جمال بے مثال ہو تو تعریف مشکل ہوجاتی ہے، اور جمال اعمال و کردار کا ہو، تو احاطہ مشکل تر بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ پروردگار عالم نے بنی نوع انسان میں ابنیاے کرام کے علاوہ کئی ایسے مومنین صادقین پیدا فرمائے جن کا ذکرِ جمیل مشک و عنبر کی حیثیت رکھتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ان چنیدہ ہستیوں میں ایک ہستی حسن البنا شہید ہیں۔ ان کی نصف صدی پہ محیط زندگی اور پوری صدی پر محیط اثرات و ثمرات کا مطالعہ کریں، تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تجدیدِ دین ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔ ان کی ولادت کو سو برس گزرے تو ترجمان القرآن نے ان کی شخصیت و کردار اور ان کی دعوت و اثرات کا جائزہ لینے اور انھیں مزید متعارف کروانے کا مستحسن فیصلہ کیا۔ اگرچہ حسن البنا کا نام، ان کی تحریک اور جدوجہد تحریک اسلامی کے کسی بھی کارکن کے لیے اجنبی نہیں، لیکن اس سراپا عمل و اخلاص شخصیت کے کتنے ہی پہلو ایسے ہیں، جن سے اُردو کے قارئین ابھی تک ناآشنا ہیں۔ ان کے بارے میں لکھی جانے والی کتنی ہی ایسی مؤثر تحریریں ہیں، جو صرف عرب دان حلقوں تک محدود ہیں۔ ان کے تجربات، ان کی ہمہ گیر سوچ، انھیں درپیش خطرات، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر توڑے جانے والے مظالم، کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان پر گزرنے والے ہر نازک لمحے سے آگاہ تھے۔ یہ نہ صرف پاکستان سے ان کی گہری محبت کا مظہر اور اس سے وابستہ اُمیدوں کی دلیل ہے بلکہ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی مضبوط اسلامی بنیادوں کا واضح ثبوت بھی ہے۔ حسن البنا شہید کے صاحبزادے احمد سیف الاسلام البنا سے یہ قیمتی خطوط حاصل ہوئے۔
اشاعت خاص کے لیے ہم نے عالم اسلام کے دانش وروں اور اسلامی تحریک کے قائدین کو لکھنے کی دعوت دی تھی۔ اکثر ممالک اور اکثر تحریکوں کے ذمہ داران نے اپنی خصوصی تحریریں ارسال کیں۔ امام شہید کے اہلِ خانہ اور سفرو حضر میں ان کے ساتھیوں نے ان کے معمولات اور شخصیت کے گوشے وا کیے۔
امام حسن البنا شہید کی اپنی تحریریں بھی ان کے بلند علمی مقام، قابل رشک فکری گہرائی، باوقار اعتدال اور حیرت انگیز تنظیمی خوبیوں کو جاننے کا بہت اہم ذریعہ ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک اُردو میں ان کی صرف چند تحریریں منتقل ہوسکی ہیں۔ اُمید ہے کہ شامل اشاعت ان کی چند نگارشات، ان کی فکر کو جاننے اور ان کی علمی وجاہت سے متعارف ہونے کا اہم ذریعہ ثابت ہوں گی۔
اس اشاعت میں آپ کچھ قدیم تحریریں بھی پائیں گے، لیکن یہ سب تحریریں اس حوالے سے تازہ اور اہم ہیں کہ ابھی تک اُردو میں شائع نہیں ہوئیں۔ عظیم شخصیات کی یہ تحریریں قاری کو ایک نیا جذبۂ عمل بخشتی ہیں۔ اس سے پہلے امام شہید کی ڈائری اور ان کے بعض خطبات اور کتابچے ترجمہ ہوکر اُن کا بھرپور تعارف کرواچکے ہیں۔ لیکن اُمید ہے کہ مطالعے کے بعد آپ کا دل بھی گواہی دے گا کہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ترجمان القرآن کی اشاعتِ خاص اور اتنے ہی مزید صفحات پر مشتمل کتابِ خاص سے ایک بڑا خلا پر ہوا ہے۔ خواہش تو یہ تھی کہ کتاب میں شامل تمام مضامین بھی اشاعت خاص ہی میں شامل ہوں، لیکن وسائل کی کمی نے اس خواہش کی تکمیل نہیں کرنے دی۔ ان شاء اللہ بہت جلد یہ کتاب بھی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔
اس اشاعت خاص کی تیاری ایک بڑی سعادت ہے۔ اس میں جن احباب کا تعاون حاصل رہا، اللہ تعالیٰ انھیں اجرعظیم سے نوازے۔ تاہم جملہ امور میں معاونت کے لیے پروفیسر خالد محمود، حافظ محمد عبداللہ،حمیداللہ خٹک، طارق زبیری، امجد عباسی، حیدر زیدی اور خلیل الرحمن ہمدانی کے خصوصاً شکرگزار ہیں۔یہ اشاعت اپنے آنے والے کل کو گزرے ہوئے کل سے بہتر بنانے کا پیغام ہے۔ اب اصل سوال یہ رہے گا کہ کیا ہم نے یہ پیغام پڑھ لیا، سمجھ لیا اور بہتر کے لیے عزم باندھ لیا؟ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ - وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o
عبد الغفار عزیز
۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
حسن البنا شہید سے میرے تعلق کی بنیاد بڑی منفرد ہے۔وہ اسلامی تاریخ کی ان چند مرکزی شخصیات میں سے ہیں جن سے ملاقات نہ کرنے کی حسرت ہمیشہ رہے گی۔ مجھے اپنے بچپن میں مولانا ابولکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی اورعلامہ محمد اسد کو دیکھنے کا موقع ملا۔مگر مولانا محمد علی جوہر اورعلامہ محمد اقبال دوایسی شخصیات ہیں جن کو نہ دیکھنے کا قلق رہاہے۔ اس تسلسل میں جس تیسری شخصیت کو دیکھنے کی تمنا، خواہش اور شوق رہا،وہ حسن البنا شہید تھے۔
حسن البنا کی شخصیت میں ایک غیر معمولی سحرانگیزی (charisma) اور دل کش جاذبیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حسن البنا کے قالب میں ایک ایسی بے چین روح ہے، جو اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے، اس کی مرضی و ہدایت کی روشنی میں دنیا کو بدل ڈالنے اور اسے مالک و خالق کی اطاعت میں لانے کے لیے ہر آن سرگرداں اورمضطرب ہے۔ یہ کیفیت ان کے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر شہادت کے لمحات تک موجزن نظر آتی ہے۔ مجھے بے شمار مفکرین کو پڑھنے، استفادہ کرنے،اوربہت سے اہلِ دل سے ملنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن جو کرشماتی کیفیت حسن البنا شہید کی زندگی،ان کے روزوشب اور ان کے مکالمات ومعاملات میں نظر آتی ہے،اوروہ بھی نہایت فراوانی کے ساتھ، وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ اسی لیے مجھے ایسی دل آویز شخصیت کونہ مل سکنے پر احساس تاسف ہمیشہ رہے گا۔
اخوان کے تیسرے مرشد عام جناب عمر تلمسانی مرحوم سے لے کر موجودہ مرشد عام محمدمہدی عاکف تک سبھی سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہے۔ کچھ سے تو خاصی قربت بھی رہی ہے، جیسے جناب استاد مصطفی مشہوراور جناب مامون الہضیبی۔مامون الہضیبی کے والد حسن الہضیبی جو حسن البنا مرحوم کے بعد دو سرے مرشد عام تھے ، ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی،البتہ خط و کتابت کی سعادت حاصل ضرور ہوئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میںانھوں نے اپنی تحریروں سے بھی نوازا۔ان مواقع کے باوجود حسن البنا جیسے عبقری قائدسے ملنے کے شوق اور نہ مل سکنے کی حسرت اپنی جگہ موجودہے۔انسان کسی عظیم شخصیت سے ملاقات میں کچھ حاصل کرتاہے یا کچھ حاصل نہیں کرپاتا،یہ دوسری بات ہے، لیکن ایسے پاک طینت اشخاص اور اہل اللہ کو دیکھنا اور ان کی مجالس میں بیٹھنا بھی روحانی تعلیم و تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس اعتراف حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک اور اعتراف بھی شاید بے محل نہ ہو۔ مجھ جیسے عقلیت زدہ انسان پر بھی یہ کیفیت باربار گزری ہے کہ حسن البنا شہید کو اپنے قریب پایا ہے۔ ان سے صحبت اور بالمشافہہ استفادے کے باب میں محرومی کے باوجود ان سے ایک ایسی نسبت زندگی بھر محسوس کی ہے جسے روحانی ملاقات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہے یا محض اپنی خواہشات کی تسکین کہ بارہا زندگی میں ان سے قربت اور ان کے حلقۂ مریداں میں شرکت کی لذت محسوس ہوئی ہے۔ یہ اللہ کا فضل اور ان کی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ ہے۔
سعید رمضان دسمبر ۱۹۴۸ء میں پاکستان آئے اور پھر فروری ۱۹۴۹ء میں امام حسن البنا کی شہادت کے بعد کچھ عرصہ کے لیے یہیں مقیم ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں وہ عرب دنیا میں پاکستان کو متعارف کروانے کے لیے گئے اور پھر ۱۹۵۱ء کی مؤتمر عالم اسلامی کی دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے، اور اس کے معتمدعام دوم منتخب ہوئے۔ کانفرنس میںسعید رمضان کی تقریر مسحور کن تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں تقریر کا غیر معمولی ملکہ عطاکیاتھا۔ عربی میں تو وہ قادر الکلام تھے ہی ،لیکن انگریزی پر مکمل دسترس نہ رکھنے کے باوجود، ان کے اظہار بیان میں تاثیر کچھ کم نہ تھی۔فکر و جذبات کا جو مؤثر اظہار ان کی خطابت میں تھا، وہ قابل رشک تھا۔ خاص طور پر نوجوانوں کو وہ مسحور کرنے اور عمل پر اُبھارنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔
پاکستان میں ان کے قیام کے دوران میں ہی چونکہ اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی گئی تھی اور امام حسن البنا شہید کر دیے گئے تھے،اس لیے وہ یہیں ٹھیرگئے۔ آرام باغ،کراچی میں ایک فلیٹ انھوں نے کرایے پر لے لیا تھا۔یہ فلیٹ ہماری ملاقاتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا کہ ہم ان سے نہ ملتے ہوں۔ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم و مغفور سے جو راجا بھائی کے والد محترم اور تحریک پاکستان کے اہم قائد تھے، ان سے سعید رمضان کا غیرمعمولی تعلق خاطر تھا۔ وہ مولانا انصاری صاحب سے باپ کی طرح محبت کرتے تھے اور انصاری صاحب، سعید رمضان سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے تھے۔ پاکستان میں قیام کے زمانے میں انھوں نے خود کو مختلف مفید کاموں میں مشغول رکھا‘ اور خاص طور پرکراچی کے نوجوانوں کو اسلامی مقاصد کے لیے سرگرم عمل کرنے میں کوشاں رہے۔ انھوں نے ان کی اچھی خاصی تعداد میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ریڈیو پاکستان سے اسلام اور قرآن پر عربی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو عرب دنیا میں بہت مقبول ہوا۔
مولانا مودودی تحریر و تقریر میں ممتاز، اعلیٰ درجے کے منتظم ، بلندپایہ مدبراور تحریک کے قائد تھے۔ اس طرح تحریک میںہر حیثیت سے ان کا کردار بڑا نمایا ں رہا ہے۔یہ اوصاف اپنی جگہ بڑی مرکزیت رکھتے ہیں، تاہم مولانا محترم کی شخصیت کا سب سے زیادہ غالب پہلو، ان کی فکر، ان کی تحریر اور وہ عظیم الشان لٹریچر ہے، جس نے افراد کے دل و دماغ میں طوفان بپا کیا اور ایک پوری نسل کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اسی طرح اگرچہ حسن البنا شہید کی تقاریراور کتابیں بھی ہیں اور علمی اور عملی ہردو اعتبار سے ان کا بڑا بلند مقام بھی ہے، لیکن ان سب اوصاف کے ساتھ حسن البنا کا نمایاں ترین وصف انسان سازی ہے۔ ان کا بلند ترین کارنامہ روح سے روح کا اتصال ہے۔بلاشبہہ اس میں دلیل کی قوت کے ساتھ عقل کو اپیل بھی شامل ہے، لیکن ان کی شخصیت، ان کی دعوت اور ان کی تحریک کا اصل ہدف انسان کا قلب ہے۔ ان کی تقریروں کو پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ :ان کی زبان کے ساتھ ان کی روح بھی بولتی تھی۔ ان کے اس خاص اسلوب اور اثر انگیزی کو روحانی ٹیلی پیتھی (spiritual telepathy)یا خیال رسائی کہا جاسکتا ہے۔
اخوان المسلمون پر لکھا وسیع لٹریچر مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ اخوان سے وابستہ اہل قلم نے بڑی مفیدذاتی یادداشتیں تحریر کی ہیں۔ یہ یادداشتیں نہ صرف تاریخی اعتبار سے، بلکہ فکری موضوعات کے لحاظ سے بھی معاصر اسلامی ادب کانہایت قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اس تحریری لوازمے سے استفادے کے باوجود حسن البنا اور اخوان کو سمجھنے کے لیے جو چیزسب سے زیادہ پُرکشش ذریعہ رہی، وہ اخوان کے قائدین کی گفتگوئیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے وہ مواقع ہیں جو مجھے حاصل ہوئے۔ اس طرح ان سے کتابی سے زیادہ قلبی رشتہ قائم ہوا۔
۱۹۲۸ء میں، اسماعیلیہ کے مقام پر منظم انداز سے دعوت کا آغاز کرنے والے حسن البنا نے ۱۹۴۹ء میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے وقت پورے مصر میں اخوان کے لاکھوں وابستگان تھے اور ۲ہزارسے زیادہ شاخیں تھیں،جب کہ صرف قاہرہ میں ۲۰۰ تنظیمی حلقے تھے۔ امام البنامہینے میں ۲۰‘۲۲دن سفرپر رہتے تھے۔ شہر شہر، قریہ قریہ لوگوں سے ملتے اور ان سے مخاطب ہوتے تھے۔کنواںخود پیاسوں کے پاس پہنچتا،رات دن کی پروا کیے بغیر،نیند اورتھکن کو خاطرمیں لائے بغیر،قلب وروح کے دروازوںپر دستک دینے والے اس محسن کا نام حسن البنا تھا۔ جن دنوں وہ سفر میں نہیں ہوتے تھے، ان دنوں جہاں کہیں بھی ان کا مستقرہوتا،وہ وہیں پر دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ کوئی مسجد،محلہ حتیٰ کہ وہ جگہیں بھی جنھیں لوگ بالعموم اہل تقویٰ کے لیے کوئی بہت اچھی جگہ نہیں سمجھتے،مثلاکلب،عام ریستوران، اور ایسے ریستوران بھی جہاں نغمہ وسرود کی محفلیں برپا ہوتیں،وہ وہاں جاپہنچتے۔ ان جگہوں پر بھی بلامبالغہ ان کو بڑی عزت سے دیکھا جاتا تھا۔حسن البنا نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انھوں نے مقدور بھر شہادت حق کا فریضہ ادا نہ کیا ہو۔ وہ لوگ جو ان سے اختلاف کرتے تھے، وہ بھی ان کی روحانیت، ان کی ربانیت، ان کے اخلاص اور مقصد سے ان کی والہانہ وابستگی کی مٹھاس کومحسوس کرتے تھے اوربے اختیار احترام کرتے تھے۔ یہ کیفیت آج تک موجود ہے۔ان کی شخصیت کایہی وہ طلسماتی پہلو ہے،جس سے ارباب اقتداراور عالمی سامراج خوف زدہ تھے،اور ان کو اپنے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔
سعید رمضان مرحوم نے اپنی اہلیہ جو امام شہید کی صاحبزادی ہیں، کی تربیت کے حوالے سے مجھے بتایا کہ اس گھرانے پر اللہ تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے۔یہ خاتون عبادت ،سخاوت اوروفاشعاری کا بہترین نمونہ ہیں۔سعید رمضان پر آزمایش اور بیماری کے بڑے سخت دور گزرے ہیں۔ مگر اللہ کی اس بندی نے اولاد کی بہترین تربیت کی اور شوہر کو بھی سہارا دیا۔ اس حسن تربیت کی ایک مثال ان کے صاحبزادے طارق رمضان کا اپنے والد کے قریبی دوستوں سے احترام کا رویہ ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ اس احترام سے پیش آئے،جو ایک اچھے مسلم معاشرے میں باپ کے ایک قریبی ساتھی کا حق سمجھاجاتا ہے ۔ضمناً عرض ہے کہ طارق رمضان کا پی ایچ ڈی کامقالہ حسن البنا، یعنی اپنے نانا پر ہے،جوفرانسیسی زبان میں ہے ۔افسوس ہے کہ ابھی تک اس کا ترجمہ شائع نہیں ہوا۔
للہیت اور درویشی حسن البنا شہید کی شخصیت کے غالب ترین پہلو ہیں۔ دعوت کی تڑپ اور وہ لگن کہ جس کا اظہار انھوں نے بچپن سے لے کر شہادت تک کیا، زندگی کا حصہ بننا ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں اسلام کا تصور بہت صاف اور ہمہ گیر ہے۔ان کے نزدیک فرد، معاشرے، ریاست اور تاریخ کے لیے اسلام ہی ایک دعوت انقلاب ہے۔ گویا کہ اﷲ کی بندگی کی بنیاد پر زندگی کے پورے نظام کی تعمیر اور انسان کو خلافت کا جو منصب دیا گیا ہے، اس کے تقاضوں کو ہر سطح پر، انفرادی اور اجتماعی طور پر پورا کرنا زندگی کا لائحہ عمل ہے۔
اس وژن اور تصور میں مجھے ان کے ہاں تین اور خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں، اوّل: بندے کا رب سے مضبوط تعلق، پھر بندوں کا بندوں سے ہمدردی ،وقار،اوربے لوثی پر مبنی تعلق۔ انھوں نے اس پہلو کو بہت مرکزی حیثیت و اہمیت دی۔ دوم: اجتماعیت ہے۔اس کے لیے انھوں نے چار اصطلاحیں استعمال کی ہیں: پہلی: مسلمان خاندان(اسرہ)، دوسری مسلمان معاشرہ (مجتمع یا سول سوسائٹی)،تیسری: مسلمان مملکت( دولۃ یااسٹیٹ)، اور چوتھی: عالمگیر اسلامی امہ،اور اس میں انھوں نے عرب قومیت اور اسلامی قومیت کو گڈ مڈ کرنے کی ٹھوکر نہیں کھائی۔ انھوں نے جہاں عربیت اور عربی قومیت کو اسلامی قومیت کا حصہ اور اسے قوس قزح کے رنگوں میں سے ایک رنگ قرار دیا ہے، وہیں انھوں نے عربی قومیت کوطاغوت نہیں بننے دیا،بلکہ اسے اسلامی معاشرے کا نمایاںاور روشن حصہ بنایا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ انھوں نے انفرادی انقلاب کو جو فرد کے اندر پیدا ہو تا ہے،اور اجتماعی انقلاب جو فرد کے ذریعے سوسائٹی میں رُو پذیر ہوتا ہے، ان کا آپس میں مضبوط بندھن قائم کیاہے،اور اس چیز کو اداراتی سطح پر منظم کیا ہے۔
سعید رمضان نے ہمیں ایک واقعہ یہ سنایا تھا،کہ اخوان کے کسی ساتھی سے کوئی غلط کام ہوگیا،جس پر معذرت کی غرض سے وہ امام حسن البنا کے پاس ایک سوا گھنٹہ رہا، لیکن انھوں نے اس ساتھی کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ معذرت کر سکے۔ وہ پیاراور محبت سے ساتھی کی دل جوئی کرتے رہے کہ اس کو یہ ہمت نہیں ہوسکی کہ وہ معذرت کے الفاظ زبان پر لاسکے،حالانکہ امام شہید کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ساتھی معذرت کرنے کے لیے ہی آیا ہے۔اسی طرح بعض نوجوان ان کے پاس آتے اور خلافِ شرع چیزیں، مثلاً سونے کی انگوٹھی وغیرہ پہنے ہوتے، توحسن البنا ان کو نہ ٹوکتے۔ لیکن تھوڑے ہی دن کی صحبت کے نتیجے میں ان کی انگوٹھی بغیر کچھ کہے اُتر جاتی تھی۔
ہمارے اخوان سے تعلق کا ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے صرف جماعت اسلامی کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو اور پاکستان کے تصور کو بھی عالم عرب میں پورے شعور کے ساتھ سمجھا اور پوری دل جمعی سے سمجھایا ۔ یہ سلسلہ ۱۹۴۶ء سے شروع ہو جاتا ہے ،جب قائداعظم [۱۸۷۶ء-۱۹۴۸ء] اور حسن البنا شہید کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس طرح عالم عربی میں اخوان، پاکستان کے سب سے بڑے ہم نوا تھے۔ پاکستان بننے پر انھوںنے مصر بھرمیں پاکستان کا جشن استقلال منایا۔سعید رمضان نے تو قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۰ء میں بہت سے مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کے طول وعرض کا دورہ کرکے پاکستان کے تصور کی وضاحت کی تھی۔
۱۹۵۴ء میں، مصر کے فوجی آمر مطلق ناصر کا دورِ عروج تھا اور ناصر کی مطلق العنانی جنون کی حدوں کو چھو رہی تھی۔ کوئی فرد اس کے خلاف دبی زبان میں بھی بات نہیں کرسکتا تھا۔ اخوان پر پابندی تھی، اس کے ہزاروںکارکنان گرفتار تھے۔ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جب میں جمعیت میں تھا، ایک روز خبریں سنتے ہوئے معلوم ہواکہ مجاہد کبیر شیخ محمد فرغلی سمیت اخوان کے چھے رہنماؤں[عبد القادر عودہ ،یوسف طلعت،ابراہیم طیب،محمود عبداللطیف،ہنداوی دویر] کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔ یہ خبر ہمارے لیے گہرے صدمے کا باعث بنی ۔اس موقع پر ہم نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا ۔
اسی زمانے میںانٹرنیشنل اسمبلی آف مسلم یوتھ (IAMY) کی ایک کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی تھی،جس میں مصرکا سرکاری وفد شرکت کے لیے آیاتھا۔اس وفدکے سربراہ مصری فوج کے ایک کرنل تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ہم نے اس کانفرنس میں، اس ظلم وزیادتی کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا۔ اسی مناسبت سے ایک بڑا مؤثر دو ورقہ (پمفلٹ )راجا بھائی اورمیں نے انگریزی میں تیار کیا تھا: WHY OPPRESSION ON MUSLIM BROTHERHOOD? [اخوان المسلمون پر ظلم کیوں؟]__ جسے ہم چھپوا کر اور چھپا کر کانفرنس ہال میںلے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جوں ہی پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا کانفرنس کا افتتاح کرنے کے لیے ہوٹل میٹروپول کے پنڈال میں داخل ہوئے، اس دو ورقے کی ایک کاپی انھیں دی گئی۔ اسی لمحے مختلف جگہوںپر کھڑے جمعیت کے ساتھیوں نے بڑے منظم انداز سے تمام قطاروں میں ہر شخص تک یہ پمفلٹ پہنچا دیا۔ اس واقعے سے پوری کانفرنس میں تہلکہ سا مچ گیا۔مصرکے سرکاری وفد کوتوگویاآگ لگ گئی،اور ادھرہماری حکومت حرکت میں آگئی۔میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شریک تھا۔ خرم بھائی نے مصری وفد کے سربراہ کی تقریر کے دوران ہال میں کھڑے ہوکر ،اسے مخاطب کرکے کہا: تمھارے ہاتھ اخوان المسلمون کے راہ نماؤں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تم قاتلوں کے ساتھی ہو۔
اس کشیدہ صورت حال کے باوجود، مصرکے سرکاری وفد میںشامل ایک نوجوان طالب علم بڑی خاموشی سے آکر ہمیں ملا اور اس نے کہا کہ:’’میں دل و جان سے اخوان کا ہمدرد ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جو اقدام کیا ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔میںاپنے ہزاروں مظلوم ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ اداکرتا ہوں‘‘۔
دراصل عوامی سطح پر جولوگ اخوان کے گرویدہ ہیں، وہ تو گرویدہ ہیں ہی،مگر جو اس تحریک سے باہر ہیں، میںنے ان پربھی اخوان کابے پناہ فکری و اخلاقی اثر دیکھا ہے۔اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں، پارلیمنٹ کے اندر ،وزرا اور عرب لیگ کے افسروں سے مجھے بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے ہیں، اور جب بھی کھلے دل کے ساتھ انھوں نے آف دی ریکارڈ بات کی تو میں نے انھیں یہ کہنے پر مجبور پایا کہ:’’ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی قابل لحاظ قوت ایسی ہے جو مصر کو بچاسکتی ہے تو وہ صرف اخوان المسلمون ہے‘‘۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے اشتراکی عناصر نے اور امریکا اور اس کے حواریوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو خریدیں، معاشی مفادات کے جال میں پھنسائیں، سیاسی اور فوجی معاہدات کے ذریعے ان قوموں کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ لیں۔اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے یہ اصول طے کیا کہ: ’’فوجی قیادت ہی ہماری بہتر حلیف ہے۔جو اپنے ملکوں میںبغاوت کرکے اقتدار پر شبخون مارے،اور ہماری مدد سے ہماری قائم مقام (proxy) بن کرہماری مرضی پوری کرے‘‘۔ کچھ رپورٹوں میں صاف لکھا ہے کہ مغرب زدہ گروہوں کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کرنا خواہ یہ فوجی انقلاب اور استبدادی حکومت (despotic rule) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، مغربی اقوام کے قومی مفاد میںہے، تاکہ مذکورہ ممالک کے عوام کو قابومیں رکھا جا سکے۔ مائلز کوپ لینڈ (Miles Copeland) جس نے عرب دنیا میں سفارتی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور وہ سی آئی اے کا ایجنٹ بھی تھا، اس کی یادداشتوں The Game of Nations: The Amorality of Power Politics (1970), اور The Game Players Confessions (1989) سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ مغربی پالیسی ساز اور سیاسی تجزیہ کار اب کھلے لفظوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ: مسلم دنیا یاتیسری دنیا میں جو فوجی انقلاب آئے یا جو سیاسی اتھل پتھل ہوتا رہا ہے، ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا‘‘۔مشرق وسطیٰ اس سامراجی چنگل سے کبھی نہیں نکل سکا۔
شام میں اخوان المسلمون کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی سباعی [۶۳-۱۹۱۵ء] نے الفتح میں ایک مرتبہ لکھا تھا: [مسلم دنیا کی] سیاسی پارٹیاں ہر معاملے میں ایک دوسرے کی مخالف ہیں، مگر ایک نکتے پر ان کا اتفاق ہے، اور وہ ہے ’دین دشمنی‘___ اس لیے نظامِ حکومت میں تبدیلی کے سوا اصلاح کی کوئی صورت نہیں، اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کا دارومدار ہے معاشرے کی تبدیلی پر۔ افسوس کہ علماے کرام اس بات کو نہیں سمجھتے‘‘۔ میں اس میں یہ اضافہ کروں گا، کہ ’دین دشمنی‘ کی اس روش میں فوجی قیادتوں اور سیاسی طالع آزمائوں کو عالمی سامراجی قوتوں کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ صدافسوس اس بات پر کہ اپنی قوم کے مفادات سے بے وفائی کا ارتکاب کرنے میں یہ طبقہ ادنیٰ درجے کی شرم تک محسوس نہیں کرتا، اور سامراجی آقائوں کے سامنے اپنی قومی اور ذاتی ذلت تک کو خوشی خوشی برداشت کرلیتا ہے، بلکہ اس توہین کو بھی اعزاز کی کوئی قسم تصور کرتا ہے۔
اس منظرنامے میںحسن البنا اور اخوان المسلمون نے دعوت،تنظیم اور تربیت کاکام شروع کیا۔وہ بہ یک وقت عالمی سامراج اور سامراج کے مقامی آلۂ کاروں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔انھوں نے،دین کی گمراہ کن اور معذرت خواہانہ تعبیر کرنے والوںاور معاشرے میں سماجی، معاشرتی،اور سیاسی ظلم کی تمام بنیادوں کوپوری قوت سے چیلنج کیا۔اس کے لیے اخوان نے جو راستہ اختیار کیا، اس میں تنظیم اور صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں کھلے بندوں حصہ لینا بھی شامل تھا۔ حسن البنا نے خود بھی الیکشن میں حصہ لیا ، اور اگر برطانوی اور مصری حکومت ان کا راستہ نہ روکتی تو وہ بڑی عظیم اکثریت سے کامیاب ہوتے ۔
ان پابندیوںاور تمام تر مشکلات کے باوجود حسن البنا نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ افراد سے رابطے کا طریقہ تھا۔یہی وہ امتیاز ہے جس نے استبدادکے اندھے بہرے ظلم اور اپنی بات کہنے کے کھلے مواقع نہ ہونے کے باوجود گھر گھر، محلے محلے، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اس دعوت کو پہنچادیا۔ اسی لیے ساری پابندیوں کے باوجود آج بھی اخوان ایک اہم سیاسی اور نظریاتی قوت کے طور پر موجود ہیں،بلکہ ملک کی پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا درجہ رکھتے ہیں۔حالانکہ اخوان کی تنظیم خلاف قانون ہے،اور اخوان کے وابستگان نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اخوان کی اس طلسماتی قوت کا ثبوت ہر موقع پر نظر آتا ہے۔ اس چیز کا گہرا تعلق حسن البنا کی شخصیت اور ان کے اس طریقۂ کار سے ہے، جس میں تنظیم پر پابندی کے باوجود خود کار پھیلائو اورنچلی سطح تک ان کی رسائی ممکن ہوئی۔ یہ ان کی قوت کا بڑاراز اوربہت بڑا خزانہ ہے۔
تاہم ایک پہلو میں ہمیں کچھ فرق محسوس ہوتا تھا۔ اخوت اور محبت کا ویسا کلچر ہمارے ہاں اس طرح فروغ نہیں پاسکا، جس طرح اخوان کے یہاں نظر آتا ہے۔اس کاایک چھوٹا سا مظاہرہ روزمرہ کے میل جول میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ہمارے اہل حل و عقد جب ہم سے ہاتھ ملاتے تو ان کے ہاتھ کی گرفت میں ذاتی تعلق کا اس درجہ اظہار نہیں محسوس ہوتا تھا، جیسا اخوان کے بڑے اور چھوٹے ہر بھائی سے ملتے وقت محسوس ہوتا ۔ممکن ہے اس میں ہمارے خطے کی آب و ہوا ، کلچر اور رسم و رواج کا بھی اثر ہو۔ اخوان کے ہاں اﷲ کی خاطر محبت کے تصور کو بڑا مرکزی مقام حاصل ہے۔خود جماعت اسلامی کے تربیتی لٹریچر میں اس موضوع سے متعلق احادیث کاایک مؤثر انتخاب موجود ہے، لیکن اپنائیت کے اس تصور کووہ اہمیت اور مرکزیت اس درجے میں حاصل نہیں ہوسکی، جو اخوان کے ہاں نظر آئی۔اللہ کی خاطر محبت ہم نے اخوان کے احباب سے سیکھی۔ یہ سیکھا کہ اﷲ کی خاطربندوں کے درمیان تعلق کی بنیادکو کس طرح مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور پھرجب اخوان کے لٹریچر کو پڑھا تو اس میں بھی اسی اسپرٹ کو رچا بسا پایا۔ اخوان کے جتنے بھی کارکنوں سے ہمیں ملنے کا موقع ملا،ان میںاسی جذبے اور حرارت کی فراوانی پائی۔ حسن البنا کی زندگی کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کے اندر بھی یہی کیفیت موجزن دیکھی۔ غالباً ’محبت فاتح عالم‘ والی کیفیت اور اس سے رونما ہونے والی مقناطیسی قوت ہے ،جس کے ادراک نے ان سے اس تحریک کانام اخوان المسلمون رکھوایا(پیش نظر رہنا چاہیے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی ’اخوان الصفا‘ سے اخوان المسلمون کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ خالص قرآنی اخوت سے اس کا رشتہ ہے)۔ یہ چیز ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی تھی۔
اسی طرح ہم نے اخوان کے تربیتی نظام سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے میں مولاناعبد الغفار حسن [م:۲۲مارچ ۲۰۰۷] جماعت اسلامی میںشعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔ درس قرآن، درس حدیث، سیرت اور لٹریچر، جماعت کے تربیتی نظام کے عناصرترکیبی تھے ۔ اجتماع ارکان میں ان چیزوں کی باقاعدگی کے ساتھ احتساب کا اہتمام بھی تھا۔ روحانیت اور ربانیت، اخوان کے دو نہایت مرکزی پہلو ہیں۔ جمعیت میں ہم نے اخوان سے یہ سیکھا تھا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روحانی بالیدگی کے لیے شب بیداری بھی ایک مؤثر تربیتی پروگرام ہے۔ اس سے قبل جماعت اور جمعیت کے پروگراموں میں شب بیداری نہیں ہوتی تھی۔ یوں جمعیت اور جماعت میں بھی شب بیداری کا پروگرام متعارف ہوا۔
ایسے نظریاتی حلقے کی حد ۱۰ افراد پر قائم کی، جسے’ اسرہ‘ کہتے تھے۔جب ۱۰افراد پورے ہوجاتے تو انھیںدو ’اسروں‘ میں تقسیم کردیتے۔اس طرح انھوںنے ہزاروں حلقوں کی صورت میں نظام قائم کیا۔ اس نظام اسرہ میں سب سے زیادہ دل چسپ چیز اس کا اجتماعی مطالعے کانظام ہی نہیں تھا، بلکہ اس میںعبادات بھی مشترک تھیںاورشب بیداریاں بھی۔ میرے نزدیک ’نظام اسرہ‘ میں سب سے اہم چیزیہ تھی کہ اس کے ممبران ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں پورے شعور اور وابستگی سے شرکت کریں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔کسی ایک ساتھی پرکوئی مصیبت آئے تو ’اسرہ‘ کے تمام ساتھی اس کی مدد کو پہنچیں۔یہی اسرہ کا مرکزی اصول تھا: پاکیزہ، ہمدرد اور بے لوث برادری۔
بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اخوان کی بقا کا بڑا انحصار اس ’نظام اسرہ‘ پر رہا۔اس کے ثمرات میںسے بہت متاثر کن چیزآزمایش اور ابتلا میں ان کی استقامت تھی۔ صدرناصر کے زمانے میں صرف مصر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار افراد جیلوں میں تھے اور بیش ترشدید تعذیب کا نشانہ بنائے گئے تھے ۔ ان سخت آزمایشوں اور ابتلا کے ادوار سے گزرنے کے باوجود انھوں نے الحمدللہ، جس تقویٰ اور استقامت کا ثبوت دیا ہے ،وہ پختہ ایمان اور اس ’نظام اسرہ‘ کی برکات کا عملی اظہار تھا،کہ جس نے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔اسی ’نظام اسرہ‘ نے قیدی ساتھیوں کے خاندانوں کی دست گیری ، عملی مدد اور ہمت بندھانے میں معاونت کی ہے۔
سعید رمضان سے ’نظام اسرہ‘ سمجھ کر ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ میں اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی تھی۔جمعیت کی تنظیم کو جو اسکولوں ، کالجوں،یونی ورسٹیوں کے کارکنوں پر مشتمل تھی، اسے علاقائی اور رہایشی بنیادپرکام کے لیے منظم کیا،جو اسرے ہی کی ایک شکل تھی۔اس وقت کی جمعیت کے ناظم اعلیٰ کو کچھ دیگر امور کے ساتھ اس پر بھی شدید اضطراب ہوا۔ وہ پریشان تھے کہ ہماری تحریک کے روایتی نظام میں یہ ایک نئی چیز آگئی ہے۔ بالآخر ہمیں اس نظام میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اس طرح ہمارارہایشی نظام تو باقی رہا، لیکن ’نظام اسرہ‘ اپنے اخوانی تصور کے مطابق ہمارے تنظیمی نظام کا حصہ نہ بن سکا۔ یوں کراچی جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ محض چار پانچ سال تک ہی چلا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ جب جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ پر بحث اٹھی،ان دنوں مولانا مودودی جیل میں تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: دسمبر ۱۹۹۷ء) کا رجحان اسرے کے حق میں نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ نوجوانوں کی محض ایک اپچ ہے اور بس۔ مگر انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔اس زمانے میں ہمیں جمعیت میں بڑی آزمایش اور نازک مرحلے سے گزرنا پڑا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ہمارے ان بزرگوں پر جنھوں نے اس دورآزمایش میںنوجوانوں کی راہ نمائی فرمائی اور جمعیت انتشار سے بچ گئی۔اس سلسلے میں محترم شیخ سلطان احمد صاحب ، چودھری رحمت الٰہی صاحب اورچودھری غلام محمد صاحب کا کردار اہم تھا۔ انھوں نے ہمارے اس داخلی قضیے کو سلجھایااور یہ کہا کہ کراچی جمعیت کے اس تجربے کو ہم اسلام اور تحریک کے مزاج کے خلاف یا روایات سے متصادم نہیںپاتے۔اس طرح ہمیں تائید حاصل ہوئی،اور اس بحث پر جو مقدمہ بنا تھا وہ قبول نہیں کیا گیا۔
اخوان میں ایک اور وصف بڑا متاثر کن اورقابل رشک ہے،اور وہ ہے ان کا اﷲ سے تعلق کے ساتھ ساتھ قرآن سے ربط۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیںہے کہ اخوان اور قرآن لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔اس باب میں میرا سب سے دل چسپ تجربہ وہ تھا، جب میں محترم میاں طفیل محمد کے ساتھ صدر حسنی مبارک سے ملنے مصر گیا تو ان لوگوں نے ہمارے لیے نہر سویز کی سیر کا انتظام کیا تھا۔ ہم رات کے ۱۲ بجے سویز نہر کی سیر کے لیے نکلے اورفجر سے کچھ پہلے واپس آئے۔ وہاں ہوتا یہ ہے کہ جہاز سویز کے درمیان میں کمان تبدیل کرتا ہے۔ ایک جہاز ایک طرف سے آتا ہے اور دوسرا جہازدوسری طرف سے۔ جب کمان تبدیل ہورہی تھی تو جس جہاز میں ہم تھے، اس کا ایک اعلیٰ کمانڈر ہم سے ملا۔جب اس سے میاں صاحب،جماعت اور میرا تعارف ہوا، تو اس نے احترام اور اپنائیت کے اظہار کے لیے آہستگی سے اپنی جیب سے قرآن نکالا اور ہمیں ہدیہ کر دیا ۔یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ میرا تعلق اخوان سے ہے۔ حالانکہ خفیہ سروس کے لوگ ہمیں گھیرے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ غیرمحسوس انداز میں ہوا۔
ہمارے ہاں کام کا آغاز ایمان ، عقیدے اور دینی وژن سے ہوتا ہے۔ پھر ہم آہستہ آہستہ مذکورہ اداراتی اور سماجی مسائل کی طرف آتے ہیں۔ البتہ شعوری طور پر، آئینی مسائل ہمارے ہاں مرکزیت کے حامل رہے ہیں، جن کو دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں قابل تقلید اقدام تسلیم کرتی ہیں۔ مگر دوسری جانب معاشی اور معاشرتی مسائل پر ایک متوازن اور متناسب انداز سے ہماری توجہ مرکوز نہیں رہی، اس کمی کا مداوا کم از کم مستقبل میں ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے اس سلسلے میں جو ہاتھ پاؤں مارنے کوشش کی ہے، ان مساعی میں مجھے مولانا مودودی ،مولانا اصلاحی اور چودھری غلام محمد [م:۱۹۷۰ء] کی خصوصی مدد اور راہ نمائی حاصل رہی ہے ۔میرا پختہ یقین ہے کہ ایمان، عقیدے اور اخلاق کی مرکزیت اور دینی روح کے ساتھ سماجی اور معاشی میدان میں تحریک کے انقلابی پروگرام کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔مگر یہ کام نعروں کی سطح پر نہیں،بلکہ تسلسل اور ایک ایسے اسلامی فریم ورک کے ساتھ ہو نا چاہیے، جو عصری تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا بھرپور اہتمام کرے۔ سماجی و معاشرتی مسائل میں اخوان کی متوازن دل چسپی قابل رشک ہے ۔البتہ ان کے ہاں افراط و تفریط کے بعض مناظر بھی نظر آتے ہیں۔اس سلسلے میںڈاکٹر مصطفی سباعی نے تو اشتراکیت فی الاسلام تک کی بات کہہ دی تھی،تاہم اسے اخوان کے مجموعی ذہن نے قبول نہیں کیا۔
اس کے برعکس جماعت اسلامی، عورتوںکے ووٹ کے حق اور خاص طور پر اجتماعی معاملات اور تحریکی نظام میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے، اخوان سے بہت آگے تھی۔ عورتوں کے ووٹ کے حق کو اخوان نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں تسلیم کیا، مگرجماعت اسلامی نے شروع ہی سے اس کو تسلیم کیا تھا، بلکہ مولانا مودودی نے تو یہاں تک لکھا کہ عورتوں کی الگ شوریٰ ہو جو معاملات پر آزادانہ انداز میں غوروفکر کرے۔ اخوان اور جماعت میں پائے جانے والے ایسے جزوی اختلافِ راے کا تعلق نفاذدین کی تفصیلات سے ہے ،وژن اور تصور سے نہیں۔
اقتدار، وسائل، طاقت، قومی اقتدار، مادی وسائل، عسکری طاقت اور ذرائع ابلاغ پر قابض اس طبقے کے بارے میں ایک مرتبہ مولانا مودودی نے فرمایا تھاکہ یہ ایسے پہلوان ہیںجو مدمقابل کے ہاتھ پاؤں باندھ کراس سے کشتی لڑنے کے لیے میدان میں اُترتے ہیں۔اس طبقے نے ایک طرف اخوان کو نشانہ بنایا، تو دوسری جانب پاکستان میں مولانا مودودی کو قید کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ اخوان، تشدد پسند ہیںاورجماعت اسلامی کا تعلق بھی اخوان سے ہے۔ اخوان سے کوئی تنظیمی تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت نے اخوان کے خلاف بدنیتی پر مبنی اس پروپیگنڈے کی مخالفت کی، اور اخوان کے دفاع میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔اخوان پر مظالم کے خلاف اور ان کی تائید و حمایت میں، ہم نے ہر پلیٹ فارم پر،تحریر اور تقریر میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے، مگرتصادم اور ٹکراؤ پر منتج ہونے والے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جماعت کو اس بارے میں ہمیشہ شرحِ صدر رہا ہے کہ مؤثر، باوقاراور نصیحت کے انداز میں بات زیادہ پُر اثر ہوتی ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اخوان نے کبھی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے طاقت یا زیر زمین روابط کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اخوان کے ہاںقوت مجتمع کرنے کی سوچ، فلسطین پر قبضے کے خواہاں یہودیوں اور یورپیوں کی سامراجی یلغار کو روکنے کا سرعنوان تھی۔اگرچہ ایک دومواقع پرچند غیر ذمہ دار نوجوانوں کی نامناسب انفرادی حرکتیں انھیںدلدل میں دھکیلنے کا ذریعہ بنیں، لیکن ان کی تاریخ کے گہرے مطالعے کی بنا پر میں یہ بات برملا کہہ سکتا ہوں کہ قوت کے استعمال کے حوالے سے ان پر عائدالزامات میں بہت کچھ محض زیب داستان کی حیثیت رکھتاہے۔
مناسب ہوگا کہ اخوان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے یہاں پر امام حسن البنا کے اس مشہور خطبے پر غور کیا جائے، جو انھوں نے ۱۹۳۸ء میں اخوان کے پانچویں اجلاس میں دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا تھا: ’’اخوان، فکروعمل کی سطحیت پر ریجھ جانے والے نہیں ہیں، بلکہ وہ گہری فکر اور وسیع زاویۂ نظر کے حامل ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی چیز کی گہرائیوں میں ڈوب کر نہ دیکھیں… وہ جانتے ہیں کہ قوت کے مدارج کیا ہیں: ان میں اولیت، عقیدہ و ایمان کی قوت کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد وحدت و ارتباط کی قوت کا حصول ہے، اور ان دونوں کے بعد زورِبازو کا درجہ آتا ہے… الاخوان، متشددانہ انقلاب کے بارے میں قطعی طور پر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ کسی حال میں اس طریق کار پر اعتماد نہیں کرتے، اور نہ اس کا نفع بخش اور نتیجہ خیز ہونا انھیں تسلیم ہے… تاہم اگر حالات کی رفتار یہی رہے گی اور اصحابِ اقتدار اس کا علاج نہیں سوچیں گے، تو اس کا لازمی نتیجہ متشددانہ انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوگا، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس میں اخوان کا ہاتھ ہوگا، بلکہ یہ حالات کے دبائو اور اصلاح سے گریز کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ ضرورت یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی کے سیاہ وسفید پر قابض طبقے اپنی ذمہ داری اور صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں‘‘۔
جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور کی دفعہ ۵(۴) میں واضح طور پر اعلان کیا ہے: ’’جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد، خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔ اس طرح جماعت نے ہمیشہ کے لیے دوسرے دروازے کو بند کردیا۔ پھر اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان نے ستمبر ۱۹۴۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ میں یہ قرارداد منظور کی تھی کہ: ’’اپنے مقصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی ایسے ذرائع اور طریقوں کا استعمال جائز نہیں سمجھتی‘ جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے بدنظمی اور بدامنی رونما ہو۔ جماعت اسلامی، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری طریقوں پر یقین رکھتی ہے، یعنی تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے اذہان اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عام کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے، جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ جماعت کا کوئی کام خفیہ نہیں ہے بلکہ سب کچھ علانیہ ہے۔ جن قوانین پر ملک کا نظم و نسق اس وقت چل رہا ہے ان کو وہ توڑنا نہیں چاہتی، بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق بدلنا چاہتی ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے ۱۹۶۳ء میں، مسجد ابراہیم ،مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’[دنیا بھر میں] اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے ،اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے ۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پاے دار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے گا تو جس راستے سے وہ آئے گا ،اسی راستے سے وہ مٹا یا بھی جاسکے گا‘‘۔ (دیکھیے: ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء)
مولانا مودودی پہلی بار ۱۹۵۶ء میں عالم عرب گئے تھے، لیکن ان سے پہلے مولانا مسعود عالم ندوی نے ۱۹۴۹ء میں بلاد عرب کا دورہ کیا تھا۔ مسعود عالم صاحب نے اپنے ایمان افروز سفرنامے دیارِعرب میں چند ماہ میں یکم جولائی ۱۹۴۹ء کو لکھا تھا: ’’جس شخص پر اخوان سے تعلق کا ادنیٰ شبہہ بھی ہوتا ہے، اسے فوراً قیدکرلیا جاتا ہے۔ حیرت ہے، حکومت کی فوج اور پولیس کے سامنے، اسلام اور مصر کے دشمن قاہرہ کی سڑکوں پر اکڑتے پھرتے ہیں، لیکن مصری حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ اس کا سارا غیظ و غضب اسلام کے داعیوں پر ٹوٹتا ہے‘‘۔ پاکستان آکر مولانا مسعود عالم ندوی نے مختلف تربیتی پروگراموں میں اخوان کے بارے میں جو تاثرات بیان کیے، ان میں اخوان سے محبت، اخوان سے قربت، اخوان سے عقیدت اور اخوان کو اپنا دست و بازو سمجھنے کا پہلو غالب تھا۔ بعد ازاں خود مولانا مودودی نے کئی باراس بات کا اظہار فرمایاکہ:’’فکری اعتبار سے جو کام ہم کر رہے ہیں،وہی کام اخوان کر رہے ہیں۔ہمارے درمیا ن بنیادی نقطۂ نظر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
بعدازاں جب میں کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں پڑھا رہا تھا، اس زمانے میں سید قطب ہمارے لیے فکرو عمل کی ایک بڑی مؤثر علامت اور ہمارے ہیرو تھے۔افسوس ہے کہ مجھے سید قطب سے بھی ملنے کا موقع نہیں ملا،لیکن ان کی جان دار تحریروں اور علمی طور پر نہایت وقیع نگارشات سے بھرپور استفادے کی کوشش کی ہے۔ سب سے بڑھ کر حق کی راہ میں ان کی استقامت میرے لیے ہی نہیں، ہماری پوری نسل کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ہے۔سید قطب کو ناصر نے قید میں ڈالا اور اس طرح مقدمہ چلایا کہ انھیں وکیل تک نہ کرنے دیا۔ سوڈان سے دو چوٹی کے وکیل احمد امین سالک اور محمد احمد دورابی، فروری ۱۹۶۶ء میں قاہرہ پہنچے تو انھیں دھکے دے کر مصر سے نکال دیا گیا۔ اس طرح سید قطب نے تن تنہا بڑی جرأت اور استقامت سے مقدمے کا سامنا کیا۔ آخر کار ۲۹اگست ۱۹۶۶ء کو مفسر قرآن، مفکر اسلام، اعلیٰ پائے کے ادیب اور دانش ور سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی۔
اخوان کے قائدین میں ،میرا سب سے زیادہ گہرا تعلق استاد مصطفی مشہور سے تھا۔ وہ متعدد بار پاکستان میں ہمارے مہمان رہے، خصوصاً افغانستان کے جہاد کے زمانے میں۔ اس کے علاوہ ان سے میری ملاقاتیں انگلستان، مصر، جرمنی اور ترکی میں بھی ر ہیں۔ ہم نے دعوت دین کے کاموں میںتبادلۂ خیال کے لیے ایک مشاورت قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کوششوں کے وہ سربراہ تھے اور میں ان کا نائب تھا۔حسن البنا کی زندگی میں مصطفی مشہور نوجوانوں کے گروپ کے سربراہ تھے۔ اسی طرح مامون الہضیبی سے بھی مصر اور یورپ میں تبادلۂ خیال ہوتا رہا ۔ان تمام مواقع پر اشتراک اور افہام و تفہیم کا پہلو غالب رہا۔ البتہ حکمت عملی میں کبھی کبھار ترجیحات کے بارے میںاختلاف راے بھی پیدا ہوا۔ جماعت کے نظام تربیت کو انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ اخوان کے قائدین کویہ احساس تھا کہ فکری میدان میںہمارا [یعنی جماعت کا] کام ان سے بہترہے۔ہم نے کشمیر کے مسئلے کو تمام تفصیلات کے ساتھ واضح کیا اور اخوان نے اس مسئلے پر پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے کے سب سے مؤثر داعی اخوان تھے اور ہم نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔
ایک مسئلہ متعدد بار اخوان کی طرف سے اٹھا یا گیا تھا کہ ہم سب مل کر عالمی سطح پر تنظیم کا ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کریں، لیکن ہم نے اس تجویز کی تائید نہیں کی، اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ موجودہ حالات میں حسب ضرورت آپس میں مل کر تبادلۂ خیالات سے آگے ہمیں نہیں بڑھنا چاہیے۔ اس کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ ہے کہ عالمی حالات کے پیش نظر کچھ رفاہی منصوبوں میں تعاون تو درست ہوسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ ربط و تعلق موجودہ عالمی اور خود مسلم ممالک کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ ممکن ہے اور نہ مفید۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں کسی جگہ تحریک اسلامی پر پابندی ہے اوران کے خلاف ریاست قوت استعمال کر رہی ہے۔ کہیں کچھ نرمی ہے اور پناہ مل رہی ہے۔اگر آپ ایک نظم بن جائیں گے تو بین الاقوامی ریاستی تعلقات میں مسائل پیدا ہوں گے اورحکمرانوں کو تحریک اسلامی کے خلاف کام کرنے میں زیادہ قوت حاصل ہو جائے گی اور وہ اس کے خلاف زیادہ مؤثر اقدام کریں گے۔ البتہ اگر ہر ملک میں آزاد نظم رہے اور واحد مرکزیت سے گریز کیا جائے تو یہ تحفظ کا ذریعہ ہو گا۔ اسی لیے ہم نے کوئی بین الاقوامی تنظیم نہیں بنائی۔
یہ دُور اندیشی دراصل مولانا مودودی کی بصیرت کا مظہر ہے۔ البتہ کسی مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے متفقہ نقطۂ نظر بیان کرنا مختلف چیز ہے۔اس کے لیے وقتاً فوقتاً دوسرے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ایسے پروگراموں میں اسلامی تحریکات کے ذمہ داران نے شرکت کرکے اس مقصد کو تقویت دی ہے، اورکوشش یہ رہی ہے کہ آپس میںزیادہ سے زیادہ ہم آہنگی رہے۔ یہ سوچ پوری دنیا میں اسلامی تحریک کے لیے مفید رہی ہے۔
۱۹۸۲ ء میں، قاہرہ میںمصر کے صدر حسنی مبارک سے ہم نے انھی کی دعوت پر ملاقات کی تھی۔اس ملاقات میں ہم نے یہ کہا تھا: ’’ اُمت کا مفاداسی میں ہے کہ ریاستی قیادت اور تحریک اسلامی تصادم کے بجاے افہام وتفہیم کاراستہ اختیار کریں، اور اگر تعاون ممکن نہیں تو ایک دوسرے کی پوزیشن کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر بقاے باہمی (co-existence)کا راستہ اختیار کریں۔
۷۰ کے عشرے میں،جب لیبیا میں اخوان پر پابندی نہیں تھی، ڈاکٹر شریف جوصدر قذافی کی کابینہ میں شامل تھے اور ڈاکٹر محمدیوسف مغائریف جو لیبیا کے آڈیٹرجنرل تھے، ان حضرات کے توسط سے مجھے پیش کش کی گئی تھی کہ میں لیبیا میں معاشی مشیر بن کر آجائوں، لیکن میں نے معذرت کی ۔ پھر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اخوان اور لیبیا کے مطلق العنان حکمرانوں کا راستہ الگ ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے ذمہ داران سے اخوان کے بارے میں بار بار گفتگوئیں ہوئی ہیں۔ اُردن میںشہزادہ حسن بن طلال سے کئی بار میری ملاقات میں اخوان کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ان تمام ملاقاتوں میں ہم نے کبھی بھی تحریک کی عزت اور وقار پر مصلحت آمیزی کا راستہ اختیار نہیںکیا،بلکہ ہمیشہ نصیحت اور تلقین کا راستہ اختیار کیا۔
۱۹۹۰ء میں، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے قائدین نے عالم عرب کا دورہ کیا۔ اس وفد میں محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر نجم الدین اربکان،ڈاکٹر حسن ترابی اور اخوان المسلمون اُردن کے عبد الرحمن خلیفہ شامل تھے۔مجھے بھی اس وفد میں شرکت کا شرف حاصل ہے ۔ ہم نے عراق،اردن،سعودی عرب،اور ایران کا دورہ کیا،اور وہاں پر چوٹی کی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں عراقی سربراہ صدام حسین سے بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔اس گفتگو کا محور جنگ تھا۔ صدام حسین سے قاضی حسین احمدصاحب نے بڑے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ: ’’جنگ آپ پر مسلط کی جارہی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ مذکرات سے راستہ نکالیں۔ کویت پر قبضہ اصول اور حکمت دونوں اعتبار سے گھاٹے کا سودا ہے‘‘۔ ان کے نائب صدر سے ہم نے عراق میں گرفتار اخوان کے کارکنوں کی رہائی کے بارے میں بات کی،افسوس کہ انھوں نے کوئی واضح بات نہ کی۔
اسی ضمن میں مولانا مودودی کا یہ بڑا اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۳۰ء میںجہاد کے تصور کو اپنی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام میں نکھار کر امت کے سامنے پیش کیا۔ ۱؎ ادھر اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی ۔ حسن البنا کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے جہادکے تصور کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ فلسطین پر یہودی قبضے سے نجات پانے کے لیے مسلم امت کواس کے لیے عملاً تیار بھی کیا۔ اس طرح وہ امت جو سیاسی غلامی ،معاشی محکومی ،اخلاقی ابتری اورفکری مرعوبیت کے ہاتھوںشکست اور پسپائی کی علامت بن چکی تھی ،اسے علامہ محمد اقبال ،حسن البنا شہید اور مولانا مودودی نے ایمان، اعتماد، امنگ، اورعزم کے ساتھ راستہ بنانے کی راہ دکھائی ۔
حالیہ تاریخ کا مطالعہ کریںتو معلوم ہوتا ہے کہ مصر وہ پہلا ملک ہے جہاں کھل کر دین اور سیاست کی تفریق کی بات پیش کی گئی تھی۔ برعظیم پاک و ہند میںمولانا ابوالکلام آزاد،علامہ محمداقبال اور مولانا مودودی کے مضبوط استدلال نے یہاں پریہ بات نہیں چلنے دی، جب کہ مصر میں علی عبدالرزاق (م: ۱۹۶۶ء) نے کھلے بندوں چیلنج کے انداز میں یہ بات کہی تھی کہ خلافت کاقیام ضروری نہیں ہے، اور دین اور سیاست کی تفریق ممکن ہے اور کچھ حالات میں مطلوب بھی۔ امام حسن البنا نے اس چیلنج کا فکری اور عملی سطح پر جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ: اسلام ایک ریاست، ایک نظام حکومت اور ایک معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔اس طرح انھوں نے ریاست کے اسلامی تصور کو تحرک اور تحریک کا حوالہ بنادیا ۔بعد ازاں مسلم دنیا میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں اٹھیں، خواہ وہ اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی کے قافلے سے الگ ہوکر چلیں یاالگ سے قائم ہوئیں،ان سب کا ایک اہم ہدف اسلامی ریاست کا قیام طے پایا۔آج اسلام پر جو بھی تحقیقی ، تجزیاتی یا سخت متعصبانہ مطالعات سامنے آرہے ہیں،ان میں اسلامی احیا اور اسلامی ریاست، اخوان، جماعت اسلامی، مولانا مودودی ،سید قطب اور حسن البنا کا ذکر مرکزی موضوعات کے طور پر ملے گا۔
اخوان المسلمون کے بڑے دھارے نے بڑے تسلسل کے ساتھ ،استبدادی حکومتوں کی جانب سے مسلط کردہ آزمایش کا مقابلہ کیا۔ اپنے متوازن اور راست طریق کار کو انھوں نے ترک نہیں کیا اور نہ وہ کسی رد عمل کا شکار ہوئے۔یہ دراصل حسن البنا کی اس تربیت کا کرشمہ ہے جس کے تحت مختلف نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے راستہ نکالنے والی انقلابیت کا دامن تھامے رکھا۔ بالکل یہی صورت حال مولانا مودودی کے ہاں بھی دکھائی دیتی ہے، جو سخت سے سخت اشتعال انگیز حالات کے باوجود واقعات سے متاثر نہیں ہوتے ،بلکہ خداداد دانش اوراللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس طرح راستہ بنالیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اخوان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ تھے جنھوں نے شدید ردعمل میں آکراخوان سے ناتا توڑ لیااور اپنی نادانی سے استبدادی قوتوں کو مضبوط کیا۔ انجام کارظلم کی سیاہ رات طویل ہوئی اور تبدیلی کے امکانات کی دنیا محدود ہوئی۔ دوسری جانب الگ ہونے والے وہ لوگ تھے، جو سمجھتے تھے کہ ہمیں مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر راستہ بنانا چاہیے۔ ان میں سے بعض لوگوں نے صدر ناصر اور کچھ افراد نے صدر سادات سے تعاون بھی کیا،مگر کوئی امید بر نہ آئی بلکہ اس طرح وہ اور زیادہ بے وزن ہوئے۔مقصد کا حصول دُور کی بات ہے ،وہ خود اپنے مشن سے دور ہوتے چلے گئے۔ طاغوت کے طرف داروں سے مل کر طاغوت کو لگام دینا کارِمحال ہے۔گویا کہ مقصد اور منزل کے بارے میں سمجھوتا تباہ کن ہوتا ہے۔
حکمت اور مصلحت ،قرآن کے اصول ہیں۔ ان دونوں کا مفہوم سیرت پاک کے مطالعے سے متعین ہوجاتا ہے۔ہرجگہ اور ہر دور میں اسلامی تحریکوں کو چاہیے کہ وہ ان اصولوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بناکر شہادتِ حق، تطہیرافکار اور تعمیرمعاشرہ کا راستہ بنائیں۔ اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے غلطی بھی ہوسکتی ہے، لیکن غلطی تو اس صورت میں بھی ہوسکتی ہے کہ آپ پورے معاشرے سے کٹ کر کسی جنگل بیابان میں چلے جائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اجتہادی غلطی کا بھی ایک اجر ہے اور اگر اجتہاد صحیح ہے تو اس کے دو اجر ہیں۔ اسی فریم ورک کے اندر اخوان کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی، اور آیندہ آنے والوں کے لیے بھی اہم سبق ہے۔
ہمارے ہاں علمی کام کازیادہ حصہ اللہ کے ایک بندے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر وکاوش کاثمرہ ہے۔ اس کے برعکس اخوان کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک پوری ٹیم ہے جس نے مل کر یہ کام کیا ہے۔ اس کام کی وسعتوں کو دیکھیں تو یہ بڑا معرکے کا کام ہے ۔مثال کے طور پر عبدالقادر عودہ شہید نے اسلامی قانون پر جو کام کیا، وہ ۲۰ ویں صدی کے معتبر ترین کاموں میں سے ایک کام ہے۔ وہ اپنے فن کے ماہر تھے اور قرآن و سنت پر ان کی نگاہ بڑی گہری تھی۔سید قطب شہیدنے تفسیر فی ظلال القرآن ،العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام، معالم فی الطریق وغیرہ جیسی معرکہ آرا کتب لکھیں،بلکہ ادبی اور فکری نوعیت کی بڑی قابل قدر تصنیفات بھی پیش کیں۔ڈاکٹر مصطفی حسنی سباعی کی ایک دو آرا سے اختلاف کے باوجود: السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی،نظام السلم والحرب فی الاسلام،المرأۃ بین الفقہ والقانون،الاستشراق والمستشرقون،المرونۃ والتطور فی التشریع الاسلامی،التکافل الاجتماعی فی الاسلام،غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی وہ مزید درجن بھر کتب کے مصنف ہیں۔ محمد الغزالی، بہی الخولی،محمد محمود الصواف،عبد البدیع صقر، محمداحمد ابوشقہ، ڈاکٹر سید سابق، ڈاکٹر عبدالعزیز کامل،ڈاکٹر عیسیٰ عبدہ ابراہیم،ڈاکٹر محمد المبارک، ڈاکٹر سعید حویٰ، عبدالکریم زیدان، ڈاکٹر جمال عطیہ ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر توفیق شاوی، پروفیسرمصطفی احمدزرقا، پروفیسر محمد قطب،پروفیسر عبد الحکیم عابدین،ڈاکٹر مالک بدری اور ان کے ہمراہ دیگر رفقا نے قائدانہ سطح کی کتب تحریر کیں۔انھوں نے یہ کام ایک ٹیم کی طرح انجام دیا۔ اوراس قافلۂ علم و دانش میں آج بھی قیمتی اضافے ہورہے ہیں۔پھر خود امام حسن البنا کے والد گرامی احمد عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی (شرح مسند امام احمد) ۲۴ جلدوں پر مشتمل ایک بڑا وقیع علمی کارنامہ انجام دیا۔
اسی طرح صحافت کے میدان میں اخوان کے تجربات ،ندرت ِخیال ،بروقت اظہار ، علمی شان اور عزم و حوصلے کو ابھارنے والاانداز بھی ایک قابل رشک پہلو رکھتاہے۔ یہ ایک دو پرچوں کی بات نہیں، بلکہ اس میں عربی،انگریزی اور فرانسیسی میں درجنوں چھوٹے بڑے رسائل وجرائد کے نام سامنے آتے ہیں۔پابندیاںلگتی رہیں،مگر نام ،اسلوب اور مقام بدل کرحق کی گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی گئی۔پھر علمی اور تحقیقی مجلوں کو دیکھتے ہیںتومختلف عرب ریاستوں اور یونی ورسٹیوں کے جرائد تک میں اخوانی علم کلام کی گونج سنائی دیتی ہے،کہیںدھیمے انداز میںاور کہیں پُرزور انداز میں۔یہ سب کام ایمانی حلاوت ،اجتماعی وابستگی،روحانی جذبے اور مؤثر تربیت کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
اس جارحانہ پروپیگنڈے اور حالات وواقعات کے منفی بہاؤ کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات لوگوں پر مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں۔بلاشبہہ بے جا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، لیکن خواہ مخواہ کی مایوسی بھی غلط ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈے سے خائف نہیں ہونا چاہیے، مگر کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن کے ساتھ معاملات کا تجزیہ کرنے کا عمل بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔
موجودہ عہد میں جس وسعت اورجس شدت کے ساتھ مولانا مودودی ،حسن البنا شہید، اور سید قطب شہیدکے خلاف یہود ونصاریٰ اور ہنود پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس کی فکری، مذہبی اور عملی بنیادوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سید قطب اور مولانا مودودی کی فکر کو درست پس منظر میں پیش کرنا نہایت ضروری ہے۔ جذباتی اور علامتی وابستگی سے بڑھ کر اسے شعوری اور نظریاتی تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودی اسلامی تحریکوںکے سامنے آج ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ صف بندی گہرے شعور کے ساتھ کی جائے اور مسلمان نوجوانوں کو دردمندی سے سنبھالا جائے۔اگر کوئی مسلمان نوجوان شدید دباؤ کے نتیجے میں ردعمل کے راستے پر جاتا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ پھر وہ مغرب کے تعصب اور ظلم و ستم کے جواب میں اور زیادہ تشدد کی طرف ہی جائے گا۔ اصولاً یہ راستہ نہ درست ہے اور نہ مطلوب۔ اگر یہ نوجوان سید قطب اور سید مودودی کے اصل فکری نظام (پیراڈائم)کو سمجھ لے گا تو ظلم کے خلاف دلیل کی قوت، کردار کی شان اور دعوت وحکمت کی طاقت کے ساتھ تو ضرور اٹھے گا، لیکن ایک ظلم کی جگہ وہ کبھی دوسرے ظلم کا حصہ نہیںبنے گا۔ یہ اسی وقت ہو گا جب وہ اس نظامِ فکر اور نظم ِتنظیم سے وابستہ ہوگا۔ اس طریقۂ کار کے لیے وقت لگے گا، محنت کرنا ہوگی،اورصبر و ہمت سے کام کرنا پڑے گا۔
میں تشدد کے فروغ کی کسی بھی شکل کو حقیقی اسلامی تحریک اور اسلامی احیا کے لیے ایک تباہ کن خطرہ سمجھتا ہوں، تاہم کشمیر، فلسطین، چیچنیا میں آزادی کی تحریکوں، اور عراق و افغانستان پر غیرملکی تسلط کی نوعیت دوسری ہے۔ اسلام، انسانیت کے لیے نظام رحمت ہے، اورنبی کریمؐ رحمۃ للعالمین ہیں۔ اسلام کے علَم بردار یہ بات قبول نہیں کرسکتے کہ ایک ظالم کے ظلم کی سزا دوسرے بے گناہ لوگوں کو دی جائے۔ اس لیے جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا مرحلہ آئے تو وہ بھی،رحمت عالمؐ کے پیش کردہ نمونۂ عمل کو سامنے رکھ کر اختیار کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اختیار کردہ راستہ سرور عالمؐ کا راستہ نہیںہوسکتا،چاہے اس کے لیے کیسے ہی خوش نما دعوے اور دلائل پیش کیے جائیں۔جان لینا چاہیے کہ جہاد اور انتقامی تشدد کے درمیان بڑا فرق ہے۔ ہمیں دشمن کے کھیل کا حصہ نہیں بننا،مگر خاموشی سے بھی خود ہمارے اور اسلام کے بارے میں ایک غلط تصور پیدا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ انسانیت کو خیر کی طرف بلائیں اور شھداء علی الناس کی ذمہ داری ادا کریں۔ ہم سب کو فکر کرنی چاہیے کہ اسلام کی دعوت، تربیت، شناخت اور تحریک اسلامی کا امتیازی کردار مجروح نہ ہونے پائے۔
یہی حسن البنا شہید اور مولانا مودودی کی دعوت اور ان کا پیغام ہے۔
کسی بھی تحریک کا مؤسس اپنے نظریات اور تحریک کا سب سے بہتر تعارف ہوتا ہے۔ جوشخص اپنے مقاصد سے جس قدر مخلص ہوگا اس پر، اس کے ساتھیوں پر، اور اس کی تحریک پر ان مقاصد کی چھاپ اُتنی ہی گہری ہوگی۔ امام حسن البنا شہید کی تمام تر جدوجہد کا اصل مقصد رب کی رضا کا حصول اور اللہ کے رنگ میں انفرادی و اجتماعی طور پر رنگ جانا تھا۔ ان کی پوری زندگی میں یہی پہلو سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔
قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے براہِ راست ربط و تعلق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثل محبت اور وابستگی نے اخوان کو دعوت و تحریک کے مستقل مکتب کی حیثیت دے دی ہے۔ اخوان کا معروف شعار: اللہ ہمارا مقصود ہے، قرآن ہمارا دستور ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے راہ نما ہیں، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کے راستے میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے___ اس روحانیت کا جامع خلاصہ ہے۔ اسی شعار کو بنیاد بناکر انھوں نے اصلاحِ نفس، اصلاح اہل خانہ، اصلاحِ معاشرہ اور تعمیرملت کی مثالی جدوجہد کی۔
امام حسن البنا شہید نے اپنے ساتھیوں کی تربیت میں جہاد اور قربانی کو بہت اہمیت دی۔ انھوں نے اخوان کے کارکنان کو ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فاروق کے مظالم ہوں یا جمال عبدالناصر کی بے وفائی اور ظلم و تشدد، انورسادات کا جبر ہو یا حسنی مبارک کے غیرقانونی اقدامات، بیرونی سازشیں ہوں یا اندرونی حالات کی سنگینی، اخوان ان تمام آزمایشوں میں سخت جان نکلے۔ انھیں ختم کرنے کی کوشش کرنے والے ایک ایک کرکے ختم ہوگئے، لیکن انھیں شہید، اسیر یا ملک بدر کرکے کبھی ختم نہ کیا جا سکا۔ یوں اخوان المسلمون کی تحریک کا دائرہ نہ صرف پورے عالمِ عرب پر محیط ہوگیابلکہ اس کے اثرات پورے عالم اسلام میں پھیل گئے۔
صہیونی طاقتوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم دنیا بالخصوص مصر سے اسلامی روح کا خاتمہ کردیا جائے۔ مصر پر خصوصی توجہ اس لیے تھی کہ مصر، فلسطین پر صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی بنیادی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصر ہی سے اسرائیلی وجود کے خلاف عملی مزاحمت سامنے آئی تھی۔ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے بہت سی کاوشوں کا نقطۂ آغاز مصر ہی قرار پایا۔ فلسطین پر یہودی قبضے کو تسلیم کروانے کے لیے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو یا عالمِ اسلام کے خلاف دیگر ثقافتی، دفاعی، جاسوسی اور اقتصادی سازشیں، ان کی تنفیذ میں بنیادی خدمت عالمِ اسلام کے حکمرانوں بالخصوص فلسطین کے پڑوسی ممالک سے لی گئی۔ سازشی عناصر اور ان کے خدمت گار جانتے تھے کہ اس راہ کی بنیادی رکاوٹ اسلامی تحریکیں اور معاشرے کے متدین عناصر ہیں۔ اس رکاوٹ کے ازالے کے لیے اندرونی و بیرونی قوتوں نے ہرممکن ہتھکنڈا آزمایا۔ جھوٹے الزامات لگے، مہیب پروپیگنڈا ہوا،اور اندرونی و بیرونی فتنوں کو ہوا دی گئی۔ ملک بدری، اسیری اور پھر گولیاں اور پھانسی کے پھندے، اور ظلم و جور کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن اللہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت سے سرشار اور کتاب اللہ کے نور سے منور چراغوں کو بجھایا نہ جاسکا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ فیض سے سیراب کھیتی، ہر آن اپنی بہار دکھاتی اور یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ (الفتح: ۴۸:۲۹) ’’کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں‘‘کا مصداق بنی رہی۔
وہ کارواں جو امام حسن البنا اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کی جدوجہد سے شروع ہوا تھا، تمام تر چرکے سہنے کے باوجود آج کہیں حماس کی صورت ناقابلِ شکست ہے، کہیں اخوان المسلمون کی پے درپے کامیابیوں کی صورت مخالفین کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہے۔ کہیں الجزائر کے ۸۰ فی صد راے دہندگان کے نقارے کی صورت سنائی دیتا ہے۔ عالمِ عرب ہی نہیں، جہاں جہاں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی جمع ہیں، اخوان غلبۂ اسلام کی اس جدوجہد کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اُمت کی اُمیدوں کے ترجمان ہیں، اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ حق کو بالآخر غالب ہونا ہے اور باطل کو مغلوب۔
مسلسل قربانیوں اور ہمہ وقت جدوجہد سے اسلامی تحریکوں نے پوری دنیا پر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ قربانیاں اور مشکلات کبھی کسی تحریک کے خاتمے کا باعث نہیں ہوتیں۔ قربانیوں نے ہمیشہ تحریک کو مزید تقویت و زندگی بخشی ہے۔ جہاد کی فصل جتنی کٹتی ہے اتنی ہی مزید پھلتی پھولتی ہے۔ہاں، قربانیوں سے اجتناب، مشکلات کا خوف اور خطرات کے اندیشہ ہاے دُوردراز، تحرک کے بجاے تساہل و تکاسل ضرور ایساوقت لاتے ہیں کہ پھر تحریک تحریک نہ رہے، تعفن زدہ تالاب بن جائے۔ اقبال نے بھی اپنے اشعار سے یہی پیغام دیا اور حسن البنا کی شہادت سے اخوان اور اسلامی تحریک کو ملنے والی حیاتِ تازہ سے بھی یہی پیغام ملا:
ساحل افتادہ گفت‘ گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج زخود رفتۂ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر مے روم، گر نہ روم نیستم!
