی نظر سے کرتے ہیں‘ بلکہ ان لوگوں کے قلم سے لکھا گیا ہو جو خود اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ آج بھی شاید ہی کچھ جرمن افراد ہوں گے جنھیں اتنی انگریزی آتی ہو کہ اس زبان میں لکھی کتابیں پڑھ سکیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ شکرگزار ہوں کہ اس نے ان تمام جرمن افراد میں سے‘ جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں روا رکھے گئے خوف ناک جرائم کے سامنے آنے کے بعد بھی انسانی اقدار کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے تھے‘ میرے اوپر خاص مہربانی کی اور مجھے یہ شعور عطا فرمایا کہ زندگی کی قدر و قیمت مادی فوائد کے حصول سے کہیں بڑھ کر ہے‘ بشرطیکہ ہم اسلام کا سیدھا راستہ اپنا لیں۔

قبولِ اسلام کے بعد اپنے گھر پُرسکون سی زندگی گزارتے ہوئے‘ جب کہ میں نے پردے کی پابندی شروع کر دی تھی‘ اور کراچی میں پیدا ہونے والے اپنے ننھے بیٹے سیف الدین کی پرورش میں مصروف تھی‘ میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی شکر گزاری کا حق بھلا کیسے ادا کرسکتی ہوں؟

تب مجھے خیال آیا کیوں نہ میں اس ایمان پرور تحریر کو جرمن زبان میں ترجمہ کر دوں‘ جس نے مجھے اسلامی تعلیمات کی حکمتوں‘ اسلامی تاریخ کے واقعات کے منطقی ربط‘ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے  رسول آخر صلی اللہ علیہ و سلم اور حیات بعد الموت پر پختہ یقین رکھنے کے عملی فوائد کو جاننے میں اس قدر مدد دی ہے۔

اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں مجھے کافی وقت لگا۔ یوں ترجمے کے لیے مولانا مودودیؒ کی Towards Understanding Islam ہی کو سب سے پہلے منتخب کرنا ایک قدرتی بات تھی۔ مجھے یاد ہے‘ جب میں اس کے جرمن ترجمے کا کام کر رہی تھی‘ ان دنوں ننھا سیف الدین جو اپنے اردگرد کی دنیا سے نیا نیا آگاہ ہوا تھا‘ چھوٹے سے گھر میں متجسسانہ انداز میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس کو مصروف رکھنے اور اپنے آپ کو کام میں لگانے کے لیے خود مجھے اس ڈیڑھ مربع میٹر کے بنے ہوئے لکڑی کے جنگلے میں پناہ لینا پڑتی‘ جس میں ہم یورپی لوگ اپنے بچوں کو ان کے کھلونوں سمیت ڈال دیتے ہیں‘ تاکہ وہ اپنے آپ کو چوٹ نہ لگا بیٹھیں اور نہ ہمارے کام ہی میں مخل ہوں۔ اس جنگلے میں میرے ٹائپ رائٹر کی کھٹ کھٹ کی آواز‘ اس ننھے بچے کے لیے تمام کھلونوں سے بڑھ کر دل چسپی کا باعث ہوتی تھی۔ چنانچہ مسودے پر کام میں انہماک اور ایک ایک سطر ترجمہ کرنے کا واحد طریقہ مجھے یہی نظر آیا‘ کہ میں خود اس کے پالنے میں بیٹھ جائوں اور ننھا بچہ اس کے اردگرد ہمکتا پھرے۔

جب ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر بم گرنا شروع ہوئے تو میں اپنے بچے کے ہمراہ کوئٹہ کے قریب پٹھانوں کے علاقے میں چلی گئی اور وہاں پر تقریباً تین ماہ تک مقیم رہی۔ جلدی میں یہاں آتے وقت مجھے اپنا ٹائپ رائٹر ساتھ لانے کا خیال نہیں رہا تھا۔ لیکن میں نے اپنے نئے خاندان‘ یعنی کراچی میں رہنے والے مسلمان ساتھیوں سے خط و کتابت جاری رکھی اور غالباً اسی خط و کتابت کے ذریعے میں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہو گا کہ میں یہاں ترجمے کا کام جاری رکھنے سے قاصر ہوں۔ اس بستی میں جہاں پر میں روزانہ صبح لکڑی کی مدھانی کے ذریعے اونٹ اور بکری کے دودھ میں سے دیسی طریقے سے مکھن نکالتی اور لسی بناتی تھی‘ ایک روز‘ حسب معمول صبح کے وقت میں اس سرگرمی میں مگن تھی کہ ہمارے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دروازہ کھلنے پر معلوم ہوا کہ یہ خورشید احمد ہیں‘ جو میرا ٹائپ رائٹر لے کر آئے ہیں! فرطِ جذبات سے میرے آنسو چھلک پڑے‘ یہ سوچ کر کہ ہمارے اس انتہائی مصروف اور فاضل بھائی کو یہ بھاری بھر کم مشین‘ کراچی سے اتنے دُور دراز علاقے تک لانے کے لیے کس قدر زحمت اٹھانا پڑی ہو گی۔ اس لگن کا سرچشمہ صرف اﷲ اور اس کے رسولؐ کی رضا کی طلب ہے‘ جسے سید مودودی ؒنے جدید تعلیم یافتہ انسانوں میں لہو کی گردش کے مانند دوڑا دیا تھا۔

پاکستان سے واپس جرمنی پہنچ کر بھی میں نے اس کتاب پر کام جاری رکھا۔ مگر یہ کام کافی وقت طلب ثابت ہوا‘ کیونکہ اب ہمیں مغرب میں ایک مسلمان کے طور پر نئے سرے سے سکونت پذیر ہونا تھا۔ اس کے علاوہ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور بچے کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔یوں بعض اوقات مجھے خاندان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے حصول معاش کی جدوجہد بھی کرنا پڑتی تھی۔ مجھ سے ملنے والوں میں جو بھی میرے اس ترجمے کے کام کے بارے میں سنتا‘ وہ میرا مذاق اڑاتا یا کم از کم اس باب میں غیر یقینی پن کا اظہار کرتا‘ کہ میں شاید ہی کبھی اپنا یہ ترجمہ مکمل کر کے اسے چھپوانے میں کامیاب ہو سکوں گی۔ لیکن جس بات کا کسی نے بھی یقین نہیں کیا تھا‘ بالآخر اﷲ کی رحمت سے حقیقت بن کر رہی۔ فرائی بورگ (Freiburg) کے مقام پر مذہبی لٹریچر شائع کرنے والی ایک کمپنی فرلاگ ہیرڈر کے جی (Verlag Herder KG) نے اس کے مسودے کو میرے ایک خاصے بے باکانہ پیش لفظ کے باوجود چھاپنے کی ہامی بھر لی۔ مولانا مودودی کی اس کتاب کو جیبی سائز میں ۹۰ئ۲ جرمن مارک کی معمولی سی قیمت میں مارکیٹ میں لایا گیا۔ اس کے پہلے صفحے پر خوب صورت عربی الفاظ میں بسم اللہ اور جرمن میں Weltanschauung Und Leben im Islam کا عنوان درج تھا۔

اس کتاب کا دیر سے منظر عام پر آنا بھی ایک خوش قسمتی ثابت ہوا‘ کیونکہ اسی دوران میں لیسٹر‘ برطانیہ میں دی اسلامک فائونڈیشن‘ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد‘ جو اس فائونڈیشن کے سربراہ تھے‘ انھوں نے اس کتاب کے ۵ ہزار نسخے اسلامک فائونڈیشن کی جانب سے خرید کر نہ صرف جرمنی‘ بلکہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کی تمام پبلک لائبریریوں میں فراہم کرنے کا اہتمام کیا۔ جرمن زبان میں اسلام کے بارے میں مسلمان مصنفین کی تحریر کردہ کتابوں کی قلت کے باعث‘ اس مذہب میں  دل چسپی رکھنے والے افراد کو‘ الحمدللہ اس کتاب کی بدولت یہ سہولت حاصل ہو گئی کہ اب وہ اسے لائبریری سے کرائے پر گھر لے جا کر پڑھ سکتے تھے۔ میرے خیال میں ان میں سے خاصی لائبریریوں میں یہ کتاب اب بھی دستیاب ہے۔

جیبی سائز میں یہ کتاب بہت جلد فروخت ہو گئی اور چونکہ اس کے جرمن ناشر اسے دوبارہ چھاپنے پر آمادہ نہ تھے‘ اس لیے طے پایا کہ اب اسے ’دی اسلامک فائونڈیشن‘ ہی پرکشش اور    خوب صورت انداز میں شائع کرے گی۔ بعد ازاں کویت میں انٹرنیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز (IIFSO) نے بھی اسے شائع کیا۔ ابھی دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ نومسلم خواتین میں سے ایک نے‘ جو مجھے باقاعدگی سے ملنے کے لیے آتی رہتی ہیں‘ مجھ سے اسلام کے بارے میں کسی معلومات افزا کتاب کی فرمایش کی‘ تو میں نے اسے مولانا مودودیؒ کی یہی کتاب پڑھنے کے لیے دے دی۔ اس نے چند دن کے بعد کتاب پڑھ کر مجھے واپس کر دی اور بتایا کہ: اسے یہ کتاب بہت اچھی لگی اور اس نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا: ’’اس کتاب کا عربی زبان میں بھی کوئی ترجمہ موجود ہے‘ جسے وہ اپنے شوہر کے لیے لے سکے‘‘؟ اُس خاتون کا خیال ہے کہ: اس کتاب کے مطالعے کے بعد وہ اسلام کے بارے میں ‘ اپنے شوہر سے جو ایک پیدایشی عرب مسلمان ہے‘ زیادہ علم اور معلومات رکھنے والی خاتون بن گئی ہے۔

اس ترجمے کا مجھے ایک ضمنی فائدہ بھی ہوا۔ اس کے ناشر ہیرڈر (Herder) نے مجھے اس ترجمے کا اتنا اعزازیہ ادا کیا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ جب میں نے اس رقم کا نصف پروفیسر خورشید احمد صاحب کو ادا کرنا چاہا‘ کیونکہ میرے خیال میں وہ اس کتاب کے انگریزی مترجم ہونے کی حیثیت سے اس کے حق دار تھے‘ تو انھوں نے وہ رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میں نے اس رقم سے ایک اچھی سی واشنگ مشین خرید لی۔ اس طرح جو کام مجھے پہلے ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا‘ اب اسے مشین پر کرنے کی وجہ سے وقت کی اچھی خاصی بچت ہونے لگی۔ یہ مشین ۱۰سال تک بخوبی کام کرتی رہی‘ اور اس وجہ سے مجھے موقع ملا کہ میں ترجمے کا ایک اور کام شروع کر دوں۔

یہ کام بنیادی طور پر مولانا مودودی کے ترجمہ و تفسیر کو بنیاد بنا کر دیگر عالمی شہرت یافتہ مفکرین اسلام عبداللہ یوسف علی‘ سید قطب‘ محمد اسد اور عبدالماجد دریابادی وغیرہ کے حواشی کی مدد سے جرمن زبان میں قرآن عظیم کے ترجمے کا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں انگریزی زبان سے واقف ہوں اور مجھے حلیمہ کرائوزن(Halima Krausen)عمر‘ اور حوا الشباسی (Eva El-Shabssy) اور راشا المغری (Rasha El-Mahgary) کی صورت میں بڑے محنتی اور فاضل مددگار بھی مل گئے تھے‘ جو عربی زبان کے متن کو خود ترجمہ کر سکتے تھے‘ یا ترجمہ شدہ مسودے پر نظرثانی میں میری مدد کر سکتے تھے۔ لہٰذا‘ ہم جرمن قاری کو پہلی مرتبہ قرآن کا ایک ایسا نسخہ دے سکتے تھے‘ جس کے حواشی سے آیات کے تاریخی پس منظر‘ شانِ نزول اور بے شمار ایسے پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے‘ جو اللہ تعالیٰ کے کلام کے وسیع مفہوم کو صحیح طرح سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ کئی آیات ایسی ہیں جن کی تشریح میں اختلاف رائے بھی سامنے آیا ۔ لہٰذا‘ ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کے بارے میں مختلف علما کی آرا کو ایک ساتھ دے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایسے تشریحی مواد کو منتخب کیا گیا جو مغرب کے رہنے والے قارئین کی سمجھ میں آسانی سے آجائے۔ کیونکہ ایک انتہائی وسیع علمی ذخیرے کی موجودگی میں ہمارے لیے ضروری تھا کہ اپنے انتخاب کو جتنا ممکن ہو محدود رکھیں۔

ہمارے کام کے ابتدائی چند برسوں کے دوران میں قرآن حکیم کے اس جرمن ترجمے کے چھ چھ صفحات ہمارے جرمن رسالے الاسلام (Al-Islam) کے ہر شمارے میں قارئین کے ملاحظے کے لیے شائع کیے جاتے رہے۔ اس طرح ہمیں توقع تھی کہ ہمیں اپنے قارئین کا ردِعمل اور ان سے کچھ اچھی تجاویز بھی مل سکیں گی‘ جن کی روشنی میں ہم اس کام میں مزید بہتری پیدا کر سکیں گے۔ کتابی شکل میں کوئی چیز لانے سے پیش تر اسے قسط وار رسالے میں چھاپنے کا یہ محتاط طریقہ بھی مولانا مودودیؒ ہی کی اختراع ہے۔ لیکن اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر ہم اس رفتار سے آگے بڑھتے رہے تواس کام کے مکمل کرنے میں ہمیں کوئی ۵۰ سال لگ جائیں گے۔ چنانچہ میونخ کے عبدالحلیم خفاجی نے مشورہ دیا کہ ہمیں قرآن کے ترجمے کو جلدوں کی صورت میں اکٹھا کر کے شائع کر دینا چاہیے‘ جن میں سے ہر ایک جلد چند سورتوں پر مشتمل ہو۔ یوں ۱۶ سال کے عرصے میں ہم نے قرآن کی کل ۲۴ جلدیں شائع کر دیں‘ جو تمام مختلف اور خوب صورت رنگوں سے مزین تھیں۔ پھر ہم نے اس کو تین تین پاروں پرمشتمل ۱۰جلدوں کی صورت میں اور بالآخر ۳ ہزار صفحات پر مشتمل پانچ جلدوں کے ایک خوب صورت سیٹ کی شکل میں شائع کر دیا‘ جن میں سے ہر جلد کا سرورق خوب صورت نیلگوں رنگ اور سنہرے الفاظ سے مزین ہے۔ اس کتاب میں الازہر یونی ورسٹی‘ قاہرہ کی طرف سے جاری کردہ تصدیقی دستاویز بھی شامل ہے۔

یہ ترجمہ جو بویریا قرآن (Bavaria Quran) کے نام سے معروف ہو گیا [بویریا پبلشنگ کمپنی‘ میونخ]‘ جب کہ مطالعہ قرآن کے حلقوں میں تفسیر کے طور پر استعمال ہونے لگا اور ماشاء اللہ اس قدر مقبول ہوا کہ ۱۹۹۶ء میں اپنی تکمیل کے تقریباً فوراً ہی بعد روسی اور بوسنیائی زبانوں میں اس کے ترجمے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ آج یہ دونوں ترجمے بھی مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہیں۔ ہسپانوی زبان میں بھی اس کا خوب صورت ترجمہ یونی ورسٹی پروفیسر صاحبان اور ان کے معاونین کی مدد سے تیار کیا جا رہا ہے اور اب تک اس کی ایک جلد کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ مستند علما اس کی جانچ پڑتال میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ طباعت کے مراحل سے گزرنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا بھی انتظار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مشکل کام میں ہماری مدد فرمائے۔

چنانچہ‘ آج قرآنِ حکیم کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار‘ روس اور بوسنیا جیسے دور افتادہ علاقوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب دینی رہنما سید مودودیؒ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور لاتعداد مسلمان اپنی دعائوں میں تشکر کے جذبات کے ساتھ ان کا ذکر کریں‘ جیسا کہ میں ان تمام برسوں میں کرتی آ رہی ہوں۔

غور وفکر پر آمادہ کرنے والے مولانا مودودیؒ کی تحریروں کے علاوہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ وہ یہ تھی کہ اپنی تمام تر ان تھک روحانی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود وہ کبھی نو مسلموں کی مشکلات اور مسائل سے لاتعلق نہیں ہوئے۔ اس کی سب سے خوب صورت مثال میری عزیز دوست مریم جمیلہ ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتی ہیں‘ وہ ایک امریکی نو مسلم کی حیثیت سے نہایت مشکل صورتِ حال سے دوچار تھیں‘ خصوصاً چونکہ ان کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ یہ مولانا مودودیؒ ہی تھے‘ جنھوں نے ان کے لیے پاکستان میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا بندوبست کیا‘ جہاں بعد میں ایک مخلص مجاہد فی سبیل اللہ محمد یوسف خان سے ان کی شادی کرا دی۔ یہ وہی یوسف خان ہیں جنھوں نے ایک جلسے میں مولانا پر قاتلانہ حملہ کر کے بھاگنے والے قاتل کو چھلانگ لگا کر پکڑلیا۔

۲۵ سال بعد اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میں اپنی زندگی میں دوسری بار پاکستان آئی تو مجھے مریم جمیلہ اور ان کے شوہر سے بالمشافہہ ملاقات کا پہلی بار موقع ملا۔ اگرچہ ہم اس سے قبل پورے ۳۰ سال تک ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہے تھے‘ مگر یہ ملاقات ۱۹۸۶ء میں ہوئی تھی۔ میں ان دونوں کو اپنے وسیع خاندان کے ساتھ خوش و خرم اور صحت مند پاکر نہایت خوش ہوئی‘ ماشاء اللہ۔ ہم دونوں نے شفقت پدری اور دینی رہنمائی کے حوالے سے مولانا مودودی کی کئی ایمان پرور یادوں کا تبادلہ کیا۔ اگرچہ وہ آج بنفسِ نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں‘ لیکن ہمارے ذہنوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انھی کی بدولت ہماری زندگیوں میں اسلام کا پیغام رحمت ایک انقلاب بن کر آیا‘ حالانکہ ہم دنیا کے اس قدر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ہم لوگوں پر‘ یعنی عالمی مسلم برادری پر‘ ان کے احسانات کے صلے میں انھیں دارِ آخرت میں عظیم ترین اجر سے نوازے۔ آمین!

ہمارا گھر‘ عام گھروں سے مختلف تھا۔ جس طرح گھر میں والد صاحب آتے ہیں‘ اٹھتے بیٹھتے ہیں‘ اور گھریلو مسائل پر گفتگوئیں یا بحثیں ہوتی ہیں‘ اس طرح ہمارے گھر کا ماحول نہیں تھا۔ ہمارے والد صاحب کا سارا وقت یا تو جماعتی اور تنظیمی نشستوں میں صرف ہوتا یا پھر وہ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے۔ وہی جگہ ان کا دفتر تھا‘ ان کا ڈرائنگ روم تھا اور بیڈ روم بھی۔ دوسرے لفظوں میں تقریباً سارا وقت وہ وہیں گزارتے تھے۔ گھر میں وہ کھانا کھانے یا پھر کبھی دوپہر کو آرام کرنے کے لیے آتے تھے۔ جب بھی ہمیں ان سے کسی معاملے پر بات چیت کرنا ہوتی تو کھانے کے دوران کر لیتے یا ان کے دفتر میں جا کر کرتے۔ اس لیے ہمارے گھر کا ماحول عام گھروں سے یکسر مختلف تھا۔

وہ کبھی گھریلو مسائل کو اپنے تنظیمی مصروفیات میں حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ بعض اوقات تنظیمی دورے زیادہ لمبے بھی ہو جاتے تھے‘ کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان بھی ساتھ تھا۔

جب بھی وہ جیل جاتے تو ہمارے گھر میں کبھی افسوس یا سوگواری کا ماحول نہیں پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ ہم بہن بھائی‘ چھوٹے بچے ہونے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ان کا ایک اعلیٰ مقصد ہے اور وہ اسی مقصد کی خاطر جیل میں گئے ہیں۔ ہمارے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ہمیں ہوش سنبھالتے ہی یہ ذہن نشین کرا دیا تھا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل کے لیے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔

وہ انتہائی شفیق باپ تھے۔ میری والدہ انھیں کہتی تھیں : ’’ان بچوں کو آپ کچھ نہیں کہتے‘ انھیں ڈانٹا کریں‘‘۔ تو وہ کہتے تھے: ’’میرے والد نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا تھا‘‘۔ ہم نے ان کا رویہ کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ انھوں نے کبھی ہم میں سے کسی کو مارا یا ڈانٹا ہو‘ بلکہ کوئی بات سمجھانی بھی ہوتی تو وہ  انتہائی نرمی سے سمجھا دیتے تھے۔

رشتہ داروں کے ہاں خوشی یا غمی کے موقعے پر آتے جاتے تھے اور اگر ہمارے گھر میں رشتہ دار آتے تو ہم انھیں پیغام بھیج دیتے اور وہ آ کر مل لیتے تھے‘ اور ضروری گفتگو کے بعد واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے :’’میں فارغ نہیں بیٹھ سکتا‘‘۔ اس لیے وہ ہر وقت مصروف رہتے تھے۔ صبح ناشتے کے بعد وہ لکھنے پڑھنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس دوران اگر کچھ لوگ ضروری کام سے ملنے آ جاتے تو مل لیتے تھے۔ اکثر اوقات لوگ محض زیارت کرنے آ جاتے تھے اور یوں ان کا وقت ضائع ہوتا تھا۔ انھوں نے عصری مجلس کا اہتمام اسی لیے کیا تھا‘ کہ ان کا جو شیڈول بناہوا ہے لوگ اس کو خراب نہ کریں۔ جس کو ملنا ہے‘ کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہے تو اس وقت    ]عصری مجلس[ میں آ جائیں۔ دوپہر کو وہ کھانا کھا کر کچھ آرام کرتے اور اکثر اوقات تو لیٹ کر بھی پڑھتے رہتے تھے۔ بہرحال عصر تک وہ آرام کرتے۔ نماز عصر کے بعد چائے پیتے اور پھر عصری مجلس کا وقت ہوجاتا تھا۔ مغرب تک یہ مجلس چلتی تھی۔ مغرب کے بعد پھر پڑھنا لکھنا شروع کر دیتے۔ عشاء کے بعد کھانا کھاتے اور سو جاتے تھے۔ یہ آخری زمانے میں معمول تھا‘ ورنہ پہلے زمانے میں تو وہ رات رات بھر پڑھتے‘ لکھتے رہتے تھے۔ نماز فجر کے بعد تین چار گھنٹے سو جاتے‘ اور پھر سارا سارا دن جماعتی اور علمی مصروفیت میں گزر جاتا۔

والد صاحب کا لائف سٹائل ایک عام آدمی سے بالکل مختلف تھا۔ مطلب یہ کہ جس طرح دوسرے گھروں میں لو گ دن کو کاروبار کر کے رات کو سارے خاندان کے ساتھ بیٹھتے ہیں‘ خاندان کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں‘ کسی کی برائی ہوتی ہے اور کسی کی اچھائی بیان کی جاتی ہے اور خاندان کے لڑائی جھگڑوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کے ساتھ نہ ایسا ہوتا تھا اور نہ وہ اس طرح زندگی کے لمحوں کو برباد کرنے کے قائل تھے۔ لیکن ان کے پاس اگر کسی گھریلو یا خانگی لڑائی جھگڑے کے تصفیے کے لیے کوئی آبھی جاتا تو وہ حتی الوسع کوشش کرتے کہ اس معاملے میں نہ پڑا جائے۔ اور جو لوگ ان معاملات سے واقفیت رکھتے ہیں‘ وہی انھیں حل کریں۔ انھیں روپے‘ پیسے یا مال و دولت کو اکٹھا کرنے کی فکر نہیں ہوتی تھی اور نہ وہ اس بارے میں سوچتے تھے۔

میں نے والد اور والدہ کے درمیان زندگی بھر تلخ کلامی نہیں سنی۔ کبھی انھیں بلند آواز سے کسی کو بلاتے یا ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ ہمارے گھر میں کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا اور نہ خاندان کے کسی دوسرے فرد سے کوئی جھگڑا ہوا۔ اس لیے وہ پورے خاندان میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہر ایک ان کا احترام کرتا تھا۔ گھر کے نجی معاملات والدہ خود چلاتی تھیں۔ اچھرہ میں جماعت کا ’’نیا مدرسہ‘‘ اسکول ہوتا تھا۔ وہاں مجھے داخل کروانے وہ خود گئے تھے۔ اپنے تنظیمی یا جماعتی معاملات کبھی گھر میں زیر بحث نہیں لاتے تھے۔ وہ دورے بھی کرتے تھے لیکن گھر آ کر تنظیمی امور کی باتیں کبھی نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر تنظیمی کاموں یا لکھنے پڑھنے کے کاموں میں ہی مصروف رہتے تھے۔

کسی بڑے سے بڑے واقعے کے بعد بھی وہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ میں نے انھیں کبھی پریشان ہوتے دیکھا ہی نہیں۔ وہ بہت متحمل مزاج انسان تھے اور کبھی انڈر پریشر (under pressure) نہیں ہوتے تھے۔ اُن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا‘ اُن کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ اُن کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ اُن پر زندگی میں بے انتہا تنقید بلکہ شرمناک تنقید ہوئی‘ لیکن اُنھوں نے کبھی بُرا نہیں منایا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب کبھی اُن کا کوئی مخالف اُن سے ملنے آتاتو اُس سے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے۔

جنرل ضیاء الحق صاحب نے جب بھٹو صاحب کاتختہ الٹا تو اس کے دو تین ہفتوں بعد وہ ہمارے گھر آئے‘ جس کی ہمیں پہلے کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اچانک ہی وہ آ گئے‘ کسی پروٹوکول کے بغیر عام گاڑی اور عام لباس میں۔ان کے ہمراہ کور کمانڈر لاہور جنرل اقبال اور ایک اُن کے ADC کیپٹن صاحب بھی تھے۔ وہ بھی عام لباس میں تھے۔ بہرحال وہ دونوں اندر والد صاحب کے پاس چلے گئے اور ہم باہر کیپٹن صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس وقت بجلی چلی گئی تھی۔ معلوم نہیں جا ن بوجھ کر بند کروائی گئی یا اتفاق سے گئی تھی۔ بہرحال وہ اندھیرے ہی میں بات چیت کرتے رہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جانے کے لیے باہر آئے تو والد صاحب انھیں باہر برآمدے تک چھوڑنے آئے اور میں اتفاق سے ابھی باہر کھڑا تھا۔ ضیاء الحق گاڑی میں بیٹھنے کے بعد دوبارہ باہر نکلے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا کہ: ’’آپ مولانا کے بیٹے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’جی ہاں‘‘۔ تو انھوں نے کہا کہ: ’’میرے لائق کوئی خدمت ہے تو بتائیں‘‘۔ تو میں نے کہا : ’’بہت بہت شکریہ‘‘۔ والد صاحب برآمدے میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے رات عشاء کے بعد کھانے کے دوران پوچھا: ’’ضیاء الحق کیا کہہ رہے تھے؟‘‘میں نے بتا دیا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے اور جواب میں‘ میں نے یہ کہا۔ اس پر ابّا بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے: ’’یہ لوگ اسی طرح دوسروں کو ٹٹولتے ہیں‘‘۔

جب والد صاحب کا انتقال ہوا تو والدہ صاحبہ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ ان کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا‘ لیکن انھوں نے ہمیں بھی حوصلے سے نوازا اور بڑے صبر سے ان کی جدائی برداشت کی۔ اور جب تک صحت نے اجازت دی وہ سارے گھر کے معاملات کو بڑے احسن انداز سے چلاتی رہیں۔

والد صاحب تمام بیٹوں اور بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے‘  اس کے علاوہ بھی اگر کوئی ان سے غصہ سے پیش آتا تو وہ انتہائی ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ بچوں کو دیکھ کر اُن کی تھکن اتر جاتی۔ ہماری بہنوں کے ساتھ نہایت محبت‘ شفقت بلکہ احترام کا برتاؤ کرتے۔ میں نے زندگی بھر والد صاحب کو مصروف ہی پایا۔ کبھی انھیں خالی بیٹھے یا وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ جماعتی مصروفیات سے فارغ ہوتے تو اپنا لکھنے پڑھنے کا کام شروع کر دیتے اور آج اگر دنیا میں اُن کا نام ہے تو اس کے پیچھے ان کی ایمانی حرارت اور مسلسل جدوجہد اور محنت ہی کار فرما ہے۔

وہ ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے قائل نہیں تھے۔ اُن کی زندگی کا ایک مقصد تھا اور اُسی کے لیے اُنھوں نے اپنی ساری زندگی لگا دی۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی لالچ‘ نقصان اور رکاوٹ کو وہ خاطر میں نہیں لائے اور وہ مقصد تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کیا جائے اور وہ لوگ جو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور وہ لوگ جو مشنری اداروں میں پڑھ رہے ہیں اُن کو دین کی طرف راغب کیا جائے۔ اسی لیے اُن کی تمام کتابیں اور تفہیم القرآن اتنی آسان زبان میں ہیں کہ ہرآدمی اُسے پڑھ کر آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تمام کتابیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئی ہیں اور مختلف زبانوں میں مسلسل اُن کے ترجمے ہو رہے ہیں۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی جامع اور ہمہ گیر تھی اور ان کا کارنامۂ حیات اپنے اندر اتنے گوناگوں اور متنوع پہلو رکھتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ میں بھی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں کچھ اپنی یادوں اورتاثرات میں اربابِ شوق اور طالبان حق کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر فقط چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا جو فطری نظام بنایا ہے وہ اس کے رب اور رحیم ہونے کا تقاضا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ خاتم النبیینؐ کے بعد‘ اللہ تعالیٰ عام انسانوں میں سے کچھ خوش نصیب لوگوں کو اسی کارِ نبوت کی خدمت‘ تعمیل اور دعوتِ عام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بیسویں صدی میں تجدید اُمت اور احیاے دین کے لیے جن افراد نے اللہ کے اس نظام اور اس کے طے کردہ منصوبے کے تحت کام کیا‘ ان میں جمال الدین افغانی‘ شکیب ارسلان‘ حلیم پاشا‘ محمدعبدہ‘رشید رضا‘ ابوالکلام آزاد‘ علامہ محمد اقبال‘ حسن البنا‘ بدیع الزماں سعید نورسی وغیرہ شامل ہیں۔ اس درخشاں کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی ایک بہت ہی منفرد اور کئی حوالوں سے مرکزی مقام ہے۔

اس حوالے سے میں اپنے آپ کوبڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا کرم کیا کہ ایسے خادم دین اور ایسی عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دانش برہانی سے فیض پانے والی اس شخصیت کے افکارِ عالیہ سے اپنی فکر کو جلا بخشنے‘ اس کی صحبت میں زندگی کے اسالیب سیکھنے اور اس کی امارت و قیادت میں اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اسے زندگی کا حاصل اور ایک بہترین انعام سمجھتا ہوں‘ بلکہ زیادہ اہم کہ اگر کہوں کہ زندگی کا رخ متعین کرنے اور اسے بامعنی بنانے میں جس چیز نے اصل کردار ادا کیا‘ وہ یہی تعلق تھا۔ اس دل چسپ داستان کے دو حصے ہیں:ایک میری شعوری زندگی اور دوسری میری خاندانی زندگی۔

خاندانی پہلو سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ‘ میرے والد نذیر احمد قریشی کے غالباً سب سے پرانے دوست تھے۔ غالباً اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ بات خود مولانا نے مجھے بتائی اور پھر والد صاحب کے انتقال پر جو تعزیتی خط آیا تھا‘ اس میں بھی یہی تذکرہ کیا۔

مولانا مودودی جب بھوپال اور حیدرآباد سے دہلی منتقل ہوئے تو یہاں جن افراد سے ان کا اولین تعارف ہوا‘ ان میں سے ایک میرے والد گرامی بھی تھے۔ اگرچہ عملی زندگی میں ان کا معاملہ تجارت سے تھا‘لیکن سارا خاندان علمی روایت سے منسلک تھا اور ادبی ذوق کا رچائو بھی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور مفتی کفایت اللہ مرحوم سے گہرے نیازمندانہ تعلقات‘ روز و شب کا ملنا جلنا اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور گویا ان کی مجلسی زندگی کا محور وہ حلقہ تھا جسے دلی میں مسلم شرفا کا طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ تحریک خلافت میں والد صاحب بھی پیش پیش تھے۔ مولانا مودودی اور والد صاحب کے درمیان دوستی کا یہ آغاز ۱۹۲۰ء میں ہوا اور یہ تعلق خاطر۱۹۶۲ء میں والد صاحب کے انتقال پر ختم ہوا۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ میں نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کو ۱۹۳۸ء یا ۳۹ء میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ تب میری عمر ۶‘ ۷ برس تھی۔ ان دنوں مولانا دلی آئے تو والد صاحب سے ملنے ہمارے ہاں تشریف لائے۔ دلی کے گھرانوں میں مردان خانہ اور زنان خانہ الگ الگ ہوتا تھا۔ وہ مردانہ حصے میں مولانا محترم سے بات چیت کر رہے تھے۔ اسی دوران والد صاحب نے مولانا سے ملانے کے لیے مجھے بلایا۔ میں نے آتے ہی مولانا کو سلام کیا۔ اس زمانے میں‘ میں نظم بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ والد صاحب نے کہا: ’’مولانا کو نظم سنائو‘‘۔ اچھی طرح یاد ہے میں نے یہ قومی نظم:

زندہ ہیں اگر زندہ دنیا کو ہلا دیں گے

مشرق کا سرا اُٹھ کر مغرب سے ملا دیں گے

دھارے میں زمانے کے بجلی کا خزانہ ہے

بہتے ہوئے پانی میں ہم آگ لگا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

بڑے زور اور جذبے اور اس سے بھی زوردار اشاروں کے ساتھ یہ نظم میں نے سنائی اور مولانانے بس ایک پُروقار مسکراہٹ سے میری حوصلہ افزائی کی۔

پھر یہی نظم میں نے محمد علی ٹرافی میں پڑھی تو ڈاکٹر ذاکر حسین اس مجلس میں موجود تھے‘ وہ اُٹھ کر آئے۔ انھوں نے مجھے پیار کیا‘ اور نظم سنانے پر ایک سرٹیفیکیٹ دیا۔ اس کے برعکس مولانا مودودی کا ردعمل بڑا نپاتلا (calculated) تھا۔

دوسری ملاقات مولانا مودودی سے فروری ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ہم والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ہمراہ دلی سے لاہور آئے۔ یہاں مسلم ٹائون میں ۲۵نمبر کوٹھی کرائے پر لی۔ جب مولانا کو علم ہوا کہ والد صاحب لاہور میں ہیں تو وہ کمالِ عنایت سے‘ نمازِمغرب سے کچھ دیر پہلے ہمارے گھر پہنچے۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے لان میں باجماعت پڑھی۔ مولانا نے امامت کی‘ والد صاحب کے کہنے پر میں نے اقامت پڑھی۔ مزید تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ چند روز میں والد صاحب مولانا سے ملنے اچھرہ گئے‘ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔

۱۹۴۸ء ہی میں والد صاحب کراچی منتقل ہوگئے۔ میں چونکہ دیر سے لاہور آیا تھا‘ اس لیے یہاںکسی بڑے کالج میں داخلہ نہ ملا۔ میرے بڑے بھائی ضمیراحمد مرحوم کو ایف سی کالج میں داخلہ مل گیا تھا۔ انھوں نے وہیں سے انٹرسائنس پاس کیا۔ ایف سی کالج کے قریب ہی تعلیم الاسلام کالج میں‘ میں نے انٹر آرٹس میں داخلہ لیا۔ انگریزی‘ اُردو کے علاوہ معاشیات اور نفسیات مضامین منتخب کیے‘ اور پنجاب یونی ورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ یہاں میرے ایک ہم جماعت اقبال احمد تھے‘ جو بعد میں ڈاکٹر اقبال احمد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ ہم دونوں میں گہری دوستی تھی۔ ان کا ذہن ایک خاص نہج پر سوچتا تھا۔ ہماری دوستی دانش ورانہ تعلقات (انٹی لیکچول فیلوشپ) پر استوار تھی۔ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہونے کے باوجود ہم جب معاشرے اور دنیا کے معاملات پر بحث کیا کرتے‘ تو برملا یہ کہتے تھے کہ ایک اچھی نظریاتی زندگی گزارنے کے لیے ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں: ہم کمیونسٹ پارٹی میں جائیں گے یا پھر جماعت اسلامی میں--- اور اتفاق سے وہ دوسرے کیمپ میں چلے گئے اور میں جماعت اسلامی میں آگیا۔ حالانکہ جب ہمارے درمیان بحث ہوتی تھی‘ تو اس وقت تک مجھے جماعت اسلامی کے پروگرام اور نظامِ کار کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہ تھا مگر ہم دونوں کو‘ عمومی تاثر کی بنیاد پر‘ یہ بات ضرور معلوم تھی کہ یہ اچھے‘ مخلص اور نظریاتی لوگوں کی ایک تحریک ہے‘ جو اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کر رہی ہے۔

۱۹۴۹ء میں‘ میںکراچی آگیا۔ بھائی ضمیر‘ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ یہاں پہنچ کر میں نے مولانا مودودی کی کتابوں خطبات‘ تنقیحات اور محمداسد کی Islam  at the Crossroads  کا مطالعہ کیا۔ جمعیت سے وابستہ ہوا اور رکنیت اختیار کرنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے خرم‘ راجا (ظفراسحاق انصاری)‘ عبداللہ جعفر اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پھول بلڈنگ‘ گوالمنڈی لاہور پہنچا۔ اُن دنوں اس جگہ نصراللہ خاں عزیز صاحب کے اخبار تسنیم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ دن رات ہم وہیں رہے۔

مولانا مودودی اتوار کو اچھرہ ہی میں ہفت روزہ درس قرآن دیا کرتے تھے۔ ہم لوگ درس سننے مولانا کی رہایش گاہ پر پہنچے۔ اُنھوں نے برآمدے میں زمین پر بیٹھ کر درس دیا۔ چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ برآمدے میں اور باقی سامنے کے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی ۵۰ کے قریب حاضرین تھے۔ اس درس کی لذت اور پیغام کی تاثیر آج تک محسوس کرتا ہوں۔ اس سے قبل لٹریچر پڑھنے سے شعوری طور پر مولانا سے عقیدت اور محبت تو پیدا ہو چکی تھی۔ درس کے بعد ہم لوگ آگے بڑھ کر مولانا سے ملے۔ مولانا نے مسکراتے اور کِھلے چہرے کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہی کہا : ’’مولانا‘ میرا آپ سے ایک اور حوالے سے بھی تعلق ہے‘‘۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ذرا بھنویں اُٹھا کر پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں آپ کے دوست نذیراحمد قریشی صاحب کا بیٹا ہوں‘‘ تو معاً مولانا نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس طرح تعلقات میں گرم جوشی اور شفقت کا پہلا تاثر‘ تجربے میں ڈھل گیا۔ جب میں اس کا موازنہ کرتا ہوں ۳۹-۱۹۳۸ء کی پہلی ملاقات میں نظم سنانے سے‘ تو مجھے بڑا بنیادی فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ ہے شخصیت کا ایک فرق‘ جس میں مقصد کی اہمیت اور مقصدیت سے وابستگی‘ اور یہ کہ مقصد کی بنیاد پر جو تعلق ہے اس میں احترام اور گرم جوشی کا معاملہ۔

مولاناکی بہت خواہش تھی کہ میرے والد صاحب جماعت میں آئیں۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل‘ علامہ اقبال اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت اور ایماء پر مولانا نے جو ادارہ دارالاسلام قائم کیا تھا‘ اس کے پہلے پانچ بنیادی افراد میں والد صاحب بھی شامل تھے۔ مولانا محترم کی لائبریری میں میرے والد کی دی ہوئی درجنوں کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک کتاب Social Evolution  پر تھی۔ اس کے حاشیے پر مولانا نے کہیں مختصر اور کہیں مفصل تنقیدی نوٹس لکھے ہوئے تھے اور اہم حصوں کو نشان زد کیا ہوا تھا۔ یہ مولانا کا خاص طریقہ تھا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران جہاں کوئی خیال آتا‘ تنقیدی یا تائیدی پہلو سامنے آتا‘ یا پھر کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا تو وہ زیرمطالعہ کتاب کے حاشیے پر لکھ لیتے۔ یہ کتاب مولانا کو میرے والد نے تحفتاً دی تھی‘ میں نے مولانا سے اُسے مانگ لیا تاکہ مولانا اور والد صاحب کی دوستی کی یہ ایک میراث میرے پاس محفوظ رہے۔ ایک خط میں والد صاحب نے مولانا کو لکھا تھا کہ میری خواہش ہے کہ زندگی کا آخری حصہ آپ کے ساتھ گزاروں تو مولانا نے جواب میں لکھا تھا:’’میرے لیے یہ خبر نہایت مسرت کی موجب ہے کہ آپ اپنی زندگی کا آخری حصہ میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں‘ مگر اس میں دیر کیوں ہے؟ کیا‘ آپ کو اپنی تاریخ وفات معلوم ہو چکی ہے‘ جس کے لحاظ سے آپ نے تعین کر لیا ہے کہ آخری حصۂ عمر فی الواقع کون سا ہے۔ (خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۴-۳۵)

مولانا نے جس گرم جوشی اور محبت سے مجھے اپنے سینے سے لگایا‘ اس واقعے کو بیان کرنے پر والدصاحب نے نہ صرف مجھ سے کہا‘ بلکہ مولانا سے بھی بیان کیا کہ اگرچہ میں تو جماعت میں نہیں آسکا‘ لیکن اپنا بیٹا جماعت کو دے دیا ہے۔ اس طرح مولانا سے میرا ایک تعلق خاندانی ہے اور دوسرا نظریاتی۔ ان دونوں تعلقات کا ایک جگہ جمع ہونا میری خوش نصیبی ہے۔

۱۹۵۰ء کی ملاقات کے بعد مولانا مودودی سے سیکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ سفر اور حضر میں ساتھ رہا‘ شوریٰ کے اجلاسوں اور کمیٹیوںمیں مل بیٹھے۔ انھیں بحرانوں اور مشکلات کو حل کرتے دیکھا۔ حتیٰ کہ جیل میں اکٹھے رہے ہیں۔ پھر مولانا جب کراچی آتے تو ان کی خدمت کرنے اور لانے لے جانے کا موقع ملتا تھا۔ پہلے غلام حسین عباسی ان کو گاڑی میں لے کر آتے جاتے تھے‘ پھر نواب نقی اور ان کے ڈرائیور انھیں لے کر جاتے۔ پھر میری گاڑی میں انیس ڈرائیو کرتے تھے۔ ان لاتعداد ملاقاتوں کی باتوں کو یاد کر کے انھیں بہ تمام و کمال بیان کرنا ناممکن ہے۔

تاہم‘ یہاں پر بنیادی باتوں کے حوالے سے چند یادداشتیں پیش کروں گا:

جو بات سب سے زیادہ دل پر نقش ہے‘ وہ ہے ان کے ہاں زندگی کی مقصدیت۔ ان کی پوری زندگی میں‘ چاہے وہ دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ہوں‘ یا عزیزوں اور اہل خانہ کے ساتھ‘ ہر جگہ اور ہر سطح پر معاملات کرتے وقت جو چیز سب پر حاوی نظر آتی ہے اور سب امور جس کے تابع ہیں‘ وہ زندگی کی یہی مقصدیت ہے۔ یہ چیزہمیں اللہ کے نبیؐ کے اسوے میں مرکزی پہلو کے طور پر نظرآتی ہے۔ رسول کریمؐ کا ہر قول‘ ہر فعل نمونہ اور ایک مثال ہے۔ آپ سیرت کی پوری تصویر دیکھنا چاہیں تو وہ ہے ہر معاملے میں داعی الی اللہ کا کردار۔ اسی چیز کو میں سنتِ کبریٰ کہتا ہوں۔ میں نے زندگی میں‘ اس معیار کی طرف بڑھنے‘ اتباع کرنے کی مسلسل شعوری کوشش کرنے اور اس اسوئہ رسولؐ کی اتباع کرنے والے جس انسان کو دیکھا وہ مولانا مودودی تھے۔

مولانا مودودی کے ہاں جو دوسری چیز ذہن پر نقش ہے‘ وہ ہے وقت کی قدر۔ ان کا نظم الاوقات (ٹائم مینجمنٹ) آئیڈیل تھا اور انھوں نے حیران کن حد تک منضبط زندگی (ریگولیٹڈ لائف) گزاری۔ پہلے پہل ۸ بجے صبح ہی اخبار دیکھ لیتے تھے اور بعدازاں وہ نمازِ ظہرادا کرنے کے بعددیکھتے تھے۔ ناشتے کے بعد قیم جماعت کو بلا کر چند منٹ میں جماعتی زندگی کے لیے ہدایات دے کر کمرے میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر علمی کام انجام دیتے اور پھر نمازِ ظہر ادا کرتے۔

دوپہر کا کھانا‘ کچھ دیر آرام‘ پھر نمازِ عصر کے بعد ایک کھلے اور دوستانہ ماحول میں‘ مغرب تک ہر خاص و عام سے ملتے ۔ نمازِ مغرب کے بعد عشا تک آرام کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور جب نوٹس بنانے کا کام ہوتا یا لکھنا ہوتا تو میز کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے۔ عشاء کے بعد اہلِ خانہ کے ساتھ کھانا کھاتے اور اگر زیادہ ضروری کام ہوتا تو پھر مطالعہ گاہ میں بیٹھ کر رات دیر تک کام کرتے‘ اور جب تھک جاتے تو ایک سادہ چارپائی پر لیٹ جاتے۔

غیرمعمولی حالات میں وہ اس معمول سے ہٹ بھی جاتے تھے لیکن عام طور پر اسی انداز سے شب و روز گزارتے۔ یہ سلسلہ گرمی سردی کے موسم میں یوں ہی جاری رہتا تھا۔ چودھری غلام محمد مرحوم کی خواہش پر ایک دوست نے ایئرکنڈیشنر لگوانا چاہا‘ لیکن مولاناکئی دن تک اس پر یکسو نہیں تھے کہ اپنے معیارِ زندگی میں اتنا بڑا فرق لائیں۔ بہرحال بہت زیادہ قائل کرنے پر وہ تیار ہوگئے۔ دوست نے بھی بڑا اصرار کیا کہ آپ قرآن کی تفسیر لکھ رہے ہیں‘ میں اس کام میں کچھ سہولت فراہم کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوںاس لیے آپ اجازت دیں۔

مولانا مودودی نے اپنے طریق مطالعہ کے بارے میں مجھے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا تھا: میرا طریقہ یہ ہے کہ جس موضوع پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے‘ میں پہلے اس موضوع پر چند بنیادی چیزیں پڑھتا ہوں‘ تاکہ اُس مسئلے کے بنیادی پہلو تمام تر پس منظر کے ساتھ سامنے آجائیں۔ پھر اس موضوع پر ایک دو کتب یا کم از کم انسائیکلوپیڈیا کے متعلقہ مقالات کو دیکھ لیتا ہوں‘ تاکہ اس کا فکری اور عملی حوالہ معلوم ہو سکے اورعلمی رجحانات کے بارے میں معلومات سامنے آجائیں۔ ان چیزوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس موضوع کا حدود اربعہ کیا ہے‘ اس کے بنیادی مقدمات یا key issues کیا ہیں۔ مطالعہ کرنے کے دوران کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔ اس کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو کھولتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ ان امور پر کیا رہنمائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں سیاق و سباق کو نظراندازکر کے فقط ایک دو آیات پر غور کرنے کے بجاے پورے قرآن کریم سے مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ پھر دیکھتا ہوں کہ سیرتؐ، سنت‘ حدیث اور خلفاے راشدینؓ کس انداز سے دستگیری کرتے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں اپنے نوٹس بناتا ہوں۔ یہ سلسلہ میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا تھا اور اسے کبھی نظرانداز نہیں کیا‘ سواے اس کے کہ جیل کے زمانے میں جب تک کاغذ پنسل سے محروم رہا‘‘۔

یہ بات پورے یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ۱۹۷۹ء تک جب مولانا مودودی گرتی ہوئی صحت کے ہاتھوں تقریباً معذور ہو چکے تھے‘ تب بھی وہ مطالعہ کرتے تو ان کے پاس کاغذ اور قلم ہوتا‘ جس پر وہ ضروری نوٹس ضرور قلم بند کر لیتے۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ یا دوسرے عصری علوم کا مطالعہ کرنے کے دوران وہ نوٹس لیتے جاتے تھے۔ یہ نوٹس مولانا نے عربی‘ انگریزی‘ اُردو اور فارسی میں لیے۔ نوٹس تیار کرنے کے لیے اکثر وہ فل اسکیپ کاغذ کو لمبے رخ پر درمیان سے ایک تہہ دے کر کاٹ لیتے‘ جس سے وہ ایک سلپ سی بن جاتی تھی۔ اسی سلپ پر وہ نوٹس لیتے تھے۔

مولانا نے اسی ملاقات میں بتایا: ’’میں مطالعے کے دوران مفہوم اور نکات کو اپنے ذہن میں بٹھانے کے ساتھ نوٹس لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو پھر مراجع کو سامنے نہیں رکھتا‘ اس کے بجاے اپنے نوٹس کو سامنے رکھتا ہوں‘‘۔ یعنی جب وہ لکھنے بیٹھتے تو ان کے سامنے موضوع کی ہر چیز حسن ترتیب کے ساتھ واضح ہو چکی ہوتی اور جب لکھتے تو یوں لگتا کہ وہ لکھ نہیں رہے‘ بلکہ اپنے لوحِ ذہن میں جو کچھ وہ لکھ چکے ہیں‘ اب اسے صرف صفحۂ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔ اسی لیے لکھے ہوئے مسودے کو دیکھیںتو بالعموم بہت ہی کم کانٹ چھانٹ دکھائی دیتی۔ جب لکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے مضامین اور جملے القا ہو رہے ہیں۔ لکھنے کے بعد فوراً کاتب‘  یا ٹائپسٹ کو نہ دیتے‘بلکہ دوبارہ ایک ایک لفظ پڑھتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی ترمیم و حذف کرتے اور جہاں زیادہ بڑے اضافے کی ضرورت محسوس کرتے‘ اسے ایک سلپ پر لکھ کر‘ پن کے ساتھ منسلک کر دیتے تھے۔ تحقیق و تصنیف کے اس طریقے کو میں نے اپنے انداز میں اپنانے کی کوشش کی‘ اور بہت مفید اور موثر پایا۔

اسی طرح ایک چیز جو میں نے مولانا سے سیکھی‘ وہ ہے وقت کا نظم و ضبط اور وقت کا صحیح استعمال۔ مولانا مودودی مقصد زندگی کے بعد جس چیز کے بارے میں سب سے زیادہ حساس تھے‘ وہ وقت تھا۔ انھیںاس امر کا شدید احساس تھا کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے‘ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح آخرت میں صلاحیتوں کا حساب دینا ہے اسی طرح مجھے ایک ایک لمحے کا بھی حساب دینا ہے۔ لکھنے کو تو یہ بات ایک جملے میں لکھ دی ہے‘ لیکن اس کا شعور اور اسے برتنے کا اہتمام صرف مولانا مودودی کے ہاں دیکھا۔

وقت کی اس قدرومنزلت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں تفریح کاعنصرنہیں تھا۔  ایسا نہیں ہے‘ بلکہ وہ سیر کا ذوق رکھتے تھے۔ جب وہ ۱۹۶۸ء میں لندن میں زیرعلاج تھے‘ اس دوران ہمارے ساتھ چار ماہ تک رہے۔ آپریشن کے بعد طبیعت بحال ہوتے ہی مولانا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے یہاں کے اہم مقامات کو دیکھنا ہے۔ برٹش میوزیم میں کئی گھنٹے گزارے پھر مانچسٹرکی پبلک لائبریری دیکھنے گئے۔ وہیں ہم کو انجیل برناباس کا نایاب نسخہ ملا‘ جس کی فوٹوکاپی تیار کروا لی گئی (جسے حاصل کر کے نہ صرف اُردو میں پروفیسر آسی ضیائی صاحب سے ترجمہ کرایا بلکہ اس کی اشاعت بھی کرائی)۔ مولانا بڑے شوق سے لندن ہی نہیں یورپ کی کتابوں کی سب سے بڑی دکان Foyls پرگئے اور متعدد کتب خریدیں۔ اس کے بعد فرمایا: ہائیڈپارک چلیں‘ اور ہم ہائیڈ پارک اور اسپیکرز کارنر گئے‘ جس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ دریاے ٹیمزدیکھنے گئے۔ اس کے بعد خواہش کر کے زیرزمین ریل کا ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک سفر کیا۔ اس ٹرین کو انگریز تو ٹیوب کہتے ہیں‘ مگر مولانا نے اسے ’نلکی‘‘ سے تعبیر کیا!

باغات کی تاریخ پر ان کے پاس بڑی وسیع معلومات تھیں۔ انھوںنے بتایا کہ باغات کس طرح ارتقا پذیر ہوئے۔ انگریزوں کے ہاں باغات کی روایت میں وہ ڈسپلن نہیں تھا۔ درخت‘ پھول‘ گھاس تو تھے مگر توازن اور روش بندی کے بغیر۔ مسلمانوں نے روش بندی کے ذریعے باغات کوایک نظم اور خوب صورتی دی۔ جب لندن میں ان کی طبیعت ذرا بہتر ہوئی تو وہ شام کو سیر کے لیے نکلتے تھے۔ تب وہ چھڑی خریدی تھی جوکرکٹ کے ایمپائروں کے پاس ہوتی ہے‘ کہ جونہی ذرا تھکن محسوس کریں تو اسے نصب کر کے سہارا لے لیں۔ یوں مولانا کے ہاں تفریح کا ایک ذوق سامنے آیا جو ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ طبیعت میں فرحت اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے وہ سیر کو لازمی سمجھتے تھے۔ لیکن وہ تفریح جو وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنے ‘ اس جانب وہ کوئی جھکائو نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ہم نے انھیں جیل میں بھی دیکھا کہ وہ عصر سے مغرب تک ٹہلتے اور ہم اُن کے ہمراہ چلتے ہوئے ہلکی پھلکی بات چیت کرتے۔

مولانا نے بتایا: ’’بچپن میں کشتی اور بنوٹ وغیرہ سیکھی۔ اسی طرح کار چلانا بھی سیکھی‘ لیکن کار چلاتا نہیں ہوں۔ کیونکہ ہر وقت ذہن میں خیالات آتے رہتے ہیں۔ خیالات کی آمد سے کارچلانے کے دوران توجہ ہٹ جاتی ہے ‘جو خطرے سے خالی نہیں۔ انھیں ہمارے عزیز دوست غلام حسین عباسی اور میرے چھوٹے بھائی انیس کی ڈرائیونگ بہت پسند تھی۔ انیس سے کہا کہ آپ بہت اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں‘ تو انھوں نے کہا: ’’مولانا یہ بات آپ مجھے لکھ کر دیں‘‘۔ اس طرح مولانا نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ آپ اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں۔

پھر مطالعے میں مولانا مودودی کا ذوق بڑا وسعت پذیر تھا۔ مزاح‘ شعروادب اور ادبی تنقید تک پڑھنے کے لیے بھی وقت نکالتے۔ تمام معیاری ادبی رسالے ان کے ہاں آتے‘ جن میں تحریکی رسالوں کے علاوہ  ہمایوں‘ نیرنگ خیال‘ نقوش‘ سویرا‘ فنون‘ ریڈرز ڈائجسٹ وغیرہ شامل تھے۔ گویا کہ قرآن و سنت‘ حدیث و فقہ‘ تاریخ و قانون اور فلسفہ میں عربی کی ادق کتب کے ساتھ ساتھ کلاسیکی لٹریچر اورمعاصر اصناف ادب کے مطالعے کو وہ ضروری چیز قرار دیتے تھے۔ اس ہلکے پھلکے لٹریچر کے لیے بھی وقت کی متعین حدود تھیں۔جب کبھی بیرونِ پاکستان جاتے تو واپسی پر‘ اس عرصہ غیرحاضری کے اخبارات: ڈان‘ پاکستان ٹائمز‘ نوائے وقت اور جنگ کے پورے فائل منگوا کر دیکھتے۔

تحریکی اداروں کے جو رسالے بھی شائع ہوتے‘ مثلاً:  چراغ راہ‘ مشیر‘یثرب‘ جہانِ نو‘ آئین‘ ایشیا‘ہم قدم‘ سیارہ‘ پہلے عفت پھر بتولوغیرہ ‘وہ انھیں ضرور دیکھتے تھے۔ تفریح کے ساتھ تفریحی لائٹ لٹریچر اور تحریکی لٹریچر پر نظر رکھنے کے لیے وہ اہتمام سے وقت نکالتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کمال کا توازن اور بے مثال وسعت نظرتھی۔

اسی طرح انھوں نے یہ روایت قائم کی کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو۔ انھوں نے جس پروگرام کے لیے وقت دیا ہوتا‘ اس سے پانچ منٹ پہلے پہنچتے۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن کی طلب کردہ کوئی میٹنگ تاخیرسے شروع ہوئی ہو‘ یا وہ کسی شوریٰ‘ کسی عاملہ‘ کسی اجتماع یا اجلاس میں تاخیر سے پہنچے ہوں۔ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر گئے تو وہاں پی سی ایچ ایس میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ انھیں پیرالٰہی بخش کالونی میں ’’مُلا ازم کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا تھا اور مولانا کو اجتماع گاہ میں لے کر جانامیرے ذمے تھا۔ ہم بمشکل دو تین منٹ لیٹ پہنچے۔ لیکن میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہاں پہنچنے تک جو آخری دس منٹ گزرے اس پورے دورانیے میں وہ کتنے اضطراب میں تھے‘ اور اگر مولانا نے زندگی بھر میں مجھے ڈانٹا ہے تو صرف اُس روز۔ جب میں نے ٹریفک جام کا عذر پیش کیا تو کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا اس وقت راستے میں ٹریفک کا مسئلہ ہو سکتا ہے‘ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے چند منٹ پہلے چلتے یا دوسرا راستہ اختیار کرتے‘‘۔ دوسری طرف جماعت کے لوگ بھی قابلِ داد ہیں کہ انھوں نے مولانا کا انتظار کیے بغیر اجلاس کی کارروائی شروع کر دی ‘اور ہم اس دوران ہی پہنچے۔ گویا وقت کی قدر اور وقت کا استعمال اور وقت کا نظم و ضبط ان کے ہاں کمال درجے کو پہنچا ہوا تھا۔

مولانا کے ہاں نفاست‘ پاکیزگی‘ ذوقِ جمال اور سادگی تھی۔ ان کی میز میں نے کبھی منتشر نہیں دیکھی۔ جیل کا عرصہ اور پھر انگلستان میں گزرے ہوئے چار ماہ کی بنیاد پر اپنا مشاہدہ بیان کر سکتا ہوں: جیل میں تھے یا سفر میں‘ حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں ہسپتال میں داخل‘ تب بھی مجال ہے کبھی اُنھوں نے اپنے کپڑے کو بے نیازی سے کسی کرسی پر‘ زمین پر یا کسی چارپائی پر ڈال دیا ہو۔ ان کو جہاں لٹکانا ہوتا‘ وہاں خود اپنے ہاتھ سے لٹکاتے‘ جہاں تہہ کر کے رکھنا ہوتا‘کپڑے کو خود ترتیب سے رکھتے‘ حتیٰ کہ دھونے والے کپڑے سلیقے سے لپیٹ دیتے۔ اس پورے عرصے میں مجھے کبھی ان کا کوئی کپڑا اُٹھا کر یہاں سے وہاں نہیں رکھنا پڑا۔

پھر لباس کے پہننے میں بھی ان کا ایک انداز تھا۔ دفتر اور گھر میں بڑے پائینچوں والا حیدرآبادی پاجامہ زیب تن کرتے۔ باہر کبھی وہ اس لباس میں نہیں گئے۔ باہر جاتے وقت تنگ موری والا پاجامہ نہیں بلکہ کم موری والا علی گڑھ پاجامہ پہنتے۔ تنگ موری والا پاجامہ مولانا کو پسند نہیں تھا۔ مکیشن شو اورشیروانی پہنتے۔ انگلستان میں جب رات کے کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کے لیے نکلتے‘ اس وقت میں نے انھیں کبھی شیروانی پہنے بغیر باہر جاتے نہیں دیکھا۔ پھر واپس آکر اپنے گھر کے لباس میں ہمارے ساتھ بیٹھتے۔ اگرچہ وہ پان کھاتے تھے لیکن اُن کے لباس پر اس کا کوئی داغ‘ دھبا یا ہلکی سی چھینٹ تک نہیں دیکھی۔ دفتر یا مجلس میں بیٹھتے تو اگال دان پاس ہوتا۔ سفر پر جاتے تو سفری اگال دان ساتھ رکھتے۔اس کے برعکس پان کھانے والے بڑے بڑے بزرگوں اور نوابوں تک کو ہم نے نہ صرف اردگرد گل پاشی کرتے دیکھا ہے‘ بلکہ بعض اوقات تو سامنے بیٹھا بات سننے والا فرد بھی مجلس آرائی کی دو چار نشانیاں اپنے اوپر ثبت کرا لیتا ہے‘ اور اُن سے پہلے ان کے لباس کا کوئی نہ کوئی حصہ گواہی دے دیتا ہے کہ ہمیں پہننے والا پان کا شوق رکھتا ہے۔ مولانا کے کپڑے پر اورپاس بیٹھنے والے فرد کے لباس پر پان کا کوئی ہلکا سا دھبا یا نشان کبھی نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ اُنھوں نے لطیف لہجے میں کہا:’’جب اسلامی انقلاب آئے گا‘ تو پھر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کاروں تک میں ایش ٹرے کے ساتھ ساتھ اگال دان بھی رکھے جائیں گے‘‘۔ یہ سارے پہلو اُن کی نفاستِ طبع پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے کو سی لینا اور صحیح سی لینا اور بالکل صحیح انداز سے ترپ لینا‘ اپنے جاننے والے مردوں میں صرف مولانا کے ہاں دیکھا۔ جیل میں مجھ پر بھی یہ ابتلا گزری ہے جب ٹانکا لگانا پڑا‘ لیکن ایک بھی سیدھا نہ لگا۔ نفاست مولانا مودودی کی شخصی زندگی کا ایک بڑا اساسی ستون تھا۔ یہی چیز ان کی فکر میں بھی تھی۔ اس میں نفاست‘ سلیقہ‘ منطق‘ ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط تھی۔ میری نگاہ میں تو حُسن نام ہی اس چیز کا ہے کہ ہر چیز توازن کے ساتھ ہو۔ یہ حُسن مولانا کی فکر میں‘ لباس میں‘ تعلقات میں‘ معاملات میں اور مولانا کی تحریر میں بھی تھا۔ اسی چیز نے ان کے فکر‘ استدلال اور پیغام میں ایک قوت اور تاثیر پیدا کی تھی۔

جب ہم نئے نئے جمعیت میں آئے توانھی دنوں مولانا کی کتاب اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شائع ہوئی تھی۔ جس میں عبادت کا تصور اور پھر نماز اور روزے پر مولانا نے کلام کیا تھا۔ اتفاق سے ظفراسحاق انصاری اور میں نے یہ کتاب ساتھ ساتھ ہی پڑھی تھی۔ کتاب پڑھنے کے دوران ہم اس کے استدلال پر بات کر رہے تھے‘ کہ ظفر اسحاق نے ہنس کر کہا: ’’لگتا ہے مولانا نماز پڑھوا کر رہیں گے‘‘۔ مطلب یہ کہ اُن کا قاری ایک فقرے سے اتفاق کر لے تو پھر اس کے لیے فرار ممکن نہیں رہتا۔ اس چیز کو میں مولانا کے اسلوبِ بیان اور طرزِ فکر ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے توازن اور اعتدال کی اثرپذیری کا ایک پہلو سمجھتا ہوں۔

ان کے ہاں سادگی کا پہلو بھی قابلِ ذکر ہے۔ تین عشروں پر پھیلے ہوئے اس تعلق کے دوران میں نے انھیں نہایت سادہ اور شفاف انسان پایا‘ جس کا ظاہروباطن ایک ہے۔ جس میں کوئی شو آف یا نمودونمایش نہیں ہے۔ ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ اخوان سے متاثر دو نوجوانوں کو کراچی میں مولانا سے ملاقات کرانے کے لیے ناشتے پر بلایا۔ ان میں سے ابراہیم قاہرہ سے آئے اور دوسرے شام سے۔ ملاقات کے بعد انھوں نے کہا: ’’اس شخص کے چہرے‘ آداب‘ گفتگو‘ فکر اور زندگی کے انداز میں ہمیں یک رنگی اور شفافیت نظر آئی ہے اور بے ساختہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص عبدِرحمن ہے‘‘۔ یہ شفافیت اور سادگی ان کی زندگی کا ایک غیرمعمولی پہلو تھی۔

مولانا کی ذات میں بڑی شفقت بھی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ مولانا میں گرم جوشی  نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کہنے والے کسی فرد کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہو۔ لیکن میری نگاہ میں   اظہارِ شفقت و محبت میں کسی روایتی انداز کو نہ اپنانے کا سبب ‘مولانا کے فکر وعمل کا وہی ڈسپلن تھا۔

مولانا اپنی زندگی ایک ضابطے کے مطابق گزارتے تھے اور یہی پسند کرتے تھے کہ تمام لوگ وقت‘ صلاحیت اور مقصدیت کے متوازن تعلق کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسی کے مطابق وہ افراد سے میل جول میں بھی توازن برتتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جو عمومی کلچر ہے‘  اس میں کسی فرد کی خوش مزاجی کا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جتنا حد سے بڑھ کر بے تکلف ہونے کی کوشش کرے‘ بار بار صحت کا حال دریافت کرے‘ جا و بے جا تعریف کرے‘ چاہنے نہ چاہنے کے باوجود خوش مزاجی کا مظاہرہ کرے یا زبردستی کھانے پینے کی دعوت دے‘ تو اسے گرم جوشی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ بلاشبہہ یہ چیز مولانا مودودی میں نہیں تھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں جس چیز کو شفقت‘ قلبی تعلق اور caring کہتے ہیں وہ مولانا میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

مجھے اس چیز کا تجربہ خاص طور پر اس وقت ہوا جب میں ۱۹۶۴ء میں اُن کے ساتھ جیل میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ مولانا کا تعلق ہم سبھی کے ساتھ بڑا ہی پرسنل سطح پر ہے۔ ہماری ہر بات کا خیال رکھنا‘ ہم لوگ بیمار ہوئے تو ہمارے پاس آکر دیر تک بیٹھتے۔ لاہور جیل میں ہم کراچی والوں کے خیمے میں وہ اکثر تشریف لے آتے اور دو دو گھنٹے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں۔ لاہور جیل کے جس احاطے میں ہم لوگوں کو کراچی سے منتقل کیا گیا‘ اس کے نتیجے میں جگہ کم پڑ گئی۔ اس لیے چھولداریاں لگا کر ہمیں اُن میں رکھا گیا۔ فروری کی سردی تھی اس فضا میں مجھے بخار ہوگیا اور سخت زکام میں میری ناک بند ہوگئی‘ تو دن میں تین تین بار مولانا اپنی دوائی ’نیزل ڈراپ‘ لا کر ڈالتے۔ ایک رات بارش ہوگئی تو مولانا کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جتنی دیر بارش ہوتی رہی‘وہ بے بسی میں جنگلے میں کھڑے رہے۔ (مولانا کے جنگلے میں سرِشام تالا ڈال دیا جاتا تھا اور ہم جنگلے کے باہر احاطے میں عارضی ٹینٹ میں رہ رہے تھے) اور برابر ہماری خیریت دریافت کرتے رہے۔ کھانے کی کوئی چیز آتی تو سب میں بٹوا دیتے‘ اگر کم ہوتی تب بھی تقسیم کر دیتے۔

نعیم صدیقی صاحب نے بتایا تھا: ’’دارالاسلام میں جماعت کے ایک نہایت ذہین نوجوان عرفان نہاتے ہوئے نہرمیں ڈوب گئے تو مولانا سخت بے چینی میں تین میل تک ان کی میت تلاش کرنے گئے اور اُن کی طبیعت پر دکھ اور افسردگی بہت نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی تھی‘‘۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شفقت کا اظہار میں نے بارہا دیکھا‘ جو ان کی شخصیت کا جزولاینفک تھا۔

شوریٰ کے موقع پر جب ہم لاہور آتے تو کسی ایک روز وہ چودھری غلام محمد مرحوم‘ حکیم اقبال حسین مرحوم‘ صادق حسین صاحب کو پیغام دینے کے لیے مجھے کہتے: ’’خورشید میاں‘ کل صبح ناشتہ نہ کیجیے گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اگلے روز وہ ہمیں اپنے گھر پر نہاری کی دعوت دے رہے ہیں۔مولانا خود بڑے اہتمام اور پورے آداب کے ساتھ نہایت لذیذ نہاری تیار کراتے تھے اور اگلے روز ہم دس گیارہ بجے کے درمیان اُن کے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر نہاری کھایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے‘ جب ۵-اے ذیلدار پارک میں شوریٰ کا اجلاس ہوتا تھا۔ برآمدے کے آگے شامیانہ لگا کر اور کوئلوں کی انگیٹھیاں رکھ کر جنوری فروری کا اجلاس ہوتا تھا۔

وہ ہم لوگوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور اس کے ساتھ بعض چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھتے‘ مثلاً: وہ مجھے انفرادی طور پر تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر پکارتے‘ لیکن جب دوسرے افراد ہوتے تب ’خورشید صاحب‘ کہتے۔ یہ اُن کی شفقت اور وضع داری کا انداز تھا۔ منور کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا کرتے تھے کہ وہ ان کے دوست اخلاق صاحب کے فرزند تھے۔

اب میں ایک بات ذرا ڈرتے ڈرتے لکھ رہا ہوں‘ جس کا تعلق ان کے غیرمعمولی اعتدال سے ہے حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ ان کے ہاں عبادت میں شغف‘ ذکر‘ دعا اور نوافل میں حددرجہ باقاعدگی کے ساتھ ساتھ توازن اور اعتدال بھی تھا۔ بہرحال ایک واقعے سے مجھے سخت دھچکا لگا۔ مرحوم خلیل احمد حامدی صاحب‘ چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے ایک بار مولانا کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہم لوگ تو حرم پاک میں گھنٹوں بیٹھے عبادت کرتے۔ مگر میں نے مولانا کو دیکھا کہ وہ فرض اور سنت پڑھنے کے بعد کچھ دیر اذکارِ مسنونہ پڑھتے‘ پھر ریاض الجنہ جاتے‘ صفہ میں نفل ادا کرتے اور اس کے بعد سیدھے ہوٹل جاکر دعوتی اور دوسری دینی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے۔ اسی طرح رات کے وقت نمازِ تہجد ادا کی‘ کچھ نفل پڑھے‘ تلاوت کی اور پھر واپس ہوٹل چلے گئے اور فجر کی اذان سے پہلے حرم میں آگئے۔

دل میں یہ بات رہی کہ حرمین الشریفین میں آکر یہ اُس طریقے سے اظہار کیوں نہیں کررہے جس طرح عام لوگ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے معمولات مختلف ہیں۔ یہاں کی غیرمعمولی صورت حال اور مصروفیات کے باوجود مولانا نے اپنے آپ کو ایک نظم و ضبط اور اعتدال میں ڈھالا ہے۔ مگر باقی تمام معمولات کا نظام بالکل ہی درہم برہم نہیں ہونے دیا۔

جب مولانا کے لیے سزاے موت کا اعلان کر کے انھیں پھانسی کی سزا پانے والوں کی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں انھوں نے پانچ سات دن گزارے۔ میاں انور علی انسپکٹر جنرل پولیس اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرنے ایک گواہی دی۔ انور علی نے لکھا ہے اور ڈاکٹر نے خود مجھے بتایا ہے۔ یہ دونوں شہادتیں ایسی ہیں کہ انھیں جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمعمولی طور پر یہ چیز نوٹ کر رہے تھے کہ سزاے موت سننے کے بعد اس شخص کا ردعمل کیا ہے۔ انھوں نے آزاربند کے بغیر والا پاجامہ تک پہن لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اسی طرح نماز پڑھی‘ نفل پڑھے‘ قرآن پڑھا اور پھر کتاب کا مطالعہ کیا اور یہ کتاب تھی غالباً  سیرت سید احمد شہید۔ مولانا میں نہ گھبراہٹ‘ نہ کوئی آہ و بکا اور نہ کوئی ایسے آثار پائے گئے کہ یہ شخص چند روز کے فاصلے پر موت کو دیکھ کر ہل گیا ہو۔ ایسی کوئی چیز مشاہدے میں نہ آئی بلکہ اس کے برعکس موت کو آنکھوں کے سامنے دیکھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ پُرسکون اور ایک کوہ وقار کی طرح نظر آئے۔ ان کے   صبح و شام میں وہی معمولات ‘ وہی ڈسپلن اور وہی اعتدال تھا‘ حتیٰ کہ نماز اور نوافل کے باب میں بھی وہی اعتدال کہ جو ان کا معمول تھا!

جب میں حرمین الشریفین اور پھانسی گھاٹ کے ان دونوں واقعات کو دیکھتا ہوں تو یہ امر سامنے آتا ہے: ایک طرف وہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور دوسری جانب اللہ کے عطاکردہ فہم دین کے مطابق جو تقاضے انھوں نے سمجھے اور ان تقاضوں کے مطابق جو نظامِ کار انھوں نے بنایا‘ اسے پورا کرنے کے لیے اوقاتِ کار کی معمولی سی تبدیلی کے بعد پوری یکسوئی کے ساتھ اسی رحمن و رحیم کے دین کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ اعلیٰ ترین مقام عبادت پرجا کر بھی پورا وقت نفل پڑھنے میں نہیں گزارتے‘ ایسا کرنے کے بجاے وہ بنیادی عبادت و نفل ادا کر کے جہادِ زندگانی میں مصروف ہو جاتے۔

عمرے والے واقعے کی خلش میرے دل میں اُس روز دُور ہوئی‘ جب میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح پڑھتے ہوئے اُس مقام پر پہنچا کہ جہاں ایک فرد‘ حضرت جنید کے پاس مہینہ بھر رہ کر جانے کی اجازت مانگنے لگا تواُنھوں نے پوچھا: ’’بھائی کیوں آئے تھے اور اب کیوں جا رہے ہو؟‘‘ فرد نے کہا: ’’میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے آپ کی بڑی دھوم سنی تھی‘ عارف باللہ ہونے کی حیثیت سے۔ میں نے پورا وقت یہاں بڑے آرام سے گزارا اور بہت کچھ سیکھا ہے لیکن یہاں میں نے کوئی غیرمعمولی بات نہیں دیکھی۔ اس طرح قرآن اور اس طرح کی نماز تو میں ہر جگہ پڑھتا اور دوسروں کو پڑھتے دیکھتا تھا‘‘۔ حضرت جنید نے پوچھا :’’کیا تم نے ہمارے ساتھ رہ کر کوئی چیز شریعت کے خلاف دیکھی؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ پھر پوچھا: ’’شریعت جس طرح زندگی گزارنے کا حکم دیتی ہے‘ کیا ہم اس کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘ البتہ میں نے کوئی کرامت نہیں دیکھی‘‘۔ حضرت نے فرمایا: ’’بس ہم وہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شریعت میں مطلوب ہے‘ نہ کم نہ زیادہ‘‘۔ اس واقعے کو پڑھ کر میرے دل کی خلش دور ہوگئی کہ مولانا نے مقاماتِ ربانی پر پہنچ کر بھی کیوں زیادہ وقت نوافل پڑھنے میں نہیں گزارا۔ اور حضرت جنید کا واقعہ پڑھ کر مولانا کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوگیا۔ یہ واضح ہوا کہ آزمایش ہو یا مقاماتِ ربانی کی تجلیات کا قرب‘ جس شخص نے اللہ سے اپنی جان کا سودا کرلیا ہے‘ وہ شریعت کے متعین کردہ فریم ورک میں رہ کر معمولات کے مطابق ہرکام کرتا ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے‘ یہی اصل کرامت ہے اور یہی اصل مطلوب ہے۔

عدمِ توازن خواہ دینی معاملات میں ہو یا دنیوی امور میں‘ اس سے وہ پہلو بچاتے تھے۔ یہاں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ فرمان ذہن میں آ رہا ہے کہ جس میں انھوں نے فرمایا: دنیا اور دین دونوں کے معاملات میں غلو ناپسندیدہ ہے۔ ان ہدایات کے مطابق میں نے مولانا کی زندگی میں وہ توازن اور اعتدال پایا‘ جو اللہ کے دین کو قبول کر کے اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی نے قدم قدم پر یہ اہتمام کیا‘ کہ کوئی چیز شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ شریعت کے تقاضے پورے کرنے والی ہو۔

مولانا مودودی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت میں کرامت تو نہیں لیکن ایک چیز بارہا مشاہدے میں آئی۔ وہ یہ کہ کئی معاملات میں انسانی تدبیر کی انتہا کرلی‘ مگر راستہ بند پایا‘ جسے محاورے کی زبان میں کہتے ہیں ’’بندگلی میں پہنچ گئے‘‘۔ اس صورت حال میں جب مولانا کے پاس گئے تو انھیں اسی طرح پُرسکون چہرے‘ پُراعتماد اور اطمینان بھرے لہجے میں بات کرتے دیکھا‘ اور اکثر وہ رکاوٹ ان کی دعا اور معمولی سے استدلال یا کاوش سے دُور ہوگئی۔

اس حوالے سے بہت سے واقعات ہیں‘ لیکن یہ ایک واقعہ دیکھیے۔ ۱۹۶۴ء میں‘ مولانا مودودی‘ میاں طفیل محمدصاحب‘ چودھری غلام محمد اور دوسرے رفقا کے ساتھ میں لاہور کی جیل میں تھا۔ سپریم کورٹ نے جماعت پر پابندی غیرقانونی قرار دے دی تھی‘ لیکن ابھی ہم قید ہی تھے اور رہائی کے لیے ہائی کورٹ میں آخری سماعت ہو رہی تھی۔ جس کے لیے مجھے چودھری غلام محمدصاحب کے ہمراہ دوسری بار لاہور لایا گیا تھا کیونکہ وہ بھی کراچی جیل میں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ حزب اختلاف (COP) نے محترمہ فاطمہ جناح کو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابلے میں متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ ہم لوگ تو جیل میں تھے اور باہر چودھری رحمت الٰہی صاحب پوری تندہی کے ساتھ جماعت کے سیاسی و اجتماعی موقف اور عدالتی عمل سے متعلق    تمام امور انجام دے رہے تھے۔ انھی کے ذریعے جماعت ‘متحدہ اپوزیشن سے رابطے میں تھی اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔

چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مشورے کے لیے جیل کے اندر مولانا کو پیغام بھیجا کہ کیا کیا جائے۔ اگلے روز اپوزیشن کا اجلاس تھا۔ ہمیں مغرب کے وقت یہ پیغام ملا۔ نمازِ مغرب ادا کرکے کھانا کھایا اور پھر مولانا نے ہمیں مشورے میں شریک کیا۔ چودھری غلام محمد صاحب‘ غلام جیلانی صاحب اور میری رائے یہ تھی کہ ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت اور تائید کرنی چاہیے لیکن مولانا متردد اور مضطرب تھے کہ ہم عورت کی سربراہی کے مسئلے میں ایک واضح اور اصولی موقف رکھتے ہیں۔ ہر پہلو سے ہمارے مابین دلائل کا تبادلہ ہوا۔ شریعت کی منشا اور معاشرے پرظلم و زیادتی اور ایوب خاں صاحب کے تجدد پسندانہ ذہن‘ آمرانہ اندازِ حکمرانی اور قومی     یک جہتی کو درپیش خطرات اور اس کے مقابلے میں مصلحت عامہ کے اصول تک زیربحث آئے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد ایک وقت آیا کہ ہم تو آرام کے لیے لیٹ گئے‘ مگر مولانا رات گئے تک اضطراب میں ٹہلتے اور سوچتے رہے۔ آخرکار اگلے روز صبح گیارہ بجے کے قریب یکسو ہوگئے کہ   اس صورتِ حال میں فاطمہ جناح صاحبہ کی حمایت کرنی چاہیے۔ اور پھر مولانا نے اسی وقت بیٹھ کر آدھے صفحے پر مشتمل تحریر لکھی۔ سوال یہ تھا کہ اس تحریر کو باہر کیسے بھیجا جائے؟ کوئی راستہ نہیں تھا۔ آدھا دن گزر چکا تھا اور اسی شام اجلاس تھا۔ باہر ہدایت بھیجنا ضروری تھا اور راستہ بند تھا۔

اس مقصد کے لیے ہم پریشان تھے‘ مگر مولانا فیصلہ کرنے اور تحریر لکھنے کے بعد مطمئن اور پُرسکون تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد چودھری غلام جیلانی صاحب نے کہا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سے بات کرتا ہوں‘ وہ خود تو یہ تحریر باہر نہیں بھجوا سکے گا‘ ممکن ہے کوئی مدد کر سکے۔ یہ کہہ کر وہ نائب داروغہ جیل کو ملے اور کہا کہ اگر آپ مجھے فلاں شخص کو بلانے کے لیے فون کرنے کی اجازت دے دیں تو میں شکرگزار ہوں گا اور ہم رازداری سے پیغام بھی دے سکیں گے اور آپ پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا۔ اس افسر نے مسکرا کر کہا: ’’وہ تو یہ اطلاع پہلے حکومت کو دے گا‘‘۔ جیلانی صاحب مایوسی میں ابھی ڈیوڑھی سے واپس نہیں آئے تھے لیکن میں دیکھ رہا تھا مولانا جیسے اس صورت حال سے بالکل بے نیاز اور پُراعتماد ہیں‘ کہ اچانک جیلر کا کارندہ آیا کہ کوئی فرد خصوصی اجازت لے کر ملاقات کے لیے آیا ہے۔ اس طرح وہ سلپ چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بھجوا دی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے متعدد واقعات ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ دراصل مولانا کو اعتماد تھا کہ جو چیز حق ہے‘ وہ ہوکر رہے گی۔

ایسا ہی واقعہ مولانا کی گردے کی پتھری کا ہے‘ جب وہ ۱۹۴۸ء میں جیل گئے تواس سے پہلے پتھری کی تکلیف بار بار تنگ کرچکی تھی۔ لیکن جیل میں جاتے ہی مولانا نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان ظالموں سے کسی سہولت کی درخواست نہ کرنی پڑی۔ خدا کا کرنا کہ پتھری اپنے راستہ سے ہٹ گئی اور ۲۸ سال ہٹی رہی۔ یہی وہ پتھری تھی جس کے اپریشن کے لیے ہم ۱۹۶۸ء میں مولانا کو انگلستان لے کر گئے تھے۔

ایک پہلو‘ ان کے طریق تربیت کا ہے اور یہ اُن کی شخصیت کا بڑا اہم پہلو ہے۔

اس میں کوئی روایتی یا مصنوعی چیز نہ تھی‘ جس طرح کہ سلوک‘ تصوف یا طریقت کے حوالے سے ہمارے کلچر میں معروف‘ منسوب یا روایت کی جاتی ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریر‘ تقریر‘ تلقین اور ملاقات میں تزکیۂ نفس کے لیے جس چیز کی طرف متوجہ کیا‘ وہ صرف قرآن اور سیرت رسولؐ کی مرکزیت‘ صحابہ کبارؓ سے منسوب مختلف پہلو تھے۔ بس یہی ماخذ مولانا کے سلوک اور طریقت کے سرچشمے تھے۔ کبھی کبھی صلحاے اُمت کی اُن روایات کو بھی دہرایا جو مذکورہ بالا کسوٹی پر پورا اُترتی تھیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ ثانوی ماخذ پر احتیاط اور توازن کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ وہ اسی ترتیب کے مطابق تربیت و تزکیہ اور ضبطِ نفس کی تعلیم دیتے اور کہتے تھے کہ: اللہ اور اس کے رسولؐ نے عبادات و معاملات کے لیے جو حکم دیا ہے کم از کم اسے تو پورے توازن سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں کسی ایک چیز پر زیادہ زور دیں گے تو مطلوب توازن بگڑ جائے گا‘‘۔

میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ مولانا محترم اگر کسی فرد میں غلطی‘کمی‘ کوتاہی یا تساہل دیکھتے تو اسے انفرادی طور پر متوجہ کرتے۔ سخت سست کہنے‘ ڈانٹنے‘ غصے میں بلندآواز میں بولنے یا دوسروں کے سامنے اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے بجاے بڑے ہی پیارے انداز سے توجہ دلاتے کہ اُن کے اس توجہ دلانے کے انداز میں بڑی مٹھاس پر پیار آتا تھا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ میری بدخطی اور پروف ریڈنگ کے حوالے سے سہل انگاری پر بھی لطیف پیراے میں توجہ دلاتے۔ اور یہ کہتے: دیکھو خورشید میاں‘ میں اپنی کوئی چیز اس وقت تک چھپنے کے لیے نہیں دیتا جب تک اس کی خود پروف ریڈنگ نہ کر لوں اور یہ اطمینان نہ کر لوں کہ جن غلطیوں کی نشان دہی کی تھی‘ وہ لگ گئی ہیں یا نہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ میری ادارت میں ماہ نامہ چراغِ راہ کا سوشلزم نمبر شائع ہوا تو آپ نے لکھا: ’’سوشلزم نمبر میں نے بہ غور پڑھا۔ آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ اپنی ہی محنت کو اس تساہل کی بدولت جس طرح آپ لوگوں نے برباد کیا ہے‘ اگر وہ کوئی اتفاقی واقعہ ہوتا تو شاید صبر بھی کیا جا سکتا تھا‘   لیکن اس سے پہلے بارہا میں آپ لوگوں کوتوجہ دلا چکا ہوں کہ کتابت کی صحت اور طباعت کی  درستی کے معاملے میں لاپروائی برت کر آپ لوگ اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر لیتے ہیں‘‘۔(خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۹۲)

پڑھنے کو تو یہ ایک مختصر سا نثرپارہ ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں حوصلہ افزائی اور کوتاہی کو ایک ہی جگہ نہایت خوب صورت اور جامع انداز میں بیان کر دیا ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے‘ جب جمعیت کا انگریزی پرچہ Students Voice میری ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے بالکل ابتدائی دور میں مولانا نے اپنے خط (۱۸ اگست ۱۹۵۲ئ) میں لکھا: ’’اسٹوڈنٹس وائس برابرآ رہا ہے۔ آپ لوگوں کی اس کامیاب کوشش کو دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ امید ہے کہ جو لوگ اس پرچے میں لکھنے کی مشق کریں گے وہ آگے چل کر انگریزی صحافت میں اسلام کی عمدہ ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے‘‘ (ایضاً‘ ص ۳۹۰)۔ اس میں حوصلہ افزائی بھی ہے‘ رہنمائی اور دعا بھی‘ بلکہ پیش گوئی بھی۔ کیونکہ آنے والے زمانے میں وائس کے انھی نومشق طالب علموں میں سے ایک بڑی تعداد بعد میں تحقیق و تصنیف کے میدان میں خدمات انجام دینے والی بنی۔

میں شوریٰ اور دوسرے اجلاسوں میں اپنی روز مرہ عادت کے مطابق کوٹ پتلون ہی میں شرکت کرتا رہا‘ لیکن مولانا نے مجھے ایک بار بھی اس پر سرزنش نہیں کی۔ اس کے برعکس اسعد گیلانی صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب نے کئی بار ٹوکا۔

۱۹۵۷ء کے بعد جماعت ایک داخلی بحران سے گزری‘ جس میں الگ ہونے والے محترم رفقا میں سے بعض نے نہایت تکلیف دہ اسلوب میں نہ صرف پروپیگنڈا مہم چلائی بلکہ جماعت کے اندر رفقا کی یکسوئی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سخت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ اس دوران مولانا نے شخصی بازپرس کرنے اور کسی کا نام لیے بغیر مجموعی طور پر مختلف امور کی جانب توجہ دلائی اور اجتماعی بگاڑ کی خرابیاں بیان کر کے ان سے بچنے کی راہیں بتائیں۔ وہ تحریریں اجتماعی زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لیے بنیادی دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ایک روز میں نے مولانا سے اس مسئلے پر بات کی اور پوچھا آپ بعض صورتوں میں عمومی اسلوب کیوں اختیار کرتے ہیں حالانکہ خرابی چند افراد نے کی ہوتی ہے؟

مولانا محترم نے فرمایا: ’’یہ اسلوب میں نے سیرت پاکؐ سے اخذ کیا ہے۔ جب مجھے کہیں کسی فرد میں خرابی نظر آتی ہے تو اپنے انداز میں اسے سمجھانے یا توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن جب یہ دیکھتا ہوں کہ اس خرابی میں متعدد لوگ مبتلا ہو رہے ہیں تو پھر فرداً فرداً مخاطب کرنے کے بجاے عمومی انداز میں توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے‘ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے یا آپ کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘‘۔

میں نے پوچھا: سیرت پاکؐ میں یہ بھلا کس طرح ہے؟

فرمایا: ’’اگر کسی ایک صحابی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا تو آنحضوؐر اسے الگ سے سمجھاتے اور جب خرابی زیادہ پھیلتی نظر آتی تو صحابہؓ میں سے کسی فرد کا دل توڑنے کے بجاے اس طرح ہدایت دیتے یا بیان فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں یا اس طرح کیوں نہیں کررہے و غیرہ۔ اس طرح آنحضوؐر فرد کی عزتِ نفس کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے توجہ بھی دلاتے اور اسے تنقید کا ہدف بننے سے بھی بچاتے۔

مولانا میں ایک اور بڑی قابلِ ذکر خوبی تھی۔ وہ یہ کہ حفظ مراتب کا خیال رکھنا‘ دوسرے کی عزت کرنا‘ اس کا دل رکھنا‘ اس کے مقام کے مطابق ہی نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر عزت دینا اور اکرام کرنا۔ مولانا مودودی‘ مشرقی تہذیبی روایت کے اس صحت مند پہلو کا دل آویز نمونہ تھے۔

ایک مرتبہ کراچی میں مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور کے ہاں مجھے مولانا مودودی کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔ نماز کا وقت ہوگیا تو مفتی صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ امامت کریں‘‘۔ مگر مولانا نے اصرار کیا : ’’نہیں‘مفتی صاحب نماز آپ ہی پڑھائیں‘‘ اور پھر مفتی صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ اس کے برعکس بیچ لگژری ہوٹل میں جمعیت الفلاح کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم اور مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم وہاں موجود تھے۔ نمازِمغرب سے پہلے تھانوی صاحب اُٹھے اور اپنے انداز میں کہنے لگے: صفیں یہاں بچھائو ‘ فلاں چیز ادھر رکھو کہ اتنی دیر میں اذان ہوگئی اور بدایونی صاحب جھٹ سے آگے بڑھ کر امامت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس طرح کا معاملہ کبھی مولانا کے ہاں نہیں دیکھا گیا۔ مولانا مودودی اپنے تمام معاصرعلماے کبار کا بڑا احترام کرتے تھے۔

ممتاز قانون دان اے کے بروہی مرحوم سے مولانا کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں‘ ان روابط کو استوار کرنے میں ابتدائی کردار میں نے ادا کیا تھا۔ بروہی صاحب سے میری ملاقات بڑے دل چسپ انداز میں ہوئی۔ یہ ۱۹۵۳ء کی بات ہے۔ بروہی صاحب حکومت سندھ کے غالباً ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ انھوں نے Dawn میں مضمون لکھا: Can Islam give a Constitution?۔ جواب میں‘ میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے انگریزی ترجمان اسٹوڈنٹس وائس میں دو تین صفحات پر مشتمل اسی عنوان سے اس کا جواب لکھا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر اور خرم مرحوم کے ماموں زاہد حسین صاحب نے اس مضمون کو بہت پسند کیا۔ متعدد لوگوں کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ پھر ایک روز بتایا کہ بروہی صاحب نے بھی اس مضمون کو خوب سراہا ہے اور پیغام دیا ہے: ’’میں اس مضمون کے لکھنے والے سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔ جس پر میں ان کے ہاں پہنچا۔ بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ بروہی صاحب کہنے لگے: ’’میں آپ کے مضمون سے قائل تو نہیں ہوا لیکن اس موضوع پر جو بھی لکھا گیا ہے‘ اُس میںآپ کا مضمون‘ موضوع سے متعلق اور سب سے اچھا ہے‘‘۔ پھر اسی زمانے میں ان کی کتاب آئی تھی An Exercise in Self Expression وہ انھوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ دی۔ بعد میں بھی بار بار ملتے رہے۔ بہت سی کتب پڑھنے کے لیے دیتے اور شفقت کرتے رہے۔ اسی دوران میں نے ان سے کہا‘ میں یہ چاہتا ہوں کہ مولانا خطاب کریں اور آپ اس اجلاس کی صدارت کریں۔ انھوں نے کہا: ’’ضرور آئوں گا‘‘۔

اس کے بعد جب مولانا مودودی کراچی آئے تو ہم نے کراچی جمعیت کے تحت ایک پروگرام رکھا‘ جس میں صدارت بروہی صاحب کی تھی اور خطاب مولانا کا تھا۔ مولانا کی تقریر کا موضوع تھا: ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘۔ یہ اجلاس عام وائی ایم سی اے ہال کراچی میں ہوا تھا۔ اسی اجلاس میں مولانا اور بروہی صاحب پہلی مرتبہ ملے تھے اور تقریر میں بروہی صاحب نے کہا تھا: ’’مولانا مودودی جیسا قانونی ذہن میں نے شاذ ہی دیکھا ہو‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مولانا کو گھر کھانے پر بلایا۔

اسلامی قانون کی تدوین کے موضوع پر مولانا مودودی کا کراچی بار ایسوسی ایشن میں خطاب تھا۔ سامعین میں ججوں کے علاوہ تین چار سو وکلا اور مفتی محمد شفیع مرحوم اور مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم بھی شامل تھے۔ مولانا کی تقریر کے بعد مفتی محمد شفیع صاحب نے مولانا انصاری صاحب سے یہ بات کہی اور میں نے خود اپنے کانوں سے سنی کہ:’’اللہ تعالیٰ کو جس قسم کے حالات میں جو کام لینا مطلوب ہے‘ اس کے لیے اپنے کسی بندے کو وہ صلاحیت سے نواز دیتا ہے۔جس طرح مولانا مودودی صاحب نے اس محفل میں وکلا حضرات کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ اگر ہم جیسے لوگوں کو اس کیائوں‘ کیائوں میں کھڑا کر دیا جاتا تو کیا ہوتا‘‘۔ جہاں یہ بات حضرت مفتی صاحب کی طرف سے مولانا مودودی کی عظمت کا فراخ دلانہ اعتراف ہے‘ وہیں خود حضرت مفتی صاحب کی عظمت کا اظہار ہے۔

۱۹۵۳ء میں تحریک ختمِ نبوت پر انکوائری کمیشن بیٹھا۔ اُس وقت مولانا مودودی سزاے موت کے تبدیل ہونے کے بعد عمرقید کاٹ رہے تھے۔ کمیشن نے مولانا کو بیان دینے کے لیے طلب کیا۔ مولانا کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ کمیشن کے سامنے پہلا بیان دینے کے لیے مولانا نے مناسب سمجھا کہ وہ لکھ لیں۔ اس بے سروسامانی میں انھوں نے لکھا اور خوب لکھا: مولانا امین احسن اصلاحی نے فرمایا: ’’کمال ہے‘ یہ بیان مولانا نے قلم سے نہیں بلکہ الہامی انداز میں لکھا ہے‘‘۔

پھر ۱۹۶۰ء یا ۶۱ء میں ایوب صاحب کے عائلی قوانین (فیملی لاز)آئے تو اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کا اجلاس غالباً جامعہ اشرفیہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس قانون پر تنقیدی تحریر‘ حرف بحرف مولانا مودودی نے لکھی تھی اور تمام علما نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ مفتی محمد حسن صاحب نے فرمایا:’’سبحان اللہ‘ اس سے بڑھ کر اور کیا لکھا جاتا؟ نہ ایک حرف کم کرنے اور نہ زیادہ کرنے کی کوئی گنجائش‘‘۔ یہ تھی مولانا مودودی کی اپنے مضمون‘ فکر اورخیالات پر گرفت۔

۱۹۶۲ء میں ایوب خاں صاحب کا دستور آیا۔ اس وقت کے سب سے نمایاں لیڈر حسین شہید سہروردی صاحب اور دوسرے سربرآوردہ سیاسی قائدین کا خیال تھا کہ اسے مسترد کر دیا جائے اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی بحالی کی تحریک چلائی جائے۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا:’’اس وقت یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کر کے اس دستور میں اتنی ترامیم کرا دینی چاہییں کہ اس کی شکل تبدیل ہو جائے اور یہ دستور قابلِ قبول بن جائے‘‘۔ اس مکالمے کا آخری اجلاس مولانا ہی کے گھر ۵-اے‘ ذیلدار پارک اچھرہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سہروردی صاحب کے علاوہ چودھری محمد علی‘ میاں محمود علی قصوری‘ سردار شوکت حیات اور نواب زادہ نصراللہ خاں شریک تھے۔ یہ اجلاس دو تین گھنٹے جاری رہا۔ ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کمرہ کھلا اور اجلاس کے بعد قائدین باہر آئے تو میں نے سہروردی مرحوم کو چودھری محمد علی صاحب سے یہ کہتے ہوئے سنا:

Oh my God! He is a great constitutional mind!

اور محمد علی صاحب نے کہا کہ جو ترامیم مودودی صاحب نے لکھی ہیں‘ اگر فی الحقیقت یہ ترامیم ہو جائیں تو یہ دستور قابلِ قبول ہو جائے گا۔ فوج کی طرف سے دستور میں اقتدار کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حق لینے نہیں بلکہ زبردستی اختیار لینے کا معاملہ ۱۹۶۲ء میں تھا‘ اسی کی خواہش یحییٰ صاحب نے ۷۱-۱۹۷۰ء میں کی۔ بعد میںجنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم اور آٹھویں ترمیم (۱۹۸۵ئ) کے ذریعے یہی چاہا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اسی چیز کو ’’قومی مفاد‘‘ قرار دیا۔ وقت کا فاصلہ اور چہروں کی تبدیلی کو نظرانداز کردیں تو بنیادی ایشو پر یہ تمام فوجی حکمران ہم آواز رہے ہیں۔

ایک بار مولانا نے مجھ سے فرمایا: بعض اوقات مجھے قلم برداشتہ لکھنا پڑتا ہے لیکن اس کے پیچھے برسوں کا غوروفکر ہوتا ہے اور میرے ذہن میں جب کوئی چیز پوری طرح بن جاتی ہے‘ تب میں لکھتا ہوں‘‘۔ یہ تصنیف و تالیف کا کمال ہے۔ اسی طرح شاعری کا معاملہ ہے۔ مشہور شاعر  ٹینی سن کی شاہکار نظم ہے ’’قبلائی خاں‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ یہ نظم خواب میں مجھ پر وارد ہوئی اور اُٹھ کر میں نے لکھ ڈالی۔ یہی عالم ہمارے اپنے عظیم ترین شعرا یعنی غالب اور اقبال کا تھا۔

یہ اللہ کی دین ہوتی ہے ‘ مولانا کی بھی یہی کیفیت تھی کہ جب صورت حال پیدا ہوتی اور قلم برداشتہ بھی لکھنا پڑتا تو یوں لکھتے جیسے برسوں سے اس موضوع پر سوچ رہے تھے۔ مربوط‘ مسلسل‘ مدلل‘ موثر اور دل نشیں تحریر!

اب ایک اور حوالے سے دیکھیے: مولانا کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ انھیں خود اس پہلو سے اپنی زندگی میں کمی کا احساس تھا‘ وہ یہ تھا: ’’اپنے بچوں کوجتنا وقت دینا چاہیے تھا وہ میں نہیں دے سکا‘‘۔ حالانکہ مولانا گھر سے متصل ہی بیٹھتے تھے۔ رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ اپنے سبھی بچوں سے محبت تھی‘ فکرمندی تھی‘ توقعات تھیں‘ تاہم ان میں سب سے زیادہ محبت جس فرد سے تھی‘ وہ اُن کے بڑے صاحبزادے عمرفاروق ہیں۔ ان کا ذکر بڑی چاہت اور بڑی اُمیدوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہہ عمرفاروق صاحب میں مولانا محترم کا پرتو پایا جاتا ہے۔ اور جب دوسرے صاحبزادے احمد فاروق کراچی پڑھنے کے لیے گئے تو چودھری غلام محمد صاحب کے ہمراہ مجھ سے بھی کہا: اگرچہ احمد اپنے ماموں کے ہاں مقیم ہیں‘ تاہم آپ لوگ اُن کی ضروریات کا خیال رکھیے گا‘‘۔ اتنی عظیم ذمہ داریوں کے باوجود وہ اس پہلو سے غافل نہیں تھے۔

بعض لوگ جو یہ بات کہتے ہیں کہ مولانا کے ہاں برعظیم کی اہم قومی شخصیات کے باب میں Personality Clash (شخصی تصادم) تھا‘ ایسے افراد ایک خلافِ واقعہ اور ایک قطعی غلط بات کہتے ہیں۔ ایک ایرانی نژاد امریکی نے لکھا کہ قائداعظم کے ساتھ مولانا کا شخصی تصادم تھا‘ کچھ نے کہا کہ اصلاحی صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ مولانا مودودی کی زندگی کا مجموعی کینوس اور قرائن و شواہد اس الزام کی تائیدنہیں کرتے۔ شخصی تصادم کا ایک عام مظہر یہ ہوتا ہے کہ ہدف شخصیت کا تذکرہ اپنی گفتگو میں برے بھلے اندازمیں آپ سے آپ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی مولانا کو کسی شخصیت کو زیربحث لاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر کبھی بات کی تو مسائل پر اور وہ بھی مناسب حد تک۔ ۱۹۵۷ء میں جو ساتھی الگ ہوئے‘ ان کی علیحدگی اور پھر ایک مہم‘ مگر مولانا نے کبھی ان چیزوں کا جواب نہیں دیا۔ ایک دو افراد نے بہت زیادہ زور دیا تو اُن سے صرف بات کرنے کی حد تک تذکرہ کیا اور اپنی ایسی کسی تحریر کو اُچھالنے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری جانب مسئلہ اس کے برعکس رہا بلکہ تکلیف دہ حدتک برعکس!

مولانا مودودی نے پہلے دن سے کوشش کی‘ کہ ان کی معاش آزاد ہو‘ وہ جماعت پر بوجھ نہ بنیں۔ آزاد معاش ہی کی بنیاد پر انھوں نے جماعت کی مدد کی ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی کتب کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں وقف کردیا‘ اور کہیں بہت بعد میں جاکر گزربسرکے لیے چند کتب ’ادارہ ترجمان القرآن‘کو دیں۔ جس کوٹھی میں جماعت کا دفترتھا اس کے ایک حصے میں مولانا رہتے اور  اس کا کرایہ جماعت کو ادا کرتے تھے۔ ایک دفعہ چودھری غلام محمد صاحب اور میں‘ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ’’جماعت یہ کوٹھی آپ کو تحفتاً دینا چاہتی ہے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’نہیں‘ میں اس طرح نہیں لوں گا۔ اگرچہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن آپ مارکیٹ میں اس کی قیمت لگوا لیں‘ جنھیں میں قسطوں میں ادا کر دوں گا‘‘۔

اس پورے عرصے میں مولانا نے ایک انچ زمین بھی نہیں خریدی تھی‘ اور نہ کہیں کوئی جایداد بنائی تھی۔ہم میں سے اگر کسی نے کوئی معمولی سا تحفہ بھی پیش کرنا چاہا تو بڑے تردد کے ساتھ اور ازراہ شفقت قبول کیا۔ مولانا کے انتقال کے وقت اُن کے ترکے میں اس ایک کوٹھی اور چند کتابوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اگر کوئی فرد‘ زندگی اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لیے گزار رہا  ہوتا تو دولت کا ایک انبار چھوڑ کر بزمِ جہاں سے رخصت ہوتا مگر یہاں معاملہ برعکس تھا۔ بیرونِ پاکستان جو دو مرتبہ علاج کے لیے گئے تو اس میں اُن کے لیے سب سے بڑا ذہنی دبائو یہ ہوتا کہ اس میں ممکن ہے رفقا میں سے کوئی ساتھی زیربار آئیں اور یہ معاونت لینا ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ الحمدللہ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے کچھ سعادت حاصل کرنے کی اجازت دی۔

جماعت اسلامی کے بیت المال میں سے ایک پائی بھی انھوں نے اپنی ذات پر خرچ نہیں کی۔ وہ کسی الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے۔ پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے اچھی سے اچھی سہولیات اور بہتر سے بہتر ذرائع آمدن کے مواقع ملے‘ مگر انھوںنے ایسی کسی پیش کش کو پرکاہ کی حیثیت نہ دی اور مقصد زندگی کو اولیت دی۔

ایوب خان صاحب نے انھیں بھاری پیش کش کی اور نیازمندی کا اظہار بھی کیا‘ لیکن انھوں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ اجتماعی زندگی میں اختیارات کے مسئلے پر ان کا ایک موقف تھا‘ لیکن رفقا نے استدلال پیش کیا تو اپنی راے سے رجوع کر لیا اور کثرت راے سے فیصلوں کے بجاے ان کی کوشش ہوتی کہ اتفاق رائے سے فیصلے ہوں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ مولانا پر حرف زنی کرتے ہیں‘ وہ حقائق سے زیادہ ذاتی تعصب پر اپنے اظہار کو استوار کرتے ہیں۔

زندگی کے ان طویل برسوں میں‘ دنیا بھر میں گھوم پھر کر میں نے کسی دینی یا دنیوی شخصیت میں ایسی خوبیاں اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی گہرائی کے ساتھ نہیں دیکھی ہیں‘ جتنی خوبیاں عصرِحاضر میں مولانا مودودی کی شخصیت میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں‘ عباد الرحمن میں ایسی خوبیوں کی فراوانی چاہتا ہے اور نبی آخرالزماں نے اسی نہج پر افراد کی تعمیرشخصیت کا پیغام دیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت اسلامی تحریک کے کارکن‘ ان میں سے کون کون سی خوبیوں سے محروم ہیں‘ اس محرومی کو کیسے دُور کر سکتے ہیں اور کن کن خوبیوں کو اپنے اندر پروان چڑھا سکتے ہیں؟

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد‘ مولانا مودودیؒ نے معروف شخصیات کو جماعت کے پروگرام اور مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے اپنے رفقا کو بھیجا‘اور جماعت کے پہلے ناظم شعبہ تنظیم‘ قمرالدین صاحب کو قائداعظم ؒ سے ملاقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ قائداعظمؒ سے ملے اور واپس آکر مولانا کو اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ قمرالدین چند ماہ بعد جماعت سے الگ ہوگئے تھے۔

ایک عرصے کے بعد پروفیسر قمرالدین (اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘اسلام آباد) نے قائداعظمؒ سے اپنی ملاقات کی یادداشتیں قلم بند کیں‘ اور انھیں ہفت روزہ Thinker میں شائع کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا مودودی کے ایما پر ‘ میں گل رعنا (دہلی) میں قائداعظم سے ملا۔ قائداعظم ۴۵ منٹ تک بڑی توجہ سے میری بات سنتے رہے۔ پھر فرمایا: ’’مولانا ] مودودی[ کی خدمات کو میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ‘ لیکن برصغیر ] ہندستان[ کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کا حصول‘ ان کی اصلاح کردار سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل معاملہ ہے‘‘۔قائداعظم مرحوم نے مزید فرمایا:’’جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں کوئی اختلاف یا تصادم نہیں ہے۔ جماعت اعلیٰ مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے‘ جسے اگر حل نہ کیا جا سکا تو خود جماعت کا کام دشوار ہو جائے گا۔ (ہفت روزہ  Thinker‘ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ئ)

اسی مضمون میں ایک جگہ قمرالدین صاحب نے یہ بھی لکھا: ’’میں نے قائداعظم کو دعوت دی کہ لیگ اور جماعت مدغم ہو جائیں‘‘۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد‘ پروفیسرخورشیداحمد نے ۳۰ ایک سوال لکھ کر مولانا مودودی کو روانہ کیا‘ کہ وہ قمرصاحب کی مذکورہ بات کی وضاحت کریں۔ یہ سوال اور اس کا جواب آیندہ صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (یہ تحریر پہلی بار شائع ہو رہی ہے)

مولانا مودودی مرحوم و مغفور (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) ہمارے عہد کے وہ ممتاز فرزند ِ اسلام ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے قابل قدر فریضہ انجام دیا۔ اس ضمن میں انھوں نے مسلمانوں کو ایمان و عمل کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی اور غیرمسلموں کے ذہنوں سے ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کا اہتمام کیا‘ جن کے باعث وہ اسلام کے بارے میں مخالفانہ پروپیگنڈے سے متاثر ہوچکے تھے۔

مولانا مودودیؒ کی مجموعی خدمات پر نظرڈالیں تو میرے خیال میں ان کے بہت سے کارناموں میں حسب ذیل پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

  اسلام پر تشدد پسندی کے الزام کا مولانا مودودیؒ نے جس ایمانی جرأت اور تقابلی و تجزیاتی مطالعے کے ذریعے الجہاد فی الاسلام کی صورت میں جواب دیا ہے‘ ان کا یہ استدلال آج کی صورت حال میں بھی پوری طرح متعلق‘ موثر اور قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے ایک جانب ہندو مہاسبھائیوں کی یلغار کے پس پردہ محرکات کا خاکہ پیش کیا‘ دوسری جانب مغربی استعمار کے ذہن میں موجود توسیع پسندانہ عزائم کی سیاسی و مذہبی بنیادوں کو بے نقاب کیا‘ تیسری جانب مسلمانوں میں موجود ذہنی شکست خوردگی کو دُور کرنے کے لیے انھیں غیرنسلی اور درحقیقت عقلی سطح پر دعوتِ غوروفکر دی۔ اس مقصد کے لیے مولانا نے کسی جذباتی اپیل کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لیے مولانا مودودیؒ کا یہ اسلوب‘ اپنی انفرادیت اور افادیت کے اعتبار سے ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

  مولانا مودودیؒ کی دعوت کے اولین مخاطب مسلمان تھے۔ وہ مسلمان‘ جنھیں آبائی سطح پر تو ایمانی دولت نصیب ہو چکی تھی‘ لیکن اس دولت کی قدر وقیمت اور نعمت کے تقاضوں کا احساس ان میں بڑی حد تک ناپید تھا۔ عموماً مسلم دنیا میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ عبادات میں کچھ باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش سے اور دینی امور سے وابستہ چند تہواروں یا تقریبوں کا اہتمام کرلینے سے تقاضاے ایمان پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس مولانا مودودیؒ نے دین اسلام کے آفاقی تصور کو پیش کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے نشان دہی کی کہ دین اسلام اور اسلامی دین داری کو کسی خاص طبقے کی اجارہ داری (priesthood) سے منسوب کرنے کی اسلام میں کوئی گنجایش موجود نہیں ہے۔ یوں انھوں نے اسلام کے چشمہ ٔ صافی تک پہنچنے کی راہ میں حائل پیشوائیت اور پاپائیت کو مسترد کرتے ہوئے برملا کہا‘ کہ فہم دین اور دین داری کا تعلق کسی بھی خاص طبقے یا نسل سے نہیں ‘ بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ اس طرح انھوں نے تمام مسلمانوں کو اسلام کا علم حاصل کرنے‘ اس پرعمل کرنے اور دوسروں تک اسے پہنچانے کا عظیم الشان کام سمجھایا‘ اور ایمان‘ عمل‘ جستجو کے سیدھے راستے پر چلنے کا راستہ دکھایا۔

اس میدان میں مولانا مودودیؒ کے دو ٹوک لہجے اور منفرد پیغام نے انھیں زندگی بھر اپنوں اور دوسروں کے عتاب کا نشانہ بنائے رکھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس یلغار میں اسلام سے منسوب اور اسلام کے مخالف دونوں حلقوں کے موثر طبقوں نے مشترکہ طور پر مولانا مودودیؒ کی مزاحمت کی۔ مگر وہ اسلام کے اس پیغام کی وضاحت اور عمل کی دعوت کو پیش کرنے سے سرمو پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی یہ جرأت گفتار اور دعوتِ پیہم انھیں بلند مرتبہ عطا کرتی ہے۔

  مولانا مودودیؒ کی جانب سے خدمت ِاسلام کا تیسرا دائرہ عمل یہ ہے کہ وہ روزِ اول سے مکالمے (dialogue) اور استدلال کے طرف دار اور جدوجہد میں آئین و ضابطے کی پابندی کے قائل اور تائید کنندہ رہے۔ جس زمانے میں مولانا مودودیؒ نے دعوت وتنظیم کا کام شروع کیا اور اس پیغام کو اسلامی انقلاب کے عنوان سے پیش کیا‘ یہ وہ زمانہ تھا جب انقلاب (revolution) کا مطلب کلّی تخریب تھا اور مخالف ِ انقلاب عناصر کے قتلِ عام کو بالکل جائز قرار دیا جاتا تھا۔ پھر لفظ انقلاب کو استعمال کرنے والوں کی جانب سے محکوم قوموں کے لیے نجات کا واحد راستہ یہی تجویز کیا جاتا تھا کہ استعمار کے مسلط کردہ ڈھانچے سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ تشدد ہے۔ تاہم‘ برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کے عظیم رہنما قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے آئینی جدوجہد ہی سے آزادی حاصل کی‘ اور علما میں مولانا مودودیؒ نے اسی راستے کو درست قرار دیا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی و قومی یا انقلابی جدوجہد میں کمیونسٹوں‘ اور قوم پرستوں کی طرح انسانی جان کو انقلاب کا ایندھن بنانے جیسے عمل کی مولانا مودودیؒ نے کھل کر مذمت کی اور اسلامی انقلاب کی پوری جدوجہد‘ سوچ اور عمل کو خداترسی‘ احترامِ آدمیت‘ تقویٰ‘ عدل اور افہام و تفہیم کے پیمانوں کا پابند بنا دیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک موثر نظام تنظیم قائم کرکے فیصلے‘ نگرانی اور کاوش کو ایک ضابطہء کار کا پابند بنا دیا۔ مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلابی جدوجہد کے لیے کسی بھی قسم کی زیرزمین سرگرمیوں کو قطعی طور پر خارج از امکان قرار دیا‘ محلاتی سازشوںکا حصہ دار بننے سے اجتناب کرنے پر زور دیا‘ اور تشدد پسندی کے ہر رنگ اور ہر روپ کی کھل کر مخالفت کی۔ میرے نزدیک دینی طبقے میں سے جس فرد نے اس توازن اور دانش کے ساتھ  زندگی بھر جدوجہد کی اس کا نام مولانا مودودیؒ ہے۔

  مولانا مودودیؒ کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی بھر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ مزید یہ کہ آئین‘ قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت مستعد رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان میں دستور ساز اسمبلی ہی سے رجوع کیا‘ اور قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے ایک پہلو سے بنیادی کردار ادا کیا۔

اس ضرورت کے پورا ہونے کے بعد انھوں نے تعمیری قوتوں اور مختلف مکاتب فکر کے جیّد علماے کرام کو دستور سازی کے بنیادی کام کے لیے مجتمع ہوکر اپنا حصہ ادا کرنے کی بھرپور   سعی کی۔ اس کٹھن ذمہ داری کی ادایگی کے لیے انھیں اپنے تحقیق و تصنیف کے قیمتی اوقات کی قربانی دینا پڑی اور قیدوبند کی آزمایشوں سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ لیکن انھوں نے آئین‘ آئینی اداروں‘ عدلیہ اور قانون پسندی کے راستے سے انحراف نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ مولانا مودودیؒ نے اپنے رفقاے کار اور قافلے میں شریک پُرجوش نوجوانوں کو بھی بہ تکرار اسی قانون پسندی کی تلقین کی۔

مولانا مودودیؒ کا یہ وژن (vision) ہر اعتبار سے قابلِ ذکر بھی ہے اور قابلِ احترام بھی۔ آج مسلم اُمہ پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں کو نگاہ میں رکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ یہی وہ راستہ ہے کہ جس میں آگے بڑھنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی راستے میں کم سے کم جانی قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ افراد کو ہم قدم اور ہم نوا بنایا جا سکتا ہے۔

ان چار نکات کی روشنی میں‘ میرے نزدیک مولانا مودودیؒ درحقیقت عہدِحاضر میں مسلمانوں کو ایک چراغِ راہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ایسا چراغ کہ جس کی روشنی میں ایمان‘ عمل‘ خودداری‘ بصیرت‘ جدوجہد‘ شعور اور عدل کی راہیں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی بلاشبہہ ایک بہت بڑے انسان تھے‘ جنھوں نے اپنی زندگی میں لاکھوں لوگوں کو اپنے افکار و خیالات سے اس حد تک متاثر کیا کہ اُن کی سوچ ہی نہیں‘ اُن کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ وہ اپنی وفات کے بعد بھی بہت سے زندہ لوگوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ  موثر ہیں۔ اُن کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں سے آج بھی بے شمار لوگ اسلام کے بارے میں رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی ۷۲ سالہ زندگی میں ابتدائی ۱۲ سال چھوڑ کر بقیہ ساٹھ سال میں مولانا مودودیؒ کو اپنے آس پاس اور ارد گرد موجود و متحرک محسوس کیا ہے اور تمام تر نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود اُنھیں اعلیٰ پایے کا ادیب اور صاحب ِ بصیرت عالم پایا ہے۔

مجھے تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں احساس ہوا کہ گو میں نے لائبریریاں پڑھ ڈالی ہوں لیکن خدا کی کتاب قرآن عظیم پڑھنے کا حق ادا نہیں کیا۔ ۱۹۵۲ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد میں نے لارنس کالج گھوڑا گلی میں پڑھایا تھا اور پھر ایک مختصر وقفے سے دوبارہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے کر دو سال فلسفے کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں ۱۹۶۱ء میں برعظیم کے ایک معروف اشاعتی ادارے‘ مکتبہ جدید کا سربراہ تھا اور ایک معتبر ادبی جریدے سویرا اور ایک مقبول عام ہفت روزہ نصرت کا مدیر تھا۔ میں نے لاہور کے دو مشہور اہل علم و فضل کی خدمت میں یکے بعد دیگرے حاضر ہوکر گزارش کی کہ مجھے قرآن پڑھا دیں۔ اُن کی خصوصی توجہ کے عوض میں نے ان صاحبوں کو پیشکش کی کہ میں ان کے گھر میں نوکر کی حیثیت سے کام کرنے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن خدا کی مرضی کہ ان میں سے ایک بھی رضامند نہ ہوا اور یہ منزل بہرحال مجھے اکیلے ہی سر کرنی پڑی۔ میں نے لاہور سے کوچ کر کے ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۳ء کا عرصہ کوئٹہ کے ایک گھر میں دنیا کی نظروں سے چھپ کر قرآن پڑھا۔ بُری بھلی جتنی عربی کالج میں اور پھر مرحوم محی الدین سلفی سے سیکھی تھی اس موقع پر بہت کام آئی۔ انگریزی اور اردو کے بیشتر تراجم اور سرسید سے مولانا مودودی تک کی تمام تفسیروں کی مدد سے ہر روز ایک رکوع کے حساب سے میں نے دو مرتبہ قرآن کا دور مکمل کیا۔ قرآن کا جو مفہوم مجھ پر وارد ہوا وہ مختصراً یہ تھا کہ کائنات کے خالق و مالک خدا کو اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے‘ وہ اپنے بندے سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے ضرورت مند بندوں کے کام آئے۔ اس اعتبار سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری سیاست کی بنیاد قرآن عظیم اور دین اسلام ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ قرآن اور اسلام کو سمجھنے میں مجھے مودودی صاحب سے بہت روشنی ملی۔

لڑکپن میں مجھے تاج کمپنی کی طرف سے شائع کردہ مولانا مودودی کی کوئی درجن بھر مختصر لیکن جامع کتابیں پڑھنے کا موقع ملا تھا۔۱؎ ان کتابوں نے میرے اندر دین سے محبت اور اس کی سرفرازی کے لیے جاں فشانی سے لے کر جان فروشی تک پر تیار رہنے کا جذبہ پیدا کردیا۔ بعد میں قیامِ پاکستان کے وقت میری تمام تر ہمدردیاں قائداعظم کی مسلم لیگ سے ہوگئیں اور روزنامہ نواے وقت میں حمید نظامی مرحوم کے اداریوں نے مجھے مولانا مودودی سے بدگمان کردیا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اسلام کے احیا کی شدید لگن رکھنے والے مولانا مودودی پاکستان کے قیام کی تحریک کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تحریک کا اسلام سے تعلق تھا یا نہیں‘ مسلمانوں سے تو تعلق تھا۔ یہ ان کی قومی تحریک تھی۔ مسلمان قوم مستحکم ہوتی ہے تو اس سے اسلام بھی مستحکم ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی افسوس ہے کہ مولانا مودودی کے موقف کے باعث تحریکِ پاکستان ان بے شمار نیک اور لائق کارکنوں سے محروم ہو گئی جو آپ سے متاثر تھے۔ اگر یہ لوگ قومی تحریک میں شامل ہوتے تو قائداعظم کوشاید یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکّے ہیں۔ اگر مولانا کے اسلامی افکار سے متاثر کارکن تحریکِ پاکستان کے اندر شامل ہوتے تو ابتدائی سالوں ہی میں پاکستان پایدار اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوجاتا اور رشوت اور بدعنوانی کا وہ بازار جو مسلم لیگ کے کھوٹے سکّوں نے گرم کر دیا تھا اس کی جگہ دیانت داری اور ذمہ داری کا دور دورہ ہو جاتا۔

اس دوران میری واقفیت طلوع اسلام کے حوالے سے غلام احمد پرویز مرحوم کے افکار و خیالات سے ہوئی۔ پھر جوں جوں میں پرویز صاحب سے قریب ہوتا گیا۔ میں مودودی صاحب سے دُور ہوتا چلا گیا۔ لیکن جب میں نے قرآن پاک کے مطالعے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دی تو مولانا کی یہ خوبی واضح طور پر میری سمجھ میں آئی کہ وہ مشکل سے مشکل مضامین کو سلیس اور عام فہم انداز سے پیش کرتے ہیں اور جتنا صاف اور آسان وہ لکھتے ہیں اسلام کے بارے میں لکھنے والے ایسے بہت کم لوگ ہیں۔ میں نے پرویز صاحب کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی غور سے پڑھا ہے لیکن ان حضرات کی زبان اتنی معرب اور مفرس ہے کہ پڑھنے والا مرعوب زیادہ اور متاثر کم ہوتا ہے۔ ان کے برعکس میں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے بارے میں محسوس کیا کہ بلندیِ خیال کو قربان کیے بغیر یہ تفسیر مشکل ترین مقامات کو سلاست اور روانی کے ساتھ طے کر جاتی ہے۔ یہ کام وہی مفسرکرسکتا ہے جسے قرآن نے اپنے اندر اترنے کا شرف عطاکیا ہو۔ تفہیم القرآن پڑھتے ہوئے صاف پتا چلتا ہے کہ لکھنے والا جانتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ آپ اُس سے اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ جناب آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے یہاں ایسے ادیبوں اور سیاست دانوں کی کمی نہیں جو کچھ نہ کہنے کے لیے لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں۔

میں نے تفہیم القرآن کے علاوہ مولانا مرحوم کی دیگر تصانیف کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ جس طرح وہ خود امام ابن تیمیہؒسے متاثر ہیں۔ میں طبعی اور ذوقی اعتبار سے حضرت ابوذر غفاریؓ اور امام ابن حزمؒ سے متاثر ہوں۔ چنانچہ میں سماجی انصاف (social justice) کے معاملے  میں کچھ زیادہ ہی مساوات پسند واقع ہوا ہوں۔ زمین کی ملکیت کے ضمن میں مولانا مرحوم سے میرا اختلاف رہا۔ میں قرآن کے اعلان کے مطابق زمین کو اللہ کی ملکیت (الارض للّٰہ) سمجھتا ہوں اور اس پر افراد کی لامحدود ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقبالؒ نے بھی تو کہا تھا    ؎

دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں‘ تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں‘ تیری نہیں‘ میری نہیں

مودودی صاحب سے میرا یہ اختلاف اس وقت کھل کر سامنے آیا جب پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی اور میرے زیرادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ نصرت اور پھر روزنامہ مساوات میں جماعت اسلامی کے ساتھ چپقلش چلتی رہی۔

زمانہ کب ایک سا رہتا ہے۔ پاکستان دولخت ہوگیا۔ بچے کھچے پاکستان میں پیپلز پارٹی برسرِاقتدار آگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بن گئے۔ میں پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر ہوا۔ میں تو ایک سوچ کے تحت سیاست میں شامل ہوا تھا ۔ابتداً بھٹو مرحوم نئی جماعت نہیں بنانا چاہتے تھے۔ میں نے اور میرے جیسے کچھ لوگوں ہی نے انھیں اس پر آمادہ کیا تھا۔ میں پنجاب میں پہلا شخص تھا جس نے ۱۹۶۶ء میں اُن سے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد مل کر الاشتراکیۃ الاسلامیہ کے حوالے سے ایک نئی جماعت بنانے کے لیے کہا تھا۔ اس وقت مصر میں صدرناصر کا انقلاب آچکا تھا اور اسلامی سوشلزم کے فلسفے کا عالمِ عرب میں بڑا چرچا تھا۔ یہی فلسفہ اقبال‘ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے افکار میں بھی نمایاں تھا۔ پھر میرے ہفت روزہ نصرت نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین مسٹراے-کے سومار اور میرے درمیان اسلامی سوشلزم کے موضوع پر ہونے والی ملک گیر بحث پر ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر رکھا تھا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ اور ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے دو الگ الگ نعرے دیے تھے‘ لیکن میری سوچ اور عوامی دبائو کے تحت یہ دونوں نعرے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی ایک اصطلاح میں ڈھل گئے تھے۔ جب اقتدار آیا تو میری اور میرے جیسے دوسرے نظریاتی کارکنوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ اب حسب وعدہ جاگیرداری اور اس کے تمام تر لوازمات کا خاتمہ کیا جائے۔ بھٹوصاحب نے ابتدا میں زرعی اصلاحات کے ذریعے سے اس سلسلے میں ایک اہم قدم ضرور اٹھایا‘ لیکن بعد میں خصوصاً ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے آس پاس جاگیرداروں کو پارٹی میں نمایاں جگہ دینی شروع کر دی۔ اس پر میرے اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور انھوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔

میں ۱۶ مہینے (مارچ ۱۹۷۴ء سے جولائی ۱۹۷۵ئ) وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا اور پھر  ]بھٹو صاحب کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں[ ۱۶ مہینے ہی میں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹے۔ یہ وہ دور ہے (مارچ ۱۹۷۶ئ-جولائی ۱۹۷۷ئ) جب مولانا مودودیؒ سے میرا ایک اور تعارف ہوا۔ شروع شروع میں جیل کے اندر مجھے سوائے قرآن پاک کے کوئی اور کتاب پڑھنے کو نہیں دی جاتی تھی۔ بعد میں بڑی مشکل سے مولانا محمد علی کا انگریزی ترجمہ و تفسیر اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کی اجازت ملی۔ تب ایک مرتبہ پھر میرے دل میں مولانا صاحب کے لیے قدرو منزلت پیدا ہوئی۔ گو اب بھی چند معاملات پر ان سے ذہنی اختلاف تھا‘ لیکن انھوں نے اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پوری نوجوان نسل کو اسلام کے خدمت گاروں کی شکل دینے میں جو مشقت اٹھائی تھی‘ مجھے اس کی اہمیت اور معنویت کا اندازہ ہوا۔ تفہیم القرآن کے دوبارہ مطالعے سے جو بات سب سے زیادہ میرے دل پر نقش ہوئی وہ یہ تھی کہ جب تک سیاست کی بنیاد دینی اخلاقیات پر قائم نہ ہوگی‘ اس سے خلق خدا کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔

جب ۸ جولائی ۱۹۷۷ء کو لاہور ہائی کورٹ نے میری رہائی کا حکم دیا تو کچھ دنوں کے بعد میں مولانا مودودی سے ملنے اچھرہ‘ لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر گیا۔ یہ زندگی میں میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ میں نے ان سے دو گزارشات کیں۔ ایک نظریاتی اور ایک ذاتی۔ نظریاتی سطح پر میں نے عرض کی کہ جماعت اسلامی خود اپنے منشور میں‘ اور جس حد تک اس کا پی این اے ]پاکستان نیشنل الاینس‘ پاکستان قومی اتحاد[ پر زور چلتا ہے اس کے مطابق اس کے منشور میں اسلام کے عطا کردہ حقوق العباد اور عدل و احسان کے قرآنی احکامات کو شامل کرے اور کرائے۔ ذاتی سطح پر میں نے ان سے مشورہ مانگا کہ مجھے ایک انسان اور مسلمان ہونے کے ناتے کیا کرنا چاہیے۔ اس وقت میں متحدہ مسلم لیگ کا چیف آرگنائزر اور اس کی منشور کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ مولانا مودودی نے فرمایا: ’’آپ مسلم لیگ ہی میں کام کریں جو ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ آپ اپنی سوچ کو وہاں رہ کر بہتر طور پر عمل میں لاسکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھے یہ نہیں کہا کہ آپ جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں ‘ بلکہ یہ کہا کہ آپ مسلم لیگ ہی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

میں نے اس ملاقات کے دوران یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ آپ کا طرزِ زندگی نہایت سادہ تھا۔ آپ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بات میں نے اقبال کے بارے میں بھی سنی ہوئی تھی کہ وہ ایک چارپائی پر بیٹھتے تھے اور ان کی زندگی بہت سادہ تھی۔ تقریباً یہی نقشہ میں نے مولانا مودودی کے ہاں دیکھا۔

میں نے ۱۹۶۱ء میں  نصرت کے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ ’’اردو کی جتنی خدمت ابوالاعلیٰ مودودی نے کی وہ بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے بھی نہیں کی‘‘۔ مولانا مودودیؒ کو دنیاے علم و دین میں ایک ایسا مقام حاصل ہوا کہ ان کی تحریروں کا مطالعہ لازمی امر بن گیا۔ اس لحاظ سے مولانا نے اسلام کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی پوری دنیا میں پہنچایا۔

مولانا مرحوم کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے حوالے سے ایک ایسی جماعت بنائی جو کبھی فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی۔ اہل سنت اور اہل حدیث کی الگ الگ  سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہی حال دیوبندیوں‘ بریلویوں اور شیعوں کا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی میں فرقہ بندی نہیں۔ یہ مودودی صاحب کی معتدل سوچ کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے ایک ہمہ گیر اسلامی جماعت بنائی‘ جس میں مختلف مذاہب اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں‘ جب کہ اسلام کے نام پر بننے والی دوسری تمام جماعتیں خالصتاًفرقہ وارانہ ہیں۔

مولانا مودودی مرحوم کی معتدل سوچ کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری اور منظوری کے اہم دور میں تمام تر اختلافات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ملاقات پر راضی ہوگئے اور جماعت اسلامی نے اس اسلامی جمہوری اور وفاقی دستور کو متفقہ طور پر منظور کرنے میں گراں قدر حصہ لیا۔

  • مولانا عبدالرحمن اشرفی

مولانا مودودیؒ کی تحریروں نے جدید تعلیمی اداروں میں ماحول کو پاکیزہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت تھا کہ تعلیمی اداروں میں لوگ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے‘ مگر مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر لوگوں میں یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ کھل کر تعلیمی اداروں میں نماز پڑھنے  لگ گئے اور نماز نہ پڑھنے والے شرمندہ ہونا شروع ہو گئے۔

رموز تصوف کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ آج کل کے صوفیا کے تو خلاف تھے۔ اس تصوف کے تو مولانا اشرف علی تھانویؒ بھی مخالف تھے‘ شاید مروجہ تصوف کے بریلوی بھی قائل نہیں ہیں۔ لیکن صحیح تصوف کے مولانا مودودیؒ قائل تھے۔ تصوف تو حدیث پر عمل کرنے کا  نام ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کبر‘ کینہ‘ غرور‘ بغض اور حسد نہیں ہونا چاہے۔ یہ سب دل کے امراض ہیں‘ ان چیزوں سے دل کو پاک ہونا چاہیے۔ اور دل کو امراض سے پاک کرنا ہی اصل تصوف ہے۔  یہ تصوف تو حدیث میں بھی آتا ہے‘ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے:  قَد اَفلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (یقینا فلاح پا گیا‘ وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا) نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کہ تمھیں کتاب اﷲ کی دعوت بھی دیتا اور تمھارے دل کا تزکیہ بھی کرتا ہے۔ لہٰذا کفر بھی نہ ہو‘ حسد بھی نہ ہو‘ کدورتیں بھی نہ ہوں‘ کینے اور عداوتیں بھی نہ ہوں تو اس قسم کے تصوف سے وہ انکار نہیں کرتے  تھے۔ البتہ جو جدید تصوف ہے اسے وہ صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ آج کل کے صوفیا بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں اور وزیروں مشیروں سے بھی زیادہ پُر تعیش زندگی گزار رہے ہیں تو ان صوفیا کو کوئی بھی    عالمِ دین قبول نہیں کر سکتا اور ایسے تصوف کے مولانا مووددیؒ بھی خلاف تھے۔

مولانا مودودیؒ بہت بڑے عالم دین تھے‘ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو بڑا عالم دین نہیں کہتے تھے۔ ایک معاملے میں‘ میں نے مولانا سے کہا : ’’میرا خیال ہے کہ تفہیم القرآن میں فلاں جگہ پر الفاظ درست استعمال نہیں کیے گئے‘ اگر انھیں تبدیل کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے‘‘۔ انھوں نے بعد میں وہ الفاظ میرے کہنے پر تبدیل کر دیے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت تھا۔

وہ اکثر جامعہ اشرفیہ میں آیا کرتے تھے‘ جمعۃ المبارک یہیں ادا کرتے‘ اس طرح میری ان سے بڑی ملاقاتیں ہوتیں‘ میں نے انھیں بہت حلیم‘ مدبّر اور مفکر پایا۔

  •  جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال

مولانا مودودی سے میری باقاعدہ ملاقات ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ہوئی‘ جب میں‘ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مقابلے میں لاہورسے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے مسلم لیگ کا امیدوار تھا۔ انتخابات کے سلسلے میں‘ مولانا مودودی سے ملنے گیا‘ تاکہ ان سے جماعت اسلامی کے حلقے کے ووٹوں کے لیے گزارش کروں۔ میرے ساتھ آغا شورش کاشمیری مرحوم بھی تھے۔ مولانا نے شفقت کرتے ہوئے ہم سے بڑا تعاون فرمایا۔ اسی حلقے سے نواب زادہ نصراللہ خان صاحب کی پاکستان جمہوری پارٹی کے جنرل سرفراز خان بھی کھڑے تھے۔ ہم نے مولانا سے کہا کہ وہ انھیں بٹھانے کے لیے نواب زادہ صاحب کو کہیں‘ اور مولانا نے انھیں فون کیا۔ لیکن نواب زادہ صاحب نے کہا کہ میرا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم میں انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد مولانا جب بھی ملتے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے۔

مولانا مودودی کے علامہ اقبال سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ پاکستان کے وجود میں آنے سے پیشتر علامہ اقبال نے چند علما کو موجودہ پاکستان کے علاقے میں بلانے کی کوششیں کیں‘ اسی سلسلے میں انھوں نے مولانا مودودی سے بھی رابطہ کیا‘ جو ان دنوں حیدر آباد‘ دکن میں رہائش پذیر  تھے۔ علامہ نے مولانا کو خط لکھا کہ پنجاب میں ان کی ضرورت ہے اور اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا کہ یہاں کوئی ایسا تعلیمی‘ تربیتی اور تحقیقی مدرسہ قائم کیا جائے‘ جہاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم دی جائے۔ اقبال اس خط و کتابت کے دوران مولانا کو اس طرف ترغیب بھی دیتے تھے۔ بہرحال دونوں اصحاب نے ملاقات کر کے ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ چودھری نیاز علی خاں صاحب نے پٹھان کوٹ میں اس مقصد کے لیے زمین دے دی۔ پھر مولانا مودودی‘ اقبال سے ملنے کے لیے حیدر آباد سے لاہور آئے۔ اس سلسلے میں آخرکار یہ طے پایا کہ جامعۃالازہر (مصر) کے مصطفیٰ المراغی (ریکٹر) کو خط لکھا جائے‘ کہ ہمیں ایسے علما چاہییں‘ جو فقہ اور دیگر تمام اسلامی علوم جانتے ہوں‘ کم از کم ایک عربی کا ماہر استاد ضرور بھیجیں۔ لیکن المراغی نے کہا کہ اس قسم کی شخصیت نہیں ہے۔ یہ واقعات علامہ اقبال کی زندگی کے آخری ایام کے ہیں۔ بہرحال اقبال کی نظر مولانا مودودی پر جا پڑی۔ مولانا نے ۱۹۳۷ء کے آخری دنوں میں علامہ اقبال سے تین ملاقاتیں کیں اور ادارے کے بارے میں تفصیلات طے کیں۔ پھر مولانا حیدر آباد سے شفٹ ہو کر پٹھان کوٹ آ گئے۔ اس زمانے میں علامہ کے سیکرٹری سید نذیر نیازی نے مولانا کو خط لکھا کہ آپ علامہ اقبال سے جلد مل لیں‘ شاید ان کے جانے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ مگر دوسرے روز علامہ کا انتقال ہو گیا ]یہ ساری تفصیل اقبال کی سوانح عمری زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال میں درج ہے[۔ تاہم مولانا نے تن تنہا اپنا کام شروع کر دیا۔ علامہ اقبال کے مجوزہ ادارے کا نام دارالاسلام رکھا گیا۔

میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی اگر صرف علمی رہبری کرتے رہتے تو معاشرے میں ان کی علمی رہبری کی زیادہ اہمیت اور وزن ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی ایسی خصوصیات عطا کی تھیں کہ وہ ہمارے لیے ایک بلند پایہ علمی دبستان قائم کر سکتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی دو ہی فکری شخصیات تھیں۔ مولانا مودودی نے بلاشبہہ فکری رہنمائی بھی کی ہے‘ مگر سیاست میں ان کا آنا میرے خیال میں کیچڑ میں ملوث ہونے کے مترادف تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بڑی سیاست کی‘ جب قائداعظم یہاں نہیں تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودی نے جتنا قیمتی وقت سیاست میں دیا‘ اگر اتنا ہی وقت وہ علم کو پروان چڑھانے اور قوم کو فکری رہنمائی دینے میں صرف کرتے تو آج پاکستان کے قومی معاشرے کی درست نہج پر یہ عمارت تعمیر ہو چکی ہوتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں علمیت کی کمی ہے تو وہ صرف مولانا مودودی کے جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی وجہ سے ہے۔ اس طرح متنازعہ فیہ بننے سے ان کا علمی و فکری کام بھی متاثر ہوا ہے۔ جبکہ نئی نسل کی رہنمائی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ اور کام کرتے۔

جمہوری جدوجہد‘ کالے قوانین کی منسوخی‘آئین کی پاسداری‘ فی الواقع اتحاد اُمت کے لیے کوششیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مولانا مودودی کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی طرح ہمارے روایت پرست اور جمود زدہ معاشرے میں عورت کے حقوق اور کردار پر مولانا مودودی کا   نقطۂ نظر بھی درست اور اسلامی منشا کے مطابق تھا‘ مگر حد یہ ہے کہ یہاں کسی کو کوئی حق ہی نہیں دیا جاتا۔ تفہیم القرآن کی علمی ثقاہت اور شاہکار حیثیت کے باوجود تفہیم القرآن میں‘ میں اور بھی بہت کچھ دیکھنے کی توقع رکھتا تھا‘ کہ جس میں جدید اور قدیم نظریاتی مباحث ہوتے‘ اجماع کی اہمیت واضح کی جاتی‘ قرآنی احکام کی تجدید اور توسیع کی جاتی۔

مولانا نے بلاشبہہ اپنے زمانے کے مطابق ایک لحاظ سے درست تفسیر بیان کی تھی‘ لیکن اب حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی تفسیر میں اس بات کو بیان کرتے کہ کیا اجماع کسی قرآنی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟ تو یہ ان کا بہت بڑا contribution ] کارنامہ[ ہوتا۔ لیکن مولانا اس سمت میں بہت زیادہ کام نہیں کر سکے۔ ہاں! اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنے نقطہ نظر میں ضرور گنجایش پیدا کرتے۔ مثال کے طور پر آج عملاً لونڈیوں‘ کنیزوں اور غلاموں کے پورے انسٹی ٹیوشن کے خلاف اجماع ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اُن سے معاملہ کرنے کی باقاعدہ تفصیلات موجود ہیں۔ لہٰذا‘ یا تو ہم سمجھیں کہ وقت جام ہو گیا ہے اور اگر وقت جام نہیں ہوا‘ بلکہ دریا کی طرح بہہ رہا ہے تو اس حوالے سے قرآن کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ ہمیں قرآن کو نہیں بلکہ قرآنی تعبیر کووقت کے لحاظ سے بدلنا    پڑے گا۔ ابتدائی عہد میں متن کی حفاظت کے باوجود تعبیر کرتے وقت ترجیحات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔

میں مولانا مودودی کا بہت نیازمند تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں زندگی دیتا تو میں مولانا کو اپنا استاد مانتا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

  • ڈاکٹر مبشر حسن

مولانا مودودیؒ سے زندگی میں فقط ایک ہی ملاقات ہوئی تھی اور وہ بھی ایک تقریب میں۔ اس تقریب میں بھی ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا تھا اور یہ اختلاف نظریاتی اختلاف تھا۔ بلکہ نظریاتی حوالے سے میں ان کا سب سے بڑا مخالف تھا‘ اس لیے میں ان کے بارے میں‘ آج جب کہ وہ دنیا میں موجود نہیں رہے‘ کچھ نہیں کہوں گا۔

البتہ یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب ]منور حسن مرحوم[ کے مولانا مودودیؒ سے مشفقانہ تعلقات تھے۔ مولانا مودودی ]حیدر آباد‘ دکن میں[ والد صاحب کے ادارے میں قرآن پاک کے ترجمے کی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ مجھے یہ بات تو معلوم نہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف تھا یانہیں‘ البتہ مجھے یہ بات ضرور یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے اُن کے بارے میں یہ کہا تھا: ’’ایک دن یہ لڑکا بہت بڑا آدمی بنے گا‘‘۔

ہمارے خاندان میں میری ایک بہن اُن سے متاثر تھیں‘ اُنھوں نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر بھی پڑھ رکھا تھا اور وہ ان کے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتی تھیں۔ وہ بھی اﷲ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ میرے چونکہ ان سے نظریاتی اختلافات تھے اس لیے میں نے کبھی اُن کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔

  • ڈاکٹر وحید قریشی

مولانا مودودیؒ کو زندگی میں ایک بار دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ لیکن کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ البتہ میں نے مولانا کو پڑھا ضرور ہے۔ وہ اس عہد کے بہت بڑے عالم تھے۔ کسی فرد کو ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بطور عالم دین ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے۔

مولانا مودودی جہاں بہت بڑے عالم دین تھے‘ وہاں وہ بہت بڑے ادیب بھی تھے‘ صاحب طرز ادیب! انھوں نے دینی موضوعات کو ادبی زبان میں پیش کیا اور اپنا مخاطب جدید نسل کو بنایا۔ انھوں نے جدید نسل کے مسائل کو اپنے مقالات اور کتابوں میں نہایت احسن انداز میں بیان کیا ہے۔

مولانا مودودی کی نثر اپنا ایک خاص انفرادی رنگ رکھتی ہے۔ مشکل مسائل کو سیدھے سادے انداز میں پیش کرنے کا جو ڈھنگ انھیں آتا ہے‘ اس سے ان کی نثر ایک عام قاری کو بھی اپنی طرف اسی شدت سے کھینچتی ہے‘ جس شدت سے ایک عالم کو۔ انھوں نے ہماری اُردو نثر کی روایت میں یہ انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے کہ اسے دینی نثر کے عام اسلوب سے الگ کر کے عام پڑھنے والوں کے لیے ایک گونہ سہولت پیدا کر دی ہے۔ اُردو ادب میں دینی سرمائے کو بیان کرنے کے لیے جو عربی آمیز ڈھنگ اختیار کیا گیا‘ اس میں ایک خاص طرح کا مولویانہ رنگ نمایاں رہا ہے‘ لیکن اس کے برعکس مولانا مودودی کی نثر میں ایک ادبی شان پائی جاتی ہے۔ وہ بلاشبہہ اُردو کے ایک صاحب ِ طرز نثرنگار تھے۔

مولانا مودودی کے لٹریچر کے مطالعے کی وجہ سے پنجاب یونی ورسٹی میں میرے اوپر یہ الزام لگا کہ میں جماعت اسلامی کا آدمی ہوں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے‘ کہ کچھ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ میں کمیونسٹ ہوں شاید اس لیے کہ میں نے کمیونزم کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر میں نے کمیونزم کے خلاف بہت کچھ لکھا بھی۔

فارسی اور اُردو ادب میں میری دل چسپی زیادہ رہی۔ اردو ادب کا خاصا وسیع مطالعہ کیا‘ بہت کچھ پڑھا‘ لیکن مولانا مودودیؒ کو بہت منفرد پایا۔ ان کا اسلوب انفرادیت رکھتا ہے۔ وہ نئی نسل کے مسائل کو سمجھ کر اور جدید علوم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھتے رہے۔ باقی علما کا اکنامکس اور پولٹیکل سائنس وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ لیکن مولانا مودودی نے قدیم و جدید علوم کو ملا کر معاشرے کو سمجھا اور پھر اس کے مطابق لکھا۔ یہ مولانا کی انفرادیت تھی۔ تفہیم القرآن مولانا کی سب سے اہم کتاب ہے۔

مولانا مودودی کی تحریروں میں اقبال کی فکر کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ وہ فکرِ اقبال سے قریب تھے۔ اقبال اور مولانا کی فکر میں اس مناسبت کی وجہ سے مجھے مولانا کی تحریروں میں دلچسپی پیدا ہوئی‘ اور میرے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں‘ کیونکہ کالج کے زمانے میں میرا جھکائو دہریت اور الحاد کی طرف ہو گیا تھا۔ پھر مولانا کی تحریروں کے باعث ہی مجھے ان سے چھٹکارا حاصل ہوا۔

مولانا مودودی نے جماعت اسلامی میں کردار سازی پر زور دیا اور بلاشبہہ انھوں نے   اپنی جماعت میں بہت سے صاحب کردار لوگ پیدا کیے تھے۔ اسی طرح قرارداد مقاصد کی منظوری اور علما کے ۲۲ نکات کی ترتیب میں مولانا مودودی کا اہم اور بنیادی کردار تھا۔ ۲۲ نکات کی تدوین‘ پاکستانی تاریخ میں وہ پہلا مرحلہ تھا‘ جب مختلف مسلک کے علما پہلی دفعہ کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور یہ سب مولانا مودودی کی وسعت نظر‘ دُور اندیشی اور منطقی و عملی ذہن کے باعث ہی ممکن ہوا۔

۴۹ - ۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی مخالفت میں‘ حکومتی سرپرستی میں لٹریچر تیار کیا گیا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی  جماعت اسلامی پر ایک نظر شیخ محمد اقبال کے نام سے شائع ہوئی تھی‘ لیکن یہ کتاب دراصل شیخ محمد اکرام ]مصنف:  رودِ کوثر[ نے لکھی تھی۔ البتہ شیخ محمداقبال ان کے چھوٹے بھائی تھے‘ جن کا تحقیق و ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ریاستی انتظام میں یہ کتاب پاکستان ٹائمز پریس نے شائع کی اور مفت تقسیم کی گئی۔ اسی مخالفانہ مہم کے تسلسل میں بعدازاں سرکاری سطح پر مولانا پر مختلف الزام لگائے گئے‘ لیکن وہ سب غلط تھے۔ مولانا بہت ہی زیرک انسان تھے‘ بہت بڑے مفکر اور بلند پایہ ادیب تھے۔ ایسے انسان تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

  • عبدالقادر حسن

زمانہ طالب علمی ہی میں مجھے مولانا مودودیؒ سے وابستگی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت تو اندازہ نہیں تھا کہ کتنی بڑی شخصیت سے ہمارا تعلق ہے‘ کیونکہ ان کے اٹھنے بیٹھنے‘ گفتگو‘ انداز اور رویہ میں کوئی تعلّی‘ فخر اور ایسا تصنع نہیں تھا‘ جس سے اندازہ ہو کہ کسی عالم فاضل کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ اس طرح بے تکلفانہ گفتگو فرماتے تھے کہ ہمارے اندر اُن کا احترام مزید بڑھ جاتا تھا عقیدت اور محبت میں فراوانی آتی تھی۔ مولانا اپنے ملنے والے کے دل میں خود بخود ایک طرح کی محبت پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ اُن کے خیالات اور تصورات اتنے واضح اور صاف ہوتے تھے کہ اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کی شخصیت سے غیر مرئی قسم کی شعاعیں نکلتی تھیں‘ جو انسان کو کھینچ لیتی تھیں اور دل پر اثر کرتی تھیں۔ آخر تک میری اُن کے ساتھ عقیدت اور نیاز مندی رہی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مولانا کے بغیر زندگی کا تصور ہی مشکل ہو گیا۔ میں چونکہ صحافت کی دنیا کا مسافر تھا‘ اس لیے مولانا سے اس کے اسرار و رموز پر بات ہوتی رہتی تھی۔ مولانا خود کو ایک اخبار نویس کہتے تھے۔ایک دفعہ مولانا ایک فارم پُر کر رہے تھے‘ جس میں دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ پیشے کے خانے میں انھوں نے اپنا پیشہ صحافت لکھا تو فارم پُر کروانے والے نے کہا: ’’آپ مصنف یا ادیب لکھیں‘‘ تو مولانا نے کہا: ’’پیشہ وہ ہوتا ہے جس سے آدمی روزی کماتا ہے تو میرا پیشہ صحافت ہے۔ ترجمان القرآن سے میں اپنا پیٹ پالتا ہوں‘‘۔

ایک بار نیلا گنبد مسجد میں جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں مولانا مودودی کا خطاب تھا۔ میں بھی اس پروگرام میں شریک تھا‘ جب مولانا باہر تشریف لانے لگے تو میں ان کاجوتا اٹھا کر اُن کے سامنے رکھنے لگا‘ مگر انھوں نے فوراً میرے ہاتھ سے پکڑ کر نیچے رکھ دیا۔ وہ ایسی پیری مریدی کے قائل نہیں تھے جس میں تصنع اور بناوٹ کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ میں اُن کے اہل خانہ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تاہم اپنے علم اور مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں‘ کہ سخت سے سخت تکلیف کے باوجود مولانا مودودی نے اپنے کسی رفیق‘ کسی کارکن اور کسی نیاز مند کو اس امر کی اجازت نہیںدی کہ وہ اُن کے پاؤں‘ کندھے‘ یا سر دبا سکے۔ احترام اور ہمدردی میں جب بھی کسی نے ہاتھ بڑھایا تو‘ انھوں نے ہمیشہ خوشگوار لہجے میں کہا: ’’بھائی‘ میں کسی سے نہیں دبتا‘‘ اور اس طرح شکریہ ادا کر کے اجازت دینے سے ہمیشہ انکار کر دیا۔ اُن کی شخصیت ایک متوازن آدمی کی شخصیت تھی۔ اُن کا علم و فضل اُن کی تحریروں میں تھا‘ لیکن نشست و برخاست میں اپنے آپ کو عام آدمی کی طرح سمجھتے۔

مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے ارکان کی اس نہج پر تربیت کی کہ ایک دفعہ عدالت میں کسی شہادت کا مسئلہ تھا‘ تو جج نے کہا کہ میں جماعت کے رکن کی شہادت (گواہی) پر فیصلہ سناتا ہوں‘ کیونکہ یہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ مولانا کی حیات کا دور تھا۔ جماعت کے افراد کی صداقت‘ دیانت اور امانت کی جو شہرت تھی‘ وہ اس ایک شخص ]مولانا مودودیؒ[ کے ایمان‘ اخلاص اور روحانیت کا پرتو تھی۔ میں گذشتہ ترجمان القرآن میں پڑھ رہا تھا‘ جس میں مولانا مودودیؒ نے نظم و ضبط کے متعلق کہا تھا: نظم و ضبط کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی فوجی طرز کا ڈسپلن پیدا کرنا ہے‘ بلکہ جو لوگ اس نظم میں موجود ہیں ان کی ذاتی اہمیت اس نظم سے زیادہ اہم ہے‘جیسے ہراینٹ کی دیوار میں۔

مولانا مودودیؒ نے پاکستانی سوسائٹی‘ جو حکمران طبقوں کی فطرت کے باعث سیکولرازم کی جانب چل رہی تھی‘ اس کا رخ موڑ دیا۔ آج جو اسلام پسند طبقہ دکھائی دیتا ہے وہ ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حکمران پوری شد و مد سے سیکولرازم کا پرچار کرتے رہے‘ لیکن وہ اپنے تمام تر وسائل کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ انھیں ناکام بنانے میں مولانا مودودیؒ وہ واحد شخص تھے جنھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔

قرارداد مقاصد پاس کروانا مولانا مودودی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس دور میں جب جماعت آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس کے ارکان کی تعداد تین سو سے بھی کم تھی۔ لیکن اراکین جماعت اور دیگر متفقین کی اس مختصر مگر پرعزم ٹیم کے ساتھ سیدمودودی نے حالات کا رخ موڑ دیا۔ ان کے ایک کٹر مخالف نے مجھ سے کہا: اگر مودودیؒ نہ ہوتا تو لوگوں کی داڑھیوں کو قینچیوں اور پیشاب سے مونڈھ دیا جاتا -- آج داڑھی باعزت فرد کی علامت بن گئی ہے اور مسلمان ہونا کوئی عیب نہیں رہا۔ میرے خیال میں ان کا یہ کارنامہ سب سے اونچا کارنامہ ہے کہ انھوں نے پاکستانی معاشرے کا رخ قبلے کی طرف موڑ دیا اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے پیچھے زندہ لٹریچر چھوڑ گئے۔ میں مولانا مودودی کو اُمت کا مجدد سمجھتا ہوں‘لیکن ایک بار جب اُن کے سامنے اس کا ذکر کر دیا تو انھوں نے فرمایا: ’’میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا۔ اگر میرے بعد کوئی کہے تو میں اُس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا‘‘۔

مولانا بہت بڑے ادیب تھے۔ افسوس کہ اس موضوع پر کوئی کام ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنے بڑے انشاپرداز تھے۔ ادب میں ان کا بہت اونچا مقام تھا اور ان کی زبان بہت ہی مستند زبان ہے۔ مولانا کی اردو ایک معیار کی علامت ہے۔ وہ بہت آسان اور خوب صورت زبان استعمال کرتے تھے۔

مولانا مودودی کی تحریروں میں سب سے بڑی تحریر تفہیم القرآن ہے۔ تفسیری ادب میں تفہیم القرآن کا بہت اعلیٰ مقام ہے۔ مولانا نے اپنے عہد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی عام فہم انداز میں تفسیر لکھی۔ تفہیم القرآن زبان اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی تفسیر ہے اور آسان انداز کے لحاظ سے بھی انتہا درجے کی ہے کہ ان پڑھ کو بھی آپ پڑھ کر سنا سکتے ہیں اور وہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مقام کسی اور تفسیر کو حاصل نہیں۔ انھوں نے قرآن کو عوام تک پہنچایا ہے۔ مولانا کا مقصد تفسیر میں اپنی علمیت کا رعب جمانا نہیں تھا‘ بلکہ عوام تک قرآن کا پیغام پہنچانا مقصود تھا۔

  • احمد سعید کرمانی

میں نے مولانا مودودیؒ کو ۱۹۳۹ء میں پہلی بار دیکھا‘ جب وہ اسلامیہ کالج ]ریلوے روڈ[ لاہور میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ تب میں کالج کا طالب علم تھا۔ ایک سال تک ان کا درس سنتا رہا۔ آپ چوبرجی سے تانگے پر کالج آیا کرتے تھے۔ پھر محترمہ فاطمہ جناحؒ کی الیکشن مہم کے سلسلے میں ان سے ملتا رہا (یہ الگ بات ہے کہ بعد میں‘ میں ایوب خان کے ساتھ مل گیا تھا) اسی طرح اچھرہ میں ان کی عصری نشستوں میں بھی بیٹھتا رہا اور حکمت کی باتیں سنتا رہا۔ آپ بہت بڑے عالم دین تھے۔

۱۹۷۴ء کے دوران میں مصر میں سفیر تھا۔ وہاں ابوالکلام آزادؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام سے لوگ واقف تھے۔ مجھے سفارت کاری کے دوران خوش گوار حیرت ہوئی کہ مولانا مودودی کی فکر نے مصر کے علما کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی پذیرائی حاصل کی ہے۔

تحریک ختم نبوتؐ کے دوران میں مجھے چودہ سال قید ہوئی‘ جبکہ مولانا مودودیؒ اور مولانا عبدالستار خان نیازیؒ کو سزاے موت سنائی گئی۔ جیل ہی میں ان دونوں علما سے ملنے کے لیے گیا۔ مولانا نیازیؒ سے تو ملاقات ہو گئی‘ لیکن مولانا مودودیؒ کے بارے میں سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا: ’’انھیں پھانسی والے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں‘ لہٰذا ان سے ملاقات نہیں ہوسکتی‘‘۔ اتفاق سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل میرا دوست نکلا‘ اس نے مولانا مودودیؒ سے میری ملاقات کرا دی۔ اس ملاقات کا اہتمام رات کو کیا گیا تھا۔ میں مولانا سے ملنے جا رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ مولانا بہت پریشان ہوں گے‘ جا کر انھیں حوصلہ دیتا ہوں۔ لیکن انھیں مل کر مجھے انتہا درجے کی حیرانی ہوئی کہ انھیں پھانسی کی سزا ہوئی ہے حتیٰ کہ پھانسی والے کپڑے بھی پہنا دیے گئے ہیں‘ لیکن ان کے چہرے پر کوئی پریشانی‘ کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہے۔ مولانا مودودی اس حال میں بھی اتنے مطمئن تھے کہ کوئی فرد عام حالات میں بھی اتنا مطمئن نہیں دکھائی دیتا۔ مولانا کو اﷲ پر توکل تھا‘ اس لیے ذرہ بھر بھی پریشانی ظاہر نہیں کی۔ مولانا کی سزاے موت کے خلاف حکومت پر دنیا بھر سے دبائو ڈالا گیا۔ اس لیے حکومت کو اسے عمر قید میں تبدیل کرنا پڑا‘ بعد ازاں ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ رہا ہو گئے۔

ممتاز حسن (سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان) ایک مرتبہ کراچی میں ایک تقریب میں میرے ساتھ تھے‘ اس تقریب کی صدارت میں کر رہا تھا۔ ممتاز حسن بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ: ’’مولانا ابوالکلام آزاد کا مقام اونچا ہے یا مولانا مودودیؒ کا؟‘‘ تو انھوں نے جواباً کہا :’’مولانا آزادؒ کی تحریروں میں ادبیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے جبکہ مولانا مودودیؒ کو عقلیات پر دسترس حاصل ہے۔ اس پہلو سے انھوں نے عوام کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ جو انھیں پڑھ لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں لہٰذا مولانا مودودیؒ کا اونچا مقام ہے‘‘۔

میں ووٹ دینے میں پہلی ترجیح مسلم لیگ کو ‘لیکن دوسری ترجیح جماعت اسلامی کو دیتا ہوں‘ صرف مولانا کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے آدمی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ مسلم لیگ کی قیادت پر تنقید کرتے تھے‘ حتیٰ کہ انھوں نے پاکستان بنتے وقت بھی یہ کہا تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت اس قابل نہیں کہ پاکستان کو چلا سکے۔ یہ تنقید شاید کسی حد تک درست بھی تھی‘ بہرحال وہ وقت اس تنقید کے لیے موزوں نہیں تھا۔ ہم جسٹس دین محمدسے گوجرانوالہ ملنے گئے تو دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہمیں یہ بھی کہا کہ آپ لوگ مولانا مودودیؒ سے ملاقات کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ مسلم لیگ کا عملی ساتھ دیں‘ یا اس کی پالیسیوں پر تنقید نہ کریں۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا: ’’وہ لکھتا بڑا اچھا ہے‘ بہت بڑا مقام پائے گا۔ اس کی تحریروں میں جادو ہے‘‘۔

مولانا مودودی بہت دلیر آدمی تھے۔ ایک جلسے میں آپ پر حملہ ہوا تو لوگوں کے کہنے کے باوجود کھڑے رہے۔ اس حملے میں جماعت کا ایک آدمی مارا گیا تھا۔ یہ حملہ صدر ایوب خان کے دور میں ہوا تھا اور حبیب اﷲ خان اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ اس قتل کی سازش کا الزام اس پر لگایا گیا تھا۔

مولانا مودودی میں صبر اور تحمل بھی بہت زیادہ تھا۔ ایک بار تحریک ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و سلم کے سلسلے میں گورنمنٹ ہاؤس میں انھیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے جہاں بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا‘ وہاں جواب میں یہ بھی کہا: ’’یہ فہم کی بات ہے آپ کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کے احترام اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں‘‘۔

مولانا کی آنکھیں مجھے بہت خوب صورت لگتی تھیں۔ بڑے باوقار دکھائی دیتے تھے۔ ان کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔  "So, I respect him from the core of my heart"

اس مختصر مضمون کا مقصد‘ معروف عالمی شخصیت مولانا مودودی کی تحریروں سے یہ بات سامنے لانا ہے کہ عصرِ حاضر کی نشات جدید کی فکر اور ترقیات کے تمدنی پہلو پر آپ کی کتنی گہری نظر تھی۔

اس مضمون میں جدیدیت (Modernity) کے مسئلے میں ذاتی رائے سے قطع نظر میں مولانا مودودی کی سوچ و فکر کو یک جا پیش کر رہی ہوں تاکہ ایک قاری اپنی جگہ یہ فیصلہ کر سکے کہ آپ عصرِحاضر میں اسلام کی نشات جدید کو جدید کاری سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس حد تک کوشاں تھے!