(پڑے ہوئے ساحل نے کہا کہ: اگرچہ میںبڑی دیر زندہ رہا ہوں، لیکن افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ میں کیا ہوں۔ اپنی جان سے گزرنے والی موج تیزی سے لپکی اور اس نے کہا، اگر میں حرکت میں ہوں تو زندہ ہوں، اگر نہیں ہوں تو نہیں ہوں،گویا زندگی حرکت اور جدوجہد کا نام ہے۔)
یہی مطلب مرزا بیدل کے ایک شعر میں اس طرح ادا ہوا ہے:
ما زندہ ازانیم کہ آرام نہ گیرم
موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست
(ہم اس لیے زندہ ہیں کہ رکتے نہیں ہیں۔ ہم ایسی موج ہیں کہ ہمارا ٹھیرنا ہماری موت ہے۔)
سید قطب کے الفاظ میں کہ: ’’شہید کے ہزاروں خطاب اور ہزاروں کتابیں بھی اخوان کے دلوں میں تحریک و دعوت کے وہ الائو روشن نہیں کرسکتے تھے جو ان کے پاکیزہ خون سے منور ہونے والے چراغوں نے دہکا دیے تھے‘‘۔ اپنے مقصد سے مضبوط وابستگی اور نیت و عمل میں کامل اخلاص نے حسن البنا کو اُمت کی اُمیدوں کا مرکز بنا دیا۔ وہ خود بھی ایک مؤثر قوتِ محرکہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کے گرد علماے کرام اور عظیم مفکرین کی ایک کثیرتعداد جمع کردی۔ امام نے زیادہ کتابیں تونہیں لکھیں لیکن ان کے الفاظ: اصنف الرجال (میں مردان کار تصنیف کرتا ہوں)۔ ایسی حقیقت بن گئے کہ سیدقطب، سید سابق، عبدالفتاح ابوغدہ، محمدالغزالی، علامہ یوسف القرضاوی، استاذعبدالمعز عبدالستار، استاذ مصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور اسی پایے کے لاتعداد جلیل القدر علماے کرام ان کے حلقۂ عمل میں شامل ہوگئے۔ ان بزرگ علماے کرام کی روحانی تربیت کرکے انھوں نے عالم اسلام کو ایک ایسے مبارک گروہ کا تحفہ دیا جو علم و عمل اور تقویٰ و للہیت کا نمونہ تھا، اور جنھوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت اورقرآن کی تعلیمات کو اپنی شخصیت میں جذب کرلیا تھا۔اس مبارک گروہ سے آج عالم اسلام میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ قرآن کریم میں مؤمنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیںاور اللہ کے ولیوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان بزرگ شخصیتوں میں ہم نے اس کا پرتو دیکھا ہے۔ یہ وہ چلتی پھرتی کتابیں ہیں جو امام حسن البنا شہید نے تصنیف کی ہیں اور ان سے آج پورا عالم روشن ہے۔
اخوان المسلمون کے ساتھ طالب علمی کے زمانے ہی سے میرا تعلق اتنا گہرا تھا کہ جب میں اپنی زندگی کے ان چند واقعات کو یاد کرتا ہوں جب میں شدید صدمے اور حزن سے دوچار ہوا،تو ان میں سے ایک عبدالقادر عودہ شہید اور ان کے ساتھیوں کی سزاے موت کا واقعہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد میں اس روز کتنی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور رو روکر اپنے رب کے سامنے اپنے درد و حزن کا اظہار کرتا رہا۔اس کے بعد لمحہ بہ لمحہ ہم سید قطب اور اخوان کے دوسرے راہ نماؤں پر ہونے والے مظالم کی روداد سنتے اور پڑھتے رہے، اور اس پورے عرصے میں براہ راست ملاقات نہ ہونے کے باوجود ہمارے دل ان کے ساتھ جڑے رہے، بلکہ یہ رودادیں ہماری تربیت کا ذریعہ بنیں۔ انھی دنوں ہم ذہناً اس تعذیب کو سہنے اور اس کی سختیوں کو برداشت کرنے کی تیاری کرتے رہے جن سے ہمارے اخوانی بھائی گزرے تھے۔
۷۳-۱۹۷۲ء میں پہلی بار میں نے سفرحج کیا۔ اس سال منیٰ میں اخوان کا باقاعدہ کیمپ لگا تھا۔ ان دنوں پشاور شہر کی جماعت اسلامی کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ قومی یا عالمی سطح پر میرا تعارف نہیں تھا۔ ایک عام کارکن کی حیثیت سے میں تھوڑی دیر کے لیے ان اللہ والوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ استاد حسن الہضیبی طویل قید سے [ناصر کے زمانے میں] رہائی کے بعد کیمپ میں شریک تھے۔ انتہائی ضعف کی حالت میں جب انھیں اپنی کرسی پر بٹھایا گیا تو اخوان کے دکھی دلوں کے زخم تازہ ہوگئے،اور سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔جب تھوڑا قرار آیا تو رونے پر قابو پا کر بلند آواز سے سب نے مل کرذکر شروع کر دیا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِیْ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ- دیر تک اللہ والے یہ ورد کرتے رہے۔ بعد میں کیمپ میں کئی اخوانی ساتھیوں کے علاوہ اردن کے اخوانی راہ نما استاذ عبدالرحمن خلیفہ سے بھی پہلی ملاقات ہوئی۔
اسی سال حج کے بعد میں نے عالم اسلام کا سفر کیا۔ مصر بھی گیا لیکن اخوان کے دور ابتلا کی وجہ سے وہاں اس کا موقع نہیں ملا کہ اخوان کے کسی راہ نما سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں۔ البتہ قاہرہ اور سکندریہ کے گلی کوچوں میں امام حسن البنا اور ان کے شہید ساتھیوں کے آثار کی تلاش میں رہا۔ اس سفر کے دوران لبنان اور شام کے بعض اخوانی راہ نماؤں سے ابتدائی ملاقاتیں رہیں۔
زمانہ طالب علمی سے ہی امام حسن البنا اور سید مودودی کی محبت یکساں طور پر میرے دل میں موجود رہی ہے۔ امام حسن البنا اورمولانا مودودی کے درمیان ملاقات یاکسی قسم کے رابطے کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، مگر دونوں کی شخصیت، فکر اور تحریک میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب قرآن و سنت کی مشترکہ بنیاد ہے۔اخوان المسلمون نے ہمیشہ جماعت اسلامی کو برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ اخوان ہی سمجھا، اور ہم نے ہمیشہ اخوان المسلمون کو عالمِ عرب میں جماعت اسلامی ہی کی قائم مقام تحریک کے طور پر دیکھا ہے۔ یہ حیرت انگیز تعلق خاطر اور افکار کی یکسانیت عصرِحاضر میں وحدت اُمت کی مضبوط ترین اساس ہے۔
اخوان کی قیادت اور ہم نے مل کر فرقہ بندی، ذات پات، لسانیت یا علاقائیت سے بالاتر ہوکر دینی و ملّی مشترکات پر اُمت کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس ضمن میں اخوان المسلمون کے متعدد ذمہ داران سے تبادلۂ خیالات کا موقع بھی ملا ہے۔ اخوان کے سابق مرشدعام مصطفی مشہور سے اکثر و بیش تر ملاقاتیں رہیں۔ وہ کئی بارپشاور میں ہمارے مہمان رہے۔ وہ مکمل طور پر فنا فی اللہ، اخلاص و جذبے سے معمور، اخوت سے سرشار اور دانا وبینا انسان تھے۔ یہی عالم بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں مرشدعام عمرتلمسانی، محمد حامد ابوالنصر اور مامون الہضیبی کا تھا۔ معروف محدث اور بزرگ عالمِ دین عبدالفتاح ابوغدہ (مرحوم) میرے بڑے بھائی مولانامحمد عبدالقدوس (مرحوم) کے قریبی دوست اور ساتھی تھے۔ وہ علم و تقویٰ اور تحریکی شعور کا خوب صورت مرقع تھے۔ ان سے ملاقات علمی ذوق و شوق میں ترقی اور تحریکی وابستگی میں پختگی اور یک سوئی کا سبب بنتی تھی۔
اخوان کے بزرگ راہ نماؤں سے قریبی ملاقاتوں اور کسب فیض کا موقع اس وقت ملا جب جہادافغانستان [۹۲ء-۱۹۷۸ء]میں اخوان المسلمون نے باقاعدہ دل چسپی لینی شروع کی اور پشاور میں میرا غریب خانہ افغانوں اور اسلامی تحریکوں کامرکز بن گیا۔ اخوان المسلمون کے کئی راہ نما اس دوران ہمارے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سابق مرشد عام استاذمصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور نائب مرشد عام ڈاکٹر احمدالملط کی میزبانی کا شرف مجھے حاصل ہوا ،اوران کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ انھی دنوں سفر میں استاذ عبدالمعز عبدالستار کا ساتھ نصیب ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے براہ راست امام حسن البنا شہید سے فیض حاصل کیا تھا۔جوانی ہی میں امام شہید نے ان کے دل مٹھی میں لے لیے تھے اور اُن کے گہرے روحانی نقوش ان کی شخصیتوں پر ثبت ہو گئے تھے۔میں نے ان کی خلوت و جلوت کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان لوگوں پر اللہ کا رنگ( صبغۃ اللّٰہ) مکمل طور پر چڑھا ہواتھا۔ان کی باتیں ذکر کی باتیں تھیں، ان کی خاموشی اللہ کی یاد میں خاموشی تھی،اور ان کی معیت میں ایک گہرا روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔
استاذ کمال الدین سنانیری تقریباً ۱۵ دن ہمارے گھر میں مہمان رہے۔ میں نے اپنی تحریکی زندگی میں ان جیسا للہیت سے سرشار انسان کم ہی دیکھا ہوگا۔غیر محسوس طور پر ایک دن چھوڑ کر روزے سے رہتے تھے لیکن گھر کے لوگوں کے سوا کسی کو بھی ان کے روزے کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ جب لطیف پیراے میں کھانے پینے سے معذرت کرتے تو معلوم ہوتا کہ روزے سے ہیں۔ استاذ کمال الدین مرشدعام کے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے افغان مجاہدین کی خدمت اور افغان قائدین میں مصالحت و یک جہتی کی خاطر آئے تھے، اور اپنی تمام تر توجہ اسی ایک مقصد کے حصول پر مرکوز رکھی۔ میں نے انھیں کبھی فارغ نہیں دیکھا۔ جب بھی فرصت کا کوئی لمحہ میسر آتا، وہ جیب سے قرآن کریم نکالتے اور تلاوت میں مشغول ہوجاتے۔ بدقسمتی سے مصر واپسی پر اس فنا فی اللہ، ربانی شخصیت کو سرکاری گماشتوں نے اذیتیں دے دے کر شہید کردیا، اور دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ اپنے مرشدعام امام حسن البنا شہید سے مشابہ ٹھیرے۔استاذ مصطفی مشہور ہر فارغ لمحے میں کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ استاذ عبدالمعزعبدالستار کے روحانی اثر کو میں آج ہزاروں میل کی طویل مسافت کے باوجود محسوس کرتا ہوں۔
اسی لیے میں نے آغاز میں عرض کیا کہ تحریک کا حقیقی تعارف اس سے وابستہ افراد کے اخلاق و کردار سے ہوتا ہے، اور تحریک کا بانی اپنی تحریک اور تحریکی افراد پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔امام شہید کی روحانی کشش اس قدر شدید تھی کہ جس کا بھی ان کے ساتھ تعارف ہوا، اس کا دل ان کے ساتھ جڑ گیا۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں ان کی تربیت کی وجہ سے ایسی جاذبیت پیدا ہو گئی تھی کہ عالم اسلام کے ہزاروںلاکھوں نوجوانوں کے دلوں میںان کی محبت کے دیرپا نقوش ثبت ہو گئے ہیں۔
ترجمان القرآن کی اس ’اشاعت خاص‘ میں اخوان المسلمون کے بانی، اور مرشد ربانی کی فکر، شخصیت اور کردار و اثرات کا مطالعہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے___ یہ نہ صرف اسلامی تحریک کی بنیادی ضرورت تھی بلکہ امام حسن البنا شہید کا ہم سب پر حق بھی تھا۔ میں اس اہم علمی و تحریکی خدمت پر اس کی تیاری میں حصہ لینے والے تمام ساتھیوں کے لیے قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ اس میں شامل تحریریں ہمیں ایک تازہ جذبۂ عمل سے سرشار کریں۔ آمین!
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مصر میں شیخ حسن البناشہید نے جس وقت احیاے اسلام کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا،قریب قریب وہی زمانہ تھا،جب اس برعظیم پاک و ہند میں بھی ٹھیک اسی مقصد کے لیے کام شروع کیا گیا۔دونوں کے درمیان شاید ایک دو برس کا فرق ہو،لیکن زمانہ تقریباً یکساں ہے۔سالہا سال تک ان سے ہم اور ہم سے وہ بے خبررہے۔حالاں کہ ایک ہی راستے پر چل رہے تھے۔ایک مدت دراز کے بعد جا کر ہمیں پتا چلاکہ مصرمیں اخوان کی تحریک انھی مقاصد کے لیے چل رہی ہے، اور اسی طرح سے سالہا سال بعد ان کو بھی یہ معلوم ہواکہ برعظیم پاک و ہند میں اسی طرح کی ایک تحریک کام کر رہی ہے۔اب یہ خدا کی مشیت ہے کہ وہاں پہلے اس کے مرشداوّل شہید ہوئے پھر مرشد ثانی بھی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، اور یہاں اس کام کو جس نے شروع کیاتھاوہ دونوں کا غم سہنے کے لیے آج بھی زندہ ہے۔
اخوان کی تحریک کی قدر و قیمت کا اندازہ اس ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے ۔مگر جاننے والے جانتے تھے کہ عرب ممالک میں خصوصاًاور دنیا کے دوسرے ممالک میں عموماً احیاے اسلام کے لیے جو کام ہوا،مسلمانوں میں دینی،اخلاقی بیداری پیدا کرنے کی جو خدمت انجام دی گئی اور عوام و خواص کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے اور خلوص کے ساتھ اسے سربلند کرنے کی جو کوشش کی گئی، وہ زیادہ تر اخوان ہی کی اس تحریک کا ثمرہ ہے،جسے شیخ حسن البنا نے شروع کیا،اور شیخ عبدالقادر عودہ شہید،سید قطب شہیداور حسن الہضیبی مرحوم نے پروان چڑھایا۔
عرب ممالک میںآپ عراق سے مراکش تک چلے جائیں،ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو بھی اسلام سے گہرا اور قلبی تعلق ہے، وہ زیادہ تر اخوان ہی کے آدمی ہیںیا ان کی تحریک سے متاثر ہیں۔اسی طرح امریکا اور یورپ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ جو عرب نوجوان اسلامی جذبے سے سرشار ہیں،وہ اکثر و بیش تراخوانی ہیں۔حتیٰ کے اخوانیت ایک طرح سے اسلامیت کا نشان بن گئی ہے ۔کوئی آدمی تعلیم یافتہ ہو اور پھر دین دار بھی ہوتو لوگ آپ سے آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ضرور اخوان میں سے ہے، یا کم سے کم اس تحریک سے متاثرہے۔حتیٰ کہ جب اسلام دشمنی کا روگ بعض عرب ممالک کو لاحق ہواتو ہر اس نوجوان کے پیچھے سی آئی ڈی لگ جاتی تھی، جو نماز پڑھتا نظر آتاتھا۔یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس فتنے کے دور میں اخوان کی تحریک بر وقت برپا ہوگئی اور یہ تحریک نہ اٹھی ہوتی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب ممالک لادینیت،قوم پرستی اور سوشلزم کے طوفان میں کس حد تک پہنچ چکے ہوتے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ۲۵‘ ۳۰ سال پہلے عرب ممالک میںجو لوگ بھی اسلامی جذبے سے عاری تھے اور جن پر سیکولرزم اور قوم پرستی کا شیطان مسلط تھا،وہ سب انڈین نیشنل کانگریس کے حامی اور تصور پاکستان کے مخالف تھے۔صرف اخوان ہی کا گروہ ایسا تھاجو پاکستان کا حامی تھا۔آج بھی وہاں وہی پاکستان کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔مگر یہ عجیب بات ہے کہ جب اخوان پر پے در پے مظالم ہوئے تو یہاں[پاکستان میں] ان سے ہمدردی کرنے والے بہت کم تھے اور دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان پر الزام لگانے والے اور تہمتیں گھڑنے والے بہت زیادہ پائے گئے۔حتیٰ کہ جب انصاف کی مٹی پلید کرکے اخوان کو بدترین سزائیں دی گئیںاور ان کے بہترین آدمیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیاتو یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جنھوں نے اس پر احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں۔افسوس کہ لوگوں کو دوست اور دشمن کی تمیز بھی نہیں رہی۔بے شعوری میں یہ احساس تک نہیں کیا گیاکہ ہم اپنے دوستوں کو برا کہہ رہے ہیں اور دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔
ہم خلوص دل سے دعا کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ شیخ حسن الہضیبی کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے،ان کو بلند مرتبے عطا فرمائے، ان کی قربانیوں اور خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے اور ۲۰ سال تک مسلسل ظلم و ستم ڈھاتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے عدل کے مطابق ان سے انتقام لے اور جس صبر و استقامت کے ساتھ مرحوم نے دین کی راہ میں ہرتکلیف کو برداشت کیااور اسلامی تحریک کی خدمت قید کی حالت میں بھی کرتے رہے، اس کا اجرجزیل انھیں عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان اخوان کو بھی بلند مرتبے عطا فرمائے، جنھوں نے فلسطین میںیہودیوں کے خلاف جنگ کی اور ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ یہودی مصر اور دوسری عرب ریاستوں کی باقاعدہ افواج سے بڑھ کراخوانیوںسے ڈرتے تھے۔ان میں سے جو اس لڑائی میں شہید ہوئے، اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے اور جو اس لڑائی میں لڑے اور زندہ بچے اللہ تعالیٰ ان کو مجاہد اور غازی ہونے کا اجر عطافرمائے۔
یا اللہ! شیخ حسن البنا کو بلند مرتبے عطافرما۔ان کو اپنے مقربین میں جگہ دے۔ہم گواہ ہیں کہ یہ وہی تھے جنھوں نے احیاے اسلام کی اس تحریک کو اٹھایا۔لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل کیںاور اس میں وہ روحِ جہاد پھونکی ،جس کی بدولت اس وقت تک بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کے باوجودمصر کی سرزمین سے اسلامی تحریک کے اثرات نہیں مٹائے جاسکے۔
یا اللہ! ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی قبو ل فرماجن کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔ شیخ عبد القادر عودہ اور سید قطب شہید کے دوسرے ساتھیوں کو وہ اجر دے جو تونے اپنی راہ میں شہید ہونے والوںکے لیے مقرر کررکھا ہے۔
یااللہ! ان لوگوں کو بھی بلند مرتبے عطا فرما جنھوں نے ظالموں کی جیلوں میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کیںاور ایسے بدترین مظالم سہے جن کے تصور سے بھی انسان کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے، لیکن ان کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئی اور ان میں سے کسی نے ظالموں کے آگے سر نہیں جھکایا، حالاں کہ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تیرے دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، شخصیات، ص ۳۰۷-۳۱۰)
مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کے بارے میں مولانا مودودی نے فرمایا تھا کہ وہ: ’’اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا کے ذاتی دوست تھے۔ انھوں نے اخوان کی دعوت کے بارے میں کہا تھا کہ جہاں میرا کام ختم ہوتا ہے وہاں سے اخوان کا کام شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد اخوان نے رضاکار بھرتی کرکے یہودیوں کے خلاف جہاد شروع کیا، تو مفتی صاحب ان کے شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ جب ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کا دور آیا تو انھوں نے اخوان کے ساتھ صدر ناصر کے سلوک پر شدید احتجاج کیا تھا۔ پھر جب [۱۹۵۴ء میں] اخوان کے نام ور قائدین کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا تو انھوں نے اسے ذاتی طور پر تار دیے تھے کہ سزا نافذ نہ کی جائے۔ ۱۹۶۶ء میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی انھوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اخوان کا جذبۂ جہاد ان کے ابتلا کا باعث بنا، کیونکہ اسرائیل اور یہودیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی اصل مخالف قوت دنیاے عرب میں کون سی ہے۔ اس لیے امریکا اور [اشتراکی] روس دونوں کی خواہش یہ تھی کہ اسلام کی اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو کچل ڈالا جائے۔ افسوس کہ یہ مقصد تو کفار کا تھا، مگر پورا مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ (رفیق ڈوگر، ہفت روزہ استقلال، لاہور، ۱۴جولائی ۱۹۷۵ء۔ مولانا مودودی کے انٹرویو، دوم، ص ۲۸۶- ۲۸۷)
l ۱۹۴۷ء کے بعد کے زمانے میں ملاقات رہی۔ عبدالعزیز مطوع اور ان کے چھوٹے بھائی عبداللہ علی مطوع [م: ۲۰۰۶ء] بڑے مخیر انسان تھے۔ عبداللہ علی مطوع مولانا مودودی کی تعزیت کے لیے ۱۹۷۹ء میں لاہور تشریف بھی لائے تھے۔ ان سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز انھوں نے اپنی چیک بک میرے سپرد کرتے ہوئے کہا :’’یہ آ پ کے حوالے ہے۔ آپ جوچاہیں ان کا استعمال کریں‘‘۔
میں نے ان سے کہا: ’’میں آپ سے کچھ اور تونہیں کہتا ہوں۔ البتہ منصورہ میں ہمارے دفاتر کے ہمسایے میں ثنائی فلم سٹوڈیو ہمارے سرپر سوار ہے‘اس سے ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ اس کو بیچنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں آپ کوئی مدد کرسکیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا ‘‘۔ انھوں نے جواب میںکہا :’’ اس کا سودا کرلیں اور جتنا اس کا عوضانہ ہو وہ مجھے بتادیں‘‘۔چنانچہ ۵۷ لاکھ روپے میں متعلقہ ٹرسٹ نے ثنائی اسٹوڈیوکی یہ بلڈنگ خرید لی‘ اس کی بیش تر ادایگی عبدالعزیز مطوع اور عبداللہ علی المطوع نے کی۔ اس اسٹوڈیوکے بڑے ہال میں منصورہ ہسپتال،پروجیکشن ہال میں منصورہ آڈٹیوریم ،جب کہ لیبارٹری میں ادارہ معارف اسلامی کا دفتر اور ایک بڑی لائبریری قائم کی گئی۔
اس قیام کے دوران میں صدرحسنی مبارک سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا: ’’آپ اخوان کے قائد عمر تلمسانی سے ملیں اور ان کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ تصادم کے بجاے کوئی راستہ نکالیں اور اس طرح ایک دوسرے کو گرانے کی یہ صورت ختم ہو‘‘۔ چنانچہ میں نے اخوان کے تیسرے مرشدعام عمر تلمسانی سے ملاقاتیں کیں ، اور ان سے کہا :’’ بھائی‘ یہ جو صورت ہے‘ یہ نہ آپ کے لیے مفید ہے اور نہ ان کے لیے مفید ہے۔ کوئی ایساراستہ نکالنا چاہیے کہ وہ بھی کچھ ڈھیلے پڑیں اورآپ بھی کچھ اپنی سختی کو کم کریں، تا کہ دعوتی سرگرمیوں کے لیے بہتر صورت پیدا ہوسکے‘‘۔ اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میں کوئی براہ راست ملاقات عمر تلمسانی اور حسنی مبارک کے درمیان تو نہیں ہوئی،تاہم ہمارے ذریعے غائبانہ طور پر اُن دونوں کی بات، ایک دوسرے تک پہنچی۔
اپنی ملاقات میں‘ مَیں نے صدر حسنی مبارک سے کہا:’’معاملات کو مثبت رخ دینے کے لیے آپ اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ حسنی مبارک اس پر راضی ہوگئے اور کہا :’’وہ اس پرچے میں زیادہ سختی نہ کریں، ہم بھی کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔وہ کوئی اخبار نکال کر کام شروع کردیں‘‘۔ چنانچہ اس طرح سے انھوں نے اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دی۔ اسی سفر کے دوران میں عمر تلمسانی کے علاوہ مصطفی مشہور سے قاہرہ میں میری ملاقاتیں ہوئیں۔ عمر تلمسانی کے بعد حامد ابو النصر مرشدعام بنے تھے‘ وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے۔
ان تمام مظالم کے باوجود اخوان کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ان سے وابستہ مردوں،عورتوں اور نوجوانوں نے ان تکلیفوں اور اذیتوں کا بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ زمین میں گاڑ کر ان بے گناہوں پر کتے تک چھوڑے گئے۔ حکمرانوں کے مظالم کبھی کسی تحریک اور فکرکو ختم نہیں کرسکتے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور ان سے پیش ترانبیا پر بھی ظلم ہوئے ہیں اور وہ جواب میں اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔
یہاں بھی آپ دیکھیں‘ الحمدللہ زیادہ مضبوط تو جماعت اسلامی ہی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اور مسلمانوں کو یہ قوت اور ہمت عطا فرمائی ہے کہ یہ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس باقی تحریکیں چند دن کے لیے اٹھتی ہیں، زور دکھاتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اخوان جب سے شروع ہوئے مسلسل چل رہے ہیں۔ مولانا مودودی نے بھی جو تحریک شروع کی ہے الحمدللہ وہ بھی مسلسل آگے ہی بڑھ رہی ہے‘ پیچھے نہیں ہٹ رہی۔
یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے میں اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتاتھا کہ اب میرے اندر کام کرنے کی زیادہ طاقت نہیں رہی، جماعت کے چند مخلص ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ’’جس طرح مولانامودودی نے اپنی زندگی میں ہی ذمہ داریاں منتقل کردی تھیں، اس طرح کسی کو آگے لانے کی کوشش کریں‘‘۔ میں نے ارکان جماعت سے درخواست کی کہ دوبارہ مجھے منتخب نہ کیا جائے‘ ارکانِ جماعت نے قاضی صاحب کو امیرجماعت منتخب کرلیا جو میرے ساتھ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
m کیا شیطانی قوتیں اور ان کے آلہ کار کامیاب ہوجائیں گے ؟
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ،فرزندِ رسولؐ ابراہیم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، بچے کو منگوایا گیا، آپؐ نے بیٹے کی میت کو سینے سے لگایا۔ میں نے دیکھا کہ آں حضورؐ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں، اور آپؐ نے فرمایا: ’’آنکھیں روتی ہیں، دل غمگین ہے، لیکن ہم اس بات کے علاوہ کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتے کہ جو ہمارے رب عز وجل کو راضی کرتی ہو، واللہ اے ابراہیم! ہم تمھارے فراق پر بہت غم زدہ ہیں:انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون
میرے لخت جگر حسن! مجھے آج تمھارے ساتھ بیتے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک تب کہ جب تو ابھی چھے ماہ کا شیر خوار بچہ تھا۔ ایک رات جب میں بہت دیر سے گھر لوٹا تو دیکھا کہ تم اپنی والدہ کے پہلو میں گہری نیند سوئے ہوئے ہو۔ میں نے تمھیں دیکھا تو محبت کی ایک لہر میرے دل میں اتر گئی، لیکن اگلے ہی لمحے میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لمبا سانپ کنڈلی مارے تمارے سر کے پاس بیٹھا ہے، اس نے اپنا پھن پورا پھیلایا ہوا ہے، اور اس کے اور تمھارے سرکے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجھے لگا میرا دل حلق میں آن اٹکا ہے۔ میں فوراً اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا، اور اس کی بارگاہ میں استدعا کی کہ دل کو قرار آئے۔ بے اختیار میری زبان پر سانپ کے ڈنک اور اذیت سے محفوظ رہنے کی دعا جاری ہوگئی۔ دعا ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ سانپ نے سرجھکایا اور چپکے سے اپنی راہ لی۔ میرے پیارے بیٹے، اللہ نے اپنے اذنِ خاص سے اور تمھارے لیے کیے ہوئے اپنے کسی اہم فیصلے کی خاطرتمھیںبچا لیا۔
میرے لخت جگر! آج مجھے دوسرا منظر وہ یاد آرہا ہے جب تیرا لاشہ میرے سپرد کیا گیا تھا۔ میں نے رات کی تاریکی میں خون میں نہائی تیری میت اٹھائی، تو تیرا جسم گولیوں سے چھلنی تھااور تیری روح پرواز کرچکی تھی۔ جنگل کا سانپ تو تجھے تکلیف پہنچانے سے ڈر گیا، لیکن صدافسوس کہ انسانی سانپ تیری لاش کو ڈستے رہے۔ اس المناک لمحے میں صرف اللہ وحدہ کی قدرت ہی نے ہماری ڈھارس بندھائی، وگرنہ ہم کبھی یہ صدمہ برداشت نہ کرپاتے۔
میری جان! میں نے تمھارے پیارے چہرے سے چادر ہٹائی تو مجھے نور کی کرنیں لپکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔تیرے چہرے پر شہادت کی آسودگی ہی آسودگی تھی۔ تب آنکھیں نم ہوگئیں، دل زخمی اور غمگین تھا، لیکن ہم نے اللہ کو راضی کرنے والے کلمے انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون کے علاوہ کچھ نہ کہا۔
پیارے بیٹے! پھر میں نے تمھیں غسل دیا، کفن پہنایا اور اکیلے نے تمھاری نماز جنازہ ادا کی ۔ پھر میں اس عالم میں تمھارا جنازہ لے کر نکلا کہ گویا میرے نصف جسم نے اپنے ہی نصف وجود کی میت اٹھائی ہوئی ہو۔ میں اس کے علاوہ مزید کچھ نہ کہہ سکا وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِo (المومن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔ بیٹے! مبارک ہو کہ تم تو اپنی وہ مراد پاگئے، جسے پانے کے لیے تم سجدوں میں دعائیں کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جنت میں داخل ہو جانے والا کوئی انسان دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا ،خواہ اسے اس کے بدلے پوری روے زمین کے خزانے مل رہے ہوں۔ لیکن شہید کو شہادت کے بدلے اتنی تکریم ملے گی کہ وہ خواہش کرے گا کہ اسے دس بار بھی دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو وہ چلا جائے اور بار بار شہادت سے سرفراز ہوکر آئے۔
میرے پروردگار،اپنے بندے حسن کی خوب تکریم فرما، اس کے درجات بلند فرما، جنت کو اس کا مستقراور ٹھکانا بنا۔ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ فرما۔ ہماری بھی بخشش فرما اور اس کی بھی بخشش فرما ۔ اس کی یہ آرزو پوری فرما کہ اسے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت نصیب ہو: مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴: ۶۹) ’’وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں‘‘۔
ایھا الاخوان،رہے آپ سب احباب کہ جنھوں نے میرے بیٹے کو خوب پہچان کر اسے اپنا قائد چنا، تو آپ کے لیے اس کی یاد منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسی راہ پر اپنا سفر جاری رکھو۔ اس کے نقوش پا کو مٹنے نہ دو۔ اسلام کے آداب و احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اخوت کی رشتوں میں مضبوطی سے جڑے رہو اور اپنے اعمال اور اپنی نیتوں کو اللہ ہی کے لیے خالص رکھو۔
ایھا الاخوان ،میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم سب میرے شہید بیٹے کی سچی تصویر بن جاؤ ، لوگوں سے کسی اجر کی تمنا نہ کرو، اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا خوف دل میں نہ بیٹھنے دو اور دل میں یہ خیال تک نہ آنے دو کہ تم نے کسی کو شر یا تکلیف پہنچانی ہے: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی، جس نے اللہ کی طرف بلایا‘‘۔
ترمذی میں حضرت ایوب بن موسیٰ نے اپنے والد اور دادا کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ:’’ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھی تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں عطا کی‘‘۔ شادی کے بعد میری بھی یہ آرزو اور تمنا تھی کہ اللہ تعالی مجھے صالح اولاد، عطا کرے، میں اس کی بہترین تربیت کروں اور ان کے ذریعے ایک ایسی بہترین نسل چھوڑ جاؤں جوسب کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے اور ابدی خیر و بقا کا ذریعہ ہو۔ پروردگار نے یہ دُعا قبول فرمائی۔ میری آرزو پوری ہوئی، مجھے پیارا سا بیٹا عطا ہوا اور میں نے اس کا نام حسن البنا رکھا۔
پروردگار کی رحمت بچپن ہی سے میری بیٹے پر سایہ فگن رہی۔باری تعالیٰ نے اسے ہرتکلیف و اذیت سے محفوظ رکھا۔ ہم ’محمودیہ‘ میں رہایش پذیر تھے کہ ہمارے گھر کی چھت گرگئی۔ حسن اپنے بھائی عبد الرحمن کی ساتھ اسی چھت کے نیچے کھیل رہا تھا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جہاں یہ دونوں کھیل رہے تھے، وہاں سیڑھیاں تھیں۔ چھت کا ملبہ سیڑھیوں کی محراب پر آکر ٹک گیا۔ لیکن باہر کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے ملبہ ہٹانا شروع کیا۔ تو دیکھا کہ الحمد للہ، حسن اور اس کا بھائی اللہ کے فضل سے بالکل صحیح سالم ہیں ۔
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ ایک بار حسن کو خوفناک کتوں نے گھیر لیا۔ اس نے خوف زدہ ہوکر قریبی برساتی نالے ’الرشیدیہ‘ میں چھلانگ لگا دی۔ اس وقت نالے میں دریاے نیل کی طغیانی کے باعث پانی کا تیز دھارا تھا۔ حسن ڈبکیاں کھانے لگا، لیکن اچانک اذن الٰہی سے پانی کی ایک لہر نے اسے کنارے پر لا پھینکا۔ قریب سے گزرنے والی ایک دیہاتی خاتون نے اسے اٹھا لیا، اس طرح سراسر اللہ کے فضل و احسان سے اس کی جان بچ گئی۔
حسن بچپن ہی سے غیر معمولی دکھائی دیتا تھا۔ ابھی اس نے ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ وہ کائنات کے بارے میں ہم سے سوالات پوچھا کرتا تھا:’’یہ چاند کیا ہے؟ اسے کس نے اتنا خوبصورت بنا یا ہے؟‘‘ میں نے اس کی غیر معمولی زِیرکی کے پیش نظر اسے قرآن کریم حفظ کروایا۔ سنت نبوی کی تعلیم دی اور اخلاق عالیہ کا خوگر بنایا۔ پھر جب میں نے اسے دمنہور کے مدرسہ المعلمین میں داخل کروایا تو وہ حیرت ناک طریقے سے سب پر سبقت لے گیا۔ وہ اپنے تمام تعلیمی مراحل میں سب بچوں سے آگے رہا۔ الحمد للہ اس کی پوری تربیت، ذوق عبادت،صالحیت اور زہد کے اعلیٰ معیار پر پوری اتری۔
جامعہ ازہر کے دار العلوم میں داخلے کے لیے پہلے چار سال کا ایک نصاب پڑھایا جاتا ہے۔اسے پڑھنے کے باوجود بہت سے لوگ داخلے کے انٹرویو میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ حسن نے اس چار سالہ تمہیدی پڑھائی کے بغیر ہی انٹرویو دیا اور کامیاب رہا۔ داخلے کے بعد وہ قاہرہ منتقل ہوا تو اتنے بڑے شہر میں اس کا نہ کوئی دوست تھا اور نہ کوئی عزیز۔ اس نے وہاں جاکر اپنا ابتدائی قیام جامعہ ازہر کی مسجد میں کیا۔ دار العلوم میں تعلیم مکمل ہوئی تو پہلی پوزیشن کا اعزاز پایا۔ وزارت معارف نے شان دار نتیجے پر اسے مزید تعلیم کے لیے یورپ بھیجنے کی پیش کش کی، لیکن اس نے انکار کردیا۔شاید اللہ تعالی نے اس کا انتخاب کسی کار جلیل کے لیے کیا ہوا تھا۔درایں اثناء اسماعیلیہ کے اسکول میں بطور مدرس اس کی تعیناتی ہوگئی، وہیں اس نے اپنی فکر کی آبیاری کی اور الاخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔
پھر میرے بیٹے کے افکار کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی۔ اس کی دعوت عالم اسلام کی چہار اطراف میں پھیل گئی۔ اس کے پیغام نے تمام اصحاب فکر و شعور کو متاثر کیا۔ اس کے مکتب فکر نے ازہر سمیت تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو ایک تنظیم کی لڑی میں پرودیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بیسویں صدی میں تجدید دین کی خدمت لی، اس کی فکر سے روشن چراغوں نے ہر جگہ، ہر گھر میں حق کا نور پھیلادیا، اللہ نے اس کے ذریعے اخوت کی شکستہ عمارت کو دوبارہ استوار کیا اور افراد و قبائل کو دوبارہ روحانی محبت سے سرشار کردیا: لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (الانفال۸: ۶۳) ’’تم روے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے‘‘۔ (مجلۃ الدعوۃ ، ۱۳ فروری ۱۹۵۱ء۔ مشمولہ: حسن البنا الداعیۃ الامام و المجدد الشہید، انور الجندی، ص ۱۵-۱۷)
آپ کے ہر جملے اور ہرعمل میں ہمارے لیے درس تھا۔ آپ نے ہمیں نظم و نسق، جہد ِمسلسل، وقت کی پابندی اوراس کی قدر وقیمت اور اسلامی اخلاقیات کی تعلیم دی۔ ان کے یہ ناقابلِ فراموش الفاظ آج تک میرے ذہن میں تازہ ہے:’’میں آپ کو علم ، ثقافت اور اخلاق کے میدان میں صرف برتر اور ماہر ہی نہیں، بلکہ دوسروں سے ممتاز اور ممتاز تردیکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔
آپ ہم میںسے کم و بیش ہر فرد کو پوری تفصیل کے ساتھ جانتے تھے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میرے بارے میں آپ کو یہ بات تک معلوم تھی کہ ہم دس بہن بھائی ہیں اور آپ کے علم میں یہ بھی تھا کہ میرے والد صاحب بڑے سخت مزاج ہیں، جو رات آٹھ بجے کے بعد اپنے بچوں کو گھر سے باہر رہنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ آٹھ بجنے سے پہلے ہی آپ مجھے بڑی شفقت سے متنبہ فرمایا کرتے تھے، تاکہ میرے والد صاحب مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ بڑے عمدہ اور صائب الرائے انسان تھے۔ چنانچہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ ہم طلبہ کے لیے دوران طالب علمی کون سی چیزیں لازمی ہیں۔آپ ٹوٹ کر ہم سے پیار کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں فزیکل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کا طالب علم تھا تو آپ نے مجھے بلایا اور مسافر طلبہ کے لیے ایک گھر کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری سونپی۔الحمدللہ آپ کی خواہش کے عین مطابق میں نے دو گھر کرائے پر حاصل کرکے اخوان کے مسافر طلبہ کے لیے قیام گاہ کا انتظام کیا۔ چنانچہ قاہرہ شہر میں یہ دارالاقامہ ہر لحاظ سے ایک مثالی تربیتی مرکز بن گیا، جس میں ہم، مقیم طلبہ کی تعلیم وتربیت اور ورزش وغیرہ کا باقاعدہ انتظام کیا کرتے تھے۔
اخوانی نوجوان رہایش کے لیے مناسب اور صاف ستھرا مکان پسند کیا کرتے تھے، تاکہ پڑھائی اور اسباق کی دہرائی میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔استاد حسن البناایک سیدھے سادے اور بے تکلف انسان تھے۔ آپ کا رعب اور ہیبت آپ سے دوری کا نہیں بلکہ آپ سے قرب و محبت کا باعث ہواکرتاتھا۔
جہاں تک خازن دار کے واقعے کا تعلق ہے، تو امام حسن البنانے اس قتل کی شدید مذمت کی تھی اور اس سے اخوان کی براء ت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اخوان کسی بھی قسم کے تشدد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ تبدیلی اور انقلاب کے لیے مضبوط اور واضح موقف کے ساتھ وہ حکومتی اداروں میں بڑی حد تک صلح آمیز تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔
نقراشی نے اخوان کو تحلیل کرکے اخوان کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتارکرلیا ، اس وقت اگر اخوان مزاحمت کرنا چاہتے تو بھرپور مزاحمت کرسکتے تھے‘ لیکن روز اوّل سے ہی تشدد اور قتل اخوان کا طریق کار نہیں ہے ، اور نہ اخوان ، حکومت کے خلاف بغاوت یا تختہ الٹنے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بلکہ جب اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ جہاد کے دوران حاصل کیا جانے والا اسلحہ ہمارے حوالے کردو تو بلاتأمل انھوںنے اپنااسلحہ حکومت کے سپرد کردیا۔ اس دوستانہ تعاون کے فوراً بعد حکومت نے مجاہدین کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔
l ۱۹۵۱ء میں جماعت نے دوبارہ منظم طریقے سے بلکہ پہلے سے کئی گنا بڑھ کر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ استاد حسن الہضیبی جماعت کے نئے مرشد عام منتخب ہوئے۔ اب مصربھرمیں اخوان کو ایک منظم قوت کے طور پر مانا جانے لگا اور مصر کے اطراف و اکناف میں اخوان کی شاخیں قائم ہوگئیں اور انھوں نے تربیتی ، علمی، ثقافتی،سیاسی ، سماجی غرض سارے میدانوں میں منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں بحال کردیں۔
انقلاب کی کامیابی میں پوری مصری قوم کی اس خواہش کو بنیادی اہمیت حاصل تھی، جو حکمران طبقے سے تنگ آکر کسی تبدیلی کی خواہش مند تھی۔ آغاز میں انقلابی قیادت اور اخوان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ بعد میں فوج نے متفقہ پروگرام کی دفعات کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا۔ چنانچہ اس وقت کے مرشدعام استاد حسن الہضیبی نے انقلابی کونسل کی توجہ ان چھے متفقہ نکات کی طرف مبذول کرائی، جس میں احترام آزادی ، دستور کی پاسداری ،اسلامی نظام کا نفاذ اور احترام آدمیت شامل تھے۔ لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، بلکہ اسی مطالبہ کو اخوان کے ساتھ اختلافات کی بنیاد بنا کر ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں اور بالآخر جنوری ۱۹۵۴ء کو وہ دن بھی آپہنچا جب ایک بار پھر اخوان کو کالعدم قرار دے دیاگیا۔ اخوان کے ہزاروں لوگوں کو مختلف جیلوں میں پابند سلاسل کر دیاگیا۔یہ حالت زیادہ دیر تک نہ رہی۔ جلد ہی انقلابی کونسل کی قیادت اختلافات کا شکار ہوگئی اورجنرل نجیب کو معزول کردیا گیا۔بعد ازاںشاہ سعود کی وساطت سے اخوان اور انقلابی کونسل کے درمیان کسی حد تک ایک مفاہمت ہوگئی اور مارچ ۱۹۵۴ء سے اخوان نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ لیکن چند دن گزر ے تھے کہ اسکندریہ کے قریب منشیہ نامی جگہ پر عبدالناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کو اخوان کے سرتھوپاگیا۔ ایک بار پھر اخوان کے ہزاروں لوگ جیلوں میں بند کردیے گئے، ان پر فوجی اور سول عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، جس کے نتیجے میں اخوان کی چھے عظیم شخصیات ،عبدالقادر عودہ ، محمد فرغلی ،ابراہیم طیب ، یوسف طلعت ، محمود عبداللطیف اور ہنداودی دویر کو تختہ دار پر لٹکا دیاگیا، انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون!
جب مصر کا سفر [۱۹۵۱ء] پیش آیا،تو مجھے اس کی شدید خواہش تھی کہ اخوان کی تحریک کا مطالعہ کروں ،اور اس کے متعلق براہ راست معلومات حاصل کروں ۔شیخ [حسن البنا شہیدؒ] کے پرانے رفیقوں،ان کے معتمد ین اور ان کے تربیت یافتہ نوجوانوں سے ملاقات کروں اور اس عظیم الشان دعوت کی کامیابی کے اسباب معلوم کروں ۔ ۱۹۴۹ء میں شیخ کی شہادت کا واقعہ پیش آچکا تھا،لیکن میری خوش قسمتی سے اس وقت شیخ کے تمام پرانے رفقا و شرکا اور ان کے تلامذہ و حلقۂ احباب کے خواص موجود تھے ۔میری عربی تصنیف ماذا خسر العالم بانحاط المسلمین جو میرے سفر مصر سے چند ہی مہینے قبل شائع ہوئی تھی، اخوان کے حلقے میں کثرت سے پڑھی گئی تھی اور اخوان نے اپنی روایتی فراخ دلی اور بے تعصبی سے اس کو اپنے مخصوص تبلیغی لٹریچر میں جگہ دی تھی ۔یہ کتاب میرا ذریعۂ تعارف تھی۔پھر ہندی مسلمان ہونا اور ایک معروف ادارے سے تعلق رکھنا اخوان کے لیے (جو عالم اسلام کی وحدت اور تعارف و تعاون کے سب سے بڑے داعی ہیں) کافی وجہ کشش تھی۔
جہاں تک شیخ کے متعلق تاریخی وشخصی معلومات کا تعلق تھا‘ اس کے لیے سب سے مستند اور قابلِ اعتماد ذریعہ ان کے والد محترم شیخ احمد عبد الرحمن البنا کی ذات تھی،جنھوں نے ازراہ شفقتِ بزرگانہ اپنے قابل فخر و ذریعۂ نجات فرزند کے متعلق تمام ضروری و جزوی معلومات فراہم کیں۔ ان کے علاوہ شیخ کے رفیق درس وشریک کار اور اخوان کے مربی استاد بہی الخولی نے بحیثیت ایک دوست، رفیق، مشاہد و معاصر کے اپنے مشاہدات معلومات اور تاثرات سنائے۔ ان دونوں بزرگوں کے علاوہ ان چند نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی، جو شیخ کے معتمد خاص اور دست راست رہ چکے تھے۔ ان اصحاب سے شیخ کی زندگی اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے متعلق مستند معلومات حاصل ہوئیں اور ایسا محسوس ہوا کہ ان حضرات سے ملنے کے بعد شیخ کی زیارت سے کلی طور پر محرومی نہیں رہی۔
ان اصحاب سے جو کچھ سنا اور خود شیخ [حسن البنا]کے جو اثرات دیکھے، اس سے اس بات کا یقین پیدا ہوا کہ ان کی شخصیت تاریخ کی ان غیر معمولی شخصیتوں میں سے تھی جن کو اللہ تعالیٰ کسی تحریک و دعوت کو چلانے اور کسی عہد میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے پیدا فرماتا ہے اور اس کو قیاد ت کی وسیع اور متنوع صلاحیتیں عطافرماتا ہے۔وسیع وروشن دماغ، گرم و پُرمحبت ودردمند دل،فصیح و بلیغ زبان، تسخیرکر لینے والے اخلاق، دلآویز شخصیت، یہ ان کے عناصرترکیبی تھے۔میں جب اقبال کا یہ شعر پڑھتا ہوںتو بے ساختہ شیخ حسن البنا کی شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے انھی کو دیکھ کر کہا ہے ؎
نگاہ بلند ،سخن دل نو از، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
بدقسمتی سے جس زمانے میں میرا قیام مصرمیں تھا، اخوان کی تحریک خلاف قانون تھی اور ان کے اجتماعات نہیں ہوسکتے تھے۔لیکن اس اعتماد کی بنا پر جو ان کے ذمہ داروں کو میری ذات پر پیدا ہوگیا تھا، مجھے ان کی مخصوص مجلسوںمیں شرکت کی عزت حاصل ہوئی۔مجھے ان کے حالات و خیالات سننے اور اپنے ناچیز خیالات پیش کرنے کا موقع ملا۔ ایک مخصوص مجلس میں جس میں اخوان کی مجلس انتظامی(مکتب الارشاد) کے ارکان اوردل ودماغ شریک تھے،مجھے منضبط طور پر اپنے خیالات اور تجربات پیش کرنے کا موقع ملا۔اخوان نے ان کی جس درجہ پذیرائی کی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کو علیحدہ رسالے کی شکل میں شائع کیا اور جب تک اخوان کی تحریک دوبارہ خلافِ قانون قرار نہیں دی گئی، اس کے تین اڈیشن شائع ہوئے۔ اس رسالے کا نام ہے: ارید ان اتحدث الی الاخوان٭(اخوان سے دو دو باتیں)۔ مجھے کسی دینی و سیاسی جماعت کے متعلق اتنی فراخ دلی اور عالی ظرفی کا تجربہ نہیں ہوسکا۔
اسی زمانۂ قیام میںمجھے شیخ محمد الغزالی کی معیت میں (جو اخوانی لٹریچر کے سب سے بڑے مصنف ہیں) مصر کے قصبات اور دیہاتوں میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ اخوان کے دینی جوش و خروش ،مہمان نوازی اور اسلام دوستی، محبت و اخلاص اور بے تعصبی و وسیع النظری کے ایسے مناظر دیکھے، جو ساری عمر یاد رہیں گے، اور جن سے شیخ حسن البنا کی تربیت و تاثیر اور ان کی مردم گری، اور سیرت سازی کا اندازہ ہوا، اور معلوم ہوا کہ اس شعلۂ جوالہ نے کتنی ایمانی حرارت پیدا کردی ہے ۔اس تحریک کے مطالعے اور جو لوگ اس سے متعلق تھے، ان کو قریب سے دیکھنے کے بعد، میں خاص طور پر جن پہلوؤں سے متاثر ہوا وہ حسب ذیل ہیں:
۱- اس تحریک نے ایک ایسی قوم اور سوسائٹی میں جو مغربی تہذیب اور تمدنِ جدید کی خرابیوں سے پورے طور پر متاثر ہوچکی تھی اوراس سے پہلے ترکی سلطنت اور شخصی حکومت کے اثرات سے متاثر رہ کر ’طبقۂ متر فین‘ میں شامل ہوچکی تھی،ایسی قوت عمل ،جذبۂ سرفروشی،سادگی و جفاکشی پیدا کردی، جس کی نظیر اس زمانے میں ملنی مشکل ہے اور خود اس کے ایک رہنما اور قائد (شیخ بہی الخولی) کے الفاظ میں ایک نرم و نازک قوم الشعب الرخو الرقیقمیں اس نے ایک نئی زندگی پیدا کردی، اور گویا اقبال کے اس تخیل اورتمنا کو پورا کیا ع کبوتر کے تن نازک میںشاہیں کا جگر پیدا
ان کی اس قوت عمل ،جذبۂ سرفروشی اور عقابی شان دیکھنے کے لیے استاد کامل الشریف کی کتاب الاخوان المسلمون فی حرب فلسطین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
۲- دوسری چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ اخوان کی محبت و گرم جوشی اور ان کے آپس کے تعلقات ہیں۔ اتنا مستحکم رشتہ ء اخلاق و مودت اور احساس اخوت ورفاقت میں نے کم دعوتوں اور جماعتوں میں دیکھا ہے۔ اخوان کی تحریک نے ایک ایسی عالم گیربرادری پیدا کردی ،جس کا ہر فرد دوسرے فرد کو اپناحقیقی بھائی سمجھتا ہے اور بغیر کسی جماعتی عصبیت وحمیت جاہلیہ کے، اس کی مدداور حمایت کے لیے تیار رہتا ہے۔ کسی مصری اخبار نے ایک مرتبہ طنز کے طور پر لکھاتھا (اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انتہائی اعتراف ہے) کہ اگر شیخ حسن البنا کو اسکندریہ میں چھینک آجائے تو اسوان (مصر کی جنوبی سرحد) میں یرحمک اللّٰہ کی صدائیںبلندہوں۔ نہ صرف اپنے مرشدعام بلکہ ہر رفیق جماعت کے لیے ان کا یہی جذبہ اورطرزعمل ہے۔ وہ عام طور پر ایک دوسرے سے تعارف انھی الفاظ میں کراتے ہیں: اخوک فی اللّٰہ فلان۔ ان کے طرز عمل اور سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس اخوت فی اللّٰہ پر عقیدہ رکھتے ہیںاور اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔
۳- تیسرا پہلو جس نے مجھے بہت متاثر کیا یہ ہے کہ اس تحریک کا زندگی سے قریبی تعلق ہے۔ وہ زندگی سے بچ کر نہیں نکلتی بلکہ اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے،عوام سے اور عملی زندگی سے اس کا تعلق ہے۔ اس نے عوام کی زندگی میںدخل دیاہے،اس کی خرابیوںکی اصلاح کی ہے اورقدم قدم پراس کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی کامیابی، مقبولیت اور تاثیر میں اس کو بڑا دخل ہے ۔
۴- اس کا چوتھاروشن پہلو یہ ہے کہ اس نے دینی و علمی اختلافات سے بچ کر اپنا کام کیا ۔یہ چیز اس کے کمزور پہلوؤں میں بھی شمار کی جاسکتی ہے، مگر عالم اسلام کے موجودہ دینی و اخلاقی زوال، الحادوزندقہ کے حملے اور مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو پیش نظر رکھاجائے تو یہ ایک اسلامی دعوت کے لیے خوش قسمتی سمجھی جائے گی کہ وہ اپنا وقت اور قوت خالص اصلاحی و تعمیری کام اور اساسی دعوت کے فروغ میں لگائے۔
۵- اخوان کی تحریک کا سب سے کامیاب اور روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے مصر (اور اس کی پیروی میںممالک عربیہ)کے بڑھتے ہوئے الحاد و لادینیت کے دھارے کو روکااور دین کے استخفاف و بے وقعتی اور ذہنی ارتدادوبغاوت کا جو رجحان روز افزوں تھااس پر اثر انداز ہوئی ۔جو لوگ مصر کی صحافت وادب سے واقف ہیں،وہ خوب جانتے ہیںکہ اس ملک میں دین کے خلاف ایک منظم سازش اور کوشش تھی۔ مصر کے ادیبوں اور صحافیوں ،مصنفین اور باحثین، سب نے دین کے خلاف ایک محاذ بنا رکھاتھااور انقلاب فرانس کے علم برداروں کی طرح وہ پوری مصری اسلامی سوسائٹی کو اپنے ’ترقی پسند‘ادب، اپنے’شک آفریں خیالات وتحقیقات‘اپنے طنز و تمسخر سے ڈائنامیٹ کررہے تھے اور یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا (الانعام ۶:۱۱۲) کے مصداق تھے۔ اس متحدہ محاذ کے خلاف کسی دینی جماعت ،حتیٰ کہ ازہر تک میںآواز بلند کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ تھی۔ اخوان کے مخالفین کو بھی اعتراف ہے کہ اخوان کی تحریک نے اس مورچے کو کمزور اور خوف زدہ کردیا۔ الحاد کی علانیہ دعوت دینے اور دین کے استخفاف کی جرأت بڑے بڑے زعماے ادب کو نہ رہی ،اخوان نے غیور نوجوانوں اور صاحب حمیت مسلمانوں کا ایک ایسا لشکر پیدا کر دیا کہ ملحدین کو اپنے ملحدانہ خیالات اور تصنیفات کی اشاعت ،اور اخبارات و رسائل کو دین و اسلامی تہذیب کے ساتھ تمسخر واستہزا کی جسارت باقی نہ رہی۔ پھر اس کے ساتھ اس نے اسلام پسند ادیبوں،ناقدین اور اہل قلم اور ماہرین فن کی ایسی جماعت پیدا کی جو علمی و فنی طور پر، ان ملاحدہ کا مقابلہ کرسکیںاور اسلامی ادب کو پیش کریں۔
اخوان کا یہ کارنامہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ کوئی شخص جس کے دل میں نور ایمان ہے اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔راقم کے سامنے چونکہ ان ممالک کی سابقہ زندگی ،اور موجودہ دینی و فکری انقلاب ہے اور اس کو اپنے طویل قیام کی بنا پر اس کا مشاہدہ و تجربہ ہو چکا ہے کہ اخوان نے جدید نسل کے دل و دماغ کو کس طرح متاثر کیاہے اور دین و شعائر دین کے اظہار واعلان کی کیسی جرأت پیدا کردی ہے، اور جو لوگ دینی عقائد و حقائق کے اظہار میں شرمندگی اورحقارت محسوس کرتے تھے اب کس طرح علانیہ منظر عام پر دینی فرائض و شعائر کو ادا کرتے ہیں، اور احساس کہتری کے بجاے برتری کااحساس رکھتے ہیں۔ ان ذاتی مشاہدات وتجربات کا نتیجہ تھاکہ ہندوستان میں میری زبان سے ایک تقریر میں اخوان کے متعلق بے ساختہ یہ لفظ نکل گئے کہ: لایحبھم الا مؤمن ولا یبغضھم الا منافق (اخوان سے اسی کو محبت ہوگی جس کے دل میں ایمان ہے،اور اسی کو نفرت ہوگی جس کے دل میں نفاق ہے)۔
تاریخ اسلام میں جن جرائم اور سفاکیوں نے ملت اسلامیہ کو عظیم ترین نقصان پہنچایا ،اور تاریخ کا دھارا بدل دیا، ان میں ایک شیخ حسن البنا کا مجرمانہ قتل ہے، جس نے کم سے کم مشرق وسطیٰ کو ایک مفید ترین شخصیت سے محروم اور صالح دینی انقلاب سے عرصے تک کے لیے بہت دور کردیا۔
اگر اخوان کچھ عرصہ اور عملی سیاست میں حصہ نہ لیتے اور اپنا اصلاحی و دعوتی کام پوری قوت سے جاری رکھتے تو ممالک عربیہ میں ایک اسلامی انقلاب برپا ہوجاتااور ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی۔ (کاروانِ زندگی ، جلد اوّل، ص ۳۷۶-۳۸۲)
بعض اتفاقیہ و اقعات یوں لگتے ہیں کہ جیسے وہ ایک محکم تدبیر کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہوں، جیسے وہ کتابِ مسطور اور صفحاتِ تقدیر پر ازل سے ثبت ہوں ___حسن ’البنا‘ اتفاق ہی ہے۔ ان کا لقب ’البنا‘ یعنی معمار تھا لیکن کون کہتاہے کہ یہ ایک اتفاق ہے۔ اس انسان کے حوالے سے یہ لقب ایک عظیم حقیقت ہے۔ تعمیر بلکہ شان دار اور عدیم المثال تعمیر اس شخصیت کا اصل عنوان ہے۔
تاریخ اسلام نے لا تعداد داعی دیکھے ہیں لیکن دعوت وتشہیر ایک چیز ہے اور تعمیر بالکل دوسری۔ ہر داعی معمار نہیں ہوسکتا اور ہر معمار بھی یہ عبقریت اور عظمت نہیں پا سکتا۔ یہ عظیم الشان عمارت جسے ’اخوان المسلمون ‘ کہتے ہیں اسی تعمیر و عبقریت کا ایک مظہر ہے۔ یہ لوگ محض کوئی ایساگروہ نہیں ہیں ، کہ خطیب نے ان کے جذبات کو گرمادیا ہو، ان کے احساسات بیدار کردیے ہوں اور وہ کسی سطحی سوچ کے تحت کسی عارضی ہدف کے گرد جمع ہوگئے ہوں۔ اخوان وہ عمارت ہیں کہ تعمیر کی خوبی و استحکام اس کے ایک ایک زاویے سے اجاگر ہوتی ہے۔ اسرہ جات ، شعبہ جات ،علاقہ جات، تنظیمی مراکز ، تاسیسی مجلس اور مکتب ارشاد، ہر خشت اپنی مثال آپ ہے۔
یہ تو ہوئی اس کی ظاہری شکل و صورت لیکن معمارکی اصل عبقریت صرف ظاہری شکل سے نہیں،جماعت کے داخلی نظام اور فکرکی ہمہ گیریت سے اجاگر ہوتی ہے۔ پورا نظامِ کامل نہایت باریک بینی اور محکم انداز سے تشکیل دیا گیا ہے۔ تنظیم وترقی کا اصل شکوہ اس کی روحانی تعمیر سے واضح ہوتا ہے ، جس میں اسرہ جات ، کتیبوں اور شعبہ جات کے افراد باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اکٹھا مطالعہ کرنا ، مشترکہ نماز وعبادات ، مشترکہ احساسات ، مشترکہ ہدایات ، مشترکہ سفر ، مشترکہ تربیت گاہیں اور پھر بالآخر مشترکہ اطاعت اوریکساں سوچ، اس سب کچھ نے دین کی خاطر برپا اس جماعت کو، دلوں میں پرورش پانے والے ایسے عقیدے اور ایمان کی صورت دے دی ہے، جو احکام و تعلیمات اور تنظیمی ضوابط سے پہلے ہی نفوس کو متحرک کردیتا ہے۔
حسن البنا کی عبقریت اپنے ساتھیوں کی انفرادی اور اجتماعی توانائیوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے سے ظاہر ہوتی تھی۔ انھیں ایسی مسلسل و مفید سرگرمیوں میں کھپادینے میں تھی کہ جن کے بعد وہ اوقات کو فارغ جان کر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں نہ مارتے پھریں۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ صرف لوگوں کے دینی احساسات و جذبات ابھار دینا کافی نہیں ہوتا۔ اگر ایک داعی اپنی ساری سرگرمی اسی ایک نکتے پر مرتکز کردے، تو وہ نوجوانوں کو مخصوص دینی ہوس کا شکار تو کردیتا ہے، لیکن کسی تعمیری سرگرمی میں نہیں کھپاتا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عقیدے کی علمی تاویلات کا مطالعہ کافی نہیں ہوتا۔ اگر داعی صرف انھی میںکھو جائے تو وہ بالآخر تمام روحانی سرچشموں کو خشک کردینے کا ذریعہ بنتاہے۔ وہ اس روحانیت سے محروم رہتا ہے ، جو علمی مطالعے کو حرارت وگداز اور زرخیزی عطا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ صرف وجدان کو اپیل کرنا اور مطالعے کا اہتمام کرنا بھی توانائیوں کا پورا استعمال نہیں ہے۔ عمل کی طاقت، جسمانی توانائی، اکتساب و عطا ، قتال و انفاق___ غرض کتنے پہلو ہیں جو اُدھورے اور تشنہ ٔ تکمیل رہیں گے۔
انھوں نے ان تمام پہلوئوں پر سوچ بچار کی ،یا یوں کہیے کہ انھیں ان تمام پہلوئوں کے احاطے کی توفیق نصیب ہوئی۔ انھوں نے جماعتی دائرے میں شامل ہونے والے ہر مسلمان بھائی کو ان تمام میدانوں میں متحرک کردیا۔ یہ سب جماعتی نظام کی برکات تھیں۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی تمام فطری توانائیوں کو تعمیر وعمل میں کھپا دیا۔ کتیبہ جات ، تربیت گاہیں ، اخوانی تنظیمیں اور کمپنیاں، داعیوں کا نظام ، جہاد اور شہادتی کارروائیوں کے لیے افراد کی تیاری (تاکہ وہ جہاد فلسطین میں عملاً شریک ہوسکیں )۔ غرض ہر پہلو اس نظام کے عظیم و بے مثال ہونے کا عملی ثبوت تھا۔
حسن البنا کی عبقریت کا ایک اور پہلو مختلف النوع شخصیات و نفوس کو اکٹھا کرلینے میں نمایاںہوتا ہے۔ یہ قدسی نفوس مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ مختلف معاشرتی پس منظر رکھتے تھے ، مختلف ذہنی استعداد کے مالک تھے، لیکن سب ایک ہی متناسب لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ یوں جیسے مختلف نغماتی صدائوں سے ایک خوب صورت دھن ترتیب پا جائے ،سب کی ایک ہی پہچان ، سب کا ایک ہی رجحان۔ چوتھائی صدی کے اندر اندر یہ سب مختلف الخیال ،مختلف الاعمارافراد ایک اکائی کی حیثیت اختیار کرگئے۔
اس پورے تناظر میں جائزہ لیں کہ ’البنا‘یعنی معمار کا لقب ایک اتفاقی امر تھا یا یہ کہ یہ سب اس بلند و اعلیٰ امر الٰہی کا پر تو تھا ، جس کی کتابِ مسطور میں،سب کچھ ایک لا متناہی جمال و ترتیب سے لکھا ہوا ہے، خواہ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ اتفاقی امر ہو یا تقدیر کے اعلیٰ ترین مراتب۔
یہ جدوجہداپنے عروج پہ تھی کہ حسن البنا اپنے رب کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔ رب کے حضور حاضری سے انھوں نے اپنی عمارت کی بنیادیں مزیدمستحکم و محفوظ کردیں۔ اللہ نے ان کی شہادت اس طور چاہی کہ عظیم ارادۂ الٰہی کی تکمیل ہوجائے۔ ان کی شہادت تعمیر ہی کا ایک مرحلہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سے عمارت کی بنیادیں مزیدگہری ہوگئیں ، در و دیوار مزید مضبوط ہوئے۔ شہید کے ہزاروں خطاب اور ہزاروں کتابیں بھی اخوان کے دلوں میں تحریک ودعوت کے وہ الائو روشن نہیں کرسکتے تھے جوان کے پاکیزہ خون سے منور ہونے والے چراغوں نے دہکا دیے تھے۔ ان کی بات سچ ثابت ہوئی کہ ہماری باتیں موم سے بنے مجسمے ہیں، یہاں تک کہ جب ہم ان کی خاطر اپنی جان سے گزر جاتے ہیں تو ان میں روح دوڑنے لگتی ہے اور ان کے لیے حیات جاودانی لکھ دی جاتی ہے۔
جب بونے ڈکٹیٹر حکمرانوں نے اخوان کو آہن و آتش سے کچلنا چاہا، تب تک وقت بیت چکاتھا۔ تب حسن البنا کے ہاتھوں اٹھائی گئی بنیادیں منہدم کرنا، کسی کے لیے ممکن نہ رہاتھا۔ اخوان کے شجر طیب کی جڑیں اکھاڑنا کسی کے بس میں نہ رہا تھا۔ اخوان ایک ایسے نظریے اور فکر کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ جبراور آہن و آتش کی یلغار، کبھی افکار و نظریات کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔حسن البنا کی عبقریت سربلند رہی۔ بونے جابر مٹ گئے، اخوان کو دوام نصیب ہوا۔اگرچہ کئی بار ایسا ضرور ہوا، کہ بعض کمزور نفوس و سوسوں کا شکار ہوگئے ،لیکن یہ نفوس خود کوبیمار رکھنے پر مصر تھے لہٰذا ناکام ہوئے۔ وہ یا توسرسبز شجر عظیم سے ،خشک پتوں کی طرح جھڑ گئے، یا بالآخر ان کی بیمار سوچ خود ہی سمٹ کر رہ گئی اور منظم و متحرک صفوں میں کوئی خلل نہ آسکا۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دشمنان اخوان نے شجر عظیم کی کسی ایک شاخ کو یہ گمان کرتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا کہ یہی شاخ اصل شجر ہے، اگر اسے کاٹنے یا اکھاڑنے میں کامیاب ہوگئے تو پورا درخت کٹ جائے گایا اکھڑ جائے گا۔ لیکن جب شاخ پر دبائو عروج پر پہنچا تو وہ کسی ایسی خشک لکڑی کی طرح دشمنوں کے ہاتھ آگئی، جس کے ساتھ نہ کوئی پتا تھا نہ اس میں کوئی تازگی تھی، نہ ثمر اور نہ رونق حیات___ یہی ’معمار‘کی عبقریت تھی جو اس کے اٹھ جانے کے بعد بھی فیض دے رہی تھی۔
آج بھی اخوان کو وہ تمام آزمایشیں گھیرے ہوئے ہیں جو ماضی میں گھیرے ہوئے تھیں۔ لیکن آج وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ، پہلے سے زیادہ مستحکم اور پہلے سے زیادہ منظم ہیں۔ آج وہ دلوں میں راسخ ایک نظریہ بھی ہیں، تاریخ کا ایک سنہرا باب بھی،روشن مستقبل کے امین بھی ہیں اور ایک طرزِزندگی بھی، اور اس سب کچھ سے زیادہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہیں کہ جسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ وہ شہدا کا خون ہیں کہ جسے کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔
جو بھی اس عمارت کے بارے میں بری نیت رکھتاہے ، وہ یاد رکھے کہ اس سے پہلے ان کے پیش رو شاہ فاروق کی سرکشی جسے برطانیہ وامریکاکی ہلہ شیری بھی حاصل تھی، طغیانی اس عمارت کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ سے نہیں اکھاڑ سکی۔ اس میں کوئی دراڑ نہیں ڈال سکی۔ مستقبل بھی اسی عقیدے و نظریے کا ہوگا جس پر اخوان کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ نصرت اسی معاشرتی نظام کی حلیف ہوگی جو اس راسخ عقیدے سے پھوٹتا ہے۔ آج ہر مسلم سرزمین سے اسی ایک پرچمِ بلند تلے جمع ہونے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، جسے کبھی استعمار نے چاک چاک کردیاتھا۔ استعمار چاہتاتھا کہ اس طرح وطن اسلامی کے ٹکڑے ٹکڑے کردے ۔آج اس مجروح جسم کے تمام زخم مندمل ہونے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اب اس جسم کو ایک زندہ و بیدار و توانا وجود نصیب ہونا ہے اور پھر قباے استعمار کو تار تار کرنا ہے۔
وجود و ہستی کا فطری تقاضا ہے کہ اس سلیم فطرت اورعظیم عقیدے کو نصرت نصیب ہو ، تقسیم و انتشار کا دور گزر چکا۔ اگر اسلامی تحریک اس تاریک دور میں فنا کے گھاٹ نہیں اتاری جاسکی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج بیداری ، انتفاضے اور احیاے اسلام کے دور میں اسے فنا کیاجاسکے۔ آج اسلامی فکراور اخوان المسلمون کا وجود یک جان دوقالب کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ جس طرح تاریخ ان دونوں کو جدانہیں کرسکتی، اسی طرح آج یا آنے والے کل میں بھی کوئی ان دونوں کو الگ نہیں کرسکتا۔
ماضی میں استعمار نے امت پر ایسے خواب آورنسخے آزمائے جنھیں دین سے منسوب کیاگیاتھا۔ اس ضمن میں اس نے کبھی تو اہل تصوف کو استعمال کیا اور کبھی جامعہ الازہر کو۔ لیکن آج یہ سب کچھ ممکن نہیں رہا۔ اخوان کی مضبوط عمارت فکر اسلامی کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے ___آج کسی اور ادارے یا فرد کے ذریعے اسلامی سوچ کو دھندلایا نہیں جاسکتا۔ آج ازہر بھی طویل اسیری کے بعد استعماری گرفت سے آزاد ہو رہا ہے اور اس کے طلبہ و اساتذہ بھی بڑی تعداد میں اخوان میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک فطر ی عمل ہے اسے یوں ہی ہونا تھا:
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (المجادلہ ۵۸:۲۱)
اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا کہ یقینا میں اور میرے رسول ؐ ہی غالب رہیں گے ، بے شک اللہ قوی و غالب ہے۔
۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البنا خون میں لت پت اپنے رب کریم سے جا ملے۔ آپ نے اقامت دین کے راستے میں حائل بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
آپ نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی صحیح تصویر جاگزیں کرنے ، ان کے دلوں میں اسے راسخ کرنے، عملی زندگی میںانھیں اسلام کے تابع فرمان بنانے، اور اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حسن البنا نے جن بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے شہادت کا مرتبہ پایا ، ان میں سے سرفہرست عصر حاضر کے وہ بت ہیںکہ جنھیں لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ اور وہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دولت و اقتدار کے کروفر رسوم و رواج کے چنگل یا مذہبی فریب کاری سے متاثر ان بتوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں۔ یہی بت ہیں جن کی جانب ہر سمت سے لوگ بھاگے آتے ہیں ،اور ہر جگہ انھی بتوں کے گرد لوگ دیوانہ وار چکر کاٹتے ہیں۔ ان کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح ان سے جا ملیں یا ان کا قرب حاصل کرلیں۔ ایسے کم ظرف لوگ اپنے ازلی و ابدی رب کی نافرمانی کرتے ہیں اور وقتی‘ عارضی اور بودے جھوٹے خدائوں کی رضا جوئی چاہتے ہیں۔
عصر حاضر کے یہ بت ،قدیم زمانے کے پتھرا ور لکڑی وغیرہ کے بت نہیں ہیں، جن کی آغوش میں انسان پناہ لیتے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے انھیں پوجتے تھے۔ یہ مجسم چلتے پھرتے انسانی بت ہیں، جن میں مریض روحیں سرایت کرچکی ہیں، جنھیں خواہشات نے غلام بنا رکھا ہے اور جنسی اور مالی ہوس ناکی نے انھیں توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسی روحیں جن پر بد ترین افکار اور حقیر خواہشات غالب ہیں۔ ایسی روحیں جو مال و جاہ پر فریفتہ ہیں اور خدا کے عطا کردہ جاہ و جلال سے بے پروا ہیں۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو فراموش کرچکے ہیں اور جنھوں نے اس کے نازل کردہ احکامات کا انکارکر رکھا ہے،یہ خود بھی بدبخت ہیں اور انھوں نے دوسروں کو بھی بد بخت بنارکھاہے۔ وہ نہ صرف خود گمراہی و ہلاکت میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ، اپنے پیروکاروں کو بھی لے ڈوبے ہیں۔
حسن البنا نے نہ تو کوئی جنگ چھیڑی تھی اور نہ وہ بغاوت کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ ایک نہتے انسان تھے۔ ان کے پاس حق کا ہتھیار ضرورتھا، لیکن یہ ان کی سرشت میں نہ تھا کہ وہ لوگوں پر چڑھ دوڑیں، وہ حکیمانہ اور بھلے انداز سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے ، اور لوگوں کو ایسے بھلائی کے کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے جن میں سراسر ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی اور ان کے لیے خوش بختی کا سامان ہو۔
حسن البنا نے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ اسلام طاقت و قوت اور عزت و شوکت کا نام ہے، جب کہ لوگوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اسلام کمزوری ، غلامی اور خودسپردگی کا نام ہے۔ انھوں نے لوگوںپر واضح کر دیا کہ اسلام ،انصاف ، پاکیزگی ، آزادی ، مساوات اور برابری کا دین ہے۔ جس وقت مسلمان مظالم ، تکالیف اور ایذا رسانی کے سبب کراہ رہے تھے اور گناہوں میں ڈوب چکے تھے ، ان کی آزادی سلب اور حکومت ختم ہوچکی تھی اور انھوں نے آپس ہی میں ایک دوسرے پر چڑھائی کررکھی تھی۔ ان کے طاقت وروں نے کمزوروں کو ذلیل و رسوا کرکے چھوڑاتھا اور ان کے حاکموں نے رعایا کو دبا رکھاتھا....... امام حسن البنا نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اسلام ہی ان کے درمیان وحدت اور ان کے ممالک کے لیے اتحاد کا سبب ہے، اسلام ہی مومنوں کے درمیان بھائی چارے کا باعث اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون و یک جہتی کا وسیلہ ہے۔اسلام نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرنے، اور یک جا ہو کر خیر کے پھیلانے اور شر و فساد کو ختم کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ حسن البنا ایک طویل جدوجہد اور اَن تھک محنت کے بعد کامیاب ہوں۔ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے ، ان کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی یہ دعوت اطراف و اکناف میں پھیل گئی۔ مختلف علاقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے مردوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ گویا وہ نئے جو ش و ولولے سے دائرۂ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور قرآن کے جھنڈے تلے صف آرا ہوگئے ہیں۔ وہ سب یک زبان تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی غرض و غایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کے لیڈر اور رہنما ہیں، قرآن کریم ہی ان کا دستورِ حیات ہے، جہاد ان کا راستہ ہے اور اللہ کی راہ میں موت ان کی منتہاے آرزو ہے۔