اس حقیقت کا مولانا مودودی کے انتہائی معتمد اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد نے ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:

تحریکِ اسلامی کی بین الاقوامی محاذ پر تہذیب جدید کی توجہ، قرنِ اولیٰ کے صحیح اسلامی ذرائع کی طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی اور پسپائی کے بغیر پیش آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، گویا کہ اس کے ہاں ’جدید کاری‘ کے لیے تو ’ہاں‘ ہے، مگر مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ’جدیدیت‘ کاشکار ہونے کے لیے’ہرگز نہیں‘ ہے۔ تحریکِ اسلامی ایک طرف پوری طرح سے ترقی اور جدید کاری کا بخوبی ادراک رکھتی ہے، دوسری طرف مغرب زدگی اور سیکولرازم کا بھی شعور رکھتی ہے۔ اس کش مکش میں دونوں نظریات کے حامل انتہاپسند ہیں، خواہ وہ مغرب زدہ ہیں خواہ عام روایتی عناصر، سوچنے سے عاری ہیں۔۱ ؎

آگے چلیے، میری رائے میں مغربیت اور جدیدیت کے درمیان کوئی حد امتیاز قائم کرنا عبث ہے کہ نتائج کے لحاظ سے دونوں قطعی یکسانیت کے حامل ہیں۔

اب آیئے! مولانا مودودی کے ایک اور رفیق کار جناب خرم مراد مرحوم (۹۶ - ۱۹۳۲ئ) کے ہاں، جو جدید اصطلاحات کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں:

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بعض مغربی الفاظ جو ہماری روزمرہ کی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، وہ اب حقیقت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب معاملہ ہم پر ہے کہ ہم ان کو اپنے ہاں جگہ دیں یا نہ دیں، اور انھیں بس اغیار کے الفاظ سمجھ کر ان سے اجتناب کریں۔ لیکن جب تک ہم اس روش پر جمے رہیں گے، مغرب، اسلام کے بارے میں کچھ سننے کا روادار نہ ہو گا --- اب جہاں پر معاشرے پر حاوی کسی اجنبی کلچر کی اصطلاحات کا غیر ضروری استعمال اپنے اندر کئی خطرات رکھتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ اپنی پیش رفت کے لیے اسے (بڑی حکمت سے) استعمال میں لایا جائے۔ چنانچہ بعض اصحاب جو بعض مغربی الفاظ کے شدت سے خلاف ہیں، وہ بھی ان کے بعض الفاظ کو استعمال کرنا کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے نزدیک ’تحریک‘ (movement) ، ’نظام‘ (system) اور ’انقلاب‘ (revolution) کے الفاظ نا پسندیدہ ہیں، تو اسلامی جمہوریت، اسلامی ری پبلک اور اسلامی سٹیٹ وغیرہ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا بذات خود یہ الفاظ مغربیت اور اس کے مضمرات کے حامل نہیں؟ بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ کا کامل اور صحیح شعور ہی حقیقی رہنما ہو سکتے ہیں --- اس مقصد کے لیے صرف وہ الفاظ ہی استعمال کیے جائیں جو دونوں ثقافتوں میں غیر جانب دار (نیوٹرل) اور انسانی فکروعمل کے حامل ہوں۔ موثر(dynamic) نظریہ (ideology) اور جمہوریت (democracy) اب کسی کلچر کے لیے غیر نہیں رہے۔۲ ؎

مولانا مودودی کی پرورش اور تربیت ایک ایسے اسلامی گھرانے میں ہوئی، جہاں آپ کے والدین دونوں بے داغ پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ ابھی آپ کی عمر تقریباً سترہ برس تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ لیکن جیسے ہی آپ عمر کے اس حصے میں داخل ہوئے، آپ کو بیرونی اثرات نے آلیا اور عارضی طور پر اسلام سے منسوب مروجہ ہیئت نے آپ کا اعتماد متزلزل کردیا‘ تا آنکہ  قرآن و حدیث کے والہانہ انداز میں مطالعے نے دوبارہ اسے پوری طرح بحال کر دیا، جس کا آپ نے ان الفاظ (جولائی ۱۹۳۹ئ) میں تذکرہ کیا ہے:

’’دوسرے رفقا کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کیا حال ہے‘ مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ‘ اسلام کو جس صورت میں‘ میں نے اپنے گرد و پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا‘ میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا‘ وہ یہی تھا کہ اس بے روح مذہبیت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا‘ کیونکہ میرے اندر نازی فلسفے کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیات قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور  سیرت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کیا‘ جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حسنِ سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا --- پس درحقیقت  میں ایک نو مسلم ہوں۔ خوب جانچ کر اور پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے فلاح و صلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں‘ اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے‘ جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔ بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آئو اُس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشے پرایک نئی دنیا بنائیں‘ جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف و عزت ہو‘ حریت اور مساوات ہو‘ عدل اور احسان ہو۔۳؎

مولانا مودودی نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز تیرہ سال کی کم عمری میں، ’آزادی نسواں‘ کے حامی ایک عرب ادیب قاسم امین (قاہرہ ۱۹۰۰ئ) کی عربی تصنیف المرۃ الجدیدہ ]جدید خاتون[ کے اُردو ترجمے ] ۱۹۱۶ئ[ سے کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے مغربی فکر کو اپناتے ہوئے ’’پردہ‘‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اگرچہ سید مودودی کے والد اور آپ کے عرب استاد نے کتاب کے مضمون سے بیزاری کا اظہار کیا‘ لیکن اس اُردو ترجمے کی ]روانی‘ سلاست اور چٹخارے دار محاورے[ زبان پر عش عش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم بعدازاں آپ جس انداز سے ’’پردہ‘‘ کی پُرزور تائید کے ساتھ عورت کے بارے میں کلاسیکل انداز فکر کے مظہر نظر آتے ہیں‘ اسے طبعی امر سمجھنا چاہیے --- اگرچہ وہ مسودہ محفوظ نہیں‘ ] اور نہ شائع ہوا ہے[ تاہم اپنی جگہ یہ امر ایک راز ہی رہے گا کہ آپ نے اتنی کم عمری میں المرۃ الجدیدہ جیسی کتاب کو کیوں ترجمے کے لیے منتخب کیا۔

محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل کلاسیکل عربی ادب اور شاعری کے بارے میں مولانا مودودیؒ،بالخصوص قبل از اسلام شاعری کے بارے میں ایک سخت رائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

ذرا ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ --- عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا --- اس کے اردگرد ایران‘ روم اور مصر کے ملک تھے‘ جن میں کچھ علوم و فنون کا چرچا تھا مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سب سے جدا کر رکھا تھا۔ --- خود عرب میں کوئی اعلیٰ درجے کا تمدن نہ تھا‘ نہ کوئی مدرسہ تھا‘ نہ کوئی کتب خانہ تھا‘ نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا تمام ملک میں گنتی کے چند لوگ تھے جن کو کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا‘ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے --- وہاں کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہ تھی۔ کوئی قانون بھی نہ تھا --- آزادی کے ساتھ لوٹ مار ہوتی تھی --- اخلاق اور تہذیب کی اُن کو ہوا تک نہ لگتی تھی۔ (دینیات ۱۹۷۷ئ‘ ص ۶۰ - ۶۱)۴؎

مولانا مودودی نے پیغمبر اسلام حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بلند ترین مقام کی وضاحت کے لیے شان دار کام کیا ہے‘ اسے آپ رسالہ دینیات میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی تعلیم و تربیت سے انھی عربوں کو وحشت اور جہالت سے نکال کر اعلیٰ درجے کی مہذب قوم بنا دیا۔ جو عرب کسی قانون کی پابندی پر تیار نہ تھے‘ ان کو ایسا پابند قانون بنا دیا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی پابند قانون نظر نہیں آتی --- یہ تو وہ اثرات ہیں جو عرب قوم پر ہوئے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اثرات اس امی صلی اﷲ علیہ و سلم کی تعلیم سے تمام دنیا پر ہوئے --- حیرت یہ ہے کہ جنھوں نے اس کی پیروی سے انکار کیا‘ وہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے --- اس نے قانون اور سیاست اور تہذیب و معاشرت کے جو اصول بتائے وہ اتنے پکے اور سچے اصول تھے کہ مخالفوں نے بھی چپکے چپکے ان کی خوشہ چینی شروع کر دی۔ (دینیات ‘ ص ۶۸ - ۶۹۔  ibid, p 52)

اسی پر مولانا مودودی بس نہیں کرتے‘ بلکہ جب آپ وہاں کے ماضی بعید کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو حاضر کے مقابلے میں آپ حیران کن انداز میں انسانیت کی سوچ کا رخ ایک صحیح طرف موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ متعدد مقامات پر تحریر فرماتے ہیں: یہ رسول اللہؐ ہی ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نکالا اور خردمندی کا راستہ دکھایا‘ حقیقت پسندی کے ادراک اورعقل و دانش کی قدر سکھائی۔ یہی وجہ ہے‘ جس نے انسانیت کو سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔

اسلام کا دورِ زریں‘ جو تاریخ میں سائنس اور آرٹ کی ترقی کے لحاظ سے مسلمانوں کا شان دار باب کہلاتا ہے‘ مولانا مودودی کو ذرا بھی متاثر نہیں کرتا۔ آپ کو ایک ایسی جامع خوبیوں کا معاشرہ ہی مطمئن کر سکتا ہے‘ جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہو۔ حالانکہ ایسے معاشرے کا وجود میں آنا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اس مطلوب اور محمود دنیا کو حقائق کی دنیا میں لانے کے لیے مولانا مودودیؒ بڑے پر اعتماد رہے ہیں۔ آپ کو امید تھی کہ آپ کی تحریک ان تمام غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرے گی جو ماضی میں ہوئی ہیں اور اس کے بجائے ماضی کے علمی اور دیگر اثاثے میں جو بھی خیر کا پہلو ہو گا‘ اسے بروئے کار لانے میں کوئی کوتاہی کرنے سے پہلو بچائے گی۔ ایسے میں جب مسلمانوں کے شان دار تاریخی ماضی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا معیار مولانا مودودی کی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہیں‘ کیونکہ مولانا اسے اسلام کا تاریک ترین دور قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

]خلافت راشدہؓ کے بعد[ جاہلیت خالصہ نے حکومت اور دولت پر تسلط جمایا۔ نام خلافت کا تھا اور اصل میں وہی بادشاہی تھی‘ جس کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا --- اس بادشاہی کے زیر سایہ امرا‘ حکام‘ وُلاۃ‘ اہل لشکر اور مترفین کی زندگیوں میں کم و بیش خالص جاہلیت کا نقطہ نظر پھیل گیا‘ اور اس نے ان کے اخلاق اور معاشرت کو پوری طرح ماؤف کر دیا۔ پھر یہ بالکل ایک طبعی امر تھا کہ اس کے ساتھ ہی جاہلیت کا فلسفہ‘ ادب اور ہنر بھی پھیلنا شرع ہو‘ اور علوم و فنون بھی اسی طرح مرتب و مدوّن ہوں‘ کیونکہ یہ سب چیزیں دولت اورحکومت کی سرپرستی چاہتی ہیں‘ اور جہاں دولت اور حکومت‘ جاہلیت کے قبضے میں ہوں وہاں ان پر بھی جاہلیت کا تسلط ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یونان اور عجم کے فلسفے اور علوم و آداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اسلام کی طرف منسوب تھی (سید مودودی  تجدید و احیاے دین‘ ص ۳۸ - ۳۹)

اسی زرّیں دور کے بغداد کے دارالحکمت کو بھی مولانا مودودی تاریک دور کا دارالحکمت   قرار دیتے ہیں‘ جس میں عہد عتیق کے عظیم فنون کو عربی میں منتقل کیا گیا اور جنھیں انسانی تہذیب کی تاریخ کے تمدنی واقعات میں اہم ترین واقعات قرار دیا جا سکتا ہے۔

حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ‘ اسلامی آرٹ کے جس بیش بہا قیمتی خزینے پر بڑا فخر کرتی ہے‘ مولانا اس کے سحر کا ذرا بھی اثر نہیں لیتے اور اس کے بارے میں بڑے محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ کا اصرار ہے کہ آلایشوں سے پاک اسلامی کلچر کو ’فائن آرٹ‘ نام کی شے سے دُور کی بھی نسبت نہیں۔ اس مخصوص پس منظر میں آپ لفظ ’حسن‘ کو عیاشی کے معنوں میں لیتے ہیں‘ جسے محلات میں عیاشانہ زندگی بسر کرنے والے رؤسا نے اپنایا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جو افراد دنیا میں اسلامی نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں‘ وہ معروف معنوں میں فتونِ لطیفہ کا ادراک نہیں کر پاتے۔

مولانا مودودی نے کھلے دل سے مساجد میں لائوڈ سپیکر کے استعمال کی تائید کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس اسلامی ماحول کے آپ متمنی ہیں‘ آپ ۱۹۳۸ء میں کہتے ہیں: ’’یہ ایجاد ان ارضی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے۔ یہ آلہ قدرتی آواز کو بلند کر دیتا ہے۔ چنانچہ شریعت کے اصولوں کے مطابق اس آلہ کا استعمال بلاشک و شبہہ جائز ہے --- کسی نوایجاد چیزکے استعمال کو مکروہ یا ناجائز ٹھیرانے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ وہ عہدِرسالت میں‘ یا عہدصحابہ میں‘ یا عہدائمہ میں موجود نہ تھی… میرا مقصد یہ ہے کہ ساینٹی فک ایجادات اور تمدن جدید کے آلات و وسائل کے متعلق مسلمان اپنا رویہ بدلیں۔ یہ آلات بجائے خود ناپاک نہیں ہیں۔ اصل میں وہ طریق استعمال ناپاک ہے جو مغرب کی باغیانہ تہذیب نے اختیار کر رکھا ہے۔ خداوندعالم نے جن چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے‘ وہ بالیقین پاک اور مطہر ہیں۔ اور ان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ ان سے خدائی قانون کے مطابق کام لیا جائے۔ مگر ان پر دہرا ظلم ہو رہا ہے‘ کہ جن کے پاس خدائی قانون موجود ہے‘ وہ ان سے کام نہیں لیتے اور جو ان سے کام لے رہے ہیں وہ شیطانی قانون کے متبع ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم)

چنانچہ مولانا زندگی بھر سائنس اور ٹکنالوجی کی کامیابیوں میں گہری دل چسپی لیتے رہے۔ ۲۰جولائی ۱۹۶۹ء کو جب چاند پر پہلا انسان اترا تو مولانا مودودی نے کہا: ’’چاندپر آدمی کا اترنا بہرحال سائنس کی ترقی کا کمال ہے۔ اس کمال کا اعتراف نہ کرنا ایک علمی اور اخلاقی بخل ہے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا‘ لاہور‘ جولائی ۲۵‘ ۱۹۶۹ئ‘ ص ۳)

مولانا مودودی کو پختہ یقین تھا کہ سائنس اور ٹکنالوجی اپنے اندر ایسی ایجادات کی حامل ہیں کہ خیر و شر میں سے جو چاہے‘ انھیں اپنے استعمال میں لے آئے کہ وہ دونوں کے لیے یکساں طور پر کارآمد ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ میکانکی ایجادات رفتہ رفتہ مجسم شر (inherently evil) میں ڈھلتی نظر آتی ہیں کہ جن میں نہ صرف ایک مسلم معاشرے‘ کلچر اور تہذیب کو ضرر پہنچے گا‘ بلکہ کسی احساس     ذمہ داری اور جواب دہی کے احساس سے عاری یہ عمل پوری نوع انسانی کے مستقبل کو سخت نقصان پہنچاتا نظر آرہا ہے۔ کیمیکل کا بے تحاشا استعمال‘ ہلاکت خیز فضلات سے اور زمینی‘ فضائی اور آبی حیات کی تباہی‘ اوزون کا شکست و ریخت سے دوچار ہونا اور دوسری بے شمار ہلاکت خیزیاں اسی بے خدا سائنس اور خالص مادہ پرستانہ ترقی کے چند مظاہر ہیں۔ بہرحال مولانا مودودی کے ہاں سائنسی ایجادات کو دیکھنے کا ایک منفرد انداز ہے۔ وہ دسمبر ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں:

’’ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے۔ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائرکٹر کو داروغۂ اربابِ نشاط یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجاے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کا کام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے  خدا کی بخشی ہوئی تمام اِن طاقتوں سے کام لیا جا رہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اگر ہم اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے… اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں‘ نہ توکوئی ارتجاعی (reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی [evolutionary] تحریک ہے جس کے پیشِ نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیشِ نظر جو تربیت گاہ ہے ‘اس کے لیے گروکل کانگڑی‘ ستیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور  اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا‘‘۔ (تنقیحات‘ ص۳۱۵- ۳۱۷)

چودہ صدی قبل پیغمبر اسلام ؐ نے مدینہ میں جو اسلامی معاشرہ تعمیر فرمایا تھا‘ اس کے بارے میںمولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں:

’’مدینہ طیبہ سے مماثلت پیداکرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسے تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجّر(fossilised) صورت میںقیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے اردگرد ایک حصار کھینچ لیں‘ جس کی سرحد میں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور درحقیقت روحِ اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثارِ قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زماں و مکاں کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے‘ ہم کو ’’خیر اُمت‘‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard)کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت ورہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر اُمت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں پوشیدہ ہے۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانین طبیعی کو قوانین شرعی کے تحت استعمال کر کے زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی۔ ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے… پس نبیؐ و اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں‘ ان کو ہم اسی طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی‘‘۔ (تنقیحات‘ ص ۳۱۳-۳۱۵)

اس پس منظر میں‘ میں کہوں گی کہ مولانا مودودی ارتقایت (evolutionism) اور ترقی پسندی (progressivism) کے حق میں بڑے پرجوش تھے اور روایت پسندانہ ماضی کے سخت   ناقد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سمیت عام لوگ گم گشتہ روایات میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں‘ جب کہ جدید مغرب (Modern West)  اپنی ہلاکت خیزیوں اور سہولت آفرینیوں کے ساتھ‘  ایک طرف جبر اور دوسری جانب جمہوریت سمیت مستقبل کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ تاہم مولانا مودودی کا ایمان ہے کہ آج بھی اگر مسلمان اللہ تعالیٰ اور سنت رسولؐ اللہ کی طرف لوٹ آئیں‘ تو    نہ صرف ان کے لیے بلکہ خود نوعِ انسانی کے لیے خیروبرکت اور امن و سکون کا سامان ہوسکتا ہے۔

چنانچہ مولانا مودودی نہ صرف سائنس کی تازہ کامیابیوں کو قبول کرتے ہیں‘ بلکہ تمام صنعتی کمالات اور ٹیکنیکل آرڈر کو امرِربی کے تابع بناکر زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جن کے ہاں کوئی تبدیلی ممکن نہیں لیکن ہم کو اپنی نظریں کھلی رکھنی چاہییں اور جو کچھ  ہم کر رہے ہیں‘ ہم کو اس کے نتائج کے بارے میں پورا شعور و ادراک ہونا چاہیے۔

دنیا کے دیگر متعدد ممالک کی طرح جمہوریہ ترکیہ میں بھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے محبت اور چاہت کا تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس رشتہ موانست کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار سید مودودی کی کتب نے ادا کیا ہے۔

ترکی میں سید مودودی مرحوم کی کتب، خطبات اور مقالات بڑے پیمانے پر شائع ہوئے ہیں۔ ان کی سوانح اور دینی خدمات سے واقفیت حاصل کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ اس لیے سید مودودی کی زندگی پر بھی متعدد بڑی چھوٹی کتب قبول عام حاصل کر چکی ہیں۔ متعدد یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ درجے کے انسٹی ٹیوٹ مولانا کی فکر کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تحقیقی مقالات اور علمی پراجیکٹ پر کام کروا رہے ہیں۔ مولانا کے علمی رشحات اور افکار پر ترکی میں کام کے پھیلاؤ کو چند صفحات میں سمیٹنا ایک مشکل کام ہے، اس لیے میں یہاں پر صرف ان کتب کا ذکر کروں گا، جنھیں ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور ترجمے کے اس کام کا کچھ پس منظر بھی بیان کروں گا۔ اپنے مشاہدات کا تذکرہ ۱۹۶۵ء سے کروں گا، جب میں ڈھاکہ (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) سے ترکی پہنچا۔

چونکہ اسکول کے زمانے ہی سے ڈھاکہ میں مجھے مولانا مودودی کی کتب پڑھنے اور ان مباحث سے گہرا تاثر لینے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی، اس لیے میرے لیے ہر ایسی خبر میں بے پناہ جوش و خروش کا سامان ہوتا تھا کہ جس میں مولانا مودودی کی کسی کتاب کے ترکی ترجمے کی اطلاع ہوتی۔

یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولانا مودودی کی متعدد کتب ترکی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ یہ تراجم ان کی انگریزی اور عربی کتب سے ہوئے تھے۔ جن میں رسالہ دینیات بھی شامل تھا۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اسلامی کتب اور اسلام کے سیاسی پہلو سے متعلق کتب کی اشاعت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی اور سیاسی کتب پر پانبدی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم ۱۹۶۰ء میں انتقال کرنے والے مذہبی رہنما بدیع الزمان سعید نورسیؒ نے اپنی نوری تحریک کے ذریعے نوجوانوں میں کافی اسلامی شعور پیدا کر دیا تھا۔ ان کے تربیت یافتہ طلبہ کو مولانا مودودی کے علمی کارناموں کا کچھ علم ہو گیا تھا۔ وہ اگرچہ زندگی کے سیاسی و اجتماعی میدان میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کا کھلا پرچار نہیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی اخلاقی اور سماجی تربیت پر ہی زیادہ زور دیتے تھے، لیکن برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں تحریک اسلامی کے خلاف بھی نہیں تھے۔ حتیٰ کہ ترکی میں مولانا مودودی اور ان کی رہنمائی میں کام کرنے والی تحریک کا ساتھ دینے والوں میں شروع شروع میں یہی طلبہ نور پیش پیش تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء کے آغاز میں استاد خلیل احمد حامدی مرحوم نے اپنے ترکی کے دورے سے متعلق ’’ترکی قدیم و جدید‘‘ کے نام سے جو سفر نامہ لکھا تھا، اس میں اس پہلو پر واضح اشارات ملتے ہیں۔

مولانا مودودی کے اردو لٹریچر کے ایک خاصے حصے کو براہ راست ترکی میں منتقل کرنے کا سہرا علی گنجے لی (Ali Genceli) کے سر ہے۔ وہ انقرہ میں ادارہ ٔ مذہبی امور کے مترجم تھے۔ ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ٹائپ رائٹر پر سید مودودیؒ کی کتب کا ترجمہ کیے جاتے تھے۔ انھوں نے پانچ سال ڈھاکہ یونی ورسٹی میں شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کے طور پر بھی فرائض انجام دیے تھے۔ وہاں ان کا تعلق زیادہ تر اردو خواں طبقے اور جماعت اسلامی سے رہا، اس طرح وہ کچھ اردو بھی سیکھ گئے تھے۔ اگرچہ وہ پوری طرح اردو بول نہیں پاتے تھے، لیکن اردو متن (text) سمجھ لیا کرتے تھے۔ ترکی واپسی پر انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عشرے کے آغاز میں پردہ، سود اور سلاجقہ کے علاوہ  خلافت و ملوکیت کا ترکی ترجمہ کیا۔ انھوں نے علامہ محمداقبالؒ کے بعض اُردو اشعار کا بھی ترکی میں منظوم ترجمہ کیا۔

مولانا مودودی کی جن کتب کا ترجمہ انہوں نے کیا، ان کی زبان ذرا زیادہ پرانی تھی۔ ترجمے میں تھوڑا نقص تھا اور بعض حصے نامکمل ترجمہ ہوئے تھے۔ مولانا کی قبولیت عام کے پیش نظر مختلف ناشروں نے مولانا مودودی کی بعض کتابوں کے ترجمے چھاپے۔ پھر کئی ناشروں نے مجھ سے ان کی کتابوں کو ترجمہ کرنے کو کہا۔ میں نے یکے بعد دیگرے ’’سیرت سرورِ عالمؐ‘‘ (دو جلدیں)، تفہیم القرآن (چھ جلدیں)، سود، سنت کی آئینی حیثیت، اسلام میں تعلیم اور مسئلہ جبر و قدر کو ترجمہ کیا۔ ان میں سے سود‘ علی گنجے لی صاحب کی کتاب پر مکمل نظرثانی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن یہ ابھی تک شائع نہیں ہو سکی ہے۔  مسئلہ جبر و قدر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان میں سے سیرت سرور عالمؐ اور سنت کی آئینی حیثیت بہت مقبول ہوئیں اور ان کے پانچ چھ ایڈیشن چھپے۔ تفہیم القرآن کا ایک ترجمہ انسان پبلشرز کی جانب سے شائع ہوا ہے۔ اس کے گیارہ بارہ ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ حال ہی میں میں نے ڈاکٹر سید اسعد گیلانی کی لکھی ہوئی سوانح حیات سید مودودیؒ کا ترجمہ کیا ہے اور یہ چھپ چکا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے آغاز میں علی گنجے لی صاحب کا انتقال ہونے کی وجہ سے ان کے مزید تراجم شائع نہیں ہوئے۔

تفہیم القرآن کے ترجمے کے سلسلے میں ایک دلچسپ صورت حال کا سامناہوا۔ یہ ۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے۔ ہلال پبلی کیشنز کے مالک صالح اوزجان صاحب نے جو عربی اچھی طرح جانتے ہیں، مولانا مودودی کے دوست ہیں اور رابطۂ عالم اسلامی کے اجلاسوں میں ان سے کئی بار مل چکے ہیں (آج کل فیصل فنانس کارپوریشن کے سربراہ ہیں)۔ انھوں نے مجھے کہا کہ تفہیم القرآن کا ترجمہ شروع کر دو۔ اس کی پہلی جلد انگریزی سے ترجمہ کیے جانے کے بعد شائع ہو چکی تھی۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے ایک دو سال گزرے تھے کہ اشاعتی ادارے، انسان پبلشرز نے پانچ چھ مترجمین پر مشتمل ایک بورڈ کے ذریعے تفہیم القرآن کی ترکی ترجمہ شدہ جلدیں ایک ایک کر کے شائع کرانی شروع کر دیں۔ یہ تراجم بھی اردو، انگریزی اور عربی کے نسخوں سے کیے گئے تھے۔ ان میں علمی اور ابلاغی سطح پر بعض خامیاں تھیں۔ مترجمین کے بورڈ میں ایک پاکستانی محمد خان کیانی بھی تھے، جنھوں نے انگریزی اور ترکی میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور روزنامہ  زمان سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے ہیں۔ دوسرے یوسف کراجا تھے، جنھوں نے بھارت میں اردو سیکھی تھی اور ترکی میں مودودی صاحب کی بعض کتابوں کو ترجمہ کرنے کے علاوہ اسلامی ادب سے متعلق مضامین وغیرہ بھی لکھتے رہے ہیں۔

صالح اوزجان صاحب نے مجھے کہا:’’ادارۂ ترجمان القرآن کو اس چیز کی اطلاع دو اور مولانا مودودی کے وارثوں سے حق ترجمہ اور حق تالیف حاصل کرنے کی کوشش کرو، تاکہ مذکورہ اشاعتی ادارے کے خلاف تادیبی کارروائی کروا کے تفہیم القرآن کی ترکی میں اشاعت رکوائی جا سکے‘‘۔ صالح اوزجان صاحب نے بتایا: ’’خود مولانا مودودی نے اپنی ساری تصانیف کے ترجمے اور اشاعت کا اجازت نامہ مجھے دیاتھا، لیکن وہ مل نہیں رہا‘‘۔ میں نے ان کے کہنے کے مطابق ادارہ ترجمان القرآن کو دو ایک خط لکھے۔ وہاں سے سید خالد فاروق مودودی صاحب کا جواب ملا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’ہلال پبلی کیشنز کے ساتھ ایک نیا سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اب تک جتنی کتابوں کے تراجم شائع کیے ہیں، اس کی ایک مکمل فہرست اور ان کی جتنی رائلٹی بنتی ہے وہ ادارہ ترجمان کو دینی ہو گی۔ اور تفہیم القرآن کے ترجمے کے لیے بھی الگ سے رائلٹی کی تفصیلات طے کی جائیں گی‘‘۔ صالح اوزجان صاحب پیسوں کے معاملے میں ذرا ہاتھ کھینچ کر چلنے والے آدمی ہیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اب لینے کے دینے پڑ جائیں گے تو اجازت وغیرہ لینے کا ارادہ فوراً ترک کر دیا۔ اس لیے معاملہ طول کھینچ گیا اور کہیں ۱۹۹۲ء میں تفہیم القرآن کی ساری جلدیں ہلال کی جانب سے چھپ سکیں۔ اس دوران میں انسان پبلشرز نے اپنے تراجم کے گیارہ، بارہ ایڈیشن شائع کیے، یاد رہے کہ ہر ایڈیشن میں کم از کم پانچ ہزار کتب چھپتی ہیں۔ لیکن تفہیم القرآن کا اردو سے براہ راست اور مکمل ترجمہ کرنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی۔

اب انسان پبلی کیشنز نے  تفہیم القرآن سے مودودی صاحب کے صرف ترجمے کا حصہ شائع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کی ذمہ داری انھوں نے مجھ پر ڈالی ہے۔ ترجمے کا حصہ شائع ہونے کے بعد اُن کا ارادہ میری نگرانی میں تفہیم القرآن کے اپنے اور ہلال کے ایڈیشنوں کے تفسیر کے متن کی نظرثانی، تدوین اور ضروری اصلاح کروا کر ایک مکمل ایڈیشن شائع کرنا ہے۔

محمد خان کیانی صاحب نے بتایا کہ :’’وہ  تفہیم القرآن کے صرف ترجمے کا حصہ انقلاب پبلی کیشنر کے لیے کر رہے ہیں اور سید خالد فاروق مودودی صاحب اور اشاعتی ادارے کے درمیان سمجھوتہ بھی ہو گیا ہے۔ کیانی صاحب اپنے تمام تر اخلاص، علم اور وسیع معلومات کے باوجود اردو سے ترکی میں براہِ راست ترجمے کا ایسا درک نہیں رکھتے، جیسا کہ وہ انگریزی زبان کا فہم اور قدرتِ تحریر رکھتے ہیں۔ 

ترکی میں مولانا مودودی کی تمام تصانیف ترجمہ نہیں ہو سکی ہیں، اس کے باوجود ترجمہ ہونے والی کتب کی تعداد ۳۰ کے قریب ہے۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے ۱۹۶۰ء کے عشرے کے بعد ترکی کے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں مولانا مودودی لندن سے واپسی پر استنبول میں صالح اوزجان صاحب کے مہمان بنے اور انھوں نے انجمن قومی طلبہ کے ہال میں ایک جلسہ بھی منعقد کیا۔ سیاسی طور پر سعید نورسی کے بعد پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی سربراہی میں جو قومی اور اسلامی تحریک شروع ہوئی، اس کے بعض سربرآوردہ رہنما مولانا مودودی کی تحریک احیائے اسلام کو سراہتے ہیں۔ خود اربکان صاحب کے جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ گہرے نیازمندانہ مراسم ہیں۔ وہ کئی بار پاکستان آئے ہیں اور جماعت کے قائدین وغیرہ سے مل چکے ہیں۔

ترکی میں اسلامی تحریک نے ۱۹۹۵ء میں ایک بڑا ارتقائی قدم بڑھایا اور مسند اقتدار کو بھی سنبھالا۔ آج کل وزیراعظم رجب طیب ایر دوغان اور وزیرخارجہ عبداللہ گل کے علاوہ انصاف اور ترقی پارٹی کا تعلق اربکان صاحب ہی کی ماضی کی جماعتوں سے ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل یہ جماعت اگرچہ اپنے نظریات میں بعض تبدیلیاں لانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن بنیادی طور پر اسلامی شعائر اور اسلامی نظریہ حکومت و ریاست سے منحرف نہیں ہے۔ یہ ۳۵ فی صد ووٹوں کے ذریعے اسمبلی میں ساٹھ فی صد سے زیادہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے ۳۶۵ ممبران پارلیمنٹ کی مالک ہے اور آئین میں دوتہائی اکثریت سے آسانی سے تبدیلی کر سکتی ہے۔ ایسی پارلیمانی طاقت ۱۹۵۰ء کے بعد کسی بھی سیاسی اقتدار کو حاصل نہیں ہوئی۔ سیاسی سطح کے علاوہ سماجی اور ثقافتی میدان میں بھی پاکستان کی تحریک اسلامی کا اثر بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔

خصوصاً پچھلے بیس سال میں عورتوں میں پردہ اور اسلامی شعائر کی پابندی کا جو شعور پیدا ہوا ہے وہ درحقیقت مولانا مودودی کی تحریروں کا مرہون منت ہے۔ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کی تصنیفات اور خدمات سے متاثر ہوا ہے۔ استنبول میں ’’اکیسویں صدی اور اسلامی ممالک کے مسائل‘‘ پر ایک بین الاقوامی سمپوزیم ترکی کے مذہبی امور کے وقف کی جانب سے استانبول میں منعقد ہوا تھا، جس میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد (وائس چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد) تشریف لائے تھے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں مولانا مودودی اور ان کے اسلامی ریاست کے آئیڈیل کا بھی ذکر کیا تھا۔ انیس احمد صاحب نے بعد میں شہر بُرصہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کی جو مولانا مودودی کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ یہ جلسہ بہت ہی کامیاب رہا تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ ڈاکٹر انیس احمد کے علاوہ اردو، ترکی اور انگریزی جاننے والے پانچ چھ حضرات نے تقریر کی تھی جن میں عبدالحلیم بیراشک اور محمدخان کیانی وغیرہ شامل تھے۔ انھوں نے مولانا اور ان کے مختلف کارناموں کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا۔ وہاں مولانا کی بعض نادر تصاویر کی نمائش بھی ہوئی۔ ترک دانشوران اور مصنفین میں سے علی بولاچ، یوسف کراجا، یوسف کپلان، تورحان کشلاک چی بھی مولانائے موصوف پر کام کرنے والوں میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔

ذیل میں مولانا مودودی کی ترکی میں شائع شدہ کتب کے اردو اور ترکی میں نام درج کیے جارہے ہیں:

۱- تفہیم القرآن، ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ بنگی سو، ہلال یاین لاری، کئی ایڈیشن

1. Tefhim-ul-Kur'an, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Bengisu-Hilala Yayinlari

۲- تفہیم القرآن ترجمہ بورڈکا ترجمہ۔ انسان پبلی کیشنز

2. Tefhim-ul-Kur'an, tr. Heyet, Insan Yayinlari.

۳- سیرت سرور عالمؐ: ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ پنار یاین لاری (پبلشر)

3. Tarih Boyunca Tevhid Mucadelesi-ve-Hz. Peygamber,  tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Pinar Yayinlari

۴- سنت کی آئینی حیثیت: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔بنگی سو پبلشرز

4. Sunnetin Anayasal Niteligi, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Bengisu Yayinlari

۵- اسلام میں تعلیم: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ہلال پبلشرز

5. Islam ve Egitim, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Hilal Yayinlari

۶- خلافت و ملوکیت: ترجمہ، علی گنجے لی، ہلال پبلشرز

6. Hilafet ve Saltanat, tr. Ali Genceli, Hilala Yayinlari

۷- رسائل و مسائل، جلد اوّل۔ نہریاین لاری (پبلشرز)

7. Fetvalar-Nehir Yayinlari

۸- قرآن مجید: ترجمہ اور تفسیر (تفہیم القرآن) ۔ بیرلشیک پبلشرز

8. Yuce Kuran-I-Kerim, Meal ve Tefsiri-Birlesik Yayinlari

۹- قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: بیان پبلشرز

9. Kur'an gore Dort Terim, Beyan Yayinlari

۱۰- دعوت اسلامی: بیرلیشک پبلشرز

10. Islam'in Cagrisi - Birlesik Yayinlari

۱۱-اسلام کا سیاسی نظام: اوزگن پبلشرز

11. Islam'da Siyasi Sistem - Ozgun Yayinlari

۱۲- تحریک اسلامی کے بنیادی عناصر: نہیر پبلشرز

12. Islami Hereketin Dinamikleri - Nehir Yayinlari

۱۳- آئیے اس دنیا کو بدل ڈالیں: اوزگن پبلشرز

13. Gelin Bu  Dunya'yi Degistirelim - Ozgun Yayinlari, Cizgi Yayinlari

۱۴ -  اسلامی ثقافت۔ دنیا پبلشرز

14. Islam Medeniyeti - Dunya Yayinlari

۱۵- خطبات: ترجمہ، علی گنجے لی جلد اول، ہلال پبلشرز

15. Hitabeler, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۱۶- پردہ : علی گنجے لی، ہلال پبلشرز

16. Hicab, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۱۷-  قرآن میں فرعون ۔ چزگی پبلشرز

17. Kur'an'da Firavun Cizgi Yayinlari

۱۸- قرآن کو ہم کیسے سمجھیں: اشارت پبلشرز

18. Kur'ani nasil Anlayalim?, Isaret Yayinlari

۱۹- اسلام میں تحریک احیائے دین: نیار پبلی کیشنز

19. Islam'da  Ihya Hareketleri, Pinar Yayinlari

۲۰- اسلام کی جانب پہلا قدم (دینیات):  انقلاب پبلشرز

20. Islam'a Ilk Adim, Inkilap Yayinlari

۲۱- اسلامی ریاست: ترجمہ، علی گنجے لی (اسلامی حکومت)۔ ہلال یاین لاری

21. Islam'da Hukumet, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۲۲- تفہیم القرآن سورۂ نور اور الفاتحہ : ہلال پبلی کیشنز

22. Tefhim-ul Kur'an (Nur ve El-Fatiha Sureleri), Hilal Yayinlari

۲۳- رسالہ دینیات: ہلال پبلشرز

23. Islam'in Anlasiilmasina Dogru, Hilal Yayinlari

۲۴- سلاجقہ : ترجمہ، علی گنجے لی۔ ہلال پبلشرز

24. Selcuklular, tr: Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۲۵- سید مودودی۔ اسعد گیلانی: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار،ہلال پبلشرز

25. Mevdudi' nin Hayati, Esad Gilani, Hilal Yayinlari

جاپان میں مولانا مودودیؒ کے نام اور کام کو مختلف شکلوں میں پہلی مرتبہ متعارف کروانے والوںمیں نمایاں طور پر دو افراد قابل ذکر ہیں: ایک ہیں عبدالرحمن صدیقی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر صالح مہدی سامرای۔

عبدالرحمن صاحب جاپان آنے سے پہلے پاکستان میں مولانا مودودی کے لٹریچر کا مطالعہ کرچکے تھے‘ اور کراچی سے جماعت اسلامی کے ہمدردوں میں شامل تھے۔ یہ پاکستان سے ۳، ۴ سال کے ایک تعلیمی اسکالرشپ پر جاپان آئے تھے اور یہاں کی مشہور یونی ورسٹی ’ہی تونسوباشی‘ جو کامرس کی اختصاصی تعلیم کے لیے جاپان میں طرۂ امتیاز رکھتی ہے، اس سے بی کام کر کے پاکستان واپس چلے گئے تھے۔

دوسرے فرد عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرای تھے۔ صالح مہدی جاپان آنے سے پہلے پاکستان میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے زرعی کالج (اب یونی ورسٹی) سے گریجویشن کرچکے تھے۔ عراق میں وہ اخوان المسلمون سے وابستہ رہے تھے۔ اسی لیے مولانا مودودی کے نام اور کام میں انھیں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوئی تھی۔ ملاقاتوں اور پروفیسر خورشیداحمد صاحب سے رابطے کا موقع بھی ملا تھا اور انھوں نے مولانا کی کتب کے تقریباً تمام انگریزی‘ عربی تراجم پڑھ لیے تھے۔ صالح اس زمانے میں یہاں ٹوکیو یونی ورسٹی سے زراعت کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے۔

عبدالرحمن صدیقی صاحب نے اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ڈاکٹر صالح سامرای کے ساتھ شمع فکر مودودی کو تابناک رکھا۔

ڈاکٹر صالح سامرای کی اعانت سے مولانا مودودی کی کتاب دینیات کا جاپانی ترجمہ ۱۹۶۵ء سے قبل اشاعت پذیر ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ اسلامک سنٹر جاپان کی طرف سے زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت اور مولانا مودودی کے دوسرے بہت سارے مضامین بھی شائع کیے۔ ان کا ایک  سہ ماہی علمی نوعیت کا رسالہ کئی سالوں سے  اسلام کے نام سے جاپانی زبان میں چھپتا رہا۔ اس میں مولانا کے کئی مضامین کے ترجمے شائع ہوئے۔

۱۹۶۵ء میں میرے جاپان آنے سے پہلے تبلیغی جماعت کے ایک فرد مرحوم حاجی ارشد صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے دو افراد کو تیار کیا تھا، جنھوں نے بعدازاں جاپان میں دعوتِ اسلامی کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ارشد مرحوم، پاکستان ’’پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف‘‘ محکمہ کے چوٹی کے افسروں میں سے تھے۔وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محکمہ کی فنی ٹریننگ کے لیے جاپان آئے تھے۔ ان کا ذہن چونکہ دعوتی نوعیت کا تھا، اس لیے انھوں نے انفرادی طور پر مختلف افراد کو اپنے دوران قیام متاثر کیا تھا۔ ان میں ایک تو حاجی عمر میتا جاپانی مسلمان تھے۔

حاجی ارشد مرحوم نے حاجی عمر میتا کو قرآن کریم کے جاپانی ترجمہ کے لیے آمادہ کیا اور     ڈاکٹر صالح مہدی سامرای کو جاپان میں مستقل دعوتِ اسلامی کے کام کے لیے تیار کیا۔ ڈاکٹر سامرای نے کہا: ’’میرے پاس تو وسائل کچھ نہیں  ہیں، میں اکیلا بھلا کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ حاجی ارشد مرحوم نے تبلیغی جماعت والوں کا ایمان پرور جواب دیا: ’’ دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ سے دعا مانگو، اللہ سب کچھ کر دے گا‘‘۔ چنانچہ یہی ہوا کہ بعد میں چل کر ڈاکٹر سامرای جاپان میں ایک بہت بڑے اسلامک سنٹر کے بانی بنے۔ انھی ڈاکٹر سامرای نے کویت کی وزارت اوقاف سے دینیات کے ترجمہ و اشاعت کے اخراجات کا انتظام کیا تھا۔ اسی انتظام کے تحت گذشتہ چالیس سال سے دینیات کے کئی ایڈیشن شائع ہوکر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یوں ہزاروں جاپانی، فکر مودودی سے متعارف ہوئے ہیں۔

حاجی عمر میتا کے جاپانی ترجمہ قرآن کے لیے بھی ڈاکٹر سامرای ہی نے رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے ماہوار ڈیڑھ یا دو ہزار ڈالر کا وظیفہ مقرر کرایا تھا‘تاکہ وہ اپنی بقیہ ساری زندگی ترجمہ قرآن کے لیے صرف کریں۔ اس ترجمہ قرآن میں مولانامودودی کی تحریر کے اثرات اس طرح پڑے کہ ترجمہ قرآن کے معیار کو برقرار رکھنے اور مفہوم کو ٹھیک ٹھیک جاپانی میں منتقل کرنے کے لیے     سعودی سفارت خانے نے ایک کمیٹی مقرر کی۔ جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر مرحوم عبدالکریم سائتو، ترک ایسوسی ایشن کے صدر جناب اپنائے صاحب اور مجھے اس میں شامل کیا گیا۔ حاجی عمر میتا صاحب اپنا جاپانی ترجمہ لے کر ہر اتوار کو ٹوکیو مسجد آتے تھے۔ ہم کمیٹی کے افراد اس دن جمع ہو کر ٹوکیو مسجد کی بازو والی عمارت (جو کبھی ترک اسکول کے لیے استعمال ہوتی تھی، اور بعد میں ٹوکیو مسجد کے موذن مرحوم مینان صفا کی رہایش اور ترک ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں اور پارٹیوں کا مرکز تھی) میں عبدالکریم صاحب کے اس ترجمہ کا جائزہ لیتے تھے۔

میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن لے کر بیٹھتا تھا اور تفہیم القرآن کی تشریحات مرحوم حاجی عمرمیتا صاحب کو بتایا کرتا۔ اس طرح جاپانی زبان میں قرآن کے اس پہلے ترجمہ میں فکرمودودی کے اثرات پہنچے۔ حاجی عمر میتا نے بنیادی طور پر صرف ترجمے کا کام کیا‘ کیونکہ تشریحات پر توجہ کرنا ان کے کام میں شامل نہیں تھا۔ اس سے پیش تر قرآن کے پانچ چھ ترجمے یہاں کی مشہور پبلشنگ کمپنی اوانامی کی طرف سے شائع ہو چکے تھے، لیکن یہ سب غیر مسلم اسکالرز نے کیے تھے۔ ان تراجم میں انتہائی فاش غلطیاں تھیں۔ مسلمانوں کی طرف سے کوئی مستند ترجمہ موجود نہیں تھا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی طرف سے کوئی مستند ترجمۂ قرآن جلد از جلد سامنے لایا جائے۔

تقریباً پانچ سال تک ہر ہفتہ اس کمیٹی کی میٹنگ میں مرحوم حاجی عمر میتا صاحب کے ترجمہ کا جائرہ لیا جاتا رہا اور ان پانچ سالوں میں تفہیم القرآن کے اثرات بھی اس ترجمے میں جا بجا شامل ہوئے۔ اس کے بعد اس کی جانچ پڑتال کے لیے سعودی سفارت خانہ نے مجھے اور حاجی عمر میتا کو دو، تین ماہ کے لیے سعودی عرب بھیجا۔ یہ غالباً ۱۹۷۰ء کے لگ بھگ کی بات تھی۔ میں، حاجی عمر میتا صاحب کی، پاکستان میں جماعت اسلامی کے مختلف افراد سے ملاقاتیں کرواتا ہوا انھیں اپنے ساتھ سعودی عرب لے گیا۔ چند ہفتے ہم لوگ مکہ مکرمہ کے ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ پھر گرمی کی وجہ سے حاجی عمر میتا کی خواہش پر ہمیں طائف کے ایک ہوٹل میں ٹھیرایا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے مقرر کردہ علما ہمارے ہاں آتے تھے اور قرآن کریم کے مختلف چیدہ چیدہ مضامین کے جاپانی ترجمے کا انگریزی میں ترجمہ مجھ سے پوچھتے تھے، اور جو کچھ حاجی عمر میتا صاحب نے جاپانی میں ترجمہ کیا ہوا تھا، میں انھیں انگریزی میں بتاتا جاتا تھا۔ الحمدللہ کسی ایک مقام پر بھی انھیں کسی ترمیم یا اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور انھوں نے اس ترجمہ کو سندِ قبولیت عطا کی۔ اس کے بعد میں تو واپس چلاگیا لیکن حاجی عمر میتا چند ماہ سعودی عرب میں مقیم رہے۔

اس دوران چند جاپانی طلبہ جو سعودی عرب کے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، انھوں نے بھی اس ترجمہ کو دوبارہ بنظرِغائر دیکھا۔ یہی ترجمہ‘ رابطہ نے شائع کیا۔ پہلے بغیر عربی والا ایڈیشن اور پھر دوسرا ایڈیشن، داہنی طرف عربی اور بائیں طرف ہر آیت کا جاپانی ترجمہ اور کہیں کہیں نیچے جاپانی زبان میں حاشیے۔ یہی مستند اسلامی ترجمہ قرآن سارے جاپانی مسلمانوں اور غیرمسلم جاپانی اسکالروں کے استعمال میں ہے۔ جاپان مسلم ایسوسی ایشن تقریباً ۲۹ ڈالر یا ۳۵۰۰ ین کے عوض اس کو فروخت کرتی ہے۔

پورے جاپان میں یہی ایک ترجمہ قرآن ہے۔ اس کے بعد اوا کمپنی نے بھی پرانے ترجموں کی اشاعت تقریباً بند کر دی ہے، جو پہلے غیر مسلم جاپانی اسکالرز نے کیے تھے۔ یہ ترجمہ اب اتنا معروف ہو چکا ہے کہ روزانہ کم از کم ۲۰۰ سے یعنی ماہوار چھ سے ۹ہزار اور سالانہ ۷۲ ہزار سے ایک لاکھ سے زائد جاپانی‘ انٹرنیٹ پر اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں، جس پر یہ ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک جاپانی مسلمان جو ملایشیا اور لیبیا سے دینی علوم میں فارغ التحصیل ہیں، انھوں نے اپنی ویب سائٹ پر اس ترجمے کو ڈالاہوا ہے، اور ساتھ ساتھ ہر آیت کی تلاوت کی آواز کی فائل بھی لگائی ہوئی ہے، تاکہ ہر جاپانی جو عربی نہیں پڑھ سکتا، وہ اس عربی تلاوت کو سن کر اسے یاد کر سکتا ہے۔ مرحوم حاجی عمر میتا کو اپنی قبر میں کتنا ثواب پہنچ رہا ہو گا کہ روزانہ دو تین سو افراد ان کا ترجمہ پڑھ کر انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کروانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

میری بدقسمتی ہے کہ آج تک تفہیم القرآن کی پوری چھ جلدوں کا جاپانی میں ترجمہ     نہیں کرسکا‘ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے‘ جب کہ جاپان سے لاہور آنے کے بعد اچھرہ میں     مولانا مودودی کے کمرہ میں بیٹھا تھا۔مولانا نے مجھے اس شرفِ ملاقات میں تفہیم القرآن کے جاپانی ترجمے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں جاپان میں اس کے کاپی رائٹ آپ کو دیتا ہوں‘‘۔ مولانا کے اس اعتماد اور توقع پر میں ابھی تک پورا نہیں اتر سکا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے صرف سورۃ فاتحہ کے حواشی کا ترجمہ کر کے اپنے ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔ اس کو اسلامک سرکل آف جاپان نے اپنے سہ ماہی رسالہ نوید سحر میں دو قسطوں میں شائع کیا ہے۔ اس کو پڑھنے والے جاپانی مسلمان اور جاپانی مسلم خواتین اس طرح کی تشریحات کو بہت پسند کر رہے ہیں۔

چند سال پہلے جب میں نے یہ سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا تو کوبے مسجد کے ازہر سے آئے ہوئے مرحوم مصری امام محمد نے مجھے اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر اس کام پر ہمہ وقت لگ جانے کے لیے آمادہ کیا تھا اور کویت کے وزارتِ اوقاف کے نمائندے سے تعارف اور ملاقات بھی کروا دی تھی‘ لیکن قبل اس کے کہ اس کام کی منظوری وہاں سے آتی‘ امام محمد صاحب کا انتقال ہو گیا اور یہ پراجیکٹ ادھورا رہ گیا۔ امریکہ میں اسلامک سرکل کے نیویارک کے ساتھیوں نے بھی کچھ عزم کیا تھا لیکن وہ بھی خاموش ہو گئے اور میں غم روزگار میں الجھ کر اس کام کے لیے اپنے آپ کو فارغ نہیں کر سکا۔

اگر یہ پراجیکٹ آگے بڑھ سکے تو جاپان میں مولانا مودودی کے علمی کام کی جڑ انتہائی مضبوط ہوجائے گی۔ بہت سے ایسے لوگ جو تحریک اسلامی کے ساتھی نہیں ہیں‘ وہ اپنی جاپانی مسلمان بیویوں اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ جاپانی زبان میں قرآن کی تشریح کے لیے کتنے مشتاق اور مضطرب ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان جو پاکستان میں کسی بزرگ پیر کے مرید بھی ہیں، ایک رات  نوید سحر کا ایک شمارہ لے کر میرے پاس آئے اور دکھاتے ہوئے کہا: ’’مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ میری اہلیہ نے پڑھا اور بہت پسند کیا ہے‘‘۔ ان کی اطلاع سے پہلے مجھے اس کی خبر نہیں تھی کہ ہماری ویب سائٹ سے یہ ترجمہ لے کر نوید سحر نے شائع کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی جو ٹوکیو میں ایک بڑی مسجد کے روحِ رواں ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کی جاپانی اہلیہ نے یہ ترجمہ پڑھا ہے اور وہ بہت دعائیں دے رہی ہیں کہ انھیں اس کے ترجمہ قرآن سے اسلام کی بعض بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔

دراصل جاپان کی مقامی آبادی میں مردوں سے زیادہ خواتین مسلمان ہوئی ہیں۔ یہاں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور عرب ملکوں کے مسلمانوں کا مستقل ویزا حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی جاپانی خاتون سے شادی کریں۔ صرف اسی صورت میں وہ جاپان میں مستقل طور پر روزگار کے لیے رہ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر مسلمان جو یہاں مستقل رہنا چاہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جاپانی خاتون کو مسلمان کر کے اس سے شادی کرتے ہیں اور چونکہ یہ خاتون نو مسلمہ ہوتی ہے، اس لیے ہمارے ان بھائیوں کو اپنے سے زیادہ اپنی اہلیہ اور ان کے ذریعے اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم و تربیت کی فکر رہتی ہے۔ غالباً اس طرح کی پانچ چھ ہزار جاپانی مسلمان خواتین ہوں گی اور میرے خیال میں انھی کی اکثریت وہ ۲۰۰/ ۳۰۰ افراد کی شکل میں روزانہ حاجی عمر میتا کے ترجمہ قرآن کے ویب سائٹ کو دیکھتی ہیں۔ دوسری اسلامی کتابیں بھی جاپانی زبان میں موجود ہیں، لیکن ہر نو مسلم جاپانی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح قرآن کو پہلے سمجھے۔ اس تناظر میں تفہیم القرآن جیسی کتاب کی جاپانی میں جلد از جلد ترجمہ کی اہمیت شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

مرحوم امام محمدمصری کے مشورے کے مطابق میں تفہیم القرآنکے آخری پارہ عم کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ تیسویں پارے کے سورۂ فلق اور سورۂ والناس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ مرحوم امام محمد بھی مولانا مودودی سے بہت متاثر تھے۔ یہ جامعہ ازہر کی طرف سے تین سال کے لیے کوبے مسجد کی امامت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ جاپان ہی میں رہے، کیونکہ جاپان میں دعوت اسلامی کی اہمیت ان کے پیش نظر تھی۔ ان کی لائبریری میں میں نے مولانا مودودی کی بہت ساری کتابوں کے عربی اور انگریزی ترجمے دیکھے۔ مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ترجمے اور کتب بھی ان کے زیر مطالعہ رہیں۔

شاہ فیصل نے جب جاپان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کا ایک وفد ان سے ملنے گیا، جس میں میرے علاوہ مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو اور کچھ دوسرے مسلمان رہنما شامل تھے۔ ہم لوگوں نے اس وقت ٹوکیو میں شاہ فیصل کے سامنے جاپان میں مسلمانوں کی تنظیم و یکجہتی اور دعوت اسلام کے فروغ کے لیے جو تجاویز رکھی تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر صالح مہدی سامرای کو اسلام کے مبلغ کے طور پر سعودی حکومت کے خرچ پر جاپان واپس بھیجا جائے۔ کیونکہ اس وقت تک وہ ٹوکیو یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جاپان سے واپس چلے گئے تھے، اور سعودی عرب کی جدہ یونی ورسٹی میں شعبہ زراعت کے پروفیسر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔

 اس طرح جب ڈاکٹر سامرای دوبارہ جاپان واپس آئے تو انھوں نے عربوں سے چندہ جمع کر کے کئی لاکھ ڈالر کا ایک اسلامک سنٹر تعمیر کیا۔ پھر ڈاکٹر سامرای ہماری درخواست پر پاکستان گئے اور وہاں سے عبدالرحمن صدیقی کو جاپان لے کر آئے۔ عبدالرحمن صدیقی صاحب نے ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۹ء تک یہاں پر اسلامک سنٹر میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان دونوں افراد کی وجہ سے اسلامک سنٹر کی ساری سرگرمیوں میں فکر مودودی مختلف انداز میں اپنے اثرات دکھاتی رہی۔

مولانا کے کئی چیدہ چیدہ مضامین ان کے سہ ماہی رسالہ اسلام میں شائع ہوئے اور آج بھی جاپانی زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کیے جاتے ہیں۔عبدالرحمن صدیقی صاحب نے مولانا مودودی کے ۱۴فکرانگیز کتابچے بھی شائع کر کے مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔ رسالہ دینیات کو بھی چھپوا کر اہتمام کے ساتھ ہر سال دل چسپی رکھنے والے جاپانیوں میں مفت تقسیم کرنے کا سامرای صاحب اور صدیقی صاحب نے نظامِ کار بنایا۔ اب اسلامک سرکل آف جاپان نے جاپان مسجد فاؤنڈیشن کے تحت بھی اسے شائع کیا ہے ۔ مولانا مودودی کے خطبے سلامتی کا راستہ کا جاپانی ترجمہ مساجد میں مفت تقسیم ہوتا ہے۔

مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ختم ہو گئی تو اس کی جگہ جاپان مسلم ایسوسی ایشن بنی، جو اس وقت سے اب تک یعنی گذشتہ تقریباً چالیس سال سے دعوت اسلامی کے کام میں کسی نہ کسی شکل میں مشغول ہے۔ اس میں فکر مودودی کی سرایت کی ایک شکل تو یہ رہی ہے کہ اس فکر کے علم بردار غیر جاپانی مسلمان اس کی قیادت میں شامل رہے۔ کافی عرصے تک اس کے صدر ایک جاپانی بزرگ مسلمان پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے اور میں ان کے ساتھ سیکرٹری جنرل رہا اور ڈاکٹر سامرای صاحب اس کے ڈائریکٹروں میں رہے۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ جاپانی اور غیر جاپانی مسلمان سارے اکٹھے ہو کر جاپان میں دعوت اسلامی کا کام کریں۔ چنانچہ ہم سب لوگوں نے مل کر قرآن کے پہلے جاپانی ترجمے کی اشاعت اس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کروانے کی شروعات کیں۔

ابتدا میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے بعد جاپان مسلم ایسوسی ایشن ہی کافی عرصہ تک مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت رہی۔ مجھے جاپان آنے کی دعوت دینے والی جماعت بھی یہی تھی۔ جب عبدالرحمن صدیقی صاحب کی طالب علمی کا دور ختم ہوا، اور انھوں نے پاکستان واپسی کا ارادہ کر لیا تو ان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ پاکستان سے کسی ایسے فرد کو تلاش کر کے جاپان بھیجیں جو اس ملک میں دعوت اسلامی کے کام کے لیے ہمہ وقت کارکن بن کر مستقل یہیں سکونت اختیار کر سکے۔ اتفاق سے یہ مشرقی پاکستان میں ایک کمپنی میں افسر بن کر چٹاگانگ آئے۔ اس وقت میں بھی چٹا گانگ میں اٹلی کی ایک کار کمپنی کا منیجر تھا۔ دونوں کے دفاتر قریب ہونے کی وجہ سے ان سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور انھوں نے مجھے جاپان جانے پر آمادہ کیا۔ اس وقت مجھ پر چٹاگانگ حلقہ کی جماعت کی طرف سے مزدوروں میں کام کرنے کی ذمہ داری تھی۔ الحمد للہ ہمارا اسلامی گروپ چٹاگانگ ریلوے یونین کی قیادت سے بیس سالہ دیرینہ کمیونسٹ لیڈروں کو انتخابات میں شکست دے کر اپنے ہاتھوں میں اس کی باگ ڈور لینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ان حالات میں توقع نہیں تھی کہ مجھے چٹاگانگ حلقہ کی جماعت اسلامی کی طرف سے جاپان جانے کی اجازت ملے گی۔ لیکن امیر حلقہ مرحوم عبدالخالق صاحب نے خلاف توقع اس کی اجازت دے دی اور میری جگہ پروفیسر عثمان رمز (مرحوم) کو ڈھاکہ سے چٹاگانگ بلا کر مزدوروں کی ذمہ داری سپرد کی۔ مولانا مودودی نے بھی اس اقدام کے حق میں مشورہ دیا۔      یہ بات بعد میں بنگلہ دیش کے امیر عباس علی خان صاحب نے اپنی ایک کتاب میں اس طرح لکھی: مولانا مودودی نے حسین خاں کو جاپان دعوت اسلامی کے کام کے لیے بھیجا تھا۔

اس وقت جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے۔ انھی کے دعوت نامے اور گارنٹی کی بنا پر مجھے اور میری اہلیہ اور بچوں کو جاپانی سفارت خانہ سے ایک سال والا ویزا ملا تھا جس میں ہر سال توسیع ہو سکتی تھی۔ ٹوکیو ایرپورٹ پر میرا استقبال کرنے والوں میں پروفیسر سائتو کے علاوہ ڈاکٹر سامرای، ٹوکیو مسجد کے ترک امام و موذن وغیرہ سب مسلمانوں کے نمایندے شامل تھے۔

ان دنوں میں جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پر میری سرگرمیوں میں ایک اور قابل ذکر بات مولانا مودودی کی رہنمائی تھی۔ وہ اس طرح کہ جاپان میں دعوت اسلامی کے کام کے سلسلے میں مولانا مودودی نے ایک خط میں مجھے کچھ ہدایات لکھ کر بھیجی تھیں۔جاپان آنے کے بعد میں پریشان تھا کہ یہاں پر دعوت کا کام کن خطوط پر کیا جائے۔ ایک ریٹائرڈ میجر‘ لندن سے ایک قادیانی مبلغ بن کر جاپان آئے تھے۔ یہ ٹوکیو کے ایک بڑے سٹیشن شی بویا پر حاچی کو میں پمفلٹ بانٹا کرتے تھے۔ یہاں ایک پارک کتے کے مجسمے کی وجہ سے مشہور ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے اس جگہ پر وقت دیتے ہیں اور پھر یہاں سے قریب ہی کسی ریسٹورنٹ یا کافی شاپ جا کر باتیں کرتے ہیں۔ یہاں پر چونکہ ہمیشہ کچھ لوگ ایک دوسرے کے انتظار میں کافی دیر تک کھڑے رہتے ہیں خصوصاً نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس لیے یہاں پر کوئی پمفلٹ بانٹا جائے تو لوگوں کے پاس اپنے انتظار کی گھڑیاں کاٹنے کے لیے اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پمفلٹ پڑھ لیں۔ چنانچہ قادیانی میجر صاحب اپنے ’’خود ساختہ اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ لکھ کر لاتے تھے اور اسے پمفلٹ کے طور پر تقسیم کیا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرا کہ کیا مجھے بھی صحیح اسلام کے پمفلٹ لکھ کر بانٹنا چاہیے یا کوئی اور طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟

اس کے علاوہ دعوت کے کام کے طریقہ کے بارے میں دوسرے لوگوں کو دیکھ کر کچھ اور سوالات بھی ذہن میں ابھر رہے تھے۔ نئے مذاہب کے علم بردار ‘دل چسپی رکھنے والوں سے ان کے گھروں پہ جا کر اپنے مذاہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ اسی طرح کی بہت ساری تجویزیں ذہن میں آ رہی تھیں کہ جاپان میں دعوتِ اسلامی کے کام کو کس نہج پر اٹھایا جائے۔ اسی سلسلے میں میں نے مولانا کو ایک تفصیلی خط لکھ کر ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

مولانا مودودی کے جواب کا خلاصہ یہ تھا: ’’جاپانیوں میں سے کچھ مسلمانوں پر خصوصی توجہ  دے کر انہیں کارکن بنایا جائے ا ور مسلم ملکو ں میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں بھیجا جائے‘‘۔

مولانا کی اس ہدایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اور پروفیسر عبدالکریم سائتو صاحب نے مختلف مسلم سفارت خانوں اور مصر، لیبیا اور سعودی عرب کے دینی اداروں سے روابط قائم کرکے نئے نئے مسلمان بننے والے جاپانیوں کو اسکالرشپ دلانے اور انہیں جامعہ ازہر، مدینہ یونی ورسٹی اور علوم دین کے دوسرے مراکز اور مدرسوں میں بھیجنے کی کوشش کی۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر واپس جاپان آنے والوں کو اسلامک سنٹر میں ہمہ وقتی کارکن یا مشنری کے طور پر رکھنے کے لیے بھی تجویز دی تھی، لیکن اسلامک سنٹر کے سربراہ اس کوشش میں ناکام رہے یا تو انھوں نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی یا ان دوچار جاپانیوں کو جنھوں نے ان مقاصد کے لیے اسلامک سنٹر کی ملازمت اختیار کی، وہ ان کو مطمئن نہیں رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس طرح کے فارغ التحصیل افراد کی صورت میں بیش تر افرادی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ لیکن جو چند افراد لگے رہے انھوں نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کی طرف سے کچھ ترجمے یا اوریجنل کتابیں شائع کی ہیں، جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر صحیح مسلم کی احادیث کا تین جلدوں میں مکمل ترجمہ ہے۔ خلافتِ راشدہ اور سیرۃ صحابہ ؓ پر بھی عربی مآخذ سے ان لوگوں نے کچھ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اس طرح فارغ التحصیل جاپانیوں کی طرف سے جاپان مسلم ایسوسی ایشن میں جو کچھ بھی کام ہو رہا ہے اس میںمولانا مودودی کی اس ہدایت کو کسی نہ کسی حد تک دخل حاصل ہے، جو انھوں نے اپنے ایک خط میں مجھے دی تھی کہ انہیں مسلم ممالک کے دینی اداروں میں بھیجا جائے۔

جاپان مسلم ایسوسی ایشن اور اسلامک سنٹر اس وقت جاپان میں بھی دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تیس چالیس سال قبل ان کے قیام کے وقت جو کچھ بھی فکر مودودی کے اثرات ان پر پڑے تھے‘ اس کا جائزہ لینے کے بعد دو اسلامی تنظیموں کا ذکر ازبس ضروری ہے جو اٹھی ہی مولانا مودودی کی تحریروں سے دعوتی شعور لے کر ہیں۔ ان میں ایک کا نام ہے اسلامک سرکل آف جاپان اور دوسری کا اسلامک مشن جاپان۔

انھیں آپ پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی جاپان میں تحریک اسلامی کہہ سکتے ہیں۔ اول الذکر کے سب پروگرام اردو میں ہوتے ہیں اور موخر الذکر کے بنگالی میں۔ اسلامک سرکل آف جاپان اور اسلامک مشن جاپان، دونوں کے سرگرم کارکنوں کی تعداد سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان رہتی ہے۔ کیونکہ ہر سال کارکنوںکی ایک بڑی تعداد اپنے ملک واپس چلی جاتی ہے۔ پاکستان یا بنگلہ دیش جا کر ان میں سے کچھ تو معاشرے میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور صرف انتخابات کے زمانے میں ووٹر بن جاتے ہیں اور کچھ واپس جا کر اور زیادہ سرگرم کارکن بن جاتے ہیں۔ اس کی وہی صورت حال ہے کہ جو اسلامی جمعیت طلبہ کی ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعلیمی زندگی کے بعد حصولِ معاش اور یا شادی کے مراحل میں ضائع ہو جاتے ہیں، لیکن بالعموم ووٹر کے مقام سے نیچے نہیں گرتے اور کبھی زندگی کی اونچ نیچ کے کسی موڑ پر یکایک سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کی گھُٹی میں پڑا ہوا تحریک اسلامی کا مزاج کبھی یکایک رنگ لے   آتا ہے۔

جاپان میں آمد کے ابتدائی زمانے میں، میں نے یہاں کے مسلم سفیروں سے بھی کچھ ذاتی روابط پیدا کیے تھے۔ اس دوران نائجیریا اور دوسرے افریقی و عرب ممالک کے سفرا میں کچھ ایسے لوگ بھی ملے، جنھوں نے میرے ذریعے سے پاکستان سے انگریزی میں مولانا مودودی کا لٹریچر منگوایا، یا انھیں تحفہ کے طور پر بھی یہ کتابیں دیں۔

 طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے دوران میں نے ایک مرتبہ مولانا مودودی سے گفتگو میں یہ سوال اٹھایا:’’مجھے طلبہ کے سامنے تقاریر کے جو مواقع ملتے ہیں ان میں کیا باتیں کہی جائیں؟ آیا توحید رسالت و آخرت یا قرآن کے مختلف اہم حصوں کی توضیحات یا اسلام کے سیاسی، معاشی و معاشرتی نظام کی تفصیلات یا سیرت رسولؐ، سیرت صحابہؓ کے واقعات کی تشریح کرنی چاہیے یا کچھ اور؟‘‘ مولانا مودودی نے ان سارے موضوعات کو چھوڑ کر فرمایا: ’’طلبہ کے سامنے طلبہ کے اجتماعی مسائل پر بات کریں اور جمعیت طلبہ اُنہیں کس طرح حل کرنا چاہتی ہے ان باتوں پر تقاریر میں زور دیں‘‘۔ خود مولانا مودودی کی تقریریں پاکستان کے شہر شہر میں ہمیشہ سیاسی موضوعات پر ہوا کرتی تھیں۔ جن میں اس طرح کے سوالات بھی ان سے پوچھے جاتے تھے: مولانا، عالم دین ہونے کے حوالے سے ہم تو آپ سے کچھ قرآن و حدیث کی باتیں سننا چاہتے ہیں لیکن آپ حکومت وقت کی خرابیاں گنوانے پر اپنی ساری تقریروں کو مرکوز رکھتے ہیں‘‘۔ درحقیقت پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ذریعہ اسلامی نظام کا نفاذ فکر مودودی کی اولیں ترجیحات میں سے تھا۔

طالب علمی کی زندگی کے بعد مجھے مولانا مودودی کے اس دعوتی و تنظیمی پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا‘ جب مشرقی پاکستان کے حلقہ چٹاگانگ میں مزدوروں کے کام کا نگران بنایا گیا۔

جب جاپان آیا تو یہاں پر ایک برائے نام پاکستان ایسوسی ایشن بنی ہوئی دیکھی۔ اس کا کام سال میں ایک دفعہ کوئی ڈرامہ کرنا یا ناچ گانے کا کوئی پروگرام رکھنا تھا۔ جب ادھر توجہ کی تو       مولانا مودودی کی دانش کے اسی نسخہ کیمیا کو استعمال کیا‘ جو انسان کو فوراً قیادت کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ یعنی پاکستانیوں کے مسائل میں دل چسپی لینا اور اس میں آگے بڑھ کر حصہ لینا اور ان مقاصد کے لیے  دوڑ دھوپ کرنا۔

بیسویں صدی عیسوی اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے تاریخ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مغربی دنیا میں گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں آنے والی پے در پے تبدیلیاں مجتمع ہو کر ایک نئے منظر کی تشکیل کر رہی تھیں‘ جس کے تخلیقی تلاطم سے پیدا ہونے والے ارتعاش نے دنیا کے دور دراز علاقوں تک اپنے اثرات پھیلا دیے تھے۔ اسی عرصے میں مسلمانوں کی قوت و عظمت کی آخری نشانی‘ یعنی سلطنت عثمانیہ جس کا سکّہ کسی زمانے میں مشرق وسطیٰ سے لے کر شمالی افریقہ اور بلقان تک    چلتا تھا‘ یہ تھکی ہاری سلطنت حالت اضطرار میں بے رحم اقوام مغرب سے زندگی کی مہلت مانگ رہی تھی‘ جو اسے دینے پر تیار نہیں تھیں۔

جنوبی ایشیا کی سرزمین اس سے پہلے ہی مسلم اقتدار کے عروج کا خاتمہ دیکھنے کے بعد برطانوی استعماری نظامِ حکومت میں کچھ عرصہ گزار چکی تھی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسے حسّاس طبیعت کے شخص کے لیے یہ ایک نہایت دلخراش تجربہ تھا اور ہر گزرنے والا دن ان کے درد و کرب میں اضافہ کردیتا تھا۔ یہ تبدیلی اپنے جوہر میں محض اسلامی اقتدار سے برطانوی اقتدار میں تبدیلی نہ تھی‘ بلکہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں یہاں کا معاشرتی اور سیاسی بلکہ اخلاقی نظام تک درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ غیرملکی افکار و خیالات کی ایک یلغار تھی جو مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جا رہی تھی۔   یہ صورت حال اس حقیقت کے سبب اور بھی خراب ہو گئی تھی کہ انگریزوں نے ہندوؤں کو اپنا ایک  فطری دوست سمجھنا شروع کر دیا تھا‘ اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہند کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی صورت حال کو ان دونوں فریقوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مٹانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی طاقت کے خاتمے‘ ان کی اخلاقی رہنمائی کرنے والی قیادت سے محرومی اور آخرکار ان کی تہذیب کی تباہی نے ان کو ایک عجب افسردگی سے دوچار کر دیا تھا۔۱؎

سید مودودیؒ سمجھتے تھے کہ مسلم ممالک پر مغربی استعمار کا فوجی قبضہ ایک عارضی چیز ہے اور یہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گا۔ ان کی نظروں میں اصل خطرہ مغربی فکر سے تھا جو عیسائیت کے رہے سہے اثر سے آزاد ہونے کے بعد اب مسلمانوں کو اپنے پنجے میں جکڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔ مغرب کی استعماری دنیا کے لیے یہ بات نہایت اہم تھی کہ مسلمانوں کی طاقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد ان کے دل و دماغ کو بھی فتح کیا جائے۔ سید مودودیؒ نے اس صورت حال میں مضمر خطرے کو محسوس کیا اور اس پر تین مختلف صورتوں میں پیش بندی کی: ایک یہ کہ انھوں نے مغربی طرزِ فکر کا خود گہرا مطالعہ کیا۔ دوسرے‘ انھوں نے دلائل سے اسلام کی برتری اور فوقیت ثابت کی‘ اور تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا حوصلہ‘ امنگ اور اعتماد بحال ہو۔

اگرچہ سید مودودیؒ کسی یونی ورسٹی وغیرہ میں رسمی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے تھے‘ لیکن انھوں نے اپنے طور انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سخت جدوجہد کی اور پھر حملہ آور تہذیب و ثقافت کے قالب سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جس قدر مطالعہ وہ کر سکتے تھے‘ انھوں نے کیا۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے سے بہت پہلے‘ جب سید مودودی کے عروج کا آغاز تھا‘ مغرب نے مذہب کو خیر باد کہہ کر سائنس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا۔ اب دنیا (مغربیوں کے نزدیک): خدا کی قدرت کاملہ سے ’’آزاد‘‘ ہو چکی تھی‘ جسے الہامی علم کی ضرورت نہیں تھی‘ بلکہ انسانی حواس کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہی اس کا واحد ذریعہ تھا‘ جسے ’’میکانکی مادیت‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ آئن سٹائن اور پلانک کے غیر مادی نظریات کو اس مادہ پرستانہ سوچ میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی کچھ وقت درکار تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں ہر طرف ڈارون‘ مارکس اور فرائیڈ کے نظریات اور ان کی تعبیرات چھائی ہوئی تھیں۔ ان تین مغربی مفکرین نے اس عقیدے کو پاش پاش کر دیا تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ کہ دنیا میں اس کی موجودگی کا ایک مقصد ہے۔ نظریۂ ارتقا کے قائلین نے اس تصور کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ محض ایک دھوکا ہے جس کا سبب انسان کی کائنات میں اپنے آپ کو مرکزی حیثیت دینے کی خواہش ہے۔ قادر مطلق کے تشکیل کردہ ایک منظم منصوبے کی نفی کرتے ہوئے انھوں نے زندگی کے مفہوم میں سے روحانی عنصر کا خاتمہ کر دیا۔ فرائیڈ‘ جس نے انسانی شعور پر غور و فکر کیا تھا‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ محض انسان کے لاشعور پر قابض وحشی قوتوں کے باہمی تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک نازک سا ضمنی مظہر ہے۔ چنانچہ انسان کے ’’ذی عقل‘‘ ہونے کا وہ تصور بھی ختم ہو گیا جس کا اٹھارھویں صدی میں برپا ہونے والی ’’روشن خیالی کی تحریک‘‘ میں بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ ان سب پر مستزاد جدید علم افلاک کی یہ دریافت تھی کہ زمین کی حیثیت پوری کائنات میں ایک بہت ہی چھوٹے سے سیارے کی ہے‘ جس کے باعث اس کی حیثیت اور بھی کم ہو کر رہ گئی۔ پھر ان تینوں فلسفیوں نے نہ صرف انسان کو اس کے شرف سے محروم کیا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا: ’’آخر ’انسانیت‘ ہے کس چیز کا نام‘‘؟ کیونکہ ان کی نظر میں‘ اس کرۂ ارضی پر زندگی گزارنے والے بہت سے دوسرے جانوروں کی طرح انسان بھی محض ایک جانور ہی تو ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب میں دنیا اور انسان کے بارے میں جو تصور ابھر رہا تھا‘ وہ خوفناک حد تک اسلام کی سبھی بنیادی تعلیمات سے متصادم تھا۔ چنانچہ سید مودودیؒ نے اپنی توجہ عقلیت‘ ایجابیت‘ ڈاروینی ارتقا اور کارل مارکس کی بیان کردہ اشتراکیت پر مرکوز کر دی۔

  • عقلیت یا غلامانہ ذہنیت: اس سے پہلے کہ سید مودودیؒ، ڈارون اور دوسرے مغربی مفکرین کے نظریات کو چیلنج کرتے‘ انھوں نے خود مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی سوچ کی سطحیت واضح کرنا ضروری سمجھا۔ وہ سوچ کہ جس نے مغرب کی برتری تسلیم کر لی تھی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

جہاں ان ]مسلمانوں[ کو سیاسی استقلال اور خود مختاری حاصل بھی ہے وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کے گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمران ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ بہرصورت یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلط ہے کہ  حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے ‘اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت اور شائستگی کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے‘ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی‘ اپنے اخلاق و آداب ‘سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تنقیحات‘ ص ۶)

بالیقین مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت پر یہ ایک زبردست گرفت تھی۔ تعلیم یافتہ مسلمان جس ’عقلیت‘ کا کثرت سے پرچار کرتے رہتے تھے‘ حقیقت میں مغرب کی نقالی تھی جس میں حقیقت کے عکس یا تجزیے کو بہت کم عمل دخل تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ لوگ دفاع پر مجبور ہوتے‘ سید مودودی ؒان پر واضح کر دینا چاہتے تھے کہ عام مغربی مفکرین بھی اتنے عقلیت پسند نہیں ہیں‘ جتنا وہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے لکھا: ’’جدید تحریک کے علم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا‘ یا کسی فوق الطبیعت (Super Natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقے کو خلافِ حکمت (unscientific) قرار دیں‘ جس میں خدا کا وجود فرض کر کے مسائلِ کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے دور کے اہلِ حکمت فلاسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور ما بعدالطبیعی امور کے خلاف ایک تعصب پیدا ہوا‘ جو عقل و استدلال کا نہیں بلکہ سراسر جذباتیت کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا کا انکار اس لیے نہیں کرتے تھے کہ دلائل و براہین سے اس کا عدم وجود اور عدم وجوب ثابت ہو گیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کی آزاد خیالی کے مخالفین کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا‘ اس کی بنیاد میں یہی غیرعقلی جذبہ کار فرما رہا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹-۱۰)

اپنے مضمون ’’عقلیت کا فریب ‘‘میں سید مودودی ؒنے مزید گہرائی میں جا کر بات کی ہے:

عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) ‘یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوںسے مغربی تہذیب بڑے زور و شور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے‘ اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسرعقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصول فطرت کی متابعت پر‘ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر] ڈھانچہ[  حِس‘ خواہش اور ضرورت پر قائم ہے۔ اور مغربی نشات جدیدہ دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو توڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجاے حِس پر اعتماد کیا‘ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کر کے محسوس مادی نتائج کو اصلی اور حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھیرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آ سکتی ہو۔ ہر اس چیز کو ہیچ اور ناقابلِ اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مرتب نہ ہوتی ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۳)

سید مودودیؒ کے نزدیک فکرِانسانی پر قائم افادیت کی کسوٹی‘ جو حقیقت کو محسوسیت‘ وزن اور حساب کتاب سے مشروط کرتی ہے سوائے ایجابیت کے اور کچھ نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام اشیا جو مشاہدے اور تجربے سے ماورا ہیں‘ افادیت کے پیمانے میں ان کے وجود یا عدم وجود کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ نہ وہ قابل یقین ہیں‘ کیونکہ ان کا شمار خلافِ عقل چیزوں میں ہوتا ہے۔ چونکہ  صورت حال یہ تھی‘ لہٰذا سید مودودیؒ نے مادی فوائد کے بنیادی تصور کو موضوع بحث بنایا‘کیونکہ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں نے خود اسلامی احکام کو بھی افادیت کے پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیا تھا:

’’اصطلاحاً عقلی اور مادی فوائد محض ایک اضافی نوعیت کی چیز ہیں‘ لہٰذا‘ ان کی اہمیت ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کی جا سکتی۔ ایک شخص کسی چیز کو مفید قرار دے سکتا ہے‘ جب کہ دوسروں کے نزدیک ممکن ہے کہ وہی چیز نقصان دہ ہو۔ ممکن ہے کہ کوئی تیسرا شخص اسی چیز کو جزوی طور پر مفید مگر کم اہم بتائے‘ اور کسی اور چیز کو منافع بخش بتائے۔ کسی چیز کی مادی افادیت کا فیصلہ کرنے میں اختلافات کا امکان اور بھی زیادہ ہے‘ کیونکہ ہر شخص مادی فائدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ کوئی تو ایسا ہو گا جو فوری نفع حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہو اور نقصان سے بچنے کا متمنی ہو۔ لازمی بات ہے کہ اس شخص کی پسند‘ نا پسند ان لوگوں سے مختلف ہو گی جن کی نظر اس نفع کی حقیقی افادیت پر ہو گی۔ اسی طرح بعض چیزیں کبھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں اور کبھی نقصان دہ۔ کوئی آدمی ایسی چیز کو حاصل کرنے کی صورت میں ہونے والے عارضی نقصان کو برداشت کرنے پر اس لیے تیار ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے طویل المدت فوائد حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اس کے نقصان کے سبب اس سے بچیں گے‘ جو انھیں اس کے فائدے کی نسبت کہیں بڑا نظر آتا ہے۔ مزیدبرآں‘ خود عقلی اور مادی فوائد میں بھی باہم اختلاف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تجربے کی رو سے کوئی چیز ضرر رساں معلوم ہوتی ہے‘ لیکن عقل ہمیں سمجھاتی ہے کہ مستقبل میں یہ چیز زیادہ بڑے فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح تجربے سے جس چیز کا مفید ہونا ثابت ہوتا ہے‘ ممکن ہے ہمارا عقلیت پسند دماغ اسے مسترد کرنے پر تلا ہوا ہو۔ اشیا کی اسی درجے کی موضوعیت (subjectivity) کے  پیشِ نظر لوگوں کے نزدیک کسی چیز کی قدر میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۸۱-۱۱۲)

سید مودودیؒ، اسلامی معاشرے میں عقلیت کی طرف نئے نئے راغب ہونے اور اسے ایک سائنسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ یا حد سے زیادہ اہمیت دینے والوں کی سطحیت کو اس طرح طشت از بام کر دینا چاہتے تھے کہ اس میں تعصب اور جذبات کا عمل دخل نہ ہو:

ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے‘ دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماع ضدّین کو محسوس تک نہیں کرتی --- تعلیم اور تہذیب ِفکر کا کم سے کم اتنا فائدہ تو ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے خیالات میں الجھاؤ باقی نہ رہے‘ افکار میں پراگندگی نہ ہو۔ وہ صاف اور سیدھا طریق فکر اختیار کر سکے‘ تناقض اور خلط مبحث جیسی صریح غلطیوں سے بچ سکے۔ لیکن مستثنیات کو چھوڑ کر ہم اپنے عام تعلیم یافتہ حضرات کو دماغی تربیت کے ان ابتدائی ثمرات سے بھی محروم پاتے ہیں۔ ان میں اتنی تمیز بھی تو نہیں ہوتی کہ کسی مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے اپنی صحیح حیثیت متعین کر لیں۔ پھر اس حیثیت کے عقلی لوازم کو سمجھیں اور ان کو ملحوظ رکھ کر ایسا طریق استدلال اختیار کریں جو اس حیثیت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان سے گفتگو کیجیے یا ان کی تحریریں دیکھیے‘ پہلی ہی نظر میں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کے خیالات میں سخت الجھاؤ ہے --- اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کے اثر سے موجودہ تعلیم کا میلان زیادہ تر حسیات اور مادیات کی طرف ہے۔ وہ خواہشات کو بیدار کردیتی ہے‘ اور ضروریات کے احساس کو بھی ابھار دیتی ہے‘ محسوسات کی اہمیت بھی دلوں میں بٹھا دیتی ہے مگر عقل اور ذہن کی تربیت نہیں کرتی --- اور صحیح عقلی طریق پر کسی مسئلے کو سلجھانے یا کسی امر میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اس  غیر ’معقول عقلیت‘ کا اظہار سب سے زیادہ ان مسائل میں ہوتا ہے   جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کے روحانی‘ اخلاقی اور اجتماعی و عمرانی مبادی مغرب کے نظریات سے ہر ہر نقطے پر متصادم ہوتے ہیں۔(ایضاً‘ ص ۱۰۵-۱۰۶)

سید مودودیؒ کا مؤقف حقیقت سے قریب تر تھا۔ استدلال سے کام لینا انسان کا امتیازی وصف ہے اگرچہ اس کے کچھ فطری مسائل بھی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ عمل ایک مخصوص سماجی ماحول ہی میں ممکن ہے۔ یہ ایک ایسے انسانی ظرف میں پرورش پاتا ہے جس کی ساخت نفسیاتی و دنیاوی ((psycho-temporal ہے۔ چنانچہ انسان پر اثر انداز ہونے والے امور اس کے طرز استدلال کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں‘ ہر قضیے کا فیصلہ بھی محض استدلال کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا نفوذ اور عمل‘ خط مستقیم میں نہیں ہوتا۔ بسااوقات یہ پیچیدہ بھول بھلیوں میں پھنس جاتا ہے‘ جن سے نکلنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔

سید مودودی ؒ اس بات کو غیردانش مندانہ قرار دیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی عقیدے کو قبول کرنے کے بعد اسی کے برحق ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس عقیدے کے مسلمہ اصولوں پر بحث نہیں کر سکتا‘ یا کسی کے سامنے اس کے جواز پر استدلال نہیں کر سکتا۔ بے شک اسے یہ سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے‘ لیکن جب وہ اس عقیدے کو قبول کر لیتا ہے تو اسے اس پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ کسی حکم کے بارے میں وجۂ جواز مانگنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں‘ تاہم یہ بات عقلی اور عملی لحاظ سے انتہائی معیوب ہو گی کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر عمل درآمد کے لیے وضاحت طلب کی جائے۔ سید مودودیؒ اس نکتے کو تہذیبی سیاق و سباق میں رکھتے ہوئے اس پر بحث یوں کرتے ہیں:

انسان جس نظام میں داخل ہوتا ہے‘ اس ابتدائی اور بنیادی مفروضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کے اقتدار اعلیٰ پر کلّی حیثیت سے اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اب جس وقت تک وہ اس نظام کا جز ہے‘ اس کا فرض ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اطاعت کرے خواہ کسی جزئی حکم پر اس کو اطمینان ہو یا نہ ہو۔ مجرمانہ حیثیت سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا امر دیگر ہے۔ ایک شخص جزئیات میں نافرمانی کر کے بھی ایک نظام میں شامل رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی اپنے ذاتی اطمینان کو اطاعت کے لیے شرط قرار دیتا ہے تو در اصل وہ اقتدار اعلیٰ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور یہ صریح بغاوت ہے۔ حکومت میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا۔ فوج میں اس کا کورٹ مارشل ہو گا۔ مدرسے اور کالج میں فوری اخراج کی کارروائی کی جائے گی۔ مذہب میں اس پرکفر کا حکم جاری ہو گا۔ اس لیے کہ اس نوع کی طلبِ حجت کا حق کسی نظام کے اندر رہ کر کسی شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے طالب حجت کا صحیح مقام اندر نہیں باہر ہے۔ پہلے وہ باہر نکل جائے‘ پھر جو چاہے اعتراض کرے‘‘۔(ایضاً‘ص ۱۰۷-۱۰۸)

عقلیت پرست مسلمانوں کا پول کھولنے کے لیے‘ جس کا ان کی جانب سے بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا‘ سید مودودی ایک عقلی آزمایش تجویز کرتے ہیں: ’’آپ کسی مذہبی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجیے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرالیجیے۔ پھر اس کے سامنے مجرد حکم شریعت بیان کر کے سند پیش کیجیے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاؤ۔ اگر تمھارے پاس معقولات نہیں‘ صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمھاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انھی چند فقروں سے یہ راز فاش ہو جائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے۔ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہو سکا کہ طالب حجت کے عقلی لوازم کیا ہیں اور طالب ِحجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶)

ایک دلیل بڑی کثرت سے دی جاتی رہی ہے کہ انسانی ذہن کے افق پر فکرِ جدید کے طلوع ہونے کے بعد اب مذہب ایک ازکار رفتہ (outdated) چیز بن گیا ہے۔ بہ طرز فیشن یہ بھی کہا گیا کہ علم تو بس وہی ہے جو آدمی اپنے حواس کے ذریعے سے حاصل کرے کیونکہ اس کی ناپ تول کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے تصورات پر انھوں نے تین اطراف سے ضرب لگائی۔ اول یہ کہ انھوں نے  علمِ جدید کے احتمالی یا تصوراتی ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کر کے اس کی اصلی ہیئت آشکار کی۔ دوم یہ کہ انھوں نے اس دعوے کا لغوا اور مہمل ہونا ثابت کیا کہ اب عقیدے کی جگہ تجربی طریقوں نے لے لی ہے۔ تیسرے ‘انھوں نے ثابت کیا کہ آج کے زمانے میں بھی لوگ غیر مرئی وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ لادین (سیکولر) عناصر کے دلائل کی حقیقت کو کھولتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:

علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر مذہب کی طرف ایک ترمیم طلب نگاہ ڈالنا تو صرف ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کے دل میں یہ تخیل گھر کر گیا ہے کہ نئی چیز علم و اکتشاف ہے‘ اور زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اس کو قبول کر لینا یا اس پر ایمان لے آنا ضروری ہے‘ خواہ اس کی حیثیت محض قیاسی و نظری ہو اور خواہ اس کو انھوں نے گہری علمی بصیرت کے ساتھ نقد صحیح کی کسوٹی پر پرکھا بھی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگوںمیں ’’عمل و خیال کی نئی طرحیں‘‘ ڈالنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عمل و خیال کی  نئی طرحیں کیوں کر پڑتی ہیں‘ اور کون سی طرحیں عاقلانہ ہوتی ہیں اور کون سی محض طفلانہ‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۲۰‘ ۱۲۱‘ ۱۲۳)

  • ڈاروینی ارتقا -- عقیدہ یا سائنس: ڈارون کا نظریہ منظر عام پر آنے سے پہلے مغرب نے کائنات کی وسعت کے بارے میں ایک نیا تصور وضع کر لیا تھا۔ مسیحیت اگرچہ اب بھی ایک قوت تھی مگر فطرت کے اسرار کو سمجھنے کے معاملے میں اسے پہلے جو فیصلہ کن برتری حاصل تھی‘ اب اس کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ڈیکارٹ اور نیوٹن کے پیش کردہ نظریات نے اپنے لادین اثرات ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ ڈارون کے نزدیک اب وقت آ گیا تھا کہ مذہبی روایات سے مکمل علیحدگی کو مؤثر بنایا جائے اور کائنات کی تشریح‘ توافق اور فطری انتخاب کے اصولوں پر کی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک نیا نمونہ ابھر کر سامنے آیا۔ اگلی صدی کے لیے سائنسی برادری نے ڈارون کو اپنا بُت بنا لیا۔

ڈارون کی زندگی میں‘ اور اس کے بعد بھی‘ بہت کم لوگ اس کے نظریے سے اختلاف کرنے کی جرأت کرپائے تھے۔ جو کرتے تھے‘ ان کی خوب مٹی پلید کی جاتی تھی۔ آخر ۱۹۵۸ء میں‘ جب فرانسیسی ماہرین حیاتیات نے ’فرانسیسی دائرۃالمعارف‘ (Encyclopedie Francaise) کی پانچویں جلد میں نظریہ ارتقا پر سخت تنقید کی‘ تو پہلی مرتبہ ڈارون پرستوں کو اپنا موقف خطرے میں محسوس ہوا۔ اب تک انھوں نے حیاتیات کا سہارا لے رکھا تھا‘ خصوصاً خوردبینی سطح پر‘ لیکن جب کلاڈ برنارڈ سے لے کر لیوسین کیونو (Lucein Cuenot) تک نے یہ کہا کہ ’’نظریہ ارتقا نا ممکن ہے‘‘ تو ڈارون کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ان ماہرین حیاتیات نے اس نظریے کو محض ایک عقیدہ (dogma) قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا: ’’نظریہ ارتقا ایک ایسا عقیدہ ہے‘ جس کے مبلغین اگرچہ اب خود اس پرایمان نہیں رکھتے‘ لیکن لوگوں کے سامنے اسے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جس معاملے کی تشریح کرنے کی اس نظریے نے جسارت کی ہے‘ اب اس پر اتنی بات ہو چکی ہے کہ ممکن ہے آنے والی نسل کے سائنس دان اپنی تحقیق کسی اور زاویے سے کریں‘‘۔۲؎

۱۹۳۰ء کے عشرے میں ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جو ڈاروینی ارتقا کی ہیبت سے مرعوب ہو کر اپنے ایمان کو متزلزل ہوتا محسوس کر رہا تھا‘ سید مودودیؒ نے ڈارون پر مختصر تنقیدی نوٹ لکھا۔ مسئلے کے قلب میں اترتے ہوئے نظریے اور قانون کے فرق کو اس طرح واضح کیا: ’’نظریے اور واقعے کا فرق کسی تعلیم یافتہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی کے لیے اپنے ایمان پر نظرثانی کرنے کا سوال اگر کبھی پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ وہ چیز جس پر وہ ایمان رکھتا ہے‘ کسی ایسی چیز سے ٹکرا جائے جو ثابت شدہ واقعہ ہو۔ ورنہ جو ایمان قیاسات و نظریات کی ٹکر بھی نہ سہہ سکے وہ ایمان  تو نہیں‘ محض ایک حسنِ ظن ہے جو نری افواہوں پر بدگمانی میں تبدیل ہو جاتا ہے‘‘۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی‘تفہیمات‘ دوم‘ ص ۲۷۸)

ایک اﷲ کی ربوبیت پر کامل ایمان رکھنے والے فرد کی حیثیت سے سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زندگی میں پائی جانی والی پیچیدگی اور تنوع جو یک خلوی جانداروں سے لے کر ایک کامل انسان تک میں پایا جاتا ہے‘ کسی حادثاتی یا الل ٹپ عمل کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ اس کے اندر ایک غیر معمولی نظم پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: کائنات ایک اعلیٰ ترین دماغ کی تخلیق ہے‘ جس نے مختلف جانداروں میں سے ہر ایک کو اس کے لیے درکار سازگار ماحول میں نشوو نما دی اور پھر رفتہ رفتہ انھی جانداروں سے امتیازی خصوصیات رکھنے والی انواع (species) کو فروغ دیا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے منصوبے میں کچھ انواع کا وجود غیر ضروری ہو گیا تو اس نے انھیں بتدریج معدوم کر دیا۔ اس کے برعکس ڈارون کے پیروکار‘ فطرت کو ایک ایسی عینک سے دیکھتے تھے جو بے خدا ذہنیت کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی۔ اس عینک سے دیکھتے ہوئے انھیں جو کچھ نظر آتا تھا وہ یہ تھا کہ زمین پر زندگی جوہری ذرات (atoms) کے خود بخود ترتیب پانے کی صلاحیت کی مرہون منت ہے۔ سید مودودیؒ کے نزدیک ڈارون ازم ایسے ذہن کے لیے بآسانی قابل قبول تھا: ’’یورپ نے جو اس وقت اپنے الحاد کو پاؤں کے بغیر چلا رہا تھا‘ لپک کر یہ لکڑی کے پاؤں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں‘ بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کر لیا۔ حالانکہ علمی اور عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو‘          منظر (phenomena) کی ممکن توجیہات میں سے ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص۲۸۰)

ڈارون خود یہ بات تسلیم کرتا تھا کہ اس کا نظریہ عمل ارتقا زندگی کی درمیانی کڑیوں کی    توجیہہ سے قاصر ہے۔ اس کے سب سے بڑے حامی جولین ہکسلے نے اس کی کتاب اصل الانواع    (The Origin Of the Species) کو ایک عظیم کتاب قرار دیا تھا۔ اس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ درمیانی کڑیاں لازماً موجود ہوں گی۔ ہکسلے کے مندرجہ ذیل الفاظ مذہبی ایقان کی کیفیت سے سرشار دکھائی دیتے ہیں:

Hence we ought not to expect at the present time to meet with numerous transitional varieties in each region, though they must have existed there, and may be embedded there in a fossil condition. If my theory be true, linking closely   together all the species of the same group, must assuredly have existed.