جب یہ دعوت مسلم دنیا میں پھیلی اور اس کی روشنیاں ہرسُو جگ مگانے لگیں تو ظالموں کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ ان کے مظالم کی طویل رات کے زوال کا وقت آگیا ہے۔ سامراجی قوتوں نے محسوس کیا کہ ان کے شکار ان کے ہاتھ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ظلمتوں کے پجاری چمگادڑوں نے جان لیا کہ اسلام کی روشنی میں ان کے لیے زندہ رہنا دشوار ہوگا، تو انھوں نے اپنے تئیں سمجھا کہ اس دعوت کے داعی کے قتل کے ساتھ ہی اس دعوت کابھی خاتمہ ہوجائے گا۔اسی لیے انھوں نے دھوکے اوربہانے سے امام حسن البنا کو قتل کردیا۔ آپ رحمہ اللہ توخوشی خوشی اپنے رب کریم سے جاملے، تاکہ اس کے ہاں انبیا و صدیقین کے ساتھ جگہ پالیں۔ جہاں تک تعلق ہے انھیں دھوکے سے شہید کرنے والوں کا تو انھوں نے یہ مکروہ اور قبیح حرکت کرکے اللہ تعالیٰ کا غضب مول لیا اور اس کی لعنت اور دنیا و آخرت کی رسوائی حاصل کی۔
حسن البنا، شہید اسلام ہیں، جنھوں نے اذہان میں اسلام کی تجدید کی، قلوب میں اسے زندہ کیا، مسلمانوں کے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکی، انھیں خواب غفلت سے بیدار کیا اور انھیں اپنی آزادی اور ناموس دین و ملت کی حفاظت کے لیے ابھارا۔
امام حسن البنا کوجن ظالموں نے قتل کیا وہ سراسر خسارے میں رہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی ذات کو ختم کرکے شاید انھوں نے ان کی دعوت کو بھی ختم کردیا، حالانکہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ وہ کوئی چند اشخاص کی دعوت نہیں ہے بلکہ اللہ کی پکار ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سمجھادیاہے کہ دعوت کا تعلق اس ذات وحدہٗ لاشریک سے ہے ، دعوت دینے والوں کی ذات سے نہیں ہے۔ اشخاص کا اس سلسلے میں بس اتنا ہی حصہ ہے کہ جس کسی نے اس دعوت کے لیے کوشش کی اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کے سبب اسے عزت دی، اور جس نے اس دعوت کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھلائی سے دور کردیا،پھر وہ کسی حال میں دعوت کی اس نعمت تک نہیں پہنچتا۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے ان کی دعوت کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا ، تو پھر حسن البنا کے دنیا سے چلے جانے سے اس دعوت کو کیسے نقصان ٖپہنچ سکتا ہے۔ لیکن ظالموں کو اس کی سمجھ کیوںکر آئے گی۔
میں جس چیز کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل میں دعوت اسلام ، کسی شخص کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دعوت ہے۔ گویا بھلائی ، سعادت مندی اور انسانی اصلاح کے لیے تو یہ ایک روشنی ہے۔ ایسی روشنی جسے اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف اتارا ہے، تاکہ جہالت اور ظلم کے اندھیروں کو پاش پاش کردے اور کرۂ ارضی کو ظلم و فساد سے پاک کردے۔ دوسری طرف زمین میں پھیلے طاغوت اور اس کے آلہ کار ہر جگہ ، ہر زمانے میں اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اس دعوت کو نیچا دکھائیں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی پھیلائی ہوئی روشنی کو بجھا دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بہرصورت روشنی کو مکمل کرکے رہے گا ، اور اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے گا۔ چاہے ظالم طاغوت ،اوراستعماری سامراج ہرگز نہ چاہیں اور چاہے وہ سب مل کر ایک د وسرے کی پشت پناہی کرتے رہیں: ’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیںتو کیا وہ اگر انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پائوں پھر جائو گے، اور جو الٹے پائوں پھرے گا اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو صلہ دے گا‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۴)
بے شک اخوان المسلمون کے محترم اور محبوب قائد حسن البنا کو قتل کردیا گیا، ان کے ساتھیوں میں سے بھی کئی قتل ہوئے،بہت سے ستائے گئے، آزمائے گئے اور انھیں ان کے گھروالوں کو مال اور مستقبل کے حوالے سے آزمایش میں ڈالا گیا، لیکن یہ سب کچھ انھیں اللہ تعالیٰ کی دعوت سے نہ پھیر سکا بلکہ ان کے ایمان اور ثابت قدمی میں اضافے کا سبب ہوا۔
الحمدللہ ،وہ تمام آزمایشوں سے زیادہ سخت جان، زیادہ پختہ ارادے والے اور برائی کی قوتوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے والے بن کرصراط مستقیم پر گام زن ہوئے۔ وہ اپنے شہید راہ نما کے طریقے پر چلتے رہے ، جو اپنے قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور اللہ جل شانہ کی کتاب کو تھام کر چلنے کے لیے کوشاں رہے۔ ہرلمحہ اللہ تعالیٰ سے دعاگو رہے کہ وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملاقات کریںکہ جس میں ملنا مطلوب ہے۔
ایمان والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں ، جنھوں نے سچ کردکھایا وہ وعدہ جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیاتھا ، پس ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ منتظر ہیں اور وہ ہرگز نہیں بدلے۔ (الاحزاب ۳۳: ۲۳)
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو حق کی مخالفت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو بوجھ بلکہ ناخوش گوار سمجھتے ہیں۔ اگر وہ عبرت حاصل کریں اور سمجھ جائیں تو اس میں ان کے لیے اور لوگوں کے لیے بھلائی ہے۔ کامیابی حق کے لیے ہے۔ یہ باطل خواہ کتنا بلند اور کامیاب ہو بالآخر اسے زوال پذیر ہونا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے روز اول سے طے کردیاہے کہ اس کا حکم ہی غالب رہے گا اور اس کے رسولؐ کا بھی۔ جوکوئی بھی اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنے کی حماقت کرتا ہے، وہ خود مغلوب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لازم کرلیا ہے اپنے لیے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو زمین کا وارث بنائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے تم میںسے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا گیا جو تم سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کا وہ دین جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے ، غالب کردے گا۔ (النور ۲۴:۲۵)
طاغوت سے آزادی اور اسلامی ریاست کا قیام ہر زندہ ضمیر مسلمان کا خواب ہے۔ تحریک پاکستان کی بازگشت سمندر پار پہنچی تو یہ خواب دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوگئے۔ وادیِ نیل میں بسنے والی ایک ولی اللہ شخصیت حسن البنا شہید نہ صرف اپنے لاکھوں ساتھیوں کے ہمراہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے دعاگو تھے، بلکہ اپنے محاذ پر سرگرم کار بھی تھے۔ قائداعظم اور حسن البنا کے درمیان براہِ راست ملاقات بھی ہوئی۔ بعدازاں یہ رابطہ متعدد حوالوںسے برابر قائم رہا۔ دونوں کی تمنا ایک ہی تھی اور ایک ہی خواب: استعمار سے آزادی اور ایک ترقی یافتہ مثالی اسلامی ریاست کا قیام۔
دوسری جانب قائد اعظم محمد علی جناح [۲۵دسمبر ۱۸۷۶ء- ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء]،تحریک پاکستان کو رہنمائی دینے کے ساتھ انڈونیشیا ، فلسطین ، لیبیا، ملایشیا وغیرہ میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حق میں کلمۂ خیر کہتے تھے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتاہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیامسلم لیگ قائد اعظم نے ایران، اُردن ،مصر ،ترکی ،عراق وغیرہ کے مسلمان حکمرانوں سے بھی رابطہ رکھا۔ اس زمانے میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام۱؎ تھے۔ ایک جانب قائداعظم کا ان سے رابطہ تھا اور دوسری جانب عالم عرب کی ہمہ گیر اسلامی عوامی تحریک اخوان المسلمون، تحریک پاکستان کی تائید و حمایت کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتی تھی۔
دسمبر۱۹۴۶ء میں قائد اعظم کچھ دنوں کے لیے مصرمیںرکے ، تو اخوان المسلمون کے مرشدعام حسن البنا نے ۱۶دسمبر سے ۱۹دسمبر ۱۹۴۶ء کے دوران ان سے ملاقات میں تحریک پاکستان کی تائید وتحسین کی، اور انھیں قرآن کریم کا ایک نہایت خوب صورت نسخہ، تحریک پاکستان کی علامتی تائید کے لیے، بطور ہدیہ پیش کیا (یہ نسخہ اس وقت بھی کراچی میں مزارِ قائد پر موجود نوادرات میں نمایاں طور پردیکھا جاسکتاہے ‘ جس کا عکس یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)
مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی (۱۸۹۳ء-۱۹۷۴ء) بیان کرتے ہیں: ’’مجھے یاد ہے ایک دعوت کا اہتمام عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام نے قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں کیا تھا، قائداعظم کے ہمراہ لیاقت علی خاں [یکم اکتوبر ۱۸۹۵ء- ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء] بھی تھے عزام صاحب کے گھر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں‘ میں اور امام حسن البنا شہید تھے۔ ہم قائداعظم سے دیر تک محو گفتگو رہے۔۲؎
قائداعظم نے ۱۶ دسمبر ۱۹۴۶ء کو قاہرہ پہنچنے پر اپنے بیان میں فرمایا تھا: ’’مصر کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم ہند کس مقصد کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے؟ یہ مصر کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اہلِ ہند کے لیے۔ اگر ہم حصولِ پاکستان میں کامیاب ہوگئے تو یہ مصر کے لیے بھی اچھا ہوگا۔ کانگریس کے پروپیگنڈے سے بہت سے اہلِ مصر گمراہ ہوئے ہیں۔ میں ان مصری بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلم ہند کے معاملات میں زیادہ دل چسپی لیں اور ہند کے آیندہ دستور کے مسائل کا مطالعہ کریں۔ اہلِ مصر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانانِ ہند کی جدوجہد کا مقصد کیا ہے‘اور یہ جدوجہد مصر کے لیے کس قدر اہم ہے کہ ہم پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور یہ کتنا خطرناک ہوگا کہ اگر ناکام ہوجاتے ہیں… جب پاکستان قائم ہوجائے گا تب ہی ہم [ہندی اور مصری مسلمان] حقیقت میں آزاد ہوں گے‘ وگرنہ ہندو سامراج کی لعنت اپنے پنجے (tentacles) مشرق وسطیٰ کے اس پار تک پھیلا دے گی‘‘۔۳؎ [قاہرہ میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے ۱۸دسمبر ۴۶ء کو کہا] ’’اگر ہند میں ہندو سلطنت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب ہوگا ہند میں اسلام کا خاتمہ اور دیگر مسلم ممالک میں بھی… اس باب میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روحانی اور مذہبی رشتے ہمیں مصر سے منسلک کرتے ہیں۔ اگر ہم ڈوبے تو سب ڈوب جائیں گے‘‘۴؎… [پھر قاہرہ ریڈیو سے ۱۹دسمبر کو نشری تقریر میں وضاحت کی] ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں میں جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں کی فرماں روا بنے‘ وہاں ہم ایک خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں‘ اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا علَم بردار اسلام ہے… یہ ۱۰کروڑ مسلمانوں کی حیات و موت کا معاملہ ہے‘‘۔۵؎
قاہرہ میں ۱۹ دسمبر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’اگر ہند پر ہندو سامراج کی حکمرانی ہوئی تو یہ مستقبل کے لیے‘ اگر اس سے زیادہ نہیں تو اتنا ہی بڑا خطرہ ہوگا جتنا بڑا خطرہ برطانوی سامراج سے ماضی میں تھا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ پورا مشرق وسطیٰ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائے گا… میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ان تمام اقوام کو بلاتمیز رنگ و نسل اپنا تعاون پیش کرے گا‘ جو حصولِ آزادی کی غرض سے جدوجہد کر رہی ہوں‘‘۔۶؎
حسن البنا شہید، آل انڈیا مسلم لیگ کے مقصدِ تخلیق پاکستان کے زبردست تائید کنندگان میں شمار ہوتے تھے۔ بقول جناب پروفیسر خور شید احمد: ’’اخوان کے نوجوان رہنماسعید رمضان [م:۸ اگست ۱۹۹۵ء] نے بتایا کہ وہ خود اور اخوان کی قیادت کے مرکزی رہنما تحریک پاکستان کی تائید کے لیے مصر کے طول و عرض میں پُرجوش تقاریرکیاکرتے تھے۔اس کے برعکس مصرکے سیکولر قوم پرستوں میں کانگریس اور نہرو کے بارے میں نرم گوشہ پایا جاتا تھااور وہ ان کی تائید کرتے تھے‘‘۔
خود قائد اعظم بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ عرب قوم پرست اور سیکولر عناصر انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین نیشنل ازم کے حامی ہیں۔ اس پس منظر میں اخوان المسلمون کی جانب سے عالمِ عرب و افریقہ کے مرکز علم و تہذیب میں تحریکِ پاکستان کی تائید و حمایت اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں کانگریس نے دہلی میں ایک بین الاقوامی ایشیائی کانفرنس [۲۳مارچ تا ۲اپریل۱۹۴۷ء]منعقد کرنے کا ڈول ڈالا۔ قائد اعظم اس کانفرنس کے پس پردہ محرکات کو مسلمانوںکے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔اگرچہ شام،لبنان اوریمن نے اس کانفرنس کادعوت نامہ مسترد کردیاتھا ، لیکن عرب لیگ نے کانفرنس میں وفدروانہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ قائد اعظم نے فروری ۱۹۴۷ء کو عرب لیگ کے سیکرٹری عبدالرحمن عزام کے نام خط میں اس فیصلے پر افسوس کااظہار کیا تھا۔
اسی دوران میں حافظ کرم علی (م:۳جنوری ۱۹۷۲ء۔سربراہ حج کمیٹی، مسلم لیگ صوبہ جات متحدہ (یوپی)۷؎ نے قاہرہ میں امام حسن البنا سے ملاقات کرنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر‘ قائداعظم محمد علی جناح کے نام خط لکھا : ۸؎
نیو ہوٹل ،قاہرہ
مارچ ۱۹۴۷ء
جناب محترم [محمد علی جناح]
میں کئی دنوں سے یہاں مقیم ہوں۔اس قیام کے دوران میں ،میں نے قاہرہ میں موجود بہت سے مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا--- اور [انھیں] مسلم لیگ کے موقف سے آگاہ کیا ہے۔
میں ،عبد الرحمن عزام سیکرٹری [جنرل]عرب لیگ سے بھی ملا،اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھارت میں[منعقد ہونے والی کانفرنس میں ]کوئی وفد نہ بھیجیںکیوں کہ یہ مسلم لیگ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔انھوں نے جواب میں کہا کہ:’’ہمارا وفد وہاں کوئی تقریر نہیں کرے گا۔اگر مسلم لیگ چاہے تو انھیں چائے پر بلالے‘‘۔
میں گذشتہ دو ہفتے سے یہاں پر مقیم ہوں ،اور امکان ہے کہ جلد یہاں سے چلا جائوں گا۔اگر کوئی اطلاع ہو تو براہ کرم مجھے جلد مطلع فرمائیں،میں اپنی استعداد کے مطابق تعمیل ارشاد کے لیے بھرپور کوشش کروں گا۔
مصر میں سب سے زیادہ طاقت ور ، مضبوط اور مقبول تنظیم اخوان المسلمون کے نام سے موسوم ہے‘ جس کے سربراہ شیخ حسن البنا ہیں۔ ان کے ۵۰ہزار رضا کار اور لاکھوں پیروکار ہیں۔ اس تنظیم کا اپنا ایک روزنامہ اخبار اورایک ہفت روزہ بھی ہے۔ میں نے تنظیم کے مرکزی دفتر میںتنظیم کے سربراہ سے ملاقات کی۔ وہ نہایت تپاک اوربڑی شفقت سے پیش آئے۔ آپ سے میری استدعاہے کہ حسن البنا سے رابطہ قائم کریں۔
اگر آپ مناسب سمجھیں تو [آل انڈیا مسلم] لیگ کے سیکرٹری انھیںایک خط لکھیں‘ جس میں ان کے کریمانہ سلوک پر شکریہ اداکریں۔اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ خط میں میرا تذکرہ کیا جائے۔
ان کا پتا ہے:شیخ حسن البنا ،الاخوان المسلمون ،حلمیہ قدیمہ،قاہرہ
آپ کا نہایت مخلص
محمدکرم علی
ممبر ورکنگ کمیٹی یوپی ،ممبر ،آل انڈیا مسلم لیگ کونسل
۱۳ اپریل ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے عبدالرحمن عزام کے نام خط میںزور دیا کہ:’’کانفرنس میں اگرچہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کیاگیا ، لیکن ہم ان شاء اللہ اس کوشش سے بچ نکلیں گے اورہم ہندستان اور مشرق وسطیٰ دونوںجگہ کامیاب ہوںگے‘‘۔ اسی تسلسل میں قائد اعظم نے اخوان المسلمون کے سربراہ حسن البنا کے نام جو ذاتی پیغام مصطفی مومن کے ذریعے بھیجا تھا،۹؎ امام البنا نے دستی طور پراس کا جواب مصطفٰے مومن کے ذریعے ہی بھیجا ،جو حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ اکبر وللہ الحمد
قاہرہ،۲۸ مئی ۱۹۴۷ء
میرے محترم قائد محمدعلی جناح ،
ہمارے بھائی جناب مصطفی مومن ۱۰؎ کے ذریعے آپ کا پر خلوص پیغام موصول ہوا،جس کے لیے میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔جہاں تک ایشیائی کانفرنس کا تعلق ہے ،تو اس بارے میں ،میں یہ عرض کر سکتا ہوںکہ ہم اس کانفرنس کے مقاصد اور اہداف کے بارے میں بے خبر نہیں ہیں۔ہم نے اس موقعے کو بعض وجوہ سے مناسب سمجھا ،کہ وہاں پر مصر کا ایک نہایت متقی اور وفادارمسلمان شرکت کرے۔ جو پورے ہندستان کی اسلامی تحریک کے قائدین ،بالخصوص آپ سے ذاتی طور پر ملے ،خط کتابت کے ذریعے نہیںبلکہ بالمشافہہ ملاقات کی سعادت حاصل کرے ،تاکہ پاکستان کی مبارک تحریک کے بارے میں اسلامیان مصر کے مخلصانہ جذبات اور نیک تمنائیں آپ تک پہنچائے۔
اس کانفرنس میں ہماری شرکت کا دوسرا بڑا ہدف یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ اس میں کوئی ایسی بات ہو، یاتبادلہ خیالات کے دوران میں کوئی ایسا پہلوزیر بحث آجائے جو مسلمانوں اور عالم عرب کے خلاف ہو، جیساکہ اس سے پہلے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عملاً ہوچکاہے تو ہم اسے ناکام بناسکیں۔
آپ کویہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ پوری وادیِ نیل کامل خلوص دل کے ساتھ آپ کی مکمل تائید کرتی ہے۔اورکامل اعتمادرکھتی ہے کہ آپ کی زیر قیادت یہ جدوجہد ہندستان کی اسلامی قوم کو اتحاد سے سرفراز کرے گی،اور آزادی کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد بالآخر کامیاب ہوگی۔آج کے بعد پوری روے زمین پر کوئی ا یسی طاقت نہیں ہے جو اخوت اسلامی کے ان مضبوط رشتوں کوتوڑسکے ،یاجو امت اسلامیہ کی آزادی اور استقلال کی راہ میں حائل ہوسکے، یا ان کے منصفانہ قومی مطالبات کو تسلیم ہونے سے روک سکے۔اس لیے آپ کامل یقین سے آگے بڑھیے، اللہ آپ کے ساتھ ہے اور وہ آپ کی بہترین کوششوں کا اجر عطا فرمائے گا۔۱۱؎
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
حسن البنا۱۲؎
سربراہ ،اخوان المسلمون
قائداعظم گورنر جنرل پاکستان کے نام ٹیلی گرام
قیام پاکستان کی خبر سن کر حسن البنا نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء]
عزت مآب محمد علی جناح
آج کے اس تاریخی اور ابدی حقیقت کے حامل دن، کہ جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے،میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد‘ وادیِ نیل کے سپوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کے دلی جذبات کی حقیقی عکاس اور نمایندہ مبارک باد ہے۔
حسن البنا۱۳؎
گاندھی جی۱۴؎ ، نہرو۱۵؎ اور ماؤنٹ بیٹن۱۶؎ کے نام مشترکہ ٹیلی گرام
قیامِ پاکستان کے وقت‘ ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کے قتل عام‘ عورتوں کی بے حُرمتی اور مہاجر قافلوں کی لوٹ مار پر بھارتی قیادت سے احتجاج کرتے ہوئے حسب ذیل ٹیلی گرام روانہ کیا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
سرزمین ہند پر مسلمانوں کی خوں ریزی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل‘ رنج و حزن اور غم و غصے سے بھر دیے ہیں۔ اسلام سراسر سلامتی کا دین ہے‘ الا یہ کہ اہل اسلام پر کوئی زیادتی کرے۔ اخوان المسلمون ،عالم عرب اور عالم اسلام کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی خوں ریزی کو روکنے میں تساہل کا ذمہ دار آپ کو قراردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ لہو کی پکار کو کوئی نہیں دبا سکا اور یہ ہمیشہ زیادتی کرنے والے کے لیے تباہی لے کر آتی ہے۔ آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے مسلمانوں سے دوستی، اس خوں ریزی کے تمام اہداف و مقاصد سے زیادہ مفید و بہتر ثابت ہوگی۔
حسن البنا۱۷؎
قائداعظم ، گورنر جنرل پاکستان کے نام ٹیلی گرام
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بھارت کے مسلمانوں پر ہندوئوں اور سکھوں نے جو بہیمانہ مظالم کیے‘ ان پر مسلمانوں سے یک جہتی اور اظہارِ ہمدردی کی غرض سے امام حسن البنا نے قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام بھیجا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
جناب قائد اعظم محمد علی جناح
مسلمانان ہند کے بہنے والے خون پر اخوان المسلمون گہرے رنج و غم کا شکار ہیں۔ ہم اپنے تمام فوت شدگان کے لیے شہادت اور ان کے اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔ ہم نے مائونٹ بیٹن ،نہر و اور گاندھی کے نام بھی فوری تار ارسال کیے ہیں اور انھیں مسلمانوں پر ہونے والی اس زیادتی کو روکنے میں غفلت برتنے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے آپ کے ساتھ ہیں اور عملاً آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔اس ضمن میںہم نے اپنے ہاں موجودسفارتی حلقوں تک بھی اپنے جذبات پہنچائے ہیں، اورہم اپنے بھائیوں کی خوں ریزی رکوانے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوسکا‘ ضرورکریں گے۔ آپ ہمیں جو بھی ہدایت فرمائیں گے، ہم اس کی روشنی میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔یقینا صبر اور ثابت قدمی کا مقدر فتح و نصرت ہوا کرتی ہے۔
حسن البنا ۱۸؎
صدر مسلم لیگ برطانیہ ،علی محمد خاں کے نام خط
مسلم لیگ ‘ لندن نے پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم پر آواز بلند کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلم ممالک اور اہم پارٹیوں کے ساتھ رابطہ کیا۔ اس موصولہ خط کے جواب میں امام حسن البنا نے لکھا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
محترم جناب علی محمد خان،صدر مسلم لیگ ،لندن
لندن میں اخوان المسلمون کے اخبار کے دفتر کے ذریعے پہنچنے والی آپ کی اپیل نے پورے مصر میں شدید اضطراب پیدا کردیا ہے۔ اے ہمارے مسلم بھائی ،ہم آپ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ آپ کی اپیل آتے ہی ہم نے ان تمام سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے جن کا تذکرہ آپ نے کیاتھا۔ ہم نے فوراً مائونٹ بیٹن ،گاندھی اور نہر و کے نام ٹیلی گرام روانہ کیا ہے، جس میں انھیں اس شرم ناک اور وحشیانہ خوں ریزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ہم نے انھیںلکھا ہے کہ اسلام سراسر سلامتی کا دین ہے۔ اہل اسلام اپنے دفاع کے علاوہ کبھی جنگ نہیں کرتے، اوربھارت کے لیے زیادہ بہتریہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کرے، اور اپنے ہاں موجود مسلمانوں سے حسن سلوک برتے۔
اسی طرح ہم نے خود قائد اعظم کے نام بھی ٹیلی گرام ارسال کیا ہے، جس میں ہم نے مسلمانان ہند کی تائید کی ہے‘ ان سے غم گساری کا اظہار کیا ہے ،اور ان کے ہم وطن مسلمان فوت شدگان کے لیے رتبہ شہادت کی دعاکی ہے۔ ہم نے اپنے ہاں موجود سفارت خانوں سے بھی رابطہ کیا ہے اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ بھی ہم جو کچھ کرسکے اور جس کام کا بھی آپ نے ہمیں مشورہ دیا،ان شاء اللہ ضرور کریں گے۔ پور ی امت مسلمہ ایک جسد واحد کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اسی جسد ملّی کا حصہ ہیں، اور اس کی خدمت کے لیے ہمیشہ مستعد ہیں۔
لندن میں ہمارے اخبار کے دفتر کے ذریعے آپ نے ہم سے جو رابطہ کیا ہے، ہم اس پر آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ اس رابطے کو جاری رکھیں، تاکہ حق اور خیر کی خاطر باہمی تعاون جاری رہے۔
خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
حسن البنا ۱۹؎
علامہ شبیر احمد عثمانی کے نام خط
تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما اور ممتاز دینی قائد‘ جناب شبیراحمد عثمانی۲۰؎ نے امام حسن البنا سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے یہ تفصیلی خط لکھا، جس میں رنج و غم کا اظہار اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر سرگرم کار اسلامیانِ عالم کے دلی جذبات اور پاکستان سے وابستہ توقعات کا بیان ملتا ہے:
[قاہرہ: ۱۸ نومبر ۱۹۴۷ء]
بزرگ جلیل جناب شبیر احمد عثمانی مدظلہٗ
اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔اس مالک کی تعریفیں بیان کرتے ہوئے ‘آقاے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اہل بیت صحابہ کرامؓ اور قیامت تک آپ کی شریعت پر عمل کرنے اور آپ کی دعوت عام کرنے والوں پر درودو سلام بھیجتے ہوئے، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
حرمین شریفین میں اور پھر قاہرہ میں مجھے برادر عزیز الحاج کرم علی صاحب سے بہت مفید ملاقاتوں کا موقع ملا۔ ان کے ذریعے آپ کی خدمات جلیلہ کا بھی علم ہوا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ آپ پاکستان اور دیگر ممالک میں ہمارے بھائیوں میں اسلام کی دعوت اور اس کے احکامات عام کرنے کے لیے ہمہ پہلو جہاد کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ جان کر ہمیں دلی مسرت ہوئی۔ غائبانہ طور پر آپ سے اللہ کی خاطر محبت کاایک مضبوط تعلق قائم ہوگیا‘ اور ہم نے رب ذوالجلال سے دعا کی کہ اپنے فرشتوں کے ذریعے آپ کی مدد فرمائے اور ہمارا اور آپ کا شمار اپنے ہدایت یافتہ اور پیغام ہدایت کے حامل ان داعیان حق میں فرمائے ،کہ جو اللہ کی عطا کردہ بصیرت کے سہارے دعوت حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کی صورت میں ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست کے وجود سے‘ ہمیں عظیم مسرت نصیب ہوئی اور اللہ کے حکم سے اس کے ساتھ ہماری بڑی امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری یہ امیدیں پوری فرمائے۔ اگرچہ پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد بڑی مہیب رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ تعصب کرنے والوں کے تعصبات ، سازشی عناصر کی سازشوں اور ان کی جانب سے حالیہ مجرمانہ و تباہ کن جارحیت کا منہ دیکھنا پڑا ہے ،لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ اسے جہاد فی سبیل اللہ ، جدوجہد آزادی و استقلال سے اور اسلام حنیف کے احکامات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنے سے روک نہیں سکے گا اور پرچم اسلام یقینا سربلند ہوگا، ان شاء اللہ۔
ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں اس مبارک سفر میں ہمارے پاکستانی بھائی تنہا نہیں ہیں۔ پوری امت اسلامیہ اور اقوام عرب اپنے تمام تر جذبات واحساسات اور اپنی عملی کاوشوں کے ذریعے آپ کے ساتھ ہیں۔ اخوان المسلمون جوکہ ان اقوام و امم کی اکثریت کی ترجمانی کرتی ہے اور جس کا شعار یہ ہے: ’اللہ ہمارا مقصود ہے ، رسولؐ ہمارا اسوہ ہیں ، قرآن ہمارا دستور ہے ، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے‘___ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور انھیں تب تک سکون نصیب نہیں ہوگا، جب تک کہ پاکستان کو نصرت و استحکام نصیب نہ ہوجائے اور اسے اطمینان و سلامتی حاصل نہ ہوجائے ،اس راستے میں جو بھی قربانیاں دینا پڑیں‘ وہ ضرور دیں گے۔
پورے روے زمین کے مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو یہی ہے کہ ریاست اسلامی پاکستان کے تمام سرکاری اور عوامی معاملات:اسلامی تعلیمات و احکامات اور جامع رہنمائی کی محکم بنیادوں پر استوارہوجائیں۔ اگر عصر حاضر کے حادثات نے سوشلزم ، جمہوریت یا دیگر ایسے نظریات کو جنم دیا ہے، جو کسی بھی صورت اسلام کے جامع اور مکمل نظام کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اسلام عذاب و اذیت سے دوچار انسانیت کو عالمی بھائی چارے کے مضبوط رشتے سے جوڑتاہے، اور اگر دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنھوں نے ان نظریات کو اپنایا ہے اور اپنے مال و اعمال سے ان کی مدد کررہے ہیں، تو ہم مسلمانوں کا بھی فرض اولین ہے کہ ہماری ایسی حکومتیں قائم ہوں اورایسے ممالک وجود میں آئیں ،جن کی بنیاد اسلام کی دعوت پر رکھی گئی ہو ،اس دعوت پر کہ ایک جامع نظام اور کامل پیغام کی حامل دعوت ہے۔
اکثر مسلم ممالک کی حکومتیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوچکی ہیں، کوئی کم کوئی زیادہ‘ لیکن اب یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ حکومت پاکستان کی بنیادہی اسلام پر رکھی جائے۔ اب اسلام ہی اس کا شعار، اسلام ہی اس کی متاع ،اسلام ہی اس کی تکوینی بنیاد اور اسلام ہی اس کی ترقی کا رازقرار پایا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت اسی کے لیے بچا کر رکھی ہوئی تھی، تاکہ وہ دوسروں سے پہلے اور دوسروں سے نمایاں ہو کر اس فضیلت کو پالے۔
جناب من ، اب ان لوگوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی ہے ،جن سے پختہ عہد لیا ہے کہ وہ اس کتاب کو لوگوں تک پہنچائیں گے ، اس کا کتمان نہیں کریں گے۔اس کی خاطر نصیحت کریں گے اور اسی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کریں گے، خواہ انھیں اس راہ میں کتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔ اب آپ کے لیے یہ سنہری موقع ہے ، کہ آپ حکومتی ذمہ داران کی بھی اسی درست سمت میں رہنمائی فرمائیں۔ انھیں دین حنیف کی تعلیمات اپنانے پر آمادہ کریں، اور انھیں اس ضمن میں دین کی آسانیوں سے روشناس کروائیں۔ جناب من،آپ امت مسلمہ میں اخوت کی وہ روح دوڑائیں ،جس کی آبیاری، جس کی سرپرستی اور جس کی بیداری کے لیے قرآن کریم نازل ہوا۔ اس مقصد کے حصول میں کامیابی ہوگئی‘ تو امت مسلمہ، وحدت ویگانگت کے علاوہ کسی دوسری جانب نہیں جاسکے گی۔ اس کی تاریخ ، اس کا شعور ،اس کی اخوت اور اس کی جہت ایک ہی رہے گی، خواہ وہ بعض مسائل یا آرا میں کچھ اختلافات ہی کیوں نہ رکھتی ہو۔ جناب من !آپ امت واحدہ میں مذہبی تعصبات کی بیخ کنی کے لیے ہر ممکن سعی فرمائیے، جس کی جو راے ہے وہ رکھے، لیکن رہیں گے سب ہمہ پہلو اسلام ہی کے زیر سایہ۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کو اس کی تائید حاصل رہے اور آپ کے دست مبارک پر خیر کثیر جاری فرمائے اور ہمیں اپنے فیصلوں میں رشد و ہدایت سے نوازے۔
خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
حسن البنا ۲۱؎
قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کے نام
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ساڑھے تین ماہ گزر چکے تھے‘ لیکن مشکلات اور رنج و الم کا طوفان تھمتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس صورت حال میں امام البنا نے قائداعظم سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
[قاہرہ: ۲۴ نومبر ۱۹۴۷ء]
عزت مآب جناب قائداعظم محمد علی جناح
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ہم وہ مبارک گھڑیاں کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں جن میں مصر کو آپ کی زیارت ، اور ہمیں آپ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ان آرزوئوں کوپورا کردیا ہے جن کے بارے میں ہم نے باہم گفتگو کی تھی، اور پاکستان کی اسلامی ریاست ایک حقیقت کی صورت میں نقشۂ عالم پر موجود ہے۔ ہم‘ جناب کی خدمت میں دلی مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں۔
اس وقت خوں ریزی کے جو افسوس ناک واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں ، اور جس طرح مسلمانوں کے نوتشکیل اور نوخیز ملک کے خلاف جارحیت کی جا رہی ہے، اس کی بازگشت مصر اور عالم عرب کے ہر باشندے نے اور اخوان المسلمون کے ہر کارکن نے خاص طور پر اپنے دل میں محسوس کی ہے۔ ان کٹھن لمحات میں مسلم اقوام ،پاکستان کے مجاہد عوام اور پاکستان کی مقدس ریاست کی مدد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
جناب قائد ،آپ اس ضمن میں کامل یقین اور بھروسا رکھیے۔ آپ یقین رکھیے کہ ہم آپ کے شانہ بشانہ رہ کر دل و جان سے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، یہاں تک کہ پاکستان اپنی آزادی ، استحکام اور مذموم تعصب کے خلاف مزاحمت کی بھرپور جدوجہد میں مکمل طور پہ فتح یاب ہوجائے۔
ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کی حکیمانہ قیادت میں پاکستان ہر شعبہ زندگی میں حقیقی اسلامی منزل کی طرف گام زن ہوگا۔ پاکستان، اسلام کی ان تعلیمات پر اپنی ترقی کی بنیادیں استوار کرے گا جو ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے یکساں موثر ہیں۔ اس طرح پاکستان مضبوط ترین بنیادوں پر تعمیر حیات کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور دیگر اقوام کے لیے ایک روشن مثال قائم کرے گا۔
میں آپ کی خدمت میں اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل اوراپنے مجاہد بھائی صالح عشماوی۲۲؎ کو بھیج رہا ہوں، جو ہمارے روزنامے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ الحمدللہ، ہمارا یہ روزنامہ مصری اور پاکستانی راے عامہ میں قربت و ہم آہنگی پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں، تاکہ وادیِ نیل اور عالم عرب کے شرق و غرب میں بسنے والے اخوان کے مخلصانہ اورمحبت بھرے جذبات آپ تک پہنچا سکیں۔ میں اس موقع پر یہ ذکر خیر کرتے ہوئے بھی خوشی محسوس کررہا ہوں کہ ان دنوں ہمارے بھائی عبدالعلیم صدیقی۲۳؎، مصر کے معزز مہمان کی حیثیت سے یہاں موجود ہیں، جو پاکستان سے وادیِ نیل میں اخوان المسلمون کے مرکز آئے ہوئے ہیں۔
انھوں نے نہایت محنت و خوش اسلوبی سے اپنے پروگرام کیے ہیں اور وہ بہت کامیاب عوامی سفیر ثابت ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مصر میں پاکستان کا موقف کیسے پیش کریں اور یہاں کے عوام کے ساتھ اپنے قلبی روابط کس طرح مضبوط کریں۔
اگرچہ اس وقت ہم آپ کی طرف صرف یہی نیک جذبات اور خطوط ارسال کرپا رہے ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم عنقریب اپنی اس ابدی اخوت کا عملی اظہار بھی کرسکیں گے کہ جس اخوت کے اس ابدی رشتے کو کبھی زوال نہیں آسکتا، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے دین اسلام کی طرح قائم و دائم، زیادہ قوی، زیادہ مؤثر اور دوجہاں میں زیادہ نفع بخش ثابت ہوگا۔
آخر میں ایک بار پھر ہمارے تحیات اور احساسات توقیر قبول فرمایئے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حسن البنا ۲۴؎
بھارتی قیادت کے نام ٹیلی گرام
جنوبی ہند میں ۱۱۳۷ھ/۱۷۲۴ء کو نظام الملک کی قیادت میں حیدرآباد‘ دکن‘ خودمختار ریاست بن گئی تو مغل بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک کو آصف جاہ کا خطاب دیا۔ ۱۸ویں صدی عیسوی میں جب سازش‘ ہوس اور ظلم کے زور پر برطانوی سامراج نے ہندستان پر غلبہ پانا شروع کیا تو حیدرآباد‘ دکن نے دوسری ریاستوں کے برعکس اپنی نیم خودمختارانہ حیثیت کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ اس ریاست کا اپنا سکّہ‘ اپنی ڈاک‘ ریل اور اپنا فوجی و انتظامی نظم و نسق تھا۔ اس کے فرماں روا کبھی برطانوی ہند کے ’والیانِ ریاست کے اجلاس‘ (چیمبر آف پرنسس)میں شریک نہ ہوئے۔ ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے فارمولے کا اعلان ہوا‘اور برطانوی مقبوضہ ہند کی ریاستوں کو حق دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک سے الحاق کرسکتے ہیں۔ ۱۱ جون ۱۹۴۷ء کو حیدرآباد، دکن کے حاکم میرعثمان علی خاں۲۵؎ نے حیدرآباد کی آزادی کا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان میں شرکت، حیدرآباد کی ہندو رعایا کے لیے تکلیف کا باعث ہوگی‘ اس لیے حیدرآباد‘ ریاست آزاد رہ کر‘ مستقبل کے ممالک بھارت اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے گی‘‘۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان اور ۱۵ اگست کو بھارت کا قیام عمل میں آیا‘ مگر پہلے ہی روز سے بھارت نے حیدرآباد کو دبانے اور مرعوب کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کیا۔ آخرکار ۲۹نومبر ۱۹۴۷ء کو بھارت اور حیدرآباد کے درمیان’معاہدہ انتظامیاتِ جاریہ‘ طے پایا‘ جس میں بھارت نے ریاست حیدرآباد‘ دکن کی محدود خودمختاری کے احترام اور تحفظ کا وعدہ کیا۔ مگر بھارت نے اس معاہدہ جاریہ کی بہت جلد خلاف ورزیاں شروع کردیں‘ اور ریاست کے اندر ہندو انتہاپسندی کو کھلے عام جدید ترین اسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا‘ جنھوں نے دہشت انگیزی اور مسلم کشی کی منظم کا آغاز کردیا۔ چاروں طرف سے بھارتی سلطنت میں گھری (land locked) اس ریاست پر دہلی کے حکمرانوں کا حریصانہ دبائو بڑھتا گیا، جس کے تحت ریاست کی معاشی ناکہ بندی کردی‘ پٹرول کی فراہمی ختم کر دی‘ ادویات‘ کپڑے اور خوراک کی سپلائی روک دی‘ انجام کار ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ریاست نے دہلی سے مفاہمت کی بہت کوشش کی مگر ہر پیش کش ٹھکرا دی گئی۔۲۶؎ بھارت نے حیدرآباد پر چڑھائی کرنے کے لیے ریاست کی سرحدوں پر اپنی افواج لگادیں، تاکہ اس کی آزادی سلب کرتے ہوئے اسے زبردستی اپنے ساتھ قبضے میں لے آئے۔ اس تباہ کن صورت حال میں اخوان المسلمون کے مرشد عام امام حسن البنا نے بھارت کی حسب ذیل شخصیات کے نام یہ ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ۱۴ جون ۱۹۴۸ء]
o پنڈت جواہر لال نہرو: وزیراعظم‘ نئی دہلی
o راج گوپال: ۲۷؎گورنر جنرل ،نئی دہلی
o سری پرکاش: بھارتی قونصل جنرل ،کراچی
’’حیدرآباد ایک آزاد ریاست ہے، اور ہر مسلمان اور عرب باشندے کو بے حد عزیز ہے۔ اس کے خلاف کوئی بھی جارحیت یا اس سے کوئی بھی چھیڑ چھاڑ، عالم اسلام کے ہر باشندے کو اشتعال دلانے کا سبب بنے گی۔ عالم اسلام اس آزاد ریاست کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کسی جارحیت پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔
عالم عرب اور عالم اسلامی کی ترجمانی و نمایندگی کرتے ہوئے اخوان المسلمون،بھارتی حکومت کو ریاست حیدرآباد [دکن]کی سلامتی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ظلم وزیادتی کے بجاے انصاف و سلامتی کی ترویج کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی‘‘۔
حسن البنا ۲۸؎
حیدر آباد دکن کے سربراہ عثمان علی خان کے نام
اُوپر مذکورہ صورت حال کی مناسبت سے میرعثمان علی خاں کو یہ ٹیلی گرام روانہ کیا گیا:
[قاہرہ: یکم اگست ۱۹۴۸ء]
محترم المقام نظام عثمان علی
عالم عرب اور عالم اسلام کے اخوان المسلمون کی طرف سے ہم ریاست حیدرآباد کی آزادی کی مکمل تائید کرتے ہیں، اور آپ کی مملکت کے خلاف ہونے والی کسی بھی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے اس ضمن میں بھارتی حکومت کے ذمہ داران کے نام بھی ایک ٹیلی گرام ارسال کیا ہے، جس میں ہم نے عالم عرب او رعالم اسلام کے اس دوٹوک موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حیدرآباد کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت ناقابل قبول ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سرزمین کا امن و استحکام یقینی بنایا جائے اور اس کی آزادی و استقلال پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے۔
حسن البنا ۲۹؎
مصر میں مسلم ممالک کے وزراے خارجہ کے نام ٹیلی گرام
[قاہرہ: یکم اگست ۱۹۴۸ء]
محترم جناب ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
پاکستان اور بھارت کی صورت میں انگریزی سامراج کے چنگل سے آزادی نے تمام مسلم اقوام کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ مشرقی اقوام کو عمومی طور پر انتظار تھا کہ یہ دونوں نوآز اد ریاستیں باہم محبت و ہم آہنگی سے رہیں گی، لیکن بد قسمتی سے بھارت انگریز وں کی شہ پر ، برادر ملک پاکستان سے دشمنی پر اتر آیا ہے، وہ اس کے ایک مضبوط اور معزز مشرقی ملک بننے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کردینا چاہتاہے۔
یہی نہیں،بلکہ وہ پورے بھارت میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے جنگ پر اتر آیاہے۔ اسلامی ریاست جموں و کشمیر سے اس کا برتائو پوری دنیا کو معلوم ہے۔ وہ وہاں کے عوام کے حق خودارادیت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ وہ اپنے غلط موقف پر اصرار کرتے ہوئے امن وسلامتی کو جنگ و جدال میں بدل دینا چاہتاہے۔ بھارت نے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے اپنی یہ رجعت پسندانہ پالیسیاں ہرخطے میں اپنائی ہوئی ہیں۔ اب وہ ایک نئے شکار (ریاست حیدرآباد)پر جھپٹا ہے۔ حالانکہ یہ ایک مستقل ریاست ہے، مگر بھارت اس کی آزادی کا انکاری ہے، اور اسے دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ نظام حیدرآباد کے زیر انتظام آزادی و امن سے رہنے والے بعض چھوٹے غیر مسلم دھڑوں کو بغاوت پر اُکسا رہاہے۔
یہی نہیں، بلکہ بھارت نے اس ریاست کی سرحدوں پر فوجیں لا بٹھائی ہیں ، اور اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے ، اس طرح حیدرآباد کے خلاف خفیہ اعصابی جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ خود نظام [یعنی میرعثمان علی خان] کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہاہے اور ان کی حکومت پر استبدادی نظام ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ بھارت کو تب تک چین نہیں آئے گا، جب تک وہ حیدرآباد کے خلاف ظالمانہ حملہ نہیں کردیتا، اس کی دولت اور قیمتی ذرائع آمدنی پر قبضہ نہیں جمالیتا اور ہندوئوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کی گردنیں دیتے ہوئے ان کے مردوں کوذبح کرنا اور خواتین کی توہین کرنا یقینی نہیں بنالیتا۔ ان کے گھر بار اور بستیاں تباہ نہیں کروا دیتا، اس سے پہلے وہ کشمیر اور پاکستان میں بھی ایسا ہی کرچکا ہے۔
تحریک اخوان المسلمون آپ سے بھرپور اپیل کرتی ہے کہ آپ ازراہ کرم آزاد ریاست حیدرآباد کی تائید وحمایت کریں۔ اپنے ملک میں موجودبھارتی سفیر کو فوراً طلب کریں یا بھارتی وزیرخارجہ کو بلائیں اور انھیں بتائیں کہ آپ ایک آزاد [مسلم] ریاست حیدرآباد پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ نظام حیدرآباد سے رابطہ کرتے ہوئے انھیں اپنی تائید کا مکمل یقین دلائیں۔
اس عادلانہ مسئلے کے بارے میں آپ کی کامیاب کاوشوں کے انتظار میں ہم آپ عزت مآب کی خدمت میں با حترام تمام، سلام و تحیات پیش کرتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
حسن البنا ۳۰؎
پاکستان کے پہلے یوم آزادی پر حسن البنا کا پیغام
اسلامی نیوز ایجنسی نے مرشد عام سے درخواست کی کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی ۱۴ اگست ۱۹۴۸ء کے موقع پر اپنا پیغام ارسال کریں، تو مرشد عام حسن البنا نے درج ذیل پیغام لکھا:
[قاہرہ: اگست ۱۹۴۸ء]
’’اسلامی ریاست پاکستان کی تشکیل و ولادت پر پورے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلامی نظام حیات کی اقامت کی طرف دعوت دینے والے اخوان المسلمون کی خوشی اپنے دوسرے بھائیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہم نے نظام اسلامی کی آغوش میں جنم لینے والی‘ اس کے سایے میں پروان چڑھنے والی اس مضبوط ریاست کے وجود میں آنے پر وہ حوصلہ و ہمت حاصل کی ہے، جس نے ہمارے جذبۂ جہاد کو دوچند کردیا ہے، ہمیں حادثات سے دل شکستہ نہ ہونے کا پیغام دیا ہے، اور مشکلات پر غلبہ پالینے کے یقین سے سرشار کردیا ہے۔ پاکستان کی آزادی سے ہمارے اس یقین کو مہمیز ملی ہے کہ ہمیں بھی یقینا اسلامی نظام کی اسی منزل تک پہنچنا ہے، جس کی نعمت سے ہمارا یہ برادرا ور نوزائیدہ ملک ہم کنار ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اسلامی ریاست کو برکتیں عطا فرمائے اور اسے اپنی تائید و نصرت سے نوازے۔
اس دور میں کہ جب پوری دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اسے ایک طرف سے سوشلزم اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے اینگلو امریکی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام، حالانکہ مسلمانوں کے لیے ان دونوں نظاموں میں کوئی خیرا ور بھلائی نہیں ہے۔ ان کے پاس اللہ کی کتاب ہے، نظام اسلامی کا مکمل خاکہ ہے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے :
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌo یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۵،۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں ،سلامتی کے طریقے بتاتاہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتاہے ، اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتاہے۔
ہم پاکستان کی اس مبارک عید آزادی کے موقع پر، اس کے معزز عوام ، حکیم حکومت اور قائد اعلیٰ [محمد علی جناح]کی خدمت میں دلی مبارک باد اور معطر تحیات پیش کرتے ہیں۔ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ اسے اپنی خصوصی تائید سے نوازے ، اپنی خصوصی رحمت سے اس کی حفاظت فرمائے اور اس کے نصیب میں عروج وکمال اور توفیق وہدایت لکھ دے ، آمین۔
ہم اپنے عزیزملک پاکستان کے عوام اور حکومت کی خدمت میں عید الفطر کے مبارک موقع پر بھی خلوص و محبت کے پر جوش احساسات و جذبات پیش کرتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حسن البنا۳۱؎
بھارتی وزیراعظم نہر و کے نام ارسال کردہ ٹیلی گرام
۲۱ اگست ۱۹۴۸ء کو ریاست حیدرآباد نے اپنا مقدمہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء کو قائداعظم کا انتقال ہوا‘ اور ۱۳ستمبر ۱۹۴۸ء کو علی الصبح بھارت کی مسلح افواج نے ریاست پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔ دو لاکھ مسلمان‘ ہندو افواج کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنے۔ ہزاروں خاندان اُجڑ گئے اور حیدرآباد دکن بھارت میں ضم کرلی گئی ہے۔ فوری حکم کے تحت اُردو میں تعلیم ختم کرتے ہوئے ہندی لازمی کر دی گئی۔ مسلمانوں کو ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور بہت سی مساجد شہید کردی گئیں۔۳۲؎ حسن البنا نے وزیراعظم ہند جواہر لال نہرو کو یہ ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ستمبر۱۹۴۸ء]
عالم عرب اور عالم اسلام کے الاخوان المسلمون حیدرآباد پربھارت کی وحشیانہ جارحیت پر شدید احتجا ج کرتے ہیں۔ عنقریب رجعت پسند ہندوازم بھی اسی انجام سے دوچار ہوگا، جس سے دیگر سامراجی ممالک دوچار ہوئے۔ ریاست حیدرآباد آزاد ہوکر رہے گی۔
حسن البنا۳۳؎
امام حسن البناشہید کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے ترجمان القرآن نے جو خصوصی شمارہ شائع کرنے کا عزم کیا ہے، وہ بہت مستحسن و مبارک قدم ہے۔ اس موقع پر میں نے سوچا کہ اس عظیم شہید کی شخصیت و شمائل ،ان کی دعوت و تحریک ،ان کی تصنیفات و خطبات ، ان کے دعوتی خصائص و امتیازات وغیرہ پرتو بہت سے فاضل مقالہ نگار روشنی ڈالیں گے،اخوان المسلمون جوان کا سب سے بڑا کارنامہ بلکہ ان کا سرمایۂ حیات اور ان کی زندگی کا نچوڑ تھی ، کیوں نہ میں اس کے بارے میں اپنے مشاہدات پیش کروں ، کہ میں مصر اور شام میں اس سے وابستہ رہا ہوں ، اور عراق و اردن میں بھی اس تحریک کے مظاہربڑے قریب سے دیکھے ہیں۔ اس کے قائدین اور کارکنوں کے ساتھ میرا گہرا تعلق رہا ہے بلکہ میں ان کے خاندان (اسرہ ، سب سے چھوٹا تنظیمی یونٹ) کا ایک فرد رہا ہوں۔ میں نے ان کو آزادانہ اور سرفروشانہ سرگرم عمل بھی دیکھا ہے، اور ان کا وہ دور ابتلا بھی دیکھا ہے جب سرزمینِ مصر ان کے چھے ممتازشہیدوں کے لہو سے لالہ زار تھی، اور جب ان کے ہزاروں کارکن و قائدین پابند سلاسل تھے اور ہزاروں ہی خود اختیاری جلا وطنی پر مجبور تھے۔
وہ سرزمین جہاں امام حسن البناشہید پیدا ہوئے، اور جہاں ان کی عظیم عالمی اسلامی تحریک اخوان المسلمون پر وان چڑھی اور پھر ان کے خون سے لالہ زار ہوئی، یعنی مصر ، اس پر میں نے پہلا قدم ستمبر ۱۹۵۳ء میں رکھا۔ مصرکا میرا یہ پہلا سفر جدہ سے سویز براستہ سمندر تھا۔ اس کے بعد متعدد بار فضائی اور بری راستوں (لیبیا ،مصر ) سے مصر جانا ہوا ، لیکن پہلا سفر متعدد وجوہ سے بڑا یاد گار سفر تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کا دورانیہ خاصا طویل، یعنی تقریباً پونے دو سال تھا، کیونکہ یہ مطالعاتی اور تعلیمی سفر تھا۔دوسرے، یہ کہ اس سفر میں جوجنرل نجیب کے ہاتھوں انقلاب کے صرف ایک سال بعد پیش آیا تھا، میں نے مصر میں فوجی سیاست کے بڑے اتار چڑھائو دیکھے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے اس سفر میں مختلف مراحل میں اخوان کی تحریک کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ، اس کے راہ نمائوں کو سنا اور اس کے کارکنوں کے صبح و شام دیکھے۔ان کے عزم و ہمت کا مشاہدہ کیا اور ان کا صبر وثبات دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ میرا جو زمانہ گزرا وہ بہت ہی عزیز زمانہ تھا۔
استاذ سعید رمضان مرحوم نے مکہ کے واحد بڑے ہوٹل ’بنک مصر ‘ میں حج کے فوراً بعد ایک جلسہ منعقدکیا، جس میں حجاز کے علما ،ادبا اور دانش وروں کو دعوت دی۔ اس جلسے میں مشہور مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے والد گرامی )بھی مقرر کی حیثیت سے شامل تھے اور میں بھی حضرت مولاناعلی میاں کے ایک رفیق کی حیثیت سے موجود تھا۔ مولانا مرحوم نے اس موقعے پر عربی زبان میں،جب کہ مولانا عبدالعلیم صدیقی نے انگریزی میں تقریر کی تھی، لیکن برادرم مرحوم الاستاذ سعید رمضان کی تقریر سب پر بھاری تھی۔ اس کے کئی سال بعد دمشق میں مؤتمر اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر ان کے جوہر دیکھنے میں آئے۔ ۱۹۵۶ ء کی اس کانفرنس میں جو استاذ سعید رمضان ہی نے منعقد کی تھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی شریک تھے۔ میں اس وقت دمشق یونی ورسٹی کے کلیۃ الشریعہ کا ایک طالب علم تھا۔ ڈاکٹر سعید رمضان مرحوم کی شعلہ بیانی اور زور خطابت شہید حسن البناکے اثر ہی سے تھا، وہ اپنے مرشد مرحوم کی کاپی تھے۔
استاذ سعید رمضان سے ۱۹۵۰ء میں مختصر تعارف اور ملاقات کے بعد دوسرے موسم حج کے موقعے (۱۹۵۱ء) پر اخوان کا ایک مختصر وفد ڈاکٹر عبدالعزیز کا مل کی قیادت میں مکہ مکرمہ آیاتھا۔ موصوف اسکندریہ کی فاروق یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے استادتھے۔ ان کے ہمراہ اسکندریہ یونی ورسٹی کے بعض اخوان طلبہ بھی تھے ، ان میں سے ایک محب المحمدی الحسنی سے میری اچھی ملاقات ہوگئی۔ دوسال بعد جب میں مصر گیا تو اس وقت یہ ملاقات بہت کام آئی ، کیونکہ اس وقت یہ ساتھی قاہرہ آچکے تھے، جہاں وہ بی اے آنرز کے بین الاقوامی تعلقات میں قاہرہ یونی ورسٹی سے ڈپلومہ کررہے تھے۔ ساتھ ہی ایک نئے روزنامے الجمہوریہ میں کام بھی کرتے تھے۔ اس اخبار کے ایڈیٹر اس زمانے میں جمال عبدالناصر کے ساتھی اور انقلابی قیادت کونسل (Revolutionary Command Council)کے رکن انور السادات تھے، جو جمال عبدالناصر کے بعد صدر بنے۔
میں نے قاہرہ پہنچنے کے بعد قصر عابدین (اندرون شہر شاہ فاروق کی سابقہ قیام گاہ ) کے قریب شارع عبدالعزیز پر ایک گیسٹ ہائوس (pension)میں ایک کمرہ کرایے پر لے لیاتھا۔ یہاں مجھے رہتے ہوئے تین چار ماہ کے قریب ہوئے تھے کہ میرا اخوانی دوست، محب المحمدی جس سے دوسال قبل مکہ میں تعارف و ملاقات رہی تھی اور اس سے کچھ مراسلت بھی رہی ، اس گیسٹ ہائوس سے اصرار کرکے وسط شہر سے دو ر بلکہ قاہرہ کے الدقی نامی محلے میں مجھے اپنے فلیٹ پر لے گیا، جو اس گیسٹ ہائوس کے مقابلے میں بہت سستاتھا۔ اس میں پانچ نوجوان اور رہتے تھے‘ جن میں دو اسکول ماسٹر تھے ، دو طالب علم اور ایک کسی کمپنی میں کلرک تھا۔ محب المحمدی اپنا کمرہ چھوڑ کر اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں رہنے جا رہے تھے اور انھوں نے مجھے اپنا کمرہ دے دیا تھا۔ یہ فلیٹ شارع جوہرپر تھا۔ ان پانچ میں سے صرف ایک مدرس غیر اخوانی تھا ، لیکن وہ بھی حامیوں میں سے تھا۔
اب میں اس اخوانی خاندان کا ایک فرد تھا۔ خاندان کا لفظ یہاں بے محل استعمال نہیں کیاگیا ہے ، بلکہ اخوان المسلمون کے مرشد عام( صدر یا امیرجماعت ) نے اپنی تحریک کا جو تنظیمی ڈھانچا بنایاتھا ، اس میں پہلے تنظیمی یونٹ یا اکائی کا نام ’اسرہ ‘(خاندان ) ہی رکھا تھا۔ اس ’اسرہ‘کے ان پانچ ممبران (بشمول محب المحمدی)کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ممبر (عضو) تھے۔ اس سے بڑی تنظیمی اکائی ’شعبہ ‘ تھی۔۱؎ ’اسرہ ‘ اور ’شعبہ ‘ کے اجلاس مقررہ اوقات پر ہوتے رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے شعبے کا سربراہ ایک ترکی الاصل مصری نوجوان تھا اور شعبے کی میٹنگ ایک قریبی مسجد میں ہوتی تھی۔
ان سب اخوانی اور ایک غیر اخوانی بھائیوں کا مجھ سے ایسا برادرانہ اور مخلصانہ تعلق تھا کہ میں اپنی مسافرانہ حیثیت کو بھول گیاتھا اور ایسا لگتاتھا کہ واقعتا ہم ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ حجاز میں رہنے کے سبب میری عربی اچھی ہوگئی تھی اور گفت و شنید میں کوئی دشواری نہ تھی ، جلد ہی میں نے مقامی مصری بولی (colloqial) بھی سیکھ لی۔ اسلامی اخوت جواخوان کا امتیازی نشان تھا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عید کے موقعے پر یہ اخوانی جو مصر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے تھے، اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ، ابو احمد جو سب میں سینئر تھے انھوں نے اصرار کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ ان کے گائوں جائو ں۔ میرے تکلف پر انھوں نے کہا کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہ گئے تو ہم بھی عید کرنے اپنے گھروں کو نہ جائیں گے۔ مجبوراً میں ان کے ساتھ قاہرہ سے کافی دور ان کے گائوں دکرنس تحصیل بیت عمر گیا ، جوقاہرہ کے شمال مغرب میں واقع مشہور شہر منصورہ کے قریب تھا۔ یہاں ان لوگوں نے میری اس اہتمام سے خاطر مدارت کی جو شاید بہت سے قریبی رشتے دار بھی نہ کرسکیں۔ یہ ایک پرخلوص اور غیر معمولی اسلامی اخوت کا سحر انگیزمشاہدہ تھا ۔
تقریباً ڈیڑ ھ سال تک میرا قاہرہ میں ان کے ساتھ قیام رہا اور اس دوران میں کتنے ہی اخوانی دوستوں سے ملا۔ سب کا طریقۂ تعارف نام بتاتے وقت یہ تھا ’اخوکم فی اللہ ‘مصطفی یا محمد وغیرہ یعنی اللہ کی خاطر تمھارا بھائی فلان۔ یہ اسلامی اخوت کا وہ پہلا سبق تھا جو بہت پہلے حسن البناشہید نے اپنی تحریک کے پیروئوں کو سکھایاتھا۔جس پروہ آج تک کاربند ہیں اور جس نے ان کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں جوڑ دیاتھا، جس کی مثال کسی اور تحریک میں نہیں ملتی۔ اس کا بھرپور مظاہرہ اس شدید دو ر ابتلا میں ہوا جو جمال عبدالناصر کے عہد ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا اور اس کی موت (۱۹۷۱ء) تک جاری رہا۔ اس دور میں ۲۰‘ ۲۵ ہزار کے قریب اخوان جیلوں میں تھے۔ ان کے بیوی بچوں کے مصارف وہ ہزاروں اخوانی برداشت کرتے رہے جوکہ کسی نہ کسی طریقے سے جان بچا کر خلیج ، کویت ،قطر ، سعودیہ ، بحرین وغیرہ پہنچ گئے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طریقے سے رقم مصر بھیجتے تھے ، جوان بے سہارا خاندانوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔
جنرل محمد نجیب کا جو ابتدا میں انقلابی کمانڈ کونسل کے صدر بنائے گئے تھے، اخوان سے براہِ راست تعلق نہ تھا، لیکن وہ اپنی اسلامی سیرت کے سبب اخوان سے قریب تھے، چونکہ وہ ایک سینیرجنرل تھے اور بادشاہت کے خلاف ، اس لیے انقلابی فوجی افسران نے ان کو صدر بنانا پسند کیا۔ لیکن وہ فوجی انقلابی جو عیاشی کی طرف مائل تھے یا وہ جو بائیں بازو کی سیاست کے حامی تھے ، انھوں نے کرنل جمال عبدالناصر کو صدر بنانے اور جنرل محمد نجیب کو صدارت سے ہٹانے کی حمایت کی۔ مصری انقلاب کی تاریخ کا ایک دل چسپ پہلو جس کا میں عینی شاہد ہوں یہ ہے کہ جیسے ہی جنرل نجیب کو صدارت سے معزول کرنے کی خبر پھیلی ، عوام نے غم و غصے کے اظہار میں مظاہرے شروع کردیے۔ دو یا تین دن کے بعد انقلابی کمانڈ کونسل نے جنرل نجیب کی صدارت کے عہدے پر واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ شاید ستمبر یا اکتوبر کامہینہ تھا۔ میں اس وقت قصرعابدین کی شارع عبدالعزیز کے فلیٹ میں ہی مقیم تھا۔ گیارہ بارہ بجے کے قریب بلڈنگ سے باہر آیا تو دیکھا کہ سڑک پر لوگ خوشی سے ناچ رہے ہیں اور راہ گیروں کو شربت پلا رہے ہیں۔ مجھے بھی ایک دکان دارنے شربت پیش کیا ، آگے بڑھا تو دیکھا کہ قصر عابدین کے سامنے وسیع میدان میں بڑا ہجوم ہے۔ معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر پہلے لوگ یہاں جنرل نجیب کو کاندھوں پر اٹھائے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔
ابتدا میں انقلابی افسران اور جنرل نجیب نے اعلان کیاتھا کہ ملک میں آزاد انتخابات کرائے جائیں گے۔ بہت سی سیاسی پارٹیوں کوالیکشن کی تیاری کا حکم بھی دے دیا گیاتھا۔ ملک میں ایک عجیب سرخوشی اور گہما گہمی کا راج تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ انقلابی افسران حسن البناشہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے اور انھو ں نے اعلان کیا تھاکہ اخوان پر جو ظلم ہوا ہے اس کی پوری پوری تلافی کی جائے گی۔ لیکن بعد میں یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ بعض وہ اعلیٰ اخوانی فوجی افسران جن کا انقلاب میں اہم کردار تھا، ان کو ملک چھوڑ کر خفیہ طور پر بھاگنا پڑا، تاکہ جمال عبدالناصر کی داروگیرسے بچ سکیں۔ ان میں نمایاں نام کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف کاتھا ، جنھوں نے شاہ فاروق کو تخت چھوڑنے اور ملک بدر ہونے پر مجبور کیاتھا۔
انقلاب سے ڈیڑھ دوسال قبل وفدی حکومت کے عہد میں اخوان پر سے پابندی اُٹھا لی گئی۔ اخوان پر پہلی پابندی ۱۹۴۹ء میں لگی اور حسن البناشہید کے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو سرکاری کارندوں کے ہاتھوں شہادت کے ایک سال بعد، ان کی جماعت کو پھر فکر و عمل کی آزادی مل گئی تھی۔ انقلاب کے بعد اس میں مزید سرگرمی آگئی۔ میں اپنے اخوانی دوستوں کے ساتھ محلہ الحلمیۃ الجدیدۃ کے ، مرکز اخوان میں ان کے ہفتہ وار منگل کے اجتماع میں جاتاتھا، جو بعد مغرب ہوتاتھا اور جس میں اخوان کا کوئی مقرر یا بیرونی مہمان اسلامی موضوعات پر تقریر کرتاتھا۔
جنوری ۱۹۵۴ء کی ایسی ہی ایک شام میں نے وہاں ایران کی تحریک فدائیان اسلام کے ایک نوجوان راہ نما نواب صفوی کی تقریر سنی (ایک سال بعد شہنشاہ ایران نے ان کو پھانسی دے دی تھی )۔ فصیح و بلیغ عربی میں یہ تقریرکیاتھی ، ایک شعلہ افشانی تھی۔ دوران تقریر اخوان کا خاص مفصل نعرہ ، اللّٰہ غاتینا ، والرسول زعیمنا (مجھے زعیمنا ہی یاد ہے اور یوسف القرضاوی نے اپنی تازہ کتاب الاخوان المسلمون میں یوں ہی لکھاہے ، بعض کتابوں میں ’قدوتنا‘ ہے)، والقرآن دستورنا ، والجہاد سبیلنا و الموت فی سبیل اللہ اسمٰی امانینا، کئی ہزار افراد کی آواز میں بلند ہو رہاتھا (اللہ ہمارا مقصود و مطلوب ہے ، رسول ؐہمارے لیڈر ہیں ، قرآن ہمارا دستور ہے ، جہاد ہمارا طریقہ کار ہے اور اللہ کے راستے میں شہادت ہماری عزیز ترین آرزو ہے)۔ جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ محسوس ہورہاتھا کہ یہ تین چا ر ہزار افراد اگر چاہیں تو ابھی مرکز اخوان سے نکل کر پورے شہر پر قبضہ کرسکتے ہیں۔
انقلابی فوجی افسران جو اپنی بیرکوں وغیرہ میں خفیہ اجتماعات و ملاقاتیں کرتے تھے ، ان کو یہ عوامی مقبولیت کہاں حاصل تھی، جو اخوان کو تھی۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ انقلاب کے فوراً بعد تمام سیاسی پارٹیاں (احزاب ) غیر قانونی قرار دے دی گئی تھیں ، سواے اخوان المسلمون کے، کیونکہ اس کا سرکاری نام حزب (پارٹی ) اخوان المسلمون نہیں تھا، بلکہ جماعت اخوان المسلمون تھا، اور مصر میں ’حزب ‘ کا لفظ سیاسی پارٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح اخوان ہی تنہا میدان میں تھے اور ان کے ذریعے انقلاب کو عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔
جمال عبدالناصر اخوان کے جذبۂ جہادکا مشاہدہ کرچکاتھا ، ان کی ممتاز عسکری کارکردگی کو ۱۹۴۸ء کی پہلی جنگ فلسطین میں دیکھ چکاتھا‘ اور انقلاب سے قبل مختلف خفیہ اجتماعات میں ان کے ساتھ شریک ہوچکاتھا۔ وہ ان کی عوامی مقبولیت اور انتظامی قابلیت سے واقف تھا۔ اب انقلاب کے بعد وہ خود زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتاتھا اور اپنے قومی اشتراکی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتاتھا۔اخوان اپنے اسلامی فکر و عمل سے اس کے راستے میں حائل تھے۔ اس لیے اس نے اخوان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ۱۹۵۴ء کی ابتداسے مختلف طریقے اختیار کیے۔ پہلے جنوری ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی میں اخوانی طلبہ اور سرکاری تنظیم ہیئۃ التحریر کے نوجوانوں کے درمیان جھڑپ کو بہانہ بنا کر اخوان پر پابندی لگادی اور بہت سے اخوانیوں کو قید وبند میں مبتلا کیا۔ پھر مارچ ۱۹۵۴ء میں یہ پابندی اٹھی تو اخوان از سرنو سرگرم عمل ہوگئے۔
جولائی ۱۹۵۴ء میں ابتدائی طور پر ایسے ایک معاہدے پر انقلابی حکومت اور انگریز وں کے مابین دستخط ہوگئے۔ اس کمزور اور انجام کار ضرر رساں معاہدے کی تکمیل کرانے میں امریکا او ر بھارت کی نہرو حکومت کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس سلسلے میں ، میں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ پیش کرتا ہوں۔
میں اس زمانے میں بھارتی شہریت کا حامل تھا۔ جدہ سے ایک مشہور کانگریسی سیاسی شخصیت عبداللہ مصری قاہرہ آئی ہوئی تھی۔ ان سے مکہ مکرمہ میں میری ملاقات رہی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ قاہرہ میں بھارتی سفیر علی یاور جنگ عربی زبان پڑھنا چاہتے ہیں ، آپ یہ کام انجام دیں۔ میں تیار ہوگیا۔ ہفتے میں دوتین اسباق ہوئے تھے کہ سفیر صاحب کو اقوام متحدہ جانا پڑ گیا۔ اس دوران بھارتی سفارت خانے میں میری ملاقات ملٹری اتاشی کرنل مدن سے ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ سفیر صاحب کی جگہ میں ان کو عربی پڑھا دیا کروں۔ یہ اپریل یا مئی ۱۹۵۴ء کا واقعہ ہے۔ ابھی مجھے انھیں پڑھاتے ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا کہ انھوں نے مجھ سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں آج کل مصری فوجی حکومت اور انگریزوں کے مابین سویز کینال سے متعلق سمجھوتے کے لیے ثالثی کے طور پر گفت و شنید میں سخت مصروف ہوں ، اس لیے عربی زبان کی تعلیم کا یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔ مصر کے اس اہم مسئلے میں بھارت کی ثالثی کا یہی کردار تھا جو مصر اورخاص طور پر جمال عبدالناصر کے بھارت سے پایدار تعلق کی بنیاد بنا۔ورنہ اس سے قبل جب اسی سال کی ابتدا میں جنرل محمد نجیب اور جمال عبدالناصر کے مابین سخت اختلافات رونماہوئے تھے تو انھیں حل کرانے میں پاکستان کے سفیر طیب حسین کا بڑا ہاتھ تھا۔ تب پاکستان سے نئی مصری فوجی حکومت کی بڑی دوستی تھی ، جو بعد میں مختلف وجوہ کی بنا پر دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔
۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد ۱۹۶۵ء کے چوتھے دور ابتلا میں ان کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور پانچ سال کے بعد ۱۹۷۱ء میں ان کو جیل سے رہائی ملی۔ ۱۹۹۶ء میں وہ اخوان المسلمون کے پانچویں مرشد عام منتخب ہوئے(ان کے اور باقی اخوان کے مرشدین کے بارے میں ملاحظہ ہو میری کتاب تحریک اخوان پر میرا مقدمہ، ص ۲۴-۳۵)۔ ستمبر۲۰۰۳ء میں ۳۰سال بعد جب میں مصر گیا تو اس سے چند ہی برس قبل مرشد مصطفی مشہور وفات پاچکے تھے اور مامون الہضیبی چھٹے مرشد عام تھے ، جن سے محلہ الروضہ کے چھوٹے سے مرکز اخوان میں ملاقات ہوئی، یہیں میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ یہ مرکز پرانے مرکز کے مقابلے میں جو وسط شہر کے محلہ الحلیۃ الجریدۃ میں تھا، بہت چھوٹا ہے۔