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عمدہ طریقے سے منتخب کردہ شہادتوں کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم کرتی ہے --- جس میں [مصنف] ثابت کرتا ہے کہ زمین پر پائے جانے والے حیوانات اور پودے اپنی موجودہ شکلوں میں فرداً فرداً پیدا نہیں کیے جا سکتے تھے‘ بلکہ لازمی طور پر اپنے سے پہلے پائی جانے والی شکلوں سے تبدیلی کے ایک سست رفتار عمل کے ذریعے لازماً ارتقا پذیر ہوئے ہوں گے۔

ڈارون اپنے نظریے کی خامیوں سے آگاہ تھا۔ اس کی کتاب کا چھٹا باب جس کا عنوان ’’نظریۂ ارتقا کی مشکلات‘‘ ہے‘ دوسری باتوں کے علاوہ زندگی کی درمیانی کڑیوں کی عدم موجودگی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اپنے ناقدین کے اعتراضات کو دہرانے کے بعد وہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر انواع ایک دقیق تدریجی عمل کے ذریعے دوسری انواع سے نکلی ہیں تو ہمیں جگہ جگہ زندگی کی درمیانی کڑیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ وہ ان مشکلات کو اپنے نظریے کے حق میں مہلک قرار دیتا ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں اس کا موقف یہ ہے کہ تحجّراتی (fossil) ریکارڈ ابھی نامکمل ہے: ’’چنانچہ ہمیں فی الوقت  ہر علاقے میں زندگی کی بے شمار درمیانی کڑیاں (missing links) دیکھنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ اقسام وہاں رہی ضرور ہوں گی اور فوسل کی شکل میں زمین میں دفن ہو چکی ہوں گی‘‘ (ص۱۵۸)۔ پھر صفحہ ۱۶۳ پر بھی وہ اسی قسم کا ایک اور بیان دیتا ہے: ’’اگر میرا نظریہ درست ہے اور ایک ہی گروپ کی تمام انواع میں قریبی تعلق پایا جاتا ہے تو یہ لازمی ہے کہ زندگی کی درمیانی کڑیاں رہی ہوںگی‘‘۔۳؎ سید مودودیؒ نے اس نظریے میں ’’لازماً ہوا ہو گا‘‘ (must have evolved) جیسے جملوں پر انحصار کرنے کو ایک غیر سائنسی رویہ قرار دیا۔

  • تاریخ کے بارے میں ہیگل اور مارکس کا نقطۂ نظر: سید مودودیؒ، تہذیب جدید پر اس وجہ سے تنقید کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس نے بنی نوع انسان کے مسائل میں     بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے جن کی جڑیں ہیگل کی تاریخ نگاری میں پیوست ہیں۔ کارل مارکس نے ہیگل کے پیش کردہ ’’جدلی عمل‘‘ (Dialectical Process) کے تصور کی بنیاد پر تاریخ کی مادی تعبیر کی عمارت کھڑی کر کے انسانی مصائب میں مزید اضافہ کیا۔ ہیگل کی وہ تاریخ نگاری‘ جسے سید مرحوم اس قدر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اصل میں ہے کیا؟ اپنے مخصوص مجمل انداز میں‘ جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے‘ سید مودودی‘ ہیگل کے فلسفے کو حسب ذیل الفاظ میں سمیٹتے ہیں:

انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور‘ تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتا ہے اور تاریخ کا ہر دور ایک وحدت‘ ایک کل‘ یا اگر استعارہ کی زبان میں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایک زندہ نظام جسمانی ہوتا ہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی و اخلاقی‘ علمی و عقلی اور مذہبی تصورات ایک خاص مرتبے پر ہوتے ہیں۔ ان سب کے اندر ایک مناسبت‘ ایک ہم آہنگ کلیت ہوتی ہے۔ وہ گویا اس زندہ وجود ‘ یا اس عصری وحدت کے مختلف پہلو یا رخ ہوتے ہیں‘ اور ان سب میں اس پورے دور کی روح طاری و ساری ہوتی ہے۔جب ایک بڑا دور اپنی روح کو انتہائی مدارج تک ترقی دے چکتا ہے‘ اور اس دور کو چلانے والے اصول‘ نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچا دیتے ہیں‘ تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پا کر اس کا ایک دشمن ظاہر ہوتا ہے‘ یعنی کچھ نئے افکار‘ نئے رجحانات‘ نئے نظریات اور نئے اصول جو خود اسی روبہ زوال دور کے طبیعی تقاضے سے پیدا ہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

کچھ مدت تک قدیم اور جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے۔ بالآخر کسرو انکسار کے بعد قدیم و جدید میں امتزاج ہو جاتا ہے۔ کچھ قدیم عناصر اور کچھ جدید عناصر کی آمیزش سے ایک نئی عصری تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اور اسی طرح تاریخ کا ایک دوسرا دور شروع ہوجاتا ہے۔

اس عمل ارتقا کو ہیگل اپنی اصطلاح میں ’جدلی عمل‘ (Dialectic Process) کہتا ہے۔ اس کے نزدیک عرصۂ تاریخ یا میدانِ دہر میں گویا ایک مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ ہورہا ہے۔ پہلے ایک دعویٰ (thesis) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے مقابلے میں جواب دعویٰ (antithesis) پیش ہوتا ہے۔ پھر ایک طویل جھگڑے کے بعد عقلِ کُل یا روح کُل ان کے درمیان صلح کراتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں اِس کی اور کچھ اُس کی قبول کر کے ایک مرکب (synthesis) بنا دیتی ہے۔ آگے چل کر یہ مرکب خود ایک دعویٰ بن جاتا ہے۔ پھر اس کا جوابِ دعویٰ مقابلے میں آتا ہے اور پھر ان کے درمیان لڑائی کے بعد مصالحت ہوتی ہے اور ایک نیا مرکب بنتا ہے‘‘۔(تفہیمات‘ دوم‘ ص ۲۶۴)

’جدلی عمل‘ پر گرفت کرتے ہوئے سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ ہیگل کے نزدیک ’جدلی عمل‘ اپنے جوہر میں اجتماعی اور اپنے اثرات میں ہمہ گیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ کا کوئی بھی دور گویا ایک مجسم اور زندہ اکائی ہے ‘ جب کہ افراد اور انسانی گروہ اس کے اعضا وجوارح ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس دور کے اجتماعی مزاج کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا‘ حتیٰ کہ عظیم تاریخی شخصیات کی حیثیت بھی شطرنج کے مہروں کی سی ہے۔ اس زور آور دریا کے طوفانی بہاؤ میں سے ’’خیالِ مطلق‘‘ (Absolute Idea) شاہانہ انداز میں بلند ہوتا ہے اور ’’دعویٰ‘‘ ، ’’جوابِ دعویٰ‘‘ اور بالآخر ان دونوں کے امتزاج یا ’’تالیف دعاوی‘‘ کا سبب بنتا ہے۔ ہیگل کے تصور کے مطابق اس سارے عمل میں ایک واضح ستم ظریفی موجود ہے۔ ’’خیالِ مطلق‘‘ یا ’’سببِ جہاں‘‘ (World Reason) افراد اور گروہوں کو اس مغالطے کا شکار کرتا ہے کہ وہ تبدیلی کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں‘ جس سے وہ اس یقین میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہی دراصل اس تاریخی کھیل میں حرکت اور تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں۔ لیکن درحقیقت ’’سببِ جہاں‘‘ ان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے گویا یہ وجود پذیری کا عمل ہے۔

ہیگل کے فلسفہ تاریخ پر بحث کرنے کے بعد سید مودودیؒ اپنے مخصوص اور جامع اسلوب میں مارکس کے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں: ’’کارل مارکس نے ہیگل کے اس فلسفیانہ نظریے میں سے ’جدلی عمل‘ کا خیال تو لے لیا مگر روح یا فکر کا تصور جو ہیگلی فلسفے کی جان تھا‘ اس سے الگ کر دیا۔ فکر کے بجاے اس نے مادی اسباب یا معاشی محرکات کو تاریخی ارتقا کی بنیاد قرار دیا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۵)

سید مودودی ؒکہتے ہیں: مارکس کے اس نقطۂ نظر کے مطابق انسانی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والی واحد چیز معیشت ہے۔ کسی بھی دور کی تہذیب‘ اس کے قوانین‘ اخلاقیات‘ مذہب‘ فنون اور فلسفے کی تشکیل اس دور کا معاشی نظام ہی کرتا ہے۔ مارکسی تصور کے مطابق ’جدلی عمل‘ تاریخ میں اپنے اثرات کو اس وقت ظاہر کرتا ہے‘ جب کسی نظام معیشت کے تحت افراد کا ایک طبقہ ذرائع پیداوار پر قبضہ کر لیتا ہے اور دوسرے طبقات کو ذلت آمیز انحصار پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کچلے ہوئے طبقے کے لوگ رفتہ رفتہ اپنی حالت سے بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘ اور آخر کار حق ملکیت اور مال و اسباب کی تقسیم کے بارے میں مختلف اصول و ضوابط رکھنے والے ایک ایسے نظام کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں‘ جو ان کے مفادات کو پورا کر سکے۔ کسی مروّجہ سیاسی نظام میں اس قسم کی گروہ بندی کا پھلنا پھولنا دراصل چلتے نظام کے خلاف ’’جوابِ دعوی‘‘ ہوتا ہے۔ جوں جوں اس کش مکش میں شدت آتی جاتی ہے‘ قانون‘ مذہب اور دیگر تصورات اپنے وجود کو خطرے میں پا کر استحصالی نظام کی بقاکے لیے سرگرم  ہوجاتے ہیں۔ نئے ابھرنے والے طبقات جو موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں‘ پہلے سے تسلیم شدہ ’سچائیوں‘ کو مسترد کر کے نئی اقدار کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کارل مارکس کے نزدیک تاریخ میں آنے والی تما م تبدیلیوں اور انسانی تمدن کے ارتقا کو ذرائع پیداوار اور ان کی تقسیم کے عمل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو جو چیز حرکت میں لاتی ہے‘ وہ طبقاتی جنگ (class war) ہے۔ مارکس کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ انسانی تہذیب میں مذہب اور اخلاقیات کی کوئی طے شدہ اقدار نہیں ہیں جنھیں معروضی سچ قرار دیا جا سکے۔ اس کے برخلاف یہ انسانی فطرت ہے کہ پہلے اپنے مادی مفادات کے حصول کے لیے ایک نمونہ (model) منتخب کرے۔ اس کے بعد اس کے جواز و بقا کے لیے ایک نیا مذہب اور اخلاقیات کا ایک نیا فلسفہ ایجاد کرے۔ یہ خود غرضانہ کش مکش فطرت کے عین مطابق ہے۔ مصالحت کے لیے اگر کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ معاشی مفادات کے اشتراک ہی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ان مشترکہ مفادات کے حق میں نہیں ہوتے وہ ایک نزاع اور تصادم کو دعوت دیتے ہیں۔

سید مودودی ؒنے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا کہ کوئی شخص بیک وقت مومن اور مارکس کا پیروکار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ انتہا درجے کا تناقض اور بے حد افسوس ناک صورت حال ہو گی۔ سید مودودیؒ‘ ہیگل کے نظریات کو ۱۰۰ فی صد غلط قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تاریخ کے بارے میں ہیگل کا فلسفہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ارتقاے انسانی متضاد نظریات کے تصادم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تصفیے کا مرہون منت ہے۔ لیکن تاریخ کے اس پہلو کی تشریح اس قدر خوب صورتی سے کرنے کے بعد ہیگل ایسے تصورات پیش کرنے لگتا ہے جو بالکل ہی بے بنیاد ہیں۔ مثال کے طور پر ہیگل‘ اﷲ تعالیٰ کو ’’روح عالم‘‘ (World Spirit) سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس پردے میں آپ اپنی نمایش کر رہا ہے۔ اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کر رہا ہے۔ رہا انسان‘ تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔سید مودودیؒ ،ہیگل کے جدلی نظریے کے اس پہلو کو خالص فریب نظری قرار دیتے ہیں۔

سید مودودیؒ ہیگلی نظام میں پائے جانے والی ناہمواریوں کو ایک چیستان سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’باوجود یکہ یہ نظریہ اپنے اندر صداقت کی ایک جھلک رکھتا ہے‘ ہمیں اس کے اندر قیاس آرائی (speculation) کا عنصر بہت زیادہ اور تاریخ کے حقیقی واقعات سے استشہاد بہت کم نظر آتا ہے۔ --- اس نے واقعات کے اندر اتر کر یہ تحقیق کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ جن اضداد کے درمیان نزاع ہوتی ہے‘ ان کی حقیقی نوعیت کیا ہے‘ پھر ان کے درمیان مصالحت کیوں ہوتی ہے‘ اور اس مصالحت سے جو مرکب بنتا ہے‘ وہ آگے چل کر پھر کیوں اپنے اندر سے اپنا ایک دشمن پیدا کر دیتا ہے۔ اس جدلی عمل کا تفصیلی اور تحلیلی مطالعہ کرنے کے بجائے ہیگل اس پر یوں نگاہ ڈالتا ہے جیسے کوئی پرندہ فضا میں اڑتے ہوئے کسی شہر کا ایک طائرانہ جائزہ لیتا ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۰-۲۷۱)

سید مودودیؒ کے خیال میں جہاں ہیگل کے نظریے میں ٹھوس پن مفقود ہے وہاں مارکس کے خیالات سطحی نوعیت کے ہیں: ’’وہ انسان کی فطرت‘ اس کی ساخت اور اس کی ترکیب کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ باہر کے حیوان کو تو فوراً دیکھ لیتا ہے جسے معاشی ضروریات لاحق ہوتی ہیں مگر اس کے اندر کے انسان کو نہیں دیکھتا جو اس بیرونی رُوبہ کار خول میں رہتا ہے۔ مارکس انسانی فطرت کے مقتضیات سمجھ نہیں پاتا‘ جو بیرونی حیوان کی طبیعت سے بہت مختلف ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ مارکس کے کام کا یہ پہلو انتہائی کمزور ہے اور اس کے عمرانی تصور کے غیرمتوازن ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مارکس کا خیال ہے کہ نفس انسانی‘ نفس حیوانی کا غلام ہے۔ اس کے قواے ذہنی‘ قوت مشاہدہ‘ قوت تخلیق اور وجدانی ساخت‘ سب کے سب اسی بیرونی حیوان کی خدمت کے لیے وقف ہیں: ’’]مارکس کے نزدیک[ اندر والے انسان نے آج تک اس کے سوا کچھ نہیں کیا‘ نہ وہ آیندہ کرے گا‘ نہ وہ اس کے سوا کچھ کر سکتا ہے کہ بس اپنے آقا‘ یعنی باہر والے حیوان کی خواہشات کے مطابق اخلاق اور قانون کے اصول بنائے‘ مذہب کے تصورات گھڑے‘ اور اپنے لیے زندگی کا راستہ معین کرے -- انسان کی حقیقت کا یہ کتنا ذلیل تصور ہے۔ کتنا پست ہے وہ ذہن جس نے اس تصور کو پیدا کیا اور کتنے پلید ہیں وہ ذہن جو اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)

تاہم سید مودودیؒ نفس انسانی پر حیوانی ہیجانات (impulses) کے اثرات کو یکسر نظرانداز نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کی تردید بھی نہیں کی جا سکتی کہ نفس حیوانی‘ نفس انسانی پر برتری حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن سید مودودیؒ کے نزدیک مارکس کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’نفس حیوانی پر نفس انسانی اثرانداز نہیں ہو سکتا‘۔ تاریخ کے متعلق اس کا مطالعہ بالکل باطل نظر آتا ہے‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ تہذیبوں کا نشوونما محکوم افراد پر منحصر ہے جو انسانیت کے نہیں بلکہ اپنے حیوانی نفس کے تابع ہوتے ہیں۔ سید مرحوم فرماتے ہیں: ’’اگر وہ آزادانہ نگاہ سے دیکھتا‘ تو اسے نظر آتا کہ انسانی تہذیب میں جو کچھ قیمتی اور شریف اور صالح‘ ہے وہ سب ان لوگوں کا عطیہ ہے جنھوں نے حیوانیت کو انسانیت کا تابع اور محکوم بنا کر رکھا تھا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)

  • متبادل نقطۂ نظر: دنیا میں انسان کے مقام و مرتبے کے بارے میں موجودہ نظریات کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ان کے مقابلے پر اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے سید مودودیؒ فرماتے ہیں : قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان محض ایک حیاتیاتی وجود نہیں ہے جس میں بھوک‘ جنس‘ طمع‘ خوف اور غصے جیسی صفات کا بسیرا ہے‘ بلکہ اس میں ایک روحانی جوہر بھی ہے جو اخلاقی ارتعاشات کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے۔ انسان دوسرے جانوروں کی طرح جبلت کا محض پابند نہیں ہے‘ بلکہ اسے ذہانت‘ صوابدید اور علم حاصل کرنے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔  اللہ تعالیٰ انسان کو کسی طے شدہ راستے پر چلنے کے لیے مجبور نہیں کرتا‘ نہ وہ انسانی وجود کو مکمل طور پر اپنا پابند بناتا ہے۔ اس کے برخلاف اس نے انسانوں کو جدوجہد کرنے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہے تاکہ وہ زندہ رہنے کے لیے جفاکشی کو اپنا شعار بنائیں‘ اپنی مخفی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسے اپنی کوشش سے حاصل کریں۔ ایک خودمختار وجود کے طور پر جدوجہد کرنے کی قابلیت ہی کا نام انسان ہے۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲-۲۷۳)

اس بیرونی نفسِ حیوانی کو‘ جو ایک سرکش اور غیر مہذب عامل ہے جسے اپنی خواہشات اور شہوات کو پورا کرنے کے علاوہ کسی اور چیز سے غرض نہیں ہوتی-- اللہ تعالیٰ نے دراصل اندرونی انسان کی خدمت پر مامور کیا ہے۔ جب یہ جذبات سے بے قابو ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کو تلپٹ کر کے نفسِ انسانی کو اپنا ماتحت بنا لیتا ہے‘ تاکہ اس کی ذہنی صلاحیتوں پر تصرف کر کے اس سے اپنے سفلی مطالبات پورے کروا سکے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی صفات ترقی نہ کر سکیں‘ اس کی بصیرت محدود ہو جائے‘ اور اس کے اندر جاہلیت کے جذبات بھڑکتے رہیں۔ انسانی نفسِ لوّامہ‘ نفس حیوانی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اسے عدل و انصاف‘ زہد و تقویٰ اور صحیح و غلط کی رہنمائی کرنے والا الہامی علم میسر ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جبلی خواہشات کی تسکین کے لیے بھی وہ اس علم کی روشنی میں صحیح راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقاصد نفسِ حیوانی کی سفلی خواہشات کے مقابلے میں نہایت بلند ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی نظروں میں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی‘ اچھا بننا چاہتا ہے۔ اس کا وجدان اسے ایک اخلاقی وجود کی حیثیت سے خوب سے خوب تر بننے پر اکساتا رہتا ہے۔

سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ انھی وجوہ سے بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ نفسِ انسانی اور اپنے مدمقابل نفسِ حیوانی کے درمیان جاری کش مکش سے عبارت ہے۔ نفسِ انسانی اپنے وجدان کی ترغیبات پر عمل کرنا چاہتا ہے ‘جب کہ نفسِ حیوانی اسے نیچے کی جانب کھینچ کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جو خطرناک ہیں اور خود پرستی‘ اختلافِ رائے‘ شہوت (lust) ‘ اور نا انصافی سے پُر ہیں۔ ایک دفعہ پٹڑی سے اتر جائے تو یہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن نفس حیوانی کے زیر اثر اپنے لیے غلط علاج تجویز کر لیتا ہے۔ وہ رہبانیت میں پناہ لیتا ہے‘ نفی ذات کی ریاضتوں کا سہارا لیتا ہے ‘یا پھر معاشرے کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں ڈھونڈتا ہے۔ لیکن بجاے اس کے کہ نفس ِ حیوانی پر اس کی گرفت مضبوط ہو‘ زندگی سے اس نامطلوب دست برداری کی بدولت وہ دوبارہ غلط راستوں پر چل نکلتا ہے۔ اور اس مرتبہ اس کا حیوانی نفس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائے۔

سید مودودی کہتے ہیں: ’’افراط و تفریط کی یہ دونوں طاقتیں ]یعنی رہبانیت اور مادیت[ بار بار اپنا زور لگاتی ہیں جو حیات انسانی کو ادھیڑ دیتی ہیں۔ ہر ایک کے اثر سے کچھ ایسے نظریات‘ اصول اور طریقے پیدا ہوتے ہیں جو ایک عنصر حق کا اور کچھ عناصر باطل کے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کچھ دنوں تک انسان ان مخلوط اصولوں اور طریقوں کا تجربہ کرتا ہے۔ آخرکار اس کی اصلی فطرت‘ جوشعوری یا غیر شعوری طور پر صراط مستقیم کے لیے بے چین رہتی ہے‘ ٹیڑھے راستوں سے بیزار ہو کر ان کے باطل عناصر کو پھینک دیتی ہے اور ان کے صرف وہ حصے انسانی زندگی میں باقی رہ جاتے ہیں جو حق اور راست ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ کا ٹیڑھے راستے کا تصور ’’قرآن مجیدکی اصطلاح ’’سواء السبیل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہیگل جس ٹیڑھے راستے کا ذکر کرتا ہے‘ اس کا تصور اس نے کہاں سے لیا؟ کیا اس نے بھی قرآن ہی سے یہ تصور لیا ہے؟ بہرصورت‘ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ اینجلز کے بیانات کے مطابق ہیگل نے بُھول بھلیوں پر مبنی حرکات‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر اینجلز کی کتاب Ludwig Feuerbach سے یہ عبارت ملاحظہ کیجیے:

According to Hegel, therefore, the dialectical development apparent in nature and history, i.e.., the causal interconnection of the progressive movement from the lower to the higher, which asserts itself through all zigzag movements and temporary setbacks, is only a miserable copy of the self-independently of any thinking brain.

ہیگل کے خیال میں فطرت اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی جدلّی نشوونما ‘یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی جانب ترقی پذیر حرکت کاتشبیبیربط باہم جو تمام کج مج حرکات اور عارضی رکاوٹوں میں اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے‘ اس تصورکی محض ایک منحوس نقل ہے‘ جو ازل سے رواں دواں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ لیکن تمام واقعات و حوادث کسی سوچنے سمجھنے والے ذہن سے آزاد ہیں۔

قرآن مجید اور ہیگل کے موقف میں بہرحال ایک بنیادی نوعیت کا فرق ہے: جہاں ہیگل   پیچ دار حرکات کو کسی معاشرے کے اندر تناقضات پر قابو پانے کی کش مکش کا پرتو قرار دیتا ہے‘ وہاں  قرآن حکیم اس تلوّن مزاجی کو اسلامی اور غیر اسلامی طریق ہاے زندگی کی کش مکش قرار دیتا ہے۔۴؎

  • سیکولرازم اور اس کا خراج:مغربی تہذیب کی عمارت جو اس قسم کے اینٹ مسالے سے تیار ہوئی ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے سید مودودیؒ ؒ جیسے صاحب ِفراست لوگوں کے لیے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ تھی کہ سیکولرازم‘ نیشنلزم اور جمہوریت جیسے مغربی نظاموں کی نمایاں اقدار انسان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ ان کی رائے میں ان تین نظاموں نے مل کر نسلِ انسانی کے اوپر عذاب کی مثلث مسلط کر رکھی ہے۔  سیدمودودیؒ بتاتے ہیں کہ مغرب کا یہ اصرار کہ ان کے سیکولر نظام حکومت میں مذہب کوئی مداخلت نہ کرے‘ یہ دراصل عیسائی پادریوں کے مرتب کردہ علم الٰہیات (Theology) کے خلاف ردِعمل تھا‘ جس نے اس کی آزادی اور نشوونما کو اپنے پنجے میں جکڑ کر سخت ذہنی صدمے سے دوچار کر رکھا تھا۔ وہ بار بار دہرائے جانے والے اس پٹے ہوئے جملے (cliche) کو: ’’مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے‘‘ تہذیب حاضر کا کلمۂ شہادت قرار دیتے ہیں۔ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا ضمیر خدا کے وجود کی گواہی دیتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں خدا کی عبادت  کرتا پھرے‘ لیکن سیکولر نظام حکومت میں مذہب کو دخیل کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے … اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قسم کے دنیوی تعلقات‘ خواہ وہ تعلیم سے متعلق ہوں یا تجارت‘ قانون اور سیاست سے تعلق رکھتے ہوں‘ یا پھر بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوں‘ وہ سب کے سب مذہب کی گرفت سے یکسر آزاد ہوگئے۔ فیصلے اقدار کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ موقع محل کی مناسبت سے کیے جاتے ہیں جن میںاصلاً  نفسِ انسانی‘ ثالث کا کردار ادا کرتا ہے (ایضاً)۔ ان کے نزدیک یہ دکھ کی بات تھی کہ ’’انفرادی زندگی بھی ’’بے خدا‘‘ تعلیم اور لادینی معاشرتی اثرات کے سبب لادینیت کا شکار ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کی شخصی شہادت اور اس کی عبادت کا علانیہ اظہار بھی اب بالخصوص ان لوگوں کی جانب سے نہیں ہوتا جو اس نئی تہذیب کے اصل محرک اور مبلغ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے وجود کو عوام کے دل و دماغ کی دنیا سے محو کر دینے کے اس لادینی منصوبے کو   وہ غیر منطقی قرار دیتے ہیں: یہ بات ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کرنا‘ جس کا ہم سے  کوئی واسطہ ہی نہیں ہے‘ عقل و شعور سے عاری بات ہے۔ اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق‘ مالک اور حاکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی عمل داری محض ایک شخص کی نجی زندگی تک محدودرہے ‘اور جہاں سے انسانوں کے درمیان اجتماعی تعلقات کا آغاز ہو‘ وہاں اس کے اختیارات کی حد ختم ہو جائے۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے‘ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خود ہی اپنے اور خدا کے تعلقات کی حدود مقرر کر لی ہیں پھر یہ    اپنے خالق‘ مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو‘‘۔(ایضاً)

سید مودودیؒ کے افکار کے مطالعے سے سیکولر ذہن کی یہ غلطی مزید نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے: کسی صحیح الدماغ شخص کے لیے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ ہر شخص اپنی شخصی اور ذاتی حیثیت میں تو خدا کا بندہ ہو‘ لیکن جب بہت سے افراد مل کر ایک معاشرہ کی تشکیل دیں تو وہ سب افراد خدا کی بندگی سے نکل جائیں یعنی انفرادی طور پر تو سب رب کو رب تسلیم کریں‘ لیکن اجتماعی سطح پر اس کی ربوبیت کا انکار کر دیں۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو حواس سے عاری شخص کے ذہن میں ہی آسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے‘ نہ محلے اور شہر میں‘ نہ مدرسے اور کالج میں‘ نہ منڈی اور بازار میں‘ نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں‘ نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سکرٹریٹ میں‘ نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں‘ تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں اسے مانا جائے اور خواہ مخواہ اس کی عبادت اور بندگی کی جائے جو زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا‘ یا معاذاللہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی۔(ایضاً)

زندگی کو انفرادی اور اجتماعی خانوں میں بانٹنے سے لازماً مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کا موقف ہے کہ جس چیز کو لوگ ذاتی زندگی کہتے ہیں‘ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے‘ کیونکہ انسان ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولتا ہے جس میں وہ اجتماعیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے والدین انسانی سماجی تعلقات کی بدولت ہی ازدواجی رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کی گود ہی میں دن کی پہلی کرن سے واقف ہوتا ہے اور معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ جب وہ سنِ بلوغت کو پہنچتا ہے تو اپنے آپ کو معاشرے اور اس کے مختلف اداروں میں گھرا ہوا پاتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ انسانوں کو دوسرے انسانوں سے جوڑنے والے بے شمار روابط اپنی ساخت میں صحت مند ہونے چاہییں کیونکہ یہ ان کی فلاح و بہبود کا نقطۂ آغاز ہے۔ باہمی تعلقات کی ایسی صحت مند اور اعلیٰ اقدار صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی جا سکتی ہیں۔ سید مودودی لکھتے ہیں: جہاں انسان اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنا‘ پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہو جانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربے کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔

یہی بات رسل کرک  (Russell Kirk) نے کئی برس کے بعد ان الفاظ میں کہی:۵؎

The sanction for obedience to norms must come from a source higher than private speculation: Men do not submit long to their creations. Standard, erected out of expediency will be hurled down, soon enough, also out of expediency.

معروف اقدار کی پابندی ایک ایسی ہستی عائد کر سکتی ہے جو ہمارے فہم و شعور سے بالاتر ہو۔ انسان زیادہ طویل عرصے تک اپنی تخلیقات کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ مصلحت کی بنیاد پر بنائے گئے معیار بہت جلد مصلحت ہی کی بنا پر روند ڈالے جاتے ہیں‘‘۔

سیکولرازم فرد اور معاشرے دونوں کے لیے جو مسائل کھڑے کرتا ہے‘ سید مودودیؒ ؒ اسے بھی عمدہ طریقے سے بیان کرتے ہیں: جس معاشرے کا نظام لادینی اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم‘ ناانصافی‘ بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھُس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی‘ طبقاتی‘ قومی اورنسلی خود غرضیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو‘ ہر ایک شخص نے‘ ہر ایک گروہ نے‘ ہر ایک طبقے نے ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے‘ پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص‘ گروہوں‘ طبقوں اورقوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اگر کسی شعبے کو اہمیت اور وقعت دی جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف قوت و اختیار ہے جس میں طاقت سے ہی ڈرا جاتا ہے۔ درحقیقت لادینی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کسی کے حدود و تصرف میں صرف اور صرف طاقت کی عمل داری کو ایک منطقی اور فطری اصول کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ پس لادینی معاشرتی نظام کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیار کرے گا بے لگام‘ غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس ہو کر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔۶؎

قوم پرستی (Nationalism) اور اس سے ملتی جلتی عصبیت (Irredentism) کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی کی ابتدا میں ہوا اور یہ دونوں تحریکیں تیزی سے پھلنے پھولنے لگیں کیونکہ گذشتہ صدیوں کے دوران میں آنے والی تبدیلیوں کے سبب بادشاہتوں کی شکست و ریخت شروع ہو چکی تھی۔ سید علیہ الرحمہ نے قوم پرستی کے باعث نوعِ انسانی کو پہنچنے والے ان نقصانات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ قوم پرستی کی ابتدا اِس معصومانہ سوچ سے ہوئی تھی کہ ہر قوم کو اپنے معاملات چلانے کے لیے حکمت عملی خود وضع کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن جب قومیت کا تصور مستحکم ہو گیا تو اس نے خدا کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کر دیا اور ’’قومی مفادات‘‘ کو اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا درجہ دے دیا۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سید مودودیؒ قومیت کے تصور کے یکسر خلاف تھے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قوم پرستی کو خداپرستی کا درجہ نہ دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومی مفادات کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے والے عالمی اخلاقی معیارات سے بدل دینا خطرناک ہوگا۔

قوم پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز خواہ وہ عدل و انصاف کے منافی ہو یا پرانی مذہبی روایات میں گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہو‘ اگر وہ قوم کے لیے نفع بخش ہے تو اسے ایک پسندیدہ فعل سمجھا جائے۔ اسی طرح کوئی بھی امر جو حق و انصاف اور ایمان داری پر مبنی ہو یا جسے کسی زمانے میں اخلاق کی انتہا سمجھا جاتا تھا‘ اگر وہ قوم کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے ایک ناپسندیدہ کام قرار دیا جائے۔ اسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنی قوم کی خاطر اپنی جان‘ مال‘ وقت‘ حتیٰ کہ ضمیر اور عقائد تک کو قربان کر ڈالے‘ اسے ایک مثالی شہری سمجھا جائے گا۔

ایسے معاشرے میں اجتماعی کوششوں کا محور اپنے شہریوں کو یہ تعلیم دینا ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی قوم کی عظمت کی بلندی کے لیے کام کریں: نیکی وہ ہے جو قوم کے لیے مفید ہو‘ خواہ وہ جھوٹ ہو‘ بے ایمانی ہو‘ ظلم ہو‘ یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو‘ انصاف ہو‘ وفاے عہد ہو اور اداے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ افرادِ قوم کی خوبی اور زندگی و بیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ کرے‘ خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی‘ اخلاق و انسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی‘ بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہو کر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کو پورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔(ایضاً)

عوام کی اقدار ِ اعلیٰ کا جو تصور سیکولرازم نے دیا‘ وہ بھی سید مودودیؒ کی نظروں میں اتنا ہی خطرناک ہے: جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the People) کو ابتداً بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیا گیا تھا‘ اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کر دینے اور اپنی اغراض کے لیے انھیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن اس منفی پہلو کے ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی مثبت پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختارِ کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش (عملاً اس کی اکثریت کی خواہش) کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔(ایضاً)

لیکن اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب قوم پرستی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک دوسرا خدا بھی بنا لیا۔ سید مودودی کہتے ہیں: اخلاق ہو یا تمدن‘ معاشرت ہو یا سیاست‘ ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں‘ اور جن اصولوں کو قوم کی راے عامہ رد کر دے وہ باطل ہیں۔ قانون‘ قوم کی مرضی پر منحصر ہے۔ جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے۔ قوم ہی کی رضا کا اسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔

پھر سید مودودیؒ ؒ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت‘ یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختار مطلق ہونا اور ان کا قانون کے تابع نہ ہونا‘ بلکہ قانون کا ان کی خواہش کے تابع ہونا‘ اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔

ان کے خیال میں اسی کے ساتھ عذاب کی مثلث مکمل ہو جاتی ہے: پہلے تو لادینیت نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کر کے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس بنا دیا‘ پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کر دیا‘ اور اب یہ جمہوریت انھی بے لگام‘ بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صَرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے سید مودودی ایک فطری سوال اٹھاتے ہیں: سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحب ِحاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقت ور بدمعاش کے حال سے کس بات میں مختلف ہو گا۔ جو کچھ ایک بدمعاش فرد خود مختار اور طاقت ور ہو کر چھوٹے پیمانے پر کرے گا وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دینی‘ قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑیوں کا میدانِ جنگ نہ بنے گی تو اور کیا بنے گی؟۷؎

مغرب و مشرق میں اقدار کی قدیم دنیا کے تحلیل ہو جانے کے بعد وجود میں آنے والا نیا لادین معاشرہ ایک کھوکھلا معاشرہ تھا‘ جسے نفسانی نظریات کے علاوہ اور کسی چیز کا سہارا میسر نہیں ہے۔ اب وہ چاہے ڈیکارٹ (Descarte) کی ’’یکہ و تنہا انا پرستی‘‘ ہو‘ کانٹ (Kant) کا ’’تخصیص کردہ اصل مافیہ کے اثر سے پاک نفسِ آزاد‘‘ ہو‘ ویبر (Weber) کی ’’طریقیاتی انفرادیت‘‘ ہو‘ جو موجودہ سماجی ساختوں کو افراد کے عقائد اور رویوں کا پرتو قرار دیتی ہے‘ یاپھر کیر کیگارڈ (Kierkegaard) کی ’’جمالیاتی شخصیت‘‘ ہو جو زندگی کے ایک مجموعی لائحہ عمل کی مالک تو ہوتی ہے لیکن جس میں کوئی مافیہ (content) نہیں ہے‘ بلکہ ایک خالی خولی عمل ہے جو کسی اتفاقی عامل (input) کے انتظار میں رہتا ہے۔ لادینی معاشرہ نفس کے بارے میں کم و بیش اس تصور پر متفق ہو گیا‘ کہ یہ ’’جذبات کا معقول مالک اور آقا ہے جو مشین کے جسم میں رہایش پذیر ہے‘‘۔ یہ تصور‘ نفس کے اس تصور سے قطعی طور پر مختلف تھا کہ ’’یہ کائنات اور معاشرے سے متحد نامیاتی اعضا کی دقیق ہم ٖآہنگی کا جزو لازم ہے‘‘۔ جب نفس کو اس کے نامیاتی پس منظر سے جدا کر دیا گیا تو ’’تمام اخلاقی مطالبات کے لیے یہ ایک آخری سہارے‘‘ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ لیکن ایک لادین نفس‘ جیسا کہ اسے ہونا چاہیے‘ بے لگام تھا۔ یہ ایک حریص اور لالچی نفس تھا‘ جو پیوستگی‘ اتحاد اور عقل سلیم جیسی صفات کے تقاضوں سے قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ عقلیت پرست نفس خود اپنے تیار کردہ جالے (web) میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے مغالطوں اور اپنی تحدیدی فطرت کے ہاتھوں اسے لگام ملتی ہے۔

لادین ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سید مودودیؒ ،اعتدال اور میانہ روی کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘ کیونکہ خود انسان اپنے لیے کوئی درست راہ منتخب نہیں کر سکتا۔ یہ امر انسان اور اس کی صلاحیتوں کا کوئی خوش کن میزانیہ نہیں ہے۔ لیکن لگتا ہے انسانی تاریخ‘ اس المیے کی تائید کرتی ہے‘ کیونکہ انسان اپنی مجموعی صورتِ حال میں نجات دہندگی کی شاہراہ پر چلنے سے غفلت کا شکار رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خود پرستی یا ذات کا عشق (narcissism) اوباشیت‘ نا آسودہ حیوانی خواہشات    کا بے لگام اظہار (bohemianism)  (روایات اور اقدار سے) بے گانگی اور نفرت (estrangement) جو ایک ہی مرض کی تین حالتیں ہیں‘ انھوں نے انسانوں کو اچھائی قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال کو سمجھنے کے لیے سید مودودیؒ ہمیں اس حقیقت سے باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مرد اور عورت اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے‘ جس میں کچھ ذہنی اور طبیعی قوتیں قیام پذیر ہیں۔ اس کی کچھ خواہشات ہیں‘ کچھ جذبات اور ذاتی میلانات ہیں اور ساتھ ہی کچھ روحانی اور جبلی مطالبات بھی ہیں۔ معاشرے کی تشکیل کا عمل بھی‘ جو انسانوں کے میل جول سے وجودمیں آتا ہے‘ پیچیدہ ہے‘ اور جوں جوں تمدن نشوونما پاتا ہے‘ اس پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ معاشرے میں مادی وسائل کی کثرت کے سبب انفرادی اور معاشرتی سطح پر ان کی ملکیت اور تقسیم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

چونکہ انسان فطری طور پر خامیوں سے پاک نہیں ہے‘ لہٰذا اس کے لیے ماضی پر ایک متوازن نظر ڈالنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے زندگی کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ممکن نہیں جو نفسی روحانی (psycho-spiritual) اور مادی‘ ہر دو معنوں میں اس کے لیے ممد و معاون ہو‘ جو اسے اس کی بساط کے مطابق انصاف فراہم کر سکتا اور اس کے اجتماعی معاشیاتی مسائل کو عادلانہ انداز میں حل کر سکتا ہو۔ پھر یہ نظام ایسا بھی ہونا چاہیے‘ جو انفرادی اور معاشرتی دونوں قسم کی ضرورتوں کے لیے مادی وسائل کے استحقاقی استعمال کی ضمانت دے جس سے ایسی صحت مندانہ نشوونما کو فروغ حاصل ہو جو ماحول اور معاشرتی توازن کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ جب انسان قیادت پر قبضہ کر کے خود ہی اپنے مشیر بن جاتے ہیں تو حقیقت کے محض چند پہلو‘ زندگی کی چند ضروریات اور چند ایک حل طلب مسائل ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ تب وہ نادانستہ طور پر دوسرے پہلوئوں کے بارے میں غیر منصفانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور یہ ٹیڑھے راستے پر چل نکلتی ہے۔

سید مودودیؒ اپنا راستہ خودمتعین کرنے کی انسانی کوششوں کو بے مقصد اور وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ’’جدلی عمل‘‘ کو انسانی ترقی کے لیے ایک فطری ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ارتقا کا کامیاب راستہ نہیں بلکہ تباہی کی جانب لے جانے والی ناہموار سڑک ہے‘ جو انسان کو مصیبت کے ایک گڑھے سے دوسرے گڑھے میں گراتی رہتی ہے۔

سید مودودیؒ لادینی ذہنیت کے فروغ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں کہ کسی بنیادی مابعد الطبیعی ڈھانچے کی طرف رجوع کیا جائے‘ انسان اور قدرت کے درمیان ایک کائناتی وحدت پر یقین رکھا جائے‘ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان توازن قائم کیا جائے‘ اخلاقی صفات سے متصف انسان کی تشکیل کی جائے‘ قومیتوں کی کڑی حدبندیوں کو توڑ دیا جائے اور ایک ایسا عالمی نظام وضع کیا جائے جس میں دنیا کی غریب اور پسی ہوئی اقوام کو مساویانہ مقام اور وقار ملے۔

مسلمانوں کے لیے سید مودودیؒ کا پیغام ہے کہ اپنے نظامِ اقدار کو دوبارہ اس کی خالص شکل میں اپنائیں‘ اور اسلامی اخلاق پر مبنی ایک ریاست قائم کر کے اپنے گھر کی اصلاح کریں‘ جو دوسروں کے لیے ایک شان دار نمونے اور انسانیت کے منقسم طبقات کی باہمی تفہیم کے لیے ایک پُل کا کام دے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے‘ لیکن دنیا میں تاریکی جس قدر زیادہ ہو گی‘ روشنی کے لیے انسان کی تڑپ بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

حواشی

۱-            برین گارڈنر (Brain Gardner)   The East India Company  (نیویارک: ڈورسیٹ پریس‘ ۱۹۹۰ئ)۔ یہ پورا پیراگراف لائق مطالعہ ہے کیونکہ یہ ہندستان بھر میں بار بار دہرائے جانے والے اس دعوے کو مسمار کرتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوئوں اورمسلمانوں کے درمیان برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ’’ایلن برو (Ellenborough) کے ارادے امن پسندانہ تھے‘ یا کم از کم وہ ظاہر یہی کرتا تھا‘ لیکن اس کے افعال اور عملی اقدامات جنگجویانہ نوعیت کے تھے۔ ابھی اس نے [ایسٹ انڈیا] کمپنی کو افغانستان میں ہونے والی مکمل ناکامی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو سلجھایا ہی تھا کہ سندھ [موجودہ پاکستان] کے مسئلے نے سر اٹھا لیا۔ یہیں سے افغانستان پر سب سے پہلے چڑھائی کرنے والے روانہ ہوئے تھے۔ یہاں کے مقامی امیر مطلق العنان اور ظالم تھے‘ لیکن اپنی آزادی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دریاے سندھ پر جو پنجاب کی شہ رگ تھا‘ ان کامکمل کنٹرول اور زیریں سندھ کا علاقہ زرخیز اور زمینی پیداوار سے مالا مال تھا۔ وہ مسلمان بھی تھے اور ایلن برو کو پورا یقین تھا کہ ہندو‘ انگریزوں کے فطری ساتھی اور مسلمان ان کے قدرتی دشمن ہیں‘‘۔

۲-            دیکھیے: سٹینلے ایل جیکی (Stanley L. Jaki) کی کتاب The Road of Science and The Ways to God (یونی ورسٹی آف شکاگو‘ ۱۹۷۸ئ‘ ص ۲۸۸ - ۲۸۹)

۳-            دیکھیے: چارلس ڈارون‘ The Origin of Species (نیویارک: دی نیو امریکن لائبریری آف ورلڈ لٹریچر‘ ۱۹۵۸ئ)۔ اس بارے میں ہکسلے نے جو بات کہی‘ اس کے لیے اسی کتاب کا صفحہ ’’y‘‘ دیکھیے۔

۴-            دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی ،’’اسلام اور سیکولر ذہنیت‘‘ The Subversive Principles of Western Civilization ترجمہ و تدوین: طارق جان (لیسٹر: اسلامک فائونڈیشن‘ زیرطبع)۔

۵-            رسل کرک‘ Enemies of The Permanent Things-Observations of Abnormality in Literature on Politics (نیو روشیل‘ آرلنگٹن ہائوس‘ ۱۹۶۹ئ‘ ص ۱۷)

۶-            سید ابوالاعلیٰ مودودی،’’اسلام اور سیکولر ذہنیت‘‘ The Subversive Principles of Western Civilization

۷-            دیکھیے: طارق جان‘ Secularism, The New Idolatory, Pakistan Between Secularism and Islam (اسلام آباد: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ ۱۹۹۸ئ)

مغرب کی نماز ختم ہوتی تو وہ کرسی اٹھا دی جاتی جس پر بیٹھ کر وہ نماز ادا کرتے تھے۔ملازم مصلیٰ تہہ کرنے کے لیے واپس پلٹ رہا ہوتا تو میں بھاگ کر اُس جاے نماز پر جاکھڑا ہوتا‘ جس نے ابھی چند لمحے پہلے اُس نابغۂ روزگار شخصیت کے نرم و نازک پائوں چھوئے تھے۔ ذیلدار پارک کے گھر کے برآمدے میں جالی دار دروازے سے لے کر برآمدے اور لان میں بچھی ہوئی صفوں تک ‘میں اُس شخص کی طرف ٹکٹکی لگائے حیرت سے دیکھ رہا ہوتا!

کئی بار میں خود سے سوال کرتا کہ اس چہرے میں ایسی کیا جاذبیت ہے کہ آنکھ اُس سے ہٹتی ہی نہیں‘ گھنٹوں دروازے کے باہر لان میں اُس کی آمد کا انتظار کرتی ہے اور واپسی تک اُس کا پیچھا کرتی ہے۔ یہ کوئی ایسی عمر بھی نہیں کہ کسی ایسی شخصیت کی محبت میں گرفتار ہوا جائے جو مروّجہ اصولوں اور خوابوں کے بنائے ہوئے پیمانوں میں کسی طور پر بھی ہیرو کے سانچے میں نہیں ڈھل پاتی۔ لیکن اس عشق سے چند سال پہلے کی میں اپنی جستجو پر نظر ڈالتاتو جواب مل جاتا۔ مجھے اس جاے نماز‘ ان قدموں کی چاپ اور اُس چہرے سے عشق تھا‘ جسے میں باوجود اپنی کوشش کے آنکھ بھر کے دیکھ نہیں پاتا تھا۔ یوں تو وہ آنکھیں عینک کے پار سے کبھی کبھار اٹھتیں اور وہ بھی سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں پر گھوم کر واپس جھک جاتیں۔ لیکن پھر بھی میں سوچتا کہ  ان آنکھوں میں دیکھنے کی شاید ہی مجھ میں ہمت ہوسکے۔ نظریں جھکائے وہ سوالوں کا جواب دیتے رہتے۔

آدمی جب کم علم ہوتا ہے تو علمیت زیادہ جھاڑتا ہے‘ اور میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں نے ایک دفعہ جدلیاتی فلسفے کے حوالے سے اپنے مبلغ علم کو جمع کر کے پوچھا: ’’ہم تاریخ کے جواب دعویٰ (anti thesis) کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس میں صدیوں پرانے سماجی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کو روکنا تاریخ کے پہیے کو روکنا ہے۔ تباہ ہونے دیں اس فرسودہ ماحول کو‘ تاکہ اس کی کوکھ سے ہم نیا نظام جنم دیں‘ دوبارہ نئی بنیادوں پر؟‘‘

وہ واحد لمحہ تھا جب وہ آنکھیں پورے مجمعے کو چیرتی ہوئی مجھ سے ٹکرائیں اور وہ فقرے جن کی گونج میں آج بھی ۳۰ سال گزرنے کے بعد محسوس کرتا ہوں‘ہولے سے ہاتھ میز پر رکھتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’تاریخ میں جن قوموں نے شر کے تھیسس (thesis) کے سامنے خیر کا تھیسس بیک وقت پیش کرنے کی کوشش نہیں کی‘ وہاں پھر کوئی جدلیاتی فلسفہ بھی صالح نظام تخلیق نہیں کرسکا‘‘۔ شاید ہی کسی نے صدیوں کی بحث کو یوں منٹوں میں سمیٹا ہو۔

یہ وہ موڑ تھا جس نے میرے اندر سوال در سوال کے بجاے جستجو کی چنگاری کو سلگا دیا۔ ایک ۱۶ سالہ نوجوان جو تشکیک کے امام نیاز فتح پوری کی  من و یزداں سے لے کر مارکس کی داس کیپی ٹال اور ہیگل اور مارگن کی تاریخ کی بھول بھلیوں سے گزرتا ہوا فکری بے یقینی اور روحانی بے اطمینانی کے دور سے گزر رہا تھا‘ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس چہرے کے نور اور لفظوں کی حکمت نے ایک جھپاکا سا کیا۔ایسے جیسے چاروں طرف گھٹاٹوپ بادلوں میں اندھیری رات کے عالم میں اچانک زوردار بجلی چمکے تو ایک لمحے کو سارے نشیب و فراز نظرآجاتے ہیں۔ پھر آگے بڑھتے اور قدم رکھتے ہوئے خوف کا عالم کم اور منزل تک پہنچنے کا یقین زیادہ ہو جاتا ہے۔ بے شک وہ بجلی دوبارہ چمکے یا نہ چمکے‘ راستہ ضرور دکھا جاتی ہے‘ اُس کے نشیب و فراز سے آگاہی ضرور دے جاتی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ آسمانی بجلی کے برعکس‘ آگاہی دینے والے کی چمک اور پیغام کی گھن گرج جتنی اُس وقت میں نے محسوس کی تھی‘ اُس سے ہزار گنا زیادہ آج کی دنیا محسوس کر رہی ہے۔

مجھے کبھی اپنے ہیروز کے قدوقامت کی پیمایش کے لیے غیروں کے حوالے اچھے نہیں لگتے‘ لیکن کیا کروں مجھے آج کی شرمندہ اور اپنے وجود سے برگشتہ قوم کے سامنے ایک حوالہ رکھنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ ۱۰ سالوں میں مذاہب کی تاریخ اور ان کے عروج و زوال پر جس خاتون کی کتب نے سب سے زیادہ تاثر چھوڑا ہے‘ اور جسے آج کے دور میں سب سے زیادہ غیرمتعصب محقّقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ کیرن آرمسٹرانگ (Karen Armstrong) ‘ ایک برطانوی کیتھولک راہبہ ہے۔ میں اس کی دو کتابوں  Battle for God (خدا کے لیے جنگ) اور  Islam: A Short History (اسلام‘ ایک مختصر تاریخ)کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

کیرن آرمسٹرانگ ان دونوں کتابوں میں تاریخ کے اس موڑ پر آتی ہے‘ جب مذاہب چلے ہوئے کارتوس بنتے جا رہے تھے اور دنیا سیکولرزم کی گرویدہ اور طلب گار ہوتی جا رہی تھی‘    تو اس سارے طوفان کے مقابلے میں قلم کی صرف ایک آواز اور تحریک کی صرف ایک ہی صورت اُسے نظر آتی ہے اور وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ذات ہے۔

وہ مولانا مودودیؒ کی‘ اس ’شر‘ کے مقابلے میں ’خیر‘کے ’جواب دعویٰ‘ کی تحریک کو یوں سمیٹتی ہے:

مودودی جنھوں نے ۱۹۳۹ء میں اپنا تصور وضع کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[ نے اسلام سے پہلے کی ’’جاہلیت‘‘ یعنی جہالت اور وحشت سے جنگ کی تھی ‘ بالکل اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کو تمام میسرذرائع سے مغرب کی جدید ’’جاہلیت‘‘ کی مزاحمت کرنا ہے۔مودودی کو یقین تھا کہ سچے مسلمان دنیا سے الگ رہ کر اور سیاست کو دوسروں پر چھوڑ نہیں سکتے۔ انھیں اس فروغ پاتے ہوئے لادینی سیکولرزم سے لڑنے کے لیے لازماً متحدہوجانا چاہیے اور ایک انتہائی منظم گروہ تشکیل دینا چاہیے۔ مودودی نے لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے اسلام کو ایک مدلل عقیدے اور منظم تحریک کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی‘ تاکہ اسے بھی زمانے کے دوسرے نمایاں نظریات کی طرح سنجیدگی سے لیا جائے۔

یہ مصنفہ‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو سیکولرزم کے مقابلے میں اسلام اور الٰہیات کا پہلا منظم سپہ سالار گردانتے ہوئے لکھتی ہے:

حقیقت میں مودودی کسی بھی جدید فرد کی طرح آزادی کے گرویدہ تھے اور آزادی عطا کرنے والی ایک اسلامی الٰہیات پیش کر رہے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ خدا مطلق حاکم ہے‘ اس لیے کوئی انسان دوسرے انسان کی اطاعت پر مجبور نہیں۔ رضاے الٰہی کے مطابق حکومت نہ کرنے والا حاکم اپنی رعایا کو اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت میں انقلاب صرف ایک حق نہیں‘ بلکہ فرض ہو جاتا ہے۔

شاید ہی کسی نے مولانا مودودیؒ کے اس علمی خزانے سے اتنا مدلل نتیجہ اخذ کیا ہو‘ جتنا اس مصنفہ نے کیا۔ وہ بیان کرتی ہے: ’’مودودی‘ نظریے کی قدر پر یقین رکھتے تھے۔ وہ دوسرے تمام نظاموںکو نقائص سے معمور سمجھتے تھے۔ جمہوریت: حرص و ہوس اور انتشار کا باعث بنتی ہے۔ سرمایہ داری نے طبقاتی جنگ برپا کی ہے اور ساری دنیا کو بنک کاروں کی ایک نہایت قلیل سی تعداد کا غلام بنا دیا ہے۔ کمیونزم نے انسانی آزادی اور انفرادیت کو محدود کر دیا ہے۔ لیکن اسلامی ریاست‘ بدعنوانی اور آمریت سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے جدید اصلاحات کو ایک اسلامی جہت عطا کی‘‘۔ بقول کیرن آرمسٹرانگ: ’’مودودی نے ایک آفاقی جہاد کامطالبہ کیا۔ ان سے پہلے‘ غرناطہ کی تباہی کے بعد سے اب تک کسی مسلمان مفکر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا تھا‘‘۔

بقول مصنفہ: ’’یہ آفاقی جہاد کا مطالبہ ‘عدیم النظیر تھا‘ جب کہ حالات بھی مایوس کن تھے۔ عالمِ اسلام میں محمد عبدہ اور حسن البنا پُرامن انداز سے اپنی کوشش کے باوجود مصر کے آمر کے ہاتھوں مغلوب ہوچکے تھے۔ ایسے میں ۱۹۵۱ء میں مولانا مودودی کی حریت فکر اور انقلابی جدوجہد والی تحریریں مصر میں شائع ہونا شروع ہوئیں اور ۱۹۵۴ء میں اخوان المسلمون کی ایک عظیم شخصیت ۱۵ سال کے لیے جیل چلی گئی‘ جہاں اُسے ان تحریروں سے شناسائی حاصل ہوئی اور اُس کی نظروں کے سامنے مغربی دنیا کا ایک ایسا چہرہ اور سیکولر کلچر کی ایک ایسی تصویر آئی جو تقدس اور اخلاقی اہمیت سے خالی اور دہشت سے بھرپور ہے‘‘۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر لکھی گئی سید قطب کی اس تحریر کو موجودہ اسلامی تحریک احیا اور سیکولرزم کی کریہہ صورت سے جنگ کا      حرفِ آغاز گردانتی ہے۔سید قطب کی یہ تحریر اُس علمی خزانے کے موتیوں سے بھرپور ہے جو مولانا مودودی کی تنقیحات ‘ پردہ‘سود اور تفہیمات جیسے مدلل اور تحقیق سے پُرعلمی سمندر میں مدفون ہیں۔

سید قطب کی تحریر ملاحظہ کریں: ’’دورِحاضر میں انسانیت جسم فروشی کی ایک بہت بڑی مارکیٹ میں زندہ ہے۔ اس کا ثبوت اخبارات‘ فلموں‘ فیشن شو‘ حسن کے مقابلوں‘ رقص گاہوں‘ مے خانوں اور نشریاتی اسٹیشنوں پر صرف ایک نگاہ ڈال کر مل سکتا ہے‘ یا عریاں جسموں کی مجنونانہ نمایش‘    ہیجان انگیز مظاہرے ‘نیز ادب‘ فنون اور ذرائع ابلاغ میں مریضانہ اشاروں سے‘ اور اُس پر سب سے مستزاد سود کا نظام جو انسان میں دولت کی ہوس کو فزوں تر کر دیتا ہے۔ قانون کے لبادے میں دھوکادہی‘ چال بازی اور بلیک میل کرنے کے گھنائونے طریقے اس میں اضافے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں‘‘۔

اپنی دونوں کتابوں میں یہ خاتون کہتی ہے کہ موجودہ اسلامی نشات ثانیہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے چراغ سے چراغ روشن کرتی اور سید قطبؒ سے روشنی لیتی ہے۔ پھردنیا بھر میں مغرب کی کریہہ المنظر سوسائٹی کے مقابلے میں اسلام کی نشات ثانیہ کی تحریک کی اس انقلابی اپیل کو انڈونیشیا کے جزائر سے لے کر افغانستان کے پہاڑوں تک اور سوڈان اور الجزائرکے صحرائوں تک لے جاتی ہے۔ مصنفہ کے نزدیک ایران کے انقلاب میں طریق کار کی وضاحت کا شرف اور دنیا بھر میں مزاحمتی تحریکوں کو ایک نیا رخ دینے کا سہرا‘ سید مودودیؒ کے سر بندھتا ہے۔

تاریخ کا یہ تجزیہ بجا اور مصنفہ کی موجودہ دور میں اہمیت اپنی جگہ‘ اُس کا اِس دنیا کی ہربڑی زبان میں ترجمہ ہونے کا اپنا مقام بھی تسلیم‘ لیکن میں آج بھی جب سید مودودی کی تحریریں پڑھتا ہوں تو میں ان کے چہرے کے سحرسے باہر نہیں نکل پاتا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ جدید دور کے ایک نئے صوفیانہ سلسلے کے بانی تھے‘ جس میں بیعت ہاتھ میں ہاتھ دے کر نہیں‘ بلکہ ہاتھ میں کتاب دے کر کی جاتی ہو۔ ایسا سلسلۂ تصوف کہ جس میں شیخ طریقت عقلِ کل نہیں‘ تنقید اور احتساب سے بالاتر نہیں بلکہ خود خادم ہے مخدوم نہیں۔

روایت کیا جاتا ہے کہ ہر دور میں صوفیوں نے روحوں کا علاج کیا اور دلوں کی سیاہی کو دُور کیا۔ ہر دور کا اپنا مرض اور ہردور کی اپنی سیاہی ہوتی ہے۔ موجودہ دور کا مرض جہالت پر مبنی علم تھا‘ اور موجودہ دور کی سیاہی اخلاقیات سے تہی زندگی اور کچلی ہوئی انسانیت ہے جو اپنی کم نظری کے باعث اسے آزادی‘ حقوق اور حریت سمجھ رہی تھی۔ حالانکہ ان دونوں کے پیچھے طاغوت کا جال‘ عقلیت کے روپ میں پھیلا ہوا تھا اور اس سارے علم کے جال نے ذہنی غلامی کو جنم دیا تھا‘ جس میں پوری مسلم اُمہ ندامت و شرمندگی کے مارے بُری طرح پھنسی ہوئی تھی اور دوسری طرف مغرب کی چکاچوند کی دلدادہ ہوگئی تھی۔ ایسے میں کئی صدیوں بعد سید علی ہجویریؒ کے شہر میں ایک اور شخص ہجرت کر کے آتا ہے اور انسانی قانون اور الٰہی قانون کے تضادات بیان کرتا ہے۔ یورپ کی اخلاقی حالت کو بیان کرتے ہوئے پردہ میں خیر کی طاقت کا روپ پیش کرتا ہے۔ آج سے ۵۰ سال پہلے لکھی گئی دو کتابیں:  تنقیحات اور پردہ آج بھی اُس گہری کھائی کی نشان دہی کے لیے کافی ہیں جس کی طرف پوری انسانیت بحیثیت مجموعی پھسلتی چلی جا رہی ہے۔

حضرت جنید بغدادی ؒکے پاس ایک شخص ملنے گیا۔ بہت دن قیام کیا‘ جانے لگا تو آپ نے پوچھا :’’کیسے آئے تھے؟‘‘ کہا: ’’کوئی کرامت دیکھنے آیا تھا‘ نہیں ملی‘‘۔ فرمایا:’’اتنے دن میرے پاس رہے‘ کوئی ایسا عمل بھی دیکھا جو شریعت کے خلاف ہو؟ اس سے بڑی کرامت اور کیا ہو سکتی ہے!‘‘

میرا عشق بھی اُسی شخص کی طرح ذیلدار پارک کی کوٹھی کے لان میں بیٹھ کر اُس شخص کو دیکھنے سے ہوا‘ اور پھر اُن کتابوں نے میرے ہاتھ میں آنا تھا کہ میں اُس سلسلۂ طریقت میں بیعت ہوگیا۔ لیکن روشن چہرے کے نور کا راز کئی سال بعد کھلا‘ جب میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی:’’چہرہ تو اللہ کے تقویٰ سے روشن ہوتا ہے‘‘۔ جہاں علم اور تقویٰ ایک جگہ جمع ہو جائیں وہاں میرے جیسے شخص کو پکار پکار کر کہنا پڑتا ہے: میں بھٹکا ہوا آہو تھا‘ مجھے سوے حرم اس شخص کا علم اور چہرے کا نور لے آیا--- اے اللہ! اگر ایک بھٹکے ہوئے آہو کو سوے حرم لانے کا کوئی صلہ موجود ہے تو مجھے قیامت کے دن اِس شخص کے حق میں یہ گواہی دینے کی توفیق عطا فرما!