یہ سال جمال عبدالناصر کے استبدادای مزاج اور پالیسیوں کے لیے آزمایش کا سال تھا۔ جنرل محمد نجیب جنھوں نے آزاد افسران کی تنظیم کے مطالبے پر انقلاب کی قیادت اور ملک کی صدارت سنبھالی ، ان سے جمال عبدالناصر سب کچھ چھیننا چاہتاتھا ، لیکن فوج کے ایک حصے نے محمدنجیب کا ساتھ دیا۔ دوسری طرف عوام نے نجیب کے لیے مظاہرے کیے اور عبدالناصر کو مجبوراً ان کا دوسری بار فوج کے کمانڈر ان چیف اور صدر جمہوریہ کی حیثیت سے تقرر کرنا پڑا۔ تیسر ی طرف اخوان المسلمون تھے جو اس بات کے لیے تیار نہ تھے کہ ملک کو قومیت اور لادینی اشتراکیت کے راستے پر چلایا جائے۔ جمال عبدالناصر ان کی عوامی قوت اور جذبۂ جہاد و قربانی سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ فاروق کی باشاہت کے خلاف مزاحم اصل قوت وہی تھے، اور فاروق کے حسن البناکو قتل کرانے کے بعد عوام کی ہمدردیاں اخوان کے ساتھ کم ہونے کے بجاے مزید بڑھ گئی ہیں۔ پھر یہ کہ وہ اس انقلاب میں بھی بڑے حصہ دار ہیں۔ کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف اخوان کے ہمدردرہے ہیں اور انھی نے شاہ فاروق کو اپنی معزولی کے پروانے پر دستخط کے لیے مجبور کرکے اٹلی کے لیے ملک بدر کیاتھا۔
اس صورت حال اور اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر جمال عبدالناصر نے اپنی خفیہ فوجی پو لیس کے ذریعے ایک بہت ہی معمولی شخص پلمبر کو یہ ڈراما رچانے کے لیے قربانی کا بکرابنایا ، تاکہ اس طرح وہ اخوان کو بدنام کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرے ،جو اس کے سب سے بڑے مدمقابل تھے۔مگر اس کے لیے اس کے کارندوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بڑا بھونڈا تھا۔ بھلا ایک ملک کے سربراہ (اس وقت جنرل نجیب صرف نام کے صدر تھے،سارے اختیارات جمال عبدالناصر کے ہاتھ میں تھے )اور ایک قائد انقلاب کو قتل کرنے کے لیے اخوان ایک اناڑی پلمبر کو مشن سونپتے ، پھر اس کو صر ف دو مصری پائونڈ اس کام کے لیے دیتے۔ ایک غیر جانب دار مصری مؤرخ و مصنف پروفیسر ڈاکٹر شبلی نے اپنی کتاب تاریخ الحضارۃ الاسلامیہ کی جلد ۹ میں بہت اہم دلائل دیتے ہوئے اخوان پر اس الزام کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے۔ (ص ۴۲۰تا۴۲۹)۲؎
اس سلسلے میں ایک ذاتی واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اس ڈرامے سے دو تین ماہ پہلے یہ محمود عبداللطیف ہم لوگوں سے ملنے ہمارے فلیٹ پر شام کو آیاتھا۔ درمیانی قداور جسامت کا یہ شخص جو واقعتا امبابہ کا رہنے والا اور پلمبر تھا ، خاموش طبیعت کا عام اخوانی لگ رہاتھا ، اس موقع پر ہمارا اخوانی بھائی محب المحمدی بھی آگیا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اور محمود عبداللطیف کانام اخباروں میں آیا تو ہمیں تعجب ہوا۔ پھر یہ کہ ہمارے فلیٹ کی ان دنوں انٹیلی جنس والوں کی طرف سے نگرانی ہوتی تھی۔ اپنے ایک منزلہ فلیٹ کی سڑک پر کھلنے والی کھڑکی سے ہمارے ساتھی اکثر وہاں ایک آدمی کو کھڑا دیکھتے تھے۔ اگر محمود عبداللطیف کا اس قصے میں ہاتھ ہوتا تو اس واقعے کے بعد پولیس ہمارے فلیٹ پر دھاوا بولتی اور ہم سبھی کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کرلیتی۔
اس خود ساختہ جھوٹی کہانی کا مقصد اخوان کی اسلامی تحریک اور ان کی قوت کو تباہ کرناتھا۔ چھے اخوانی راہ نمائوں کو سخت تعذیب کے بعد پھانسی دے دی گئی، جن میں شیخ محمد فرغلی جیسے ازہری عالم اورجسٹس (ریٹائرڈ) عبدالقادر عودہ جیسے ممتاز قانون دان اور دو جلدوں میںاعلیٰ درجے کی تحقیقی کتاب التشریع الجنائی فی الاسلام (اسلام کا فوج داری قانون ) کے مصنف بھی شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبلی کے مطابق ان کا جرم درحقیقت صرف یہ تھا کہ وہ مارچ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے خلاف اور جنرل محمد نجیب کی تائید میں عوامی مظاہرے کے وقت نجیب کی واپسی پر قصرعابدین (صدارتی قیام گاہ)کی بالکونی پر کھڑے تھے۔
اس دار وگیر کے زمانے میں اخوان کے ہزاروں کارکن کسی نہ کسی طریقے سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ انھی میں سے دو نوجوان محمد عرفہ اور اسماعیل ہضیبی (اخوان کے دوسرے مرشد عام کا بھتیجا جس کو ۱۵ سال قید کی سزا غیر حاضری میں سنائی گئی تھی )دمشق پہنچ گئے تھے ،وہ ثابت قدم تھے۔ میں دورانِ تعلیم ان کے ساتھ ایک سال کے قریب (۱۹۵۷ء) رہا۔ ان کی زبانوں پر بھی قرآن کریم کی یہی آیت تھی جس کا اوپر ذکرہوا ہے۔ اسی فلیٹ میں دوپہر کے کھانے پر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہماری ملاقات کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف سے ہوئی تھی جو کسی نہ کسی طریقے سے جمال عبدالناصر کی جیل سے بھاگ نکلے تھے اوراب ترکی جا رہے تھے۔
استاذ سعید رمضان مرحوم اور بعض دیگر اخوانی راہ نما ۱۹۵۴ء کے اس واقعے سے پہلے ہی ایک کانفرنس میں شرکت کے سبب دمشق میں موجود تھے۔ جمال عبدالناصر نے ایسے چھے ممتاز اخوانی راہ نمائوں کی مصری شہریت ختم کردی تھی۔ مصر کے بعدمیرا اکثر ان سے ملنا رہتا تھا اور ان کا ماہانہ مجلہ المسلمون قاہرہ کے بعد اب دمشق سے شائع ہونے لگاتھا۔ اس زمانے میں انھوں نے اپنے اس مجلے میں جمال عبدالناصر پر ایک مضمون لکھاتھا جس کا عنوان تھا :’فرعونِ مصر‘۔ اسی لقب سے اس کو اس کے ایک فوجی رفیق انقلاب اور سابق وزیر عبداللطیف بغدادی نے اپنی کتاب میں یاد کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ نصف صدی سے قبل اس شدید ابتلا اور پھر ۱۹۶۵ء میں دوسری ابتلا، پھانسیوں (سید قطب شہید کی پھانسی )، قید و بند اور جلا وطنی اور معاشی و خاندانی مصائب کے باوجود اخوان کی تنظیم آج بھی مصر میں فعال ہے۔جمال عبدالناصر کی قوم پرستانہ اشتراکیت اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس فرعون کا اب کوئی نام بھی لینا پسند نہیں کرتا،جب کہ اخوان نے ان پر سیاسی پابندیوں کے باوجود آزا د حیثیت اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پرگذشتہ انتخابات میں ۸۸سے زائد نشستیں حاصل کی ہیں۔ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ(الرعد۱۳:۱۷) ’’اور جہاں تک (سلابی) جھاگوں کا تعلق ہے تو وہ رائیگاں ہوتی ہیں اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے‘‘۔
امام حسن البنانے اخوان المسلمون میں جو ثبات و صلاحیت پیدا کردی تھی ، یہ اسی کافیض تھا کہ تعذیب و قتل اور مسلسل سخت ابتلا کی آندھیاں بھی ان کو ہلا نہ سکیں۔ مرد تو مرد اخوانی خواتین بھی ناصری جلادوں کے ہاتھوں جیل میں سخت تعذیب کا شکار رہیں،لیکن ان کے پاے ثبات میں جنبش تک نہیں آئی۔ ۱۹۶۵ء کے دورابتلا میں سیدہ زینب الغزالی اور سید قطب شہید کی بہنوں حمیدہ قطب اور امینہ قطب وغیرہ نے جیل خانوں میں بڑی تعذیب برداشت کی ،لیکن اپنے مشن پر قائم رہیں۔
اس تعذیب کا ایک شکار ہمارا دوست محب حسنی المحمدی بھی ہوا۔ وہ ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات میں ایک کورس پڑھنے کے ساتھ ساتھ رات کو روزنامہ الجمہوریہ میں بھی کام کرتاتھا۔ جمال عبدالناصر کے قتل کے ڈرامے کے بعد جہاں ہزاروں اخوانی گرفتار کیے گئے تھے ،وہاں اس کو بھی گرفتار کیاگیا۔ یہ دو ہفتے جیل میں رہنے کے بعد ہم سے ملنے آیا۔ اس کا سرمونڈ دیا گیاتھا اور اس نے ہمیں پیٹھ دکھائی جو کوڑوں کی مار سے اب تک نیلی تھی اور کہیں کہیں سے کھال ادھڑی ہوئی تھی، لیکن اس کا آہنی عزم اب بھی ویسا ہی تھا۔ یہ اخوان کی اس تنظیم میں نہ تھا ، جو نہر سویز کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف گوریلاحملوں کے لیے ۱۹۵۱ء میں بنائی گئی تھی جس سے مصری وفدی حکومت اور فوجی حکومت واقف تھی۔محب المحمدی کو اس کے بقول صرف شبہے میں پکڑا گیاتھا،اور محض یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا اس تنظیم سے کوئی تعلق تو نہیں جیل میں ننگا کرکے اس کی کھال ادھیڑ دی گئی تھی۔ خدا شاہد ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہنستاتھا۔اس اذیت ناک عمل کی اس پر کوئی دہشت ،کوئی خوف طاری نہ تھا۔ وہ اور میرے دوسرے فلیٹ کے اخوانی ساتھی امام حسن البناشہید کو دیکھ چکے تھے ، سن چکے تھے ، ان کے ساتھ بیٹھ چکے تھے ، ان کی صحبت نے ان نوجوانوں کو جو اَب ۷۰ برس کے بوڑھے ہیں یا دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، کندن کردیاتھا۔
امام حسن البنا نے اپنی کتاب مذکرات الدعوۃ و الداعیۃ (حسن البناشہید کی ڈائری) میں تصوف کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ شیخ حسن البنا تصوف کے خانقاہی نظام سے متفق نہیں تھے ، تاہم وہ اس کو عبادات کا ذوق و شوق او راس میں حلاوت پیدا کرنے کاذریعہ سمجھتے تھے۔ واقعی وہ اپنے جوانی کے ابتدائی زمانے سے اس کے سبب تہجد و دیگر نوافل اور نفلی روزوں اور اذکار و اورادکے پابند تھے۔اسی ذوق عبادت کے تحت انھوں نے بعد میں اخوان کے لیے مسنون ادعیہ واوراد پر ایک چھوٹی سی کتاب الماثورات لکھی، جو عام طور پر اخوان پڑھتے ہیں۔ شیخ حسن البنا متحرک یا تحریکی (dynamic)تصوف کے قائل تھے۔ اسی لیے جب انھوں نے تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی جو حرکت و عمل پر مبنی تھی تو ان کے شیخ طریقت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ تب انھوں نے اپنے شیخ کے اختلاف پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی تحریک پر عمل پیرا رہے۔
اس غرض کے لیے حسن البنا جمعیۃ نہضۃ الاسلام کے صدر شیخ یوسف الدجوی کے پاس گئے ، ان کی محفل میں کچھ علما اور ممتاز لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان طالب علم حسن البنانے ملک میں بڑھتی ہوئی لادینیت اور بے حیائی کا شکوہ کیا۔ شیخ یوسف نے عام بزرگوں کی طرح کہا جو کچھ ہوسکتا ہے کرو کہ لایکلف اللّٰہ ---‘‘مگر خود حسن البنا کہتے ہیں :میں نے کہا نہیں، یا سیدی ! یہ کمزوری اور اپنی ذمہ داری سے فرار کی بات ہے۔ آپ کو کس کا ڈر ہے ، حکومت کا، ازہر کا ؟آپ کو گزارہ الائونس ملتا ہے ، اپنے گھر بیٹھے ہیں، کوئی کام نہیں ، اسلام کے لیے کام کیجیے۔ ہماری قوم مسلمان قوم ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہے۔ میں نے ان لوگوںکو قہوہ خانوں میں ، سڑکوں پر اور مسجدوں میں دیکھا ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن چونکہ کوئی ان کی راہ نمائی نہیں کررہا ہے ، اس لیے اپنے پرجوش ایمان کے باوجود وہ ایک ضائع شدہ طاقت ہیں، اور اسی سبب سے لادین اور بدکردار عناصر کے اخبارات و رسائل، جو آپ لوگوں کی لاتعلقی کے سبب سرگرم ہیں ، ان کو گمراہ کررہے ہیں۔ اگر آپ لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو یہ عناصر اپنے بلوں میں گھس جائیں گے۔ یا استاذ !اگر آپ اللہ کے لیے قدم اٹھانا نہیں چاہتے ہیں تو اپنی دنیا اور اپنی روٹی کے لیے ہی اٹھیے، کیونکہ اگر اسلام مٹ گیا تو ازہر بھی مٹ جائے گا ، علما بھی مٹ جائیں گے۔ پھر نہ آپ کو کچھ کھانے کے لیے ملے گا اور نہ خرچ کرنے کے لیے پیسہ ملے گا۔ اگر اسلام کے دفاع کے لیے نہیں اٹھتے تو اپنی ذات کے لیے اٹھیے، اپنی دنیا کے لیے ہی سرگرم عمل ہوجائیے۔ اگر آخرت کے لیے عمل نہ کیا، تو اے شیخ محترم! یہ دنیاا ور آخرت دونوں ہی رائیگاں جائیں گے۔
حسن البناشدت جذبات میں اسی سوز دروں سے بولتے رہے ، لیکن حاضرین میں کچھ لوگوں کو نوجوان طالب علم کا یہ لہجہ پسند نہیں آیا۔ ایک مریدنے سختی سے انھیں جھڑکا کہ ’’تم نے شیخ کے ساتھ گستاخی کی ہے اور علماے ازہر کی بھی تو ہین کی ، اسلام کمزور نہیں پڑے گا۔ اللہ نے خوداس کی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ تم کون ہوتے ہویہ ڈراوے دینے والے‘‘۔لیکن حاضرین میں سے ایک معززشخص احمد بے کامل نے ان صاحب کو روکا : ’’نہیں، یہ نوجوان حق بات کہہ رہا ہے ۔ تمھارا فرض ہے کہ اٹھو ، کب تک یہ بے عملی رہے گی؟ وہ تو تم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اسلام کی نصرت کے لیے جمع ہوجائو۔اگر تمھیں جگہ درکار ہے تو میرا گھر موجود ہے ،پیسہ چاہیے تو خیرخواہ مسلمانوں کی کمی نہیں ، تم ہمارے راہ نما ہو ، ہم تمھارے پیچھے ہیں ، لیکن یہ حیل وحجت کسی کام کی نہیں۔۳؎
اس کے بعد شیخ یوسف الدجوی ایک دوسرے بزرگ شیخ محمد سعید کے یہاں جانے کے لیے اٹھ گئے۔ حسن البنا بھی ان کے ساتھ ہوگئے اور ان کے گھر جو کچھ پیش آیا وہ حسن البنا شہیدکی اللہ کے یہاں مقبولیت کی پہلی نمایاں جھلک تھی۔
الامام البنا خود اس رقت آمیزاور اثر انگیز واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں : ’’ہم سب شیخ دجوی کے مکان سے قریب ہی شیخ محمد سعید کے یہاں منتقل ہوگئے ، اور میں نے کوشش کی کہ شیخ دجوی کے قریب ہی بیٹھوں ، تاکہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ بخوبی کہہ سکوں۔ اس موقعے پر رمضان کی جو مٹھائیاں ہوتی ہیں حاضر کی گئیں۔ وہ لینے کے لیے شیخ بڑھے تو میں ان کے قریب آگیا۔ شیخ نے کہا تم یہاں بھی ہمارے ساتھ آگئے۔ میں نے کہا :جی ہاں ، جب تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جائیں گے، آپ کو چھوڑوںگا نہیں۔ شیخ دجوی نے مجھے کھانے کے لیے مٹھائی دی اور کہا کہ یہ کھائو ،ان شاء اللہ ہم سوچیں گے۔ اس پر میں نے کہا یاسیدی! مسئلہ اب سوچتے رہنے کا نہیں ہے، ضرورت عمل کی ہے۔ اگر مجھے مٹھائی وغیرہ کھانا ہوتی تو میں ایک قرش(روپیہ ) میں خرید کر اپنے گھر میں بیٹھ کر آرام سے کھاتا اور یہاں آنے کی مشقت گوارا نہیں کرتا۔ یاسیدی!اسلام کے خلاف اتنی سخت جنگ جاری ہے او راسلام کے پیروکار ، اس کے حمایتی اورمسلمانوں کے پیشوا اس عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جو کچھ کھا رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا آپ سے حساب نہیں لے گا؟اگر آپ لوگوں کو اپنے سوا اسلام کے کوئی اور پیشوا اور دفاع کرنے والے معلوم ہوں تو براہ کرم مجھ کو انھی کا پتا دے دیجیے، میں ان کے پاس چلا جائوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے ان کے پاس وہ مل جائے جو آپ کے پاس نہیں ( یعنی اسلام کا درد)‘‘۔
’’ایک گھڑی کے لیے عجیب خاموشی طاری ہوگئی اورپھر شیخ کی آنکھوں سے شدت سے آنسو بہنے لگے ،جس سے ان کی داڑھی تر ہوگئی اور حاضرین پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ شیخ نے خود ہی اس خاموشی کو توڑا اور گہرے غم اور شدید احساس میں کہا :میں کیا کرسکتا ہوں حسن؟میں نے کہا یاسیدی! معاملہ آسان ہے، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ ۲:۲۸۶)میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اہل علم اور اصحا ب جاہ و منزلت میں سے جن میں آپ کو دینی حمیت نظر آتی ہے،آپ براہ کرم صرف ان کے نام شمار کرادیں تاکہ وہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ الحادی جرائد کے مقابلے میں کچھ نہیں تو ایک ہفتہ وار مجلہ ہی نکالیں ، اور ان کی کتابوں کے رد میں کتابیں اور پمفلٹ لکھیں۔ نوجوانوں کے لیے تنظیمیں بنائیں ، وعظ و نصیحت میں سرگرم ہوں ، وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے خوب۔ (ایضاً ،ص-۷۷)
مٹھائی کی پرات اٹھاکر لے جانے کا حکم دیا اور کاغذ و قلم منگوایا اور مجھ سے کہا لکھو۔ ہم نام یاد کرنے لگے۔ ہم نے کچھ علما اور بڑے لوگوں کے نام لکھے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں ، خود یوسف الدجوی، شیخ محمد الخضرحسین (۱۹۵۲ء کے مصری فوجی انقلاب کے بعد ابتدا میں ازہر کے شیخ متعین کیے گئے تھے۔ باقی بھی سب مشہور علما تھے )، شیخ عبدالعزیز جاویش ، شیخ عبدالوہاب النجار ، شیخ محمد الخضری ، شیخ محمداحمد ابراہیم اور شیخ عبدالعزیز الخولی۔ شیخ السید محمد رشید رضا کا نام آیا تو کہا :یہ بھی لکھو ، یہ بھی لکھو ، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں ہم اختلاف کریں ، بلکہ یہ اسلام و کفر کا معاملہ ہے اور شیخ رشیدرضا اپنے قلم ، علم اور اپنے مجلے سے اسلام کا بہترین دفاع کرتے ہیں۔ ‘‘(السید رشید رضا دراصل سلفی مسلک کے آدمی تھے اور تصوف و تقلید کے خلاف،جب کہ شیخ یوسف الدجوی ایک صاحب طریقت عالم تھے ، پھر بھی شیخ نے ان کا نام لکھوا یا ، ان کے مجلے سے مراد مشہورمجلہ المنارہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۷)
اس فہرست میں ان علما کے علاوہ ملک کے سربرآوردہ اشخاص کے نام بھی تھے۔ اس کے بعد شیخ ان لوگوں سے ملے جن کو وہ جانتے تھے اور حسن البنا ان سے ملے جن کو وہ جانتے تھے۔پھر ان سب مشاہیر علما او رسربرآور دہ شخصیات کے باہم اجتماعات ہوتے رہے۔ یہ بہت سے اہل علم کے لیے ایک انکشاف ہوگا، جس طرح میرے لیے ہوا کہ حسن البناکی ان کوششوں اور ان حضرات کے تعاون کے نتیجے میں ۲۰ویں صدی کے نصف اول میں مصر کا المنار کے بعد مشہور ترین مجلہ الفتح شائع ہوا، جو برسوں محب الدین الخطیب کی ادارت میں جاری رہا۔ یہی وہ مجلہ تھا جس کو ہندستان کے علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا مسعود عالم ندوی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی پڑھ کر اپنی عربی کو جلا دیتے اور اس میں اپنے مضامین شائع کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب سے راقم الحروف کو ملنے کی سعادت ۱۹۵۴ء میں حاصل ہوئی۔ اس وقت وہ مجلۃ الازھرکے ایڈیٹر تھے۔
امام حسن البنا نے دارالعلوم کالج کی طالب علمی کے زمانے میں جن علما اور سربرآورد ہ اشخاص کو اسلام کی خدمت اور تقویت کے لیے جمع کردیاتھا،ان سے ان کا رابطہ بعد میں بھی قائم رہا اور سربرآوردہ شخصیات میں سے احمد تیمور پاشا ، عبدالعزیز پاشا اور عبدالحمید بک سعید اور خاص کر موخرالذکر کی کوشش سے مصر کی مشہور تنظیم جمعیۃ الشبان المسلمین قائم ہوئی جومسلمان نوجوانوں کی مؤثر تنظیم تھی۔ شیخ حسن البنااس تنظیم کے سرگرم معاون تھے اور جس روز، یعنی ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کی شام کو ان کی شہادت ہوئی ، اس شام وہ اسی تنظیم کے دفترمیں بعض حکومتی نمایندوں سے میٹنگ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میرا بھی زمانۂ قیام مصر میں یہاں اکثر جانا رہتاتھا۔ یہ ثقافتی سماجی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور یہاں کے شان دار آڈٹیوریم میں بعض مشہور علما و ادبا کے ساتھ مجھے ایک پروگرام میں تقریر کرنے کا موقع ملا، عنوان تھا: ’دنیا میں اسلام‘۔ میں نے ہندوپاک میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی تھی۔صالح حرب پاشا اس زمانے میں اس کے صدر تھے۔
۲۰ویں صدی عیسوی میں جوعظیم دینی تحریکیں دنیا میں قائم ہوئیں، ان میں تحریک اخوان المسلمون(مصر)، تبلیغی جماعت (ہند)، اور جماعت اسلامی (ہندوپاکستان ) سب سے زیادہ دوررس نتائج کی حامل تھیں۔ان تحریکوں کے بانیوں میں سب سے کم عمر حسن البنا شہید تھے اور سب سے زیادہ کم عمری ہی میں، یعنی ۴۳سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ،اور ان کو شہادت کا شرف نصیب ہوا۔ پھر ان کی تحریک کو جس ابتلا و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ارکان جس قتل و غارت گری سے دوچار ہوئے، اگر یہ سب کچھ کسی دوسری تحریک کے ساتھ پیش آتا تونہیں کہا جاسکتا کہ ان کا کیا انجام ہوتا، لیکن الحمدللہ یہ عظیم اور جامع اسلامی تحریک آج بھی زندہ ہے۔
امام حسن البنا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ان کو ۲۰ ہزار اخوانیوں کے نام یاد تھے۔ وہ کوئی بہت بڑے مصنف نہیں تھے۔ ان سے جب بعض لوگوں نے تصنیف و تالیف کے لیے کہا تو انھوں نے جواباً کہا :’’میں کتابوں کے بجاے ایسے آدمی بناناچاہتا ہوں کہ ان میں سے اگر ایک آدمی کو بھی میں کسی شہر میں بھیجوں تو وہ اس شہر کی حالت درست کردے‘‘۔ واقعی انھوں نے ایسے افراد تیار کیے۔ایسے افراد میں، سید قطب شہید نمایاں ترین تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے اخوان کی راہ نمائی کے لیے مختلف دینی موضوعات پر آٹھ رسائل تحریر کیے، جس کا ۵۰۰ صفحات پر محیط اڈیشن بیروت سے ۱۹۶۶ء میں چھپا۔بے شک وہ چودھویں ہجری کے مجدد تھے۔ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ -
ابو کی شہادت کے وقت وفاء باجی کی عمر ۱۷برس تھی اور سیف ۱۴سال کے تھے۔ سناء ۱۱سال کی تھی۔ رجاء ساڑھے پانچ برس کی تھیں‘ جب کہ ہالہ اڑھائی سال کی تھی۔ ہماری والدہ اس وقت بیماری سے دوچار تھیں۔ وہ دل کی مریضہ بھی تھیں۔ ہالہ کی پیدایش کے بعد امی کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ابو کی شہادت کے وقت ان پر بیماری کا حملہ شدید تھا، حتیٰ کہ ان کے معالج نے کہا کہ اسقاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اس ضمن میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے انھوں نے ۱۲فروری کی تاریخ طے کردی۔لیکن ۱۱فروری ۱۹۴۹ء کی شام ابو کو شہید کردیاگیا۔ امی کی طبیعت خراب ہونے کے باعث ڈاکٹر صاحب وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت کے بعد ابو کی شہادت کے اگلے دن گھرآنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے ہمارے گھر کا مکمل محاصرہ کیاہواتھا۔ ڈاکٹر نے اصرار کیا کہ والدہ کو ہسپتال لے جایا جائے، لیکن امی نے انکار کردیا۔ پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ یہی بات چلی۔ سیف بھائی نے امی کی کمزور صحت کے باعث اسقاط سے انکار کردیا۔ ہماری ایک رشتہ دار خاتون انھیں ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئیں جنھوں نے کہا کہ ہر ۱۵روز بعد طبی معائنہ ہوتا رہے گا۔ اگر کوئی خطرہ ہوا تو پھر کوئی انتہائی فیصلہ بھی کیا جاسکتاہے۔ اللہ کو منظور تھا کہ استشہاد دنیا میں آئی اور اس کانام ابو کی شہادت کی نشانی بن گیا۔
’جدید مصر‘ نامی ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل، میرے والد صاحب سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں۔ وہ ہر منگل کو ابو کے درس کے لیے خواتین کو جمع کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے ابو سے پوچھا کہ:’’ آپ اپنی کوئی بیٹی داخل کروانا چاہتے ہیں‘‘۔ ابو نے رضامندی ظاہر کی تو انھوں نے مجھے وہاں براہِ راست پہلی کلاس میں داخلہ دے دیا۔ لیکن جب ابو نے دیکھا کہ پرنسپل کے لاڈ پیار کی وجہ سے میری پڑھائی کا معیار گررہاہے، تو انھوں نے مجھے وہاں سے وفاء بہن کے اسکول منتقل کردیا۔
ابو کبھی ہمیں افسردہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک بار دادی جان نے شادی کی ایک تقریب میں جانے کا پروگرام بنایا۔ طے ہوا کہ سیف بھائی ، وفاء بہن اور میں ان کے ہمراہ جائیں گے، لیکن جب روانگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ سامان زیادہ ہوگیا ہے اور ہمارے لیے جگہ نہیں ہے، بہ مشکل وفاء بہن اور سیف بھائی ہی بیٹھ سکتے تھے۔ اس لیے دادی جان ان دونوں کو لے گئیں اور میں اپنے کپڑوں کا بیگ تھامے وہیں کھڑی رہ گئی۔ ابو آئے انھوں نے میرے کندھے تھپتھپائے اور کہا سناء کوئی بات نہیں اور مجھے راضی کرنے کے لیے ۲۵قرش دے دیے جو اس وقت اچھی خاصی رقم تھی۔ میں پھر بھی اداس ہی رہی جس پر انھوں نے میرا بیگ اٹھایا اور مجھے ساتھ لے گئے۔
ابو صبح کام پر جاتے ،دوپہر کے کھانے کے وقت آتے ، پھر بہت تھوڑا سا آرام کرتے ، یہاں تک کہ وفاء باجی کہتی ہیں ایک بار ابو نے کہا:’’ میں تھوڑی دیر آرام کرنے لگا ہوں۔ مجھے ٹھیک سات منٹ بعد جگا دینا‘‘۔ باجی کہتی ہیں کہ میں جا کر قہوہ تیار کرنے لگ گئی کہ جتنی دیر میں قہوہ بنے گا سات منٹ ہوجائیں گے اورمیں ساتھ ہی قہوہ پیش کردوں گی۔ لیکن جیسے ہی میں قہوہ تیار کرکے پلٹنے لگی وہ میرے ساتھ کھڑے پوچھ رہے تھے۔’’ وفاء بیٹی!قہوہ بن گیا‘‘۔ ابو خود پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ذا ت کو اپنی خواہشات کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہونے دیا۔
ابو نے ہم میں سے ہر ایک کی الگ الگ فائل بنا رکھی تھی ، جس میں اس کا سارا ریکارڈ محفوظ رکھتے تھے۔ ہر بچے کے اسکول کے معاملات ، بیماری اور علاج ، حفاظتی ٹیکوں کی تاریخیں ، یہاں تک کہ ولادت سے لے کر جو جو ٹیکے لگے اور جو جو بیماری لاحق ہوئی ہر چیز کا ریکارڈ ہماری فائلوں میں رکھتے۔ یہ بھی ان کے منظم ہونے کی علامت تھی کہ کسی کام کو دوسرے کام پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں میری پھوپھیوں کو بھی معلوم ہوگیا ، ان کے گھر بھی قریب ہی تھے۔ میری ایک پھوپھی آئیں اور کمرے میں جانے لگیں جہاں ابو کی میت رکھی تھی۔ ان کے ساتھ ہی میں بھی جلدی سے چلی گئی ، کسی روکنے والے کو میرا پتا ہی نہیں چلا۔ میں نے ابو کے چہرے سے چادر ہٹائی--- اللہ کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں ابو کا وہ مسکراتاہوا چہرہ نہیں بھلاپائوں گی۔ ایک پرسکون میٹھی سی مسکراہٹ لیے ہونٹوں میں ابو کے چمکتے ہوئے دانت نظر آرہے تھے۔ میں نے انھیں دیکھاتو بالکل یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ میری ایک سہیلی نے جب مجھ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ تمھارے ابو فوت ہوچکے ہیں تو میں نے اسے کہا: نہیں وہ فوت نہیں ہوئے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ کے پاس چلے گئے ہیں لیکن جلد واپس آجائیں گے۔ میں نے خود ان کا چہرہ دیکھا ہے وہ فوت نہیں ہوئے۔
پھر میرے دادا نے ابو کو غسل دیا۔ انھیں کفن پہنایا۔ گورکن تابوت لے آیا اور ابو کی میت اس میں رکھ دی گئی۔ میرے دادا فوجیوں سے مخاطب ہوئے اور کہا :’’ میرے ساتھ میرے بیٹے کا جنازہ تو اٹھوا دو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا’’ہمیں آرڈرنہیں ہے ‘‘۔وفاء باجی چلا اٹھیں: ’’ جنازہ تو اٹھائیں کندھا کون دے گا‘‘۔ لیکن وہ نہیں مانے اس پر میری دادی جان اٹھیں اور کہا: ’’اپنے بیٹے کاجنازہ میں خود اٹھائو ں گی‘‘۔ وہ تابوت کی طرف بڑھیں تو اخوان سے تعلق رکھنے والی چند خواتین جو اس وقت اندر آنے میں کامیاب ہوگئی تھیں وہ بھی آگے بڑھیں اوراس دہشت کے عالم میں خواتین نے امام حسن البنا شہید کا جنازہ اٹھایا۔
ابو کی وفا ت کے ۱۰ سال بعد دادا اللہ کو پیارے ہوئے تو انھیں ابو کے پہلو میں دفن کرنے کے لیے لے جایا گیا۔۱؎ اس وقت ابو کی قبر کھولی گئی تو ایک حیرت ناک منظر تھا کہ ۱۰ سال بعد بھی ابوکا تابوت اسی طرح صحیح سالم تھا۔ میت کے چہرے کے اوپر جو شیشہ لگا ہوتاہے اس میں سے نظر آیا کہ صرف تابوت ہی محفوظ نہیں بلکہ چہرے سے کفن کھلا ہوا تھا اور ابو کا چہرہ بالکل صحیح سالم تھا۔ اسی طرح آنکھیں موند رکھی تھیں۔ داڑھی کے بالوں کی جگہ کچھ نشان تھے۔ یہ اب سے تقریباً ۱۰سال پہلے کا واقعہ ہے۔
m امام کی شہادت کے بعد آپ کی والدہ مرحومہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہوگا؟
۲۰ویں صدی ، مغربی مفکرین کی تحریرات میںعموماً ’سیاسی اسلام‘ کی صدی قرار دی جاتی ہے۔ اسلام نے اس صدی میں مسلم امت کو نہ صرف مغربی سامراج کی غلامی سے نکلنے میں قوت محرکہ فراہم کی، بلکہ دنیا کے نقشے پر اس صدی میں وہ تحریکات اسلامی ابھریں جن کا مشترکہ ہدف اور مقصد ایک صالح اخلاقی معاشرے اور نظام حکم کا قیام تھا۔ ان تحریکات نے روایتی اسلامی تعبیر سے ہٹ کر اپنا رشتہ براہ راست قرآن و سنت سے جوڑتے ہوئے دین کی حرکی تعبیر اپنے ادب ، تنظیم اور نظام تربیت کے ذریعے امت مسلمہ کے سامنے رکھی۔ امت مسلمہ نے جو اپنے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی زوال کی چبھن کومحسوس کررہی تھی اور جس کے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی سامراج کے زیراثر اس کے اتحاد کی علامتی خلافت کی جگہ مغربی لادینی نظام کو رائج کردیاگیاتھا۔ وہ اُمت جو الجزائر سے انڈونیشیا تک کہیں فرانسیسی ، کہیں پر تگالی،کہیں اطالوی اور کہیں انگریزی سامراج کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ اُمت نے اس صالح مقصد کے حصول کے لیے نئی فکر اور تعبیر پر الجزائر سے انڈونیشیا تک استقبال کیا۔ مختلف ناموں اور عنوانات سے اٹھنے والی اس تحریک نے امت کے سنجیدہ ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جو امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے، امید کی ایک کرن دکھائی اور یوں لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔
اس تناظر میںامام البنا نے اپنی تحریک اصلاح کا آغاز کیا۔ ان کی حیات ، تحریک کے تاریخی ارتقا، اشاعت فکر ، اداروں کے قیام ، سیاسی اتار چڑھائو ، مختلف عناصر کے ساتھ اتحاد اور ٹکرائو کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کرتے ہوئے، اس مقالے میں ہمارا مقصد صرف یہ دیکھناہے کہ بعض معروف مغربی مفکرین امام البنا اور ان کی تحریک کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ممکنہ اختصار کے ساتھ ہم صرف چند اشارات کی شکل میں اس موضوع سے بحث کریں گے۔
مغربی مفکرین بالعموم ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو روایت پرست ، رجعت پسند، بنیاد پرست عسکریت پسند ،ملوکیت کی پشت پناہ اور اس سے ملتے جلتے متضاد القاب سے یاد کرتے ہیں۔ عموماً یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ تحریکات ایک تصوراتی اسلام (Utopia)کی طرف دعوت دیتی ہیں، جب کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرجاتی ہیں۔ یہ ایک ایسے ماضی کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہیں جو تاریخ کے اور اق میں دفن ہوچکاہے۔ ان پر یہ الزام بھی دھرا جاتا ہے کہ یہ اس بوسیدہ ڈھانچے کو کوہ کنی کرنے کے بعد ایک حیات نو بخشنے کی خواہش میں گرفتار ہیں اور یہ تحریکات تاریخ کی رفتار اور تبدیلیوں سے کوئی آگاہی نہیں رکھتیں۔ ان مفروضات کو کلید تصور کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ ان تحریکات کی پکار سے صرف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ، خیالات میں گم رہنے والے اور اپنے مروجہ معاشروں سے عدم اطمینان رکھنے والے افراد ہیں۔اس قسم کے تصورات کی بنا پر اسلامی تحریکات کو بادی النظر میں بآسانی بنیاد پرست اور قدامت پرست یاروایت پسند کا عنوان دے دیا گیا۔
بعض جدید مغربی مفکرین نے ایک قدم آگے بڑھ کر نہ صرف اصلاح اور تبدیلی کی قیادت کے جذبے سے سرشار ان اسلامی تحریکات کو، بلکہ خود اسلام کو امن عالم اور جدید مغربی لادینی سیاست و معیشت پر مبنی نظام کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے ساتھ کسی مکالمے یا تبادلۂ خیال کے امکان کو ردکرتے ہوئے ٹکرائو اور قوت کے ذریعے زیر کرنے کی تلقین سے بھی گریز نہیں کیا۔ بعض مغربی بنیاد پرست مفکرین مغرب کی عسکری اور معاشی برتری سے سرشار نہ صرف اسلامی احیا کی تحریکات کو بلکہ خود اسلام کو راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنا ہدف بنا بیٹھے۔ اس سلسلے میں معروف امریکی ماہر سیاسیات پروفیسر سیمویل پی ہن ٹنگٹن کا صرف ایک جملہ مغرب کی مذہبی بلکہ سیاسی و عسکری قیادت کے حالیہ ذہن کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتاہے:
The underlying problem for the West is not Islamic Fundamentalism, it is Islam ,a different civilization whose people are convinced of the superiority of their culture and are obsessed with the Inferiority of their power.۱؎
مغرب لیے بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام ہے۔ یہ ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار سے محرومی کا احساس ان پر چھایا ہوا ہے۔
اتنے واشگاف الفاظ میںاسلام کو بجاے خود ایک خطرہ قرار دینا علمی بوکھلاہٹ اور ایک بنیاد پرست ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک ہی تیرسے کئی شکار کرتے ہوئے ایک دوسرے مغربی مصنف جان لافن نے اسلامی تحریکات اصلاح کو ایک جانب مغرب کے لیے خطرہ اور دوسری جانب خودان ممالک کے حکمرانوں اور حکمران طبقوں کے لیے سخت مہلک قرار دیا ہے۔پھر ان کا موازنہ یورپ کی اشتراکی تحریک سے کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ان کے ہتھکنڈے بھی وہی ہیں جو اشتراکی تنظیمات کے ہوتے ہیں یعنی یہ پیشہ ورجنونی اور ’روایتی ترقی پسند‘ہیں جو ہر لمحہ حملہ کرنے کی تاک میں صبر و استقامت سے منتظر رہتے ہیں۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ بات یوں کہی گئی ہے :
" The third group of millitant leader, the "traditional progressives", can for the West be the most dangerous of all, though short-term they are even more dangerous to the present political leaders of Arab regimes. Professional zeaolts , these men are more worldly wise than the ayatullahs . They know that their Islamic Ideal can be reached and held ---through political action. They use violance as a deliberate means to a desired end. Their strength is their group discipline and motivation. I have always been struck by the similarity of their orgnization with that of European Communists - the same emphasis on self contained cells the courier contact with other cells, the policy of working and watching while being ready to strike. The most obvions samples are the Muslim Brotherhood in Arab World and Jamaat-e-Islami in Pakistan.۲؎
جنگ جو قائدین کا تیسرا گروہ: ’روایت پسند ترقی پسند‘ مغرب کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے‘ اگرچہ مختصر مدت میں وہ عرب حکومتوں کے موجودہ سیاسی قائدین کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ پیشہ ور انتہا پسند‘ آیت اللہ (ملاؤں) سے زیادہ دنیاوی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اسلامی نصب العین سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے اور قائم رکھا جاسکتا ہے۔ وہ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے تشدد کو سوچے سمجھے ذریعے کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ان کی طاقت‘ ان کا گروہی نظم و ضبط اور جذبہ ہے۔ مجھے ان کی اور یورپی کمیونسٹوں کی تنظیمی مماثلت ہمیشہ غیرمعمولی محسوس ہوئی: خود مکتفی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی وہی اہمیت اور دوسرے گروہوں سے کوریئر کے ذریعے رابطہ، حملے کے لیے تیار رہتے ہوئے دیکھنے اور جائزہ لینے کی حکمت عملی۔ اس کی نمایاں مثال عرب دنیا میں اخوان المسلمون اور پاکستان میں جماعت اسلامی ہے۔
اگر اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو چار نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں :
امام البنا کی تحریک اشتراکی ماڈل پر ایک شدت پسند عسکری جماعت تھی جو حملہ آور ہو کر ملکی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ایک ایک لمحہ گن کر گزاررہی تھی۔ ثانیاً مغرب اور مغرب کی حمایت کی بنا پر جو حکمران مسلمان ممالک پر مسلط ہیں، یہ ان کی دشمن تھی۔ ثالثاً اس کا اصل ہدف کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرکے اپنی من مانی اسلامی تعبیر کو دوسروں پر زبردستی نافذ کردینا تھا اور رابعاً اس کی اصل قوت اس کے وہ کارکن تھے، جنھیں اشتراکی طرز کے کمیون(commune) یا حلقوں میں تربیت دے کر مذہبی فدائی بنادیا جاتاتھا جو جنون کی حد تک اطاعت امیر پر ایمان رکھتے تھے اور اس بناپر اس دور میں سب سے زیادہ مہلک خطرے اور اسلحے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خرد مندی کے نام پر مذکورہ بالا قیاسات اور مفروضوں کی بنیاد پر کسی تحریک کا تصوراتی خاکہ بنالینا کہاں تک درست ہے اور اس قسم کے جذباتی، غیر حقیقی، متعصبانہ اور رنگ آلود بیانات معروضیت کی کسوٹی پر کہاں تک درست ثابت ہوسکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بجاے انفرادی قیاس آرائی میں تلاش کرنے کے ،خود ایک تحریک کے دستور اس کے زعما کی تحریرات اور اس کی اعلان کردہ حکمت عملی میں تلاش کیے جائیں تو شاید ایسی تحریکات کے ساتھ زیادہ انصاف کیاجاسکے۔ یہ بات دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ مغرب کے اکثر مصنف اپنے طولانی دعوئوں کے باوجود بہت کم معروضیت پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اکثر مفروضات ثانوی ذرائع معلومات اور پہلے سے مرتب کردہ احساسات پر تعمیر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض ایسے مغربی مفکرین بھی ہیںجو ان تحریکات اصلاح اور ان کے قائدین کے حوالے سے راے رکھنے میں جادۂ اعتدال سے قریب تر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثلاً معروف کناڈین محقق اور میکیگل کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے بانی، ڈائرکٹر پروفیسر ولفرڈکینٹ ول اسمتھ جنھوں نے کچھ عرصہ لاہور کے فورمین کرسچن کالج اورمسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے،جو عربی اردو اوردیگر اسلامی زبانوں سے واقفیت رکھتے تھے،وہ اخوان المسلمون پر لگائے گئے ایک فکری الزام کی تردیدان الفاظ میں کرتے ہیں:
"To regard the Ikhwan as purely reactionary would , in our judgement be false. For there is at work in it also a praise worthy constructive endeavour to build a modern society on the basis of justice and humanity, as an extrapolation from the best Values that have been experienced in the tradition from the past.۳؎
اخوان کو صرف رجعتی قرار دینا ہماری راے میں غلط ہوگا۔ اس کے اندر عدل و انسانیت اور ماضی کی روایات سے تجربے کی بنیاد پر حاصل کردہ سنہری اقدار کی بنیاد پر ایک جدید معاشرے کے قیام کے لیے ایک قابلِ تعریف تعمیری کوشش بھی بروے کار ہے۔
اسمتھ کے اس معتدل بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخوان المسلمون‘ امام البنا اور اسی طرح سید مودودی کا دورِحاضر میں ایک عادلانہ اسلامی سیاسی نظام اور معاشرے کے قیام کی کوشش کو رجعتی تحریک کہنا ان تحریکات کے ساتھ ظلم ہے۔ ایک جانب اس فکر کے حامل مغربی مفکر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ایسے مفکرین کی ایک بڑی تعداد ہے جوالبنا اور ان کی تحریک کو بنیاد پرست قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔
یہ بات کہ امام البناعسکریت پسند جنگ جو تھے اور انھوں نے اپنی تحریک کو ایک تشدد پسند جماعت بناناچاہا، یا وہ شمشیر بے نیام کے ذریعے نظام عدل و امن کو قائم کرنا چاہتے تھے، مغربی مصنفین کا ایک پسندیدہ موضوع ہے اور امام البنا ، اخوان المسلمون اور اسی رو میں جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر دستوری اصلاحی اسلامی تحریکات کو لپیٹتے ہوئے یہ حضرات اکثر ان تحریکات کی ’جنگ جویانہ ‘ صلاحیت پر اتنے مختلف بلکہ متضاد زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں کہ ان تحریکات کے اصل خدوخال اردگرد کے گردآلود ماحول میںدھندلاجاتے ہیں اور کبھی ابھر کر سامنے نہیں آنے پاتے۔
"This is the movement which , in one form or another, has been the most prominent-fundamentalist current in sunni Islam since its Inciption in 1928. He launched the Brotherhood as movement for education and reform of hearts and minds.۴؎
یہ وہ تحریک ہے جو ایک یا دوسری حیثیت میں‘ ۱۹۲۸ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سنّی اسلام کی سب سے نمایاں بنیاد پرست لہر رہی ہے۔ انھوں [امام البنا] نے اخوان کو دل و دماغ کی اصلاح و تعلیم کے لیے تحریک کی حیثیت سے شروع کیا۔
امام البنا اور اخوان پر ’بنیاد پرست‘ ہونے کا خیالی الزام اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ غیر شعوری طور پر بعض اخوانی بھی خود کو بنیاد پر ست سمجھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
بنیاد پرستی کے الزام کے ساتھ ہی بار بار یہ بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ امام البنا اور تحریک اخوان المسلمون گردش ایام کو پیچھے کی طرف دھکیل کر انسانیت اور مسلم دنیاکو ایک ایسے دور کی طرف لے جانا چاہتی ہے جو ماضی کا ایک ورق بن چکاہے اور جو ۲۱ویں صدی کی ٹیکنالوجی ،مادی ترقی اور علوم میں نئی ایجادات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے یہ دعوت ،ترقی کی جگہ علمی ، فکری اور مادی زوال کی دعوت ہے اور اس بنا پر ’روشن خیال ‘دنیا کے لیے ایک شدید خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔
The Muslim Brothers world view was articulated in conservative Islamic terms calling for the restorating an Ideal society of the distant past.۵؎
اخوان المسلمون کا تصور جہاں (ورلڈ ویو) قدامت پسند اسلامی اصلاحات میں بیان کیا گیا تھا جس میں ماضی بعید کے مثالی معاشرے کو بحال کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
جن محققین نے براہ راست امام البنا کے خطبات اور تحریرات کا مطالعہ کیا ہے ،وہ یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ گو درمیانی دور میں اخوان کے بعض اقدامات عسکری نوعیت کے تھے، لیکن مجموعی طور پر نفوس کا تزکیہ و اصلاح ہی دعوت کا مرکزی نکتہ رہا۔ چنانچہ ایک مفصل تجزیاتی تحریر میں پروفیسر جان ایل اسپوزیٹونے اخوان کی دعوت کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے۔۶؎
امام البنا کی شخصیت کا ارتقا اور ان کا تصوف سے نہ صرف متاثر ہونا بلکہ اس کو عملاً اس حدتک اختیار کرنا کہ ان کی تعلیمات اور نظام تربیت میں ایک بڑا حصہ قرآن کریم کی تلاوت ، اذکار و اوراد اور قیام الیل کے ذریعے نفوس کی اصلاح سے تعلق رکھتاہے، ان کی شخصیت اور طرز عمل ہرزاویے سے ایک روحانی پیشوا سے ملتا ہوا نظرآتاہے۔اس غالب پہلو کے باوجود ان کی دعوت کا ایک جزوی نکتہ جس سے وہ خود بہت زیادہ مطمئن نہ تھے‘ اور ان کی عسکریت ہی اکثر مغربی مفکرین کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔
امام البنا کی شخصیت اور جماعت اخوان المسلمون پر غیر مسلم محققین کی تحریرات میں نمایاں ترین اور اولین مصاد ر پر مبنی ایک تحقیقی کتاب جس کا مصنف ایک عرصے تک مصر میں امریکی خفیہ ادارے کے رکن کی حیثیت سے متعین رہا ،باربار اس بات کا تذکرہ کرتاہے کہ :
"The two continous Influnces in history so far had been classical Islamic learning and emotional discipline of sufism.۷؎
تاریخ پر کلاسیکل اسلامی علوم اور تصوف کے جذباتی پہلو دونوں کے اثرات مسلسل رہے۔
امام البنا کے رسائل مدلل طور پر تزکیۂ نفس ،تزکیۂ خاندان اور تزکیۂ معاشرہ پر متوجہ کرتے ہیں لیکن چونکہ سید ابوالاعلی مودودی کی طرح امام البناکا پہلا دعوتی نکتہ بھی یہی ہے کہ اسلام مکمل جامع اور عملیت پر مبنی نظام حیات ہے۔ اس لیے تصوف کے واضح اور غالب اثرات کے باوجود ان کی تحریک اور شخصیت کو سیاسی حوالے سے زیادہ نمایاں کیا جاتارہا۔ بظاہر اس کاسبب مغربی اور مغرب زدہ اذہان کا ’مذہب ‘ اور ’سیاست ‘ کو دو الگ خانوں میں تقسیم کرناہے،جس کے بعد ’مذہب ‘ سے وابستہ کسی بھی فرد کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو اصول سے انحراف سمجھا جاتا ہے، جب کہ امام البناہوں یا سید مودودی، دونوں کی دعوت کا مقصد روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت سے بغاوت کرتے ہوئے، ایک انقلابی فکر کے ذریعے علامہ محمد اقبال کی طرح ،اسلامی فکر اور معاشرے کی تشکیل جدید کرنا تھا۔مغربی نگارشات میں اس اختیار کردہ جدید (innovative) اور غیر روایتی طرز عمل کو بہ تکرار ’قدامت پرستی ‘ اور ’روایت پرستی ‘کہنا دراصل اصطلاحات کو گڈمڈ کرکے قارئین کی فکر کو پراگندہ کرناہے۔ جس طرح امام ابن تیمیہ نے اپنے دور کی روایت پرستی کو رد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نہ صرف مختلف تعبیراتِ فقہ حتیٰ کہ صحابہ کرام کے اجماع کو بھی وہ مقام نہیں دے سکتے جومقام اتباع قرآن و سنت کا ہے۔ چنانچہ انھوں نے فقہ کے تخلیقی عمل کو اجماعِ صحابہ کا پابند بھی کرنا پسند نہیں کیا۔ یہ طرزِفکر ہرزاویۂ نظر سے انقلابی‘ اجتہادی تھا اور روایت پرستی کے رد پر مبنی تھا، لیکن بہت سے حضرات نے اسے ’سلطنت‘ کا عنوان دے کر بزرگوں کی اطاعت کہنا شروع کردیا۔ بالکل اسی طرح امام البنا نے سلف صالح سے پوری عقیدت کے باوجود دور جدید کے معاملات میں اجتہاد پر زور دیا۔ مولانا مودودی کا بھی یہی جرم روایت پرست فقہا اور قدامت پسند صوفیا کے نزدیک ناقابل معافی فعل تھا کہ وہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور قانونی معاملات میں براہِ راست قرآن وسنت کی روشنی میں جدید حل تلاش کرکے ایک اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے۔
امام البنا اور سید مودودی کا حالات کا تجزیہ اور معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلا ش کرنا نہ صرف روایت پرست فقہا اور قدامت پرست صوفیا بلکہ جدیدیت کے علم بردار مغربی مفکرین کے لیے بھی قابل قبول نظر نہیں آتا۔ اسی لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کو، نامعلوم خدشات اور وجوہ کی بنیاد پر یکایک بنیاد پرستی کی دعوت کا عنوان دے دیا جاتاہے:
"Thus Banna's reaction to the crisis milieu was to advocate a return to the basis of Islam the call to fundamentlism.Banna's da'wah was a direct descendent of earlier revival movements.۸؎
بحرانی حالات میں حسن البنا کا ردعمل اسلام کی اصل کی طرف رجوع کی وکالت تھا، یعنی بنیاد پرستی کی طرف دعوت۔ حسن البنا کی دعوت ماقبل احیائی تحریکوں کا راست ورثہ تھی۔
بنیاد پرستی اپنے اصطلاحی یورپی پس منظر میں مغربی لادینی تہذیب کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بنیاد پرستی کی اصطلاح کا تعلق اسلام سے ہو یا عیسائیت سے، ہر شکل میں یورپی ذہن اس کے ساتھ نباہ کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتاہے، جب کہ سادہ لوح مسلمان مفکرین بنیاد پرستی کے لفظی مفہوم یعنی دین کی بنیاد ی تعلیمات پر عمل کرنے کو اس کا صحیح مفہوم سمجھتے ہوئے یورپی ذہن کی اس نفسیاتی بیماری کا صحیح طور پر ادرا ک نہیں کرپاتے، بلکہ بعض اوقات فخر سے کہتے ہیں کہ ’’الحمد للہ ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں اس لیے بنیاد پرست ہیں ‘‘۔ مفاہیم کا یہ غلط اختلاط ایک بڑی فکری رکاوٹ بن کر مغرب کو ایسے نتائج اخذ کرنے پر آمادہ کردیتاہے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں پایا جاتا اور سادہ لوح مسلم مفکرین بھی مغربی فکر کی بعض فنی اصطلاحات سے کماحقہٗ واقفیت نہ ہونے کے سبب اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی پیش رفت نہیں کرپاتے۔
امام البنا جس تصوف کے قائل ہیں وہ قوم کو جگانے والا، تزکیۂ نفوس کے ذریعے معاشرتی عدل قائم کرنے والا اور مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے جہاد پر آمادہ کرنے والا عمل ہے۔ اسی بنا پر ان کے حلقہ ہاے ذکر قائم کرنے اور اخوان کوالماثورات کا اہتمام کرنے کی ہدایت کے باوجود ان کی جو تصویر کشی مغربی مفکرین کرتے ہیں وہ نہ صرف مبالغہ آمیز بلکہ گمراہ کن حد تک غلط ہے۔ دو معروف تصنیفات ہماری راے کی توثیق کرتی ہیں۔ایک،اسحاق موسیٰ الحسینی کی تصنیف‘ جو اخوان المسلمون کی تحریک پر سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۹؎ دوسرے ،استاذ سعید حویٰ کی تصنیف الاخوان المسلمونبھی اس پہلو پر مستند اور براہ راست معلومات فراہم کرتی ہے۔۱۰؎
بنیادی طور پر مغربی مصنفین گھوم پھر کر جس پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، اس کا تعلق یورپ کی تاریخ کے بعض اہم ادوار سے ہے۔ ان کے خیال میں یورپ کی معاشی ، علمی ،اور سیاسی ترقی و استحکام کا تعلق براہ راست مذہب کو پس پشت ڈال کر زندگی کے معاملات میں مادی اور ٹکنالوجیکل ترقی کو رہنما بنانے سے ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کا احیاے دین کی دعوت دینا ان اہلِ مغرب کے نزدیک تاریک ماضی کی طرف لوٹنے کے مترادف ہے اور اسی بنا پر وہ ان تحریکات کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں۔ امام البنا نے اپنے رسائل میں یہ بات وضاحت سے بیان کی ہے کہ ان کا تصور دین ، روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت دونوںسے مختلف ہے۔ وہ سید مودودی کی طرح دین کی شامل و کامل تعریف کرتے ہیں اور مذہب کو محض عبادت اور رسومات تک محدودتصور نہیںکرتے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو دونوں تحریکات میں غیر معمولی فکری قربت کے باوجود انتظامی اور حکمت عملی کے بعض امور میں جزوی اختلاف پایا جاتاہے۔ جو چیز دونوں تحریکات کا امتیاز کہی جاسکتی ہے وہ دونوں کے قائدین میں غیر معمولی قوت کار اور شخصیت کی جاذبیت ہے ،جس کی بنا پر البنا ہزار ہا ارکان کے لیے ایک مرشد اور رہنما کی حیثیت اختیار کرگئے۔ بعض مغربی مصنفین بھی اس راز سے واقف نظر آتے ہیں اوربرطانوی مستشرق بشپ کینتھ کریگ اس طرف اشارہ کرتا ہے:
" The secret of its success lay in the force and dedication of its Ideas and in the extraordinary energy almost in its quality of al-Banna himself.He combined the meticulousness of a watch maker with the drives of a prophet.۱۱؎
اس کی کامیابی کا راز اس کے نظریات کی طاقت اور خلوص اور حسن البنا کی طرح کی غیرمعمولی توانائی تھا۔ ان میں ایک گھڑی ساز کی باریک بینی اور ایک نبی کی قائدانہ قوتوں کا امتزاج تھا۔
اگر غور کیا جائے تو ان دوصفات سے متصف شخص کو’جنگ جو‘یا شدت پسند کہنا ایک منطقی تضاد ہی کہا جاسکتاہے۔ لیکن امام البنا کی دعوت وشخصیت سے واقفیت کے باوجود تان آکر ٹوٹتی اسی بات پر ہے کہ البنا دور جدید میں پائی جانے والی تشدد پسند تحاریک کے محرک تھے۔ امام البنا کا معاشرتی اصلاح کا تصور خود بعض مغربی مستشرقین کی زبان میں کچھ یوں نظر آتاہے کہ امام البنا کی دعوت کا پہلانکتہ یہ تھا کہ قرآن کی جدید تعبیر کی ضرورت ہے اور سائنسی حقائق کے علم کے ساتھ قرآن کے مفہوم کو بیان کیا جانا چاہیے۔ثانیاً، مغربی سامراج سے نجات کی خواہش کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی ایجادات اور تحقیقات سے استفادہ نہ کیا جائے۔ ثالثاً، سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت پر مبنی معاشی نظام سے نکل کر ایک سرمایہ کار (enterprenuer) کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ وسائل تک دسترس حاصل کرے اور معاشی میدان میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ رابعاً ،امت کے اندر مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر یک جہتی کا قیام عمل میں لایا جائے،خامساً، اسلامی معاشرے کو خودکفیل بنانا تاکہ وہ فطری انداز میں ترقی کرلے۔سادساً ،قومی افق پر اعتماد اور قومی صفات کا پیدا کرنا، تاکہ سامراجی دورکے منفی اثرات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ۱۲؎
البنا کی دعوت کو سمجھنے اور اتنے اچھے انداز میں بیان کردینے کے بعد بھی اگر یہی مغربی مصنفین یہ نتیجہ نکال بیٹھیں کہ البنا ایک ’جنگ جو‘،’تشدد پسند‘ رہنما تھے تو یہی کہا جاسکتاہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یعنی مستشرقین نے البنا کی شخصیت کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو تعریفی بھی ہیں اور ان کی من مانی تعبیر بھی کی جاسکتی ہے ،مثال کے طور پر:
"Hassan al-Banna, more than any Individual, can be considerd the atvair of the twentieth Century Sunni revivalism. He was the unique embodiment of the Sufi spiritualist, Islamic scholar and activist leader who possessed a rare ability to evoke masses., support by translating doctrinal complexities into social action.۱۳؎
کسی بھی فرد سے زیادہ‘ حسن البنا کو ۲۰ویں صدی کے سنّی اسلام کے احیا کا روح رواں قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ صوفی روحانی شیخ، مفکر اسلام ، اور سرگرم قائد کا منفرد اظہار تھے جو عوام کو اُبھارنے اور عقیدے کی پیچیدگیوںکو عوامی اقدامات میں تبدیل کرنے کا شاذ ملکہ رکھتے تھے۔
امام البنا کی ان قائدانہ روحانی صفات کی بنا پر اسی مصنف کا یہ تبصرہ ہے کہ مشہور مغربی ماہر نفسیات ارکسن (Ereckson)نے ایک متاثر کرنے والے قائد کی جو صفات بتائی ہیں وہ سب امام البنا میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
امام البنا نے جس تدریجی حکمت عملی سے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور ایک وسیع تر حلقہ کو براہِ راست مخاطب کیا، وہ انبیا کے طریقِدعوت کے عین مطابق نظر آتاہے۔ البنا نے نہ صرف عوام الناس ، وکلا ، انجینیروں ، اطبا ،تاجروں بلکہ خود فرماںروائوں کو دعوتی خطوط کے ذریعے اپنی جماعت میںشمولیت کی دعوت دی بلکہ ایک مرحلے میں فوج کے نوجوان افسران میں دعوت کی مقبولیت اس حد تک پہنچی کہ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب میں اخوان کی حیثیت ایک شریک کار کی قرار پائی۔
اگر تقابلی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی سید مودودی کی تجویز کردہ حکمت عملی سے کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ سید مودودی ایک نظریاتی جماعت اور برسراقتدار گروہ میں ایک فاصلے کے قائل نظر آتے ہیں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر ایک طویل فریم ورک میں فرد ، خاندان، معاشرے اور ریاست میں تبدیلی و اصلاح کے حوالے سے بے انتہا پرامید نظر آتے ہیں، جب کہ،حسن البنا نے اس اصولی موقف کے ساتھ زمینی حقائق کو اہمیت دیتے ہوئے تبدیلی قیادت کے عمل کے جلد واقع ہونے کے لیے بعض مفاہمتی اقدامات کو اختیار کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کیا۔
اس کے باوجودرچرڈ پی مچل کا خیال ہے کہ،اگرچہ البنا نے اسلامی معاشرے کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام پر یکساں زور دیا ،لیکن وہ اسلامی ریاست سے کیامراد لیتے تھے ، اس میں نظمِ حکومت کس قسم کا ہوگا، اس کے اندرونی اور بیرونی تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے؟ کیامغربی سیکولر جمہوریت کے بعض عناصر جوں کے توں اسلامی ریاست میں شامل کرلیے جائیں گے۔؟ غرض اس نوعیت کے سوالات جو تفصیل طلب ہیں، ان کے بارے میں امام البنا نے کسی متعین راے کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی نے اسلامی ریاست کے حوالے سے ایک جامع اصولی اور عملی نقشہ مرتب کیا ،اور دستوری اور انتظامی حیثیت سے جو تبدیلیاں لانی ضروری تھیں ان پر قلم اٹھایا۔۱۴؎
حسن البنا کو حالات کا پورا علم تھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی تھا۔ اس بنا پر انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے میں جلدبازی کی جگہ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا چاہی جو دوررس نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوسکے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات شواہد کی بنا پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ تدریجی حکمت عملی ایک وسیع تر وقت کے فریم ورک سے وابستہ تھی۔۱۵؎
مچل کی اس راے سے ہمیں واضح اختلاف ہے کہ چونکہ بعض سیاسی مسائل پر امام البنا کی راے متعین نہ تھی یہ قیاس کرلیا جائے کہ اسلامی معاشرت اور ریاست کے بارے میں امام البنا کے ذہن میں کوئی نقشۂ کار ہی نہ تھا۔ امام البنا اپنے دور میں حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک اصلاحی تحریک کو لے کر اٹھے ،جسے مسلم امت کی سیاسی اور معاشی زبوں حالی کاپورا ادراک تھا۔ اس مناسبت سے علمی حلقوں میں اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے علی عبدالرازق کی کتاب نظام الحکم فی الاسلام جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیاکہ قرآن و سنت سے کسی واضح اسلامی ریاست کا نقشہ نہیں بن سکتا، زیربحث تھی، جب کہ رشید رضا نے خلافت کے عنوان پر ایک عالمانہ کتاب لکھ کر یہ سمجھانا چاہا کہ کس طرح تاریخ کے حوالے سے اسلامی ریاست کا وجود ممکن ہے۔ اس لیے شیریںہنٹر کا یہ خیال یا لیری پوسٹن کایہ سمجھنا کہ امام البناکے سامنے معاشرے اورر یاست کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ بندی اور نظام کا نقشہ موجود نہ تھا ۱۶؎ ایک گمراہ کن تصور نظر آتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امام البنا نے اسلامی ریاست کے عنوان سے کوئی کتاب نہ لکھی ہو، لیکن ان کی دعوت کا بنیاد ی ہدف معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست کی اصلاح اور تبدیلیِ قیادت و اقتدار تھا، جو ان کی دیگر تحریروں میں واضح نظر آتاہے۔
امام البنا کی شخصیت ، نظام تربیت اور خصوصاً اذکار اور تزکیۂ نفس پر توجہ پہ غور کیا جائے تو آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ان کی ابتدائی تربیت اور امام غزالی سے متاثر ہونے کی بنا پر ان کا رجحان تصوف کی طرف رہا، لیکن یہ وہ تصوف نہ تھا جو معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو اہمیت نہ دیتاہو۔ البتہ مغربی مفکرین کو اس میں جو دقت پیش آتی ہے وہ امام البنا کے مائل بہ تصوف ہونے کے باوجود سیاسی زندگی میں فعال ہونا، پھر بذات خود الیکشن میں حصہ لینا اور اپنی دعوت کے نکات میں اس بات کا کھل کر اعتراف کرنا کہ ہم اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔
یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو Political Islamیا سیاسی اسلام ،کا طعنہ دیا جاتا ہے۔یہ کام نہ صرف مغربی مصنفین بلکہ ان سے متاثر بعض معروف مسلم دانش وروں نے بھی کیا، جو اسلام کی محض روایتی مذہبی تعریف پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اس پورے عمل کودین کی سیاسی تعبیرقرار دیتے ہیں۔ امام البنا اور ان کی تحریک کے بارے میں یہ خیال درست نظر نہیں آتاکہ وہ دور جدید میں اسلامی ریاست کا واضح تصور نہیں رکھتے تھے۔ ان کی تحریرات سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اللہ کی حاکمیت ، شورائیت ، امانت اور صلاحیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کے قائل تھے۔ اگرامام البنا کو زندگی کی مزید مہلت ملتی تو وہ لازمی طور پر ان اصولوں پر مبنی مفصل خاکہ تیار کرتے۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ وہ نہ صرف اصولی طور پر بلکہ عملی طور پر، ایک اسلامی ریاست کے خدوخال، اس میں پارلیمنٹ ،عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات اور اہل کاروں کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے خیالات کو تفصیل سے تحریری شکل میں پیش کرسکے۔
امام البنا جس معاشرے اور ریاست کی تعمیر کے لیے کوشاں تھے، اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ کام ریاست کی قوت نافذہ کے بغیر نامکمل رہتا، نہ صرف یہ بلکہ ان کی جانب سے بار بار کھلے الفاظ میں بیرونی سامراج سے نجات کی دعوت میں بھی یہ بات شامل تھی کہ مقامی آمروں ،بادشاہتوں اور موروثی نظام کی جگہ قرآن و سنت کا دیا ہوا نظام نافذ ہونا چاہیے۔
اپنے آخری ایام میں ان کو اس بات کا احساس ہوچلا تھا گو بعض حالات میں عسکری تنظیم کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہوسکتاجس طرح کہ فلسطین میں اخوان المسلمون نے عملاً حصہ لے کر مسجد اقصیٰ کا دفاع کیا ، لیکن اندرونی معاملات میں مسائل کا حل، سیاسی حکمت عملی ، مکالمہ اور مسلسل تعلیم وتربیت ہی سے کیا جاسکتاہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ امام البنا اور ان کی تحریک کو اپنی دعوت کے اصولوں کے لیے ایک امن پسند ، صلح جو اور داعیِ اصلاح ماننے کے باوجود، صرف جہاد فلسطین میں شرکت اور برطانوی اور اطالوی سامراج کی مخالفت کی بناپر بنیاد پرست اور شدت پسند کہا گیا۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں جہاد کشمیر کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی کو بنیاد پرست اور شدت پسند ہونے کا الزام دیا جاتا رہا۔ گو زمینی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ ان تحریکاتِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے اصلاح حال اور تبدیلیِ اقتدار کی دعوت دی اور اس بنا پر ان تحریکات کا جمہوریت پسندی کا ریکارڈ وقت کی سب سے زیادہ جابر و ظالم ریاست امریکا سے کئی ہزار گنا زیادہ جمہوری اور شفاف ہے۔
امام البنا جس طرح اپنی تعلیمی ، تذکیری اور تربیتی حکمت عملی کے نتیجے میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد میں عوام الناس کی سطح پر اپنی دعوت کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے ،اس کی کوئی اور مثال ۲۰ویں صدی میں نظر نہیں آتی۔ دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور ان کی قیادت کو تجزیہ کرنے کے بعد یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے اوپر کام کرنے کے باوجود عوام میں ان کا وہ نفوذ اس درجے میںکیوںنہ ہوسکا، جو امام البنا نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۴۸ء تک محض ۲۰سال میں حاصل کرلیاتھا اور جب ۱۹۴۹ء میں وہ شہید کیے گئے تو اخوان المسلمون دنیاے اسلام کے نقشے پر ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی تھی۔
اسی دوران ،امام حسن البناکی جانب سے محمد البنا اور محمود الحافظ ہمارے پاس آئے۔ امام کا طریقہ کار تھا کہ جب بھی گرمیوں کا موسم آتا تو آپ اپنے ساتھیوں کومختلف علاقوںمیں داعی بناکر بھیجتے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ ہمارے نصیب میں حسن البنا کے بھائی محمد البنا اور ان کے ساتھ محمود الحافظ آئے۔ ان کے پاس اخوان المسلمون کا دعوتی لٹریچر بھی تھا۔
اخوان المسلمون کے لٹریچر میں اخوان کا یہ عقیدہ واضح کیاگیا تھا کہ:’’ ہمارے تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ جزا و سزا کا دن برحق ہے۔ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جس میں دین اوردنیا کی بھلائی ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو قرآن کریم کی جماعت میں شامل کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کروں گا‘‘۔
میں اس وقت ثانویہ کے چوتھے سا ل میں تھا۔ محمد البنا بھی میرے ساتھ چوتھے سال میں تھے، لیکن اگلے سال جب ہم ثانویہ سے فارغ ہوئے تو وہ شعبہ ادب میں چلے گئے اور میں نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لے لیا۔
میں بات کررہاتھا کہ ہم نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ یہ فنڈ محب الدین الخطیب کو بھیجا جائے۔ محب الدین الخطیب الفتح جریدہ نکالا کرتے تھے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے متعلق لکھا اور لوگوں کو اس مسئلے کے حقیقی پس منظر سے روشناس کرایا۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے متعلق زیادہ تر دو ہی: شخص محب الدین الخطیب اور رشید رضا لکھا کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب الفتحمیں اور رشید رضا المنارمیں لکھا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود عالم عرب میں بھی لوگ مسئلہ فلسطین سے بے خبر تھے۔
محمد البنا اور محمو د الحافظ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ:’’فلسطین کے مسئلے سے ہماراتعلق ہے۔ ہمارے اور مجاہدین کے درمیان روابط ہیں۔ ہم انھیں اسلحہ اور مالی امداد پہنچاتے ہیں۔ آپ بھی فنڈ اکٹھا کرکے دیں ہم آگے پہنچا دیں گے‘‘۔ ان کے کہنے پر جمع شدہ فنڈ لے جا کر میں نے محب الدین الخطیب کے سپرد کردیا۔ ان حضرات کا شمار اخوان المسلمون کے بنیادی ، اہم ترین ارکان اور اوّلین داعیوں میں سے ہوتاتھا۔ انھوں نے مجھے اخوان المسلمون کی بعض کتابیں اور رسالے بھی دیے۔ پھر میں اپنے شہر واپس آگیا۔
حج کے موقع پر جامعہ ازہر نے حج کے لیے ازہری طلبہ کا ایک وفد بھیجنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس وفد سے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز کی کمپنی وفد سے آدھا کرایہ وصول کرے گی۔ مصری حکومت نے وفد میں شریک ہر فرد کو ۱۰مصری پائونڈ دینے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب سعودی حکومت نے ٹیکس وغیرہ نہ لینے کااعلان کیا۔