میں نے اپنے لیے یہ عنوان اس لیے اختیار کیا ہے کہ گو میں نے ابتدئے جوانی میں تقسیم ہند سے قبل مولانا مودودیؒ کی  خطبات اور دینیات سرسری طور پرپڑھی تھیں لیکن میں مرحوم کے اصلی مقام سے عالم عرب ہی میں روشناس ہوا۔ مولانا سے میری پہلی ملاقات حجاز و مصر کے میرے پانچ سالہ سفرِتعلیم و مطالعہ سے واپسی پر مارچ ۱۹۵۴ء میں‘ مولانا کے مکان اچھرہ لاہور میں ضرور ہوئی تھی‘ البتہ زیادہ تفصیلی ملاقات بلکہ ملاقاتیں ۱۹۵۶ء میں دمشق میں ہوئیں جہاں میں یونی ورسٹی کے کلیتہ الشریعۃ (Shariah Faculty) میں زیر تعلیم تھا۔

مولانا مودودیؒ،اخوان المسلمون کے رہنما استاذ سعید رمضان مرحوم کی دعوت پر المؤتمر الاسلامیکی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مولانا کے استقبال کے لیے استاذ سعید رمضان اور دیگر علماے دمشق کے ساتھ اس وقت کے شامی وزیراعظم ہبری العلی‘ ایرپورٹ گئے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ملک غلام محمد گورنر جنرل تھے‘ اور سال ڈیڑھ سال ہی قبل مولانا مودودی مرحوم‘ قادیانیت کے خلاف تحریک چلانے کے سبب سخت آزمایش سے گزرے تھے۔ فوجی عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا بعض اسلامی عرب ممالک کے حکومت پاکستان پر دبائو کے سبب منسوخ ہوگئی تھی اور مرحوم قید سے بھی چھوٹ گئے تھے‘ لیکن اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی مسلسل حکومت کے معتوب رہے۔ میں نے اس کا ذکر یہاں اس لیے کیا ہے کہ حکومتی سطح پر اس عتاب کے باوجود شام کے وزیراعظم کو مولانا مرحوم کے استقبال میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ وہ ایک جمہوری حکومت کے وزیراعظم اور ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر تھے‘ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کے رہنما نہ تھے‘ لیکن شام میں وہ زمانہ بہت اچھا تھا۔ وزیراعظم کے ایرپورٹ پر مولانا کے استقبال کا پاکستانی سفارت خانے پر اثر کا ذکر کرنا مجھے یہاں مقصود ہے۔

اس وقت وہاں لعل شاہ بخاری پاکستان کے سفیر تھے۔ ایک روز صبح کے وقت میں مولانا کے ہوٹل یرموک میں موجود تھا۔ دیکھتا ہوں کہ لعل شاہ بخاری (جو غالباً پنجاب کے ایک زمیندار خاندان سے تھے اور ان کی اکڑفوں میں ایک موقعے پر دمشق میں دیکھ چکا تھا) ہوٹل میں آئے اور ہم لوگوں کے ساتھ اوپر ہال میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مولانا اپنے کمرے سے تشریف لائے‘ ملاقات ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سفیر صاحب بڑی نیازمندی و ادب کے ساتھ مولانا کے سامنے بیٹھے رہے اور کچھ گفتگو کرتے رہے۔ ان کے انداز کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ یہ سرکاری لوگ سرکار دربار کی آئو بھگت ہی سے اپنی گردن دوسروں کے لیے جھکاتے ہیں‘ ورنہ عام طور پر ٹیڑھی رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شامی وزیراعظم‘ مولانا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ گئے ہوتے تو پاکستانی سفیر صاحب‘ مولانا مودودی ؒکے سامنے حاضری دینے کے لیے ہرگز نہ آتے۔ تاہم‘ پاکستانی حکومت کے مولانا کے ساتھ معاندانہ رویے کے سبب سفیر صاحب نے معمول کے مطابق مولانا مرحوم کے اعزاز میں کوئی استقبالیہ یا عشائیہ نہیں دیا۔

شامی حکومت کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کے اعزاز کی بات میں نے مولانا سے اپنی دوسری ملاقات کی مناسبت سے کہی جو ایک عرب ملک ہی میں ہوئی تھی‘ لیکن مولانا مرحوم کی عربوں میں عظمت کا ذکر دمشق کی اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بعد میں کروں گا۔ میں چونکہ ۳۷ سال تک ملک سے باہر عرب ممالک یا انگلستان میں رہا‘ اور اس لیے جماعت اسلامی کے حلقوں میں زیادہ معروف نہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ مولانا مرحوم سے دمشق ہی میں اپنی تیسری ملاقات اور اس مناسبت سے مولانا کی ذہانت کے بارے میں اپنے تاثر کا بھی اظہار کر دوں۔

دمشق کے پہلے سفر (۱۹۵۴ئ) میں عاصم الحداد صاحب مولانا کے ترجمان کی حیثیت سے رفیقِ سفر تھے‘ جو اکثر مختلف مجالس و محافل میں مولانا کی گفتگو اور تقاریر کی ترجمانی کرتے تھے۔ ایک دو مرتبہ کسی مجلس یا محفل میں ترجمانی کی سعادت راقم السطور کو بھی ملی۔ لیکن دوسری بار جب چار سال بعد مولانا ۱۹۵۹ء میں حجاز سے کار کے ذریعے جغرافیہ ارض قرآن کی تحقیق میں مدائن صالح (شمالی حجاز) اور اردن کے قدیم و اسلامی تاریخی مقامات کی سیاحت کے بعد صحراے سینا جاتے ہوئے دمشق میں تشریف لائے‘ تو میں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا کہ اب مولانا اپنے عرب ملاقاتیوں سے بآسانی عربی میں گفتگو کر لیتے تھے‘ اور روانی سے اپنا مافی الضمیرادا کر سکتے تھے۔ مجھے حیرت یہ تھی کہ ۵۵‘ ۵۶ سال کی عمر میں مولانا نے پاکستان میں رہ کر کس طرح بول چال کی اتنی عربی سیکھ لی کہ علمی موضوعات پر فصیح عربی میں گفتگو کر سکیں۔ یہ واقعی ذہانت کی ایک نادر مثال تھی۔ کیونکہ بڑی عمرمیں انسان کے لیے دوسری زبان بخوبی سیکھنا کافی مشکل ہوتا ہے‘ اور خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے جو تحریکی اور تصنیفی کاموں میں انتہائی مصروف زندگی گزارتے ہوں۔ مولانا کے اس علمی و تحقیقی سفر کے نتائج تفہیم القرآن پڑھنے والے اور اس میں انبیا علیہم السلام کے قصص کا مطالعہ کرنے والے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

مولانا مودودیؒ اگرچہ مطالعہ (reading) کی حد تک برعظیم کے علما ہی کی طرح عربی زبان پر دسترس رکھتے تھے‘ لیکن عربی زبان میں تحریر کی مشق مولانا کو نہ تھی‘ اور بیرونی دنیا میں آدمی کو شہرت دوسرے ممالک کی زبان میں تصنیفات کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسے میرے استاد اور مشفق مربیّ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو عرب ممالک میں ان کی عربی تصانیف کے سبب جو شہرت حاصل ہوئی اور جس طرح وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے عربی اسلامی فکر پر اثرانداز ہوئے‘ اس طرح نہ کسی کو ایسی شہرت ملی اور نہ کسی نے اتنا گہرا فکری و روحانی اثر عرب ممالک میں چھوڑا۔ ہر وہ شخص جو طویل عرصے میری طرح عرب ممالک میں رہا ہو اور عربی زبان جس کی تحریر و تقریر کی دوسری زبان بن گئی ہو یہی کہے گا‘ لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس بات اور اس شخصیت کا ذکر اس مناسبت سے آ گیا کہ مولانا مودودی کی تصانیف کو‘ براہِ راست عربی زبان میں نہ ہونے کے باوجود جو شہرت و مقبولیت عرب دنیا میں حاصل ہوئی‘ وہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مولاناعلی میاںؒ) کو چھوڑ کر برعظیم کے کسی عالم کو حاصل نہیں ہوئی۔

مولانا مودودی مرحوم کی عرب ممالک میں شہرت و مقبولیت کا کریڈٹ درحقیقت مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کو جاتا ہے۔ اگر ان کا قلم اور ان کا ۱۹۴۹ء کا سفرِ حجاز و نجد و عراق نہ ہوتا تو مولانا مودودی مرحوم کا عرب ممالک میں اس پیمانے پر تعارف شاید نہ ہو سکتا جو مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر و تقریر کے سبب ہوا۔ مسعود الندوی مرحوم اپنے اس سفر سے قبل مولانا مودودیؒ کی بعض مختصر تصانیف (رسائل) کا ترجمہ کر چکے تھے اور اسے پاکستان میں طبع کرا کے اپنے ساتھ مذکورہ دیار عرب میں لے گئے تھے۔ مولانا مسعود عالم ندوی تقسیم ہند سے قبل جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ اس سے قبل وہ نجد کے امام اصلاح و دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب پر ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب اردو میں لکھ چکے تھے۔

مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم ۳۰ کے عشرے میں ندوہ میں جب ادب عربی کے استاد تھے تو مصر کے مشہور علمی و ادبی ماہنامے الفتح میں ان کے عربی مضامین چھپتے تھے جو ایک ہندستانی مصنف کے لیے بڑا اعزاز تھا۔ یہ مجلہ معروف ادیب محب الدین الخطیب مرحوم کی زیر ادارت نکلتا تھا۔ مولانا مسعود عالم ؒان سے دور ہی سے واقف تھے‘ لیکن راقم السطور کو ان سے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کا اپنا مجلہ بند ہو چکا تھا اور وہ اس وقت جامعۃالازہر کے ماہنامہ مجلہ الازہر کے ایڈیٹر تھے۔ مصر کے زمانے میں میرا مشغلہ مطالعہ ادب کے ساتھ وہاں کے علما و ادبا سے ملنا تھا اور الحمدللہ مصر کی علمی وادبی نشات ثانیہ اور بعض مصری و غیر مصری سیاسی و دینی علما سے ملنے کا شرف مجھے وہاں حاصل ہوا۔ ان میں قابل ذکر مراکش کے الامیر محمد الخطابی (الامیر عبدالکریم الریفی کے بھائی) جو وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ محمد علی الطاہر (مدیر مجلہ الشوریٰ)‘ الاستاذ احمد امین‘ الاستاذ احمد حسن الزیات‘ ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ (پروفیسر شریعت اسلامی‘ قاہرہ یونی ورسٹی کالج)‘ استاذ الشہید سیدقطب‘ استاذ محمود تیمور‘ المحقق الکبیر الاستاذ محمو داحمد شاکر‘ شیخ احمد الشرباصی‘ الجمعیۃ الشبان المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔ قاہرہ کی جمعیۃالشبان المسلمین جو ایک شان دار عمارت میں قائم تھی اور جس کے صدرمصر کے سابق وزیر دفاع صالح حرب پاشا تھے‘ وہاں میرا ہر ہفتہ ہی آنا جانا ہوتا تھا‘ اور      صالح حرب پاشا کے ہاں تمام آفس میں ترکی قہوہ اور سردیوں میں دارچینی پینے کو ملتی تھی۔ بڑے   خوش اخلاق اور سرفروشانِ اسلام میں سے تھے۔ شیخ احمد الشرباصی سے برادرانہ تعلقات تھے۔

میں نے ان سب حضرات کا ذکر اس لیے کیا کہ ان میں سے اکثر مولانا مسعود عالم ندوی کے ترجمہ کردہ مولانا مودودی کے رسائل کے سبب مولانا مودودی سے واقف تھے‘ اور اخوان المسلمون سے منسلک تو عام نوجوان بھی مولانا مرحوم کی دعوت سے واقف اور ان کے ثناخواں تھے۔ یہ بات میں نے مصرکے بعض دور دراز گائوں میں بھی دیکھی۔ لیکن ۱۹۵۱ء میں استاد معظم مرحوم سید ابوالحسن علی ندوی کے سفر مصر کے سبب اور وہاں ان کی مسلسل تقاریر اور اہل علم و ادب اور خاص طور پر زعما اخوان المسلمون سے ربط و ضبط کے سبب‘ اب وہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا نام زیادہ معروف تھا اور ہے۔ اس شہرت و مقبولیت کا سبب مرحوم مولانا علی میاں کی ایک انتہائی فکر انگیز اور اچھوتے عنوان کی حامل کتاب ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر)بھی تھی۔ یہ انکشاف لوگوں کے لیے باعث دل چسپی ہو گا کہ خود مصنف مرحوم نے مجھ سے ۱۹۴۹ء میں لکھنؤ میں کہا تھا کہ: ’’کتاب کا یہ عنوان مولانا مودودی کا تجویز کردہ تھا‘‘ (جماعت اسلامی سے وابستہ پرانے لوگ جانتے ہیں کہ مولانا علی میاں ۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۳ء لکھنؤ میں جماعت کے ذمہ دار رہے تھے) بلکہ مصنف مرحوم کے بقول ان کے استفسار پر مولانا مودودی نے مشورہ دیا تھا کہ آپ اس موضوع پر اس عنوان سے کتاب لکھیں۔ دراصل وہ جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل اپنی جوانی ہی میں ایک سنجیدہ دینی مصنف کی حیثیت سے ابھر چکے تھے‘ بعد میں بعض مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود مولانا علی میاں مرحوم نے ہمیشہ مولانا مودودی کے علم وفضل کا اعتراف کیا۔

مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم نے قیامِ پاکستان ]اگست ۱۹۴۷ئ[ کے فوراً بعد ہی پاکستان آکر یہاں جماعت اسلامی کے تحت عربی زبان میں تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ ’’دارالعروبہ‘‘ تشکیل دیا تھا۔ اس ادارے کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کی متعدد کتابوں کا عربی میں ترجمہ مولانا مسعود عالم ندوی کے قلم سے ہوا‘ جو مراکش سے لے کر کویت اور یمن سے سوڈان تک بھیجی گئیں۔ ان میں مولانا مودودی مرحوم کی کتابیں النظام الاقتصادی فی الاسلام‘ النظام السیاسی فی الاسلام‘ شہادۃالحق اور بعد میں الحجاب (کتاب پردہ کا ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا مسعود عالم نے اپنے آپ کو مولانا مودودی مرحوم کی فکر کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح مولانا مودودی کا تعارف عالم عرب کے اسلامی اور علمی حلقوں میں بخوبی ہو گیا اور خاص طور پر مصر و شام وغیرہ میں اخوان المسلمون کے حلقوںمیں‘ جن کے ممبران کی تعداد ۵۰ کے عشرے میں ۵لاکھ کے قریب تھی اور مصر میں وہ اہم ترین دینی و سیاسی طاقت تھی۔

مولانا مودودی کے اس تعارف میں‘ مولانا مسعود عالم ندوی کے مولانا مرحوم کی کتابوں کے عربی تراجم کے علاوہ مصری اخوانی رہنما استاذ سعید رمضان کی کاوشوں کو بھی بہت دخل تھا‘ جو اخوان پر ابتلا کے پہلے دور میں اخوان کے المرشد العام (صدر) الشہید حسن البنا کے مشورے سے ۱۹۴۸ء میں کراچی آ گئے تھے۔ ان کی یہاں اچھی پذیرائی ہوئی تھی‘ حکومتی حلقوںمیں بھی اور جماعت اسلامی کی طرف سے بھی۔ مولانا مودودی سے استاذ رمضان کا اچھا ربط و ضبط ہو گیا تھا۔ پھر جب وہ مصری انقلاب کے بعد مصر واپس گئے تو ا نھوں نے اخوان کی قیادت میں مولانا مودودی کا بخوبی تعارف کرایا۔

عالم عرب اور خاص طور پر اخوان کے فکری و دینی حلقوں میں مولانا مودودی کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخوان کے سب سے زیادہ عظیم اور مقبول و محبوب مفکر سید قطب کی عالم عرب میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی تفسیر فی ظلال القرآن میں مولانا مودودی مرحوم کی کتاب  الحجاب اور تفسیر سورۃ النور کے متعدد حوالے مذکور ہیں۔

اس موقعے پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا مسعود عالم ندوی نے نہ صرف خود مولانا مودودی کی کتابوں کے ترجمے کیے اور مولانا کی طرف سے اخوان اور عالم عرب کے دیگر     علما و مفکرین سے مراسلت جاری رکھی‘ بلکہ انھوں نے دارالعروبہ میں دو نوجوانوں عاصم الحداد اور خلیل احمد حامدی کو عربی زبان سکھا کر تحریر و تقریر میں ایسا اچھا عربی داں بنا دیا کہ انھوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد دارالعروبہ کے کام کو بخوبی سنبھالا اور مولانا مودودی کے عربی مترجم کے فرائض تادیر انجام دیے۔ ان دونوں صاحبان سے میری ملاقات دمشق اور مکہ مکرمہ میں علی الترتیب رہی۔ عاصم صاحب مرحوم کاذکر اوپرہو چکا ہے۔ خلیل حامدی صاحب سے ۱۹۶۵ء میں ملاقات ہوئی جب وہ رابطۃالعالم الاسلامی‘ مکہ مکرمہ میں عربی مترجم تھے اور میں اس وقت مکہ کے کلیۃالتربیہ ایجوکیشن کالج میں اسلامی تاریخ کا پروفیسر تھا۔ لیکن جماعت اسلامی کے اہل قلم حضرات نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد ان کا قرار واقعی ذکر نہیں کیا۔ ۱؎

۱۹۶۵ء میں شاہ فیصل کی تحریک سے  رابطۃالعالم الاسلامی (Muslim World League) قائم ہوئی۔ اس میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ استاذ سعید رمضان اس وقت جنیوا (سوئٹرزلینڈ) میں اسلامی مرکز کے بانی اور جنرل سیکرٹری تھے۔ انھوں نے جو فہرست رابطہ کے بانی ممبران کی بنائی ان میں مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سرفہرست تھے‘ اور یہ دونوں پاکستانی و ہندستانی وہاں سالانہ اجتماعات میں نمایاں طور پر اپنے افکار و آرا سے رابطہ کو فیض یاب کرتے رہے۔ مولانا مودودی نے تو چند سال بعد بعض سیاسی فکری اسباب کی بنا پر اجتماعات میں جانا بند کر دیا تھا‘ لیکن مولانا ابوالحسن علی ندوی برابر رابطہ کی خدمت کرتے رہے۔

مولانا مودودی کی فکری عظمت کا عربوں کی طرف سے بے محابا اعتراف کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں۔ ۱۹۵۶ء میں دمشق میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی بلائی ہوئی موتمر اسلامی کی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے موقعے‘ پر دمشق یونی ورسٹی کے ہال میںکافی بڑے اسٹیج پر عرب اور اسلامی ممالک کے وفود کے سربراہان بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں انڈونیشیا کے سابق وزیراعظم اور حزب ماشومی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ناصر‘ عراق کے معمر اور نامور شیخ امجد الزہاوی اور دیگر عرب علما و زعما کے ساتھ مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی مسند نشین تھے۔

شام کے ایک مشہور سیاسی‘ ادیب اور عالم‘ سابق وزیر الشئون الاجتماعیہ (وزیر سماجی امور) اور اس وقت ممبر پارلیمنٹ اور کلیۃ الشریعہ دمشق یونی ورسٹی میں میرے استاذ پروفیسر محمد المبارک‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو دعوت خطاب دینے اور ان کا تعارف کرانے اسٹیج پر آئے۔  انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کا تعارف کراتے ہوئے ان کو ’غزالی عصر‘ کے لقب سے یاد کیا‘ جو میرے علم کے مطابق مولانا مودودی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں‘ ایک ذمہ دار عرب عالم و مصنف کی طرف سے وہ اعزاز تھا جو بیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے کسی اور مفکر و مصنف کو نہیں ملا۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے عالم عرب کے تمام مصنفین فیض یاب ہوئے اور بہت سے مصنفین نے مولانا مودودی سے اپنی تصنیفات میں خوشہ چینی کی‘ جن میں مصر کے عبداللہ السمان‘  انور الجندی اور مکہ مکرمہ کے حسن جمال اور مصر کے ڈاکٹر محمد البہی وغیرہ شامل ہیں۔ عالم عرب کے ممتاز مفکرین و زعما میں مراکش کے استاذ علال فاسی‘ الجزائر کے استاذ محمد البشیر الابراہیمی‘ مصر کے استاذ الشہید سید قطب‘ سوڈان کے حسن الترابی‘ شام کے ڈاکٹر مصطفی السباعی اور ڈاکٹر معروف الدوالیبی‘ عراق کے استاذ محمد محمود الصواف اور شیخ امجد الزہاوی وغیرہ‘ سب ہی مولانا مودودی کے علم وفضل کے معترف تھے اور ان سے ربط و ضبط رکھتے تھے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی ذات میں امت واحدہ تھے۔ ان کے فکری اثاثے سے فائدہ اٹھانا جماعت اسلامی کا فرض ہے۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ یاد رکھے کہ مولانا مودودی مرحوم بنیادی طور پر ایک اسلامی مفکر اور دعوت دین کے منفرد داعی تھے‘ ان کی اس راہ پر چلنا اور علمی و فکری خلا کو پُر کرنے میں ذمہ داری ادا کرنا بھی جماعت اسلامی کا فرض ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فقہی، کلامی اور سیاسی آرا سے تدریج کے ساتھ متاثر اور متفق ہونے کے بعد ان کی ذات گرامی سے آہستہ آہستہ دل چسپی، تعلق اور گرویدگی پیدا ہوتی گئی۔ اس کے نتیجے میں ان کی سیرت و کردار سے واقفیت کا داعیہ فطری طور پر پیدا ہوا، اور بہت سے منفی پہلو بھی بارسماعت ہوئے، مگر ان میں سے بیش تر معاصرت، حسد، مسلکی اختلاف کے اثر سے بے اصل و نامعتبر نکلے۔

محاسن سیرت کے سلسلے میں مجھے پہلی اطلاع یہ ملی کہ جامعہ عثمانیہ میں ] اپنے[ تقرر کی پیش کش مولانا نے اپنے اصول کی خاطر مسترد کر دی،۱؎ حالانکہ مولانا اس دور میں معاشی خستہ حالی کا شکار تھے۔ اس خبر نے مجھے مولانا مودودیؒ سے قلبی طور پر قریب تر کر دیا۔ حصول مقصد کے لیے قربانی اور تحملِ شدائد کا حوصلہ صرف عظیم انسانوں کی صفت ہے۔ اس کے بعد جب بھی مجھے ایسے حضرات ملے جن کو مولانا مودودیؒ سے کوئی معاملہ کرنے‘ ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا تھا‘ ان سے ذکرِ یار سن کر کبھی لکھ لیتا اور کبھی حافظے کے خزانے میں جمع کر لیتا۔ ایسی ہی چند ملاقاتوں اور تاثرات کے جمع شدہ نوٹس قارئین ترجمان القرآن کے لیے پیش خدمت ہیں۔

  • جوش ملیح آبادی (م: ۱۹۸۴ئ): جوش صاحب سے مولانا مودودی کے روابط حیدر آباد‘ دکن میں قیام کے زمانے سے تھے۔ مولانا کے بردار بزرگ مولانا سید ابوالخیر مودودی (م: اگست ۱۹۷۹ئ) اور جوش صاحب ایک ہی مکان میں کچھ عرصے تک رہے تھے۔ لکڑی کے پل (محلہ) میں مکان کے اوپر کے حصے میں جوش صاحب اور نیچے ابوالخیر صاحب رہتے تھے۔ جوش صاحب کا جب ریاست حیدر آباد سے اخراج ہوا‘ تو ان ریاستوں میں جو ماحول ہوتا تھا اس کے پیش نظر ان کے احباب تو ایک طرف‘ قریب ترین اعزہ بھی ان سے ملنے اور تعلق ظاہر کرنے سے کتراتے تھے۔ مگر جیسا کہ خود جوش صاحب نے یادوں کی برات میں لکھا ہے کہ انھیں اسٹیشن پر رخصت کرنے صرف مودودی برادران آئے تھے۔ اس کے بعد برسوں دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی ۔

مولانا مودودی‘ پاکستان میں تھے اور جوش صاحب بھارت میں۔ پھر جب جوش اپنے دوست جواہر لال نہرو اور ’نئے بھارت‘ سے مایوس ہو کر پاکستان آ گئے اور کراچی میں طرح اقامت ڈالی تو ایک دن مولانا مودودی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ مولانا کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور پیرالٰہی بخش کالونی میں شیخ سلطان احمد صاحب لکھنؤ والے کے ہاں مقیم تھے۔ جوش صاحب پتا حاصل کر کے ایک دوپہر وہاں پہنچ گئے۔ پروفیسر حبیب اﷲ رشدی (م: ۱۹۶۹ئ) جوش صاحب کے ساتھ تھے۔ رشدی صاحب کا تعلق حیدرآباد‘ دکن سے تھا‘ وہ وہاں پر صف اول کے صحافی تھے‘ روزنامہ نظام گزٹ انھی نے جاری کیا تھا اور تقسیم کے بعد سے کراچی میں مقیم تھے۔ حبیب اللہ رشدی صاحب اور جوش صاحب‘ سلطان صاحب کے ہاں پہنچے۔ جب جوش صاحب کو بتایا گیا کہ مولانا مودودی کھانے اور نماز ظہر سے فراغت کے بعد آرام کر رہے ہیں‘ تو جوش نے اصرار کر کے معلوم کیا کہ مولانا کس کمرے میں سو رہے ہیں اور پھر بے تکلفی سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ دروازہ کھلا تو ہانک لگائی ’’عوام کو جگا کر علما سو گئے‘‘۔ مولانا نے خوش دلی سے جوش صاحب کا استقبال کیا اور دیر تک یہ مجلس گرم رہی۔ بہت سے دل چسپ فقروں کا تبادلہ ہوا‘ مثلاً جب مولانا نے ذکر فرمایا: ’’اپنی قیام گاہ تبدیل کر رہا ہوں‘‘ تو‘ جوش صاحب نے پیش کش کی: ’’مولانا‘ میرے ہاں آ جائیے‘‘۔ مولانا نے برجستہ فرمایا: ’’اس میں میری بھی رسوائی ہے اور آپ کی بھی‘‘۔ گفتگو میں جوش صاحب نے مسئلہ جبر و قدر سے اپنی دل چسپی کا ذکر کیا تو مولانا نے فرمایا: ’’بگڑا ہوا شاعر ضرور جبر و قدر پر طبع آزمائی فرماتا ہے‘‘۔

اس محفل کی روداد رشدی صاحب نے اسی روز مجھے سنائی تھی اور میں نے قلم بند کر لی تھی۔ مولانا دوسرے ہی روز علی الصبح بازدید کے لیے جوش صاحب کے ہاں تنہا تشریف لے گئے۔

  • حکیم نصیر الدین ندوی (م: ۱۹۹۸ئ): حکیم صاحب‘ اجمیرکے مقبول معالج تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ان کا مطب ’’نظامی دواخانہ‘‘ دواخانے سے زیادہ ایک علمی اور تہذیبی مرکز کے طور پر متعارف تھا۔ اکابر دین‘ مشاہیر سیاست‘ خاصان علم و ادب کی ان کے ہاں آمدورفت رہتی تھی اور علمی و ادبی مجالس گرم رہتی تھیں۔ حکیم صاحب کو اپنے فن میں مہارت کے علاوہ شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق تھا۔ انھیں اردو سے زیادہ عربی و فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ سردار عبدالرب نشتر ابتدا میں تو ان کے زیر علاج مریض تھے‘ مگر بعد میں دوست ہو گئے تھے اور بیدل کے اشعار سمجھنے ان کے ہاں آ جایا کرتے تھے۔

حکیم صاحب‘ مولانا مودودی کے نام اور کام سے واقف تھے مگر ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار مولانا مریض کی حیثیت سے ان کے ہاں تشریف لائے۔ حکیم صاحب سے ادویہ تجویز کروانے کے بعد چودھری غلام محمد صاحب مرحوم کو نسخہ دیا کہ ’’۴۰ دن کی دوا بنوا لیں‘‘۔ مگر جب چودھری صاحب کو معلوم ہوا کہ حکیم صاحب نے ادویہ کی قیمت نہ لینے کی ہدایت کی ہے‘ تو مولانا سے آ کر یہ بات کہی۔ مولانا نے فرمایا: ’’کوئی بات نہیں ‘دوائیں لے لیجیے‘‘ (اس کے جواب میں مولانا نے لاہور پہنچتے ہی چیتی گلاب کی ایک بڑی مقدار حکیم صاحب کو بھجوا دی۔ چیتی گلاب کی کراچی میں نایابی کاذ کر آیا تھا)۔

پہلی ملاقات میں دونوں میں قرب و اتحاد کے کئی پہلو نکل آئے۔ حکیم صاحب نے جب مولانا کو دعوت طعام دی تو مولانا نے بے تامل قبول کر لی ۔اس ملاقات میں راقم بھی شریک تھا۔ مولانا اس بزمِ طعام میں بے تکلف اور شگفتہ انداز میں شریک ہوئے۔ موسم سرما تھا۔ حکیم صاحب نے مولانا سے پوچھا : ’’مولانا‘ آپ کی روٹی گرم کر دوں؟‘‘ مولانا نے فرمایا: ’’گرم روٹی اور ٹھنڈا پانی تو بڑی نعمت ہے‘‘۔ چنانچہ حکیم صاحب نے انگیٹھی پر روٹی گرم کر کے مولانا کو پیش کی‘ مگر پانی کے درجہ برودت کو ناکافی بتایا تو گلاس میں برف کی ڈلیاں ڈال دی گئیں۔ حکیم صاحب نے کہا: ’’مولانا‘ آپ کے ہاں معقولی اور منطقی انداز فکر ہم خیر آبادیوں جیسا ہے‘‘۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’جی ہاں‘ میں بھی خیر آبادی مکتب فکر سے منسلک ہوں۔ میں نے معقولات کی تحصیل مولانا عبدالسلام سے کی ہے‘‘۔ اس پر حکیم صاحب بہت خوش ہوئے۔ مولانا عبدالسلام نیازی۲ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ جب بھی وہ اجمیر آتے تو حکیم صاحب کے ہاں ہی قیام فرمایا کرتے تھے۔

کھانے سے فراغت کے بعد حکیم صاحب نے فرمایا: ’’مولانا‘ وائٹ جیسمین کا ذوق ہے؟‘‘ مولانا نے شگفتگی سے فرمایا: ’’جی‘ جیسمین بہت پی ہے مگر جب سے غبار خاطر شائع ہوئی ہے‘ چھوڑ دی‘‘۔ مولانا کا جواب سن کر کئی حضرات مسکرا دیے۔ ایک صاحب نے زیر لب فرمایا: ’’اعاظم کی اناکی بھی ایک اپنی ہی شان ہوتی ہے‘‘۔

مولانا نے چند ماہ بعد ماہرالقادری مرحوم کے نام اپنے ایک گرامی نامے میں اصل مقصد کے بعد تحریر فرمایا تھا: حکیم نصیرالدین ندوی صاحب کو میری طرف سے عرض کریں کہ آپ نے مجھے جو دوا دی تھی اس نے میری برسوں کی غلاظتیں دور کر دیں۔ اگر آپ مجھے اس کا نسخہ عنایت فرما دیں تو کرم ہو (ایسے ہی کچھ الفاظ تھے) -- ماہر صاحب نے مولانا کا یہ خط فاران میں شائع فرماتے ہوئے مولانا اور حکیم صاحب کے مراسم پر ایک نوٹ بھی لکھا تھا جس پر یہ مصرع بھی تھا   ع

میانِ پختہ کاراں بود بحث خویشتن داری

  • محمد یوسف صدیقی (م: ۱۹۷۶ئ): محمد یوسف صدیقی صاحب جماعت کے ابتدائی دور کے رفقا میں سے تھے اور وطن ٹونک تھا۔ غالباً تقسیم سے پہلے جماعت کی شوریٰ میں بھی تھے‘ تقسیم کے بعد اپنا کاروبار ختم کر کے مرکز کی دعوت پر دہلی جا بسے۔ جماعت اسلامی ہند کے انگریزی اخبار Radiance ‘دہلی کے چیف ایڈیٹر بھی تھے۔ ۱۹۴۷ء میں انھی کی تحریک پر جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع ٹونک میں ہوا تھا‘ جس میں مولانا مودودیؒ بھی تشریف لے گئے تھے۔ صدیقی صاحب کئی کئی دن دارالاسلام میں جا کر مقیم رہتے تھے اور مولانا کو ان سے خصوصی تعلق تھا۔

محمد یوسف صدیقی صاحب کے بتائے ہوئے و اقعات درج ذیل ہیں:

۱-  مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’حیدرآباد میں ہاتھ تنگ رہتا تھا اور آمدنی قلیل تھی۔ اس لیے فاقہ کشی سے بچنے کے لیے میں چند سیر ]بھنے ہوئے[ چنے خرید کر رکھ لیتا تھا‘ تاکہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں چنے کھا کر پانی پی لیا جائے‘‘۔

۲۔ اسی طرح ایک مرتبہ مولانا مودودی ؒنے فرمایا: ’’میں دکن سے دارالاسلام ]پنجاب[ نیا نیا آیا تھا۔ آتے ہی ترجمان القرآن کا تازہ شمارہ شائع کر دیا اور پھر دارالاسلام کے انتظامات میں مصروف ہو گیا ۔کمر کمر تک گھاس کھڑی تھی‘ وہ کٹوا رہا تھا۔ اسی دوران ایک صاحب آئے‘ پختہ عمر‘ سادہ دیہاتی لباس‘ ہاتھ میں لکڑی اور تھیلا‘ وہ مجھ سے ہی ملنے آئے تھے۔ میں نے جب اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے تھیلے سے ترجمان القرآن کا تازہ شمارہ نکال کر‘ میرے مضمون کی ایک عبارت دکھائی جس پہ انھیں اعتراض تھا۔ میرے جواب سے مطمئن ہو کر انھوں نے رسالہ تھیلے میں رکھا اور رخصت ہونے لگے۔ میں نے تعارف چاہا تو معلوم ہوا کہ صوبہ سرحد کے ایک قصبے سے ان کا تعلق ہے۔ رسالے میں ایک قابلِ اعتراض عبارت دیکھتے ہی وہ اس پر احتجاج کے لیے لکڑی اور تھیلا ہاتھ میں لے کر چل پڑے‘ لیکن جب اعتراض رفع ہو گیا تو مطمئن ہو کر اسی وقت واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ میں نے انھیں پیش کش کی کہ کچھ دیر قیام کریں‘ سستا لیں‘ ماحضر تناول فرما لیں پھر واپسی ہو۔ مگر انھوں نے عذر کیا: ’’جزاک اللہ‘ مجھے کئی ضروری کام درپیش ہیں‘ بس یہ مضمون پڑھتے ہی میں بے چین ہوا‘ اورسب کام چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔ اب چونکہ اطمینان ہو گیا ہے اس لیے ایک لمحہ ٹھیرنا بھی دوبھر ہوگا‘‘۔ مولانا مودودیؒ فرماتے تھے: ’’میں نے ان صاحب کی آمد سے بڑا اطمینان محسوس کیا کہ میں زندوں کی بستی میں آ گیا ہوں۔ ورنہ برسوں دکن میں رہا اور بہت متنازعہ فیہ مضامین لکھے‘ لیکن وہاں پر مجھے کوئی گربیان پکڑنے والا نہیں ملا تھا‘‘۔

محمدیوسف صدیقی مرحوم ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی جی چاہتا ہے کہ ذکر کروں۔ اجتماع ٹونک کے موقعے پر یوسف صاحب نے اپنے ہاں مولانا کی دعوتِ طعام کا اہتمام کیا‘ اور اس میں خاصان شہر کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ انھی حضرات میں ایک وکیل صاحب بھی تھے۔ اﷲ بخشے بحث و مناظرہ کا انھیں خاص ذوق تھا۔ بہت بولتے تھے اور دوسرے کی ہر بات کی تردید کی کوشش میں ہر لمحے مستعد دکھائی دیتے تھے۔ کئی دن سے وہ مولانا کی نشست میں شریک ہو رہے تھے اور اپنے ’’فن‘‘ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ خیر‘ یہ وکیل صاحب بھی اس دعوت میں بلائے گئے تھے۔ کھانے کی ڈشوں میں بکرے کا بھیجا بھی تھا۔ میزبان نے مولانا کو متوجہ کیا: ’’مولانا‘ بھیجے کی طرف بھی توجہ فرمائیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’ہمارے وکیل صاحب کو دیجیے۔ انھیں بھیجا کھانے کا بہت شوق ہے‘‘۔ سب شرکاے طعام وکیل صاحب کے اس ذوق و شوق سے واقف تھے‘ اس لیے وکیل صاحب سمیت سبھی نے خوب لطف لیا۔

  • حکیم شمس الحسن (م: ۱۹۷۹ئ): حکیم صاحب سہارن پور کے گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے ایک بزرگ داروغہ محمد ارحم انصاری میرٹھ میں ۱۸۱۸ء میں سید احمد شہیدؒ سے بیعت ہوئے۔

حکیم شمس الحسن صاحب‘ عالم اور فاضلِ طب تھے۔ تاسیسِ جماعت اگست ۱۹۴۱ء سے پہلے بھی ان کا مولانا مودودیؒ سے تعلق تھا۔ پھر اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت کے بنیادی رکن بنے۔ بعد میں بعض وجوہ سے رکنیت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لیکن ۱۹۷۱ء میں جب دیکھا کہ اشرار کے ساتھ اخیار بھی‘ اور اسلام دشمنوں کے ساتھ علماے کرام بھی جماعت اسلامی کی مخالفت میں ہم قدم ہیں‘ تو انھوں نے میدان جہاد میں کود پڑنے کا فیصلہ کر لیا اور جماعت کی رکنیت دوبارہ اختیار کر لی۔ پھر اخباری بیانات کے علاوہ خطبوں کے ذریعے مولانا امین احسن اصلاحی (م: دسمبر ۱۹۹۷ئ) وغیرہ کو جماعت کا ساتھ دینے کی تلقین کی۔ سکھرمیں جہاں وہ عرصے سے مقیم تھے ۱۵/ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۹ء کو وصال فرمایا۔

حکیم شمس الحسن صاحب سے راقم کا تعارف ۱۹۵۲ء میں ہوا۔ اس وقت وہ جماعت میں شامل نہیں تھے۔ ان کی علیحدگی میں بنیادی طور پر رفقاے جماعت سے اختلافات کو دخل تھا‘ مولانا کے افکار و نظریات سے اس وقت بھی انھیں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کے ذاتی اوصاف و کمالات کے تووہ بے حد مداح و معترف تھے‘ اور اکثر اس قسم کے واقعات بڑی عقیدت سے سنایا کرتے تھے‘ جن سے مولانا کی عظمتِ کردار‘ وسعتِ ظرف‘ علو ہمت‘ درویش مزاجی‘ اتقا‘ توکل‘ تحمل‘ صداقت شعاری‘ ایثار‘ تدبر‘ دردمندی‘ ذہانت‘ فراست اور شگفتہ مزاجی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعد میں حکیم شمس الحسن صاحب کراچی سے سکھر منتقل ہو گئے‘ تاہم جب بھی وہ کراچی تشریف لاتے تو لازماً غریب خانے پر آنے کی زحمت فرماتے اور ہماری طویل نشست رہتی۔ ہماری گفتگو کا موضوع بیش تر مولانا مودودی کی شخصیت ہی ہوتی تھی۔

اخیار و صلحا کی داستانوں سے مجھے لڑکپن سے ہی دل چسپی رہی ہے‘ اور اس کے فوائد و ثمرات کا بھی مسلسل تجربہ ہوا ہے۔ ایک بار خیال ہوا کہ حکیم شمس الحسن کی ان قیمتی روایات کو قلم بند کر لیا جائے۔ اس حوالے سے میں نے خود حکیم صاحب سے عرض کی: ’’آپ کے حافظے میں تاریخ جماعت اور سیرت مودودی کا بڑا قیمتی سرمایہ محفوظ ہے‘ اسے ضائع نہ ہونے دیں بلکہ اسے قلم بند کر لیں۔ مجھے بحیثیت معالج معلوم ہے کہ پایانِ عمر میں بہت سا ذخیرہ لوحِ حافظہ سے محو ہو جاتا ہے اور بہت سے واقعات اور سنین مختلطہو جاتے ہیں‘‘۔ جواب میں حکیم صاحب قلم دانی سے اپنی عدم مناسبت کا عذر کرتے رہے‘ مگر میرے مسلسل اصرار کے بعد انھوں نے وعدہ کر لیا۔ جس پر یہ طے ہوا کہ حکیم صاحب سکھر سے مجھے اقساط بھیجتے رہیں گے اور میں انھیں جمع کرتا رہوں گا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ ایک ایروگرا م لے کر لکھنا شروع کر دیتے اور جب اس کی وسعت تنگ ہو جاتی تو مجھے روانہ کر دیتے۔ افسوس ہے کہ حکیم صاحب کے ایسے تین ہی خط آئے تھے کہ پھر داستان سنانے والا خود داستان بن گیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ ان خطوں میں بات اس انداز سے شروع کی گئی تھی کہ جیسے کوئی مبسوط کتاب لکھنی پیشِ نظر ہو۔ اس ضمن میں سیرت مودودی کے سلسلے میں‘ حکیم صاحب کی باتیں آپ کو سناتا ہوں:

حکیم شمس الحسن نے فرمایا: ’’میں ایک زمانے میں بہاول پور میں مقیم تھا۔ وہاں مولانا مودودی کے خالہ زاد بھائی مشتاق احمد زاہدی سے جو بہاول پور کے ایک کالج میں پرنسپل تھے‘ مولانا کا تذکرہ‘ ان کے علم و فضل اور ذہانت و ذکاوت کی باتیں سنی تھیں‘ اور مولانا کی کچھ تحریریں خصوصاً مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکشوغیرہ دیکھی تھیں۔ چنانچہ‘ میں بہاول پور سے سہارن پور جاتے ہوئے لاہور اتر گیا اور مولانا کے گھر پہنچا۔ مولانا اس زمانے میں پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل ہو گئے تھے‘ اور اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی پروفیسر بھی ہو گئے تھے‘ اسلامیہ پارک میں کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ میری اطلاع پر مولانا آئے‘ بیٹھک کھول کر بیٹھ گئے۔      یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے‘ جب مولانا سے میری مختصر سی بات ہوئی۔

میں نے دریافت کیا: ’’آپ کیاکرنا چاہتے ہیں؟‘‘ مولانا نے فرمایا: ’’تجدید و احیاے دین‘‘۔ میں نے کہا: ’’یہ کام تنہا نہیں ہو سکتا اور ایک جماعت کے بغیر نہیں ہو سکتا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’صحیح ہے جماعت بنانی ہو گی‘‘۔ میں نے کہا: ’’جب بھی آپ جماعت بنائیں تو میرا پتا یہ ہے‘ آپ مجھے اس کی اطلاع ضرور دیں اور مجھے اس میں آج ہی شامل سمجھیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’سوچ سمجھ لیجیے‘‘۔ بس اتنی سی بات کر کے میں چلا آیا۔ چند روز کے بعد قمرالدین صاحب کا خط آیاجو اس زمانے میں مولانا کے سیکرٹری تھے: ’’مولانا پوچھتے ہیں کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟‘‘ میں نے جواب لکھ دیا: ’’میں تو اپنا فیصلہ اسی وقت مولانا کو بتا آیا تھا۔ وہی میرا آخری فیصلہ ہے‘‘۔ چنانچہ اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت کی تاسیس کے سلسلے میں دعوت نامہ آیا اور میں اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور پہنچ گیا‘‘۔

حکیم شمس الحسن صاحب کے بقول: ’’تاسیسِ جماعت کے اجتماع میں شرکت سے پہلے میری مولانا سے ایک اور ملاقات بھی ہوئی تھی۔ جب میں پہلی بار مولانا مودودی سے مل کر سہارن پور پہنچا تو مدرسہ مظاہرالعلوم کے ایک عالم مولوی جمیل احمد نے مجھ سے اپنے ایک منصوبے کا ذکر کیا‘ جو بم بنانے کا کارخانہ بنانے سے متعلق تھا۔ جمیل صاحب نے سہارن پور کی اہمیت بتائی کہ: ’’یہ شہر کئی انگریزی چھائونیوں کے عین وسط میں ہے اور یہاں کا ہنگامہ بہت جلد پھیل سکتا ہے‘‘۔ میں نے ان کی تائید کی اور اپنی اعانت کا وعدہ بھی کیا‘ مگر اس شرط کے ساتھ کہ میں ایک صاحب سے وعدہ کر چکا ہوں اور پہلے ان سے اجازت لینی ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے مولانا مودودی کو خط لکھا: ایک اہم مسئلے پر آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اس خط کے جواب میں مولانا محترم نے مجھے چار روپے کا منی آرڈر کیا (اس دور میں سہارن پور سے لاہور تک ریل کا کرایہ چار روپے ہوتا تھا) اور کوپن پر مولانا نے لکھا: ’’یہ کرایہ ہے‘ آپ فوراً چلے آئیں‘‘۔ چنانچہ میں لاہور پہنچا اور مولانا سے اس منصوبے کاذکر کیا۔ میری بات سننے کے بعد مولانا مودودی نے ایک مفصل گفتگو فرمائی اور یہ ثابت کر دیا کہ: ’’یہ کرنے کا کام نہیں ہے۔ کرنے کا کام اقامت دین‘ اسلام کی ہمہ گیر اور ہمہ جہت جدوجہد ہے‘ جس کے نتیجے میں صرف اس ملک سے انگریز ہی نہیں‘ بلکہ ہر طاغوت کو سیادت و قیادت ِ عالم سے ہٹا دیا جائے گا‘‘۔ چنانچہ میں نے واپس سہارن پور جا کر مولوی جمیل احمد صاحب سے معذرت کر دی۔

حکیم صاحب نے بتایا: ’’اگست ۱۹۴۱ء میں تاسیسِ جماعت کا جلسہ ہوا۔ اس میں ۷۵ افراد نے رکنیت کا حلف اٹھایا تھا۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے اس وقت جو تقریر کی تھی‘ اس میں وہ خود بھی اس قدر روئے تھے کہ داڑھی تر ہوگئی تھی اور دوسرے شرکا پر بھی رقت طاری تھی‘‘۔

تاسیسِ جماعت کے کچھ عرصے بعد مولانا مودودیؒ پھر دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے تھے۔ حکیم صاحب بتاتے ہیں: ’’میں ۴۳-۱۹۴۲ء میں تقریباً ایک سال تک پٹھان کوٹ میں مقیم رہا۔ وہاں میرے ذمے مہمان خانہ اور اسٹور وغیرہ کا انتظام تھا‘ ساتھ ہی میں مولانا کے دو بچوں عمر فاروق اور  احمد فاروق کو پڑھایا بھی کرتا تھا۔ اسی لیے میں مولانا کے گھرانے میں ’ماسٹر صاحب‘ کہلاتا تھا۔ اس تقریباً ایک سال کے عرصے میں وہاں جو واقعات پیش آئے‘ یا مولانا سے جو واقعات سنے ان میں سے چند سناتا ہوں‘‘۔

حکیم شمس الحسن مرحوم نے فرمایا: ’’مولانا مودودی‘ دکن سے علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب جاتے ہوئے ابھی دہلی میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ عبدالعزیز شرقی‘ علامہ کا کوئی پیغام لے کر دہلی پہنچے اور مولانا سے ملے۔ پھر مولانا‘ دہلی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو چودھری نیاز علی مرحوم‘ مولانا کے استقبال کے لیے بٹھنڈہ تک آئے تھے اور ساتھ ہی لاہور گئے تھے‘‘۔

’’پٹھان کوٹ میں مولانا مودودی کی والدہ بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ بڑی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں‘ مگر مولانا سے چھپ کر قرب و جوار کی قبروںکی زیارت کے لیے ضرور جایا کرتی تھیں۔ مولانا‘ اپنی والدہ کے اس طرح اخفا کی کوشش کے ساتھ جانے پر بس مسکرا دیا کرتے تھے‘‘۔

’’مولانا دکن سے پٹھان کوٹ تو آگئے مگر چودھری نیاز علی صاحب سے چند اصولی باتوں پر اختلاف کی وجہ سے وہاں نبھی نہیں‘ اس لیے لاہور منتقل ہو گئے۔ تاسیسِ جماعت سے پہلے منتقل ہونے کا یہ واقعہ مولانا مودودی نے مجھے بتایا تھا۔ فرمایا: ’’میں نے اچانک ایک دن پٹھان کوٹ چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا اور ٹرک لے کر اہل و عیال اور سامان کو اس پر لاد کر لاہور پہنچ گیا اور مکان کی تلاش شروع کردی۔ شام کو چوبرجی کے علاقے میں ایک مکان مل گیا‘ تو ٹرک سے سامان اور اہل و عیال کو اتارا‘‘۔

’’تاسیسِ جماعت کے کچھ ہی دن بعد قمرالدین خان‘ مولانا جعفر شاہ پھلواروی‘ مولانا محمد منظور نعمانی‘ وغیرہ نے مولانا مودودی پر اچانک تنقید شروع کر دی اور ایک تیرہ نکاتی تحریر مولانا کے خلاف لکھی۔ ان تیرہ میں سے ایک نکتہ یہ بھی تھا: ’’مولانا مودودی کے ہاں صوفہ سیٹ ہے‘‘ (وہ صوفہ بانس کا بنا ہوا تھا)۔ اور یہ کہ : ’’آپ کا پان دان اور پانوں کی ڈبیا چاندی کی ہے‘‘ (یہ دونوں چیزیں چاندی کی نہیں نِکل کی تھیں اور دکن کی مشہور فیکٹری کی بنی ہوئی تھیں)۔ مزید یہ کہ: ’’آپ کی وضع قطع علما کی سی نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ دہلی میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا‘ جس میں یہ احباب جماعت سے الگ ہوگئے‘‘۔

’’اسی زمانے میںجماعت کے مکتبے کے ناظم محمد شاہ تھے‘ جنھوں نیترجمان القرآن کا ۴۰ رم کاغذ غائب کر دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کاغذ نایاب تھا۔ ہم نے بہت اصرار کیا کہ: ’’مولانا‘ پولیس میں رپورٹ درج کرا دیں‘‘۔ مولانا مودودی‘ برطانوی سامراج کی حکومت سے استفادے کی ان شکلوں کو جائز نہیں سمجھتے تھے‘ اس لیے انھوں نے یہ تجویز مسترد کر دی‘‘۔

’’اپنی اولاد کے سلسلے میں مولانا نے فرمایا: میں نے لڑکوں کے نام کے لیے حضرت عمر فاروقؓ کے نام کا انتخاب کیا ہے (یعنی عمر فاروق اور احمد فاروق وغیرہ) اور لڑکیوں کے نام کے لیے حضرت صدیق اکبر ؓکے گھرانے کی خواتین کے نام منتخب کیے ہیں‘ یعنی حمیرا‘ اسماء وغیرہ‘‘۔

’’پٹھان کوٹ میں مولانا مودودی درس قرآن دیا کرتے تھے‘ جس میں میرے علاوہ نعیم صدیقی‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ یحییٰ صاحب‘ ملک غلام علی وغیرہ شریک ہوتے تھے۔ مولانا کا درس قرآن پورا ہونے کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نے درس دینا شروع کیا۔ اب مولانا مودودی ہمارے ساتھ سامعین کے حلقے میں بیٹھ کر مولانا امین احسن اصلاحی کا درس سنتے تھے‘‘۔

حکیم شمس الحسن نے یہ بھی فرمایا: ’’مرکز جماعت کے قیام کے زمانے میں ‘ مَیں مولانا کے بیٹوں کو پڑھاتا تھا۔ اسی دوران مولانا محترم کی اہلیہ سے میری تلخ کلامی ہو گئی ۔اس کے بعد الہ آباد کے اجتماع میں جہاں بیگم مودودی اور مولانا کی والدہ صاحبہ بھی گئی تھیں‘ وہاں پر والدہ صاحبہ نے میری تلخی ختم کرا دی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنی بیگم سے سخت تلخی سے پیش آنے اور سچی بات یہ ہے کہ گستاخی تک کر گزرنے کے باوجود ‘ مولانا مودودی نے مجھ سے نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کہا‘ نہ طرز عمل میں کوئی تبدیلی آنے دی بلکہ انھوں نے اپنی باوقار خاموشی اور باخبری پر مبنی لا تعلقی سے اس قسم کا تاثر دیا کہ دوبہن بھائیوں کی جنگ ہے ‘ہم کیوں دخل دیں۔ البتہ ایک روز کسی نے ذکر کیا تو بس یہ جملہ کہا: دو جلالی آپس میں متصادم ہو گئے ہیں‘‘۔

حکیم شمس الحسن صاحب نے ایک عجیب تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’’مولانا مودودی کے صبر و ضبط کا ہم نے بار بار امتحان لیا‘ جس میں ہر بار وہ کامیاب نکلے۔ ایک بار نعیم صدیقی صاحب نے مولانا کے پاس سے آکر ہم رفقا سے کہا: ’’مولانا نے فرمایا ہے کہ میں ایک ضروری تحریر لکھ رہا ہوں‘ اس لیے کوئی صاحب ملنے نہ آئیں‘‘۔ میرے مزاج میں جو بغاوت کا مادہ ہے وہ اس دور میں ویسے بھی شباب پر تھا۔ مولانا کی ہدایت اور نعیم صدیقی صاحب کی اطلاع سنتے ہی اس جذبۂ بغاوت نے مجھے اکسایا‘ اور مولانا کی اس ہدایت کو چیلنج کرنے کے لیے میں اگلے ہی لمحے مولانا مودودی کے کمرے میں جا پہنچا اور کرسی کھینچ کر اس انداز سے مولانا کے سامنے جا بیٹھا کہ جیسے گپ شپ کرنے آیا ہوں۔ اب آپ مولانا مودودی کے ظرف کو دیکھیے‘ کہ وہ قلم رکھ کر میری طرف متوجہ ہو گئے اور میری باتوں کا جواب دینے لگے۔ جواب بھی کوئی ہاں‘ ناں میں نہیں‘ تفصیلی دیے اور گفتگو میں ایسی دل چسپی لی کہ جیسے خود اس وقت ایسی بے مقصد و بے موضوع گفتگو کے موڈ میں تھے۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ان پر رحم آ گیا اور میں یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا: ’’مولانا‘ آپ اپنا کام کریں‘ میں تو نعیم صاحب کی زبان سے آپ کی ہدایت سن کر‘ کہ مجھ تک کوئی نہ پہنچے  بھڑک اٹھا تھا۔ بس اب بہت امتحان لے لیا‘‘۔ میں نے باہر نکلنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ مولانا نے حسب معمول شگفتگی سے جواب دیا: ’’اور پاس بھی کر دیا‘‘ ، پھر ایک خاص انداز میں فرمایا: بھئی‘ ایک کمزور آدمی کو کب تک آزمائو گے‘‘۔

شمس الحسن صاحب نے بتایا: ’’ایسے ہی ایک بار ہم چند رفقا بھاری لکڑی اٹھا کر لا رہے تھے‘ کہ میری نظر مولانا مودودی پر پڑی‘ جو اپنے چبوترے پر سفید بے داغ اور بّراق کپڑے پہنے بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میرے ذہن میں پھر بغاوت کا کیڑا کلبلایا اور قدرے بلند آواز میں رفقا سے کہا: ’’یہ بار تو وہ اٹھائے‘ جس نے امارت کا بار اٹھایا ہے‘‘۔ مولانا نے میری یہ بات سن لی اور کوئی تاثر دیے بغیر فوراً قلم رکھ کر چبوترے سے اتر آئے اور ہماری مدد سے وہ لکڑی کاندھے پر رکھوا لی اور چلنے لگے۔ انھوں نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ہم نے الحاح وزاری کے ساتھ مولانا سے درخواست کی: ’’بس کیجیے‘‘ اور بمشکل وہ لکڑی مولانا کے کندھے سے اتروائی‘‘۔

’’ایک بار ایک ہندو کانگریسی رہنما‘ جو غالباً پنڈت جواہر لال نہرو کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا اور بڑا ذہین اور صاحب ِنظر تھا‘ بیمار ہو کر ہمارے قریب میں اپنے گائوں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ اس کو جب دارالاسلام کی بستی اور جماعت کے کام کی سن گن لگی‘ تو اس نے مولانا مودودی سے ملنے کے لیے وقت مانگا۔ وہ جب آیا تو ہم لوگ بھی شریک محفل ہو گئے۔ چائے سے تواضع کی گئی۔ وہ مولانا مودودی کی شخصیت اور دارالاسلام کے ماحول کی شائستگی اور صفائی کے اعلیٰ معیار سے خاص طور پر متاثر ہوا‘‘ ۔

شمس الحسن صاحب نے روایت کیا: ’’ بعد میں بھی کئی بار میری اس سے ملاقات ہوتی رہی۔ اس نے کئی بار کہا: ’’مولانا مودودی میں تو مولانائوں جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ باقاعدگی‘ صفائی‘ ستھرائی‘ منطقی اندازِ فکر‘ باخبر رہنے کا اہتمام‘ پُرزوراستدلال‘ یہ باتیں مذہبی رہنمائوں میں نایاب ہیں‘ سوائے مولانا ابوالکلام آزاد کے‘‘۔

مولانا مودودی سے گفتگو میں اس نے بڑے اہم سوالات کیے اور مولانا کے جوابات پر اس کے اطمینان ہی نہیں حیرت کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ جیسے سوچتا ہو: ایسا جواب‘ اور اس گائوں میں ایک مولوی کی زبان سے؟ -- مولانا دوران گفتگو متعدد بار اعداد و شمار پیش کرتے تو وہ چونک سا جاتا تھا۔ ایک بار اس نے مولانا کے بتائے ہوئے اعداد وشمار پر شک کا اظہار کیا تو مولانا نے حوالہ پیش کر دیا‘ غالباً کانگریس کمیٹی کی رپورٹ کا۔ آخر میں اس نے مولانا مودودی سے پوچھا: ’’آپ کو کب تک اپنے مقصد میں کامیابی کی توقع ہے؟‘‘ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر فرمایا: ’’کم سے کم دونسلوں کے بعد‘‘۔ وہ اس جواب سے بہت ہی متاثر اور مرعوب ہوا۔

پھر اس کے بعد بھی اس سے میری کئی بار ملاقاتیں ہوئیں‘ کیوں کہ مجھے اس کے گائوں سے گزرنا ہوتا تھا۔ ان ملاقاتوں میں اندازہ یہ ہوا کہ ایک ہندو کی حیثیت سے وہ خائف بھی ہوتا تھا۔ کہتا تھا :’’جب اسلام کے لیے اتنے سائنٹی فک طریقے پر کام کیا جائے گا‘ انداز فکر اتنا غیر جذباتی اور منطقی ہوگا‘ اور حالات حاضرہ اور سیاسیات عالم پر اس گہری نظر کے ساتھ اور صحیح خطوط پر تحریک چلائی جائے گی تو اس کی کامیابی کا قوی اندیشہ ہے‘‘۔

حکیم شمس الحسن صاحب نے کہا: ’’جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد بڑے بڑے زلزلے آئے‘ باہر بھی مخالفت کا طوفان اٹھتا رہا اور اندر بھی کئی ارکان معترضانہ‘ ناقدانہ بلکہ معاندانہ سرگرمیوں میں منہمک رہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب جماعت منتشر ہونے سے نہ بچ سکے گی۔ مگر  اس سارے ماحول میں مولانا کے حوصلے اور ہمت کی شاید کوئی حد نہیں تھی۔ ان کو ہم نے کبھی مایوس‘  دل گرفتہ اور پریشان نہیں دیکھا‘ بلکہ ہماری پریشانی اور نراش مولانا کے پاس جا کر دور ہو جاتی تھی۔ مولانا کی شگفتگی کی بہار ہر موسم میں پھول کھلاتی رہتی تھی‘ وہی فقرے‘ چٹکلے‘ لطف طبع‘ تبسم‘ خندہ جبینی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مولانا کے کمرے میں نہ کسی آندھی کا گزر ہوتا تھا‘ نہ ژالہ باری ہوتی تھی اور نہ کوئی آگ برستی تھی۔ بس ہر وقت باد بہار کے جھونکے اٹھلائے پھرتے تھے۔ ہم میں سے ہر شخص نے بار بار اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ مولانا کی گفتگو کوئی الگ چیز ہے۔ ان کے پاس جاتے ہی ایک نوع کی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا‘ اور ہم رفقا کے درمیان یہ جملہ تو کئی بار دہرایا گیا کہ: ’’مولانا کے کمرے کا درجہ حرارت ہمارے کمروں سے مختلف ہوتا ہے‘‘۔

ایک روز حکیم شمس الحسن صاحب نے فر مایا: ’’مولانا ہم لوگوں کے ساتھ اپنائیت‘ سادگی اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے‘ مگر ہم میں سے بیش تر رفقا بلکہ باہر سے آنے والے مشاہیر اہل علم و اہل قلم بھی ایک حد تک مرعوبانہ انداز سے ملتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی شخص مولانا سے گفتگو میں حد سے تجاوز کر سکا ہو یا ایسا بے تکلف ہو سکا ہو کہ اس کی آواز بلند ہو گئی ہو۔ میری نظر میں اس چیز میں مولانا کی روحانیت کو دخل تھا‘‘۔

لفظ ’’روحانیت‘‘ پر میں چونکا تو شمس الحسن صاحب کہنے لگے: ’’حکیم صاحب‘ ہم تو علما کے مرکز سہارن پور میں پلے اور بڑھے۔ بڑے بڑے علما کو قریب سے دیکھا ہے۔ اوراد و وظائف اور ظاہر کے اہتمام کا نام اگر روحانیت ہے تو ایسی روحانیت بہرحال مولانا میں نہیں تھی ‘ لیکن اگر دین کی خدمت کے پرزور ولولے‘ اصلاح باطن کی مسلسل فکر و تدبیر‘ تزکیہ نفس کے لیے پیہم جدوجہد‘ انسان سے ہمدردی‘ عاجزی‘ ظلم سہنے اور سہے جانے کا ذوق‘ سخت سے سخت تنقید کا تحمل سے جواب بلکہ ہمت افزائی‘ اللہ تعالیٰ پر بھرپور بھروسا‘ رازوں کا ہر حال میں اخفا‘ جذبۂ عفو‘ درمدح خود گفتن سے کامل احتراز‘ اپنی ستایش بہ کراہت سننے پر راضی ہونے سے بھی اجتناب‘ عبادت میں خشوع و خضوع--- ان باتوں کا نام بھی اگر ’’روحانیت‘‘ ہے‘ تو یہ روحانیت مولانا مودودی میں بدرجۂ تام پائی جاتی تھی‘ اور اسی لیے وہ مستجاب الدعوات تھے۔ ان کے بہت سے خواب سچے نکلے۔ ان کی زبان سے کسی کی غیبت نہیں سنی گئی‘ بلکہ ان کی محفل میں کوئی غیبت نہیں کر سکتا تھا‘‘۔

’’نماز ایسے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے کہ میں نے آج تک کسی کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ کسی کی اعانت (اور بکثرت کرتے تھے) اخفا کے بڑے کامیاب اہتمام کے ساتھ کرتے تھے۔ اپنی مدح و ستایش سننا ان پر بڑا شاق گزرتا تھا۔ کیونکہ ا س سے زیادہ تحمل انھیں کسی اور چیز کے لیے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنی مدح سن کر پسینے سے تر ہوجاتے اور شرما جاتے تھے۔ میں ان کی یہ ادا دیکھنے کے لیے ان کے سامنے اکثر ان کی تعریف کر گزرتا تھا۔ اللہ معاف فرمائے‘‘۔

’’ جب دیکھتے کہ کوئی بحث پر اتر آیا ہے‘ تو چپ ہو جاتے۔ بات کرنے والے کی بات کبھی کاٹتے نہیں تھے خواہ وہ کیسی ہی غلط بات کیوں نہ کہہ رہا ہو۔ جب بولنے والا چپ ہو جاتا تو بولنا شروع کرتے۔ ان کی گفتگو کے دوران جونہی کوئی بول پڑتا تو فوراً چپ ہو جاتے‘ اسے بولنے دیتے۔ میں نے ان کو کبھی برہم اور خشم ناک نہیں دیکھا۔ ان کی کسی گفتگو میں جھنجلاہٹ کی جھلک نہیں دیکھی۔ مختصر یہ کہ ان کے ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہ کر دنیا سے دل سرد ہو جاتا تھا‘‘۔

’’وہ صاف ستھرے رہتے تھے‘ جامہ زیب تھے‘ مزاج میں نفاست و لطافت تھی‘ اس لیے ان کو دور سے دیکھنے والے انھیں خوش حال اور امیر مزاج سمجھتے تھے‘ حالانکہ وہ بہت کم معاش تھے۔ ان کے ذرائع آمدنی بہت محدود تھے اور اکثر تنگ دست رہتے تھے‘ مگر انھوں نے اخراجات بہت کم کر رکھے تھے۔ ضروریات بہت محدود کر لی تھیں اور ضرورت کی چیزوں کو بہت سلیقے سے استعمال کرتے تھے۔ ان کے بعض کرتے کئی کئی سال سے ان کے پاس تھے۔ ایک بار پوچھنے پر بتایا یہ شیروانی ۲۵ سال پہلے سلوائی تھی۔ اپنے کپڑے خود دھولیتے تھے‘ گھر کے بہت سے کام خود کرتے تھے۔ ہم نے ان کو ایندھن کے لیے لکڑی کاٹتے دیکھا ہے۔ بجلی کی وائرنگ‘ گھڑی گھنٹے کی صفائی اور درستی اور دروازے کھڑکیوں کی مرمت بھی خود کر لیتے تھے۔ اس طرح ان کے بہت سے اخراجات کم ہو جاتے تھے۔ اللّٰہ اکبر‘ مگر سوء اتفاق سے یہی چیز بہت سے علماے کرام کے نزدیک قابلِ اعتراض اور علما کی ’شان‘ کے خلاف تھی اور مولانا کی دنیاداری کا ثبوت بھی قرار دی گئی‘‘۔

حکیم شمس الحسن صاحب ہی نے بتایا: ’’ایک بار رمضان میں مولانا مودودی کے اہل و عیال دہلی گئے ہوئے تھے‘ جو ملازم کھانا پکانے وغیرہ کے لیے رکھا تھا وہ فرض ناشناس‘ کاہل اور گندا تھا۔ مولانا اس کے طرزعمل سے تنگ تھے۔ ایک دن میں نے سنا کہ‘ مولانا اپنے ملازم سے کہہ رہے تھے: ’’تمھیں روز کہتا ہوں‘ مگر آج بھی سحری کے برتن اب تک بے دھلے پڑے ہیں۔ روزے میں ان کو دیکھنے سے الجھن ہوتی ہے‘‘۔ دوسری شکائتیں بیان کر کے کہنے لگے: ’’اگر تم یہ چاہتے ہو کہ جیسا برتائو دوسرے لوگ کرتے ہیں اور جس زبان کے سننے کے تم عادی ہو‘ وہی زبان میں استعمال کروں اور ویسی باتیں کہوں تو تمہیں مایوس ہونا پڑے گا‘ مجھ سے اس زبان و بیان کی توقع نہ رکھو۔ اس لیے یہی بہتر ہے کہ کوئی اور ٹھکانہ تلاش کرکے مجھے بتا دو‘‘۔ کیسے عجیب انسان تھے کہ اپنے ناہنجار ملازم سے شکایت بھی درخواست کی صورت میں کر رہے تھے!‘‘

’’اخلاق و کردار کی اصلاح و تربیت کے سلسلے میں مولانا محترم اتنے ہی ’دیرباز‘ تھے جتنے ہم ’جلدباز‘ ہوتے ہیں۔ انھیں اس نکتے پر بڑا اصرا رتھا کہ اصلاح بڑی حکمت کے ساتھ‘ بڑے تحمل سے اور بڑی تدریج سے ہونی چاہیے۔ انھوں نے ہم لوگوںکی اصلاح کے لیے بھی ایسا ہی حکیمانہ اور طویل المیعاد منصوبہ بنایا تھا۔ ہم میں سے کوئی کسی رفیق کی اخلاقی کمزوری یا کوتاہی یا نوافل سے غفلت کی طرف متوجہ کرتا تو مولانا حکمت سے لبریز لہجے میں فرماتے: ’’ان کی اصلاح ہو رہی ہے‘ مگر رفتا ر سست ہے‘ آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ ایک بار ایک صاحب کی داڑھی رکھنے کا ذکر آیا تو ہم نے درخواست کی: ’’آپ ان کو متوجہ فرمائیں‘‘ تو جواب دیا: ’’داڑھی میری سنت تو نہیں ہے سنت رسولؐ ہے‘ اور انھیں بھی معلوم ہے کہ سنت رسول ہے‘ اس لیے آپ انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیں‘ تاکہ جب بھی رکھیں تو سنت رسولؐ سمجھ کر رکھیں۔ میری یا آپ کی فہمایش پر یا دکھاوے کے لیے نہ رکھیں‘‘۔ ان کو امید تھی کہ جلد ہی یہ جذبہ ان کے اندر سے ابھرے گا اور وہ ضرور داڑھی رکھیں گے۔ اسی طرح ایک صاحب کا ذکر آیا کہ: ’’ان کی داڑھی کی مقدار شرعی نہیں ہے‘‘۔ فرمایا: ’’آپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ داڑھی کی مقدار شرعی نہیں ہے‘ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پہلے داڑھی نہیں تھی اب داڑھی ہے۔ ان شاء اللہ بڑھ بھی جائے گی‘‘۔

حکیم شمس الحسن کے بقول: مختصر یہ کہ اخلاق و کردار کی اصلاح کے لیے ان کے کچھ تجربے اور کچھ اصول تھے‘ جن کو غلط بہرحال نہیںکہا جاسکتا۔ صوفیا کے مختلف سلسلوں میں جو اختلافات ہیں اور تورع اور تقشف کا جو اختلاف ہے وہ صوفیا کے تجربوں پر مبنی تھے‘ ایک سلسلۂ تربیت یہ بھی سہی۔

  • منظورعلی صاحب: (م: ۸ مئی ۱۹۸۵ئ): آج ہمسائے سید موجد علی صاحب‘ رکن جماعت اسلامی کے ہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی‘ جن کا نام منظور علی ہے۔ ایٹہ (یوپی‘ بھارت) کے رہنے والے ہیں اور اب بھی وہیں ہیں‘ آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ان کی    عمر تقریباً ۶۶ سال ہے۔ محفل میں مولانا مودودی کا ذکر آیا تو بولے: ’’میں مولانا کو جانتا ہوں‘ ان کے ہاں چھ سات سال ملازم رہا ہوں‘‘۔ میرے سوالات کے جو جوابات انھوں نے دیے ان سے   حسب ذیل حالات کا علم ہوا:

’’۱۹۳۹ء میں مولانا مجھ کو لاہور لائے تھے۔ ۱۲ روپے میری تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ اس زمانے میں مولانا کا محلہ چوبرجی میں قیام تھا۔ سات آٹھ مہینے کے بعد اسلامیہ پارک منتقل ہو گئے تھے۔ یہ مکان مولوی ظفر اقبال صاحب کا تھا‘ جن کے ایک بھائی ڈاکٹر ریاض قدیر بڑے قابل سرجن تھے۔ اسی مکان میں جماعت کا پہلا جلسہ ہوا تھا۔ میں جب پہنچا تو مولانا کے صرف ایک بیٹا تھا۔ اسے پیار سے جگو ]عمر فاروق[ کہتے تھے۔ پھر میرے قیام کے دوران دو بچے پیدا ہوئے‘ امن ]احمد فاروق[ اور بیٹی حمیرا۔ حمیرا کے لیے ایک آیا تھی‘ جو ضلع ہردوئی کی رہنے والی تھی۔ پھر ۱۹۴۲ء میں مولانا‘ دارالاسلام منتقل ہوگئے۔ وہ جماعت اسلامی کی بستی تھی۔ وہاں قمرالدین خان کے علاوہ ایک ماسٹر صاحب جو مولانا کے بچوں کو پڑھاتے تھے‘ ایک جیلانی صاحب تھے۔ ایک توختہ صاحب مولانا کے تانگے پر ملازم تھے‘ شاید ترکستان کے رہنے والے تھے۔ ایک منشی کاتب تھے‘ کالے سے‘ لانبے سے‘ وہ پورب کے رہنے والے تھے اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا۔ مولانا کی والدہ صاحبہ بھی ساتھ رہتی تھیں۔ کچھ دن کے لیے مولانا کے بڑے بھائی صاحب بھی آ کر رہے تھے‘ وہ شاید حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے تھے۔

گھر اور دفتر میں مولانا چوڑے پائینچے کا پاجامہ پہنے رہتے تھے۔ گائوں سے باہر جانا ہوتا تو شیروانی اور قدرے تنگ موہری کا پاجامہ پہنتے تھے۔ مولانا کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ کھانا بہت سادہ کھاتے تھے۔ یہ لوگ اپنے اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ کپڑے دھونے کا صابن مولانا مودودی خود بناتے تھے۔ مولانا زیادہ تر سفید کپڑے پہنتے تھے‘ جو بہت اجلے ہوتے تھے‘ کیوں کہ وہ کپڑے زیادہ میلے نہیں ہونے دیتے تھے‘ جلد بدل لیتے تھے۔ایک بار مجھ سے بھی کہا : ’’کپڑے زیادہ میلے نہ ہونے دیا کرو۔ آسانی سے اور جلد صاف ہو جاتے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھ پر ایک بار بھی غصہ نہیں کیا اور میں نے تو ان کو کسی پر غصے ہوتے نہیں دیکھا۔ مجھ سے بہت غلطیاں ہوتی رہیں‘ قیمتی برتن توڑ دیے‘ ویسے بھی میں بہت الھڑ اور بُھلکّٹر تھا‘ اس لیے اکثر کام خراب کر دیتا‘ مگر انھوں نے کبھی ایک لفظ بھی سخت نہیںکہا۔ فروری ۱۹۴۴ء میں‘ میں اپنے گھر چلا گیا۔ ملازمت میں نے خود چھوڑی تھی‘‘۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دینی خدمات کا ایک نہایت درخشاں باب مسلم عورت کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ مولاناؒ کی گراں قدر علمی‘ سیاسی‘ تنظیمی خدمات کا تذکرہ اور اعتراف تو کسی نہ کسی سطح پر ہوتا ہی ہے‘ لیکن مسلم عورت پر مولاناؒ کی فکری رہنمائی کے دور رس نتائج کا جائزہ کماحقہ لینا باقی ہے۔

برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی استعمار کی غلامی کے مابعد اثرات نے جہاں ایک طرف دیسی فرنگیوں کی ایک کھیپ بااثر اور مقتدر طبقات میں پیچھے چھوڑی‘ وہاں ’’آزادیِ نسواں اور      شانہ بشانہ‘‘ کے بیج بھی ساتھ ہی بو دیے ۔ جس ماحول میں ہماری نسل نے آنکھ کھولی تھی‘ اس میں شریف‘ دین دار خاندانوں کی بیٹیاں بھی تعلیمی اداروں میں خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں تھیں۔ تعلیم اور کیریئر میں جی داری سے لپکنے والی یہ وہ نسل تھی‘ جو روایتی میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کر گزرنے کی خواہاں تھی۔ ’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر‘ کی کیفیت تو ہر دور ہی میں پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک جانب تو خاندانی شرافت‘   دین داری کی روایتی یا جامد روایات تھیں اور دوسری جانب تعلیم کے میدان میں بڑھتا پھیلتا مقابلے کا رحجان‘ جو اپنے ساتھ کالجوںاور یونی ورسٹیوں کی فضا میں آزادی کے تمام تر لوازم لیے ہوئے تھا۔

ایسے ماحول میں جب کبھی کسی مذہبی مجلس کا رخ کیا‘ وہاں پر عورت کے حوالے سے ایک نہایت محدود اور گھٹی ہوئی سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے خشمگیں نگاہوں سے لباس کو گھورا اورکسی نے تعلیمی میدان میں عورت کے بگٹٹ دوڑنے کی صلواتیں سنائیں۔ سر جھکا کر ہانڈی روٹی‘ چولہا سنبھالنے‘ بچے پالنے اور شوہر کی اندھی بلکہ غیر مشروط اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے جنت پا لینے کو عورت کی معراج بتایا۔ ایسا نہ کرنے پر جہنم کی ہولناک عذاب کی وعیدیں قبر کے سانپ بچھو -- مذہب کے حوالے سے جدھر رخ کیا طبیعت پر ہول طاری ہو گیا‘ اور اُسی طرح ٹھیک ہے‘ کی کیفیت لیے پیچھے ہٹتی رہی۔   حتیٰ کہ جدید تعلیم سے آراستہ علماے کرام نے بھی پس پردہ خواتین سے خطاب کیا تو اس دل پذیر تقریر میں شوہر کے حقوق کی فہرست تھمائے بغیر نہ اٹھنے دیا۔ گویا پڑھی لکھی‘ ’’حقوق زدہ اور شانہ بشانہ‘‘ کے مرض میں مبتلا عورت کے مرض کا مداوا کہیں نہ تھا۔ طبیعت کے اندر سے وعدۂ الست کی پکار شور مچاتی -- راستہ پوچھتی -- جواب نہ پا کر مایوسی سے چپ رہ جاتی۔

اسی اثنا میں اسلامی جمعیت طالبات نے یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ ابتدا میں تو کالے کالے برقعے دیکھ کر وہی جہالت کا دورہ پھر پڑ جاتا‘ تاہم دعوت کی حکمت‘ تحمل اور صبر نے آہستہ آہستہ رنگ دکھایا۔ ایک دن پیغام آیا کہ مولانا مودودیؒ اور ان کی بیگم اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملاقات اور سوال و جواب کی نشست رکھی گئی ہے‘ چلیے۔ مروت میں ساتھ دیا‘ تصور ہی تصور میں ایک تنگ نظر‘ وعیدیں داغنے والے مولوی صاحب اور ان کی سخت گیر قدامت پسندی کی تصویر والی بیگم کا نقشہ طبیعت کو ہولائے دے رہا تھا۔ پاکستان کی جدید ترین یونی یورسٹی کی تعلیم کا خمار بھی ہمراہ تھا۔ مگر جب کمرے میں قدم رکھا تو ایک نہایت نفیس اور شائستہ خاتون سے تعارف ہوا: ’’آپ ہیں‘ بیگم مولانا مودودی‘‘۔ میں انھیں دیکھتے ہی حیرت زدہ سی رہ گئی کہ دینی شخصیات ایسی بھی ہو سکتی ہیں۔ اجلا لباس‘ شائستہ اطوار‘ عمدہ گفتگو! ایک رعب کا ہالہ مسحور کر گیا۔ مولاناؒ کی شخصیت‘ مدلل اور دانش ورانہ گفتگو سے سابقہ تو بعد میں پیش آیا۔ سچی بات ہے کہ مولاناؒ کی اہلیہ محترمہ ہمیں پہلے ہی مسخر کر چکی تھیں۔ دل کے دروازے پر یہ شعوری اسلام کی پہلی دستک تھی۔ دیکھنے والے نے تو شاید ام عبداﷲؓ کے شوہر کی مانند یہی کہا ہو: ’’خطّاب کا گدھا تو ایمان لا سکتا ہے مگر عمر نہیں‘‘ -- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا ایک حیات بخش جھونکا وعدۂ الست کی پکار کی تشنگی کوراہ دکھا گیا۔

اس کے بعد تفسیر سـورۂ نور‘ خلافت و ملوکیت‘ رسائل و مسائل نے طبیعت پر مولاناؒ کی تحریروں کا سحر طاری کر دیا۔ تفہیم القرآن کا مقدمہ اور دیباچہ پڑھ کر تو یوں لگا کہ یہ لکھا ہی میرے لیے گیا تھا۔ ان تحریروں کے دلائل کے سامنے اندر کی باغی عورت ہتھیار ڈالتی چلی گئی۔ چلانے والے انگلی پکڑ کر چلاتے رہے‘ کایا کب پلٹی ؟تصورات کب بدلے ؟ لڑکپن کے وہ مشاغل جنھیں چھوڑنے کا تصور روح فرسا تھا‘ ان کی روح  تفہیم القرآن نے کب سلب کر لی؟ یہ سب مولاناؒ کی تحریروں کی کرشمہ سازی تھی۔ مولانا مودودیؒ جب تفسیر میں بیالوجی [حیاتیات] کے حقائق بیان کرتے تو اس میں اتنی جامعیت اور کاملیت (perfection) ہوتی‘ کہ یوں محسوس ہوتا کہ لکھنے والے محترم اسکالر شاید ہمارے ہی شعبے سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق بات میں تفہیم کا حق ادا کر دیا کہ حقیقتاً اسے اسمِ باسمٰی کہیے۔ تحریر میں ان تمام اوصاف کا یکجا ہو جانا کہ مشکل مضامین کو سادہ‘ شگفتہ اور آسان انداز میں بیان کر دیا جائے یوں کہ زبان کا حسن‘ روانی اور معیار بھی برقرار رہے‘ مولاناؒ کی تحریروں کا خاصہ ہے۔

عورت کے وجود اور مسائل کے حوالے سے مولاناؒ کا انداز بے انتہا مؤثر اور دل پذیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولاناؒ نے قرآن اور شارح اولینؐ ہی کے انداز میں عورت کی دنیا کو دیکھا‘ سمجھا اور بیان کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے عورت کو الگ اس کی چھوٹی سی دنیا کی ڈبیا میں بند کر کے اس پر تالا ڈال دینے کا وہ طریقہ نہیں اپنایا‘ جو برعظیم جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں بیان کردہ اسلام یا مقامی روایات کا خاصہ تھا۔

قرآن اول تا آخر مرد اور عورت دونوں کو یکساں خطاب کرتا ہے۔ توحید‘ رسالتؐ، جنت دوزخ‘ اعمال دونوں اصناف (genders)  کو ایک ہی انداز میں پڑھائے سکھائے جاتے ہیں۔ اﷲ کی رضا کی طلب‘ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع مرد‘ عورت دونوں کے لیے یکساں نصاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چشم ہوش سے پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ و سلم بھی -- عورت کو تقدس‘ احترام اور وقار کے پیرائے میں انگلی پکڑ کر گھر لیے جاتے ہیں۔ملکہ بنا کر‘ قدموں تلے جنت بچھا کر‘ ننھے منے بچوں کی محبت کی میٹھی پھوار چار سو برسا کر فطری انداز میں عورت کو اس کام میں یوں مصروف کر دیتے ہیں کہ عورت سے منسوب روایتی کج روی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ مرد کے سر پر قوامیت کا تاج سجا کر اسے بوجھوں تلے یوں لاد دیتے ہیں اور اُسے عورت کی ناز برداری پر یوں مامور کر دیتے ہیں کہ عورت ’’بغاوت‘‘ کی چوکڑی بھول کر سجدۂ شکر بجا لاتی ہے۔ باصلاحیت عورت کے لیے سیدہ عائشہؓ اور سیدہ ام سلمہؓ کی سیرت میں بہترین نمونۂ عمل سامنے آتا ہے۔ یہی نسخہ سید مودودی علیہ رحمتہ نے استعمال کیا۔ سید مودودیؒ نے عورت کی زندگی کو قرآن سے جوڑ دیا۔ سیرت طیبہؐ کے اسباق بھی اسے اُسی طرح پڑھائے گئے جیسے مردوں کو -- ہر سطح کی عورت نے اسے حسب صلاحیت سیکھا‘ سمجھا اور عمل پیرا ہوئی‘ بلکہ قرآن و سنت سے براہ راست جوڑ دینے اور اپنے لٹریچر میں اسی پوری روح کو اتار دینے کی بنا پر انھوں نے سادہ دیہاتی عورت کو بھی عالم فاضل بنا دیا۔

ابتدائی دور کے محسوسات میں سے ایک دو واقعات ذہن پر گہرا تاثر چھوڑ گئے:

  • یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم ]ایم ایس‘ ایم فل‘ باٹنی[ مکمل کر کے درس کے حلقوں میں تازہ وارد ہوئی تھی۔ علم لاکھ عجز سکھانے کی کوشش کرے پھر بھی بلا اختیار احساس تفاخر تو کہیں نہ کہیں سر اٹھاتا ہی ہے۔ ایک خاتون درس دینے کے لیے بیٹھیں‘ فیصل آباد کے کسی نواحی گاؤں سے سادہ سی عورت -- دل نے سوچا: ’آج تو دن ضائع ہی ہوا‘۔ خاتون نے درس شروع کیا۔ ان کی عظمت بڑھتی پھیلتی گئی -- اپنا قد چھوٹا ہوتے ہوئے ذرۂ ناچیز رہ گیا --- قرآن اور تفہیم القرآن ایک سادہ دیہاتی عورت کے داخلی وجود کو چھوکر کندن بنا چکے تھے اور دنیاوی ڈگریوں کی زیب و زینت کا گاؤن         ] عباے علمی[ تار تار تھا۔ یہ تھا سید مودودیؒ کی تحریروں کا روح پرور جھونکا‘ جس نے عورت کو پرکاٹ کر چادر اور چار دیواری ہی کا پہاڑہ پڑھا پڑھا کر محدود نہ کیا‘ بلکہ سادہ سادہ خواتین کو دشمنان اسلام کے عالمی ایجنڈوں کی فہم و فراست بھی عطا کر دی۔
  • ایسے ہی ایک اور موقع پر پڑھی لکھی نوجوان خواتین کا سٹڈی سرکل چل رہا تھا۔ ایک دیہاتی چادر اوڑھے خاتون بھی ان میں سے ایک کی ہمراہی تھیں۔ سٹڈی سرکل ختم ہوا۔ خاتون سے تعارف چاہا۔ پتا چلا کہ گاؤں میں واجبی سی تعلیم حاصل کی لیکن کہانیاں پڑھنے کا شوق خوب تھا۔ اسی شوق میں ایک دن دیمک کی کھائی ہوئی خطبات‘ ہاتھ لگ گئی۔ پڑھی اور پڑھتی چلی گئیں۔ اس کے بعد شہر سے مولاناؒ کی دیگر کتابوں کا پتا کروایا اور منگوائیں۔ لفظ جوڑ جوڑ کر پڑھتیں اور جب خود مشکل لگتی‘ کسی سے مدد لیتیں۔ اسی ایک خطباتکی روشنی اپنے گاؤں میں بچیوں میں پھیلائی۔ اس کے بعد چادر میں یہی خطباتپکڑے دوسرے گاؤں چل دیں۔ یوں ایک سادہ دیہاتی عورت نے تمام تر دیہاتی ماحول کی مخصوص مخالفتیں مول لے کر بھی وہاں بچیوں اور عورتوں میں ایمان کے چراغ روشن کیے۔

مولاناؒ کی کتب کا یہ سدابہار اثر کہ آج ۵۰‘۶۰سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے پر بھی یوں تروتازہ ہیں -- ہر سطر حال کی خوشبو دیتی ہے جو آج بھی روشن اور رہنما ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ  ان کتب میں ‘قرآن کے پیغام و ابلاغ کا جوہر موجود ہے۔ وہ قرآن جو کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے‘ جسے تخیلات کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتے اور زبانیں جس میں آمیزش نہیں کر سکتیں (بحوالہ حدیث‘ ترمذیؒ)۔ مولاناؒ نے قرآن کریم کے اعجاز کے سائے میں اور اسی قرآن کی زبان میں عصرِحاضر کی عورت کے دل اور روح کی دنیا کو اسی طرح اپیل کیا‘ جس طرح قرآن حکیم نے کل سیدہ ام حبیبہؓ، سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ خدیجہؓ کے من کی دنیا کومسخرکیا تھا۔

اگرچہ یہ جملہ عام قاری کو لگے گا تو بڑا عجیب‘ لیکن اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے استفادہ کرنے والی تحریکی خواتین اپنے ایمان‘ اپنے ایثار‘ اپنی کمٹ منٹ‘ حد درجے کے توازن‘ دور اندیشی کے باعث نظام حکومت چلانے کی صلاحیت مروجہ سیاست دانوں سے زیادہ رکھتی ہیں۔ تحریک میں ملکی اور عالمی سیاست پر بسا اوقات سادہ سادہ خواتین اتنے پیچیدہ اور گہرے سوالات کر گزرتی ہیں کہ جو ان میں پائی جانے والی     دانش وری کی خبردیتی ہے۔ جیسے مولانا مودودیؒ نے چند کتابوں میں دنیا بھر کے علوم گھول دیے ہوں۔

آج بھی ملک بھر میں تعلیم یافتہ خواتین میں دینی فہم کے ساتھ درس و تدریس کے حلقوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ بڑے شہروں میں ان حلقہ ہاے قرآنی کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ بلا مبالغہ رحمت کے یہ تمام چشمے اسی ایک فکر سے پھوٹے ہیں‘ چاہے آپ انھیں جس نام سے بھی جانیں۔ گلاب کو کوئی بھی نام دیں: گل‘ گلاب یا روز‘ ہے تو وہ گلاب ہی۔ اسی طرح قرآن کی تعلیم و تدریس کے ان تمام فعال حلقوں کے آخری سرے سید مودودیؒ ہی کی تعلیم و تربیت سے جا ملتے ہیں‘ خواہ جماعت اسلامی ہو یا تحریک اسلامی کے حلقہ ہاے خواتین‘ اسلامی جمعیت طالبات ہو یا تنظیم اساتذہ خواتین‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ویمن ونگ ہو یا الہدیٰ انٹرنیشنل کا نفوذ -- -یا بے شمار انفرادی کاوشیں۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی مولانا مودودیؒ کے  طریق کار سے متاثر ہو کر خواتین میں باضابطہ کام اور تنظیم کی بنیاد رکھی۔ وگرنہ مولانا مودودیؒ کے ہاں پائے جانے والے عورتوں میں تحریک و تنظیم کے تصور سے پہلے‘ ہمارے مذہبی حلقوں میں خواتین کے لیے اجتماع اور تنظیم سازی کا کوئی تصور تک موجود نہ تھا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کی براہ راست رہنمائی میں تیار ہونے والی خواتین نے تعلیم یافتہ خواتین کے ہر طبقے میں نفوذ کیا ہے: اساتذہ‘ ڈاکٹر -- ادیبات اور مصنفات -- خواتین کی صلاحیتوں کو ہر شعبۂ زندگی میں اسلام کی روشنی میں کار آمد بنایا گیا۔ یہاں تک کہ الحمدللہ! آج باعمل مسلم خواتین کا ایک ہراول دستہ اپنی اصل: گھر‘ بچے‘ شوہر‘ خاندان سے وابستہ رہتے ہوئے بھی اسلام کے لیے اپنی قوتیں اور صلاحتیں وقف کیے ہوئے ہے۔ مولاناؒ کے اس انداز فکر کی روشنی نے صرف پاکستانی مسلم عورت ہی کو متاثر نہیں کیا‘ بلکہ مولاناؒ کی تحریروں کے عربی تراجم عرب خواتین کی اور انگریزی تراجم مغربی ممالک میں نو مسلم خواتین کی بھی اسی انداز میں رہنمائی کر رہے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم کے جنازے کے بعد جب نیویارک ایرپورٹ سے اُن کا جسد خاکی پاکستان روانہ ہوا تو وہاں پر نو مسلم خواتین نے رخصت کرتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا:

’’بہن‘ وہ صرف تم لوگوں ہی کے تو نہیں تھے‘ ہم پر بھی ان کے احسانات کچھ کم نہیں ‘‘!

مولانا سید ابوالاعلیٰ موودیؒ کی شخصیت اور ان کی تحریروں کی اثر آفرینی کا یہ حال ہے کہ اس نے بلوچستان کی تاریخ کا رخ اسلام اور نظریہ پاکستان کی طرف موڑنے میں اپنا ایک مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اصل حقیقت اسی وقت کھل کر سامنے آ سکتی ہے‘ جب ذرا پیچھے مڑ کر تاریخ بلوچستان میں جھانک کر دیکھا جائے۔

قیام پاکستان سے پہلے جنوب مشرقی ایشیا میں جو سیاسی لہریں اٹھتی رہی ہیں‘ سرزمین بلوچستان بھی ان سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ اسلام کے بخشے ہوئے جذبۂ ایمانی کے بل پر بلوچستان میں بسنے والے مسلمانوں کے رگ و پے میں انگریز دشمنی سرایت کیے ہوئے تھی۔ اس وقت کی سیکولر تحریکوں نے آگے بڑھ کر اپنے مقاصد اور عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے‘ انگریز دشمنی کو ایک حربہ اور وسیلہ بنا کر پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ وہ قدرے کامیاب بھی ہوئیں‘ لیکن اہل بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے میں بہرحال ناکام رہیں۔ خصوصی طور پر انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے اسی راستے سے بلوچستان اور پشتون نوجوانوں میں بااثر سرداروں کے توسط سے بڑی چالاکی سے نفوذ کیا اور پھر اس ساری تحریک جہاد کو‘ جو ان کے بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف خالص جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر کھڑی کی تھی‘ اسے بلوچوں اور پشتونوں کے قومی تشخص کو بچانے کا رنگ دے دیا گیا۔ اس طرح ان لادینی تحریکوں نے قوم پرستی‘ علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر گرم خون کو اپنے مقاصد اور عزائم کی برآوری کے لیے استعمال (exploit) کر کے نوجوانوں کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹانے اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی۔ اشتراکی کوچہ گردوں نے وہ افسوں پھونکا کہ مسلمان بلوچ اور پشتون نوجوان درآمدہ غیر ملکی افکار و نظریات کے اسیر ہو کر یہ سمجھنے لگے کہ کسی دوسری استعماری طاقت کی غلامی کا قلاوہ اپنی گردنوں میں ڈال لینے کا نام آزادی کا حصول ہے‘ جس کی خاطر سب کچھ نچھاور کر دینا‘ یہاں تک کہ دین و ایمان بھی لٹا دینا عین راہِ صواب ہے۔

بلوچوں اور پشتونوں کا ایک تعلیم یافتہ عنصر بلوچستان کی خدمت کے نام پر صحافت کی مسند بچھاکر پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ سیکولر نظریات کا پرچار کرنے لگا۔ بلوچستان کے اندر جب نشرواشاعت کی کوئی صورت ممکن نہ رہی تو لاہور‘ دہلی‘ کراچی اور جیکب آباد سے بلوچستان سے متعلق مختلف حوالوں سے مقالے اور مضامین شائع کرنے کے لیے اخبارات و جرائد کا اہتمام کیا گیا۔   دانش وروں کے اجلاس‘ جلسے اور کانفرنسیں اس پر مستزاد تھیں۔ اس زمانے میں لادینی تحریکوں کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ زبان‘ علاقے اور قومیت کی بنیاد پر نوجوانوں کا دائرہ مزید وسعت اختیار کرتا چلا گیا اور اس طرح مزید نو خیز ذہن درآمد شدہ ملحدانہ نظریات کا شکار ہوئے۔

۱۹۳۶ء کے دوران عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم نے برٹش بلوچستان میں انجمن وطن کی بنیاد رکھی‘ جس کابنیادی مقصد متحدہ قومیت کے نظریے کے مطابق پورے بلوچستان کو ایک صوبے کی حیثیت دے کر اس میں ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اسمبلی کا قیام تھا۔ ۵ فروری ۱۹۳۷ء کو دربار سبی کے موقع پر میر عبدالعزیز کرد نے ریاست قلات میں سٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھ دی‘ جسے قلات کے قوم پرستوں کی واحد نمایندہ جماعت سے موسوم کیا گیا۔ اس پارٹی کے سرکردہ اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے اور بالآخر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے اپنی پارٹی کا کانگریس کے ساتھ الحاق بھی کردیا تھا‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ بلوچستان کو ایران اور افغانستان کی طرح ہندستان سے علیحدہ ایک وطن خیال کرتے تھے۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے بلوچستان مسلمانوں کی مملکت کے اندر کابل یا پھر دہلی کے زیر اثر رہا ہے۔ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے رہنما‘ قلات کی حکومت کو بلوچستان اور بلوچوں کی مرکزی حکومت سمجھتے تھے اور قومی بنیادوں پر اس کی تنظیم و ترقی کے خواہاں تھے۔ اس لیے ابتدا میں اپنی تحریک کو ہندستان کی تحریکوں سے علیحدہ رکھ کر قومی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر اپنی جداگانہ تنظیم کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسی گروہ کی سربرآوردہ شخصیتوں کی یہ انتہائی کوشش رہی کہ ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے پائے۔ وہ خان قلات پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ قلات کا حکمران ہونے کی حیثیت سے پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے قلات کی آزادانہ ریاست کا اعلان کر دیں۔

ہند و پاک کی تقسیم سے قبل ۱۹۲۷ء میں پہلی مرتبہ اور اس کے بعد ۱۹۲۹ء میں اپنے ۱۴ نکات میں قائداعظم محمد علیؒ جناح نے ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا‘ تاکہ بلوچستان بھی جملہ صوبائی حقوق حاصل کر کے سیاسی اصلاحات نافذ کر سکے --- خان قلات میر احمد یار خان‘ نواب محمد خان جوگیزئی‘ سردار میر جعفر خان جمالی اور قاضی محمد عیسیٰ کی کوششوں کے نتیجے میں‘ ۱۹۳۹ء میں قلعہ سیف اﷲ کے مقام پر نواب محمد خان جوگیزئی کے ہاں    مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قاضی محمد عیسیٰ کو صدر اور سردار غلام محمد خان ترین کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں مسلم لیگ: انجمن وطن‘ کانگریس اور جمعیت علماے ہند سمیت تمام چھوٹی بڑی قومیتوں کی بنیاد پر بنی ہوئی تنظیموں کے مقابل ایک طاقتور جماعت کی حیثیت سے آکھڑی ہوئی۔

بلوچستان کی یہ وہ صورت حال تھی جس میں دوسرے تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ‘ مولانا مودودیؒ کی پُراثر تحریروں نے یہاں پر بسنے والی امت مسلمہ کے سرکردہ رہنماؤں کو صحیح سمت میں رہنمائی بہم پہنچائی۔ خطۂ بلوچستان کے اندر‘ تحریک پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچانے میں اس مرد خدا مست کی رہنمائی نے ایک نہایت اہم تاریخی کردار انجام دیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا مودودیؒ ‘‘ میں کیا ہے۔ اس مضمون میں وہ رقم طراز ہیں:

پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو دو قومی نظریہ ایک نعرہ بن گیا۔ مگر اس کی علمی و عقلی توجیہات کسی کے پیش نظر نہ تھیں۔ مسلم لیگی قیادت بھی محض جذباتی نعروں میں بہے چلے جا رہی تھی۔ میرے والد محترم نواب محمد خان جوگیزئی مرحوم بلوچستان سے پہلی دستوریہ ہند کے واحد رکن تھے‘ جن کے ووٹ سے بلوچستان‘ پاکستان میں شامل ہوا۔ میں نے پاکستان کے حق میں انھیں جس قدر ہموار کیا اور جن جن دلائل سے کام لیا وہ علم و عقل کا سارا اسلحہ مولانا ]مودودی[ کی کتب  سیاسی کش مکش‘ سے لایا تھا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب  مسئلہ قومیت نے بھی وہ کام کیا جو ایک تحریک کر سکتی تھی‘‘۔ (ہفت روزہ  چٹان‘ لاہور‘ ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۰ئ‘ ص ۳۲)

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ وہ فکری رہنمائی ہے جس نے بلوچستان کی تاریخ کا دھارا اسلام کی طرف موڑنے کاعظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ فکر مودودی نے بالوسطہ اور بلا واسطہ بلوچستان کے مستقبل کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کا تاریخی کام کیا ہے۔ بلاشبہہ آپ کی تحریروں نے بلوچستان کے نو خیز ذہنوں سے کفر‘ الحاد اور تشکیک کے کانٹوں کو ایک ایک کر کے نکالا اور انھیں اسلام کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کے لیے فطری اور عملی سامان بہم پہنچایا۔

پاکستان کے ظہور کے وقت ریاست قلات میں ’دیوان عام‘ اور ’دیوان خاص‘ کے نام سے دو ایوان موجود تھے۔ ان دونوں ایوانوں نے چند شرائط کے تحت مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی‘ لیکن حکومت پاکستان نے ان شرائط کو تسلیم نہیں کیا۔ اس دوران مکران‘ لسبیلہ اور خاران کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ بالآخر قائداعظم کی زندگی ہی میں ۲۷مارچ ۱۹۴۸ء کو خان آف قلات میر احمد یار خان نے بھی ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کر دیا۔

ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان سے پہلے خان آف قلات میراحمد یار خان نے اس اہم مسئلے پر مولانا مودودیؒ سے رائے اور مشورہ مانگا تھا۔ جس انداز سے مشورہ اور رائے طلب کی گئی تھی‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان آف قلات‘ مولانا مودودی کی اعلیٰ شخصیت‘ اُن کے علم و فضل اور ان کی اسلامی خدمات کے پہلے ہی سے قائل اور معترف تھے۔

۶ مارچ ۱۹۴۸ء کو جہانگیر پارک کراچی کے جلسۂ عام میں مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی کی تفصیل بیان کی تھی۔ یہی وہ موقع ہے ‘ جب کہ خان آف قلات جناب میر احمد یار خان نے مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ کو اپنا دستی مکتوب دے کر کراچی مولانا مودودیؒ کے پاس بھیجوایا تھا۔ یاد رہے کہ مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ جنوری ۱۹۵۱ء میں ۲۲ نکاتی دستوری خاکہ منظور کرنے والے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علما میں سے ایک تھے۔

بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کے دیرینہ بزرگ رکن جماعت اسلامی مولانا ماسٹر عبدالرحیم مرحوم نے بہت پہلے یہ بتایا تھا کہ وہ ان دنوں کراچی میں موجود تھے اور یہ واقعہ ان کے سامنے کا ہے۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے مکتوب کا مفہوم انھوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ خط میں تحریر تھا:

پورا بلوچستان دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو حکومت ِ برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور اب پاکستان کا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جسے ریاستِ قلات کہتے ہیں۔ اگرچہ برطانوی دور میں یہ ریاست انگریزوں کے زیر اثر تھی لیکن ہمارے ہاں فیصلے شریعت کے مطابق ہی ہوتے تھے۔ اب بھی ہمارے ہاں قاضی مقرر ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہم پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا اعلان کر دیں۔ اس معاملے میں ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہو گی اگر آپ میرے ہاں قلات تشریف لائیں۔

مولانا ماسٹر عبدالرحیم ؒنے بتایا کہ مولانا مودودیؒ نے اُسی وقت جوابی خط تحریر کیا‘ اور خانِ قلات کو پہنچانے کے لیے مولانا عبدالصمد سربازیؒ کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ کا مکتوب مندرجہ ذیل مفہوم پر مبنی تھا:

آزاد ریاست کے اعلان کا میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا۔ بلوچستان ]معاشی اعتبار سے[ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ ریاست قلات اس سے زیادہ پسماندہ ہے۔ میں آپ کو مشورہ نہیں دوں گا کہ آپ علیحدگی اختیار کریں اور اس میں تعجیل کریں۔ پاکستان‘ اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور ہم اس ملک میں اسلام کے قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ کی طرف سے علیحدگی کا اعلان کرنے سے حکومت کے ساتھ ٹکرائو پیدا ہوگا جس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہے۔ گرمی کے موسم میں اگر آپ نے یاد کیا تو ان شاء اللہ میں قلات ضرور آئوں گا۔ تفصیلی طور پر بالمشافہہ ملاقات ہو گی۔

بلوچستان کے تاریخی پس منظر میں اس خطے کے ایک فرمانروا‘ سربرآوردہ اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت کو بروقت اور صحیح رہنمائی بہم پہنچا کر سید مودودیؒ نے اس خطے کے اسلامی تشخص کو لادینی عناصر کی دست برد سے محفوظ کر دیا۔ بلوچستان کے اس اہم خطے کو مملکت خداداد پاکستان سے جوڑنے اور اسے نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کرنے کی سعی سے انھوں نے علیحدگی پسند گروہ کے عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والا ایک گروہ انتہائی طور پر کوشاں تھاکہ ریاست قلات کو پاکستان سے بالکل علیحدہ کیا جائے‘ تاکہ اسے مستقل ایک آزاد ریاست کی حیثیت میں رکھ کر اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لیے آماج گاہ بنایا جا سکے۔ یوں سید مودودیؒ بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار دکھائی دیتے ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دستور ساز اسمبلی سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے چار نکاتی مطالبہ کیا۔ تاریخ میں اسے مطالبۂ نظام اسلامی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آن کی آن میں اس تاریخی مطالبے کی بازگشت سے پاکستان کے در و دیوار گونجنے لگے۔ بلوچستان جو ہمیشہ اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوتا رہا ہے اور برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کی تحریکوں کے اس پر اثرات پڑتے رہے ہیں بھلا اپنے ہی ملک کی عظیم شخصیت سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک سے کیوں کر بیگانہ رہ سکتا تھا‘ جب کہ غیرمنقسم ہندستان میں ہی اس خطے پر سید مودودی کے اثرات ان کی تحریروں کی وساطت سے براہ راست پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد تو یہاں جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم کیا گیا تھا۔ چنانچہ وادیِ بولان کے دشت وجبل بھی مطالبۂ نظامِ اسلامی کی بازگشت سے گونجنے لگے تھے۔

بیس ماہ کی طویل قید ]اکتوبر ۱۹۴۸ء - مئی ۱۹۵۰ئ[ سے رہائی پانے کے بعد سید مودودیؒ پہلی مرتبہ اگست ۱۹۵۰ء میں کوئٹہ تشریف لائے۔ لیاقت پارک میں ایک بہت بڑے جلسے سے آپ نے خطاب فرمایا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کی بنا مطالبۂ نظامِ اسلامی کو دہرایا۔ اسی دورے میں آپ پشین بھی تشریف لے گئے جہاں مرکزی جامع مسجد میں آپ نے ایک مرتبہ پھر پُرزور طریقے سے اسلامی دستو راور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔

جنوری ۱۹۵۱ء میں کراچی میں مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے ۳۱ علما کے اجتماع سے فارغ ہونے کے بعد فروری کے مہینے میں آپ سبّی دربار کے موقع پر سبّی تشریف لائے‘ اور یہاں بھی پرانی عیدگاہ میں جلسہ ٔ عام کے اندر حکومت سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی سبّی کے اس تاریخی جشن میں آئے ہوئے تھے۔ سبّی کی دیواریں اس مطالبے کے پوسٹروں سے چھپی ہوئی تھیں اور کارکنوں کے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے مظاہروں سے پوری فضا ’’اپنا مقصد اپنی منزل‘ اسلامی دستور‘‘ کے نعرۂ مستانہ سے معمور تھی۔

پھر دارورسن کی منزلوں سے گزر کر جون ۱۹۵۵ء میں مردِ حق آگاہ تیسری مرتبہ بلوچستان آیا۔ کوئٹہ اور وادیٔ زیارت میں کم و بیش ایک ماہ گزارا۔ اس طرح کہ ہر سو حق کی روشنی بکھیرتا رہا۔

 ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے دو مرتبہ ‘یعنی اکتوبر ۱۹۵۷ء اور ستمبر ۱۹۵۸ء میں آپ پھر کوئٹہ تشریف لائے۔ اور آخری مرتبہ ۱۹۶۲ء میں چھٹی بار آپ بلوچستان تشریف لائے۔

آپ کی آمد کا ہر موقع عشق و مستی کی داستان اور عرفان و معرفت کا الگ الگ مفصل باب ہے۔ اس طرح سید مودودیؒ نے بہ نفس نفیس خود یہاں آ کر اس خطے کے تشخص کو اسلام سے ہم کنار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور دل و نگاہ کو لادینی عناصر کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کا سامان      بہم پہنچایا۔ خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت‘ نگرانی اور نشوونما کا یہ وہ پہلو ہے ‘جس کے لیے مرشد مودودیؒ نے برسرزمین خود آکر اس کی آبیاری کی ہے۔

جب پاکستان دولخت ہو گیا‘ مغربی پاکستان میں بلوچستان سمیت صوبائی حکومتیں بن چکیں تو اس موقع پر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ ان دنوں سابق امیرجماعت اسلامی بلوچستان ‘مولانا عبدالعزیز بیمار تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک نوجوان ساتھی کو اپنا نمایندہ بنا کر شوریٰ میں بھجوایا۔ اس نوجوان نے صوبہ بلوچستان کے حالات شوریٰ کے سامنے بیان کیے۔ مولانا مودودی خاموشی سے سنتے رہے۔ جب بیان ختم ہوا تو مولانا محترم نے فرمایا: ’’صوبہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے متعلق میرے ذہن میں جو نقشہ تھا اس کی تفصیل شوریٰ کے سامنے اس نوجوان نے رکھ دی ہے‘‘۔

مولانا محترم کے اس تبصرے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملے میں بیدار تھے۔ اس خطے کے اتار چڑھائو سے وہ پوری پوری واقفیت رکھتے تھے۔ پوری صورت حال کا نقشہ ان کے ذہن میں محفوظ رہتا تھا۔ فکر تھی تو بس اتنی کہ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مزید کس طرح مستحکم کیا جائے اور اسے اغیار کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات اور پاکستان کے مشرقی بازو کے کٹ جانے کے بعد ۲ مئی ۱۹۷۲ء کو ۲۱ارکان پر مشتمل بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی وجود میں آئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماے اسلام کی مخلوط صوبائی حکومت تشکیل پائی‘ جس نے ۱۵جولائی ۱۹۷۲ء میں جسٹس فضل غنی کی سربراہی میں بلوچستان قانون کمیشن بٹھایا‘ جس میں ۱۰اصحاب علم و دانش کو شامل کیا گیا۔ اس قانون کمیشن کی غرض و غایت یہ تھی کہ صوبہ بلوچستان میں دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے نظام کو جو بیک وقت متعدد قوانین کے تحت چل رہے ہیں‘ ان میں یکسانیت کیسے پیدا کی جائے۔ اس کے لیے کمیشن نے ۳۴ سوالات پر مبنی ایک سوال نامہ جاری کیا تھا‘ تاکہ عوام و خواص اس بارے میں اپنی آرا اور مشورے کمیشن کو دے سکیں۔ اپنی ناسازی طبع اور پیرانہ سالی کے باوجود مولانا مودودی نے انتہائی محنت کر کے اسلامی قانون کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات مرتب کر کے بلوچستان قانون کمیشن کو بھجوائے‘ اس طرح ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار کی حیثیت سے رہنمائی فرمائی‘ تاکہ خطۂ بلوچستان کی تاریخ میں وہ رنگ بھر دیں جسے صبغۃاللہ ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان کی پسماندگی‘ معاشی بدحالی‘ قوم‘ زبان اور علاقے کی بنیاد پر سیکولر تحریکوں کے پیدا کردہ تعصبات وہ اسباب تھے‘ جن کی وجہ سید مودودی ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ آخری زمانے میں ان کی فکرمندی میں مزید اضافہ اس صورت حال سے ہوا‘ جب روسی استعمار دریاے آمو کو پار کرکے بلوچستان کے شمال مغربی پہاڑوں کے عقب میں افغانستان آ پہنچا۔ لیکن ان کی یہ فکرمندی‘ آشیاں بندی کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے فکر و نظر سے خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو محفوظ بھی کیا اور اس کے نشوونما کا سامان بھی خود بہم پہنچایا۔ اس لیے انھیں قطعاً یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی بیرونی لادینی نظریہ یہاں شبِ خون مار سکے گا۔

۵- اے ذیلدار اچھرہ‘ لاہور میں بلوچستان سے آنے والے ایک نوجوان نے مرشد مودودی سے پوچھا: ’’بلوچستان کے حالات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھر کے سوشلسٹوں کا زور بلوچستان پر صرف ہو رہا ہے۔ کیا یہ امر تشویش ناک نہیں؟‘‘

مرشد مودودی کے سامنے بلوچستان کا ماضی اور حال ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں تھا۔ انھوں نے عصر حاضر میں اس خطے کے اسلامی تشخص کو قائم رکھنے‘ اسے نشوونما دینے اور اغیار کی چیرہ دستوں سے اسے بچانے کے لیے بیش قیمت خدمات انجام دی تھیں۔ اس لیے نوجوان کے سوال کو انھوں نے بغور سنا اور جواب میں فرمایا:

ہم وہاں کے حالات سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم ہمارے بڑے قیمتی رفقا میں سے تھے‘ انتہائی مخلص انسان تھے اور اپنے علم و تقویٰ کی بدولت خاص مقام رکھتے تھے۔ وہ برابر ہمیں وہاں کے حالات بتاتے رہے۔ کم و بیش ۲۰سال پر پھیلی ہوئی ان تفصیلات نے ہمیشہ اپنے ملک کے اس حصے سے باخبر رکھا۔ ہم نے وہاں کی نئی نسل کو سوشلزم سے بچانے کے لیے جو کام کیا ہے وہ جاری ہے اوران شاء اللہ جاری رہے گا۔ پاکستان کا کوئی حصہ سوشلزم کے لیے نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے جب ضرورت پیش آئے گی تو اس ملک کے ہر حصے کے نوجوان -- پوری قوم ایک جسدِ واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہو گی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس قوم میں ابھی بہت خیر باقی ہے۔ تشویش کی کوئی بات نہیں‘ ہاں بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ (ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۱۷ جنوری ۱۹۸۰ئ)

بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت و نگرانی اور اس کی آبیاری و تعمیر اور پہلے کی طرح آج بھی لادینی تحریکوں کا مقابلہ اور ان کی ذہنی بنیادوں پر تیشہ زنی‘ سید مودودیؒ کی تحریروں ہی سے کی جاسکتی ہے‘ جن میں قوم پرستی‘ سیکولرزم‘ اشتراکیت‘ سرمایہ داری‘ مغربی جمہوریت‘ لسانیت اور علاقائیت کے اصل چہروں سے نقاب کشائی کی گئی ہے‘ تاکہ نسلِ نو ان مکروہ چہروں کو اچھی طرح پہچان لے۔ ایمان و آگہی کے مقابلے میں وہ لادینی افکار اور ملحدانہ نظریات ہیں جو نوجوانوں کی خودی کو دیمک کی طرح چاٹ کر ختم کر دینا اور ان کے دین و ایمان کو غیروں کی چوکھٹ کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔ آج بھی ان لادینی نظریات کی اگر کاٹ ہے تو وہ ’’مودودی بابا‘‘ کی نالۂ نیم شبی میں ڈوبی ہوئی حقیقت پر مبنی اور ایمان افروز تحریروں ہی کی صورت میں موجود ہے۔

سیکولرزم کے نظری اور اعتقادی زہر کا تریاق بس اگر ہے تو اسی حکیمِ دوراں کے پاس ہے‘ جسے خلقت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے جانتی ہے!

اس وسیع کائنات پر تفکر کی نظر ڈالیں تو چاروں طرف تا حد نگاہ اﷲ رب العزت کی بے شمار  خوب صورت نشانیاں نظر آتی ہیں۔ سروں پہ آسمان کی شکل میں خوب صورت چھت اور اس پہ سجے ہوئے سورج‘ چاند‘ ستارے‘ سیارے‘ بادلوں سے برستے پانی کے مصفا و مجلّٰی قطرے‘ سوندھی سوندھی مٹی سے جنم لیتے ہوئے پودے اور پھلوں اور پھولوں کی بہار--- رب لازوال کی نعمتوں کو نہ آج تک کوئی گن پایا ہے‘ نہ گن سکتا ہے:  فَبِاَیِّ اٰلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ رب قدیر کی نشانیاں ہر لمحے نئی شان اور اچھوتی آن بان سے بکھری ہوئی جلوہ گر نظر آتی ہیں۔

زندگی اور موت‘ ہر ذی روح کی حقیقت ہے‘ بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہی ہے۔ یہی حقیقت انسان کی آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب انسان اپنی قیمتی ہستی سے محروم ہو جاتا ہے۔ جن کو عزیز از جان کہتا ہے‘ وہ بھی اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ خالق ارض و سما نے موت کو بھی اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا‘ کہ انسان کتنا بے بس مجبور ہے۔ موت کی حقیقت کا سامنا ہر نیک و بد کو کرنا ہے۔

یہ نابغۂ روزگار‘ زمین کا نمک اور پہاڑی کے چراغ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ واسعہ کے نشان ہوتے ہیں۔ انبیا کے وارث اور دین متین کے امین‘ وہ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی دلوں سے بھلا کب جاتے ہیں؟ وہ تو یادوں میں رچ بس جاتے ہیں۔ وہ مصروفِ عمل رہتے ہیں اور ہمیں اپنے علم سے فیض یاب کرتے رہتے ہیں۔ وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں‘ مگر بصیرت کی روشنی پھیلاتے ہوئے ہماری آنکھوں کے نور بن جاتے ہیں۔ ہمارے دکھ سکھ میں رہنما بن جاتے ہیں۔ یہ موت سے ہمکنار ہونے کے بعد حیاتِ جاوداں کو پا لیتے ہیں۔ زندگی میں فاصلوں کے بُعد حائل ہوتے ہیں‘ لیکن زندگی کا حصار ختم ہوتے ہی یہ آفاقی ہو جاتے ہیں۔ حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ ایسے ہی انسان کو اخروی کامیابیوں کی نوید سناتا ہے۔ ایسے خوش نصیب انسانوں سے معمولی سا ناتا بھی کتنا فخر کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کی زیارت‘ چند لفظوں کا تبادلہ‘ سلام دُعا کا اعزاز‘ خوش بختی کا عنوان بن جاتا ہے۔

میرے روحانی استاد‘ میرے شعور اور علم و فہم کو روشنی عطا کرنے والے محسن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ تعلق ابدی و لازوال ہے۔ میری حیاتِ فکر کے نقشے میں سید مودودیؒ کی تصویر شامل ہے۔

مجھے اپنے بچپن اور گھر کا ایک منظر یاد آتا ہے۔ ہم چند ننھے مُنے بچے جن کو نماز کے رکوع و سجود سے واقفیت تو ہے‘ مگر نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ اور رکعتوں کی تعداد سے ناآشنا ہیں۔ ہماری نانی جان مرحومہ نے (جنھیں ہم سب اماں جی کہتے تھے) صف پہ قطار میں بٹھایا ہوا ہے۔ چھوٹی سی چُنریا میرے سر سے گرنے لگتی ہے تو اماں جی اسے دوبارہ ٹکادیتی ہیں۔ پھر انھوں نے سب بچوں کے ہاتھ دعُا کے لیے اُٹھوائے اور کئی بار کہلوایا:

’’اے اللہ‘ ہمیں نیک بنا‘‘۔

’’اے اللہ‘ اماں جی کو حج کروا دے‘‘۔

’’اے اللہ‘ مولانا مودودی کو صحت عطا فرما‘‘۔

اور پھر یہ تین دُعائیں انہماک سے سنی جاتیں‘ اور ہر وقت تاکید کی جاتی کہ ان دُعائوں کو ضرور مانگنا ہے۔ گھر میں امی جان اور اماں جی سے جو بچے قرآن پاک پڑھنے آتے‘ ان سے یہ دعائیں ورد کی طرح کروائی جاتیں۔ میری والدہ محترمہ ] اُم شاہد[ بھی علم دوستی‘ شوقِ مطالعہ اور تربیت ِ اولاد کے لیے انتہائی فکرمند اور حساس خاتون ہیں۔ بہرحال اماں جی کو اللہ تعالیٰ نے حج کی نعمت سے سرفراز فرمایا تو نانی جان نے دُعا میں تبدیلی کروا دی: ’’اے اللہ اماں جی کو پھر سے بیت اللہ کی زیارت کروا دے‘‘ اور باقی دو دُعائیں کسی تبدیلی کے بغیر جاری و ساری رہیں۔

لاشعور میں اماں جی کا حج‘ اللہ تعالیٰ کا گھر‘ مولانا مودودی کا تصور ایک ہی جگہ نقش تھا۔ مولانا کا دوسروں سے مختلف نام اور اوروں سے منفرد تذکرہ‘ بچپن کی خوب صورت‘ ان بھولی بسری یادوں میں یاد رہنے والی یاد ہے۔ اکثر سوچا کرتی تھی: یہ شخصیت کون ہے؟ کیا فرشتہ ہے؟ کوئی نبی ہے؟ نہیں‘نبی  تو نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ ہمیں اکثر بتایا جاتا تھا کہ رسولؐ اﷲ ‘ آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس لیے سوچتی کہ جب نبی کی آمد ختم ہے تو پھر یہ کوئی فرشتہ ہی ہوگا۔ اب اللہ تعالیٰ کے تصور کے ساتھ ہی ان کا خیال بھی آتا ۔ یہ رشتہ دار تو نہیں ہیں‘ نہ کبھی ہم ان کے گھر گئے‘ نہ کبھی وہ ہمارے گھر آئے۔ لیکن یہ کیا بات ہے کہ گھر میں ان کا تذکرہ رشتہ داروں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ گھر میں آنے والا ہر اخبار‘ رسالہ اور ہر فرد ان سے واقف ہے۔ وہ گھر کے فرد تونہیں‘ لیکن ہمیشہ گھر کے مکینوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

دوسرا منظر مجھے کسی جلسے کا یاد ہے۔ نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ جلسہ گاہ کی  پچھلی طرف خواتین کے لیے انتظام تھا۔ وہاں سے پردہ ہٹا کر میں باہر کو لپک آئی۔ بہت سارے لوگ‘ شور و غل اور نعرہ بازی کے اس شور سے مجھے اپنا دل زور زور سے دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے خیال آ رہا تھا کہ شاید زمین کانپ رہی ہے اور اس کی لرزش میرے پائوں کے تلووں سے ہوتی ہوئی میرے دل کو بھی لرزا رہی ہے۔ میں اس وقت نہیں جان سکی کہ یہ لڑائی کا شور و غل ہے‘ یا لوگ اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بہرحال لوگوں کے سامنے اونچی جگہ پر کچھ لوگ بیٹھے نظر آئے‘ جن میں میرے نانا جان حکیم محمد عبدؒاللہ (جہانیاں) بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اُسی وقت کسی نے مجھ سے پوچھا :’’مولانا مودودی سے ملنا ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے سر اٹھا کر ان کو دیکھا۔ ان صاحب نے مجھے اٹھا کر سٹیج پر کھڑا کر دیا۔ نانا جان نے میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے آگے کر دیا۔

کالی شیروانی‘ کالی ڈاڑھی اور عینک‘ بس یہ سراپا مجھے یاد ہے۔ انھوں نے میرا ہاتھ تھام لیا‘ سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ کہا بھی جو مجھے یاد نہیں۔ پھر مجھے سٹیج سے کس نے اتارا‘ نہیں معلوم‘ کالی شیروانی کے تصور کے ساتھ ہی تصویروں میں دیکھی جانے والی خانہ کعبہ کی تصویر یاد آئی اور اماں جی کی یاد کروائی ہوئی دُعا بھی۔

تیسرا تصور بھی جم غفیر کا ہے۔ خانہ کعبہ کے غلاف کی زیارت کے لیے خلقت جمع ہے۔ یہ وہ غلاف کعبہ تھا جو پاکستان میں تیار ہوا تھا اور سعودی عرب روانہ کرنے سے پہلے مختلف جگہوں پر اس کی زیارت کروائی جا رہی تھی۔ کسی عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ عوام کو غلافِ کعبہ کی زیارت کروا رہے تھے۔ ان میں مولانا مودودیؒ بھی شامل تھے۔ کلمہ طیبہ کا ورد لوگوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔ پاکیزہ سوچیں‘ خانہ کعبہ کا کالا غلاف‘ کلمے کا ورد‘ کالی شیروانی‘ عقیدت‘ منظم ہجوم اور حج کا سفر گڈ مڈ سے ہونے لگے۔ میں سوچتی خانہ کعبہ کے کالے غلاف اور کعبہ والے کا‘ کالی شیروانی والے سے کوئی خاص تعلق ہے۔ یہ سب کچھ ایک ساتھ ہی ذہن میں خوشبو بن کر پھیل جاتا۔

مجھے یاد نہیں مولانا مودودیؒ کی سب سے پہلے کون سی کتاب پڑھی؟ کب پڑھی؟ اور اس وقت میں نے کیا محسوس کیا؟

پھر دیکھتی ہوں کہ گھرکی ہر الماری مولانا کی کتابوں سے مزین تھی۔ میرے گھر کے سارے افراد جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے شیدائی تھے۔ میرے والد محترم عبدالغنی احسن صاحب   کو مطالعے کا شوق تھا اور ہر اچھی کتاب اور رسالہ گھر میں مستقل آتا تھا۔  چراغِ راہ‘ ایشیا‘ ترجمان القرآن‘ نور‘ عفت‘ بتول‘ الحسنات کا پہلا شمارہ غالباً ہمارے گھر آیا تو پھر یہ ساتھ آج تک قائم ہے۔ مجھے مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ نئے تو نئے پرانے سے پرانے   رسالے بھی نکال نکال کر پڑھ لیتی۔ بہت موٹی بھاری ضخیم سے ضخیم کتاب پر میرا دل نہال ہو جاتا۔ تفہیم القرآن کی جلد میرے لیے انتہائی کشش کا باعث ہوتی۔ چچا جان عبدالوکیل علوی صاحب کی کتابیں میری دست بُرد سے محفوظ نہ رہتی تھیں۔ کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ عربی کی بھاری بھاری کتابیں اور ڈکشنریاں لے کر بیٹھنا‘ کھولنا‘ بند کرنا میرا مشغلہ ہوتا تھا۔ چچا جان اپنی کتابوں کی ترتیب اور ان میں رکھے نوٹس کو اپنی جگہ پر نہ پا کر بہت محظوظ ہوتے۔ کتابوں سے میری محبت کو انھوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا‘ لیکن کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی۔ تفہیم القرآن میں میرا انہماک دیکھ کر انھوں نے مجھ سے پوچھا: کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نے بتایا: ’’قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ رہی ہوں‘‘۔ اس وقت حاشیہ نمبر دیکھنے اور اس کو پڑھنے کا طریقہ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ چچا جان نے مجھے باقاعدہ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھانا شروع کیا۔ اس وقت میں کلاس پنجم کی طالبہ تھی۔ مولانا کی صحت کے بارے میں کچھ نہ کچھ خبریں آتی رہتی تھیں کہ گردے کا آپریشن ہے۔ تکلیف ہے۔ ایسی خبر سنتے ہی ہمارے گھر میں اس طرح تشویش کی لہر دوڑ جاتی جیسے گھر کے اندر کوئی عزیز ہستی صاحب ِفراش ہو۔ دُعائوں کاسلسلہ اور بڑھ جاتا۔

اسکول کے زمانے کی بات ہے۔ سالانہ امتحان تھے۔ میری نشست کے پاس ہی ٹیچر کی نشست تھی۔ دوسری ٹیچر نے اخبار لا کر مس ناصرہ کو دکھایا: ’’دیکھو کچھ غنڈوں نے قرآن پاک جلا دیا ہے‘‘ اور مس ناصرہ نے انتہائی غصے سے کہا: ’’یہ مودودیوں کا ہی کام ہو گا‘‘۔ پرچہ حل کرتے کرتے میرا ذہن بری طرح الجھ گیا: مودودیوں سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مولانا مودودیؒ کو کچھ کہہ رہی ہیں؟ لیکن قرآن پاک جلانے کا کام ان کا کیسے ہو سکتا ہے‘ یا ان کے کہنے سے کون کر سکتا ہے؟ -- مس ناصرہ تو خود اتنی اچھی ہیں۔ ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ مولانا مودودیؒ اتنے اچھے ہیں‘ وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی اور بات ہو گی -- اور میں الجھی الجھی سی پرچہ حل کر کے دے آئی۔

گھر آ کر اماں جی سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر پر حملہ کیا ہے اور سارا ریکارڈ جلا دیا ہے۔ ان میں تفہیم القرآنکے نسخے بھی تھے۔ اخبار میں ان جلے ہوئے قرآن کے نسخوں کی تصویر سے بھی واضح تھا کہ یہ تفہیم القرآن کی جلدیں تھیں۔ ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھنے لگے کہ مولانا خود اتنے اچھے ہیں‘ اگر اچھے نہ ہوتے تو قرآن کی تفسیر کیسے لکھتے؟ پھر میرے ذہن میں اللہ تعالیٰ‘ مولانا اور حج کا تصور اکٹھے آتا تھا۔ کوئی منفی بات  ذہن میں نہیں آتی تھی۔ میں یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی کہ مولانا کو بھی لوگ بُرا سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اب تک اپنے اردگرد‘ خاندان بھر میں ان سے عقیدت کا اظہار ہی سنا اور دیکھا تھا۔ پھر اماں جی نے سمجھایا کہ اچھے لوگ‘ اچھے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اچھے لوگوں سے حسد کرتے ہیں‘ اس لیے ان کو پسند نہیں کرتے۔ نبیوں کو بھی تو لوگ ناپسند کرتے تھے۔ بھلا نبی سے بڑھ کر بھی کوئی اچھا ہو سکتا ہے؟

زندگی میں عمر‘ تجربے اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی گئی کہ  اچھے لوگوں کو تسلیم کرنے والے اور اچھائی کا دم بھرنے والے اعلیٰ ظرف لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ عزت و مرتبہ‘ علم و ہنر میں جھوٹے پُرفریب نعروں سے عزت و مقام حاصل کرنے والا‘ سچائی کو کب برداشت کر سکتا ہے۔ اندر کی جلن عبداللہ بن ابی کی ہو یا مکہ کے سرداروں کی‘ یا فی زمانہ کسی بھی عالم و قائد کی‘    یا صاحب ِاقتدار کی‘ اپنے دل کے حسد و بغض کو ظاہر کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ یہ بھی ہر زمانے کے      کم فہم و کم ظرف لوگوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اچھائی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ جب جواباً  اخلاق و کردار کی پختگی کا مظاہرہ ہو تو تنگ دلی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے‘ اور محاذ کھل جائے تاکہ صاحب ِکردار لوگوں کو نیچا دکھانے کے لیے زبان اور قلم کا ہر وار استعمال کیا جائے۔ اپنے وار کے کارگر ثابت نہ ہونے پر گھٹیا الزامات لگائے جائیں۔ یہ کیا طرفہ تماشا ہے اس دنیا کے انسانوں کا کہ خود جس اعلیٰ مقام پر جانے کا حوصلہ اور ظرف نہ ہو تو دوسروں کو اس مقام سے گرانے کے لیے توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ نجی زندگی میں‘ شخصی زندگی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور اگر کیڑے نظر نہ آئیں تو خود ڈالے جاتے ہیں اور پھر ان کو چُن چُن کر نکالا جاتا ہے‘ دنیا کو دکھا دکھا کر۔

مولانا مودودیؒ کی زندگی میں یہ سب مرحلے‘ ہر پہلو سے آئے۔ مگر آفرین ہے اس عظیم انسان پر کہ نہ خود ڈگمگایا‘ نہ جواباً کسی کو پتھر مارا‘ نہ تیر پھینکا۔ اور اللہ جسے چاہے عزت عطا فرمائے‘ بے شک عزت اسی کے لیے ہے‘ اس کی طرف سے ہے۔ جب لوگ اُس کے بندوں کو کم تر و حقیر بنا کر پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں تو اللہ ان کو اپنے ہاں سے عزت و مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ آج دنیا مولانا کے مقام و مرتبے کو اس سے زیادہ جانتی ہے جتنا ان کی زندگی میں پہچان رہی تھی۔ نیکی اپنا دائرہ  وسیع سے وسیع تر کرتی چلی جاتی ہے‘ زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر۔ خلوصِ نیت شرط ہے۔

۱۹۷۰ء کے عام انتخابات پاکستان کے اہم ترین الیکشن تھے۔ میری زندگی میں سیاسی گہما گہمی کو دیکھنے‘ پرکھنے اور کسی اجتماعی سرگرمی میں عملی طور پر ہاتھ پیر ہلانے کا پہلا تجربہ تھا۔ اُس وقت میں مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ امی جان اور بہنوں کے ساتھ گھر گھر‘ گلی محلے میں جا کر انتخابی مہم کا کام کرنا بہت دل چسپ اور اہم لگتا تھا۔ پاکستان کے ساتھ محبت اور اس کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے تگ و دو کا احساس اجاگر ہو رہا تھا۔ جذبہ‘ شوق اور لگن کے جذبات و احساسات انگڑایاں لے رہے تھے۔ عجیب سرخوشی اور سرمستی کا عالم تھا۔ ہمارے خاندان اور ملنے جلنے والوں کا ہر بچہ جماعت اسلامی کے پرچم ‘ بیج‘ اسٹکرز جمع کرنے میں مگن تھا۔ یہی مشغلہ بن گیا۔ لڑکے چھتوں پر چڑھ چڑھ کر جماعت اسلامی کا پرچم بلند سے بلند جگہ پر لگانے میں مصروف تھے۔ روزانہ گھروں کی چھتوں پر لگے ہوئے پرچم گنے جاتے کہ کس جماعت کے پرچم زیادہ ہیں‘ اور کہاں جماعت اسلامی کا پرچم کتنا بلند لگا ہوا ہے؟ وہ جوش اور ولولہ‘ ایسا والہانہ تھا کہ گویا حق و باطل کے معرکے کا اسی الیکشن کے بعد فیصلہ ہو جائے گا۔ مہم کے دوران مولانا مودودیؒ کے بیانات مشعلِ راہ ہوتے۔ ہفت روزہ آئین میں عصری مجالس کی روداد حالات حاضرہ کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی تھی۔

الیکشن کا دن ہم سب بچوں کے لیے انتہائی پُرتجسس اور ناقابل بیان بے چینی سے بھرپور دن تھا۔ ہمارے خاندان کا ہر فرد‘ خواتین و مرد اور بچے کسی نہ کسی طور پر الیکشن کے کارکن تھے۔ سب بہت پُرامید‘ اور خوش تھے۔ مگر جب رات کو نتائج آنے لگے تو وہ گلے‘ شکوے ایک احتجاج بن کر میرے وجود میں سرایت کر گئے کہ ’’معتبر‘ سچے‘ اچھے لوگ کیوں پسند نہ کیے گئے‘‘ اور میں یہ سوچ سوچ کر روتی تھی کہ قوم کے اس فیصلے سے میرے مولانا کو کتنا دکھ ہوا ہو گا‘ ان کا دل کتنا بے چین ہو گا‘ اور وہ تو مجھ سے بھی زیادہ رو رہے ہوں گے۔ اب مولانا کے رونے کا تصور کرتے ہی مجھے بے تحاشا رونا آتا چلا جاتا‘ اور میں اپنی دانست میں مولانا کو تسلیاں دینے لگتی۔ خیالوں میں مولانا سے باتیں کرتی۔ سب لوگوں کی شکایتیں کرتی۔ سوال پوچھتی کہ لوگ آپ سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ آپ کی کتابوں کو کیوں نہیں پڑھتے؟ آپ کا نام دیکھ کر لوگ کیوں نازیبا الفاظ کہتے ہیں؟ اچھے لوگ جیلوں میں کیوں جاتے ہیں؟

اور پھر مولانا مودودی ؒ ہی کے لٹریچر سے مجھے سارے سوالوں کا جواب ملتا چلا جاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے گھر پہلی مرتبہ جانے کا واقعہ میری زندگی کا خوشگوار ترین دن تھا۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ چچا جان اور چچی جان کے ہمراہ جانا ہوا تھا۔ چچی جان ( پروفیسرثریا بتول علوی صاحبہ) کو  کسی مسئلے پر مولانا سے رائے لینا تھی۔ مولانا مرحوم سفید براق کرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔ میں نے مولانا سے آٹوگراف لیا تو انھوں نے یہ لکھ کر دیا: ’’اللہ کا خوف اور اس کی محبت ہر بھلائی کی جڑ ہے‘‘۔ براہ راست مولانا کی زیارت شعور کے ساتھ‘ میرے لیے ہفت اقلیم سے کم نہ تھی۔ لاشعور میں بسی ہوئی اس ماورائی سی شخصیت سے میری ملاقات‘ کہاں میں کہا ںیہ مقام‘ اللہ اللہ ---!

چچا جان محترم عبدالوکیل علوی‘ جناب نعیم صدیقی مرحوم کے ساتھ مل کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کے گھر سے قریب ہی ان کا دفتر تھا۔ تعلیم کے دو سال (میٹرک) میں نے اپنے مہربان چچا جان کے گھر گزارے تھے۔ ان دنوں مجھے زندگی کے مشاہدات سے بہت کچھ سیکھنے کا اور تاریخ کا رُخ موڑ دینے والی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ہماری رہایش اچھرہ میں تھی۔ مولانا مرحومؒ کی رہایش گاہ سے قریب ہی۔ مولانا کا دفتر لکھنے پڑھنے کا کمرہ‘ گھر کے دیگر مقامات جہاں ان کو چلتے پھرتے دیکھا‘ لان میں بیٹھتے‘ کھانا کھاتے‘ عصر کے وقت چائے پیتے‘ غرض وہ سارے مناظر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ براہ راست گفتگو تو نہ ہونے کے برابر‘  بس سلام جواباً سلام۔ درخواست دُعا اور دُعا جو یہی ہوتی: ’’اللہ آپ کو دین و دنیا کی ساری بھلائیاں عطا فرمائے‘‘ اور یہ دُعا میرے لیے سرمایۂ افتخار رہی۔

لاہور سے جہانیاں واپس آئی تو اسلامی جمعیت طالبات‘ جہانیاں شہر کی نظامت سونپی گئی۔ اس سلسلے میں مولانا کی شفقت‘ رہنمائی میرے لیے فخر و انبساط کا باعث رہی۔ میرا دل خوشی سے بھر جاتا‘ جب میں سوچتی کہ مولانا جیسی عظیم شخصیت کی زندگی میں کوئی ایک لمحہ ایسا بھی تھا جب انھوں نے میرے لیے سوچا‘ دُعا دی اور اپنے قیمتی وقت سے مجھے بھی نوازا۔ تحریکی ذمہ داریوں کے علاوہ مولانا کی مہربانیوں‘ دُعائوں‘ شفقتوں نے مجھے ذاتی و نجی زندگی میں بے شمار الجھنوں سے نجات دی‘ اور ہمیشہ ان کی دُعا اور مشورے نے دلی تسکین عطا کی۔ مولانا کا لٹریچر میرے لیے ہمیشہ رہنمائی کا باعث بنتا ہے۔ تفہیم القرآن ہو‘  ترجمان القرآن ہو یا کوئی کتاب‘ میرے قلب و ذہن کو سیدھی راہ پر رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوئی ہے۔ مولانا کا ہر لفظ‘ ہر جملہ اور ہر کتاب میرے لیے قرآن و حدیث کو سمجھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یقینا ہم پر یہ شکر و احسان واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دور پُر فتن میں اپنے دین کی سمجھ بوجھ عطا کرنے کو اس بندۂ مومن کے علم سے فیض یاب ہونے کا موقع نصیب فرمایا۔

مولانا مودودیؒ کی صحت کے بارے میں تو مدتوں سے جانتے تھے کہ کیا حال ہے؟ اور ان کی صحت کی دُعا‘ اپنی دعائوں کا لازمی حصہ بچپن ہی سے مقرر ہو چکا تھا۔ خرابی صحت کے باوجود مولانا کی خدمت دین قابل رشک تھی۔ اور یہ بات تصور میں نہ آتی تھی کہ مولانا اس سے زیادہ بھی بیمار ہو جائیں گے۔ دل مطمئن سا رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا سے ابھی بہت سا کام لینا ہے۔ فروری ۱۹۷۷ء میں مولانا کی آخری مرتبہ زیارت کی۔ میرے شوہر مجھے مولانا کے گھر لے گئے تھے۔ چند دن پہلے ہماری شادی ہوئی تھی۔ بیگم مودودیؒ نے ہماری شادی کے بارے میں انھیں بتایا۔ مولانا نے مبارک باد دی اور خصوصی طور پر چائے پلائی۔ عصری مجلس سے اٹھ کر مولانا گھر کے بیرونی لان میں جا کر کرسی پر تشریف فرما تھے۔ غروب ہوتے سورج کی سنہری شعاعیں ان کے پروقار چہرے کو اور زیادہ منور کر رہی تھیں۔ امریکہ سے آئے ہوئے ان کے بیٹے کے بچے لان میں کھیل کود رہے تھے اور مولانا ان کو دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ یہ مولانا کی آخری زیارت تھی!

چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے مجھے سعودی عرب جانے کا شرف حاصل ہوا۔ حرم شریف میں داخل ہو کر خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور اچانک کچھ مناظر لاشعور میں ابھرنے لگے: کالی شیروانی‘ اماں جی‘ غلاف کعبہ۔ اب بھی لوگوں کا ہجوم تھا‘ مختلف کلمات کی آوازیں‘ عقیدت و محبت کا ماحول اور وہ دُعا جو میری مناجات کا حصہ تھی۔ مولانا کی صحت کے لیے دعا بے اختیار زبان پر آ گئی اور اماں جی کے لیے دعا‘ اور یہ کہ اے اللہ ہمیں نیک بنا۔ دعائیں ہمیشہ اپنی تازگی برقرار رکھتی ہیں۔ مولانا کی صحت کے بارے میں تشویش ناک خبریں آتی رہتی تھیں‘ اور دل دست دعا بن جاتا۔

جدہ کے جس علاقے (روئیس) میں ہمارا گھر تھا‘ وہیں مولانا مرحوم کی بڑی صاحبزادی حمیرا مودودی رہایش پذیر تھیں۔ اس بات کی مجھے ازحد خوشی تھی۔ ان سے ملاقاتیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی‘ جنھوں نے حق ہمسایگی بھی خوب نبھایا۔ مولانا کی صحت کے بارے میں معلومات انھی سے ملتی رہتی تھیں۔ حمیرا باجی سے جدہ میں ہی پہلی ملاقات ہوئی تھی‘ بہت محبت سے ملی تھیں۔ مولانا سے شباہت کا حصہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ان کو ہی ملا ہے۔ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ ان کے گھر ترجمۂ قرآن کی ہفتہ وار کلاس ہوتی تھی۔ جدہ کے علاقے (بلد) میں ذاکر صدیقی صاحب کے گھر ان کا درس ہوا کرتا تھا۔ وہاں جب جاتے تو حمیرا باجی کے شوہر انظر بھائی ہم دونوں کو لے جاتے اور واپسی پر میرے شوہر ہم دونوں کو گھر لے آتے۔ باہم ملاقاتوں اور دروس میں شرکت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اپنے محبوب و محترم قائد کی پیاری بیٹی کی زبانی ان سے متعلق ڈھیر ساری باتیں کر کے دل شاد ہوتا تھا۔ حمیرا باجی مجھے اکثر گھرداری‘ تعلق داری کے متعلق اپنے تجربات سے فیض یاب کرتی رہتی تھیں۔ ہم لوگ روئیس میں حمیرا باجی کی ہمسایگی میں تقریباً دو سال رہے۔ ان کی طرف سے مشفقانہ برتائو‘ میرے لیے پردیس میں کافی حوصلہ بخش تھا۔

مولانا مودودیؒ کی عالمانہ عظمت سے تو ایک دنیا واقف تھی۔ نجی زندگی کسی بھی قائد کی عظمت و توقیر میں چار چاند لگاتی ہے۔ حمیرا باجی سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ اپنے عظیم باپ کی گھریلو زندگی کے بے مثال پہلوئوں سے آگاہ کرتی تھیں۔ بیٹیوں سے خصوصی محبت کے تذکرے ہوتے‘ بیٹوں پر بیٹیوں کو زیادہ اہمیت دینے کا ذکر ہوتا کہ ان کی دلجوئی کا وہ کتنا زیادہ خیال کرتے تھے۔

حمیرا باجی اکثر ذکر کرتیں: ’’ابا جان عام انسانوں سے کسی قدر مختلف ہیں۔ ہر چیز‘ ہر معاملے‘ ہرواقعے پر ان کا ردعمل دوسروں سے مختلف‘ مگر گہرائی کے ساتھ حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔ اعتراضات اور تنقید کے معاملے میں ان کی قوتِ برداشت ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے‘ نہ دل برداشتہ ہوتے اور نہ حوصلہ ہارتے ہیں۔ ان کا عزم و حوصلہ پہاڑ کی طرح ہے۔ جب ایک حقیقت کو جان لیا تو استقامت کا بلند و بالا پہاڑ بن کر جم گئے‘‘۔

طائف میں جماعت اسلامی کے کارکن کوئی نہ کوئی پروگرام طے کرتے رہتے تھے۔ اکثر ہی حمیرا باجی کے ساتھ وہاں جانا ہوتا تھا۔ بہنوں سے باہم ملاقاتوں میں مولانا کا ذکر آتا بلکہ حمیرا باجی سے ان کے عظیم باپ کی بابت ہی باتیں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا: ’’آپ کو مولانا جیسے جلیل القدر باپ کی بیٹی ہونا کیسا لگتا ہے؟‘‘ تو انھوں نے اپنے کالج کی طالبات کے بارے میں بتایا: ’’جب جدہ کالج میں پہلی مرتبہ اپنی کلاس لینے گئی تو لڑکیوں نے مجھ سے میرا تعارف پوچھا۔ جب میں نے اپنا نام حمیرا مودودی بتایا تو سب نے اتنی خوشی کا اظہار کیا کہ میں دم بخود رہ گئی‘‘۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے لوگوں میں جو بدگمانیاں تھیں ان کے بارے میں اکثر خواتین سوال کرتی تھیں تو حمیرا بتاتیں: ’’ابا جان نے روک ٹوک  اور ڈانٹ ڈپٹ سے ہماری تربیت نہیں کی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا‘ کام کرنا‘ پڑھنا لکھنا‘ باہم رویے‘ ہمت وحوصلہ برداشت‘ گھر والوں کے ساتھ تعاون وغیرہ میں ہمارے لیے تربیت کا سامان ہوتا تھا‘ اور کوئی باپ اپنے بچوں کو اس سے بہتر طریقے سے تربیت نہیں دے سکتا کہ اُس کا کردار اجلا ہو اور اس کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہ ہو‘‘۔

مئی ۱۹۷۹ء کے آخری ہفتے میں مولانا مودودیؒ کو علاج کے سلسلے میں ان کے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق امریکہ لے گئے۔ حمیرا باجی سے مولانا کی صحت کے بارے میں معلومات ملتی رہتی تھیں۔ پہلے ماہ وہاں علاج سے صحت قدرے بہتر ہو گئی تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مولانا نے سیرت سرور عالم پر دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ ہم سب ہر اجتماع میں اور ہر طواف و عمرہ میں مولانا کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کرتے۔

۲۰اگست ۱۹۷۹ء کو معلوم ہوا کہ مولانا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اور ڈاکٹروں نے پیٹ کے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ ۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا کا آپریشن تھا۔ اس دن مولانا کی صحت کے لیے خصوصی طور پر حرم شریف جا کر دعا کی اور ان کے لیے بہت سے لوگوں نے خصوصی طواف و عمرہ کی نیت کی۔ آپریشن کامیاب ہونے کی خبر نے سب کو مطمئن کر دیا۔

۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا دل کے شدید دورے سے دوچار ہوئے۔ امت مسلمہ پر ایک کڑا وقت افغانستان پر روس کے حملے کی صورت میں آن پڑا تھا اور انقلاب کے بعد ایران کے حالات بھی مخدوش تھے۔ ادھر مولانا کی صحت کا اتار چڑھائو اہل دل کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ ایک ہفتہ بعد مولانا پر دل کا ایک اور سخت دورہ پڑا مگر پھر حالت سنبھل گئی۔

۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء کو شام ساڑھے پانچ بجے میں حمیرا باجی کے ہاں گئی۔ کچھ دن پہلے وہ پاکستان گئی تھیں اور معلوم ہوا کہ واپس آ گئی ہیں۔ مولانا کے بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی ؒکی رحلت پر تعزیت بھی کرنا تھی۔ جب ان کے ہاں پہنچی تو عجیب سی اداسی کا احساس ہوا۔ رابعہ (حمیرا کی بیٹی) بھی خاموش خاموش دروازہ کھولنے آئی۔ حمیرا باجی کی حالت دیکھ کر ایک دم دل اداس ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ ابھی ابھی امریکہ بات ہوئی ہے کہ مولانا کی طبیعت بے حد خراب ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ اماں کو بھی سکون آور انجکشن لگا کر سُلایا ہوا ہے۔ کچھ دیر حمیرا باجی کے پاس بیٹھی‘ صحت و عافیت کی دعائیں کرتے رہے۔ مغرب کی نماز ادا کر کے بوجھل دل لیے میں گھر آئی۔ حمیرا باجی نے مولانا کی صحت یابی کے لیے صدقہ قربانی کے لیے رقم دی کہ جب مکہ مکرمہ جانا ہو تو قربانی کروادیں۔ مولانا کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے آتا۔ مولانا کے وہ خطوط جو انھوں نے میرے استفسارات کے جواب میں لکھے تھے‘ نکالے‘ ان کو پڑھتی رہی۔ رات کو کافی دیر تک ہم میاں بیوی مولانا کا تذکرہ کرتے رہے۔ سوچا کہ مولانا کی صحت یابی کے لیے خصوصی عمرہ کرنے جائیں گے اور قربانی بھی کر آئیں گے۔ مگر ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کی دوپہر کو خواجہ مجاہد صاحب دفتر سے آئے تو ان کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ میں نے بے چینی سے صرف ایک لفظ پوچھا ’’خیریت؟‘‘ تو الفاظ ان کے منہ سے اٹک اٹک کر نکلے ’’مولانا انتقال فرما گئے ہیں‘‘۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔  ہمیں ان کی بیماری کی تفصیلات کا علم تھا اور دل کو ایسی خبر کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا۔ مگر پھر بھی لگ رہا تھا: ’’یہ کوئی غیر متوقع بات ہو گئی ہے‘‘۔ اپنی دعائوں اور محبتوں کا کتنا مان تھا اور مجھے تو بچپن سے مولانا کی صحت کی دُعا کا جواب ملتا رہا تھا کہ شاید ہم جیسوں کی دُعائیں رائیگاں نہیں جا رہی ہیں۔

مولانا کا ناتواں وجود ہمارے لیے ایک قوی سہارا تھا۔ وہ بیمار تھے مگر بیمار امت کے لیے نسخۂ شفا تھے۔ ایک ایک کر کے جسم کا ہر حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا رہا‘ لیکن عالم اسلام کے ہر گوشے کے لیے وہ باعث طمانیت تھے۔ وہ ماہِ تمام موت کی اٹل چادر کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ اس ماہتاب کے پس پردہ جانے سے اندھیرا چھا گیا تھا۔ مولانا کی وفات سے گویا سارا عالم اسلام سوگوار ہو گیا تھا۔ ہم فوراً حمیرا باجی کے ہاں پہنچے۔ ان کی آنکھیں متورم ہو رہی تھیں۔ میں پہنچی تو وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں۔ میں نے دکھی دل سے سلام کیا اور پاس بیٹھ گئی اور صرف اتنا کہا: ’’حمیرا باجی! میں چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے تسلی کے دو لفظ کہہ دے‘ میں آپ سے کیا کہوں گی؟‘‘ حمیرا باجی نے کہا: ’’بشریٰ! وہ جیسے میرے باپ تھے ویسے ہی تمھارے بھی باپ تھے‘ ہم سب کا غم مشترک ہے‘‘۔ اور انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا‘ پھر ہم دونوں بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ ان کا خونی رشتہ تھا اور میرا روحانی رشتہ تھا مگر غم تو مشترک تھا۔ خونی رشتے بھی اٹوٹ ہیں اور روحانی رشتے بھی ابدی۔ کچھ دیر ایک دوسرے کو تسلی و تشفی دے کر ہم نے قرآن خوانی شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد ہم گھر آ گئے۔

حمیرا باجی نے پاکستان روانہ ہونے کی تیاری کرنا تھی‘ اور ہم نے ایک دن پہلے مکہ مکرمہ جانے کا جو پروگرام بنایا تھا‘ اس کے مطابق مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ حرم شریف جا کر اللہ سے اپنا دکھ کہا‘ کچھ سکون ملا۔ بیت اللہ‘ خانہ کعبہ کا غلاف‘ مولانا کی کالی شیروانی‘ صحت کی دعا--- روحانی تعلق کی ابتدا ایک لاشعور میں بسے خیال سے وابستہ تھی‘ اور وہ روحانی تعلق آج نئی طرز پر پھر زندہ ہو رہاتھا۔ طواف کرتے ہوئے سارے خیالات‘ مناظر‘ مرحلے اور باتیں ترتیب سے یاد آتی گئیں اوراَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ]یوسف ۱۲:۸۶۔ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا[کہہ کر سکینت بھی ملتی گئی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ روحانی تعلق اب آفاقی ہوتا جا رہا ہے‘ جہاں زمان و مکاں کی قید نہیں رہتی۔ علامہ اقبال کی ایک دعا کی قبولیت کا احسا س اب ہو رہا تھا     ؎

تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند

اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی 

اور وہ ماہِ تمام سید مودودیؒ کی صورت میں طلوع ہوا اور اس صدی کا سب سے بڑا مفکر کہلایا۔

سید مودودیؒ کو شاہ فیصل ایوارڈ دینے کی تقریب میں نے جدہ ٹی وی پر براہ راست دیکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں بھی عزت و مقام عطا فرماتا ہے: ’’ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر‘ ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ وہ ہو مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسرکرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ (النحل ۱۶:۹۷)

مولانا کی وفات اور پھر پاکستان میں جنازے و تدفین کی تفصیلات اخبارات سے معلوم ہوتی رہیں۔ جب حمیرا باجی پاکستان سے واپس آئیں تو مزید تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔ سعودی عرب کی ہر مسجد میں آیندہ جمعہ کو غائبانہ نماز جنازہ کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا۔ ہم نے حرم شریف مکہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کی سعادت حاصل کی۔

کچھ عرصے بعد بیگم مودودیؒ کی جدہ میں تشریف آوری ہوئی۔ انھوں نے حمیرا باجی کے گھر قرآن کی ہفتہ وار کلاس رکھی اور ترتیب سے قرآن پاک کا ترجمہ شروع کر وا دیا۔ جدہ کے مختلف علاقوںسے خواتین بہت شوق سے شریک ہوتیں۔ مولانا کی بیگم سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوتا‘ اور مولانا کے بارے میں گفتگو بھی ضرور ہوتی۔ بیگم مودودی مرحومہ کے ساتھ میں نے کئی بار طائف کا سفر کیا اور راستے میں ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں طواف کی سعادت بھی حاصل کی۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت بھی بہت یادگار ہے۔ طائف میں ڈاکٹر عبدالحق کے گھر قیام ہوتا تھا۔ ان کی بیگم فرحانہ بے حد مخلص خاتون تھیں۔ ان کے گھر پروگرام ہوتا تھا۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ خواتین عموماً مولانا کے بارے میں پوچھتیں کہ وہ بطور شوہر کیسے تھے؟

بیگم صاحبہ فرماتیں :’’ مولانا بہت صابر و شاکر اور تحمل و برداشت والے انسان تھے۔ اپنی تکلیف اور بیماری کو انھوں نے کبھی گھر والوں کے لیے باعث آزار نہیں بنایا۔ میرے رشتہ داروں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ جب کچھ فرصت ملتی تو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتے۔ رات کو کوئی بچہ  بے چین ہوتا یا روتا تو خود اٹھ کر کندھے سے لگا کر اسے خاموش کر اتے اور ٹہل ٹہل کر اُسے بہلاتے۔ میری نیند اور میرے آرام کا ہمیشہ بہت خیال رکھتے تھے۔ وقت کے بے حد پابند تھے۔ ایک منٹ کی دیر سویر پر بہت اذیت محسوس کرتے تھے۔ گھریلو معاملات میں پوری دل چسپی لیتے تھے۔ شروع شروع میں میرے لیے خاص طور پر خریداری کر کے لاتے تھے‘ مگر جب بیماری اور مصروفیت کی وجہ سے نہ لا سکتے تھے تو افسوس کرتے تھے کہ بیوی! جو میں تمھیں پہنانا چاہتا ہوں‘ جو چیزتمھارے لیے پسند کرتا ہوں‘ خودنہیں لا سکتا۔ ان کا بہت اعلیٰ ذوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بیوی بھی خوب سے خوب تر پہنے‘ اوڑھے اور جتنے وسائل میں آسانی سے ممکن ہو‘ رانی بن کر رہے بلکہ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ میں کام کاج نہ کروں‘ ہمیشہ گھر کاکام کرنے کے لیے معاون و ملازم رکھ کر دیے‘‘ -- پھر آخر میں کہتیں: ’’بھئی وہ تو بے حد مہربان انسان اور شفیق شوہر تھے‘‘۔ بیگم مودودیؒ کا یہ بھرپور جملہ ان کی ساری زندگی کی عکاسی کرتا تھا۔

کچھ عرصے بعد محترمہ حمیرا مودودی پاکستان منتقل ہو گئیں‘ تو یہ محفلیں بھی ختم ہو گئیں۔ جب ہم ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب سے مستقل پاکستان منتقل ہوئے تو لاہور آ گئے۔

فیروز پور روڈ سے گزرتے اور اچھرہ کو پار کرتے ہوئے ہر مرتبہ خیال آتا کہ اپنے محبوب و محترم راہبر سے ملنے جائوں‘ مگر جیتے جاگتے مولانا کے تصور اور اس گھر کو ذہن سے نکالنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک دن رہا نہ گیا اور ہم ۵- اے ذیلدار پارک کے سامنے کھڑے تھے۔ اس وقت میرا ذہن بالکل بھول گیا کہ مولانا کی وفات ہو چکی ہے۔ گیٹ سے اندر اسی عالم میں داخل ہوئے۔ تینوں بچے اور شوہر بھی ساتھ تھے۔ سیدھے برآمدے میں جا رکے۔ وقت وہی تھا جو عصری مجلس کا ہوتا تھا۔

میرے شوہر نے داہنے گیٹ کے پاس لان کے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔ میں تو عالم استعجاب میں گنگ ہو کر رہ گئی۔ ’’یہ مولانا ہیں‘‘؟ نہیں‘ میں نے تو مولانا کو اسی لان میں کرسی پر بیٹھے دیکھا تھا۔ میں خودآج تک حیران ہوں کہ مولانا کی قبر پر فاتحہ خوانی کے ارادے سے جانے کے باوجود میں اس قبر کو دیکھ کر اتنی پریشان کیوں ہو گئی تھی۔ میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ میں اس جگہ کو دیکھوں جو سطح زمین سے اُبھری ہوئی تھی‘ اور ۱۲ برس گزرنے کے باوجود دل تسلیم نہ کرنے پر بضد تھا کہ یہ مولانا کی آرام گاہ ہے۔ مجھے اس دن ایسا لگا کہ مولانا تو تنہا ہیں‘ اکیلے ہیں۔ اف! وحشت کا یہ عالم میرے روئیں روئیں میں سرایت کرنے لگا۔ اس دن یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اکیلی قبر کا تصور دیکھنے والوں پر کیا قیامت ڈھاتا ہے۔ شہر خموشاں کی اپنی رونق ہوتی ہے۔ پھر میں نے مولانا سے خیالوں ہی خیالوں میں ڈھیر ساری باتیں کیں۔ دل کا بوجھ ہلکا تو ہوا‘ مگر خلا کبھی پُر نہ ہو گا۔ گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔ ملازم ہی تھا جس نے ہمیں جا نماز لا کر دی۔ ہم نے لان میں عصر کی نماز پڑھی اور وہاں سے گھر آ گئے۔ مولانا سے یہ ملاقات ۵ - اے ذیلدار پارک میں بہت ہی رنجیدہ اور افسردہ کرنے والی تھی۔ مولانا کو اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ربع صدی ہو گئی ہے۔ مگرآنے والی کئی صدیوں تک ’’لائٹ ہائوس‘‘ کا فریضہ انجام دینے والا‘ میری طرح اور لاکھوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

جب بھی بزرگانِ دین کے حالاتِ زندگی پڑھا کرتی تھی تو سوچتی تھی کہ کاش! میں امام ابوحنیفہؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، سید احمد شہیدؒ جیسے کسی انسان کے ز مانے میں پیدا ہوئی ہوتی‘ اور اُن سے دین کا فیض حاصل کرتی۔ مولانا سے دلی عقیدت‘ اور دینی فہم و شعور کے حوالے سے جو تعلق ہے اُس پر بجاطور پر اظہار تشکر کیا جا سکتا ہے۔ مجھ جیسے نہ جانے ساری دنیا میں کتنے مسلمان ہیں جن کو اپنے مسلمان ہونے کا حقیقی شعور اس شخص کے مومنانہ انداز دلبری کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ ایسے عظیم انسان کے احسان کا حق ادا ہونا مشکل ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا یہ کمال و اعجاز ہے کہ ہم آج بھی ان کو اپنے پاس پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے جب بھی اپنی زندگی کی کسی بھی الجھن کو اپنے لیے پریشان کن پایا تو مولانا سے روحانی تعلق میرے کام آیا۔ اللہ رب العزت نے اس پیارے بندے کے ذریعے مجھے سیدھی سچی راہ دکھائی۔ مجھے حوصلہ بخشا‘ زندگی کے بے شمار لاینحل مسئلوں اور مغموم و دل مضطر کو سکون و عافیت کا مژدہ سنایا۔

چند دن پہلے ]اپریل ۲۰۰۳ئ[ بیگم مودودیؒ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔  انا للّٰہ وانا  الیہ راجعون۔ ایک مرتبہ طائف کی کسی محفل میں ایک خاتون نے کہا: ’’مولانا کو اللہ نے ۷۰ حوریں دی ہوں گی تو مولانا نے کیا کہا ہو گا‘‘۔ دوسری خاتون نے کہا: ’’مولانا نے اللہ تعالیٰ سے کہا ہو گا کہ   میری بیوی کب آئے گی؟ وہی ٹھیک ہے‘‘۔ اس خاتون کی بات سن کر بیگم مودودیؒ بے حد محظوظ ہوئیں۔ بیگم مووددیؒ انتہائی شاکرو صابر خاتون تھیں‘ بہت حوصلے والی‘ اللہ والی‘ ملنسار‘ محبت کرنے والی۔ یہ ان کا عظیم الشان حوصلہ ہی تھا کہ روزانہ اپنے شوہر کی جدائی کا غم تازہ ہوتا ہو گا قبر کو دیکھ کر‘ اور صبر کی منزل سے ہر روز گزر کر آتی ہوں گی۔ شوہر بھی ایسا جس کی مثال ملنا مشکل ہو۔ میرے دل کو عجب ڈھارس ہے کہ اب مولانا تنہا نہیں ہیں۔ بیگم مودودیؒ کی آرام گاہ قریب ہے۔ بے مثال شوہر کی مثالی بیوی۔ زندگی کے ساتھی‘ ہمیشہ کے ساتھی۔ اللہ دونوں کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین!

جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کی آمد پہلی صدی ہجری ہی میں ہو گئی تھی۔ محمد بن قاسم دورِ اموی (۴۰ - ۱۳۲ئ) ہی کی یادگار تھے۔ غزنوی، غوری اور خلجی ادوار میں صوفیاے کرام نے دعوت و تبلیغ کی شمع روشن کیے رکھی، جن کی کوششوں سے ہزاروں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ سولھویں صدی عیسوی (۹۳۱ھ) میں مغلیہ دور بادشاہت کا آغاز ہوا، لیکن اپنی اٹھان کے ساتھ ہی دین الٰہی کے فتنے سے دوچار ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کے مقابلے کے لیے ایک ہستی کا انتخاب کیا، جو تاریخ میں مجدد الف ثانی ؒ (۱۵۶۴ء - ۱۶۲۴ئ) کے نام سے مشہور ہے۔ اگر اس فتنے کا بروقت مقابلہ نہ کیا جاتا تو آج اس علاقے کے مسلمانوں کی شاید یہ صورت بھی نہ ہوتی اور وہ اپنے تشخص سے کلی طور پر محروم ہوجاتے۔ مجدد صاحب کے انتقال کے لگ بھگ ۸۰ سال بعد مغلیہ سلطنت کے دورِ زوال میں، کمال حاصل کرنے والی ایک اور ہستی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۷۰۳ء - ۱۷۶۳ئ) کی ذاتِ گرامی تھی۔

شاہ ولی ؒاللہ ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ان کے ٹھیک ۲۰۰سال بعد ۱۹۰۳ء میں‘ آج سے ٹھیک ۱۰۰ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک اور ہستی کا انتخاب کیا، جس سے نئی دنیا اور نئے حالات میں تجدید و اقامت دین کا ایک منفرد کارنامہ مطلوب تھا۔ یہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی ذاتِ والا صفات تھی۔

مجددین کی تاریخ اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر نظر ڈالیے۔ معلوم ہوگا کہ اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انھیں راہ عمل اختیار کرنا پڑی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بن مروان بن حکم (۱۰۱ھ) کے پیشِ نظر اموی خلافت کی اصلاح تھی۔ ان سے پہلے خلافت کو ملوکیت سے بچانے کے لیے بعض متدین ہستیوں نے سیاسی محاذ پر اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھی، جن میں امام حسینؓ (۶۱ھ)، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (۷۳ھ) حضرت زید بن علی بن امام حسین بن علیؓ (۱۲۲ھ) اور حضرت محمدبن عبداللہ بن حسن بن امام حسن بن علی (۱۴۵ھ) المعروف بالنفس الزکیہ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں۔

  •  امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کے پیشِ نظر سوادِ اعظم اور سبیل المومنین سے ہٹ کر انتہا پسندانہ نظریات قائم کرنے والوں کے عقائد کی اصلاح اور ہٹ دھرموں کی ضد سے امت کو بچانا مقصود تھا، جسے فقہ الاکبر کا نام دیا گیا۔ اس زمانے کا عراق فتنوں اور شورشوں کا مرکز تھا۔ جہمیہ، قدریہ، جبریہ، خوارج، روافض، مرجہ ‘کن کن کا سدباب مطلوب نہ تھا۔
  •  امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) عباسی خلافت کی بے اعتدالیوں کے مقابلے میں سینہ سپر رہے، تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں۔
  •  امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کا مقابلہ نام نہاد ’عقل پرستوں‘ سے تھا، وہ دفاعِ سنت کے لیے اٹھے اور ناصرالسنہ کہلائے۔
  •  امام احمدؒ (۲۴۱ھ) کے زمانے تک معتزلہ، عباسی حکومت میں گہرا اثر و رسوخ حاصل کر چکے تھے۔ خلقِ قرآن کا فتنہ ان کی خام عقلیت ہی کا شاہکار تھا۔
  • اعتزال کے تابوت میں آخری اور پائے دار کیل ٹھونکنے اور امتِ مسلمہ کو سنت کی شاہراہ پر استوار رکھنے کا رنامہ محدثین کے حصے میں آیا۔ یہ بلند پایہ ہستیاں امام بخاریؒ (۲۵۶ھ)، امام مسلمؒ (۲۶۱ھ)، امام احمدؒ (۲۴۱ھ) ، امام اسحٰق بن راہویہؒ (۲۳۸ھ)، امام دارمیؒ (۲۵۵ھ)، امام ابن ماجہؒ (۲۷۳ھ)، امام ابودائودؒ (۲۷۵ھ)، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ)، امام نسائی  ؒ(۳۰۳ھ)، امام ابن خزیمہؒ (۳۱۱ھ)، اما م طبری ؒ(۳۱۰ھ)، امام دار قطنیؒ (۳۸۵ھ)، امام طبرانی ؒ (۳۶۰ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) اور خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ) وغیرہ کی ہیں۔
  •  امام غزالی ؒ (۵۰۵ھ) کا بنیادی کام یونانی فلسفے کا ابطال، قوانین اخلاق کی وسیع پیمانے پر تہذیب و اشاعت اور اجتہاد کے دروازے کو دوبارہ کھولنا تھا، جو چوتھی صدی ہجری کے بعد تقلیدِ شخصی کی پابندیوں کے غوغاے رستا خیز کی نذر ہو چکا تھا۔
  • امام ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) کا دور: فتنۂ تاتار، عقیدہ وحدۃالوجود، منصوریت اور باطنیت سے عبارت تھا۔ امام صاحب نے اپنے نقلی اور عقلی دلائل سے ایک ایک فتنے کا ابطال کیا۔ قرآن و سنت پر ان کی نظر زیادہ عمیق تھی۔ امام تیمیہؒ بنیادی طور پر حنبلی تھے، لیکن کتاب وسنت پر کامل عبور اور خدا داد تفقہ اور شعور نے انھیں مجتہد مطلق کے مقام پر فائز کر دیا۔ یہ نہ صرف عالم تھے بلکہ راہِ حق میں سخت قربانیاں دینے کے لیے ہر دم تیار مجاہد بھی تھے۔
  •  حافظ ابن حجر ؒعسقلانی (۸۵۲ھ) نے علم حدیث کے میدان میں وہ عظیم الشان علمی سرمایہ چھوڑ ا کہ بالاتفاق امیر المومنین فی الحدیث کہلائے۔
  •  جلال الدین السیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے تمام علوم و فنون پر بنیادی کتابیں تصنیف کیں۔

غرض یہ کہ تشریح، تفہیم ‘تعبیر اور تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ان شاء اﷲ جاری رہے گا۔

شاہ ولی ؒاللہ صاحب کی ولادت کے تین سال بعد ہی اورنگ زیب عالم گیر کا ۱۷۰۷ء میں انتقال ہوگیا۔ شاہ صاحب نے مغلیہ دور کی یہ سات حکومتیں دیکھیں: ۱- بہادر شاہ اول، جو شیعہ ہو چکے تھے۔ ۲- جہاندار شاہ، ۳- فرخ سیئر، ۴۔ محمد شاہ رنگیلے کا ۲۹ سالہ دور، ۵۔ احمد شاہ، ۶- عالم گیر ثانی اور، ۷۔شاہ عالم ثانی کا دور۔

برعظیم پاک و ہند کے مسلمان، شاہ ولی ؒاللہ صاحب کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ آپ کی عالی ظرفی، آپ کا سیاسی شعور‘ احکام شریعت کی حکمتوں پر آپ کی نظر، مغلیہ دور کی خرابیوں کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ، علم حدیث سے بے پناہ شغف، فقہی مسائل میں اقرب الی الکتاب والسنہ کی جستجو، غرض بے پناہ پہلو ہیں، جن کی وجہ سے آپ بجا طور ’امام الہند‘ کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ شاہ صاحب کا انتقال ۱۷۶۳ء میں ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ولادت (۱۹۰۳ئ) تک یہ عرصہ ۱۴۰ سالوں پر محیط ہے۔

مولانا مودودیؒ کے کارناموں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ان ۱۴۰ سالوں میں مسلمان کس قسم کے حالات سے دوچار ہوتے رہے؟ اس اثنا میں کون سے اہم لوگ پیدا ہوئے؟ کون سی تحریکیں برپا ہوئیں اور کون سے رجحانات مسلم فکر پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہے؟

۱۷۶۴ء میں مسلمانوں نے انگریزوں سے شکست کھا کر معاہدہ کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا   اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا گیا۔ اکبر شاہ ثانی کا ۳۱ سالہ دور حکومت اور ان کے فرزند ارجمند بہادر شاہ ظفر کا ۲۰سالہ دور عملاً انگریزوں کی عمل داری سے عبارت ہے۔ ۱۸۵۷ء میں یہ رہی سہی حکومت بھی جاتی رہی اور تاجِ برطانیہ کو مکمل بالادستی حاصل ہو گئی اور اس کا ’وائس رائے‘ نظام حکومت چلانے لگا۔ ۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء کا یہ پُر آشوب ۹۰ سالہ دور اپنے اندر فتح و شکست، سپردگی و استقامت، محکومیت اور بیرونی تسلط کے خلاف جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد، مسلمانوں کی قیادت نے نئے حالات میں مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی۔ اس سے پہلے ۱۸۳۱ء میں سید احمد شہیدؒ بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی تحریک بھی سکھوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ٹھیک نو سال بعد ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ٹھیک ۹سال بعد ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ کے اداروں کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر یونی ورسٹی میں تبدیل ہو گئی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت کے نظریات دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘۷۰ سال میں اس تحریک نے عالمی اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کی فکر بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔

سرسید احمد خان کے جذبۂ تعمیر ملت کو سب نے سراہا، لیکن جب انھوں نے انیسویں صدی کے بعض خام سائنسی نظریات کی بنیاد پر صحیح اسناد پر مشتمل احادیث کا انکار کیا اور جنات اور ملائکہ کی  من مانی تاویل و تفسیر بیان کی تو علماے حق کی طرف سے ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سائنس اور جدید علوم سے مرعوبیت کی یہ ایک واضح علامت تھی۔

۱۸۹۴ء میں دارالعلوم ندوۃالعلما کا قیام عمل میں آیا۔ شبلی نعمانی  ؒاس کے روح رواں تھے۔ وہ علی گڑھ سے مایوس ہو کر اعظم گڑھ آ چکے تھے۔ شبلی نے تصنیف وتالیف و تحقیق کا نہ صرف خود اعلیٰ معیار قائم کیا، بلکہ لائق شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کر دی۔ دارالمصنفین کی کتابوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا۔ چنانچہ  سیرت البنیؐ، سیرت الصحابہ، سیرت الصحابیات، سیرت التابعین، سیرت الفقہا ، سیرت المحدثینوغیرہ  تصنیف کی گئیں۔ ان کتابوں نے لوگوں کو صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ابتدائی جذبوں کو سمجھنے اور بدعتوں سے دور رہنے کا پختہ سبق دیا۔

مولانا مودودی ؒنے ۷۶ سال کی عمر پائی اور ۱۹۷۹ء میں انتقال فرمایا۔ ان کی زندگی کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۰۳ء سے ۱۹۴۷ء کا ۴۴ سالہ دور‘ جو قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے پر مشتمل ہے‘ اور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۹ء کا ۳۷ سالہ دور جو قیام پاکستان کے بعد کے زمانے پر محیط ہے۔ پہلے دور میں انھوں نے علمی اور فکری محاذ پر زبردست جہاد کیا اور دوسرے دور میں علمی اور فکری میدان کے علاوہ عملی اور سیاسی میدان میں استقامت کے بلند مینار تعمیر کیے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انھیں قادیانی مسئلہ کی تصنیف پر موت کی سزا سنائی گئی، جس پر بوجوہ عمل در آمد نہ ہوسکا۔ انھیں اپنے مبنی برحق ہونے، رب سے ملاقات کرنے اور اس کی مرضی پر کامل شرح صدر تھا۔ شاعر نے یوں ہی نہیں کہہ دیا   ع

سزاے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا

مولانا مودودیؒ کی فکر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے تاریخِ اسلام، تاریخ تجدید، تاریخ اجتہاد اور تاریخ علوم اسلامی کے علاوہ اٹھارھویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران دنیا میں برپا ہونے والی دیگر تحریکوں کا مطالعہ ضروری ہوگا۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد کے یورپ اور نئی دنیا (امریکہ) کی آبادکاری اور اس کی مادی ترقی اور اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام اور پھر اس کے بعد مارکس اور اینگلز کے نظریات پر مبنی اشتراکی حکومتوں کی تاسیس، سیکولرزم، لبرلزم اور مالتھس کے نظریات کی روشنی میں تحدید نسل (Birth Control) کی تحریک اور عالمِ اسلام پر مغربی استعمار کے نتیجے میں اس کے مضراثرات کا جائزہ لیے بغیر مولانا کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہو گا۔

بڑی شخصیتیں روزروز نہیں پیدا ہوتیں۔ مولانا کی بعض کتابوں کے انگریزی تراجم کا دیباچہ خود مولانا نے راست انگریزی میں لکھا ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی تحریر کا ملکہ بھی انھیں حاصل تھا۔ خداداد ذہانت اور سخت محنت اور مسلسل جستجو نے ابوالاعلیٰ کو امامِ وقت بنا دیا۔

مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے خود مجھے بتایا کہ مولانا مودودی کی اسیری کے بعد جب انھیں قائم مقام امیر مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے مولانا کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کے میز کی دراز کھولی تو اس میں ایک مسودہ دیکھا۔ یہ سنن ابی داؤد کے مضامین کا اشاریہ (انڈکس) تھا، جس میں نہ جانے مولانا کو کتنا عرصہ لگا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج تک ایسی قیمتی چیزکی اشاعت کا مرحلہ نہیں آیا۔

مولانا مودودیؒ نہ صرف ذہین ہیں، بلکہ جفاکش بھی ہیں۔ ذہین لوگوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ نسبتاً کام چور ہوتے ہیں، لیکن جہاں ذہانت اور جفاکشی کا امتزاج ہو جائے، وہاں نورٌ علٰی نورکی کیفیت ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا کام نہ صرف انسائیکلوپیڈیائی قسم کا ہے، بلکہ قریباً ہر میدان میں وہ بلندیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ وہ مفسر ہیں، حدیث میں ان کی نگاہ عمیق ہے۔ متکلم ہیں، داعی اور مبلغ ہیں۔ مصلح ہیں، گہرا سماجی، سیاسی اور معاشی شعور رکھتے ہیں۔ وہ تجدید کے قائل ہیں، تجدد کے نہیں۔ وہ فقیہ ہیں، ان کی عقل، وحی پر مشتمل علم کی تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں امام شافعیؒ کی طرح استدلال کی قوت ہوتی ہے، لیکن اعتزال کے عیب سے پاک ہے۔ وہ مؤرخ بھی ہیں اور مزکی بھی۔ مولانا مودودیؒ نے اصولوں اور کلیات میں کہیں مداہنت اور چشم پوشی کا مظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کا شمار لاَ یَخَافُونَ لَوْ مَۃَ لاَ ئِمٍ میں ہے۔ وہ حق کے اظہار میں عوامی مقبولیت کے مجروح ہو جانے کی پروا تک نہیں کرتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو قرآن و سنت کی روشنی میں افراد، اشخاص، نظریات و رجحانات، اداروں اور تحریکوں کو جانچنے، پرکھنے اور تولنے کا تنقیدی شعور عطا کرتی ہیں۔ عقیدت اور احترام کا صحیح شعور فراہم کرتی ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفاداری کو اولین اہمیت دینے کا سبق سکھاتی ہیں۔ بزرگ اور نیک انسانوں کے درجات کا صحیح تعین کرتی ہیں۔ قرآنی حکم لاتَغْلُوا فِی دِیْنِکُمْ کے مطابق، اسے غلو سے بچاتی ہیں۔ نہ صرف مقابر پرستی، بلکہ اکابر پرستی سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی توحید بہت جامع ہے۔ ان کی تحریریں  توحید ذات، توحید اسماء و صفات، توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور تکوینی توحید کے علاوہ توحید حاکمیت اور تشریعی توحید راسخ کرتی ہیں۔ شریعت کی مستقل، پائے دار اور ابدی تعلیمات کو نئے زمانے اور نئے حالات پر منطبق کرنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔

  • تحریر میں ہم آہنگی:  مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں باہمی تناقض و تضاد کم سے کم پایا جاتا ہے۔ یہ دراصل اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ خود مصنف کے ذہن میں یہ بات کس حد تک واضح ہے۔ ایک بڑے عالم دین کی مثال پیش کرنا چاہوں گا، وہ جب بدعات کے خلاف لکھتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہندستان میں ابن تیمیہؒ کا قلم رواں ہو گیا ہے لیکن یہی بزرگ جب تصوف کی حمایت میں لکھتے تو ایک سے بڑھ کر ایک ضعیف حدیث لے آتے اور بعض اوقات خود اپنے لکھے ہوئے کے خلاف لکھ جاتے۔ یہ عیب ہر انسان میں ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا کلام ہی اس سے پاک ہے:  لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo (النساء ۴:۸۲) ’’اگر قرآن کسی غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے‘‘۔

حالات کی تبدیلی اور خیالات کی تبدیلی سے بھی ابتدائی تحریروں سے آخری زمانے کی تحریر مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا مودودی ؒکے ہا ں اس قسم کی چیزیں کم، بہت ہی کم ہیں اور بنیادی اصولوں میں تو بالکل نہیں ہیں، البتہ حکمت عملی میں ہیں جو ہر گز عیوب میں شمار نہیں کی جاسکتیں۔

  • مولانا مودودیؒ کا ترجمۂ قرآن: مولانا مودودیؒ کی ایک شاہکار چیز ان کا ترجمہ ہے، جسے وہ ’ترجمانی‘ کا نام دیتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒنے بھی بعد میں یہی انداز ِ ترجمانی اختیار کیا ہے۔ دونوں ترجموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لیجیے، کئی باتیں مشترک ملیں گی۔ دونوں نظم کا خیال رکھتے ہیں۔ دونوں پیراگراف کی تقسیم کے قائل ہیں۔ دونوں محذوفات کو (قوسین میں یا بلاقوسین  علی الترتیب) کھولتے ہیں۔ سلاست اور روانی میں مولانا مودودیؒ فائق ہیں‘ جب کہ مولانا اصلاحیؒ بعض اوقات عربی اور فارسی کے بعض غیر مانوس الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔

علماے ادب نے واؤ (و) کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں، جیسے عطفیہ، استنافیہ، قسمیہ، حالیہ، زائدہ براے تاکید، بمعنی فاے تعقیب وغیرہ وغیرہ۔ میں نے تفہیم القرآن میں حرف وائو (و) کے ترجمے کا جائزہ لیا تو کھلا کہ مولانا مودودی ؒنے سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل مختلف ترجمے کیے ہیں:

اور، مگر، جب کہ، حالانکہ، درانحالیکہ، رہا، رہی، رہے، بھی، اور پھر، جو، یا، ہی اور جو، لیکن، نیز، اس لیے کہ، البتہ، ورنہ، دوسری طرف، آخرِکار، اسی طرح۔

اس طرح بعض اوقات ’واؤ‘کے ترجمے کو حذف کر دیا ہے، ورنہ عبارت سلیس نہ رہتی‘ جیسے: وکلوا وشربواکا ترجمہ کھائو پیو۔ جو لوگ بلاغت زبان کا ذوق رکھتے ہیں وہ ہر گزبے مزہ نہ ہوں گے اگر ان دو ترجموں کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں گے۔ ترجمہ کرنے والوں کے لیے بھی ان دونوں ترجموں میں بہت کچھ رہنمائی ہے      ؎

دردِ سر ہوتا ہے‘ بے رنگ نہ فریاد کریں

بلبلیں مجھ سے گلستان کا سبق یاد کریں

مولانا مودودیؒ کے اس ترجمے نے برعظیم کے مسلمانوں کو خالق کائنات اور اس کے کلام سے جوڑنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سورۃ الممتحنہ کی پہلی آیت کے ترجمے پر غور کیجیے۔ مولانا نے عربی ترتیب کو اردو ترتیب میں یکسر بدل دیا، ورنہ اردو میں تعقید پیدا ہو جاتی۔  اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِھَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ کے ترجمے کو پہلے رکھ دیا، جس کی وجہ سے اردو داں آدمی کے لیے مضمون پانی ہو گیا۔

  • تفہیم القرآن: چھ جلدوں پر مشتمل اس تفسیر کی پہلی دو جلدوں میں بہت زیادہ اختصار پایا جاتا ہے اور تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ تیسری جلد سے یہ اپنی اصل اٹھان کی طرف مائل بہ پرواز ہے‘ جس کا تسلسل آخر تک قائم ہے۔ مولانا ہمیشہ خود کو طالب علم سمجھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹی جلد بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مسافرِ قلم تھکا نہیں، اس کا ذوق و شوق اور اس کا جذبۂ صادق بڑھتا ہی گیا۔

ہر سورہ کی تفسیر سے پہلے، زمانۂ نزول کے بارے میں تحقیق ملتی ہے، پھر ہر سورہ کے موضوع اورمضمون کی وضاحت۔ مولانا مودودیؒ سورتوں کی تمہید صحیح اور مستند تاریخی واقعات سے اس طرح بیان کرتے ہیں، کہ اس کے مطالعے کے بعد سورہ کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔

مولانا کو اوائل عمری ہی سے مناسبتِ علم حدیث رہی ہے۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے جامع ترمذی اور موطا امام مالک کی سند حاصل کی، چنانچہ ساری تفسیر مستند احادیث سے مزین ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی ضعیف یا موضوع حدیث نادانستہ در آئی ہو۔ عبدالوکیل علوی صاحب نے ان تمام احادیث کی تخریج کر کے تفہیم الاحادیث کے نام سے آٹھ جلدوں میں مرتب کر دیا ہے۔

احکام میں بلاتعصب چاروں فقہی مذاہب کی تفصیلات درج کرتے ہیں۔  ہدایہ، المَدَّونہ، الرّسالۃ، کتاب الام، المغنی، بدائع الصنائع، المحلیّٰ، المنہاج، الفقہ علی المذاہب الاربعہ وغیرہ سے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری مختلف مذاہب کے درمیان اصول میں اتحاد اور فروع میں اختلاف رائے کے ساتھ باہمی رواداری اور یکجہتی کا سبق سیکھتا ہے۔

تفہیم القرآن جدید ذہن کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ زبان بہت شستہ اور رواں ہے۔ دلّی کا محاورہ ‘انگریزی کے اُن الفاظ کے ساتھ مل کر (جواب اردو میں شامل ہو گئے ہیں) عجیب لطف پیدا کرتا ہے۔

اس تفسیر میں بیسویں صدی کے تمام فتنوں کا رد موجود ہے، جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مولانا کی تنقید بہت سخت ہوتی ہے، لیکن زبان شائستہ۔ ’آپ‘ سے نیچے نہیں آتے۔ اہلِ تشیع کے عقائد پر بہت ہی لطیف انداز میں سوالات اٹھا تے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے قرآنی قصص کی وضاحت کے لیے یہ مناسب سمجھا کہ بنظرِ خویش ارضِ قرآن کا مشاہدہ کیا جائے۔ چنانچہ ان سے متعلق نہایت مفید نقشے اور فوٹو فراہم کیے گئے ہیں۔ غزوات نبویؐ کے نقشہ جات سے سیرت البنیؐ کے بعض واقعات کا منظر آنکھوں میں سمٹ آتا ہے۔

یہ تفسیر‘ دین کا کلی تصور پیش کرتی ہے۔ فلسفۂ اقتصادیات و عمرانیات کے حوالے سے     عدلِ اجتماعی کا جامع تصور۔

اس تفسیر کی سب سے اہم خصوصیت اس کا دعوتی مزاج ہے۔ قوانین شریعت کی حکمتوں کو کھول کر جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرتی ہے۔ قرآن و حدیث پر کامل ایمان و ایقان کے ساتھ قاری کو اس دور میں ایک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل کرنے کے لیے ابھارتی ہے۔

اس تفسیر کی ایک اہم خصوصیت اس کا انڈکس  (اشاریہ) ہے۔ دین کے ایک ابتدائی  طالب علم کے لیے یہ’ فہرست مضامین‘ نہایت مفید ہے۔ اس کو دیکھ کر اور اس کے ذریعے، تفسیر اور آیاتِ قرآنی کی طرف رجوع کر کے وہ بہت ساری ان غلط فہمیوں کو دور کر سکتے ہیں، جو اس فتنہ پرور دور نے ہمارے ذہن میں پیدا کی ہیں۔ علومِ قرآن سے دل چسپی رکھنے والا ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جو مشکل عربی الفاظ اور پرانی عبارتوں سے نابلد ہوتا ہے، اس کے لیے تفہیم القرآن پہلی سیڑھی ہے، اس کے مطالعے کے بعد دیگر تفاسیر کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے۔

  • قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: مولانا مودودیؒ کی ہر کتاب اپنی جگہ  لاجواب ہوتی ہے۔ قاری کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کی بہترین کتاب کون سی ہے؟  تفہیم القرآن میں تفصیل ہے اور اس کتاب میں ایجاز و اختصار۔ لیکن یہ وہ اہم کتاب ہے، جو قرآن فہمی کے لیے ایک بنیا د کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر زبان میں ’لفظ‘ ایک سے زیادہ مفہومات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔  رب، الٰہ، عبادت اور  دین کے الفاظ بھی عربی زبان میں مختلف معنوں میں مستعمل ہیں۔ مولانا نے لسان العرب وغیرہ سے  پہلے الفاظ کی لغوی تحقیق درج کی ہے، پھر ایک ایک لفظ کے مختلف مقامات پر سیاق وسباق کی روشنی میں مخصوص مفہوم کا تعین کیا ہے۔

میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے بلکہ کئی مرتبہ پڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھ پر ہر مرتبہ نئے آفاق کا انکشاف ہوتا رہا ہے۔ مجھے جانے پہچانے راستوں میں بھی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ جانے مستقبل میں کتنے اور نئے مناظر دیکھنے کو ملیں۔ ہر مرتبہ میرے دل سے مولانا مودودیؒ کے لیے دعائیں نکلی ہیں۔ انھوں نے کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے ہمارے سامنے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔

مولانا مودودی ؒکے بعض معاصر علما نے اس کتاب کی بعض عبارتوں پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اس سے تَعَلّیِ کا پہلو نکلتا ہے کہ قرآن کو بس انھوں ہی نے سمجھا ہے‘ کسی اور نے نہیں۔ مولانا بھی انسان ہی تھے، نبیِ معصوم نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، اور اعلیٰ درجات عطا فرمائے‘ لیکن مقامِ شکر ہے کہ الحمدللہ کسی عالم نے بھی یہ ثابت نہیں کیا کہ ان الفاظ کے جو مختلف مفہوم، مولانا مودودیؒ نے عربی لغت اور عربی محاورے کے مطابق بیان کیے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں۔ ایک بزرگ نے لکھا کہ سورۃ الزخرف کی آیت:  ھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ ط (۴۳:۸۴)کا جو مفہوم مولانا نے بیان کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ ان محترم ناقد نے دوسرا متبادل مفہوم بھی نہیں بیان کیا، جو ان کے نزدیک صحیح ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبیؐ کی آخری جلد میں، مولانا مودودیؒ کے برآمد کردہ مفہوم کی تائید کی ہے اگرچہ وہاں مولانا مودودیؒ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ تواردِ تعبیر ہے۔

اس کتاب کی افادیت اور بڑھ جائے گی اگر کوئی صاحب علم اس کی شرح لکھیں۔ ذیلی عنوانات قائم کریں۔ قوسین میں جا بجا انگریزی مترادفات درج کرتے جائیں اور مزید مثالوں کا اضافہ کریں تاکہ درمیانی درجے کے قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکیں‘ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ۔

دینی مدارس میں دورۂ تفسیر سے پہلے، امام ابن تیمیہؒ کا  مقدمہ التفسیر‘ حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کی الفوزالکبیر اور مولانا مودودیؒ کی  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ان تینوں کتابوں کو سبقاً سبقاً پڑھایا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے بعض رسائل بھی تفسیر کا طالب علم پڑھ لے تو تعبیر کے چاروں اسکولوں کا احاطہ ہو جائے گا اور وہ بہتر انداز میں قرآن کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گا۔

  • تجدید واحیاے دین: مولانا نے ۱۹۳۹ء میں‘ جب کہ وہ صرف ۳۶ سال کے تھے، یہ معرکہ آرا کتاب لکھی۔ یہ تاریخِ دعوت و عزیمت اور تاریخ اصلاح و تجدید کی مختصر ترین روداد ہے۔  کم سے کم لفظوں میں ۱۲‘ ۱۳ صدیوں کی تاریخ بیان کر کے تبصرہ کرنا دیدۂ بینا ہی سے ممکن ہے بچوں کا کھیل نہیں۔ جماعت اسلامی کا قیام اس کی اشاعت کے دو سال بعد ہوا۔ یہ مضامین قبل ازیں ایک موقر رسالے الفرقان میں شائع ہو چکے تھے ۔

امام غزالی   ؒکے تجدیدی کارناموں کی تفصیل اور بعض امور پر نقد ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ احیاء العلوم کی احادیث پر کلام کرنا ۳۰ کے عشرے میں انتہائی جرأت مندانہ بات تھی۔ مشہور محدث محمد ناصرالدین البانی  ؒ نے اب اس اہم ترین کتاب کی احادیث کی تخریج کر دی ہے، جس نے بلاشبہہ اخلاقیات کی تعمیر و تشکیل میں چھٹی صدی سے ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کے کمالات سے اردوداں طبقے کو روشناس کرانے کا سہرا بھی مولانا مودودی ؒہی کے سرہے۔ علامہ شبلی نعمانی  ؒ تک امام ابن تیمیہؒ کی کتابوں کی رسائی اخیر عمر میں ہوئی، جس کا اعتراف انھوں نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ علم کا سمندر ہیں۔ ایک حلقے نے ان کی بعض تصانیف کا ترجمہ کر کے شائع کیا ہے، لیکن ابھی بہت سے گوشوں سے برعظیم کا عام قاری لاعلم ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے اپنی دو آخری تصانیف علوم القرآن (اول و دوم) اور تقلید و اجتہاد میں ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔

تجدید و احیاے دین اسلامی تحریکوں کو اپنی سرگرمیوں اور اپنی حکمت عملی کا بار بار جائزہ لینے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور اعتدال و توازن کی شاہراہ سے ہٹ جانے کے اندیشوں کے بارے میں ہمیشہ رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اسلامی خلافت، دراصل اقتدار اور تقویٰ کے امتزاج کا نام ہے۔ ان دونوں کے درمیان جب بھی افتراق ہو گا، دنیاوی (یعنی سیکولر) سیاست اور تصوف کے انتہا پسندانہ رجحانات جنم لیتے رہیں گے۔

  • مولانا مودودیؒ کے تجدیدی کام کا دائرہ: مولانا مودودیؒ کے تجدیدی کام کے بے شمار پہلو ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہاں ۱۳ اہم امور پر مختصر اًروشنی ڈالی جائے۔

۱-  فتنہ قومیت کا مقابلہ: بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں یہ فتنہ اٹھا اور علما کی صف سے اٹھا۔ اقبال بھی تڑپ تڑپ گئے۔ انھیں مجبوراً نہ صرف لکھنا پڑا، بلکہ شائع بھی کرنا پڑا   ؎

ان تازہ خدائوں میں نیا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

کہا جا رہا تھا، موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ علامہ اقبال ؒ(۱۹۳۸ئ) کی شاعری کو بیسویں صدی کا علم کلام کہا گیا ہے اور صحیح کہا گیا ہے۔ لیکن شاعرانہ رموز‘ تلمیحات اور کنایات پر مشتمل علم کلام سے ، استدلال کی قوت سے لیس تحریر اور قرآن و سنت کے نقلی دلائل کے علاوہ شعور عصر حاضر سے مزین عقل سلیم پر مبنی علم کلام یقینا مختلف ہے۔ یہ سعادت مولانا مودودیؒ کے حصے میں آئی۔ بلاشبہہ وہ بیسویں صدی کے عظیم متکلم ہیں۔

۲-  فتنۂ  انکار حدیث کا مقابلہ: منکرین حدیث ہر زمانے میں پائے گئے ہیں۔ مولانا مودودی ؒکے دور کے منکر حدیث، اصل میں اشتراکیت سے مرعوب تھے۔ مولانا نے ان کی کھوکھلی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے سب سے پہلے بنیاد پر ضرب لگائی اور خود قرآن سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد ان کے اہم ترین اعتراض : ’قرآن کی طرح سنت کتابی شکل میں محفوظ نہیں ہے‘ کا بہت ہی تفصیل سے جواب دیا کہ سنت ایک لمحے کے لیے بھی امت مسلمہ سے غائب نہیں ہوئی۔ صحابہ کرامؓ اس پر عامل رہے۔ اسے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں رائج کرتے رہے۔ قاضی اور مفتی اس کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ تابعین اور تبع تابعین اس کے ناقل، عامل اور مبلغ رہے۔ فقہا نے اس کی اساس پر قانون و فقہ کی تدوین کی اور محدثین نے ان گہرپاروں کو مختلف ملکوں‘ شہروں اور قبیلوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابی شکل میں محفوظ کر دیا۔ پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے تمام جزوی اعتراضات کے مسکت جوابات دیے۔  سنت کی آئینی حیثیت اور  رسائل و مسائل میں اس موضوع پر مباحث کا بغور جائزہ لیجیے۔ آپ پر یہ بات روشن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ کتنا عظیم کارنامہ ہے۔

۳-  فتنۂ قادیان کا مقابلہ: اس فتنے کے مقابلے میں بلاشبہہ ہزاروں علما نے بھی جرأت و استقامت سے جدوجہد کی۔ لیکن مولانا نے اپنے مخصوص استدلالی انداز میں اس فتنے کا تعاقب کیا۔

نبیِ کاذب اور ان کے خانوادے کی اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے قطع نظر، مولانا نے اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز کیے رکھی کہ کیا رسول ؐ کے بعد کوئی نبی یا رسول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ سورۃالاحزاب کا ضمیمہ دیکھ لیجیے، ۱۴۰۰ سال کے علما‘ فقہا‘ محدثین و مفسرین کے اقوال نقل کر کے  قرآنی الفاظ خاتم النبیینکی تاویل و تعبیر پر اُمت ِمسلمہ کا اجماع ثابت کیا۔

علاوہ ازیں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں کو نقل کر کے ثابت کیا کہ یہ کس درجے کی حامل ہیں اور کلام نبوت سے ایسے فرد کو کوئی علاقہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سمجھنے میں آپ دشواری محسوس کریں تو ذرا اس موضوع پر لکھی جانے والی بے شمار تحریروں کا مطالعہ کیجیے اور پھر مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو دیکھیے‘ آپ ہمارے موقف سے اختلاف کی گنجایش نہ پا سکیں گے۔

۴-  اسلام کی غیر معذرت خواہانہ تشریح: اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے ابتدا ہی میں ایسے اسباب فراہم کر دیتا ہے کہ وہ اپنی منزل کی طرف بآسانی گامزن ہو جائے۔

آج سے ۹۰- ۱۰۰ سال پہلے کے زمانے کو چشمِ تصور سے دیکھیے۔ تعلیم کے کیا مواقع حاصل تھے۔ ایک انتہائی ذہین و فہیم لڑکا جو عام لڑکوں سے بہت ممتاز ہے، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں پڑھ کر ہضم کر لینا چاہتا ہے۔ لائبریریوں کو دماغ میں اتار لینا چاہتا ہے۔ مسلسل آگے پڑھنا چاہتا ہے۔ مختلف علما سے مل کر خصوصی وقت حاصل کرتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ان کے گھر پہنچ جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان سے کتب پڑھتا چلا جاتا ہے۔

۱۹۱۴ء میں اس لڑکے کی عمر صرف ۱۱ سال تھی، مولوی کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے کی لگن اسے مولوی محمد فاضل مرحوم کے پاس لے جاتی ہے۔ دلّی میں مولانا عبدالسلام نیازیؒ سے استفادے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ، تاریخ، ادب، سیاست، فلسفہ، تنقید، ثقافت وغیرہ وغیرہ کتنے ہی علوم ہیں، جنھیں وہ پانی کی طرح پی جانا چاہتا ہے۔

الجہاد فی الاسلام مولانا مودودیؒ کی پہلی کتاب ہے جو شائع تو ۱۹۲۷ء میں ہوئی جب مولانا صرف ۲۴ سال کے تھے لیکن ذرا اس کتاب کا پس منظر دیکھیے۔ وہ  گیتا، رامائن، مہابھارت وغیرہ اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔  بائیبل اور تلمود کا مطالعہ ہو چکا تھا۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کے ہاں جامع ترمذی اور موطا امام مالک کے درس کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔

۱۹۲۳ء میں۱۹ سال کی عمر میں یہ نوجوان جمعیت علماے ہند کے اخبار الجمیعۃ کا مدیر بنادیا جاتا ہے۔ کیا ۱۸‘۱۹ برس کا نو عمر لڑکا، اتنے بڑے علما کے اخبار میں کسی حادثے کے نتیجے میں مدیر بن گیا تھا؟ ایسا حادثہ تو دو چار ماہ کے لیے گوارا کیا جا سکتا ہے، تین چار سال تک یہ ذمہ داری دینا ناممکن بات ہے۔ یہ نوجوان پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں سے بخوبی واقف ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال اور مولانا محمد علی جوہرؒ اور تحریک خلافت کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ۱۹۲۶ء میں ۲۳ سال کی عمر میں دارالعلوم فتح پور دہلی سے سندِ فراغت حاصل کر لیتا ہے۔

ذرا  الجہاد فی الاسلام کے اوراق پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ یہ نوجوان قرآن سے کیسے استدلال کرتا ہے، فضائل و ترغیب کے علاوہ فرضیت و مشروعیت کے لیے کیسے مستند احادیث نقل کرتا چلاجاتا ہے؟ دوسرے مذاہب سے قانونِ صلح و جنگ کے اقوال کس طرح نقل کرتا ہے۔ لیکن یہ نوجوان ایک جگہ بھی اسلام پر شرمندہ نہیں ہے، نہ قرآن سے شرمندہ، نہ احادیث سے شرمندہ‘ بلکہ وہ اسلام کو من و عن پیش کرتا ہے، غیر معذرت خواہانہ انداز میں - اور پھر بتاتا ہے کہ جہاد، انسانیت کے لیے رحمت ہے، شرپسندوں کی سرکوبی اور عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ کے نبیوں، رسولوں اور رباَّنِیُّون کی سنت ہے۔

یہ ابتدائی عزم، یہ حوصلہ، یہ جرأت، یہ بے خوفی اور یہ غیر معذرتی انداز، اللہ کے فضل و کرم سے آخری سانس تک قائم رہا۔ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا، کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے اس عظیم خدمت کو قبول فرمائے۔  

۵-  اشتراکی فتنے کا مقابلہ: پچھلے مجدّدین کے ادوار میں یونانی فلسفے کا مقابلہ درپیش تھا۔ مولانا مودودیؒ کا دور استعماریت، اشتراکیت اور سرمایہ داری کا دور تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں اشتراکی نظریات منظر عام پر آئے۔ ۱۸۴۸ء میں  اشتراکی منشور منظور ہوا۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس جو ایک جرمن یہودی تھا انتقال کر گیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘ ۷۰ سال میں انھی نظریات پر مبنی دوبڑی سلطنتیں معرض وجود میں آگئیں۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہو۔ ۱۹۳۴ء میں چین کے اندر مائوزے تنگ نے ’طویل مارچ‘ کیا۔ ہندستان میں بھی اس تحریک نے جڑ پکڑی، جس کی تائید میں ناول لکھے گئے اور نظمیں تخلیق ہوئیں، ترانے گائے گئے اور ڈرامے سٹیج ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں سجاد ظہیر نے ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کی بنیاد رکھی اور ۱۹۳۶ء میں ’’انجمن ترقی پسندمصنفین‘‘ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس سیلاب بلا خیز کی نذر علما بھی ہونے لگے۔ مولانا عبیداﷲ سندھی مرحوم و مغفور، شاہ ولی ؒ اللہ صاحب کا نام لے کر روس سے واپسی کے بعد  ہندستانی قومیت، اشتراکیت اور اسلام کا ملغوبہ بنا کر معجون ِ مرکب کی طرح پیش کرنے لگے۔ ایک اور

صاحب ِعلم کا خیال تھا کہ موجودہ زمانے میں اشتراکیت اور اسلام کے امتزاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

علی گڑھ جیسی جگہ میں اس کے اثرات بہت تیزی سے پھیلے۔ اسلام اور اسلامی شعائر کا کھلے عام مذاق اڑایا جانے لگا۔ بعض علما بھی یہ سمجھنے لگے کہ: آخر اسلام کے اعتقادی تصورات اور نظام عبادت سے اشتراکیت کے اقتصادی تصورات کی کیا لڑائی ہے؟ مولانا مودودیؒ اس فتنے کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ قرآن کی معاشی تعلیمات پر مبنی کتاب لکھی۔ چن چن کر احادیث سے وضاحت کی کہ اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے۔ اسلام شخصی ملکیت کا حق دیتا ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان سے اس کی یہ آزادی چھین لے۔

۶-  سرمایہ داری اورسود کے فتنے کا خاتمہ: اشتراکیوں نے مولانا مودودی ؒکے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا۔ ان کا شمار ’’دائیں بازو‘‘ میں کیا۔ امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا۔ لیکن اسلام کا یہ سپاہی نہ اشتراکیت کا اسیر تھا اور نہ سرمایہ داری کا پابند۔ وہ خالص اور ٹھیٹھ اسلام کا قائل تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسلام ایک مکمل خدائی نظام ہے، اور یہ کسی خارجی انسانی پیوندکاری کا محتاج نہیں۔ یہ وحی پر مشتمل تعلیمات پر قائم ہے۔ ان کی کتاب  سود کے مباحث کا جائزہ لیجیے، جو تقسیم ہند کے وقت لکھی گئی۔

آج دنیا میں جہاں کہیں غیر سودی بنک کاری کی بات ہو رہی ہے‘ اس ڈور کے سرے مولانا مودودیؒ سے مل جاتے ہیں۔ مولانا کی فکر سے متاثر افراد نے ان جیسے عزم و اعتماد کو اختیار کرتے ہوئے اس طاغوتی اقتصادی نظام کے خلاف علم جہاد بلند کیے رکھا‘ اور غیر سودی نظام کے قیام کے لیے بنک کاروں اور مسلم سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی وغیرہ کانام بطور ہراول دستہ لیا جاسکتا ہے     ؎

گرمدعی حسد سے نہ دے داد، تو نہ دے

آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

۷-  اسلامی نظام تعلیم کے خدوخال کی وضاحت: نظام تعلیم کے حوالے سے بھی مولانا مودودیؒ کی فکر زیادہ گہری اور زیادہ عمیق ہے۔ وہ تمام اسلامی اور اقتصادی علوم کے علاوہ سائنسی علوم کو بھی اسلام میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر، سرسید احمد خان کی فکر سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اور نام نہاد ’اسلامی سکول‘ دراصل سرسید ہی کی فکر کی عملی تعبیر ہیں۔ سرسید کے تعلیمی ڈھانچے میں دینیات اور جدید علوم الگ الگ رہتے ہیں، ملتے نہیں۔ آیت قرآنی:  بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْـغِـیٰنِ o ( الرحمٰن۵۵:۲۰)‘ کے مصداق یہ دو دریا ہیں، جن کے درمیان ایک آڑ ہے۔ دینیات کا پروفیسر سود کو حرام بتاتا ہے‘ اور معاشیات کا پروفیسر کہتا ہے کہ اس کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ اسلامیات کا استاد کہتا ہے تم آدمؑ کی اولاد ہو‘ اور حیاتیات (بیالوجی) کا استاد کہتا ہے کہ تم بندر سے ہو۔ اس تضاد تعلیم کی پروردہ نسل ذہنی انتشار اور افتراق کاشکار رہی ہے۔

مولانا مودودیؒ چاہتے تھے کہ سماجی علوم (سوشل ساینسز) اور طبیعی علوم (فزیکل ساینسز)‘  یعنی فزکس، کیمسٹری، عمرانیات، اقتصادیات،جیالوجی (علم طبقات الارض)، فلکیات اور سائنس کے دیگر شعبوں کی کتابیں قرآن و سنت کی روشنی میں لکھی جائیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، احادیث وحی خفی پر مشتمل ہیں۔ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور سائنس حقیقت کی تلاش میں سفر پیہم کا نام ہے۔ کائنات کی تحقیق و جستجو کا مسافر ان تمام میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ کائنات فہمی سے قرآن فہمی میں اور قرآن فہمی سے کائنات فہمی میں مدد ملتی ہے۔ ان میں باہمی اختلاف ناممکن ہے اور بالفرض کہیں اس کا شبہہ بھی وارد ہو جائے تو یہ انسان کی کم فہمی اور کج فہمی اور تطابق کی صلاحیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری درسی کتابوں کے مصنف جدید ترین تحقیقات اور انکشافات سے کام لیتے ہوئے ایسی نصابی کتابیں مرتب کریں، جن میں قرآن و سنت کا آمیزہ (blend) ہو۔ طلبہ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جائے کہ قرآنی حقائق بدل نہیں سکتے اور نہ غلط ثابت کیے جا سکتے ہیں‘ بلکہ سائنس بدلتی رہتی ہے اور اپنے سابقہ موقف سے بار بار رجوع کرتی رہی ہے اور رجوع کرتی رہے گی، اور اس میں اس کی عافیت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک اصولی شاہراہ قائم کردی ہے۔ اس شاہراہ پر کام کو آگے بڑھانا اس میدان کے ماہرین کا کام ہے۔

۸-  تصوف پر جامع تنقید اور اس کی اصلاح: تصوف پر مولانا مودودی ؒنے بہت کم لکھا، لیکن جو کچھ لکھا اس میں تمام اصولی اور بنیادی باتیں آ گئی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کو اس اصطلاح سے کدّ نہیں ہے     ؎

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

البتہ وہ صوفیانہ رموز و اشارات سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں۔ احسان، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے عنوان سے گہرپارے ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ اپنے مخالفین، معاصرین، اور معترضین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ ’احسان‘ کا رہا ہے۔ کسی دینی مسئلے میں مولانا کو جہاں اختلاف کرنا پڑا، وہاں ذاتی باتوں سے ہٹ کر مولانا نے تنقید کی ہے لیکن بات ذاتیات تک پہنچنے لگی تو قلم اور زبان کو روک لیا۔ وہ احسان کے نہ صرف قائل تھے بلکہ صحیح معنوں میں اس پر عامل بھی تھے۔ ان کے بعض قریبی رفقا سے ان کی شب بیداری اور ذکر و تسبیح و مناجات کا انکشاف ہوا ہے‘ وہ ریاکاری سے کوسوں دُور تھے۔

۹-  فقہی مسائل میں اعتدال کا رویہ: مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک اہم خصوصیت فقہی مسائل میں اعتدال ہے۔ قدیم مسائل میں وہ تعبیر و تشریح کے اختلاف کو نہ صرف روا رکھتے ہیں‘ بلکہ لوگوں کو تحمل، برداشت اور کشادہ دلی کا مشورہ دیتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں وہ تمام فقہی مسالک کی آرا بلاتعصب نقل کرتے ہیں۔ مجھے شمالی امریکہ میں عربوں اور اخوان المسلمون کے حلقے میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، میں مختلف تفاسیر اور بالخصوص تفہیم القرآن کو پڑھ کر جاتا۔ مجھے وہاں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے برخلاف ہمارے دوسرے ساتھی جو صرف مخصوص قسم کی کتابیں پڑھ کر شریک حلقہ ہوتے انھیں دیگر مسالک و مذاہب کی باتیں نہ صرف حیران بلکہ بہت حد تک پریشان کر دیتیں۔ پانچ پانچ، دس دس دس سال کی رفاقت کے باوجود فکری بُعد دور نہ ہونے پایا۔

مولانا مودودیؒ کا قاری وسیع النظر اور وسیع القلب ہو جاتا ہے، اپنے تنگ فقہی دائرے سے نکل کر اسلام کی آفاقیت اور عالم گیریت میں ضم ہو جاتا ہے۔ بعض فقہی مسائل میں وہ اجتہاد سے کام لیتے، وہ کہتے کہ جب میں تحقیق کرتا ہوں تو اقرب الی الکتاب والسنہ کی پیروی کرتا ہوں اور جب مجھے اس کا وقت اور موقع نہیں ملتا تو مذہب حنفی کا اتباع کرتا ہوں۔ دیکھیے یہ کس قدر مثبت رجحان ہے۔ نہ ہر پرانی چیز کو رد کیا اور نہ تحقیق و اجتہاد کے دروازے کو بند کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے  الانصاف میں لکھا ہے کہ چوتھی صدی کے بعد احناف، مالکیہ اور حنابلہ میں مجتہدین فی المذاہب بہت کم پیدا ہوئے‘جب کہ شوافع میں بہت ہوئے اور مسلسل ہوتے رہے، جس کی بنیادی وجہ ان کا علم حدیث سے گہرا شغف اور انہماک تھا۔

برعظیم ہندو پاک کے حنفی علما میں مولانا عبدالحی لکھنویؒ (م: ۱۸۶۶ئ) علامہ انور شاہ کشمیری (م: ۱۹۳۴ئ)، مولانا اشرف علی تھانویؒ (م: ۱۹۴۳ئ) وغیرہ نے دلیل کی قوت کی بنا پر یا مصلحت عامہ کے پیش نظر بعض مسائل میں حنفی مذہب کو ترک کر کے مالکی اور شافعی یا حنبلی مذہب کے مطابق فتوی ٰ دیا ہے‘ یا اپنی ترجیحی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مودودی ؒنے بھی جرابوں پر مسح اور جمع بین الصلاتین جیسے مسائل میں یہی روش اختیار کی ہے۔

جدید مسائل میں مولانا نے نئی راہیں متعین کی ہیں۔ لائوڈ سپیکر ہی کا مسئلہ لیجیے۔ ہندستان کے ایک نہایت ہی قابل احترام اور صاحب علم و تقویٰ بزرگ سے ان کا اختلاف ہوا۔ مولانا نے انتہائی احترام اور کمال درجے کی شائستگی کے ساتھ ان کے ساتھ اختلاف کیا‘ جب کہ ہر دو طرف دلائل قوی اور جذبے صادق تھے۔ لیکن مولانا مودودیؒ کا مؤقف اصح تھا۔ خواتین کے بعض مسائل کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مالکیہ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ ذرا مولانا مودودیؒ کی حقوق الزوجین اٹھا کر دیکھیے، ان مظلومات کی کس عمدہ انداز میں دادرسی ہوئی ہے۔

مولانا کے اس منہج کو مولانا کے بعد ملک غلام علی مرحوم نے اپنایا۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی بعض مسائل میں حنفی مسلک ترک کر کے دیگر فقہا کی آرا کو ترجیح دی ہے، جنھیں  جدید فقہی مسائل اور فقہی مقالات (اول و دوم) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی کتاب اجتہاد و تقلید کا بغائر مطالعہ کیجیے‘ مولانا مودودی ؒکے اصول منہج سے اتفاق مل جائے گا۔

ہر لمحہ بدلتی ہوئی دنیا میں، جو عالم دین اور مفتی، علوم دینیہ پر مہارت کے باوجود اگر عصر حاضر کے بہتر شعور سے محروم رہے گا تو اس سے جدید فقہی مسائل میں بالخصوص اقتصادی اور طبی معاملات میں امت مسلمہ کی رہنمائی کا کام احسن انداز میں ممکن نہیں ہو گا۔

۱۰-  جدید نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے محفوظ رکھنا: مولانا مودودیؒ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی علوم و افکار اورجدید سائنس اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت سے نجات دلائی ہے۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کو ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، مقصد نہیں۔  پردہ مولانا کی وہ شاہکار تصنیف ہے (جس کے بعض اعداد وشمار اب پرانے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود) آج بھی جس کے مطالعے کے بعد مغرب زدہ خواتین جن میں ایمان کی رمق اور چنگاری موجود ہے‘ اپنے آپ کو ستر اور حجاب کی برکتوں سے مالا مال کر سکتی ہیں۔ اس کتاب نے کئی زندگیوں کے اندر انقلاب برپا کیا۔

اس کتاب کے دوسرے حصے میں مولانا نے جو ادبی زبان استعمال کی ہے اس پر اردو ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ فتنۂ خوشبو‘ فتنۂ لباس وغیرہ کے عنوان سے جو پیراگراف ہیں، انھیں میں اپنے دوستوں کو بار بار پڑھ کر سناتا ہوں اور کسی مرصع غزل یا مربوط نظم کی طرح داد وصول کرتا ہوں۔ تنقیحات کے مضامین نے تو کتنے ہی باکمال اور خدا ترس بزرگوں کو مولانا کی تحریروں کا شیدا بنا دیا۔

۱۱-  دین کا جامع تصور: مولانا مودودیؒ کا ایک اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام کی حیثیت سے پیش کیا۔ رہبانیت نے اس کو محض عبادات تک محدود کرنے کی کوشش کی اور اشتراکیوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے    اس قسم کی ساری گرد صاف کر کے اس کی اصل تصویر دکھا دی۔ قرآن و سنت کی تمام تعلیمات        بے کم و کاست پیش کیں، نہ اس سے زیادہ، نہ اس سے کم۔ یہ دین عقائد، احکام، عبادات، معاشرت، معیشت، احکامِ صلح و جنگ، حکومت و فرمانروائی، عدالت و قضا، ا جتماعی عدل، معاملات وغیرہ وغیرہ، غرض ان تمام چیزوں پر محیط ہے، جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ یہ خالقِ کائنات کا تجویز کردہ دین ہے اور اس طرزِ حیات کے علاوہ کوئی اور منہج اسے قابلِ قبول نہیں ہے۔

مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں حضرت ابوبکرؓ کی ثابت قدمی کا اعادہ کرتے ہوئے، دن کے اجالے میں اور بھری دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ میرے جیتے جی اس دین میں کانٹ چھانٹ اور کتربیونت نہیں ہو سکتی (جیسا کہ رسول ؐ کے انتقال کے بعد، بعض اہل ثروت نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا‘ مگر حضرت ابوبکرؓ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے تھے)۔ اسلام نہ کانٹ چھانٹ پسند کرتا ہے اور نہ پیوندکاری۔ یہ ایک خالص چیز ہے۔  اَلَالِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُط (الزمر ۳۹:۳)’’یاد رکھو کہ اطاعت ِخالص کا سزا وار اﷲ ہی ہے‘‘۔

۱۲-  مختلف مکاتب فکر کے علما کو اصولی موقف پر جمع کرنا: اس ناچیز کے خیال میں مولانا مودودیؒ کے کارناموں میں سب سے اہم کارنامہ جس کی آج بھی ہمیں سخت ضرورت اور احتیاج ہے، وہ مختلف المسالک علما کو فروعی اختلافات کے باوجود نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے لیے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنا ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر (اگست ۱۹۴۱ئ) میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے علما فقہی اور کلامی مسائل میں میری شخصی اور ذاتی رائے کے پابند نہیں ہوں گے، بلکہ وہ اپنی تحقیق و آرا میں آزاد ہوں گے۔

مولانا مودودیؒ کے قلم کی قوت اور تحریر کی تاثیر تھی کہ بے شمار جدید تعلیم یافتہ افراد، جن میں انجینئر، سائنس دان، ڈاکٹر، ماہرین معیشت، قانون دان، ادیب، اساتذہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کتاب و سنت کے وارث علما جیسے l دارالعلوم دیوبند سے: مولانا محمد منظور نعمانی، مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل،مولانا محمد چراغ (گوجرانوالہ) مولانا عامر عثمانی، مولانا معین الدین خٹک‘ مولانا مفتی محمد یوسف وغیرہ،

  • مدرسۃ الاصلاح، سراے میر، اعظم گڑھ سے: مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا اختراحسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا عبدالحسیب اصلاحی، مولانا عبدالعلیم اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، مولانا حامد علی، مولانا محمد یوسف اصلاحی وغیرہ۔
  • ندوۃالعلما سے: مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا سید سلمان ندوی ایڈیٹر الـدعوۃ، مولانا مطیع اللہ کوثر یزدانی ندوی وغیرہ۔
  • جامعۃدارالعلوم عمر آباد (جنوبی ہند) سے: مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید امین عمری‘ مولانا عبدالرحمن عمری (ابوالبیان حماد)،
  • مظاہرالعلوم سہارن پور سے: شیخ التفسیر مولانا زکریا قدوسی مظاہری، مولانا مظاہرالحق مظاہری، مولانامحمد عزیز مظاہری، مولانا گلزار احمد مظاہری وغیرہ۔
  • اہل حدیث علما سے: شیخ الحدیث مولانا عبدالغفار حسن، حکیم محمد عبداﷲ ‘حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا شمس پیرزادہ وغیرہ۔
  • پھلواروی شریف‘ بہار سے: مولانا سید احمدعروج قادری وغیرہ شامل ہیں۔ جو سب جوق در جوق جماعت سے وابستہ ہوتے گئے۔ بعض علما کو یہاں تک کہتے سنا گیا کہ ہم کانگریس میں تھے اگر ہم مولانا مودودی کی تحریریں نہ پڑھتے تو شاید ہماری موت کفر پر ہوتی۔

یہ صلابت فکر اور ترجیحات کا یہ صحیح تعین اور مزاج کا یہ اعتدال علما کو مشترک اور متفق علیہ باتوں پر ڈٹ جانے اور صحابہ کرامؓ کی طرح جزوی اختلافات کے باوجود باہم شیر وشکر ہو جانے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے اور دشمنان دین کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اتحاد ملت کا یہ سبق سورۂ آل عمران کا عمود ہے۔ کافروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سورہ میں تین بنیادی ہدایات دی ہیں۔

  •  اولاً، اہل کتاب کو اسلام کی دعوت، ان سے مباحثہ، مکالمہ مجادلہ حسن، مناظرہ، اور مباہلہ کی ہدایات ۔l ثانیاً، اہل کتاب کی سازشوں اور شرپسندی سے خود محفوظ رہنے اور دوسرے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا اور l ثالثاً‘ مسلمانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق‘ حبل اللہ سے اجتماعی اعتصام، صبر اور تقویٰ کا التزام اور احد کی شکست سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت ہے۔

فروعی اور اجتہادی مسائل میں مولانا مودودیؒ نہ تو خود اپنی ذاتی رائے سے دست بردار ہوتے ہیں، جن کی بنیاد خود ان کی تحقیق ہوتی ہے اور نہ دوسرے علما کو اپنی آرا ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ البتہ اجتماعی امور میں وہ سب کو مشترک موقف اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور خود بھی ہمیشہ اس کے پابند رہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے علما کو یہ سبق دیا ہے کہ وہ باہمی محبت اور احترام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے علما نے جماعت اسلامی میں شامل رہ کر، اپنی تحقیق کی روشنی میں عقیدت اور احترام کے باوجود، غلو سے بچتے ہوئے، مولانا مودودیؒ سے اختلاف کرنے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ یہاں مولانا چراغ  ؒ، مولانا معین الدینؒ خٹک، مفتی سیاح الدین کاکاخیلؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے، اور یہی ہر بڑے عالم اور محقق کے شایانِ شان ہے۔

ہمیں مولانا مودودیؒ سے محبت ہے بلکہ شدید محبت، اور یہ محبت لِلّٰہ ہے، اور ان کی اسلامی خدمات کی وجہ سے ہے۔ وہ ہمارے محسن ہیں، لیکن ان سے زیادہ ہماری وفاداری رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے، جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے لیے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور دنیا کے دیگر تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں (متفق علیہ)۔ اور ان سے زیادہ ہماری محبت اپنے خالق اور مالک سے ہے‘ جس کے بارے میں قرآن مجید خبر دیتا ہے:  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًا لِّلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ خود مولاناؒ نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ مَا قال کو دیکھو،  مَنْ قَال کو مت دیکھو۔ ہمیں ہر قسم کے تعصب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے محکم نصوص اور دلیل کی قوت پر نگاہ رکھنی چاہیے۔

مولانا مودودیؒ اپنے قاری کی تربیت کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں کہ وہ شریعت کے    منشا و مزاج کو پا کر‘ اپنی فکر میں مسائل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ لیتا ہے۔ لکیر کے اس طرف وہ مسائل ہیں جن میں تمسّک اور اعتصام لازمی ہے اور دوسری طرف وہ مسائل ہیں جہاں لچک، نرمی، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔ اور یہی امت وسط کے اقتصاد و اعتدال کی راہ ہے۔

۱۳- آئینی اور جمہوری راستہ: مولانا مودودیؒ نے عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کو خفیہ جدوجہد کے بجاے آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی دنیا کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ مولانا کا مشورہ کس قدر صحیح اور صائب تھا۔ مغربی دنیا اپنے باطنی حسد کے باوجود آئینی اور جمہوری اسلامی تحریکوں کا راستہ بند کرنے کا کوئی اخلاقی جواز ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسلامی دعوت کو کھلم کھلا اور علی الاعلان ہونا چاہیے، اور یہی انبیا کا منہج ہے۔

جماعت اسلامی کا مرکز جب دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ میں قائم ہو گیا اور مولانا مودودیؒ اپنے رفقا کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئے‘ توکافی رفقا کی موجودگی کے باوجود مولانا خود کو تنہا محسوس کرنے لگے۔ ملک اور بیرون ملک میں تحریک اسلامی کو متعارف کرنے اور اقامت دین کو ایک عالمی تحریک کی حیثیت دینے کے لیے مولانا مودودی ؒکو اپنے دو جلیل القدر رفقا کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوئی۔ ان دونوں کو مرکز جماعت دارالاسلام بلانے اور اپنے ساتھ ٹھیرائے رکھنے کے لیے مولانا مودودیؒ نے مسلسل جدوجہد شروع کر دی۔ ان میں سے ایک بزرگ مولانا امین احسن اصلاحیؒ تھے‘ جو مدرسۃ الاصلاح‘ سراے میر میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور دوسرے بزرگ مولانا مسعود عالم ندویؒ تھے‘ جو خدا بخش لائبریری‘ پٹنہ میں کیٹلاگر کی حیثیت سے ملازمت کر رہے تھے۔

مولانا مودودیؒ نے دونوں حضرات سے رابطہ پیدا کیا‘ اور انھیں توجہ دلائی کہ وہ دونوں دارالاسلام چلے آئیں اور اقامت دین کے عظیم نصب العین کو بروے کار لانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں۔ مولانا مودودی ؒکی پُرخلوص دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مدرسۃ الاصلاح سراے میر سے فوراً ہی چلے آئے اور کچھ عرصے بعد ۱۹۴۵ء میں مولانا مسعود عالم ندویؒ بھی خدا بخش لائبریری پٹنہ سے دارالاسلام پہنچ گئے۔دونوں حضرات تشریف لائے تو مولانا مودودیؒ کو یوں محسوس ہوا کہ انھیں دست و بازو مل گئے۔ مولانا مودودیؒ کی گرفتاریوں کے دوران میں یہ دونوں حضرات قائم مقام امیر بھی رہے۔

مولانا اصلاحیؒ، سراے میر سے چلے تو دارالاسلام ہی پہنچے اور مولانا مودودی ؒکے ساتھ مستقل طور پر وہیں ٹھیر گئے‘ لیکن مولانا مسعود عالم ندویؒ پٹنہ سے روانہ ہوئے اور دارالاسلام میں کچھ دن ٹھیرے تو وہاں کی آب و ہوا ناساز گار ہونے کے باعث دارالاسلام میں ٹھیر نہ سکے‘ کیونکہ آپ ضیق النفس (دمہ) کے مستقل مریض تھے۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ کے لیے مناسب مقام تلاش کیا گیا تو آپ کی طبیعت کے حسب حال جالندھر کے قریب ایک بستی مل گئی‘ جس کا نام بستی دانشمنداں تھا۔ بہرحال یہ دونوں حضرات طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر مرکز جماعت پہنچے اور قافلۂ سخت جاں کی صف اول میں شامل ہو گئے۔

میری خوش نصیبی اور خوش قسمتی تھی کہ میں ۱۹۴۴ء کے آخر میں جامعہ قاسم العلوم لاہور پہنچا اور استاذ محترم حضرت مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمۃکی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر ’’تخصص فی التفسیر میں داخلہ لے لیا‘‘ اور پھر ۱۹۴۵ء میں سند تفسیر حاصل کر کے لاہور ہی میں ٹھیرا ہوا تھا۔ اب میری علمی مصروفیت کا اگلا مرحلہ دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ میں قیام اور اکابرجماعت کے فیوض و برکات سے استفادہ تھا۔ چنانچہ میں نے‘ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ سے مراسلت کے ذریعے دارالاسلام میں حاضری کی اجازت مانگی۔ مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر محترم میاں طفیل محمد صاحب قیم جماعت نے جواب دیتے ہوئے‘ مولانا مودودی کی طرف سے منظوری عنایت فرما دی کہ میں دارالاسلام حاضر ہوسکتا ہوں۔ مولانا کی طرف سے اجازت ملنے پر میں نے اطلاع دی کہ میں فلاں تاریخ کو لاہور سے دارالاسلام پہنچ رہا ہوں۔ مقررہ تاریخ کو میں نے رخت سفر باندھا اور لاہور سے ٹرین کے ذریعے روانہ ہو گیا۔ دارالاسلام پہنچنے کے لیے اس کے بالکل قریب ریلوے اسٹیشن کا نام ’سرنا‘ تھا۔

میرے دارالاسلام پہنچنے کی اطلاع مولانا مودودی کو قبل از وقت مل چکی تھی‘ اس لیے مولانا نے از راہ شفقت میرے استقبال کے لیے اپنے ایک نہایت عزیز رفیق کو ’سرنا‘ اسٹیشن روانہ فرما دیا۔ اسٹیشن پر ٹرین سے اترتے ہی وہ صاحب آگے بڑھے‘ میرا نام دریافت کیا۔ میں نے نام بتایا تو موصوف نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ میں ان کے ساتھ دارالاسلام چلوں۔ میرے منع کرنے کے باوجود بڑے اصرار کے ساتھ انھوں نے میرا سامان بھی اٹھا لیا۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ لے گئے اور مہمان خانے میں ٹھیرا دیا۔ کچھ ہی دیر بعد مولانا مودودی‘ مولانا امین احسن اصلاحی و دیگر رفقاء کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا۔ پھر میں نے کسی سے دریافت کیا: ’’دارالاسلام سے مولانا مودودی کی ہدایت پر جو صاحب مجھے لانے کے لیے ’سرنا‘ اسٹیشن پر تشریف لائے‘ وہ کون تھے؟‘‘ اپنے سوال کا جواب ملنے پر رفقاے جماعت کی شفقت و محبت اور بے نفسی و بے لوثی کا حال معلوم کر کے میں حیران رہ گیا‘ میرے استقبال کے لیے آنے اور میرا سامان اٹھا کر مجھے اپنے ساتھ لے جانے والے صاحب محترم المقام ملک غلام علی ؒتھے۔

قیام دارالاسلام کے سلسلے میں مولانا مودودی سے میں نے مشورہ کیا تو مولانا نے میری خیرخواہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے خلوص کے ساتھ یہ مفید مشورہ دیا کہ میں دارالاسلام کے بجاے ’بستی دانشمنداں‘ جالندھر میں ’دارالعروبہ‘ میں رہ کر مولانا مسعود عالم ندوی سے فیض حاصل کرتا رہوں۔ جس کی ایک وجہ مولانا مودودی نے یہ بتائی: ’’دارالاسلام میں تحریک اسلامی کے کام کی جو موجودہ نوعیت ہے‘ اس کے لحاظ سے باصلاحیت افراد کی بہت کمی ہے‘ سبھی لوگ ہر وقت مصروف رہتے ہیں اس لیے افادے اور استفادے کے لیے آپ کو وقت نہیں دے سکیں گے‘ دوسری وجہ یہ کہ دارالعروبہ میں مولانا مسعود عالم تنہا اور اکیلے ہیں۔ لہٰذا‘ انھیں رفقاے کار کی ضرورت ہے‘‘۔ اس کے ساتھ مولانا نے یہ بھی فرمایا: ’’آپ ’دارالعروبہ‘ سے برابر دارالاسلام آتے جاتے رہیں گے اور دونوں مقامات سے فیض یاب ہوتے رہیں گے‘‘۔ میں نے خوشی کے ساتھ مولانا کے مفید مشورے کو قبول کر لیااور جالندھر پہنچ کر دارالعروبہ میں ٹھیر گیا۔ ’دارالعروبہ‘ کی تاسیس کے موقعے پر میرے علاوہ‘ دوصاحبان اور مولانا ندوی کے رفیق کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ایک تو تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن اور جلیل القدر عالم سید جلیل احسن ندوی تھے اور دوسرے مولانا عمر قطبی تھے۔ مولانا مودودی کے مشورے کے مطابق میرا معمول یہ رہا کہ میں تقریباً ہر ماہ زیادہ وقت ’دارالعروبہ‘ میں اور تھوڑا وقت دارالاسلام میں گزارتا تھا۔ وقتاً فوقتا مولانا مسعود صاحب کا کوئی پیغام لے کر مجھے مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ میں جب بھی دارالاسلام پہنچتا‘ وہاں جن حضرات سے ملاقات کر کے ان سے فیض یاب ہونے کی خواہش مجھے ہوتی‘ ان میں سب سے زیادہ اہم شخصیت مولانا مودودی ہی کی تھی۔

دارالاسلام میں دن بھر تمام رفقا مصروف رہتے تھے۔ نماز مغرب کے بعد مسجد میں مولانا مودودی کی مجلس ہوتی تھی‘ جس میں تحریک اسلامی کے مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مولانا مودودی سے کچھ سوالات کرتے تھے‘ جن کے اطمینان بخش جوابات مولانائے موصوف دیا کرتے تھے۔ یہ مجلس بالکل خشک بھی نہیں ہوتی تھی‘ بلکہ مجلس میں گاہے گاہے ظرافت کے پھول بھی  کھل اٹھتے تھے۔ مولانا مودودی کی عظیم شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انتہائی متانت و سنجیدگی کے باوجود ظرافت و مزاح کی چاشنی آپ کی گفتگو میں سامعین کو مل جاتی تھی۔

ایک دن جیسے ہی نماز مغرب ختم ہوئی حسب معمول مولانا مودودی کی مجلس شروع ہو گئی۔ حاضرین مجلس ہمہ تن گوش ہو کر مولانا کی طرف متوجہ ہوئے۔ حاضرین مجلس میں زیادہ تر آپ کے رفقا ہی تھے۔ مولانامحترم نے رفقا کے سامنے اس وقت کا ایک اہم مسئلہ مشورے کے لیے رکھا۔ یہ مسئلہ مرکز جماعت‘ دارالاسلام کاکسی اور بہتر مقام پر منتقلی کا تھا۔ کیونکہ بعض ایسے نامساعد و ناسازگار حالات پیدا ہو گئے تھے‘ جن کے باعث مولانا مودودی کی تجویز تھی کہ مرکز کو موجودہ مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ مولانا اپنی تجویز کے سلسلے میں رائے طلب کرنے لگے۔ جتنے بھی حضرات مجلس میں موجود تھے ان میں سے ہر شخص نے اپنی اپنی صواب دید کے مطابق مرکز کی تبدیلی کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ لیکن معلوم نہیں اس دن مولانا امین احسن اصلاحی کے مزاج کا کیا عالم تھا کہ وہ بالکل خاموش تھے‘ کچھ بول نہیں رہے تھے اور کوئی مشورہ بھی نہیں دے رہے تھے۔ مولانا مودودی ان سے براہ راست دریافت بھی نہیں کر رہے تھے۔ اتنے میں کسی رفیق نے مولانا کو توجہ دلائی: ’’اصلاحی صاحب کی بھی اس ضمن میں رائے آ جائے‘‘۔ اپنے رفیق کی بات سن کر مولانا مودودی کی رگ ظرافت پھڑکی اور مولانا اصلاحی کو شگفتہ انداز میں چھیڑنے کی غرض سے مولانا مودودی فرمانے لگے: ’’ارے بھائی‘ مولانا امین احسن صاحب سے اگر میں مشورہ لوں تو وہ اس کے سوا اور کیا کہیں گے کہ مرکز جماعت کو ’’راہون‘‘ میں منتقل کر دیا جائے‘‘۔ مولانا مودودی کا یہ جملہ سن کر رفقاے کرام مسکرانے لگے‘ مولانا امین احسن بھی محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بے ساختہ ان کے لبوں پر بھی تبسم کے پھول کھلنے لگے۔ ’’راہون‘‘ امین احسن صاحب کا عقد مسنون ہونے کی وجہ سے مولانا کا سسرال بن گیا تھا‘ اسی لیے مولانا مودودی کو انھیں چھیڑنے کا موقع مل گیا۔ مولانا مودودی کے چھیڑنے پر بھی مولانا امین احسن صاحب محو سکوت رہے۔ پھر ان کے کچھ اور بے تکلف احباب انھیں مزید چھیڑنے لگے‘ جس کے باعث مولانا امین احسن کی حالت کچھ اسی طرح کی ہو گئی:    ؎

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا

اور چپ بھی رہا نہیں جاتا

آخر مولانا اصلاحی فرمانے لگے: ’’آپ حضرات کی چھیڑ چھاڑ پر مجھے ایک پرانا قصہ یاد آگیا ہے‘‘۔ سب نے کہا: ’’مولانا! براہ کرم ہمیں بھی وہ قصہ سنا دیجیے ‘‘۔ پھر مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں باپ‘ بیٹے اور گدھے والا مشہور قصہ سنایا۔ یہ قصہ سنا کر مولانا اصلاحی فرمانے لگے : ’’کوئی شخص دنیا کے سبھی لوگوں کو مطمئن اور خوش نہیں کر سکتا‘ لہٰذا میں بھی آپ حضرات کی چھیڑ چھاڑ کا جواب دینے کے بجاے خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں‘‘۔

اس کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور حاضرین مجلس نماز عشاء کی تیاری کرنے لگے۔ نماز کا ذکر آیا تو میں یہ بھی عرض کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ دارالاسلام کی مسجد میں جہری نمازیں مولانا مودودی ہی پڑھایا کرتے تھے۔ کئی نمازیں آپ کی اقتدا میں پڑھنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی تھی۔ مولانا جہری نمازوں کی جب امامت کرتے اور قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو آپ کی قرأت اگرچہ سادگی و پرکاری کا نمونہ ہوتی‘ لیکن اس میں سوز‘ درد اور گداز کی جو عجیب و غریب کیفیت ہوتی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

مولانا مودودی جیسی عبقری شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوا کرتیں بلکہ مدتوں اور قرنوں میں ایسے یگانۂ روزگار بندگانِ پروردگار روے زمین پر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں شرکت کے لیے مولانا مودودیؒ کی رفاقت میں سفر کے مواقع بھی مجھے ملتے رہے‘ جس کی بدولت آپ کے فیوض سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ کاروان علم و فضل کی صف اول میں جن حضرات کو شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے‘ ان میں زیادہ تعداد ایسے ہی علماے کرام کی ہوا کرتی ہے‘ جو اگرچہ کچھ نہ کچھ واقفیت علوم و فنون کے جملہ گوشوں سے رکھتے ہیں‘ لیکن درجۂ تخصص کسی ایک ہی شعبۂ علم میں انھیں حاصل رہتا ہے۔ مولانا مودودی کو اﷲ تعالیٰ نے بڑی فیاضی کے ساتھ دولت علم و فضل سے نوازا تھا۔ وہ ایک طرف جہاں معتبر مفسر قرآن تھے‘ وہیں دوسری طرف سنت نبوی اور حدیث پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔‘ جس طرح وہ سحر طراز انشا پرداز اور ممتاز ادیب تھے‘ اسی طرح ایک دانش پرور خطیب بھی تھے۔

مولانا مودودیؒ کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اس کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ جو آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت اور     صدقۂ جاریہ ہے وہ چھ جلدوں میں آپ کی تفسیر تفہیم القرآن ہے۔ تفسیر آپ کی حیات مستعار کی یادگار بھی ہے اور آپ کی علمی و دینی خدمات کا عظیم شاہ کار بھی۔

مولانا مودودیؒ سے میری آخری ملاقات مدراس کے اس یادگار اور تاریخی اجتماع میں ہوئی جو ۲۶ اپریل ۱۹۴۷ء کو منعقد ہوا تھا۔ یہ اجتماع اس حیثیت سے منفرد نوعیت کا حامل تھا کہ یہ پورے جنوبی ہند بہ شمول حیدر آباد کے جملہ وابستگان جماعت اسلامی کا اجتماع تھا‘ جسے برعظیم میں جماعت کا آخری اجتماع بھی کہا جا سکتا ہے۔ اجتماع منعقد ہونے سے قبل جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفین نے عوام میں جو غلط فہمیاں پھیلائی تھیں‘ ان میں ایک بے ہودہ الزام یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی کا تعلق کانگرس سے ہے۔ اس غلط فہمی کا شکار سب سے زیادہ مسلم لیگ تھی‘ جس کا عامۃ المسلمین پر غیرمعمولی اثر تھا۔ پہلے دن جیسے ہی اجتماع کی کارروائی شروع ہوئی‘ اجتماع گاہ میں غنڈا گردی شروع ہوگئی۔ مفسد عناصر کی بھیڑ اجتماع میں داخل ہوئی اور اس نے توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع کر کے ہنگامہ برپا کر دیا۔ پہلے تو معاملہ شور و غل اور نعرہ بازی تک محدو درہا‘ مگر کچھ دیر بعد سنگ باری ہونے لگی‘ تاہم رفقا اور شرکا برابر اجتماع میں بیٹھے رہے اور ذمہ دار حضرات ہڑ بونگ مچانے والوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ کچھ پتھر اسٹیج کی طرف بھی آنے لگے۔ میاں طفیل محمد صاحب جو اجتماع کی کارروائی چلا رہے تھے اسٹیج ہی پر بیٹھے رہے۔ میں میاں طفیل محمد صاحب سے بار بار کہہ رہا تھا کہ اسٹیج پر سے اٹھ کر آجائیے۔ لیکن وہ اپنی جگہ پر جم کر بیٹھے رہے اور مجھے سمجھاتے رہے کہ آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں‘ اﷲ ہمارا محافظ ہے۔ اتنے میں مسلم لیگ کے ذمہ دار آئے اور شورش پسند کارکنوں کو اجتماع گاہ سے باہر لے گئے۔ اجتماع گاہ کو چونکہ درہم برہم کر دیا گیا تھا‘ اس لیے شرکا اجتماع کو قریب ہی میں واقع اس کوٹھی میں پہنچا دیا گیا جہاں مولانا مودودی بطور مہمان ٹھیرے ہوئے تھے۔ یہ کوٹھی معروف تاجر محترم نذیر حسین صاحب پنجابی کی تھی‘ جن کا شمار مولانا مودودی کے حلقۂ احباب میں ہوتا تھا۔ اجتماع کی بقیہ ساری کارروائی اسی کوٹھی میں ہوتی رہی ۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی کا خطابِ عام آپ کی غیرمعمولی سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تھا۔ مولانا کے خطاب عام سے پہلے تک میرا اندازہ یہی تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں نہیں آئے گی اور ہندستان اپنی متحدہ شکل ہی میں قائم رہے گا۔ لیکن مولانا نے خطاب کرتے ہوئے جب یہ فرمایا: ’’ہمارے ملک میں جلد ہی ایک تغیر واقع ہونے والا ہے‘ میں جس تغیر کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے گا‘‘۔ اثناے تقریر میں جب یہ کلمات میں نے سنے تو مجھے اپنی زندگی بھر کا یہ اندازہ بدلنا پڑا کہ ہندستان متحد رہے گا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ جب مولانا مودودی کہہ رہے ہیں کہ ہند تقسیم ہو گا تو میرے لیے اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مولانامحترم کی اس رائے کو میں ان کی سیاسی بصیرت ہی نہیں بلکہ ان کی مومنانہ فراست کا اظہار سمجھتا ہوں‘ جیساکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:  اِتَّقُوا فَرَاسَۃَ المُومِن فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ مِن نُور اللّٰہِ، مومن کی غیرمعمولی ذہانت سے بچو کیونکہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا یہ بصیرت افروز خطاب پہلے ہندستان میں تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل کے عنوان سے شائع ہوا‘ اور اب خطبۂ مدراس کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ اس عظیم الشان ہنگامہ خیز‘ غیر معمولی نوعیت کے تاریخی اجتماع میں شروع سے آخر تک میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ اجتماع کے اختتام پر مولانا جب مدراس سے واپس ہونے لگے‘ اس وقت بھی مدراس ] چنائے[ کے سنٹرل اسٹیشن پر مولانا کو پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ ۵۶ سال پہلے یہ تھی میری آخری ملاقات مولانا مودودی سے‘ جسے میں اپنی زندگی کی سب سے اہم سعادت سمجھتا ہوں۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

یہ وہ چراغ ہے‘ جس کی حفاظت و نصرت کا وعدہ خود رب کریم نے کیا ہے۔ جب بھی طاغوت کی پھونکیں اس کو گل کرنے کے لیے حرکت میں آتی ہیں‘ رب کریم اس کی لو بڑھانے کا کام خود کرتا ہے۔ کبھی امام غزالی ؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانی ؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے روپ میں علم کے ہتھیاروں سے لیس اور کبھی محمد بن عبدالوہاب‘ سید احمد شہیدؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صورت میں علم‘ تحریک اور جہاد کے ہمہ پہلو مظہر کی صورت میں ان کا پیغام‘ عمل کے سانچے میں ڈھلے لاکھوں افراد کی صورت میں متحرک‘ شرار بولہبی سے برسرپیکار و مصروف جہاد نظر آ رہا ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صدی کے نہیں بلکہ صدیوں کے انسان اور صدیوں تک انسانوں کے محسن ہیں۔ ان شاء اللہ! اس چراغ سے جتنے چراغ جلے‘ جتنی ضو پھیلی اور اس میں جتنے بھٹکے ہوئوں کو  راہِ ہدایت نظر آئی‘ ہم سب ان کے احسان مند ہیں اور انھی میں وہ طبقۂ نسواں بھی ہے‘ جو ایک طرف جدید تعلیم یافتہ‘ دین دار اور باحجاب خواتین پر مشتمل ہے جو زندگی کے مختلف میدانوںمیں اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب وہ لاکھوں گھریلو خواتین ہیں‘ جو اسی چراغ کی روشنی میں اپنے مردوں کی قوامیت پر ’آمنا و صدقنا‘ کہتے ہوئے ایک حیات طیبہ بسر کر رہی ہیں اوراپنے نونہالوں کی تربیت کا فریضہ اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کر رہی ہیں۔

عورت‘ نوع انسانی کی تعمیر کا پہلا مکتب ہے۔یہی وجہ ہے کہ عورت زمانے کے اکثر ادوار میں سازشوں کا شکار رہی اور اکثر مذاہب میں مظلوم بھی رہی۔ حقوق انسانی سے تہی دامن‘ شرف انسانی سے فارغ بلکہ حق زندگی سے محروم جس کی گواہی خود قرآن نے دی:  وَ اِذَا الْمَؤْدَۃُ سُئِلَت o بِاَیِّ زَنْبٍ م قُتِلَتْo (التکویر۸۱:۸-۹) ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے نجات دہندہ بن کر بھی آئے‘ اور ان کو سربلندی بھی عطافرمائی۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے کے بجائے اسے اپنے جسم کا حصہ اور جگر کا ٹکڑا قرار دیا۔ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی اور نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا۔ باپ‘ شوہر‘ بھائی‘ بیٹا ہر رشتے میں مرد کو اس کا محرم اور محافظ قرار دیا۔ خطبہ حجۃالوداع کے منشور انسانیت میں عورت کے حقوق کا خیال رکھنے کی خاص طور پر تاکید فرمائی۔ لیکن صد افسوس‘ آج کفار و مغرب کو تو چھوڑیے خود مسلمان عورت ایک مرتبہ پھر ایک دوراہے پر کھڑی کر دی گئی ہے۔ بات محض حقوق کی نہیں کہ وہ تو اہلِ مغرب نے بھی ادا نہ کیے‘ بلکہ اس کے مقام اور دائرہ عمل کو متنازع بنانے کی ہے۔

ایک جانب مغرب زدہ میڈیا ہے الحاد پرست میڈیا‘ جس نے عورت کی عزت و حرمت اور حیا و پاک دامنی کو داغ داغ کر دیا ہے۔ دوسری جانب مخصوص ایجنڈے پر عامل این جی اوز ہیں‘ جو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے تحت ڈالروں کے عوض‘ تہذیب و ثقافت کا رخ دین سے لادینی اور حیا سے بے حیائی کی طرف موڑ دینے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔ تیسری جانب ایک طبقہ علما سوء کا بھی ہے جو ہر دور میں باطل کی سرپرستی کے لیے آموجود ہوتا اور خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے قرآنی آیات پر عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور آیات قرآنی کو نئے نئے معنی پہنا کر طاغوت اور خدا سے باغی لوگوں کی خدمت بجا لاتا ہے۔ وہ ہر ایسی چیز کے لیے اسلام کا دامن وسیع کر دینا چاہتے ہیں‘ جسے مغرب نواز طبقہ پسند کرتا ہے۔ مسلمان خواتین ان حالات میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ بحیثیت عورت ہمارا اصل مقام کیا ہے؟معاشرے میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی ہم ثانوی ہیں؟ کیا گھرداری اور بچوں کی پرورش واقعی دوسرے درجے کا ایک بے کار کام ہے؟ کیا تعلیم اور ووٹ ہمارا حق نہیں؟ کیا رزق حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمارا شامل ہونا گناہ ہے؟ ہمارا دائرہ عمل کون سا ہے؟ اور کون سے میدان کار ہمارے لیے درست ہیں؟ اور کہاں ممانعت کی حدبندی ہے؟

بہرحال آج کی باشعور مسلمان عورت ‘ سید مودودی ؒکے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی میں نہ صرف ان سوالوں کے جوابات پا چکی ہے‘ بلکہ پورے اطمینان قلب کے ساتھ دین دار عورت ان چیلنجوں سے نبرد آزما بھی ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ چیلنج مختلف النوع اور کثیر تعداد میں ہیں‘ لیکن ان کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے شان دار لٹریچر میں ہمہ پہلو اور وسیع معلومات کے خزانے اور رہنمائی کا مکمل سامان موجود ہے۔

خواتین کی حیثیت اور مقام سے لے کر دقیق فقہی مسائل تک‘ سبھی کچھ مولانا کے لٹریچر میں مل جاتا ہے اور پیش کیا جا سکتا ہے‘تاہم میں اپنی گفتگو کا دائرہ تحریک مساوات مرد و زن کے تناظر میں ’’عورت کا صحیح دائرہ کار‘‘ تک محدود رکھوں گی۔ میری کوشش ہو گی کہ گفتگو مولانا کی زبان میںہو اور اس ضمن میں نہ صرف ان کا نقطۂ نظر سامنے رکھا جائے‘ بلکہ یہ واضح کیا جائے کہ اس میدان میں انھوں نے ’مدنیت صالحہ‘ کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔

  • عورت کا دائرہ عمل: اس باب میں انسان کبھی افراط کا شکار ہوا‘ کبھی تفریط کا۔ جب کسی الہامی رہنمائی کے بغیر اس نے اس مسئلے کے حل کی کوشش کی تو اس کے ہواے نفس اور اس کی عقل نے اکثر اس کو دھوکا دیا اور بقول مولانا مودودیؒ: ’’انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اس کی نظر کسی ایک معاملے کے تمام پہلوئوں پر من حیث الکل حاوی نہیں ہو سکتی۔ ہمیشہ کوئی ایک پہلو اسے زیادہ اپیل کرتا ہے اور اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پھر جب وہ ایک طرف مائل ہو جاتا ہے تو دوسری اطراف یا تو اس کی نظر سے بالکل اوجھل ہو جاتی ہیں‘ یا وہ قصداً ان کو نظرانداز کر دیتا ہے‘‘۔ (پردہ‘ ص ۱۹۹)

چنانچہ عورت کے دائرہ کار پر بحث کرنے سے پہلے جو چیز مولانا مودودیؒ دلائل سے ثابت کرتے ہیں وہ ’مدنیت صالحہ‘ کے لوازم ہیں۔

اس تمدن میں وہ بنیادی اہمیت ’تاسیس خاندان‘ کو دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں: ’’انسان کے دل میں اولاد کی محبت تمام حیوانات سے زیادہ رکھی گئی ہے --- اس شدید جذبۂ محبت کی تخلیق سے فطرت کا مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق کو ایک دائمی رابطے میں تبدیل کر دے۔ پھر اس دائمی رابطے کو ایک خاندان کی ترکیب کا ذریعہ بنائے۔ پھر خونی رشتوں کی محبت کا سلسلہ بہت سے خاندانوں کو مصاہرت کے تعلق سے مربوط کرتا چلا جائے‘ پھر محبتوں اور مجبوبوں کا اشتراک ان کے درمیان تعاون اور معاملت کا تعلق پیدا کر دے‘ اور اس طرح ایک معاشرہ اور ایک نظام تمدن وجود میں آ جائے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۴۱)

یہ صالح معاشرہ انسان کو محض اس کی عقل یا حیوانی جبلت پر نہیں چھوڑ دیتا بلکہ اس معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو انسانیت کے لیے ایثار پر آمادہ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’تمدن کے وسیع کارخانے کو چلانے کے لیے جن پرزوں کی ضرورت ہے وہ خاندان کی اس چھوٹی سی کارگاہ میں تیار کیے جاتے ہیں --- زمین پر اپنی زندگی کا پہلا لمحہ شروع کرتے ہی بچے کو خاندان کے دائرے میں محبت‘ خبرگیری‘ حفاظت اور تربیت کا وہ ماحول ملتا ہے‘ جو اس کے نشوونما کے لیے آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں‘ بلکہ جو اپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبے پر پیدا ہوا ہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔ دنیامیں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے اپنے سے بہتر حالت میں اور خود اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں ---- ایسے مخلص کارکن (labourers) اور ایسے بے غرض خادم (workers) تم کو خاندان کی اس کار گاہ کے باہر کہاں ملیں گے‘ جو نوع انسانی کی بہتری کے لیے نہ صرف بلا معاوضہ محنت صرف کریں‘ بلکہ اپنا وقت‘ اپنی آسایش‘ اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کا سب کچھ اس خدمت میں صرف کر دیں۔ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوں‘ جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہوں؟ کیا اس سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرا بھی ہے‘‘ (ایضاً‘ص ۱۵۳ - ۱۵۴)۔ ’’صنفی میلان کو خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام کا ذریعہ بنانے کے بعد اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے‘ اور یہاں بھی وہ پورے توازن کے ساتھ قانون فطرت کے ان تمام پہلوئوں کی رعایت ملحوظ رکھتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۳۲)

اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس کے مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے۔ المراء ۃ راعیۃعلیٰ بیت زوجھا و ھُوَ مَسْئولَۃ‘ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے۔ اور وہ اپنی حکومت کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ مولانا کے نزدیک مرد اور عورت کے دائرہ عمل کا تعین کوئی سرسری بات نہیں ہے یا یہ محض ایک ایشو نہیں ہے‘ بلکہ یہ تمدن کی ایک بڑی اہم اور اساسی نوعیت کی بنیاد ہے۔ معاشرے کی تعمیر کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فطرت نے جس کے ذمے جو فرض لگا دیا ہے‘ وہ اسی کو ادا کرے۔ جہاں کوئی صنف اپنے حصے کا کام چھوڑ کر دوسری صنف کے کرنے کا کام سنبھالے گی‘ وہ خود بھی نقصان اٹھائے گی‘ اور معاشرہ بھی بری طرح اس کے نتائج کو بھگتے گا۔

مولانا مودودیؒ اس ضمن میں اسلام کی روح کو واضح کرتے ہوئے نہ کسی جدید تحریک سے مرعوب نظر آتے ہیں اور نہ قدیم تہذیب کے کسی ایسے اصول کو مانتے ہیں جو اسلام کی اصل روح سے ٹکراتا ہو۔ نہ جامد تقلید کے قائل ہیں‘ نہ ہر چلتے ہوئے سکّے کو اسلامی ثابت کرنے والوں کی مذمت سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ ترقی کے نام پر عورت کو گھر سے باہر نکال کر کارخانوں میں لگا دینے اور تمدن کی ترقی کے اہم ترین کارخانے کو نظر انداز کر دینے کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ ’پردے میں رہ کر عورت ملک کی ترقی میں معاون بننے کے بجاے رکاوٹ بنتی ہے‘ اس کے جواب میں‘ میں پوچھتا ہوں کہ ترقی میں آخر نئی نسلوں کو پرورش کرنا اور ان کو اچھی تربیت دینا بھی شامل ہے یا نہیں؟ وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس میں بچوں کو اول روز سے ماں اور باپ کی محبت نصیب نہ ہو اور پیدا ہوتے ہی بچوں کو وہ ادارے سنبھال رہے ہوں جن کے کار پرداز بہرحال ماں باپ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان بچوں کو ابتدا ہی سے محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور جن بچوں کو بچپن میں ماں باپ کی محبت نصیب نہیں ہوتی وہ حقیقت میں انسان بن کر نہیں اٹھتے۔ آج دنیا میں جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اور  کم سنی کے جرائم نے معاشرے کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ پیدا کر دیا ہے‘ اس کا سبب یہی ہے کہ اب دنیا کی باگیں ان نسلوں کے ہاتھ میں آ رہی ہیں‘ جنھوں نے ماں باپ کی محبت نہیں دیکھی ہے۔ اور جہاں خون کے رشتوں تک میں محبت نہ ہو‘ وہاں انسانی محبت کا کیا سوال؟ ایسے انسان تو پھر خود غرضی کے پتلے اور آدمیت کے احساسات سے خالی ہی ہوں گے‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص۲۸)