ہمارے لیے یہ فریضہ حج اداکرنے کا سنہری موقع تھا۔ میں بھی حج وفد میں شامل ہوگیا۔ ہمارے دوست شیخ خلف السید نے حج پر جانے والوں کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی۔وہ اس وقت ہمارے ساتھ طالب علم تھے۔ بعد میں وہ مجمع البحوث الاسلامیہ کے ڈائرکٹر بنے۔ چائے کی نشست کے دوران میں انھوں نے بتایا کہ الشیخ حسن البنا نے جامعہ ازہر کے حج وفد کے لیے دعوت کا اہتمام کیاتھا۔ آپ کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے کہا اللہ تیرا بھلا کرے میری تو ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ تم نے موقع ضائع کردیا ، چائے کا کپ توبعد میں کبھی پی لیتے لیکن ان سے ملاقات ---؟ انھوں نے کہا کہ فکر نہ کریں شیخ حسن البنا حج وفد کو الوداع کہنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر بھی جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود طلبہ اور اساتذہ کے وفود کو خدا حافظ کہیں۔
مصر کی کسی جماعت یا تنظیم نے حاجیوں کو دعوت نہیں دی تھی۔ صرف امام حسن البنا نے حج پرروانہ ہونے والوں کی دعوت کا اہتمام کیا، انھیں ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہا۔ ہم اسٹیشن پر امام حسن البنا سے ملے۔ میں ان سے مل کر بے پناہ خوش تھا۔ امام حسن البنا،کی شخصیت سنت کے مطابق ڈھلی ہوئی تھی ، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ انھوں نے ملتے ہوئے مجھے گلے لگالیا ، میرے لیے مسنون دعا پڑھی: استودعکم اللّٰہ دینک و امانتک و خاتم عملک و زودک اللّٰ بالتقوی۔ میں آپ کے دین آپ کی امانتوںاور آ پ کے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتاہوں،اللہ تعالیٰ آپ کے تقویٰ میں اضافہ فرمائے۔ پھرانھوں نے مجھے وہی بات کہی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی۔ انھوں نے فرمایا :’’اپنی دعائوں میں اپنے بھائی کو نہ بھولنا‘‘۔ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
امام حسن البنا کا ایک تعارف ان کی کتب پڑھ کر ہواتھا ،لیکن میںنے انھیں تصوراتی طور پر پہچانا تھا ، حج پر جانے والے ان کے ساتھیوں کے درمیان رہ کرمجھے خود امام البنا کو عملی طور پر جاننے کا موقع ملا۔ جیسے ہی ہم بندرگاہ پہنچے تو کچھ نوجوان ہماری بس کی طرف لپکے۔ انھوں نے ہمارا سامان اتارنا شروع کردیا۔ ان میں سے بعض نوجوان بس کے اوپر چڑھ گئے تھے اوروہ نیچے والوں کو سامان پکڑاتے۔ میںنے سمجھا شاید یہ بحری جہاز کے ملازمین ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اخوان المسلمون کے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو اپنے بھائیوں کی بے لوث خدمت کے لیے کوشاں تھے۔ ہم بحری جہاز پر سوار ہوگئے۔ جہاز والوں نے ہماری پذیرائی کی۔ ہم ازہری طلبہ کی مالی حالت کمزور تھی ،اس لیے تیسرے درجے میں سوار ہوئے۔ جامعہ کے اساتذہ صاحب استطاعت تھے، وہ دوسرے درجے میں سوار ہوئے۔ ہمارا سامان:ایک تکیہ، ایک کمبل ، ایک جاے نماز اور ایک بیگ پر مشتمل تھا۔ اخوان المسلمون کے ان نوجوانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو قرآن نہ پڑھتا اور تہجد نہ ادا کرتا ہو۔بحری جہاز میںایک کشادہ صحن تھا۔ یہ تمام نوجوان ہمارے ساتھ صحن میں باجماعت نماز اداکرتے۔ ان میں سے ایک شخص کو اذان دینے کابہت شوق تھا، وہ ڈاکٹر عبدالمنعم فتحی تھے۔ عبدالمنعم فتحی اس وقت میڈیکل کالج میں سال اول کے طالب علم تھے۔ بعدازاں وہ میڈیکل کالج کے فیکلٹی ڈین بنے۔ اشتراکی روس میں ان کے ہاتھ پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔
جب ہمارا قافلہ سعودی عرب پہنچا تو سعودیہ کے شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ہماری رہایش کا انتظام کیاگیا تھا۔ یہ وفد ۳۵افراد پر مشتمل تھا جس میں ۴اساتذہ اور باقی طلبہ تھے۔ البتہ ازہر یونی ورسٹی کے دوسرے وفود کو شامل کرکے یہ تعداد ایک سو تک پہنچ جاتی تھی۔ شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ترکوں کے اسکول کی ایک بڑی عمارت میں ہماری رہایش کا انتظام تھا۔ سعودی عرب کے فوجی جوانوں کی حالت خستہ تھی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرمدینہ منورہ روانگی کی تیاری ہے، لیکن بس پر سوار ہونے کے لیے جھگڑا ہو رہا ہے۔چار وناچار ہم اساتذہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ ہماری بس کون سی ہے، شیخ غرباوی نے احمد امین سے کہا کہ ہم اکٹھے آئے ہیں اور اکٹھے واپس جائیں گے‘‘۔ احمد امین نے جواب دیا :’’آپ کی بس موجود ہے۔ آپ اس میں جا کر سوار ہوجائیں‘‘۔ ہم نے کہاکہ:’’ لیکن وہ بس ہے کہاں ذرا ہمیں بھی دکھادیں‘‘۔ احمد امین نے کہا کہ:’’ تم نے اس طرح بات کرکے میری بے عزتی کی ہے‘‘۔ ہم نے جواب دیا کہ صرف اتنا ہی تو پوچھا ہے کہ ہماری بس کہاں ہے۔ اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے۔احمد امین نے کہا کہ ہمارے ہاں اس طرح بات کرنے کو بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ غرباوی صاحب نے ہم سے کہا چھوڑیے، یہ لوگ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کے نزدیک کتنی بڑ ی بات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ ’’اس مسجد (حرام ) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ شیخ غرباوی ہمیں وہاں سے لے گئے۔ انھوں نے کمپنی سے بات کرکے بس کا انتظام کیا۔ ہم سب سے آخر میں چلے لیکن یہ اللہ کا فضل و کرم تھا کہ سب سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اخوان المسلمون کے طلبہ نے جھگڑا کرنے والے طلبہ کو سمجھا یاتھا کہ بس پر سوار ہونا ان کا بھی حق ہے، لیکن دوسرے طلبہ نے بات تک نہ سنی۔جن صاحب نے شیخ غرباوی سے کہا تھا کہ تم نے ہماری بے عزتی کی ہے ، ان کی بس راستہ گم کربیٹھی ،اور تین دن تک صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت مکہ سے مدینہ تک سڑک پختہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ گاڑیاں ریت پر چلتی تھیں۔ گردو غبار سے آگے جانے والی گاڑیاں نظر نہ آتی تھیں۔ بس کا ڈرائیورراستہ گم کربیٹھا اور ایسی وادی میں پہنچ گیا جس کا نام وادی النار یعنی آگ کی وادی تھا۔ واللہ اس کا نام وادی جہنم تھا۔ ان دنوں ہیلی کاپٹر وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے کہ صحرا میں گم شدہ گاڑیوں کو ان کے ذریعے تلاش کرلیا جائے۔ گم شدہ گاڑی کی تلاش کے لیے بدوئوں کو بھیجا گیا۔ بالآخر تین دن کے بعد انھیں تلاش کرلیا گیا۔لیکن معلوم ہے بھوک اور پیاس سے ان کا حال کیا ہوچکاتھا ؟ خوردو نوش کی تمام اشیا ختم ہوچکی تھیںاور وہ پینے کے لیے اپنا پیشاب تک برتن میں محفوظ کرنے پر مجبورتھے۔
اس وقت مدینہ منورہ کے دروازے شام کے وقت بند کردیے جاتے تھے۔ شام سے پہلے شہر میں داخل ہوگئے تو ٹھیک ،ورنہ مدینہ میں داخلے کے لیے صبح تک انتظا ر کرنا پڑتا۔ ہم غروب آفتاب سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور حکومت نے جہاں پر ہماری رہایش کا انتظام کیا تھاسیدھا وہاں چلے گئے۔ یہ قصہ اخوان المسلمون کے نوجوانوں کی سیرت کی ایک مثال ہے۔ اُن نوجوانوں کی مثال ہے جنھوں نے امام حسن البنا سے تربیت حاصل کی۔ جو نیکی ، بھلائی ، تعاون ، قربانی اور ایثار کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے۔ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اور اللہ ان کا حامی و ناصر تھا،سبحان اللہ۔
ہم حج سے واپس مصر آئے تو میری سب سے اولین خواہش اس شخصیت سے ملاقات تھی جنھوں نے ان نوجوانوں کو تربیت دی تھی۔ یہ نوجوان جو میری ڈیوٹی پر خود برتن صاف کرتے، جو میرا سامان اٹھاتے ، جو با جماعت نماز ادا کرتے، جو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ، جو ذکر اللہ میں مشغول رہتے ، جو تہجد پڑھتے ، صبر اور شکر کے راستے پر چلتے ،ان نوجوانوں کا شیوہ نیکی ، بھلائی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ انھی نوجوانوں کے شیخ سے ملنامیری سب سے بڑی خواہش تھی۔میں اس وقت قاہرہ میں تُصن روڈ پر مقیم تھا۔ اسی روڈ پر ایک طالب علم رہتاتھا ، جمال عامر۔ وہ فیکلٹی آف فارمیسی کا طالب علم تھا اور امام حسن البنا کے نمایندے کی حیثیت سے ہمارے شہر کا دورہ بھی کرچکاتھا۔ ایک دفعہ اسی روڈ پر میری اس سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کس جگہ مقیم ہو ؟ میں نے بتایا کہ اسی شارع پر رہتا ہوں۔ اس نے کہا میرا گھر بھی یہیں پر ہے اور بتایا کہ آج منگل کا روز ہے۔ آج الشیخ حسن البنا کا ہفتہ وار درس ہے۔ میں نے اس پر بارک اللہ فیک کہااور ہم درس سننے چلے گئے۔ اس وقت اخوان المسلمون کا مرکز ( دارالاخوان) عقبہ میںتھا۔ عقبہ ، قاہرہ کا سرسبز علاقہ ہے۔ مختلف علاقوں ،عباسیہ مصر الجدید،الشافعی،سیدہ زینب اور شُبرہ سے آنے والی ٹرامیں یہیں آکر ملتی ہیں۔ اخوان اسی گھر میں آکر آپس میں ملتے تھے۔یہ قدرے کشادہ مکان تھا۔ اس میں پانچ کمرے تھے اور ایک وسیع و عریض صحن تھا، جہاں پر کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور امام حسن البنا درس قرآن کریم دے رہے تھے۔ یہ مرکزازہر روڈ کے ساتھ ملی ہوئی سڑک پر واقع تھا۔
درس ختم ہوا تو ایسے محسوس ہوا کہ مجھ میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ پھر ہم ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھے۔ انھوں نے دو ماہ کے بعد بھی مجھے پہچان لیا۔ بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا اور کہا خوش آمدید۔ امام کو محمد البنا نے ہمارے بارے میں بتادیا تھا کہ یہ کچھ نوجوان ہیں جو جذبہ رکھتے ہیں اور انھوں نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیاہے۔ اس طرح میرے بارے میں ان کو کچھ اندازہ تھا۔ دفتر سے نکلنے سے پہلے ہی میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکاتھا کہ :’’میرا ایمان اللہ پر ہے ، میرا عمل میرے دین کے لیے ہے ، مجھے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔ ایمان ، عمل اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں‘‘۔
پھر میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن آیا۔ مصر میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔ مصر کی ہر وزارت میں بڑے بڑے شامیانے لگائے جاتے جن میں محفل اذکار کا اہتمام ہوتا۔ سب لوگوں کے دل متوجہ ہوتے ہیں ، ایسے میں انھیں سیرت کا حقیقی پیغام پہنچانے اور سمجھانے میں بہت مدد ملتی ہے۔اس لیے اخوان المسلمون بھی ان تقریبات میں پوری گرم جوشی سے حصہ لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سال ہم نے ان تقریبات میں انگریزوں اور یہودیوں سے بائی کا ٹ کے حوالے سے لٹریچر تقسیم کیا۔ برطانوی انگریز وں ہی نے یہودیوں کو سرزمین فلسطین دینے کا وعدہ کیااور اس طرح عالم اسلام کے سینے میں خنجر گھونپاتھا۔ انگریزوں ہی نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے فلسطین میں اس شجر خبیثہ کا بیج بویاتھا۔ انگریزوں ہی نے مال و دولت ، اسلحہ اور ہر طریقے سے یہودیوں کی مدد کی تھی۔
فلسطین زندہ باد، یہودی مردہ باد ، انگریز مردہ باد
اچانک پولیس کی گاڑیاں اخوان المسلمون کو گرفتار کرنے آگئیں۔ لوگ یہ منظر دیکھ کربڑے حیران ہوئے کہ اخوان المسلمون کے نوجوان بلاخوف ،خود پولیس کی گاڑیوں پر چڑھ گئے۔ انھوں نے انگریزوں اور یہودیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔ یہ بڑی دل چسپ بات تھی کہ پولیس آپ کو گرفتار کرنے آتی ہے اور آپ خود کو د کر گاڑی پر چڑھ جاتے ہیں۔
حکومت کو احساس ہواکہ یہ تو ایک ہمہ گیر اور منظم جماعت بن گئی ہے۔اس نے جماعت کو ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اخوان المسلمون کو ثابت قدم رکھا اور یہ قافلہ رواں دواں رہا۔ اخوان، فلسطین کی مدد کے لیے لکھتے، فلسطین کے لیے تقریریں کرتے ، ان کے لیے دعائیں کرتے ، ان کے لیے فنڈ جمع کرتے۔ تب مسئلہ فلسطین عروج پر تھا۔
ہم نے مصر میں موجود یہودی تاجروں اور کمپنیوں کے بائی کاٹ کا فیصلہ کیا ،ہمارے ساتھی یہودیوں کی دکانوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور خریداروں کو یہودیوں کی دکانوں سے خریداری کرنے سے روکتے۔ ان کو کہتے :’’ تم اپنی دولت یہودیوں کو دے رہے ہو ،اس سے وہ تمھیں قتل کریں گے۔ تمھارے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں گے اور تم سے مسجد اقصیٰ کو چھینیں گے۔ ‘‘یہودیوں کی دکانیں بڑی بڑی تھیں۔ یہ دکانیں نہیں بلکہ بازار تھے۔ ان میں گھریلو استعمال کی ہرچیز فروخت ہوتی تھی اورمصر کے تمام بڑے شہروں سکندریہ ، قاہرہ ، المنصورہ، ہرجگہ ان کی شاخیں تھیں۔ جب ہم دکانوں کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے اور خریداروں سے کہتے :’’خریداری کرکے تم یہودیوں کی مدد کررہے ہو ، یہودی جو کچھ کررہے ہیں ، کیا تمھیں اس کی خبر نہیں ‘‘۔لوگ ہماری بات سنتے اور مانتے تھے لیکن حکومت کی طرف سے ہمارا پیچھا اور نگرانی کی جاتی اور ہمیں گرفتار کرلیا جاتا۔
امام البنا نے کہا کہ فلسطین میں صف ماتم بچھی ہے ایسے میں جشن فتح کیسا۔سودمشق جانے کا پروگرام منسوخ کردیاگیا اور مجھے امام نے کہا کہ تم ہماری طرف سے فلسطین جائو ، وہاں کی صورت حال کا جائزہ لو اور ہمارے بھائیوں کو ہماری طرف سے حوصلہ و تسلی دینے کی سعی کرو۔ میں اسی روز شام پانچ بجے کی ٹرین سے قاہرہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوگیا اور غزہ سے ہوتے ہوئے اگلے روز صبح ۱۰ بجے فلسطین کے اہم شہر ’’یافا‘‘پہنچ گیا۔ ۳۰:۱۲بجے خطبہ جمعہ شروع ہوناتھا۔ ساتھی مجھے یافا کی مرکزی جامع مسجد لے گئے اور خطبہ جمعہ کے لیے منبر پربٹھادیا۔ میں نے فلسطینی عوام پر طاری مایوسی کو امید و حوصلے میں بدلنے کی سعی کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ آزمایش کڑی ہے لیکن یقین رکھو کہ تم تنہا نہیں نہ ہی قبلہ اول صرف تمھارا ہے ، امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبلہ اول اور اس کا دفاع کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ فلسطینیوں کو متحد و منظم کرنے کی کوششوں میں مزید اضافہ کردیاگیا۔ بد قسمتی سے اس وقت وہاں ان کی کوئی قیادت موجود نہیں تھی۔ مفتی اعظم امین الحسینی کو بھی ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاگیا تھا۔ فلسطین پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ دیا اور پھر میں نے قریہ قریہ بستی بستی پروگرام کرنا شروع کردیے۔ میں نے ہر جگہ دیکھا کہ بیرون ملک سے لا کر بسائے گئے یہودیوں اور نسل درنسل وہاں مقیم فلسطینیوں کی آبادیوں میں بے حدتفاوت تھا۔ یہودیوں کو برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی طرف سے بے بہا سرمایہ ، آلات اور اسلحہ فراہم کیاجا رہاتھا۔ وہ دھڑا دھڑ زمینیں خرید کر آباد ہو رہے تھے‘ جب کہ فلسطینیوں پر غربت اور بھوک مسلط تھی۔
اسی لیے میں نے ضروری سمجھا کہ میں فلسطین میں رہوں اور فلسطینیوں میں مایوسی اور احساس شکست کے بجاے امید اور مزاحمت کا حوصلہ پیدا کروں۔ میں نے وہاں سے امام البنا کو تفصیلی رپورٹ ارسال کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے تمام تر انتظامات عملاً پورے کیے جاچکے ہیں اب صرف اعلان ہوناباقی ہے۔ اس عالم میں فلسطینیوں اور عالم اسلام کی ذمہ داری میں بہت اضافہ ہوچکاہے میں نے کچھ عملی تجاویز بھی ارسال کیں۔ اسی دوران مفتیِ اعظم مصر کے سرکاری دورے پر آئے وہ مرشد عام امام البنا سے بھی آکر ملے۔ امام البنا نے انھیں میرا تجزیہ اور تجاویز دکھائیں تو انھوںنے ان سے کامل اتفاق کیا۔
۱۹۴۵ء میں عرب لیگ تشکیل دی گئی تھی اس کے پہلے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام بھی وہاں تھے اور تقریباً تمام ممالک کے سفرا بھی تھے۔ جشن کے دوران ایک بڑے ہال میں تقاریر کا اہتمام کیاگیا تھا۔ مجھے دعوت خطاب ملی تو میں نے حمد و صلوۃ کے بعد کہا کہ میں آج فلسطین کے مفتی امین الحسینی کو سلام عقیدت پیش کرتاہوں کہ وہ فلسطین کے لیے ........اتنا ہی کہاتھاکہ پورا ہال زبردست نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ دیر تک تالیاں بجتی رہیں حالانکہ ہر کوئی جانتاتھا کہ آج بننے والے ملک عبداللہ اور مفتیِ فلسطین کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مفتیِ اعظم کی وفاداری اللہ اور اس کے رسول ؐ سے تھی‘ جب کہ شاہ اردن کی تمام وفاداری اپنے عرش و اقتدار اور انگریزوں سے تھی۔ اسے شاہ کا لقب بھی اسی لیے دیا گیاتھا کہ فلسطین کے مغربی کنارے کو اردن سے ملاتے ہوئے شرق اردن اور غرب اردن کو ایک مملکت بنادیاجائے۔ شاہِ وفادار کو اس کا اقتدار اور باقی ماندہ فلسطین کو اسرائیل مان کر مسئلہ فلسطین سے نجات حاصل کرلی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ساری سازش ناکام بنادی ان کی یہ ناکامی جہاد و مزاحمت کے باعث ہوئی ؟
اہل فلسطین نے مسلسل قربانیاں دے کر بھی علم جہاد کو سرنگوں نہیں ہونے دیا حالانکہ انگریزوں اور ان کے غلاموں نے جہاد سے نجات کی ہر ممکن کوشش کی۔ برصغیر میں جس طرح قادیانیت کا ناپاک پودا کاشت کرکے جہاد ساقط کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بہائیت سے یہ کام لینے کی کوشش کی گئی۔ یہودیوں نے بہائیت کی بنیاد رکھی۔ بہاء کی قبر فلسطین کے شہر عکا میں تھی اور عباس بہاء کی قبر حیفا میں دونوں کو بڑی شان و شوکت سے نوازا گیا۔ کیونکہ بہائیت میںجہاد کو حرام قرا دیا گیاہے۔مصر میں بھی اس کا بڑا مرکز بنایا گیا۔ شاہ فاروق کو بھی انھی صہیونی سازشوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیاگیا۔ افسوس صد افسوس شاہ فاروق کا محل یہودیوں کا مدد گار و معاون تھا ،ملکہ کی خصوصی خادمہ یہودیہ تھی اور خود شاہ فاروق کے گرد یہودیوں اور عیسائیوں کا جھمگٹاتھا۔
’’تتجا فی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعاً۔ ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘۔ اپنے مسائل اور مشکلات ایک دوسرے سے بانٹتے اگر کسی کوکوئی مشکل ہوتی ،کسی کے بچے کی پڑھائی کا مسئلہ ہوتا یا گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو ہر ایک دوسرے سے حسب استطاعت تعاون کرتے، اس کو مشورہ دیتے۔
ان دنوں جماعت کے سیکرٹری جنرل احمد حسن الباقوری تھے۔ احمد حسن جامعہ ازہر کی یونین کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے ہی اخوان کے اسکائوٹس کا ترانہ لکھا جواخوان میں بہت مقبول ہوا:
یارسول اللہ ھل یرضیک أنا
ننفض الیوم غبارالنوم عنا
اخوۃ فی اللہ للإ سلام قمنا
لانھاب الموت لا بل نتمنی
أن یرانا اللہ فی ساح الفداء
إن نفسا ترتضی الاسلام دیناً
اوتری الإسلام فی أرض مھینا
ثم ترضی بعدہ أن تستکینا
ثم تھوی العیش نفس لن تکونا
فی عداد المسلمین العظماء
حبذا الموت یریح البائسین
فلنمت نحن فداء المسلمین
ویرد المجد للمستعبدین
سادۃ الدنیا برغم الکاشحین
ولیسد فی الأرض قانون السماء
ان للدنیا بنا أن تطھرا
قد قطعنا العھد ألانقبرا
نحن أسداللہ لا أسد الشری
أونری القرآن دستور الوری
کل شیء ماسوی الدین ھباء
أیقظت جمعیۃ الإخوان فینا
أسعدوا العالم بالإسلام حینا
روح آباء کرام فاتحینا
فاستجبنا للمعالی ثائرینا
وتسابقنا إلی حمل اللواء
غیرنا یرتاح للعیش الذلیل
إن حیینا فعلی مجد أثیل
وسوانا یرھب الموت النبیل
أوفنینافإلی ظل ظلیل
حسبنا أنا سنقضی شھداء
میں ان کے ساتھ صعید کے دورے پر بھی گیا ہوں۔ یہ ایک یاد گار سفر تھا۔ اسی سفر میں ان سے میری قربت ہوئی۔ اس یاد گار سفر کے کچھ واقعات ملاحظہ ہوں:
یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے کہ امام حسن البنا نے مجھ سے فرمایا:’’ تیار ہوجائیے ، آپ ہمارے ساتھ اس سال صعیدمصر جائیں گے‘‘۔ صعید میں شدید گرمی ہوتی تھی۔ لوگ گرمی سے بھاگ کر اسکندریہ اور رأس البر جاتے، جب کہ امام حسن البنا اس کے برعکس گرمی میں داخل ہوتے۔ میں نے امام حسن البنا سے پوچھا سفر کے لیے کیا درکار ہو گا۔ انھوں نے جواب دیا صرف۲جنیہ( مصری پائونڈ)۔ تب قاہرہ سے اسوان کا کرایہ دو جنیہ تھا۔ ایک جنیہ جانے کا اور ایک جنیہ واپسی کا۔ اخوان المسلمون کے بعض اور ساتھی بھی اس سفر میں شریک ہونا چاہتے تھے ، جن میں ڈاکٹر محمدالھرولی، استادطاہر ، الشیخ محمود عوض اور دیگر ساتھی شامل تھے۔ ریل کا ٹکٹ تیسرے درجے کا تھا۔ تیسرے درجے کا سفر نہایت کٹھن اور ماحول بہت خراب ہوتاتھا۔ مسافروں کا سامان ، خیمے ، بیگ اور طرح طرح کی چیزیں بکھری ہوئی ہوتیں۔ سیٹوں کے درمیان چلنا ممکن نہ تھا۔ مسافروں کا ہجو م ہوتا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود امام حسن البنا تیسرے درجے ہی میں سفر کیا کرتے تھے۔
ہم نے دوجنیہ دے دیے۔ ڈاکٹر محمد الھرولی نے کہا کہ اگر ہم اسی کرایے میں دوسرے درجے میں سوار ہوجائیں تو کیا خیال ہے۔ امام حسن البنا نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا کہ ریلوے میں ایسی ٹکٹیں ہیں جو کلومیٹر کے حساب سے ہوتی ہیں۔ جنھیں کلومیٹر ٹکٹیں کہا جاتا ہے۔ دوتصویریں اور ٹکٹیں لیں۔ ریلوے آفس چلے جائیں۔ وہ کچھ پیسے لے کر ان ٹکٹوں پر دوسرے درجے کی مہر لگا دیں گے۔ امام حسن البنا نے اس کام کے لیے میری ذمہ داری لگائی۔ میں ٹکٹیں لے کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر لگاتارہا۔ کبھی جواب ملتا کہ متعلقہ آدمی موجود نہیں ہے تو کہیں جواب ملتا کہ کل آجانا۔بالآخر میں ناکام واپس لوٹا۔ امام حسن البنا ،نے پوچھا :کیا بنا؟۔ میں نے جواب دیا بہت سے دفتروں کے چکر لگائے لیکن کچھ نہ بنا۔ وہاں پر موجود مرکز کے سیکرٹری جناب عبدالحکیم نے کہا کہ ریلوے میں میرا ایک دوست ہے میں اس کو لکھ دیتا ہوں وہ اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گا۔اگلے روز میں یہ رقعہ لے کر اس شخص کے پاس پہنچا۔ وہ ایک نہایت ہی شریف اور بااخلاق انسان تھا۔ وہ ریلوے دفتر میں میرے ساتھ گیا۔وہاں پہنچے تو وہی سلسلہ جس سے مجھے کل واسطہ پڑ ا تھا۔ متعلقہ آدمی نہیں ہے، ملازم نہیں ہے ، کل آجانا، جیسے جوابات ملے۔ دفتروں میں چکر لگاتے پورا دن گزر گیا لیکن کچھ نہ بنا۔ البتہ اس شخص نے تعاون کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ واللہ میں نے اس سے زیادہ شریف ، بااخلاق اور با ہمت شخص نہیں دیکھاتھا۔واپس حسن البنا کے پاس لوٹا ، تمام قصہ سنایا۔ انھوں نے کہا کہ اپنے آپ کو تکلیف میں مت ڈالو۔ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم سبنسہ( ٹرین کے آخر میں لگا مال بردار ڈبہ) میں سفر کریں۔
نہ درجہ اول ، نہ دوم اور نہ درجہ سوم ہم ریل کے سب سے آخری ڈبے میں سوار ہوں گے۔ ریل گاڑی کا آخری ڈبہ صرف سامان کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس ڈبے میں کرسی ہوتی ہے نہ کوئی بیٹھنے کی جگہ۔امام البنا نے کہا :’’لگتا ہے اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم اسی ڈبے میں سوار ہوں گے‘‘۔
جب ہم اگلے دن صبح ریلو ے اسٹیشن پہنچے تو گاڑی پر مسافروں کا بہت ہجوم تھا۔ اول ، دوم اور سوم سب ڈبے بھرے ہوئے تھے۔ لوگ کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے تھے، حتیٰ کہ گاڑی کے پایدان پر بھی پائوں رکھنے کی جگہ نہ تھی ، اس دوران میںہمیں آخری ڈبے والے نے دیکھا، اس کو ہم پر ترس آیا۔ اس نے کہا:’’ محترم ادھر آجائیے ، اگلے اسٹیشن تک اس ڈبے میں سوار ہوجائیے ‘‘۔ یہ ریل گاڑی صرف بڑے اسٹیشنوں پر رکتی تھی۔ قاہرہ سے چلتی تو صرف جیزہ ، بنی سویس اور اسیوط جیسے تقریباً چھے اسٹیشنوں پر رکتی۔ اس ریل گاڑی کو ایکسپریس کہا جاتاتھا۔ ہم آخری ڈبے میں سوار ہوگئے۔ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ ہمیں کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑا۔ ہم نے کوشش کی کہ کسی جگہ پر بیگ رکھ کر اسی کے اوپر امام حسن البنا کو بٹھایا جائے، لیکن اتنی جگہ بھی میسر نہ تھی۔ جب گاڑی منیہ کے اسٹیشن پر رکی تو بعض مسافر اترے۔ امام حسن البنا نے ایک روز پہلے کہاتھا کہ واللہ ہم آخری ڈبے ہی میں سفر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم پوری کردی۔ اس وقت سے مجھے اس شخص سے ایک طرح کا خوف محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتا تو اللہ اس کی قسم کو پورا کردیتا۔ میں نے دیکھا وہ کبھی ایسی ویسی بات نہ کیا کرتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے لوگ تیسرے درجے میں سفر کرنا ناپسند کرتے ہیں، لیکن حسن البنا جس نے پوری نسل کی تعمیر کی، جس نے نوجوانوں کی زندگیوں کو بدلا ، جو مصر کا ایک ایک شہر اور ایک ایک قصبہ پھرا ، شمال و جنوب میں کوئی ایسا شہر یا گائوں نہیں جس میں یہ خبر نہ ہو کہ یہ آدمی تیسرے درجے میں سفر کرتا ہے۔ حالانکہ تیسرے درجے میںاور خود اس قیامت کی گرمی میںسفرناقابل برداشت تھا۔
اسی دوران میں انگریزی افواج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلومیل کلیتون نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ معروف جنگی مجرم تھا لیکن اس نے مصر میںایک مسلمان لڑکی سے شادی کرلی۔ وہ مصریوں کے دل جیتنا چاہتاتھا۔ جب جلو س نکلے کہ اے رومیل آگے بڑھو تو اس نے امام حسن البنا سے ملاقات کرنا چاہی۔ کلومیل کلیتون امام حسن البنا کے پاس آیا۔ اس نے اس سوال سے اپنی بات شروع کی :’’اخوان المسلمون انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں ؟‘‘سوال بڑا عجیب تھا۔ امام حسن البنا کی دو صفتیں نمایاں تھیں: سچائی اور اپنی دعوت کے لیے ہر لمحہ مستعد اور بیدار رہنا۔ امام سچائی اور تجرد کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ دوسری تجرد یعنی نہ دنیا ، نہ اقتدار ، نہ حکومت اور نہ کوئی اور چیزبس صرف اللہ کی رضا۔
امام حسن البنا نے کلومیل کلیتون سے کہا: اخوان المسلمون اس لیے انگریز حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں کہ انگریز ہماری زمین اور ہمارے ملک، ہماری دولت پر قابض ہیں۔ آپ کا سوال عجیب ہے کہ ہم انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ تم انگریز لوگ مصریوں سے ایک ٹن کپاس تین جنیہ میں خریدتے ہو۔ اگر یہی کپاس تم خود کاشت کرو تو ایک ٹن پر ۱۰ جنیہ خرچہ آئے۔ کیا یہ تمھارے لیے جائز ہے ، کوئی بھی قوم اس ظلم کو برداشت نہیں کرے گی۔ تم جانتے ہو کہ جاپان نے ایک ٹن کپاس ۱۷جنیہ میں خریدنے کی پیش کش کی ہے ، لیکن تمھاری حکومت آڑے آتی ہے۔ ہم آپ سے کیسے نفرت نہ کریں‘‘۔کلومیل کلیتون نے بحث کرنا چاہی کہ:’’اخوان المسلمون ایسے ہیںویسے ہیں ‘‘۔
امام نے جواب دیا:’’خدا لگتی بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون سچے ہیں ، وہ جھوٹ نہیں بولتے ،اگر تم ہم سے انصاف کرو تو ہم تم سے محبت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس قیمت میں دوسرے ہم سے کپاس خریدتے ہیں تم بھی اسی قیمت پر ہم سے کپاس خریدو۔ تم قابض ہو ، غاصب ہو ‘‘۔ اس کے بعد انگریزخفیہ ادارے کے سربراہ نے مصر میں اپنے سفیر اور دوسرے ذمہ داران سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت تین جنیہ سے بڑھا کر آٹھ جنیہ کردی گئی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ شیخ حسن البنا سے ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت میں اضافہ کردیاگیا۔
انگریزمہمان نے امام حسن البنا سے پوچھا اخوان المسلمون کے پاس اتنا بڑا مرکز ہے۔ اتنی رقم کہاں سے آئی ؟ تو امام حسن البنا نے نے ازراہ تفنن جواب دیا رومیل (جرمن کمانڈ)نے پیسے دیے ہیں۔ پھرآپ نے فرمایا :’’اخوان المسلمون کے ساتھی ایک ایک پیسہ جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے پاس جو کچھ ہے وہ اخوان المسلمون کے ساتھیوں کے تعاون سے ہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھی اپنے اخراجات سے بچا کر پیسے جمع کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا:’’ میرے جسم پر جو لباس آپ دیکھ رہے ہیں اس کی قیمت تقریباً۶۰قرش (پیسہ )ہے، جب کہ تمھارے لباس کی قیمت ۶۰ جنیہ(پائونڈ) ہے ‘‘۔
کلومیل نے کہاکہ بادشاہ سلامت نے اخوان کی مدد کے لیے ۱۰ ہزار مصری پائونڈ کی مدد ارسال کی ہے۔ یہ ایک بڑی رقم تھی لیکن امام حسن البنا نے اس برطانوی ذمہ دار سے کہا :’’بڑے احترام سے عرض کروں گا کہ آپ پہلے شخص ہیں جس کے منہ سے سن رہا ہوں کہ شاہِ انگلستان نے اخوان المسلمون کے بیت المال کے لیے دس ہزار جنیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت شکریہ لیکن ہم آپ کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہ رقم لینے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ رقم ہم بادشاہ سلامت کے لیے بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ مال حرام ہے۔ امام حسن البنا نے ۱۰ہزار جنیہ کی پیش کش مسترد کر دی اور کہا کہ اگر آج ہم آپ سے رقم لیں گے تو کل دوسروں سے بھی لے سکتے ہیں۔ پھر ہم آپ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔
یہ برطانوی فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلو میل کلیتون کا قصہ ہے جو امام حسن البنا سے کہنے آیاتھا کہ آپ برطانیہ سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔؟
امام حسن البنا نے اپنی ذات یا کسی مفاد کے لیے پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیاتھا بلکہ اس لیے حصہ لیا کہ پارلیمنٹ میں اسلام کی مضبوط آواز بلند ہو۔ پارلیمنٹ میں اسلام کا نمایندہ ہو۔ یہی امام حسن البنا کا موقف تھا وہ تشدد کو ناپسند کرتے تھے۔ بہرحال امام اور اخوان المسلمون کو اندازہ تھا کہ اس انتخابات کا نتیجہ ہمارے خلاف ہی آئے گا۔
انھوں نے ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا ان دنوں سوشلسٹ عناصر متحد تھے اوران کے سربراہ کا نام ہنری کریز تھا جو مصر کے مال داروں میں شمار ہوتاتھا۔ایک روز امریکیوں نے اخوان المسلمون کے ساتھیوں کومزہ چکھانے کی ٹھانی۔اخوان کے ایک ساتھی نے فوجی افسرسے ذرا کھردرے الفاظ میں بات کی ،مقصود فوجی کی شان میںکوئی گستاخی نہیں تھی، بلکہ اپنے حق کی بات تھی۔ اس پر وہ بپھر گئے ، ایسا لگ رہاتھا کہ فوجی معرکہ درپیش ہے۔ بڑی تعداد میں فوجی آگئے۔ مجھے اس چھائونی سے سوشلسٹوں کے ساتھ حوالات میں منتقل کردیا گیاتھا۔ جیل میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسان کو کسی غیر قوم کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن پاک میں سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کو کہاتھا کہ لأعذبنہ عذاباً شدیداً أولأذبحنہ’’میں اسے سخت سزا دوں گا یااسے ذبح کردوں گا ‘‘۔علما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہد ہد کو سلیمان علیہ السلام نے جو سزا دینے کا فیصلہ کیاتھا وہ یہ تھا کہ اسے غیر جنس کے پر ندوں کے ساتھ رکھا جائے گا۔ ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا گیا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مختلف چیز تھے۔ مزاج کے اعتبار سے پست فطرت انسان۔ سگریٹ ٹکڑے تک کے لیے ایک دوسرے سے خیانت کرتے تھے۔ اپنے بھائی کی چوری کرلیتے، ایک دوسرے کا کھانااچک کر کھاجاتے۔ آپس میں جھگڑتے۔ مختصراً یہ کہ وہ مادی جانور تھے۔ ہمیں حوالات سے فوجی چھائونی کے ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اس چھائونی میں شیخ یوسف قرضاوی اور دوسرے ساتھی بھی تھے۔ مجھ اکیلے کو حوالات میں لے جایا گیا۔ فوجیوں نے مجھے لاٹھیوں اور سریوں سے مارا۔ بہت شدید مارا، لیکن اللہ کی قسم، بری طرح مارنے کے بعد جب مجھے واپس لایا گیا تو کوئی درد محسوس نہیں ہو رہاتھا۔ ایسے لگ رہاتھاجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میری آنکھ کے نیچے لوہے کا راڈ لگنے سے نشان پڑ گیاتھا لیکن الحمد للہ آنکھ کو کچھ نہ ہوا۔ اخوان پریشان تھے کہ وہ کیا کریں۔ جب میں واپس لوٹا تو مجھے حوالات میں دیگر اخوانی ساتھیوں سے الگ رکھا گیا ، مجھ پر پانی بھی بند کردیا گیا۔ اخوان کے ساتھی بہت پریشان تھے اور مجھ تک پانی پہنچانے کی کوششیں کررہے تھے۔ میرے دروازے کے نیچے پتا رکھ کر اس پر پانی ڈالتے تاکہ مجھ تک پہنچ جائے۔ ہماری سب سے بڑی مشکل گرمی تھی۔ شدید گرمی، کمرے کی چھت لوہے کی تھی۔ کمرہ گرم ہوجاتا تھا۔ تازہ ہوا کے داخلے کی کوئی صورت نہ تھی۔ دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔ہم تازہ ہوا لینے کے لیے اپنی ناک ٹوٹی ہوئی جالیوں کے سوراخوں پر رکھتے تھے۔ یہ امام حسن البنا کی شہادت کے کچھ ہی زمانہ بعد کی بات ہے۔
ایک اور مثال دیتاہوں۔اخوان کے ایک ساتھی احمد حسن نے بہادری دکھانا چاہی، اس کے ساتھی جو اخانہ میں گئے اور توڑ پھوڑ کی۔اسی طرز پر اخوان کے بعض دیگرساتھیوں نے بھی کارروائی کرنا چاہی، مگرامام حسن ا لبنا نے انھیں ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا:’’ یہ ہمارا نہیں، حکومت کا کام ہے۔ ہمارا کام دعوت ہے۔ ہم دعوت کا کام کریں گے ، ہم پارلیمنٹ کے ذریعے جوا اورشراب رکوائیں گے ‘‘۔امام حسن البنا لوگوں کی رہنمائی حکمت اور دانش سے کرتے تھے۔ وہ اتحاد کے داعی تھے۔ وہ تفرقہ پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے ، وہ انتشار پھیلانے کو نا پسند کرتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ہم پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ قانون کے ذریعے تبدیلی لائیں گے ، ہم لڑائی نہیں کریں گے ، فساد نہیں کریں گے ،لیکن امن پسندی اور روشن خیالی کے راگ الاپنے والوں کو دیکھیں اسی امن کے علَم بردار کو قتل کردیا۔
آپ کی مہربانی کہ آپ نے مجھے امام حسن البنا کی یاد میں کچھ لکھنے کے لیے کہا۔وہ قائد کہ جس کے لیے اللہ کی رحمت نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اس بے وفا دنیا کو چھوڑ کر اپنے رحمن و رحیم پروردگار کے حضور پہنچ جائے۔ اللہ کی رحمت نے ہمارے لیے بھی یہ چاہا کہ جس عظیم شخصیت سے ہم محروم ہوئے ہیں وہ اپنی یادوں اور اپنے تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے موجود رہے۔
اے اخوان المسلمون !اگر آپ لوگ اپنے بڑے بھائی سے محروم ہوگئے ہیں، تو آپ کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ شخص جس نے ہر رشتے اور واسطے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کررکھاتھا، اس نے انتہائی پاک دامنی کی حالت میں اپنی جان اپنے دین اور عقیدے پر نثار کردی۔ آپ لوگ جب بھی اسے یاد کریں گے تواسے معزز و محترم اور پایندہ پائیں گے۔ جب موت انسان پر قبضہ کرنے کے لیے زندگی سے برسرپیکار ہوتی ہے تو زندگی کو غلبہ اس وقت ملتا ہے جب ایسے انسان کو یاد رکھا جائے، اور موت اس وقت غالب آتی ہے جب اسے فراموش کردیا جائے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ الشیخ حسن البنا ہم سب کے دلوں میں اپنی یادوں کی بدولت زندہ ہیں۔ بھلا وہ شخص کیوں کر پایندہ نہ رہے جس نے دین میں اپنے پروردگار کی ہدایت اختیار کی اور دنیا میں قلب کی سلامتی کو مشعل راہ بنایا !
اے اخوان المسلمون !آپ لوگ اسے یاد کریں ،اسے بارباریاد کریں ، اسی یاد میں اس کی اور آپ لوگوں کی زندگی مضمر ہے۔ ذرا دیکھو یہ بات کون کہہ رہا ہے ؟یہ مکرم عبید ہے ، مرحوم کا مسیحی دوست ، جس نے اپنے اس مسلمان بھائی میں صدق و امانت کو یک جا پایا۔ مرحوم کو یاد کرتے وقت میں آپ کو کیسے نہ بتائوں کہ ہمارا اکثر ایک دوسرے سے ملنا جلنا رہتاتھا۔ میں اس کی عظمت و فضیلت کی گواہی کیوں نہ دوں کہ میں اسے انتہائی قریب سے جانتا ہوں۔ مجھے قسم ہے حق کی کہ یہ ایک سچی گواہی ہے ، میں اس گواہی پر اپنے رب کو گواہ ٹھیراتا ہوں۔ میں یہ شہادت زبا ن کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی گہرائی سے دے رہا ہوں۔ یہ ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جس کے اور مرحوم کے مابین قدر مشترک ایک رب پر ایمان اور اتحاد ملّی پر ایقان تھا۔ تمام آسمانی مذاہب میں توحید صرف اس قدر کافی نہیں کہ آپ اللہ کو ایک قرار دیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ خود بھی اپنے اللہ کی خاطر ایک ہوجائیں۔ قومی وحدت کے لیے محض ملک اور خطے کایک جا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ملک کے تمام باشندوں کا متحد ہونا بھی ضروری ہے۔
صرف اخوان المسلمون اور وفد پارٹی ہی دو ایسی تنظیمیں تھیں جو’دارالاخوان‘اور’وفد پارٹی کے کلب ‘میں باہم ملاقاتوں کا اہتمام کرتی تھیں۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حسن البنا میرے گھر تشریف لائے اور ہم نے ذاتی دل چسپی کے امور او رقومی معاملات پر طویل تبادلۂ خیال کیا۔ مجھے ان کی باتیں سن کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ ظاہر پرستی اور رسمی باتوں سے کوسوں دور اور بلند تر ہوں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ہم لوگوں میں ان جیسی گہری فکروالا اور پاک ضمیر شخص کم ہی ہوگا۔
ان کی شہادت کے بعد میں نے انھیں ان کے گھر میں دیکھا۔ یہ ایک ایسی انوکھی ملاقات و زیارت تھی جس کے کرب ناک اور خوف ناک اثرات کو میں مرتے دم تک نہ بھلا سکوں گا۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت دلی صدمہ پہنچا کہ پولیس کی نفری نے اس سڑک کا محاصرہ کررکھا ہے جس پر مرحوم کا گھر واقع تھا۔ اگر پولیس آفیسر مجھے پہچان کر وہاں سے گزرنے کی اجازت نہ دیتا تو میں تعزیت کا فریضہ سرانجام دینے سے بھی قاصر رہ جاتا۔
میں اگر سب کچھ بھی بھول جائوں تب بھی میں اس بات کو ہرگز نہ بھلا سکوں گا کہ ان کے والد بزرگوار میری اس حاضری سے کس قدر متاثر تھے۔ انھوں نے آبدیدہ ہو کر مجھے بتایا کہ مرحوم کے جنازے کے پیچھے چلنے سے عوام کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ مرحوم کے والد کے ماسوا ،کسی کو بھی میت کے پیچھے چلنے کی اجازت نہ تھی ، نہ کسی کو تعزیت کے لیے ان کے گھر جانے دیا گیا۔
دکھی والد نے شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھے اپنی دعائوں سے نوازا ، میں اب تک ان دعائوں سے برکت پاتا ہوں۔میں مغموم والد محترم سے کہنا چاہتا تھا کہ تعزیت کرنا اگر ایک لازمی انسانی فریضہ ہے تو پھر مجھ سمیت ہر مصری نے یہ فریضہ انجام دیا ہے، کیونکہ ہر مصری کو ان کے فرزند ِمظلوم کی وفات کا گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ تعزیت نہ کرنا یا نہ کرنے دینا ہماری روایات اور اقدار سے انحراف ہے۔
میرے بھائیو !جی ہاں، آپ سب لوگ میرے بھائی ہیں۔ اے اخوان المسلمون !آپ لوگ وطن اور قومیت کے لحاظ سے میرے بھائی ہیں۔ آپ میرے سب سے قریبی بھائی ہیں۔ مرحوم کو یاد کرتے وقت ،آپ ان کی اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ مرحوم ہمیشہ آزادی کی بات کیا کرتے تھے۔ وہ جیل میں رہ کر بھی اپنے ملک و قوم کی آزادی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ظالموں نے شہید کر کے انھیں ہرغم سے آزاد کردیا۔ ان کی اس آزادی میں بیک وقت اجر بھی ہے اور جدوجہد جاری رکھنے کا پیغام بھی۔ (مجلہ الدعوۃ‘ ۱۶جمادی الاول۱۳۷۱ھ)
ارض فلسطین کے بارے میں جب بھی جہاد کا ذکر کیا جائے گا ، اخوان المسلمون کا نام سرفہرست ہوگا، بلکہ شاید یہ کہنازیادہ مناسب ہو کہ یہاں اب بھی حقیقی جہاد اخوان المسلمون ہی کررہی ہے۔
اخوان نے ارض مقدس کو اپنے خون سے سیراب کیا اور اس کے ہزاروں شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ فلسطین کی موجودہ تحریک حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) بھی اخوان المسلمون کے لگائے ہوئے پودے ہی کی ایک شاخ ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد امام حسن البنا نے مارچ ۱۹۲۸ء میں رکھی تھی اور وہی اس کے پہلے مرشد عام تھے‘ جب کہ ان کی پیدایش ۱۴اکتوبر ۱۹۰۶ء کو ہوئی تھی۔ اس طرح اخوان المسلمون کے قیام کے وقت ان کی عمر صرف ۲۲برس تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب انھوں نے دارالعلوم قاہرہ سے سند فراغت حاصل کی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ وہ اپنی پوری تعلیمی زندگی میں اس طرح کی کوئی تنظیم بنانے کے بارے میں سوچتے رہے تھے، جو ان کے خیال میں دین اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کے احیا کے لیے ضروری تھی۔
دنیا کے گوشے گوشے میں جو تحریکیں اقامت دین کا کام کررہی ہیں، ان پر اخوان المسلمون کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اخوان المسلمون کے پہلے مرشدعام امام حسن البنا کی کوششیں تھیں، جنھوں نے اخوان المسلمون کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہاں پریہ ذکر بر محل ہوگا کہ امام ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)نے برعظیم پاک و ہند میں دین اسلام کی ترویج و تجدیدکے لیے بڑی عظیم کوششیں کیں۔ یہ بھی امام حسن البنا کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے دور میں تجدید و احیاے دین کا کارنامہ سرانجام دیا۔ان ہستیوں کے ذریعے عالمِ اسلام میں ایسی تحریکوں کی بنا پڑی جس کی نظیر ہمیں دُور دُور تک کہیں نظر نہیں آتی۔ انھی تحریکوں کے ذریعے پوری دنیا میں علم جہاد بلند ہوا اور مسلمان اس عظیم مقصد کے لیے اپنے تمام وسائل بروے کار لائے۔ ان حضرات‘ یعنی البنا اورمودودی کی فکر بڑی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔
مسئلہ فلسطین کے ساتھ دونوں رہنمائوں کی گہری وابستگی تھی اور فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کی سیاسی پالیسیاں بھی بڑی واضح اور مخلصانہ تھیں۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے عظیم خدمات انجام دیں اور اہل فلسطین کی بھلائی اور ان کے منصفانہ موقف کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے رفقا کی جدوجہد ہی ہے، جس نے مسئلہ فلسطین کو اس کے محدود دائرے (یعنی اسے صرف فلسطین یا عرب کا مسئلہ متصور کیے جانے کی سوچ) سے نکال کر اسے عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا۔ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھنے لگے اور اس معرکے کو قابض صہیونیوں کے خلاف اپنی جنگ تصور کرنے لگے۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد امام البنا اسماعیلیہ میں استاد مقر رہوئے۔ یہ علاقہ نہر سویز کے کنارے واقع ہے جو اس وقت قابض انگریز فوج کی چھائونیوں میں گھرا ہوا تھا۔ امام نے اسماعیلیہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اور اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع کیا۔ وہ اسماعیلیہ کے محلوں اور قرب و جوار کی بستیوں میں اخوان المسلمون کے لیے ایک کے بعد ایک مراکز ، شاخیں ،مدرسے اور مسجدیں بناتے رہے۔ اس طرح ان کے حامیوں اور ساتھیوں میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔اس دوران امام کی حالت یہ ہوتی کہ دن رات میں چند گھنٹوں کے علاوہ نیند ان کے قریب بھی نہیں آسکتی تھی۔ وہ دن کا اکثر حصہ اخوانی عوام اور کثیر آبادی والے علاقوں میں بطور ایک داعی ، معلم اور واعظ کے دوروں میں گزارتے تھے۔
امام البنا نے اپنی کوششوں کو صرف مردوں اور نوجوانوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بڑے پیمانے پر خواتین کو بھی اپنی دعوت کا مخاطب بنایا۔ صرف ان کی دعوت پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی موثر انتظام کیا۔ چنانچہ اسماعیلیہ میں ان کے لیے جدید طرز پر مدرسہ امہات المؤمنین کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے میں اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کا بھی انتظام تھا۔ یہ مدرسہ جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج تھا۔
جب اسماعیلیہ اور اس کے قرب و جوار میں اخوان المسلمون کو تقویت ملی تو امام کو دوسرے مقامات پر بھی کام کرنے کا حوصلہ ملا اور ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اب اللہ تعالیٰ ان کی دعوت کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دے۔اس طرح انھوں نے مرکز دعوت کو قاہرہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ امام کی ملازمت بھی ادھر منتقل ہوچکی تھی۔ دعوت کے اس نئے مرکز سے یہ دعوت دنیا بھر میں پہنچ گئی۔ اس دعوت کے علم بردار اپنے امام کے حکم سے ملک اور بیرون ملک، دنیاکے گوشے گوشے میں پھیل گئے اور اس دعوت کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
اخوان المسلمون کے مرکز میں امام کے ہفتہ وار دروس ہوتے تھے۔ دینی ، قومی اور تاریخی اہم مواقع پر ان کے لیکچروں کا انتظام ہوتا تھا۔ جریدۃ الاخوان میں ان کے روزانہ خطوط شائع ہوتے تھے اور مصر کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ان کے دورے ہوتے تھے۔ یہ تمام سرگرمیاں امت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بن رہی تھیں، اور اسے اپنے مقصد ِوجود سے آگاہ کررہی تھیں۔
امام البنا نے زیادہ کتابیں نہیں لکھیں لیکن انھوں نے ہزاروں مؤلفین اور مفکرین تیار کیے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے امام کی ہدایات اور ان کے رسائل سے‘جن کی تعداد ۲۰سے زیادہ نہیں ہوگی‘ فیض حاصل کیا۔ ان ہدایات و رسائل کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ سے متعلق مختلف میدانوں میں تصنیف و تالیف کا کام کریں۔ اسی حوالے سے امام حسن البنا کا شمار ۲۰ ویں صدی عیسوی کے مجددابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ہوتا ہے۔
امام حسن البنا کا کارِ تجدید دین اسلام کے کسی ایک پہلو تک محدود یا مسلمانوں کے کسی ایک مسئلے پر اکتفا کرنے والا نہیں تھا، بلکہ یہ تجدید ان تمام پہلوئوں پر حاوی تھی جن کے حوالے سے امت کا پرچم سرنگوں ہوچکاتھا اور ان کے مقاصد پست ترین سطح پر اتر آئے تھے۔
یہ تجدید عقیدے کی تجدید تھی جو لوگوں کے دلوں میں ڈانواںڈول ہوچکاتھا۔ اسی طرح یہ اخوت کی تجدید تھی، جس کا کوئی نام و نشان تک مسلمانوں کی زندگی میں عملاً باقی نہیں رہاتھا۔ یہ اسلامی فکر کی تجدید تھی جسے غاصب استعماری قوتوں نے لوگوں کے ذہنوں میں مشتبہ کر ڈالاتھا۔ یہ فقہ کی تجدید تھی جو جامدذہن رکھنے والوں اور انتہا پسند وں کی وجہ سے جمود کا شکار ہوچکی تھی۔ یہ تعلیم و تربیت کی تجدید تھی جس کا دائرہ مقلدانہ نصاب تعلیم تک محدود ہوچکا تھا۔ یہ علوم و فنون کی تجدید تھی جس کے سرکردگان مغربی تہذیب کی چکا چوند سے متاثر تھے۔یہ معیشت کی تجدید تھی جو سود پر مبنی معیشت کی وجہ سے کھوکھلی ہوکر تباہ ہونے کے قریب تھی۔ یہ ذرائع ابلاغ کی تجدید تھی جن کا کام گانے بجانے تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ یہ ایک حرکی اور دعوتی تجدید تھی۔ یہ تجدیداس دعوت کا احیا تھی جو جمود کا شکار ہو کر دم توڑنے کے قریب تھی۔ یہ معاشرتی زندگی کی تجدید تھی جو خواب غفلت سے بیداری کی طرف دعوت دے رہی تھی۔ یہ سیاست کی تجدید تھی جو دھوکا، فریب دہی اور بد ترین غلامی کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ یہ جہاد کی تجدید تھی جس کا صیغہ مسلمانوں کی لغت اور یاد داشت سے محو ہوچکاتھا۔
اس طرح امام حسن البنا کا شمار بجا طور پر ۲۰ویں صدی کے نمایاں ترین مجددین میں ہوتا ہے۔ یہ موقع اس تفصیل میں جانے کا نہیں ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس ہمہ پہلو تجدید نے مختلف معاشروں کو کس طرح متاثر کیا۔ ہم یہاں اس تجدید کے صرف جہادی پہلو کے متعلق گفتگو کریں گے جو مسلمانوں کے دلوں میں نشاتِ نو کا پیغام تھا، اور جس کے نتیجے میں اہل فلسطین کی حمایت کی ایک عظیم الشان تحریک برپا ہوئی۔
امام نے جہاد کے بارے میں انتہائی قیمتی ارشادات پیش کیے ہیں،جنھوں نے اخوان کے دلوں میں جہاد کی محبت کو زندہ کردیا۔ انھوں نے رسالۃ الجھاد کا اختتام بھی انتہائی بیش قیمت کلمات سے کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اخوان ہمیشہ سے اس دن کے انتظار میں رہتے ہیں جس دن اللہ کے دشمنوں سے ان کا آمنا سامنا ہو، اور وہ اللہ کے سامنے اپنی جان کی قربانی کا وہ مظاہرہ کریں جس کے ذریعے اللہ ان سے راضی ہوجائے۔
رسالۃ الجھاد کے مقدمے میں امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جہاد کو ہرمسلمان پر فرض کردیا ہے۔ یہ ایک لازمی اور حتمی فریضہ ہے جس سے کسی کو چھٹکارا اور مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف بڑی ترغیب دی ہے اور شہدا و مجاہدین کے لیے عظیم اجر و ثواب کا وعدہ کررکھا ہے۔ ان کا مرتبہ اتنا بلند رکھا گیا ہے کہ جہاد کے علاوہ کسی عمل سے اس مقام تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اور شہدا کو دنیا و آخرت میں وہ روحانی اور عملی امتیازات عطا فرمائے ہیں، جو ان کے علاوہ کسی کو نہیں دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاکیزہ خون کو دنیا میں فتح ونصرت کی قیمت اور آخرت میں فوزو فلاح کا عنوان بتایا ہے۔ جہاد سے پیچھے رہ کر بیٹھ جانے والوں کو دردناک سزائوں کی وعید سنائی گئی ہے۔ انھیں بدترین صفات سے متصف کیا گیا ہے اور بزدلی اور بیٹھے رہنے پر سخت الفاظ میں سرزنش کی گئی ہے۔ کمزوری اور پستی کے اس رویے کے باعث دنیا میں ان پر وہ ذلت مسلط کی گئی ہے جس سے جہاد کے بغیر نجات ممکن نہیں، جب کہ آخرت میں ان کے لیے وہ عذاب تیار کیاگیا ہے جس سے چھوٹنے کے لیے اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کریں تب بھی اس سے بچ نہ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے منہ موڑنے اور اس سے راہ فرار اختیار کرنے کو گناہ کبیرہ کی سب سے بڑی قسم شمار کیا ہے۔ یہ ان سات اعمال میں سے ایک ہے جو انسان کے لیے مہلک اور تباہ کن ہیں۔
دنیا میں کوئی قدیم و جدیدنظام یا کوئی مذہبی یا تمدنی قانون نہیں ہے جس نے جہاد و دفاع کو اتنی اہمیت دی ہو اور اس کے لیے ساری امت کو ایک صف میں جمع کیا ہو‘تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ حق کا دفاع کرسکے۔ یہ صفت صرف دین اسلام اور اس کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بلند مرتبہ فکر کو وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔ قرآن کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بالکل واضح اسلوب اور فصیح ترین عبارت کے ساتھ جہاد و قتال کی دعوت دیتی ہیں‘ اور ہر قسم کے بری، بحری اور فضائی دفاعی و سائل کو مضبوط بنانے کی تاکید کرتی ہیں تاکہ مسلمان کسی بھی حالت میں دشمن کے مقابلے سے عاجز نہ ہوں۔ (رسائل الامام الشھید‘ ص۲۷۳)
امام فرماتے ہیں : میرے بھائیو! جو قوم مرنے کا سلیقہ جانتی ہے‘اس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں باعزت زندگی اور آخرت میں دائمی جنت نصیب فرمادیتا ہے۔ جس چیز نے ہمیں ذلیل کرکے رکھ دیا ہے وہ دنیاکی محبت اور موت کی کراہت کے سوا کچھ نہیں۔ تم لوگ اپنے آپ کو ایک بڑے کام کے لیے تیار کرو۔ شہادت کی تمنا کرو گے تو تمھیں زندگی ملے گی۔ جان لوکہ موت تو آنی ہی ہے اور وہ ایک ہی مرتبہ آنی ہے۔ اگر تم نے اس کو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے پالیا تو یہ دنیا کا نفع اور آخرت کا ثواب ہوگا۔ تمھیں وہی کچھ ملتا ہے جو تمھارے لیے مقر ر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر خوب غور و فکر کرو گے:
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے۔ مگر ایک دوسرا گروہ جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنی ذات ہی کی تھی ، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا، جو سراسر خلاف حق تھے۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ’’ اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟‘‘ان سے کہو :’’ (کسی کا کوئی حصہ نہیں ) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ‘‘دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا اصل مطلب یہ ہے : ’’اگر (قیادت کے)اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے۔ ‘‘ان سے کہہ دو :’’ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔ ‘‘ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمھارے سینوں میں پوشیدہ ہے، اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمھارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے ، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۴)
پس تم باعزت موت کے لیے کام کرو ، بھرپور سعادتوں کے حصول میں کامیاب ہوجائو گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمھیں اپنی راہ میں شہادت سے سرفراز فرمائے۔ (ایضاً، ص ۲۹۱)
امام حسن البنا اخوان المسلمون میں حُب جہاد کی تربیت کے لیے صرف رسالۃ الجھاد پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ انھیں جب بھی موقع ملتا، دلوں میں اس جذبے کو اُبھارنے کی تدبیر کرتے تھے۔ چنانچہ وہ نوجوانوں کے نام اپنے پیغا م میں فرماتے ہیں :’’اے نوجوانو!تم ان لوگوں سے کمزور نہیں ہو جن کے ہاتھوں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس پروگرام کو عملی طور پرنافذ کردکھایا تھا، لہٰذا تم وہن اور ضعف کا شکار مت بنو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو اپنا نصب العین بنائو کہ: اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلo (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳)’’جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ، ان سے ڈرو ‘‘ ، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘)۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایسا ایمان پروان چڑھایا ہے جو ڈگمگانے والا نہیں ہے اور ہم اس کے لیے مسلسل عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اللہ پر ایسا اعتماد حاصل ہے جس میں کوئی کمزوری نہیں آتی، اور ہم ایسی روحوں سے سرشار ہیں جن کے لیے سب سے زیادہ باسعادت دن وہ ہوگا جب وہ اپنے رب کے راستے میں شہادت دے کر اس سے ملاقات کریں گی‘‘۔ (ایضاً‘ ص۱۰۳)
اپنے ایک اور رسالے میں فرماتے ہیں :’’سب کچھ کرنے کے بعد ہم اللہ کی مدد کا پختہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر ہمارا ایمان ہے اور جس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر یقین رکھتے ہیں : وَ لَاتَھِنُوْا فِی ابْتِغَـآئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ (النساء ۴:۱۰۴)’’اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھائو ، اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امید وار نہیں ہیں‘‘۔ ہمارے اسلاف میں سے جن لوگوں نے دنیا کو فتح کیا اور اللہ نے انھیں زمین میں سلطنت عطا فرمائی‘ وہ زیادہ تعداد یا بڑی تیاری نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ایمان اور جہاد کے اسلحے سے لیس تھے‘‘۔ (الاخوان تحت رایۃ القرآن‘ (اخوان قرآن کے پرچم تلے)،ص۱۱۸)
اخوان المسلمون نے یہ سبق یاد کیاتھا اور ان کے دلوں میں اس نے یقین کا مقام حاصل کرلیاتھا۔ یہاں تک کہ جب فلسطین میں جنگ کا میدان گرم ہوا، اور غاصب یہودیوں نے فلسطین کے باشندوں کو اپنے گھروں سے دربدر کرکے جنگ کی آگ بھڑکائی تو اخوان المسلمون مرشد عام کا حکم سنتے ہی میدان میں کود پڑے۔ اس راستے میںوہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائے حالانکہ وہ عسکری تربیت اور اسلحے کے حوالے سے کمزور تھے۔ وہ اللہ کی اطاعت میں راتیں جاگ جاگ کر گزارتے تھے مگر ان کے دل جامِ شہادت نوش کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ اس مقصد کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ کرنے والے نہیں تھے۔ انھوں نے اس راستے کی ہر رکاوٹ اور ہر رخنے کو پاے حقارت سے ٹھکرادیا۔
اس تاریخ کو پروفیسر فتحی یکن نے اپنی کتاب القضیۃ الفلسطینیۃ من منظور اسلامی (مسئلہ فلسطین، اسلامی تناظر میں)میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :۱۹۴۸ء میں امام حسن البنا نے حکومت مصر کو ایک درخواست پیش کی کہ وہ اخوان المسلمون کے ۱۰ ہزار رضا کاروں پر مشتمل ایک کمک فلسطین بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔ اس کے باوجود اخوان المسلمون نے مصر اور اُردن کی سرحدوں پر صف اول کے اکثر معرکوں میں دادِشجاعت دی اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، جن کی وجہ سے حکومت برطانیہ نے مصر ی وزیر اعظم اور مصری ایجنٹوں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت اخوان المسلمون پر پابندی لگوادی۔ اس کے سرکردہ رہنمائوں کو گرفتارکیا گیا اور مرشد عام کو ۱۹۴۹ء میں شہید کروادیا۔(ص۸۹-۹۰)
مسئلہ فلسطین کے ساتھ اخوان کا تعلق ۱۹۴۸ء کی جنگ سے نہیں ہوا بلکہ یہ اس وقت قائم ہواتھا جب استاذ کامل الشریف کے بقول امام البنا نے کہا تھا : ’’ہر وہ ملک جس میں کلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھا جاتا ہے وہ ہمارے ملک کا حصہ ہے ، وہ ہمارے لیے قابل عزت و احترام ہے۔ اس ملک کے ساتھ مخلص ہونا اور اس کی بھلائی کے لیے جہاد کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے ‘‘۔ (الاخوان المسلمون فی حرب فلسطین، (جنگ فلسطین میں الاخوان المسلمون)، ص ۴۵)
استاذ کامل الشریف نے جو جنگ فلسطین میں اخوانی دستے کے کمانڈر تھے ، اپنی کتاب میں وہ بات لکھی ہے جو امام حسن البنا اور ان کے ساتھیوں کے مسئلہ فلسطین کے ساتھ والہانہ وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ کہتے ہیں :اخوان المسلمون کی ترجیحات میں مسئلہ فلسطین کو نہایت بلند مقام حاصل تھا کیونکہ القدس مسلمانوں کے لیے قبلۂ اول اور حرم ثالث کا درجہ رکھتا ہے اور یہ عرب ممالک کا مرکزی مقام ہے۔ اس کے ضائع ہونے سے اسلامی ممالک ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں۔ اگر یہودی اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو یہ شرپسند عناصر کا ایک خطرناک مرکز اور آگ سے بھرا ہوا ایک آتش فشاں ہوگا، جس سے ہمیشہ کے لیے عرب ممالک کے امن و امان کو خطرات لاحق ہوں گے۔ اسی لیے فلسطین کے بارے میں جب برطانوی حکومت کے ارادے واضح ہوئے تو اخوان المسلمون نے پے درپے کئی عوامی کانفرنسیں منعقد کیں۔ انھوں نے عوام اور حکومت کو اس خطرے کی حقیقت سے آگاہ کیا، جو ان کے قومی ڈھانچے اور ان کے مستقبل کو چیلنج کررہاتھا۔ وہ اپنی مسلسل کوشش کے نتیجے میں پورے عالم اسلام کو اس مسئلے کا فریق بنانے میں کامیاب ہوئے‘ اور اب یہ مسئلہ صرف فلسطین یا صرف عربوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ بن گیا۔ (ایضاً،ص۴۵)
فلسطین کے حالات جب دگرگوں ہوئے تو انھیں مال ، اسلحہ اور جو کچھ بھی ملا، انھوں نے اسے لے کر مجاہدین کی مدد کو پہنچنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ۱۹۳۶ء میں اخوان المسلمون کے کچھ نوجوان فلسطین کی حدود میں گھس جانے میں کامیاب ہوئے اور حریت پسندوں کے ساتھ مل کر جہاد کا آغاز کیا۔ خاص طور پر شمالی علاقوں میں جہاں انھوں نے عظیم عرب مجاہد شیخ عزالدین القسام کی رفاقت میںجہاد جاری رکھا۔دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اخوان المسلمون نے اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی اور عوامی سطح پر کام شروع کیا۔ انھوں نے اپنے نوجوانوں کے وفود عربوں کے پاس بھیجے تاکہ انھیں متحد کرکے مقابلے کے لیے تیار کریں۔ بعض اخوان نے خفیہ طور پر فلسطینی نوجوانوں کو جہادی تربیت دینے کا ذمہ لیا اور اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ یہاں تک کہ اب ان کی وادیاں اور خود ان کے گھر مراکز قیادت اور تربیتی مرکز بن گئے۔
امام حسن البنا اور ان کے اخوانی شاگردوں کا مسئلہ فلسطین کے ساتھ تعلق مفصل جائزے کا متقاضی ہے۔ اسی طرح فلسطین میں اخوان المسلمون کا بہہ جانے والا خون اور بے شمار اخوانیوں کی شہادت بھی بڑی تفصیل چاہتے ہیں۔ پھر اہل فلسطین کی مدد کی وجہ سے انھیں اپنے ممالک میں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ مصر میں ان کی جماعت پر پابندی لگانے کی سازش ہوئی ، تحریک کے نمایاں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اس کے تمام مراکز کو سیل کردیا گیا۔ جماعت کی تمام دستاویزات ، مجلات اور مطبوعات کے علاوہ نقد سرمایے اور سارے املاک کو ضبط کرلیا گیا۔ اس سازش کی بنیاد وہ فوجی احکامات تھے جو ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو حکومت مصر کی طرف سے جاری کیے گئے۔(الامام الشھید ،ص۲۶۸)
ایک طرف یہ سازشیںتھیں اور دوسری طرف اخوان المسلمون کے مجاہد فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے مقابلے میں روشن تاریخ رقم کررہے تھے، جب کہ عرب ممالک کی باقاعدہ افواج شکست پر شکست کھا رہی تھیں۔ اس خیانت بھری فضا اور مصر میں جماعت کو ختم کرنے کے اقدامات کے درمیان امام حسن البنانے مجاہدین فلسطین کے نام اپنا تاریخی پیغام بھیجا۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا:میرے بھائیو!مصر کے حالات سے آپ ہر گز پریشان نہ ہوں۔ آپ لوگو ں کا کام فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانا ہے‘ اور جب تک فلسطین میں ایک بھی یہودی موجود ہے آپ کا یہ کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا۔(ایضاً،ص۲۹۹)
جب اخوان المسلمون کو فلسطین میں غاصبوں کے مقابلے سے روک دیا گیا ، کیونکہ خائن حکمرانوں کو یہی بات بھلی معلوم ہوئی ، تو اخوان المسلمون کا شہرہ آفاق نعرہ پھر بھی وہاں باقی رہا‘ یعنی: اللّٰہ غایتنا ، الرسول زعیمنا ، القرآن دستورنا ، الجھاد سبیلنا ، الموت فی سبیل اللّٰہ اسمی امانینا، اللہ ہمارا مقصود ،رسول ؐہمارے قائد ، قرآن ہمارا دستور ، جہاد ہمارا راستہ اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔ یہ نعرہ فرزندان فلسطین کے کانوں میں گونجتا رہا اور ان کے اجتماعات ، جلسوں جلوسوں اور ہر قسم کے پروگرامات میں دہرایا جاتا رہا ، یہاں تک کہ انھوں نے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس ) کی بنیاد رکھی جس نے اخوان المسلمون کے مشن کو عملی جامہ پہنانے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ وہ مشن یہ تھا کہ اللہ کی طرف دعوت دی جائے ، خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کیا جائے ، فلسطین کی آزاد ی کے لیے جدوجہد کی جائے‘ اور بیت المقدس کو غاصبوں کے چنگل سے آزادی دلائی جائے۔
شہید کبیر ، استاد حسن البنا نے امت کو متحد کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے سلسلے میں جو اہم کردار ادا کیا،وہ خراج تحسین پیش کرنے کے لائق ہے۔
آپ کا شمار ان عظیم علماے اسلام میں ہوتا ہے جن کی تحریک اور کوشش سے مختلف مکاتب فکر کے مابین قربت و یک جہتی اور ہم آہنگی کے لیے ایک مثالی ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں چیدہ چیدہ معروف علما شامل تھے، اس عالمی ادارے میں:الاستاذ محمد علی علوبۃ پاشا ، عبدالمجید سلیم شیخ الازہر ، امین الحسینی مفتی فلسطین، محمد عبدالفتاح العنانی (مالکی)، الشیخ عیسیٰ منون رکن ہئیۃ کبار العلما (شافعی) ، محمد شلتوت شیخ الازہر (حنفی) ، محمد تقی قمی (از علما امامیہ)، عبدالوہاب خلاف، علی الخفیف شیخ الازہر ، علی بن اسماعیل موید علما(زیدی) ،محمد عبداللطیف سبکی(حنبلی)، استادجامع ازہر ، محمد محمدمدنی ،محمد الحسین کاشف نجف کے ایک مرجع ، سیدھبۃ الدین شہر ستانی از علما کا ظمیہ اور علامہ عبدالحسین شرف الدین جیسے جلیل القدر علما شامل تھے۔
استاد حسن البناکا علماے کرام کو یک جا کرنے کا فیصلہ ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ان کی فکر و نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مسلم اُمّہ کی یک جہتی کا یہ پہلو اخوان المسلمون کی جماعت کے بنیادی ڈھانچے اور نظم میں شامل ہے۔ خصوصاً ان کے دستور کی دوسری شق میں، جہاں اس جماعت کے مقاصد واہداف پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے :
۱- مختلف اسلامی مکاتب فکر کے مابین اتحاد و یک جہتی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لیے تگ و دوکرنا ، اس لیے کہ اسلامی اصولوں سے منحرف ا ور غیر مربوط رویوں نے مسلمانوں کو باہم متفرق کردیا ہے۔
۲-عام اسلامی عقائد و قوانین کو مختلف زبانوں میں شائع کرنا اور معاشرے کو عملاً جن چیزوں کی ضرورت ہے ، ان کی وضاحت کرنا۔
۳- اسلامی گروہوں یا قوموں کے مابین تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے قریب کرنے اور متحدرکھنے کے لیے جدوجہد کرنا۔
اگرچہ مرحوم البنا، علماے ازہر میں سے نہ تھے، تاہم وہ ایک شان دار متحرک اور مؤثر شخصیت تھے۔ ہمیں اس کا ثبوت جناب محمد تقی قمی کی اس گفتگو سے ملتا ہے جو انھوں نے جماعۃ التقریب کے بارے میں اپنی یادداشتوں میں بیان کی ہے۔ وہ جب حسن البنا کو یاد کرتے ہیں تو انھیں اپنے جسم میں ایک قسم کی حرارت ، کلام میں تازگی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔
ابتدا میں حسن البناکے ازہر کے شیوخ سے کوئی قابل ذکر تعلقات نہ تھے، مگر وہ اپنے کام ، منصوبہ بندی اور خلوص میں ایک کوہ گراں تھے۔ اپنی انھی صفات کی بنا پر انھوں نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے نوجوانوں تک اپنی بات پہنچائی،جس کے نتیجے میں وہ ایک متقی، پرہیزگار ، مجاہد ، اسلامی تعلیم و ثقافت سے آراستہ ،بیدار مغز اور رروشن خیال نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آپ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور فقہوں کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی فکر کے علَم بردار تھے۔ اُمت مسلمہ کو اس کی عظمت رفتہ اور سطوت پارینہ سے ازسرنو مربوط کرنا آپ کی زندگی کا نصب العین تھا۔ ان کے اسی جذبے کی بدولت آج اخوان المسلمون ایک منفرد اسلامی جماعت ہے جو فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک ہے۔
پروفیسرمحمد علی آذر شب بتاتے ہیں کہ الشیخ البنا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے نصب العین میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ الشیخ القمی بھی ہمیشہ اسی راے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ شروع میں مذکورہ بالا عالمی ادارے کے نام کے بارے میں کافی بحث ہوئی۔ مختلف نام زیربحث آئے بالآخر امام البنا نے ’تقریب ‘ (قریب لانے )کا نام تجویز کیا، کیونکہ اس ادارے کے مقاصد و اہداف کے اظہار کے لیے یہی نام زیادہ موزوں تھا ، اس لیے اس متقی مجاہد عالم کی تجویز پر اس جماعت اور اس کے ہیڈکوارٹر کا نام ’التقریب‘ ہی رکھا گیا۔
علامہ سید ہادی خسرو شاہی نے مجھے بتایا کہ ایران کے بعض بڑے علما البنا مرحوم کے عملی اقدامات کو خوب سراہتے تھے ، چنانچہ سید ہادی جب ۱۳۷۵ھ میں ایک بڑے عالم آیت اللہ سید رضا الصدرکی محفل میں حاضر ہوئے تو وہ حج کے عمرانی پہلوئوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اور اسلامی اتحاد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مرحوم البنا نے اپنے حج کے سفر کے دوران مصریوں کو اہلِ تشیع کی حقیقت سے آگاہ کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ انھوں نے شیعوں کے بارے میں اہل مصر میں پائے جانے والے شکو ک و شبہات ختم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس موقع پر آیت اللہ الصدر نے حاضرین کی طرف بطور خاص توجہ کرتے ہوئے زور دے کر کہا: ’’آپ لوگ شیخ حسن البنا سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہ ایک عظیم انسان ہیں۔ وہ اخوان المسلمون کے عالمی قائدہیں‘‘۔
یہ تھے حسن البنا جو تشکیک ،تکفیر اور تفسیق کے دور میں اپنے نظریہ و عمل میں ہم آہنگی و مطابقت پر قائم تھے ، جس کے لیے بڑی جرأت و شجاعت چاہیے۔ مسلمانوں کو باہم قریب کرنے کا یہی جذبہ حسن البناکی جماعت کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور اب یہ جذبہ اس جماعت کے طفیل پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس جماعت کے بنیادی اصولوں میں یہ بات داخل ہے کہ فرقہ وارانہ اور فقہی جھگڑوں سے دور رہا جائے۔اخوان ہمیشہ اسلامی جذبے سے سرشار رہے ہیں، وہ حقیقی روح اسلام سے وابستہ رہے ہیں۔ان کی جماعت کا وجود کسی ایک فقہ کے پابندحضرات تک محدود نہیں۔ وہ فروعی اختلافات سے دور رہتے ہیںاور دوسروں کو بھی ان اختلافات سے روکتے ہیں۔
حسن البنا کے جانشین بھی انھی کے نقش قدم پر چلے اور اسی روش پر زور دیا۔ چنانچہ اخوان کے ایک مرشد عام مصطفی مشہور مرحوم نے سید خسرو شاہی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا :’’اخوان المسلمون ، جب سے اپنے پہلے مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں قائم ہوئی ہے، فقہی ، مذہبی اور دینی و فکری اختلافات کے باوجود تمام مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیتی ہے ، کیونکہ مسلمان اپنے دشمنوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوئے ہیں تو تفرقہ اور تنازعات کی وجہ سے اور نفرت و بغض تک لے جانے والے اختلافات کی وجہ سے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا اور فرماتا ہے: وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتِ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ-یہی وجہہے کہ آپ اخوان کی فکری بنیاد فہم دین پر دیکھتے ہیں، جسے امام حسن البنا نے اپنے ۲۰اصولوں کے ذریعے واضح کیا۔ قانون سازی کا مصدر قرآن کریم اور سنت مطہرہ ہیں۔ شہادتین ادا کرنے والے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے والے کسی بھی مسلمان کو ہم اس وقت تک کافر قرار نہیں دیتے، جب تک کہ وہ کسی کفر یہ عمل کا مرتکب نہ ہو۔ ہمارے یہاں امام البنا کے اس مقولے نے خوب شہرت پائی ہے، حتیٰ کہ یہ سنہری اصول کہلانے لگا ہے کہ : ’’جس چیز پر ہم متفق ہیں اس پر باہم تعاون کرتے ہیں اور جس بات پر ہم میں اختلاف ہے ، اس میں ہم ایک دوسرے کو اختلاف کا حق دیتے ہیں‘‘۔ مطلب صاف واضح ہے کہ اتفاق اصول میں اور اختلاف فروع میں ہوتا ہے۔
حسن البنا اپنے اقوال و افعال میں اس معاملے میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ میں نے ان کے ہم عصر بڑے علما کے ساتھ ان کی ۱۳۲۵ھ کی ایک تصویردیکھی ہے۔ ان علما میں عبدالمجید سلیم شیخ الازہر، مفتی امین الحسینی، محمد تقی قمی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تصویر دار التقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے ایک اجتماع میں لی گئی تھی۔ ایران اور دوسرے ممالک کے شیعوں کے ساتھ اخوان کا عملی تعاون گذشتہ صدی کے ۵۰ کے عشرے سے ہے اور ایرانی انقلاب کے بعدبھی قائم ہے۔
مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و یک جہتی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنیوں او رزیدی شیعوں یا اثناعشری شیعوں میں اختلافات صرف کچھ فروعات تک ہیں۔ ان میں ہر ایک اللہ کو معبودِ برحق‘ رسولؐ اللہ کو اللہ کا آخری رسولؐ، قرآن کریم کو قانون سازی کا پہلا اور سنت مطہرہ کو دوسرا مصد ر قرار دیتا ہے۔ سب ایک قبلے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ دین لوگوںکی خواہشات کا تابع نہیں ہے، اب وقت آچکا ہے کہ تفرق کے بھڑکتے شعلوں کو بجھا کر اس فتنے کو سرے سے مٹا دیا جائے۔ (مصطفی مشہور، ۲۷ رجب ،۱۴۲۳ھ ، قاہرہ )
مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا یہی جذبہ عظیم داعی محمد الغزالی مرحوم ، حسن الہضیبی مرحوم ، عمر تلمسانی ،سید قطب شہید، محمد حامد ابوالنصر ،مامون الہضیبی ، علامہ یوسف قرضاوی، ڈاکٹر حسن ترابی اور استاد محمد مہدی عاکف وغیرہ کی تحریروں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اخوان المسلمون کی سب سے بڑی صفت اعتدال اور میانہ روی ہے۔ اخوان کے بارے میں استاد محمود عبدالحلیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اخوان المسلمون کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی انحراف یا افراط و تفریط کے، میانہ روی اور اعتدال کو اپنا رکھا ہے۔ کمال یہ ہے کہ انھوں نے یہ کامیابی انتہائی سخت نامساعد حالات ، منہ زورخو اہشات اور سخت مزاج لوگوں کی طرف سے انتہا پسندانہ افکار کے پھیلائو کے زمانے میں حاصل کی ہے‘‘۔
اتحاد و یک جہتی کا یہ جذبہ ان کے لٹریچر میں بھرپور انداز سے نظر آتا ہے۔ وہ نہج البلاغۃ کے حوالے دیتے ہیں، جس میں حضرت علیؓکے شان دار کلمات یک جا کیے گئے ہیں۔ مثلاً الاستاد عبدالحلیم حضرت علیؓ کے اس خط پر تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں جوانھوں نے مصریوں کی گورنری کے بارے میں مالک بن اشتر کے نام لکھاتھا۔
یہ نتیجہ ہے امام البنا کی بلندپایہ تعلیمات ، شان دار راہ نمائی اور پوری اُمت کے لیے ان کی کھلی دعوت کا۔ مرحوم کو ایک طرف تو علما کے ایک طبقے اور دوسری طرف غالی صوفیوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا ایک سبب یہ تھاکہ آپ کی دعوت میانہ روی کی جانب بلاتی تھی۔
گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں امام البنا نے اخوان المسلمون کے رسالے میں ایک مضمون لکھا ، اس مضمون میں آپ نے ایک بڑے سائز کی مربع شکل بنائی۔ اس مربع کے چاروں طرف اندر: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ لکھا اور اس مربع کے مرکز میں ایک چھوٹا سامربع بنایا۔
اس کے بعد آپ نے لکھا کہ: ہمارے جو بھائی ہم پر تنقید کرتے ہیں وہ گویا اپنی دعوت کو اندرونی چھوٹے مربع تک محدود کیے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی دعوت کو صرف ان لوگوں تک محدود کیے ہوئے ہیںجن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان ہی کا عقیدہ صحیح ہے، حالانکہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے برعکس ہم اپنی دعوت کا رخ ہر اس شخص کی طرف کرتے ہیں جو توحید الٰہی و رسالت محمدیؐ کی گواہی دیتا ہے ، خواہ وہ شخص اسلام کی تعلیمات و افکار میں کتنا ہی کوتاہ و کمزور کیوں نہ ہو۔ ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی شوکت رفتہ کو واپس لانے کے لیے اسلامی اخوت و بھائی چارے میں ہمارے ساتھ مل جائے۔ ہم اپنی اس دعوت میں اقرار شہادتین کے سوا ، اس شخص پر کوئی اور شرط عائد نہیں کرتے۔ چنانچہ ہماری اس دعوت کو اسلامی تعلیمات پر ایمان و عمل کے لحاظ سے مختلف سطحوں اور درجوں کے لوگ قبول کرتے ہیں‘‘۔
غرض یہ کہ حسن البنا اس طریق کار کو ہدایت پر چلنے اور اسلامی عمل کو معاشرے میں مکمل طور پر پھیلانے کا ایک قدرتی حل سمجھتے تھے۔ وہ اصولی و فقہی میدانوں میں پُرسکون علمی مکالمے کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتے۔اسی طرح وہ عقائد و تاریخ کے میدان میں بھی پُرامن مکالمے پر یقین رکھتے تھے کہ یہی ایک پسندیدہ اور معقول روش ہے ،یعنی شہادتین اور ایمان و اسلام کے ارکان پر ایمان کے دائرے میں رہتے ہوئے مکالمہ۔ اللہ تعالیٰ حسن البنا پر رحم فرمائے ، آپ کو بہترین جزا دے۔ ہم آپ کی پاک روح اور عظیم فکر کو سلام پیش کرتے ہیں۔
شہید حسن البناکے ساتھ میرا پہلا تعارف ، ۱۹۳۷ء میں، لندن سے واپسی پر ہوا۔ میں اس وقت ولی عہد کے ساتھ تھا۔ تین حضرات میرے انتظار میں تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اخوان المسلمون کے لوگ ہیں۔ میں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے نہیں ملنا چاہتا ،چونکہ میں سمجھتا تھا کہ اخوان المسلمون تجدید و انقلاب کی فکر کی نمایندہ ہے۔ اگرچہ وہ جیکٹ اور پتلون میں ملبوس تھے ، تاہم ان کے لباس انتہائی سادہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے ہاتھ میں تسبیح کے بجاے کتاب اٹھا رکھی تھی اور وہ میرے ساتھ اسی کتاب کے مندرجات پر گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ضرور مگر ملاقات سے صاف انکار کردیا۔
میرے تعجب کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اگلے روز ، تینوں میں سے ایک صاحب پھر میرے پاس تشریف لائے اورتعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں حسن البنا ہوں۔ وہ میرے کل کے رویے سے واقف تھے، مگر انھیں اس توہین پر کوئی ملال نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جس پس ماندگی کا شکار ہیں ، اسی نے انھیں یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیںکہ ہم سب مل کر مسلمانوں کو ایک بار پھر صحیح اور درست فکر کی جانب لے جائیں۔ ایک ایسی فکر جس کے ذریعے مسلمان علم وسائنس میں بھی پیش رفت کریں اور انسانیت کی ترقی و ہدایت کے لیے مشعل راہ کا کام بھی کریں۔
اس پہلی ملاقات ہی میں حسن البنا کی شخصیت کی عظمت نکھر کر سامنے آگئی۔میں نے دیکھا کہ آپ انانیت سے یکسرپاک، ایک ہو ش مند اور بیدار مغزداعی ہیں۔ آپ خود چل کر میرے پاس تشریف لائے ،حالانکہ مجھے ، اپنے سخت رویے اور بدسلوکی کی وجہ سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ میں دوبارہ کبھی ان سے مل سکوں گا۔
اس ملاقات کے بعدسے ان کے اور میرے درمیان رابطہ و تعلق مضبوط تر ہوتا گیا۔ ہم وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔ مجھے ان کے چہرے پر ایمان ،سچائی اور اخلاص کی علامات واضح نظر آتی تھیں ، جنھیں دیکھ کر ان پر میرے اعتماد و یقین میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔
جب انھیں شہید کیاگیا تو میں اس وقت غیر ملکیوں کے لیے قائم جیل کے دورے پر تھا۔ ایک افسر میرے پاس آیا ، اس کے چہرے پر غم و اندوہ کی پرچھائیاں گہری ہوچکی تھیں۔ سرکاری احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے مجھے یہ غم ناک خبر سنائی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس عظیم انسان کی رحلت سے میرے سینے میں خنجر پیوست ہوگیا ہو۔ (مجلہ الدعوۃ ، قاہرہ، ۱۳فروری۱۹۵۱ء)
ابھی سورج پوری طرح غروب نہیں ہواتھا۔ مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا کہ امام شہید پورے خشوع و خضوع کے ساتھ خاموش کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر کھڑے سوچتے رہے، پھر اچانک کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے دائیں ہاتھ کے سہارے زمین پر بیٹھ گئے۔ مجھے یوں لگا کہ ابھی ان کی روح پرواز کر جائے گی۔ میں ان کی یہ حالت دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور عجب پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ میری ہمت جواب دے گئی‘ زبان گنگ ہوگئی‘ نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس عالم میں،میں اپنے آنسو روکتے ہوئے ان پرجھکا اور میں نے کہا:’’ اﷲ آپ پر رحم کرے، ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ ہم آپ کے بارے میں کوئی بُری خبر سنیں‘‘۔ یہ سن کر امام البنا نے کہا: ’’میرے بھائی،کیوں نادانی کی بات کررہے ہو! کیا تم بھی ایک دن اسی مقام پر نہیں لائے جاؤگے؟ یہی توہمارا آخری مقام ہے‘ اس لیے لمبی جدائی اور فوری رخصتی کے لیے ہر وقت تیار رہو‘‘۔
پھر امام البنا حرم میں نماز مغرب ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند دن بعد ہماری حج سے واپسی ہوگئی۔ تب وہ منحوس گھڑی آگئی جب امام ربانی کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور انھوں نے دنیا کے قید خانے سے ہمیشہ کے لیے نجات پاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔
آدھی رات گزرنے کے بعد عمر بہاء الامیری (شامی وزیر مملکت‘بعد ازاں پاکستان میں شام کے سفیر) نے ہمیں آرام کی دعوت دی۔ مرشد کا رعب اتنا تھا کہ جب وہ اورین پلس کے دروازے پر کھڑے تھے، انھوں نے وہیں سے عمرامیری کو زور سے آواز دے کر بلایا اوران سے کہا: ’’بھائی، ہم رات ایسی خوش نما جگہ پر نرم و گداز بستر پر گزاریں اور خوب لذیذ کھانے کھائیں اور ہمارے مجاہد بھائی فلسطین کے مہاجر کیمپوں میں کس مپرسی کے عالم میں ہوں۔ ہم یہاں شام میں مزے اڑائیں اور ہمارے بھائی کھلے آسمان تلے پڑے ہوں۔ واللہ! اپنے کسی بھائی کے گھر، چٹائی پر ہاتھ کا تکیہ بناکر اور اپنی عبا اوڑھ کر سونا، مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پسند ہے‘‘۔
دور آدم علیہ السلام ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ، بنی اسرائیل کا سلسلۂ نبوت ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تاقیامت زمانہ ، اللہ تعالیٰ نے ازل سے ابد تک فلاح و خسران کا ایک ہی پیمانہ متعین کیا ہے۔ خلافت راشدہ کے زمانے کو ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ خود شمع اسلام کے پروانے حرص و ہوس کی آگ بھڑکانے لگے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ چراغ کبھی گل نہ ہوگا۔ انبیا کی بعثت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد وہ رحمن و رحیم ذات اپنے برگزیدہ بندوں کو شمع ہدایت دے کرانسانوں کو بھٹکنے سے بچاتی رہے گی۔
۱۲ ویں صدی ہجری میں جب عالم اسلام کی حالت دگرگوں ہو رہی تھی اور تاریخ جاہلیت کا سبق دہرا رہی تھی۔ رب رحیم نے ہندستان میں سیداحمد شہید اور سید اسماعیل شہید کو شجر اسلام کی آب یاری کے لیے چنا ، ا ن کا خون بالا کوٹ کی سرزمین کو سیراب کررہاتھا تو ادھر شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلمان سرزمین عرب کو اندھیاروں سے نکالنے میں مصروف تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا اور اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے ارتقا کے ساتھ اور نئی جہت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے شمع رسالتؐ کے پروانوں کاانتظام فرمایا۔
یہ مغربی کفر و استبداد کا زمانہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے ’ملا کی اذاں‘ اور ’مجاہد کی اذاں‘ کو واضح کرنے کے لیے برعظیم میں علامہ اقبال ا ور سید مودودی جیسے مفکر اسلام کی آواز کو شرق و غرب میں پہنچایا اور مصر میں حسن البنا کی آواز’مجاہد کی اذاں‘ قرار پائی۔ حسن البنا نے صرف بیس سال کے عرصے میں ایسا ذہنی و فکری انقلاب برپا کردیاکہ اس کی مثال خال خال ملتی ہے۔اس فقیر منش انسان کو عاجز ی و انکساری بے حد پسند تھی۔ ان کا ایک پسندیدہ شعر تھا ؎
ما لذۃ العیش الا صحبۃ الفقراء
ھم السلاطین و السادات والامراء
(زندگی کا لطف اللہ والوں کی صحبت ہی میں ہے، دراصل وہی ہمارے سلطان، سردار اور رہنما ہیں۔)
مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی بیان کرتے ہیں:’’جب میں ۱۹۴۶ء میں یورپ سے مصر واپس لوٹا‘ تو میں نے پہلی مرتبہ حسن البنا کو بچشم سر دیکھا۔ میں نے متعدد مرتبہ ان کی گفتگو سنی۔ مجھے ان کے اندر صاف و شفاف روح نظر آئی۔ جوں جوں ہمارے تعلقات مستحکم ہوتے گئے مجھ پر انکشاف ہوتاگیا کہ اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نادر خوبیوں ، اعلیٰ خصائل اور کریمانہ صفات سے نواز رکھاہے۔ گہرا اخلاص ، عقل سلیم ، عزم قوی ، بلند ہمتی ، ایثارکیشی ،ثابت قدمی ، مادی زندگی سے گریز ،دنیاوی مال و منال سے بے نیازی ان کی نمایاں صفات تھیں۔ سادگی ان کا طرۂ امتیاز تھا اور قناعت ان کے مزاج کا حصہ تھی۔یہی وہ اوصاف تھے جن کی بنا پر وہ قیادت کے منصب پہ سرخ رو ہوئے اور زندگی کی امانت اپنے رب کے حضور شہادت کے ساتھ واپس کی‘‘۔
حسن البنا شہید کی زندگی مختصر تھی لیکن ان کی تعلیمات پُر اثر اور جدوجہد باثمر ہے۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کا فلسفہ انھوں نے سچ کردکھایا۔ حسن البنا شہید کے وہ انقلاب انگیز الفاظ جو آج بھی اخوان کے پروگراموں میں نعروں کی شکل میں گونجتے ہیں دلوں کے لیے نشاط انگیز اور میدان عمل کے لیے کسی حربی ترانے سے کم نہیں: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے رسولؐ اللہ ہمارے قائد ہیں۔ قرآن ہمارا دستور ہے۔ جہاد ہمارا راستہ ہے اور شہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔یہ الفاظ محض نعرہ ہی نہیں، بلکہ حسن البنا نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں اور زندگی کے ہر سانس میں ان کو اُتار لیاتھا۔ ہر لفظ کو ایک عہد و پیمان سمجھ کر اپنی روح میں اُتارا اور اسی جذبے اور تابانی روح کو اپنے ساتھیوں کے دلوں میں منتقل کیا اور ان کے ظاہر و باطن کو اُجلا کردیا۔
حسن البنا شہید نے جس دور میں اسلامی انقلاب کا علَم اٹھایا اس وقت شرکیہ عقاید ، علم نجومِ و اوہام پرستی‘ فرقہ بندی‘ فقہی مسائل میں ائمہ دین کا آپس میں ٹکرائو اور متشابہات کی من مانی تاویلات کا غلبہ تھا۔ ایک دین کے پیرو کار ہوتے ہوئے بھی لوگ گروہ بندی ، تعصب ، بغض و عناد میں مبتلاتھے۔ حسن البنا شہید کے فہم و تدبر اور کردار کی پختگی و استقامت نے عوام الناس خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صحیح العقیدہ فہم عطا کیا۔
حسن البنا نے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا حقیقی تصور اجاگر کیا۔ لوگوں نے یہ جان لیا کہ اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے،اور یہ سلطنت ، وطن ، حکومت ، رعایا، ضابطۂ اخلاق ، طاقت ، رحم، عدل ،ثقافت ،قانون ،علوم معاش میں فیصلہ کن طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام دعوت بھی ہے اور جہاد بھی۔ اسلام ہی جوش بھی ہے ہوش بھی۔ عقیدت و محبت کا منبع و سرچشمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ ہیں۔ حسن البنا شہید کی دور رس نگاہ نے تزکیہ نفس کے مروجہ خانقاہی طریقوں کے بارے میں لوگوں کا ذہن صاف کیا۔ دلیل کی روشنی میں حقیقت تک پہنچنے کی راہ سجھائی۔ حسن البنا شہید نے اپنے ممبران کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ نیک لوگوں سے تعلقا ت بنائیں۔ نیک صحبت اختیار کریں۔ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے اس کی تلاش میں اور اس کے حصول میں کوشاں رہیں۔
ان کی تعلیمات میں ’فہم ‘پہلا تربیتی نکتہ تھا جس کو انھوں نے ایک عہد و پیمان کی طرح لوگوں کی روح و عمل میں اتار دیا، اور ساتھ ہی ’اخلاص ‘ کا وہ رنگ قلب وذہن میں پختہ کردیا کہ ان صلوٰتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمینحرز جان بن جائے۔ فہم و اخلاص کا لازمی نتیجہ ’ عمل‘ ہے اور عمل سے مراد ایسا عمل ہے کہ جو فہم اور اخلاص کا پھل ہو۔ اس پھل کو حاصل کرنے کے لیے کچھ منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔ ان منازل کو طے کرانے کے لیے حسن البنا شہید نے خصوصی تربیتی کورس کروائے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مضبوط جسم کے لیے صحت کا خیال رکھنا، اس کے لیے ورزش ، محنت، مشقت ، خواہشات نفس پہ کنٹرول کی تربیت ، نفس کے خلاف جہاداور اس سلسلے میں اپنا کڑا محاسبہ اور امتحان لیتے رہنا شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ : قوا انفسکم و اھلیکم ناراً کی عملی تفسیر بننا۔ گھر کے ہر فرد ، حتیٰ کہ خادموں کی تربیت اور حقوق کا دینی شعور پیدا کرنا۔
تیسرا مرحلہ :معاشرے کی اصلاح ، راے عامہ کو اسلامی فکر کے لیے ہموار کرنا۔
چوتھا مرحلہ : اپنے وطن کو غیر اسلامی حکومت سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرنا۔
پانچواں مرحلہ :حکومت کی اصلاح ،تاکہ وہ صحیح اسلامی حکومت بن سکے اور حکومت کو صحیح اسلامی خطوط پہ استوا ر رکھنے کے لیے اس کی رہنمائی کرنا۔
چھٹا مرحلہ : امت مسلمہ کے حاکمانہ وجود کا احیا کرنا۔ اس کے لیے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کرنا--- اور امت مسلمہ کی مایوسی ، پژمردگی ، غلامانہ ذہنیت کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا۔
عمل کے اس پھل کا لازمی نتیجہ ’جہاد‘ہے۔ کفر کو دل سے ناپسند کرنا جہاد کا ابتدائی درجہ ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ لڑنا اس کا انتہائی درجہ ہے۔ دعوت اسلام، جہاد کے ذریعے ہی زندہ ہوسکتی ہے اور یہ جہاد: وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ سے ہی مکمل ہوسکتاہے۔ حسن البنا شہید نے اسی لیے الجھاد سبیلنا کا نعرہ لگایا۔
جہاد کا لازمی تقاضا قربانی ہے۔قربانی کا لازمی حصہ ’اطاعت ‘ ہے۔ تنگی ، ترشی ، خوشی ، غمی ہرحال میں حکم مانا جائے کہ سمعنا واطعنا کی تصویر بن جائے۔ ’اطاعت کاملہ ‘ کا عہد کرنے والے لوگوں کو جہاد کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے چن لینا، منظم کرنا ، دعوت کے نظام کے مطابق چلانا--- روحانیت کے اعتبار سے یہ ایک مجاہدانہ ٹیم ہوتی ہے۔جو کسی فکر اور دل کی تنگی کے بغیر حکم سنے اور اطاعت کرے۔ اس ٹیم میں وہی لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو تربیتی مراحل سے گزر کر جدوجہد کی قبا پہننے کے لیے پوری استعداد فراہم کرلیں۔
یہ ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اخوان المسلمون کے بانی ارکان نے ۵ربیع الاول ۱۳۵۹ھ کو اس امتحان اور آزمایش کے لیے عہد و پیمان کیا اور بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کردکھایا کہ اخوان المسلمون کے تاسیسی دستے میں کتنی استقامت اور ثابت قدمی تھی۔ اس امتحان و آزمایش کی بنیادی شرط استقامت یا ثابت قدمی ہے۔ ’’ ایمان دار لوگوں نے اپنا عہد سچاکر دکھایا ہے ان میں سے کچھ لوگ اپنی منزل کو پہنچ گئے اور باقی انتظار میں ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مقصد میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اسی استقامت اور ثابت قدمی کو پالینا ممکن ہی نہیں جب تک اللہ کے رنگ میں خود کو نہ رنگ لیا جائے۔ اس رنگ کو سامنے رکھ کر دعوت و جہاد کا کام ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اخوان المسلمون نے لوگوں کو چھے قسموں میں تقسیم کیا:
۱-مجاہد مسلمان ۲-بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہنے والے مسلمان ۳-گناہ گار مسلمان ۴-ذمی ۵-معاہد غیر جانب دار ۶-محارب۔
اسلام کی عدالت میں ان سب لوگوں کے لیے الگ الگ حکم ہے۔ جس پہ جس قسم کا رنگ ہے اس کی روشنی میں اس سے معاملات رکھے جائیں۔ اسلام نے لوگوں کی اس تقسیم کے باوجود اخوت کا رشتہ برقرار رکھاہے۔ اخوت دو طرح کی ہے : ایک انسانی اخوت اوردوسری عقیدے کی اخوت۔حسن البنا شہید نے عقیدے کی اخوت کی بنیاد اس آیت کو بنایا: ومن یوق شح نفسہ فاؤلئک ھم المفلحون ’’جو لوگ ذاتی مفادات کی خواہش سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہیں‘‘ اور: والمومنون و المومنات بعضھم اولیآء بعض، ’’مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں‘‘۔
اخوت کی ترویج کا لازمی تقاضا باہمی اعتماد ہے۔ امرا ومامورین کو ایک دوسرے کی قابلیت ، قائدانہ صلاحیت ، خلوص پہ مکمل اعتماد ہو۔ اعتماد قائم کرنے اور حاصل کرنے کے لیے باہمی تعارف، تعلق ، دلی وابستگی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔ حسن البنا شہید نے اخوت کے معانی کو معمول کے ایسے اچھے کاموں کے ذریعے حقیقت کا رنگ دیا جو کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ اخوت کے تعلق کو بڑھانے والی اور دلوں میں محبت اور صلہ رحمی کے شعور میں اضافہ کرنے والی عادات خود بخود آتی ہیں۔اسی مناسبت سے اسلام ایک مثالی خاندان کا نقشہ سامنے لاتاہے کہ جہاں ہر مومن چاہے وہ کرہ ارضی کے کسی مقام پہ رہتا ہو ایک خاندان کا فردہے اور وہ مسلم خاندان ہے۔ جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جسم سے تشبیہہ دی ہے۔اسی مثالی خاندان کا ایک عمل اخوان المسلمون کے ہاں ’اسرہ ‘کے نام سے رائج ہے۔ مثالی اجتماعیت کو سامنے لانے کے لیے اسرہ کی اصطلاح ۱۹۲۸ء میں استعمال کی گئی‘ جس کے لیے ۷۰ افراد کومنتخب کیاگیا۔
اس کے ایجنڈے میں یہ نکات شامل تھے:
۱-تلاوت و تجوید کی درستی ۲-خاص سورتوں اور آیات کا حفظ کرنا اور تفسیر جاننا ۳-خاص احادیث کو حفظ کرنا اور تشریح ۴-ایمان ،عبادات ، معاملات اور عام اخلاقی اصولوں کی تحریری رپورٹ بنانا ۵-اسلامی تاریخ کا مطالعہ اور اسلاف کی زندگیوں کا جائزہ ۶-سیرت کا مطالعہ ، خاص طور پر اس کے روحانی اور عملی پہلو ، عملی زندگی میں نافذ کرکے محاسبہ کرنا۔
مرد و خواتین کے علیحدہ علیحدہ ’اسرہ جات‘ بنائے گئے۔ مردوں کے گروپ کا ایک مربی جو ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتا ہے اور کچھ خاص وقت یا دنوں کے لیے ان کی تربیت کرتاہے۔ اس طرح خواتین کی تربیت کا انتظام ہے۔ اسرہ جات کے پروگرام میں چند لازمی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔۔مثلاً بیماروں کی عیادت ، غیرحاضر ممبران کی مزاج پرسی وغیرہ۔ کھانا کھانا،صفائی ستھرائی ،تک سب کام شرکا خود ہی انجام دیتے ہیں۔ اسرہ کے ممبران کی عملی تربیت کی جاتی ہے :
حسن البنا شہید کی محنت کا ثمر ایک بہترین تربیت یافتہ گرو پ کی شکل میں سامنے آیا جنھوں نے وقت کے فرعونوں کے سامنے سر نہ جھکایا۔ اس میں مرد ہی نہیں خواتین بھی شامل رہیں۔
اسرہ ،کتیبہ،رحلۃ ،المعسکر،دورہ،ندوہ ،موتمر، ان ناموں کے تحت کارکنان کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا۔ اب بھی یہی نظام رائج ہے اور وقت و حالات کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر سے بہتر مسلمان مجاہد تیار کیے جارہے ہیں۔
اسرہ کے بعد کتیبہ کا مرحلہ ہے۔ اس میں بنیادی تربیت روحانی نشوو نما کی ہوتی ہے۔ روحانی نشوو نما : عبادات ، ذکر ، دعاکے ساتھ اخلاص نیت کی تجدید ، اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ، نامساعد حالات ،بے آرامی اور مشقت کے ماحول میں خوش اسلوبی سے ڈیوٹی انجام دینے کی تربیت۔ اس نظام میں اطاعت امر کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔ جی چاہے یا نہ چاہے ،ضر ورت ہو یا نہ ہو، طبیعت چاہے نہ چاہے جو کام جس وقت کہہ دیا گیا وہ فوراً کرنا ہے۔
اسرہ اور کتیبہ کا مقصد زیادہ تر معاشرتی ، نفسیاتی ، علمی اور روحانی پہلو کی تربیت ہے، مگر تیسرے مرحلے (رحلۃ ) کا مقصد زیادہ تر جسمانی ہے۔ اس میں جسمانی مشقت کی سخت تربیت ہوتی ہے۔ ’رحلۃ عموماً ‘ایک مہینہ میں ایک مرتبہ فجر سے مغرب تک کسی صحرا ، میدان ، شہر سے دور ، پہاڑی مقام پہ ہوتاہے۔ سخت گرم یا سخت سرد موسم میں محنت ، مشقت کی تربیت ،وسائل و ذرائع کی کمی کے ساتھ کی جاتی ہے۔
معسکر : اس شعبہ کے تحت صرف جسمانی تربیت ہی نہیں بلکہ دنیا کواسلامی فوج کی تاریخ سکھانا بھی ہے۔ اسلام میں نماز کی صورت میں روزانہ پانچ مرتبہ تربیت اور تذکیر ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ایک منظم و متحد امت کی اللہ کے سامنے بندگی اور خودسپردگی کا اظہار ہے‘ تاکہ اللہ کا دین غالب ہوجائے۔ معسکر کا مقصد نوع انسانی میں بھائی چارہ پیدا کرنا ہے--- وہ تمام مصائب و آلام جو نوع انسانی کے مشترک ہیں ان کا حل تلاش کرنا ایک دوسرے کے قریب آکر ہی ممکن ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، بے راہ روی ،انشورنس ،سود ، ذرائع ابلاغ کی بے حیائی دنیا کے ہر خطے کے انسان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ ان سب کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرکے فلاح کی راہ دکھانا۔
دورہ : اس شعبہ کا کام کسی ایک دن ایک ہی موضوع پہ لیکچر ،ڈسکشن ،تحقیق ، قلیل المیعاد کورس تیار کرواناہے۔
ندوہ : ماہرین کا ایسا گروپ جو کسی خاص موضوع یا مسئلے پر پورے دلائل و براہین کے ساتھ اپنی راے پیش کرے تاکہ عصری چیلنجوںکا مقابلہ کیاجاسکے اور ان کا حل پیش کیاجاسکے۔
اخوان المسلمون کے ارکان کے کردار کی تعمیر کے لیے جس قدر جاںفشانی سے کام لیا جاتاہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ یقینا حسن البنا شہید کے اخلاص کا ثمر ہے اور اس کی آبیاری ان کے خون نے کی ہے۔ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o (یوسف ۱۲:۹۰)
امام حسن البنا کی شخصیت اور عرب دنیا میں پھیلی ہوئی ان کی تحریک اخوان المسلمون پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میرے پیش نظر حسن البنا کی تعلیمات کی روشنی میں اس عظیم الشان اصلاحی تحریک کے درج ذیل چار بنیادی نکات ہیں: ۱- اخوان کے فکر کا واضح ہونا ۲- مراحل کا واضح ہونا ۳-اہداف و مقاصد کا واضح ہونا ۴- وسائل و ذرائع کا واضح ہونا۔
امام اپنے کتابچے دعوتنا فی طور جدید (ہماری دعوت نئے پیرایے میں) میں رقم طراز ہیںکہ: ’’ہماری دعوت کا طریق کار اسلا م کی پہلی دعوت کے طریق کار سے مختلف نہیں ہے، بلکہ یہ دعوت حقیقی معنوں میں اسی دعوت کی بازگشت ہے جس کا نعرہ صدیوں پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بلندکیا تھا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ذہنوں کو نبوت کے اس روشن عہد کی طرف لوٹائیں جو وحیِ الٰہی کی عظمت کا شاہد تھا ، تاکہ اپنے پہلے معلم سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے پیش نظر اصلاح معاشرہ کے اسباق دہرائیں اور نئے سرے سے دعوتی درس کی مشق کریں‘‘۔
بہت بڑے ہدف ___ پوری انسانیت کی اصلاح کی طرف ___ یہ پہلا قدم ہے۔ اسی گذشتہ طریق کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے، انھی خطوط پر چل کر اور اسی صاف و شفاف چشمے سے سیراب ہو کر ہی اس عظیم ہدف کی طرف پیش قدمی ممکن ہے۔ امام مالک نے ایک موقعے پر فرمایا تھا: ’’امت کا آخر اسی نسخے سے شفایاب ہوگا جو اس کے آغاز کے لیے شفایاب ثابت ہوا ہے‘‘۔
اکثر مصلحین کے ساتھ مختلف زمانوں میںبنیادی طور پر مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ یا توجذبات کے رو میں بہہ گئے اور یا بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے، غیر منظم انداز میں اصلاحی تحریک کا آغاز کردیا۔ نیک طینت عوام کا ایک گروہ ان کے گرد اکٹھا ہوگیا، جوشیلے نعرے لگائے اور ایک حدتک جذبات کا مظاہرہ کیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود، فساد اور خرابی نہ صرف قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے ،تو طویل عرصہ ساتھ چلنے اور پھر فوری طور پر نتائج نہ پانے سے دل برداشتہ ہو کر بکھر گئے۔ ان کے حوصلے پست اور عزائم شکستہ تر ہوگئے۔ بعض اوقات اصلاحی تحریک کی قیادت اقتدار کے نشے اور حکمرانی کے لالچ میں آکر باہم دست و گریبان ہوجاتی ہے۔ ان کی ساری توانائیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں صرف ہوجاتی ہیں۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اصلاح کاوہ کام جو بڑے جوش و خروش سے شروع ہوا تھا بری طرح ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے اور مزید فساد کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اصلاحی تحریک کی وہی لیڈرشپ جو ابھی ابھی ظلم اور فساد کے خلاف برسرپیکار تھی اور بپھرے ہوئے عوام کی قیادت کررہی تھی ، کچھ لوگ اس کے دشمن ہوگئے، عوام کو ان کے خلاف ابھارا۔ اگرچہ عوام کتنا ہی ان کی پاکیزگی اور لیاقت کا دم بھریں، ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ : اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَo (النمل ۲۷:۵۶) ’’نکال آلِ لوط کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاک باز بنتے ہیں‘‘۔ اصلاحی تحریکوں کی تاریخ میں اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، بلکہ ان سے قبل تمام انبیاے علیہم السلام ان مراحل سے گزرے ہیں۔
یہ چیزبھی عام طور پر مشاہدے میں آتی ہے کہ عوام الناس میں مفاد پرست ٹولے اور سرداروں کے ذریعے مفسد عناصر زور پکڑلیتے ہیں اور اصلاحی تحریک پر داروغے بن کرفیصلے صادر کرناشروع کردیتے ہیں۔ ایسے عناصر، تحریک، اس کی قیادت ، اس کے طریق کار ، پروگرام اور افراد کی ہر لغزش و کوتاہی کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، خاص طو رپر جب ان مفسدین کے مفادات پر اصلاحی تحریک کے افکار کی ضرب پڑتی ہو : اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ(طٰہٰ۲۰:۵۷)’’کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے‘‘۔ اس مناسبت سے تاریخ کے جھروکوں میں اسلامی تحریکوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
۱- تحریکی اور دیگر افکار کے درمیان واضح اور حتمی طور پر فرق بیان کرنا۔
۲-ترجیحات ( بڑے مقاصد ) کی مرحلہ وار اہداف کے طور پر حد بند ی کرنا، اور ان اصول و حدود کی نشان دہی کرناکہ جن سے کبھی بھی مقاصد کے حصول کی خاطر تجاوز نہیں ہوناچاہیے۔
۳- راہ دعوت کے بڑے مراحل کی وضاحت کرنا ( بیج بونا ، اس کی دیکھ بھال کرنا، تنے کا زمین سے نکلنا ، اس کا مضبوط ہونا اور پھر اپنی بنیادوں پر کھڑا ہونا )۔
۴- موجودہ بگاڑ کا اندازہ کرنا ، اس کے حجم ، وسائل، پھیلاؤ اور نشوو نماکے سرچشمے کو جاننا۔
۵- اپنی افرادی قوت کا صحیح اندازہ لگانا۔ اصلاح اور تبدیلی کے لیے اپنے ساتھیوں کی قوت ارادی کا صحیح اندازہ ہونا، کیونکہ اصلاح اور تبدیلی کی کٹھن ذمہ داری انھی کو نبھانا ہوگی۔
۶-امکانات اور وسائل کو سامنے رکھنا اور انھیں اس طرح ترتیب دینا کہ ضرورت کے وقت ان کا استعمال ممکن ہوسکے ، یا کم ازکم بنیادی اہداف کے لیے ان کو بروے کار لایا جاسکے۔
ان چھے اصولوں کو امام حسن البنا کی وسیع تر اصلاحی اٹھان کی فکری بنیادوں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کی توضیح و تشریح کے لیے بہت سی کتابوں میں مصنفین نے ان کا توصیفی اور شماریاتی حوالے سے تجزیہ کیا ہے۔ دعوتی ، تربیتی ، سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی پہلوؤں پر بحث کی ہے اور ان امور کا جائزہ لیا ہے، جن کو اس مکتب فکر کے بانی نے نئی مطلوبہ نسل کی تیاری کا ذریعہ بنایا اور جن کے بل بوتے پر ربع صدی کی قلیل مدت میں ،قرآن کی علَم بردار پہلی منفرد جماعت تیارہوئی تھی۔
امام حسن البنا کا ذہن صاف اور فکر پاکیزہ ہے۔ قاری ایک نظر ہی سے ان کی فکری گہرائی کا اندازہ کرلیتا ہے۔ ہر اس فکر کو جسے امام نے اپنی تحریروں ، خطبوں ، رسائل ، ہدایات اور عملی کام کے ذریعے پیش کیا بغیر کسی الجھاؤ کے واضح طور پر سمجھ لیتا ہے۔
انھی واضح الفاظ اور جامع کلمات کے ساتھ ہی امام نے ایک بار ۱۹۴۱ء میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایاتھا :’’اسلام اور مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب وہ بڑے دل خراش حوادث سے دوچار ہوئے، ان پر بہت شدید مصائب ٹوٹے۔ اسلام دشمن قوتیں اسلام کی شمع بجھانے پر تل گئیں اور اس کے شان دار اثرات کو زائل کرنے کی سعی شروع کردی۔ اس کے بیٹوں (ماننے والوں ) کو گمراہ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس کی حدود اور قوانین کو معطل کیا ،اس کے لشکر کو کمزور بنا دیا۔ اس کی تعلیمات اور احکام کو کبھی اضافہ، کبھی کمی اور کبھی من مانی تعبیر کے ذریعے بے اثر بنانے کی کوشش کی۔ اسلام کی سیاسی قوت اور اسلامی خلافت کے زوال اور اسلامی لشکر کی سستی ، بزدلی اور کمزوری نے ان دشمنان اسلام کو مزید تقویت بہم پہنچائی۔ یہاں تک کہ عالم اسلام کا خاصا بڑا حصہ اہل کفر کے قبضے میں چلاگیا اور مسلمانوں کو طاغوتی سامراج کے زیرسایہ ذلت و رسوائی کے برے دن دیکھنے پڑے‘‘۔
یہ اس ناگفتہ بہ حالت اور شکست خوردہ امت کا ایک ٹھوس تجزیہ ہے، جس کے مطابق عالمِ اسلام کے خلاف ان تین محاذوں پرمعرکہ برپاتھا :
اندرونی محاذ : عالم اسلام میں علما کی بے بسی، عوام کی جہالت و نادانی اور مسلمانوں کی صفوں میں کمزوری اور اختلاف سے فائدہ اٹھاکرمسلمانوں کوذلت و رسوائی سے دوچار کرنے کے لیے یہ محاذ کھولاگیا۔
بیرونی محاذ :یہ محاذ اسلام دشمن عناصر کی جانب سے دین اسلام کو کھوٹا ثابت کرنے ، اس کے پیرو کاروں کو گمراہ کرنے ، عالم اسلام پر قبضہ جمانے اور اس کے ذخائر اور معادن کو چرانے کے لیے قائم کیاگیاتھا۔
معنوی محاذ :یہ محاذ ملت کفر کی طرف سے اس لیے قائم ہوا کہ اس کے ذریعے اسلام کی سیاسی قوت کو زائل کیا جائے۔ خلفاے راشدین سے ورثے میں ملے ان تمام اثاثوں یہاں تک کہ ان کی آخری دستاویزات تک کو ضائع کردیا جائے ، اسلام کی بچی کھچی فوجی قوت کو تہس نہس کردیاجائے اور عثمانی خلافت ( جس کو ’مرد بیمار کے نام‘ سے یاد کیا جاتا تھا) کے ترکے کو تقسیم کیا جائے اور بالآخر بحیثیت ملّت، مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔
امام کے یہ چند جملے اسلام کے ہر مجاہد اور دین کے ہر پاسبان کے لیے زادراہ اورنقشۂ کار (روڈمیپ) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام کے ان چھے نکات کی تشریح سے درحقیقت اس پریشان کن سوال کا جواب اور اس بڑے چیلنج کا توڑ فراہم ہوا، جس کے سامنے عثمانی خلافت کے خاتمے سے لے کر اس وقت تک بہت ساری اسلامی اور اصلاحی تحریکیں لاجواب نظر آتی تھیں اور وہ پیچیدہ سوال یہ تھا کہ :ہمیں کیا کرنا ہے ؟یا یہ کہ :ہم کیا کرنا چاہتے ہیں ؟
اس سوال کا تفصیلی اور جامع جواب دیتے ہوئے امام حسن البنانے فرمایا :
فـرد کی تیاری: سب سے پہلے ہم ایک ایسا مسلم فرد تیار کرنا چاہتے ہیں ، جو اپنی فکروعقیدے، اخلاق و جذبات اور اپنے عمل کے لحاظ سے مکمل طور پر مسلمان ہو‘ یہی ہماری بنیاد ہے۔
مسلم گہرانا: ہم ایک مسلم گھرانا بنانا چاہتے ہیں ، ایسا گھرانا جو اپنے فکر و عقیدے ، اپنے اخلاق و جذبات اور اپنے عمل اور تصرف کے لحاظ سے مسلمان ہو۔ اس لیے ہم خواتین کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کرتے ہیں جتنا مردوں کے لیے، اور بچوں کے ساتھ اتنی ہی رعایت برتتے ہیں جتنی جوانوں کے ساتھ۔ ایک مسلم گھرانے کی تشکیل بھی ہمارے تربیتی پروگرام کا حصہ ہے۔
مسلم معاشرے کی تعمیر:تربیت کے ان تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم مسلم معاشرے کی تعمیر چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم دن رات ایک کرکے اپنی دعوت ہر گھر تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ہماری آواز ہر جگہ سنی جائے۔ گائوں گائوں اور شہر شہر اس کا چرچا ہو۔ اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانے میں ہم کسی بھی جائز ذریعے کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی اور لاپروائی نہیں ہونے دیتے۔
اسلامی ریاست کی تشکیل: اگلے قدم میں ہم ایک ایسی اسلامی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں ، جومسجد کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرے۔ لوگوں کو اسی طرح اسلام کی راہ پر لگائے جس طرح اس سے پہلے ابوبکرؓ، عمرؓاور دیگر صحابہ کرامؓ نے لگایا تھا۔ ہم واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی ایسے حکومتی نظام کو نہیں مانتے جو اسلام کی بنیاد پر استوار نہ ہو اور اسلام سے راہ نمائی نہ لیتا ہو۔ ہم اسلام کی تمام اخلاقیات کو زندہ کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے اور اسی بنیاد پر اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہیں گے۔
متحدہ عالم اسلام:ہم عالم اسلام کے ہر اس حصے کو آپس میں جوڑیں گے جو مغربی سیاست اور یورپی لالچ کی بدولت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شکست وریخت کا شکا رہوگیا ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس جغرافیائی تقسیم اور ان عالمی معاہدات کو تسلیم نہیں کرتے جن کی وجہ سے عالم اسلام کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، جنھیں بڑی آسانی کے ساتھ کوئی بھی غاصب ترنوالہ بنا سکتا ہے۔ ایک بالشت بھر زمین جہاں ایک بھی کلمہ گو مسلمان بستاہو، اگر دشمن کے قبضے میں ہو تو ہماری غصب شدہ اسلامی سرزمین ہے ،اس کی آزادی ہمارا فرض ہے۔ اسی طرح عالم اسلام کے تمام حصوں کو آپس میں جوڑنا بھی ہمارے پروگرام کا حصہ ہے۔ اسلامی عقیدے کی رو سے ہر طاقت ور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر اس شخص کا حامی اور مدد گار بنے جو قرآن پاک پر ایمان رکھتا ہو۔ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایمان او رعقیدے کے رشتے پر دوسرے رشتوں کو مقدم رکھے۔ اسلام میں عقیدہ ہی اصل بنیاد ہے۔
سامراجی و غاصبانہ قبضے کا خاتمہ: ہمارا عزم ہے کہ ان تمام سرزمینوں پر ایک بار پھر اسلام کا پرچم بلند ہو جو کسی زمانے میں اسلام کی برکات سے فیض یاب ہوئیں اور جہاں مؤذن نے ایک بار بھی تکبیر اور تہلیل کی آواز بلند کی ہو، اور جن کو ظالم اور غاصب طالع آزمائوں نے اسلام کی روشنی اور برکات سے محروم کرکے کفر کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
وہ اپنی بات کو خوبی سے اس مختصر جملے میں سمیٹ لیتے ہیں: ’’ہم پر فرض ہے کہ ہم اس اسلامی سلطنت کی عظمت رفتہ کو لوٹانے کے لیے کوشاں رہیں جو عدل و انصاف پر مبنی تھی اور جس کا مقصد لوگوں میں ایمان کی روشنی پھیلانا او ران کو ہدایت سے ہم کنار کرنا تھا‘‘۔
اس مختصر جملے سے ہم واضح طور پر ان کے طریق کار اور پروگرام کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس واضح تصور کو ان لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جو ابھی تک اپنے ان سوالات کے اسیربن کر یہ پوچھتے ہیں کہ: ہم کون ہیں ؟کیا خیرامۃ اخرجت للناس کا اعادہ اسی طریق کار کے مطابق ممکن ہے، جس کے ذریعے سے صحابہ کرامؓ کی جماعت تیار ہوئی تھی؟ امام حسن البنا نے جو طریق کار مذکورہ بالا چھے نکات میں بیان کیا ہے، کیا یہ امت کو غلامی سے نجات دلانے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے اعادے کے لیے کامیاب نسخہ ہے ؟کیا دوسرے پروگرام ، اصلاحی تحریکیں اور طریق کار بھی اس حوالے سے موجود ہیں ؟
میں اپنے مقالے ان سوالات کے مختصر جوابات اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا، جس سے امام حسن البنا کے طریق دعوت اور اصلاحی پروگرام کی بہتر وضاحت ہوسکے۔
اندرونی جھگڑوں ،اختلافات اور کھینچاتانی کے سبب اسلامی فکر کی اساسی بنیادیں ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں۔ اجتہادی مدارس بانجھ ہوچکے تھے اور فقہی اور دینی مراکز رخصت ہونے کو تھے ، جن کے سبب اسلام کی بنیادی فکر فقہی مدارس، مختلف فکری مکاتب ، تربیتی مناہج، علمی اداروں ، تصوف کے نزاعات، متنازع اصلاحی تحریکوں، ادھوری انفرادی کوششوں اورحکومتی اداروں میں تقسیم ہو کر گردش زمانہ کی نذر ہوچکی تھی۔
اسی دوران حسن البنا نے گذشتہ عہد اور عصرحاضر کے فکری مکاتب اور اصلاحی تحریکوں کا بغور مطالعہ کیا اور ان سب کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے جدید فکری خطوط وضع کیے۔ درج ذیل تین اہم خصوصیات کی وجہ سے ان کی اس فکرکو امتیاز اور فوقیت حاصل ہے :
۱- یہ جدید طرز فکر، انتہائی واضح ،سلیس اور عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
۲- یہ اسلام کے وسیع تر تصور، روایت اور دقیق فہم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
۳- یہ ہمہ گیریت ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے عبارت ہے۔
میری راے میں یہ ہیں وہ بنیادی نکات، جو امام حسن البنا کی اس تجدیدی فکر کو دوسرے تمام مکاتب فکر سے جدا کر دیتے ہیں۔ یہ ہے وہ عمدہ اور اہم تجدید ی کام جس کی بدولت اسلامی دعوت اور اسلامی فکر اپنے اصل سرچشمے کی طرف لوٹی۔ اس کی برکت سے اس اضطراب کا ازالہ ہوا جو اس وقت اسلام کے بارے میں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں پایا جاتاتھا اور اسی کے سبب اس دورنگی اور تضاد سے چھٹکارا ملا جس میں مسلمان عملی طور پر مبتلاتھے۔
امام حسن البناکا یہ کارنامہ، فکری تجدید کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ افکار کی پراگندکی اور اضطراب دوسری مشکلات کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔ معاشرہ پراگندہ افکار، اجتماعی، معاشی، سیاسی او رثقافتی لحاظ سے شکست و ریخت سے دوچار تھا۔ امت مسلمہ قیادت کے بحران اور انتشار کا شکار تھی۔ کچھ کام اجتماعی اور انفرادی سطح پر اخلاص کی بنیاد پر بھی کیا گیا۔ لیکن فہم کی کمزوری مطلوبہ نتائج کے راستے میں رکاوٹ تھی۔ ہر مکتب فکر ایک مخصوص خول میں بند تھا۔ تنگ نظری اور عدمِ برداشت ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ ہر مکتب فکر کی قیادت اس کوشش میں تھی کہ صرف اسی کی فکر کو فروغ ملے۔
نمایاں طرز ھاے فکر: اس زمانے میں فکری میدان دوقسم کے طرز فکر رکھنے والوں کے لیے خالی تھا۔
صوفی طرزفکر: علم فضائل اور علم سلوک اس مکتب فکر کے اہتمام کا مرکز بنے رہے۔ بلاشبہہ اس مکتب فکر کی کچھ اچھائیاں بھی ہیں لیکن کئی کمزوریاں یا خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
فلسفی اور جدلی طرز فکر:جس کا بنیادی کا م اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کو دفع کرنا ، فقہی مسائل پر توجہ دینا اور مناظروں او رمباحثوں کا بھرپور اہتمام کرناتھا۔ اس مکتب فکر کے اپنے منفی و مثبت پہلو ہیں۔
ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امام نے جو ارشاد فرمایا ، اس سے پوری فکرکی وضاحت ہوجاتی ہے اور مستقبل کے جامع لائحہ عمل پرروشنی پڑتی ہے: ’’ہم قرآن پاک کی جامع دعوت کی حامل تحریک ہیں۔ نفس کے تزکیے ، روح کی پاکیزگی و بالیدگی اور اللہ بزرگ و برتر سے دلوں کو جوڑنے میں ہم اہل تصوف کا تسلسل ہیں۔ خدمت خلق سے سرشار ، انسانیت کے لیے نافع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے، مصائب اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کے کام آنے والے ، معاشرے کے پسے ہوئے ، غریب اورنادار افراد کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار، اورباہم برسرپیکار گروہوں میں صلح و صفائی کرانے کے ناتے ہم ایک فلاحی تنظیم ہیں۔ ہرقسم کے جہل اور فقر سے نبرد آزما اور روحانی و جسمانی تمام امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم ایک سماجی و فلاحی (social ) ادارہ ہیں۔ ہم وہ اصولی سیاسی پارٹی ہیں جس کا مقصد امت میں وحدت کا قیام ہے ، جوکہ تمام شخصی مصالح اور اغراض سے بالا تر ہو کر اہداف کا تعین کرنے، لوگوں کی راہ نمائی کرنے اور ان کو صحیح سمت دینے کے لیے کوشاں ہے۔ لوگو!سنو: جو اسلام کو صحیح طور پر جان گیا ، وہ ہمیں اسی طرح پہچان لے گا جس طرح اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ پس اسلام کو سمجھو---پھر ہمارے حوالے سے جوکچھ کہنا چاہو کہو‘‘۔
امام حسن البنا نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایاہے:’’میں وہ سیاح ہوں جو حقیقت کی تلاش میں نکلا ہے۔ وہ انسان ہوں جو لوگوں کے درمیان انسانیت کو ڈھونڈنے چلا ہے، اور وطن کا ایسا باشندہ ہوں جو اپنے وطن کے لیے دل کی گہرائیوں سے اسلام کے سایے تلے عزت ،آزادی، امن اور پاکیزہ زندگی کا خواہاں ہے‘‘۔
اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : ’’اسلام زندگی بھر کے تمام مسائل کو منظم کرتا ہے۔ اس کے ہر مسئلے میں فتویٰ اور حکم دیتا ہے اور ہر معاملے کو سلجھانے کا منظم اور واضح طریق کار پیش کرتا ہے۔ کسی بھی بنیادی اصلاح طلب مسئلے کو حل کرنے میں لاجواب ہی نہیں بلکہ ان تمام نظاموں کی اصلاح کی مکمل اہلیت رکھتا ہے جن کی اصلاح کی بنی نوع انسان کو ضرورت پیش آسکتی ہے‘‘۔
اپنی فکر کو بڑے مختصر اور جامع انداز میں یوں پیش کیا :’’ہماری فکر کا خلاصہ یہ ہے: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مومنوں کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا جو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، اس کے بلند اخلاقی معیارات پر کار بند ہو اور اپنی پوری زندگی اسلام کے رنگ میں رنگ لے: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرہ۲:۱۳۸) ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا ؟‘‘
۱۹۲۸ء، یعنی یوم تاسیس ہی سے اس تحریک میں وہ تمام حر کی ادبیات موجود تھیں، جو اب ایک ہمہ گیر عالمی مکتب فکر کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ اس لیے کہ اخوان المسلمون ،اسلام کی پہلی دعوت کا تسلسل اور اس کی صداے بازگشت ہے۔ حقیقت میں اسی روز سے اس دعوت کا آغاز ہو گیا تھا جس دن قرآن پاک کی پہلی آیت اقرا --- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ بنیادی طور پر یہی اقرا کا کلمہ ہی مسلمان علما اور مفکرین کی تشریحات کی روشنی میں اس بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور زندگی کے تمام شعبوں کی اصلاح کے لیے ایک اصولی پروگرام کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس سلسلے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں پوری اُمت کے لیے ایسے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،جس کی بدولت لوگوں کے عقیدے ، اخلاق، طرز فکر، تغیر اور انقلاب کے اسالیب اور اسی طرح زندگی کے ہر میدان میں ایک تغیر رونماہوا۔لوگ، لات ، منات ،عزیٰ اور ہبل کو چھوڑکر ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
یہ اصولی پروگرام پوری کائنات اور کائنات کی ہر ایک چیز کے لیے وضع کیاگیا۔ چنانچہ جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان ، جن اور ملائکہ سب کے سب اس نظام کے پابند ہیں۔ سب اللہ پاک کی تقدیس اور تسبیح کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔جو شخص اسلام کے اصل سرچشمے سے سیراب ہونے کاارادہ رکھتاہو، اس کے لیے اسلام کا پیغام کتنا واضح اور آسان ہے اور نشانات راہ دکھانے کے لیے اس کا طریق کار کتنا روشن ہے___ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓکو اپنا سفیر بنا کر یمن روانہ فرمایا تو چار مختصرجملوں میں انھیں دعوت اور تبلیغ کا پورا طریق سمجھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا:سب سے پہلے ایمان کی دعوت (شہادتین کا اقرار )،اگر اس کو انھوں نے قبول کرلیا تو اس کے بعد ان کو اسلام کے بنیادی قواعد و ضوابط کی طرف دعوت دینا، اگر اس کو بھی انھوں نے تسلیم کرلیا تو پھر ان کو مقاصد کلمہ کی طرف دعوت، اور اس کے بعد پھر اجتہاد کا مرحلہ آتا ہے۔ کتنے واضح آسان تدریجی اسلوب کی راہ نمائی اس مثال میں ملتی ہے۔
اخوان المسلمون کی فکر کا خلاصہ اس کے بانی کی نظرمیں ان کلمات میں پیش کیا جاسکتا ہے : عالمِ اسلام اور اس کے توسط سے پوری نوع انسانیت اپنی دینی پیاس بجھانے کے لیے اس صاف و شفاف چشمے کی طرف لوٹ آئے جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: ’’میں تمھارے درمیان دو ایسی چیز چھوڑ ے جا رہا ہوں، اگر تم اس پر کاربند رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ، اللہ کی کتاب اورمیری سنت ‘‘۔
انفرادی دعوت او رتدریجی اصلاح سے اس کا م کا آغاز ہوگا۔یہ کام فرد سازی سے لے کرزمانے کی راہ نمائی، خلافت کی اقامت اور ہر طاغوت سے پورے عالم اسلام کی مکمل آزادی تک جاری رہے گا۔ اس ہمہ گیر تحریک میں ہمارا زادراہ گہرا اور پختہ ایمان، مستحکم تربیت ، مضبوط اخوت اور بھائی چارہ اور پیہم اور مسلسل عمل ہوگا۔ انھی عام فہم بنیادی اصولوں پر امام حسن البنا نے اپنی تحریک کے طریق کار کی بنیاد رکھی، جس نے اخوان المسلمون کی صورت میں ایک بہت بڑی عالمی تحریک کی حیثیت اختیار کی۔
جوانوں کے نام ایک پیغام میں امام حسن البنا شہید نے اس تحریک کے مراحل اور وسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:’’اخوان المسلمون کی تحریک کے مراحل متعین اور واضح ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کو کیا کرنا ہے۔ وہ تمام وسائل بھی بالکل ہماری نگاہ کے سامنے ہیں جن کو استعمال کرکے ہم اپنے وضع کردہ مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے مسلمان فرد ، مسلم گھرانے، مسلم معاشرہ اور اس کے بعد اسلامی ریاست کا قیام ، عالم اسلام کی تمام سرزمینوں کو یک جا کرکے ایک بڑی اسلامی مملکت کا قیام ہمارے پروگرام کا حصہ ہے ،جہاں اسلام کا پرچم سربلند ہو۔ اس کے بعد ہم تمام انسانیت کے سامنے برملا اور ہر حالت میںاس دعوت کا اعلان کریں گے اور دنیا کے کونے کونے تک اس کو پہنچائیں گے‘‘۔
m دعوت دین کی بنیادیں: یہ بات درست ہے کہ اسلام اپنی بنیادی تعلیمات کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸)’’اے نبیؐ ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔ چنانچہ راستہ روشن ہے۔ دعوت الی اللہ کا مفہوم واضح ہے ، بصیرت موجود ہے ، ذمہ داری متعین ہے ، تزکیہ نفس یقینی ہے اور کفر و شرک کے شائبے سے دوری ان سب کی بنیاد ہے۔
یہ عام بنیادی اصول ہیں جوکہ تمام داعیان دین ، مصلحین امت اور علما وفقہا کے درمیان قدر مشترک ہیں،لیکن ان کی روشنی میں کچھ خاص اصول متعین کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سدالذراع کے دائرے میں رہ کر باریک بینی اور اعتماد کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی کا طریق کار متعین کیا جاسکے، اور اندھیرے میں تیر چلانے والوں کے لیے غلط تاویلات کا دروازہ بند کیا جاسکے ، جوکہتے ہیں کہ جب اسلام موجود ہے تو پھر لوگوں کو اسلام کا جدید فہم حاصل کرنے کی تجویز دینے کا کیا مطلب ؟ جب اسلام کے اصول و مبادی بدیہی طور پر دین کا حصہ ہیں تو پھر اس پر نظرثانی اور نئی کانٹ چھانٹ کی کیا ضرورت ہے جس کو تم اپنے کارکنان کے لیے معیار قبولیت بناتے ہو۔ان تمام سوالات کا جواب نہایت سیدھا اور آسان ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فکر و تدبر اور زمین و آسمان کی پیدایش میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ خود اسلام نے ہمیں اجتہاد و تجدید کی طرف بلایا ہے۔
جن قابل ذکر مسائل میں نظر ثانی اور تجدید کی ضرورت ہے ان میں ایک مسئلہ وہ اصول و مبادی ہیں جن کا بنیادی تعلق میدان دعوت سے متعلقہ مسائل سے ہے ، تاکہ ایسے مشترکہ اصول وضع کیے جاسکیں جو تمام مسلمانوں کے لیے ایک مشترک فکری پس منظر قائم کرسکیں۔
اگر پوری دنیاکے مسلمان قرآن پاک کو ایک درست اور مقدس قانون کے طور پر تسلیم کرتے اور مانتے کہ : لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ (حم السجدہ ۴۱: ۴۱) ’’باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ‘‘ تو پھرخود زمانے کے افکار و نظریات کی تصحیح و ترمیم کے لیے کچھ مشترکہ اصول وضع کرنے ہوں گے ، اور ایسے متفقہ قواعد وضوابط مرتب کرنے ہوں گے جن کے ذریعے اسلام کو سمجھا جاسکے۔ دعوت کا آغاز اس اصول کے تحت کیا جائے کہ علما دین کا اجماع حجت قاطع ہے اور ان میں اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن حیثیت قرآن کو حاصل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)’’نہیںاے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جوکچھ تم فیصلہ کرو ، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ اسے پوری طرح تسلیم کرلیں‘‘۔
امام حسن البنا ارشاد فرماتے ہیں :’’میں چاہتا ہوں کہ اس وضاحت کو پرکھنے کے لیے میں ایک معیار مقر ر کروں۔ میری کوشش ہوگی کہ بات آسان اور سلیس زبان میں ہو او رقاری کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے، اور اُمت اسلامیہ میں سے کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ وہ معیار اللہ کی کتاب ہے ، جس کے سرچشمے سے ہم سیراب ہوتے ہیں اور جس کی حکمت و دانائی کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں۔ ‘‘
امام حسن البنا نے اسلام اور اسلامی دعوت کو سمجھنے کے لیے قرآن پاک ہی کی مدد سے مراحل کا تعین کیا اور انھیں ۲۰ اصولوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے ان اصولوں کو دو اہداف کے حصول کے لیے تمام مسلمانوں کے مابین قدر مشترک قرار دیا ہے:
۱- روزبروز بڑھتے اور شدت اختیار کرتے ہوئے اختلافات سے اجتناب۔
۲- ایک ایسی دینی قیادت کی تشکیل ، جس کی طرف اسلامی امور میں رجوع کیا جاسکے۔
یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی صحت اور وقعت تاریخ نے ثابت کردی۔ یہ اتحاد بین المسلمین کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے جس پر بالا جماع تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ دور یاں ختم کرتی ہے، ایسے آسان راستوں کی نشان دہی کرتی ہے جس کے ذریعے ہم عقائد ،اصول اور سیاسی اجتہادات کے حوالے سے موجود نظریات کی درستی اور ان کا صحیح فہم و ادراک کرسکیں۔
یہ ’۲۰ اصول ‘ اتنے مشہور ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان تہذیبی یک جہتی کے دستور کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ لہٰذا ان کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان اصولوں کے اصل مصدر رسالۃ التعالیم اور خاص طو رپر محمد الغزالی اور یوسف القرضاوی کی تحریروں کا حوالہ دینا کافی سمجھتا ہوں۔ تاہم اپنے موقف کی وضاحت کے لیے بعض مقامات کی طرف صرف اشارہ کروں گا۔
امام حسن البنا فرماتے ہیں:’’اسلام ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہے ، چنانچہ وہ ریاست و حکومت کے معاملات میں بھی دخل دیتاہے اور تعمیر وطن و تشکیل امت کی ذمہ داری بھی اپنے سرلیتاہے۔ وہ اخلاق و کردار اور شفقت ورحمت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اور علم و ثقافت اور قانون وعدل کا انتظام بھی کرتا ہے۔ وہ کسب مال اور دولت و ثروت کی راہیں بھی متعین کرتا ہے۔ یہ ایک دعوت، ایک نظریہ ، ایک جہاد اور لشکر بھی ہے اور ایک سچا عقیدہ اور عبادت بھی ہے‘‘۔ گویا اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی ہے۔
دعوت کے مشترکہ اھداف: یہ ہے اسلام کی اصل حقیقت، جو اللہ کا نازل کردہ دین ہے ، زندگی کے تمام پہلوئوںکو محیط ہے۔ عملیت پسند اورمتوازن ہے اور ہر زمانے اور ہر جگہ ہرانسان کے لیے قابلِ عمل ہے۔ اصل مسئلہ ان کُلی اصولوں کے سمجھنے کا ہے کہ کس طرح ہم ان سے فروعی مسائل اخذ کرسکتے ہیں اور کس طرح ہم تدریج کے ساتھ ان سے شرعی احکام کے نفاذ کے لیے جزئیات اخذ کرسکتے ہیں ؟
اس کے جواب میں امام شہیدنے فرمایا: ’’قرآن کریم اور سنت مطہرہؐ ، اسلامی احکام کے سمجھنے میں تمام مسلمانوں کے لیے مرجع ہے ، اور قرآن بغیر کسی مشکل کے سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ سُنت نبوی کے مطالب سمجھنے کے لیے با اعتماد ماہرین حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس بنیادی اصول سے کئی ضوابط نکلتے ہیں :
__ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی انسان معصوم نہیں ہے۔
__ سلف نے اپنے دور میں اجتہاد کیا ، اس میں جو کچھ قرآن و سنت کے موافق ہے اسے ہم قبول کریں گے او رجو مخالف ہے اسے رد کریں گے، تاہم ان پر طعن و تشنیع نہیں کریں گے۔
__ ہر عالم کا حق ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق اجتہاد کرے۔جو لوگ عالم نہیں ہیں وہ اَئمہ دین میں سے کسی کا اتباع کریں گے، اور خود بھی کوشش کریں گے کہ کسی شرعی قاعدے کی مخالفت سے بچتے ہوئے احکام کے دلائل معلوم کریں۔
__ فقہا کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں او راختلاف و تفرقہ کے مسائل سے بچیں، خواہ وہ نص کے ظاہری معنی مراد لیں یا مقاصد شریعت کی روح کو مدنظر رکھیں۔
__ عقیدہ عمل کی بنیاد ہے ، نیت اعمال سے زیادہ اہم ہے ،تاہم دونوں میں کمال حاصل کرنے کی کوشش مطلوب ہے۔
__ ان معاملات میں اجتہادی راے قابل احترام اور قابل عمل ہے کہ جن کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہ ہویا نص توموجود ہو، لیکن اس میں مختلف معانی کا احتمال ہو اور جس کا مقصد مصالح عامہ کا حصول ہو۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کسی شرعی قاعدے سے متصادم نہ ہو اور عرف و عادت اور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
__ فقہی اختلافات کو تفرقہ بازی کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ اخوت و محبت اور باہمی تعاون کی فضا میں فقہی اختلافات میں بحث و جستجو کرنا عباد ت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ حقیقت تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔
__ ہر وہ مسئلہ جس کا تعلق عمل سے نہیں، اس میں وقت صرف کرنا صحیح نہیں ہے۔ غلط ’عرف‘ شرعی الفاظ کی حقیقت کو نہیں بد ل سکتا۔ شریعت میں چیزوں کے نام نہیں ان کی حقیقت معتبرہے۔
__ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی مسلمہ سائنسی حقیقت شریعت کے کسی قاعدے سے متصادم ہو، جو چیز قطعی ہو وہ ظنی پرمقدم ہے اور تصادم کی صورت میں شرعی اصول کا اتباع مقدم ہوگا۔
__ اسلام عقل کو وہم اور خرافات سے آزاد کرتا ہے اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے : علم وحکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے۔ جہاں کہیں بھی اسے ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ (ترمذی )
یہ بنیادی اصول امام حسن البنا کی فکر کے واضح پیمانے ہیں۔ امام حسن البنا شروع ہی سے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اصل مسئلہ جو اسلام اورمسلمانوں کے درمیان حائل ہے، وہ مقاصد شریعت کے صحیح فہم کا نہ ہونا اور ان بنیادی اصولوں کے معیار کا فقدان ہے۔ حسن البنا شہید نے اپنے ۲۰اصولوں میں ان باتوںکی وضاحت کی ہے۔ چھٹی سالانہ کانفرنس سے خطاب میں یہ کہتے ہوئے اس پر مہرتصدیق ثبت کی کہ :’’ میرے بھائیو! اچھی طرح سے جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے اوپر احسان کیا اور تمھیں اسلام کا صحیح اور وسیع تر مفہوم عطا کیا جو زمانے کو ساتھ لے کر چلتا ہے ، تمام امتوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ، اور لوگوں کو خوشی فراہم کرتا ہے۔ جو جمود ، اباحیت اور فلسفیانہ پیچیدگیوں سے پاک ہے ، جس میں کوئی افراط و تفریط نہیں ہے ، جو قرآن و سنت اور سلف صالحین کی سیرت سے منصفانہ طریقے سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ ایک سچے مومن کے دل سے تم نے اسے قبول کیا اور اسی سے آپ نے عقیدہ و عبادت ، وطن و شہریت ، حکومت و قوم ، قرآن و تلوار اور اللہ کی سرزمین پر مسلمانوں کی نیابت کی پہچان حاصل کی‘‘۔