’’یہ معلوم ہوتا ہے کہ ]مغرب میں[ خاندانی تعلق کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ باپ کا بیٹی سے اور بیٹی کا ماں سے اور بھائی کا بھائی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ملک کی ’ترقی‘ کا مفہوم صرف معاشی پیداوار کی ’ترقی‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے لیے عورتوں اور مردوں‘ سب کو لا کر معاشی میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور خاندانی نظام کے برباد ہونے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ حالانکہ ترقی صرف معاشی پیداوار بڑھانے کا نام نہیں ہے۔ اگر عورتیں گھروں میں نئی نسل کو تربیت دیں‘ انسانیت سکھائیں‘ ان کے اندر اعلیٰ اخلاق اور خدا ترسی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہ بھی ترقی ہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ملک کی ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ نہیں ہے کہ مرد بھی کارخانوں میں جا کر کام کریں اور عورتیں بھی …] بلکہ[ ترقی کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو انسانیت کی تربیت دے کر تیار کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں انسانیت کے رہنما بننے کے قابل بنیں‘ چرندے اور درندے بن کر نہ اٹھیں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۲۹ - ۳۰)

ایک موقعے پر مغرب کے ایسے ہم نوا دانش وروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ’’یہ تعبیرات دراصل ایسے لوگوں نے کی ہیں جو قرآن سے نہیں بلکہ آپ لوگوں سے رہنمائی لیتے ہیں اور پھر قرآن کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ضرور اسی بات کو حق کہے‘ جسے آپ لوگ حق کہیں۔ ]یہ[ چیز میرے نزدیک منافقت اور بے ایمانی ہے۔ اگر میں ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھتا کہ اس معاملے میں یا کسی معاملے میں بھی قرآن کا نقطۂ نظر غلط اور اہل مغرب کا صحیح ہے تو صاف صاف قرآن کا انکار کر کے آپ حضرات کے نظریے پر ایمان لانے کا اعلان کر دیتا اور یہ کہنے میں ہرگز تامل نہ کرتا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ یہی رویہ ہر مخلص اور راست باز آدمی کا ہونا چاہیے۔ (رسائل و مسائل‘ سوم‘ ص ۳۱ - ۳۲)

گویا مولانا مودودیؒ دو ٹوک انداز میں یہ بات واضح کرتے ہیں کہ عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے… اور اگرچہ خواتین اسلام نے بوقت ضرورت گھر سے نکل کر دیگر خدمات بھی انجام دی ہیں اور مولانا نے اس کی وضاحت مختلف مواقع پر کی ہے۔ حجاب پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’حکم قرآنی کا منشا یہ نہیں کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نہ نکالیں۔ ضروریات کے لیے ان کو گھر سے نکلنے کی پوری آزادی ہے۔ مگر یہ اجازت غیر مشروط ہے نہ غیر محدود --- ضروریات سے مراد ایسی واقعی ضروریات ہیں جن میں نکلنا اور کام کرنا عورتوں کے لیے واقعی ناگزیر ہو‘‘۔ (اسلام اور مسلم خواتین‘ ص ۷۲)

دوسری جانب جنگ کے موقع پر حجاب کا یہ حکم کچھ رعایت اختیار کر جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صرف کر دی جائے‘ ایسی حالت میں اسلام خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر یہ حقیقت اس کے پیش نظر ہے کہ عورت جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گی۔ اس لیے وہ عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی خاطر ہتھیار اٹھانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر بالعموم انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے --- [تاہم] اسلامی پردے کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی طرح نہیں ہے جس میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضرورت پیش آ جائے وہاں اس کے حدود کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب ضرورت رفع ہو جائے تو حجاب کو پھر اپنی حدود پر قائم ہو جانا چاہیے‘ جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی نہیں ہے اس طرح اس کی تخفیف اور اس میں نرمی بھی جاہلی نہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۳ - ۷۴)

ان چند سطروں سے مطلوبہ حدود اور دائرہ کار کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے‘جب کہ حجاب اور گھر بیٹھنے کا مفہوم‘ اور اس روایتی پردے کی نفی بھی ہو جاتی ہے جو بقول مولانا مودودیؒ: ’’ایک گروہ نے انھیں گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید کر دیا کہ صوبہ بہار میں مسلمانوں کے قتل عام ]۱۹۴۶ئ[ کے وقت بھی ان کی عورتیں گھروں سے ڈولی کے بغیر نہ نکل سکیں۔ دوسرے گروہ نے اس قدر آزادی اختیار کر لی کہ اپنی عورتوں کو نیم برہنگی تک لے گئے۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔ اس وقت تو ملک میں حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ عورتوں کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ بوقت ضرورت اپنی حفاظت خود کر سکیں‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ خود منتقل ہو سکیں اور مصیبت کے وقت مردوں کے لیے بار اور رکاوٹ بننے کے بجاے ان کی قوت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوں۔ میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ بھائی اپنی بہنوں کو اگر ممکن ہو سکے تو گھروں کے اندر سائیکل سواری بھی سکھا دیں تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے‘‘ (ایضاً‘ ص ۳۸ - ۳۹)۔ اور حقیقتاً یہی دائرہ کار اور پردے کا متوازن تصور ہے جو اسلام دیتا ہے۔ یہ دین فطرت کی روح ہے جسے مولانا مودودیؒ واضح کرتے ہیں۔

  • مساوات کا دل فریب نعرہ: آج جس فورم پر جائیے‘ کسی این جی او کا پروگرام ہو‘ ٹی وی کا ڈراما ہو‘ یا خواتین سے متعلق اخبارات کا کالم -- مرکزی نکتہ ایک ہی ہے ’’مساوات       مرد و زن‘‘ -- خواتین کے متعلق اقوام متحدہ کا چارٹر اٹھا کر دیکھیے‘ ’بیجنگ‘ اور ’بیجنگ + ۵‘ کانفرنسوں کا مرکزی مطالبہ اور اس پر عمل درآمد کے لیے وجود میں آنے والے CEDAW کنونشن‘ سبھی کا مرکزی مطالبہ مساوات مرد و زن ہے۔بظاہر یہ اتنا دل فریب نعرہ ہے‘ کہ دانستہ یا نادانستہ خواتین اور خود حکومت بے سوچے سمجھے اس کے پیچھے بھاگی جا رہی ہے۔ بلدیاتی اداروں میں تو شاید خواتین کو منتخب ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ ان کو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت یہ سبق ’’باتصویر‘‘ اور عملی طور پر  ذہن نشین کرادیا جائے (بلدیہ کے تحت مخلوط کانفرنسوں میں یہ لازم کیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت الگ الگ نہیں‘ بلکہ برابر کی نشستوں پر بیٹھیں گے)۔ اس کے علاوہ بلدیاتی اداروں میں ماسٹر ٹرینر تیار کی جارہی ہیں‘ جن کی تیاری کا بنیادی مقصد خواتین کی Gender Sex کے موضوع پر ذہنی تطہیر اور  ’سیڈا‘ کے طے کردہ اصول و ضوابط کے تحت معاشرتی اصولوں کی استواری کی تربیت ہے۔ یہ ایک بڑا دھوکا ہے جو ’عوامی خدمت‘ کے نام پر بلدیاتی اداروں کی صورت میں دیا جا رہا ہے (کاش! کوئی کونسلر بہن گذشتہ دو برس کے مشاہدات و تجربات تفصیل سے لکھے)۔

ایسے مسلمان دانشوروں کی کمی بھی نہیں‘ جوہر چلتے ہوئے سکے کو کھرا ہو یا کھوٹا‘ اسلامی سکہ ثابت کرنے پر قوت لگا دیتے ہیں۔ آئیے ہم دیکھیں کہ مولانا مودودیؒ مساوات مرد و زن پر کیسے روشنی ڈالتے ہیں: ’’اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں‘ دونوں نوع انسانی کے دو مساوی حصے ہیں۔ تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر کے شریک ہیں --- تمدن کی صلاح و فلاح کے لیے دونوں کی دماغی تربیت اور عقلی و فکری نشوونما یکساں ضروری ہے‘ تاکہ تمدن کی خدمت میں ہر ایک اپنا پورا پورا حصہ ادا کر سکے۔ اس اعتبار سے مساوات کا دعویٰ بالکل صحیح ہے اور ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ ان کو علم اور اعلیٰ تربیت سے مزّین کرے‘ انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے‘ اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام بخشے‘ تاکہ ان میں عزت نفس کا احساس پیدا ہو‘ اور ان کے اندر وہ بہترین بشری صفات پیدا ہو سکیں‘ جو صرف عزتِ نفس کے احساس ہی سے پیدا ہوسکتی ہیں‘‘۔ (پردہ‘ ص ۱۸۲)

’’لیکن مساوات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت اور مرد کا دائرہ عمل بھی ایک ہی ہو‘ دونوں ایک ہی سے کام کریں۔ دونوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی ذمہ داریاں یکساں عائد کر دی جائیں۔ اس معاملے میں: ’’فطرت نے دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا ہے۔ ’بقائے نوع‘ کی خدمت میں    تخم ریزی کے سوا اور کوئی کام مرد کے سپرد نہیں کیا گیا ہے‘ اس کے بعد وہ بالکل آزاد ہے۔ زندگی کے جس شعبے میں چاہے کام کرے۔ بخلاف اس کے اس خدمت کا پورا بار عورت پر ڈال دیا گیا ہے --- اس کے لیے حمل اور مابعد حمل کا پورا ایک سال سختیاں جھیلتے گزرتا ہے‘ جس میں وہ درحقیقت نیم جان ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے رضاعت کے پورے دو سال اس طرح گزرتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے --- اس پر بچے کی ابتدائی پرورش کے کئی سال اس محنت و مشقت کے گزرتے ہیں کہ اس پر رات کی نیند اور دن کی آسایش حرام ہوتی ہے۔ وہ اپنی راحت‘ اپنے لطف‘ اپنی خوشی‘ اپنی خواہشات‘ غرض ہر چیز کو آنے والی نسل پر قربان کر دیتی ہے۔ جب حال یہ ہے تو غور کیجیے کہ عدل کا تقاضا کیا ہے۔ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجا آوری کا مطالبہ بھی کیا جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے‘ اور پھر ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے‘ جن کو سنبھالنے کے لیے مرد فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کر‘ جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آ کر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھا۔ سیاست‘ عدالت اور صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت اور قیام امن اور مدافعت وطن کی خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے۔ ہماری سوسائٹی میں آ کر ہمارا دل بھی بہلائے اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کرے۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے‘ مساوات نہیں صریح نامساوات ہے‘ عدل کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ جس پر فطرت نے بہت زیادہ بار ڈالا ہے اس کو تمدن کے ہلکے اور سبک کام سپرد کیے جائیں اور جس پر فطرت نے کوئی بار نہیں ڈالا --- اسی کے سپرد یہ خدمت بھی کی جائے کہ وہ خاندان کی پرورش اور اس کی حفاظت کرے… اس میں عورت کے لیے ارتقا نہیں‘ انحطاط ہے --- اس میں عورت کے لیے کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے۔ زندگی کے ایک پہلو میں عورتیں کمزور ہیں اور مرد بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسرے پہلو میں مرد کمزور ہیں اور عورتیں بڑھی ہوئی ہیں۔ تم غریب عورتوں کو اس پہلو میں مرد کے مقابلے پر لاتے ہو‘ جس میں وہ کمزور ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ عورتیں ہمیشہ مردوں سے کم تر رہیں گی‘ تم خواہ کتنی ہی تدبیریں کر لو۔ ممکن نہیں ہے کہ عورتوں کی صنف سے ارسطو‘ ابن سینا‘ کانٹ‘ ہیگل‘ خیام‘ شکسپیر‘ سکندر‘ نپولین‘ صلاح الدین‘ نظام الملک طوسی اور بسمارک کی ٹکر کا ایک فرد بھی پیدا ہوسکے۔ البتہ تمام دنیا کے مرد چاہے کتنا ہی سر مار لیں‘ وہ اپنی پوری صنف میں سے ایک معمولی درجے کی ماں بھی پیدا نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً‘ص ۱۹۱-۱۹۵)

وہ کہتے ہیں:پردہ تقسیم عمل ہے‘ جو خود فطرت نے انسان کی دونوں صنفوں کے درمیان رکھ دی ہے اور اس میں تمدن کا ارتقا ہے۔ ایک صالح تمدن وہی ہو سکتا ہے جو اولاً اس فیصلے کو جو ںکا توں قبول کرے۔ پھر عورت کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر اسے معاشرت میں عزت و مرتبہ دے۔

  • مغرب اور مساوات: مولانا مودودیؒ مساوات مرد و زن کی حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’اہل مغرب نے عورت کو ’برابری‘ کا جو مقام دیا ہے اسے عورت رکھ کر نہیں دیا‘ بلکہ اس کو ’نیم مرد‘ بنا کر دیا ہے‘‘ (دین اور خواتین‘ ص ۲۱) ۔عورت درحقیقت اس کی نگاہ میں اب بھی ویسی ہی ذلیل ہے جیسے دور جاہلیت میں تھی… عزت اگر ہے تو اس ’’مرد مونث‘‘ یا ’’زن مذکر‘‘ کے لیے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت ہو‘ مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے یہ’انوثت‘ کی عزت نہیں ’رجولیت‘ کی عزت ہے… مردانہ کام کرنے میں عورتیں عزت محسوس کرتی ہیں‘ حالانکہ خانہ داری اور پرورش اطفال جیسے خالص زنانہ کاموں میں کوئی مرد عزت محسوس نہیں کرتا۔ پس بلاخوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ مغرب نے عورت کو بحیثیت عورت ہونے کے کوئی عزت نہیں دی ہے‘‘۔(پردہ‘ ص ۲۵۵-۲۵۶)

’’عورتوں نے دھوکا کھا کر جب مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ کیا‘ تو اس کے بعد اب مغرب میں ’لیڈیزفرسٹ‘ (پہلے خواتین) کا قصّہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ میں نے خود انگلستان میں (سفر کے دوران) دیکھا ہے کہ عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور مرد پروا تک نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے ہاں ابھی تک مردوں میں یہ بات ہے کہ اگر ٹرین یا بس میں کوئی عورت کھڑی ہو تو مرد اٹھ جائے گا‘ اور اس سے کہے گا کہ ’آپ تشریف رکھیے‘۔ لیکن وہاں اب وہ کہتے ہیں کہ: تم برابر کی ہو۔ تمھیں پہلے بیٹھنے کا موقع مل گیا تو تم بیٹھ جاؤ‘ ہمیں موقع مل گیا تو ہم بیٹھ گئے۔ اب عورتیں دھکے کھاتی پھرتی ہیں اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں۔ الا یہ کہ پوچھنے کی کوئی ’خاص‘ وجہ ہو‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص ۲۱ - ۲۲)

’’اسلام نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عورت پر وہی ذمہ داریاں ڈالی ہیں‘ جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں۔ اس کے بعد اس کو مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ ان کے لیے عزت کا وہی مقام رکھا ہے جو مرد کے لیے ہے۔ مسلمان عورتوں کو اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئی ہیں جس سے بڑھ کر عورتوں کی عزت دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہے۔ جائیے جا کر امریکہ اور انگلستان میں دیکھیے‘ عورت کا حال کیا ہے؟ کیسی مصیبت کی زندگی بسر کر رہی ہے؟ باپ کے اوپر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘ بیٹے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ادھر وہ جوان ہوئی ادھر اس کا باپ اسے رخصت کر دیتا ہے: ’’جاؤ اور خود کما کر کھاؤ‘‘۔ اب اس کے بعد اسے اس سے کچھ بحث نہیں ہے کہ وہ کس طرح سے کما کر کھائے اور کس طرح زندگی بسر کرے۔ مغرب میں عورت اس بے بسی کی زندگی بسر کر رہی ہے‘ کہ اس پر ترس کھانے والا بھی کوئی نہیں ہے …یہاں باپ اپنی بیٹی کی ذمہ داری سے اس وقت تک سبک دوش نہیں ہوتا جب تک وہ اس کی شادی نہیں کر دیتا۔ شادی کر دینے کے بعد بھی وہ اس کی اور اس کی اولاد تک کی فکر رکھتا ہے۔ بھائی اپنی بہنوں کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔ بیٹے ماؤں کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ (کچھ مثالوں کو چھوڑ کر عموماً) شوہر اپنی بیویوں کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھتے ہیں۔ یہاں آپ کو آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے اور آپ کی عزت کی جاتی ہے۔ وہاں بغیر اس کے کہ ]بے چاری عورت[ نیم برہنہ ہو کر مردوں کے سامنے ناچے ]اس[ کے لیے عزت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر ہمارے ملک کی عورتیں ان حقوق پر قناعت نہیں کرنا چاہتیں جو اسلام ان کو دیتا ہے‘ اور وہی نتائج دیکھنا چاہتی ہیں جو مغرب میں عورت دیکھ رہی ہے‘ تو انھیں اس کا اختیار ہے۔ مگر یہ سمجھ لیجیے کہ اس کے بعد پھر پلٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔… ]کیونکہ[ ایک معاشرہ جب بگاڑ کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی انتہا پر پہنچے بغیر نہیں رہتا اور انتہا پر پہنچنے کے بعد پلٹنا محال ہو جاتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ص ۲۳ -۲۴)

تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے رب کے دیے ہوئے اعزازات کی قدر نہ کی‘ وہ کس قدر رسوا ہوئے۔ وہ کس کس پاتال میں گرے۔ نہ عورتیں عورتیں رہیں‘ نہ مرد مرد رہے‘ نہ بچوں کو باپ ملے‘ نہ معاشرے کا تحفظ ملا --- نہ رشتے نہ احترام‘ نہ شفقت و محبت‘ بوڑھے بھی ترس رہے ہیں‘ بچے بھی بلک رہے ہیں۔ عورت اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔ مرد اپنے حال پر پریشان ہے۔

کیا یہی وہ تصویر نہیں تھی جو مولانا مودودیؒ نے آج سے کئی برس قبل کھینچی تھی اور پکار پکار کر قوم کو ان کے نقش قدم پر چلنے سے روکنے کی سعی کی تھی۔ کتاب پردہ اٹھا کر دیکھیے ۔اس کا ایک ایک صفحہ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ انھو ںنے کس کس طرح مثالوں سے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔

قدیم معاشروں اور گزرے ہوئے مختلف ادوار میں عورت کی حیثیت کے بارے میں افراط و تفریط پر مبنی تصورات اور تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے‘ مولانا محترم کے ذوق سلیم پر کیا گزری ہو گی‘ مگر انھوں نے لکھا ‘کیونکہ ان کے دل میں اُمت کا درد اور معاشرے کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کی فکر تھی۔ ان کی نگاہیں آنے والی تباہ کاریوں کو بھانپ رہی تھیں اور وہ ان خطرات سے قوم کو آگاہ کررہے تھے۔ کاش ’ایسی آزادی‘ کی متوالی تمام خواتین کم از کم ایک بار لازماً اس کتاب کا مطالعہ کریں تو انھیں مغرب کے شاخ نازک پر بنے آشیانے کی سمجھ بھی آ جائے اور اسلام کے مضبوط معاشرتی نظام کا علم بھی ہو جائے اور تمدن کی شان اعتدال بھی واضح ہو جائے۔ بقول مولانا مودودیؒ: ’’بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف ایک نظام تمدن ایسا ہے‘ جس میں غایت درجے کا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔ جس میں انسان کی جسمانی ساخت اور اس کی حیوانی جبلت ‘ اس کی انسانی سرشت اور اس کے فطری داعیات …ان میں سے ایک ایک چیز کی تخلیق سے فطرت کا جو مقصد ہے‘ اس کو اس طریقے سے پورا کیا گیا ہے‘ کہ دوسرے چھوٹے سے چھوٹے مقصد کو بھی نقصان نہیں پہنچتا‘ اور بالآخر یہ سب مقاصد مل کر اس بڑے مقصد کی تکمیل میں مددگار ہوتے ہیں جو خود انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ اعتدال‘ یہ توازن‘ یہ تناسب اتنا مکمل ہے کہ کوئی انسان خود اپنی عقل اور کوشش سے اس کو پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کا وضع کیا ہوا قانون ہو اور اس میں کسی جگہ بھی یک رخی ظاہر نہ ہو‘ ناممکن ‘قطعی ناممکن! خود وضع کرنا تو درکنار‘ حقیقت یہ ہے کہ معمولی انسان تو اس معتدل و متوازن اور انتہائی حکیمانہ قانون کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتا۔(پردہ‘ ص ۲۱۰ - ۲۱۱)

  • خواتین اور ترقی: بی بی سی کے نمایندے نے جدید تہذیبی قدروں کی روشنی میں عورت کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر میں مخصوص ’ترقی پسندانہ‘ تبدیلی کے بارے میں سوال کیا۔

مولانا مودودیؒ نے گھر اور گھر سے باہر عورت کی حیثیت اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’دیکھیے‘ آپ کے خیال میں جو جدید تہذیب اور ماڈرن کلچر ہے‘ آپ سمجھتے ہیں کہ تہذیب اور ثقافت کا یہی ایک معیار ہے۔ اس معیار پر آپ دوسری ہر تہذیب و ثقافت کو پرکھتے ہیں۔ لیکن ہم اس کو نہیں مانتے۔ آپ اپنی جس تہذیب اور کلچر کو ’ماڈرن‘ کہہ کر اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پس ماندہ اور فرسودہ چیز ہے اور یہ تباہ کر رہی ہے آپ کی پوری سوسائٹی    کو اور آپ کے پورے نظام تمدن کو۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس ’ماڈرن کلچر‘ کو اپنی سوسائٹی میں لائیں    اور اسے بھی تباہ کر لیں --- ہمارے نزدیک ترقی اور چیز ہے اور نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کی بری عادات و اطوار اور چیز۔ ہم ترقی کے قائل ہیں اور وہ ہم ضرور کریں گے‘ لیکن اس شکل میں نہیں کہ جس طرح آپ کر رہے ہیں --- اس کے بجاے ہم اپنے اصولوں پر تعمیر و ترقی کریں گے اور وہی صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی ہو گی --- اسلامی اصولِ معاشر ت کی رو سے عورت کا مقام اس کا گھر ہے اور اس میں مرد کی حیثیت نگران اور قواّم کی ہے۔ عورتوں کے تعلیم پانے کو ہم نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بھی بنیں گی‘ لیکن وہ عورتوں کا علاج کریں گی‘ مردوں کا نہیں۔ ]غرضیکہ[ مسلمان عورت سے ہم جو کام بھی لیں گے وہ اس کے گھر کے اندر اور عورتوں کی سوسائٹی کے اندر لیں گے۔ (اسلام‘ دور جدید کا مذہب‘ ص ۱۵ - ۱۷)

  • ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ: مجالس قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کے مسئلے پر مولانا سے پوچھا گیا کہ آخر وہ کون سے احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیت ِقانون ساز مجالس میں مانع ہیں؟ اور قرآن و حدیث کے وہ کون سے ارشادات ہیں جو ان اداروں کو صرف مردوں کے لیے مخصوص قرار دیتے ہیں؟

مولانا نے فرمایا:اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان مجالس کی صحیح نوعیت اچھی طرح واضح کریں‘ جن کی رکنیت کے لیے عورتوں کے استحقاق پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ ان مجالس کا نام ’’مجالس قانون ساز‘‘ رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے اور پھر یہ غلط فہمی ذہن میں رکھ کر جب آدمی دیکھتا ہے کہ عہد صحابہ میں خواتین بھی قانونی مسائل پر بحث‘ گفتگو‘ اظہار رائے کرتی تھیں اور بسا اوقات خود خلفا ان سے رائے لیتے اور اس کا لحاظ کرتے تھے‘ توآج اسلامی اصولوں کا نام لے کر اس قسم کی مجالس میں عورتوں کی شرکت کو غلط کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے‘ بلکہ عملاً وہی پوری ملکی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں۔ وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمام کار ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض ایک فقیہہ اور مفتی کا مقام نہیں ہے‘ بلکہ پوری مملکت کے ’’قواّم‘‘ کا مقام ہے۔

’’قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے۔ ارشاد باری دیکھیے:’’مرد عورتوں پر قواّم ہیں‘ اس بنا پر کہ اﷲ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلتدی ہے اور اس بنا پر مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔ (النسا۴: ۳۴)

’’]کوئی کہہ سکتا ہے[ کہ یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے‘ نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً  الرجال قوامون علی النساء کہا گیا ہے فی البیوت کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اگر یہ بات مان بھی لی جائے‘ تو ہم پوچھتے ہیں کہ جسے گھر میں اﷲ نے قواّم نہ بنایا‘ بلکہ قنوت (اطاعت شعاری) کے مقام پر رکھا‘ آپ اسے تمام گھروں کے مجموعے ‘یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں؟ گھر کی قوامیت سے مملکت کی قوامیت تو زیادہ بڑی اور اونچے درجے کی ذمہ داری ہے اور دیکھیے قرآن صاف الفاظ میں عورت کا دائرہ عمل یہ کہہ کر متعین کر دیتا ہے : اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھیری رہو اور پچھلی جاہلیت کے سے تبرج کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔ (الاحزاب۳۳:۳۳)

’’آپ یہ فرمائیں گے کہ یہ حکم تو نبی کریم ؐ کے گھر کی خواتین کو دیا گیا تھا۔ مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے خیال مبارک میں کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کے اندر کوئی خاص نقص تھا‘ جس کی وجہ سے وہ بیرون خانہ کی ذمہ داریوں کے لیے نااہل تھیں؟ اور کیا دوسری خواتین کو اس لحاظ سے ان پر فوقیت حاصل ہے؟ پھر اگر اس سلسلے کی ساری آیات‘ اہل بیت نبوت کے لیے مخصوص ہیں‘ تو کیا دوسری مسلمان عورتوں کو تبرج جاہلیت کی اجازت ہے؟ --- اور کیا اﷲ اپنے نبیؐ کے گھر کے سوا ہر مسلمان کے گھر کو ’’رجس‘‘ میں آلودہ دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘ (اسلامی ریاست‘ ص ۵۰۶ - ۵۰۸)

اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس نقطۂ نظر کے باوجود اس وقت جماعت اسلامی کی خواتین پارلیمنٹ میں کیوں موجود ہیں؟ یہاں پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ خواتین ہرگز خوشی سے ان اداروں میں نہیں گئی ہیں۔ حالات نے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اور یہ تمام خواتین شرعی حدود و قیود کے ساتھ وہاں پر گئی ہیں اور تہذیب اسلامی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا ابطال کرنے کا فرض ادا کررہی ہیں اور اسلامی معاشرے میں عورت کے اصل مقام کو واضح کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔

  • اسلامی نظام کی جد وجہد میں خواتین کی ذمہ داریاں: نفاذ اسلام کی جدوجہد میں مولانا مودودیؒ خواتین کے کام کو مردوں کے برابر اہم سمجھتے ہیں۔ عام دنوں میں خواتین کے اندر کام کرنے کی اہمیت اور تنظیم سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں: ’’ہمیں پاکستان میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے‘ اور یہ کام بہت بڑی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کو یہ طے کرنا ہے‘ کہ وہ اپنے لیے کس طریق زندگی کو‘ کس اصول اخلاق کو اور کس نظام حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ اس ملک میں ایک کش مکش برپا ہے۔ ایک طرف وہ نام نہاد مدعیان اسلام ہیں جن کو صرف اسلام کا نام باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے‘ لیکن اس کو طریق زندگی کی حیثیت سے انھوں نے نہ قبول کیا ہے اور نہ قبول کرنے پر تیار ہیں۔ اسلام کے نام پر جو حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انھیں تو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن جن پابندیوں کا اسلام مطالبہ کرتا ہے‘ ان سے وہ خود بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں اور ملک کو بھی آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اوپر کافرانہ حکومت قائم رکھنے اور کافرانہ قوانین جاری رکھنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مقابلے میں وہ سب لوگ ہیں‘ جو اسلام کو اپنے طریق زندگی کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حکومت قائم ہو اور اسلام کا قانون جاری ہو۔

’’ان دونوں طاقتوں کے درمیان برپا کش مکش کے دوران جس طرح مردوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسلام نما کفر کا ساتھ دیں گے یا حقیقی اسلام کی حمایت کریں گے‘ اسی طرح مسلمان خواتین کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کش مکش میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں۔ بہرحال بہنوں اور ماؤں سے میں درخواست کروں گا کہ--- انھیں اس کش مکش میں اپنا پورا وزن حقیقی اسلام کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص ۱۶)

عام انتخابات کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا: ’’اس وقت ہر مرد اور عورت پر فرض ہے کہ اٹھے اور ان لوگوں کے حق میں رائے ہموار کرے جو اس ملک میں صحیح اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں… جو تعلیم یافتہ خواتین اس ملک کو ایک اسلامی ملک دیکھنا چاہتی ہیں‘ انھیں اٹھنا چاہیے اور ان عورتوں کو سمجھانا چاہیے جو صورت حال کی نزاکت کا پورا احساس نہیں رکھتیں۔ اس معاملے میں آپ جتنی بھی کوشش کریں گی اﷲ تعالیٰ اجر عطا فرمائے گا۔ میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ لوگ عورتوں کے اجتماعات منعقد کریں۔عورتوں کے اندر جا کر کام کریں۔ انفرادی طور پر بھی جا کر عورتوں سے ملیں اور انھیں صورت حال سمجھائیں اور کوشش کریں کہ انتخابات میں عورتیں بھی اسلامی نظام اور پاکستان کی وحدت کے لیے اپنی رائے استعمال کریں۔

میں یہ بات اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو حقیر نہ سمجھیں۔ وہ مردوں کے ساتھ جدوجہد میں ہر محاذ پر قابل قدر خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ اس وقت اس جدوجہد کا ایک محاذ انتخابی معرکے کی صورت میں درپیش ہے۔ جس طرح مرد‘ مردانہ حلقوں میں کام کر رہے ہیں‘ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے اپنے حلقے میں کام کریں‘ اور اپنا پورا وزن اسلامی طاقتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی کوشش کریں‘‘۔ (اسلام اور مسلم خواتین‘ ص ۱۵ - ۱۷)

تعلیم یافتہ خواتین کے فرائض کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’تعلیم یافتہ خواتین پر ایک اور  فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی عورتوں کو جس گمراہی‘ بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آوارگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس طرح حکومت کے ذرائع و وسائل (سرکاری تقریبوں‘ اداروں اور ٹیلی ویژن) سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے۔ اس فتنے کا سدباب کرنے میں عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ اور وہ ان بیگمات سے علم و ذہانت اور زبان و قلم سے طاقت میں کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ آگے بڑھ کر ڈنکے کی چوٹ کہیں کہ مسلمان عورت اس ’’ترقی‘‘ پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی مقرر کی ہوئی حدیں توڑنی پڑیں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۱۹)

’’عورتوں میں جو ذہنی‘ اخلاقی اور نفسیاتی بیماریاں پھیل رہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا عورتوں کا کام ہے۔ وہ خواتین جو اسلام سے منحرف ہونا نہیں چاہتیں اگر اٹھ کھڑی ہوں تو اس فتنے کا مداوا اچھی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ جو لڑکیاں اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم پا رہی ہیں خدا کا شکر ہے کہ ان کی بڑی تعداد دین سے منحرف نہیں ہے۔ وہ خدا اور اس کے رسولؐ کو مانتی ہیں اور اسلامی احکام کی اطاعت اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ اگر وہ متحرک ہوں اور جو لڑکیاں غلط تہذیب سے متاثر ہو رہی ہیں اگر انھیں وہ سنبھالنے اور بچانے کی فکر کریں تو بہت جلد لڑکیوں کے اندر ایک اصلاحی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ جو خواتین دین کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں وہ آگے بڑھیں اور اس بگاڑ کا رخ موڑ دیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے خود دین سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اسلامی لٹریچر کا پوری توجہ سے مطالعہ کریں‘ پھر میدان میں نکلیں۔ اور عورتوں کے لیے حلقہ ہاے درس قائم کرکے انفرادی ملاقاتوں اور آسان لٹریچر کے ذریعے اپنا کام کریں۔ اس طرح کالجوں اور مدرسوں میں تعلیم پانے والی لڑکیاں بھی اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنی ہم جماعت لڑکیوں میں اس کام کا آغاز کریں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۹ - ۱۰)

یہ چند سطریں پڑھ کر ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک باشعور مسلمان عورت آج کے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کس طرح کرے۔ اس کا بنیادی دائرہ عمل ’گھر‘ اس کی بنیادی سرگرمیوں کا اصل محور ہے۔ اس کے لیے ایک متعین مقام و مرتبہ بھی ہے۔ وہ اﷲ کے مقرر کردہ دائرے کے اندر ہر طرح کی سرگرمیاں ادا کر سکتی ہے۔ اپنی طرف سے کسی ’’معاشرتی امام‘‘ یا رسم و رواج کو اس پر ناروا پابندیاں لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس کی تعلیم‘ نسلوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ مگر تعلیم کی نوعیت اور  تعلیم گاہ کا ماحول درست ہونا اور درست کرنا ضروری ہے۔ اپنے فطری دائروں کے اندر ترقی کے مواقع حاصل کرنا اس کا حق ہے اور اﷲ کے مقرر کردہ دائرے سے اس کا باہر نکلنا‘ پوری قوم اور معاشرے میں بگاڑ کا موجب۔

اس وقت قوم کے تمام باشعور خواتین و حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام کو بچانے‘ معاشرتی بنیادوں اور مدنیت صالحہ کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔ مغرب پرست این جی اوز ‘الحاد پرست میڈیا اور مفاد پرست حکمرانوں کی مسلط کردہ بے حیائی کی یلغار کا مقابلہ عملی‘ قولی اور علمی ہر طرح کے جہاد سے اﷲ کے حضور سرخروئی حاصل کریں۔ علما پر ایک بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ان ’علما سوئ‘ کا مقابلہ کریں‘ جو پردے کو محض امہات المومنینؓ کے لیے خاص قرار دیتے ہیں‘ ریاست کو اسلامی نظام کے نفاذ سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ وہ جو زکوٰۃ‘ سود‘ جہاد اور اسوۂ حسنہ تک کے معنی بدل رہے ہیں۔

دعا ہے کہ اﷲ اس قوم میں محترم مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سے جذبے والا مرد حق اور ’عالم حق‘ پھر پیدا کرے جو ان سارے محاذوں پر پھر سے مردہ سنتوں کو زندہ کر سکے۔ اور ہم خواتین کو بھی اس راہ میں ویسی ہی محنت کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی مولانا مودودیؒ کی طرح کہہ سکیں: ’’آج میری ہڈیاں بھی مجھ سے حساب مانگتی ہیں‘‘ --- اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے سارے حساب آسان کر دے۔ آمین ‘ثم آمین!

مسیحی تہذیب نے عورت کو گناہ کی جڑ گردانا اور تقویٰ و اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ سمجھا کہ نکاح ہی نہ کیا جائے۔ یہ پابندی ایک مستحسن قدر کے طور پر آج بھی وہاں کے مذہبی پیشوا پادری کے لیے موجود ہے۔ اس راہبانہ تصور کے زیر اثر یورپ اور امریکہ کے لیے جو قوانین بنائے گئے‘ ان میں عورت کو ادنیٰ حیثیت اور پست مقام دیا گیا۔ جب تہذیب کے مرکز کے دعوے دار معاشرے کی صورت حال یہ تھی تو دنیا کے بیش تر حصوں میں کسی نہ کسی شکل میں عورت کا استحصال جاری رہا۔

ردعمل کے طور پر حقوق نسواں کی ایک تحریک برپا ہوئی‘ جس کا آغاز اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے حقوق نسواں کمیشن کے قیام ۱۹۴۸ء سے ہوا۔ عالمی کانفرنسوں کا انعقاد‘ خواتین کا سال اور حقوق نسواں کا عالمی دن منانے کے ساتھ‘ اہم پیش رفت ۱۹۷۹ء میں سیڈا (CEDAW) کے ذریعے ہوئی۔ جس کے لائحہ عمل کے طور پر ۱۴ نکات طے کیے گئے جنھیں عورت کے لیے ترقی‘ امن مساوات کے نعرے کے ساتھ عالمی سطح سے پیش کیا گیا۔ آج امریکی‘ نیور ورلڈ آرڈر‘ کے تحت اسے مغرب کی تہذیبی بالادستی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بیش تر مسلمان ممالک کی حکومتوں نے اس عالمی معاہدے پر دستخط کیے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد بھی کسی حد تک اس ایجنڈے کے نفاذ کے ساتھ مشروط رکھی گئی۔ باقاعدگی سے منعقد ہونے والے جائزہ اجلاسوں نے ان اہداف کے حصول میں مدد کی۔ عالمی میڈیا اور انٹرنیٹ اس تحریک کے لیے معاون ثابت ہوئے۔ خود مغربی تصورات کے تحت رونما ہونے والی نام نہاد ’عالم گیریت‘ نے ساری دنیا کی عورتوں کو غیر محسوس طور پر اس کا ممبر بنا دیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھنے جانے والے رویوں اور پیش آنے والے واقعات کو مغرب کے پیش کردہ تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ اسی تسلسل میں دنیا کے بیش تر ممالک میں عورت کے حقوق کی علم بردار این جی اوز اس ایجنڈے کے لیے دنیا بھر میں سرگرم عمل ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے مسلم عورت کو عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے جو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ اسے انھی کی تحریروں سے منتخب کردہ نکات کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے:

’’یہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت اور (حقوق نسواں کی عالمی تحریک) کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ تین عنوانوں کے تحت آتے ہیں:

  • عورت اور مردوں کی مساوات‘ 
  • عورتوں کا معاشی استقلال ‘
  • دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط

مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبے اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں‘ بلکہ تمدنی زندگی میں بھی عورت وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں۔ معاشی‘ سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں‘ انتخابی جدوجہد‘ دفتروں اور کارخانوں میں ملازمت‘ آزاد تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں سے مقابلہ‘ سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت‘ یا اور بہت سی نا کردنی و ناگفتنی مصروفیات۔

عورت کے معاشی استقلال‘ یعنی خود کمانے نے اسے مرد کی معاونت سے بے نیاز کر دیا‘ اور اصول یہ بنا کہ عورت اور مرد دونوں کمائیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا جائے۔

مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمایش‘ عریانی اور صنفی خواہش کو غیرمعمولی ترقی دے دی۔ اس قسم کی مخلوط سوسائٹی میں فطری طور پر دونوں صنفوں کے اندر  یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ صنفِ مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں‘ لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی انھی خواہشات کا دیوان کو دبوچ لیتا ہے۔

ہمارے اہل حل و عقد نے جب مرعوبیت سے مسحور آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت‘ آرایش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو دیکھا تو ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! ہماری عورتیں بھی اس روش پہ چلیں‘ تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی کا ہمسر ہو جائے۔ پھر وہ آزادی نسواں‘ اور تعلیم اناث اور مساوات مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے‘ جو طاقت ور استدلالی زبان اور شان دار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔ اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوت تنقید کو ماؤف کر دیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اتر گئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا (بقدر جرات و ہمت) عملی زندگی میں بھی ان کو رائج کر دینا‘ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ’’روشن خیال‘‘ کہلانا پسند کرتا ہو اور ’’دقیانوسیت‘‘ کے بدترین الزام سے بچنا چاہتا ہو‘‘۔

پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں ان نظریات کا پرچار کرنے والے گروہ‘ سیڈا پر عمل درآمد کے لیے قائم کیے گئے حکومتی ادارے‘ ویمن ڈویژن‘ اور این جی اوز اس کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوئیں تو دینی و نظریاتی اقدار رکھنے والوں نے اس پروگرام اور لائحہ عمل کی جزئیات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا۔ اس جائزے سے تو درج ذیل صورت احوال سامنے آئی:

۱-  معاشرتی مسائل جو اکثر مسلم معاشرے میں رواج پا چکے ہیں‘ گو اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں‘ ان کو ایک خاص انداز سے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے بیش تر سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں‘ تاہم ان کی شدت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں قرآن سے شادی‘ کاروکاری‘ گھروں میں عورتوں کی بے جا مار پیٹ‘ مٹی کے تیل کے چولہوں کے پھٹنے کے واقعات میں عموماً عورتوں کا زخمی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

۲-  دوسرے وہ نکات جن کی زد براہ راست اسلام کے قوانین پر پڑتی ہے۔ مثلاً وراثت‘ گواہی اور دیت میں نصف مقدار کی بنا پر ’’آدھی عورت‘‘ کہا گیا۔ عورت کے لیے حجاب و ستر کی حدود‘ چار شادیوں کی اجازت‘ پسند کی شادی‘ حدود قوانین‘ آئین پاکستان سے قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے وغیرہ کا غلغلہ۔

۳-  تیسرا حصہ‘ براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ اسلامی اقدار اور نظریاتی اساس کو متاثر کرنے والا ہے۔ عورتوں کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے لیے چلائی جانے والی تحریک‘ ملازمتوں کا کوٹہ‘ ۳۳ فی صد سیاسی نمایندگی‘ ہر میدان میں مخلوط ملازمت‘ وغیرہ کا عنوان یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے‘ کیونکہ عورت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی نفی کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔

اس صورت حال کے مقابلے میں مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ اسلام عورت کے حقوق کے تعین میں تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھتا ہے:

  • ایک یہ کہ مرد کو جو حاکمانہ اختیارات محض خاندان کے نظم کی خاطر دیے گئے ہیں ان کا ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ ظلم نہ کر سکے اور ایسا نہ ہو کہ تابع و متبوع کا تعلق لونڈی اور آقا کا تعلق بن جائے۔
  • دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام مواقع بہم پہنچائے جائیں‘ جن سے فائدہ اٹھا کر وہ نظام معاشرت کی حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیر تمدن میں اپنے حصے کا کام بہتر سے بہتر انجام دے سکے۔
  •  تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کامیابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو‘ مگر ان کی ترقی و کامیابی جو کچھ بھی ہو عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا نہ تو اس کا حق ہے‘ نہ مردانہ زندگی کے لیے اس کو تیار کرنا اس کے اور تمدن کے لیے مفید ہے‘ اور نہ مردانہ زندگی میں وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔

مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں‘ اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اخلاقی و قانونی ہدایات میں جیسی پائے دار ضمانتیں مہیا کیں ہیں‘ ان کی نظیر دنیا کی کسی قدیم و جدید معاشرت میں نہیں ملتی۔

  • معاشی حقوق:اسلام عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے‘ شوہر سے اور قریبی رشتہ داروں سے اس کو وراثت ملتی ہے‘ نیز شوہر سے اس کو مہر بھی ملتا ہے۔ مزید برآں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر یا خود محنت کر کے کچھ کمائے تو اس کی مالک وہی ہے۔ ان تمام ذرائع سے جو مال اس کو پہنچتا ہے اس کی ملکیت اور تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں‘ جس میں مداخلت کا اختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے نہ شوہر کو اور نہ کسی اور کو۔ ان سب کے باوجود اس کے نفقہ کی ذمہ داری ہر حال میں اس کے شوہر پر واجب ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو‘ اس کا شوہر اس کے نفقے سے بری الذمہ نہیںہو سکتا۔ اس طرح اسلام نے عورت کی معاشی حیثیت کو مستحکم کیا۔

تمدنی حقوق: شوہر کے انتخاب کا عورت کو پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ ایک ناپسندیدہ یا ظالم یا ناکارہ شوہر کے مقابلے میں عورت کوخلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت کی گئی ہے:  وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ(النساء ۴:۱۹)‘یعنی عورت کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو۔ اسی طرح نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔

بیوہ اور مطلقہ کو نکاح ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے‘ جو آج تک یورپ و امریکہ کے بیش تر ممالک میں نہیں ملا۔

مرد و عورت کے درمیان امتیاز کے خاتمے کے لیے جان‘ مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں برتتا۔

عورتوں کی تعلیم‘ عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسے ضروری قرار دیا گیا۔

قرآن پاک میں واضح کر دیا گیا: ’’اور جو نیک عمل کرے گا‘ خواہ مرد ہو یا عورت ‘بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی‘‘۔ (النسائ۴:: ۱۲۴)

آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے باطنی اصلاح پر ہی اکتفا نہیں فرمایا‘ بلکہ قانون کے ذریعے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا انتظام بھی کیا۔ اور عورتوں میں اتنی بیداری پیدا کی کہ وہ اپنے جائز حقوق کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کے لیے قانون سے مدد لیں۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ جب تک حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم زندہ رہے ہم اپنی عورتوں سے بات کرنے میں احتیاط کرتے تھے کہ مبادا ہمارے حق میں کوئی حکم نازل ہو جائے‘ اور جب حضور اکرم ؐنے وفات پائی تب ہم نے کھل کر بات کرنا شروع کی۔ (الجامع الصحیح)

خاندان کا نظام عورت اور مرد کے اس مستقل اور پائے دار تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے۔ یہی چیز ان کی انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرتی ہے اور صنفی انتشار کے میلانات کو تمدن کا خادم بناتی ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت و ایثار کی وہ فضا پیدا ہوتی ہے‘ جس میں نئی نسلیں صحیح تربیت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ اسی تصور نکاح کے ساتھ ازواج کی ذمہ داریوں‘ ان کے حقوق و فرائض اور ان کے اخلاقی انضباط کا بوجھ سہارا جا سکتا ہے‘‘۔

خاندان کے اس دائرے میں‘ دائرہ کار کی تقسیم کرتے ہوئے معاشی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ اس کو قوام و منتظم قرار دیا (provider & sustainer) ‘  اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْط (النساء ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ جب کہ عورت کو فرماں برداری‘ شکر گزاری اور   اپنی عفت و شوہر کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اولاد کی پیدایش و پرورش عورت کا   وظیفۂ زندگی قرار دیا گیا۔ اولاد کے لیے ’’ضعف پرضعف اٹھایا‘‘ کہہ کر عورت کی وکالت کی‘ سعی ہاجرہ کو مردوں کے لیے بھی حج و عمرے کا لازمی رکن قرار دے کر اس اہم ذمہ داری کو تسلیم کروایا۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷)  ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کے لیے حفاظت‘ زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ قرار دیا۔

اسلام کی تعلیمات تو یہ تھیں مگر اسلامی معاشرے میں رواج پانے والے بہت سے رویے اور معاملات اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وراثت میں استحقاق رکھنے کے باوجود‘ وراثت سے محروم کرنے کے لیے نہایت قبیح رسوم کو اپنانا‘ مہر کا خوش دلی کے ساتھ‘ پوری طرح ادا نہ کرنا‘ یہ ظلم تو خود دین کی سمجھ رکھنے والوں میں بھی عام ہے۔ شادی کے موقع پر ۳۲ روپے غیر شرعی مہر مقرر کرنے کی حکایت کا وجود‘ یا پھر زیادہ رقم مقرر کر دینا‘ مگر ادا نہ کرنا‘ یا مختلف حیلے بہانے سے بیوی کو محبور کر کے معاف کرا لینا اور اس فعل کی حرمت کے بارے میں لاپروائی برتنا‘ ہمارے آج کے مسلم معاشرے میں معیوب نہیں ہے۔ نان نفقہ‘ یعنی کھانا‘ لباس اور رہایش کے خاطر خواہ انتظام سے بے نیازی و عدم   دل چسپی‘ شادی میں لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کو غیر اہم جاننا‘ ناپسندیدہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے تک کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ بیوی کی تفریح و دلجوئی و احسان کے معاملے کا نہ ہونا‘ بیوی کی ملکیت تسلیم نہ کرنا‘ خاندانی اکائی کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ دیگر غیر اسلامی رسمیںجن میں جہیز‘سورا‘ونی‘ قرآن سے شادی‘ کاروکاری اور عورت کے گھر والوں سے معاشی مطالبات وغیرہ بھی مروج ہیں۔

معاشرے میں نئی تبدیلیاں بھی واضح ہیں۔ عورت کی ملازمت ایک حق اور رواج بنتا جا رہا ہے۔ بچوں کو ڈے کیئر سنٹر بھجوانا‘ خاندانی منصوبہ بندی کا عام ہونا اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تگ و دو کے لیے اس کی وکالت۔ اس کے ساتھ زوجین کی باہم ناراضیاں‘ خلع کی شرح میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ‘ مردوں کے ساتھ اختلاط کے لیے پہلے کی سی کراہت کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یوں خاندانی اکائی کا استحکام متاثر ہو رہا ہے۔

مولانا فرماتے ہیں: ’’ضرورت اس امر کی تھی کہ مرد کے ساتھ عورت کے تعاون کی ایسی سبیل مقرر کر دی جائے کہ دونوں کا اشتراک عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیے صحت بخش ہو۔ اس نقطۂ عدل کو دنیا صد ہابرس سے تلاش کرتی رہی‘ مگر آج تک نہیں پا سکی‘ کبھی ایک انتہا کی طرف جاتی ہے تو پورے نصف حصے کو بیکار بناکر رکھ دیتی ہے۔ کبھی دوسری انتہا کی طرف جاتی ہے‘ اور انسانیت کے دونوں حصوں کو ملا کر غرق مے ناب کر دیتی ہے۔ افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں‘ مگر دنیا کی بدنصیبی کا یہ بھی دردناک پہلو ہے کہ دوسروں کو راستہ دکھانا تو درکنار وہ خود اندھوں کی طرح ہر بھٹکنے والے کے پیچھے دوڑتا پھرتا ہے‘‘۔

لہٰذا ہر مسلمان عورت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے: کیا آپ کو مغربی معاشرت اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی حقوق نسواں کی عالمی تحریک کا حصہ بننا ہے یا مسلمان معاشرے میں اسلام کے عطا کردہ حقوق کے حصول کے لیے معاون بننا ہے یا معاون نہیں بننا۔

اگر ایک ایسے صالح اور پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے‘ اور اگر ہم اسلام کے محکم اور آزمودہ نظام معاشرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ اس کے ضابطے اور اس کے ڈسپلن کی پوری پوری پابندی کرنی چاہیے۔ ہمیں ان نظریات‘     تخیلات سے بھی اپنے دماغ کو خالی کرنا ہو گا جو مغرب سے مستعار لے رکھے ہیں۔ اسی طرح اسلام کو غیراسلامی تصورات سے مسخ کرنے سے لازماً باز آنا ہو گا۔ یہ عملی تصور ہی اسلام کی     اشاعت و تعارف کا ناقابل تردید ثبوت ہو گا۔ اس کے لیے درج ذیل طریق اختیار کیے جا سکتے ہیں:

  •  عورتوں کو اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے‘ حقوق و فرائض سے آگاہ کرایا جائے۔ مغرب کے تقابل کے ذریعے‘ اس نظام کی برکتوں پر مطمئن اور قانع بنایا جائے۔ اس کے لیے درس قرآن کے رہایشی حلقوں میں چھوٹے گروپوں میں سلسلہ وار پروگرامات ہوں۔
  • سیمینار‘ مذاکرے‘ گفتگو کے فورم کا انعقاد براے خواتین کیا جائے جس میں تعلیم یافتہ طبقے کو آگاہی دی جائے اور خدشات دور کیے جائیں۔
  •   اسلام میں دیے گئے حقوق دلوانے کے لیے ایک فعال تحریک چلائی جائے‘ واضح اہداف حاصل کیے جائیں‘اور ملکی و عالمی سطح پر خواتین کو اس تحریک کا ہم نوا اور ممبر بنایا جائے۔
  •  یہ کام بنیادی طور پر خواتین کے اسلام پسند گروہوں و تنظیموں کا ہے۔ اس کا دوسرا اور اہم حصہ مردوں کے تعاون پر منحصر ہے۔
  •   مردوں کو اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے اور حقوق و فرائض سے قرآن و حدیث‘ اسوہ رسولؐ کی روشنی میں آگاہی دیے جانے کا معقول مؤثر و باقاعدہ انتظام کیا جائے۔
  •  گھرمیں بیوی اور بیٹی کے ساتھ اور بیرون خانہ عورتوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویے کے بجاے برداشت اور اعلیٰ ظرفی کی اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کروایا جائے۔
  •   حقوق نسواں کی عالمی تحریک کے فکری‘ تہذیبی‘دینی اور معاشرتی مضمرات سے آگاہ کیا جائے۔
  •   ہر ماہ ایک دن (پہلا جمعہ یا اتوار) اہل خانہ کے ساتھ گزارنے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کے لیے مختص کرنے کا سوچا جائے۔

اسلامی معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لیے‘ عورت اور مرد دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ وگرنہ یہ بگاڑ مسلمان عورت کو ہی نہیں مرد کو بھی متاثر کرے گا۔ اس کے بالمقابل یہ کسی ایک مسلمان عورت کے لیے ہی نہیں‘ دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک نمونہ و پناہ ہو گا۔ دین کی قدروں کا عملی ابلاغ ہی تشہیر و اشاعت دین کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ماخوذ: پردہ‘ حقوق الزوجین‘ مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

زندگی کی وہ ساعتیں جو سید مودودیؒ کی صحبت ِ گرامی میں گزری ہیں‘ ایسی متاع گراں بہا ہے‘ جس کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں جنھوں نے سیدیؒ سے براہ راست اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ذاتی واقعات بیان کرنے سے قبل مختصراً ان حالات کا ذکر مناسب ہو گا جن کا مولانا کی ہمہ گیر عبقری شخصیت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رہا ہے۔

مولانا کی اشتراکیت‘ نام نہاد جمہوریت اور شخصی یا گروہی آمریت کے خلاف جہدِ مسلسل‘ قیدوبند کی اعصاب شکن صعوبتیں‘ پھر حرفِ حق بلند کرنے کی پاداش میں دارورسن کی آزمایشوں سے گزرتے ہوئے پامردی اور استقامت کا بے پناہ مظاہرہ‘ وقت کی طاغوتی طاقتوںکے خلاف    ایمان و یقین کی قوت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انھیں پسپائی پر مجبور کرنا زندگی کے ایسے    ناقابلِ فراموش کارنامے ہیں‘ جن کی بدولت اسلام کی تاریخ کے وہ باب پھر سے درخشاں اور تابناک ہو گئے جب اکابرین امت نے اپنے اپنے دور کے تند و تیز بلا خیز طوفان کا رخ موڑ دیا‘ اور ملت کو   ان کی ہلاکت آفرینیوں سے بچا لیا۔

امام احمد بن حنبلؒ کے دور کا فتنۂ خلق قرآن‘ امام ابن تیمیہؒ کے دور کا فتنۂ تاتار‘ امام غزالیؒ کے دور میں لادینی فلسفے کی یلغار‘ مجدد الف ثانی  ؒ کے دور میں اکبر کے نام نہاد دین الٰہی کی گم راہیاں‘ شاہ ولی ؒ اللہ کے دور میں اسلام کے خلاف شورشیں‘ جیسی فتنہ سامانیوں کے خلاف یہی وہ برگزیدہ ہستیاں تھیں جنھوں نے اپنی فراست ایمانی‘ حکمت و دانائی اور تبحرِ علمی سے وہی اسلوب اور وہی پیرایۂ اظہار اور وہی زبان استعمال کی جو اس دور کے فہم و ادراک کے لیے موزوں اور مناسب تھی۔ ان نابغۂ روزگار شخصیتوں کا طّرئہ امتیاز رہا ہے کہ فرماں روا کے جبر و استبداد اور قہرمانی قوت سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس وادی ٔ پرخار کو کامیابی اور فیروز مندی کے ساتھ عبور کر گئے۔

مولانا مودودیؒ نے بھی یہی دشوار گزار‘ کٹھن اور صبر آزما راستہ اپنے لیے اختیار کیا۔   یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد مولانا نے ان تمام علوم جن کا تعلق آئین و قانون‘ سائنس و فلسفہ‘ مذہب و معیشت‘ معاشیات و معاشرت‘ سیاست اور عمرانیات سے تھا اور ساتھ ہی ان تمام عالمی تحریکوں کا جو اشتراکیت‘ فسطائیت اور بے لگام سرمایہ دارانہ جمہوریت کی صورت میں دنیا پر مسلط ہو رہی  تھیں‘ عالمانہ بصیرت کے ساتھ مطالعہ کیا۔ پھر ساینٹی فک انداز میں ان کا تجزیہ کر کے ان سب کو  قرآن و سنت کے معیار حق پر پرکھا اور ان تمام خرابیوں کو جو ان تحریکوں کی پیداوار تھیں‘ انھیں اسلام میں در آنے سے اپنی پوری قوت کے ساتھ روک دیا۔ ورنہ یہ خرابیاں امت کے لیے بڑی تباہی کا باعث ہوتیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں سوشلزم کا فتنہ نہایت برق رفتاری کے ساتھ اٹھا اور اٹھارھویں صدی کی لائی ہوئی ظلم پر مبنی سرمایہ دارانہ معیشت کی تباہ کاریوں کے خلاف عالمی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوا۔ کارل مارکس اور اینجلز کے افکار اور لینن و اسٹالن کے عملی اقدام سے یہ سیل بے پناہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا تھا۔ سب سے پہلے وہ دین و مذہب کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے درپے تھا‘ کیونکہ پیروانِ مذہب اس نوزائیدہ اشتراکی مذہب کی راہ میں حائل تھے۔ روس کی ملحقہ مسلم ریاستوں کو زیر و زبر کرنے کے بعد سوشلزم کا یہ سیلاب ہندستان کے اندر داخل ہو گیا۔ اگرچہ اس وقت برطانوی سامراج نے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن‘ زبان و ثقافت اور اقدار حیات کو بڑی حد تک اپنے کلچر میں تحلیل کر کے اپنی استعماری گرفت کو مضبوط کر لیا تھا لیکن اشتراکیت کے مقابلے میں اس کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ یہ فتنہ مسلمانوں پر ۱۸۵۷ء والی ابتلا سے بڑھ کر تباہ کن اور ہلاکت خیز تھا۔ اکابرین دیوبند‘ فرنگی سامراج کے خلاف برسرپیکار تھے۔ اسی دور میں سرسید کی تحریکِ علی گڑھ تہذیب ِ فرنگ کو مسلمانوں کی ترقی کے لیے ضروری خیال کرتی تھی۔ اس لیے ان دونوں کا منہج اور طریق کار ایک دوسرے سے مختلف تھا‘ لیکن دونوں کے پیش نظر مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھی۔ اس وقت سوشلسٹ اپنی کمین گاہوں کے اندر مذہب کی جڑیں کاٹنے کا تخریبی کام کر رہے تھے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کے ہم عصر سیاست دانوں کے دور میں سوشلزم کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ مولانا آزاد اور ان کے ہمرہانِ سیاست نے اس اشتتراکی چیلنج کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اپنی  تفسیر ترجمان القرآن میں مولانا آزاد نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے کہ ’’سوشلزم ایک نیا تجربہ ہے اور اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے اس تجربے کو زمانے کی کسوٹی پر آزمائے‘‘، اسے یکسر نظرانداز کر دیا۔ اصل میں اس وقت مولانا آزاد کی تمام توجہ اپنے اخبارات الہلال اور البلاغ میں پیش کردہ پیغام سے منقطع ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف مجتمع ہو گئی تھی۔ اس کے لیے انھوں نے نیشنلزم کی ہندستانی قوم پرستانہ تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسی راستے پر چل نکلے۔

ٰاشتراکی ترقی پسندی‘ الحاد اور لادینی کے اس پرآشوب دور میں ایک مردِ خود آگاہ و حق اندیش اٹھا‘ جس نے برعظیم ہند میں سب سے پہلے اشتراکیت کی تباہ کاریوں‘ یورپ کی لادین سیاست اور وطن پرستانہ قومیت کے خطرناک نتائج و عواقب سے ملت اسلامیہ کو بروقت خبردار کیا‘ اور ساتھ ہی  اپنے کلام اور پیغام کی ضربِ کلیمانہ سے برطانوی ملوکانہ اقتدار پر پے درپے حملے کرتا رہا۔ یہ  شخصیت تھی داناے راز علامہ محمد اقبالؒ کی‘ جس کی ذات میں مشرقی اور مغربی علوم کے دھارے آ کر دریاے بے کراں بن گئے تھے۔ اقبالؒ نے کارزارِ سیاست میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کو ملت کے لیے معتبر اور اپنا ہم عنان سمجھا‘ کیونکہ قائداعظمؒ‘ علامہ اقبالؒ ہی کے الہ آباد میں ۱۹۳۰ء کے مسلم قومیت پر مبنی خطبۂ صدارت کے پیغام کو لے کر آگے بڑھتے چلے گئے‘ جو پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔

سید مودودیؒ، علامہ اقبال ؒ کی جداگانہ مسلم قومیت کے بنیادی نظریہ خلافتِ الہٰیہ اور اس سے بڑھ کر نیابتِ الٰہی کے عظیم مشن کے رازدانوں میں تھے۔ علامہ کی مردم شناس نظر اور ان کی اسلامی بصیرت نے اسلام کی ایک ابھرتی ہوئی قوت کو سید مودودیؒ کی صورت میں پہچان لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور آنے کی دعوت دی‘ تاکہ وہ اپنے اس مشن کو ان کے حوالے کردیں۔

علامہ اقبال کے ہم راز عزیز دوست سید نذیر نیازی مرحوم نے کرنل اقبال کی موجودگی میں بتلایا تھا کہ علامہ اقبال‘ مولانا مودودی سے ملنے کے لیے کس قدر منتظر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس شخص میں وہ خداداد صلاحیتیں موجود ہیں جو ان مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہیں۔ انھیں یقین تھا کہ یہ شخص سیکولر نظام کی پیدا کی ہوئی فتنہ انگیز تحریکوں کا جرأت رندانہ اور فراست مومنانہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے منزل مراد کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہے جو نظریہ پاکستان کے حقیقی معمار علامہ اقبالؒ کے سید مودودیؒ کے نام اس دستاویزی ثبوت کے باوجود ان پر اس الزام تراشی سے باز نہیں آتے کہ مولانا مودودیؒ قیامِ پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔ حالانکہ قائداعظم ؒ کے سیکرٹری اور ملک کے چوٹی کے قانون دان جناب شریف الدین پیرزادہ نے انھیں پاکستان کے مخلص بانیوں میں شمار کیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجنز میں مولانا مودودیؒ کو بیسویں صدی میں اسلام کی نشات ثانیہ کا قائد اور پاکستان کے Founding Fathers کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔

اب میں صرف ان حالات اور واقعات کا ذکر کروں گا جن کا تعلق آئین و قانون اور شرعی قوانین کے حوالے سے ہے‘ جو ہم نے خود مولانا کی زبان صدق و صفا سے سنے ہیں۔ اگر تمام واقعات قلم بند کروں تو ایک پوری کتاب تیا ر ہو جائے گی۔

مولانا کی عصری مجالس (نماز عصر کے بعد کی نشستوں) کے علاوہ خاص نشستیں بھی ہوتیں‘ جن کے لیے ہم خود حاضر ہوتے یا جب کبھی مولانا یاد فرماتے۔ ان نشستوں میںاکثر: حاجی غیاث محمد سابق اٹارنی جنرل‘ میاں شیر عالم سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار‘ درویش محمد عاربی اور راجا محمد صفدر اور کبھی کبھی اے کے بروہی مرحوم‘ چودھری نذیر احمد خان سابق اٹارنی جنرل‘ جناب خالد اسحق‘   جناب راجا افرا سیاب خان سابق جج سپریم کورٹ موجود ہوتے۔

ایک خصوصی نشست میں دستور سازی پر گفتگو ہو رہی تھی۔اس نشست میں مولانا مودودیؒ نے جو تفصیلات بتائیں‘ ان کے ایک پہلو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:

پاکستان بنا تو اسلام کے لیے ہے‘ لیکن انگریزوں کے غلامی کے اثرات‘ سوشلسٹ اور لادینی عناصر کی بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے اسلام کے خلاف محاذ بن چکا ہے۔ اسلام کی بات کرنا ملائیت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا جاتاہے۔ قانون دان حضرات کی اکثریت کا بھی خیال تھا کہ اس دور میں اسلامی قانون کا نفاذ ممکن نہیں۔ حکمران طبقہ تو اپنے انگریز آقائوں کی طرح مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ خیال کرتا تھا۔ سب سے بڑا اعتراض جس کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرتے‘ یہ تھا کہ خود علما حضرات مذہب کے بارے میں متفق نہیں تو پھر یہاں اسلامی دستور کی تشکیل اور اسلامی قانون سازی کس طرح ہو سکتی ہے۔ جسٹس منیر صاحب اس طبقے کے قائد تھے۔ یہ گروہ اس قسم کے اعتراضات اٹھا کر حکومت کے ایک خاص طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتا تھا۔ ان حالات میں مجھے اور میرے رفقاے کار کو نہایت جانفشانی کے ساتھ کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ اسلامی دستور کے بنیادی نکات تیار کرکے علما کو پیش کیے گئے‘ کیونکہ ان میں کوئی اختلافی بات نہیں تھی اس لیے تمام مکاتب فکر کے علما نے اسلامی دستور کے بارے میں متفقہ قرارداد منظور کر لی۔ اس پر حکومت میں ہمارے مخالفین بہت گھبرائے‘ ان کے سازشی ذہن نے جوڑ توڑ کا کاروبار شروع کیا۔ چند علما جو اس قرارداد کی منظوری میں شامل تھے انھیں یہ باور کرایا گیا کہ اس مہم کی کامیابی کا سارا کریڈٹ تو مودودی اور ان کی جماعت اسلامی لے جائے گی۔ اس بات کی مجھے بھی خبر ہو گئی اور ان سے گفتگو کے بعد اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ اصل غرض اور مقصود تو اسلام کے لیے بنیادی کام ہے۔ اگر میرا اور میری جماعت کا نام اس راستے میں رکاوٹ ہے تو آپ ہمیں سب سے آخر میں رکھ دیں۔ اس کے بعد ان علما کے لیے قرارداد سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں رہی۔ طے پایا کہ اس سلسلے میں مجلس عمل کا اجلاس طلب کیا جائے جہاں عملی اقدامات کے بارے میں لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ لیکن مجلس عمل کا یہ اجلاس ہمیں بلائے بغیر ہی طلب کر کے ملتوی کر دیا گیا۔ مگر دوسری طرف خواجہ ناظم الدین مرحوم نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ بطور وزیراعظم اور قائد اسمبلی‘ اسلامی دستور سازی کے سلسلے میں مثبت اقدام کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ عناصر جو اسلام کو اپنی من مانی کارروائیوں کی راہ میں مزاحم سمجھتے تھے‘ ہمارے ان ارادوں سے بے خبر نہ تھے۔ چنانچہ ملک غلام محمد‘ بیوروکریسی کے اہل کار‘ عدلیہ کے سربراہ جسٹس محمد منیر اور چودھری ظفراللہ خان بیرونی طاقتوں کی ساز باز سے نفاذ اسلامی نظام کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں: خواجہ ناظم الدین وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیے گئے‘ دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی‘ پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا‘ دینی عناصر کی سرکوبی کی گئی۔ میرے وجود کو حکومت اور اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مجھے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ پمفلٹ قادیانی مسئلہلکھنے کے جرم میں سزاے موت سنائی گئی‘ مگر قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ مجھے سزاے موت دینے والے خود ہی بے بسی کی حالت میں دنیا سے چل بسے۔

مسئلہ قادیانیت کے بارے میں دریافت کرنے پر بتلایا :دلائل کا جواب دینے کے لیے ’’دلائل موجود نہ ہوں تو پھر طاقت کے زور پر حق کو دبانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے‘‘۔ گفتگو ختم کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس ناپاک سازش کے باوجود الحمدللہ میرے اور جماعت کے عزائم اور حوصلے بلند رہے ۔ ہم اپنے کام میں لگے رہے۔ حکومت وقت اور اس کے کارندے ہمارے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہے‘‘۔

  • سال ۱۹۶۴ء کا ایک آئینی مقدمـہ: ۱۹۶۴ء میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے مولانا مودودیؒ کی وہ رٹ خارج کر دی جس میں جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دینے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف مولانا مودودی‘ ان کے صاحبزادے سید عمر فاروق مودودی وغیرہ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی۔ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی پر پابندی کو ناجائز قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں مولانا مودودیؒ کی اپیل کی پیروی کے لیے جو پینل بنا اس کے سربراہ اے کے بروہی تھے۔ ان کے ہمراہ جسٹس (ر) شبیر احمد‘ میاں محمود علی قصوری‘ ایس ایم ظفر سینئر ایڈوکیٹس تھے۔ ان کی معاونت کے لیے بیرسٹر مس رابعہ قاری‘ یہ خاکسار‘ بیرسٹر اخترالدین‘ چودھری اسماعیل اور دیگر وکلا موجود تھے۔ گورنمنٹ کی جانب سے منظور قادر‘ سید نسیم حسن شاہ اور دیگر نامور وکلا پیش ہوئے۔ مولوی تمیزالدین خاں کے بعد پاکستان کی عدلیہ کا ایک اہم اور دور رس نتائج کا حامل مقدمہ تھا‘ جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق‘ حکومت کے بے رحم اور جارحانہ قوانین‘ قانون کی معقولیت اور جوڈیشنل ریویو جیسے آئینی اور قانونی نکات زیر بحث آئے۔

بروہی صاحب اپیل کی سماعت کے بعد روزانہ ہر جج کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق نمبر (مارکس) دیتے۔ ۱۰۰فی صد مارکس انھوں نے کسی کو نہیں دیے‘ البتہ یہ فل مارکس انھوں نے صرف ایک شخص کو دیے جو جج یا وکیل نہیں بلکہ مدعی تھا‘ اور وہ مولانا مودودی تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ مولانا مودودیؒ نے کیس کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اپنے نوٹس بروہی صاحب کو پہنچا دیے تھے۔ اس اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے مولانا مودودیؒ کے حق میں صادر کیا۔ اے کے بروہی صاحب سے واقف حضرات جانتے ہیں‘ کہ یہ وہی مسٹر اے کے بروہی ہیں جو دین کو پرائیویٹ معاملہ سمجھتے تھے اور جنھوں نے چیلنج دیا تھا کہ اگر کوئی شخص قرآن سے اسلامی آئین کا ثبوت دے تو وہ اسے ۵۰ ہزار روپے انعام دیں گے۔ مولانا کے مقدمات کی پیروی کرنے اور ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے اور ان سے ملاقاتوں کے بعد انھی بروہی صاحب میں ایسا ذہنی انقلاب آیا کہ وہ مولانا کے ہم نوا ہو گئے اور اسلامی آئین اور قانون کے داعی اور شارح بن گئے۔

  • سال ۱۹۷۴ء  میں مولانا کا استقبال: سال ۱۹۷۴ء میں جناب منظور قادر کی وفات کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا میں صدر اور جہانگیر جھوجہ سیکرٹری جنرل تھے۔ اس دوران مولانا مودودیؒ جب پہلی مرتبہ امریکہ سے جہاں وہ بغرض علاج اپنے صاحبزادے احمد فاروق کے پاس گئے ہوئے تھے‘ واپس آئے تو ہم دونوں نے شہریان لاہور کی جانب سے ان کا استقبال کیا۔ دینی اور سیاسی جماعتوں کے عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ لاہور کا سارا شہر رشید پارک کے وسیع میدان میں امڈ آیا ہے۔ میں نے مولانا کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا: ’’مولانا نے اس سرزمینِ بے آئین کو اسلامی آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے جو بنیادیں فراہم کی ہیں‘ ان پر ملک عزیز کی بقا اور استحکام کا انحصار ہے‘‘۔ اس کے جواب میں مولانا نے نہایت مشفقانہ انداز میں مسلمانوں کو ملک عزیز میں اسلامی نظام حیات کے لیے کوششیں تیز کرنے کی تلقین کی۔

امریکہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا نے بتلایا :’’وہاں اسلام کے لیے فضا تیار ہو رہی ہے مگر وہاں جو مسلمان سرکاری یا پرائیویٹ امریکن فرموں میں ملازم ہیں ان کو ٹوپی اور داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں۔ علماے ازہر سے فتویٰ لیا گیا تو انھوں نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا یہودی اپنی مذہبی ٹوپی پہن سکتے ہیں‘ سکھ ڈاڑھی رکھ سکتے ہیں‘ لیکن صرف مسلمانوں کے لیے یہ امتیازی قانون کیوں؟ اصل بات یہ ہے کہ امریکی حکومت کو اسلامی تشخص کی ہر نشانی سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

  • ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کا قیام: جناب اے کے بروہی سے میرے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جب بھی وہ لاہور آتے ان سے ملاقات رہتی۔ سال ۱۹۷۶ء میں جب وہ یورپ کے دورے سے واپسی پر مجھ سے ملے تو کہنے لگے: ’’مولانا مودودی کے لٹریچر سے یورپ کے دانش ور طبقے  (Intellectual class) میںاسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’بروہی صاحب‘ مولانا اور ان کی تربیت یافتہ جماعت اور خصوصاً نوجوانوں کے ذریعے اسلام کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اور دنیا میں پھیلے ہوئے اسلامی اسکالروں اور دانشورانِ قانون کا     ایک پلیٹ فارم بن جائے تو یہ بھی ہمہ گیر اسلامی آرڈر (Islamic Order) کی جانب ایک اہم پیش رفت ہوگی‘‘۔

بروہی صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ کافی عرصہ غور و خوض کے بعد میںنے مولانا مودودیؒ سے اس بارے میں رہنمائی کی درخواست کی۔ مولانا نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بلاتامل اس عصری مجلس میں جس میں چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب بھی موجود تھے‘ اس کے چارٹر کے لیے اغراض و مقاصد تحریر کرائے۔ اس تنظیم کا نام میں نے  ورلڈ ایسوسی ایشن آف اسلامک جیورسٹس تجویز کیا تھا۔ مولانا مودودی نے اسلامک (Islamic) کے بجاے مسلم کا لفظ پسند کیا۔ مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے عربی میں اس کا نعم البدل بتلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اپنے نفس گرم سے اس تنظیم کے ڈھانچے میں روح پھونک دی۔

اس وقت کے نامور علما سے جو قدیم اور جدید علوم کے ماہر تھے اس کا تعارف کرایا۔ یہاں میں صرف چند ممتاز شخصیتوں کا ذکر کروں گا جو اس تنظیم کے اعزازی اور اساسی اراکین میں شامل ہیں۔ اعزازی اراکین:  ۱- عبداللہ بن عبدالعزیز‘ پریذیڈنٹ سپریم کونسل آف جسٹس سعودی عرب‘ ۲- ڈاکٹر معروف دوالیبی‘ ۳- ممتاز اسکالر محمد قطب مصر‘ ۴- شیخ عبداللہ ابراہیم‘ ڈپٹی لیڈر رابطہ عالم اسلامی۔

اساسی اراکین: ۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ (فرانس)‘ ۲- ڈاکٹر محمد اسد (اسپین)‘ ۳- ڈاکٹر اسماعیل راجی فاروقی (امریکہ)‘ ۴- ڈاکٹر محمد کاشانی (ایران)‘ ۵- ڈاکٹر ادریس علوی (مراکش)‘ ۶- ڈاکٹر عبدالقادر (ڈپٹی چیف جسٹس ترکی)‘ ۷- مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (بھارت)‘ ۸ -جناب حمودالرحمن (چیف جسٹس پاکستان)‘ ۹- شیخ غیاث محمد (اٹارنی جنرل پاکستان)‘ ۱۰- جناب اے کے بروہی‘ بیرون پاکستان کے سکالرز‘ مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے اور اسلامی قانون اور جیورس پروڈنس کے بارے میں اپنی آرا سے بھی مستفید کرتے رہے۔ جب اس تنظیم کی تشکیل مکمل ہو گئی اور مختلف شعبوں نے مختلف ممالک میں کام کرنا شروع کیا‘ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ‘ ریاض سعودی عرب نے مجھے اپنے ایڈوائزری بورڈ کا رکن منتخب کر لیا تو میں نے مولانا سے اس عالمی تنظیم کا سرپرست اعلیٰ بننے کی درخواست کی۔ پہلے تو وہ پس و پیش کرتے رہے‘ بالآخر اپنے مکتوب کے ذریعے اس کے لیے رضامند ہو گئے۔ مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:

محترمی و مکرمی‘ السلام علیکم‘

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ یہ آپ کی عنایت ہے کہ آپ مجھے اس عظیم تنظیم کا سرپرست بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ مقام تو کسی جلیل القدر قانون دان کو عطا کرنا چاہیے‘ تاہم اگر آپ کے رفقا بھی اس خیال ہی کی تائید کرتے ہیں تو میں اسے بخوشی منظور کر لوں گا۔

خاکسار   

۲۴ مئی ۱۹۷۹ئ                                                                    ابوالاعلیٰ

تمام اراکین جن میں اے کے بروہی‘ شیخ غیاث محمد‘ چودھری نذیر احمد خان‘ بی زیڈ کیکاوس شامل تھے‘ انھوں نے مولانا کو متفقہ طور پر اپنی رائے سے مطلع کیا اور اسے تنظیم کے لیے باعث افتخار قرار دیا۔ مولانا کے دست راست جناب عاصم نعمانی نے میرے اور میرے رفقا کی ملاقاتوں کا ذکر اپنی یادگار کتاب گفتار اور افکار میں کیا ہے اور اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’آپ حضرات کی غیر حاضری میں آپ کی تنظیم کا ذکر آ گیا تو مولانا نے آپ کے کام کو سراہا اور تحسین فرمائی‘‘۔ یہ مولانا کی عظمت کی دلیل ہے۔

اس سے قبل مولانا نے اس تنظیم کے لیے اپنی خرابیِ صحت کے باوجود ۱۶ مئی ۱۹۷۸ء کو ایک مبسوط پیغام ارسال فرمایا جس کا خلیل حامدی صاحب نے عربی میں ترجمہ بھی کر دیا۔ اس پیغام کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

قانون کو جو شخص بھی جانتا اور سمجھتا ہو وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ کوئی قانون بھی بجاے خود ایک مستقل علم اور مجموعہ احکام نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک نظامِ فکر‘ ایک تصورِ حیات‘ ایک نظامِ اقدار‘ ایک معیار خیر و شر اور ایک تصور اخلاق کارفرما ہوتا ہے‘ جس کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔

مولانا کے مکمل پیغام کے ہر لفظ میں ایک جہانِ معنی پنہاں ہے۔ قانون کی اس سے بہتر ترجمانی جیورس پروڈنس کے ماہرین بھی نہیں کر سکے۔ میرے نام مولانا کے اور مکتوبات گرامی کی طرح یہ دونوں مکتوبات بھی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے۔ ۳۱ اگست ۱۹۷۸ء کو مسلم جیورٹس ایسوسی ایشن نے مولانا کے اعزاز میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔ خرابیِ صحت کے باوجود مولانا نے اس میں شرکت فرمائی۔ جس میں میاں طفیل محمد‘ جناب قاضی حسین احمد‘ مولانا نعیم صدیقی‘ محمد اسلم سلیمی اور پاکستان نیشنل الائنس کے وزراے کرام‘ چودھری نذیر احمد خان‘ میاں شیر عالم‘ جناب عامر رضا خان ایڈووکیٹ جنرل پنجاب‘ چودھری ایم عارف (جو بعد میں سپریم کورٹ کے سینئر جج رہے ہیں) اور دینی جماعتوں کے عمائدین نے شرکت کی۔ مولانا نے اپنے حیات آفریں خطاب میں وکلا کے اتحاد اور اسلامی قانون کی حکمرانی کے لیے جرأت مندانہ کوششوں کو قابلِ ستایش قرار دیا اور دعا فرمائی کہ اللہ آپ حضرات کو اس نیک کام میں زیادہ محنت اور غور و خوض کی توفیق دے اور آپ جس عظیم مقصد کے لیے کوشاں ہیں اس میںکامیابی عطا فرمائے۔

m  ۱۹۷۸ء اور ۱۹۷۹ء کے دوران ملا قاتیں:  ۱۹۷۸ء اور ۷۹ء میں جو ملاقاتیں ہوئیں‘ ان میں شیخ غیاث مرحوم‘ میاں شیرعالم‘ درویش عاربی‘ راجا صفدر مرحوم‘ خالد ایم اسحاق اور ڈاکٹر ظفر علی راجا بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ گفتگو کا موضوع: علما کا اتحاد‘ آئین‘ مسلم جیورٹس ایسوسی ایشن اور کام کی ترجیحات ہوتیں۔

مولاناکی صحت کے بارے میں ہم سب نہایت فکرمند تھے۔ عرض کیا: ’’اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ شب و روز کی سعی و کاوش‘ جیل کی بے پناہ صعوبتیں برداشت کرنے اور مسلسل تحقیقی کام کو جاری رکھنے کے نتیجے میں ان کے اثرات اور ثمرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ ثمرات سے ساری ملت فیضیاب ہو رہی ہے‘ جب کہ اعصاب شکن اثرات سے آپ کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ اس لیے زیادہ تر وقت آرام کے لیے وقف کیجیے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’کوشش بھی کر کے دیکھ لی ہے‘ کامیابی نہیں ہوئی۔ کم بخت کام کی لت کچھ ایسی پڑ گئی ہے بغیر کام کے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیوں کی تکلیف بڑھتی جا رہی ہے غالباً اب وہ مجھ سے انتقام لے رہی ہیں‘‘۔

خرابی صحت کے دوران ترکی اور ایران کے وفود نے مولانا سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی اہم باتیں ہمیں بتلاتے رہے۔ فرمایا : ’’اقبال کے افکار اور جماعت اسلامی کی فکری تحریک نے ایران اور ترکی میں اسلام کی طرف مراجعت میں اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ پھر مولانا نے ترکی میں خلافت کے زوال اور ایران میں شہنشائیت کے خاتمے کے تاریخی عوامل کی تفصیل کے ساتھ نشان دہی فرمائی۔

الوداعی ملاقات

۲۴ مئی ۱۹۷۹ء کو مولانا کی اقامت گاہ پر حاضر ہوا‘ جسے میں نے ’بیت الامت‘ کا نام دیا تھا۔ دوبارہ امریکہ علاج کی غرض سے جانے کے بارے میں بتلایا کہ: ’’دل تو نہیں چاہتا کہ اتنے لمبے سفر کی صعوبت برداشت کروں‘ لیکن بچوں کے اصرار پر اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو رضامندی کا اظہار کیا ہے‘ ۲۶ مئی لاہور سے روانگی کا پروگرام ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’پروگرام کو عام نہ کیا جائے کیونکہ نقاہت کی وجہ سے سب سے مل نہ سکوں گا‘‘۔ ۲۶ مئی کو بنچ اور بار کی ایک خاص میٹنگ کی وجہ سے ایرپورٹ پر بروقت نہیں پہنچ سکا۔ جب پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولانا جہاز میں سوار ہو چکے ہیں۔ مولانا کے صاحبزادے سے جو اس وقت وہاں موجود تھے کہا کہ مولانا کو میرا سلام پہنچا دیں۔ کہنے لگے اس وقت کسی کو جہاز پر جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن پی آئی اے کی محنت کش یونین پیاسی کے ایک  عہدہ دار نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ مولانا کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے از راہ شفقت جہاز پر اُوپر بلالیا۔ دیکھ کر فرمایا: ’’آخر آپ آ ہی گئ