یہ ایسا قول فیصل ہے جو اخوان المسلمون کو تمام جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ نصب العین کتنا واضح ہے ، جو اخوان المسلمون کی پہچان بن چکا ہے۔ اخوان کے کارکن اسی کو سامنے رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اسی کو حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، اور بانیِ جماعت کی ہدایات کے مطابق اسی کے گرد جمع ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ:’’ہم کیا چاہتے ہیں ؟‘‘اور پھر خود ہی اخوان کے واضح طریق کار کے مطابق جواب دیا :’’کیا ہم مال و دولت چاہتے ہیں جو سایے کی طرح عارضی ہے ، یا ہم دنیا کے جاہ و جلال کے طلب گار ہیں ،یا ہم زمین کے اوپر حکمرانی اور سلطنت چاہتے ہیں، حالانکہ یہ زمین اللہ کی ہے اور یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط (اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ الاعراف ۷:۱۲۸)، جب کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھتے ہیں: تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo (القصص ۲۸:۸۳) ’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم اس دنیا اور اس کے جاہ و جال سے کچھ نہیں چاہتے، نہ ہم اس کے لیے کام کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ آپ کے سامنے صرف دو اہداف ہیں :
۱- ایک یہ کہ اسلامی ممالک ہر بیرونی تسلط سے آزادہوجائیں۔ یہ ہر انسان کا فطری حق ہے، جس کا انکار کوئی ظالم و جابر آمر ہی کرسکتا ہے۔
۲- دوسرا یہ کہ اس آزاد وطن میں ایک آزاد اسلامی سلطنت قائم ہو جو اسلام کے احکام پر عمل کرے، اس کے اجتماعی نظام کو نافذ کرے ، اس کے راست اصولوں کا اعلان کرے اور اس کی حکیمانہ دعوت کو تمام لوگوں تک پہنچائے۔ جب تک یہ حکومت قائم نہیں ہوگی تمام مسلمان گنہگار ہوں گے اور اس کے قیام کے سلسلے میں کوتاہی و لاپروائی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے‘‘۔
’’ہماری دعوت کے دو نکتے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں :وطن کی آزادی اور اسلامی مملکت کا قیام‘‘۔ اس کے بعد امام حسن البنا اپنے طریقۂ کار کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ایک مسلم فرد، پھر مسلم گھرانا اور مسلم قوم پیدا ہو۔ پھر ایک مسلم حکومت قائم ہو اور پھر ایک ایسی مملکت وجود میں آئے جو تمام اسلامی حکومتوں کی قیادت کرے ، بکھرے ہوئے مسلمانوں کو یک جا کرکے انھیں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلادے اور ان کی غصب شدہ زمین اور چھینے ہوئے علاقے بازیاب کرائے۔ پھر وہ جہاد اور دعوت الی اللہ کا علم بلند کرے تاکہ پوری دنیا اسلام کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوجائے۔ ‘‘
اخوان المسلمون کا بنیادی ہدف لوگوں کو اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک کی عبادت، جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے ہیں ، کے ذریعے سے اللہ کی رضا تک پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (ذاریات۵۱:۵۶) ’’میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ اور عبادت کا حق اداکرنے کے لیے تعمیر وطن اور ہرطاغوت سے اس کی آزادی ضروری ہے، تاکہ لوگ اللہ سے جڑ سکیں اور انھیں ایمان باِللہ اور اعمالِ صالحہ پر اُبھارا جاسکے۔
یہ وسیع تر پیغام ہے جسے اخوان تمام لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ امام البنا نے اس پیغام کا دو مختصر جملوں میں خلاصہ پیش کیا :
۱- اُمت کو تمام سیاسی پابندیوں سے نجات دلانا تاکہ اسے مکمل آزادی حاصل ہوجائے۔
۲- اُمت کی تشکیل نو کرنا ، تاکہ وہ دیگر اقوام کے اندر رہ کر آگے بڑھے اور معاشرتی بلندیوں کو حاصل کرنے میں اُن کا مقابلہ کرے۔
یہ دونوں جزو لازم و ملزوم ہیں۔ تعمیر نو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سابقہ عمارت کو گرایا نہ جائے، مثلاً ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے غیر اللہ کا انکار کرنا ضروری ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤمِنْم بِاللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے‘‘۔ لہٰذا تعمیر سے پہلے آزادی ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام حسن البنا ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اخوان کے کارکنان نے ایک امر بدیہی کے طور پر اسے حفظ کرلیا اور اسی کو عملی جامہ پہنانے کی تگ و دو کرتے رہے۔ امام حسن البنا نے اپنے رسالے الٰی ایّ شیئٍ نَدعُو النَّاس؟(ہم لوگوں کو کسی چیز کی دعوت دیتے ہیں) میں اجمالاً اس کا تذکرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں: ’’ہمارا کام اجمالی طور پر یہ ہے کہ ہم مادیت، اباحیت اور الحاد کے سیلاب کی بے رحم موجوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں ، جو ملت اسلامیہ کی وحدت کو بہالے گئی ہیں اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اور قرآن کی ہدایت سے بھی محروم کردیا ہے‘‘۔
اسی مضمون کو اپنے دوسرے رسالے تحت رایۃ القرآن (پرچمِ قرآن تلے) میں جگہ جگہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں انھوں نے اخوان کے اصول ، اہداف ، وسائل اور کامیابی کے مختلف مراحل کا ذکرکیا اور یوں مسلم فرد سے لے کر اسلامی خلافت کے قیام تک کے خلا کو پرُ کردیا۔ اس طویل وضاحت کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا :’’یہ وہ پیغام ہے جو اخوان المسلمون لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔ وہ امت مسلمہ سے اپیل کرتی ہے کہ اسے بھی یہ سمجھنا چاہیے اور پر عزم ہو کر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کو اخوان المسلمون نے اپنی طرف سے نہیں بنایا، بلکہ یہ وہی پیغام ہے جو قرآن کی ہر ہر آیت میں نظر آتا ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث میں نمایاں ہے، قرون اولیٰ کے مسلمان جو اسلام کے فہم اور نفاذ کا اعلیٰ نمونہ تھے ،۱ ُن کے ہرہر عمل سے مترشح ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اس پیغام کو قبول کریں گے تو یہ صحیح ایمان و اسلام کی نشان دہی ہوگی اور اگر انھیں اس میں کوئی نقص یا عیب نظر آئے تو پھر اللہ کی کتاب ہمارے درمیان قول فیصل ہوگی۔ وہ عدل کے ساتھ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان فیصلہ کرے گی۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا یا ہمارے خلاف ، یہ معلوم ہوجائے گا : رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo (اعراف ۷:۸۹) ’’اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما۔ یقینا تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔
چھٹے اجتماع عام میں امام حسن البنا نے بنیاد ی مقصد ( اللہ ہمارا مقصود ہے ) کو دو ذیلی اہداف میں تقسیم کیا، جس پر عمل کرکے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا :’’اخوان المسلمون دو مقاصد کے لیے کام کرتی ہے۔ ایک مقصد قریب ہے جس کے ثمرات اخوان میں شامل ہوتے ہی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں یا اخوانیت اس کے اندر نظر آنے لگتی ہے۔ ایک مقصد دور ہے جس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے، اور جس کے لیے پہلے تربیت اور اچھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ قریب کا مقصد ہر قسم کی عام نیکیوں میں حصہ لینا اور حالات کے مطابق سماجی خدمات انجام دینا ہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھ جیسے ہی کوئی منسلک ہوتا ہے تو اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ :
__ اپنے نفس کو پاک اور اپنے رویے کو درست کرے۔ روح، عقل اور جسم کو ایک لمبے جہاد کے لیے تیار کرے۔
__ اس دعوت کو اپنے خاندان ، دوستوں اور معاشرے میں عام کرے۔ کوئی بھائی اس وقت تک صحیح مسلمان نہیں بن سکتا جب تک وہ اسلام کے احکام و اخلاق پر عمل نہ کرے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو رسولؐ اللہ نے مقرر فرمائی ہیں۔
’’میرے بھائیو!کیا تحریک اخوان صرف یہ چاہتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو اخوان کے مقاصد کا ایک جزو ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہے۔ یہ توہمارا چھوٹا سا ہدف ہے کہ نیکی و اطاعت میں اپنا وقت صرف کریں اور مکمل اصلاح اور مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مناسب حالات کا انتظار کریں‘‘۔
’’اخوان المسلمون کوشش کرتی ہے کہ نظام مملکت کو نیک حکمرانوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ اسلامی خلافت کا احیا کیا جائے اور اسلام کے احکام کو نافذ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَo (الجاثیۃ ۴۵:۱۸) ’’اس کے بعد اب ( اے نبیؐ)ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہ راہ (شریعت ) پر قائم کیا ہے۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کو خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔
امام حسن البنا نے اپنی دعوت کی بار بار وضاحت کرنے سے کبھی بھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا ،تا کہ یہ اہداف کارکنان کے ذہنوں میں راسخ ہوجائیں اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے مسلسل اس کے ساتھ وابستہ رہیں ، کیونکہ وابستگی ہی اہداف کو حاصل کرنے کا راستہ ہے اگرچہ دسیوں سال بعد ہو۔
بانیِ اخوان کے پیش نظر اہداف یہ ہیں :
’’اس بنیاد پر مناسب وقت آتے ہی اخوان کے امید وار قانون ساز اسمبلیوں میں منتخب ہونے کے لیے الیکشن لڑیں گے اور چونکہ ہمارا مقصد صرف رضاے الٰہی حاصل کرنا ہے، اس لیے ہمیں اللہ کی مد د پر بھروسا ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo (الحج ۲۲:۴۰) ’’اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے‘‘۔
’’اس کے علاوہ ہم کبھی کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے، الایہ کہ ہمیں مجبور کیا جائے۔ ہمارامقصد واضح اور راستہ متعین ہے۔ اس میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ ہم اپنے اس کام کے تمام نتائج کے لیے تیار ہیں۔ ہم کسی دوسرے پر اس کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے لیے جو اجر و ثواب ہوگا وہی بہتر اور پایدار ہے۔ حق کے راستے میں فنا ہونا دراصل بقا ہے۔ دعوت بغیر جہاد کے ممکن نہیں اور جہاد بغیر مشقت کے نہیںہوتا۔ اس انداز سے کام کرنے پر کامیابی ہمارے قریب ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہماری حالت پر صادق آئے گا: پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر جواب نہ دیا یہاں تک کہ پیغمبر، لوگوں سے مایوس ہوگئے، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کوپہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتاہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالاہی نہیں جاسکتا۔ (یوسف۱۲:۱۱۰)
پس دعوت و تبلیغ اور منظم جدوجہد اخوان کے اہم ظاہری وسائل ہیں۔ ہم ان وسائل کے ذریعے اپنے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو مطمئن اور قائل کرکے ان کے ذریعے ملکی قیادت کے لیے ایسے اہل ذمہ داروں کا انتخاب ممکن بنائیں جو معاشرے کی تعمیر و تربیت کی ذمہ داری ادا کرسکیں اور لوگوں کو اصلاح کی تین بنیادوں پر جمع کرسکیں:
__ اصلاح و ترقی کا درست طریق کار
__ اس طریق کار پر یقین رکھنے والے افراد کی تنظیم
__ ایسی باکردار قیادت کی تشکیل، جو ادارہ چلانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو اور دعوت کے لیے مطلوب نرمی سے بھی مزین ہو اور سختی و تشدد اور افراط و تفریط سے اجتناب کرتی ہو۔
امام حسن البنا نے ہماری دعوت نئے مرحلے میں ہے میں فرمایا ہے: ’’طاقت اور تشدد ہمارا ذریعہ و وسیلہ نہیں ہے۔ حق کی دعوت براہ راست روح کو مخاطب کرتی ہے ، دلوں کے ساتھ مناجات کرتی ہے ، اور دل کے بند دروازوں پر دستک دیتی ہے۔ یہ دعوت کبھی بھی زبردستی کسی کے دل میں جگہ نہیں پیدا کرسکتی۔ جو لوگ جماعتوں کی تاریخ جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ ایمان و عمل صالح اور اخوت و محبت ہی وہ بنیادیں ہیں جنھیں دعوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان وسائل کو اخوان کے تین نعروں میں بھی بیان کیا گیا :پختہ ایمان ، بہترین تربیت ، جہدمسلسل‘‘۔ یہ منشور حسن البنا کے کتابچے بین الأمس و الیوم (آج اور کل) سے لیا گیا ہے۔
بعد میں اس کے ساتھ ایک اور وسیلے ’اخوت و محبت ‘ کا اضافہ کیا گیا ، تاکہ تربیت کے ارکان اور دعوتی سرگرمیوں کے وسائل کی تکمیل ہوجائے۔ان وسائل کے دقیق مطالعے سے دوپہلو قابل غور نظر آتے ہیں :
۱- ہر پُرامن طریقے سے دعوت عام کرنا، اس کے لیے لٹریچر، تبلیغ، وعظ و نصیحت اور خطابت و اعلان کو ذریعہ بنانا تاکہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا جا سکے اور اس کے مقاصد و اہداف کی وضاحت ہوجائے۔
۲- رفاہِ عامہ کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے دعوت کو عام کرنا ۔ اس کے لیے مختلف فلاحی ادارے ،مدارس ، سکول ،ہسپتال اور مساجد وغیرہ قائم کرنا تاکہ دین کا تصور ہر شعبۂ زندگی پر محیط ہوسکے۔ اس طرح راے عامہ کو اخوان المسلمون کی دعوت، اس کے پروگرام اور اغراض ومقاصد سے متفق اور معاون و مددگار بنایا جائے۔
اس سے یہ واضح ہوگیاکہ ہر ممکن اور جائز وسائل سے استفادہ کرنا اخوان کا امتیازی وصف ہے جو وہ داخلی اور خارجی وسائل سے حاصل کرے گی۔ داخلی وسائل سے مراد جماعت کی اندرونی قوت ، بہترین نظام کار اور وہ مضبوط حصار ہے جو اسے ہر قسم کے طوفان و سیلاب سے بچائے ، جب کہ خارجی وسائل میں عوام سے مضبوط تعلق کی بنیاد پر ہرحالت میں صداے حق بلند کرنا ہے:
__ دستوری اور سیاسی جدوجہد کرنا، تاکہ اس دعوت کی آواز سرکاری ایوانوں تک پہنچ جائے، جب کہ ملک کے قانونی اور آئینی ادارے بھی اسے قبول کریں اور عوام بڑے پیمانے پر اس کے ہمدرد بنیں۔
__ اس دعوت کی حمایت کے لیے شرعی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے جہاد کیا جائے۔یہ اس صورت میں ہوگا کہ جب لوگ اس دعوت کے راستے میں حائل ہوں اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو منع کریں۔ امام حسن البنا نے جہادکو چھے مراتب میں تقسیم کیا ہے۔ انھوں نے التعالیم میں فرمایا ہے کہ :جہاد کا پہلا مرتبہ دل کا انکار ہے اور آخری مرتبہ قتال ( مسلح جدوجہد ) فی سبیل اللہ ہے۔ اس کے درمیان والے درجے زبان ، قلم اور ہاتھ کے ذریعے جہاد اور جابر و ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرناہیں۔
جہاد کے مختلف درجات ہیں: سب سے پہلے عقیدہ و ایمان کی قوت پیدا کرنا ، پھر وحدت و یگانگت کی قوت حاصل کرنا اور پھر فوجی اور اسلحے کی قوت پیدا کرنا۔ اگر یہ تمام اوصاف موجود نہ ہوں تو کسی جماعت کو طاقت ور جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ داخلی اور خارجی وسائل کے بارے میں امام حسن البنا کی تمام تفصیلات کا نچوڑ چار نکات میں واضح ہوجاتا ہے :
پانچویں اجتماع عام کے خطاب میں انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’اخوان اتنے ظاہر بین اور سطحی نہیں ہیں کہ بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں اور نتائج کا اندازہ نہ کرسکیں‘‘۔ امام حسن البنا نے اس قول کے ذریعے اجتہاد کی دعوت دی اور کارکنان کو متوجہ کیا ہے کہ حالات اور زمانے کو مد نظر رکھ کر اس کی مناسبت سے نئے وسائل ایجا د کیے جاسکتے ہیں ، بجاے اس کے کہ سایے میں بیٹھ کر چھت اور اس کے نقش و نگار سے لطف اٹھائیں۔ اگر ہر قسم کی قوت و طاقت حاصل ہوجائے اور کامیابی کے امکانات مکمل طور پہ واضح ہوں، تب بھی ہمیں اپنے اغراض ومقاصد کے حصول کی خاطر تمام قوتیں کھپا دینی چاہییں۔ ساتھ ہی ساتھ اسلامی آداب و احکام کی پابندی بھی لازم ہے۔
امام حسن البنا نے اسی اجتماع میں فرمایا کہ:’’کیا اسلام نے ہر حال میں قوت کے استعمال کا حکم دیا ہے،یا اس کے لیے کچھ حدود و قیودمتعین کی ہیں ؟کیا طاقت کا استعمال پہلا ذریعہ اور وسیلہ ہے، یا سب سے آخری حربہ ہے ؟کیا یہ ضروری نہیں کہ انسان طاقت کے استعمال کے اچھے بُرے نتائج کاموازنہ کرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لے ؟یا اس کا فرض ہے کہ وہ بہرصورت قوت کا استعمال کرے اور کہے کہ بس اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا ؟‘‘
’’یہ سوالات انتہائی آسان ، عام فہم اور لوگوں تک پہنچانے میں نہایت آسان ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے :
۱- اسلام ایک مضبوط دین ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر نوع اور ہرقسم کی قوت پیدا کریں ، وہ قوت جو معروف ہے اور وہ بھی جو معروف نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ(الانفال ۸: ۶۰)، یعنی ہر قسم کی جائز اور ممکن قوت و طاقت کو حاصل کرو۔
۲- اسلام یہ حکم دیتاہے کہ ہم ہر کام کو سنجیدگی سے لیں اور اسے حق ، دلیل ، بلاغت ، بیان ، اتحاد ، ایمان اور اسلحے و بازو کی طاقت سے تقویت دیں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تواضع، عجزو انکساری کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ طاقت کا مطلب جدوجہد کرنا اور متانت وذمہ داری ہے۔ یاَیحَیٰ خذ الکتاب بقوۃ کا یہی مطلب ہے۔
۳- اگر مسلمانوں (جماعت ) کو طاقت کے استعمال پر مجبور کیا گیا تو اس صورت میں بھی عرف و عادت ، زمانے اور حالات کے مطابق شریعت کے قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کی پابندی لازمی ہوگی۔ اور اس قوت کو اپنے مقاصد کے حصول اور اللہ کے حقوق کی پاس داری کے لیے حکیمانہ انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔
۴- طاقت خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کی طرف اس وقت رجوع کیا جائے گا، جب دیگر تمام ذرائع ناکام ہوجائیں ، لہٰذا اس کا استعمال آخری حربہ ہونا چاہیے۔ طبیب مریض کا علاج اس وقت جراحت سے نہیں کرتا ہے جب تک علاج کے دیگر طریقوں سے مایوس نہ ہوجائے۔
۵- ضرورت کے وقت طاقت کے استعمال اور عدم استعمال کے درمیان موازنہ کرنا ، اس کے منفی و مثبت اثرات کا جائزہ لینا ، اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز وغیرہ پر غور کرنا ، یہ ساری چیزیں جاننا انتہائی ضروری ہے‘‘۔
امام حسن البنا کے سامنے یہ ساری چیزیں روز روشن کی طرح عیاں تھیں۔ یہ ان کی واضح راے ہے، تاکہ طاقت فساد کا ذریعہ نہ بنے ، اور ہمارا کام تعمیر ہے تخریب نہیں۔
خلاصہ: اس پوری بحث کو امام حسن البنا شہید کے رسالے اخوان قرآن کے سایے تلیکے کچھ اقتباسات سے سمیٹتا ہوں۔ امام نے اس رسالے میں کہا ہے کہ : ’’میرے بھائیو!ہم کوئی سیاسی جماعت نہیں ، اگرچہ اسلام کے قواعد و ضوابط کے مطابق سیاست ہماری فکر کا حصہ ہے۔ ہم محض فلاحی یا خیراتی ادارہ بھی نہیں ہیں، اگرچہ رفاہی و فلاحی کام ہمارے اولین مقاصد میں شامل ہیں۔ ہماری جماعت کوئی کھیل کی ٹیم بھی نہیں ہے ، اگرچہ جسمانی و روحانی ورزش ہمارے اہم ترین وسائل میں سے ہے۔ ہمارا اس قسم کی تنظیموں سے کوئی واسطہ نہیں، ان کے اغراض ومقاصد کسی ایک بات پرمرتکز ہوتے ہیں، بلکہ کبھی تو اس طرح کے اداروں کا قیام محض ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے یا پھر نام پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم تو ایک نظریے اور عقیدے کو لے کر اٹھے ہیں۔ ہم ایک نظام اور طریق کار پر چل رہے ہیں۔ ہمارا کام کسی ایک موضوع یا کسی ایک قومیت تک محدود نہیں ہے۔ یہ دعوت کسی قسم کی جغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہے اور نہ یہ کسی واقعے کے نتیجے میں ختم ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے‘‘۔
’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ ہم ان کے بعد ان کی دعوت کا جھنڈا بلند کرنے والے ہیں۔ ان کی دعوت کو عام کرنے والے ہیں جس طرح انھوں نے قرآن کی حفاظت کی، اسی طرح ہم قرآن کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ ہمارا واضح نظریہ ہے۔ یہی ہمارے اصول ہیں۔ یہ ہمارا ہدف ہے اور جائز حدود کے اندر رہ کر یہ ہمارے مختلف وسائل ہیں۔ ان میں سے جو ناقابل تغیر ہیں وہ اساسیات ہیں ، ان سے ہم ہٹ نہیں سکتے، اور جو قابل تغیر ہیں اس میں اجتہاد کرکے اسے شرعی مقاصد اور شرعی قوانین کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے۔ ہمارا پہلا اور آخری مقصد دو بنیادی باتیں ہیں :
۱- ایمان و عمل صالح کے ساتھ دنیاکی امامت و سیادت۔
۲- آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے نتیجے میں خوش نودی اور جنت کا حصول۔
مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
مرشد عام استاذ حسن البنا کو دو سالوں میں دوبار دیکھا۔ پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا جب وہ میڈیکل کے طلبہ کے ایک گروپ سے مخاطب تھے اور د وسری دفعہ جب وہ چند پڑھے لکھے نوجوانوں سے تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ دونوں مرتبہ سامعین نے ہنسی مذاق اور شورو شغب میں ان کی بات کو غیرمؤثر کرنا چاہا، لیکن وہ اس طرح محو گفتگو رہے کہ سننے والوں کے دل موہ لیے، بلکہ دلوں پر قبضہ جمالیا، یوں دونوں مواقع پر اپنے مخالفین پر چھا گئے۔
میں نے انھیں خاموشی سے غوروفکر کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، اور گفتگو کرتے ہوئے بھی۔ دونوںحالتوں میں ان کے چہرے پر متانت و سنجیدگی کے گہرے نقوش‘ عیاں اور کشادہ و روشن پیشانی پر فہم و فراست کی کرنیں جیسے پھوٹ رہی ہوں، جس کے درمیان کثرت سجود سے بن جانے والا سیاہی مائل نشان نمایاں نظر آتا ہے۔
ان کی آنکھیں مُقَطَّمْ (مصر میں ایک پہاڑ)کے چشموں کی طرح تھیں جنھیں تم کم گہرا سمجھتے ہو، مگر جب ان میں کوئی پتھر پھینکتے ہو تو وہ لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ اس کے لڑھکنے کی آواز دیر تک آتی رہتی ہے، حتیٰ کہ آواز آنا بند ہوجاتی ہے مگر وہ پتھر لڑھکتا ہی رہتا ہے۔
ہمیشہ مسکراتے ہوئے ‘ چاق و چوبند ‘ کشادہ قد و قامت ‘ایسے مضبوط جیسے شاہ بلوط کا درخت۔ ان کی آواز میں گہرائی ‘ گیرائی اور زیر و بم ہے۔ ان کی زبان میں اثر پذیری کا جادوہے۔ جب بولتے تو اہل عقل و خرد مسحور ہوجاتے۔ عقلی دلائل اور شوکت اسلام کے تاریخی واقعات ان کی گفتگو میں ایسے برجستہ اور بر محل آتے چلے جاتے ہیں، جیسے کوئی ماہر توپچی پوری توجہ کے ساتھ دیکھ کر ٹھیک ٹھیک اپنے ہدف پر گولہ داغتا ہے۔ ان کے یہ گولے ان کے مخالفین پر بم بن کر پھٹتے ہیں۔
تمھارا کیا خیال ہے ان رنگوں اور لکیروں سے کسی قائد کی تصویر بن سکتی ہے؟
اس مرتبہ مصر کس آواز پر بیدا ر ہوگا؟
کس در سے صبح کی روشنی کی پو پھوٹے گی؟
مصری تاریخ کا نیا شان دار ورق کس کے خون سے لکھا جائے گا ؟
وہ وقت کب آئے گا جب مصر خامیوں و کمزوریوں سے نجات حاصل کرلے گا؟
لوگ کہتے ہیں اس کا علم اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہے اوراس کے بعد اخوان المسلمون کو ___ سوال یہ ہے کہ اخوان المسلمون کون ہیں ؟
مبصرین کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں ‘ جو ہر مظاہرے کے پیچھے اور ہر ہڑتال میں سرگرم ہیں۔ یہ وہ تحریک اور طاقت ہے جو اس بیداری کی سرخیل ہے جو آج کل ملی احساس کو زندہ کررہی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں ‘ جنھوںنے ایک ہی دن میں جلا وطنی کے ایک لاکھ بیج (badge) نہ صرف تقسیم کردیے بلکہ انھیں معزز مصریوں کے سینوں پر سجا بھی دیا۔
یہ الاخوان کون ہیں ؟
’الاخوان‘ سے وہ تنظیم و جمعیت مراد ہے،جن کا نشانِ امتیاز یہ مربوط تلواریں ہیں جن کے درمیان قرآن ہے جس کے نیچے اعدو (تیاری کرو) لکھا ہے۔
مرشد عام: مشرع شخصیت ‘ چمکتی آنکھیں ‘ فیصلہ کن اور توانا آواز۔ اس کے ایک حکم پر لاکھوں انسان اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہادینے کے لیے تیار ہیں اوریہی وہ اصل طاقت ہے۔ میں نے الاستاذ حسن البنا سے دوتلواروں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا:
’یہ جہاد کی نشانیاں ہیں ‘
اوریہ قرآن ؟
’جہاد کا دستور ہے ،زندگی بھر جہاد کا‘
میں نے پوچھا:دوتلواروں کے درمیان جو کلمہ لکھا ہے ؟
فرمایا: یہ قرآن کی ایک آیت کریمہ کا پہلا کلمہ ہے:
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ (الانفال ۸:۶۰) اور تم لوگ ، جہاں تک تمھارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بند ھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھو۔
ابھی ہم گفتگو مکمل نہیں کرپائے تھے کہ ان کے ۵ہزار انصار جلا وطنی کے دن کے حادثے کے بعد ان سے ہدایات لینے پہنچ گئے۔اب اس شخص کی نمایاں خوبی ظاہرہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لوگوں کو خطاب کس طرح کیا جائے اور ان کے احساسات کو کس طرح شعلہ بار کیا جائے۔ میں سن رہاتھا جب وہ ان سے کہہ رہے تھے: سنو! اے بہترین انسانو، جنھیں اللہ نے انسانیت کی بھلائی کے لیے چن لیا ہے۔ سنو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہیو ‘اے لشکر نجات ‘ آزادی کے پیغامبرو ‘ اے راتوں کے تہجد گزارواور دن کے شہسوارو۔
میں نے یہ افتتاحیہ کلمات سنے اور پھر میں نے حاضرین کوبجلی کی سی گرج دار آواز میں لبیک کہتے سنا--- ’’اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ کامیابی ایمان والوں ہی کے لیے ہے ‘‘۔آدمی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کو اپنے عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت عطا ہوئی ہے۔ وہ عوام کے جذبات کو اُبھارنا اور ان کو رخ دینا جانتے ہیں۔
جو کچھ ہوا ،اس پر مرشد اپنے احساسات کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ انھیں پُرامن مظاہروں کا حکم دیتے ہیں‘ تاہم وہ یہ نہیں سمجھتے کہ صرف پُرامن مظاہروں سے مصر کو اس کے حقوق مل جائیں گے، لیکن ان کی یہ سوچی سمجھی راے ہے کہ فی الحال یہ خون دینے کا وقت نہیں ہے___ اس لیے اپنی طاقت کو محفوظ رکھا جائے۔
حاضرین میں سے پھر بجلی کی گرج سنائی دیتی ہے: اللّٰہ اکبر ‘ وللّٰہ الحمد۔ مرشد تھوڑی دیر سکوت اختیار کرکے پھر فرماتے ہیں:’’اے جوانو !اب اپنے کاموں کی طرف لوٹ جائو ‘ حسب معمول میری ہدایات تمھیں پہنچ جائیںگی ، اے میرے پیارے اور محترم بھائیو‘‘۔ چندلمحوں میں ۵ ہزار پُرجوش اور پر عزم نوجوان واپس لوٹ جاتے ہیں۔ استاذ حسن البنا ہمارے درمیان اپنی نشست پر اس طرح لوٹ آتے ہیں کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ چند لمحوں میں انھوں نے ۵ہزار نوجوانوں کے جذبات کو ابھارا ہی نہیں راستہ بھی دکھایا ہے--- جوکہ رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار ہیں۔
لوٹتے ہی وہ ہم سے گفتگو شروع کردیتے ہیں: ’’میں تحدید کے ساتھ نہیں بتا سکتا کہ یہ دعوت کب اور کیسے پروان چڑھی۔ کچھ افکار انسان کے ساتھ ہی نشوو نما پاتے رہتے ہیں۔ جب میں نے دارالعلوم سے گریجویشن کیا اس وقت یہ نمایاں تر ہوئے۔ پھر جب میں اسماعیلیہ میں قیام پذیر تھا اس وقت نشان ہاے منزل مزید واضح ہوگئے۔
میں نے پوچھا :’’اس وقت اخوان سے وابستہ کتنے حلقے ہیں ‘‘؟انھوں نے فرمایا :’’مصر میں ۱۵۰۰ حلقے ہیں، جن سے لاکھوں اخوان وابستہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ہمارے کئی حلقے ہیں جن سے ڈیڑھ لاکھ اخوانی کارکن وابستہ ہیں۔ الاخوان المناصرون (متفقین) ان کے علاوہ ہیں۔ وہ ہماری طرح یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا روحانی فلسفہ اسلام کی شان دار تعلیمات سے ماخوذ ہونا چاہیے لیکن وہ فی الحال باقاعدہ ہمارے ساتھ شریکِ عمل نہیں ہوئے‘‘۔
میں نے کہا :’’لیکن گذشتہ چند سالوں میں آپ سیاسی سرگرمیوں میں لگ گئے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا: آپ کی مراد قومی سرگرمیوں سے ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ مروجہ سیاسی پارٹیوں اور انجمنوں سے ہمارا میل ملاپ نہ رہے ، مگر جب جنگ چھڑ گئی تو وہ خود ہم سے رابطہ کرنے کے لیے کوشاں ہوئیں۔ اس رابطے کے نتیجے میں وہ شعلہ بھڑک اٹھا جسے دیکھ کر سب نگاہیں ہماری طرف دیکھنے لگیں ‘‘۔
میں نے پوچھا :’’ عنقریب انتخابات ہوئے تو کیاآپ ان میں شریک ہوں گے؟‘‘ انھوں نے فرمایا :’جی ہاں‘۔پوچھا :’’کیا کامیابی کی کوئی ضمانت ہے ؟‘‘جواب دیا :’’اگر آزادانہ انتخابات ہوں‘ اور اگر ہم چاہیں تو واضح اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔ فی الواقع میں یہ نہیں چاہتا، کیونکہ ہمارا قوم کی صفوں میں رہنا حکمرانوں کی صفوں میں شامل ہونے سے بہتر ہے۔ اس لیے فی الحال ہم چند ہی حلقوں میںانتخاب میں حصہ لیں گے‘‘۔
میں نے پوچھا:کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو حکومت دی گئی تو آپ اسے قبول نہیں کریں گے ؟ انھوں نے فرمایا :’’میں حکومت کو قبول کرلوں گا۔ کیونکہ حکومت عیش و عشرت کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک گراں بار ذمہ داری ہے جو جہاد جیسی قربانی کا متقاضی ہے۔ اگر میں نے حکومت قبول کرلی تو انگریزوں سے کہوں گا کہ وہ فوراً اور مکمل طور پر مصر سے نکل جائیں--- یا--- مصر یوں سے کہوں گا ، اے میری قوم کے لوگو!جہاد کرو، صرف جہاد ہی سے آزادی مل سکتی ہے۔ میں نے ایک دن نقراشی پاشا سے کہاتھا کہ وہ صراحت کے ساتھ انگریزوں سے مصر سے نکل جانے کا مطالبہ کریں، کیونکہ انگریز ٹال مٹول کا ماہر ہے ایسے نہیں جائے گا۔ اس لیے وہ تلوار تھام کر میدان جہاد میں قوم کی قیادت کریں‘‘۔
میں نے کہا:’’کیا آپ اُس سے تعاون کرتے ؟‘‘انھوں نے فرمایا :’’میں ہر اس وزیراعظم کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوں جو جہاد کی دعوت دے‘‘۔
میں نے پوچھا :’’کیا آپ کے پاس طاقت ہے ؟‘‘ انھوں نے فرمایا :’’میرے پاس ۱۰لاکھ ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’اسلحہ؟ ‘‘ انھوں نے فرمایا:’’ہمارا اسلحہ ایمان ہے۔ اخوان میں سے ہر ایک اس پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خریدلیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے‘ قربانی دیں گے اورسامراج سے آزادی چھینیں گے--- جہاد کے موقع پر تم ہمیں دیکھو گے کہ ہم گولیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے ڈٹ جائیں گے : اے جنت کی ہوائوں، آئو ہماری طرف، آؤہماری طرف‘‘۔
میں نے پوچھا :’’کیا آپ کی جماعت کے پاس مال و دولت ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’ہماری جماعت سب سے زیادہ غریب ہے اور سب سے زیادہ دولت مند بھی۔ ہمارا باقاعدہ سرمایہ تو اخوان کے چندے اور اعانتیں ہیں‘ البتہ فی الواقع اخوان سے وابستہ کارکنوں کی ساری دولت ہماری دولت ہے۔ جب ہم نے یہ مرکز خریدنے کا فیصلہ کیا، اس وقت اخوان کے بیت المال میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اخوان نے ایک ہی دن میں ۱۶ ہزار پائونڈ ادا کردیے۔ ہم نے یکم فروری کو اعلان کیا کہ ہمیں ایک اخبار اور پریس کی ضرورت ہے جس کی لاگت تقریباً ڈھائی لاکھ پائونڈ ہے، کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ میں اسی قسم کا سب سے بڑا ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اخوان نے دو ہفتوں میں ۲لاکھ اور ۲۰ہزار پائونڈ پیش کردیے‘‘۔
میں نے کہا :’’آپ کی کچھ چیزیں مجھے اچھی نہیں لگتی ہیں ‘‘۔ انھوں نے کہا :’’وہ کیا ہیں؟‘‘ میں نے کہا : ’’دین کی تبلیغ ،کیونکہ اس سے مصری قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی‘‘۔ انھوں نے (قرآن کی آیت تلاوت کرتے ہوئے )کہا: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (الممتحنۃ ۶۰:۸)
میں نے کہا :’’آپ اپنے اراکین سے یہ تقاضا کیوں کرتے ہیں کہ وہ زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں؟‘‘ انھوں نے کہا :’’مناظرہ بازی اور فضول بحث سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی‘‘۔ میں نے کہا :’’آپ ان سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زیادہ ہنسی مذاق نہ کیا کریں‘‘۔ انھوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ملا ہوا دل پُرسکون اور سنجیدہ ہوتا ہے اور سنجیدگی ہی جہاد کا طرۂ امتیاز ہے‘‘۔ (انور الجندی، حسن البنا ، ص ۱۱۷-۱۲۲)
کسی نے بالکل درست کہا تھا کہ:’’ اخوان المسلمون موجودہ دور میں قرآن مجید کا ایک معجزہ ہے‘‘۔ تو پھر اسے تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع ہوگا کہ اخوان المسلمون کے بانی مرشد عام استاذ حسن البنامرحوم و مغفور ہی اس کرشمے کے خالق ہیں۔ انھوں نے اپنے علم و عمل ، ہدایت و راہ نمائی، فعالیت و روحانیت ، مضبوط و غیر متزلزل ایمان اور کامل اطاعت سے اس جماعت کو بے پناہ قوت و توانائی پہنچائی، اور اس جماعت کے افراد نے ایسے عظیم الشان و ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیے جن سے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔
حسن البنا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت کے کئی روشن اور قابل تقلید پہلو ہیں۔ شہید کی دعوت و فکر کی خوشبو دنیاے اسلام کے کونے کونے بالخصوص مصر میں اسلامی زندگی کے ہر شعبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ شہید کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے معاملات سے گہری دل چسپی تھی اور مسلمانوں کے حالات ان کی نگاہ میں تھے ، خواہ وہ دنیا کے کسی خطے سے بھی وابستہ ہوں۔
شہادت سے چند سال قبل جب حسن البنا کو یہ معلوم ہوا کہ میں دعوت و اشاعت دین کے لیے امریکا کے سفر کا ارادہ رکھتا ہوں ، تو وہ محترم صالح عشماوی کے ہمراہ دفتر منبرالشرق تشریف لائے، اور مجھے بتانے لگے کہ جنوبی امریکا میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کی درست اسلامی و عربی تعلیم وتربیت کے لیے بہت زیادہ پریشان و سرگردا ں ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ مربی اساتذہ کے ذریعے ان بچوں کی تربیت کا اہتمام نہ کیاگیا تو ان بچوں کا مستقبل انتہائی بھیانک اور خطرناک ہوگا۔ انھوں نے میری توجہ اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلے کی طرف دلائی اور اس سلسلے میں مالی تعاون اور افراد کار کے ذریعے عملی امداد کا وعدہ بھی فرمایا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں امریکا نہ جاسکا، اور میرا قیام مصر ہی میں رہا۔ اس دوران حسن البنا شہید سے پرخلوص محبت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا۔
ایک دن میں نے انھیں تجویز پیش کی کہ منبرالشرق کو دارالاخوان المسلمون پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے ، جیسا کہ بعض دیگر اخبارات نے سیاست و تصوف کے میدان میں کارہاے نمایاں سرانجام دینے والوں پر خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے۔ استاد محترم نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ جب مطلوبہ وسائل اور استعداد فراہم ہوجائے گی تو اس تجویز پر لازماً عمل کیا جائے گا۔ صدافسوس کہ ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو اخوان المسلمون کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ، ان کی دعوتی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی ، او ر ان کے اخبارات بند کردیے گئے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ منبر الشرق مستقل بنیادوں پر جاری رہا تاکہ پرچم حق کو سربلند رکھے۔ وہ ان سخت ترین حالات میں بھی اخوان کا ہمیشہ دفاع کرتا رہا‘ جب کہ ان کے حق میں لکھنے والے قلم خاموش اور بولنے والی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔
بعد ازاں اخوان کے لیے دعوت کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوگیا تو انھوں نے المباحث کا اجرا کیا۔ پھر اسے بھی ترک کردیا اور الدعوۃ جیسے مؤقر اور اہم مجلے کا آغاز کردیا۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی اور اس مجلے کی اشاعت کا ایک سال پورا ہونے پر میں نے اخوان کو مبارک باد پیش کی۔
آج اخوان کی صورت میں جس مبارک تحریک کو ہم پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں ، یہ پودا حسن البنا نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ آج مصر اور غیر مصر کے بے شمار نوجوانوں میں جو پاکیزہ دینی اورروحانی رجحانات و افکار پروان چڑھے ہیں تو یہ شہید کی دی ہوئی اسلامی تعلیم وتربیت ہی کا نتیجہ ہے۔ شہید کی اس تربیت کے روشن نتائج فلسطین کے میدان جہاد میں اخوان کی شجاعت وبہادری اور ان کے جذبۂ قربانی و ایثار کی صورت میں ہمارے لیے مینارہ نور او ربہترین مثال ہیں۔ اگر اخوان کے راستے میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے خفیہ سازشیں ، دسیسہ کاریاں اور رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو فتح و نصرت خداوندی کی تکمیل اور مجاہدین کی کامیابی کی صورت میں آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔
میں یقین واثق سے کہتاہوں کہ جس پاکیزہ اور عظیم انقلاب کی بنیاد شہید حسن البنا نے رکھی اور خونِ جگر ہی سے نہیں اپنی شہ رگ کے خون سے اسے سیراب کیا، وہ کبھی زوال کا شکار نہیں ہوسکتا۔ دوام و بقا اس کا مقدر ہے___ مہ و سال کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اس کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں اور یہ تحریک، اسلام کی نشأت ثانیہ اور نوجوانان اسلام کے لیے باعث صدعزت و افتخار ثابت ہوگی۔
امام شہید لکھتے ہیں : میرے والد صاحب کے بیان کے مطابق قمری اعتبار سے آج رات میری عمر ۴۰ سال ہوگئی ہے۔ الحمدللہ! میں اب تک دعوت الی اﷲ کے کام پر ڈٹا ہوا ہوں، تاہم اب بھی اس کام کے لیے مطلوبہ روحانی معیار میں کمی محسوس کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے اوراد و وظائف پر پوری توجہ دینا ہوگی‘ دعوتی کام کی وجہ سے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ نیز منگل کے ہفتہ وار لیکچر کے لیے بھی پوری تیاری اور کوشش کرنی ہے، اسی میں بہتری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے اور وہ بھی۔
اس طرح انھو ںنے اپنا شدید احتساب کیا۔ اپنے اعمال کے یومیہ جائزے کا وہ اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔وہ ہمیں بھی ہمیشہ محاسبۂ نفس کا درس دیا کرتے تھے۔
میں ایک ایسا رسالہ شائع کرنا چاہتا ہوں جو کئی زبانوں میں چھپے اور دنیا بھر میں تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح میری یہ بھی خواہش ہے کہ اخوان پوری دنیا میں پھیل کر اس فکر کو عام کریں۔ اگر میں موت سے قبل اپنی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگیا تو امید ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ضروریات کافی حد تک پوری ہوجائیں گی۔
میں نے پہلی مرتبہ امام البنا کو بالائی مصر کے ضلع قنا کے شہر اسنا کے ایک دور دراز گاؤں میں دیکھا۔ جس میں زیادہ تر ہمارے قبیلے المطاعنۃ کے لوگ آباد تھے ،اس وقت تک میں سیاست، قربانی پر مبنی جدوجہد، استعمار کی خرابیوں، انگریز کے قبضے‘ اس کی ہیبت اور اسلام پر بحیثیت دین اس کے سفاکانہ حملوںسے آگاہ نہ تھا‘ اور نہ میں عیسائی مشنریوں کے جال، بیرونی ذرائع ابلاغ کی چیرہ دستیوں اور علاج و تعلیم کے پردے میں ان عالمی ایجنسیوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے لٹریچر کے سیلاب ہی سے واقف تھا، جو علم اور صحت کے نام پر الحاد واباحیت پھیلانے اور مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا تھیں۔
اگرچہ میں اس بارے میں کچھ نہ کچھ سنتا بھی رہتا تھا۔ کیونکہ میرا شمار گاؤں کے ان بچوں میں ہوتا تھا جو گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور اسکول کی لازمی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ پڑھنے لکھنے اور قرآن کریم حفظ کرنے کے سوا میرا مشغلہ کچھ نہ تھا‘ جب کہ میرے اکثر دوست کھیتی باڑی اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول میں اپنے گھر والوں کی مدد کرتے تھے۔ میرے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ میں فرصت کے لمحات میں گاؤں کے ان پڑھ لوگوں کو الاہرام اخبار پڑھ کر سناؤں۔ یہ وہ واحد اخبار تھا جو میرے ایک ماموں، گاؤں کے چودھری اور مقامی سرکاری افسر کے مشترکہ تعاون سے آیا کرتا تھا۔میں نے سنا کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام حسن البنا میرے قبیلے کے خاندانی مہمان خانہ کیمان المطاعنۃ میں بطور مہمان تشریف لارہے ہیں۔ یہ دیوان خانہ میری رہایش گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ چنانچہ میں نے اس عظیم شخصیت کی زیارت کے ارادے سے رخت سفر باندھا جس کا نام اخبارات میں مختلف حوالوں سے چھپتا رہتا تھا۔ خاص طور پر النذیر رسالے میں ان کا لکھا اداریہ میری توجہ کا مرکز ہوتا جو میرے ماموں جب بھی شہر جاتے میرے لیے لے آتے۔ یہ اگست ۱۹۳۸ء کے آخری ایام تھے ۔ یہ نووارد مہمان دُور سے اور پھر قریب سے میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ کھلے سفید، سادہ، موٹے اور کھرّے لباس میں ملبوس تھا، سر پر ترکی ٹوپی کے اوپر پگڑی بندھی ہوئی تھی، درمیانی قدوقامت‘ سرخی مائل سفید رنگ، خوب صورت متشرع داڑھی، دل میں اُترنے والی نگاہ بصیرت___ جب وہ سادہ دیہاتیوں کے جمگھٹے میں چل پھر رہاتھا تو گویا اس کے گرد نور کا ہالہ بن جاتا جسے دیکھ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی۔ وہ سیکڑوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنا جانتا تھا۔
ظہرانے کے بعد امام نے کچھ دیر آرام کیا۔ دھوپ کافی تیز تھی اور صعید مصر کے بالائی علاقوں کی گرمی ویسے بھی بہت مشہور ہے، یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا ۔آپ نے گاؤں کی مسجد میں امامت فرمائی ۔ گاؤں کا نقشہ بھی عجیب تھا۔ کوڑے کے ڈھیروں سے اٹا ہوا، جن پر گرد اڑتی رہتی تھی۔ دھوپ کی تمازت چہار اطراف سے اپنی لپیٹ میں لیے رہتی۔ اس سب کے باوجود نہ تو امام بے چین ہوئے، نہ اکتائے ،کسی تکلیف پر اُف تک نہ کی۔
ایک دن نماز کے بعد اپنی تقریر کی ابتدا اس حدیث سے کی:
وَمَا اجتَمَعَ قَومُ فِی بَیت مِن بُیُوتِ اللّٰہِ، یَتلُونَ کِتَابَہ، وَ یَتَدَارَسُونَ آیَاتِہ، ‘إِلَّا حَفَّتہُمُ المَلَائِکَۃُ وَ غَشیَتھُم الرَّحمَۃ (مسلم) کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جو اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اس کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے او راس کی آیات کو سیکھتا اور سکھاتا ہے اِلا یہ کہ فرشتے اسے گھیر لیتے ہیں۔ اور (اللہ کی) رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے۔
پھر انھوں نے بعض آیات قرآنی کی تفسیر کی اورانھیں لوگوں کے اجتماعی حالات پر منطبق کیا۔ مجھے اب ان کی گفتگو کی تفصیل یاد نہیں ہے۔ البتہ اس کی ایک زندہ تصویر اب بھی میری عقل و دل کو جذبات سے لبریز کردیتی ہے۔قبیلے کی مختلف سرکردہ شخصیات کے دیوان خانوں کے تھکادینے والے دورے کے بعد جب رات چھا گئی اور لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے تو وہ تنہابیٹھ کر گہری خاموشی کے عالم میں اپنے ا ورادو وظائف پڑھنے لگے اور اپنے معمول کے مطابق نوافل اداکرنے لگے۔
اس دورے میں ان کے ہمراہ ایک ساتھی تھے۔ بھرے بھرے جسم، مضبوط ساخت کے مالک، نئے نئے ازہر سے فارغ ہوئے تھے، عمامہ و جبہ میں ملبوس۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لوگ ان کے تصنع و بناوٹ اور ان کی گفتگو میں خود پسندی کی بنا پر ان سے مطمئن نہ ہوئے۔ یوں لگا کہ گویا ایک مصنوعی شخصیت ان کے لیے بوجھ بن رہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسے نظر انداز کردیا اور امام البنا کے گرد ہی جمع رہے۔ اگرچہ مہمان نوازی ان کی بھی جاری رہی ۔
کیمان المطاعنۃ سے امام اصفون المطاعنۃ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ فراج طایع خاندان کے مہمان ہوئے۔ اس خاندان کے سربراہ نے کئی سال ازہر میں بغیرکوئی ڈگری لیے گزار دیے، جیسا کہ اس زمانے میں کچھ لوگوں کی روایت تھی۔ پھر وہ اس حلقے سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوگئے اور شیخ محمد امیر کو یقین دہانی کرائی کہ وہ گاؤں میں اخوان کی شاخ قائم کریں گے۔ شیخ امیر نے بھی ازہر میں دو سال گزارے تھے اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ انھوں نے اس محرومی کی تلافی یوں کی کہ وہ ہمیشہ گاؤں کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے پر ابھارتے رہے۔ وہ خود انھیں اسکولوں اور قاہرہ کے اداروں اور کالجوں میں داخلہ دلانے کی مشقت برداشت کرتے۔
اس بار میں نے انھیں زیادہ قریب سے دیکھا۔ میں ایک سال بڑا ہوگیا تھا اوران سے میرے لگائو میں اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے اپنے پروگرام، عبادات اور لباس میں کوئی تبدیلی نہ کی تھی۔ اس دفعہ شیخ عبد المعز عبد الستارنامی ایک دوسرا ازہری نوجوان ان کا رفیق سفر تھا۔ وہ کلیہ اصول الدین کا طالب علم تھا۔ لوگوں نے اس کے لیے بھی اسی طرح چاہت کا اظہار کیا جس طرح امام البنا کے لیے کیاتھا۔ وہ نہایت پروقار منکسر المزاج نوجوان تھا۔ ’’وہ حیا سے سر جھکاتا اور چہرے اس کے رعب سے جھک جاتے تھے‘‘۔ حسن البنا اور ان کا یہ ساتھی اصفون المطاعنۃ سے ہمارے پاس آئے تھے۔ اپنی قیام کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ ’’إسنا‘‘روانہ ہوگئے تاکہ وہ بالائی مصر کے باقی شہروں کا دورہ مکمل کرسکیں۔
ان دنوں، جب کہ میں جوانی کی دہلیز پر دستک دے رہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ جمعیت شبان المسلمین وقت گزاری اور خطابت کی مشق کے لیے اچھی جگہ ہے۔ اگرچہ اس وقت میرا یہ بھی خیال تھا کہ ان کے پاس واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں ہے‘ اور وطن کی آزادی ہرگز ان کے مجوّزہ طریقے سے حاصل نہ ہوسکے گی۔ بہرحال آخر شب نشے میں مدہوش غیر ملکی فوجیوں کی نقل و حرکت ہمارے جذبات بھڑکا دیتی اور ہماری رگوں میں بغاوت اور ٹکرائو کے جذبات دوڑا دیتی۔
ایک روز اچانک میں اخوان المسلمون کے دفتر چلا گیا جو شہر کے وسط میں ایک عمارت کی زمینی منزل میں قائم تھا۔ دفترایک لیکچر ہال پر مشتمل تھا جو نماز کے اوقات میں نماز گاہ اور دفتری اوقات میں دفتر کا کام دیتا۔ تیسرے کمرے کے ساتھ طہارت خانے کا انتظام تھا۔ میں دفتر میں داخل ہواتومیرے ذہن میں اس عظیم شخصیت کی تصویر تھی جسے میں نے دو سال پہلے اپنے دیوان خانے (گاؤں) میں دیکھا تھا۔
اخوان المسلمون کی سرگرمیاں مختلف لیکچر اور دروس پرمشتمل تھیں۔ خطابت کی مشق بھی کروائی جاتی تھی۔ ایسی سفری مہمات پربھی بھیجا جاتا جن میں بھلائی کے کاموں میں تعاون کے لیے تربیت دی جاتی۔ ان سرگرمیوں میں سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ و طلبہ اور چھوٹے ملازمین شریک ہوتے‘ اور معہد دینی کے بعض طلبہ بھی شریک ہوجاتے۔ البتہ معہد کے اساتذہ الگ تھلگ رہتے اورصرف جمعیت شبان المسلمین میں وعظ و خطابت پر اکتفا کرتے۔
۲۰ مئی ۱۹۴۱ء کو وزیر اعظم حسین سرّی نے حسن البنا کاتبادلہ عباس اول قاہرہ پرائمری اسکول سے پرائمری اسکول قنا میں کردیا اور وہ بھی تعلیمی سال کے آخر میں۔ حسن البنا صرف منصبی ذمہ داری سنبھالنے آئے اورپھر واپس چلے گئے، کیونکہ میں نے اس سال انھیں دوبارہ نہیں دیکھا۔ میں خود بھی اپنے امتحانات میں مصروف ہوگیا۔ دوسرے سال کے آغاز میں وہ تشریف لائے اور میں اپنا پورا وقت ان کے ساتھ گزارنے لگ گیا۔
حسن البنا کی اس مضمون میں دل چسپی کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ اس مضمون کے ہرکلاس میں ہفتہ وار دو پیریڈ تھے جس کا مطلب تھا کہ وہ اسکول کے تمام طلبہ کو پڑھائیں گے جو ۱۵کلاسوں اور سیکشنوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔اس طرح ان کا رابطہ تمام طلبہ سے ہوگیا جو اب دور جوانی میں داخل ہونے والے تھے اور وہ ان میں سے ایسے افرادِکار تیار کرسکتے تھے جن کی مستقبل میں ملک کو ضرورت تھی۔ عملاً انھیں اس مقصد میں کامیابی بھی ہوئی۔ پس یہ خوش باش استاد، ہمیشہ مسکراتا ہوا، پرسکون طبیعت کا مالک، شایستہ و پر وقار،ایک غیر اہم مضمون میں تمام طلبہ کی دل چسپی کا باعث بننے لگا ۔ وہ پیریڈ کا کچھ حصہ خوش خطی سکھاتاجسے بچے خوشی خوشی سیکھتے۔ وہ ان سے کھل کر گفتگو کرتا۔ ان کے ذاتی معاملات میں دل چسپی لیتا۔ ان کی محدود دنیا سے انھیں دور نہ کرتا۔ وہ ان سے بغیر سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کے سوال و جواب کرتا:آج صبح کی نماز کس نے پڑھی ہے ؟ نماز پڑھنے والوں کو وہ انعام دیتا ،ان کی حوصلہ افزائی کرتا۔ کس نے قرآن میںسے کچھ یاد کیاہے ،وہ سنتااور تصحیح کرتا۔ پھر جب آدھی چھٹی ہوتی تو وہ ان سے اسکول کی مسجد میں ملنے کا وعدہ کرلیتا۔ایک ماہ کے اندر اندر وہ اسکول کے تمام طلبہ کے محبوب ترین استاد بن چکے تھے۔
یہ مضمون اختیار کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ خوش خطی سکھانے کا پیریڈ اپنے وقت پر ختم ہوجاتا۔ اس کے لیے انھیں پریڈکے بعد کسی تصحیح کی ضرورت ہوتی اور نہ پریڈ سے پہلے کسی تیاری کی۔ وہ دن کا بقیہ اور رات کا بڑا حصہ دعوت دین اور اسکے مددگاروں (انصار) کی تلاش میں یا عبادت و مطالعے میں صرف کردیتے۔
حسن البنا ہوٹل جبلاوی الجدید میں ٹھیرتے۔ یہ ان دنوں قنا کے اعلیٰ ہوٹلوں میں سے ایک تھا۔ اس کی عمارت آج تک قائم ہے اگرچہ مرور ایام سے اس کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ حسن البنا کا پروگرام معمول کے مطابق یہ ہوتا کہ چار بجے ہوٹل آجاتے،کپڑے تبدیل کرتے، کچھ دیر آرام کرتے۔ پھر اخوان کے دفتر آتے اورنماز مغرب کی جماعت کرواتے۔ خشوع و خضوع سے بھرپور نماز، نہ اتنی لمبی کہ لوگ تھک جائیں اور نہ اتنی مختصر کہ صرف فرض کا بوجھ اتارنا مقصود نظر آئے۔ اس کے بعد جماعت کے دیگر معاملات نمٹاتے، اور ملاقاتیوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہوجاتے ۔ کہیں وقت دیا ہوتا تو وہاں چلے جاتے۔ کبھی کبھار دیگر اسلامی اور مسیحی تنظیموں کے ذمہ داروں سے گفتگو رہتی۔ پھر نماز عشا کے لیے تشریف لے جاتے۔ بعد میں امام غزالی کی احیاء علوم الدین سے درس دیتے۔ اس کتاب کی وہ بہت تعریف کرتے بلکہ انھوں نے ہی سب سے پہلے ہماری توجہ اس کی طرف مبذول کروائی۔ شب جمعہ نمازعشا کے بعد عام لیکچر ہوتا جس میں شہر کے کونے کونے سے لوگ شریک ہوتے‘ چاہے ان کا اخوان سے تعلق ہو یا نہ ہو۔ اس لیکچر میں عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو رہتی اور دینی حوالے سے ان کا حل پیش کیا جاتا۔
ان کا کیا حافظہ تھا! میں جب بھی ان سے ملا انھوں نے مجھ سے میرے اہل و عیال کی فرداً فرداً نام لے کر خیریت دریافت کی۔ یہاں تک ان لوگوں کے بارے میں بھی پوچھا جن سے ان کی ملاقات صرف چند منٹ کے لیے ہوئی تھی۔
وہ فصیح عربی پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ فصیح و بلیغ، صاف، آسان اور واضح عربی میں گفتگو کرتے تھے ۔وہ اگر کسی شخص کے کردار پر خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو گفتگو کرتے تو صرف اتنا ہی ذکر کرتے جتنا کھوٹ اور باطل اور دین سے انحراف اس کے اندر دیکھتے۔ مرض کی تشخیص کرتے، علاج تجویز کرتے اور وہ تدابیر بتاتے جو کارگر ہوتیں۔ لوگوں کا انتخاب کرتے اور انھیں اکٹھا رکھنے کی سعی کرتے اوروہ ہمیشہ فرمایا کرتے: جن امورپر ہم متفق ہیں ان کے لیے ہم مل جل کر کام کریں گے‘ اورجن باتوں میں ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف ہے ان کے بارے میں ایک دوسرے سے درگزر کا معاملہ کریں گے۔ میں نے انھیں ہر طرح کے لوگوں کے لیے فراخ دل پایا۔ جو ان سے عمراور مناصب میں بڑے تھے یا جو ان سے عمر اور مرتبے میں کم تھے‘ سب کو اہمیت دیتے اور مشکلات پر قابو پانے میں ان کی مدد کرتے۔ اس مقصد کے لیے قاہرہ میں اخوان المسلمون کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تعلقات عامہ کا ڈائریکٹوریٹ قائم ہوا۔ جس کا کام ملکی اور عالمی سطح پر اخوان کی مدد کرنا‘ ان کی روز مرہ مشکلات کا حل ڈھونڈنا تھا۔ شیخ البنا کی انتہائی خواہش ہوتی کہ اخوان ہمیشہ باہمی محبت و تعاون کی بنیاد پر جمع ہوں۔ وہ جہاں بھی جاتے اس بات کا اہتمام کرتے کہ وہ جہاں سے آ رہے ہیں وہاں کے اخوان کا سلام اپنے تمام حاضرین کو پہنچائیں۔
حسن البنا کے دامن دل کو فطرت کا حسن والہانہ طور پر کھینچتا۔ نیل کا منظر، طلوع و غروب آفتاب کے لمحات اور پہاڑوں کا رعب و جلال انھیں بہت بھلا لگتا کیونکہ وہ اس میں خدا کی قدرت دیکھتے۔ ہمیں بارہا قنا کے جنگلوں میں ان کے ساتھ تفریح کے مواقع ملے۔ یہ جنگل شہر کے کنارے صحرا کے ایک حصے میں لگائے گئے تھے ،وہاں ہم نماز مغرب پڑھتے۔ ہماری نگاہوں کو کوئی دیوار نہ روکتی اور نہ کھلے آسمان کو دیکھنے میں کوئی چیز حائل ہوتی۔چندہی ماہ گزرے تھے کہ انگریزی استعماراور اس کے اشاروں پر چلنے والی مصری حکومت نے محسوس کرلیاکہ حسن البنا بالائی مصر (صعید) میں قاہرہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ وہاں انھیں ایک نیا اور وسیع میدان میسر ہے۔ ایسے مخلص لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں جنھیں تہذیبی یلغار نے خراب نہیںکیا اورخوشامد نے ان کے دل و دماغ تک راہ نہیں پائی۔ چنانچہ انھیں واپس قاہرہ بھیج دیا گیا۔
حسن البنا نے قنا سے کوچ کرنے سے پہلے رخصت کے ان لمحات میں بھی ایک عظیم کارنامہ انجام دے دیا۔ انھوں نے لوگوں کی ان سے محبت اور تعلق کو مقصدیت میں ڈھالتے ہوئے کہا:میں چاہتا ہوں کہ اخوان کا یہ دفتر کسی کرایے کی عمارت کا فلیٹ نہ ہوبلکہ خود آپ کی ملکیت ہو۔ چنانچہ ہر طبقے کی طرف سے چندے کا ڈھیر لگ گیا۔ اس مرکز کی تعمیر شہر کے بہترین مقام پر ہوئی۔ اس میں ایک بڑا لیکچر ہال، ڈسپنسری ،لائبریری، مسجد اور ایک مہمان خانہ قائم ہوگیااور دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے کے عوام و خواص کے لیے مرکز نگاہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ان کی روانگی کے بعد ہم نے مکمل منصوبہ بندی کی کہ ہم کیسے اہم مراکز پر انگریز کی مزاحمت کریں گے۔ بجلی و ٹیلی فون کی تنصیبات کے مراکز کو ہدف بناتے ہوئے کیسے چند منٹوں میں پورے شہر کی بجلی منقطع کردیں گے ۔ اس مہم کو کون اور کیسے سرانجام دے گا؟ چنانچہ مختلف اداروں میں کام کرنے والے ہمارے کارکن مختلف ضروری معلومات اور نقشے لے آئے۔ حسین رشدی نے بجلی منقطع کرنے کی تربیت اپنے ذمے لی کہ ہم کیسے بغیر تکلیف اٹھأئے اہم مقامات کی بجلی معطل کردیں۔ برطانوی افواج کے پڑاؤ اور اسلحے کے ذخائر کہاں کہاں ہیں‘ فوجی مداخلت کی صورت میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کریں گے؟ مجھے نہیں معلوم ان دنوں قاہرہ میں کیا کیا ہورہاتھا، لیکن چند ہی دنوں میں حسن البنا کو رہا کردیا گیا ،اخوان المسلمون سے پابندی اٹھا لی گئی۔ اور انھوں نے اپنی سرگرمیاں مزید زور و شور سے شروع کردیں۔ اب انھیں غیر معمولی عوامی حمایت بھی حاصل تھی۔
قنا میں اخوان کی وسعت پذیر سرگرمیوں کے باوجود ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں پڑھائی کی حالت اچھی نہ تھی۔ اساتذہ کا معیار بہت پست تھا۔ تربیتی معیار بھی نہ ہونے کے برابر تھا ۔کسی کا کوئی قابل ذکر تخصص بھی نہ تھا۔ ہر استاد ہر مضمون پڑھادیتا تھا۔ شہر کی ثقافتی زندگی کا حال بھی پتلاتھا۔انھی دنوں معہد میں نئے ڈپٹی ڈائرکٹر کامل عجلان آئے جو صحافی اور ادیب تھے۔ انھوں نے ہمارے جامد افکار میں اپنے نئے اسلوب فکر و فہم سے تہلکہ برپا کردیا۔ مجھے انھوں نے گھٹن کی اس فضا سے نکل جانے کے لیے ابھارا اورمیں نے قاہرہ سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلیا‘ اور یہ فیصلہ کیا کہ انٹر میڈیٹ قاہرہ سے مکمل کروں گا۔
۹اکتوبر ۱۹۴۴ء کو میں قاہرہ پہنچا۔تب قاہرہ میںطرح طرح کے مظاہرے عروج پر تھے۔ وفد پارٹی کی حکومت تخت مصر سے نہایت تلخ چپقلش کے بعد مستعفی ہوگئی تھی۔ شاہ فاروق نے احمد ماہر پاشا کو نیا وزیر اعظم نامزدکیاتھا۔ پارلیمنٹ تحلیل کردی‘ اورپھر سے ایک ایسی سیاست کی ابتدا کردی گئی، جس کا مرکز شاہ فاروق کی ذات تھی۔
قاہرہ کے شور نے مجھے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا۔ طلبہ کے مظاہرے رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اور طرح طرح کے ثقافتی اجتماعات، سوسائٹیوں، یونینوں اور یونی ورسٹیوں کی سرگرمیاں چین نہ لینے دیتی تھیں۔ ان میں سے بعض پروگراموں میں ہم ٹکٹ خرید کر شریک ہوتے تھے۔ اس لیے مجھے اخوان المسلمون کے مرکز سے دوبارہ رابطہ کرنے میں کچھ وقت لگا ۔ یہ مرکز حلمیہ الجدیدہ کے ایک اہم میدان میں واقع تھا۔یہ قاہرہ کے عین مرکزمیں واقع تھا، تب یہ علاقے کی سربرآوردہ شخصیات کا ٹھکانا ہوا کرتاتھا۔
اس میدان میں اخوان کی دو عمارتیں تھیں۔ ایک پرانی طرز کی دو منزلہ عمارت جس میں اخوان کا پرانا مرکز اور ان کے اخبار کا دفتر تھا۔ دوسری ایک کشادہ و آرام دہ عمارت تھی جو اخوان نے حال ہی میں خریدی تھی۔ عمارت خریدنے اور ایک روزنامہ نکالنے کے لیے پورے مصر کی سطح پر اہلِ مصر نے تعاون کیا تھا۔ ملک کے تمام ہی طبقات، مال دار و فقرا ، تعلیم یافتہ مزدوروں، مردوں، عورتوں اور بچوں تک نے اپنی بچتیں‘ اورزیورات تک اس مد میں دے دیے تھے۔ قاہرہ میں اس محل نما عمارت کے خوب صورت ’العربی ہال‘ میں میں نے پہلی مرتبہ حسن البنا کوقاہرہ میں دیکھا۔ ان کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں منعقدہ اجتماعات میںسے ایک اجتماع کے بعد وہ عوام کو سلام کررہے تھے۔ انھی کے درمیان ،میں نے امین الحسینی مفتی فلسطین اور بریگیڈیر صالح حرب صدر جمعیت شبان المسلمین کو دیکھا۔ وہاں دیگر بہت سی شخصیات کو میں نہیں جانتاتھا۔
میں نے مجمع چھٹ جانے کا انتظار کیا۔ پھر ان کی طرف بڑھا۔ وہ مجھے فوراً پہچان گئے اور میرا پرجوش استقبال کیا۔ پھر عادت کے مطابق میرے اہل و عیال کے بارے میں فرداً فرداً دریافت کیا۔ میری رہایش اور پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ پھر گاہے گاہے ملتے رہنے کے لیے کہا۔ میںاب اکثر مرکز آنے جانے لگا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ استاذ مرشد - یہ شیخ البنا کا لقب تھا‘ ہرمنگل کو عشا کے بعد درس دیتے ہیں‘ اور یہ حالات کے مطابق دو گھنٹے اور کبھی تین گھنٹے تک طویل ہوجاتا۔ قاہرہ کے کونے کونے، اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں سے لوگ کھچے چلے آتے تھے ۔ مرکز کا صحن اورسامنے والا میدان بھر جاتے، سامنے کی شاہراہوں پر بھی تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ لوگ اپنی کرسیاں ہمراہ لاتے یا قدموں پرہی کھڑے رہتے تاکہ وہ اس الہامی شخصیت کو سنیں جس کی بلاغت بے مثل تھی ،جو عوام کے دلوں تک پہنچنا جانتا تھا، صداقت جس کے عمل کی بنیاد تھی۔ ان کی گفتگو جامع ہوتی۔ دین، سیاست، معیشت، سماجیات‘ غرض یہ کہ ہر وہ موضوع جس کا تعلق زندگی سے ہوتا، ان کی تقریر اس سے سجی ہوتی۔ تقریر کے آخر میں عام سامعین کی باری ہوتی کہ وہ جو وضاحت طلب کرنا چاہیں اسے لکھ کربھیج دیں۔ پھر نصف کلومیٹر کے فاصلے تک پھیلے ہوئے عوام کے اس اجتماع کی طرف سے آمدہ سوالوں کے جوابات لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے دے دیے جاتے‘ خواہ سوال کتنا ہی حساس کیوں نہ ہوتا۔
ایک روز سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم اسماعیل صدقی پاشا نے اخوان کو فنڈ فراہم کیے ہیں تاکہ وہ ان کو اپنی سیاست کے ڈھب پر لاسکے؟انھوں نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اصولاً جو الزام لگاتا ہے اسی کو الزام ثابت بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ ثبوت کی فراہمی مدّعی پر ہے۔ لیکن اگرالزام ثابت کرنے کے بجاے جھگڑے پر اتر آئے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے یہ کہو کہ بفرض محال اگر تمھارا الزام سچا ہے تو صدقی (وزیر اعظم) نے اپنی جیب سے کچھ نہیں دیا۔دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ تحریک اخوان کسی بھی صورت اپنی دعوت یا طریق کار سے ایک انچ بھی نہیں ہٹ سکتی، خواہ کوئی اس کے بدلے اسے زمین بھر سونا ہی کیوں نہ پیش کرے۔
شیخ البنا کا ایک ہفتہ وار خطاب ’جمعرات کی بات‘ سے مشہور تھا۔ یہ یونی ورسٹی کے سطح کے طلبہ کے لیے ہوتاتھا۔ اس کا رنگ وعظ و بیان کے بجاے بحث و مباحثہ کا ہوتا جس میں ہر دفعہ کسی ایک موضوع پرگفتگو اور بحث و تمحیص ہوتی تھی۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا کیونکہ یہ پروگرام شروع ہونے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں منصہ حیات سے غائب کردیاگیا۔
ایک دن میرے ایک رشتہ دار شیخ محمد الامیر، قاہرہ آئے۔ شیخ البنا سے گہرا تعارف رکھتے تھے۔ چنانچہ ہم ان کی زیارت کے لیے مرکز عام گئے۔ شیخ کی مصروفیات کے پیش نظر انھوں نے ہمیںاگلے دن صبح نو بجے گھر آنے کا کہا۔ مقررہ وقت پر ہم ان کے پاس پہنچے اس وقت وہ حلمیہ میں مرکزعام سے قریب سنجر الخازن روڈکے قریب قدیم قاہرہ کے گھروں میں سے ایک گھر کی پہلی منزل میں رہایش پذیر تھے۔ انھوں نے سیڑھیوں کے ساتھ متصل کمرۂ استقبال میں ہمارا استقبال کیا۔ میں نے ایک گہرے سکوت کے عالم میں اس شخص کے گھر کا جائزہ لینا شروع کیاکہ جب وہ بولتا تھا تو ہزاروں انسانوں کے جذبات جھنجھوڑ دیتا تھا، جس کے اردگرد عرب مجاہدین جمع رہتے تھے، جس کے ساتھ ہم وطنوں کی بے شمار آرزوئیں وابستہ تھیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا گھر نہایت سادہ سا تھا۔ در و دیوار تو لائبریری نے گھیر رکھے تھے۔ تیسری طرف ایک سادہ سی ڈیسک تھی جس کے سامنے بانس کی دوکرسیاں تھیں جن پر ہم بیٹھ گئے‘ جب کہ وہ خود اپنی ڈیسک پر بیٹھ گئے۔ ہم سب کے لیے چائے آگئی۔ وہ دونوں بالائی مصر (صعید) اور اس کے قصبوں میں اخوان کی تنظیم کے موضوع پر اور وہاں سے قاہرہ آنے والے نوجوانوں کی تعلیم کے بارے میں محو گفتگو ہوگئے۔
اس زمانے میں اخوان محض ایک دینی یا سیاسی گروہ نہ تھا‘ بلکہ ایسی غالب قوت تھی جو سڑک، یونی ورسٹی اور فیکٹری پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکت ایک محکم نظام کے مطابق ہوتی تھی اور اس کے معاملات کو شعبوں اور اداروں کے ذریعے منظم کیاگیا تھا۔ وہ مصر میں پہلی ایسی جامع تنظیم تھی جو ایک مضبوط طریق کار کی روشنی میں عالم عرب و عالم اسلام کے معاملات پر نظر رکھتی تھی۔ عالم اسلامی سے رابطے اور وہاں جاری مختلف تحریکات آزادی و اصلاح سے یک جہتی کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم تھا۔ ادارے اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور جدوجہد کو مہمیز دینے کا ممکنہ حد تک اہتمام کرتے۔
شیخ البنا میری راے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کا عمل ان کے فکر سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا۔ ان کے عمل اور دعوت میں کوئی تضاد نہ تھا۔ میرا ان پر یقین اور محبت ایک الہامی قائد کی حیثیت سے تھی۔ ان کی شخصیت کی یہ جھلک میں مجلہ نذیر اور مجلہ دعوۃ کے مدیر مرحوم صالح عشماوی میں دیکھا کرتا تھا اگرچہ انھیں شیخ البنا جیسی بلاغت، بے ساختگی اور حکمت نہ ملی تھی۔ لیکن وہ بھی ’فنا فی الدعوت‘، زمین پر چلتا پھرتا مجسمۂ اخلاص تھے۔
دو ہفتے کے اندر اندر اس اجتماع کے نتائج سامنے آگئے۔ ۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو نقراشی پاشا نے افواج کے کمانڈر کی حیثیت سے اخوان المسلمون پر پابندی لگانے اور اس کی تمام املاک، فنڈ اور ادارے قبضے میں لینے کا حکم دے دیا۔ اس نے اخوان کے اخبارات پر پابندی اوراس کے ہزاروں کارکنوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے۔
حسن البنا نے کوشش کی کہ بحران کے حل کے لیے وہ وزیر اعظم سے بات کریں‘ کیونکہ وہ حکومت سے ٹکرائو نہیں چاہتے تھے۔ اگرچہ اخوان المسلمون کی قوت اور جہاد فلسطین میں عملی جنگی تجربات کے بعد وہ اس قابل تھے کہ حکومت سے ٹکرا جائیں اور فتح حاصل کریں۔ مگر شیخ البنا اس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ ایک لاکھ سے زیادہ برطانوی فوجی قنا کے صوبے میں مناسب موقع کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نئے سرے سے مصر پر قبضہ کے لیے تیار ہیں‘ اور یوں وہ نومولود تحریک احیا کو اس کے جنم کے ساتھ ہی دفن کردینا چاہتے ہیں۔ حسن البنا نہیں چاہتے تھے کہ یہ المیہ دوبارہ رونما ہو۔
نقراشی بہرصورت حکمران رہنا چاہتے تھے اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب شاہ فاروق اور انگریز ان سے خوش ہوں۔ چنانچہ اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اصلاح احوال کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اخوان پر پابندی کے فیصلہ کے ۲۰دن بعد۲۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو ایک طالب علم نے نقراشی پاشا پر گولی چلادی جو اس کی موت کا باعث ہوئی۔ یہ طالب علم پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔
دوسری طرف کچھ ادارے یہ چاہتے تھے کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام سے نجات حاصل ہوجائے۔ ان میں سرفہرست خود شاہ فاروق تھا، جو اس بات کو نہیں بھلا سکا تھا کہ جنگ فلسطین میں مصر کی دو بنیادی قوتوں نے حصہ لیا تھا۔ ایک تو مصری افواج جو اپنے سپریم کمانڈ‘ یعنی شاہ فاروق سے احکام لیتی تھیں‘ اوردوسرے اخوان المسلمون کے دستے جو حسن البنا سے احکام وصول کرتے تھے۔ حسن البنا کے مجاہدین اپنی تربیت قوتِ ایمانی اور بہترین اسلحے کی وجہ سے ممتاز تھے۔ قربانی اور فداکاری کے جذبے کے لحاظ سے بھی نہایت فعال اور نمایاں تھے۔ انھوں نے کسی ایک معرکے میں بھی شکست نہیں کھائی تھی۔ چنانچہ وہ (شاہ فاروق) ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ خود انگریز اور صہیونی بھی ان نوجوانوں کے جذبۂ قتال کو دیکھ چکے تھے۔ سو یہ ہدف پر متفق ہوگئے اور ابراہیم عبدالہادی کی حکومت کو اکسایا کہ وہ حسن البنا کو ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء بوقت شام آٹھ بجے قتل کردیں۔ حملے کے بعد حسن البنا خودٹیکسی سے اترے۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھے۔ انھوں نے جمعیت شبان المسلمین کے فون پر بے ہوش ہونے سے پہلے دوہندسے ڈائل کیے، لیکن پورا نمبر ڈائل کرنے سے پہلے ہی بے ہوش ہوگئے۔ انھیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے قریبی ہسپتال اور وہاں سے قصر عینی لے جایا گیااور وہاں انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کی نوجوان نسل کو امام البنا اور ان کی فکر و تحریک کے بارے میں پوری آگاہی کے ساتھ غورو خوض کرنا چاہیے، اس کے مختلف پہلوؤں پر پورے خلوص‘ سنجیدگی اور باریک بینی کے ساتھ نظر دوڑانی چاہیے ۔اس سے ان پر یہ حقیقت کھل کرواضح ہوجائے گی کہ کس طرح ا نسانوں کو راہ راست پر لاکر منظم کیا جاسکتا ہے، اور کس طرح انھیں دعوت کے کام پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ انھی کاوشوں کے نتیجے میں اب عالمِ اسلام آزادی اور عروج کے حصول کی جانب تیزرفتار پیش قدمی کررہا ہے ،بالکل اس شیر کی طرح جسے بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا ہو‘ یا جیسے کسی شاہین کے پر کاٹ دیے گئے ہوں لیکن پھر بھی وہ پہاڑوں کی بلندیوں میں اپنے بسیرے کی تلاش میں پھڑپھڑا رہا ہو۔
عالم اسلام کے ہر فرد پر واجب ہے کہ وہ ہر قسم کے لالچ ‘خوف‘بزدلی اور مایوسی سے پاک، بیداریِ اُمت کے قائد کی یاد تازہ کریں ،اس کی فکر کے اسلوب اور طریقۂ تربیت سے آگاہی حاصل کریں۔ امام شہیدؒ کو اس امت کا اصل مرض بخوبی معلوم تھا اور پھر وہ اس مرض کی دوا اور حقیقی علاج سے بھی پوری طرح آشنا تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہونا ہی اصل مرض ہے، اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت ہی اس امت کا حقیقی علاج بھی ہے۔ انھیں اس بات کا پوراپورا ادراک حاصل تھا کہ نفس انسانی میں دو اطراف سے کمزوری در آتی ہے،جس کے بعد وہ جہاد فی سبیل اﷲ ترک کر بیٹھتا ہے۔ وہ دو چیزیں حرص اور خوف ہیں۔ اگر انسان کو اﷲ تعالیٰ کے تنہا رازق ہونے اور اسی کی طرف سے موت کا یقین ہوجائے تو وہ کبھی حق سے جی چرائے گا اور نہ پسپائی ہی اختیار کرے گا۔
انھوں نے کیسی خوب صورتی سے اس مفہوم کو اپنے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’اے میرے بھائیو! تمھیں اس دنیا میں صرف دو باتوں کا لالچ ہوتا ہے: ایک اپنے رزق کا اور دوسرے لمبی عمر کا ۔ دونوں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے قابو میں نہیں ہیں۔ اس لیے ان چیزوں کے لالچ میں آکر کبھی حق کا راستہ مت چھوڑو‘‘۔
اصلاح نفس میں معرفت خداوندی اور اس کی قدرو قیمت سے متعلق ان کا ایک شان دار قول ان کی بلند فکری پر دال ہے : ’’ معرفت خداوندی تبدیلی کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جو فرد اور اجتماعیت دونوں کو بدل کر رکھ دیتا ہے‘‘۔ان کے نزدیک اصلاح معاشرہ، نفس کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں اور اصلاح نفس معرفت خداوندی کے ذریعے ہوتی ہے۔گویامعرفت خداوندی ایک ایسی اساس اور کنجی ہے جس پر فرد اور اجتماعیت دونوں کے نظم کا دار و مدار ہے۔ ہم سب کے حکیم و خبیر رب نے فرمایا ہے : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱:۷-۱۰) ’’اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا‘ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی‘ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا‘‘۔
امام شہیدؒ میں ایسی روحانی خصوصیات جمع ہوگئی تھیں، جو ان کے علاوہ کسی دوسری دینی یا سیاسی شخصیت یا ان کے معاصر قائدین میں نہیں ملتیں، مثلاً : فطری عظمت ‘ روحانی بلندی‘ پاکیزگیِ نفس، روشن ضمیری، سخن دل نوازی، توانا جسم۔ آپ ایسی سحر انگیز قوتوں کے مالک تھے کہ آپ کے ساتھ کوئی ایک مرتبہ بیٹھ جاتا تو اس کا ظاہر و باطن اسلام کے رنگ میں رنگے بغیر نہ رہتا۔ان کی روحانی شخصیت ہر شخص کو روشنی اور سربلندی کی جانب کھینچ لاتی تھی۔
داعیانہ کردار ایسا تھا کہ ہر کسی کو نیکی اور عبادت کی طرف متوجہ کرتے رہتے ۔یہی وجہ ہے کہ امام شہیدؒ میں اسی بندۂ مومن کی فطرت جھلکتی ہے جس کی تعریف کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : اذا رؤی ذکر اﷲ ، کہ اسے دیکھ کر اﷲ یاد آجاتا ہے۔ ایمان کی کیفیت جو دین کے ایک سپاہی‘ عام بندۂ مومن میں بڑی آسانی سے جھلکتی ہو‘ وہ مسلمانوں کے اس قائد میں کس قدر نمایاں طور پر دکھائی دے گی، جو نہ صرف دوسروں سے منفرد ہو بلکہ لوگوں کو بیدار کرنے والا وقت کا جلیل القدر امام بھی ہو۔
امام شہید ؒ کے اثرات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں ‘جو ان کی روحانیت کی روشن دلیل ہیں۔ وہ ایسی بے مثال شخصیت ہیں جیسے وہ ان الہامی روحوں اور پاک بازہستیوں کی کرنوں سے مل کر بقعۂ نور بن گئے ہوں ‘جو اپنے چہار اطراف میں روشنی اور تروتازگی بکھیرتے ہیں۔حسن البنا شہید آپ کے روح و قلب کو منور اور معطر کرنے والی باتیں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں‘جنھیں دیکھ کر آپ دل کی اتھاہ گہراہیوں سے بے اختیار پکار اٹھتے ہیں: مَا ھَذَا بَشَرا۔ اِن ھَذَا اِلَّا مَلِکُ کَرِیْمٌ (یوسف۱۲: ۳۱) ’’کہ یہ تو کوئی مقرب فرشتہ ہے‘ یہ انسان تو نہیں لگتا‘‘۔
وہ اپنی ذات میں ایک ایسا سیل رواں تھے جو کسی اور کا اثر قبول کیے بغیر دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہو، جو مسلسل پیش قدمی کرتا ہو، کبھی پیچھے نہ ہٹتا ہو‘ اس کی تیز روشنی میں ہر چمک دار چیز بھی مدھم پڑجاتی ہو۔ وہ مثل آتش فشاں تھے جس کے آگے کوئی بند اور رکاوٹ نہ ٹھیر سکے۔ دلوں پر نرمی‘ آسانی اور مہربانی کے ساتھ مسلسل اثر انداز ہوتے جیسے کوئی پرسکون نالہ جو پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان بہتا چلا جائے جس سے پورا علاقہ سرسبز و شاداب اور بارونق ہوجائے۔
ایسی عظیم شخصیات قدرت کا عطیہ ہوتی ہیں، بلند و بالا آفاقی نظریات کی حامل ، جو نہ گھٹیا خصلتوں کو اپناتی ہیں‘ نہ خوںخوار پرندوں اور لومڑیوں کی سی عیاری سے کام لیتی ہیں۔ یہ آفاقی خوبیاں نہ علم کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں اور نہ تگ و دو کرکے اختیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ تو خداداد صلاحیتیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ان خوبیوں سے نوازتا ہے۔
امام شہیدؒ بھی ان پاکیزہ نفوس میں سے ایک تھے، جو ہر طرف روشنی بکھیرنے والے‘ مستقل مزاجی سے کام کرنے والے اور ہر گام خوشبو مہکانے والے تھے۔ امام شہیدؒ کی نمایاں خصوصیات میں سے ان کا تحریکی مزاج اور ان کی وہ قوت عمل ہے جو ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی۔
آپ حیران کن حد تک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ آپ تن تنہا مادی طاقتوں اور دنیا کے خود ساختہ قوانین کے آگے کسی وقت بھی نہیں جھکتے تھے اور ہر دم بیدار‘ انتہائی سرگرم اورروشن فکر کے حامل تھے۔ان کے فکروعمل اور راہ نمائی و تربیت کے حلقات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا، جس کے لیے وہ اپنے پرایوں سب میں یکساں مقبول، انتہائی مخلص اور عوامی قائد کے طور پر ابھرے تھے۔ انھی کے درمیان اٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ شروع دن ہی سے مصر کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ انھیں مختلف طبقات کو درپیش معاشی اور سماجی تکالیف اور مشکلات کا بھی شدت سے احساس تھا۔
امام شہید ؒنے عام روش سے ہٹ کر بالکل علیحدہ راہ اختیار کی۔ ان کی نگاہ، بلند و بالا عزائم اور مقاصد پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر اقدام ممتازہوا کرتا تھا۔ آپ کی کاوشیں کسی ایک فرد تک محدود نہ ہوتیں، بلکہ پوری امت کا احاطہ کرتیں۔ ان کو یہ بات معلوم تھی کہ ان کی زندگی جاری دعوت کے کام سے بہت کم ہے۔ اسی لیے انھوں نے دعوت دین کے لیے ہر قسم کے وسائل و ذرائع کو ممکن بنانا چاہا اور اس کی حفاظت کا پورا بندوبست کیا۔ اس کے لیے ممکنہ حد تک افراد اور وسائل کی فراہمی پر توجہ دی۔ انھیں اس با ت کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ معاشرے کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ان کا محدود وقت بالکل ناکافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہر جگہ اس بات کو بطور علامت (سلوگن) عام کردیا : ’’ فرائض، اوقات سے بہت زیادہ ہیں‘‘۔
دائمی تحرک اورفوری عمل درآمد آپ کا شعار بن چکا تھا۔آپ دعوت کی ضروریات اورتقاضے پورا کرنے میں دیوانہ وار لگے رہتے، جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔وہ کسی قسم کی خامی یا کوتاہی سے بچتے ہوئے نتائج کے حصول پر پوری توجہ مرتکز رکھتے تھے۔ وہ تیزی میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیتے تھے۔ ان کی سرگرمیاں بڑی مستحکم تھیں۔ان کی متوازن اورپاکیزہ شخصیت اس روشن چراغ کی مانند تھی جس کے تھوڑے سے تیل کا آخری قطرہ خشک ہونے کے بعد بھی اس کی لو نہیں بجھتی‘ جس کی پاکیزہ قوت کا آخری قطرہ بھی بہادیا جائے تب بھی وہ کلمۂ شہادت کا ورد کرتا رہے۔ ان کی ہمت‘ استطاعت سے کئی گنا بڑھ کر تھی اور یہ استطاعت ہر قسم کی تھکاوٹ اور تنگیِ وقت سے بالاترتھی۔ یہی وجہ ہے ان کی استطاعت عام انسانی استعداد سے بازی لے گئی تھی۔ ان کے شان دار کارنامے اولیا کی کرامات سے کسی طرح کم نہیں، جن میں ان کی پُرحکمت کاوشوں کا پورا دخل ہے۔
اخیر عمر میں ان کے ایک ساتھی نے جب دیکھا کہ نہ تو آپ رات میں ٹھیک سے سوتے ہیں اور نہ دن میں آرام لیتے ہیں‘ تھوڑی دیر کے علاوہ رات بھر یوں ہی جاگ کر کاٹ دیتے ہیں تو انھوں نے مشورہ دیا: ’’جناب مرشد! آپ کو کچھ دیر نیند یا آرام کرکے اپنے جسم پر رحم کرنا چاہیے‘‘۔ اس کے جواب میں امام شہیدؒ نے کہا: ’’ میرے پیارے! کل میں قبر میںلمبی نیند سوؤں گا اور خوب آرام کرسکوں گا‘‘۔
تائید ایزدی سے وہ ایسی عزیمت کے مالک تھے، جس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ان میں ایک پورے مضبوط گروہ سے بڑھ کر ہمت و جرات تھی۔ دعوت دین کے کاموں میںیوں لگے رہتے گویا وہ تنہا ہی اس کے مکلف ہوں۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے کہ انھیں کیا ہوگیا ہے کہ انھوں نے اتنا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھارکھا ہے؟
آپ نے لوگوں کے ساتھ اتنا گہرا تعلق بنالیا جیسے پھول اور خوشبو کا باہمی تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ کی سخت مصروفیات ‘ مشکلات کو جانتے ہوئے بھی خط لکھ کر اپنی نومولود بچی کا نام تک دریافت کرتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے یہ شخص گناہ گار تھا اور اب دنیا کی تکالیف اور مشکلات کو برداشت کرکے اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے پہلے بھی اچھی روش پر ہی قائم تھا۔ وہ ان تکالیف و مشکلات کو برداشت کرکے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات کے طلب گار تھے۔
امام شہید ۱۹۰۶ء میں امام محمد عبدہٗ کی وفات کے سال پیدا ہوئے اور انھوں نے ۱۹۲۸ء میں سعد زغلول کی وفات کے بعد اسی سال اپنی دعوت کا آغاز کیا۔انھوں نے امام عبدہٗ کی دعوت میں عسکریت کا اضافہ کردیا اور سعد زغلول کی دعوت پر اسلامی افکار غالب کردیے۔ اس لحاظ سے موجودہ اسلامی تحریک کو نبی کریم ؐ کے عہد میں پہلی اسلامی تحریک کے اتباع میں دوسرااڈیشن شمار کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا امام حسن البنا کی زندگی کسی غیر مسلم کے لیے بھی قابلِ تقلید ہوسکتی ہے ، تو بلاجھجک میرا جواب ہوگا: ’ہاں‘۔ممکن ہے کہ بعض لوگ اس سوال کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیں، لیکن دراصل یہ اس مشترک انسانی رشتے کی قیمت کو نمایاں تر کرنے کی ایک کوشش ہے، جو امام شہیدحاصل کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کی کامیابی ہے ۔
امام البنا شہید ہر لحاظ سے ایک کامیاب شخص تھے۔ اسی لیے ان کے دشمنوں کوقتل کے سوا ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی ۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امام شہید کی سیرت مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے لیے ایک پُرکشش اور قابلِ تقلید نمونہ تھی۔
بہت سے بڑے لوگوں کی مانند میدان دعوت میں ان کی عملی زندگی بھی نہایت مختصر تھی، تقریباً ۲۰برس۔ابھی عمر کے ۴۲ویں برس میں تھے کہ مہلت زندگی ختم ہوگئی ۔ اس کے باوجود جب وہ اپنی زندگی کا مشن مکمل کرکے خالق حقیقی سے ملے تو ان کے افکار اور دعوت دُور دُور تک پھیل چکی تھی ۔ آپ کی دعوت کا پھیلائو آج بھی مسلسل جاری ہے اور واقعات عالم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔
امام نے کامیابی کے اس سفر میں جن صفات سے مدد لی ان میں سے ایک ہر دل عزیزی تھی۔ وہ اپنے افکار و اقوال میں عام فہم اسلوب اور دل نشین اختیارکرتے تھے۔ ایسے کلمات جوسننے والے کے دل میں براہ راست اتر جائیں، جن میں نہ تو کوئی تصنع ہوتا اور نہ تکلف۔ وہ اپنے خطاب کا رخ عامۃ المسلمین اور مسلمانوں کے سواد اعظم کی طرف رکھتے ، کبھی اسے مقتدر اور باوسائل طبقے تک محدود نہ رکھتے ۔ اگرچہ یہ طبقۂ خواص بھی دعوت کا بلا استثنا مخاطب تھا، لیکن امام اپنی قائدانہ فراست سے بھانپ گئے تھے کہ خیر اور برکت ،سواد اعظم کو مخاطب کرنے میں ہے ۔ آپ نے عوام سے ربط و تعلق بڑھایا اور عوام کے دل آپ کی ذات سے وابستہ ہو کر رہ گئے۔
امام اپنے مقاصد اور اہداف کی تکمیل کے لیے مسلسل محنت کرتے ،جو ایک بے مثل قائد کی صفت ہوا کرتی ہے ۔ انھوں نے جب دعوت کا آغاز کیا تو بظاہر دعوت کے پھیلائو اور مقبولیت کا کوئی امکان نظرنہ آتا تھا، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سارے اشارے منفی ہی تھے۔ اگر کسی عام آدمی کو وہ مشکل حالات پیش آتے جن کا سامنا امام کو تھا، تو شایدوہ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے‘ اپنے خواب اور امیدیں دل میں لیے اس سارے کام کولپیٹ چکا ہوتا۔
امام شہید ایک ایسے منبع سے سیراب ہوئے تھے جس کی وسعت لا محدود ہے۔ آپ اس منبع کی اساس کو پا چکے تھے اور آپ کا ایمان تھا کہ اسی مرکزایمان وحرارت سے آنے والی مدد لا محدود ہے۔ ہر طرح کی مشکلات کے علی الرغم آپ اپنے سامعین تک پیغام پہنچانے اور اسے ان کے دلوں میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے ۔ آپ مستقل مزاج بھی تھے اور مدبر بھی، اسی لیے بخوبی جانتے تھے کہ اپنے اوقات کو کیسے منظم کرنا ہے اور ترجیحات کو کیسے ترتیب دیناہے ۔ اس راز کو پانا بھی کامیاب ذہن اور کامیاب لوگوں کے امتیازات میں سے ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ شہید نہایت کم سوتے(قلیل النوم) تھے، اور اپنا زیادہ تر وقت فرائض کی ادایگی، بڑے اور اہم دعوتی امورکی تکمیل میں صرف کیا کرتے ۔ اگرچہ جماعتی ذمہ داریاں اور پھر اہل خانہ اور عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھتے تھے، تاہم بیش تر وقت دعوت کے لیے وقف تھا۔
عظیم قائدین کی مانند ان کے پاس بھی اپنی ذات کے لیے علیحدہ سے کوئی ایسا وقت نہیں تھا کہ جسے دعوتی امور اور لوگوں کا ہجوم مکدر نہ کردیتا ہو ۔ان کے ہاں نہ تو چھٹی کا تصور تھا اور نہ راحت وآرام ہی کا‘ بلکہ ان کی زندگی مسلسل کام اور پیہم جدوجہد سے عبارت رہی۔
وہ پورے مصر کا دورہ کرتے اور جگہ جگہ خطاب کرتے رہے۔ اپنے منہج اور اپنے افکار کو قلم بند بھی کیااور اپنے ساتھ چلنے والوں کی بڑھتی و پھیلتی تعداد کو منظم بھی کرتے رہے ۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی دعوت کو مصر سے باہر عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک میں پھیلانا شروع کیا ۔ ان کی دعوت کا اصل جوہر یہ تھا کہ دین ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ زندگی کا کوئی رخ اور میدان ایسا نہیں ہے، جس کے بارے میں اس میں ہدایات نہ ملتی ہوں۔
جب یہوداور مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑی ، اور انگریزوں نے مملکت اسرائیل کے قیام کا فیصلہ کیا تو آپ نے داد شجاعت دینے کے لیے اخوان المسلمون کے رضا کار مجاہد دستے فلسطین روانہ کیے، اور اس طرح گذشتہ صدیوں کی ذلت و پستی کے باعث بھولے ہوئے فریضۂ جہاد کے احیا کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ تاریخ مصر کے ان عشروں پر نظر رکھنے والا ہرمصنف فرد بخوبی جان سکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اوپر تلے بننے والی متعدد حکومتیں مسائل اور معاملات کو روایتی طریقے سے دیکھ رہی تھیں ۔ کسی کے پاس بھی اپنے طریقے کی سچائی اور منشور کی درستی کا امام جیسایقین اور اعتماد نہیں تھا ۔
اپنی اس صفت کے لحاظ سے امام اپنے ہم عصرقائدین میں فائق تر بلکہ بے مثال تھے ۔ امام حسن البنا شہید کے زمانے میں مصر میں بڑے معروف خطبا موجود تھے جو کلام کریں تو لوگ خاموشی سے سنیں اور اشارہ کریں تو لوگ متوجہ ہوجائیں۔ امام حسن البناکی خطابت میں ان کی سی سحرآفرینی تو نہ تھی، لیکن آپ کے کہے ہوئے کلمات ان کے کلمات سے زیادہ سچے اور زیادہ اثر آفرین ثابت ہوا کرتے تھے ۔ عام خطبا میں سے شاید ہی کوئی مقرر مجمع عام سے اتنا قریب تر ہوتا ہو اور کوئی مجمع کسی مقرر سے شاید ہی اس قدر متاثر ہوتا ہو جتنا امام سے ہوتا۔ ان کے اور عام خطبا کے درمیان فرق یہ تھا کہ آپ کے گفتار کی گواہی آپ کا کردار دے رہا ہوتا تھا۔
پھراس میں تعجب ہی کیاتھا کہ حکومت ان سے تنگ پڑ گئی اور ہر ناپاک ہتھکنڈا آزمانے پر تل گئی۔ انھیں قاہرہ بدر کردیا گیا۔ یوں سامراجی حکمرانوں نے تو چاہا تھا کہ اس سے امام کی آواز دب جائے گی اورآپ کا اثر کمزور پڑ جائے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ان کی دعوت میں مزید وسعت آگئی اور ان کی صداکا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا۔
آپ نے زندگی بھر کبھی مغربی علوم نہیں پڑھے ، نہ معاصر یورپی ثقافتی ادب کی طلب کبھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی۔آپ کی رسمی تعلیم و تربیت دارالعلوم قاہرہ میں علوم شرعیہ تک محدود تھی ۔ لیکن اپنی فطری ذکاوت اور تاریخ کے گہرے ادراک نے انھیں مغربی تہذیب اورمنہ زور جدیدیت کے چیلنج کا گہرا فہم عطا کردیاتھا۔
امام حسن البنانے مادی تہذیب کے چیلنج کے جواب میں ایک مکمل منصوبۂ عمل پیش کیا۔ آپ کی سادہ سی فکر کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین سے رہنمائی حاصل کریں اور شریعت کو اپنے تمام معاملات میں حاکم بنائیں۔ جسے شریعت مباح قرار دے ، اسے لے لیں ۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ تہذیب جدید سرتاپا شر ہے اور انسانی دانش کا تمام ورثہ سراسر جھوٹ ہے، نہیںبلکہ مطالبہ صرف یہ رہا کہ اسلام ہی مسلمانوں کے معاملات میں بالادست ہو اور ان کی پسند و ناپسند کا مرکز بھی عملاً وہی ہو۔ وہ مسلمانوں کو ان کا وہ عقیدہ یاد دلاتے تھے جسے طویل دور انحطاط نے ان کے ذہنوں سے محو کررکھاتھا اور مغرب کی ثقافتی یلغار جسے دور کہیں دفن کر چکی تھی: یہ کہ بندے کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے ۔ دین کو زندگی کے کسی بھی حصے سے جدا کرنا ممکن ہی نہیںہے۔ امام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے:’’ اسلام دین بھی ہے اور ریاست بھی ،یہ کتاب (ہدایت) بھی ہے اور تلوار بھی۔‘‘
امام البنا کے ان الفاظ نے مسلمانوں کے دل میں موجوداس آتش فشاں کو بھڑکا دیا تھا ، جسے وقتی طور پر دنیا کی محبت اورپست و ذلیل فطرت نے دبا رکھاتھا ۔ یہ وہ مسکت جواب تھا جو شیخ نے تہذیب جدید کے چیلنج کا دیا ۔ یہ تہذیب پوری دنیا کو بالعموم اپنا تابع فرمان بنانے کے لیے صدیوں تک لڑائی لڑتی رہی، اور مسلمانوں کو بالخصوص اپنے نوآبادیاتی حملوں،اورپے درپے ثقافتی یلغار کے ذریعے سے اپنے مفادات کے سامنے جھکانے کی کوششیں کرتی رہی۔
امام شہید نے اپنے علاقے کے عام باشندوں کی طرح ایک صوفیانہ فضا سے معمور گھرانے میں پرورش پائی ۔ ذکر و اذکار کی آوازوں نے آپ کی سوچ و فکر کو سنوارا، اور راتوں کی عبادت نے آپ کے کردار کوصیقل کیاتھا ۔ آپ مزاجاًنرم خو اور فطرتاًمتدین تھے ۔ دیکھنے والے کو آپ کی آنکھوں میںحیا اور چہرے پر نور ایمان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ ہمیں امام شہیدکی زیارت کا موقع نہیں ملا، لیکن جب ان کی تصویر دیکھتے ہیں تو جذبات سے عاری عام تصاویر کے برعکس حسن و جمال اور زندگی کے ہر رنگ سے بھرپور نظر آتی ہے ۔
مدرسۂ حیات نے انھیں سکھایاتھا کہ امت کے اندر رائج الوقت دین داری کے سارے اسلوب ان کے اس سوال کا شافی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ احیاے ملت اسلامیہ کیسے ممکن ہے۔ جس صوفیانہ پس منظر نے آپ کے مزاج اور آپ کی فکر و اسلوب کو تشکیل دیا تھا ، اس نے آپ کے سامنے دین کا اصل راستہ واضح کردیا اور آپ نے زندگی کے دیگر پہلوؤں کو چھوڑکر دین کو چند وردو اذکاراور قلبی اعمال تک محدود کرنا گوارا نہ کیا ۔آپ کہا کرتے تھے کہ میرا عقیدہ شرک اور کجی سے پاک ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنی دعوت کو مجرد نظریات اور کلامی مسائل تک محدودنہ رکھاتھاکہ جن کا زندگی کے نئے پیش آمدہ مسائل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔
وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ آپ کی ذات میں بادشاہ وقت نے اپنی نام نہاد حکمرانی کے جواز کو عظیم خطرہ محسوس ہوا۔ پھر خطرے کا یہ شعور ایوان حکومت اور اس کے کارپردازوں سے نکل کر مصر اور مصر کی دیگر سیاسی قوتوں تک سرایت کرگیا جو امام کی بقا میں اپنا زوال دیکھتی تھیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ حسن البناکا پروگرام خالصتاً اصلاحی نوعیت کا تھا ۔ آپ نے کبھی کسی کے استیصال کا نعرہ بلند نہیں کیا، بلکہ عملاً قائم شدہ نظام کی اصلاح کی طرف ہی بلایا ۔ لیکن آپ کی دعوت کی قوت و تاثیر کو دیکھ کر دوسرے آپ کے استیصال پر تل گئے۔ آپ کی زندگی کے خلاف سازش کی گئی اور بالآخر شہادت آپ کا مقدر ٹھیری۔
دشمن آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ فضل کو نہیں پاسکے ۔ یقینا امام حسن البنا جیسے آدمی کے لیے بہترین خاتمہ شہادت ہی ہوسکتاتھا ۔ اول تو اس لیے کہ شہادت آپ کی اور آپ کے دیگر ساتھیوں کی قلبی تمنا تھی ۔ یہی تو تھے جنھوں نے فلسطین میں کارجہاد کی تجدید کا کارنامہ انجام دیاتھا۔ شہادت سے بڑھ کراور اس سے قوی تر کوئی اور گواہی ہو نہیں سکتی جسے آدمی اپنے صدق و اخلاص پر دے سکے ۔ آج امام البناکی شہادت کو تقریباً ۶۰ برس ہوگئے ہیں لیکن امام کے افکار و نظریات عامۃ المسلمین ،تعلیم یافتہ لوگوں اور ہر درجے کے قائدین کے افکار و نظریات میں ڈھل چکے ہیں۔
دونوں عالم گیر جنگوں کے درمیانی عرصہ (۱۹۱۸ء-۱۹۳۹ء)میں بوسنیا ہرذی گووینا کے نوجوان حصولِ تعلیم کے لیے دنیا کے بڑے تعلیمی مراکز میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ان معاشروں کے حقیقی نظریات بھی اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ بوسنیائی مسلم طلبہ کا ایک ایسا ہی گروہ اس زمانے میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ گیا جب اخوان المسلمون اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی۔ مذکورہ طلبہ کی بوسنیا واپسی کے بعد ان کے سامنے پہلا کام بوسنیائی مسلمانوں میں اخوان کے دعوتی پروگرام کو متعارف کرانا اور پھیلانا تھا۔ اس کے فوراً بعد ان کے پیشِ نظر ایک ایسی تنظیم کو تشکیل دینا تھا جو اخوان کے طریقِ کار کے عین مطابق ہو۔ ابتدا میں اس سوچ کو عملی مشکل دینے کے لیے طے پایا کہ اخوان کے نظریات بوسنیا میں دوتنظیموں ’الہدایہ‘ اور اس کے اسی نام کے حامل اخبار (دسمبر‘ جنوری ۱۹۳۶ء فروری ۱۹۴۵ء ) نیز ـنوجوانانِ اسلامـ کے ذریعے پھیلائے جائیں گے۔
ان طلبہ میں چند نمایاں نام یہ تھے: محمد ہاندچ (۱۹۰۶ء-۱۹۴۴ء)،عالیہ اگانووچ (۱۹۰۲ء-۱۹۶۱ء)، قاسم دوبراچا (۱۹۱۰ء-۱۹۷۹ء)،ابراہیم تریبیناچ (۱۹۱۲ء-۱۹۸۲ء)، اور حسین دوظو (۱۹۱۲ء-۱۹۸۲ء)۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا طلبہ میں سے چند نے حسن البنا سے ملاقات کی تھی۔ جن بوسنیائی طلبہ نے ان سے ملاقات کی، غالب گمان ہے کہ ان میں محمدہاندچ اور عالیہ آگانووچ شامل تھے جو اس عرصے میں قاہرہ میں نمایاں اسلامی اسکالر مثلاً یوسف یودیا وغیرہ کے لیکچر زمیں شرکت کیا کرتے تھے۔ قاہرہ میں ان (بوسنیائی) طلبہ نے دو تنظیمیں، Young Muslims اور’ الہدایہ‘ قائم کیں۔ پھر بعد میں ان کی مخلصانہ کاوشوں کے نتیجے میں یہی دونوں تنظیمیں بوسنیا میں بھی قائم ہوگئیں۔
جب تنظیم ’الہدایہ ‘معرضِ وجود میں آئی تو اس زمانے میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔جس کے بارے میں حسن البناؒ کا کہنا تھا کہ ـاس مرحلے میں ابلاغ (communication)پیش کاری (presentation) اور نظریات کے فروغ کے ساتھ ساتھ انھی نظریات کو لوگوں کے تمام طبقات تک پہنچایا جائیـ۔ ’الہدایہ‘ کا تاسیسی اجلاس ۸مارچ ۱۹۳۶ء کو بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد ہاندچ نے الہدایہ کی سرگرمیوں اور طریق کارکی وضاحت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کے احیا کے لیے چار بڑے طریقے بیان کیے جو دعوتی کام کے لیے نہایت اہم ہیں۔ انھوں نے خطبہ ہاے جمعہ کے لیے تحریر ی مضامین اور ذاتی کردار کی اہمیت کو بھی بیان کیا۔
سماجی اہداف کے بارے میں تصور تب تک ممکن نہیں، جب تک علما کی راہ نمائی سے بھرپور استفادہ نہ کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کی عام اشاعت نہ کی جائے۔ تاہم نوجوانوں کو ’الہدایہ‘ کی سرگرمیوںمیں شامل کرنے کے لیے اس کی ضرورت کا احساس روزبروزبڑھتا جارہا تھا۔
نوجوانوںکے لیے قائم ان تنظیموں کی کارکردگی کی رفتار اس دوران میں بہت سست تھی۔ اس سست روی کی وجہ محمد ہاندچ کے بقول طریق کار پر عدم اتفاقـ تھی۔ نوجوانوں کا ایک گروہ ـنوجوانانِ اسلامـ کے نام ہی سے کام کرنے میں گہری دل چسپی رکھتا تھا۔ یہ تنظیم مارچ ۱۹۴۱ء کے اواخر میں قائم کی گئی تھی۔ ان نوجوانوں کی راے یہ تھی کہ’ الہدایہ‘ ایسی تنظیم ہے جو خالصتاً مذہبی علما پر مشتمل ہے۔تاہم ’الہدایہ‘ نے ان نوجوانوں کواپنے پروگراموں اور سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ’ ـنوجوانانِ اسلام‘ـ نے فیصلہ کیا کہ وہ ’الہدایہ‘ کا ایک لازمی جزو ہیں اور اسی کے ایک شعبے کے طور پر کام کریں گے۔’ نوجوانانِ اسلام‘ـ کی آئینی کمیٹی کا اجلاس ۵مئی ۱۹۴۳ کو ہوا جن میں جناب قاسم دوبراچا کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ ۲۷ اپریل۱۹۴۳ء کو ـ’نوجوانان اسلامـ‘کے اصول وضوابط منظور کیے گئے، جنھیں چند روز بعد’ الہدایہ‘ کے ترجمان اخبار میں شائع کیا گیا۔
ان ضوابط کے آرٹیکل نمبر۲ میں کہا گیا تھاکہ’’ ـاس شعبے (نوجوانانِ اسلام) کا مقصد مسلمان مسلمان نوجوانوں میں اسلامی روح بیدار کرنا‘ اس کے مطابق ان کی تربیت کرنا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے سماجی و اخلاقی معیار کو بلند کرنا ہیـ‘‘۔
آرٹیکل نمبر۹ میں بیان کیا گیا کہ ـارکان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی قوانین کے اصولوں سے بخوبی واقف ہوں، ایک اچھے مسلمان کا رویہ اپنائیں۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ اور مسلمانوں کے مفادات کے دفاع کے لیے ـنوجوانانِ اسلامـ کے ارکان کو دوسروں کے لیے ایک مثال ہونا چاہیے۔
مختلف روایتی مذہبی اداروں کی طرف سے اسلام کی جامد تشریح سے اور سخت گیر روّیہ ترک کرکے اسے ایک زیادہ قابل عمل اندازمیں تبدیل کردیاگیا۔ نوجوانوںکے جوش وجذبے اور توانائیوں کو انفرادی سطح پر مذہبی اور اخلاقی رویوں میں روحانی اعتبار سے بدلا گیا۔
تاہم یہ طے کیا گیا کہ اپنے آیندہ کے کام اور سرگرمی کے لحاظ سے ’نوجوانانِ اسلام‘ـ، ’الہدایہ‘ سے جدا اور آزادانہ سرگرمِ عمل رہے گی۔’’ـہم ارکانِ ـنوجوانانِ اسلام ہمیشہ سے مذہبی اداروں میں کسی بھی قسم کی پیشہ وارانہ مذہبی مداخلت کے مخالف رہے ہیں اور یہ رجحان بہت مضبوط رہا ہے‘‘۔ـ یہ تھے عالی جاہ عزت بیگووچ (سابق صدرِ بوسنیا وہرسیگووینا) کے الفاظ جواُن ارکان میں سے ایک تھے، جنھوں نے’ـالہدایہ‘میںشمولیت سے انکار کیا۔ ’’ہمیں شروع ہی سے اس بات کا یقین رہا ہے کہ پیشہ ور مذہبی حضرات نہ تو اسلامی تعلیمات کے احیا میں دل چسپی لیتے ہیں اور نہ ان میں اس کی اہلیت ہے ، لہٰذا ہماری نظراس سمت میں نہیں ہونی چاہیے جہاں کسی قسم کی امید ہی نہ ہوـ‘‘۔
ان وجوہ کی بنا پر تنظیم کی دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ اور پروگرام سامنے آئے اور فیصلہ کیا گیا کہ ان سرگرمیوں کا دائرۂ کار مسلم فلاحی تنظیم ’ـمرحمت‘ـ تک پھیلایا جائے۔ ’ـنوجوانانِ اسلام‘ـ اسلامی تعلیمات کو خطابات اور دوسری مذہبی و تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے سے آگے بڑھائیں ، سرگرمیوں کاہدف نوجوان نسل ہو جو جنگ عظیم کے باعث اسکولوں میں تعلیم جاری رکھنے سے محروم رہ گئی تھی۔
جوں جوں جنگ کے خاتمے کا وقت قریب آرہا تھا، اسد کراجوِوچ تنظیم کو اپنی ـغیرقانونیـ سرگرمیوں کے لیے تیار کرنے لگے۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اشتراکی حکومت کے زیر سایہ قانونی سرگرمیاں ممکن نہیں ہوسکیں گی۔ وہ تنظیم میں کلیدی شخصیت تھے ۔ان کے ہمراہ حسن ببراور خالدقائتاز جیسے مستقل ارکان تھے، جب کہ دیگرارکان اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔انھوںنے اس دوران سب سے اہم گروہ قائم کیا،جس میں انتہائی قابل اعتماد افراد شامل تھے۔اس گروہ کا مقصد حسن البناؒ کے انداز اور نظریات کا فروغ تھا۔ ان کا نظریاتی مقصد یہ تھا کہ تنظیم کا ہر رکن جہاں وہ خود رہتا ہے اور کام کرتا ہے، اپنے الفاظ اور عمل سے اپنے حلقۂ اثر کو متاثر کرے۔ ایسے ارکان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے پیشے میں طاق ہوں اور اپنے شعبے میں مثال بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ اس طرح عملاً ان نظریات کی قدر و قیمت کو بڑھانا تھا ۔
۱۹۴۵ء میںجب خونیںاشتراکی آمریت بر سرِاقتدار آگئی تو اس تنظیم کو جو پہلا دھچکا لگا وہ یہ تھا کہ اشتراکی حکمرانوں کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں اس کے ۱۳ ارکان نے جامِ شہادت نوش کیا، ان عظیم مجاہدوں کے نام درج ذیل ہیں:مصطفی باسولاجچ، حسن ببِر، عمرکوواچ، عمر ستوپاک، نصرت فضلی بیگووچ، خالد قائتاز، فکرط پولچو، ثاقب نشائچ، عاصم چام جچ، آصف سرداروچ، نورالدین گاکچ، عثمان کروپالیا اور اسد کاراجچ۔
بدقسمتی سے اشتراکی حکمرانوں کی جانب سے ظلم و ستم، پکڑ دھکڑ اور وحشیانہ تشدد کا سلسلہ یہاں تھما نہیں۔ آٹھ سو سے زائد ارکان کو طویل مدت (پانچ تا بیس سال)قید و بند کی سزائیںدی گئیں، جب کہ ساڑھے چارہزارارکان کو ایک سے چھے برس تک کی قید بامشقت کی سزائیںدی گئیں۔
۴۰سالہ اشتراکی دور حکومت میں’ـنوجوانانِ اسلامـ‘ کے خلاف مسلسل تفتیش و تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور جھوٹے مقدمات چلتے رہے۔ ان مقدمات میں سے زیادہ تباہ کن مقدمات ۱۹۴۹ء، ۱۹۵۱ء اور ۱۹۸۳ء میں چلائے گئے۔ ایسے دو مقدمات میں راقم السطور [عمر بہمن]کو ۳۰سال قید کی سزا سنائی گئی، جو اس سلسلے کی سب سے لمبی سزا تھی۔تاہم اشتراکی حکمرانوں کی جانب سے’ـنوجوانانِ اسلام‘ـکو مٹا ڈالنے کی تمام کوششیں اور اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔ ان ناکامیوں کی واضح ترین مثال بوسنیا پر کی جانے والی اب تک کی وہ آخری جارحیت ہے جو اشتراکی سربیا نے بوسنیا کے اعلانِ آزادی کو روکنے کے لیے مارچ ۱۹۹۲ء میں کی تھی‘ جس کا بھیانک سلسلہ نومبر۱۹۹۵ ء تک جاری رہا‘ نوجوانانِ اسلام نے ۱۹۹۰ء میں بوسنیا میں پہلی مسلم سیاسی جماعت Party of Democratic Action (SDA)کی بنیاد رکھی۔اس سیاسی جماعت اور اس کے صدر عالی جاہ عزت بیگووچ نے سربیا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
آج ـنوجوانانِ اسلامـ کی سرگرمیاں مختلف شعبہ ہاے حیات میں جاری و ساری ہیں۔ نئی نسل تک اپنے نظریات پہنچائے جارہے ہیں۔ سابقہ جنگی قیدیوں کی دیکھ بھال، غریبوں کی مدد، مہاجرین کی دیکھ بھال، مذہبی سرگرمیوں کا انعقاد اور سرگرمیوں کی اشاعت اور مساجد کی تعمیر وغیرہ ان سرگرمیوں میں شامل ہیں۔اس جذبے کی آب یاری کے لیے جس معاصر شخصیت کا سب سے زیادہ موثر نام ہے ، وہ حسن البنا شہید ہیں۔
۱۳ربیع الثانی ۱۳۶۸ھ بمطابق ۱۲فروری ۱۹۴۹ء ہفتے کے دن امام حسن البنا ۴۳سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ اس وقت میںاستاد محمود عبدہ کی قیادت میں چند مصری مجاہدین کے ہمراہ القدس کے قریب واقع شہر ’صورباھر‘ میں قید تھا۔ ہمیں جیل میں ان کی شہادت کی دردناک خبر ملی۔ وسط سال تک میں ان کے ساتھ ہی رہا، پھر انھیں کہیں دوسری جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ میرے ساتھ میرے چار بھائی اور بھی تھے، جن میں سے ضیف اللہ مراد اور کامل حتاحت شہید ہوگئے، جب کہ ابراہیم حداقی کا ہاتھ کٹ گیا اور ادیب الخیاط کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تھی۔
میں ترجمان القرآن کی اس خصوصی اشاعت کے لیے ان باتوں کو دہرانا نہیں چاہتا جو ہمارے دوستوں اور احباب نے لکھی ہیں بلکہ میں یہاں ان لمحات کاتذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو میں نے شہید امام اور ان کے بعض اقارب و احباب کے ساتھ گزارے ہیں۔ ان میں ان کے والد بزرگوار اور میرے استاذ مکرم الشیخ احمد عبدالرحمن ساعاتی ، امام کے بھائی ، ان کے شاگرد ، ان کے داماد ،ان کے نواسے ،ان کے بیٹے احمد سیف الاسلام، اور بہت سے وہ لوگ جو بڑے اخلاص کے ساتھ امام کے ہم قدم رہے۔
استاذ البنا سے میری پہلی ملاقات ۱۹۴۱ء میں، مصر کے حلمیہ الزیتون کے مقام پر ہوئی۔ حلمیہ مصر میں المطریہ کے قریب واقع ہے۔ یہ وہ حلمیہ نہیں ہے جو بعد میں اخوان کا مرکز بناتھا۔ میں اپنے والد اور اپنے بھائی کے ساتھ تجارت کی غرض سے وہاں گیاتھا اور کبھی کبھار ازہر کے عمومی شعبے میں بھی جایا کرتاتھا۔ ایک روز اخوان کے بعض کارکنان نے مجھے اپنے ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ درس قرآن کے بعد میں حسن البنا کے نزدیک گیا۔ اس وقت میں نے عربی لباس پہن رکھا تھا۔ ہمارے ایک پڑوسی نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ شام کے باشندے ہیں تو انھوں نے پیار بھرے لہجے میں مجھے کہا: ابوشام شیخ العرب ، اھلاو سھلاً [شام کے شیخِ عرب ،خوش آمدید]۔
میں۱۹۴۵ء کے وسط تک اخوان کے ساتھ برابر رابطے میں رہا۔ اس کے بعد باقاعدہ طور پر شام میں ’شباب محمدؐ، نامی تنظیم سے منسلک ہوا ، جسے ۱۹۴۶ء میں اخوان المسلمون میں ضم کردیاگیا۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۸ء کو دوبارہ امام البنا سے اس وقت ملنے کا اتفاق ہوا جب وہ سرزمین فلسطین تک مجاہد دستوں کو پہنچانے کے سلسلے میں دمشق تشریف لائے تھے۔ اس موقعے پر انھوں نے صدر مملکت شکری القوتلی ، فلسطینی دفاع کونسل کے افراد اوراخوان کے دوسرے مجاہدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران مجھے بھی ان کے ساتھ رہنے کی سعادت ملی۔ ایک موقع پر میرے اور ان کے درمیان ایک گرماگرم بحث چھڑگئی، جب وہ ایک رضا کار مجاہد کو مصر واپس جانے کی طرف راغب کررہے تھے۔ یاد رہے کہ میں نے اس روز اس بھائی کو کہیں چھپا رکھاتھا۔ آخر کار یہ بحث اس طرح اختتام پذیر ہوئی کہ وہ اپنے موقف سے دست بردار ہوگئے۔ اس روز ان کی فراخ دلی اور وسعت قلبی کو دیکھ کر میںحیران رہ گیا۔
۱۹۵۲ء میں جب مجھے اپنے دو اساتذہ مصطفی السباعی اور عصام العطار کے ہمراہ شام سے جلاوطنی کا حکم ملا تو میں مصر چلا گیا اور ۱۹۵۴ء کے وسط تک مصر میں رہا۔ اس کے بعد ہر مقام، اور ہرموقع پر اخوان المسلمون کے ساتھ ہی رہا۔ہر شخص کے ساتھ خواہ میرا موافق ہو یا مخالف رابطہ رکھنا میری فطرت کا حصہ بن گیا۔
امام البنا کا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ اخوان المسلمون کی تاسیس ہے۔ یہ جماعت مصر اور دوسرے عرب ممالک میں ایک بہت بڑی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ معاشرے میں اثرونفوذ کے اعتبار سے سب سے زیادہ توانا اور مؤثر ہے۔اسی طرح برعظیم پاک و ہند میں استاذ ابوالا علیٰ مودودی نے بھی ایسی ہی ایک مؤثر اور عظیم جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔
اگرچہ معاشرے میں اخوان کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مخالفت کرنے والوں اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مدح و ذم کا اثر لیے بغیر اپنی منزل کی طرف گام زن رہے۔ ان تمام نشیب و فراز میں وہ ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔ انھوں نے کئی میدانوں میںبڑی اہم خدمات انجام دیں۔
امام البنا کے نزدیک تمام مسلمانوں کا خواہ وہ سلفی ہوں یا صوفی یا فقہی مسالک سے منسلک ہوں ، سنی ہوں یا شیعہ یا إباضی، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انھوں نے اصولوں اور متفق علیہ معاملات کو اتحاد کے لیے بنیاد بنایا اور فروعی مسائل میں ہر ایک کو اختلاف راے کے ساتھ دوسروں کو برداشت کرنے کی تعلیم دی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو امام حسن البنا کے پیرو کاروں میں مختلف فرقوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک ساتھ چلتے نظر آئیں گے۔ ایک دفعہ انھوں نے جامعۃ الانصار کے مجلے کے ساتھ تعاون کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ابھی ان کے ساتھ تھوڑا ہی سفرطے کیاتھا کہ ان کو معلوم ہوا کہ وہ اس امت میں خوارج کے طریق کار پر کاربند ہیں تو اس پرفوراً ہی ان کے ساتھ تعاون ختم کردیا۔
ہمارے استاد محب الدین الخطیب نے جو الفتح اور الزہراء نامی مجلات کے بانی مدیر تھے اور بعد میں روزنامہ الاخوان المسلمون کے مدیر بنے، مجھے ذاتی طو رپر بتایا کہ: ’’حسن البنا کی یہ عادت تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کا م کے لیے حکم نہیں صادر کرتے تھے، بلکہ ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے معاونین اور ساتھیوں کے سامنے تجاویز رکھ دیا کرتے تھے۔ نتیجتاً انھی کی پیش کردہ معقول تجاویز ہی نافذ ہو کر رہتیں،مگر کسی جبر کے ساتھ نہیں، بلکہ رغبت اور خوش دلی کے ساتھ‘‘۔
محب الدین الخطیب کی قد آور علمی شخصیت کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ جس ازہر نے لاکھوں کی تعداد میں علما تیار کیے، اس ادارے نے اپنے مجلے الازہرکی سرپرستی اور ادارت کے لیے بھی محب الدین الخطیب دمشقی کا نام چنا جس کا ازہر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اس عظیم علمی شخصیت کا کمال اور فیضان تھا کہ بعد کے ادوار میںاسی ازہر یونی ورسٹی میں بکثرت اخوان کے کارکن پیدا ہوئے۔
مجاہدحاجی محمد امین الحسینی کے ہاتھ میں عالم اسلام کے بڑے بڑے قائدین کی اجتماعی تصویر تھی جس میں حسن البنا ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے یہ تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ : اس اجتماع میں حسن البنا سب سے پہلے حاضر ہوئے، لیکن بعد میں ہر نئے آنے والے مہمان کی عزت اور اکرام کی خاطر اپنی نشست چھوڑ دیتے تھے۔ یہا ں تک کہ مجلس کے بالکل آخر میں جا پہنچے حالانکہ اللہ کی قسم، بہت سارے عوامل اور خصوصیات کی بنیاد پر وہی اس لائق تھے کہ صدر مجلس ہوں۔
ایک دفعہ انھوں نے ایک نوجوان طالب علم امین السکری کو جو تعلیم کے سلسلے میں برطانیہ جارہا تھا، ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے برطانیہ کے حالات کے ساتھ مختلف علوم کے بارے میں معلومات اور انگریزوں کے اخلاقیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس خط میں انھوں نے اس نوجوان کو دینی اقدار اور اسلامی شعار پر سختی سے پابندی کرنے کی تاکید کی اور یہ نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر سمجھ کر ہمیشہ اس کواپنے اوپر نگران سمجھو۔
حسن البنا کی شہادت کے بعد بھی یہ نظام‘ تنظیم سے الگ ہوکر چلتا رہا، مگر اس کی مختلف کارروائیاں اخوان کے لیے مشکلات کا باعث بنتی رہیں، حالانکہ اخوان کا بحیثیت نظم اور تنظیم اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر جیسے ہی اخوان کی قیادت مومنانہ بصیرت کی حامل شخصیت ،استاد حسن الہضیبی رحمہ اللہ کو سونپی گئی، انھو ں نے فی الفور اس نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ ردعمل کے طور پر بعض افراد نے استاذ الہضیبی کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور ان کو جماعت کی قیادت سے ہٹانے کی سعی شروع کردی ،جس کے نتیجے میں جماعت کے اندر ایک بڑا فتنہ برپا ہوا۔ اسی زمانے میں استاد حسن الہضیبی گرفتار ہوگئے ، اور جماعت کے بلند پایہ قائدین کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ اس نظام سے منسلک بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جو اس فتنے سے نہ بچ سکے۔ حقائق گڈمڈ ہوگئے ، نظام درہم برہم ہوا اور آزمایش کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا، یہاں تک کہ جماعت پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ حسن الہضیبی نے دوبارہ جماعت کی قیادت سنبھالی اور اس باغی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ بالآخر یہ لوگ اخوان کی صفوں سے نکل گئے۔ا س طرح الہضیبی ؒکی فراست اور بصیرت کے نتیجے میں یہ مسئلہ ہمیشہہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
یہاں ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام البنا نے جن لوگوں کی تربیت کی تھی وہ بہترین شخصیات ثابت ہوئیں، لیکن جن کی تربیت ادھوری رہ گئی اور انھوں نے تنظیم اور سربراہِ تنظیم کے فیصلوں کی پابندی نہ کی، وہ مفید ہونے کے بجاے نقصان دہ عناصر کی حیثیت اختیار کرگئے۔ داخلی طور پر جماعت کے اندر جتنے بھی اندوہ ناک واقعات رونما ہوئے تقریباً ان سب کا موجب اسی نظام کے افراد تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔
اس سلسلے میں آخری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شام کے ایک معروف عالم دین الشیخ محمد علی ظبیان کیلانی دمشقی نے عقیدہ جمعیۃ الاخوان المسلمون (جماعت اخوان المسلمون کا عقیدہ )کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیاہے۔ اس مضمون کا صحیح سن اشاعت تو معلوم نہیں لیکن مضمون نگار نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ یہ مضمون اخوان کے تاسیس کے دوسال بعد لکھا گیا، یعنی اندازاً ۱۹۳۰ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت نہ ریڈیو تھا اور نہ ٹیلی ویژن، لیکن اس کے باوجو د انھیں شام میں جماعت اخوان اور اس کے عقائد کی تفصیلی معلومات پہنچ گئی تھیں۔ انھوں نے ان بہت سے کاموں کاذکر کیا جو اخوان نے سرانجام دیے ہیں، اوراپنی بات ختم کرتے ہوئے لکھا:
میری نظر میں مسلمانوں کی پس ماندگی کا سب سے بڑاسبب اپنے دین سے دوری ہے۔ ان کی اصلاح اور بہتری کی صورت یہ ہے کہ وہ صدقِ دل سے اسلامی تعلیمات و احکام کی طرف پلٹ آئیں۔ اس ہدف تک رسائی بالکل ممکن ہے، بشرطیکہ مسلمان اس کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ میں اخوان کے اصول و مبادی پر قائم اور ثابت رہنے کا وعدہ کرتاہوں اور اس کے ہر کارکن کے لیے میرے دل میں جگہ ہے، اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اس راہ میں اپنی آخری سانس تک ایک تابع دار سپاہی کی طرح زندگی بسرکروں گا… میرے مسلمان بھائی، یہ تیرے اخوان المسلمون کے بھائیوں کا عقیدہ ہے اس کو مضبوطی سے تھام لواو راگرتم اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر اور بھلائی کا ارادہ رکھتے ہو، تو ہر روزمسلسل اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس عقیدے کی خدمت کی توفیق بخشے اور اس کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اسی راہ میں موت بھی عطا فرمائے۔ وہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہتر ین کارساز ہے۔
جماعت کی تاسیس کے تھوڑے ہی عرصے بعد استاد علی طنطاوی نے کہاتھا : حقیقی معنوں اور منظم شکل میں دعوت دین کا آغاز جواں سال حسن البنا نے کیا ہے۔ میں نے اس وقت ان کو پہچان لیاتھا جب وہ میرے خالو محب الدین الخطیب کے پاس سلفیہ پریس میں آیا کرتے تھے۔ ابتدائی زمانے ہی سے وقار ، سکون اور سنجیدگی ان کی طبیعت پر غالب تھی۔ بہترین اور عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ بڑی با ایمان شخصیت تھے۔ زبان میں بلاکی تاثیر اور فصاحت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسروں کو قائل کرنے ، پیچیدہ اور لاینحل مسائل کو سلجھانے کی عجب صلاحیت سے نوازاتھا۔ وہ مختلف فیہ امور میں اتفاق پیدا کرنے کی بے پناہ استعداد رکھتے تھے۔
اس کاتجربہ بھی کیاگیاتھا اور اس کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ بد قسمتی سے اس وقت سے آج تک اخوان کو آزادی کے ساتھ مصر اور دوسرے عرب ممالک کے انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود مصر اور ان تمام عرب ممالک میں جن میں آزادی اور حریت کی کچھ بھی ر مق باقی ہے، اخوان کو شان دار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔
۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب آیا تو جمال عبدالناصر فوجیوں کے اس گروہ میں شامل تھا جس نے حکومت پر قبضہ کیا،جب کہ کرنل محمد نجیب ، عبدالمنعم عبدالرئووف اور ان کے ساتھ ایک اچھا خاصاگروپ پس پردہ دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے بعض افسران جیلوں میں بند کردیے گئے۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عبدالمنعم بہت اچھا اورپاک دل شخص تھا ، لیکن اس میں کچھ ایسی کمزوریاں تھیں جس کے باعث وہ قائد نہ بن سکا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے ۔
کرنل محمد نجیب، جمال عبدالناصر اور اس وقت حکومت کے دیگر اہل کار انقلاب کے ابتدائی ایام میں فخر سے کہا کرتے تھے:’’ ہم امام حسن البنا کے اصول و مبادی اور طریق کار پر کاربند ہیں‘‘۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے ۱۲فروری ۱۹۵۴ء کو امام حسن البنا کی قبر پر حاضری دی تھی اور اس وقت ایک بہت بڑے جلسے میں بھی شرکت کی تھی۔ محمد نجیب اور جمال عبدالناصر دونوں نے اس بڑے مجمع سے خطاب کرکے اس بات کا اعلان کیاکہ وہ اسلامی نظام کے حامی اور امام حسن البنا کے پیروکار ہیں۔
ایک مرتبہ حکومتی کارندے اخوان کے دفتر سے کارکنان کو گرفتار کررہے تھے تو امام حسن البنا نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کو منع کردیا، اور باقی سب لوگوں کو پکڑ کر لے گئے۔ یہاں تک کہ ان کی حفاظت پر مامور افراد کو بھی نہ چھوڑا۔ دراصل حکومت ان کے قتل کے لیے پہلے ہی سے منصوبہ بناچکی تھی۔
سازش کے مطابق مصطفی مرعی بین الاقوامی مسائل کمیشن کے سربراہ کی وساطت سے انھیں ’الشبان المسلمین‘ کے دفتر لایا گیا کہ:’’ حکومت اور اخوان کے درمیان جاری کشیدگی کے لیے آپ سے ایک وزیر ملاقات کرنا چاہتا ہے تاکہ باہمی مفاہمت سے کوئی حل تلاش کیا جاسکے‘‘۔ امام حسن البنا وعدے کے مطابق وہاں پہنچے لیکن کافی انتظار کے باوجود کوئی وزیر نہ آیا، جس پر آپ اپنے بہنوئی استاذ عبدالکریم منصور کے ہمراہ دفتر سے باہر نکلنے لگے کہ بجلی منقطع کردی گئی۔ آپ ٹیکسی میں بیٹھے ہی تھے کہ اندھا دھند فائرنگ کرکے آپ کو زخمی کردیا گیا۔ تاہم کاری زخموں کے باوجود آپ ’الشبان المسلمین‘کے دفتر واپس لوٹ آئے۔ وہاں سے آپ کو ’القصر العینی‘ ہسپتال پہنچا دیا گیا، لیکن آدھی رات تک آپ کو طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔ آپ کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہاتھا یہاں تک کہ اسی ہسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
شاہ فاروق کے عہد میں اس قتل کی کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ تمام وزارتوں میں اس فائل کو سیل کردیا گیا۔ یہ فائل برابر بند پڑی رہی۔ یہاں تک کہ فوجی انقلاب کا زمانہ آیا تو نئے سرے سے تحقیقات شروع ہوئیں ،جس کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کو امن عامہ کے ڈائرکٹر جنرل محمودعبدالمجید کو ۱۵سال اور مخبر احمد حسین جاد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ بدقسمتی سے اسی سال جب اخوان اور جمال عبدالناصر کے درمیان حالات مزید بگڑ گئے،تو ان دونوں مجرموں کو رہا کردیا گیا۔
یہ تھا امام البنا، ان کا عظیم مشن اور جہاد اورجہدمسلسل کا مختصر ساتذکرہ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے وہ فی الواقع امام اور مرشد تھے___ یہ بات درست ہے کہ وہ معصوم نہیں تھے ، اور بنی آدم سے خطاکا صدور ایک فطری امر ہے۔ عصمت تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو حاصل ہے جو براہِ راست اپنے پروردگار کا پیغام پہنچانے پر مامور تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کا استاذ البنا کی یادوں کا تذکرہ کرنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ درحقیقت ہر عظیم ہستی کی خیر اور بھلائیوں کا تذکرہ ایک اعلیٰ قدر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امام البنا کو جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام دے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔
کسی بھی ٹیکسی پر سوار ہو جائیں اور ڈرائیور سے بس اتنا کہیں: ’اخوان المسلمون جناب!‘ وہ مڑ کریہ تک نہیں پوچھے گا کہ اخوان المسلمون سے آپ کی کیا مراد ہے ، نہ یہ دریافت کرے گا کہ یہ کہاں واقع ہے۔بلکہ وہ کوئی اور سوال کیے بغیرآپ کو سیدھااخوان کے مرکز لے جائے گا۔ رخصت کرتے وقت وہ ڈرائیوروں کے عمومی رویے کے برعکس ایک دل آویز مسکراہٹ سے آپ کو نوازتے ہوئے کرایہ تک لینے سے انکار کردے گا۔ہاں !روانگی سے قبل عزت مآب استاذ حسن البنا مرشد عام اخوان المسلمون کے نام سلام پہنچانے کا آپ کو ضرورپابند کرے گا۔ مرکز پہنچ کر آپ الماریوں کے بیچ میں بنے راستوں پر چلتے جائیں تو آپ کا سامنا اخوان کے ذمہ داران سے ہوگا۔
یہ اخوان ہیں کون ؟نوجوان--- آپ ان کے چہروں کو تقویٰ اور ایمان کے نورسے جگمگاتا پائیں گے۔ ان کی آنکھوں میں جہاد اور عزیمت کی شجاعت اور ہونٹوں پر محبت و اخوت سے لبریز مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں تسبیح جس پہ ہر دم اللہ کا ذکر جاری ہے۔
لیکن اس کے باوجود وہ ماڈرن قسم کے نوجوان ہیں۔ ان میں روایتی علما اور ان کے پیروکاروں والا جمود ہے، نہ ان کی باتیں خالی خولی تعویذ گنڈوں کے گرد گھومتی ہیں، بلکہ وہ نہایت حقیقت پسند نوجوان ہیں۔ ہاں وہ اس نظام حیات کو بدلنے کے لیے صرف آخرت کی نہیں بلکہ اس دنیاوی زندگی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کے دل آسمانوں میں ہیںمگر قدم زمین پر۔ اسی کے سہارے وہ اپنے ساتھیوں میں چلتے پھرتے، ان کے کام آتے ،ان کی مشکلات حل کرتے اور ان کی ہرخوشی اور غم میں شریک رہتے ہیں۔ ان میں آپ کو، محفل کو زعفران زار بنانے والے خوش مزاج لوگ بھی ملیں گے اور معیشت و قانون ، انجینیرنگ اور میڈیکل کے اسرار و رموز سے واقف ماہرین بھی، وہ سب اکٹھے ہیں--- استاذ حسن البنا دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک قرآنی آیت اور اس کے بعدایک دو اشعار پر بات کا اختتام۔پھرکسی بات سے بات نکال کر ایک بھرپور قہقہہ ، جس میں سب حاضرین بھی شریک ہوجائیں اور زندگی مسکرا اٹھے۔
اس آدمی میں کوئی چیز بھی توغیر معمولی نہیں ہے۔ اگر آپ اسے سرراہ ملیں تو شاید ہی قابلِ التفات ٹھیرائیں، سواے ان کے نحیف و نزار جسم ، کالی سیاہ داڑھی کے، جو ان کے انگریزی لباس اور حددرجہ جاذب نظر سرخ ٹوپی پر عجب بہار دیتی ہے۔ آپ کا ذہن یہ سوال اٹھائے بنا نہیں رہ سکتا کہ اس شخص نے اپنے ارد گرد کیسے، آخر کیسے اتنے اخوان کو اکٹھا کرلیا ہے ؟ ایسی بے مثال تنظیم کو منظم کرنے میں کیونکر کامیابی حاصل کرلی ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد آپ جان جائیں گے کہ اس آدمی کا اصل جوہر اس کی گفتگو کے انداز میں چھپا ہوا ہے۔ اس کا دھیما اور با وقار انداز ، افکار و خیالات کا تسلسل اور گفتگو کا باہم منطقی ربط ہم قدم ہیں۔ اس سے بھی عجیب تر چیز یہ ہے کہ یہ آدمی آپ کے دل میں پیدا ہونے والے اعتراضات تک بھانپ جاتا ہے۔ ایسے انداز میں اپنے جوابات سے ایک کے بعد ایک شک کا کانٹا نکالتا چلا جاتا ہے کہ بحث و مباحثے کا موقع ہی نہ آئے۔
بے حد ذہین ، پہلی ہی نظر میں آپ کی شخصیت اور نفسیات کاتجزیہ کرلینے کا ماہر۔ شاید میرے داخل ہوتے ہی اس نے بھانپ لیاتھا کہ میں سیکڑوں الزامات و اعتراضات لیے ہوئے ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان سے بحث کروں۔ ان کی فطانت کا اندازہ کیجیے کہ گفت و شنید مکمل ہونے پر‘ میری روانگی سے قبل ہی مجھے جماعت کے مالیاتی حساب کی رپورٹ تھما دی۔ اس رپورٹ میں آپ کو حیران کن نکات ملتے ہیں۔
’’یہ ایک بھائی ہیں چاہتے ہیں کہ اخوان کے مقامی دفتر کی خریداری میں حصہ ڈالیں، لیکن اس وقت ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ اس لیے، انھوں نے اپنی زمین بیچ ڈالی ہے اور اس میں سے ۴۰۰مربع میٹر زمین اخوان کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس کنٹریکٹ اور وقف شدہ پیسوں کی کاربن کاپی رپورٹ کے ساتھ نتھی ہے‘‘۔
’’یہ ایک خاتون ہیں، ان کے پاس بھی دینے کو کچھ نہیں۔ انھوں نے اپنا واحد منقولہ سرمایہ سونے کی بالیاں اخوان کے حوالے کردی ہیں‘‘۔ ان بالیوںکی تصویر بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک ہے۔ ’’یہ صاحب ممبئی (انڈیا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے ممبئی کمیونٹی میں کمیٹی فنڈ کی داغ بیل ڈالی ہے تاکہ اخوان المسلمون کے لیے مرکز کے قیام میں مدد دی جاسکے‘‘۔
یہ صاحب اپنی بیوی پر برہم ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے مال میں سے اخوان کے لیے ایک مصری پائونڈ وقف کردیں، لیکن بیوی چاہتی ہیں کہ ایک نہیں تین پائونڈ دینے ہیں۔ اب دونوں اپنا جھگڑا لیے استاذ حسن البنا کے پاس آگئے ہیں۔ جھگڑا نبٹانے کی خاطرامام نے فیصلہ دیا ہے کہ آپ سے صرف دو فی صد اعانت لی جائے گی‘‘۔
’’یہ صاحب عراق سے ہیں ، انھوں نے اپنی اعانت جناب عبدالرحمن عزام پاشا کے ہاتھ ارسال کی ہے‘‘--- ’’ایک اور معاون اپنا سارے کا سارا مال اخوان کی خدمت میںپیش کرنے کا عہد کررہے ہیں کہ جماعت میرے مال میں سے جو چاہتی ہے،لے لے‘‘۔ معاونین میں کئی ارکان پارلیمنٹ کا نام بھی شامل ہے۔ کئی بڑی بڑی شخصیات اور ذہین و فطین جوان جن کے بارے میںکسی کا سان گمان بھی نہ تھا کہ استاذ حسن البنا پر اعتماد کرنے والوں میں یہ نام بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
ملاقات کے دوران استاذ حسن البنا نے اخوان المسلمون کے فکر وفلسفے کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتایا ، کہ یہ فکر کہاں سے پھوٹی اور کہا ں تک پہنچی۔ وہ کہہ رہے تھے:’’ اسلام کے نام لیوا اسلام کی پوری اور مکمل تفہیم و تطبیق سے قاصر تھے۔ اسلام معروف معنوں میں ایک مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل سیاسی و اقتصادی اور سماجی نظام ہے۔ مصر اپنے ارد گرد ناقص اخلاق کے حاملین پاتا تھا۔ اس میں سیاسی اقتصادی اور سماجی اصلاح کی کمی تھی‘‘۔
’’اخوان المسلمون کی فکر دوسری پارٹیوں کی مانند کسی ایک میدان میں اصلاحات تک محدود نہیں۔ ہم کسی عمومی سیاسی جماعت کی طرح نرے سیاسی ہیں نہ کمیونسٹوں کی طرح صرف اقتصادیات تک محدود بلکہ ہم بفضل خدا ہر اس مشکل کو دور کرنا چاہتے ہیں جن سے مصر بلکہ پورا مشرق دوچارہے۔ جس کے لیے اسلام اور اس کے قانونِ اساسی، قرآن کریم کے سوا کوئی دوسرا جامع اور مکمل نظام دکھائی نہیںدیتاکہ اس کے دامن رحمت میں پناہ لی جاسکے۔
امام البنا نے آغازِ کار میں اپنی مساعی کو مسلمانوں کو خرافات سے پاک اسلام کے صحیح فہم سے روشناس کروانے تک محدو د رکھا ، اسلام کی آفاقی محبت و اخوت کو لوگوں کے درمیان پروان چڑھایا۔ پھر اسلام کے سماجی ، اقتصادی نظام کے نفاذ کی کوششیں شروع کیں۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ:’’مصر دینی حوالے سے نہایت حساس ملک ہے۔ یہاں کوئی بھی صالح تحریک اور پاکیزہ قدم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب اسے دین کی بنیاد حاصل ہو۔ مصری اسی بنیاد پر اپنے وطن سے محبت بھی کرتے ہیں۔ مصری دین ہی کے نام پر منظم ہوتے ہیں اور بڑی سے بڑی جدوجہد کے لیے آمادہ پیکار رہتے ہیں۔ دین سے منحرف ہر دعوت یہاں ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئی ہے‘‘۔
میں نے امام سے کہا :’’لیکن آج تو دین ہر جگہ اور زندگی کے ہر میدان میں نافذ نہیں کیاجاسکتا۔ بھلا ہم شپنگ اور فضائی قوانین کی جگہ قرآنی قوانین کیسے لاگو کرسکتے ہیں‘‘۔ امام نے اپنی ترکی ٹوپی ماتھے سے پیچھے سرکائی اور کہا :’’قرآن ابد تک کے لیے ہے۔ اسے ابد تک ہر زمانے پر نافذ ہونا ہے۔ جاہلیت کی انتہا سے لے کر وقوع قیامت تک۔ اگر آپ قرآن کی سطروں میں جھانکیں تو آپ کو وہ قوانین بھی ملیں گے جنھیں آج کی سپر پاور تلاش کررہی ہیں۔ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہمیں جس قانون کی ضرورت بھی پڑتی ہے وہ اپنی تمام تفاصیل اور جزئیات کے ساتھ قرآن میں من و عن موجودہے۔ ہاں ہم قوانین وضع کرتے ہوئے ان بنیادی اصولوں اور حدود کا ر کو ضرور مدنظر رکھیں جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں‘‘۔
میں نے کہا:’’کیا آپ کو یقین ہے کہ ہمارے درمیان بسنے والے غیر مسلم اور ان کے پشت پناہ ممالک قرآنی قوانین کی تطبیق پر راضی ہوجائیں گے ، جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا وغیرہ؟‘‘ یہاں استاذ نے اپنے سامنے پڑے میز پر ہاتھ مارا اور مجلس میں موجودان کے نائب،ایک ڈاکٹر اوروکیل بھی اس گرماگرم بحث میں شریک ہوگئے۔ امام نے کہا:’’ فرض کیجئے انگریز مسلمان ہوتے اور اپنے ہاں اسلامی قوانین کا نفاذ کررہے ہوتے تو بالیقین ان میں سے کوئی ایک انگریز بھی یہ سوال کرنے والا موجود نہ ہوتا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے پر دیگر اقوام راضی ہوں گی یا نہیں ؟ یہ صرف ہماری کمزور ی اور کم ہمتی ہے جو ایسے سوالات کرنے پر مجبور کرتی ہے اور شریعت اسلامیہ کے بدلے، ادھارپر لیے ہوئے یورپی قوانین کے نفاذ پر اکساتی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی حالیہ کانفرنس میں اسے قابل ترمیم شریعت قرار دیا گیا ہے۔ جزیرۃ العرب میں ایک امریکی فوجی پر چوری کا مقدمہ چلا اور اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی گئی۔ فوجی کمانڈر نے جب اس پر احتجاج کیا تو شاہ عبدالعزیز بن سعود نے کہلوا بھیجاکہ یا تو عدالت کا فیصلہ نافذ ہوگا یا پھرمیں امریکی اموال کی حفاظت کی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہوں۔ اس پر امریکا کو جھکنا پڑا اور عدالتی فیصلے کا نفاذ عمل میں آیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ شاہ عبدالعزیز کو امریکی صدر نے باقاعدہ شکریے کا خط لکھا کہ جناب کو امریکی اموال کی حفاظت کا اس قدر شدید خیال ہے۔ پھر یہ بھی پیش نظر رہے کہ حدود یعنی سزا کا نفاذ قاضی کی اپنی صواب دیدپر ہے۔ اس سلسلے میں آپؐ کا قول ہے: ادروؤا الحدود بالشبہات۔ قاضی کو پورا اختیار حاصل ہے وہ شدید سے شدید تر اور نرم سے نرم تر سزا دے سکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا:’’ آپ کا کیا خیال ہے ؟آپ کی دعوت قدامت پرستی کی دعوت نہیں ہے ؟ ایسی دعوت تو ہمیں گروہی اختلافات کا شکار کردے گی۔انگریز انھی اختلافات کو تو ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی ہندستان میں یہی کچھ کررہا ہے ‘‘۔
امام نے بڑے محکم لہجے میں کہا :’’اسلام نے اہل کتاب کے ساتھ بھلائی کی تلقین کی ہے۔ ہم صحیح دینی بنیادوں پر قائم ہونے والی ہر تحریک کی تائید کرتے ہیں۔ سارے مذاہب اپنے اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کے باب میں متفق ہیں۔ مصر میں بسنے والے دوسرے ادیان کے پیروکاروں سے ہمارے بہترین تعلقات قائم ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا !’’کیا آپ کی تگ و دو وزارت عظمیٰ کے منصب تک رسائی کے لیے ہے؟‘‘
جواب تھا!ہم ہر ایسی حکومت کی تائید کرتے ہیں جو صحیح دین کے نفاذ کا پروگرام رکھتی ہو۔ ایسی وزارت خواہ ہماری ہو یا کسی اور کی ، ہم ہر حال میں اس کی تائید کرتے رہیں گے۔ مصر کا موجودہ دستور میرے قول کی تائید کررہا ہے۔ دستور میں باقاعدہ درج ہے کہ دین اسلام ہمارا سرکاری مذہب ہے۔ یعنی ہمارے تمام ادارے ،قوانین اور ہمارے سرکاری اقدامات سبھی کچھ دینِاسلام کے اصولوں کے تابع ہونے چاہییں‘‘۔
سائنس، جدید وسائل، تمدن اور موجودہ ذرائع آمدورفت نے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے اور آپس میں اس طرح ملا دیا ہے کہ وہ تمام جغرافیائی اور قدرتی حدبندیاں ختم ہوگئی ہیں جو اب تک مختلف ممالک اور ان میں بسنے والی قوموں کو ایک دوسرے سے الگ کیے ہوئے تھیں۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کہ یہ پورا کرۂ ارض (یعنی زمین) ایک ملک بن گیا ہے اور وہ قطعات جن کو ہم پہلے الگ الگ ممالک خیال کرتے تھے، اس نئے ملک کے صوبے یا اضلاع ہیں… مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ ضرورت کے وقت ایک جگہ اس طرح جمع ہوجاتے ہیں، جس طرح ایک محلے میں بسنے والے لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر باہر گلی میں جمع ہوجاتے ہیں۔
اس تمدنی اور علمی ترقی اور آپس کے میل ملاپ کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ملکوں اور ملکوں میں، قوموں اور قوموں میں محبت، برادرانہ برتائو،خیرخواہی اور تعاون کے جذبات زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتے اور اخلاق و انسانیت دوسرے تمام حیوانی جذبات پر غالب آجاتے۔ لیکن ہم دیکھتے یہ ہیں کہ اس کے بالکل برعکس مختلف ممالک اور قومیں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے اور ملیامیٹ کرنے پر اس طرح تلے ہوئے ہیں گویا کہ وہ بھوکے بھیڑیے ہیں جن کو جغرافیائی حدبندیوں کی آہنی سلاخوں نے اس دنیا کے چڑیاگھر کے الگ الگ حصوں میں بند کر رکھا تھا، اور اب ان سلاخوں کے ٹوٹتے ہی وہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے ہیں… آخر ایسا کیوں ہے؟ اور اس کی کیا وجہ ہے کہ قوم ہو یا فرد، جو جس قدر زیادہ متمدن، ترقی یافتہ اور ظاہر میں دیوتا صورت نظر آتا ہے، وہ اسی قدر زیادہ انسانی اوصاف سے خالی اور اپنے ہم جنسوں کے لیے کتوں سے زیادہ خطرناک اور وحشی درندہ ثابت ہورہا ہے؟ ان کے شخصی کارناموں، اجتماعی پروگراموں اور اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو دیکھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید کُل جنگلی چیتے اور خونخوار درندے ہیں، جو اچھی اچھی پوشاکیں پہن کر وسائل تمدن اور حکومت کی گدیوں پر قابض ہوگئے ہیں۔
اس عالم گیر خرابی اور انسانی روگ کی جڑ تلاش کرنے کے لیے آپ تھوڑا سا غور فرمائیں گے تو آپ کو یہ صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ یہ سارا فساد ان غلط افکار و نظریات اور اس بے خدا فلسفۂ زندگی کا لایا ہوا ہے جو اس وقت پوری دنیا میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک وبا کی طرح پھیل گئے ہیں، اور جن کو ہرقوم اور ہرملک کے لیڈروں اور ان کے نظام ہاے تعلیم و تربیت نے دانستہ یا نادانستہ اپنی اپنی قوموں اور ملکوں میں پلیگ کے جرثوموں کی طرح پھیلا دیا ہے۔(میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۶، جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ ، مئی ۱۹۴۷ء، ص ۷-۸)